روش بیان احکام

روش بیان احکام0%

روش بیان احکام مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

روش بیان احکام

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مولانا سید بہادر علی زیدی قمی
زمرہ جات: مشاہدے: 4852
ڈاؤنلوڈ: 1748

تبصرے:

روش بیان احکام
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 27 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 4852 / ڈاؤنلوڈ: 1748
سائز سائز سائز
روش بیان احکام

روش بیان احکام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بارھویں نشست

روش سوال و جواب

مخاطبین سے سوال

کبھی کبھی درس احکام کے خستہ کنندہ ہونے کی یہ بھی وجہ ہوتی ہے کہ احکام کے استاد محترم یا مبلغ محترم صرف خود اپنے بولنے اور بیان کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں اور مخاطبین کو اپنے ساتھ شامل نہیں کرتے جس کی وجہ سے مخاطبین سنتے سنتے تھک جاتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ ا یسے درس سے فرار کرتے ہیں۔ لہذا درس کے دوران وقتاً فوقتاً مخاطبین سے سوال کرکے انھیں اپنے ساتھ شامل کیا جا سکتا ہے پس مخاطبین سے سوال کرنے کی دو قسمیں ہیں۔

۱ ۔ تعلیمی سوال ۲ ۔ آزمائشی سوال

تعلیمی سوال عام طور پر بیان نشدہ چیزوں کے بارے میں کیا جاتا ہے جبکہ آزمائشی سوال بیان شدہ چیزوں کے بارے میں کیا جاتا ہے تاکہ یہ اندازہ ہوسکے کہ ہم نے جو چیزیں انھیں سکھائی ہیں وہ کس حد تک سمجھ سکے ہیں لیکن تعلیمی سوال انھیں نئے مطالب سکھانے اور سمجھانے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں مثلاً شرائط وضو میں سے کچھ ہم خود بیان کریں گے اور پھر کچھ مخاطبین سے سوال کریں اور اس کے بعد انھیں بتادیں۔

اس عمل سے ہمیں دو فائدے حاصل ہوں گے:

۱. کلاس کی خستگی زائل ہوگی اور مخاطبین ، استاد کے ساتھ شریک ہوجائیں گے۔

۲. مخاطبین کے ذہن میں تجسس پیدا ہوگا اور ان کی توجہ بڑھے گی۔

سوالِ مخاطبین

جب ہم احکام کے درس کا اہتمام کرتے ہیں تو ہمیں بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ درس احکام سیاسی، تاریخی یا اخلاقی تقریر نہیں ہے بلکہ ہم جب چند منٹ احکام و مسائل بیان کرتے ہیں تو مخاطبین کی جانب سے سوالات ہونا شروع ہوجاتے ہیں لہذا ہمیں ان کے سوالات کی نوعیت سمجھنی چاہیے۔ یاد رہے کہ مخاطبین کے سوالات کی دو قسمیں ہیں:

۱. سوال برائے دریافت؛

۲. سوال برائے سوال۔

اکثر مخاطبین کے سوالات، جواب دریافت کرنے کے لئے ہوتے ہیں، بہت کم افراد سوال برائے سوال کرتے ہیں اور ان کے سوالات کبھی شفاہی ہوتے ہیں اور کتبی، اسی طرح کبھی درس کے شروع میں سوال کرتے ہیں، کبھی وسط درس میں اور کبھی آخر میں۔

مہارت جواب

مخاطبین کی جانب سے سوال برائے سوال کم کرنے کے لئے استاد یا مبلغ کو مندرجہ ذیل نکات کا تذکر دیدینا چاہیے۔

۱ ۔ جواب کا طریقہ: یعنی اپنے جواب دینے کا طریقہ کار درس کے آغاز میں بیان کردینا چاہیے مثلاً جس کے ذہن میں جو سوال بھی آئے برائے مہربانی وہ درس کے آخرمیں یا تحریری طور پر پیش کردے کیونکہ جواب صرف درس کے آخری میں یا تحریری دیئے جائیں گے۔

۲ ۔ سوال کا فائدہ عمومی ہونا چاہیے، یعنی اگر آپ کے ذہن میں کوئی انفرادی سوال آتا ہے جو تمام لوگوں کے لئے فائدہ مند نہیں ہے تو برائے کرم دوسروں کا وقت ضائع نہ کیا جائے بلکہ درس کے بعد سوال پیش کیا جائے تاکہ جواب دیا جاسکے۔

