روش بیان احکام

روش بیان احکام0%

روش بیان احکام مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

روش بیان احکام

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مولانا سید بہادر علی زیدی قمی
زمرہ جات: مشاہدے: 4849
ڈاؤنلوڈ: 1743

تبصرے:

روش بیان احکام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 27 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 4849 / ڈاؤنلوڈ: 1743
سائز سائز سائز
روش بیان احکام

روش بیان احکام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

چوتھی نشست

احکام کی تنظیم و تقسیم بندی ۱

یقیناً بہترین و برترین کلام وہی ہوتا ہے جس سے خواص بھی بہرہ مند ہوں اور عوام بھی استفادہ کرسکیں۔

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:

"أَحۡسَنُ الكلامِ مَا زَانَهُ حُسنُ النظام و فَهِمَهُ الخاص و العام "(۱۴) ۔

بہترین کلام وہ ہوتا ہے جو منظم ہو اور اسے خاص و عام سمجھ سکیں۔

پس حضرت علی علیہ السلام کے کلام سے واضح ہوتا ہے کہ مفید و بہترین کلام وہی ہوتا ہے جس سے خاص لوگوں کے علاوہ عام لوگ بھی بہرہ مند ہوسکیں۔

نیز آنجنابؑ کے اس فرمان سے یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ کلام منظم و مرتب ہونا چاہیے، کیونکہ جو مسائل و احکام ہم مخاطبین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں اگر انھیں منظم و مرتب کرکے مناسب تقسیم بندی کرلی جائے تو یقیناً لوگوں کے لئے سمجھنا آسان ہوجائے گا ، اور یاد رہے کہ بیان احکام کا اوّلین مقصد لوگوں کا سمجھنا ہے اور پھر اس کے بعد عمل کرنا ہے۔

لہذا اگر ہم مسائل انتخاب کرنے کے بعد ان کی مناسب تقسیم بندی کریں تو ہم خود بھی اچھی طرح اپنے ذہن میں محفوظ رکھ سکتے ہیں اور مخاطبین بھی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اور انھیں یاد رکھ سکتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منتخب شدہ مسائل کو کس طرح منظم کیا اور ان کی تقسیم بندی کے لئے کون سا طریقہ استعمال کرنا چاہیے۔

ہم یہاں تنظیم بندی و تقسیم بندی کے چند طریقے پیش کر رہے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

۱ ۔نموداری یا درختی ۲ ۔ سوالی

۳ ۔ عنوانی ۴ ۔ ترکیبی

٭روش نموداری یا درختی

منتخب شدہ مسائل کو متعارف نمودار یا درختی انداز پر منظم اور تقسیم کرنا ہے یعنی کُل اس طرح کو اجزاء میں تقسیم کیا جاتا ہے کہ تقسیم کرتے کرتے ہم کُل سے آخری مطلوبہ جُز تک پہنچ جائیں۔مطالب کی یہ تقسیم بندی عام و نسبتاً آسان سمجھی جاتی ہے اور بعض مقامات پر زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔

٭ روش سوالی

اس روش کے مطابق ہم منتخب شدہ مطالب کو مختلف سوالات کے قالب میں ڈھالتے ہیں اور اس طرح ان کی منطقی ترتیب و تنظیم سے آراستہ کرکے خود ان کے جوابات فراہم کرتے ہیں۔

٭روش عنوانی

اس روش کے مطابق ایک مخصوص عنوان منتخب کرکے مختلف ابواب میں اس سے متعلق مسائل تلاش کرکے مطالب کو منظم و مرتب کیا جاتا ہے مثلاً احکام لباس وغیرہ۔

٭روش تلفیقی

درحقیقت روش تلفیقی الگ سے کوئی مخصوص روش نہیں ہے بلکہ گذشتہ تین روشوں کا باہمی ملاپ ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ ایک نشست میں ہم مطالب بیان کرنے کے لئے تینوں روشوں سے بیک وقت استفادہ کرلیں۔ مثلاً کسی موضوع کے بارے میں ہم اپنی گفتگو کا آغاز سوالی روش سے کریں اور پھر چند سوالات پیش کرنے کے بعد نموداری اور درختی روش سے استفادہ کریں۔

روش نموداری یا درختی

گذشتہ مطالب کے بہتر فہم و تعلم کے خاطر روش نموداری یا درختی کے مطابق احکام کی تقسیم بندی کی ایک دو مثالیں بطور نمونہ پیش کی جا رہی ہیں:

خمس

خمس سات چیزوں پر واجب ہے:

۱. وہ نفع جو کسب (کارو بار) سے حاصل ہو،

۲. معدن (کان)،

۳. گنج (خزانہ)،

۴. جب حلال مال، حرام سے مل جائے،

۵. وہ جواہرات جو دریا میں غوطہ لگانے سے ہاتھ آئیں،

۶. جنگ میں مال غنیمت،

۷. وہ زمین جو کافر ذمی نے مسلمان سے خریدی ہو۔

ان سات موارد میں سے اکثر معاشرے کے لوگوں کے لئے جو مورد ابتلاء ہے وہ منفعت کسب ہے یعنی لوگ تجارت، صنعت اور مختلف کام کاج کرکے جو منافع حاصل کرتے ہیں اس پر واجب ہونے والا خمس ہے اور کیونکہ اس کے مسائل چندان مشکل بھی سمجھے جاتے ہیں اس لئے یہاں صرف منفعت کسب کی تقسیم بندی پیش کی جا رہی ہے۔

