معرفت نامہ

معرفت نامہ 20%

معرفت نامہ مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

معرفت نامہ
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 25 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15430 / ڈاؤنلوڈ: 4181
سائز سائز سائز
معرفت نامہ

معرفت نامہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین ( علیہ ما السلام ) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

معرفت نامہ ماخوذاز: زیارت امام زمانہ علیہ السلام (از مفاتیح الجنان)

اور دیگرچند موضوعات

ترجمہ وتشریح : السید افتخار حسین نقوی النجفی

معرفت نامہ(ماخوز از زیارت امام زمانہ علیہ السلام )

حصہ اول

بسم الله الرحمن الرحیم “

” من مات ولم یعرف امام زمانه مات میتة الجاهلیة “

”جوشخص اس حالت میں مرگیا کہ اس نے اپنے زمانہ کے امام کی معرفت حاصل نہ کی تو وہ جاہلیت کے زمانہ کی موت مرا یعنی کفر پر مرا“۔

حضرت ولی العصر امام زمانہ (عج) کے حضور اظہار عقیدت

امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں

اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام سے کیسا رابطہ رکھا جائے اور ان کے بارے کیسا عقیدہ ہونا چاہیے اور یہ کہ میرے لئے پوری کائنات کے لئے ان کا کیافائدہ ہے، ان کی پہچان کیا ہے، آئمہ اطہار علیہ السلام نے زبان وحی ترجمان سے زیارات کے انداز میں ہمارے لئے سب کچھ بیان کردیا ہے ذیل میں ہم حضرت ولی العصر علیہ السلام کے متعلق تفصیلی عقیدت کے اظہار کے حوالے سے آپ کے حرم میں جا کر جو زیارت پڑھی جاتی ہے اس کا انداز بیان قارئین کےلئے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اپنی آخری حجت کے وسیلہ سے ہمیں ان تمام بیانات پر پورا اترنے کی توفیق عطا کرے۔

امام زمانہ علیہ السلام کا تعارف

۱ السلام عَلَیکَ یَا خَلِیفَةَ اللّٰهِ وَخَلِیفَةَ اٰبَآئِهِ المَه دِیِّینَ السلام عَلَیکَ یَا وَصِیَّ الاَو صِیَآءِ المَاضِینَ السلام عَلَیکَ یَا حَافِظَ اِسرَارِ رَبِّ العَالَمِینَ ۔

آپ علیہ السلام پر سلام اے اللہ کے خلیفہ (قائم مقام) اور ہدایت یافتہ اپنے آباءکے جانشین (خلیفہ) ۔

٭ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ آپ علیہ السلام ہی اس وقت اللہ کی مخلوق میں اللہ کے خلیفہ ہیں ، اور تمام انبیاءاور اوصیاءکے آخری خلیفہ ہیں ، آپ خاتم الاوصیاءاور خاتم الخلفاءہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر سب سے پہلا خلیفہ ”انی جاعل فی الارض خلیفه “ کا بیان جاری فرما کر،حضرت آدم علیہ السلام کو قرار دیا اور اپنا آخری خلیفہ اپنی زمین پر حضرت امام مہدی علیہ السلام کو قرار دیا ہے“۔

آپ علیہ السلام پر سلام اے گزرے ہوئے زمانوں میں جو اوصیاءرہے ہیں ، ان سب کے وصی علیہ السلام ۔

٭اس کا مطلب یہ ہوا کہ گذشتہ انبیاء علیہ السلام کے جتنے اوصیاءگزرے ہیں ان سب اوصیاءکا آخری سلسلہ امام زمانہ علیہ السلام ہیں اور آپ علیہ السلام سب اوصیاء علیہ السلام کے وصی ہیں اور آپ خاتم الاوصیاء علیہ السلام ہیں ۔

اے رب العالمین کے اسرار اور رازوں کے نگہبان آپ علیہ السلام پر سلام ہو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اپنی کائنات کے پوشیدہ اسرار ہیں جن سے انسان واقف نہیں ہے اور ان تمام اسرار کی حفاظت کرنے والا موجود ہے اور وہ حضرت ولی العصر علیہ السلام ہیں ۔

حضرت امام مہدی (عج) کی طہارت وساری مخلوق پر برتری

۲ السلام عَلَیکَ یَا بَقِیَّةَ اللّٰهِ مِنَ الصَّفوَةِ المُنتجَبِینَ السلام عَلَیکَ یَابنَ الاَنوَارِ الزَّاهِرَةِ السلام عَلَیکَ یَابنَ الاَعلاَمِ البَاهِرَةِ السلام عَلَیکَ یَابنَ العِترَةِ الطَّاهِرَةِ السلام عَلَیکَ یَامَعدِنَ العُلُومِ النَّبَوِیَّةِ

اے منتخب شدگان میں سے چنے ہوئے نمائندگان میں اللہ کے بقیہ ۔اے بقیة اللہ....

٭اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے منتخب بندگان کو اس زمین پر حجت بنا کر بھیجا اور پھر ان تمام منتخب افراد میں بھی انتخاب در انتخاب کیا اور سب سے برتر اور بزرگ تر حضرت ختمی مرتبت حضرت محمدمصطفی خاتم النبیین ، رحمت العالمین ہیں اور ان کے بعد ان کے اوصیاء علیہ السلام ہیں اس بات کی طرف اشارہ دیا گیا ہے کہ ان سب میں آخری حجت اور اللہ کا ذخیرہ حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں ۔

٭اے چمکتے دمکتے خوبصورت نورانی ہستیوں کے فرزند ،آپ علیہ السلام پر سلام ہو۔

٭اے بہت ہی واضح، روشن اور سب پر عیاں پھیلے پرچموں کے فرزند ،آپ علیہ السلام پر سلام۔

٭اے عترت طاہرہ علیہ السلام کے فرزند، آپ علیہ السلام پر سلام ہو۔

٭ان جملوں میں آپ علیہ السلام کے نسب کی برتری کو بیان کیا گیا ہے آپ علیہ السلام کے تمام آباءو اجداد پاک و طاہر ہیں ، مقدس ہیں ، معروف ہیں ، انوار ہیں ، آپ علیہ السلام کی خلقت نورانی ہے، آپ علیہ السلام خاکی نہیں ہیں ، جو آپ علیہ السلام سے جاہل رہے تو گویا وہ عقل کا اندھا ہے کیونکہ سورج کی روشنی سے اندھا ہی بے بہرہ ہوتا ہے، آپ علیہ السلام ایسا روشن اور واضح موجود ہیں کہ تھوڑا سا تامل کرنے پر آپ علیہ السلام کی معرفت حاصل کرنا سب کے لئے آسان ہے۔

اے علوم نبویہ کے معدن (کان)، آپ علیہ السلام پر سلام ہو۔

٭اس جملہ سے واضح کیا گیا ہے کہ جس طرح ایک معدن میں خزانہ جمع ہوتا ہے جس کی انتہاءکو نہیں پہنچا جا سکتا، اور معدن کے اندر جو کچھ ہوتا ہے وہ ختم نہیں ہوتا اور وہ سب کے لئے ہوتا ہے لیکن معدن سے وہی فائدہ اٹھاتا ہے جو معدن تک خود کو پہنچاتا ہے اور معدن سے لینے کا ارادہ کرتا ہے ، معدن اپنا فیض دینے کےلئے کسی کے گھر پر نہیں آجاتا، بلکہ معدن کے خزانہ کو لینے کےلئے محنت ، مشقت اور جدوجہد کرنا ہوتی ہے ۔ حضرت ولی العصر علیہ السلام ، نبویہ علوم کی معدن ہیں بس جو بھی ان علوم و معارف سے کچھ لینا چاہتا ہے تو اسے اس ذات سے رابطہ کرنا ہوگا۔ ان سے لینے کےلئے اپنے اندر ضروری شرائط پوری کرنا ہوں گی، محنت ومشقت کرنا ہوگی، علوم بغیر حاصل کرنے کے نہیں ملتے، پڑھنا ہوگا،ان ذرائع سے علوم حاصل کرنے کےلئے جدوجہد کرنا ہوگی جو آئمہ علیہ السلام نے ہمارے لئے تعلیم دیے ہیں ۔

امام مہدی (عج) اللہ تک جانے کا وسیلہ

۳ السلام عَلَیکَ یَا بَابَ اللّٰهِ الَّذِی لاَ یُوتیٰٓ اِلاَّ مِنهُ السلام عَلَیکَ یَا سَبِیلَ اللّٰهِ الَّذِی مَن سَلَکَ غَیرَههلَکَ

اے اللہ کا ایسا دروازہ کہ جس پر آئے بغیر خدا تک جانا ممکن نہیں ہے، آپ علیہ السلام پر سلام ہو۔

٭اے اللہ کا وہ راستہ کہ جس پر چلے بغیر خدا کا راستہ نہیں ملتا اور جو بھی اس راستہ کو چھوڑدے دوسرے راستہ سے خدا تک جانے کا ارادہ کرے گا، تو وہ ہلاک ہو گا آپ علیہ السلام پر سلام ہو۔

ان دو جملوں میں واضح کیا گیا ہے کہ خدا تک جانے اور توحید پرست بننے کے لئے حضرت ولی العصر علیہ السلام کو وسیلہ بنانا ہوگا جب تک اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام سے وصل نہ ہوں گے اس وقت تک خداوند سے وصل نہیں ہو سکتا، خدا تک جانے کا ذریعہ آپ ہی کی ذات ہے، اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے اور نہ ہی اس راستہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے راستہ سے خدا تک جانے کا امکان ہے۔

امام مہدی (عج) ہر شئی پر ناظر

۴ السلام عَلَیکَ یَانَاظِرَ شَجَرَةِ طُوبٰی وَسِدرَةِ المُنتَهٰی

اے شجرہ طوبیٰ اور سدرہ منتہٰی کے ناظر، آپ علیہ السلام پر سلام ہو۔

شجرہ طوبیٰ سے مراد وہ درخت ہے جس کو قرآن مجید میں شجرہ طیبہ کا نام دیا گیا ہے جس کی وصفیں بیان کی گئی ہیں اور سدرة المنتہیٰ اس مرکز کانام ہے جس تک حضرت ختمی مرتبت شب معراج گئے تھے گویا ان دو عناوین کو بیان کرنے سے مقصود آپ کی عظمت وکرامت کو واضح کرنا ہے اور آپ علیہ السلام کی خلقت پر روشنی بھی ڈالنا مقصود ہے کہ آپ علیہ السلام ان انوار میں سب پر نمایاں تھے کیونکہ آپ علیہ السلام ہی اللہ کے نمائندگان میں آخری ہیں لہٰذاآپ علیہ السلام سے پہلے(گذشتگان) سب کے حالات اور ان کے امتیازات اور مراتب پرآپ ناظر ہیں اور ان سے واقف وآگاہ ہیں اور سب پر آپ علیہ السلام کی نظر ہے ان کے حوالے سے کچھ بھی آپ علیہ السلام پرپوشیدہ نہ ہے، آپ علیہ السلام ہی سب کی مراد ہیں اور سب کے مقاصد کو آپ علیہ السلام نے ہی پورا کرنا ہے جو کچھ گذشتگان میں تھا وہ سب کچھ آپ علیہ السلام میں ہے، تب ہی تو آپ علیہ السلام سب کے وارث ہیں ، سب کے علوم بھی آپ علیہ السلام کے پاس ہیں ، سب کے فضائل اور تمام مراتب آپ علیہ السلام میں موجود ہیں آپ علیہ السلام کے وجود کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نمائندگان کا مظہر کامل بنایا ہے۔

