روش بیان احکام

روش بیان احکام40%

روش بیان احکام مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

روش بیان احکام
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 27 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5785 / ڈاؤنلوڈ: 2863
سائز سائز سائز
روش بیان احکام

روش بیان احکام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

روش بیان احکام

تالیف:

سید بہادر علی زیدی

ولایت اکیڈمی سندھ پاکستان

 نام کتابٍ:روشِ بیانِ احکام

 تألیف: مولانا سید بہادرعلی زیدی قمی

 نظر ثانی: حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر سید نسیم حیدر زیدی

 کمپوزنگ: سن شائن کمپوزنگ سنٹر

 طبع اول: ۲۰۱۴

 تعاون:

 ناشر: ولایت اکیڈمی سندھ پاکستان

تشکر و امتنان

خداوند عالم کی رحمت کا سلسلہ ازل تا ابد جاری و ساری رہنے والا ہے۔ لائق تحسین ہیں وہ لوگ جو شب و روز دین خدا کی خدمت میں زندگی بسر کررہے ہیں۔

ادارہ ولایت اکیڈمی سندھ پاکستان بھی دین الہی کی خدمت کرنے کا عزم و ارادہ رکھتا ہے لہذا مکتب اہل بیت کی تبلیغ و ترویج میں مصروف عمل ہے اسی عزم و ارادہ کے پیش نظر صاحب قلم حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا جناب سید بہادر علی زیدی قمی صاحب کی تالیف کردہ کتاب روش بیان احکام جسے دنیا کی مختلف زبانوں میں کتب نشر کرنے والےبین الاقوامی ادارہ رسالت غدیر نے زیور طباعت سے آراستہ کرنے میں ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے۔ لہذا میں ان تمام افراد کا تہہ دل سے مشکور و ممنون ہوں بالخصوص رسالت غدیر کے مسئول جناب محمد قربان پور اور ان کے برادرا ن کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ نیز جناب ہادی منصوری کا مشکور و ممنون ہوں کہ جن کا مسلسل تعاون رہا ہے۔

آخر میں خداوند عالم سے دست بدعا ہوں کہ جن افراد نے اس کتاب کو آپ کے ہاتھوں تک پہنچانے میں کسی بھی قسم کا تعاون کیا ہے، انکی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔

والسلام

شیخ کاظم حسین معصومی

ولایت اکیڈمی سندھ پاکستان

گفتار مقدم

بسم الله الرحمن الرحیم الحمد لِلّٰه ربِّ العالَمِین، الحمدُ لِلّٰهِ الواحِدِ الاَحَد، الفَرد الصمد، الذی لم یَلد وَ لَم یولد و لم یکن له کفواً اَحَد و الصلاة علی محمد عبده المجتبی و رسوله المصطفیٰ، اَرسله اِلیٰ کافَّة الوری، بشیراً و نذِیراً و داعیاً اِلیٰ الله باذنه و سراجاً منیراً و علیٰ اهل بیۡتهِ أئمّة الهدیٰ و مصابیح الدجیٰ، الذین اَذهبَ الله عنهم الرجس و طهَّرهم تطهیرا و السلام علیٰ من اتبع الهدیٰ

یوں تو مبلغین حضرات شب و روز احکام اسلامی کی تبلیغ و ترویج میں مصروف عمل ہیں۔ لیکن متعدد مواقع ایسے دیکھنے میں آتے ہیں کہ مبلغین حضرات یہ ہیں کہ مسجد میں حاضرین کی تعداد یا نہایت کم ہے یا کم ہوتی جارہی ہے، خصو صاً نوجوانوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ اس بنا پر وہ مبلغین فکر مند اور پریشان ہوجاتے ہیں کہ کیا کیا جائے کہ اس بحرانی صورت حال کا خاتمہ کیا جاسکے؟

حقیقت یہ ہے کہ ان کی پریشانی کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ یہ سوچتے ہیں کہ کیا بیان کیا جائے؟ کیسے بیان کیاجائے؟ اور مسائل شرعی بیان کرنے کے لئے احکام کو کس طرح تنظیم و ترتیب دیا جائے؟

لہذا اس صورت حال کے پیش نظر خاص اس کتاب کو قلمبند کیا گیا ہے۔

میں مشکور و ممنون ہوں بالخصوص ولایت اکیڈمی سندھ پاکستان کے سرپرست جناب مولانا شیخ کاظم حسین معصومی صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی کاوشوں کی وجھ سے یہ کتاب آپ کے ہاتھوں تک پہنچے میں دعا کرتا ہو خدا انکی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔

امید کرتا ہوں مبلغین حضرات یقیناً اس کاوش سے بہرہ مند ہوں گے۔ آخر میں خداوند عالم سے بحق محمدؐ و آل محمدؑ طالب دعا ہوں کے اہل حق کی نصرت و مدد فرمائے۔

و السلام احقر العباد

بہادر علی زیدی

پہلی نشست

بیان احکام

احکام سیکھنے اور بیان کرنے کی ضرورت و اہمیت

قرآن کریم، علماء و مبلغین کی ذمہ داری کو اِس انداز سے واضح طور پر بیان کر رہا ہے:

( وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ ) (۱) ؛

صاحبان ایمان کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ سب کے سب جہاد کے لئے نکل پڑیں تو ہر گروہ میں سے ایک جماعت اس کام کے لئے کیوں نہیں نکلتی ہے کہ دین کا علم حاصل کرے اور پھر جب اپنی قوم کی طرف پلٹ کر آئے تو اسے عذاب الٰہی سے ڈرائے کہ شاید وہ اسی طرح ڈرنے لگیں۔

اس آیت کریمہ سے یہ بھی ظاہر ہوجاتا ہے کہ جہاد سے قطع نظر ایک دوسرا سفر بھی واجب ہے کہ جہاد میں نہ جانا ہو تو علم دین حاصل کرنے کے لئے سفر کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو تعلیم دیں اور انھیں عذاب الہٰی سے ڈرائیں کہ یہ بھی ایک جہاد ہے اور جہاد ہی کی طرح واجب ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے:

"قَرَأْتُ فِي كِتَابِ عَلِيٍّ علیه السلام إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَأْخُذْ عَلَى الْجُهَّالِ عَهْداً بِطَلَبِ الْعِلْمِ حَتَّى أَخَذَ عَلَى الْعُلَمَاءِ عَهْداً بِبَذْلِ الْعِلْمِ لِلْجُهَّالِ لِأَنَّ الْعِلْمَ كَانَ قَبْلَ الْجَهْلِ "(۲)

"میں نے کتاب علی علیہ السلام میں پڑھا ہے کہ خداوند عالم نے جُہلاء سے اس وقت تک علم حاصل کرنے کا عہد نہیں لیا جب تک کہ علماء سے جہلاء کو علم عطاء کرنے کا عہد نہ لے لیا۔ کیونکہ علم، جہل سے پہلے تھا"۔

نیز اکثر فقہاء و مراجع عظام کی توضیح المسائل کے آغاز میں یہ عبارت دیکھنے میں آتی ہے: "جن مسائل کی انسان کو عموماً ضرورت پڑتی ہے ان کا سیکھنا واجب ہے۔(۳) "

تعلیم احکام کی جزاء

پیغمبر اکرم ﷺ سے روایت نقل کی گئی ہے:

" اِنَّما مُعَلِّمَ الْخَيْرِ يَسْتَغْفِرُ لَهُ دَوَابُّ الْأَرْضِ وَ حِيتَانُ الْبَحْرِ وَ كُلُّ ذِي رُوحٍ فِي الْهَوَاءِ وَ جَمِيعُ أَهْلِ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ "(۴)

"نیک معلم کے لئے زمین کے چوپائے، سمندر کی مچھلیاں، ہوا میں موجود تمام ذی روح اور بلکہ تمام اہل زمین و آسمان استغفار کرتےہیں"۔

نیز پیغمبر اکرم ﷺ سے روایت نقل کی گئی ہے:

"أَلَا فَمَنْ كَانَ مِنْ شِيعَتِنَا عَالِماً بِعُلُومِنَا وَ هَذَا الْجَاهِلُ بِشَرِيعَتِنَا الْمُنْقَطِعُ عَنْ مُشَاهَدَتِنَا يَتِيمٌ فِي حِجْرِهِ أَلَا فَمَنْ هَدَاهُ وَ أَرْشَدَهُ وَ عَلَّمَهُ شَرِيعَتَنَا كَانَ مَعَنَا فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى "(۵)

"یاد رکھوہمارے شیعوں میں سے جو شخص ہمارے علوم سے آشنائی رکھتا ہے اگر وہ ایسے افراد کی ہماری شریعت کی طرف ہدایت کرتا ہے، جنکی رسائی ہم تک نہیں ہے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے کسی یتیم کی اپنے سایہ عاطفت میں سر پرستی کا فریضہ انجام دیا ہو، یاد رکھو جو شخص ایسے افراد کی رشد و ہدایت اور تعلیمِ شریعت کا بندوبست کرے گا وہ ہمارے ساتھ بہترین و برترین مقام و مرتبہ پر ہوگا"۔

تعلیم بغیر علم ممنوع ہے

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپؑ نے فرمایا:

"مَا عَلِمْتُمْ فَقُولُوا وَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَقُولُوا :اللَّهُ أَعْلَم "(۶)

جو تم جانتے ہو، بیان کردو؛ لیکن جس چیز کے بارے میں تمہیں علم نہیں ہے کہہ دو کہ خدا بہتر جانتا ہے۔

بلکہ اسی سلسلہ کی بعض روایات میں تو یہ بھی مرقوم ہے کہ صاف کہہ دو کہ مجھے نہیں معلوم۔