جب ہم یہ بات کہہ دیں گے تو ممکن ہے کسی کے ذہن میں کوئی سوال برائے سوال موجود ہو تو وہ سوال کرنے سے باز رہے گا کیونکہ سمجھ جائے گا کہ اگر سوال کرے گا تو صرف استاد ہی نہیں بلکہ مخاطبین بھی اس کی طرف انگشت نمائی کریں گے۔

۳ ۔ سوال صرف درس سے متعلق ہونا چاہیے۔ یعنی یہاں صرف فقہی سوال پیش کئے جائیں بصورت دیگر درس کے بعد سوال کیا جائے تاکہ جواب حاصل کرسکیں۔

اقسام جواب

مخاطبین کی جانب سے کئے گئے سوالات کے جوابات دو طرح دیئے جاسکتے ہیں:

(الف) شفاہی جواب:مندرجہ ذیل مختلف اوقات میں شفاہی جواب دیئے جاسکتے ہیں:

۱ ۔ اثنائے گفتگو؛ یعنی ہم درس کے آغاز میں اعلان کردیں کہ جو صاحب بھی سوال کرنا چاہیں وہ سوال کرنے میں آزاد ہیں کسی وقت بھی سوال کرسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس روش کو اختیار کرنے کے لئے کافی علمی توانائی درکار ہوتی ہے نیز اس کے ساتھ ساتھ مبلغ میں حاضرین پر حاوی ہونے اور انھیں ادارہ کرنے کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے ورنہ علم کی کمی یا مخاطبین کی کثرت کی بنا پر وہ اس روش سے استفادہ نہیں کرسکتا ہے۔

۲ ۔ موضوع کے اختتام پر؛ جب ہم درس میں چند جزئی موضوعات پیش کرنا چاہیں تو جب ایک موضوع ختم ہوجائے تو اعلان کریں کہ اگر یہاں تک کسی کے ذہن میں کوئی سوال ہے تو پیش کرسکتا ہے، اس طرح ہر موضوع کے اختتام پر ایک دو سوال پیش ہوں گے اور آخر میں کثرت سوالات سے چھٹکارا ملے گا۔

مثلاً جب ہم وضوع کے بارے میں درس دینا چاہیں تو اس کے چھوٹے چھوٹے موضوعات بنالیں جیسے وضو کا طریقہ، شرائط وضو، موجبات وضو، مبطلات وضو وغیرہ ان میں سے ہر موضوع کے اختتام پر سوال و جواب پیش کئے جاسکتے ہیں۔

۳ ۔ درس کے اختتام پر؛ ہر درس کے اختتام پر سوال و جواب کا سلسلہ کیا جا سکتا ہے۔

۴ ۔ بعد والے درس میں؛ یہ طریقہ صرف کتبی سوالات کی صورت میں اختیار کرنا پڑتا ہے کہ تحریر شیدہ سوالات کو جمع کرلیا جائے، جو سوالات، سوال برائے سوال ہوں انھیں چھوڑ دیا جائے اور باقی سوالات کے جوابات مہیا کرکے بعد والے درس میں بیان کرنے چاہئیں۔ نیز تکراری سوالات بھی حذف کر دینے چاہئیں۔

(ب) کتبی جواب؛

دو مندرجہ ذیل صورتوں میں کتبی جواب دینا چاہیے:

۱ ۔ سائل کی درخواست پر؛ جب سوال کرنے والا یہ تقاضا کرے کہ اس کے سوال کا جواب کتبی دیا جائے تو اگرچہ زبانی جواب بیان کرنا ممکن ہو اور سب کے لئے زبانی بیان بھی کردیا جائے لیکن بہرحال سوال کرنے والے کو تحریری جواب دینا چاہیے۔

۲ ۔ استاد کی صلاح دید؛ کبھی ممکن ہے کہ سائل نے تو کتبی جواب کا تقاضا نہیں کیا لیکن استاد مجمع میں زبانی جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا تو وہ اعلان کرے گا کہ بعض سوالات کے جوابات زبانی بیان نہیں کئے جا رہے ہیں بلکہ تحریری لکھ دیئے گئے ہیں وہ اپنے جوابات دریافت کرسکتےہیں۔

