معرفت نامہ

معرفت نامہ 0%

معرفت نامہ مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

معرفت نامہ

مؤلف: مولانا سید افتخار نقوی
زمرہ جات:

مشاہدے: 13512
ڈاؤنلوڈ: 2286

تبصرے:

معرفت نامہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 25 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13512 / ڈاؤنلوڈ: 2286
سائز سائز سائز
معرفت نامہ

معرفت نامہ

مؤلف:
اردو

معرفت نامہ(ماخوز از زیارت امام زمانہ علیہ السلام )حصہ دوم

امام زمانہ علیہ السلام کے مبارک وجود کے فوائد

۱۱ اَشهَدُ اَنَّ بِوَلاَ یَتِکَتق بَلُ الاَعمَالوَتُزَکیَّ الاَف عَالوَتُضَاعَفُ الحَسَنَاتُ وَتُم حَی السَّیِّئٰاتُ فَمَن جَآء بِوِلَایَتِکَ وَاعترَفَ بِاِمَامَتِکَ قُبِلَت اَع مَالُه وَصُدِّقَت اَق وَالُه وَتَضَاعَفَت حَسَنَاته وَمُحِیَت سَیِّئٰاتُه وَمَن عَدَلَ عَن وِّلَایَتِکَ وَجَهِلَ مَع رِفَتَکَ وَاستَبدَلَ بِکَ غَیرَکَ کَبَّهُ اللّٰهُ عَلٰی مِن خَرِه فِی النَّارِ وَلَم یَقبَلِ اللّٰهُ لَه عَمَلاً وَّلَم یُقِم لَه یَومَ القِیٰمَةِ وَزنًا ۔

اے میرے مولا! میں گواہی دیتا ہوں کہ سارے اعمال آپ علیہ السلام کی ولایت سے قبول کئے جائیں گے،اور تمام کاموں کی نشوونما اور تزکیہ اور پاکیزگی بھی آپ علیہ السلام کی ولایت سے ہے ۔ تنگیاں آپ کے ولایت کی وجہ سے دور ہوجاتی ہیں اور گناہوں کو آپ ہی کی ولایت سے بالکل مٹا دیا جاتا ہے۔

اے میرے مولا! جو شخص آپ علیہ السلام کی ولایت کو لے کر آئے گا اور آپ کی امامت کا معترف ہوگا تو اس کے اعمال قبول ہوں گے، اس کی باتوں کی تصدیق کی جائے گی، اس کی نیکیاں چند برابر ہوجائیں گی، اس شخص کی خطاوں اور غلطیوں کو اس کے نامہ اعمال سے مٹا دیا جائے گا۔

اے میرے مولا! جو شخص آپ علیہ السلام کی ولایت سے پھر گیا اور آپ علیہ السلام کی معرفت سے جاہل رہا اور آپ علیہ السلام کی بجائے آپ کے غیر کو اختیار کرلیاتو اللہ تعالیٰ اسے اوندھے منہ آتش جہنم میں پھینک دے گا، اللہ تعالیٰ اس کا کوئی بھی عمل قبول نہ کرے گا اور قیامت کے دن ایسے شخص کے لئے اعمال کا جائزہ لینے کے لئے ترازو بھی نہیں لگایا جائے گا۔

ان جملوں میں امام زمانہ علیہ السلام کی ولایت اور امامت کو تسلیم کرنے کے فوائد بیان کئے گئے ہیں اور منکرین ولایت و امامت کو جو نقصان اٹھانا پڑے گا اس کا بیان ہے ۔

ولایت و امامت کے اقرار کے فوائد

۱ ۔ اعمال قبول ہوں گے۔

۲ ۔ نیکیاں چند برابر ہو جائیں گی۔

۳ ۔ گناہوں کو نہ فقط معاف کر دیا جائے گا بلکہ نامہ اعمال سے انہیں بالکل مٹا دیا جائے گا۔

۴ ۔ ایسے شخص کے اقوال کی تصدیق کی جائے گی ظاہرہے یہ تصدیق فرشتے کریں گے، یا پھر اللہ کے معصوم نمائندگان کریں گے کہ جو کچھ ان کا ماننے والا کہہ رہا ہے وہ صحیح ہے ۔

