روش بیان احکام

روش بیان احکام0%

روش بیان احکام مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

روش بیان احکام

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مولانا سید بہادر علی زیدی قمی
زمرہ جات: مشاہدے: 4762
ڈاؤنلوڈ: 1612

تبصرے:

روش بیان احکام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 27 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 4762 / ڈاؤنلوڈ: 1612
سائز سائز سائز
روش بیان احکام

روش بیان احکام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

روش بیان احکام

تالیف:

سید بہادر علی زیدی

ولایت اکیڈمی سندھ پاکستان

 نام کتابٍ:روشِ بیانِ احکام

 تألیف: مولانا سید بہادرعلی زیدی قمی

 نظر ثانی: حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر سید نسیم حیدر زیدی

 کمپوزنگ: سن شائن کمپوزنگ سنٹر

 طبع اول: ۲۰۱۴

 تعاون:

 ناشر: ولایت اکیڈمی سندھ پاکستان

تشکر و امتنان

خداوند عالم کی رحمت کا سلسلہ ازل تا ابد جاری و ساری رہنے والا ہے۔ لائق تحسین ہیں وہ لوگ جو شب و روز دین خدا کی خدمت میں زندگی بسر کررہے ہیں۔

ادارہ ولایت اکیڈمی سندھ پاکستان بھی دین الہی کی خدمت کرنے کا عزم و ارادہ رکھتا ہے لہذا مکتب اہل بیت کی تبلیغ و ترویج میں مصروف عمل ہے اسی عزم و ارادہ کے پیش نظر صاحب قلم حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا جناب سید بہادر علی زیدی قمی صاحب کی تالیف کردہ کتاب روش بیان احکام جسے دنیا کی مختلف زبانوں میں کتب نشر کرنے والےبین الاقوامی ادارہ رسالت غدیر نے زیور طباعت سے آراستہ کرنے میں ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے۔ لہذا میں ان تمام افراد کا تہہ دل سے مشکور و ممنون ہوں بالخصوص رسالت غدیر کے مسئول جناب محمد قربان پور اور ان کے برادرا ن کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ نیز جناب ہادی منصوری کا مشکور و ممنون ہوں کہ جن کا مسلسل تعاون رہا ہے۔

آخر میں خداوند عالم سے دست بدعا ہوں کہ جن افراد نے اس کتاب کو آپ کے ہاتھوں تک پہنچانے میں کسی بھی قسم کا تعاون کیا ہے، انکی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔

والسلام

شیخ کاظم حسین معصومی

ولایت اکیڈمی سندھ پاکستان

گفتار مقدم

بسم الله الرحمن الرحیم الحمد لِلّٰه ربِّ العالَمِین، الحمدُ لِلّٰهِ الواحِدِ الاَحَد، الفَرد الصمد، الذی لم یَلد وَ لَم یولد و لم یکن له کفواً اَحَد و الصلاة علی محمد عبده المجتبی و رسوله المصطفیٰ، اَرسله اِلیٰ کافَّة الوری، بشیراً و نذِیراً و داعیاً اِلیٰ الله باذنه و سراجاً منیراً و علیٰ اهل بیۡتهِ أئمّة الهدیٰ و مصابیح الدجیٰ، الذین اَذهبَ الله عنهم الرجس و طهَّرهم تطهیرا و السلام علیٰ من اتبع الهدیٰ

یوں تو مبلغین حضرات شب و روز احکام اسلامی کی تبلیغ و ترویج میں مصروف عمل ہیں۔ لیکن متعدد مواقع ایسے دیکھنے میں آتے ہیں کہ مبلغین حضرات یہ ہیں کہ مسجد میں حاضرین کی تعداد یا نہایت کم ہے یا کم ہوتی جارہی ہے، خصو صاً نوجوانوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ اس بنا پر وہ مبلغین فکر مند اور پریشان ہوجاتے ہیں کہ کیا کیا جائے کہ اس بحرانی صورت حال کا خاتمہ کیا جاسکے؟

حقیقت یہ ہے کہ ان کی پریشانی کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ یہ سوچتے ہیں کہ کیا بیان کیا جائے؟ کیسے بیان کیاجائے؟ اور مسائل شرعی بیان کرنے کے لئے احکام کو کس طرح تنظیم و ترتیب دیا جائے؟

لہذا اس صورت حال کے پیش نظر خاص اس کتاب کو قلمبند کیا گیا ہے۔

میں مشکور و ممنون ہوں بالخصوص ولایت اکیڈمی سندھ پاکستان کے سرپرست جناب مولانا شیخ کاظم حسین معصومی صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی کاوشوں کی وجھ سے یہ کتاب آپ کے ہاتھوں تک پہنچے میں دعا کرتا ہو خدا انکی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔

امید کرتا ہوں مبلغین حضرات یقیناً اس کاوش سے بہرہ مند ہوں گے۔ آخر میں خداوند عالم سے بحق محمدؐ و آل محمدؑ طالب دعا ہوں کے اہل حق کی نصرت و مدد فرمائے۔

و السلام احقر العباد

بہادر علی زیدی

پہلی نشست

بیان احکام

احکام سیکھنے اور بیان کرنے کی ضرورت و اہمیت

قرآن کریم، علماء و مبلغین کی ذمہ داری کو اِس انداز سے واضح طور پر بیان کر رہا ہے:

( وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ ) (۱) ؛

صاحبان ایمان کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ سب کے سب جہاد کے لئے نکل پڑیں تو ہر گروہ میں سے ایک جماعت اس کام کے لئے کیوں نہیں نکلتی ہے کہ دین کا علم حاصل کرے اور پھر جب اپنی قوم کی طرف پلٹ کر آئے تو اسے عذاب الٰہی سے ڈرائے کہ شاید وہ اسی طرح ڈرنے لگیں۔

اس آیت کریمہ سے یہ بھی ظاہر ہوجاتا ہے کہ جہاد سے قطع نظر ایک دوسرا سفر بھی واجب ہے کہ جہاد میں نہ جانا ہو تو علم دین حاصل کرنے کے لئے سفر کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو تعلیم دیں اور انھیں عذاب الہٰی سے ڈرائیں کہ یہ بھی ایک جہاد ہے اور جہاد ہی کی طرح واجب ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے:

"قَرَأْتُ فِي كِتَابِ عَلِيٍّ علیه السلام إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَأْخُذْ عَلَى الْجُهَّالِ عَهْداً بِطَلَبِ الْعِلْمِ حَتَّى أَخَذَ عَلَى الْعُلَمَاءِ عَهْداً بِبَذْلِ الْعِلْمِ لِلْجُهَّالِ لِأَنَّ الْعِلْمَ كَانَ قَبْلَ الْجَهْلِ "(۲)

"میں نے کتاب علی علیہ السلام میں پڑھا ہے کہ خداوند عالم نے جُہلاء سے اس وقت تک علم حاصل کرنے کا عہد نہیں لیا جب تک کہ علماء سے جہلاء کو علم عطاء کرنے کا عہد نہ لے لیا۔ کیونکہ علم، جہل سے پہلے تھا"۔

نیز اکثر فقہاء و مراجع عظام کی توضیح المسائل کے آغاز میں یہ عبارت دیکھنے میں آتی ہے: "جن مسائل کی انسان کو عموماً ضرورت پڑتی ہے ان کا سیکھنا واجب ہے۔(۳) "

تعلیم احکام کی جزاء

پیغمبر اکرم ﷺ سے روایت نقل کی گئی ہے:

" اِنَّما مُعَلِّمَ الْخَيْرِ يَسْتَغْفِرُ لَهُ دَوَابُّ الْأَرْضِ وَ حِيتَانُ الْبَحْرِ وَ كُلُّ ذِي رُوحٍ فِي الْهَوَاءِ وَ جَمِيعُ أَهْلِ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ "(۴)

"نیک معلم کے لئے زمین کے چوپائے، سمندر کی مچھلیاں، ہوا میں موجود تمام ذی روح اور بلکہ تمام اہل زمین و آسمان استغفار کرتےہیں"۔

نیز پیغمبر اکرم ﷺ سے روایت نقل کی گئی ہے:

"أَلَا فَمَنْ كَانَ مِنْ شِيعَتِنَا عَالِماً بِعُلُومِنَا وَ هَذَا الْجَاهِلُ بِشَرِيعَتِنَا الْمُنْقَطِعُ عَنْ مُشَاهَدَتِنَا يَتِيمٌ فِي حِجْرِهِ أَلَا فَمَنْ هَدَاهُ وَ أَرْشَدَهُ وَ عَلَّمَهُ شَرِيعَتَنَا كَانَ مَعَنَا فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى "(۵)

"یاد رکھوہمارے شیعوں میں سے جو شخص ہمارے علوم سے آشنائی رکھتا ہے اگر وہ ایسے افراد کی ہماری شریعت کی طرف ہدایت کرتا ہے، جنکی رسائی ہم تک نہیں ہے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے کسی یتیم کی اپنے سایہ عاطفت میں سر پرستی کا فریضہ انجام دیا ہو، یاد رکھو جو شخص ایسے افراد کی رشد و ہدایت اور تعلیمِ شریعت کا بندوبست کرے گا وہ ہمارے ساتھ بہترین و برترین مقام و مرتبہ پر ہوگا"۔

تعلیم بغیر علم ممنوع ہے

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپؑ نے فرمایا:

"مَا عَلِمْتُمْ فَقُولُوا وَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَقُولُوا :اللَّهُ أَعْلَم "(۶)

جو تم جانتے ہو، بیان کردو؛ لیکن جس چیز کے بارے میں تمہیں علم نہیں ہے کہہ دو کہ خدا بہتر جانتا ہے۔