"روشِ بیانِ احکام" سیکھنے کی ضرورت

بیشک معارف دین کا ایک خطیر حصہ احکام شرعی اور فقہی مسائل پر مشتمل ہے اور تاریخ کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ مدارس و حوزہ ہائے علمیہ میں طلاب کرام کا زیادہ تر وقت فقہ کو سیکھنے اور سمجھنے میں صرف ہو جاتا ہے جو حوزہ ہائے علمیہ کا امتیاز اور ایک بہترین عمل ہے۔

لیکن حصول علم کے بعد دیگر طلاب اور عوام تک منتقل کرنے کا مرحلہ آتا ہے کیونکہ فقہ کو لوگوں کی زندگی مرتب کرنے کے لئے معین کیا گیا ہے لہذا فقہی مسائل سیکھنے کے بعد انھیں عوام تک پہنچانا بھی ضروری ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں تک یہ علوم کس طرح منتقل کئے جائیں؟ کیا اس کے لئے کوئی خاص طریقہ اور روش اختیار کرنی چاہیے۔ یقیناً جواب مثبت ہے۔

لہذا لوگوں کو فقہی تعلیم دینے سے قبل خود طلاب و مبلغین حضرات کو مناسب روش و طریقہ سیکھنا چاہیے کیونکہ مبلغان علوم اسلامی و مروّجان احکام کے تجربات کی روشنی میں یہ امر مسلم ہے کہ تبلیغ میں صرف فقہ کا سیکھ لینا کافی نہیں بلکہ مبلغ کو بہترین روش سے بھی آشنا ہونا چاہیے۔

ذیل میں دیئے گئے چند سوالات کے ذریعے روش بیان احکام سیکھنے کی ضرورت واضح ہوجاتی ہے،مثلاً

۱. درس احکام سے لوگوں کی دوری کی وجہ کیا ہے؟

۲. عام طور پر درس احکام خستہ کنندہ کیوں ہوتا ہے؟

۳. درس احکام کو کس طرح جذّاب و دلچسپ بنایا جاسکتا ہے؟

۴. بچوں اور نوجوانوں کے لئے کون سے مسائل بیان کرنے چاہئیں؟

۵. مختلف افراد خصوصاً بچوں کے لئے مسائل بیان کرنے کا کون سا طریقہ استعمال کرنا چاہیے؟

۶. لوگوں کو کس طرح احکام سیکھنے کی طرف متوجہ کیا جائے؟

۷. مراجع عظام کے فتاویٰ میں تفاوت کی صورت میں کیا کرنا چاہیے، اور ایسی صورت میں کس مرجع کے مسائل بیان کرنا چاہئیں؟

۸. فقہ کی مشکل اصطلاحات اور پیچیدہ عبارات کس طرح عوام کے سامنے بیان کی جائیں؟

۹. فلسفۂ احکام کے بارے میں سوالات کے کس طرح جوابات دیئے جائیں؟

۱۰. اپنے اندر جواب دینے کی مہارت کس طرح پیدا کی جائے؟

۱۱. مسائل پر کس طرح تسلط حاصل کیا جائے، کس طرح مطالعہ کیا جائے کہ مسائل کی جزئیات تک ذہن میں محفوظ رہ جائیں؟

۱۲. احکام کو بہترین منظم اور تقسیم کرنے کا طریقہ اور روشن کیا ہے؟

سوالات

۱. قرآن و سنت کی روشنی میں احکام سیکھنے اور بیان کرنے کی اہمیت و ضرورت بیان کریں؟

۲. دوسروں کو احکام سکھانے کا کیا فائدہ ہے؟

۳. بغیر علم، بیان کرنے کے بارے میں معصوم علیہ السلام نے کیا فرمایا ہے؟

۴. روش بیان احکام سیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟

____________________

۱ ۔سورہ توبہ (۹)، آیت ۱۲۲۔

۲ ۔اصول کافی، ج۲، ص ۶۱۳؛ بحار ، ج۲، ص ۶۷۔

۳ ۔توضیح المسائل، امام خمینیؒ، مسئلہ ۱۱۔

۴ ۔بحار، ج۲، ص ۱۷۔

۵ ۔بحار، ج۲، ص ۲۔

۶ ۔اصول کافی، ج۱، کتاب فضل العلم، باب نہی القول بغیر علم۔

دوسری نشست

پہلا باب: بیان احکام کی تیاری کے مراحل

دریچہ:

جو شخص احکام شرعی بیان کرنا چاہتا ہے اور لوگوں کو دینی احکام کی تعلیم دینا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ پہلے خود مسائل سے بھرپور آشنائی حاصل کرے یعنی مسائل بیان کرنے سے قبل اچھی طرح مسائل سمجھ لینا چاہئیں اور اپنی علمی سطح مضبوط و مستحکم کرنی چاہیے۔

علمی سطح کے استحکام و بھرپور آشنائی کے بعد چند مراحل پیش نظر رہنے چاہئیں جو مختلف صنف سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے مسائل بیان کرنے کے لئے نہایت ضروری ہیں لہذا ضروریات سے ہماری مراد یہ ہے کہ "کیا بیان کیا جائے؟، کون سے مطالب و مسائل بیان کرنے چاہئیں؟"

لہذا بیان احکام کی آمادگی و تیاری کے لئے مندرجہ ذیل مراحل طے کرلینا ضروری ہیں:

۱. انتخاب موضوع بحث؛

۲. انتخاب شدہ موضوع بحث کا بغور اور کامل مطالعہ؛

۳. منتخب شدہ موضوع بحث سے مختلف مسائل کا انتخاب؛

۴. مناسب تقسیم بندی؛

۵. خلاصہ نویسی

۶. خلاصہ کا مطالعہ۔

انتخاب موضوع بحث

احکام بیان کرنے سے پہلے موضوع بحث منتخب کرنا ضروری ہے مثلاً تقلید، طہارت، نماز، روزہ، حج، زکات، خمس، جہاد وغیرہ۔ لیکن موضوع بحث منتخب کرتے وقت مندرجہ ذیل نکات کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔

۱ ۔ عوام کی ضرورت

موضوع منتخب کرتے وقت لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھنا چاہیے کہ منتخب شدہ موضوع آپ کے مخاطبین کی ضرورت ہے یا نہیں؟

۲ ۔ فہم افراد:

اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ جو احکام و مسائل ہم بیان کرنا چاہتے ہیں وہ مخاطبین کے لئے قابل فہم ہیں یا نہیں۔ اگر ایسے مسائل بیان کریں جو ان کی سمجھ سے بالا ہوں یا کچھ مسائل سمجھیں اور کچھ نہ سمجھیں تو بیان کا فائدہ کیا رہ جائے گا؟

۳ ۔ مقررہ وقت:

یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے پاس کتنا مقرر وقت موجود ہے۔ اگر مقرر وقت قلیل ہو اور ایسے میں طویل فقہی بحث شروع کردی جائے تو بالکل غیر مناسب اور مشکل ساز ہوجائے۔ لہذا مقررہ وقت کی مناسبت سے موضوع کو ترتیب دینا چاہیے۔

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:

"إِنَّ رَأيَكَ لَا يَتَّسِعُ لِكُلِّ شي‏ءٍ ففرغهُ لِلمُهم(۷)

"بیشک جو کچھ تمہاری نظر میں ہے، وہ سب بیان کرنے کی فرصت نہیں ہے تو صرف مہم پر اکتفا کرلینا بہتر ہے"۔

مولائے کائنات کے اس فرمان کی روشنی میں مقررہ وقت کی طرف خاص توجہ رکھنا چاہیے اور اس وقت صرف اہم مسائل کا سہارا لینا چاہیے اور بقیہ مسائل کو دیگر اوقات پر موکول کردینا بہتر ہے۔

نیز مولا امیر المومنین علیہ السلام کا فرمان مبارک ہے:

"لَا تَقُلۡ مَا لَمۡ تَعۡلَم "

وہ بات مت کہو جو تم جانتے نہیں ہو؛ یعنی جاہلانہ گفتگو سے پرہیز کرو اور عالمانہ گفتگو کرو۔

پس عالمانہ گفتگو کے لئے بھرپور اور مکمل مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

پھر آنجناب ؑ فرماتے ہیں:

"وَ لَا تَقُلۡ کُلُّ مَا تَعۡلَم "(۸) ؛ جو کچھ جانتے ہو سب کا سب بیان مت کرو۔

یعنی گفتگو یقیناً عالمانہ ہونی چاہیے لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ موقع محل اور مخاطب دیکھ کر کلام کرنا چاہیے، ہر بات ہر جگہ اور ہر کس و ناکس کے سامنے بیان کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ بلکہ حاضرین کی ضرورت کو دیکھ کر موضوع منتخب کرنا چاہیے، بیان شدہ مطالب حاضرین کی سمجھ میں آرہے ہیں یا نہیں اور دامن وقت میں گنجائش ہے یا نہیں؟

معیار ضرورت

لوگوں کی ضرورت و احتیاج کے مطابق گفتگو کرنا تبلیغ کے مسلم اصول میں سے ایک اصول ہے۔ لہذا ذہن میں فوراً یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی ضرورت و احتیاج کو کس طرح سمجھا جائے یعنی کون سے مسائل و احکام مخاطبین کی ضرورت ہیں اور کون سے مسائل کی انھیں ضرورت نہیں ہے پس ان کی ضرورت کو سمجھنے کے لئے چند مددگار عوام ذیل میں پیش کئے جا رہے ہیں:

۱ ۔ عمر؛ احکام بیان کرنے میں مخاطبین کی عمر کا خیال رکھنا بیحد مفید اور کارگر ثابت ہوتا ہے بچوں کے لئے الگ مسائل بیان کئے جائیں، نوجوانوں کے لئے ان کی ضرورت کے مطابق اور بزرگوں کے لئے ان کی شایانہ شان مسائل بیان کرنے چاہئیں۔