خمس واجب ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے لوگوں کے اموال کی تین قسمیں ہیں:

۱. وہ اموال جن پر قطعا خمس واجب ہے،

۲. وہ اموال جن پر قطعا خمس واجب نہیں ہے،

۳. مشکوک اموال یعنی جن کے بارے میں معلوم نہیں کہ ان پر خمس واجب ہوا ہے یا نہیں۔

پہلی قسم (وہ اموال جن پر قطعا خمس واجب ہے)

۱ ۔ سرمایہ، ۲ ۔ زائد بر مخارج روزمرہ، ۳ ۔ سالانہ بچت۔

۱ ۔ سرمایہ و کسب؛ وہ اصلی مال جو درآمد کے لئے بطور سرمایہ اور منبع استعمال کیا جائے جیسے دکان، آلات، کھیتی باڑی کے آلات، زراعت کی زمین، سلائی کا سامان، ویلڈنگ کا سامان، کارخانہ، ٹرک، بس اور ٹیکسی وغیرہ وغیرہ۔

۲ ۔ زائد بر مخارج روزمرّہ؛یعنی وہ اشیاء صرف جو انسان دوران سال زندگی بسر کرنے کے لئے خریدتا ہے اور وہ تمام یا ان کا کچھ حصہ بچ جاتا ہے جیسے چاول، گھی، آٹا، چینی، پتی اور دالیں وغیرہ۔

زندگی بسر کرنے کے لئے عام طور پر انسان کو جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے اسے اصطلاح میں مؤونہ کہتے ہیں (یعنی ضروریات زندگی) اور اس کی دو قسمیں ہیں:

۱ ۔ اشیاء صرف،

۲ ۔ اشیاء غیر صرف۔

اشیاء صرف سے مراد وہ اشیاء ہیں جو استعمال کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی رہتی ہیں جیسے آٹا، چینی، پتی، گھی ،دالیں وغیرہ۔ اگر استعمال کرتے کرتے ان اشیاء میں سے سال کے آخر میں کچھ بچ جائے تو ان پر خمس واجب ہوگا۔

اشیاء غیر صرف سے مراد وہ اشیاء ہیں جو سال بھر استعمال ہونے کے باوجود باقی رہتی ہیں جیسے مکان جس میں سالہا سال رہتا ہے لیکن پھر بھی باقی رہتا ہے اسی طرح قالین، ریفریجریٹر، ٹی وی، کمپیوٹر، گاڑی وغیرہ بھی ہیں۔ جو شخص پابندی سے خمس کا حساب کتاب رکھتا ہے اگر وہ سالانہ مخارج میں سے یہ اشیاء مہیا کرتا ہے تو ان پر خمس نہیں ہے لیکن جس نے کبھی خمس کا حساب نہیں کیا اور مشکوک ہو تو ان اشیاء کے سلسلہ میں مصالحہ کرنا پڑے گا۔

۳ ۔ سالانہ بچت؛ یعنی وہ نقدی رقم جو انسان قناعت کی وجہ سے اپنی سالانہ آمدنی میں سے بچا لیتا ہے چاہے اس نے وہ رقم اپنے پاس رکھی ہو یا بینک وغیرہ میں محفوظ کی ہو، یہاں تک کہ اگر اس نے وہ رقم کسی کو بطور قرض دی ہو۔

دوسری قسم (وہ اموال جن پر خمس نہیں ہے)

۱ ۔ ارث، ۲ ۔ دیت، ۳ ۔ ہبہ، ۴ ۔ شہریہ، ۵ ۔ مہر، ۶ ۔ جہیز۔

۱ ۔ ارث؛ جو چیز انسان کو بطور میراث ملتی ہے اس پر خمس واجب نہیں ہے مگر یہ کہ اسے یقین ہو کہ مالک نے اس مال کا خمس ادا نہیں کیا تھا۔ لیکن اگر ہم جانتے ہوں کہ مالک خمس کا پابند تھا یا اس نے اس مال کا خمس ادا کردیا تھا یا ہمیں نہیں معلوم کہ اس مال پر خمس واجب ہوا تھا یا نہیں تو ایسی صورت میں خمس واجب نہیں ہوگا۔

۲ ۔ دیت؛ جو چیز انسان کو بطور دیت حاصل ہوتی ہے اس پر خمس واجب نہیں ہے۔

۳ ۔ ہبہ؛ جو چیز انسان کو بخش دی جاتی ہے اس پر خمس واجب نہیں ہے۔ مثلاً انعام و اکرام، عیدی، سوغات اور تحفہ وغیرہ۔

۴ ۔ مہر؛ عورت کو جو رقم بطور مہر ملتی ہے اس پر خمس نہیں ہے۔

۵ ۔ شہریہ؛ حوزہ علمیہ اور مدارس و یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلاب کو بطور شہریہ و وظیفہ جو رقم ملتی ہے اس پر خمس نہیں ہے۔

۶ ۔ جہیز؛ اگر جہیز کی اشیاء بیٹی کو بخش دی جائیں تو ہبہ شمار ہوتی ہیں اور ان پر خمس نہیں ہوگا۔

