تفسیرِ قرآن میں سُنّتِ اہلِ بیتؑ اور قولِ صحابہ کی قدرومنزلت

تفسیرِ قرآن میں سُنّتِ اہلِ بیتؑ  اور قولِ صحابہ کی قدرومنزلت0%

تفسیرِ قرآن میں سُنّتِ اہلِ بیتؑ  اور قولِ صحابہ کی قدرومنزلت مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن

تفسیرِ قرآن میں سُنّتِ اہلِ بیتؑ  اور قولِ صحابہ کی قدرومنزلت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مولانا سید بہادر علی زیدی قمی
زمرہ جات: مشاہدے: 12347
ڈاؤنلوڈ: 2940

تبصرے:

تفسیرِ قرآن میں سُنّتِ اہلِ بیتؑ اور قولِ صحابہ کی قدرومنزلت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 17 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12347 / ڈاؤنلوڈ: 2940
سائز سائز سائز
تفسیرِ قرآن میں سُنّتِ اہلِ بیتؑ  اور قولِ صحابہ کی قدرومنزلت

تفسیرِ قرآن میں سُنّتِ اہلِ بیتؑ اور قولِ صحابہ کی قدرومنزلت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دوسری فصل

تفسیرآیات میں سنّت اہل بیتؑ کی قدر و منزلت

آغاز کلام:

جس طرح حضورسرورکائنات ﷺکی سنّت شریفہ تفسیر آیات کے لئے حجت ہے اسی طرح شیعہ نقطہ نظر سے اہل بیتؑ عصمت و طہارت کی سنت حجت اوربرہان قاطع ہے یعنی سنت اہل بیتؑ،سنت اور احادیثِ نبوی تک رسائی کا سب سے بہترین،اعلیٰ اور قطعی ذریعہ ہے.

مفہوم شناسی اہل بیت:

عربی زبان میں لفظ“اہل”شائستہ، سزاوار(۲۱) کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے اور عرف عام میں بھی اس کے یہی معنی سمجھے جاتے ہیں.

جب یہ لفظ کسی شئی یا شخص کی طرف مضاف ہوتا ہے(کہ عام طور پر یہ اضافت کے ساتھ ہی استعمال ہوتا ہے)تو مضاف الیہ کی مناسبت سے اس کے معنی سمجھے جاتے ہیں.

بعض اہل لغت کے مطابق “اہل بیت”گھر میں رہنے والے افراد کو کہا جاتا ہے(۲۲) .معروف ماہر لغت جناب فیومی لفظ“الاھل"کے معنی کے ذیل میں اہل بیت میں رشتہ داری کو اصل قرار دیتے ہیں(۲۳) .نیز معروف ماہر لغت راغب اصفہانی کسی شخص سے نسبی تعلق رکھنے والے افراد کے لئے بھی لفظ اہل بیت کو مجازاً استعمال کرنے کے حق میں بیان دیتے ہیں(۲۴) .

پس بنابرایں لغت کے اعتبار سے اہل بیت گھر میں رہنے والے ہر شخص یعنی تمام بیوی بچوں پر اطلاق ہوتا ہے نیز اس کے رشتہ داروں پربھی اسکا اطلاق ہوتا ہے اور عرف عام میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے.

لیکن حضورسرورکائنات کا گھر کیونکہ محل نزول وحی و بیت نبوت بھی ہے اس لئے یہاں لفظ اہل بیت دو معنی میں استعمال کیا جائے گا. کبھی اہل بیت پیغمبرؐ کہہ کر بیت سے حضور سرورکائنات کے محل سکونت کا ارادہ کیاجاتا ہے،لھذا اس صورت میں جس طرح یہ لفظ اہلبیت دیگر لوگوں کے لئے استعمال ہوتا ہے انہی معنی میں آنحضرتﷺ کے لئے بھی استعمال ہوگا. یعنی اس صورت میں یہ لفظ آنحضرتﷺ کے اہل خانہ یا مطلق رشتہ داروں کے لئے استعمال کیا جائے گا. جبکہ کھیر یہ لفظ “محل نزول وحی" اور “بیت نبوت" کے اعتبار سے استعمال ہوتاہے. اس صورت میں حضورؐ کے تمام اہل خانہ یا مطلق رشتہ دار منظورِنظر نہیں ہوتے بلکہ یہاں وہ افراد مراد ہوتے ہیں جو علمی و عملی اور اعلیٰ ا نسانی صفات کے لحاظ سے پیغمبرؐ کے گھر سے وابستگی کی اہلیت رکھتے ہیں...(۲۵) .

چند نکات:

۱. کیونکہ دوسرے معنیٰ کے اعتبار سے مختلف افراد پر لفظ“اہل بیت”کا اطلاق ہوسکتا ہے لھذا اس صورت میں خود آنحضرتؐ کی جانب سے اسکی حدبندی اور تعیّن ضروری ہے پس اس اطلاق اور تطبیق کی وجہ سے ممکن ہے کہ پہلے معنیٰ کی روشنی میں اہل بیت کے بعض افراد اس دائرہ میں داخل یا خارج ہوجائیں.اسی لئے سلمان فارسی کا“منّا اھل بیت ”(۲۶) کہہ کر تعارف کروایا گیا ہے.

۲. معانی دوم میں لفظ“اھل بیت”نبی کریم ﷺکی زبان مبارک سےایسے بعض مخصوص افراد کے لئے استعمال کیا گیا ہے جن میں بیتِ نبوت سے انتساب کی سب سے زیادہ صلاحیت پائی جاتی ہے اور یہ ایک ایسی اصطلاح بن گئی ہے کہ جب بھی لفظ اہل بیت(یا کبھی کبھی لفظ عترت) سننے میں آتا ہے تو ذہن میں صرف وہی مخصوص افراد آتے ہیں مثلاً؛ حدیث ثقلین میں“کتاب اللہ و عترتی اہل بیتی”، حدیث ِسفینہ میں“مثلُ اھل بیتی کمثل سفینة نو ح ” ، واقعہ مباہلہ و حدیثِ کساء میں“اللھم ہؤلاءاہل بیتی” اور حدیث نجوم میں“اهل بیتی امان لِأُمتی ” وغیرہ.

دلائل حجیت سنت اہل بیتؑ

(الف) دلائل قرآنی

متعدد آیات قرآنی کے ذیل میں خود آیات کے اندر موجود قرائن اور ان آیات کی تفسیر میں وارد ہونے والی فریقین کی کتب میں موجود کثیرالتعداد روایات کے ذریعے سنت اہل بیت ؑکی حجیت کو ثابت کیا جاسکتا ہے مثلاً:

۱. آیت تاویل:( وَما یعلم تأویله الاالله والرّاسخون فی العلم یقولون آمنّا به کلّ من عندِ ربّنا ...) (۲۷)

“اور اس کی تاویل کا علم صرف خدا کو ہے اور انھیں جو علم میں رسوخ رکھنے والے ہیں جنکا کہنا یہ ہے کہ ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ سب کی سب محکم و متشابہ ہمارے پروردگار ہی کی طرف سے ہے... ”

راسخون فی العلم کا اطلاق ا ن حضرات پر کیا جاتا ہے جو علم میں بطورمطلق اس طرح ثابت و پابرجا ہیں کہ حقیقت علم تک رسائی کی وجہ سے کسی صورت انکی رائے اور نظر میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی؛ اور یہ افراد جز پیغمبرﷺ اور أئمہ معصومینؑ کے نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کے علم کا سرچشمہ وحی الہی ہوتا ہے جسکی وجہ سے وہ حقیقت علم سے واقف ہوتے ہیں؛ اور یہ نکتہ سیرت اہل بیتؑ کے مطالعہ سے بخوبی عیاں ہوجاتا ہے کہ اہل بیتؑ نے قرآن کریم کی کسی بھی آیت کے معنی بیان کرنے میں تردید یا عاجزی کا اظہار نہیں کیا ہے نیز وقت گذرنے کے ساتھ انکی رائے میں تبدیلی واقع نہیں ہوئی حضرت علی فرماتے ہیں:

اَینَ الّذینَ زَعِموا اَنّهم الرّاسخونَ فی العلم دُوننا، کذباً و بغیاً عَلَینا، اَن رَفَعَنا الله و َوَضَعَهم، وَأعطَانا وَحَرَمَهم...(۲۸) .

“کہاں ہیں وہ لوگ جن کا خیال یہ ہے کہ ہمارے بجائے وہی راسخون فی العلم ہیں اور یہ خیال صرف جھوٹ اور ہمارے خلاف بغاوت سے پیدا ہوا ہے کہ خدا نے ہمیں بلند بنادیا ہے اور انھیں پست رکھا ہے، ہمیں کمالات عطا کئے ہیں اور انہیں محروم رکھا ہے”.

نیز متعدد روایات اہل بیتؑ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ أئمہ اہل بیتؑ ہی راسخو ن فی العلم ہیں اور یہی حضرات تاویل قرآن سے بھرپور آشنائی رکھتے ہیں(۲۹) . لھذا اسی مکمل علم سے آشنائی کی وجہ سے تفسیرقرآن میں انکا قول حجت اور برہانِ قاطع ہے.

۲. آیت علم الکتاب:( وَیقولُ الّذین کَفَروا لَستَ مُرسَلاً قل کَفیٰ بِالله ِ شَهِیداً بَینی و بَینَکُم و مَن عِندَه عِلمُ الکِتاب ) (۳۰) .

“اور یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ رسولﷺ نہیں ہیں؛ تو کہہ دیجئے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے خدا کافی ہے اور وہ شخص کافی ہے جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے. ”

مذکورہ آیت کے ذیل میں کثیرالتعداد احادیثِ فریقین کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ “من عندہ علم الکتاب ” سے مراد حضرت علی و دیگر أئمہ معصومین ہیں مثلاً علمائے اہل سنت میں سے حاکم حسکانی(۳۱) نے چھ روایات، ثعلبی (متوفی۴۲۷ھ)(۳۲) نے دو حدیثیں، ابن مردویہ (متوفی۴۱۰ھ)(۳۳) نے دو حدیثیں، ابن مغازلی (متوفی۴۸۳ھ)(۳۴) اور محمد بن سلیمان کوفی (چوتھی صدی ہجری کے فرقہ زیدیہ کے عالم دین)(۳۵) نے یہ احادیث نقل کی ہیں. نیز شیعہ عالم دین مرحوم سید ہاشم بحرانی نے اپنی تفسیر کی کتاب میں اس سلسلہ میں۲۵روایات نقل کی ہیں(۳۶) ؛ جن میں سترہ احادیث میں حضرت علیؑ اور سات احادیث میں تمام أئمہ اہل بیتؑ کا تذکرہ کیا گیا ہے.

“مَن عِندَہ عِلمُ الکِتاب” کی تفسیر کے ذیل میں حضرت امام محمد باقرؑ ارشاد فرماتے ہیں:اِیّانَا عَنیٰ، و عَلِی اَوَّلُنا و اَفضَلُنا و خیرُنا بعدالنبی؛ اس آیت کریمہ میں خداوندعالم کی مراد صرف ہم (ائمہ) ہیں اور علی نبی کریمﷺ کے بعد ہم میں اوّلین و برترین اور بہترین ہیں. ”

یہ روایت صحیح السند ہے اور اس امر پر دلالت کررہی ہے کہ تمام قرآن کا مکمل علم حضرت علیؑ کے بعد صرف گیارہ أئمہ کے پاس ہے.

۳. آیت وراثت کتاب:( ثُمَّ اَورَثنَا الکِتَابَ الّذِینَ اصطَفَینَا مِن عِبَادِنا فَمِنهُم ظَالِمٌ لِنَفسِهِ وَ مِنهُم مُقتَصِدٌ وَ مِنهُم سَابِقٌ بِالخَیراتِ بِأِذن الله ذالک هُوَ الفَوض الُالکَبِیرُ ) (۳۷) ؛

“پھر ہم نے اس کتاب کا وارث ان لوگوں کو قرار دیا ہے جنہیں اپنے بندوں میں سے چن لیا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض اعتدال پسند ہیں اور بعض خدا کی اجازت سے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں اور درحقیقت یہی بہت بڑا فضل و شرف ہے. ”

شیعہ و سنی کتب میں نقل شدہ متعدد روایات(۳۸) سے ثابت ہوتا ہے کہ وارثان کتاب صرف أئمہ معصومینؑ ہیں مثلاً شیخ کلینی حضرت امام موسیٰ کاظمؑ سے روایت کرتے ہیں: “فَنَحنُ الَّذِینَ اِصطَفَانا اللهُ عز و جلّ وَ اَورَثنَا هٰذا الّذِی فِیهِ تِبیِانُ کلِّ شیٍٔ (۳۹) ؛ بیشک ہم ہی وہ افراد ہیں جنہیں خداوندعالم نے منتخب فرمایا اور ہم ہی کو اس کتاب کا وارث قرار دیا ہے کہ جس میں ہر شئ کا بیان موجود ہے. ”

نیز مختلف علماء سے احتجاج کے موقع پر امام رضاؑ سے بھی یہی مضمون نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے ان کے نظریات کو دلیل کی روشنی میں باطل کرنے کے بعد فرمایا:وَأرادَالله بِذالِکَ العِترَةَالطَاهِرَة... (۴۰) .؛ منتخب بندوں سے مراد عترتِ طاہرہ ہے.

نکتہ:

واضح رہے کہ “منہم” کا تعلق عام بندوں سے ہے ، منتخب بندوں سے نہیں ہے یعنی اللہ کے بندے تین طرح کے ہیں؛ بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں، بعض اعتدال پسند ہیں اور بعض راہ خدا میں نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں.

اس بنا پر بعض مفسرین کا یہ قول کہ کتاب سے مراد گذشتہ کتب ہیں تو وارث کتاب سے مراد امت اسلامیہ ہے؛ انتہائی بے معنی قول ہے اس لئے کہ امت اسلامیہ میں ایسے بے شمار افراد پائے جاتے ہیں جو انسانوں کی نگاہ میں قابل انتخاب نہیں ہیں تو پروردگار کا کیا ذکر ہے.

حقیقت یہ ہے کہ وارثان کتاب وہ معصومین ہیں جنہیں پروردگار نے علم و فضل اور طہارت و تقویٰ کی بنیاد پر منتخب قرار دیا ہے اور انہیں کو پیغمبرؐاسلام نے ثقلین کا ایک فرد بنا کر چھوڑا ہے(۴۱) .