سوال برائے سوال

اگر ہم جواب دینے کی مہارت سے بہرہ مندہ ہوں تو یقیناً سوال برائے سوال کی تعدد کم ہوجاتی ہے۔

جیسا ہم نے جواب دینے کی مہارت کے ذیل میں بیان کیا ہے کہ مخاطبین کو اس نکتہ کا تذکر دیدینا چاہیے کہ ایسا سوال کیا جائے جس کا فائدہ عمومی ہو کیونکہ اگر ایک سوال کے جواب میں ایک منٹ صرف ہوگا اور ہمارے درس میں ۶۰ افراد ہیں تو گویا ہم نے ان کے ۶۰ منٹ لے لئے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر سوال برائے سوال کرنے والے کے اندر ذرا بھی ضمیر زندہ ہوگا تو یقیناً وہ سوال کرنے سے باز رہے گا۔

لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ سوال برائے سوال کا جواب دینے کے لئے کوئی خاص قاعدہ یا قانون نہیں ہے۔ کبھی اس کے جواب میں خاموش رہنا بہتر ہوتا ہے، کبھی اس کے ذہن کو دوسری طرف موڑ دیا جاتا ہے اور کبھی نقضی جواب دیدیا جاتا ہے جو اس کو خاموش کرسکے۔

مرحوم حجۃ الاسلام و المسلمین جناب شیخ محمد تقی فلسفی فرماتے ہیں:

میں ایک مرتبہ جیسے ہی تقریر کرکے منبر سے اترا ایک نوجوان میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا آپ جو ہمیں یہ اتنی بڑی بڑی وعظ و نصیحت کر رہے ہیں آپ خود بھی ان پر عمل کرتے ہیں؟

میں سمجھ گیا کہ یہ فقط مجھے پھنسانے اور اپنی شرعی ذمہ داری سے فرار کرنے کے لئے سوال برائےسوال کر رہا ہے؛ میں نے اس سے پوچھا تم کیا کرتے ہو؟ تمہارا پیشہ کیا ہے؟

اس نے کہا: جوتے بناتا ہوں۔میں نے فوراً اس سے کہا: تم جتنے بھی جوتے بناتے ہو خود بھی پہنتے ہو؟ کہا: نہیں حضور، میں نے کہا: میرا پیشہ بھی تقریر کرنا ہے!

(البتہ یاد رہے کہ یہ جواب صرف مخاطب کو خاموش کرنے کے لئے تھا)

سوالات

۱. مخاطبین سے سوال کی کتنی قسمیں ہیں اور ان کا کیا فائدہ ہے؟

۲. مخاطبین کے سوالات کی کتنی قسمیں ہیں؟

۳. سوال برائے دریافت کا جواب دینے کے لئے کن نکات کا تذکر دینا چاہیے؟

۴. سوال برائے سوال کا جواب دینے کا کیا قاعدہ و قانون ہے؟

۵. سوال برائے دریافت کے جواب کی کتنی قسمیں ہیں؟

تیرھویں نشست

دوسری فصل: ممنوعات

گذشتہ فصل ان امور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے درس احکام کی تیاری میں جنکا خیال رکھنا ضروری ہے اور اس فصل میں ان چیزوں کو بیان کیا جا رہا ہے جنہیں درس احکام میں بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور وہ چار چیزیں ہیں:

۱ ۔ وسواسی مسائل، ۲ ۔ اختلاف و تفاوت فتویٰ، ۳ ۔ دلائل احکام،

۴ ۔فلسفہ احکام، ان کی تفصیلات آگے بیان کی جائیں گی۔

۱ ۔ وسواسی مسائل

ایسے مسائل بیان کرنے سے پرہیزکرنا چاہیے کہ جنکی وجہ سے لوگ ضرورت سے زیادہ احتیاط کرنے لگیں اور شک کرتے کرتے وسواسی بن جائیں۔

احتیاط اگرچہ اچھی چیز ہے لیکن ہمیشہ اور ہر جگہ نہیں بلکہ بعض مواقع پر احتیاط کا ترک کرنا ہی بہتر ہوتا ہے،نیز شک و وسوسہ بالکل غیر مناسب چیز ہے۔ بعض مسائل صحیح ہونے کے باوجود کبھی کبھی ان کا بیان کرنا مشکل ساز ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں شک و وسوسہ اور بلاوجہ کی احتیاط جیسی چیزیں پیدا ہوجاتی ہیں مثلاً؛