نکتہ

مذکورہ بالا موارد میں اختلاف فتویٰ بھی پایا جاتا ہے لہذا خمس کا حساب کرتے وقت ا س بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ خصوصاً ہبہ کے بارے میں بہت سے فقہاء کی نظریہ ہے کہ اگر سال بھر استعمال نہ ہو تو اس پر خمس واجب ہے۔

تیسری قسم (اموال مشکوک)

گھر کی جن اشیاء غیر صرف کے بارے میں علم نہ ہو کہ ان پر خمس واجب ہے یا نہیں یعنی معلوم نہ ہو کہ یہ اشیاء مخمس رقم سے خریدی ہیں یا غیر مخمس رقم سے تو ان میں مصالحت کرنا پڑے گی یعنی فقیہ یا اس کے نمائندے سے رضایت لینا پڑے گی۔

مسئلہ کی وضاحت کے لئے اس مثال پر غور کیجئے۔

مثلاً عادل کی طرف احمد کی کچھ رقم ہے اور دونوں واجب الاداء رقم کے بارے میں تو جانتے ہیں لیکن مقدار دونوں میں سے کسی کو معلوم نہیں ہے اور کسی صورت نہ رقم کی مقدار انھیں یاد آتی ہے اور نہ ہی معلوم ہوتی ہے تو ایسی صورت میں صرف مصالحت ہی راہِ حل ہے۔ یعنی ایک دوسرے کو کسی بھی مخصوص مقدار کی ادائیگی پر راضی کرلیں۔

خمس میں بھی ایک طرف طلبگار ہے اوردوسری طرف وہ شخص ہے جس پر واجب الاداء ہے۔ طلبکار ارباب خمس ہوتا ہے اور عصر غیبت میں فقہاءِ جامع الشرائط ارباب خمس قرار پاتے ہیں۔ اور چونکہ مرجع تقلید فرداً فرداً ہر شخص سے مصالحت نہیں کرسکتے ہیں لہذا وہ اپنے نمائندے معین کرتے ہیں جو ان کی جانب سے اس فریضہ کو انجام دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ بغیر مصالحت اموال مشکوک میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔

اگرچہ خمس کے مسائل مذکورہ مقدار سے یقینا بہت زیادہ ہیں لیکن اختصار کا لحاظ رکھتے ہوئے اور نموداری روش سمجھانے کے لئے اسی مقدار پر اکتفاء کیا جا رہا ہے۔

مسائل خمس کی نموداری تنظیم و تقسیم بندی

۱ ۔ سرمایہ کسب

جن پر خمس واجب ہے ۲ ۔ زائد بر مخارج روز مرّہ (اشیاء صرف)

۳ ۔ سالانہ بچت

۱ ۔ ارث

۲ ۔ دیت

اموال جن پر خمس واجب نہیں ۳ ۔ ہبہ

۴ ۔ شہریہ

۵ ۔ مہر

۶ ۔ جہیز

مشکوک اموال گھریلو اشیاء غیر صرف جس کے بارے میں معلوم نہیں ہے کہ مخمس رقم سے خریدی ہیں یا غیر مخمس رقم سے۔ ان کو مصالحت کرنا پڑے گی۔

وضو جبیرہ کے احکام

وہ چیزیں جن سے زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کو باندھا جائے اور وہ دوائی جو زخم وغیرہ پر لگائی جائے اُسے "جبیرہ" کہتے ہیں۔

معمولاً جن افراد کو وضو جبیرہ کرنا پڑتا ہے ان کا زخم یا ٹوٹا ہوا عضو یا ان اعضاء میں سے ہوتا ہے جنہیں وضو میں دھونا پڑتا ہے جیسے چہرہ اور ہاتھ، یا ان اعضاء میں سے ہوتا ہے جن پر مسح کیا جاتا ہے جیسے سر اور پاؤں، ان دونوں کے احکام جدا ہیں اور بعض مسائل میں جزئی تفاوت بھی پایا جاتا ہے۔ ذیل میں وضو جبیرہ کے احکام کی نموداری و درختی تقسیم بندی پیش کی جا رہی ہے۔

زخم، پھنسی یا شکستگی(۱۵)

۲ ۔ مسح مضر نہیں عضو مسح کھلا ہے تو معمول کے مطابق وضو کرے گا۔

عضو مسح بند ہے۔ اگر کھولنا ممکن ہو تو کھول کر معمول کے مطابق وضو کرے ورنہ وضو جبیرہ کرے گااور بنا بر احتیاط واجب تیمم بھی کرے گا۔

اسی طرح ہم فقہ کے مختلف ابواب میں سے احکام و مسائل منتخب کرکے مناسب تنظیم و ترتیب اور ان کی تقسیم بندی کرسکتے ہیں مثلاً توضیح المسائل میں نماز آیات کے اگرچہ عام طور پر دو ہی عناوین بیان کئے جاتے ہیں اول: "نماز آیات" دوم" "نماز آیات کا طریقہ" لیکن ہم انھیں اپنی سہولت کے لئے مختلف عناوین میں تقسیم کرکے تنظیم و ترتیب دے سکتے ہیں۔ مثلاً