لیکن اگر“منہم” کی ضمیر کو اصطفا شدہ بندگان سے متعلق سمجھ بھی لیا جائے تب بھی بیان کردہ تفسیر و توضیح؛ آیت کے ظاہری معنی کے منافی نہیں ہے کیونکہ“منہم” کی ضمیر کے اصطفاشدہ بندگان سے متعلق کی صورت میں تینوں گروہ ظالم لِنفسہ، مقتصد اور سابق بالخیرات، وراثت کتاب میں شریک قرار پائیں گے لیکن کتاب کے مکمل عالم وعامل وہی ہیں جو سابق بالخیرات ہیں. اور یہ بالکل وہ ہی صورت ہے جو سورۂ مومن کی آیت نمبر ۵۳میں بیان کی گئی ہے؛ ارشاد ہوتا ہے:( وَلَقَد آتَینِا مُوسیٰ الهدیٰ وَ اَورَثنا بَنِی اِسرائیل الکِتَابَ. ..) (۴۲) ؛ اور یقیناً ہم نے موسیٰ کو ہدایت عطا کی اور بنی اسرئیل کو کتاب کا وارث بنایا۔اور تاریخ بشریت اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ تمام بنی اسرائیل نے اس عظیم میراث کے سلسلہ میں اپنے وظیفہ پرعمل نہیں کیا بلکہ صرف چند اشخاص ہی اس وراثت کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوئے.

۴. آیت اہل ذکر:( وَمَا اَرسَلنَامِن قَبلِکَ اِلّارِجَالاًنُوحِی اِلَیهِم فَسئَلُوا اَهلَ الذِکرِ اِن کُنتُم لَا تَعلَمُونَ ) (۴۳) ؛

“اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مردوں کو رسول بنا کر بھیجا اور انکی طرف بھی وحی کرتے رہے ہیں تو ان سے کہئے کہ اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو. ”

لفظِ“ذِکر” کے معنی و مصادیق

لغت کے اعتبار سے لفظِ“ذِکر”در اصل علم و آگاہی، اطلاع، حفظ،یادآوری و یاددہانی(۴۴) اور دل یا زبان سے یاد کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے(۴۵) .

قرآن میں “ذکر” کے مصادیق

قرآن کریم میں جہاں یہ لفظ اپنے لغوی معنی یعنی یاددہانی وغیرہ میں استعمال ہوا ہے وہاں اس نے مختلف مصادیق کی طرف بھی اشارہ کیا ہے مثلاً:

۱. پیغمبر اکرمﷺ

( فَاتَّقوا اللهَ یا اُولِی الالبَابِ، الّذِینَ آمَنُوا قَد اَنزَلَ اللهُ اِلَیکُم ذِکراً، رَسُولاً یَتلُوا عَلَیکُم آیاتِ اللهِ مُبَیِّنَاتٍ ...) (۴۶) .“پس اے ایمان لانے والو! اور عقل والو! اللہ سے ڈرو کہ اس نے تمہاری طرف اپنے ذکر کو نازل کیا ہے؛ یعنی وہ رسولؐ جو اللہ کی واضح آیات کی تلاوت کرتا ہے. ”

۲. قرآن کریم

ارشاد ِ ربّ العزت ہے:( وَ اَنزَلنَا اِلَیکَ الذِّکرَ لِتُبَیِّنَ لِلنّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیهِم ) (۴۷) ؛ “اور آپ کی طرف بھی ذکر یعنی قرآن کو نازل کیا ہے تاکہ ان کے لئے ان احکام کو واضح کردیں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں. ”

نیز ارشاد ہوتا ہے:( اِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّکرَ وَاِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) (۴۸) ؛“ ہم ہی نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں. ”

۳. آسمانی کتب

ارشاد خداوندی ہے:( وَلَقَد کَتَبنَا فِی الزَّبورِ مِن بَعدِ الذِّکرِ اَنَّ الاَرضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ ) (۴۹) .“اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہونگے.

نیز ارشاد ہوتا ہے:( وَلَقَد آتَینَا مُوسیٰ وَ هَارُونَ الفُرقَانَ وَ ضِیَاءً وَ ذِکراً لِلمُتَّقِینَ ) (۵۰) .“اور ہم نے موسیٰ و ہارون کو حق وباطل میں فرق کرنے والی وہ کتاب عطا کی ہے جو ہدایت کی روشنی اور ان صاحبان تقویٰ کے لئے یاد الہی کا ذریعہ ہے.

مصادیق اہل ذکر

ذکر کے لغوی و قرآنی مصادیق کو پیشِ نظر رکھ کر اس امر کا اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اہل ذکر سے کون لوگ مراد ہیں؟ پس :

اگر ذکر سے مراد علم ہے تو اہل ذکر سے مراد اہل علم قرار پائیں گے؛

اگر ذکر سے مراد نبی کریمﷺ ہیں تو اہل ذکر نبیﷺ کے اہلِ بیت قرار پائیں گے؛

اگر ذکر سے مراد قرآن کریم ہے تو اہلِ ذکر اہل قرآن قرار پائیں گے اور اگر ذکر سے مراد کتبِ آسمانی(توریت وانجیل)ہیں تو اہل ذکر، اہل کتاب قرار پائیں گے.

نکتہ

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ذکر کے معنی یاددہانی ہیں لہذا کتب آسمانی کو ذکر سے اسی لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہ کتب(خصوصاً قرآن کریم)انسانوں کے دلوں میں یاد الہی کو اجاگر کرتی ہیں اور یہی ذکر اور یادالہی کا سب سے عظیم و برتر ذریعہ ہیں.

آیات میں قرآن کریم کو بھی ذکر سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ یہ گذشتہ کتب و واقعات اور یاد الہی کی یاددہانی کراتا ہے.

نیز نبی کریمﷺ کو بھی ذکر سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ ان کا وجود یادالہی کا بہترین ذریعہ ہے اور انکا کام بھی وہی ہے جو قرآن مجید کا کام ہے کہ لوگوں کے دلو ں میں یادخدا تازہ کرتے رہیں اور چونکہ علم کو بھی ذکر سے تعبیر کیا جاتا ہے اسی بنیاد پر اہل بیتؑ پیغمبرؐ کو اہل الذکر کہا گیا ہے کہ یہ قرآن کے بھی اہل ہیں اور پیغمبرﷺ کے بھی اہل بیتؑ ہیں اور ایسے صاحبان علم بھی ہیں جن سے ہر شئ کے بارے میں سوال کیا جاسکتا ہے.

تبصرہ

اس آیت کریمہ میں اہل ذکر کے مصداق کے بارے میں دو احتمال پائے جاتے ہیں اور ان دونوں احتمال کی روشنی میں اہل ذکر کا اہل بیتؑ پر اطلاق ہوتا ہے.

احتمالِ اول

اس آیت میں اہل ذکر کے مصداق کے بارے میں پہلااحتمال یہ پایا جاتا ہے کہ اس آیت میں مشرکین کو مخاطب قرار دیا گیا ہے، جن کا خیال یہ تھا کہ خدا کی جانب سے بھیجا جانے والا نبی کوئی آدمی و بشر نہیں ہونا چاہئے، ان کا کہنا تھا کہ خدا نے تبلیغ رسالت کے لئے کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیج دیا۔ ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:( وَمَا اَرسَلنَا مِن قَبلِکَ اِلَّا رِجَالاً نُوحِی اِلَیهِم ) ؛ “ہم نے تجھ سے پہلے بھی جو رسول بھیجے ہیں وہ بھی ایسے ہی مرد تھے کہ جن پر وحی نازل ہوئی تھی.

پھر مشرکین سے مخاطب ہو کر ان کے ابہام و اعتراض کو دور کرنے کے لئے فرماتا ہے اگر تمہیں گذشتہ انبیاء کی نوع کے بارے میں علم نہیں ہے تو جاؤ اہل ذکر سے معلوم کرلو.

پس اس احتمال کی بنیاد پر اہل ذکر سے مراد اہل کتاب قرار پائیں گے کیوں کہ یہ لوگ گذشتہ ابنیاء کی نوع کے بارے میں خاطر خواہ علم رکھتے تھے لہذا قرآن کریم نے اہل کتاب کو یہاں گذشتہ ابنیاء کی نوع کے بارے میں معلومات حاصل کر نے کے لئے مرجع قرار دیا ہے. لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اہل ذکر کا مفہوم اسی میں محدود سمجھ لیا جائے اور ا نہیں تمام امور میں مرجعِ کل سمجھ لیا جائے(۵۱) .

پس اس احتمال کی بنا پر آیت کے مخاطبین، مشرکین ہیں اور اہل ذکر سے مراد، اہل کتاب ہیں. لیکن قرآن کریم چاند سورج کی طرح جاویداں و تابندہ ہے اور ان آیات کا پیام ہمیشہ زندہ و جاوید رہنے والا ہے، آیات کریمہ زمانِ نزول میں محدود و منحصر نہیں ہیں(۵۲) . بلکہ یہ مختلف حالات و و اقعات اور افراد پر قابل تطبیق و تاویل ہیں اور ان کی اس طرح تطبیق و تاویل خدا و راسخون فی العلم ہی بیان کرسکتے ہیں اور راسخون فی العلم میں أئمۂ طاہرین کا مقام سب سے افضل اور بلند و برتر ہے(۵۳) .

پس اس قانون و نظریہ کی بنیاد پر کثیرالتعداد روایات کی روشنی میں اہل ذکر سے مراد صرف اہل بیت ہیں اور یہی حضرات تمام امور میں ہر قسم کے سوال کا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ یہی ہستیاں تمام علوم و معارف اور حقائق قرآنی کی مکمل معرفت رکھتی ہیں.

احتمالِ دوم

اہل ذکر سے مراد اہل بیتؑ ہیں. کیونکہ قرینۂ سیاق اگرچہ اہل کتاب پر دلالت کررہاہے لیکن اس کے مقابلہ میں قرینہ لفظی موجود ہے یعنی اس کے مدِّمقابل متعدد ایسی روایات موجود ہیں جو بیان کررہی ہیں کہ اہل ذکر سے مراد اہل بیت ہیں لہذا قرینہ لفظی کی موجودگی میں قرینہ لُبّی(قرینہ سیاق) غیرمعتبر ہوجاتا ہے.

عالم بزرگوار جناب شیخ یعقوب کلینی نے اپنی معروف کتاب اصول کافی میں اس عنوان کے تحت ایک مکمل باب ترتیب دیا ہے: “اِنَّ اَهلَ الذِّکرِ الَّذِینَ اَمَرَ اللهُ الخَلقَ بِسُؤالِهِم، هُمُ الأئمةُ علیهم السلام یعنی بابِ اہل ذکر؛ جن کے لئے پروردگار نے مخلوقات عالم کو حکم دیا ہے کہ ان سے سوال کریں، وہ أئمہ ہیں”.

شیخ کلینی نے اس باب میں حضرت امام سجادؑ، حضرات صادقینؑ اور امام رضاؑ سے “۹” احادیث نقل کی ہیں(۵۴) جن میں سے پانچ احادیث کی سند صحیح، اور ایک حدیث حسن موثق ہے(۵۵) . ان تمام احادیث کا مضمون بطور یکساں اس امر پر دلالت کررہا ہے کہ اہل ذکر سے مراد اہل بیتؑ ہی ہیں مثلاً:

“اِنَّ مِن عِندِنَا یَزعُمُونَ اَنَّ قَولَ اللہُ عزَّ و جَلَّ (فَا سئَلُوا اَهلَ الذِّکرِ )اِنَّهُم الیَهُودُ وَالنَّصَاریٰ قَالَ: اِذاً یَدعُونَکُم اِلیٰ دِینِهِم قَالَ: فَاَشَارَ بِیَدِهِ اِلیٰ صِدرِهِ؛ نحنُ اَهلُ الذِّکرِ و نَحنُ المَسئُولُونَ. ...ہمارے سامنے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ آیۂ( فَاسئَلُوا اَهلَ الذِکر... ) میں اہل ذکر سے مراد یہود و نصارا ہیں.

امام فرماتے ہیں: اگر ان کا خیال صحیح ہے تو پھر ذرا سوچو کہ وہ لوگ تو تمہیں اپنے دین کی طرف دعوت دیتے ہیں.

پھر راوی کا بیان ہے کہ امامؑ نے اپنا دست مبارک اپنے سینہ پر رکھ کر فرمایا: ہم اہل ذکر ہیں اور ہم سے لوگوں کو سوال کرنا چاہئے(۵۶) .

ابن جریر طبری نے بھی امام علیؑ و امام باقرؑ سے یہی تفسیر نقل کی ہے، ان احادیث میں فرماتے ہیں:

( نَحنُ اَهلُ الذِّکرِ ) ؛ ہم ہی اہل الذکر ہیں”(۵۷) .

نیز مختلف آیات میں موجود عبارت “اہل الذکر” سے مراد اہل بیت کو لیا گیا ہے جس کے استناد کے لئے متعدد روایات کا سہارا لیا گیا ہے مثلاً:

ثامن الحجج حضرت امام علی رضاؑ سورۂ طلاق ۶۵ کی آیات نمبر ۱۱ اور ۱۲ کے ذیل میں فرماتے ہیں:( فَالذِّکرُ رَسُولُ الله وَ نَحنُ اَهلُه ) ؛ آیت میں “ ذکر” سے مراد رسولؐ اللہ ہیں اور ہم رسولؐ اللہ کے اہل ہیں پس ہم ہی اہل ذکر ہیں”(۵۸) .

سورۂ زخرف ۴۳ کی آیت نمبر۴۴ میں قرآن کریم کو ذکر سے تعبیر کیا گیا ہے:( وَ اِنَّه لَذِکرٌ لَّکَ وَ لِقَومِکَ وَسَوفَ تُسئَلُونَ ) ؛ اور یہ قرآن آپؐ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے نصیحت کا سامان ہے اور عنقریب تم سب سے بازپرس کی جائے گی.

اس آیت کریمہ کے ذیل میں حضرت امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں: “نَحنُ قَومُه وَ نَحنُ مَسئُولُونَ ؛ ہم ہی ان کی قوم ہیں اور ہم ہی سے سوال کیا جائے گا”(۵۹) .

امامِ ضامن حضرت امام علی رضاؑ سے جب سورہ نحل کی ۴۴ویں آیت میں مذکور اہل ذکر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: “نَحنُ اَهلُ الذِکرِ وَ نَحنُ المَسئُولُونَ ”.ہم ہی اہل ذکر ہیں اور ہم سے پوچھنا چاہئے(۶۰) .