منکرین ولایت کا انجام

۱ ۔ اعمال قبول نہ ہوں گے۔

۲ ۔ نیکیاں اکارت جائیں گی۔

۳ ۔ گناہوں پر سزا ملے گی۔

۴ ۔ جہنم میں ڈالا جائے گا اور ذلت کے ساتھ اوندھے منہ پھینکا جائے گا۔

۵ ۔ ایسے اشخاص کے اعمال جتنے بھی ہوں ان کے بارے قیامت کے دن کوئی وزن نہ ہوگا۔

وہ سب نیک کام بے وزن، بے حیثیت، بے وقعت ہو جائیں گے۔

امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت اور ولایت قبول کرنے کا اعلان

اے میرے مولا! جو کچھ میں نے اوپر کہا ہے اس کے بارے میں اس مقام پر اللہ کو اپنے تمام اعترافات پر گواہ بناتا ہوں اللہ کے فرشتوں کو اس پر گواہ بناتا ہوں اور میرے مولا خود آپ علیہ السلام کو بھی اس پر گواہ بناتا ہوں جو میں نے کہا ہے جو میں نے زبان سے اقرار کیا ہے، اس سب کا ظاہر جس طرح ہے اسی طرح اس کا باطن بھی ہے جیسا اعلان کیا گیا ہے اسی طرح اس کی مخفیانہ حالت بھی ہے ۔

اور اے مولا! آپ علیہ السلام بھی اس پر گواہ اور شاہد ہیں ۔

میرے مولا! یہ میرا عہدوپیمان ہے جو میں آپ علیہ السلام کے سپرد کر رہاہوں ۔

ان سارے اعترافات کی وجہ

۲۱ اُشهِدُ اللَّهَ وَاُشهِدُ مَلَآئِکَتَه وَاُشهِدُکَ یَامو لاَیَ بِهٰذَا، ظَاهِرُه کَبَاطِنَه وَسِرُّه کَعَلاَ نِیَتِه وَاَنتَ الشَّاهِدُ عَلٰی ذٰلِکَ وَهُوَ عَهدِی ٓ اِلَیکَ وَمِی ثَاقِی لَدَیکَ،اِذ اَنتَ نِطَامُ الدِّینِ وَیَعسُو بُ المُتَّقِینَ وَعِزُّ المُوَحِّدِینَ وَ بِذٰلِکَ اَمَرَنِی رَبُّ العَالَمِینَ فَلَوتطَاوَلَتِ الدُّهُورُ وَتَمَادَتِ الاَعمَارُ لَم اَزدَد فِیکَ اِلاَّ یَقِینًا وَّلَکَ اِلاَّ حُبًّا وَّعَلَیکَ اِلاَّ مُتَّکَلاً وَّمُعتمَدًا وَّلِظُهُورِکَ اِلاَّ مُتَوَقِّعًا وَّمُنتَظِرًا وَّلِجَهَادِی بَینَ یَدَیکَ مُتَرَقِبًا فَابذُلُنَفسِی وَمَالِی وَوَلَدِی وَاَهلِی وَجَمِیعَ مَاخَوَّلَنِی رَبِّی بَینَ یَدَیکَ وَالتَّصَرُّفَ بَینَ اَمرِک وَنَهیِکَ

اے میرے مولا! میں ایسا اعلان کیوں نہ کروں میرے یہ سارے اعترافات کیوں نہ ہوں کیونکہ!

میں جو کچھ کہہ رہاہوں اس میں سب سے پہلے اللہ کو گواہ بنا تاہوں ، پھر اللہ کے فرشتوں کو اور خود آپ کو اے میرے مولا !اپنا گواہ بناکر یہ سارے اعترافات کررہاہوں ، اوریہ سب کچھ اس لئے تاکہ میرا ظاہر اور باطن ایک ہوجائے اور میرے دل کی بات ہی زبان پر ہو میرا اعلان اور میرا سب ایک ہوجائیں اور سب اس پر اے میرے مولا آپ ہی گواہ اوعر شاہد ہیں ، اور یہ میرا اے میرے مولا ! آپ کے ساتھ عہد وپیمان ہے کیونکہ !....