بلکہ اسی سلسلہ کی بعض روایات میں تو یہ بھی مرقوم ہے کہ صاف کہہ دو کہ مجھے نہیں معلوم۔

"روشِ بیانِ احکام" سیکھنے کی ضرورت

بیشک معارف دین کا ایک خطیر حصہ احکام شرعی اور فقہی مسائل پر مشتمل ہے اور تاریخ کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ مدارس و حوزہ ہائے علمیہ میں طلاب کرام کا زیادہ تر وقت فقہ کو سیکھنے اور سمجھنے میں صرف ہو جاتا ہے جو حوزہ ہائے علمیہ کا امتیاز اور ایک بہترین عمل ہے۔

لیکن حصول علم کے بعد دیگر طلاب اور عوام تک منتقل کرنے کا مرحلہ آتا ہے کیونکہ فقہ کو لوگوں کی زندگی مرتب کرنے کے لئے معین کیا گیا ہے لہذا فقہی مسائل سیکھنے کے بعد انھیں عوام تک پہنچانا بھی ضروری ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں تک یہ علوم کس طرح منتقل کئے جائیں؟ کیا اس کے لئے کوئی خاص طریقہ اور روش اختیار کرنی چاہیے۔ یقیناً جواب مثبت ہے۔

لہذا لوگوں کو فقہی تعلیم دینے سے قبل خود طلاب و مبلغین حضرات کو مناسب روش و طریقہ سیکھنا چاہیے کیونکہ مبلغان علوم اسلامی و مروّجان احکام کے تجربات کی روشنی میں یہ امر مسلم ہے کہ تبلیغ میں صرف فقہ کا سیکھ لینا کافی نہیں بلکہ مبلغ کو بہترین روش سے بھی آشنا ہونا چاہیے۔

ذیل میں دیئے گئے چند سوالات کے ذریعے روش بیان احکام سیکھنے کی ضرورت واضح ہوجاتی ہے،مثلاً

۱. درس احکام سے لوگوں کی دوری کی وجہ کیا ہے؟

۲. عام طور پر درس احکام خستہ کنندہ کیوں ہوتا ہے؟

۳. درس احکام کو کس طرح جذّاب و دلچسپ بنایا جاسکتا ہے؟

۴. بچوں اور نوجوانوں کے لئے کون سے مسائل بیان کرنے چاہئیں؟

۵. مختلف افراد خصوصاً بچوں کے لئے مسائل بیان کرنے کا کون سا طریقہ استعمال کرنا چاہیے؟

۶. لوگوں کو کس طرح احکام سیکھنے کی طرف متوجہ کیا جائے؟

۷. مراجع عظام کے فتاویٰ میں تفاوت کی صورت میں کیا کرنا چاہیے، اور ایسی صورت میں کس مرجع کے مسائل بیان کرنا چاہئیں؟

۸. فقہ کی مشکل اصطلاحات اور پیچیدہ عبارات کس طرح عوام کے سامنے بیان کی جائیں؟

۹. فلسفۂ احکام کے بارے میں سوالات کے کس طرح جوابات دیئے جائیں؟

۱۰. اپنے اندر جواب دینے کی مہارت کس طرح پیدا کی جائے؟

۱۱. مسائل پر کس طرح تسلط حاصل کیا جائے، کس طرح مطالعہ کیا جائے کہ مسائل کی جزئیات تک ذہن میں محفوظ رہ جائیں؟

۱۲. احکام کو بہترین منظم اور تقسیم کرنے کا طریقہ اور روشن کیا ہے؟

سوالات

۱. قرآن و سنت کی روشنی میں احکام سیکھنے اور بیان کرنے کی اہمیت و ضرورت بیان کریں؟

۲. دوسروں کو احکام سکھانے کا کیا فائدہ ہے؟

۳. بغیر علم، بیان کرنے کے بارے میں معصوم علیہ السلام نے کیا فرمایا ہے؟

۴. روش بیان احکام سیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟

____________________

۱ ۔سورہ توبہ (۹)، آیت ۱۲۲۔

۲ ۔اصول کافی، ج۲، ص ۶۱۳؛ بحار ، ج۲، ص ۶۷۔

۳ ۔توضیح المسائل، امام خمینیؒ، مسئلہ ۱۱۔

۴ ۔بحار، ج۲، ص ۱۷۔

۵ ۔بحار، ج۲، ص ۲۔

۶ ۔اصول کافی، ج۱، کتاب فضل العلم، باب نہی القول بغیر علم۔

دوسری نشست

پہلا باب: بیان احکام کی تیاری کے مراحل

دریچہ:

جو شخص احکام شرعی بیان کرنا چاہتا ہے اور لوگوں کو دینی احکام کی تعلیم دینا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ پہلے خود مسائل سے بھرپور آشنائی حاصل کرے یعنی مسائل بیان کرنے سے قبل اچھی طرح مسائل سمجھ لینا چاہئیں اور اپنی علمی سطح مضبوط و مستحکم کرنی چاہیے۔

علمی سطح کے استحکام و بھرپور آشنائی کے بعد چند مراحل پیش نظر رہنے چاہئیں جو مختلف صنف سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے مسائل بیان کرنے کے لئے نہایت ضروری ہیں لہذا ضروریات سے ہماری مراد یہ ہے کہ "کیا بیان کیا جائے؟، کون سے مطالب و مسائل بیان کرنے چاہئیں؟"

لہذا بیان احکام کی آمادگی و تیاری کے لئے مندرجہ ذیل مراحل طے کرلینا ضروری ہیں:

۱. انتخاب موضوع بحث؛

۲. انتخاب شدہ موضوع بحث کا بغور اور کامل مطالعہ؛

۳. منتخب شدہ موضوع بحث سے مختلف مسائل کا انتخاب؛

۴. مناسب تقسیم بندی؛

۵. خلاصہ نویسی

۶. خلاصہ کا مطالعہ۔

انتخاب موضوع بحث

احکام بیان کرنے سے پہلے موضوع بحث منتخب کرنا ضروری ہے مثلاً تقلید، طہارت، نماز، روزہ، حج، زکات، خمس، جہاد وغیرہ۔ لیکن موضوع بحث منتخب کرتے وقت مندرجہ ذیل نکات کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔

۱ ۔ عوام کی ضرورت

موضوع منتخب کرتے وقت لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھنا چاہیے کہ منتخب شدہ موضوع آپ کے مخاطبین کی ضرورت ہے یا نہیں؟

۲ ۔ فہم افراد:

اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ جو احکام و مسائل ہم بیان کرنا چاہتے ہیں وہ مخاطبین کے لئے قابل فہم ہیں یا نہیں۔ اگر ایسے مسائل بیان کریں جو ان کی سمجھ سے بالا ہوں یا کچھ مسائل سمجھیں اور کچھ نہ سمجھیں تو بیان کا فائدہ کیا رہ جائے گا؟

۳ ۔ مقررہ وقت:

یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے پاس کتنا مقرر وقت موجود ہے۔ اگر مقرر وقت قلیل ہو اور ایسے میں طویل فقہی بحث شروع کردی جائے تو بالکل غیر مناسب اور مشکل ساز ہوجائے۔ لہذا مقررہ وقت کی مناسبت سے موضوع کو ترتیب دینا چاہیے۔

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:

"إِنَّ رَأيَكَ لَا يَتَّسِعُ لِكُلِّ شي‏ءٍ ففرغهُ لِلمُهم(۷)

"بیشک جو کچھ تمہاری نظر میں ہے، وہ سب بیان کرنے کی فرصت نہیں ہے تو صرف مہم پر اکتفا کرلینا بہتر ہے"۔

مولائے کائنات کے اس فرمان کی روشنی میں مقررہ وقت کی طرف خاص توجہ رکھنا چاہیے اور اس وقت صرف اہم مسائل کا سہارا لینا چاہیے اور بقیہ مسائل کو دیگر اوقات پر موکول کردینا بہتر ہے۔

نیز مولا امیر المومنین علیہ السلام کا فرمان مبارک ہے:

"لَا تَقُلۡ مَا لَمۡ تَعۡلَم "

وہ بات مت کہو جو تم جانتے نہیں ہو؛ یعنی جاہلانہ گفتگو سے پرہیز کرو اور عالمانہ گفتگو کرو۔

پس عالمانہ گفتگو کے لئے بھرپور اور مکمل مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

پھر آنجناب ؑ فرماتے ہیں:

"وَ لَا تَقُلۡ کُلُّ مَا تَعۡلَم "(۸) ؛ جو کچھ جانتے ہو سب کا سب بیان مت کرو۔

یعنی گفتگو یقیناً عالمانہ ہونی چاہیے لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ موقع محل اور مخاطب دیکھ کر کلام کرنا چاہیے، ہر بات ہر جگہ اور ہر کس و ناکس کے سامنے بیان کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ بلکہ حاضرین کی ضرورت کو دیکھ کر موضوع منتخب کرنا چاہیے، بیان شدہ مطالب حاضرین کی سمجھ میں آرہے ہیں یا نہیں اور دامن وقت میں گنجائش ہے یا نہیں؟

معیار ضرورت

لوگوں کی ضرورت و احتیاج کے مطابق گفتگو کرنا تبلیغ کے مسلم اصول میں سے ایک اصول ہے۔ لہذا ذہن میں فوراً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی ضرورت و احتیاج کو کس طرح سمجھا جائے یعنی کون سے مسائل و احکام مخاطبین کی ضرورت ہیں اور کون سے مسائل کی انھیں ضرورت نہیں ہے پس ان کی ضرورت کو سمجھنے کے لئے چند مددگار عوام ذیل میں پیش کئے جا رہے ہیں:

۱ ۔ عمر؛ احکام بیان کرنے میں مخاطبین کی عمر کا خیال رکھنا بیحد مفید اور کارگر ثابت ہوتا ہے بچوں کے لئے الگ مسائل بیان کئے جائیں، نوجوانوں کے لئے ان کی ضرورت کے مطابق اور بزرگوں کے لئے ان کی شایانہ شان مسائل بیان کرنے چاہئیں۔

۲ ۔ صنف مخاطب؛ بیان احکام میں صنف مخاطب کا علم بھی ایک مؤثر عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔ لڑکے لڑکیوں اور خواتین و حضرات کے مسائل الگ الگ ہوتے ہیں اور کچھ اِن سے مخصوص اور کچھ اُن سے مخصوس ہیں مثلاً طہارت، نماز اور حج وغیرہ میں کچھ مسائل صنف نازک سے مخصوص ہیں جنکی مرد حضرات کو ضرورت پیش نہیں آتی ہے لہذا مردوں کے لئے اس قسم کے مسائل بیان کرنا نہ صرف مفید نہیں بلکہ کبھی کبھی ان کے لئے باعث اذیت و خستگی قرار پائے گا۔ پس مسائل بیان کرتے وقت مخاطبین کی صنف کا خیال رکھنا بیحد ضروری اور مفید ہے۔

۳ ۔ مکانِ مخاطب؛مسائل بیان کرتے وقت مکان مخاطب یعنی لوگوں کے محل زندگی اور علاقے کا خیال رکھنا بھی ایک بہترین عامل کی حیثیت رکھتا ہے مثلاً بعض احکام و مسائل گاؤں ، دیہات کے رہنے والوں کے لئے بیحد ضروری ہوتے ہیں جبکہ شہریوں کے لئے ممکن ہے بالکل غیر ضروری ہوں اور کبھی انھیں ان مسائل کی ضرورت پیش نہ آئے۔ مثلاً کراچی یا اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں رہنے والے نوجواں کے لئے نجاست خور اونت کے پسینے کی نجاست کا مسئلہ بیان کرنا چاہئیے یا نہیں کہ ممکن ہے وہ زندگی بھر اونٹ ہی نہ دیکھ پائے۔ نیز غیر اسلامی ملکوں میں رہنے والے افراد بہت سے ایسے مسائل سے دچار ہوتے ہیں کہ ممکن ہے اسلامی ملکوں میں رہنے والوں کو کبھی ان کی ضرورت پیش نہ آئے۔ پس مخاطبین کے محل وقوع کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔

۴ ۔ زمان مخاطب؛ احکام کے بیان کرنے میں وقت و زمانہ کا خیال رکھنا بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے مثلاً ایک وقت تھا کہ جب شطرنج کے مسائل آج کی طرح نہ تھے کیونکہ کل تک سب اسے حرام سمجھتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب موضوع تبدیل ہوجاتا ہے تو اس کے مسائل بھی تبدیل ہوجاتے ہیں آج شطرنج ذہنی ورزش اور کھیل میں تبدیل ہوچکی ہے اسے بعض فقہاء نے ہار جیت کی شرط کے بغیر جائز قرار دیا ہے۔

ایک دور تھا جب فقط انگشت شمار افراد ہی اعتکاف کے لئے مساجد کا رخ کرتے تھے جبکہ آج ہزاروں افراد اعتکاف کی سعادت سے شرفیاب ہونے کی کوشش کرتے ہیں لہذا وہ اعتکاف کے مسائل جاننا چاہتے ہیں پس آج اعتکاف کے مسائل بیان کرنے کی خاص ضرورت پیش آتی ہے۔

گذشتہ دور میں نماز مسافر کے مسائل زیادہ پیش نہ آتے تھے کیونکہ لوگ کمی کے ساتھ سفر کرتے تھے لیکن آج کل لوگوں کی زندگی میں سفر کثرت سے داخل ہوچکا ہے لہذا اس کے مسائل بھی بیان کرنے کی ضرورت کثرت سے پیش آتی ہے۔

نیز نئی نئی اشیاء مثلاً موبائل، کمپیوٹر، انٹرنیٹ وغیرہ گذشہ زمانہ میں لوگوں کے پاس نہ تھے لیکن آج کل یہ تمام وسائل عوام کی دستر س میں موجود ہیں لہذا احکام بیان کرتے وقت "زمانہ" کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ورنہ لوگوں پر فقہ کی افادیت ظاہر نہ ہوسکے گی۔

اگر آج فقط چند عمومی مسائل و احکام بیان کرنے پر اکتفاء کیا جائے گا تو نہ صرف یہ کہ یہ عصر حاضر کے لئے مفید ثابت نہ ہوں گے بلکہ جدید مسائل میں اپنی تکلیف شرعی سے نابلد رہ جائیں گے لہذا "زمانہ" نے لوگوں کی ضرورت کو تبدیل کردیا ہے۔