۱. وجوب نماز آیات کے اسباب و عوامل،

۲. نماز آیات کا وقت،

۳. نماز آیات کی کیفیت،

۴. جن افراد پر نماز آیات واجب ہے وغیرہ وغیرہ۔

سوالات

۱. احکام کس طرح ذہن میں محفوظ رہ سکتے ہیں اور انھیں کس طرح لوگوں کے سامنے کے لئے آسان بنایا جاسکتا ہے؟

۲. احکام کی تنظیم و تقسیم بندی کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے کس فرمان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے؟

۳. احکام کی تنظیم بندی کس طرح کی جاسکتی ہے اور متداول تقسیم بندی کون سی ہے؟

۴. مؤنہ (ضروریات زندگی) کی کتنی قسمیں ہیں اور کس پر خمس واجب ہوتا ہے؟

۵. اعضائے وضو پر زخم یا شکستگی ہونے کے باوجود مکلف کے لئے کس صورت میں معمول کے مطابق وضو کرنا ضروری ہے؟

____________________

۱۴ ۔غرر الحکم، ح ۳۳۰۴۔

۱۵ ۔تحریر الوسیلہ، ج۱، ص ۳۴، فصل فی الوضو الجبیرہ، توضیح المسائل، م ۳۲۴ تا ۳۲۹۔

پانچویں نشست

احکام کی تنظیم و تقسیم بندی ۲

سوالی تنظیم و تقسیم بندی

کیا آپ نے اس بات کے بارے میں سوچا ہے کہ لوگوں میں احکام سیکھنے اور اس قسم کے درس میں شرکت کرنے کا جذبہ کس طرح بیدار کیا جاے اور ان میں شوق و ترغیبت کا عنصر پیدا کیا جائے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اگر لوگوں میں کسی چیز کی ضرورت کا احساس پیدا کر دیا جائے تو یقیناً وہ اس کی افادیت و ضرورت کو ملحوظ خاطر رکھ کر اس کے حصول کی جستجو کرتے ہیں مثلاً اگر کسی کو اس بات کا ا حساس ہوجائے کہ انگلش وقت کی ضرورت ہے ا ور اس کے بغیر بہترین ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان وغیرہ بننا ممکن نہیں ہے تو وہ یقیناً اس کے لئے جستجو کرتا ہے۔ انسان بہت سے کام صرف احساس بیدار ہونے کی بنیاد پر ہی انجام دیتا ہے۔

یاد رہے کہ سوال انسان میں احساس بیدار کرنے کا بہترین و مؤثر عمل ہے۔ مثلاً جب کسی سے سوال کرتے ہیں تو فوراً سوچتا ہے کہ اس کا جواب معلوم ہے یا نہیں؟ لہذا اس درس میں ہم احکام کو سوالی روش کے مطابق تنظیم و ترتیب دیتے ہوئے ان کی مناسب تقسیم بندی کریں گے۔

وضو

۱. واجبات وضو کیا ہیں؟

۲. وضو میں چہرے کی کتنی مقدار دھونا واجب ہے؟

۳. وضو میں ہاتھوں کی کتنی مقدار دھونا واجب ہے؟

۴. چہرہ یا ہاتھ کسی بھی انداز سے دھو لینا کافی ہے؟

۵. چہرہ اور ہاتھ کا کتنی مرتبہ دھونا واجب ہے؟

۶. سر کا مسح کتنی مقدارمیں واجب ہے؟

۷. کیا بالوں میں مسح کرنا صحیح ہے؟

۸. پاؤں کے مسح کی مقدار (لمبائی اور چوڑائی) کتنی ہے؟

۹. جوراب اور جوتے پر مسح کرنا کیسا ہے؟

۱۰. وضو کے کتنے طریقے ہیں؟

۱۱. وضو کی شرائط کیا ہیں؟

۱۲. کن چیزوں کے لئے وضو کرنا ضروری ہے؟

۱۳. کن چیزوں سے وضو باطل ہوجاتا ہے؟

جوابات

۱ ۔ واجبات وضو، نیت کے ساتھ منہ اور ہاتھ دھوئے جائیں اور سر کے اگلے حصے اور پاؤں کے اوپر والے حصے میں مسح کیا جائے۔ ( )

۲ ۔ چہرے کا طول پیشانی کے اوپر والے بالوں کے اگنے کی جگہ سے لے کر ٹھوڑی تک اور عرض میں چہرے کا جتنا حصہ انگوٹھے اور درمیانی انگلی کے درمیان آجائے دھونا واجب ہے۔(۱۶)

۳ ۔ ہاتھوں کو کہنیوں سے لیکر انگلیوں کے سروں تک دھونا واجب ہے۔(۱۷)

۴ ۔ چہرہ اور ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھویا جائے اور اگر اوپر سے نیچے کی طر دھویا جائے تو وضو باطل ہے۔(۱۸)

۵ ۔ وضو میں چہرے اور ہاتھوں کو ایک دفعہ دھوناو واجب ، دوسری مرتبہ مستحب اور تیسری مرتبہ یا اس سے زیادہ مرتبہ دھونا حرام ہے۔(۱۹)