آپ علیہ السلام ہی تو نظام دین ہیں ، آپ علیہ السلام ہی تو شیعوں کے یعسوب و سردار ہیں ، آپ علیہ السلام ہی تو موحدین کی عزت ہیں ، پھر رب العالمین کا میرے لئے یہی حکم ہے، اگر زمانے لمبے ہوجائیں، عمریں بڑی ہو جائیں، تو یہ سب کچھ میرے لئے سوائے مزید یقین لانے کے اور کچھ نہ لائے گا اور آپ علیہ السلام کے بارے محبت میں اضافہ ہی ہوگا، کمی ذرا برابر نہ آئے گی، آپ علیہ السلام ہی پر میرا اعتماد اور بھروسہ بڑھے گا اور آپ علیہ السلام کے ظہور کی ہر آن توقع رہے گی اور میری انتظار اور آپ کے لئے آمادہ ہی آمادہ ہو گی اور میں تو آپ علیہ السلام کے سامنے جہاد کرنے کے لئے شدت سے انتظار ہی میں رہوں گا، میں اپنی جان، اپنا مال، اپنی اولاد، اپنے عیال اور جو بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے میرا کوئی عنوان ہے ، حیثیت ہے، تعلق ہے، سب کچھ کو آپ علیہ السلام کے حضور دے دوں گا، آپ علیہ السلام کے راہ میں قربان کردوں گا اور میں آپ علیہ السلام کے امر اور نہی کے درمیان ہی رہوں گا آپ علیہ السلام جو حکم دیں گے ویسے ہی کروں گا جس سے روک دیں گے میں اس سے رک جاوں گا۔

ایک مومن کی آرزو

۳۱ مَو لاَیَ فَاِن اَد رَکتُ اَیَّامَکَ الزَّاهِرَةَ وَاَعلاَمَکَ البَاهِرَةَ فَهَآ اَنَا ذَا عَبدکَ المُتَصَرِّفُ بَینَ اَم رِکَ وَنَه یِکَ اَر جُو بِهِ الشَّهَادَةَ بَینَ یَدَیکَ وَالفَوزَ لَدَیکَ مَو لاَیَ فَاِن اَدرَکنِی المَوتُ قَبلَ ظُهُو رِکَ فَاِنِّی ٓ اَتَوَسَلُ بِکَ وَبِٰابَآئِکَ الطَّاهِرِینَ،اِلَی اللّٰهِتعَالٰی وَاَسئلُه اَن یُّصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاَن یَّجعَل لِیکَرَّةً فِی ظُهُو رِکَ وَرَجعَةً فِی ٓ اَیَّامِکَ لِاَبلُغَ مِن طَاعَتِکَ مُرَادِی وَاَشفِیَ مِن اَعدَآئِکَ فُوئٰادِی

اے میرے مولا!اگر تو میںنے آپ علیہ السلام کے خوشحال دنوں کو پالیا اور آپ علیہ السلام کے روشن اور واضح پرچموں کی چھاوں میرے نصیب میں ہوئی تو یہی میری آرزو ہے، یہی مقصود و مراد ہے ، تو میں تیرا بندہ تیرے احکام کے تابع ہو کر رہوں گا اور جس سے آپ علیہ السلام روک دیں گے اس سے رک جاوں گااور اس طرح میں آپ کے حضور میں شہادت کی آرزو رکھتا ہوں اور آپ کے ہاں کامیابی حاصل کرنے کی امید لگائے بیٹھاہوں یعنی اگر میں زندہ ہوا اور آپ کے خوشحال دنوں کو پالیا، آپ کی حکومت میں میرا رہنا نصیب ہوگیا تو پھر میری آرزو یہی ہے جو اوپر بیان کی گئی اور اگر ایسا نہ ہوتو اس کے لئے اس طرح عرض گزار ہوں ۔

اے میرے مولا! اگر مجھے موت نے آپ علیہ السلام کے ظہور سے پہلے آلیا، تو پھر میں آپ کے ذریعہ متوسل ہوں، آپ علیہ السلام کو اپنا وسیلہ بناتا ہوں اور آپ علیہ السلام کے طاہر و اطہر آباءکو وسیلہ بناتا ہوں، اللہ کے حضور اور اللہ تعالیٰ سے پہلے تو میرا سوال یہ ہے کہ: وہ محمد وآل علیہ السلام محمد پر صلوات بھیجے اور اس کے بعد میرا سوال اللہ تعالیٰ سے یہ ہے کہ وہ مجھے آپ علیہ السلام کے ظہور کے زمانہ میں دوبارہ لے آئے اور آپ علیہ السلام کی خوشحالی کے دنوں میں میرے لئے دوبارہ آنا قرار دے تاکہ میں آپ کی اطاعت میں آ کر اپنی مراد کو پالوں اور تیرے دشمنوں سے انتقام لے کر سینہ میں لگی آگ کو بجھا لوں۔