۲ ۔ صنف مخاطب؛ بیان احکام میں صنف مخاطب کا علم بھی ایک مؤثر عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔ لڑکے لڑکیوں اور خواتین و حضرات کے مسائل الگ الگ ہوتے ہیں اور کچھ اِن سے مخصوص اور کچھ اُن سے مخصوس ہیں مثلاً طہارت، نماز اور حج وغیرہ میں کچھ مسائل صنف نازک سے مخصوص ہیں جنکی مرد حضرات کو ضرورت پیش نہیں آتی ہے لہذا مردوں کے لئے اس قسم کے مسائل بیان کرنا نہ صرف مفید نہیں بلکہ کبھی کبھی ان کے لئے باعث اذیت و خستگی قرار پائے گا۔ پس مسائل بیان کرتے وقت مخاطبین کی صنف کا خیال رکھنا بیحد ضروری اور مفید ہے۔

۳ ۔ مکانِ مخاطب؛مسائل بیان کرتے وقت مکان مخاطب یعنی لوگوں کے محل زندگی اور علاقے کا خیال رکھنا بھی ایک بہترین عامل کی حیثیت رکھتا ہے مثلاً بعض احکام و مسائل گاؤں ، دیہات کے رہنے والوں کے لئے بیحد ضروری ہوتے ہیں جبکہ شہریوں کے لئے ممکن ہے بالکل غیر ضروری ہوں اور کبھی انھیں ان مسائل کی ضرورت پیش نہ آئے۔ مثلاً کراچی یا اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں رہنے والے نوجواں کے لئے نجاست خور اونت کے پسینے کی نجاست کا مسئلہ بیان کرنا چاہئیے یا نہیں کہ ممکن ہے وہ زندگی بھر اونٹ ہی نہ دیکھ پائے۔ نیز غیر اسلامی ملکوں میں رہنے والے افراد بہت سے ایسے مسائل سے دچار ہوتے ہیں کہ ممکن ہے اسلامی ملکوں میں رہنے والوں کو کبھی ان کی ضرورت پیش نہ آئے۔ پس مخاطبین کے محل وقوع کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔

۴ ۔ زمان مخاطب؛ احکام کے بیان کرنے میں وقت و زمانہ کا خیال رکھنا بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے مثلاً ایک وقت تھا کہ جب شطرنج کے مسائل آج کی طرح نہ تھے کیونکہ کل تک سب اسے حرام سمجھتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب موضوع تبدیل ہوجاتا ہے تو اس کے مسائل بھی تبدیل ہوجاتے ہیں آج شطرنج ذہنی ورزش اور کھیل میں تبدیل ہوچکی ہے اسے بعض فقہاء نے ہار جیت کی شرط کے بغیر جائز قرار دیا ہے۔

ایک دور تھا جب فقط انگشت شمار افراد ہی اعتکاف کے لئے مساجد کا رخ کرتے تھے جبکہ آج ہزاروں افراد اعتکاف کی سعادت سے شرفیاب ہونے کی کوشش کرتے ہیں لہذا وہ اعتکاف کے مسائل جاننا چاہتے ہیں پس آج اعتکاف کے مسائل بیان کرنے کی خاص ضرورت پیش آتی ہے۔

گذشتہ دور میں نماز مسافر کے مسائل زیادہ پیش نہ آتے تھے کیونکہ لوگ کمی کے ساتھ سفر کرتے تھے لیکن آج کل لوگوں کی زندگی میں سفر کثرت سے داخل ہوچکا ہے لہذا اس کے مسائل بھی بیان کرنے کی ضرورت کثرت سے پیش آتی ہے۔

نیز نئی نئی اشیاء مثلاً موبائل، کمپیوٹر، انٹرنیٹ وغیرہ گذشہ زمانہ میں لوگوں کے پاس نہ تھے لیکن آج کل یہ تمام وسائل عوام کی دستر س میں موجود ہیں لہذا احکام بیان کرتے وقت "زمانہ" کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ورنہ لوگوں پر فقہ کی افادیت ظاہر نہ ہوسکے گی۔

اگر آج فقط چند عمومی مسائل و احکام بیان کرنے پر اکتفاء کیا جائے گا تو نہ صرف یہ کہ یہ عصر حاضر کے لئے مفید ثابت نہ ہوں گے بلکہ جدید مسائل میں اپنی تکلیف شرعی سے نابلد رہ جائیں گے لہذا "زمانہ" نے لوگوں کی ضرورت کو تبدیل کردیا ہے۔

۵ ۔مخاطبین کا مشغلہ؛ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ احکام شرعی کی دو قسمیں ہیں مشترک اور مخصوص۔ تقلید، طہارت، نماز، روزہ وغیرہ کے مسائل تقریباً تمام مخاطبین و مکلفین میں مشترک ہوتے ہیں اور سب کے لئے یہ مسائل بیان کئے جاتے ہیں لیکن زراعت، مساقات، مضاربہ ، اجارہ اور وکالت وغیرہ کے مسائل عام مکلفین کو درپیش نہیں ہوتے بلکہ لوگوں کے مشغلہ کے اعتبار سے ان کی ضرورت پیش آتی ہے۔

مثلاً اگر نرسنگ ڈے Nursing day پرگفتگو کرنے کا موقع ملے اور مبلغ نرسوں سے خطاب کے دوران اگر کچھ شرعی احکام بیان کرنا چاہتا ہے تو اسے نرسنگ سے مخصوص مسائل بیان کرنے چاہئیں۔ لہذا اگر ان کے شعبہ سے متعلق مسائل بیان کرے گا تو اس کی گفتگو خاطر خواہ مؤثر ثابت ہوگی۔

اسی طرح اگر انجینئرز کے مجمع میں ان سےمتعلق مسائل، ڈاکٹرز کے اجتماع میں ان سے متعلق مسائل، تجارت کے مجمع میں تجارت کے مسائل اور پولیس یا فوج کے درمیان ان سے متعلق مسائل بیان کرنے چاہئیں۔

نکتہ:

اب جبکہ ہمنے بیان احکام میں مؤثر عوامل جان لیئے ہیں تو ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ ان عوامل کے بارے میں کس طرح معلومات حاصل کی جائے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ہم جس مقام پر احکام بیان کرنے کے لئے جانا چاہتے ہیں تو پہلے وہاں رہنے والے کسی معتبر اور ذمہ داری شخص یا میزبان سے چند سوالات کے جوابات دریافت کرلینے چاہئیں۔ مثلاً:

۱. مخاطبین کی تعداد کتنی ہے؟

۲. مخاطبین کی صنف کیا ہے (مرد یا خواتین، لڑکے یا لڑکیاں یا مشترک)

۳. ان کی عمر کیا ہے؟

۴. ان کا مشغلہ کیا ہے؟

۵. ان کی سطح علمی کیا ہے؟

۶. نشست کی مناسبت کیا ہے؟

۷. آپ کے لئے کتنا وقت مقرر کیا گیا ہے؟

ان کے مطابق درس مرتب کرکےمسائل بیان کرنے چاہئیں۔

معیار فہم

پس احکام بیان کرنے کے لئے پہلے لوگوں کی ضرورت، ان کے فہم اور مقررہ وقت کے مطابق موضوع منتخب کرنا چاہیے۔

ہم نے لوگوں کی ضرورت معلوم کرنے کے لئے تفصیل سے نکات پیش کئے ہیں اب سوال یہ ہے کہ لوگوں کا فہم و ادراک کس طرح معلوم کیا جائے؟

عام طور پر دو عوامل یعنی عمر اور علمی سطح کو لوگوں کے فہم وادراک کا معیار قرار دیا جاتاہے یعنی نوعمر اور کم علم افراد کے مقابلے میں پکی عمر اور تعلیم یافتہ افراد بہتر مسائل سمجھنے کی صلاحیت رکھتےہیں۔ مثلاً یونیورسٹی اور پرائمری اسکول کے بچوں کے فہم و ادراک میں یقیناً فرق پایا جاتا ہے۔

سوالات

۱. احکام بیان کرنے سے پہلے کن مراحل کا طے کرنا ضروری ہے؟

۲. موضوع منتخب کرتے وقت کن نکات کو پیش نظر رکھنا چاہیے؟

۳. مخاطبین کی ضرورت معلوم کرنے میں مؤثر عوامل کیا ہیں؟

____________________

۷ ۔غرر الحکم، ح ۳۶۳۸۔

۸ ۔من لا یحضرہ الفقیہ، ج۲، ص ۲۴، ح ۳۲۱۵۔

تیسری نشست

مکمل و بغور مطالعہ

شرعی احکام و مسائل بیان کرتے وقت مبلغ میں خود اعتمادی کا عنصر ہونا بیحد ضروری ہے، آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ امتحان کے موقع پر بعض افراد خود اعتمادی نہ ہونے کی وجہ سے گھبرا جاتے ہیں اور نتیجتاً امتحان میں ناکام ہوجاتے ہیں۔

کیا آپ نے سوچا کہ انسان میں یہ خود اعتمادی کس طرح پیدا ہوتی ہے؟

اگر انسان امتحان دیتے وقت یا احکام بیان کرنے سے پہلے یا تقریر کرنے سے پہلے بھرپور، مکمل اور بغور مطالعہ کرچکا ہو تو یقیناً اس میں یہ خود اعتمادی پیدا ہوجاتی ہے۔

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:

"فَكِّر ثُم تكلّم تَسلمُ من الزّلل "(۹)

"اگر انسان بغور مطالعہ کے بعد کلام کرے گا تو خطاء و لغزش سے محفوظ رہے گا"

لہذا کلام سے پہلے مکمل اور بغور مطالعہ کرلینا ضروری ہے مثلاً اگر ہم تقلید کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتےہیں تو ہمیں درج ذیل صورت میں مطالعہ کرلینا چاہیے:

۱. تقلید کی تعریف،

۲. تقلید کی ضرورت،

۳. تقلید کی اقسام (صحیح تقلید جیسے نما ز وغیرہ، غلط تقلید جیسے توحید، معاد)