امام باقرؑ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: “الذِکرُ القرآنُ، وَ آلُ الرَّسُولِ اَهلُ الذِکرِ وَ هُمُ المَسئُولُونَ ”؛ ذکر قرآن ہے اور آلِ رسول ؐاہلِ ذکر ہیں اور انہیں سے سوال کرنا چاہئے(۶۱) .

بعض روایات میں ہے کہ ذکر خود رسولؐ اللہ ہیں اور انکے اہل بیتؑ اہل ذکر ہیں(۶۲) .

اہل سنت کی تفاسیر اور کتب میں بھی اسی مضمون کی بہت سی روایات ہیں ان میں سے ایک روایت ابن عباس سے مروی ہے جسے اہل سنت کی مشہور بارہ تفاسیر میں زیربحث آیت کے ضمن میں نقل کیا گیا ہے. ابن عباس کہتے ہیں: “هُوَمحمد و علی وفاطمه و الحسن و الحسین هُم اَهلُ الذِّکرِ وَ العَقلُ وَالبَیَان ”.محمد، علی، فاطمہ،حسن اور حسین ہی اہل ذکر، اہل عقل اور اہل بیان ہیں”.

بارہ تفاسیر سے مندرجہ ذیل تفاسیر مراد ہیں:

۱. تفسیر ابو یوسف، ۲. تفسیر ابن حجر، ۳.تفسیر مقاتل بن سلیمان، ۴.تفسیر وکیع بن جرّاح، ۵.تفسیر یوسف بن موسیٰ، ۶.تفسیر قتادہ، ۷.تفسیر حرب الطائی، ۸.تفسیر سُدّی، ۹.تفسیر مجاہد، ۱۰.تفسیر مقاتل بن حیان، ۱۱.تفسیر ابو صالح، ۱۲.تفسیر محمد بن موسیٰ الشیرازی(۶۳) .

نیز اسی مضمون کی ایک حدیث جابر جعفی سے تفسیر ثعلبی میں بھی مرقوم ہے جس کے ضمن میں وہ کہتے ہیں:“لَمَّا نَزَلَت هٰذِهِ الآیَةُ قَالَ علی نَحنُ اَهلُ الذِّکرِ ؛ جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضرت علی ؑنے فرمایا: ہم اہل ذکر ہیں”.

مذکورہ بالا مدارک کی طرف رجوع فرمائیں.

خلاصۂ کلام

فریقین کی متعدد روایات میں اہل ذکر کے یہ معنی و مراد اتنی کثرت سے بیان کئے گئے ہیں کہ جن کے بارے میں تواتر کا دعویٰ کرنا بیجا نہ ہوگا.ان احادیث سے امت اسلام کے لئے اہل بیتؑ کی مطلق مرجعیت ثابت ہوجاتی ہے اور اس مرجعیت کی دلیل یہ ہے کہ اہل بیتؑ، قرآن کریم کے تمام علوم ومعارف سے بھرپور آگاہی رکھتے ہیں اور ان کی فکر و ارادہ میں کسی بھی قسم کی تردید و خطا کا گذر تک نہیں ہوسکتا(۶۴) .

۵ ۔ آیت تطہیر:

خدا وند عالم کا ارشاد پاک ہے:( اِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اَهلَ البَیتِ وَ یُطَهِرَکُم تَطهِیراً ) (۶۵) “بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیتؑ کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے.

دریچہ: اہل بیت کی عصمت پر دلالت کرنے والی جملہ آیات میں سے ایک آیت تطھہیر بھی ہے جس کی روشنی میں ان کی مرجعیت دینی ثابت ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں ان کی سنت کو حجت قرار دیا جاتا ہے یعنی ان کے ہر قول و فعل کو بطور حجت تسلیم کیاجانا چاہیۓ. لہذایہاں عام طور پر دو نکات پربحث کی جاتی ہے:

(الف) عصمت اہل بیتؑ (ب) مصداق اہل بیتؑ

تبصرہ:

اہلسنت حضرات نے اس آیت کریمہ کے ذیل میں شیعہ نقطۂ نظر کے استدلال سے فکروں کو دور کرنے کی سرتوڑکوشش کی ہے اور اس سلسلہ میں انہوں نے کافی فہم و فراست کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے مختلف توجیہات پیش کی ہیں لیکن اس آیت کریمہ و احادیث شریفہ کی روشنی میں عصمت و حجت اہل بیتؑ کا ثابت ہونا کسی با شعور منصف مزاج اور عقل سلیم رکھنے والے سے پوشیدہ نہیں ہے

اہل سنت مفسرین اس آیت کریمہ کی اس طرح تفسیرکرتے ہیں کہ خداوند عالم نے دین کے اوامر و نواہی تم پر نازل کر دیئے ہیں تاکہ تم ان سے بہرہ مند ہو اور ان دستورات سے نفع حاصل کرنا خود تم پر منحصر ہے(۶۶) .جبکہ اس آیت سے مراد زنان پیغمبرؐ یا زنانِ پیغمبرؐ اور دیگر افراد کو لیا جاتا ہے(۶۷) .

شیعہ نقطہ نظر کے مطابق یہ آیت کریمہ مخصوص افراد کی عصمت و طہارت پر گواہی دے رہی ہے اور اپنے دعویٰ کے ثبوت میں حضورؐ سرورکائنات سے منقول متعدد روایات کا سہارا لیتے ہیں اور جن کی تعداد ستر سے زیادہ ہے. آنحضرت ؐنے ان روایات کومخصوص افراد پر منطبق کیا ہے.

یہ احادیث اہل سنت کے معتبر منابع میں نقل کی گئی ہیں اور ان کے بزرگوں نے ان احادیث کے صحیح السند ہونے کی تصریح بھی کی ہے.

حدیث کساء کے صحیح السند ہونے کی تصریح کرنے والے بزرگ علماء اہل سنت:

اہل سنت کے متعدد بزرگ علماء نے حدیث کساء کے صحیح السند ہونے اور اس آیت کریمہ کے اہل بیتؑ کی شان میں نازل ہونے کی تصریح فرمائی ہے مثلاً:

۱. احمد بن حنبل نے مسند میں۔

۲. مسلم بن حجاج، نے اپنی صحیح میں اس حدیث کو نقل کیا ہے.

۳. حاکم نیشا پوری نے مستدرک میں،

۴. ذہبی نے تخلیص المستدرک میں،

۵. فخررازی نے تفسیر کبیر میں ، انکا کہنا ہے کہ:هذه الروایة کالمتفق علی صحتها بین اهل التفسیر و الحدیث ؛

مفسرین و اہل حدیث اس روایت کی صحت پر متفق نظرآتے ہیں(۶۸) .

۶. ابن حبان نے اپنی کتاب صحیح میں اسے نقل کیا ہے.

۷. ابن تیمیہ اپنی کتاب “ منھاج السنة” میں کہتے ہیں : “ وامّا حدیث الکساء فھو صحیح ، رَواہ ، احمد و الترمذی من حدیث ام سلمة و رواہ مسلم فی صحیحہ من حدیث “عائشہ ”؛ حدیث کساء، احادیث ِصحیح السند میں سے ایک ہے جسے احمد اور ترمذی نے جناب ا م سلمہ سے نقل کیا ہے ، نیز مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے ”.(۶۹)

۸. ابن حجر مکی کا کہنا ہے : “وَصَحَّ اَنَّه جَعَلَ علٰی هؤلاءِ کِساءٌ وَقال: اَللَّهُمَّ هؤلاءِ اَهلُ بَیتِی وَ حَامَّتی اَی خاصَّتی اَذهِب عَنهُمُ الرِّجسَ وَطَهِّر هُم تطهیراً.”

صحیح السند کے ذریعے ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے ان چار افرادپرچادر تان کر فرمایا : پروردگار! یہ میرے اہل بیت اور مخصوص افراد ہیں، ان سے ہر قسم کے رجس کو دوررکھ اور انہیں پاک و پاکیزہ رکھنا(۷۰) ۔

حدیث کساء:

(۱) مسلم نے اپنے سلسلہ سند کے مطابق حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے: “خَرَجَ النبی غَداةً وَعلیه مِرَطٌ مُرَجَّلٌ مِن شَعراسود، فَجاءَ الحسن بنُ علی فَادخَلَهُ ثُمَّ جاء الحسین فَدَخَلَ مَعَه، ثُمَّ جائتْ فاطمة فَاَدخَلَها ثُمَّ جاءَ علی ثُمَّ قالَ :( اِنَّما یُرِیدُ الله ) ” پیغمبرؐ بوقت صبح اپنے حجرہ سے اس انداز سے باہر آئے کہ آپ کے د وش مبارک پرسیاہ کپڑا پڑاہوا تھا کہ اتنے میں حسنؑ بن علیؑ ان کے پاس پہنچ گئے حضورؐ نے انہیں اپنی چادر کے اندر لے لیا ،پھر حسینؑ آئے تو وہ بھی چادر میں داخل ہو گئے، پھر فاطمہؑ زھرا تشریف لائیں توحضورؐ نے انہیں بھی چادر کے اندر لے لیا. پھر علیؑ آئے تو وہ بھی چادر میں داخل ہو گئے. اس وقت پیغمبر اکرمؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی.( انما یرید الله ) (۷۱) .

(۲) ترمذی اپنے سلسلہ ٔسند کے مطابق جناب ام سلمہ سے نقل کرتے ہیں:“ اِنَّ النبی جَلَّلَ علٰی الحسن و الحسین وعلی و فاطمة کساء ً ثُمَّ قال: اَللَّهُمَّ هؤُلاءِ اَهلُ بیتی و خاصَّتی اَذهِب عنهمُ الرِّجسَ و طَهِّرهُم تطهیراً ، پیغمبر اکرمؐ نے حسنؑ و حسینؑ علیؑ اور فاطمہؑ پرچادر تان کر بارگاہ پروردگار میں عرض کیا: یہ میرے اہل بیتؑ اور مجھ سے مخصوص ہیں، ان سے ہررجس کو دور رکھ اور انہیں پاک و پاکیزہ رکھنا ”.(۷۲)

(۳)ام سلمہ سے نقل کیا گیا ہے :“ نَزَلَت هذِ ه الآیة فی بَیتی ( اِنَّما یُرِیدُ الله لِیُذهِبَ عَنکُم الرِّجسَ اهلَ البیت و یُطَهِّرَ کُم تطهیراً ) وَفی البیت سَبعَةٌ جبرئیل و میکائیل وعلی و فاطمه و الحسن و الحسین و اَنا علٰی بابِ البیت، قُلتُ، یا رسولَ الله اَلَستُ مِن اَهلِ البیت؟ قالَ اِنَّکِ علیٰ خیر اِنَّکِ مِن اَزواجِِ النَبی ؛ (۷۳)

“جناب ام سلمہ کہتی ہیں: آیت تطہیر میرے گھرمیں نازل ہوئی ہے اور اس وقت سات افراد میرے گھر میں موجود تھے یعنی جبرئیل، میکائیل، علی، فاطمہ، حسن، حسین؛ اور میں اس لمحہ درخانہ پر موجود تھی؛ میں نے پیغمبرؐ سے دریافت کیا.کیا میں اہل بیت ؑمیں سے نہیں ہوں؟ آپؐ نے فرمایا: تم خیر اور نیکی پر ہو اور تم میری زوجات میں سے ہو”.

(۴)نیز در منثور نے ابن جریر، ابن ابی حاتم اور طبرانی کے توسط سے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے: “قال رسولُ اللهُ نَزَلَت هذِه الآیةُ فی خمسة فِیَّ وفِی علی و فاطمة و حسن و حسین، انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهر کم تطهیراً (۷۴) .آیت تطہیر پانچ افراد '' میرے، علی و فاطمہ اور حسن و حسین کے بارے میں نازل ہوئی ہے”

مذکورہ و دیگر ان جیسی کثیر التعداد احادیث میں حصر پایا جاتا ہے یعنی نبی کریمﷺ نے مخصوص اور معین افراد کا تعارف کروایا ہے یہاں تک کہ جناب ام سلمہ تک کو اس اجتماع میں داخلہ کی اجازت نہیں دی صرف مخصوص افراد کا اہل بیت ہونا ثابت ہوتا ہے. پس اب جبکہ لفظ “اہل بیت” عام معنی پر دلالت نہیں کرتا ہے تو “یرید اللہ” میں ارادہ الٰہی کو تشریعی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ارادۂ تشریعی کے ذریعے تو تمام بندوں کی طہارت و پاکیزگی چاہتاہے اور سب سے مطالبہ کرتا ہے کہ گناہوں سے دوری اختیار کریں.پس یہاں پر ارادۂ الٰہی تکوینی ہے، ارادۂ تکوینی، ارادہ کرنے کے ساتھ ہی واقع اور ظاہر ہو جاتا ہے یعنی ارادہ کے ساتھ ہی طہارت و پاکیزگی حاصل شدہ ہے. یعنی ارادہ تکوینی تخلّف نا پذیر ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:( اِنّمَا اَمرُه اذا اَرادَ شیئًا اَن یَقُولَ لَه کُن فَیَکُونُ )

اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شئ کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کر لے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے.جبکہ ارادہ تشریعی میں فعل براہ راست ایجاد نہیں ہوتا بلکہ اس میں بندوں کا ارادہ کار فرما ہوتا ہے تاکہ انہیں ان کے فعل میں آزاد چھوڑ دیا جائے اور وہ جبر محسوس نہ کریں.

یہ بات بھی بیان کر دینا مناسب ہے کہ لفظ “الرجس” پرموجود “ال” اسم جنس “رجس” پرداخل ہو کر عموم و شمول پردلالت کرتا ہے یعنی ہر قسم کی پلیدی سے منزہ ہیں.

بنا بریں اہل بیت کی گفتار و رفتار یہاں تک کہ فکر بھی ہر قسم کی پلیدی سے محفوظ و مصون ہے اور اس میں ارادہ الٰہی کا ر فرما ہے.پس ان کاہر قول و فعل حجت اور تفسیرآیات میں برہان قاطع کی حیثیت رکھتا ہے.