امام مہدی (عج) نور ِ خدا

۵ السلام عَلَیکَ یَانُورَ اللّٰهِ الَّذِی لاَیُطفٰی

اے اللہ کے نور جس نے بجھنا نہیں ہے جسے کوئی ختم نہیں کرسکتا ،آپ علیہ السلام پر سلام ہو ۔

اللہ کا نور آپ علیہ السلام ہیں ، یعنی آپ علیہ السلام اللہ کی پہچان ہیں ، اللہ کا دین آپ علیہ السلام ہیں ، اللہ کی کلام ناطق آپ علیہ السلام ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کونور کہا ہے، اپنی کتاب کو نور کہا ہے، اپنی طرف سے ہدایت کو نور کہا ہے،، علم کو بھی نور کہا گیا ہے اور جب اللہ تعالیٰ اپنے نمائندہ کو اپنا نورقرار دیتا ہے تو اس میں نور کے تمام معانی پوشیدہ ہوتے ہیں اور اس لفظ میں ایک اشارہ دیا جاتا ہے کہ اللہ کا نمائندہ کسی کا محتاج نہیں ہوتا وہ سب کے لئے ہدایت ہوتا ہے، سب کاراہنما ہوتا ہے، سب کے لئے چراغ کا کام دیتا ہے اور پھر اللہ کا نمائندہ ایک ایسا منبع ہے کہ جسے کوئی نقصان نہیں دے سکتا، وہ اللہ کی رحمت کا مظہر کامل ہوتاہے، اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا اور نہ ہی اسے کوئی مار سکتا ہے، یہ ساری وصفیں حضرت ولی العصر علیہ السلام میں موجودہیں اس سے آپ علیہ السلام کی زندگی کی طرف بھی اشارہ ہے۔یعنی آپ علیہ السلام اس وقت زندہ موجود ہیں ۔آپ کا فیضان موافق ومخالف کیلئے اللہ کے اذان وارادے سے جاری و ساری ہے اور اس میں انقطاع نہیں ہے پوری کائنات کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے نورانی وجودسے روشن و برقرار رکھا ہوا ہے ۔

امام مہدی(عج) حجت ِ خدا

۶ السلام عَلَیکَ یَا حُجَّةَ اللّٰهِ الَّتِی لاَتخفٰی السلام عَلَیکَ یَا حُجَّةَ اللّٰهِ عَلٰی مَن فِی الاَرضِ وَالسَّمَآءِ

٭اے اللہ کے ایسے نمائندہ جو کہ مخفی نہیں رہ سکتے، آپ علیہ السلام پر سلام ہو۔

٭اہل زمین اور اہل آسمان پر اللہ کی حجت، آپ علیہ السلام پر سلام ہو۔

٭ان دوجملوں میں آپ علیہ السلام کو اللہ کی حجت کہا گیا ہے، حجت کا معنی دلیل ، راہنما کے ہوتا ہے اور ایسی شئی پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ کوئی شخص اپنی بات منوا سکے اور جو ہستی اللہ کی حجت قرار پاتے ہیں تو گویا وہ ایسی ہستی ہوتے ہیں جن کے وجود سے اللہ کا وجود ثابت ہوتاہے، جن کے بیان سے اللہ کی پہچان ہوتی ہے، وہی اللہ کے نمائندہ ہیں اور اللہ اپنی مخلوق سے ان کے ذریعہ سوال کرے گا کہ میرا نمائندہ، میری پہچان کروانے کےلئے موجود تھا اور تم نے کس وجہ سے میرا انکار کردیا،منکرین لاجواب ہوں گے، اللہ کی حجت کا معنی یہ بھی ہے کہ ان کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ نے تمام بندگان پر ہی فرض کیا بلکہ زمین وآسمان میں جتنی مخلوقات ہیں ان سب پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی اطاعت کو فرض قرار دیا اور ساری مخلوقات آپ کے فرمان کے تحت چل رہی ہے ، ہرشئی کی افادیت اللہ کے حکم و ارادہ و مشیت سے آپ کے وجود سے وابستہ ہے اور ہر شئی آپ کے سامنے خاضع و خاشع ہے جبکہ بندگان کو حکم ہے کہ وہ بھی آپ کے حضور سر تسلیم خم کریں اور آپ کے سلطانی فرامین کی خلاف ورزی نہ کریں۔

امام مہدی علیہ السلام کی معرفت

۷ السلام عَلَیکَ سَلاَمَ مَن عَرَفَکَ بِمَا عَرَّفَکَ بِهِ اللّٰهُ وَنَعتَکَ بِبَعضِ نُعُوتِکَ الَّتِی ٓ اَنتَ اَهلُهَا وَفَوقَهَا

٭آپ علیہ السلام پر ایسے شخص کی مانند سلام ہو اے میرے مولا :جس نے آپ علیہ السلام کو اس طرح سے پہچان لیا جیسی آپ کی پہچان اللہ تعالیٰ نے اس کے واسطے کرائی ہے اور اس نے آپ علیہ السلام کے اوصاف میں سے کچھ اوصاف کو بیان کیا ہے، ایسے اوصاف جن کے آپ علیہ السلام لائق ہیں بلکہ آپ علیہ السلام تو ان اوصاف سے بھی مافوق ہیں جن کا اظہار بندگان کر سکتے ہیں ۔

اس جملہ میں سلام پیش کرنے والا اپنی عاجزی اور کمزوری کااظہار کررہا ہے اس لئے وہ سلام بھیجنے کی کیفیت کو ایسے شخص کے سلام کی طرف نسبت دے رہا ہے کہ جسے آپ علیہ السلام کی مکمل معرفت ہے اور ساتھ یہ بھی بتا دیا ہے کہ آپ علیہ السلام کے جتنے بھی اوصاف بیان کیے جائیں ان کے ذریعہ آپ کا حق ادا نہیں ہوتا آپ علیہ السلام ہر اچھی صفت کے لائق ہیں لیکن حق بات یہ کہ آپ علیہ السلام ان اوصاف میں نہیں سمو پاتے، آپ علیہ السلام تمام اوصاف سے مافوق ہیں ، ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ کوئی بھی آپ علیہ السلام کی معرفت حاصل نہیں کر سکتا ۔

مگر یہ کہ خود خدا آپ کی معرفت کروا دے، یہ بات حضور پاک کی اس حدیث کی طرف اشارہ بھی ہے جس میں آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے علی علیہ السلام ! تیری معرفت یا اللہ کو ہے یا مجھے اور میری معرفت یا اللہ کو ہے یا آپ کو، جس طرح اللہ کی معرفت جو ہے وہ یاتو اے علی علیہ السلام آپ کو ہے یا مجھے....آج یہی بات آخری وصی کیلئے پوری طرح صادق ہے ۔

پس آج کے دور میں حضرت ولی العصر علیہ السلام کی معرفت تو ان ہستیوں ہی کو ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا نمائندہ اپنی زمین پر بنایا ہے یعنی آپ کی صحیح معرفت اللہ کوہے، جو آپ کا خالق و مالک ہے اور اللہ کے رسول کو ہے اور اللہ کے رسول کے اوصیاءجو آپ سے پہلے ہوئے، ان کو ہے اور ان ہستیوں نے جن اوصاف کے ساتھ آپ کی پہچان کروائی وہ آپ کے سارے اوصاف نہین ہیں بلکہ بعض اوصاف ہیں بس میں اپنے سلام کو ان سے منسوب کرتا ہوں کہ ان ہستیوں نے جس معرفت سے آپ پر سلام بھیجا ہے ویسا ہی سلام میری طرف سے آپ علیہ السلام پر ہو اگر چہ اس سلام کی کنہ اور حقیقت سے میں واقف نہیں ہوں۔

امام وقت کے بارے عقیدہ کیسا ہو؟

امام زمانہ علیہ السلام سے اظہار عقیدت کا انداز

۸ اَشهَدُ اَنَّکَ الحُجَّةُ عَلٰی مَن مَّضٰی وَمَن بَقِیَ وَاَنَّ حِزبَکَهمُ الغٰلِبُونَ وَاَو لِیَآءکَهمُ الفَآئِزُونَ وَاَعدَآءکَهمُ الخَاسِرُونَ وَاَنَّکَ خَازِنُ کُلِّ عِلمٍ وَّفَاتِقُ کُلِّ رَتقٍ وَّمُحَقِّقُ کُلِّ حَقٍّ وَّمُبطِلُ کُلِّ بَاطِلٍ رَضِیتُکَ یَا مَولاَیَ اِمَامًا وَّهَادِیًّا وَّوَلِیًّا وَّمُر شِدًا لَّآ اَبتَغِی بِکَ بَدَلاً وَّلَآ اَتَّخِذُ مِن دُونِکَ وَلِیًّا

اے میرے امام علیہ السلام : میں گواہی دیتا ہوں! بے شک آپ علیہ السلام حجت ہیں ان پر جو گذر گئے اور ان پر بھی آپ علیہ السلام حجت ہیں جو باقی ہیں اور یہ کہ آپ کی جماعت نے سب پرغلبہ حاصل کرنا ہے اور جو آپ کے اولیاءہوں گے آپ کے ساتھی ہوں گے وہی کامیاب ہوں گے اور جو آپ علیہ السلام کے دشمن ہیں وہ خسارہ اٹھانے والے ہوں گے اوریہ کہ آپ ہی ہر علم کے خزانہ دار ہیں اور ہرمشکل و پیچیدہ امر کو سلجھانے والے آپ علیہ السلام ہی ہیں ۔

ہر حق کو ثابت کرنے والے اور اس کو وصول کرنے والے آپ علیہ السلام ہی ہیں ، ہرباطل کو ختم کرنے والے ، اسے مٹانے والے اور اس کے بطلان اور غلط ہونے کو ثابت کرنے والے بھی آپ علیہ السلام ہیں ۔

اے میرے مولا! میں نے آپ کو اپنا امام بنایا ہے، آپ علیہ السلام میرے ہادی ہیں ، میرے رہبرہیں ، میرے ولی ہیں ، میرے سرپرست ہیں ، میرے مرشد ہیں ۔

میرے مولا! میں آپ علیہ السلام کے بدلے میں کسی بھی چیز کو نہیں چاہتاہوں اور نہ ہی آپ کے سوا کسی کو اپنا ولی مانتا ہوں، آپ ہی میری پسند اور آپ علیہ السلام ہی میرے لئے سب کچھ ہیں ۔

امام مہدی (عج) تمام انبیاءپر حجت

اس حصہ میں جو کچھ عقیدت کا اظہار کیا گیا بڑا واضح و روشن ہے تشریح کی ضرورت نہیں ہے لہٰذا اس جگہ ایک جملہ جو بیان ہوا ہے کہ آپ گذشتگان پر حجت خدا ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ سے پہلے جتنے اوصیاء، اللہ کے خلفائ، انبیائ علیہ السلام ، رسل، اللہ کے نمائندگان گذرے ہیں ، سب پر آپ حجت ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ سب آپ علیہ السلام پر ایمان لائے اور سب نے آپ علیہ السلام کا تعارف کروایا اور یہ ان پر لازم تھا، ہر نبی نے آپ کے بارے اپنی امت سے اقرار لیا۔