۶ ۔ مسح کی جگہ پیشانی کے مد مقابل سر کا چوتھائی حصہ ہے اور اس حصہ کی جس جگہ پر مسح ہوجائے کافی ہے۔ اگر احتیاط مستحب یہ ہے کہ لمبائی میں ایک انگلی اور چوڑائی میں ملی ہوئی تین انگلیوں کے برابر ہو۔(۲۰)

۷ ۔ اگر بال چھوٹے ہیں تو صحیح ہے لیکن اگر بال چہرے پر آپڑیں یا (ایک جگہ کے بال دوسری جگہ پہنچ جائیں تو جلد پر مسح کرنا ضروری ہے۔(۲۱)

۸ ۔ کسی ایک انگلی کے سرے سے لیکر پاؤں پر ابھری ہوئی جگہ تک لمبائی میں مسح کرے اور چوڑائی جتنی مقدار بھی ہو کافی ہے۔ ہاں بہتر یہ ہے کہ تین ملی ہوئی انگلیوں کی چوڑائی کے برابر اور اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ پورے پاؤں کا مسح کیا جائے۔(۲۲)

۹ ۔ جوراب اور جوتے پر مسح کرنا باطل ہے، ہاں اگر سخت سردی یا چور اور درندہ وغیرہ کے خوف سے جوراب یا جوتا نہیں اتار سکتا تو پھر کوئی اشکال نہیں ہے اور اگر جوتے کا اوپر کا حصہ نجس ہو تو پھر اس پر کوئی پاک چیز ڈال کر اس کے اوپر مسح کیا جائے۔(۲۳)

۱۰ ۔ وضو دو طرح سے انجام دیا جاسکتا ہے، ترتیبی اور ارتماسی۔(۲۴)

۱۱ ۔ شرائط وضو مندرجہ ذیل ہیں۔(۲۵)

۱. پانی پاک ہو،

۲. پانی مطلق ہو،

۳. پانی مباح ہو،

۴. پانی کا برتن بھی مباح ہو،

۵. پانی کا برتن سونے چاندی کا نہ ہو،

۶. اعضاء وضو دھونے اور مسح کرتے وقت پاک ہونے چاہئیں،

۷. وضو اور نماز کے لئے وقت کافی ہو،

۸. وضو کو قصد قربت سے انجام دے،

۹. ترتیب کے مطابق انجام دے،

۱۰. موالات کا خیال رکھے،

۱۱. افعال وضو خود انجام دے،

۱۲. پانی کے استعمال سے کوئی چیز مانع نہ ہو مثلاً بیماری،

۱۳. پانی کے وضو کے عضو تک پہنچنے سے کوئی امر مانع نہ ہو مثلاً میل وغیرہ۔

۱۲ ۔ چھ چیزوں کے لئے وضو کرنا چاہیے۔(۲۶)

۱. نماز میت کے علاوہ تمام واجب نمازوں کے لئے،

۲. بھولا ہوا سجدہ اور تشہد اگر اس کے اور نماز کے درمیان کوئی حدث مثل پیشاب وغیرہ کے سرزد ہوجائے،

۳. خانہ کعبہ میں واجب طواف کے لئے،

۴. اگر نذر، عہد یا قسم کھائے کہ میں وضو کروں گا،

۵. قرآن کے حروف کو مس کرنے کے لئے،

۶. نجس شدہ قرآن کو پاک کرنے یا بیت الخلاء سے نکالنے کے لئے جبکہ مجبور ہو کہ اس کا ہاتھ قرآن کے حروف سے مس ہوجائے گا۔

۱۳ ۔ وضو کو باطل کرنے والی چیزیں سات ہیں۔(۲۷)

۱. پیشاب،

۲. پاخانہ،

۳. وہ ریح جو مقام پاخانہ سے خارج ہو،

۴. وہ نیند جو آنکھوں اور کانوں پر غالب آجائے،

۵. وہ چیزیں جو عقل کو زائل کردیتی ہیں مثلاً دیوانگی، مستی، بے ہوشی،

۶. خون استحاضہ

۷. وہ کام جس کی وجہ سے غسل کرنا پڑتا ہے جیسے جنابت۔

اسی طرح مختلف سوالات پیش کرکے ان کے جوابات دیتے جائیں اور جہاں وضاحت کی ضرورت محسوس کریں، وضاحت بھی کریں اور دوران وضاحت مزید سوالات پیش کرکے ان کے جوابات دے سکتے ہیں۔

سوالات

۱. لوگوں میں احکام سیکھنے اور درس احکام میں شرکت کرنے کا احساس کس طرح پیدا کیا جاسکتا ہے؟

۲. فقہی مباحث میں کسی بھی موضوع کو منتخب کرکے سوالی روش کے مطابق تنظیم و ترتیب دیں۔