زائر کی آرزو اوردرخواست

۴۱ مَو لاَیَ وَقَفتُ فِی زِیَارَتِکَ مَو قِفِ الخَاطِئِینَ ،النَّادِمِینَ، الخَآئِفِینَ مِن عِقَابِ رَبِّ العَالَمِینَ وَقَدِ اتَّکَلتُ عَلٰی شَفَاعَتِکَ وَرَجَوتُ بِمُوَالاَتکَ وَشَفَاعَتِکَ،مَح وَذُنُو بِی وَسَترَعُیُو بِی وَمَغفِرَةَ زَلَلِی ،فَکُن لِّوَلِیِّکَ یَامَو لاَیَ عِند تحقِیقِ اَمَلِه وَاسئلِ اللّٰهَ غُفرَانَ لَلِه فَقَدتعَلَّقَ بِحَب لِکَ وَتَمَسَّکَ بِوَلاَیَتِکَ وَتَبَرَّء مِن اَعدَآئِکَ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَاٰلِه وَاَنجِز لِوَلِیِّکَ مَا وَعَدته اَللَّهُمَّ اَظهر کَلِمَتَه وَاَعلِ دَعوَتَه وَان صُرهُ عَلٰی عَدُوِّه وَعَدُوِّکَ یَارَبَّ العَالَمِینَ

یہ زیارت کیونکہ امام زمانہ علیہ السلام کے گھر کے دروازہ پرسامرہ میں پڑھی جاتی ہے اور اس زیارت کو پڑھ کر زائر آپ کے گھر (سرداب) میں (سامرہ عراق) داخل ہوتا ہے، تو سابقہ بیانات کے بعد زائر،ان الفاظ کو اداکرتا ہے، جس میں زائر اپنی خطاوں کو یاد کرتا ہے، اپنی کمزوریوں کا ذکر کرتا ہے گناہوں کی معافی مانگتا ہے اپنی دوسری حاجات پیش کرتاہے، زائر کی درخواست کچھ اس طرح سے ہے۔

اے میرے مولا! میں آپ علیہ السلام کی زیارت کے لئے ٹھہرا ہوں، جس طرح خطا کار اور مجرم آٹھہرتے ہیں ، میں بھی ایک مجرم ہوں، پشیمان ہوں، رب العالمین کی جانب سے سزا ملنے کا مجھے خوف لاحق ہے، میرے مولا! میں نے تو آپ علیہ السلام کی سفارش پر امید باندھ رکھی ہے، آپ علیہ السلام کو سفارشی بنانے آیا ہوں، آپ علیہ السلام سے جو میری محبت ہے، میں آپ کا موالی ہوں، میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ علیہ السلام میرے گناہوں کو ختم کرانے میں اللہ رب العالمین کے ہاں میری سفارش کردیں اور یہ کہ خداوند میرے عیبوں پر پردہ ڈال دے اور میری تمام لغزشوں کو بخش دے۔

اے میرے مولا! میں نے آپ علیہ السلام کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا ہے، آپ علیہ السلام کا دامن تھاما ہے، آپ علیہ السلام کی ولایت سے رشتہ جوڑا ہے، آپ علیہ السلام سے محبت ہے، آپ علیہ السلام کے در پر کھڑا ہوں، آپ علیہ السلام کا ہوں، جیسا بھی ہوں، آپ علیہ السلام کے دشمنوں پر تبرا ہے، آپ علیہ السلام کے دشمنوں سے بیزار ہوں، ان سے نفرت ہے بس آپ میری سفارش کریں، میرے گناہوں کو ختم کروادیں۔