۴. تقلید کی شرعی دلیل،

۵. شرائط تقلید،

۶. مجتہد اور اعلم کی پہچان کا طریقہ،

۷. شرائط مجتہد

۸. مجتہد کا فتویٰ معلوم کرنے کا طریقہ،

۹. مجتہد کے فتویٰ کا دائرہ کار (احکام میں ہے، موضوعات میں نہیں)

۱۰. مرجع کا تبدیل کرنا وغیرہ۔

مبلغ میں خود اعتمادی کے علاوہ لوگوں کا بھی مبلغ پر اعتماد ہونا ضروری ہے کیونکہ اگر لوگ مبلغ پر اعتماد نہ کریں گے تو اس کے بتائے ہوئے احکام پر عمل بھی نہ کریں گے، نتیجتاً ہماری ساری کوشش بے ثمر ہوکر رہ جائے گی۔

عام طور پر مجتہد کا فتویٰ معلوم کرنے کے چار مندرجہ ذیل طریقے بیان کئے جاتےہیں:

۱. خود مجتہد سے سننا،

۲. مجتہد کے رسالہ عملیہ (توضیح المسائل) میں دیکھنا،

۳. دو عادل افراد سے سننا،

۴. ایسے شخص سے سننا جو مورد اطمینان اور سچا ہو۔

آج کل مجتہد کا فتویٰ دریافت کرنے کے یہی دو طریقے عام طور پر رائج ہیں:

اول: توضیح المسائل میں دیکھنا،

دوم: ایک مورد اطمینان شخص سے سننا۔

لہذا جب مبلغ تبلیغ کے سلسلہ میں مختلف علاقوں میں جاتا ہے تو لوگ اسی کی زبانی مجتہد کے فتوے دریافت کرکے عمل انجام دیتے ہیں۔

پس اگر مبلغ پر لوگوں کا اعتماد قائم نہ ہوگا تو نہ وہ اس کی بات سنیں گے اور نہ ہی عمل کر سکیں گے اور یہ اعتماد اس وقت قائم ہوسکتا ہے جب مبلغ مکمل اور بھرپور مطالعہ کرکے لوگوں کے سوالات کے صحیح اور اطمینان بخش جواب دے سکے۔

مکمل مطالعہ کے علاوہ بغور مطالعہ کرنا ضروری ہے کیونکہ بغور مطالعہ نہ ہونے کی وجہ سے بیان احکام میں اشتباہ کریں گے جس کے نتیجے میں مخاطبین بھی اپنے عمل میں اشتباہ کرنے لگیں گے۔ فقہی کتب کا مطالعہ بعض تاریخی اور کہانی کی کتابوں کی طرح سرسری و طائرانہ نظر کے ساتھ نہیں کرنا چاہیے بلکہ بغور مکمل مطالعہ کرکے مسائل بیان کرنے چاہئیں۔

ہم ذیل میں چند ایسی مثالیں پیش کر رہےہیں کہ بغور مطالعہ نہ کیا جائے تو ہم اشتباہ کردیں گے، مثلاً

۱ ۔ اگر کوئی شخص از روئے فراموشی غسل جنابت انجام نہ دے یا عورت غسل حیض کرنا بھول جائے اور اسی حالت میں کچھ روزے رکھ لے اور بعد میں متوجہ ہو تو کیا ان روزوں کی قضاء ہوگی یا نہیں؟ اگر عمداً غسل نہیں کیا تو حکم کیا ہوگا؟ اگر از روئے فراموشی ایسا ہوا ہے تو حکم کیا ہے؟ اگر چند دن کے بعد متوجہ ہو تو وظیفہ کیاہوگا؟ ان تمام صورتوں میں حکم الگ الگ ہوگا لہذا مبلغ کو بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔(۱۰)

۲ ۔ اگر مہمانوں میں سے کسی کو کھانے کی نجاست معلوم ہوجائے تو کیا دیگر مہمانوں کو بتانا ضروری ہے یانہیں؟"اسے ہرگز نہیں بیان کرنا چاہیے" یا "اس پر بیان کرنا لازم نہیں ہے"۔

جی ہاں اسے دیگر مہمانوں کو بتانا ضروری نہیں ہے لیکن اگر میزبان کو معلوم ہوجائے کہ کھانا نجش ہے تو مہمان کو بتانا ضروری ہے کیونکہ مہمانوں کو کھانا کھلانے میں مہمان کا دخل نہیں ہے جبکہ میزبان کا دخل ہوتا ہے اور کھانے میں اور کھلانے میں فرق پایا جاتا ہے۔ جس مہمان کو علم ہوگیا ہے کہ غذا نجس ہے اسے یقیناً کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے لیکن میزبان کے لئے کھانا کھلانے کا مسئلہ درپیش ہے اور دوسروں کو نجس غذا کھلانا حرام ہے۔

لیکن مہمان پر بیان کرنا واجب کیوں نہیں ہے؟ کیا نجس غذا کھانا حرامنہیں ہے اور اگر کوئی شخص حرام انجام دے رہا ہو تو کیا اسے اس حرام سے روکنا نہیں چاہیے؟! یہ بھی انہیں موارد میں سے ہے کہ جہاں انسان مکمل اور بغور مطالعہ نہ کرنے کی وجہ سے اشتباہ کر بیٹھتا ہے۔

یاد رہے کہ نہی از منکر وہاں ضروری ہے کہ جب کوئی شخص منکر کا ارتکاب کر رہا ہو۔جب مہمان کو یہ بات معلوم ہی نہیں ہے کہ کھانا نجس ہے اور وہ اسے پاک سمجھ کر استعمال کر رہا ہے تو گویا اس نے کوئی حرام کام ہی انجام نہیں دیا ہے۔ جس طرح اگر کوئی شخص عدم علم کی بنا پر نجس لباس میں نماز پڑھ لے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوگی تو اسے نہی کرنے کی ضرورت نہیں ہے پس تمام مہمانوں کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔(۱۱)

۳ ۔ پیروں کے مسح کے بارے میں درج ذیل دو عبارتوں پر غور کیجئے:

الف: دائیں پیر کا مسح بائیں پیر کے مسح سے پہلے انجام دینا چاہیے۔

ب: بائیں پیر کے مسح کو دائیں پیر کے مسح سے پہلے انجام نہیں دینا چاہیے۔

بغور پڑھیئے اور دیکھئے کہ کون سی عبارت درست اور کون سی نادرست ہے؟

دوسری عبارت کے مطابق اگر دونوں پیروں کا مسح ایک ساتھ آن واحدمیں انجام دیا تو مسح صحیح رہے گا جبکہ پہلی عبارت کے مطابق مسح درست نہیں ہوگا۔ اس مسئلہ میں اختلاف فتویٰ بھی پایا جاتا ہے، بعض فقہاء کہتے ہیں کہ ایک ساتھ مسح کرنے میں کوئی ا شکال نہیں جبکہ بعض کہتے ہیں کہ اشکال ہے۔(۱۲)

انتخاب احکام

بیان احکام کے لئے ہم نے جس موضوع کو منتخب کیا ہے اس کا مکمل اور بغور مطالعہ کرنے کے بعد لوگوں کی ضرورت، ان کے فہم و فراست، زمان و مکان اور مقررہ وقت کا لحاظ رکھتے ہوئے اہم مسائل انتخاب کرنے چاہئیں جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:

"إِنَّ رَأيَكَ لَا يَتَّسِعُ لِكُلِّ شي‏ءٍ فَفَرِّغهُ لِلمُهم "(۱۳)

بیشک جب تمہارے ذہن میں جو کچھ ہے وہ بیان کرنے کی فرصت نہیں تو فقط مہم پر اکتفاء کرلینا بہتر ہے۔

سوالات

۱. مکمل اور بغور مطالعہ کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟

۲. مکمل اور بغور مطالعہ کی ایک ایک مثال بیان کریں؟

۳. اگر مہمان کو معلوم ہوجائے کہ کھانا نجس ہے تو کیا اسے دیگر مہمانوں کو بتانا ضروری ہے یا نہیں، کیوں؟

۴. انتخاب موضوع و احکام کے لئے حضرت علیعلیہ السلام کی کس روایت سے استفادہ کیا جاتا ہے؟

____________________

۹ ۔فہرست غرر ، ص ۳۱۵۔

۱۰ ۔توضیح المسائل مراجع، م ۱۶۱۹۔

۱۱ ۔توضیح المسائل مراجع، م ۱۴۳۔ ۱۴۵۔

۱۲ ۔تحریر الوسیلہ، ج۱، ص ۲۸۔

۱۳ ۔غرر الحکم، ح ۳۶۳۸۔

چوتھی نشست

احکام کی تنظیم و تقسیم بندی ۱

یقیناً بہترین و برترین کلام وہی ہوتا ہے جس سے خواص بھی بہرہ مند ہوں اور عوام بھی استفادہ کرسکیں۔

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:

"أَحۡسَنُ الكلامِ مَا زَانَهُ حُسنُ النظام و فَهِمَهُ الخاص و العام "(۱۴) ۔

بہترین کلام وہ ہوتا ہے جو منظم ہو اور اسے خاص و عام سمجھ سکیں۔

پس حضرت علی علیہ السلام کے کلام سے واضح ہوتا ہے کہ مفید و بہترین کلام وہی ہوتا ہے جس سے خاص لوگوں کے علاوہ عام لوگ بھی بہرہ مند ہوسکیں۔

نیز آنجنابؑ کے اس فرمان سے یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ کلام منظم و مرتب ہونا چاہیے، کیونکہ جو مسائل و احکام ہم مخاطبین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں اگر انھیں منظم و مرتب کرکے مناسب تقسیم بندی کرلی جائے تو یقیناً لوگوں کے لئے سمجھنا آسان ہوجائے گا ، اور یاد رہے کہ بیان احکام کا اوّلین مقصد لوگوں کا سمجھنا ہے اور پھر اس کے بعد عمل کرنا ہے۔