____________________

۱۶ ۔توضیح المسائل، م۲۳۶۔

۱۷ ۔ توضیح المسائل، م ۲۳۷۔

۱۸ ۔ توضیح المسائل، م ۲۴۵۔

۱۹ ۔ توضیح المسائل، م ۲۴۳۔

۲۰ ۔ توضیح المسائل، م ۲۴۸۔

۲۱ ۔ توضیح المسائل، م ۲۵۰۔

۲۲ ۔ توضیح المسائل، م ۲۵۱۔

۲۳ ۔ توضیح المسائل، م ۲۵۲، ۲۵۳۔

۲۴ ۔ توضیح المسائل، م ۲۵۹۔

۲۵ ۔ توضیح المسائل، م ۲۳۶و ۲۶۱۔

۲۶ ۔ توضیح المسائل، م ۲۶۵ تا ۲۹۸۔

۲۷ ۔توضیح المسائل، م ۳۱۶۔

چھٹی نشست

احکام کی تنظیم و تقسیم بندی ۳

عنوانی تنظیم و ترتیب

احکام کی عنوانی تنظیم سے مراد یہ ہے کہ چند جذاب اور مبتلا بہ عناوین منتخب کریں اور مختلف فقہی مباحث میں سے ان سے مربوط مسائل جمع کرلیں مثلاً بطور نمونہ ہم یہاں لباس اور لڑکے اور لڑکیوں کے روابط کے بارے میں مسائل پیش کر رہے ہیں۔

احکام لباس

اگرچہ عام طور پر فقہی کتب میں احکام لباس کا عنوان بیان نہیں کیا گیا ہے لیکن کتبِ اخلاق میں لباس پہننے کے آداب اور فقہی کتب میں نمازی کے لباس کے احکام بیان کئے جاتے ہیں۔

پس لباس کے احکام کو مندرجہ ذیل عناوین میں تقسیم کرتے ہیں۔

۱. نمازی کا لباس،

۲. عام لباس،

۳. لباس احرام،

۴. لباس آخر (لباس میت)۔

آخری دو عناوین صرف مخصوص افراد کے لئے بیان کئے جاتے ہیں۔

نمازی کے لباس کی شرائط(۲۸)

۱ ۔ پاک ہو،

۲ ۔ مباح ہو،

۳ ۔ مردار کا جزو نہ ہو،

۴ ۔ حرام گوشت جانور کے اجزاء سے نہ ہو،

۵ و ۶ ۔ نمازی مرد ہے تو خالص ریشم و سونے کے تاروں سے بُنا ہوا نہ ہو۔

عام لباس (لباس حجاب)

یعنی عام طور پر بدن چھپانے کے لئے معاشرے میں استعمال کیا جاتا ہے اس کی مندرجہ ذیل شرائط ہیں۔

۱ ۔ مباح ہو، یعنی انسان یا اس لباس کا خود مالک ہو یا اس لباس کے استعمال کا اسے اختیار حاصل ہو۔ (لباس نماز اور لباس حجاب دونوں کا مباح ہونا شرط ہے)۔

۲ ۔ لباس بدن کی مقدار واجب کو چھپا سکتا ہو، خواتین کے لئے تمام بدن کا چھپانا واجب ہے البتہ وضو میں جتنا چہرہ دھونا واجب ہے اور کلائی تک ہاتھ چھپانا واجب نہیں ہے۔

۳ ۔ لباس شہرت نہ ہو، یعنی ایسا لباس جس کا رنگ یا سلائی کڑھائی لوگوں کی نظروں کو اپنی طرف کھینچے اور لوگوں کی انگشت نمائی کا سبب بن جائے۔

۴ ۔ صنف مخالف کا لباس نہ ہو، یعنی مرد کے لئے جائزنہیں ہے کہ وہ مخصوص زنانہ لباس پہنے اور اسی طرح عورت کے لئے لیے مخصوص مردانہ لباس پہننا جائز نہیں ہے مثلاً چادر خواتین کا مخصوص لباس ہے اسی طرح شیروانی مردوں کا مخصوص لباس ہے، نیز ہیل والی شوز خواتین کا لباس ہے۔

۵ ۔ ایسا باریک لباس نہ ہو جس میں سے بدن جھلکتا ہو۔

۶ ۔ لباس ہیجان آور نہ ہو، ایسا لباس پہننا جس کی وجہ سے لوگوں کی نازیبا نگاہیں اس کی طرف کھنچ جائیں مثلاً بعض چست لباس، بعض رنگ یا کم لباس وغیرہ۔

۷ ۔ کافروں کا مخصوص لباس نہ ہو، جیسے صلیب کا نشان، ٹائی وغیرہ۔

لڑکے لڑکیوں کے باہمی روابط

آج کل کے جذاب و مبتلا بہ موضوعات میں سے ایک لڑکے اور لڑکیوں کے باہمی روابط ہیں اور ان کے احکام پانچ قسموں میں تقسیم کئے جا رہے ہیں:

۱ ۔ خیال؛ کسی نا محرم کو دل و دماغ میں لانا، اس کے بارے میں سوچنا اور اس کا عاشق و دیوانہ ہونا،

۲ ۔ گفتگو؛ یعنی نامحرم سے روبرو گفتگو کرنا، فون پر گفتگو کرنا یا چیٹنگ کرنا،

۳ ۔ تحریر؛ خط و کتابت اور SMS کرنا،

۴ ۔ دیدار؛ ایک دوسرے کو دیکھنا،

۵ ۔ مس؛ یعنی ایک دوسرے کو مس کرنا مثلاً ہاتھ ملانا وغیرہ۔

ذیل میں ہر ایک کے احکام بیان کئے جا رہے ہیں۔

٭ خیال؛ مندرجہ ذٰل شرائط کے ساتھ ذہنی رابطہ میں اشکال نہیں ہے۔

۱. جنسی شہوت کا سبب نہ ہو؛

۲. بہ قصد لذت نباشد؛

۳. فساد کا باعث نہ ہو۔

٭گفتگو اور تحریر ؛ان دونوں کے احکام مشترک ہیں اور مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