٭اگر مکھی یا اس قسم کا کوئی جانور کسی تر چیز پر بیٹھ جائے اور اس کے بعد کسی پاک تر چیز پر بیٹھے تو اب اگر انسان کو یقین ہو کہ اس جانور کے ساتھ نجاست لگی ہوئی تھی تو وہ پاک چیز نجس ہوجائے گی ورنہ وہ پاک رہے گی۔(۴۳)

احکام کے درس کے لئے اس قسم کے مسائل کا انتخاب بالکل غیر مناسب ہے کیونکہ اس قسم کے مسائل کی وجہ سے لوگوں میں ضرورت سے زیادہ احتیاط اور شک و وسواس پیدا ہوجائیں گے۔

لیکن اگر اس قسم کے مسائل بیان کرنا بھی چاہیں تو تصویر کا دوسرا رخ بیان کرنا چاہیے یعنی اس طرح بیان کریں جب تک نجاست کے منتقل ہونے کا یقین نہ ہو تو وہ چیز پاک رہے گی۔

٭غسل میں بال کے برابر بھی اگر کوئی جگہ دھونے کےبغیر رہ جائے تو غسل باطل ہے۔(۴۴)

اس مسئلہ کے سلسلہ میں صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے :"غسل میں تمام بدن کا دھونا ضروری ہے اور کوئی حصہ بغیر دھوئے نہیں رہنا چاہیے"۔

توضیح المسائل میں بال کے سر کی طرف اشارہ صرف احکام میں دقت نظر کی بنیاد پر کیا جاتا ہے تاکہ مکلفین اس امر کی پابندی کرتے رہیں اور پورے بدن کو دھونے کی طرف متوجہ رہیں۔

لیکن اگر اس قسم کے مسائل بیان کئے جائیں گے تو مخاطبین رفتہ رفتہ غسل میں چند منٹ کے بجائے ایک گھنٹہ صرف کردیں گے اور ایک بالٹی پانی کے بجائے ایک ٹنکی پانی خرچ کرنے لگیں گے۔

اکثر لوگ ہمارے انداز بیان کی وجہ سے وسواسی ہوجاتے ہیں، خوردبین لیکر نہایت باریک بینی کے ساتھ مسائل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ فقہی مسائل میں اس طرح کاغور و فکر اور دقت نظر کی ضرورت نہیں ہے خصوصاً جبکہ لوگوں کے وسواسی ہونے کا اندیشہ ہو۔ اس قسم کے مسائل میں عرف عام کی نظر کافی سمجھی جاتی ہے۔

٭گوشوارہ وغیرہ کے لئے کان میں جو سوراخ کیا جاتا ہے اگر وہ اتنا کشادہ ہو کہ اس کے اندر کا حصہ نظر آئے تو اس کو دھو لینا چاہیے اگر نظر نہیں آتا تو اس کو دھونا ضروری نہیں ہے۔(۴۵)

پانی مایع ہوتا ہے اور آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ جب کسی چیز پر ڈالا جاتا ہے تو اس کے تمام اطراف کو گھیر لیتا ہے مثلاً انگلیوں وغیرہ کا درمیانی حصہ پانی ڈالنے سے تر ہوجاتا ہے کیا اس قسم کی دقت نظر اور احتیاط کی ضرورت ہے؟ جبکہ پیغمبر اکرم ﷺ نے وضو کے لئے ایک مد ( ۷۵۰ گرام) پانی اور غسل کے لئے ایک صاع (تین کلو) سے زیادہ پانی استعال کرنے کو منع فرمایا ہے۔(۴۶)

لہذا اس طرح بیان مسائل سے پرہیز کرنا چاہیے جس کی وجہ سے لوگ احکام سے دور ہوجائیں اور شک و وسوسہ کا شکار ہوجائیں۔

۲ ۔ اختلاف فتویٰ

عام طور پر رسالہ عملیہ میں جن مسائل میں تفاوت دیکھنے میں آتا ہے وہ فتویٰ میں اختلا ف نہیں ہوتا بلکہ:

(الف) کبھی کبھی طرز نگارش و عبارت میں اختلاف ہوتا ہے۔

(ب) کبھی تعبیر میں اختلاف ہوتا ہے لیکن فتویٰ دونوں مراجع کا ایک ہی ہوتا ہے مثلاً اظہر و ظاہر وغیرہ۔