بیان کردہ روایات سے قطع نظر سنت اہل بیتؑ کی حجت کے اثبات میں خود اس آیت کریمہ میں بھی شواہد موجود ہیں مثلاً لفظ “انما” حصر پردلالت کر رہا ہے جومخصوص افراد کی طہارت کی گواہی ہے ، آیت تطہیر اور اس سے ما قبل کی آیت میں مؤنث ضمیریں بیان کی گئی ہیں جبکہ اس آیت میں مذکر ضمیروں کو استعمال کیا گیا ہے. نیز آیت تطہیر، آیات النساء کے ہمراہ نازل نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ علیحدہ سے نازل کی گئی ہے اور کسی نے اس کے آیات النساء کے ہمراہ نازل ہو نے کا دعویٰ بھی نہیں کیا ہے.

ان تمام اندرونی شواہد اور متعدد روایات کی موجودگی میں دعوائے سیاق بالکل غیر مناسب ہے یعنی یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ سیاق آیات اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی زوجات بھی اس آیت میں شامل ہیں کیونکہ یہ آیت:

اولاً: علیحدہ نازل ہوئی ہے،

ثانیاً: ما قبل والی آیت اور اس آیت میں ضمیریں تبدیل ہو گئی ہیں،

ثالثاً: احادیث کی موجودگی میں سیاق کلام قابل استد لال نہیں ہوتا، نیز سیاق آیات سند نہیں ہوا کرتا کیونکہ قرآن کریم کوئی تصنیف یا تالیف نہیں ہے کہ اس میں ان باتوں کا لحاظ رکھا جائے. اس میں ایسے بے شمار مقامات ہیں جہاں ایک تذکرہ کے بعد دوسرا تذکرہ شروع ہو جاتا ہے اور پھر بات پلٹ کر وہیں پہنچ جاتی ہے.

علاوہ بریں وہ روایات جن میں کہا گیا ہے کہ ان سے مراد ازواج النبی یا ازواج النبی اوردیگر افراد بھی ہیں ضعیف ہیں اور ان کی سند معتبر نہیں ہے(۷۵) .کیونکہ ان کے راوی مجہول الحال اور ناشناختہ ہیں یا یہ کہ محدثین و علمائے رجال نے ان پر تنقید کی ہے(۷۶) . جبکہ بعض روایات کے متن میں خلل و اضطراب بھی پایا جاتا ہے(۷۷) .

نتیجہ:

پس آیت تطیرئ میں موجود اندرونی شواہداور روایات کے ذریعے اہل بیت مخصوص و معین افراد ہیں جن کا ہر قول و فعل حجت ہے کیونکہ یہ آیت ان کے معصوم ہونے اور ہرقسم کی پلیدی سے محفوظ ومصون ہونے کی گواہی دے رہی ہے.

آیت کے مطابق صرف نبی کریمؐ اور ان کے اہل بیتؑ یعنی علیؑ و فاطمہؑ، حسنؑ وحسینؑ ہی ہیں. امھات المؤمنین یقینا لائق احترام ہیں لیکن آیت کا مصداق نہیں ہیں لہٰذا اہل بیت میں شامل نہیں ہیں کیونکہ خود نبی کریمؐ نے جناب ام سلمہؓ کو یہ کہہ کر چادر تطیرو میں داخل ہونے سے روک دیا تھا کہ تم یقیناً خیر اور نیکی پرہو لیکن یہ میرے اہل بیت ہیں.

نیز آیت کریمہ پنجتن پاکؑ کی عصمت و طہارت کے علاوہ انہی جیسے دیگر ائمہ اہل بیتؑ کی عصمت وطہارت کو بھی شامل کر رہی ہے کیونکہ آیت کے نزول کے وقت یہی افرادموجود تھے اور اگر ایک امام کی عصمت ثابت ہو گئی توبقیہ کی عصمت و طہارت خود بخود ثابت ہو جائے گی کیونکہ ہرامام نے اپنے بعد والے امام کے بارے میں وصیت فرمائی ہے اور بعنوان امام معصوم اس کا تعارف کروایا ہے

شبھہ اور اس کا جواب

ممکن ہے کسی کے دل میں شبھہ پیدا ہونے لگے آیت کریمہ میں صرف پنجتن پاکؑ کی عصمت و طہارت کی گواہی دی گئی ہے لیکن اس کے ذریعے بقیہ ائمہ اہل بیتؑ کی عصمت و حجیت کو کس طرح ثابت کیاجا سکتا ہے؟

اس کاجواب یہ ہے کہ:

(۱) آیت کریمہ میں حصر ، اضافی و نسبی ہے نہ کہ حقیقی و مطلق یعنی مخصوص افراد کی نسبت آیت کو حصر کیا گیا ہے جس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس میں صرف یہی پانچ افراد شامل ہوں گے اور دیگر حضرات شامل نہیں ہو سکتے جیسا کہ خود نبی کریمؐ نے حدیث ثقلین میں لفظِ اہلِ بیتؑ کو بطور عام بیان کیا ہے.

(۲) نزول آیت کے وقت چہاردہ معصومینؑ میں سے صرف یہی پانچ حضرات موجود تھے اسی لئے پیغمبر اکرمﷺ نے انہی افرادکو کساء کے سائے میں لے لیا تھا اور اس وقت آیت نازل ہوئی پس ان افراد کے علاوہ دیگر افراد پر منطبق ہونا آیت کے منافی نہیں ہے کیونکہ آیت میں اھل بیت کے عنوان کو پیش نظر رکھا گیا ہے، چونکہ ہر دور میں ایک امام معصوم کا ہونا ضروری ہے لہٰذا آیت تطہیر کا دیگر انہی جیسے دیگر حضرات پر منطبق ہونا مصلحت کے خلاف نہیں ہے.

(۳) تمام ائمہ اہل بیتؑ کی عصمت و حجیت کو ثابت کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ ان میں سے ایک کی عصمت و طہارت اور حجت کوثابت کر دیا جائے کیونکہ یقینا ہر امام نے اپنے بعد آنے والے امام کے بارے میں وصیت فرمائی اور بعنوان امام معصوم اس کا تعارف کروایا ہے.

(ب )دلیل روائی

۱ ۔ حدیث ثقلین

دریچہ: اہل بیتؑ کی سنت کو حجت ثابت کرنے والی احادیث میں سے ایک حدیث ثقلین بھی ہے جسے حدیث غدیر وغیرہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے. یہ حدیث مختلف سلسلہ اسناد اور عبارات کے ساتھ فریقین (شیعہ و سنی) کے متعدد معتبر منابع و مآخذ کی زینت بنی ہوئی ہے. یہ حدیث عصر صحابہ ہی سے تواتر کے ساتھ نقل کی گئی ہے اور نہایت اہم موضوع سے بہرہ مند ہے جو امت کے لئے رسول اکرمﷺ کی ایسی وصیت بیان کر رہی ہے کہ جس سے متمسک ہو کر امت ہر گز گمراہ نہ ہونے پائے گی.

متن حدیث: یہ حدیث ثقلین کثیر طرق اور صحیح اسناد کے ساتھ فریقین کے مصادر و منابع میں نقل ہوئی ہے جن میں سے ایک ذیل میں پیش خدمت ہے:“ اِنِّی تارِکٌ فِیکُمُ الثَّقلَینِ ما اِن تَمَسَّکتُم بِهِما لَن تَضِلُّوا، کِتابَ اللهِ وعِترتی اَهلَ بیتی و اِنَّهُما لَن یَفتَرِقا حتَّی یَرِدا عَلَیَّ الحوض” ؛ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر (یا سنگین) چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ اگر ان سے متمسک رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے، کتاب خدا اورمیری عترت جو میرے اہل بیت ہیں. یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک حوض (کوثر) پر میرے پاس پہنچیں گے(۷۸) .

حدیث کی مختلف عبارات: اہل سنت حضرات کی معتبر ترین کتب احادیث میں اس حدیث کی جو مختلف عبارتیں نقل کی گئی ہیں ان میں سے چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں.

(۱)مسلم نے اپنے سلسلہ سند کے مطابق زید بن ارقم سے نقل کیا ہے.

“قامَ رَسُولُ الله یوماً فِینا خَطِیبًا بِمَاءِِ یُدَّعَیٰ خُمّاً بَینَ مَکة و المدینة، فَحَمِدَ اللهَ و اَثنیٰ علیه و وَعَظَ و ذَکَّرَ ثُمَّ قال: اَمَّا بَعد،اَلَا یا اَیُّهَا النَّاس! فَاِنَّمَا اَنا بَشَرٌ یُوشَکُ اَن یأتِی رسولُ رَبِّی فأُ جِیبُ وَ اَنا تارِکٌ فیکم ثقلین؛ اوَّلُهُما کتابُ الله فَاستَمسَکُوا بِه، فَحَثَّ علٰی کتابِ الله و رَغَّبَ فیه ثُمَّ قال: و اَهلُ بَیتی اَذکُرُکُمُ الله فی اَهلِ بَیتی، اَذکُرُکُمُ الله فی اَهلِ بَیتی، اَذکُرُکُمُ الله فی اَهلِ بَیتی ” ؛

“ایک دن رسولؐ اللہ نے مکہ و مدینہ کے درمیان 'خم' نامی تالاب کے کنارے کھڑے ہو کر لوگوں کے سامنے ایک خطبہ دیا جس میں آپؐ نے حمد و ثنائے پروردگار کے بعد وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: میں وہ بشر ہوں جس کے پاس پروردگار کی جانب سے فرستادہ آنے والا ہے اور میں اس کی آواز پر لبیک کہنے والا ہوں، پس میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں، ایک کتاب خدا ہے اس سے متمسک رہنا. پیغمبرؐ نے کتاب خدا کے بارے میں کافی تاکید فرمائی اور اس پر عمل کرنے کی لوگوں کو خاطر خواہ تشویق و ترغیب دلائی پھر فرمایا: اور میرے اہل بیتؑ ہیں اور ان کے بارے میں میں تمہیں نہایت تاکید کرتا ہوں. حضورﷺ نے اس جملے کو تین بار دہرایا ”.(۷۹)

(۲) احمد بن حنبل اپنے سلسلہ سند کے تحت زید بن ثابت سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا :

“انی تارک فیکم خلیفتَینِ؛ کتابُ اللهِ حَبلٌ مَمدُودٌ ما بَینَ السماءِ والارضِ. اَو ما بَینَ السماءِ اِلٰی الارضِ. وَ عِترَ تی اهلُ بیتی و اِنَّهُما لَن یَفتَرِقا حَتَّی یَرِ دا عَلَیَّ الحَوضِ”؛

بے شک میں تمہارے درمیان دو جانشین چھوڑ کر جا رہا ہوں، کتاب خدا جو آسمان و زمین کے مابین کھنچی ہوئی ایک ریسمان ہے اور میری عترت ہے جو میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے(۸۰) .

(۳)ترمذی نے جابر بن عبد اللہ سے نقل کیا ہے کہ حجتہ الوداع میں روزعرفہ نبی کریمؐ کو اونٹ پر خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ آپؐ نے فرمایا :

“یا ایها الناس! قد تَرَکتُ فِیکُم ما اِن اَخَذتُم بِه لَن تَضِلُّوا، کتاب الله و عترتی اهلُ بیتی”؛

اے لوگو! تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ اگر ان سے متمسک رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے، کتاب خدا اور میری عترت جو میرے اہل بیت ہیں(۸۱) .

(۴)حاکم نیشا پوری نے ابو طفیل کے توسط سے زید بن ارقم سے نقل کیا ہے: نبی کریمﷺ مکہ و مدینہ کے مابین پانچ درختوں کے پاس ٹھہرے تو لوگوں نے ان درختوں کے نیچے صفائی کی پھر پیغمبرؐ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا، آپؐ نے حمد و ثناء الٰہی، وعظ و نصیحت اور چاہت الٰہی بیان کرنے کے بعد فرمایا:

“یا ایها الناس! اِنّی تارِکٌ فیکُم اَمرَینِ لَن تَضِلُّوا اِنِ اتَّبَعتُمُوهُما وهما؛ کتابُ الله و اهلُ بیتی، ثم قال: أ تَعلَمُونَ اِنّی اَولٰی بِالمُومِنِینَ مِن اَنفُسِهِم ثلاث مرات قالُوا نَعَم، فقالَ رَسُولُ اللِه: مَن کُنتُ مَولاهُ فعلیٌ مولاه”؛

لوگو! میں تمہارے درمیان دو امر چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر ان کی پیروی کرو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے، کتاب خدا اور میرے اہل بیتؑ. پھر آپؐ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں مومنین پر خود ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں؟ یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا. سب نے کہا: جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے.پھر آپؐ نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے(۸۲) .

تکرار حدیث:

شیعہ علماء کے نزدیک یہ حدیث ۳۰ سے زائد اصحاب پیغمبرؐ نے نقل کی ہے(۸۳) .

جبکہ بعض علمائے اہلسنت کے مطابق ۲۰ سے زائد صحابہ نے اس حدیث کو مختلف انداز سے نقل کیا ہے.

ابن حجر کا کہنا ہے :

حدیث ثقلین متعدد طرق و اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے ، جسے ۲۰ سے زائد صحابہ نے نقل کیا ہے، مثلاً بعض اسناد کے مطابق نبی کریمؐ نے حجتہ الوداع کے موقع پر سر زمین عرفہ پر قرآن و عترت کے بارے میں تاکید فرمائی جبکہ بعض طرق میں غدیر خم کا تذکرہ کیا گیا ہے اور بعض میں طائف سے واپسی کے موقع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن ان میں کوئی تنافی و تضاد قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ بعید نہیں کہ نبی کریمؐ نے متعدد مقامات پر قرآن و اہل بیت کے بارے میں وصیت فرمائی ہو(۸۴) .

حتیٰ کہ بعض افرادکے مطابق نبی کریمؐ نے ثقلین (قرآن و اہلبیتؑ) کے بارے میں رحلت سے قبل بھی وصیت فرمائی تھی(۸۵) .

مختصر جانچ پڑتال اور جستجو سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نبیﷺ نے کم از کم پانچ مقامات پر حدیث ثقلین کو بیان کیا ہے:

۱. آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے بعد طائف سے واپسی کے موقع پر(۸۶) .

۲.عرفہ کے دن جب حضوؐر شتر قصواء پرخطبہ دے رہے تھے(۸۷) .

۳.حجتہ الوداع کے موقع پر منیٰ میں مسجد خیف کے اندر(۸۸) .

۴.غدیرخم کے دن(۸۹) .

۵.وفات کے دن اپنے آخری خطبہ میں(۹۰) .

حدیث ثقلین کا صحیح ہونا:

حدیث ثقلین کو مختلف طریقوں سے صحیح السند ثابت کیا جا سکتا ہے :

۱. حدیث ثقلین کا “صحاح” میں موجود ہونا.