زائر منزل یقین پر

امام علیہ السلام کی خدمت میں اپنی درخواست پیش کرنے کے بعد زائر کو اس قدر یقین ہو جاتا ہے کہ میرے مولا میری سفارش ضرورکریں گے مجھے اپنے دروازہ سے خالی نہ پلٹائیں گے کیونکہ ان کے جدامجد کافرمان ہے کہ کوئی سوالی آپ علیہ السلام کے پاس آئے تواسے خالی نہ لوٹاو اور پھر میں تو ان کا چاہنے والا ہوں، ان کا دوست ہوں ،ان کے دشمنوں پر تبرا بھیجتا ہوں پس کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ مجھے اپنے در سے خالی پلٹاءدیں۔ اب زائر جب اس حالت میں آجاتا ہے تو پھر خداوند سے درخواست کرتا ہے اور درخواست کا انداز بھی یہ اختیار کرتا ہے کہ پہلے محمد وآل علیہ السلام محمد پر خداوند سے صلوات بھیجنے کی درخواست کرتا کیونکہ یہ وہ دعا ءیقینی قبول ہوتی ہے اس کے بعد خداوند سے اپنی درخواست کرتا ہے زائر کا انداز کچھ اس طرح ہے۔اے اللہ! محمد وآل علیہ السلام محمد پر صلوات بھیج دے اور اے اللہ اپنے ولی کے لئے جو وعدہ دیا ہے کہ تیری زمین پر ان کی حکومت ہوگی اے اللہ تو اس وعدہ کو پورا فرما دے۔

اے اللہ:ان کی کسی بات کو ظاہرکردے، ان کی دعوت بام عروج پر پہنچا دے۔

ان کا بیان ہی ہر جگہ نافذ ہو، ان کے اور اپنے دشمن کی نابودی کے واسطے ان کی مدد فرمادے، اے رب العالمین:اے اللہ :محمد وآل علیہ السلام محمد پہ صلوات بھیج دے اور اپنے مکمل کلمہ کا اظہار کردے۔

اللہ کا دین اللہ کا مکمل کلمہ ہے

۵۱ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاَظهر کَلِمَتَکَ التَّآمَةَ وَمُغَیَّبَکَ فِی ٓ اَر ضِکَالخَآئِفَ المُتَرَقِّبَاَللّٰهُمَّ ان صُرهنَصرًا عَزِی زًا وَّافتَح لَه فَت حًا یَّسِی رًااَللّٰهُمَّ وَاَعِزَّبِهِ الدِّینَ بَعد الخُمُو لِ وَاَطلِع بِهِ الحَقَّ بَعد الاُفُولِ وَاَجلِ بِهِ الظُّلمَةَ وَاکشِف بِهِ الغُمَّةَ للّٰهُمَّ وَاٰمِن بِهِ البِلاَ دَ وَاه دِبِهِ العِبَادَاَللّٰهُمَّ ام لَا بِهِ الاَرضَ عَدلاً وَّقِس طًا کَمَا مُلِءتظُل مًا وَّجَورًا اِنَّکَ سَمِیع مُّجِیب

اللہ کے مکمل کلمہ سے مراد، اللہ کے ولی کی ولایت کا اعلان ہے، کیونکہ اب تک زائر نے واضح الفاظ میں اللہ کے مکمل کلمہ کا اظہار نہیں کیا،اللہ کا مکمل کلمہ کیا ہے ؟تو اس کی واقعیت کیلئے واقعہ غدیر کو سامنے رکھنا ہوگا۔ غدیر خم میں علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان پر اللہ نے فرمایا کہ آج دین مکمل ہوگیا۔ کیونکہ اللہ کا دین ہی اللہ کا کلمہ ہے اور خدا نے علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان سے اپنی نعمتوں کے تمام ہونے کا اعلان بھی فرمادیا تھاکیونکہ اللہ کی نعمات بھی اللہ کا کلمہ ہے، دین اسلام کو پسندیدہ دین کی سندبھی علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان سے ملی ہو۔ لیکن اس اعلان کو غلبہ ابھی تک نہ مل سکا۔ بلکہ ولایت علی علیہ السلام جو کہ اللہ کا کلمہ تامہ ہے وہ ابھی تک رائج نہیں ہو سکا ” لا الہ الا اللّٰہ “ اللہ کا کلمہ ہے ”محمد رسول اللّٰہ“ اللہ کا کلمہ ہے ۔