اللہ کی طرف سے آخری حجت آپ ہی کو قرار دیا گیا آپ کے آباءو اجداد کو آپ پر تقدم کا شرف حاصل ہے جیسے حضورپاک کو آخری نبی ہونے کا شرف حاصل ہے اور اس حوالے سے انہیں آپ علیہ السلام پر برتری بھی ہے، آپ نے اپنے جدامجدد کے لائے ہوئے دین ہی کو نافذ کرنا ہے، اس کےلئے ہی کام کرنا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا بقیہ قرار دے کر آپ کےلئے یہ اعزاز دیا ہے کہ آپ وہ کام کریں جو آپ سے پہلے آنے والوں نے نہ کیا اور اسی آرزو میں مر گئے ،شاید یہی وجہ ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام ، امام محمدباقر علیہ السلام ، امام رضا علیہ السلام آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ،!! میرے ماں باپ آپ علیہ السلام پر قربان جائیں۔ کبھی آپ علیہ السلام کا نام سن کر احترام سے کھڑے ہو جاتے ہیں ،کبھی فرماتے ہیں کہ میں اگر ان کا زمانہ پالوں تو اپنی زندگی کو ان کےلئے بچا کر رکھوںحضرت امام حسین علیہ السلام اپنے اس فرزند کی خدمت میں رہنے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام آپ کے دیدار کےلئے بے تاب نظر آتے ہیں ، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام آپ علیہ السلام کی غیبت کے طولانی ہونے کو یاد کر کے گریہ وزاری کرتے ہیں اور بے تاب ہو جاتے ہیں ۔

حضور اکرم اپنے بیانات میں آپ علیہ السلام کا تعارف کرواتے ہیں اور آپ علیہ السلام کی اہمیت اپنی امت کو بتاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی کا ثمر آپ کو قرار دیتے ہیں ، یہ سب کچھ پڑھنے سے اس جملہ کا معنی سمجھ میں آجانا چاہیے کہ آپ اپنے سے پہلے آنے والوں پرکیسے حجت ہیں اور جو بعد میں آنے والے ہیں ان پر بھی آپ علیہ السلام حجت ہیں ،یہ تو بڑا واضح ہے جب آپ گذشتگان پر حجت ہیں تو بعدوالوں پر تو بطریق اولیٰ حجت قرار پائیں گے ۔

حضرت امام مہدی (عج) کی کامیابی

اسی بیان میں آپ علیہ السلام کی کامیابی کے یقینی ہونے پر، آپ کی جماعت اور ساتھیوں کے غلبہ کے حتمی ہونے کو بھی بیان کیا گیا ۔ شکست آپ علیہ السلام کے دشمنوں کا مقدر ہے، آپ علیہ السلام ہی نے حق کی پہچان کروانا ہے، حق آپ نے غاصبوں سے وصول کرنا ہے ،آپ نے حق کو نافذ کرنا ہے، باطل کا خاتمہ بھی آپ علیہ السلام کے ہاتھوں ہونا ہے اور باطل کی صحیح پہچان بھی آپ علیہ السلام نے کروانا ہے، آپ علیہ السلام سے قبل باطل کی پوری طرح لوگوں کو پہچان بھی نہ ہوئی آپ ہی ”جاءالحق وزہق الباطل وان الباطل کان زھوقا“ کا مکمل مصداق ہیں ، مرشد آپ ہیں ، آپ کے سواکسی کو مرشد کہنا بھی درست نہیں ہے البتہ جو آپ علیہ السلام تک بھٹکے ہوئے بندگان کو پہنچائے تو آپ علیہ السلام تک پہچانے میں وہ شخص مرشد کا عارضی عنوان اور مجازی طور پراپنے لیے اس عنوان کولے سکتا ہے۔ ولایت مطلقہ آپ علیہ السلام کے پاس ہے، اس لئے اعلان کیا گیا کہ آپ علیہ السلام ہی ولی ہیں ، سرپرست آپ ہیں ، ہادی آپ ہیں ، وہ شخص خسارہ میں رہ گیا جو آپ علیہ السلام کو چھوڑ کر کسی اور کا دامن تھام لے۔

مرشد کل آپ علیہ السلام ہیں ۔ جو علماء، مجتہدین، عرفاءدوسروں کو آپ علیہ السلام کی راہنمائی کرتے ہیں ، آپ کے ساتھ گم گشتگان کو وصل کرتے ہیں وہ درحقیقت حقیقی مرشد تک پہنچانے کا وسیلہ ہیں اور بس!! اس سے زیادہ کچھ نہیں سب کچھ آپ علیہ السلام خود ہیں ۔باقی سب آپ تک پہنچانے کا وسیلہ ہیں اور آپ تک پہنچ کر ہی خدا تک پہنچا جاسکتا ہے آپ ہی وہ ذات ہیں جو ہر شئی کو رب العالمین سے وصل کر دیتے ہیں ۔

حضرت ولی العصر علیہ السلام کی کچھ خصوصیات

۹ اَشهَدُ اَنَّکَ الحَقُّ الثَّابِتُ الَّذِی لاَ عَیبَ فِیهِ وَاَنَّ وَعدَ اللّٰهِ فِیکَ حَقّ لَّآ اَرتَابُ لِطُولِ الغَیبَةِ وَبُعدِ الاَمَدِ وَلَآ اَتَحَیَّرُ مَعَ مَن جَهِلَکَ وَجَهِلَ بِکَ مُنتظِر مُّتَوَقِع لِّاَیَّامِکَ

اے میرے مولا!میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ ہی وہ حق ثابت ہیں کہ جس میں کوئی نقص اور عیب نہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے بارے جووعدہ فرمایا ہے وہ برحق ہے....اور اس نے ضرور پورا ہوناہے، میں آپ کی غیبت کے طولانی ہوجانے کی وجہ سے اس بارے شک و شبہ نہیں کرتا ہوں، آپ کی انتہاءکے دور ہوجانے سے بھی میں شک میں نہیں پڑتا ہوں ،اورنہ ہی میں حیران ہوتاہوں، باوجود یکہ ایسے افراد موجود ہیں جو آپ علیہ السلام سے جاہل ہیں اور وہ افراد بھی جو آپ علیہ السلام کی عدم معرفت کی وجہ سے جہالت میں جاپڑے ، تو میں ایسا بھی نہیں ہوں، میں آپ کے آنے کی انتظار میں ہوں اور آپ علیہ السلام کے ایام کی آمد کی پوری توقع رکھتا ہوں۔

ان جملوں میں آپ کو حق ثابت کیا گیا ہے ، اس جملہ کے ذریعہ اس مفہوم کو بیان کیاگیا جسے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصی حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا تھا”علی مع الحق والحق مع علی اللھم ادر الحق حیث دار علی “ علی علیہ السلام حق کے ساتھ ہیں اور حق علی علیہ السلام کیساتھ ہیں اے اللہ حق کو ادھر گھمادے جس طرف علی علیہ السلام جائیں ۔

اس حدیث میں علی علیہ السلام مولا کو ایک ثابت اور نہ بدلنے والا شخص متعارف کروایا گیا اوریہ اعلان کیاگیا ہے کہ علی علیہ السلام جس حال میں جس کیفیت میں جس پوزیشن میں ہونگے تو وہ ہی خود حق ہیں ، اسی بات کو ان جملوں میں خاتم الاوصیاءحضرت امیر المومنین علیہ السلام کے فرزند بقیة اللہ حضرت امام مہدی (عج) کیلئے بیان کیاگیا ہے کہ آپ ہی وہ حق ثابت ہیں جس میں کوئی تغیر وتبدل نہیں آپ حاضر ہوں تو آپ ہی حق ہیں آپ غائب رہیں تو بھی حق ہیں آپ ظہور فرمائیں تو حق ہیں جنگ کریں تو حق ہیں ۔بہر حال آج کے زمانہ میں حق واقعی آپ ہی کی ذات ہے اور جو شخص جس قدر آپ سے رابطہ میں رہے گا اسی قدر وہ شخص حق پر ہوگا اورجو شخص جس قدر آپ سے دور ہوگا وہ اتنا ہی باطل کے قریب ہوگا اس بیان میں آپ کی غیبت کے طولانی ہونے کا ذکر بھی کیا گیا ہے اوریہ کہ مومن وہی ہے جو آپ کی طولانی غیبت سے پریشان ہوکر ایمان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے بلکہ آپ کی انتظار میں رہے اوریہ کہ آپ کی آمد یقینی ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔

امام مہدی (عج) اور ظالموں سے انتقام

۰۱ وَاَنتَ الشَّافِعُ الَّذِی لَاتنَازَعُ وَالوَلِیُّ الَّذِی لَاتدَافَعُ ذَخَرَکَ اللّٰهُ لِنُصرَةِ الدِّینِ وَاِعزَازِ المُومِنِینَ وَالاِنتقَامِ مِنَ الجَاحِدِینَ المَارِقِینَ

اے میرے مولا! آپ علیہ السلام ہی شفاعت کرنے والے ہیں جس میں کوئی جھگڑا نہیں ہے اور آپ علیہ السلام ہی تو وہ ولی ہیں جسے کوئی اپنی جگہ سے ہٹا نہیں سکتا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو دین کے لئے ذخیرہ کیا ہے اور مومنین کی عزت افزائی کے واسطے آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھاہوا ہے۔ منکروں، سرکشوں، منحرفوں سے انتقام لینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کوباقی رکھا ہواہے۔

ایک بات تو اس بیان میں یہ واضح کی گئی کہ آپ علیہ السلام حق ثابت ہیں ، اس میں کسی قسم کا تزلزل نہیں ہے، کمزوری بھی نہیں ، آپ علیہ السلام بے عیب ہیں ، دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ دیا ہے کہ آپ علیہ السلام کے ذریعہ پوری دھرتی پر اللہ کی حکومت قائم ہوگی، اسلام ،دین غالب آپ علیہ السلام کے ذریعہ ہوگا ، آپ علیہ السلام ہی مکمل عدل کا نفاذ کریں گے ، تمام دشمنوں سے ظالموں سے، کافروں سے ، ملحدوں سے آپ ہی انتقام لیں گے، یہ وعدہ برحق ہے، ضرور پورا ہوگا،اس کے خلاف نہ ہوگا، یعنی زمین کا مستقبل تابناک ہے، زمین امن کا گہوارہ ضرور بنے گی، آپ علیہ السلام ہی کے ذریعہ دین کی نصرت ہوگی، مومنوں کو عزت ملے گی، کافر ومنافق ذلیل و خوار ہوں گے، سب ظالموں سے انتقام لیا جائے گا،آپ کو کوئی شکست نہیں دے سکتا اور نہ ہی آپ علیہ السلام کے مقابلہ میں کوئی اپنا دفاع کر سکے گا، نہ ہی کوئی آپ کو اپنی حیثیت اور مقام سے ہٹا سکے گا آپ علیہ السلام کی کامیابی یقینی ہے اوریہ کامیابی اسی دنیا میں ہونا ہے آخرت کے آنے سے پہلے ہونا ہے۔آپ ہی وہ سفارشی اور شافع ہیں جس میں کوئی جھگڑا کرنے کی گنجائش نہیں ہے ، آپ اللہ کا ذخیرہ ہیں ، آپ کے ذریعہ مومنین کو عزت اورمنافقوں پر ، کافروں پر ، مشرکوں پر غلبہ حاصل ہوگا آپ مومنوں کی عزت ہیں ۔