اہل سنت کی اکثر کتب صحیح میں حدیث ثقلین کا موجود ہونا اس کے صحیح السند ہونے کی بہترین دلیل ہے. مثلاً:

۱. یہ حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے جس کی تمام احادیث کے بارے میں اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ “صحیح السند” ہیں(۹۱) .

۲. یہ حدیث “ صحیح ترمذی” میں موجود ہے

۳. “ صحیح ابن خزیمہ” میں موجود ہے.

۴. “ صحیح ابن عوانہ” میں بھی ثبت ہے.

۲. صحاح ستہ کے بارے میں لکھی جانے والی کتب.

یہ حدیث ثقلین مذکورہ کتب صحاح ہی میں ثبت نہیں کی گئی بلکہ ان کتب میں بھی قلمبند کی گئی ہے جو صحاح ستہ کے بارے میں لکھی گئی ہیں.مثلاً :

۱.“ المستدرک علی الصححین” تالیف حاکم نیشاپوری

۲. حمیدی کی “ الجمع بین الصحیحین”

۳. رزین عبدری کی “ تجرید الصحاح”

۳. فقط صحیح السند نقل حدیث کا دعویٰ کرنے والے علماء.

۱. علامہ سراج الدین فرغانی نے “نصاب الأخبار” میں،

۲.حافظ ضیاء الدین مقدسی نے “المختار” میں،

سیوطی نے حافظ عراقی سے نقل کیا ہے: مقدسی نے “ المختارہ” نامی کتاب تالیف کی ہے جس میں انہوں نے صرف احادیث صحیح السند نقل کرنے کا عزم کیا تھا(۹۲) .

۴. حدیث ثقلین کے صحیح السند ہونے کی تصریح کرنے والے.علمائے اہلسنت کی ایک بڑی تعداد نے حدیث ثقلین کے صحیح السند ہونے کی تصریح کی ہے مثلاً

۱. ناصر الدین البانی(۹۳) .

۲. ابن حجر عسقلانی(۹۴)

۳. ابن حجر مکی(۹۵)

۴. بو صیری(۹۶)

۵. یعقوب بن سفیان فسوی(۹۷)

۶. شیخ سلیمان قندوزی(۹۸)

۷. احمد بن حنبل(۹۸)

۸. محمود شکری آلوسی(۱۰۰)

۹. ابن جریر طبری(۱۰۱)

۱۰. محاملی(۱۰۲)

۱۱. حسن بن علی سقاف شافعی(۱۰۳)

۱۲. حاکم نیشا پوری(۱۰۴)

۱۳. ابن کثیر(۱۰۵)

۱۴. ابن ھشام(۱۰۶)

۱۵. جمال الدین قاسمی(۱۰۷)

۱۶. ھیثمی(۱۰۸)

۱۷. ازھری(۱۰۹)

۱۸. سمھودی شافعی(۱۱۰)

۱۹. علامہ مناوی(۱۱۱)

۲۰. علامہ محقق شیخ احمد بنّا(۱۱۲)

۲۱. استاد علامہ توفیق ابو علم(۱۱۳)

حدیث ثقلین کی روایت کرنے والے صحابہ کرام

جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ شیعہ علماء کے مطابق ۳۰ سے زائد، اصحاب نبی کریمؐ اور اہل سنت کے علماء کے مطابق ۲۰ سے زائد اصحاب کرام نے اس حدیث کونقل کیا ہے لہٰذا مجموعی طور پر مشترک نظریہ کی روشنی میں کم سے کم ۴۳ اصحاب نبیؐ نے اس حدیث کو نقل کیا ہے.

۱. حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ

۲. حضرت امام حسنؑ مجتبیٰ

۳. حضرت سلمانؓ فارسی

۴.حضرت ابو ذر غفاریؓ

۵. حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ

۶. حضرت ابو سعید خدری

۷. حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری

۸. ابو الھیثم بن تیّھان

۹. حضرت حذیفہ بن یمان

۱۰. حضرت حذیفہ بن أسید غفاری

۱۱. حضرت حذیفہ بن ثابت

۱۲. حضرت زید بن ثابت

۱۳. حضرت زید بن ارقم

۱۴. حضرت ابو ھریرہ دوسی،

۱۵. عبد اللہ بن حنطب

۱۶. جبیر بن مطعم

۱۷. براء بن عازب

۱۸. أنس بن مالک

۱۹. طلحة بن عبد اللہ تیمی

۲۰. حضرت عبد الرحمن بن عوف

۲۱. حضرت سعد بن ابی وقاص

۲۲. حضرت عمرو بن عاص

۲۳. حضرت سھل بن سعد انصاری

۲۴. حضرت عدی بن حاتم

۲۵. حضرت ابو ایوب انصاری

۲۶. حضرت ابو شریح خزائی

۲۷. حضرت عقبہ بن عامر

۲۸. حضرت ابو قدامہ انصاری

۲۹. حضرت ابو لیلی انصاری

۳۰. حضرت ضمیرۂ اسلمی

۳۱. حضرت عامر بن لیلی بن حمزہ

۳۲. حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا

۳۳. حضرت ام سلمہ زوجہ رسولﷺ

۳۴. حضرت ام ھانی دختر امیر المؤمنینؑ

۳۵. حضرت مقداد بن اسلم

۳۶. حضرت عمار یاسر

۳۷. حضرت عمر

۳۸. حضرت عبد اللہ بن عمر

۳۹. حضرت حزیمہ بن ثابت

۴۰. حضرت ابو رافع مولیٰ رسول اللہ

۴۱. حضرت زید بن اسلم

۴۲. حضرت جریر بن عبد اللہ

۴۳. حضرت حبشی بن جنادہ

ان کے علاوہ بے شمار تابعین اور شیعہ و سنی محققین، مؤرخین، مفسرین، محدثین وغیرہ نے اپنی معتبر کتب کو اس مشہور و معروف اور صحیح السند حدیث سے زینت بخشی ہے(۱۱۴) .

( حدیث ثقلین) وصیت پیغمبرؐ اسلام

ہم گذشتہ صفحات پریہ بات بیان کر چکے ہیں کہ نبی کریمؐ نے مختلف اوقات و مقامات یہاں تک کہ قبل از رحلت بھی کتاب خدا اور اہل بیتؑ کے بارے میں نہایت تاکید اور وصیت فرمائی ہے جیسا کہ خود بعض اہلسنت سے نقل ہونے والی اس حدیث میں وصیت کا لفظ استعمال ہوا ہے.

ابن منظور افریقی کہتے ہیں:“وفی حدیث النبی؛ اُو صِیکُم بِکتابِ الله و عترتی ” حدیث پیغمبرؐ میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: تمہیں کتاب خدا اور اپنی عترت کے بارے میں وصیت کر رہا ہوں(۱۱۵) .

ابن حجر مکی کہتے ہیں: “وَقَد جاءَ تِ الوَصِیَّةُ الصَّرِیحَة بِهم فی عِدَّةِ اَحادِیثِِ منها حدیث: (انی تارک فیکم) ”؛ متعدد احادیث میں اہل بیتؑ کے بارے میں واضح وصیت وارد ہوئی ہے ان میں سے ایک حدیث (انی تارک فیکم) بھی ہے(۱۱۶) .

فہم نکات حدیث

اگرچہ حدیث میں متعدد نکات پائے جاتے ہیں لیکن اختصار کی وجہ سے صرف چند نکات پیش کئے جا رہے ہیں.

۱. ثقلین ( دو گرانقدر اور سنگین چیزیں)

“ ثقلین” لفظ “ثَقَل” کا تثنیہ ہے اور تثنیہ عربی میں دو چیزوں پر دلالت کرتا ہے. “ثقل” عربی میں مال و متاع، توشۂ سفر اور ہر نفیس شئے کو کہا جاتا ہے جو لائق حفاظت ہو(۱۱۷) .

یا یہ لفظ “ثِقل” سے ماخوذ ہے جس کے معنی “سنگینی و وزنی شئے ” ہیں.

کتاب و عترت کو “ثقلین ” اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان دونوں پر عمل کرنا سنگین ہے اور ان کے مقام و مرتبہ کی بلندی کے اظہار کے لئے انہیں ثقلین کہہ کر متعارف کروایا گیا ہے(۱۱۸) .

ابن حجر مکی کہتے ہیں:

سَمَّی رَسُولُ اللهِ القرآنَ و العترتَه الاَهل و النسل و الرهط الادنون ثقلین؛ لأنَّ الثقلَ کلُّ شَیئٍِِ نَفِیسِِ خطیر مصون و هذان کذالک؛ اِذ کُلٌّ منهما معدنٌ لِلعلومِ اللدنیة والاسرار و الحِکَمِ الاِلٰهِیة، و لِذالِکَ حَثَّ النبی علٰی الاِقتداءِ بِهم و التَّعَلُّمِ مِنهُم ”.

نبی کریمؐ نے قرآن و عترت کو ثقلین کے نام سے تعبیر کیا ہے. “ثقل” نفیس اور قیمتی چیز کوکہا جاتا ہے، قرآن و عترت بھی ایسے ہی نفیس اور قیمتی ہیں کیونکہ یہ دونوں علوم لدنی، اسرار اور حکمت الھیہ کے حامل ہیں، اسی لئے حضورؐ سرور کائنات نے لوگوں کو ان کی اقتداء کرنے اور ان سے سیکھنے کی تاکید فرمائی ہے(۱۱۹) .

بعبارت دیگر ثقل اس میزان کا نام ہے جسے ترازو کے ثبات کے لئے قرا دیا جاتا ہے اور قرآن و عترت کو میزان سے تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں حیات و زندگی کی بقاء کے لئے مایہ استقرار ہیں یعنی ان کے عدم وجود کی وجہ سے لوگوں کی زندگی سے اطمینان و استقرار نابود ہوکر رہ جائے گا.

۲. قرآن و عترت کی جامعیت

حدیث میں“ مَا اِنْ تَمَسَّکْتُمُ بهما ” عبارت بطور مطلق آئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دین و دنیا کے ہر مسئلہ میں ان سے متمسک رہو گے تو کامیاب رہو گے اور یہ تعبیر ان کی جامعیت و کمال ِمطلق کی بہترین دلیل ہے کیونکہ حدیث میں “ لن تَضِلّوا ابداً” بھی کہا گیا ہے یعنی کبھی بھی گمراہ نہیں ہو سکتے.

۳. معیت قرآن و اہل بیتؑ

عبارت “حتّی یرِدا عَلیّ الحوض ” اس امر کی نشاندہی کر رہی ہے یہ کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے یہاں تک کہ حوض کو ثر پر پہنچیں گے پس اگر اہل بیتؑ بعض معارف قرآن سے نا آشنا ہوں تو اسی مقدار قرآن سے جدا کہلائیں گے جبکہ حضور سرور کائناتﷺ نے اس جدائی کی بھرپور نفی فرمائی ہے.

۴. دونوں سے تمسک ضروری ہے

عبارت“مَا اِنْ تَمَسَّکْتُمُ بهما لن تَضِلّو ابداً” اور جملهٔ “فانظُرُوا کیف تَخلِفُونی فیهما ” جو کہ بعض روایات میں مروی ہے ، اس امر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ قرآن و اہل بیتؑ دونوں سے تمسک کرنا ضروری ہے. ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ایک سے تمسک کرلیا جائے اور دوسرے کو فراموش کردیا جائے کیونکہ جوچیز مایہ ٔ ہدایت اور گمراہی سے نجات کا سبب ہے وہ دونوں سے تمسک اور وابستگی ہے، اس لئے کہ قرآن کریم تنہا ہدایت کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ یہ ایک مفسر و مبین کا محتاج ہے اور وہ عترت رسولؐ کریم ہی ہیں.علامہ مناوی کہتے ہیں:

وفی هذا تلویحٌ بل تصریحٌ بِأنَّهُما کتوأ مین خلّفهما و وَصَّی امّته بِحُسنِ معا ملتهما وایثار حقهما علی أ انفسهم والاِستِمساک بهما فی الدین ۔۔۔، اس حدیث ثقلین میں اس امر کی طرف اشارہ ہے بلکہ وضاحت موجودہے کہ یہ دونوں گویا جڑواں ( Twins )کی مانند ہیں جنہیں رسولؐ نےاپنے بعد بعنوان ھادی متعارف کروایا ہے اور امت کو وصیت فرمائی ہے کہ ان سے بحسن خوبی معاشرت رکھیں(۱۲۰) .

نیز انہی جیسے خیالات کااظہار اہلسنت کے بزرگ علماء مثلاً شیخ محمد امین(۱۲۱) ، ابن الملک(۱۲۲) اور حسن بن علی سقاف شافعی(۱۲۳) وغیرہ نے بھی کیا ہے.

۵.بقائے عترت تا روزِ قیامت

حدیث شریفہ میں موجود عبارت “لَنْ یفتر قا حتَّی یَرِ دا عَلیَّ الحوض ” اس امر کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ حضورؐ سرور کائنات کی اس مقدس عترت طاہرہ کا سلسلہ تا روز قیامت جاری و ساری رہے گا کیونکہ اگر کوئی بھی زمانہ عترتؑ سے خالی ہو گیا تو لازمی طور پر قرآن و عترت میں افتراق و جدائی واقع ہو جائے گی لہٰذا ہر دور میں عترت میں سے کسی نہ کسی ایک فرد کا موجود ہونا ضروری ہے تاکہ حدیث قیامت تک سچی ثابت رہے.

ابن حجر کہتے ہیں: “وفی احادیث الحثّ علی التمسک بِاَهلِ البیت اشارةٌ اِلٰی عدمِ اِنقِطاعِ متأ هل منهم للتمسک به الی یوم القیامة کما ان الکتاب العزیز کذالک ولهذا کانوا اماناً لأ هْل الارض ” یہ حدیث اہل بیتؑ میں سے ان افراد کے قرآن کریم سے عدم جدائی کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ جو قیامت تک تمسک کی اہلیت رکھتے ہیں. جیسا کہ قرآن کریم کی بھی یہی خصوصیت ہے، اسی لئے روایات میں مروی ہے کہ اہل بیتؑ اھل زمین کے لئے امان ہیں(۱۲۴) .

نیز سمھودی شافعی نے بھی انہی خیالات کا اظہار کیا ہے(۱۲۵) .