لیکن یہ اللہ کا کلمہ تامہ نہیں ہے جب” علی ولی اللّٰہ“ کا ساتھ ملا تو کلمہ تامہ بنا ۔کیونکہ غدیر خم پر علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا:یہ کام کردو وگرنہ کار رسالت کو انجام ہی نہیں دیا (سورہ مائدہ)

پھر جب علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان ہوگیا اور اس کے ساتھ گیارہ اوصیاءکا اعلان بھی کیا گیا بارہویں کا خصوصی ذکر ہوا تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے مکمل ہونے اور نعمتوں کے پورا ہونے ، دین کے پسندیدہ ہونے ،کافروں کی مایوسی کا اعلان فرمادیا پس علی علیہ السلام کی ولایت ہی سے اللہ کا کلمہ مکمل ہوا علی علیہ السلام کی ولایت کا معنی نبوت ورسالت کے بعد امامت وخلافت وولایت کے سسٹم اورنظام کی بنیاد کا اعلان کرنا تھا امامت وولایت نبوت و رسالت کا تسلسل اور اسکی بقاءہے اور دین کا تحفظ بھی اسی نظام اور سسٹم میں ہے اسی لئے بارہویں کی امامت کے اقرار اور آپ کی ولایت کے تسلیم کرنے کے اعلان کو اللہ کا کلمہ تامہ کہا گیا ہے ۔

اب زائر دعا کر رہا ہے اے اللہ: اپنے کلمہ تامہ کا اظہار حضرت ولی العصر علیہ السلام کے ظہور سے فرما دے، ظاہر ہے اس سے بڑھ کر کوئی اور دعا نہیں ہو سکتی، اس کے بعد زائر کہتا ہے ۔

اے اللہ!محمد وآل علیہ السلام محمد پر صلوات بھیج، اے اللہ ! جسے تو نے غیبت میں رکھا ہوا ہے جو تیری زمین موجود ہے۔ خوف کی حالت میں ہے۔ انتظار کر رہا ہے، اسے ظاہر کردے، اے اللہ! اپنے ولی کی نصرت فرما! اےسی نصرت کہ اس میں شکست نہ ہوغلبہ ہی غلبہ ہو۔

اے اللہ! ان کے واسطے فتح کو آسان بنا دے۔

اے اللہ! اپنے ولی کے ذریعہ دین کے چراغ کے بجھ جانے کے بعد اسے عزت دے، غلبہ دے۔ دوبارہ اس کی روشنی لٹا دے، حق کے غروب ہو جانے کے بعد اپنے اس ولی کے ذریعہ حق کا دوبارہ طلوع فرما دے اور اپنے ولی کے ذریعہ تاریکی کو ہٹا دے، روشنی کو لے آ، اور اپنے ولی کے ذریعہ ہر غم ٹال دے، ساری مشکلات حل کردے، اے اللہ! اپنے ولی کے ذریعہ شہروں کو امن دے اور اپنے بندگان کو ان کے وسیلہ سے ہدایت فرما۔

اے اللہ! اپنے ولی کے ذریعہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے، جس طرح زمین ظلم وجور سے بھر چکی ہے۔

اے اللہ! تو ہی تو سمیع ہے ،جواب دینے والا اور دعا کوقبول کرنے والا ہے ۔

حرم امام میں داخلہ کی اجازت

۶۱ السلام عَلَیکَ یَاوَلِیَّ اللّٰهِ ا ذَن لِوَلِیِّکَ فِی الدُّخُولَ اِلٰی حَرَمَکَصَلَوٰتُ اللّٰهِ عَلَیکَ وَعَلٰیٓ اٰبَآئِکَ الطَّاهِرِینَ وَرَحمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُه

زائر حرم امام علیہ السلام میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے۔

اے میرے مولا! اے اللہ کے ولی! اپنے ولی کو، اپنے موالی کو، اپنے حرم میں داخل ہونے کی اجازت فرما دیجئے، اللہ کی صلوات آپ علیہ السلام پر ہو، اللہ کی صلوات آپ علیہ السلام کے آباءطاہرین پر ہو، اللہ کی رحمت اور اللہ کی برکات آپ علیہ السلام پر اور آپ علیہ السلام کے آباءطاہرین علیہ السلام پر ہوں۔