۵ ۔مخاطبین کا مشغلہ؛ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ احکام شرعی کی دو قسمیں ہیں مشترک اور مخصوص۔ تقلید، طہارت، نماز، روزہ وغیرہ کے مسائل تقریباً تمام مخاطبین و مکلفین میں مشترک ہوتے ہیں اور سب کے لئے یہ مسائل بیان کئے جاتے ہیں لیکن زراعت، مساقات، مضاربہ ، اجارہ اور وکالت وغیرہ کے مسائل عام مکلفین کو درپیش نہیں ہوتے بلکہ لوگوں کے مشغلہ کے اعتبار سے ان کی ضرورت پیش آتی ہے۔

مثلاً اگر نرسنگ ڈے Nursing day پرگفتگو کرنے کا موقع ملے اور مبلغ نرسوں سے خطاب کے دوران اگر کچھ شرعی احکام بیان کرنا چاہتا ہے تو اسے نرسنگ سے مخصوص مسائل بیان کرنے چاہئیں۔ لہذا اگر ان کے شعبہ سے متعلق مسائل بیان کرے گا تو اس کی گفتگو خاطر خواہ مؤثر ثابت ہوگی۔

اسی طرح اگر انجینئرز کے مجمع میں ان سےمتعلق مسائل، ڈاکٹرز کے اجتماع میں ان سے متعلق مسائل، تجارت کے مجمع میں تجارت کے مسائل اور پولیس یا فوج کے درمیان ان سے متعلق مسائل بیان کرنے چاہئیں۔

نکتہ:

اب جبکہ ہمنے بیان احکام میں مؤثر عوامل جان لیئے ہیں تو ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ ان عوامل کے بارے میں کس طرح معلومات حاصل کی جائے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ہم جس مقام پر احکام بیان کرنے کے لئے جانا چاہتے ہیں تو پہلے وہاں رہنے والے کسی معتبر اور ذمہ داری شخص یا میزبان سے چند سوالات کے جوابات دریافت کرلینے چاہئیں۔ مثلاً:

۱. مخاطبین کی تعداد کتنی ہے؟

۲. مخاطبین کی صنف کیا ہے (مرد یا خواتین، لڑکے یا لڑکیاں یا مشترک)

۳. ان کی عمر کیا ہے؟

۴. ان کا مشغلہ کیا ہے؟

۵. ان کی سطح علمی کیا ہے؟

۶. نشست کی مناسبت کیا ہے؟

۷. آپ کے لئے کتنا وقت مقرر کیا گیا ہے؟

ان کے مطابق درس مرتب کرکےمسائل بیان کرنے چاہئیں۔

معیار فہم

پس احکام بیان کرنے کے لئے پہلے لوگوں کی ضرورت، ان کے فہم اور مقررہ وقت کے مطابق موضوع منتخب کرنا چاہیے۔

ہم نے لوگوں کی ضرورت معلوم کرنے کے لئے تفصیل سے نکات پیش کئے ہیں اب سوال یہ ہے کہ لوگوں کا فہم و ادراک کس طرح معلوم کیا جائے؟

عام طور پر دو عوامل یعنی عمر اور علمی سطح کو لوگوں کے فہم وادراک کا معیار قرار دیا جاتاہے یعنی نوعمر اور کم علم افراد کے مقابلے میں پکی عمر اور تعلیم یافتہ افراد بہتر مسائل سمجھنے کی صلاحیت رکھتےہیں۔ مثلاً یونیورسٹی اور پرائمری اسکول کے بچوں کے فہم و ادراک میں یقیناً فرق پایا جاتا ہے۔

سوالات

۱. احکام بیان کرنے سے پہلے کن مراحل کا طے کرنا ضروری ہے؟

۲. موضوع منتخب کرتے وقت کن نکات کو پیش نظر رکھنا چاہیے؟

۳. مخاطبین کی ضرورت معلوم کرنے میں مؤثر عوامل کیا ہیں؟

____________________

۷ ۔غرر الحکم، ح ۳۶۳۸۔

۸ ۔من لا یحضرہ الفقیہ، ج۲، ص ۲۴، ح ۳۲۱۵۔

تیسری نشست

مکمل و بغور مطالعہ

شرعی احکام و مسائل بیان کرتے وقت مبلغ میں خود اعتمادی کا عنصر ہونا بیحد ضروری ہے، آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ امتحان کے موقع پر بعض افراد خود اعتمادی نہ ہونے کی وجہ سے گھبرا جاتے ہیں اور نتیجتاً امتحان میں ناکام ہوجاتے ہیں۔