معرفت نامہ(ماخوز از زیارت امام زمانہ علیہ السلام )حصہ دوم

امام زمانہ علیہ السلام کے مبارک وجود کے فوائد

۱۱ اَشهَدُ اَنَّ بِوَلاَ یَتِکَتق بَلُ الاَعمَالوَتُزَکیَّ الاَف عَالوَتُضَاعَفُ الحَسَنَاتُ وَتُم حَی السَّیِّئٰاتُ فَمَن جَآء بِوِلَایَتِکَ وَاعترَفَ بِاِمَامَتِکَ قُبِلَت اَع مَالُه وَصُدِّقَت اَق وَالُه وَتَضَاعَفَت حَسَنَاته وَمُحِیَت سَیِّئٰاتُه وَمَن عَدَلَ عَن وِّلَایَتِکَ وَجَهِلَ مَع رِفَتَکَ وَاستَبدَلَ بِکَ غَیرَکَ کَبَّهُ اللّٰهُ عَلٰی مِن خَرِه فِی النَّارِ وَلَم یَقبَلِ اللّٰهُ لَه عَمَلاً وَّلَم یُقِم لَه یَومَ القِیٰمَةِ وَزنًا ۔

اے میرے مولا! میں گواہی دیتا ہوں کہ سارے اعمال آپ علیہ السلام کی ولایت سے قبول کئے جائیں گے،اور تمام کاموں کی نشوونما اور تزکیہ اور پاکیزگی بھی آپ علیہ السلام کی ولایت سے ہے ۔ تنگیاں آپ کے ولایت کی وجہ سے دور ہوجاتی ہیں اور گناہوں کو آپ ہی کی ولایت سے بالکل مٹا دیا جاتا ہے۔

اے میرے مولا! جو شخص آپ علیہ السلام کی ولایت کو لے کر آئے گا اور آپ کی امامت کا معترف ہوگا تو اس کے اعمال قبول ہوں گے، اس کی باتوں کی تصدیق کی جائے گی، اس کی نیکیاں چند برابر ہوجائیں گی، اس شخص کی خطاوں اور غلطیوں کو اس کے نامہ اعمال سے مٹا دیا جائے گا۔

اے میرے مولا! جو شخص آپ علیہ السلام کی ولایت سے پھر گیا اور آپ علیہ السلام کی معرفت سے جاہل رہا اور آپ علیہ السلام کی بجائے آپ کے غیر کو اختیار کرلیاتو اللہ تعالیٰ اسے اوندھے منہ آتش جہنم میں پھینک دے گا، اللہ تعالیٰ اس کا کوئی بھی عمل قبول نہ کرے گا اور قیامت کے دن ایسے شخص کے لئے اعمال کا جائزہ لینے کے لئے ترازو بھی نہیں لگایا جائے گا۔

ان جملوں میں امام زمانہ علیہ السلام کی ولایت اور امامت کو تسلیم کرنے کے فوائد بیان کئے گئے ہیں اور منکرین ولایت و امامت کو جو نقصان اٹھانا پڑے گا اس کا بیان ہے ۔

ولایت و امامت کے اقرار کے فوائد

۱ ۔ اعمال قبول ہوں گے۔

۲ ۔ نیکیاں چند برابر ہو جائیں گی۔

۳ ۔ گناہوں کو نہ فقط معاف کر دیا جائے گا بلکہ نامہ اعمال سے انہیں بالکل مٹا دیا جائے گا۔

۴ ۔ ایسے شخص کے اقوال کی تصدیق کی جائے گی ظاہرہے یہ تصدیق فرشتے کریں گے، یا پھر اللہ کے معصوم نمائندگان کریں گے کہ جو کچھ ان کا ماننے والا کہہ رہا ہے وہ صحیح ہے ۔

منکرین ولایت کا انجام

۱ ۔ اعمال قبول نہ ہوں گے۔

۲ ۔ نیکیاں اکارت جائیں گی۔

۳ ۔ گناہوں پر سزا ملے گی۔

۴ ۔ جہنم میں ڈالا جائے گا اور ذلت کے ساتھ اوندھے منہ پھینکا جائے گا۔

۵ ۔ ایسے اشخاص کے اعمال جتنے بھی ہوں ان کے بارے قیامت کے دن کوئی وزن نہ ہوگا۔

وہ سب نیک کام بے وزن، بے حیثیت، بے وقعت ہو جائیں گے۔

امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت اور ولایت قبول کرنے کا اعلان

اے میرے مولا! جو کچھ میں نے اوپر کہا ہے اس کے بارے میں اس مقام پر اللہ کو اپنے تمام اعترافات پر گواہ بناتا ہوں اللہ کے فرشتوں کو اس پر گواہ بناتا ہوں اور میرے مولا خود آپ علیہ السلام کو بھی اس پر گواہ بناتا ہوں جو میں نے کہا ہے جو میں نے زبان سے اقرار کیا ہے، اس سب کا ظاہر جس طرح ہے اسی طرح اس کا باطن بھی ہے جیسا اعلان کیا گیا ہے اسی طرح اس کی مخفیانہ حالت بھی ہے ۔

اور اے مولا! آپ علیہ السلام بھی اس پر گواہ اور شاہد ہیں ۔

میرے مولا! یہ میرا عہدوپیمان ہے جو میں آپ علیہ السلام کے سپرد کر رہاہوں ۔

ان سارے اعترافات کی وجہ

۲۱ اُشهِدُ اللَّهَ وَاُشهِدُ مَلَآئِکَتَه وَاُشهِدُکَ یَامو لاَیَ بِهٰذَا، ظَاهِرُه کَبَاطِنَه وَسِرُّه کَعَلاَ نِیَتِه وَاَنتَ الشَّاهِدُ عَلٰی ذٰلِکَ وَهُوَ عَهدِی ٓ اِلَیکَ وَمِی ثَاقِی لَدَیکَ،اِذ اَنتَ نِطَامُ الدِّینِ وَیَعسُو بُ المُتَّقِینَ وَعِزُّ المُوَحِّدِینَ وَ بِذٰلِکَ اَمَرَنِی رَبُّ العَالَمِینَ فَلَوتطَاوَلَتِ الدُّهُورُ وَتَمَادَتِ الاَعمَارُ لَم اَزدَد فِیکَ اِلاَّ یَقِینًا وَّلَکَ اِلاَّ حُبًّا وَّعَلَیکَ اِلاَّ مُتَّکَلاً وَّمُعتمَدًا وَّلِظُهُورِکَ اِلاَّ مُتَوَقِّعًا وَّمُنتَظِرًا وَّلِجَهَادِی بَینَ یَدَیکَ مُتَرَقِبًا فَابذُلُنَفسِی وَمَالِی وَوَلَدِی وَاَهلِی وَجَمِیعَ مَاخَوَّلَنِی رَبِّی بَینَ یَدَیکَ وَالتَّصَرُّفَ بَینَ اَمرِک وَنَهیِکَ

اے میرے مولا! میں ایسا اعلان کیوں نہ کروں میرے یہ سارے اعترافات کیوں نہ ہوں کیونکہ!

میں جو کچھ کہہ رہاہوں اس میں سب سے پہلے اللہ کو گواہ بنا تاہوں ، پھر اللہ کے فرشتوں کو اور خود آپ کو اے میرے مولا !اپنا گواہ بناکر یہ سارے اعترافات کررہاہوں ، اوریہ سب کچھ اس لئے تاکہ میرا ظاہر اور باطن ایک ہوجائے اور میرے دل کی بات ہی زبان پر ہو میرا اعلان اور میرا سب ایک ہوجائیں اور سب اس پر اے میرے مولا آپ ہی گواہ اوعر شاہد ہیں ، اور یہ میرا اے میرے مولا ! آپ کے ساتھ عہد وپیمان ہے کیونکہ !....

آپ علیہ السلام ہی تو نظام دین ہیں ، آپ علیہ السلام ہی تو شیعوں کے یعسوب و سردار ہیں ، آپ علیہ السلام ہی تو موحدین کی عزت ہیں ، پھر رب العالمین کا میرے لئے یہی حکم ہے، اگر زمانے لمبے ہوجائیں، عمریں بڑی ہو جائیں، تو یہ سب کچھ میرے لئے سوائے مزید یقین لانے کے اور کچھ نہ لائے گا اور آپ علیہ السلام کے بارے محبت میں اضافہ ہی ہوگا، کمی ذرا برابر نہ آئے گی، آپ علیہ السلام ہی پر میرا اعتماد اور بھروسہ بڑھے گا اور آپ علیہ السلام کے ظہور کی ہر آن توقع رہے گی اور میری انتظار اور آپ کے لئے آمادہ ہی آمادہ ہو گی اور میں تو آپ علیہ السلام کے سامنے جہاد کرنے کے لئے شدت سے انتظار ہی میں رہوں گا، میں اپنی جان، اپنا مال، اپنی اولاد، اپنے عیال اور جو بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے میرا کوئی عنوان ہے ، حیثیت ہے، تعلق ہے، سب کچھ کو آپ علیہ السلام کے حضور دے دوں گا، آپ علیہ السلام کے راہ میں قربان کردوں گا اور میں آپ علیہ السلام کے امر اور نہی کے درمیان ہی رہوں گا آپ علیہ السلام جو حکم دیں گے ویسے ہی کروں گا جس سے روک دیں گے میں اس سے رک جاوں گا۔

ایک مومن کی آرزو

۳۱ مَو لاَیَ فَاِن اَد رَکتُ اَیَّامَکَ الزَّاهِرَةَ وَاَعلاَمَکَ البَاهِرَةَ فَهَآ اَنَا ذَا عَبدکَ المُتَصَرِّفُ بَینَ اَم رِکَ وَنَه یِکَ اَر جُو بِهِ الشَّهَادَةَ بَینَ یَدَیکَ وَالفَوزَ لَدَیکَ مَو لاَیَ فَاِن اَدرَکنِی المَوتُ قَبلَ ظُهُو رِکَ فَاِنِّی ٓ اَتَوَسَلُ بِکَ وَبِٰابَآئِکَ الطَّاهِرِینَ،اِلَی اللّٰهِتعَالٰی وَاَسئلُه اَن یُّصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاَن یَّجعَل لِیکَرَّةً فِی ظُهُو رِکَ وَرَجعَةً فِی ٓ اَیَّامِکَ لِاَبلُغَ مِن طَاعَتِکَ مُرَادِی وَاَشفِیَ مِن اَعدَآئِکَ فُوئٰادِی

اے میرے مولا!اگر تو میںنے آپ علیہ السلام کے خوشحال دنوں کو پالیا اور آپ علیہ السلام کے روشن اور واضح پرچموں کی چھاوں میرے نصیب میں ہوئی تو یہی میری آرزو ہے، یہی مقصود و مراد ہے ، تو میں تیرا بندہ تیرے احکام کے تابع ہو کر رہوں گا اور جس سے آپ علیہ السلام روک دیں گے اس سے رک جاوں گااور اس طرح میں آپ کے حضور میں شہادت کی آرزو رکھتا ہوں اور آپ کے ہاں کامیابی حاصل کرنے کی امید لگائے بیٹھاہوں یعنی اگر میں زندہ ہوا اور آپ کے خوشحال دنوں کو پالیا، آپ کی حکومت میں میرا رہنا نصیب ہوگیا تو پھر میری آرزو یہی ہے جو اوپر بیان کی گئی اور اگر ایسا نہ ہوتو اس کے لئے اس طرح عرض گزار ہوں ۔