امام کی موجودگی کا یقین

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امام علیہ السلام کے گھر میں بغیر اجازت داخل نہیں ہونا اور زائر کا یہ انداز اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس کے امام وہ سب کچھ سن رہے ہیں اور یہ بھی سمجھتا ہے کہ اگرچہ وہ ابھی اپنے امام کو ظاہر بظاہر مشاہدہ نہیں کررہا اور اگر کبھی زیارت ہو بھی جاتی ہے تووہ اسی لمحہ امام کو پہچان نہیں سکتا، لہٰذا اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس نے اپنے امام کا دیدار کیا ہے لیکن یقین کی اس منزل پر ایک زائر اور مومن ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہوتا ہے اس سب پر اس کا ایمان ہوتا ہے اور ایسے انداز میں کہتا ہے کہ امام علیہ السلام اس کی ہربات سن رہے ہوتے ہیں ، یہ تو امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں سلام ہے، اہل خانہ کی حرمت میں عرائض پیش کئے جا رہے ہیں ۔

جو بقید حیات ہیں ، ظاہرہ زندگی سے بہرہ ور ہیں جب کہ ایک مومن اور زائر جب باقی آئمہ علیہ السلام کو مخاطب ہوتا ہے یا حضرت رسول خدا کی زیارت پڑھتا ہے تو بھی اس کا عقیدہ ایساہی ہوتا ہے کہ اس کے آئمہ علیہ السلام ، حضرت رسول اللہ، جناب سیدہ زہراء علیہ السلام اس کی ہر بات کو سن لیتے ہیں ، ہماری آواز اگرچہ ہم دور ہی کیوں نہ ہوں ان تک پہنچ جاتی ہے، وہ تو جواب بھی دیتے ہیں لیکن ہم ان کا جواب سن نہیں پاتے، یہ ہماری اپنی نالائقی اور مادی رکاوٹیں ہیں ، وگرنہ میرے آئمہ علیہ السلام تومیرے ٹھہرنے کی جگہ بھی دیکھتے ہیں میری بات اور میرے سلام کو، میری درخواست کو سنتے ہیں اور میرے سلام کا جواب بھی دیتے ہیں ۔

زیارت کا فلسفہ

بہرحال زیارات ہمیں آئمہ علیہ السلام سے مربوط کرنے کا بہترین وسیلہ ہیں ، اسی لئے ہم ہر نماز کے بعد زیارات پڑھتے ہیں تاکہ اپنے آئمہ علیہ السلام سے ہمارا رابطہ منقطع نہ ہو، نماز میں سلام کا حکم بھی اسی ہدف کے تحت ہے کہ جب ہر مسلمان اپنی ہر نماز کے بعد اپنے رسول پر اور ان کی آل علیہ السلام پر، اللہ کے فرشتوں پر اور بندگان صالحین پر، سلام بھیجتا ہے تو گویا خود کو ان سے مربوط کر لیتا ہے اور ان کی عدم موجودگی جو ہے وہ نماز ی کیلئے موجودگی میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اس طرح اس کے عمل میں تازگی آجاتی ہے اورنمازی احساس محرومیت سے نکل آتا ہے اور اسے یہ حسرت کی ضرورت نہیں رہتی کہ کاش! وہ رسول اللہ کے زمانہ میں ہونا.... شاید آج کے دور کے مومنین کے احساس محرومیت کو دور کرنے کے لئے رسول اللہ نے اپنے بعد آنے والے صاحبان ایمان کو بھائی کہہ کر پکارا ہے اور ان پر سلام بھیجا ہے اور رسول اللہ کا وہ سلام اب بھی سب ایمان والوں کے لئے ہے اور اس کی برکات سے ہم سب فیض یاب ہو رہے ہیں ۔

اور رسول اللہ کے بارہویں جانشین جو زندہ اور موجود امام ہیں وہ بھی تمام صاحبان ایمان کے واسطے دعا کرتے ہیں اگر آپ کی دعاءہم گناہگاروں کیلئے نہ ہوتی تو ہمارے لئے روئے زمین پر زندہ رہنا ہی ممکن نہ ہوتا۔