کیا آپ نے سوچا کہ انسان میں یہ خود اعتمادی کس طرح پیدا ہوتی ہے؟

اگر انسان امتحان دیتے وقت یا احکام بیان کرنے سے پہلے یا تقریر کرنے سے پہلے بھرپور، مکمل اور بغور مطالعہ کرچکا ہو تو یقیناً اس میں یہ خود اعتمادی پیدا ہوجاتی ہے۔

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:

"فَكِّر ثُم تكلّم تَسلمُ من الزّلل "(۹)

"اگر انسان بغور مطالعہ کے بعد کلام کرے گا تو خطاء و لغزش سے محفوظ رہے گا"

لہذا کلام سے پہلے مکمل اور بغور مطالعہ کرلینا ضروری ہے مثلاً اگر ہم تقلید کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتےہیں تو ہمیں درج ذیل صورت میں مطالعہ کرلینا چاہیے:

۱. تقلید کی تعریف،

۲. تقلید کی ضرورت،

۳. تقلید کی اقسام (صحیح تقلید جیسے نما ز وغیرہ، غلط تقلید جیسے توحید، معاد)

۴. تقلید کی شرعی دلیل،

۵. شرائط تقلید،

۶. مجتہد اور اعلم کی پہچان کا طریقہ،

۷. شرائط مجتہد

۸. مجتہد کا فتویٰ معلوم کرنے کا طریقہ،

۹. مجتہد کے فتویٰ کا دائرہ کار (احکام میں ہے، موضوعات میں نہیں)

۱۰. مرجع کا تبدیل کرنا وغیرہ۔

مبلغ میں خود اعتمادی کے علاوہ لوگوں کا بھی مبلغ پر اعتماد ہونا ضروری ہے کیونکہ اگر لوگ مبلغ پر اعتماد نہ کریں گے تو اس کے بتائے ہوئے احکام پر عمل بھی نہ کریں گے، نتیجتاً ہماری ساری کوشش بے ثمر ہوکر رہ جائے گی۔

عام طور پر مجتہد کا فتویٰ معلوم کرنے کے چار مندرجہ ذیل طریقے بیان کئے جاتےہیں:

۱. خود مجتہد سے سننا،

۲. مجتہد کے رسالہ عملیہ (توضیح المسائل) میں دیکھنا،

۳. دو عادل افراد سے سننا،

۴. ایسے شخص سے سننا جو مورد اطمینان اور سچا ہو۔

آج کل مجتہد کا فتویٰ دریافت کرنے کے یہی دو طریقے عام طور پر رائج ہیں:

اول: توضیح المسائل میں دیکھنا،

دوم: ایک مورد اطمینان شخص سے سننا۔

لہذا جب مبلغ تبلیغ کے سلسلہ میں مختلف علاقوں میں جاتا ہے تو لوگ اسی کی زبانی مجتہد کے فتوے دریافت کرکے عمل انجام دیتے ہیں۔

پس اگر مبلغ پر لوگوں کا اعتماد قائم نہ ہوگا تو نہ وہ اس کی بات سنیں گے اور نہ ہی عمل کر سکیں گے اور یہ اعتماد اس وقت قائم ہوسکتا ہے جب مبلغ مکمل اور بھرپور مطالعہ کرکے لوگوں کے سوالات کے صحیح اور اطمینان بخش جواب دے سکے۔

مکمل مطالعہ کے علاوہ بغور مطالعہ کرنا ضروری ہے کیونکہ بغور مطالعہ نہ ہونے کی وجہ سے بیان احکام میں اشتباہ کریں گے جس کے نتیجے میں مخاطبین بھی اپنے عمل میں اشتباہ کرنے لگیں گے۔ فقہی کتب کا مطالعہ بعض تاریخی اور کہانی کی کتابوں کی طرح سرسری و طائرانہ نظر کے ساتھ نہیں کرنا چاہیے بلکہ بغور مکمل مطالعہ کرکے مسائل بیان کرنے چاہئیں۔

ہم ذیل میں چند ایسی مثالیں پیش کر رہےہیں کہ بغور مطالعہ نہ کیا جائے تو ہم اشتباہ کردیں گے، مثلاً

۱ ۔ اگر کوئی شخص از روئے فراموشی غسل جنابت انجام نہ دے یا عورت غسل حیض کرنا بھول جائے اور اسی حالت میں کچھ روزے رکھ لے اور بعد میں متوجہ ہو تو کیا ان روزوں کی قضاء ہوگی یا نہیں؟ اگر عمداً غسل نہیں کیا تو حکم کیا ہوگا؟ اگر از روئے فراموشی ایسا ہوا ہے تو حکم کیا ہے؟ اگر چند دن کے بعد متوجہ ہو تو وظیفہ کیاہوگا؟ ان تمام صورتوں میں حکم الگ الگ ہوگا لہذا مبلغ کو بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔(۱۰)