اے میرے مولا! اگر مجھے موت نے آپ علیہ السلام کے ظہور سے پہلے آلیا، تو پھر میں آپ کے ذریعہ متوسل ہوں، آپ علیہ السلام کو اپنا وسیلہ بناتا ہوں اور آپ علیہ السلام کے طاہر و اطہر آباءکو وسیلہ بناتا ہوں، اللہ کے حضور اور اللہ تعالیٰ سے پہلے تو میرا سوال یہ ہے کہ: وہ محمد وآل علیہ السلام محمد پر صلوات بھیجے اور اس کے بعد میرا سوال اللہ تعالیٰ سے یہ ہے کہ وہ مجھے آپ علیہ السلام کے ظہور کے زمانہ میں دوبارہ لے آئے اور آپ علیہ السلام کی خوشحالی کے دنوں میں میرے لئے دوبارہ آنا قرار دے تاکہ میں آپ کی اطاعت میں آ کر اپنی مراد کو پالوں اور تیرے دشمنوں سے انتقام لے کر سینہ میں لگی آگ کو بجھا لوں۔

زائر کی آرزو اوردرخواست

۴۱ مَو لاَیَ وَقَفتُ فِی زِیَارَتِکَ مَو قِفِ الخَاطِئِینَ ،النَّادِمِینَ، الخَآئِفِینَ مِن عِقَابِ رَبِّ العَالَمِینَ وَقَدِ اتَّکَلتُ عَلٰی شَفَاعَتِکَ وَرَجَوتُ بِمُوَالاَتکَ وَشَفَاعَتِکَ،مَح وَذُنُو بِی وَسَترَعُیُو بِی وَمَغفِرَةَ زَلَلِی ،فَکُن لِّوَلِیِّکَ یَامَو لاَیَ عِند تحقِیقِ اَمَلِه وَاسئلِ اللّٰهَ غُفرَانَ لَلِه فَقَدتعَلَّقَ بِحَب لِکَ وَتَمَسَّکَ بِوَلاَیَتِکَ وَتَبَرَّء مِن اَعدَآئِکَ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَاٰلِه وَاَنجِز لِوَلِیِّکَ مَا وَعَدته اَللَّهُمَّ اَظهر کَلِمَتَه وَاَعلِ دَعوَتَه وَان صُرهُ عَلٰی عَدُوِّه وَعَدُوِّکَ یَارَبَّ العَالَمِینَ

یہ زیارت کیونکہ امام زمانہ علیہ السلام کے گھر کے دروازہ پرسامرہ میں پڑھی جاتی ہے اور اس زیارت کو پڑھ کر زائر آپ کے گھر (سرداب) میں (سامرہ عراق) داخل ہوتا ہے، تو سابقہ بیانات کے بعد زائر،ان الفاظ کو اداکرتا ہے، جس میں زائر اپنی خطاوں کو یاد کرتا ہے، اپنی کمزوریوں کا ذکر کرتا ہے گناہوں کی معافی مانگتا ہے اپنی دوسری حاجات پیش کرتاہے، زائر کی درخواست کچھ اس طرح سے ہے۔

اے میرے مولا! میں آپ علیہ السلام کی زیارت کے لئے ٹھہرا ہوں، جس طرح خطا کار اور مجرم آٹھہرتے ہیں ، میں بھی ایک مجرم ہوں، پشیمان ہوں، رب العالمین کی جانب سے سزا ملنے کا مجھے خوف لاحق ہے، میرے مولا! میں نے تو آپ علیہ السلام کی سفارش پر امید باندھ رکھی ہے، آپ علیہ السلام کو سفارشی بنانے آیا ہوں، آپ علیہ السلام سے جو میری محبت ہے، میں آپ کا موالی ہوں، میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ علیہ السلام میرے گناہوں کو ختم کرانے میں اللہ رب العالمین کے ہاں میری سفارش کردیں اور یہ کہ خداوند میرے عیبوں پر پردہ ڈال دے اور میری تمام لغزشوں کو بخش دے۔

اے میرے مولا! میں نے آپ علیہ السلام کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا ہے، آپ علیہ السلام کا دامن تھاما ہے، آپ علیہ السلام کی ولایت سے رشتہ جوڑا ہے، آپ علیہ السلام سے محبت ہے، آپ علیہ السلام کے در پر کھڑا ہوں، آپ علیہ السلام کا ہوں، جیسا بھی ہوں، آپ علیہ السلام کے دشمنوں پر تبرا ہے، آپ علیہ السلام کے دشمنوں سے بیزار ہوں، ان سے نفرت ہے بس آپ میری سفارش کریں، میرے گناہوں کو ختم کروادیں۔

زائر منزل یقین پر

امام علیہ السلام کی خدمت میں اپنی درخواست پیش کرنے کے بعد زائر کو اس قدر یقین ہو جاتا ہے کہ میرے مولا میری سفارش ضرورکریں گے مجھے اپنے دروازہ سے خالی نہ پلٹائیں گے کیونکہ ان کے جدامجد کافرمان ہے کہ کوئی سوالی آپ علیہ السلام کے پاس آئے تواسے خالی نہ لوٹاو اور پھر میں تو ان کا چاہنے والا ہوں، ان کا دوست ہوں ،ان کے دشمنوں پر تبرا بھیجتا ہوں پس کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ مجھے اپنے در سے خالی پلٹاءدیں۔ اب زائر جب اس حالت میں آجاتا ہے تو پھر خداوند سے درخواست کرتا ہے اور درخواست کا انداز بھی یہ اختیار کرتا ہے کہ پہلے محمد وآل علیہ السلام محمد پر خداوند سے صلوات بھیجنے کی درخواست کرتا کیونکہ یہ وہ دعا ءیقینی قبول ہوتی ہے اس کے بعد خداوند سے اپنی درخواست کرتا ہے زائر کا انداز کچھ اس طرح ہے۔اے اللہ! محمد وآل علیہ السلام محمد پر صلوات بھیج دے اور اے اللہ اپنے ولی کے لئے جو وعدہ دیا ہے کہ تیری زمین پر ان کی حکومت ہوگی اے اللہ تو اس وعدہ کو پورا فرما دے۔

اے اللہ:ان کی کسی بات کو ظاہرکردے، ان کی دعوت بام عروج پر پہنچا دے۔

ان کا بیان ہی ہر جگہ نافذ ہو، ان کے اور اپنے دشمن کی نابودی کے واسطے ان کی مدد فرمادے، اے رب العالمین:اے اللہ :محمد وآل علیہ السلام محمد پہ صلوات بھیج دے اور اپنے مکمل کلمہ کا اظہار کردے۔

اللہ کا دین اللہ کا مکمل کلمہ ہے

۵۱ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاَظهر کَلِمَتَکَ التَّآمَةَ وَمُغَیَّبَکَ فِی ٓ اَر ضِکَالخَآئِفَ المُتَرَقِّبَاَللّٰهُمَّ ان صُرهنَصرًا عَزِی زًا وَّافتَح لَه فَت حًا یَّسِی رًااَللّٰهُمَّ وَاَعِزَّبِهِ الدِّینَ بَعد الخُمُو لِ وَاَطلِع بِهِ الحَقَّ بَعد الاُفُولِ وَاَجلِ بِهِ الظُّلمَةَ وَاکشِف بِهِ الغُمَّةَ للّٰهُمَّ وَاٰمِن بِهِ البِلاَ دَ وَاه دِبِهِ العِبَادَاَللّٰهُمَّ ام لَا بِهِ الاَرضَ عَدلاً وَّقِس طًا کَمَا مُلِءتظُل مًا وَّجَورًا اِنَّکَ سَمِیع مُّجِیب

اللہ کے مکمل کلمہ سے مراد، اللہ کے ولی کی ولایت کا اعلان ہے، کیونکہ اب تک زائر نے واضح الفاظ میں اللہ کے مکمل کلمہ کا اظہار نہیں کیا،اللہ کا مکمل کلمہ کیا ہے ؟تو اس کی واقعیت کیلئے واقعہ غدیر کو سامنے رکھنا ہوگا۔ غدیر خم میں علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان پر اللہ نے فرمایا کہ آج دین مکمل ہوگیا۔ کیونکہ اللہ کا دین ہی اللہ کا کلمہ ہے اور خدا نے علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان سے اپنی نعمتوں کے تمام ہونے کا اعلان بھی فرمادیا تھاکیونکہ اللہ کی نعمات بھی اللہ کا کلمہ ہے، دین اسلام کو پسندیدہ دین کی سندبھی علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان سے ملی ہو۔ لیکن اس اعلان کو غلبہ ابھی تک نہ مل سکا۔ بلکہ ولایت علی علیہ السلام جو کہ اللہ کا کلمہ تامہ ہے وہ ابھی تک رائج نہیں ہو سکا ” لا الہ الا اللّٰہ “ اللہ کا کلمہ ہے ”محمد رسول اللّٰہ“ اللہ کا کلمہ ہے ۔

لیکن یہ اللہ کا کلمہ تامہ نہیں ہے جب” علی ولی اللّٰہ“ کا ساتھ ملا تو کلمہ تامہ بنا ۔کیونکہ غدیر خم پر علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا:یہ کام کردو وگرنہ کار رسالت کو انجام ہی نہیں دیا (سورہ مائدہ)

پھر جب علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان ہوگیا اور اس کے ساتھ گیارہ اوصیاءکا اعلان بھی کیا گیا بارہویں کا خصوصی ذکر ہوا تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے مکمل ہونے اور نعمتوں کے پورا ہونے ، دین کے پسندیدہ ہونے ،کافروں کی مایوسی کا اعلان فرمادیا پس علی علیہ السلام کی ولایت ہی سے اللہ کا کلمہ مکمل ہوا علی علیہ السلام کی ولایت کا معنی نبوت ورسالت کے بعد امامت وخلافت وولایت کے سسٹم اورنظام کی بنیاد کا اعلان کرنا تھا امامت وولایت نبوت و رسالت کا تسلسل اور اسکی بقاءہے اور دین کا تحفظ بھی اسی نظام اور سسٹم میں ہے اسی لئے بارہویں کی امامت کے اقرار اور آپ کی ولایت کے تسلیم کرنے کے اعلان کو اللہ کا کلمہ تامہ کہا گیا ہے ۔

اب زائر دعا کر رہا ہے اے اللہ: اپنے کلمہ تامہ کا اظہار حضرت ولی العصر علیہ السلام کے ظہور سے فرما دے، ظاہر ہے اس سے بڑھ کر کوئی اور دعا نہیں ہو سکتی، اس کے بعد زائر کہتا ہے ۔

اے اللہ!محمد وآل علیہ السلام محمد پر صلوات بھیج، اے اللہ ! جسے تو نے غیبت میں رکھا ہوا ہے جو تیری زمین موجود ہے۔ خوف کی حالت میں ہے۔ انتظار کر رہا ہے، اسے ظاہر کردے، اے اللہ! اپنے ولی کی نصرت فرما! اےسی نصرت کہ اس میں شکست نہ ہوغلبہ ہی غلبہ ہو۔

اے اللہ! ان کے واسطے فتح کو آسان بنا دے۔

اے اللہ! اپنے ولی کے ذریعہ دین کے چراغ کے بجھ جانے کے بعد اسے عزت دے، غلبہ دے۔ دوبارہ اس کی روشنی لٹا دے، حق کے غروب ہو جانے کے بعد اپنے اس ولی کے ذریعہ حق کا دوبارہ طلوع فرما دے اور اپنے ولی کے ذریعہ تاریکی کو ہٹا دے، روشنی کو لے آ، اور اپنے ولی کے ذریعہ ہر غم ٹال دے، ساری مشکلات حل کردے، اے اللہ! اپنے ولی کے ذریعہ شہروں کو امن دے اور اپنے بندگان کو ان کے وسیلہ سے ہدایت فرما۔