(ج) کبھی فتویٰ میں اختلاف ہوتا ہے لیکن قابل جمع ہوتا ہے۔

(د) کبھی فتویٰ میں اختلاف ہوتا ہے اور قابل جمع بھی نہیں ہوتا ہے۔

اگر توضیح المسائل میں ہم دیکھیں کہ مسائل میں قسم "الف" والا اختلاف و تفاوت ہے تو اس کا کوئی علمی و عملی ثمرہ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ ہر مرجع اپنے ذوق کے مطابق رساتر عبارت استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ لوگوں کے لئے مسائل سمجھنا آسان ہوجائیں۔

اگر قسم "ب" والا اختلاف نظر آئے تو اگرچہ اس کا علمی ثمرہ پایا جاتا ہے لیکن اس کا کوئی عملی ثمرہ نہیں ہوتا لہذا اسے رسالۂ عملیہ کے بجائے رسالۂ علمیہ میں بیان کرنا چاہیے مثلاً ایک مجتہد فرماتے ہیں کہ "واجب ہے" جبکہ دوسرے مجتہد فرمائیں کہ "وجوب ، قوت سے خالی نہیں ہے"۔

یہ دو تعبیریں ہیں اور دونوں فتویٰ ہیں، مقام عمل میں اس کی کوئی تاثیر نہیں ہے یہ صرف ایک علمی تعبیر ہے جو حوزہ علمیہ میں اہل فن کے لئے بہتر و مفید ہے لیکن مقامِ عمل میں مقلِّد کے لئے اس پر عمل کرنا بہرحال ضروری ہے۔

نیز اسی جیسی دیگر تعابیر مثلاً، بعید نہیں ہے، مشہور ہے، اشہر ہے، بظاہر ایسا ہی ہے ، قوت سے خالی نہیں، وجہ سے خالی نہیں، ان تمام اختلاف و تفاوت کا کوئی عملی اثر نہیں ہے، اس طرح یہ تعابیر مثلاً محل اشکال ہے، اشکال سے خالی نہیں یا احتیاط واجب وغیرہ ان میں کوئی تفاوت نہیں ہے۔

قابل جمع اختلاف فتویٰ

درحقیقت مراجع تقلید کے جن فتاویٰ میں عمل کے اعتبار سے اختلاف نظر پایا جاتا ہے اس کی دو قسمیں ہیں یا یہ اختلاف قابل حل اور قابل جمع ہوتا ہے یا نا قابل جمع ہوتا ہے۔ قابل جمع سے مراد یہ ہے کہ ایک فتویٰ بیان کرکے بقیہ دیگر فتاویٰ سے قطع نظر کرتے ہیں لیکن اس صورت میں دوسرے مجتہد کے مقلدین اگر اس پر عمل کرلیں تو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔

یعنی جب ہم ایک فتویٰ بیان کریں اور دیگر مجتہد کے مقلدین بھی اس پر عمل کریں تو گویا انھوں نے:

۱ ۔ کوئی واجب ترک نہیں کیا،

۲ ۔ کسی حرام کا ا رتکاب نہیں کیا ہے۔

پس یہاں اختلاف بیان کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ اگر انھوں نے اس بیان کردہ مسئلہ پر عمل کرلیا ہے تو گویا انھوں نے اپنے وظیفہ کو انجام دیا ہے، گرچہ ممکن ہے مستحب ترک ہوجائے، لیکن حرام کا مرتکب نہ پائے گا۔

البتہ جہاں اختلاف فتویٰ غیر قابل جمع ہو تو وہاں اشارہ کر دینا ضروری ہے۔ پس تمام اختلاف و تفاوت فتاویٰ کو لوگوں کے سامنے بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

ذیل میں اختلاف فتاویٰ کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جن کا لوگوں کے سامنے تذکرہ کرنا ضروری نہیں ہے:

۱ ۔ "نجس برتن کو قلیل پانی میں تین مرتبہ دھونا ہوگا بلکہ کُر اور جاری پانی میں بھی احتیاط یہ ہے کہ تین مرتبہ دھویا جائے"(۴۷) ۔