۱. ردّ و بدل ہونے والے مطالب حرام و مبتذل نہ ہوں،

۲. جنسی شہوت کی تحریک کا باعث نہ ہوں،

۳. فساد کا باعث نہ ہوں۔

٭دیدار ؛دیداری رابطہ سے مراد وہی "نگاہ کرنے کے احکام" ہیں جنکی تفصیلات توضیح المسائل وغیرہ میں درج ہیں۔

٭مس؛ یعنی بدن کے کسی بھی حصہ کا نامحرم سے مس کرنا چاہے لذت کی غرض سے نہ ہو اور اسی طرح چاہے ہیجان آور بھی نہ ہو۔

اسی طرح مختلف اصناف سے متعلق عناوین تیار کرکے ان کے مسائل تنظیم کرسکتے ہیں۔ مثلاً درزی کے احکام، ہیئر ڈریسنگ کے احکام، وڈیو میکر کے احکام، نرسنگ کے احکام، ڈاکٹرز اور علاج و معالجہ کے احکام وغیرہ۔

اگر ان شعبوں سے متعلق مسائل جمع کرکے بیان کئے جائیں تو یقیناً جذاب اور قابل توجہ قرار پائیں گے۔

تلفیقی تنظیم و ترتیب

تلفیقی تنظیم و ترتیب درحقیقت دو مختلف شعبوں سے بیک وقت استفادہ ہے مثلاً کسی بھی موضوع کو منتخب کرکے سوال سے شروع کریں اور پھر نموداری روش سے استفادہ کریں یا ایک مخصوص عنوان منتخب کرکے پھر نموداری روش سے استفادہ کریں جیسا کہ ہم نے عنوانی تنظیم میں کیا ہے کہ عنوان سے شروع کیا ہے اور پھر نموداری روش سے استفادہ کیا ہے۔

خلاصہ نویسی اور اس کا مطالعہ

نسخہ برداری و خلاصہ نویسی کلاس کے اصولوں میں سے ہے لیکن یہ سوال درپیش ہے کہ احکام شرعی میں کس طرح خلاصۃ نویسی قلم بند کی جائے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ احکام کی خلاصہ نویسی نموداری روش کے مطابق کریں یا کلی سوالات منتخب کئے جائیں یا جن مسائل کے فراموش ہونے کا اندیشہ ہو انھیں یاد داشت کے طور پر بطور خلاصہ تحریر کرلینا چاہیے۔

یاد داشت نویسی و خلاصہ نویسی کے بعد انھیں پھر ایک بار بغور مطالعہ کرلینا چاہیے، اس طرح ذہن میں مطالب محفوظ رہ جائیں گے اور تبلیغ کے موقع پا انسان گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا۔

سوالات

۱. لباس نماز و حجاب کی مشترک شرائط کیا ہیں؟

۲. نامحرم کے ساتھ گفتاری و تحریر روابط کی کیا شرائط ہیں؟

۳. کسی ایک جذاب عنوان کو منتخب کرکے اس کی تقسیم بندی کیجئے۔

۴. خلاصہ نویسی کا ضابطہ اور فائدہ بیان کریں؟

____________________

۲۸ ۔توضیح المسائل، م ۳۲۳۔

ساتویں نشست

تقسیم بندی پر ایک نظر

ڈاکٹر سے مربوط احکام کی تقسیم بندی

ذیل میں ڈاکٹرز سے مربوط احکام کی مختلف تقسیم بندی پیش کی جارہی ہے۔

۱ ۔ ڈاکٹر کے مشترک احکام

۲ ۔ اسپیشلسٹ ڈاکٹرز سے مربوط احکام

۳ ۔ اعضائے بدن کے احکام

۴ ۔ طبابت سے مربوط مشاغل کے احکام

ہم یہاں پر فقط ڈاکٹرز کے مشترک احکام کی نموداری تقسیم بندی و جدول پیش کر رہے ہیں۔

۱ ۔ معائنہ و علاج

۲ ۔ معائنہ فیس وغیرہ

معائنہ علاج ۱ ۔ نگاہ و مس کرنا

۲ ۔ علاج اور تجویز دوا

۳ ۔ ڈاکٹر کا ضامن ہونا یا نہ ہونا

۴ ۔ ڈاکٹر کی نظر کی حیثیت

٭نگاہ و مس ۱ ۔ مریض کے بدن کو دیکھنا اور مس کرنا

۲ ۔ مریض کی شرمگاہ پر نظر ڈالنا

٭علاج اور تجویز دوا

۱ ۔ حلال چیزوں سے علاج جائز ہے

علاج حرام پر منحصر نہیں ہے حرام ہے

۲ ۔ حرام اشیاء سے علاج

علاج حرام پر منحصر ہے حرام نہیں

۳ ۔ ایسی چیز سے علاج جس سے قطعی ضرر واقع ہو مثلاً زندگی بچانے کے لئے ہاتھ یا پاؤں کا کاٹنا جائز ہے