اے اللہ! اپنے ولی کے ذریعہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے، جس طرح زمین ظلم وجور سے بھر چکی ہے۔

اے اللہ! تو ہی تو سمیع ہے ،جواب دینے والا اور دعا کوقبول کرنے والا ہے ۔

حرم امام میں داخلہ کی اجازت

۶۱ السلام عَلَیکَ یَاوَلِیَّ اللّٰهِ ا ذَن لِوَلِیِّکَ فِی الدُّخُولَ اِلٰی حَرَمَکَصَلَوٰتُ اللّٰهِ عَلَیکَ وَعَلٰیٓ اٰبَآئِکَ الطَّاهِرِینَ وَرَحمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُه

زائر حرم امام علیہ السلام میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے۔

اے میرے مولا! اے اللہ کے ولی! اپنے ولی کو، اپنے موالی کو، اپنے حرم میں داخل ہونے کی اجازت فرما دیجئے، اللہ کی صلوات آپ علیہ السلام پر ہو، اللہ کی صلوات آپ علیہ السلام کے آباءطاہرین پر ہو، اللہ کی رحمت اور اللہ کی برکات آپ علیہ السلام پر اور آپ علیہ السلام کے آباءطاہرین علیہ السلام پر ہوں۔

امام کی موجودگی کا یقین

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امام علیہ السلام کے گھر میں بغیر اجازت داخل نہیں ہونا اور زائر کا یہ انداز اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس کے امام وہ سب کچھ سن رہے ہیں اور یہ بھی سمجھتا ہے کہ اگرچہ وہ ابھی اپنے امام کو ظاہر بظاہر مشاہدہ نہیں کررہا اور اگر کبھی زیارت ہو بھی جاتی ہے تووہ اسی لمحہ امام کو پہچان نہیں سکتا، لہٰذا اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس نے اپنے امام کا دیدار کیا ہے لیکن یقین کی اس منزل پر ایک زائر اور مومن ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہوتا ہے اس سب پر اس کا ایمان ہوتا ہے اور ایسے انداز میں کہتا ہے کہ امام علیہ السلام اس کی ہربات سن رہے ہوتے ہیں ، یہ تو امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں سلام ہے، اہل خانہ کی حرمت میں عرائض پیش کئے جا رہے ہیں ۔

جو بقید حیات ہیں ، ظاہرہ زندگی سے بہرہ ور ہیں جب کہ ایک مومن اور زائر جب باقی آئمہ علیہ السلام کو مخاطب ہوتا ہے یا حضرت رسول خدا کی زیارت پڑھتا ہے تو بھی اس کا عقیدہ ایساہی ہوتا ہے کہ اس کے آئمہ علیہ السلام ، حضرت رسول اللہ، جناب سیدہ زہراء علیہ السلام اس کی ہر بات کو سن لیتے ہیں ، ہماری آواز اگرچہ ہم دور ہی کیوں نہ ہوں ان تک پہنچ جاتی ہے، وہ تو جواب بھی دیتے ہیں لیکن ہم ان کا جواب سن نہیں پاتے، یہ ہماری اپنی نالائقی اور مادی رکاوٹیں ہیں ، وگرنہ میرے آئمہ علیہ السلام تومیرے ٹھہرنے کی جگہ بھی دیکھتے ہیں میری بات اور میرے سلام کو، میری درخواست کو سنتے ہیں اور میرے سلام کا جواب بھی دیتے ہیں ۔

زیارت کا فلسفہ

بہرحال زیارات ہمیں آئمہ علیہ السلام سے مربوط کرنے کا بہترین وسیلہ ہیں ، اسی لئے ہم ہر نماز کے بعد زیارات پڑھتے ہیں تاکہ اپنے آئمہ علیہ السلام سے ہمارا رابطہ منقطع نہ ہو، نماز میں سلام کا حکم بھی اسی ہدف کے تحت ہے کہ جب ہر مسلمان اپنی ہر نماز کے بعد اپنے رسول پر اور ان کی آل علیہ السلام پر، اللہ کے فرشتوں پر اور بندگان صالحین پر، سلام بھیجتا ہے تو گویا خود کو ان سے مربوط کر لیتا ہے اور ان کی عدم موجودگی جو ہے وہ نماز ی کیلئے موجودگی میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اس طرح اس کے عمل میں تازگی آجاتی ہے اورنمازی احساس محرومیت سے نکل آتا ہے اور اسے یہ حسرت کی ضرورت نہیں رہتی کہ کاش! وہ رسول اللہ کے زمانہ میں ہونا.... شاید آج کے دور کے مومنین کے احساس محرومیت کو دور کرنے کے لئے رسول اللہ نے اپنے بعد آنے والے صاحبان ایمان کو بھائی کہہ کر پکارا ہے اور ان پر سلام بھیجا ہے اور رسول اللہ کا وہ سلام اب بھی سب ایمان والوں کے لئے ہے اور اس کی برکات سے ہم سب فیض یاب ہو رہے ہیں ۔

اور رسول اللہ کے بارہویں جانشین جو زندہ اور موجود امام ہیں وہ بھی تمام صاحبان ایمان کے واسطے دعا کرتے ہیں اگر آپ کی دعاءہم گناہگاروں کیلئے نہ ہوتی تو ہمارے لئے روئے زمین پر زندہ رہنا ہی ممکن نہ ہوتا۔

خدا وند سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سچا مومن، موالی بنائے اور حضرت ولی عصر علیہ السلام سے محبت کرنے والوں سے قرار دے۔(آمین)

زائر امام زمانہ علیہ السلام کے گھر میں

امام علیہ السلام کے گھر (سرداب) میں داخل ہونے کے آداب میں لکھا ہے کہ اوپر بیان شدہ زیارت پڑھ لینے کے بعد غیبت والے سرداب کے دروازہ پر پہنچ کر زائرکھڑا ہو جائے دروازے کی سائیڈ پر ہاتھ رکھے پھر کھنکھارے اور ایسا انداز بنائے جس طرح باہر سے کوئی اندار آنے کے لئے اپناتا ہے گویا اندر جانے کے لئے اجازت مانگ رہا ہے پھر زبان پر ”بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم“ جاری کرے اور سرداب میں اتر جائے پورے قلب کو حاضر کر کے نیچے جب پہنچ جائے تو خلوص دل سے ، خالص نیت سے ....خوشنودی رب واسطے، دورکعت نماز بجالائے نماز پڑھ لینے کے بعد جو کچھ پڑھنا ہے وہ کچھ اس طرح ہے ۔

خداوند کی نعمات و انعامات کا تذکرہ اور شکر بجالانا

۱ اَللّٰهُ اَکبَر،اَللّٰهُ اَکبَر،اَللّٰهُ اَکبَر،لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکبَر وَلِلّٰهِ الحَمدُ

اللہ کے سوا کوئی بھی لائق عبادت نہیں ۔اللہ ہی بزرگ وبرتر ہے وہ اس سے برتر ہے کہ اسکی وصف بیان کی جائے وہی سپر پاور ہے اور بس !!

پس وہی الہ ہے، وہی معبود ہے اور کسی کو معبود نہیں کہہ سکتے کیونکہ اللہ کے سوا کوئی اور عبادت کے لائق پہلے ہی نہیں ۔

عبادت کی شرائط

کسی کی عبادت واسطے جوشرائط ہیں وہ اللہ کے غیر میں موجود نہ ہیں ، سب محتاج ہیں ،جو محتاج ہوں اپنی قدرت میں ،اپنے حسن وجمال میں،اپنے علم وکمال میں ، اپنی حیات وممات میں ، اپنی صحت و بیماری میں، تو وہ کیسے عبادت کے لائق ہو سکتے ہیں جس طرح دیوار کو اندھا، نابینا کہنا درست نہ ہے کیونکہ اس میں بیناہونے کی صلاحیت ہی نہ ہے تو اسی طرح غیراللہ کو الہ (معبود) نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان میں الہ بننے کی شروع سے صلاحیت ہی نہیں ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ کے غیر کا رکوع کرنا اور سجدہ کرنا بھی درست نہ ہے کیونکہ رکوع بھی کسی کے سامنے عجز سے جھک جانا ہوتا ہے اور سجدہ اس جھکنے کی آخری منزل ہے تو انسان اس کے سامنے جھکے جو کسی کا محتاج نہ ہواور وہ فقط اللہ ہی ہے جو کسی کا محتاج نہ ہے اسی لئے زائر اپنے امام کے گھر میں پہنچ کر سب سے پہلے اللہ کی کبریائی کو اللہ اکبر کہہ کر بیان کرتا ہے کیونکہ کبریائی اسی کا خاصہ ہے اور پھر اللہ کی الوہیت کو ”لا الہ الا اللہ “ کہہ کر بیان کرتا ہے پھر کہتا ہے ”اللہ اکبر“ اس کے بعد” وللہ الحمد “کہہ کراس بات کا اظہار کرتا ہے کہ حمد اور تعریف کے لائق بھی اللہ ہی ہے کیونکہ اللہ کے علاوہ جس کی بھی تعریف کی جائے اور اس غیر اللہ کی جس خوبی کوبھی بیان کیا جائے تو وہ اس کی ذاتی نہ ہوگی وہ سب خوبیاں اس نے اللہ ہی سے لی ہیں یا اللہ کی بنائی ہوئی مخلوقات سے لی ہیں ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی پہلی سورئہ میں فرمادیا اورسب بندگان سے کہہ دیا اور ہر نمازی پر فرض قرار دے دیا کہ خدا کے حضور حاضری کے وقت اور ہرحال میں کہو۔

”الحمدللّٰه رب العالمین“

عالمین کا رب ایک ہی ہے اور وہ اللہ ہے، اللہ کے علاوہ جس کسی کو اللہ کی مخلوق میں سے کسی پر ربوبیت ملی تو وہ ذاتی نہیں اللہ سے لی ہوئی ہے اور وہ بھی مستقل نہیں بلکہ عارضی ہے اور اصلی نہیں بلکہ طفیلی ہے۔

پس اس جگہ بھی کبریائی کا اعلان کرنے کے بعد الوہیت کا اقرار کیا اور پھر دوبارہ کبریائی کا ذکر کرکے اللہ کی حمد بجالایاہے۔

حمد بجالانے کی وجہ

۲ الحَمدُ لِلّٰهِ الَّذِیهدَانَا لِهٰذَا وَعَرَّفَنَآ اَو لِیَآءه وَاَعدآءه وَوَفَّقَنَا لِزِیَارَةِ اَئِمَّتِنَا وَلَم یَجعَلنَا مِنَ المُعَانِدِینَ النَّاصِبِینَ وَلاَ مِنَ الغُلاَ ةِ المُفَوِّضِینَ وَلاَ مِنَ المُرتابِینَ المُقَصِّرِینَ

اس کے بعد زائر اپنے انداز میں واضح کرتا ہے کہ میں ”اللّٰہ اکبر، لاالہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر“ کہنے کے بعد ”للّٰہ الحمد“ کیوں کہاہے۔