بعض مراجع تقلید فرماتے ہیں کہ کُر اور جاری پانی میں ایک مرتبہ دھونا کافی ہے۔ اب اگر ہم یہ فتویٰ بیان کریں کہ کُر اور جاری میں تین مرتبہ دھونا چاہیے، اگر وہ شخص جو ایسے مجتہد کی تقلید کرتا ہے جو ایک مرتبہ دھونے کو کافی سمجھتا ہے؛ تین مرتبہ دھوئے تو کیا برتن پاک نہیں ہوگا؟ حتماً ہوجائے گا۔

لہذا یہاں اختلاف فتویٰ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

۲ ۔ دونوں ہاتھ دھو لینے کے بعد وضو کے پانی کی تری سے جو کہ ہاتھ میں رہ گئی ہے سر کے اگلے حصے کا مسح کیا جائے۔(۴۸)

بعض مراجع تقلید کے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ مسح دائیں ہاتھ سے کیا جائے جبکہ بعض مراجع کہتے ہیں کہ دائیں ہاتھ سے ضروری ہے۔

اب اگر ہم اس طرح مسئلہ بیان کریں اور کہیں: "مسح دائیں ہاتھ سے کرنا ضروری ہے" اور دوسرے مرجع عالی کے مقلد نے جاکر ہمارے کہنے کے مطابق وضو کرتے ہوئے دائیں ہاتھ سے مسح انجام دیا تو کیا اس نے کسی واجب کو ترک کیا ہے اور اس کا وضو باطل ہو جائے گا؟

۳ ۔ پاؤں کے مسح میں بھی بعض مراجع پاؤں پر اُبھری ہوئی جگہ تک جبکہ بعض ٹخنوں تک ضروری سمجھتے ہیں۔(۴۹)

اگر ہم نے دوسری نظر کے مطابق مسئلہ بیان کیا تو پہلی نظر کے مطابق بھی کوئی مشکل پیش آئے گی۔

۴ ۔ غسل جبیرہ کا حکم وضو جبیرہ کی طرح ہے لیکن احتیاط واجب کی بنا پر اسے ترتیبی انجام دیا جائے نہ ارتماسی۔ جبکہ بعض ترتیبی کو احتیاط مستحب قرار دیتے ہیں۔(۵۰)

اگر پہلا فتویٰ بیان کردیا جائے تو دوسرے کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

۵ ۔ انسان رکوع میں جو ذکر بھی پڑھے کافی ہے بشرطیہ کہ تین مرتبہ "سبحان اللہ" کی مقدار سے کمتر نہ ہو۔(۵۱)

جبکہ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ وہ ذکر احتیاط واجب کی بنا پر تین مرتبہ "سبحان اللہ" کی مقدار سے کمتر نہ ہو۔

اگر ہم اس طرح صحیح فتویٰ بیان کریں: "ذکر تین مرتبہ سبحان اللہ کی مقدار سے کمتر نہ ہو" تو کوئی اشکال نہیں ہے کیونکہ اگر دوسرے مجتہد کا مقلد بھی اس پر عمل کرے گا تو اس نے احتیاط واجب پر عمل کرلیا ہے۔

ناقابل جمع اختلاف فتویٰ

کبھی کبھی مراجع تقلید کے فتاویٰ میں اس طرح تفاوت و اختلاف نظر پایا جاتا ہے جو ناقابل جمع ہوتا ہے؛ ایسی صورت میں تذکر دینا ضروری ہوتا ہے۔ مسئلہ کی وضاحت کے لئے ذیل میں چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:

۱ ۔ شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کا نذر کرنا باطل ہے چاہے نذر کا تعلق مال سے ہو یا غیر مال سے، چاہے حق شوہر کی منافی ہو یا منافی نہ ہو۔(۵۲)

جبکہ اس کے مد مقابل یہ فتویٰ ہے کہ جب حق شوہر کے منافی ہو تو باطل ہے۔

ان دونوں فتووں کے اختلاف و تفاوت میں علمی اثر پایا جاتا ہے اور یہ قابل جمع بھی نہیں ہے۔

اگر اس موقع پر آپ کہہ دیں کہ تمہاری نذر باطل ہے تو جس مجتہد کا کہنا ہے کہ تمہاری نذر صحیح ہے اگر آپ کے بیان کردہ فتوی کے مطابق اپنی نذر پر عمل نہ کرے تو اس نے واجب کو ترک کر دیا ہے۔