۲ ۔ اگر مہمانوں میں سے کسی کو کھانے کی نجاست معلوم ہوجائے تو کیا دیگر مہمانوں کو بتانا ضروری ہے یانہیں؟"اسے ہرگز نہیں بیان کرنا چاہیے" یا "اس پر بیان کرنا لازم نہیں ہے"۔

جی ہاں اسے دیگر مہمانوں کو بتانا ضروری نہیں ہے لیکن اگر میزبان کو معلوم ہوجائے کہ کھانا نجش ہے تو مہمان کو بتانا ضروری ہے کیونکہ مہمانوں کو کھانا کھلانے میں مہمان کا دخل نہیں ہے جبکہ میزبان کا دخل ہوتا ہے اور کھانے میں اور کھلانے میں فرق پایا جاتا ہے۔ جس مہمان کو علم ہوگیا ہے کہ غذا نجس ہے اسے یقیناً کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے لیکن میزبان کے لئے کھانا کھلانے کا مسئلہ درپیش ہے اور دوسروں کو نجس غذا کھلانا حرام ہے۔

لیکن مہمان پر بیان کرنا واجب کیوں نہیں ہے؟ کیا نجس غذا کھانا حرامنہیں ہے اور اگر کوئی شخص حرام انجام دے رہا ہو تو کیا اسے اس حرام سے روکنا نہیں چاہیے؟! یہ بھی انہیں موارد میں سے ہے کہ جہاں انسان مکمل اور بغور مطالعہ نہ کرنے کی وجہ سے اشتباہ کر بیٹھتا ہے۔

یاد رہے کہ نہی از منکر وہاں ضروری ہے کہ جب کوئی شخص منکر کا ارتکاب کر رہا ہو۔جب مہمان کو یہ بات معلوم ہی نہیں ہے کہ کھانا نجس ہے اور وہ اسے پاک سمجھ کر استعمال کر رہا ہے تو گویا اس نے کوئی حرام کام ہی انجام نہیں دیا ہے۔ جس طرح اگر کوئی شخص عدم علم کی بنا پر نجس لباس میں نماز پڑھ لے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوگی تو اسے نہی کرنے کی ضرورت نہیں ہے پس تمام مہمانوں کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔(۱۱)

۳ ۔ پیروں کے مسح کے بارے میں درج ذیل دو عبارتوں پر غور کیجئے:

الف: دائیں پیر کا مسح بائیں پیر کے مسح سے پہلے انجام دینا چاہیے۔

ب: بائیں پیر کے مسح کو دائیں پیر کے مسح سے پہلے انجام نہیں دینا چاہیے۔

بغور پڑھیئے اور دیکھئے کہ کون سی عبارت درست اور کون سی نادرست ہے؟

دوسری عبارت کے مطابق اگر دونوں پیروں کا مسح ایک ساتھ آن واحدمیں انجام دیا تو مسح صحیح رہے گا جبکہ پہلی عبارت کے مطابق مسح درست نہیں ہوگا۔ اس مسئلہ میں اختلاف فتویٰ بھی پایا جاتا ہے، بعض فقہاء کہتے ہیں کہ ایک ساتھ مسح کرنے میں کوئی ا شکال نہیں جبکہ بعض کہتے ہیں کہ اشکال ہے۔(۱۲)

انتخاب احکام

بیان احکام کے لئے ہم نے جس موضوع کو منتخب کیا ہے اس کا مکمل اور بغور مطالعہ کرنے کے بعد لوگوں کی ضرورت، ان کے فہم و فراست، زمان و مکان اور مقررہ وقت کا لحاظ رکھتے ہوئے اہم مسائل انتخاب کرنے چاہئیں جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:

"إِنَّ رَأيَكَ لَا يَتَّسِعُ لِكُلِّ شي‏ءٍ فَفَرِّغهُ لِلمُهم "(۱۳)

بیشک جب تمہارے ذہن میں جو کچھ ہے وہ بیان کرنے کی فرصت نہیں تو فقط مہم پر اکتفاء کرلینا بہتر ہے۔

سوالات

۱. مکمل اور بغور مطالعہ کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟

۲. مکمل اور بغور مطالعہ کی ایک ایک مثال بیان کریں؟

۳. اگر مہمان کو معلوم ہوجائے کہ کھانا نجس ہے تو کیا اسے دیگر مہمانوں کو بتانا ضروری ہے یا نہیں، کیوں؟

۴. انتخاب موضوع و احکام کے لئے حضرت علیعلیہ السلام کی کس روایت سے استفادہ کیا جاتا ہے؟

____________________

۹ ۔فہرست غرر ، ص ۳۱۵۔

۱۰ ۔توضیح المسائل مراجع، م ۱۶۱۹۔

۱۱ ۔توضیح المسائل مراجع، م ۱۴۳۔ ۱۴۵۔

۱۲ ۔تحریر الوسیلہ، ج۱، ص ۲۸۔

۱۳ ۔غرر الحکم، ح ۳۶۳۸۔