تمام تعریف ،حمد!، اللہ کےلئے ہے ،اب اسی بات کی تشریح زائر ان الفاظ میں کرتا ہے اور اسی طرح اللہ کے اپنے اوپر انعامات کا ذکر کرتاہے جن انعامات پر اسے اپنے رب کا شکر بجالانا اور حمد کرنا لازم ہوجاتا ہے زائر کہتا ہے۔

اللہ کےلئے حمد ہے جس اللہ نے ہمارے لئے اس امر کی (یعنی مجھے یہاں تک آنے کی، اپنے ولی کے دروازہ پر پہنچنے کی) ہدایت فرمائی ہے ۔

اللہ نے ہمارے لئے اپنے اولیاءکی معرفت عطا کردی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے دشمنوں کی ہمیں پہچان کروادی ہے۔

اللہ نے ہمیں یہ توفیق دی ہے کہ ہم اپنے آئمہ علیہ السلام کی زیارت اور ملاقات کے لئے ان کے گھروں میں آئیں ،اللہ تعالیٰ نے ہمیں ناصبیوں سے قرار نہ دیا اور نہ ہی ہمیں معاند اور آئمہ علیہ السلام سے دشمنی رکھنے والا بنا۔

ناصبیوں ، غالیوں اور مفوضہ سے اعلان برائت

اللہ تعالیٰ نے ہمیں دشمنان ، ناصبوں اور غالیوں سے بھی نہیں بنایا کہ جو آئمہ کی صحیح معرفت نہیں رکھتے اور آئمہ علیہ السلام کی شان ایسے انداز میں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ سننے والا یہ سمجھے کہ یہ لوگ آئمہ علیہ السلام ہی کو اللہ سمجھتے ہیں یا پھر اللہ سے ہی بڑا سمجھتے ہیں ، ظاہر ہے ایسے لوگ نہ خدا کی معرفت رکھتے ہیں کیونکہ اگر خدا کی معرفت رکھتے ہوتے تو خدا کے نمائندگان کے بارے کوئی ایسی بات نہ کرتے جس سے خدا کی شان میں گستاخی ہوتی اور ایسے لوگ آئمہ علیہ السلام کی معرفت بھی نہیں رکھتے کیونکہ آئمہ تو اپنے اللہ کے حضور سجدہ ریز نظرآتے ہیں ، وہ تو اپنے مالک کے خالص بندگان ہیں اور اللہ کی مخلوق میں اللہ کے نمائندہ ہیں ۔

اے اللہ! تو نے ہمیں مفوضہ سے بھی نہیں بنایا جو اللہ اور اللہ کی مخلوق کے درمیان آئمہ کے واسطہ اور وسیلہ ہونے کا معنی ہی نہیں سمجھ سکے اور ایسے انداز میں اس بات کو کرگئے کہ گویا خداوند معطل ہوچکا ہے جیساکہ یہودیوں نے کہا تھا کہ اب اللہ کے ہاتھ تو بندھے ہوئے ہیں اس نے سب کچھ اپنے نمائندہ کے حوالہ کردیا ہے ۔

بہرحال بات حق وہ ہے جو ہمارے آئمہ علیہ السلام نے فرمائی ہے کہ ہم اللہ نہیں ہیں ، اللہ کے عبدہیں ،اللہ کے نمائندہ ہیں ،اللہ کی زمین پر اللہ کی حجت ہیں ، اللہ کی دھرتی پرہماراجو اختیار ہے وہ اللہ کا عطاء کردہ ہے اور ہم ہر آن اللہ کے محتاج ہیں ، اللہ کے سوا کسی اور کے محتاج نہ ہیں ،اللہ ہمارا محتاج نہیں ہے اورنہ ہی اللہ کو ہماری ضرورت ہے ہم اللہ کے محتاج ہیں اور ہمیں اللہ کی ضرورت ہے ۔ سب احسان ، منت اور فضل اللہ کا ہے کہ اس نے ہمیں اپنی معرفت کا وسیلہ بنایا ہے ہمیں اپنی مخلوق حجت قرار دیا ہے یہ سب اسی کا کرم ہے کہ اس نے ہماری اطاعت کو ساری مخلوقات پر فرض قرار دیا ہے ہماری محبت کو اپنے اوپر ایمان کی نشانی بنایا ہے ہم اللہ کی طرف سے اللہ کی مخلوق تک فیض رسانی کا واسطہ ہیں اورہمیں یہ صلاحیت بھی اللہ نے دی ہے، ہمارا جو کچھ ہے اللہ کی جانب سے ہے، وہ ہم سے چھین بھی سکتا ہے، غلوبھی نا درست ہے اور تفویض والی بات بھی نہیں ہے، ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں وہ دیتاہے، ہم وہی کرتے ہیں اور وہی کہتے ہیں جو اس ذات کی مشیت اورمرضی ہوتی ہے، ہمارا اپنا اختیار اس لئے نہیں کہ ہمارا اختیار اس کا اختیار ہے، اس نے ہمیں مجبو رنہیں بنایا لیکن ہم اس کی رضا کے بغیرنہ کچھ کرتے ہیں ،نہ کچھ کہتے ہیں اورجو سوچتے ہیں تو وہ بھی وہی ہوتا ہے جو مرضی رب ہوتاہے ۔

آئمہ اہل البیت ( علیہ م السلام ) ہم جیسے نہیں

اے اللہ تیری حمدہے کہ تو نے ہمیں غالی ، مقصر اور شک کرنیوالوں سے بھی نہیں بنایا، ہم وہ نہیں ہیں جو آئمہ اطہار علیہ السلام کو اور اللہ کے نمائندگان کو اپنے جیسا قرار دیتے ہیں ، انکی بشریٰ حقیقت کو ہم اس انداز سے ہر گز نہیں لیتے کہ وہ ہماری طرح سوچتے اور کرتے تھے اورنہ ہی انہیں اپنے جیسا قرار دیتے ہیں ، ان کا جسمانی پہلو ہم سے رابطہ کیلئے ہے اور نورانی پہلو اللہ تعالیٰ سے لیکر ہمیں دینے کیلئے ہے ،وہ کس طرح ہم جیسے ہوسکتے ہیں کہ وہ تو ہرحال میں مسجد میں داخل ہوسکتے ہیں جبکہ ہم حالت ِ جنب میں مسجد میں داخل نہیں ہوسکتے، وہ بیدار ہوتے ہی اللہ کا سجدہ کرتے ہیں ، ہر نجاست سے پاک ہوتے ہیں ، عام آدمی کی حالت سب پر واضح ہے ۔اسی قسم کی اور ظاہری خصوصیات جو سب کے سامنے ہیں ان میں وہ عام انسان کے حالات سے مختلف ہیں ۔

ولایت کی نعمت سب نعمتوں کی سردار نعمت ہے

اصل بات یہ ہے کہ جو حالت ہمیں جنت میں جاکر حاصل ہو گی انکے واسطے وہی حالت اس وقت اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی حاصل ہے اور اس پرتعجب کی بات بھی نہیں ہے بہرحال انکے فضائل میں شک کرنے والا خداوند نے ہمیں نہیں بنایا اورنہ ہی ان سے بنایاجو انکی شان کوکم کرتے ہیں ، اللہ نے ہمیںمقصرین سے نہیں بنایا ،یہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہے، اس انعام پر خدا کی حمد ہے، اس انعام پر جتنا شکر بجالایا جائے کم ہے ،یہی وہ نعمت ہے جس کے بارے قیامت کے دن سوال کیا جائے گاکہ اس نعمت کی قدرکیوں نہ کی ؟ نعمت ِولایت ہی سب نعمتوں پر بالادست اور سب کی سردار بلکہ یہ نعمت سب نعمتوں کو لانے کا سبب ہے جو اس نعمت کا منکر ہے اس کیلئے سوائے آتش جہنم کے اور کچھ نہ ہے۔

زائر ومومن موالی کا اپنے وقت کے امام پر سلام

اور آپ کے بارے چند تعریفی کلمات

۳ السلام عَلٰی وَلِیِّ اللّٰهِ وَابن اَو لِیَآئِه السلام عَلیَ المُدَّخَرِ لِکَرَامَةِ اَو لِیَآئِ اللّٰهِ وَبَوَارِ اَعدآئِه السلام عَلیَ النُّورِ الَّذِی ٓ اَرَادَ اَهل الکُفرِ اِطفَآءه ،فَاَبَی اللّٰهُ اِلاَّ ٓ اَن یُتِمَّ نُورَه بِکُفرِهِهِم وَاَیَّدَه بِالحَیٰوةِ حَتیّٰ یُظهِرَ عَلٰی یَدِهِ الحَقَّ بِرَغمِهِم

اللہ کے ولی پر سلام ہواور اللہ کے اولیاءکے فرزند پر سلام ہو، سلام ہو اس پر جسے اللہ نے اپنے اولیاءکی عزت و کرامت واسطے ذخیرہ کیا ہواہے اور اپنے دشمنوں کی بربادی اور ہلاکت کے واسطے اسے بچا کررکھا ہوا ہے، سلام ہے اس پر جو اللہ کا نور ہے، اللہ کا وہ نور جسے کفر والوں نے ختم کرنے کی کوشش کی اوریہ چاہاکہ اس کے وجو دکو ہی ختم کردیں اور اسکی زندگی کا چراغ گل کردیں لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ اپنا فیصلہ ہے کہ اس نے اپنی نمائندگی کی آخری کڑی اور اپنے اس نور کو ہر دشمن کے شر سے محفوظ رکھنا ہے او اپنے نور اور اپنی نمائندگی کو پورا کرناہے اگرچہ کا فر اسے ناپسند ہی کیوں نہ کریں، اللہ تعالیٰ نے اپنے اس آخری نمائندہ کو زندگی دے کراپنے دین کو استحکام بخشا اوران کی زندگی ہی میں خود ان کے ہاتھ پر حق کو ظاہر کرے گا اور اپنے دین کو مکمل غلبہ دے گا باوجودیکہ کا فر ایسانہ چاہیں گے ،یہ تو خداکا فیصلہ ہے اوراسے ضرور پورا ہونا ہے ۔

امام زمانہ (عج) کے عہدہ اور منصب ملنے کا وقت وعرصہ

۴ اَشهَدُ اَنَّ اللّٰهَ اصطَفٰیکَ صَغِیرًا وَّاکمَلَ لَکَ عُلُو مَه علیه السلام کَبِیرًا وَّاِنَّکَ حَیّ لاَّتمُوتُ حَتّٰیتبطِلَ الجِبتَ وَالطَّاغُوتَ

اس حصہ میں ایک بنیادی اصول کو بیان کیاگیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی نمائندگی کے واسطے عمر کی شرط نہ ہے ،اللہ نے جس کو اپنا نمائندہ بنایاہے تو اسے وہ سب کچھ بچپن میں ہی دے دیتاہے جس کی اسے اللہ کی مخلوق میں رہتے ہوئے ضرورت ہوتی ہے چنانچہ حضرت ولی العصر (عج) کیلئے بھی اسی قانون کی پاسداری کی گئی چنانچہ ایک مومن موالی اپنے اس عقیدہ کا اظہار اس طرح کرتا ہے ۔