۲ ۔ حرام گوشت پرندوں کا فضلہ (بِیٹھ) نجس ہے(۵۳) ۔ جبکہ بعض مراجع کی نظر کے مطابق نجس نہیں ہے۔

۳ ۔ اگر عورت مرد کے برابر یا اس سے آگے کھڑی ہو تونماز باطل نہیں ہے جبکہ بعض مراجع تقلید فرماتے ہیں کہ نماز باطل ہے۔(۵۴)

۴ ۔ اگر نامحرم عورت اور مرد خلوت میں نماز پڑھیں تو نماز باطل نہیں ہے ، جبکہ بعض مراجع عظام کے نزدیک باطل ہے۔(۵۵)

۵ ۔ سفر جس کا شغل ہے جیسے ڈرائیور وغیرہ تمام مراجع فرماتے ہیں کہ وہ سفر میں پوری نماز پڑھے لیکن سفر جس کے شغل کا مقدمہ ہے جیسے ڈاکٹر ایک شہر میں رہتا ہے لیکن اس کا مطب دوسرے شہر میں ہو تو اس مسئلہ میں بعض مراجع فرماتے ہیں کہ پوری نماز پڑھے گا جبکہ بعض فرماتے ہیں کہ اس کی نماز قصر ہے۔(۵۶)

پس اگر یہاں ایک فتویٰ بیان کردیا جائے تو دوسرے مرجع کا مقلد اس پر عمل نہیں کرسکتا ہے اور اگر عمل کرے گا تو واجب ترک ہوجائے گا لہذا یہاں اختلافِ فتویٰ بیان کرنا ضروری ہے۔

یہ مختلف فتاویٰ میں ناقابل جمع ، تفاوت کی چند مثالیں پیش کی گئی ہیں جنکے بارے میں تذکر دینا ضروری ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرچہ فتویٰ میں اس قسم کا تفاوت بہت کم موارد میں پایا جاتا ہے؛ لوگوں کو کس طرح خبردار کیا جائے؟

اگر موقع و محل اجازت دیں کلاس ہی میں اعلان کر دینا چاہیے اور اگر مصلحت کے خلاف ہو تو پھر مختلف مراجع کے مقلدین کو کاغذ پر لکھ کر دیدینا چاہیے۔یا مثلاً لفظ اختلافِ فتویٰ کے بجائے تفاوت اورفرق جیسے الفاظ استعمال کرنے چاہیں اور اعلان کر دینا چاہیے کہ اس مسئلہ میں فرق یا تفاوت پایا جاتا ہے جو آپ کے سامنے بیان کیا جا رہا ہے۔

سوالات

۱. احکام کے درس میں کن چیزوں کو بیان کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے؟

۲. وسواسی مسائل سے کیا مراد ہے مثال کے ساتھ بیان کریں؟

۳. اختلاف فتویٰ کی کتنی قسمیں ہیں مثال کے ساتھ بیان کریں؟

۴. کون سے تفاوت فتویٰ کے بارے میں مخاطبین کو تذکر دینا اور بتانا ضروری ہے مثال کے ساتھ بیان کریں؟

۵. قابل جمع تفاوت فتویٰ کی دو مثالیں بیان کریں۔

____________________

۴۳ ۔توضیح المسائل، م ۱۳۰۔

۴۴ ۔توضیح المسائل، م ۳۷۴۔

۴۵ ۔توضیح المسائل، م ۳۷۶۔

۴۶ ۔من لا یحضرہ الفقیہ، ج۱، ص ۳۴۔

۴۷ ۔توضیح المسائل، م ۱۵۰۔

۴۸ ۔توضیح المسائل، م ۲۴۹۔

۴۹ ۔توضیح المسائل ، م ۲۵۲۔

۵۰ ۔توضیح المسائل، م ۲۳۹۔

۵۱ ۔توضیح المسائل، م ۱۰۲۷۔

۵۲ ۔تحریر الوسیلہ، ج۲، القول فی النذر، م۳؛ توضیح المسائل، م ۲۶۴۰۔

۵۳ ۔توضیح المسائل، م ۸۵۔

۵۴ ۔توضیح المسائل، م ۸۸۶۔

۵۵ ۔توضیح المسائل، م ۸۸۸۔

۵۶ ۔توضیح المسائل، م نماز مسافر، ساتویں شرط۔