لہذا اگر ہم مسائل انتخاب کرنے کے بعد ان کی مناسب تقسیم بندی کریں تو ہم خود بھی اچھی طرح اپنے ذہن میں محفوظ رکھ سکتے ہیں اور مخاطبین بھی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اور انھیں یاد رکھ سکتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منتخب شدہ مسائل کو کس طرح منظم کیا اور ان کی تقسیم بندی کے لئے کون سا طریقہ استعمال کرنا چاہیے۔

ہم یہاں تنظیم بندی و تقسیم بندی کے چند طریقے پیش کر رہے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

۱ ۔نموداری یا درختی ۲ ۔ سوالی

۳ ۔ عنوانی ۴ ۔ ترکیبی

٭روش نموداری یا درختی

منتخب شدہ مسائل کو متعارف نمودار یا درختی انداز پر منظم اور تقسیم کرنا ہے یعنی کُل اس طرح کو اجزاء میں تقسیم کیا جاتا ہے کہ تقسیم کرتے کرتے ہم کُل سے آخری مطلوبہ جُز تک پہنچ جائیں۔مطالب کی یہ تقسیم بندی عام و نسبتاً آسان سمجھی جاتی ہے اور بعض مقامات پر زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔

٭ روش سوالی

اس روش کے مطابق ہم منتخب شدہ مطالب کو مختلف سوالات کے قالب میں ڈھالتے ہیں اور اس طرح ان کی منطقی ترتیب و تنظیم سے آراستہ کرکے خود ان کے جوابات فراہم کرتے ہیں۔

٭روش عنوانی

اس روش کے مطابق ایک مخصوص عنوان منتخب کرکے مختلف ابواب میں اس سے متعلق مسائل تلاش کرکے مطالب کو منظم و مرتب کیا جاتا ہے مثلاً احکام لباس وغیرہ۔

٭روش تلفیقی

درحقیقت روش تلفیقی الگ سے کوئی مخصوص روش نہیں ہے بلکہ گذشتہ تین روشوں کا باہمی ملاپ ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ ایک نشست میں ہم مطالب بیان کرنے کے لئے تینوں روشوں سے بیک وقت استفادہ کرلیں۔ مثلاً کسی موضوع کے بارے میں ہم اپنی گفتگو کا آغاز سوالی روش سے کریں اور پھر چند سوالات پیش کرنے کے بعد نموداری اور درختی روش سے استفادہ کریں۔

روش نموداری یا درختی

گذشتہ مطالب کے بہتر فہم و تعلم کے خاطر روش نموداری یا درختی کے مطابق احکام کی تقسیم بندی کی ایک دو مثالیں بطور نمونہ پیش کی جا رہی ہیں:

خمس

خمس سات چیزوں پر واجب ہے:

۱. وہ نفع جو کسب (کارو بار) سے حاصل ہو،

۲. معدن (کان)،

۳. گنج (خزانہ)،

۴. جب حلال مال، حرام سے مل جائے،

۵. وہ جواہرات جو دریا میں غوطہ لگانے سے ہاتھ آئیں،

۶. جنگ میں مال غنیمت،

۷. وہ زمین جو کافر ذمی نے مسلمان سے خریدی ہو۔

ان سات موارد میں سے اکثر معاشرے کے لوگوں کے لئے جو مورد ابتلاء ہے وہ منفعت کسب ہے یعنی لوگ تجارت، صنعت اور مختلف کام کاج کرکے جو منافع حاصل کرتے ہیں اس پر واجب ہونے والا خمس ہے اور کیونکہ اس کے مسائل چندان مشکل بھی سمجھے جاتے ہیں اس لئے یہاں صرف منفعت کسب کی تقسیم بندی پیش کی جا رہی ہے۔

خمس واجب ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے لوگوں کے اموال کی تین قسمیں ہیں:

۱. وہ اموال جن پر قطعا خمس واجب ہے،

۲. وہ اموال جن پر قطعا خمس واجب نہیں ہے،

۳. مشکوک اموال یعنی جن کے بارے میں معلوم نہیں کہ ان پر خمس واجب ہوا ہے یا نہیں۔

پہلی قسم (وہ اموال جن پر قطعا خمس واجب ہے)

۱ ۔ سرمایہ، ۲ ۔ زائد بر مخارج روزمرہ، ۳ ۔ سالانہ بچت۔

۱ ۔ سرمایہ و کسب؛ وہ اصلی مال جو درآمد کے لئے بطور سرمایہ اور منبع استعمال کیا جائے جیسے دکان، آلات، کھیتی باڑی کے آلات، زراعت کی زمین، سلائی کا سامان، ویلڈنگ کا سامان، کارخانہ، ٹرک، بس اور ٹیکسی وغیرہ وغیرہ۔

۲ ۔ زائد بر مخارج روزمرّہ؛یعنی وہ اشیاء صرف جو انسان دوران سال زندگی بسر کرنے کے لئے خریدتا ہے اور وہ تمام یا ان کا کچھ حصہ بچ جاتا ہے جیسے چاول، گھی، آٹا، چینی، پتی اور دالیں وغیرہ۔

زندگی بسر کرنے کے لئے عام طور پر انسان کو جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے اسے اصطلاح میں مؤونہ کہتے ہیں (یعنی ضروریات زندگی) اور اس کی دو قسمیں ہیں:

۱ ۔ اشیاء صرف،

۲ ۔ اشیاء غیر صرف۔

اشیاء صرف سے مراد وہ اشیاء ہیں جو استعمال کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی رہتی ہیں جیسے آٹا، چینی، پتی، گھی ،دالیں وغیرہ۔ اگر استعمال کرتے کرتے ان اشیاء میں سے سال کے آخر میں کچھ بچ جائے تو ان پر خمس واجب ہوگا۔

اشیاء غیر صرف سے مراد وہ اشیاء ہیں جو سال بھر استعمال ہونے کے باوجود باقی رہتی ہیں جیسے مکان جس میں سالہا سال رہتا ہے لیکن پھر بھی باقی رہتا ہے اسی طرح قالین، ریفریجریٹر، ٹی وی، کمپیوٹر، گاڑی وغیرہ بھی ہیں۔ جو شخص پابندی سے خمس کا حساب کتاب رکھتا ہے اگر وہ سالانہ مخارج میں سے یہ اشیاء مہیا کرتا ہے تو ان پر خمس نہیں ہے لیکن جس نے کبھی خمس کا حساب نہیں کیا اور مشکوک ہو تو ان اشیاء کے سلسلہ میں مصالحہ کرنا پڑے گا۔

۳ ۔ سالانہ بچت؛ یعنی وہ نقدی رقم جو انسان قناعت کی وجہ سے اپنی سالانہ آمدنی میں سے بچا لیتا ہے چاہے اس نے وہ رقم اپنے پاس رکھی ہو یا بینک وغیرہ میں محفوظ کی ہو، یہاں تک کہ اگر اس نے وہ رقم کسی کو بطور قرض دی ہو۔

دوسری قسم (وہ اموال جن پر خمس نہیں ہے)

۱ ۔ ارث، ۲ ۔ دیت، ۳ ۔ ہبہ، ۴ ۔ شہریہ، ۵ ۔ مہر، ۶ ۔ جہیز۔

۱ ۔ ارث؛ جو چیز انسان کو بطور میراث ملتی ہے اس پر خمس واجب نہیں ہے مگر یہ کہ اسے یقین ہو کہ مالک نے اس مال کا خمس ادا نہیں کیا تھا۔ لیکن اگر ہم جانتے ہوں کہ مالک خمس کا پابند تھا یا اس نے اس مال کا خمس ادا کردیا تھا یا ہمیں نہیں معلوم کہ اس مال پر خمس واجب ہوا تھا یا نہیں تو ایسی صورت میں خمس واجب نہیں ہوگا۔

۲ ۔ دیت؛ جو چیز انسان کو بطور دیت حاصل ہوتی ہے اس پر خمس واجب نہیں ہے۔

۳ ۔ ہبہ؛ جو چیز انسان کو بخش دی جاتی ہے اس پر خمس واجب نہیں ہے۔ مثلاً انعام و اکرام، عیدی، سوغات اور تحفہ وغیرہ۔

۴ ۔ مہر؛ عورت کو جو رقم بطور مہر ملتی ہے اس پر خمس نہیں ہے۔

۵ ۔ شہریہ؛ حوزہ علمیہ اور مدارس و یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلاب کو بطور شہریہ و وظیفہ جو رقم ملتی ہے اس پر خمس نہیں ہے۔

۶ ۔ جہیز؛ اگر جہیز کی اشیاء بیٹی کو بخش دی جائیں تو ہبہ شمار ہوتی ہیں اور ان پر خمس نہیں ہوگا۔

نکتہ

مذکورہ بالا موارد میں اختلاف فتویٰ بھی پایا جاتا ہے لہذا خمس کا حساب کرتے وقت ا س بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ خصوصاً ہبہ کے بارے میں بہت سے فقہاء کی نظریہ ہے کہ اگر سال بھر استعمال نہ ہو تو اس پر خمس واجب ہے۔

تیسری قسم (اموال مشکوک)

گھر کی جن اشیاء غیر صرف کے بارے میں علم نہ ہو کہ ان پر خمس واجب ہے یا نہیں یعنی معلوم نہ ہو کہ یہ اشیاء مخمس رقم سے خریدی ہیں یا غیر مخمس رقم سے تو ان میں مصالحت کرنا پڑے گی یعنی فقیہ یا اس کے نمائندے سے رضایت لینا پڑے گی۔

مسئلہ کی وضاحت کے لئے اس مثال پر غور کیجئے۔

مثلاً عادل کی طرف احمد کی کچھ رقم ہے اور دونوں واجب الاداء رقم کے بارے میں تو جانتے ہیں لیکن مقدار دونوں میں سے کسی کو معلوم نہیں ہے اور کسی صورت نہ رقم کی مقدار انھیں یاد آتی ہے اور نہ ہی معلوم ہوتی ہے تو ایسی صورت میں صرف مصالحت ہی راہِ حل ہے۔ یعنی ایک دوسرے کو کسی بھی مخصوص مقدار کی ادائیگی پر راضی کرلیں۔