٭میں یہ گواہی دیتاہوں اے میرے مولا ! کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچپن ہی سے چن لیا اور اس وقت بچپن ہی میں آپ کیلئے سارے علوم مکمل طور پر دے دیئے اور اپنے علوم کو تیرے لئے مخصوص کر دیا جن علوم کی ضرورت بڑے ہو کر آپ کیلئے تھی آپ بچپن سے ہی اللہ کا انتخاب ہیں اور آپ کی بزرگی میں اللہ کے کامل علوم موجود ہیں اوریہ کہ آپ اب تک زندہ ہیں ، آپ مرے نہیں ہیں یعنی جب سے آپ پیدا ہوئے اس وقت سے لیکر اب تک آپ اسی دنیا میں زندہ ہیں ، آپ کو موت نہیں آئے گی یہاں تک کہ آپ کفروطاغوت ،خدا کے مخالفین کو نابود کردیں گے ۔

اس بیان سے اس نظریہ کی نفی کی ہے جو یہ کہتا ہے کہ آپ پیداہوں گے اور اس خیال کی بھی نفی کردی ہے کہ آپ مرکر پھر واپس آئیںگے یا آپ کسی اور حالت میں چلے گئے ہیں اوراس ظاہری جسم و بدن کیساتھ نہیں ہیں بلکہ اعلان کیا ہے کہ آپ اس بدن وجسم کیساتھ زندہ و موجود ہیں ۔

مومن موالی اپنے امام علیہ السلام اور انکے متعلقین کے بارے اللہ سے دعابھی کرتاہے اور اس دعاءکے ضمن میں اپنی عقیدت کا اپنے امام علیہ السلام کے باریاعلان بھی کرتاہے

۵ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَیه وَعَلٰی خُدَّامِه وَاَعوَانِه عَلٰی غَیبَتِه وَنَایِه وَاستُره سَترًا عَزِیزًا وَّاجعَل لَّه علیه السلام مَع قِلاً حَرِیزًا وَّاشدُدِ اَللّٰهُمَّ وَطَاتکَ عَلٰی مُعَانِدِیه وَاحرُس مَوَالِیَه علیه السلام وَزَآئِرِیه

اے اللہ ! اس پر (اپنے ولی پر) صلوات ، انکے خادموں پر، انکے نوکروں پر ، انکے مددگاروں پر انکے معاونین پر ،جو آپ کی غیبت اور آپ کے عام لوگوں سے دور رہنے کے زمانہ میں آپ کے مددگار ہیں ، آپ کے نوکرہیں ، آپ کے ملازمین ہیں ،ان سب پر اے اللہ ،صلوات بھیج۔

امام زمانہ علیہ السلام کاسیکرٹریٹ

اس بیان میں اس دعاءکے ساتھ اس عقیدہ کا اظہار کیا گیا ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام غیبت کے زمانہ میں اکیلے نہیں ہیں بلکہ آپ کا باقاعدہ ایک سیکرٹریٹ ہے ،آپ کے خدام ہیں ، ملازمین ہیں ، اعوان وانصارہیں ، ایک پوری ٹیم ہے جو آپ کےساتھ پورے عالم کے کام انجام دینے میں صروف ہے۔

اللہ سے دعائیں

اے اللہ ! اس پر پردہ ڈالے رکھ کسی دشمن کوانکی خبر تک نہ ہو، ایک مضبوط پناہ گاہ میں انہیں رکھ ،کوئی بھی دشمن ان تک نہ جاسکے ۔

اے اللہ ! ........اپنے مخالفوں اور سرکش دشمنوں پر،انکے ذریعہ عذاب اتاردے اوریہ کہ ان کے ذریعہ اپنے دشمنوں پر مضبوط ہاتھ ڈال ۔

اے اللہ ! اپنے ولی (امام زمانہ علیہ السلام )کے موالیوں اورانکے زائرین کی حفاظت فرما۔

اس جملہ سے واضح ہوتاہے کہ پہلے جملے والی دعاءان کے بارے ہے جو زمانہ غیبت میں آپ کے ہمراہ رہتے ہیں اور اس جملہ میں آپ کے ان موالیوں اور چاہنے والوں اور زائرین کے بارے دعاءہے جو آپ تک نہیں پہنچ سکتے ۔

مومن موالی کی آرزو اور دعاءکے ضمن میں اپنے ارادوں کا اعلان

۶ اَللّٰهُمَّ کَمَا جَعَلت قَل بِی بِذِکرِه مَع مُو رًا،فَاجعَل سَلاَ حِی بِنُصرَتِه مَشهو رًا وَّاِن حَالبَینِی وَبَینَ لِقَآئِهِ المَوتُ الَّذِی جَعَلته علیه السلام عَلٰی عِبَادِکَ حَتمًا وَّاَقدَرت بِه عَلٰی خَلِیفَتِکَ رَغمًا فَابعَث نِی عِند خُرُو ِه،ظَاهِرًا مِّن حُفرَتِی مُوتزِرًا کَفَنِی حَتّٰیٓ اُجَاهِدَ بَینَ یَدِیه فِی الصَّفِّ الَّذِی ٓ اَثنَیت عَلٰیٓ اَهله فِی کِتَابِکَ فَقُلت،کَاَنَّهُم بُنیَان مَّرصُوص

اے اللہ ! جس طرح تو نے اپنے ولی کے ذکر سے میرے دل کو آباد کردیا ہے ،تو میرے اسلحہ کو بھی اس کی مدد کے واسطے مشہود وظاہر کردے اور اگر میرے اور انکے درمیان (امام زمانہ عج کے درمیان) وہ موت حائل ہوجائے جسے تونے اپنے بندگان پر حتمی قرار دے رکھا ہے اور اس کے ذریعہ اپنی مخلوق پر اپنی قدرت کا اظہار فرمایا ہے تو جب انکا خروج ہوجائے۔

تو اے اللہ ! مجھے میری قبر سے جس گڑھے میں میں دفن کیاجاونگا اس سے مجھے اٹھا دینا ،باہر نکال لانا ، میں اپنے کفن میں لپٹاہواہوں تاکہ میں بھی اس صف میں کھڑے ہوکر ان کے سامنے جہاد کر سکوں، جس صف والوں کی اے اللہ تو نے اپنی کتاب (قرآن) میں توصیف بیان کی ہے اور اے اللہ! تو نے انکے بارے فرمایاہے گویا کہ وہ ایک مضبوط و سیسہ پلائی ہوئی دیوارکی مانند ہیں ۔

غیبت طولانی ہونے پر غم ودرد کا اظہار

۷ اَللّٰهُمَّ طَالالاِنتظَارُ وَشَمِتَ مِنَّا الفُجَّارُ وَصَعُبَ عَلَینَا الاِنتصَارُ

اے اللہ انتظار لمبی ہوگئی، زمانہ بہت گزر گیا، دشمن ہمارے اوپر طعنہ زنی کرتے ہیں ،ہمارا مذاق اڑاتے ہیں ، فاجر اور کمینے لوگ ہماری توہین کرتے ہیں ، ہمارے عقیدہ کا مذاق اڑاتے ہیں اور اب ہمارے لئے نصرت طلب کرنے کا عمل مشکل اور سخت ہوگیاہے۔

ان جملوں میں درد ہے ،حقیقت کااظہار ہے کیونکہ جیسے جیسے زمانہ لمباہوتاجاتاہے ویسے ویسے لوگ اس نظریہ سے باغی ہوتے جارہے ہیں ، دشمنوں کی طرف سے پروپیگنڈہ کیاجاتاہے کہ یہ نظریہ ہی غلط ہے کسی کو اگر امام زمانہ (عج) کی نصرت کا کہتے ہیں تو وہ آگے سے ہنستا ہے، مذاق بناتاہے یہ حالت ایسی ہی سخت اور تکلیف دہ ہے جس طرح اس بات کااظہار کیاگیا ہے ۔

زندگی میںامام علیہ السلام کی زیارت اور ملاقات کی آرزو

۸ اَللّٰهُمَّ اَرِنَا وَجه وَلِیِّکَ المَیمُونَ فِی حَیَاتِنَا وَبَعد المَنُونِ

اے اللہ ! مجھے اپنے ولی کے بابرکت نورانی چہرے کا دیدار کروادے اورہمیں ہماری زندگی میں ہمیںاپنے ولی سے ملوا دے اورمرنے کے بعد بھی ہماری یہ ملاقات جاری رہے ۔

رجعت کا عقیدہ اور اپنے امام علیہ السلام سے گفتگو

۹ اَللّٰهُمَّ اِنِّی اَدِینُ لَکَ بِالرَّجعَةِ بَینَ یَدَی صَاحِبِ هٰذِهِ البُقعَةِالغَو ثَ الغَو ثَ،الغَو ثَ،یَا صَاحِبَ الزَّمَانِ، قَطَعتُ فِی وُصلَتِکَ الخُلاَّنَ وَهَجَرتُ لِزِیَارَتِکَ الاَو طَانَ وَاَخفَیتُ اَمرِی عَن اَهل البُلدَانِ لِتَکُونَ شَفِیعًا عِند رَبِّکَ وَرَبِّی وَاِلٰیٓ اٰبَآئِکَ وَمَوَالِیَّ فِی حُسنِ التَّو فِیقِ لِی وَاِسبَاغِ النِّعمَةِ عَلَیَّ وَسَوقِ الاِحسَانِ اِلَیَّ

اے اللہ ! میں اس بقعہ والے کے سامنے اورانکے گھر میں یہ اعلان کررہاہوں کہ میرا رجعت پر ایمان ہے ،فریاد ہے، فریاد ہے ،اے صاحب الزمان ۔

میں نے تیرے ساتھ اپنا تعلق جوڑنے کیلئے سارے دوستوں کو ، سارے احباب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اورمیں اپنے اوطان سے دورہ کا فاصلہ طے کرکے تیری طرف ہجرت کرآیاہوں، میں نے بہت سارے اپنے شہر والوں سے ،اپنے اس ارادہ کو پوشیدہ رکھا ہے، اس لئے تیری جناب میں حاضری دی ہے تاکہ آپ اپنے اور میرے رب کے پاس میری سفارش کریں اور اپنے آباءکے پاس بھی میرے لئے سفارش فرمائیں کہ وہ مجھ سے راضی رہیں کہ جو میرے سردارہیں ،میرے موالی بھی ہیں ،جن سے میں محبت کرتاہوں، میرے لئے یہ اچھی توفیق جو ہے برقرار رہے اور میرے اوپر اپنے موالیوں سے محبت کرنے کی نعمت باقی رہے اور میری جانب احسان اور بھلائی آتی رہے، مجھے خیر و برکت ملتی رہے ۔

اختتامی دعاء

۰۱ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ اَصحَابِ الحَقِّ وَقَادَةِ الخَلقِ وَاستجِب مِنِّی مَا دَعَوتکَ وَاَعطِنِی مَالَم اَنطِق بِه فِی دُعَآئِی مِن صَلاَحِ دِینِی وَدُنیَایَ اِنَّکَ حَمِید مَّجِید وَّصَلَّی اللّٰهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِهِ الطَّاهِرِینَ

اے اللہ ! محمدوآل علیہ السلام محمد پر صلوات بھیج وہ آل علیہ السلام محمد جو اصحاب حق ہیں ،مخلوق کے قائدین ہیں ، جو میں نے دعاءمانگی ہے اسے قبول کرلے اورجو میں نے نہیں بولا وہ بھی مجھے دے دے.... وہ دے جو میرے دین کیلئے بہتر ہو، میری دنیا کا اس میں فائدہ ہو، بے شک توں تو، حمید و مجید ہے اور محمد وآل علیہ السلام محمد پر صلوات ہو جوکہ طاہرین ہیں ۔


3

4

5

6

7

8

9

10