۶. اعلمیت اہل بیتؑ

ابن حجر کہتے ہیں: “کلٌّ منهما معدنُ العلوم اللدنیة والحِکم العلیة و الأ حکام الشریعة ”، قرآن و عترت دونوں ہی علوم لدنی ، عالی حکمتوں اور احکام شرعی کا سرچشمہ ہیں(۱۲۶) .

۷. عصمت اھل بیتؑ

حدیث ثقلین سے استفادہ کئے جانے والے جملہ امور میں سے ایک عصمت اہل بیتؑ ہے جس کے تحت ان کا ہر قول و فعل بعنوان سنتِ نبیؐ حجت ہے، اور ان کی اس عصمت و حجیت کو حدیث کے مختلف پہلوؤں سے اخذ کیا جا سکتا ہے. مثلاً:

(الف) معیت قرآن و عترت:

قرآن کریم ہی کی آیات اس امر کی وضاحت کر رہی ہیں کہ اس میں کسی بھی راستہ سے کوئی بھی باطل داخل نہیں ہو سکتا. بس اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کسی کی جانب سے قرآن کریم کی کسی بھی طرح کی مخالفت چاہے عمداً یا سہواً یا ازروئے غفلت اس سے جدائی و علیحدگی شمار ہو گی.

استاد توفیق ابو علم مصری کہتے ہیں:

“ اِنَّ النَّبِی قَرَنَهُم بِکتابِ اللهِ العزیزِ الَّذی ( لایاتیه الباطل من بین یدیه و لامن خلفه) فلا یفترق احدهما عن الآخر، ومن الطبیعی اَنَّ صُدُورَ آیةِ مخالفةِِ لِاَ حکامِ الدین تَعُدُّ اِفتِراقاً عن الکتاب العزیز، وقد صَرَّحَ النبی بِعَدِمِ اِفتِراقِهما حتّی یرِدا عَلیّ الحوض، فدلا لته علی العصمة ظاهرة جلیة، وقد کرّر النبی هذا الحدیث فی مواقف کثیرة، لِاَنَّه یَهدِفُ اِلٰی صِیانَةِ الاُمَّة والمحافظة علیٰ اِستقامتها وعدم انحرافها فی المجالات العقائد یة و غیرها”

پیغمبر اکرمؐ نے اپنے اہل بیتؑ کو قرآن کریم کا ہمراہ قرار دیا ہے. کتاب وہ ہے جس میں کسی باطل کا نفوذ نہیں ہو سکتا اور یہ ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہونگے اور یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی قسم کا دین و شریعت کے مخالف عمل کا صادرہونا، قرآن کریم سے جدائی کی علامت ہے جبکہ پیغمبر اکرمﷺ نے قرآن و عترت میں عدم افتراق و جدائی کی خبر دی ہے. بنا بریں یہ حدیث عصمت اہل بیت کی روشن دلیل ہے.

پیغمبر اکرمؐ نے مختلف مقامات پر یہ حدیث اس لئے بیان کی ہے تاکہ مسلمانوں کی حفاظت کا انتظام کر دیں اسی لئے آپﷺ نے مختلف امور میں گمراہی سے بچنے کے لئے قرآن و اہل بیتؑ سے متمسک رہنے کی تاکید فرمائی ”(۱۲۷)

(ب) مسلم بن حجاج وغیرہ کی روایت کے مطابق حضورؐ سرور کائنات نے قرآن و عترتؑ کے بارے میں وصیت و تاکید کرنے سے قبل فرمایا: “اَنا بشرٌ یُو شَکُ اَن یاتِی رسولُ رَبِّی فاُجِیب ” میں وہ بشر ہوں جس کی طرف فرستادۂ خدا آنے والا ہے اور میں اس کی آواز پر لبیک کہنے والا ہوں. اس جملہ کا بعنوان مقدمہ بیان کرنا اس امر کی علامت ہے کہ نبی کریمﷺ اپنے بعد ایسے مرجع دینی کا اعلان کرنا چاہتے ہیں جو تا قیامت ان کے وظائف و ذمہ داری کو پورا کرتا رہے لہٰذا شرعی ذمہ داریوں کو کماحقہ پورا کرنے کے لئے جا نشین نبیﷺ کو خود آنحضرتؐ کی طرح عصمت سے بہرہ مند ہونا چاہیۓ.

(ج) بعض روایات ثقلین میں قرآن کریم کے بارے میں یہ عبارت بھی نقل کی گئی ہے. “حبلٌ مَمدُودٌ مِنَ السماءِ اِلٰی الأرضِ ” قرآن اس رسیمان کا نام ہے جو آسمان سے زمین کی طرف آویزاں ہے. آسمان، محلِ نزول ِ رحمت ہے اسی لئے دعا کرتے وقت آسمان کی طرف ہاتھوں کوبلند کرنے کا حکم دیا گیا ہے.

قرآن کریم رسیمان و زنجیر کی مانند خدا اور بندے کے مابین رابطہ کا ذریعہ ہے.جو بھی اس سے تمسک کرے گا یقینا معارف الٰہی سے بہرہ مندہو گا.عترتؑ پیغمبرؐ نیز ایسے ہی ہیں، جو بھی ان کی اقتداء کرے گا منبع فیض و کمال تک رسائی حاصل کرے گا نتیجتاً دنیا و آخرت کی سعادت سے بہرہ مند ہو گا یہ بات قرآن کریم کی طرح اہل بیتؑ میں عصمت کے ضروری ہونے کی علامت ہے.

خلاصہ کلام:

یہ ہے کہ ہم اس حدیث شریف سے اس طرح استدلال کر سکتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ﷺنے اپنی عترت و اہل بیتؑ کو قرآن کریم کا شریک قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ دونوں ہرگز ہرگز ایک دوسرے سے کبھی جدا نہ ہونگے اور مسلمانوں کی نجات صرف ان دو گرانقدر چیزوں سے متمسک رہنے سے وابستہ ہے.

سب جانتے ہیں کہ قرآن کریم نور، شفاء، رحمت، تبیان، بیان فصل الخطاب، موعظہ اور ہدایت جیسی صفات کا حامل ہے، اگر قرآن کریم کا شریک ان عظیم صفات سے عاری ہو تو پھرقرآن کا اسے شریک اور راہ نجات قرار دینا معقول نہیں ہے، کیا نور و ظلمت باہم صراطِ حق ہو سکتے ہیں؟ کیا تبیان و بیان غیر عالم کے ساتھ ہدایت کر سکتے ہیں؟

بنا بریں جس طرح کتاب الٰہی خلق پر حجت ہے، عترت و اہل بیتؑ پیغمبرؐ بھی خلق پر حجت ہیں اور ان کا ہر قول و فعل تمام مسلمانوں کے لئے دلیل و سند ہے.

مصداق اہل بیتؑ اور چند شبہات کے جوابات

اب جبکہ احادیث کی روشنی میں یہ بات طے ہو چکی ہے کہ عترت و اہل بیتؑ کا ہر قول و فعل قرآن کریم اور سنت نبیؐ کی طرح حجت ہے اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اہل بیتؑ نبیؐ سے کون لوگ مراد ہیں؟

مختلف دلائل کی روشنی میں ثابت کیا جا سکتا ہے کہ عترت و اہل بیتؑ سے مراد حضورؐ سرور کائنات کےبارہ برحق جا نشین ہیں اور شیعہ جن کی ولایت و امامت پر ایمان و یقین رکھتے ہیں.

(۱) حضرت علیؑ مصداق اہلبیتؑ

حضرت علیؑ اس حدیث شریف میں ذکر شدہ اہل بیت کے یقینی و قطعی مصداق ہیں. اگر ایک امام کے قول و فعل کی حجیت کو ثابت کر دیا جائے تو دیگر ائمہ اہلبیتؑ کی سنت کی حجت کو پہلے امام کے اقوال کے ذریعے ثابت کیا جا سکتا ہے اگرچہ دیگر ائمہ علیہم السلام کے اسماء مبارکہ بھی نبی کریمﷺ کے کلام مبارک میں بیان کر دیئے گئے ہیں. مثلاً حضرت علیؑ کے بارے میں حضورؐ سرور کائنات نے فرمایا: “علیٌّ مَعَ القُرآن و القرآنُ مَعَ علیِِّ لن یَفتَرِقا حتَّی یَرِدا علیَّ الحوض ”؛ علیؑ قر آن کے ساتھ ہیں اور قرآن علیؑ کے ساتھ ہے یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے(۱۲۸) .حاکم نے اس حدیث کو صحیح الاسنادقرار دیا ہے.

( ۲) مصداقِ اہلِ بیتؑ صرف مخصوص افراد ہیں

حدیث ثقلین میں اہل بیتؑ و عترت سے صرف مخصوص و معین افراد ہی مراد ہیں۔ انمیں امّہات المومنین، آل عقیل، آل عباس، آل جعفر یہاں تک کہ تمام آل علیؑ بھی شامل نہیں ہیں؛ کیونکہ:

۱ ۔ آل عقیل، آل عباس، آل جعفر اور امّہات المومنین(۱۲۹) نے خود اس قسم کا کوئی دعویٰ نہیں کیا ہے. کسی ایک وایت میں بھی یہ بات دیکھنے میں نہیں آتی ہے کہ حضرت علیؑ کی نسل کے گیارہ افراد کے علاوہ کسی ایک نے اپنے آپ کو ثقلین کا ایک فرد قرار دیا ہو. البتہ یہ ممکن ہے کہ انہوں نے اہلِ بیتؑ یعنی پیغمبراکرمؐ کے گھرانے سے اپنے کو منسوب کرنے کا دعویٰ کیا ہو؛ لیکن کسی نے بھی اپنے کو قرآن کا شریک قرار نہیں دیا ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے معارف قرآن سیکھنے کے لئے دوسرں کے سامنے زانوئے ادب طے کئے.

۲. اگر یہ سب کے سب قرآن کریم کے شریک ہوتے کہ جن کی سیرت و سنت سے تمسّک ذریعہ نجات و کامیابی ہے تو پھر انمیں آپس میں اختلاف نہ پایا جاتا کیونکہ شریک قرآن بھی قرآن کی طرح اختلاف اور رجس و پلیدی سے مصون و محفوظ ہیں.

علامہ مناوی اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں: اصحاب کساء ہی اہلِ بیتؑ پیغمبرؐ ہیں جنہیں خداوند عالم نے ہر قسم کے رجس و پلیدی سے پاک قرار دیا ہے(۱۳۰) .

۳. قطعا نبی کریمؐ نے اس حدیث کے بیان کے بعد اہل بیتؑ کا تعارف بھی کروایا ہے تاکہ کسی کے ذہن میں کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہونے پائے کیونکہ حضورﷺ اس موقع پر نجات کا ذریعہ بیان کررہے ہیں اگر اہل بیتؑ کا تعارف نہ کرواتے تو لوگ اس لفظ سے سوءِ استفادہ کرسکتے تھے؛ اسی لئے جب یہ لفظ سننے کے بعد بعض اصحاب نے سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا: یہ علیؑ و حسنؑ و حسینؑ اور نسل حسینؑ کے ۹ امام ہیں جو قیامت تک کا سلسلہ ہے(۱۳۱) .

احادیث خلفائے اثناعشر درحقیقت عترت و اہل بیتؑ کے مکمل مصادیق ہی کو بیان کر رہی ہیں جنہیں فریقین کے بزرگ علما ء نے نقل کیا ہے فریقین نے جابر بن سمرہ سے بھی روایت نقل کی ہے جس کے مطابق تمام خلفائے پیغمبرؐ قریش سے ہیں اور اس حدیث کے نبی کریمؐ سے صدور پر اتفاق نظر ہے(۱۳۲) . جبکہ قندوزی کے نقل کے مطابق وہ سب کے سب بنی ہاشم سے ہونگے، اسی لئے سبط ابن جوزی نے حدیث ثقلین کو “ ذکر الأئمہ ” کے عنوان سے پیش کیا ہے(۱۳۳) .

امام حسنؑ فرماتے ہیں:“نَحنُ حِزبُ اللهِ المُفلِحُونَ وَ عترةُ رسوله المطهرون و اهلُ بیته الطیبون الطاهرون واحدُ الثقلینِ الذین خَلَّفَهُما رسولُ الله فیکم ”، ہم اللہ کا لشکر اور اس کا گروہ ہیں جو فلا ح یافتہ اور رستگار ہیں، ہم ہی عترتؑ رسولؐ ہیں جنہیں ہر رجس سے پاک رکھا گیاہے اور ہم ہی اہل بیتؑ طیب و طاہر ہیں جنہیں ثقلین کا ایک جزء قرار دیا گیا ہے اور رسولِؐ اسلام نے ہمیں تمہارے درمیان چھوڑا ہے(۱۳۴) ..

بعض احادیث ثقلین میں حضرت عمر کے اس سوال کو پیش کیا گیا ہے: “ جب حضورؐ سرور کائنات نے حدیث ثقلین بیان فرمائی تو حضرت عمر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے، یا رسول اللہ! کیا آپ کے تمام اہلبیتؑ سے تمسک کریں؟ حضور اکرمؐ نے فرمایا:“ لا ولکن اوصیائی منهم اَوَّلُهُم اَخی و وزیری و وارثی و خلیفتی فی امتی و ولیُّ کلِو مؤمن بعدی، هو اَوَّلُهُم ثُمَّ ابنی الحسن ثم ابنی الحسین ثم تسعةٌ مِن وُلدِ الحسین واحدٌ بعدَ واحدِِ” ، ہرگز نہیں، بلکہ میرے اہل بیتؑ میں سے جو میرے اوصیاء ہیں. جن میں سے اول میرا بھائی، وزیر، وارث اور امت میں میرا خلیفہ ہے، اور ہر مؤمن کا ولی ہے، اس کے بعد میرا بیٹا حسن، پھر میرا بیٹا حسین اور پھر اس کی نسل سے یکے بعد دیگرے ۹ فرزندہیں(۱۳۵)

فرائد السمطین(۱۳۶) وغیرہ نے ایسی ہی دیگر روایات بھی نقل کی ہیں جن میں حضورؐ سرور کائنات نے خلفائے اثناءعشر کے تمام اسماء بیان کرکے مکمل تعارف کروادیاہے. البتہ اختصار کی وجہ سے تمام ان روایات کے ذکر سے قطع نظر کر رہے ہیں.