خمس میں بھی ایک طرف طلبگار ہے اوردوسری طرف وہ شخص ہے جس پر واجب الاداء ہے۔ طلبکار ارباب خمس ہوتا ہے اور عصر غیبت میں فقہاءِ جامع الشرائط ارباب خمس قرار پاتے ہیں۔ اور چونکہ مرجع تقلید فرداً فرداً ہر شخص سے مصالحت نہیں کرسکتے ہیں لہذا وہ اپنے نمائندے معین کرتے ہیں جو ان کی جانب سے اس فریضہ کو انجام دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ بغیر مصالحت اموال مشکوک میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔

اگرچہ خمس کے مسائل مذکورہ مقدار سے یقینا بہت زیادہ ہیں لیکن اختصار کا لحاظ رکھتے ہوئے اور نموداری روش سمجھانے کے لئے اسی مقدار پر اکتفاء کیا جا رہا ہے۔

مسائل خمس کی نموداری تنظیم و تقسیم بندی

۱ ۔ سرمایہ کسب

جن پر خمس واجب ہے ۲ ۔ زائد بر مخارج روز مرّہ (اشیاء صرف)

۳ ۔ سالانہ بچت

۱ ۔ ارث

۲ ۔ دیت

اموال جن پر خمس واجب نہیں ۳ ۔ ہبہ

۴ ۔ شہریہ

۵ ۔ مہر

۶ ۔ جہیز

مشکوک اموال گھریلو اشیاء غیر صرف جس کے بارے میں معلوم نہیں ہے کہ مخمس رقم سے خریدی ہیں یا غیر مخمس رقم سے۔ ان کو مصالحت کرنا پڑے گی۔

وضو جبیرہ کے احکام

وہ چیزیں جن سے زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کو باندھا جائے اور وہ دوائی جو زخم وغیرہ پر لگائی جائے اُسے "جبیرہ" کہتے ہیں۔

معمولاً جن افراد کو وضو جبیرہ کرنا پڑتا ہے ان کا زخم یا ٹوٹا ہوا عضو یا ان اعضاء میں سے ہوتا ہے جنہیں وضو میں دھونا پڑتا ہے جیسے چہرہ اور ہاتھ، یا ان اعضاء میں سے ہوتا ہے جن پر مسح کیا جاتا ہے جیسے سر اور پاؤں، ان دونوں کے احکام جدا ہیں اور بعض مسائل میں جزئی تفاوت بھی پایا جاتا ہے۔ ذیل میں وضو جبیرہ کے احکام کی نموداری و درختی تقسیم بندی پیش کی جا رہی ہے۔

زخم، پھنسی یا شکستگی(۱۵)

۲ ۔ مسح مضر نہیں عضو مسح کھلا ہے تو معمول کے مطابق وضو کرے گا۔

عضو مسح بند ہے۔ اگر کھولنا ممکن ہو تو کھول کر معمول کے مطابق وضو کرے ورنہ وضو جبیرہ کرے گااور بنا بر احتیاط واجب تیمم بھی کرے گا۔

اسی طرح ہم فقہ کے مختلف ابواب میں سے احکام و مسائل منتخب کرکے مناسب تنظیم و ترتیب اور ان کی تقسیم بندی کرسکتے ہیں مثلاً توضیح المسائل میں نماز آیات کے اگرچہ عام طور پر دو ہی عناوین بیان کئے جاتے ہیں اول: "نماز آیات" دوم" "نماز آیات کا طریقہ" لیکن ہم انھیں اپنی سہولت کے لئے مختلف عناوین میں تقسیم کرکے تنظیم و ترتیب دے سکتے ہیں۔ مثلاً

۱. وجوب نماز آیات کے اسباب و عوامل،

۲. نماز آیات کا وقت،

۳. نماز آیات کی کیفیت،

۴. جن افراد پر نماز آیات واجب ہے وغیرہ وغیرہ۔

سوالات

۱. احکام کس طرح ذہن میں محفوظ رہ سکتے ہیں اور انھیں کس طرح لوگوں کے سامنے کے لئے آسان بنایا جاسکتا ہے؟

۲. احکام کی تنظیم و تقسیم بندی کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے کس فرمان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے؟

۳. احکام کی تنظیم بندی کس طرح کی جاسکتی ہے اور متداول تقسیم بندی کون سی ہے؟

۴. مؤنہ (ضروریات زندگی) کی کتنی قسمیں ہیں اور کس پر خمس واجب ہوتا ہے؟

۵. اعضائے وضو پر زخم یا شکستگی ہونے کے باوجود مکلف کے لئے کس صورت میں معمول کے مطابق وضو کرنا ضروری ہے؟

____________________

۱۴ ۔غرر الحکم، ح ۳۳۰۴۔

۱۵ ۔تحریر الوسیلہ، ج۱، ص ۳۴، فصل فی الوضو الجبیرہ، توضیح المسائل، م ۳۲۴ تا ۳۲۹۔

پانچویں نشست

احکام کی تنظیم و تقسیم بندی ۲

سوالی تنظیم و تقسیم بندی

کیا آپ نے اس بات کے بارے میں سوچا ہے کہ لوگوں میں احکام سیکھنے اور اس قسم کے درس میں شرکت کرنے کا جذبہ کس طرح بیدار کیا جاے اور ان میں شوق و ترغیبت کا عنصر پیدا کیا جائے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اگر لوگوں میں کسی چیز کی ضرورت کا احساس پیدا کر دیا جائے تو یقیناً وہ اس کی افادیت و ضرورت کو ملحوظ خاطر رکھ کر اس کے حصول کی جستجو کرتے ہیں مثلاً اگر کسی کو اس بات کا ا حساس ہوجائے کہ انگلش وقت کی ضرورت ہے ا ور اس کے بغیر بہترین ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان وغیرہ بننا ممکن نہیں ہے تو وہ یقیناً اس کے لئے جستجو کرتا ہے۔ انسان بہت سے کام صرف احساس بیدار ہونے کی بنیاد پر ہی انجام دیتا ہے۔

یاد رہے کہ سوال انسان میں احساس بیدار کرنے کا بہترین و مؤثر عمل ہے۔ مثلاً جب کسی سے سوال کرتے ہیں تو فوراً سوچتا ہے کہ اس کا جواب معلوم ہے یا نہیں؟ لہذا اس درس میں ہم احکام کو سوالی روش کے مطابق تنظیم و ترتیب دیتے ہوئے ان کی مناسب تقسیم بندی کریں گے۔

وضو

۱. واجبات وضو کیا ہیں؟

۲. وضو میں چہرے کی کتنی مقدار دھونا واجب ہے؟

۳. وضو میں ہاتھوں کی کتنی مقدار دھونا واجب ہے؟

۴. چہرہ یا ہاتھ کسی بھی انداز سے دھو لینا کافی ہے؟

۵. چہرہ اور ہاتھ کا کتنی مرتبہ دھونا واجب ہے؟

۶. سر کا مسح کتنی مقدارمیں واجب ہے؟

۷. کیا بالوں میں مسح کرنا صحیح ہے؟

۸. پاؤں کے مسح کی مقدار (لمبائی اور چوڑائی) کتنی ہے؟

۹. جوراب اور جوتے پر مسح کرنا کیسا ہے؟

۱۰. وضو کے کتنے طریقے ہیں؟

۱۱. وضو کی شرائط کیا ہیں؟

۱۲. کن چیزوں کے لئے وضو کرنا ضروری ہے؟

۱۳. کن چیزوں سے وضو باطل ہوجاتا ہے؟

جوابات

۱ ۔ واجبات وضو، نیت کے ساتھ منہ اور ہاتھ دھوئے جائیں اور سر کے اگلے حصے اور پاؤں کے اوپر والے حصے میں مسح کیا جائے۔ ( )

۲ ۔ چہرے کا طول پیشانی کے اوپر والے بالوں کے اگنے کی جگہ سے لے کر ٹھوڑی تک اور عرض میں چہرے کا جتنا حصہ انگوٹھے اور درمیانی انگلی کے درمیان آجائے دھونا واجب ہے۔(۱۶)

۳ ۔ ہاتھوں کو کہنیوں سے لیکر انگلیوں کے سروں تک دھونا واجب ہے۔(۱۷)

۴ ۔ چہرہ اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے اور اگر اوپر سے نیچے کی طر دھویا جائے تو وضو باطل ہے۔(۱۸)

۵ ۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو ایک دفعہ دھوناو واجب ، دوسری مرتبہ مستحب اور تیسری مرتبہ یا اس سے زیادہ مرتبہ دھونا حرام ہے۔(۱۹)

۶ ۔ مسح کی جگہ پیشانی کے مد مقابل سر کا چوتھائی حصہ ہے اور اس حصہ کی جس جگہ پر مسح ہوجائے کافی ہے۔ اگر احتیاط مستحب یہ ہے کہ لمبائی میں ایک انگلی اور چوڑائی میں ملی ہوئی تین انگلیوں کے برابر ہو۔(۲۰)

۷ ۔ اگر بال چھوٹے ہیں تو صحیح ہے لیکن اگر بال چہرے پر آپڑیں یا (ایک جگہ کے بال دوسری جگہ پہنچ جائیں تو جلد پر مسح کرنا ضروری ہے۔(۲۱)

۸ ۔ کسی ایک انگلی کے سرے سے لیکر پاؤں پر ابھری ہوئی جگہ تک لمبائی میں مسح کرے اور چوڑائی جتنی مقدار بھی ہو کافی ہے۔ ہاں بہتر یہ ہے کہ تین ملی ہوئی انگلیوں کی چوڑائی کے برابر اور اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ پورے پاؤں کا مسح کیا جائے۔(۲۲)