ملحقات ۱ ۔ مقدار استفادہ از حرام؟ بمقدار ضرورت جائز ہے

۲ ۔ حفظ جان بیمار؟ واجب ہے

۳ ۔ بیمار کی موت میں جلدی؟ جائز نہیں ہے

٭ڈاکٹر (معالج) کا ضامن یا غیر ضامن ہونا

۱ ۔ ڈاکٹر کے ضامن ہونے کے موارد

۱ ۔ اگر ڈاکٹر اپنے ہاتھ سے آپریشن نہ کرے یا دوا نہ دے بلکہ فقط دوا کی توصیف بیان کرے تو ضامن نہیں ہے

۲ ۔ اگر براہ راست خود آپریشن کرے

۱ ۔ اگرعلاج میں خطا کرے ضامن ہے ، چاہے مہارت رکھتا ہو۔

۲ ۔ اگر مہارت علمی و عملی رکھتا ہو توضامن ہے چاہے مریض کی اجازت سے علاج کرے یا بغیر اجازت۔

۳ ۔ علمی مہارت رکھتا ہے

۱ ۔ اگر بیمار یا اس کے ولی کی اجازت سے علاج کرے تو مالی نقصان کا ضامن ہے۔

۲ ۔ اگر بغیرت اجازت انجام دے تو ضامن ہے۔

۳ ۔ معمولاً اورمتعارف علاج میں بعید نہیں کہ ڈاکٹر ضامن ہو

۲ ۔ جن موارد میں ڈاکٹر ضامن نہیں (رفع مسئولیت)

۱ ۔ اگر مریض بالغ و عاقل نہ ہو تو ولی کی اجازت معتبر ہے

۲ ۔ اگر مریض بالغ و عاقل ہوتو خود اس کی اجازت معتبر ہے اگرچہ موت کا سبب بن جائے۔

۳ ۔ مریض بالغ و عاقل لیکن کامل العقل نہ ہو۔

مریض کی اجازت صرف اس حد تک معتبر ہے کہ موت کا سبب نہ بنے۔

ولی کی اجازت اگرچہ موت کا سبب بنے معتبر ہے۔

٭ڈاکٹر کی نظر کی حیثیت

اسے ہم سوالی تنظیم کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔

روزہ: س: کیا ڈاکٹر کے کہنے اور اس کی تشخیص کی بنا پر روزہ افطار کرنا جائز ہے؟

ج: روزہ کھولنے میں عام عاقل مکلفین کا یقین، گمان یا احتمال کافی ہے اگرچہ ڈاکٹر کی نظر اس کے برخلاف ہو۔

اثبات ِموت:

س:کیا ڈاکٹر کی تشخیص پر کسی کو دفن کرنا جائز ہے؟

ج: اگر ڈاکٹر کے کہنے پر موت کا یقین حاصل ہوجائے تو دفن جائز ہے۔

ڈاکٹر کی معائنہ فیس

اسے بھی سوالی تنظیم کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔

س: کیا علاج کے لئے معائنہ فیس لینا جائز ہے؟

ج: اگرچہ علاج واجب ہے لیکن اس کے باوجود فیس لینا جائز ہے۔

س: کتنی فیس لینا جائز ہے؟

ج: اگر آپریش وغیرہ سے قبل فیس معین کی گئی تھی تو اتنی ہی ادا کرنا ہوگی اور اگر معین نہیں کی گئی یا باہمی موافقت نہیں کی گئی تو اجرت المثل ادا کرنا ہوگی۔

ضمان کی عنوانی تنظیم: مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد جن مواردمیں ضامن ہوتے ہیں تنظیم عنوانی کی صورت میں ایک جھلک میں پیش کئے جا رہے ہیں اگرچہ ضامن ہونے کے موارد بہت زیادہ ہیں:

ڈاکٹر اگر علمی و عملی مہارت سے عاری ہو یا اپنے فریضہ میں کوتاہی کرے تو قطعا ضامن ہے مثلاً انسان کے انجکشن کے بجائے گھوڑے کا انجکشن لکھ دے۔

میڈیکل اسٹور اگر غفلت و کوتاہی کی بنا پرغلط دوا دیدے تو ضامن ہوگا۔

ڈسپنسر اگر غلط انجکشن یا ڈرپ لگا دے تو ضامن ہے۔

اگر پولیس کسی کو اس طرح مارے کہ اس کے بدن پر ضرب لگ جائے تو ضامن ہے۔

اگر چالان کی دھمکی دیکر کسی سے ناحق پیسے وصول کریں توپولیس والا اس رقم کا مالک نہیں ہوسکتا اور وہ اسم رقم کا ضامن رہے گا۔

اگر پولیس وغیرہ No Parking سے کسی کی گاڑی کسی دوسری جگہ منتقل کریں تو گاڑی پر وارد ہونے والے نقصان کے ذمہ دار ہوں گے۔

اگرعمارت میں دونمبر مصالحہ استعمال کریں اور عمارت گر جائے تو نقصان کے ذمہ دار ہیں

اگر آٹھ گھنٹے کے بجائے چار گھنٹے کام کریں تو ضامن ہوں گے۔

اگر مسافر حضرات بس وغیرہ کی سیٹوں کو خراب کریں تو نقصان کے ذمے دار ہوں گے۔

اگر مسافر ٹرین وغیرہ میں سے بلب وغیرہ غائب کرکے لے آئیں تو ضامن ہوں گے۔