۴. اگر اہل بیتؑ کا مصداق معین کرنے میں علمائے اسلام میں اختلاف پایا جاتا ہے تو کم از کم جو چیز قدرمُتَیَقَّن ہے اور جن افراد کے اہل بیتؑ ہونے پر تمام علماء اسلام کا اتفاق نظر آتا ہے وہ اصحاب کساءاور اصحاب مباہلہ ہیں جن کے بارے میں خود نبی کریمؐ نے فرمایا ہے: ''اَللّهم هؤلاءِ اهلی (۱۳۷) .پروردگار یہ میرے اہل ہیں".

نیز نبی کریمﷺ نے اصحاب کساء کے علاوہ دیگر ائمہ معصومینؑ کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

هم مع القرآن و القرآن معهم لا یفارقونه ولا یفارقهم حتی یَرِدُوا عَلَیَّ الحوض ”؛ یہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن ان کے ساتھ ہے، نہ یہ قرآن سے جدا ہونگے اور نہ ہی قرآن ان سے جدا ہو گا یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے(۱۳۸) .

۳. علمائے امت مصداق عترت و اہل بیت

حقائق سے پردہ پوشی کرنے والے بعض افراد اس حدیث کی سند کے بارے میں نہایت تحقیق و جانچ پڑتال کرنے کے بعد کسی صورت اس کے صحیح السند ہونے کا انکار تو نہ کر سکے مگر انحرافی فکرو خیالات کے تابع ہونے کی وجہ سے اس کے معنی میں تحریف و تبدیلی کرنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں. مثلاً جناب ناصر الدین البانی صاحب نہایت جانچ پڑتال کرنے کے بعد اس حدیث کو صحیح السند قرار دینے پر مجبور ہونے کے با وجود اس کے معنی میں تحریف کی سعی لاحاصل کرتے ہوئے کہتے ہیں:

“ آیت تطہیر کی بناء پر، عترت و اہل بیت سے مراد یا امھات المؤمنین ہیں یا امت کے صالح علماء ہیں کہ جو کتاب و سنت سے متمسک ہیں”(۱۳۹) .

ظاہراً سب سے پہلے یہ نظریہ قاضی عبد الجبار معتزلی نے اپنی کتاب المغنی میں پیش کیا ہے.

ان کے جواب میں یہی کافی ہے:

۱. آیت تطہیر کے ذیل میں ثابت کیاجا چکا ہے کہ اہل بیت صرف پنجتنؑ اصحاب کساء ہی ہیں جن میں ہرگز ازواج نبی کریمؐ شامل نہیں ہیں.

۲.عترت واہل بیتؑ پیغمبرؐ سے علمائے امت کے معنی و مراد لینا لغت و اصطلاح کی صریح مخالفت ہے. کون کہتا ہے کہ عترت و اہل بیت سے مراد علمائے امت ہیں، اس قسم کا بیان و نظریہ گویا ایک قسم کی تفسیر بالرائے ہے جس کی شدید مذمت کی گئی ہے.

۳. جس طرح بعض آیات دیگر آیات کی تفسیرکرتی ہیں؛ روایات بھی دیگر روایات کی وضاحت و تفسیر کرتی ہیں. حدیث ثقلین میں اگرچہ مصداق کا اعلان نہیں کیا گیا ہے لیکن احادیث کساء، اور آیت مباہلہ کی تفسیر میں وارد ہونے والی روایات میں ان کے مصداق کو روشن کردیا گیا ہے.

قرآن و اہل بیتؑ یا قرآن و سنت؟

جب ہم روایات و احادیث کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں دو طرح کی روایات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کچھ روایات وہ ہیں جن میں قرآن کریم کے ساتھ ساتھ اہل بیتؑ سے متمسک رہنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ بعض روایات میں قرآن کے ساتھ ساتھ سنت نبویؐ سے تمسک کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا اہل بیتؑ سے تمسک کا انکار کرنے والوں نے ان روایات کا سہارا لیاہے مثلاً:

محمد ابو زھرہ کہتے ہیں: “ وہ روایات جن میں قرآن و سنت سے متمسک رہنے کی تاکید کی گئی ہے، ان روایات کی نسبت کہ جن میں قرآن و عترت سے متمسک رہنے کا حکم دیا گیا ہے، زیادہ مؤثق اور قابل اطمینان ہیں(۱۴۰) .”

ان کے جواب میں ہم کہنا چاہیں گے کہ:

۱. روایت “ کتاب اللہ و سنتی ” کی سند ضعیف و غیر معتبر ہے. یہ حدیث اہل سنت کے آٹھ علماء نے نقل کی ہے جن میں تمام روایات کی اسناد ضعیف اورقابل اشکال ہیں.مثلاً: مالک بن انس(۱۴۱) اور ابن ھشام(۱۴۲) نے سند کے بغیر نقل کیا ہے.

حاکم نیشا پوری نے اسے دو اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے جن میں سے ایک ابن عباس اور دوسری ابو ھریرہ پر ختم ہوتی ہے(۱۴۳) .

ابن عباس کے سلسلہ سند میں اسماعیل بن ابی اویس ہے جو اکثر علمائے رجال کے نزدیک ضعیف ہے.

ابو ھریرہ کی روایت میں صالح بن موسیٰ طلحی کوفی ہے جسے علمائے رجال نے ضعیف قرار دیا ہے(۱۴۴) .

ابو بکربیہقی نے بھی اسے دو اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے جو ابن عباس اور دوسری ابو ھریرہ پر ختم ہو رہی ہے(۱۴۵) . حاکم نیشاپوری کی طرح ان کی سند بھی مخدوش وضعیف ہے کیونکہ ان میں بھی اول میں ابن ابی اویس اور دوسری میں صالح بن موسیٰ موجودہیں. اسی طرح ابن عبد البرقرطبی ،(۱۴۶) قاضی عیاض ،(۱۴۷) سیوطی(۱۴۸) اور متقی ہندی صاحب نے اس حدیث کو نقل کیا ہے جن کی سندضعیف ہے.

۲. روایات قابل جمع ہیں:

اگر حدیث “کتاب و سنتی” کی سند کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی ان دونوں قسموںمیں کوئی تنافی وتضاد نہیں ہو سکتا بلکہ انہیں اس طرح جمع کیاجا سکتا ہے کہ نبی کریمؐ نے در حقیقت تین چیزوں (قرآن و سنت اور اہل بیتؑ ) سے متمسک رہنے کا حکم فرمایا ہے. اور ابن حجر بھی اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں: “حضورؐ سرور کائنات نے تین چیزوں سے متمسک رہنے کا حکم فرمایا ہے، کتاب، سنت اور اہل بیتؑ میں سے کتاب و سنت کے عالم افراد اور اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ تینوں چیزیں قیامت تک باقی رہیں گی”(۱۴۹) .

نتیجہ

پس حدیث ثقلین کی جانچ پڑتال سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ نبی کریمؐ نے قرآن کے ساتھ اپنے اہل بیتؑ کو قرار دیا ہے جو قرآن کی طرح ہر خطاء و غلطی سے پاک ہیں لہٰذا ان کی سنت یعنی ان کا ہر قول و فعل عصمت کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے اور حجت ہے.

نیز حضورﷺ نے ان اہل بیتؑ کا مکمل تعارف کروادیا ہے کہ ان میں اول علیؑ پھر امام حسنؑ پھر امام حسینؑ اور پھر ان کی نسل کے ۹ امام ہی عترت و اہل بیت ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا.

۲. حدیث سفینہ

اہل بیتؑ کے قول و فعل اور سنت کی حجت کو ثابت کرنے والی جملہ احادیث میں سے ایک حدیث، حدیث سفینہ بھی ہے.

جنا ب ابو ذرؓ نے در کعبہ پر ہاتھ رکھ کر با آواز بلند لوگوں کو مخاطب کر کے کہا: لوگو! جومجھے جانتا ہے وہ تو جانتا ہی ہے لیکن جو مجھے نہیں جانتا وہ بھی پہچان لے کہ میں ابو ذر ہوں. میں نے نبی کریمؐ کو فرماتے ہوئے سنا:“مَثَلُ اهلِ بیتی مثل سفینةِ نوح مَن رَکِبَها نَجا و مَن تَخَلَّفَ عنها غَرَقَ” ؛(۱۵۰) میرے اہل بیتؑ کی مثال؛ کشتی نوحؑ جیسی ہے، جو اس کشتی میں سوار ہوجائے گا نجات پائے گا اور جو دور رہے گا ہلاک ہو جائے گا.

یہ حدیث ہمارے مدعا پر روشن دلیل ہے کیونکہ جن اہل بیت کی ہمراہی نجات اور تخلف و جدائی، ہلاکت ونابودی کا سبب ہے، خداوند عالم کی جانب سے انکے قول و فعل کو حجت ہونا چاہیۓ.اس سلسلہ میں دیگر بے شمار روایات مزید پیش کی جا سکتی ہیں جو ہمارے دعوے کی دلیل ہیں مثلاً:

انا مدینة العلم و علی بابها .(۱۵۱)

میں شہر علم اور علیؑ اس کا دروازہ ہیں

اهلُ بیتی امانٌ لِاُمَّتی مِنَ الاختلاف (۱۵۲) .

میرے اہل بیتؑ؛ امت میں اختلاف سے نجات کا ذریعہ ہیں.

____________________

۲۱ ۔ المعجم الوسیط:ابراہیم انیس،ص۳۱،دفتر نشرفرہنگ اسلامی،۱۴۱۲ھ

۲۲ ۔ العین: خلیل فراہیدی، ج۴،ص۸۹؛ لسان العرب، محمد ابن منظور، ج۱،ص۲۵۳

۲۳ ۔ المصباح المنیر: احمد فیومی،ص۳۳

۲۴ ۔ راغب اصفہانی، معجم مفرادات الفاظ القرآن،ص۲۵

۲۵ ۔ علی اکبر بابائی، مکاتب تفسیری، ص۶۷۔۶۸

۲۶ ۔ تہذیب الکمال، یوسف مزّی،ص۲۵۱، رقم۲۴۳۸

۲۷ ۔ سورہ آل عمران۳،آیت۷

۲۸ ۔ نہج البلاغہ:خ۱۴۴

۲۹ ۔ اصول کافی: کتاب الحجۃ، ج۱،ص۲۱۳، باب راسخون فی العلم

۳۰ ۔ سورہ رعد۱۳،آیت۴۳.

۳۱ ۔ شواہد التنزیل: عبید اللہ حسکانی، ج۱،ص۴۰۰۔۴۰۵،ح۴۲۲۔۴۲۷.

۳۲ ۔ الکشف و البیان: احمد ثعلبی، ج۵،ص۳۰۳۔۳۰۴.

۳۳ ۔ مناقب: احمد ابن مردویہ، ص۲۶۸، ح۴۱۵۔۴۱۶.

۳۴ ۔ مناقب: علی ابن مغازلی،ص۳۱۳۔ح۲۵۸.

۳۵ ۔ مناقب: محمد کوفی،ج۱، ص۲۱۷، ح۱۱۵.

۳۶ ۔ البرہان: سید ہاشم بحرانی، ج۲، ص۳۰۲.

۳۷ ۔ سورہ فاطر۳۵ آیت۳۲.

۳۸ ۔ تفسیر عیاشی: ج۳،ص۱۵، ح۲۴۰۳ و ص۷۹، ح۲۵۹۶؛ بصائر الدرجات: محمد صفار، ج۱، باب۲۱، ح۱۔۵؛ مناقب علامہ ابن شہر آشوب: ج۴، ص۱۳؛ مناقب،: احمد ابن مردویہ، ۳۱۱، ۵۱۰، ۵۱۱؛ شواہد التنزیل: عبید اللہ حسکانی، ج۲، ص۱۵۵، ۷۸۲.

۳۹ ۔ الکافی: کتاب الحجۃ،ج۱، ص۲۲۶، ح۷.

۴۰ ۔ عیون اخبار الرضا:ج۱، ص۲۲۸۔۲۲۹.

۴۱ ۔ ترجمہ و تفسیر قرآن علامہ ذیشان حیدر جوادی، ذیل آیت۳۲ سورہ فاطر(۳۵).

۴۲ ۔ سورہ مومن۴۰ آیت۵۳.

۴۳۔ سورہ نحل۱۶، آیت۴۳.

۴۴ ۔ سورہ انبیاء(۲۱) آیت ۲. "ما یأ تیهم مِن ذِکر مِن رَبِّهم مُحدَث اِلّا اسَمَعُوهُ وَ هُم یَلعَبون ؛ ان کے پاس ان کے پروردگار کے پاس سے کوئی نئی یاد دہانی نہیں آتی مگر یہ کہ کان لگا کر سن لیتے ہیں اور پھر کھیل تماشے میں لگ جاتے ہیں

۴۵ ۔ مفردات راغب:مادہ ذکر.

۴۶ ۔ سورہ طلاق(۶۵) آیت۱۰۔۱۱.

۴۷ ۔ سورہ نحل (۱۶) آیت۴۴.

۴۸ ۔ سورہ حجر (۱۵) آیت۹.

۴۹ ۔ سورہ انبیاء (۲۱) آیت ۱۰۵.

۵۰ ۔ سورہ انبیاء (۲۱) آیت۴۸.

۵۱ ۔ کیونکہ بیان حقائق کے سلسلہ میں اہل کتاب پر اعتماد کرنا درست نہیں ہے کیونکہ:۱۔ یہ لوگ حقائق سے پردہ پوشی کرتے ہیں (مائدہ/۱۵)، ۲۔ یہ لوگ دین میں غلو سے کام لیتے ہیں(مائدہ/۷۷)، ۳۔ مومنین سے انتقام کی فکر میں رہتے ہیں(مائدہ/۵۹)، ۴۔ وہ مومنین کو کافر بنانا چاہتے ہیں(بقرہ/۱۰۹)وغیرہ۔ اسی لئے بعض روایات میں اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر اہلِ ذکر سے مراد اہلِ کتاب ہیں تو وہ تو ہمیں اپنے دین کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اپنے دین کو اسلام سے افضل و برتر سجھتے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں: الکافی، ج۱، ص۲۱۱، ح۷ وغیرہ

۵۲ ۔ تفسیر عیاشی:ج۱، ص۸۵، ح۳۱ و ۳۶؛ عیون اخبار الرضا: ج۲، ص۸۷، ح۳۲، ۱۳۰، ۹؛ امالی: ج۲، ص۱۹۳، ح۴.

۵۳ ۔ اس سلسہ میں ہم سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۷ کے ذیل میں خاطر خواہ بحث کرچکے ہیں.