۹ ۔ جوراب اور جوتے پر مسح کرنا باطل ہے، ہاں اگر سخت سردی یا چور اور درندہ وغیرہ کے خوف سے جوراب یا جوتا نہیں اتار سکتا تو پھر کوئی اشکال نہیں ہے اور اگر جوتے کا اوپر کا حصہ نجس ہو تو پھر اس پر کوئی پاک چیز ڈال کر اس کے اوپر مسح کیا جائے۔(۲۳)

۱۰ ۔ وضو دو طرح سے انجام دیا جاسکتا ہے، ترتیبی اور ارتماسی۔(۲۴)

۱۱ ۔ شرائط وضو مندرجہ ذیل ہیں۔(۲۵)

۱. پانی پاک ہو،

۲. پانی مطلق ہو،

۳. پانی مباح ہو،

۴. پانی کا برتن بھی مباح ہو،

۵. پانی کا برتن سونے چاندی کا نہ ہو،

۶. اعضاء وضو دھونے اور مسح کرتے وقت پاک ہونے چاہئیں،

۷. وضو اور نماز کے لئے وقت کافی ہو،

۸. وضو کو قصد قربت سے انجام دے،

۹. ترتیب کے مطابق انجام دے،

۱۰. موالات کا خیال رکھے،

۱۱. افعال وضو خود انجام دے،

۱۲. پانی کے استعمال سے کوئی چیز مانع نہ ہو مثلاً بیماری،

۱۳. پانی کے وضو کے عضو تک پہنچنے سے کوئی امر مانع نہ ہو مثلاً میل وغیرہ۔

۱۲ ۔ چھ چیزوں کے لئے وضو کرنا چاہیے۔(۲۶)

۱. نماز میت کے علاوہ تمام واجب نمازوں کے لئے،

۲. بھولا ہوا سجدہ اور تشہد اگر اس کے اور نماز کے درمیان کوئی حدث مثل پیشاب وغیرہ کے سرزد ہوجائے،

۳. خانہ کعبہ میں واجب طواف کے لئے،

۴. اگر نذر، عہد یا قسم کھائے کہ میں وضو کروں گا،

۵. قرآن کے حروف کو مس کرنے کے لئے،

۶. نجس شدہ قرآن کو پاک کرنے یا بیت الخلاء سے نکالنے کے لئے جبکہ مجبور ہو کہ اس کا ہاتھ قرآن کے حروف سے مس ہوجائے گا۔

۱۳ ۔ وضو کو باطل کرنے والی چیزیں سات ہیں۔(۲۷)

۱. پیشاب،

۲. پاخانہ،

۳. وہ ریح جو مقام پاخانہ سے خارج ہو،

۴. وہ نیند جو آنکھوں اور کانوں پر غالب آجائے،

۵. وہ چیزیں جو عقل کو زائل کردیتی ہیں مثلاً دیوانگی، مستی، بے ہوشی،

۶. خون استحاضہ

۷. وہ کام جس کی وجہ سے غسل کرنا پڑتا ہے جیسے جنابت۔

اسی طرح مختلف سوالات پیش کرکے ان کے جوابات دیتے جائیں اور جہاں وضاحت کی ضرورت محسوس کریں، وضاحت بھی کریں اور دوران وضاحت مزید سوالات پیش کرکے ان کے جوابات دے سکتے ہیں۔

سوالات

۱. لوگوں میں احکام سیکھنے اور درس احکام میں شرکت کرنے کا احساس کس طرح پیدا کیا جاسکتا ہے؟

۲. فقہی مباحث میں کسی بھی موضوع کو منتخب کرکے سوالی روش کے مطابق تنظیم و ترتیب دیں۔

____________________

۱۶ ۔توضیح المسائل، م۲۳۶۔

۱۷ ۔ توضیح المسائل، م ۲۳۷۔

۱۸ ۔ توضیح المسائل، م ۲۴۵۔

۱۹ ۔ توضیح المسائل، م ۲۴۳۔

۲۰ ۔ توضیح المسائل، م ۲۴۸۔

۲۱ ۔ توضیح المسائل، م ۲۵۰۔

۲۲ ۔ توضیح المسائل، م ۲۵۱۔

۲۳ ۔ توضیح المسائل، م ۲۵۲، ۲۵۳۔

۲۴ ۔ توضیح المسائل، م ۲۵۹۔

۲۵ ۔ توضیح المسائل، م ۲۳۶و ۲۶۱۔

۲۶ ۔ توضیح المسائل، م ۲۶۵ تا ۲۹۸۔

۲۷ ۔توضیح المسائل، م ۳۱۶۔

چھٹی نشست

احکام کی تنظیم و تقسیم بندی ۳

عنوانی تنظیم و ترتیب

احکام کی عنوانی تنظیم سے مراد یہ ہے کہ چند جذاب اور مبتلا بہ عناوین منتخب کریں اور مختلف فقہی مباحث میں سے ان سے مربوط مسائل جمع کرلیں مثلاً بطور نمونہ ہم یہاں لباس اور لڑکے اور لڑکیوں کے روابط کے بارے میں مسائل پیش کر رہے ہیں۔

احکام لباس

اگرچہ عام طور پر فقہی کتب میں احکام لباس کا عنوان بیان نہیں کیا گیا ہے لیکن کتبِ اخلاق میں لباس پہننے کے آداب اور فقہی کتب میں نمازی کے لباس کے احکام بیان کئے جاتے ہیں۔

پس لباس کے احکام کو مندرجہ ذیل عناوین میں تقسیم کرتے ہیں۔

۱. نمازی کا لباس،

۲. عام لباس،

۳. لباس احرام،

۴. لباس آخر (لباس میت)۔

آخری دو عناوین صرف مخصوص افراد کے لئے بیان کئے جاتے ہیں۔

نمازی کے لباس کی شرائط(۲۸)

۱ ۔ پاک ہو،

۲ ۔ مباح ہو،

۳ ۔ مردار کا جزو نہ ہو،

۴ ۔ حرام گوشت جانور کے اجزاء سے نہ ہو،

۵ و ۶ ۔ نمازی مرد ہے تو خالص ریشم و سونے کے تاروں سے بُنا ہوا نہ ہو۔

عام لباس (لباس حجاب)

یعنی عام طور پر بدن چھپانے کے لئے معاشرے میں استعمال کیا جاتا ہے اس کی مندرجہ ذیل شرائط ہیں۔

۱ ۔ مباح ہو، یعنی انسان یا اس لباس کا خود مالک ہو یا اس لباس کے استعمال کا اسے اختیار حاصل ہو۔ (لباس نماز اور لباس حجاب دونوں کا مباح ہونا شرط ہے)۔

۲ ۔ لباس بدن کی مقدار واجب کو چھپا سکتا ہو، خواتین کے لئے تمام بدن کا چھپانا واجب ہے البتہ وضو میں جتنا چہرہ دھونا واجب ہے اور کلائی تک ہاتھ چھپانا واجب نہیں ہے۔

۳ ۔ لباس شہرت نہ ہو، یعنی ایسا لباس جس کا رنگ یا سلائی کڑھائی لوگوں کی نظروں کو اپنی طرف کھینچے اور لوگوں کی انگشت نمائی کا سبب بن جائے۔

۴ ۔ صنف مخالف کا لباس نہ ہو، یعنی مرد کے لئے جائزنہیں ہے کہ وہ مخصوص زنانہ لباس پہنے اور اسی طرح عورت کے لئے لیے مخصوص مردانہ لباس پہننا جائز نہیں ہے مثلاً چادر خواتین کا مخصوص لباس ہے اسی طرح شیروانی مردوں کا مخصوص لباس ہے، نیز ہیل والی شوز خواتین کا لباس ہے۔

۵ ۔ ایسا باریک لباس نہ ہو جس میں سے بدن جھلکتا ہو۔

۶ ۔ لباس ہیجان آور نہ ہو، ایسا لباس پہننا جس کی وجہ سے لوگوں کی نازیبا نگاہیں اس کی طرف کھنچ جائیں مثلاً بعض چست لباس، بعض رنگ یا کم لباس وغیرہ۔

۷ ۔ کافروں کا مخصوص لباس نہ ہو، جیسے صلیب کا نشان، ٹائی وغیرہ۔

لڑکے لڑکیوں کے باہمی روابط

آج کل کے جذاب و مبتلا بہ موضوعات میں سے ایک لڑکے اور لڑکیوں کے باہمی روابط ہیں اور ان کے احکام پانچ قسموں میں تقسیم کئے جا رہے ہیں:

۱ ۔ خیال؛ کسی نا محرم کو دل و دماغ میں لانا، اس کے بارے میں سوچنا اور اس کا عاشق و دیوانہ ہونا،

۲ ۔ گفتگو؛ یعنی نامحرم سے روبرو گفتگو کرنا، فون پر گفتگو کرنا یا چیٹنگ کرنا،

۳ ۔ تحریر؛ خط و کتابت اور SMS کرنا،

۴ ۔ دیدار؛ ایک دوسرے کو دیکھنا،

۵ ۔ مس؛ یعنی ایک دوسرے کو مس کرنا مثلاً ہاتھ ملانا وغیرہ۔

ذیل میں ہر ایک کے احکام بیان کئے جا رہے ہیں۔

٭ خیال؛ مندرجہ ذٰل شرائط کے ساتھ ذہنی رابطہ میں اشکال نہیں ہے۔

۱. جنسی شہوت کا سبب نہ ہو؛

۲. بہ قصد لذت نباشد؛

۳. فساد کا باعث نہ ہو۔

٭گفتگو اور تحریر ؛ان دونوں کے احکام مشترک ہیں اور مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

۱. ردّ و بدل ہونے والے مطالب حرام و مبتذل نہ ہوں،

۲. جنسی شہوت کی تحریک کا باعث نہ ہوں،

۳. فساد کا باعث نہ ہوں۔

٭دیدار ؛دیداری رابطہ سے مراد وہی "نگاہ کرنے کے احکام" ہیں جنکی تفصیلات توضیح المسائل وغیرہ میں درج ہیں۔