۵۴ ۔ کافی: ج۱، ص۲۱۰۔۲۱۲ و ص۲۹۳، ح۳؛ ج۸، ص۵، ح۱، ص۳۲ ذیل ح۵.

۵۵ ۔ مرآۃ العقول: علامہ مجلسی ، ح۲، ص۴۲۷، ۴۳۱.

۵۶ ۔ کافی: ج۱، ص۲۱۱، ح۷؛ مفاتیح الاسرار: عبد الکریم شہرستانی، ص۱۹۹.

۵۷ ۔ جامع البیان طبری: ج۸، ص۱۰۹ و ج۱۰، ص۵.

۵۸ ۔ شیخ صدوق، عیون اخبار رضاؑ، ج۱، ص۲۳۱۔۲۳۹.

۵۹ ۔ کافی: کتاب الحجۃ، ص۲۱۰، ح۱.

۶۰ ۔ تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۵۵۔۵۶.

۶۱ ۔ تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۵۵۔۵۶.

۶۲ ۔ تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۵۵۔۵۶.

۶۳ ۔ احقاق الحق: ج۳، ص۴۸۲، بر بنائے نقل تفسیر نمونہ ذیل آیت۴۴ سورہ نحل.

۶۴ ۔ شیعہ مصادر و منابع: بصائر الدرجات: ج۱، باب۱۹، مرحوم ابو جعفر صفار(۲/۲۹۰)؛ محمد جواد محمودی، ترتیب الامالی: ج۱، ص۳۴، ح۹۲ و ۶۰۹، ح۵۶۲ و ج۳، ح۱۰۹۷ و ص۲۰۸، ح۱۲۴۴ و ۱۲۵۵؛ تفسیر علی بن ابراہیم قمی، ج۲، ص۶۸؛ تفسیر عیاشی: ج۲، ص۱۱، ح۲۹۔۳۲؛ مصادر و منابع اہل سنت: عبد اللہ حسکانی، شواہد التنزیل، ج۱، ص۴۲۲۔۴۳۷، ح۴۶۶۴۵۹؛ احمد ثعلبی، الکشف و البیان، ج۶، ص۲۷۰؛ محمد ابن جریر طبری، جامع البیان، ج۸، ص۱۰۹ و ج۱۰/۵؛ محمد ابن سلیمان کوفی(از علمائے زیدیہ،چوتھی صدی ہجری) مناقب، ج۱، ص۱۵۱، ح۷۱.

۶۵ ۔ سورة احزاب (۳۳)، آیت ۳۳.

۶۶ ۔ تفسیر کبیر، ج ۲۵، ص ۲۰۹، تفسیر مراغی، ج ۲۲، ص ۷.

۶۷ ۔ تفسیر کبیر، ج ۲۵، ص ۲۰۹، تفسیر مراغی، ج ۲۲، ص ۷.

۶۸۔ تفسیر کبیر ، ج ۸ ص ۸۰.

۶۹ ۔ منھاج السنة، ج۵، ص۱۳

۷۰ ۔ صواعق محرقہ، ص۸۵

۷۱ ۔ صحیح مسلم، ج۷، ص۱۳۰

۷۲ ۔ صحیح ترمذی، ج۵، ص۶۵۶، کتاب المناقب

۷۳ ۔ موسوعة اطراف الحدیث النبوی، ج۱۰، ص۲۸، تفسیرالمیزان، ج۱۶، ص۳۱۷

۷۴ ۔ مجمع الزوائد: ج۹، ص۱۶۷؛ الدر المنشور: ج۵، ص۱۹۸؛

۷۵موسوعة اطراف الحدیث النبوی: ج۱۰، ص۲۸؛ المیزان: ج۱۶، ص۳۱۷

۷۶ ۔ تہذیب التہذیب: ج۶، ص۱۸۶؛ میزان الاعتدال: ج۲، ص۵۷۲؛ الجرح والتعدیل: ج۵، ص۲۵۴؛ الضعفاء و المتروکین: ج۲، ص۴۰

۷۷ ۔ آیت التطہیر: محمدمہدی آصفی، ص۶۴۔ ۵۴

۷۸ ۔ مزید معلومات کے لئے رجوع فرمائیں: اھل بیت فی آیة التطہیر جعفر مرتضیٰ عاملی درا الامیر للثقافة و العلوم، بیروت ۱۴۱۳ھ ق، ص۲۵۵، عربی و آیة التطہیر، محمد مہدی آصفی

۷۹ ۔ منابع اہل سنت: سنن ترمذی، ج۵، ص۶۲۲، ح۳۷۸۶ و ص ۶۶۳، ح۳۷۸۸؛ مستدرک: ج۳، ص۱۰۹۔۱۱۰؛ ابن ابی عاصم، السنة: ص۶۲۹، ح۱۵۵۳، ص۶۳۰، ج۱۵۵۸؛ ابن حنبل، مسند: ج۱۷، ص ۱۶۱، ح۱۱۱۰۴؛ سلیمان طبرانی، العجم الکبیر: ج۳،ص۶۵۔۶۷، ح ۲۶۷۸،۲۶۸۰،۲۶۸۱و ج۵، ص۱۶۶، ح۴۹۷۱؛ ابن حمید، مسند: ص۱۰۷، ۱۰۸، ح۲۴۰۔ مصادر شیعہ: شیخ صدوق، کمال الدین: ج۱، ص۲۳۴، باب۲۲، ح۴۴۔۶۲؛ محمد جواد محمودی، ترتیب المالی: ج۳، ص۱۵۸، ح۱۲۱۰ و ص۱۶۰۔۱۶۲، ۱۲۱۳۔۱۲۱۵ وغیرہ۔

۸۰ ۔ صحیح مسلم، ج۷، ص۱۲۲

۸۱ مسند احمد، ج۵ ص۱۸۱

۸۲ ۔ صحیح ترمذی: ج۵، ص۶۲۱

۸۳ ۔ مستدرک حاکم، ج۳، ص۱۱۰

۸۴ ۔ محمد جواد بلاغی، تفسیر آلاء الرحمن، ج۱، ص۴۴

۸۵ ۔ الصواعق المحرقة، ص۸۹،۹۰

۸۶ ۔ ایضاً، ص۱۲۴

۸۷ ۔ المطالب العالیہ: ابن حجر عسقلانی، ج۴، ص۵۶؛ صواعق محرقہ: ص۷۵؛ مجمع الزوائد: ج۹، ص۱۳۹؛ کنز العمال: ج۱۵، ص۱۴۴، طبع حیدر آباد

۸۸ ۔ ینا بیع المودہ، ص۳۴

۸۹ ۔ ایضاً

۹۰ ۔ ایضاً؛ حلیة الاولیاء، ج۹، ص۶۴؛ صحیح مسلم، ج۷، ص۱۲۲، ۱۲۳.

۹۱ ۔ مجمع الزوائد: ج۹، ص۱۶۳؛ احیاءالمیت در حاشیہ الاتحاف یحب الاشرف، ص۲۷۴.

۹۲ ۔ تذکرة الحفاظ، ج۳، ص۹۰۲؛ طبقات سبکی؛ ج۳، ص۲۷۶

۹۳ ۔ التقبید و الایضاح: ص۲۴؛ تدریب الراوی، ج۱، ص۱۴۴

۹۴ ۔ صحیح سنن ترمذی؛ ج۳، ص۵۴۳، ح۳۷۸۸؛ صحیح الجامع الصغیر: ج۱، ص۸۴۲،ح۲۴۵۷

۹۵ ۔ المطالب العالیة، ج۴، ص۶۵،۳۹۷۲

۹۶ ۔ الصواعق المحرقة: ج۲، ص۴۲۸، ح۲۴۵۷

۹۷ ۔ اتحاف الخیرة المھرة: ج۹، ص۳۷۹

۹۸ ۔ المعرفة و التاریخ: ج۱، ص۵۳۶

۹۹ ۔ ینا بیع المودة: ص۲۵۹

۱۰۰ ۔ سیر اعلام النبلاء، ترجمہ احمد بن حنبل

۱۰۱ ۔ مختصر التحفة، ص۵۲

۱۰۲ ۔ بربنائے نقل کنز العمال، ج۱، ص۳۷۹، ح۱۱۶۵

۱۰۳ ۔ بنابر نقل سیوطی در ''مسند علی'' ص۱۹۲، ح۶۰۵۰

۱۰۴ ۔ صحیح صفة صلاة النبیؐ، ص۲۹

۱۰۵ ۔ المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۱۱۸، ح۴۵۷۶

۱۰۶ ۔ تفسیر ابن کثیر: ج۴، ص۱۲۲؛ البدایة والنھایة: ج۵، ص۲۲۸

۱۰۷ ۔ السیرة النبویة، ج۴، ص۴۱۶

۱۰۸ ۔ محاسن التأویل: ج۴، ص۳۰۷

۱۰۹ ۔ مجمع الزوائد: ج۱، ص۱۷۰، ج۹، ص۲۵۶

۱۱۰ ۔ تھذیب اللغة: ج۲، ص۲۴۶

۱۱۱ ۔ جواہر العقدین: ص۲۳۶

۱۱۲ ۔ فیض القدیر

۱۱۳ ۔ الفتح الربانی بترتیب مسند احمد بن حنبل الشیبانی: ج۱، ص۱۸۶

۱۱۴ ۔ اھل البیت: ص۷۷۔۸۰

۱۱۵ ۔ تفصیلات کے لئے رجوع فرمائیں. کتاب ''مرجعیت دینی اہلبیتؑ و پاسخ بہ شبھات'' استاد علی اصغر رضوان، ص۱۲۵

۱۱۶ ۔ لسان العرب، مادۂ ثقل

۱۱۷ ۔ الصواعق المحرقة، ص۹۰

۱۱۸ ۔ قاموس المحیط، مادۂ ثقل،

۱۱۹ ۔ لسان العرب، مادۂ ثقل

۱۲۰ ۔ الصواق المحرقة، ص۹۰

۱۲۱ ۔ فیض القدیر:ج ۲، ص۱۷۴

۱۲۲ ۔ دراسات اللبیب

۱۲۳ ۔ المرقاة فی شرح المشکاة، ج۵، ص۶۰۰

۱۲۴ ۔ صحیح شرح العقیدة الطحاویة: ص۶۵۴

۱۲۵ ۔ الصواعق المحرقة، ص۱۴۹

۱۲۶ ۔ جواھر العقدین، ص۲۴۴

۱۲۷ ۔ الصواعق المحرقة، ص۱۴۹

۱۲۸ ۔ اھل البیت، فاطمة الزھراء، ص۷۵

۱۲۹ ۔ حاکم نیشا پوری، مستدرک، ج۳، ص۱۲۴؛ محمد ذھبی، تلخیص مستدرک، ج۳، ص۱۲۴؛ موفق خوارزمی، مناقب، ص۱۱۰؛ ابن حجر، الصواعق المحرقة، ص۱۲۲؛ حموئی، فرائد السمطین، ج۱، ص۱۷۷، ح۱۴۰؛ ابن مردویہ، مناقب، ص۱۱۷، ح۱۴۳، ۱۴۴؛ محمد جواد محمودی، ترتیب الامالی، ج۴، ص۲۱۶۔ ۲۱۸، ح۱۷۹۶۔ ۱۷۹۸ وغیرہ

۱۳۰ ۔ مسلم: ج۴، ص۱۸۷۳، ح۲۴۰۸

۱۳۲ ۔ فیض القدیر: ج۳، ص۱۴؛ تذکرۃالخواص: ۳۲۲

۱۳۳ ۔ حموئی، فرائدالسمطین، ج۱، ص۳۱۲۔۳۱۸، ح۲۵۰؛ ابن عقدہ، الولایۃ، ص۲۰۲؛ کمال الدین، ج۱، ص۲۴۴، ۲۴۵

۱۳۴ ۔ صحیح مسلم: ج۶، ص۱۰۲، ج۱۲، ص۴۴۳، صحیح بخاری: کتاب الاحکام، باب الامراء من قریش، ح۷۱۳۹؛ شیخ طوسی، الغیبة ص۸۸، نعمانی، ص۷۵.

۱۳۵ ۔ تذکرة الخواص: ص۳۲۲

۱۳۶ ۔ ایضاً، ص۱۹۸

۱۳۷ ۔ فرائد السطمین، ج۱، ص۳۱۷

۱۳۸ ۔ فرائد المسطین، ج۲، ص۳۱۲، ح۵۶۲ و ص۱۳۳، ح۴۳۱

۱۳۹ ۔ حاکم نیشا پوری، مستدرک، ج۳، ص۱۵۰، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، ج۴، ح۲۴۰۴، سنن الترمذی، ج۵، ص۲۲۵،ح ۲۹۹۹، ۶۳۸، ح۳۷۲۴، احمد نسائی، خصائص، ص۳۳،۳۴، ح۱۱، احمد بہیقی، سنن کبریٰ، ج۳، ص۶۳، احمد بن حنبل، مسند، ج۳، ص۱۶۰، ح۶۰۸.

۱۴۰ ۔ کافی: کتاب الحجۃ، ج۱، ص۱۹۱، ح۵؛ احمد بن عقدہ، الولایة: ص۱۹۹، حموئی، فرائد السمطین: ج۱، ص۳۱۴، ح۲۵۰

۱۴۱ ۔ سلسلة الاحادیث الصحیحة ، ج۴، ص۳۵۹، ۳۶۰

۱۴۲ ۔ الامام الصادق: ابو زھرہ، ص۲۰۱

۱۴۳ ۔ مؤطا مالک با شرح سیوطی: ج۲، ص۲۰۸

۱۴۴ ۔ سیرۂ ابن ھشام: ج۴، ص۶۰۳

۱۴۵ ۔ مستدرک حاکم، ج۱، ص۹۳

۱۴۶ ۔ تہذیب التہذیب، ج۱ ، ص۲۷۱، ج۴، ص۳۵۴

۱۴۷ ۔ السنن الکبریٰ ، ج۱۰، ص۱۱۴

۱۴۸ ۔ التھمید ابن عبدالبر

۱۴۹ ۔ الالماع فی ضبط الروایہ و تقیید السماع، ص۸، ۹

۱۵۰ ۔ مناوی، فیض القدیر، ج۳، ص۲۴۰

۱۵۱ ۔ الصواعق المحرقہ، ص۱۴۸

۱۵۲ ۔ المستدرک: ج۳، ص۱۰۵؛ کنز العمال: ج۶، ص۲۱۶، ص۲۵۰؛ حلیة الاولیاء: ج۴، ص۳۰۶