٭مس؛ یعنی بدن کے کسی بھی حصہ کا نامحرم سے مس کرنا چاہے لذت کی غرض سے نہ ہو اور اسی طرح چاہے ہیجان آور بھی نہ ہو۔

اسی طرح مختلف اصناف سے متعلق عناوین تیار کرکے ان کے مسائل تنظیم کرسکتے ہیں۔ مثلاً درزی کے احکام، ہیئر ڈریسنگ کے احکام، وڈیو میکر کے احکام، نرسنگ کے احکام، ڈاکٹرز اور علاج و معالجہ کے احکام وغیرہ۔

اگر ان شعبوں سے متعلق مسائل جمع کرکے بیان کئے جائیں تو یقیناً جذاب اور قابل توجہ قرار پائیں گے۔

تلفیقی تنظیم و ترتیب

تلفیقی تنظیم و ترتیب درحقیقت دو مختلف شعبوں سے بیک وقت استفادہ ہے مثلاً کسی بھی موضوع کو منتخب کرکے سوال سے شروع کریں اور پھر نموداری روش سے استفادہ کریں یا ایک مخصوص عنوان منتخب کرکے پھر نموداری روش سے استفادہ کریں جیسا کہ ہم نے عنوانی تنظیم میں کیا ہے کہ عنوان سے شروع کیا ہے اور پھر نموداری روش سے استفادہ کیا ہے۔

خلاصہ نویسی اور اس کا مطالعہ

نسخہ برداری و خلاصہ نویسی کلاس کے اصولوں میں سے ہے لیکن یہ سوال درپیش ہے کہ احکام شرعی میں کس طرح خلاصۃ نویسی قلم بند کی جائے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ احکام کی خلاصہ نویسی نموداری روش کے مطابق کریں یا کلی سوالات منتخب کئے جائیں یا جن مسائل کے فراموش ہونے کا اندیشہ ہو انھیں یاد داشت کے طور پر بطور خلاصہ تحریر کرلینا چاہیے۔

یاد داشت نویسی و خلاصہ نویسی کے بعد انھیں پھر ایک بار بغور مطالعہ کرلینا چاہیے، اس طرح ذہن میں مطالب محفوظ رہ جائیں گے اور تبلیغ کے موقع پا انسان گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا۔

سوالات

۱. لباس نماز و حجاب کی مشترک شرائط کیا ہیں؟

۲. نامحرم کے ساتھ گفتاری و تحریر روابط کی کیا شرائط ہیں؟

۳. کسی ایک جذاب عنوان کو منتخب کرکے اس کی تقسیم بندی کیجئے۔

۴. خلاصہ نویسی کا ضابطہ اور فائدہ بیان کریں؟

____________________

۲۸ ۔توضیح المسائل، م ۳۲۳۔

ساتویں نشست

تقسیم بندی پر ایک نظر

ڈاکٹر سے مربوط احکام کی تقسیم بندی

ذیل میں ڈاکٹرز سے مربوط احکام کی مختلف تقسیم بندی پیش کی جارہی ہے۔

۱ ۔ ڈاکٹر کے مشترک احکام

۲ ۔ اسپیشلسٹ ڈاکٹرز سے مربوط احکام

۳ ۔ اعضائے بدن کے احکام

۴ ۔ طبابت سے مربوط مشاغل کے احکام

ہم یہاں پر فقط ڈاکٹرز کے مشترک احکام کی نموداری تقسیم بندی و جدول پیش کر رہے ہیں۔

۱ ۔ معائنہ و علاج

۲ ۔ معائنہ فیس وغیرہ

معائنہ علاج ۱ ۔ نگاہ و مس کرنا

۲ ۔ علاج اور تجویز دوا

۳ ۔ ڈاکٹر کا ضامن ہونا یا نہ ہونا

۴ ۔ ڈاکٹر کی نظر کی حیثیت

٭نگاہ و مس ۱ ۔ مریض کے بدن کو دیکھنا اور مس کرنا

۲ ۔ مریض کی شرمگاہ پر نظر ڈالنا

٭علاج اور تجویز دوا

۱ ۔ حلال چیزوں سے علاج جائز ہے

علاج حرام پر منحصر نہیں ہے حرام ہے

۲ ۔ حرام اشیاء سے علاج

علاج حرام پر منحصر ہے حرام نہیں

۳ ۔ ایسی چیز سے علاج جس سے قطعی ضرر واقع ہو مثلاً زندگی بچانے کے لئے ہاتھ یا پاؤں کا کاٹنا جائز ہے

ملحقات ۱ ۔ مقدار استفادہ از حرام؟ بمقدار ضرورت جائز ہے

۲ ۔ حفظ جان بیمار؟ واجب ہے

۳ ۔ بیمار کی موت میں جلدی؟ جائز نہیں ہے

٭ڈاکٹر (معالج) کا ضامن یا غیر ضامن ہونا

۱ ۔ ڈاکٹر کے ضامن ہونے کے موارد

۱ ۔ اگر ڈاکٹر اپنے ہاتھ سے آپریشن نہ کرے یا دوا نہ دے بلکہ فقط دوا کی توصیف بیان کرے تو ضامن نہیں ہے

۲ ۔ اگر براہ راست خود آپریشن کرے

۱ ۔ اگرعلاج میں خطا کرے ضامن ہے ، چاہے مہارت رکھتا ہو۔

۲ ۔ اگر مہارت علمی و عملی رکھتا ہو توضامن ہے چاہے مریض کی اجازت سے علاج کرے یا بغیر اجازت۔

۳ ۔ علمی مہارت رکھتا ہے

۱ ۔ اگر بیمار یا اس کے ولی کی اجازت سے علاج کرے تو مالی نقصان کا ضامن ہے۔

۲ ۔ اگر بغیرت اجازت انجام دے تو ضامن ہے۔

۳ ۔ معمولاً اورمتعارف علاج میں بعید نہیں کہ ڈاکٹر ضامن ہو

۲ ۔ جن موارد میں ڈاکٹر ضامن نہیں (رفع مسئولیت)

۱ ۔ اگر مریض بالغ و عاقل نہ ہو تو ولی کی اجازت معتبر ہے

۲ ۔ اگر مریض بالغ و عاقل ہوتو خود اس کی اجازت معتبر ہے اگرچہ موت کا سبب بن جائے۔

۳ ۔ مریض بالغ و عاقل لیکن کامل العقل نہ ہو۔

مریض کی اجازت صرف اس حد تک معتبر ہے کہ موت کا سبب نہ بنے۔

ولی کی اجازت اگرچہ موت کا سبب بنے معتبر ہے۔

٭ڈاکٹر کی نظر کی حیثیت

اسے ہم سوالی تنظیم کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔

روزہ: س: کیا ڈاکٹر کے کہنے اور اس کی تشخیص کی بنا پر روزہ افطار کرنا جائز ہے؟

ج: روزہ کھولنے میں عام عاقل مکلفین کا یقین، گمان یا احتمال کافی ہے اگرچہ ڈاکٹر کی نظر اس کے برخلاف ہو۔

اثبات ِموت:

س:کیا ڈاکٹر کی تشخیص پر کسی کو دفن کرنا جائز ہے؟

ج: اگر ڈاکٹر کے کہنے پر موت کا یقین حاصل ہوجائے تو دفن جائز ہے۔

ڈاکٹر کی معائنہ فیس

اسے بھی سوالی تنظیم کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔

س: کیا علاج کے لئے معائنہ فیس لینا جائز ہے؟

ج: اگرچہ علاج واجب ہے لیکن اس کے باوجود فیس لینا جائز ہے۔

س: کتنی فیس لینا جائز ہے؟

ج: اگر آپریش وغیرہ سے قبل فیس معین کی گئی تھی تو اتنی ہی ادا کرنا ہوگی اور اگر معین نہیں کی گئی یا باہمی موافقت نہیں کی گئی تو اجرت المثل ادا کرنا ہوگی۔

ضمان کی عنوانی تنظیم: مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد جن مواردمیں ضامن ہوتے ہیں تنظیم عنوانی کی صورت میں ایک جھلک میں پیش کئے جا رہے ہیں اگرچہ ضامن ہونے کے موارد بہت زیادہ ہیں:

ڈاکٹر اگر علمی و عملی مہارت سے عاری ہو یا اپنے فریضہ میں کوتاہی کرے تو قطعا ضامن ہے مثلاً انسان کے انجکشن کے بجائے گھوڑے کا انجکشن لکھ دے۔

میڈیکل اسٹور اگر غفلت و کوتاہی کی بنا پرغلط دوا دیدے تو ضامن ہوگا۔

ڈسپنسر اگر غلط انجکشن یا ڈرپ لگا دے تو ضامن ہے۔

اگر پولیس کسی کو اس طرح مارے کہ اس کے بدن پر ضرب لگ جائے تو ضامن ہے۔

اگر چالان کی دھمکی دیکر کسی سے ناحق پیسے وصول کریں توپولیس والا اس رقم کا مالک نہیں ہوسکتا اور وہ اسم رقم کا ضامن رہے گا۔

اگر پولیس وغیرہ No Parking سے کسی کی گاڑی کسی دوسری جگہ منتقل کریں تو گاڑی پر وارد ہونے والے نقصان کے ذمہ دار ہوں گے۔

اگرعمارت میں دونمبر مصالحہ استعمال کریں اور عمارت گر جائے تو نقصان کے ذمہ دار ہیں

اگر آٹھ گھنٹے کے بجائے چار گھنٹے کام کریں تو ضامن ہوں گے۔

اگر مسافر حضرات بس وغیرہ کی سیٹوں کو خراب کریں تو نقصان کے ذمے دار ہوں گے۔

اگر مسافر ٹرین وغیرہ میں سے بلب وغیرہ غائب کرکے لے آئیں تو ضامن ہوں گے۔


3

4

5