خدا وند سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سچا مومن، موالی بنائے اور حضرت ولی عصر علیہ السلام سے محبت کرنے والوں سے قرار دے۔(آمین)

زائر امام زمانہ علیہ السلام کے گھر میں

امام علیہ السلام کے گھر (سرداب) میں داخل ہونے کے آداب میں لکھا ہے کہ اوپر بیان شدہ زیارت پڑھ لینے کے بعد غیبت والے سرداب کے دروازہ پر پہنچ کر زائرکھڑا ہو جائے دروازے کی سائیڈ پر ہاتھ رکھے پھر کھنکھارے اور ایسا انداز بنائے جس طرح باہر سے کوئی اندار آنے کے لئے اپناتا ہے گویا اندر جانے کے لئے اجازت مانگ رہا ہے پھر زبان پر ”بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم“ جاری کرے اور سرداب میں اتر جائے پورے قلب کو حاضر کر کے نیچے جب پہنچ جائے تو خلوص دل سے ، خالص نیت سے ....خوشنودی رب واسطے، دورکعت نماز بجالائے نماز پڑھ لینے کے بعد جو کچھ پڑھنا ہے وہ کچھ اس طرح ہے ۔

خداوند کی نعمات و انعامات کا تذکرہ اور شکر بجالانا

۱ اَللّٰهُ اَکبَر،اَللّٰهُ اَکبَر،اَللّٰهُ اَکبَر،لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَکبَر وَلِلّٰهِ الحَمدُ

اللہ کے سوا کوئی بھی لائق عبادت نہیں ۔اللہ ہی بزرگ وبرتر ہے وہ اس سے برتر ہے کہ اسکی وصف بیان کی جائے وہی سپر پاور ہے اور بس !!

پس وہی الہ ہے، وہی معبود ہے اور کسی کو معبود نہیں کہہ سکتے کیونکہ اللہ کے سوا کوئی اور عبادت کے لائق پہلے ہی نہیں ۔

عبادت کی شرائط

کسی کی عبادت واسطے جوشرائط ہیں وہ اللہ کے غیر میں موجود نہ ہیں ، سب محتاج ہیں ،جو محتاج ہوں اپنی قدرت میں ،اپنے حسن وجمال میں،اپنے علم وکمال میں ، اپنی حیات وممات میں ، اپنی صحت و بیماری میں، تو وہ کیسے عبادت کے لائق ہو سکتے ہیں جس طرح دیوار کو اندھا، نابینا کہنا درست نہ ہے کیونکہ اس میں بیناہونے کی صلاحیت ہی نہ ہے تو اسی طرح غیراللہ کو الہ (معبود) نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان میں الہ بننے کی شروع سے صلاحیت ہی نہیں ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ کے غیر کا رکوع کرنا اور سجدہ کرنا بھی درست نہ ہے کیونکہ رکوع بھی کسی کے سامنے عجز سے جھک جانا ہوتا ہے اور سجدہ اس جھکنے کی آخری منزل ہے تو انسان اس کے سامنے جھکے جو کسی کا محتاج نہ ہواور وہ فقط اللہ ہی ہے جو کسی کا محتاج نہ ہے اسی لئے زائر اپنے امام کے گھر میں پہنچ کر سب سے پہلے اللہ کی کبریائی کو اللہ اکبر کہہ کر بیان کرتا ہے کیونکہ کبریائی اسی کا خاصہ ہے اور پھر اللہ کی الوہیت کو ”لا الہ الا اللہ “ کہہ کر بیان کرتا ہے پھر کہتا ہے ”اللہ اکبر“ اس کے بعد” وللہ الحمد “کہہ کراس بات کا اظہار کرتا ہے کہ حمد اور تعریف کے لائق بھی اللہ ہی ہے کیونکہ اللہ کے علاوہ جس کی بھی تعریف کی جائے اور اس غیر اللہ کی جس خوبی کوبھی بیان کیا جائے تو وہ اس کی ذاتی نہ ہوگی وہ سب خوبیاں اس نے اللہ ہی سے لی ہیں یا اللہ کی بنائی ہوئی مخلوقات سے لی ہیں ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی پہلی سورئہ میں فرمادیا اورسب بندگان سے کہہ دیا اور ہر نمازی پر فرض قرار دے دیا کہ خدا کے حضور حاضری کے وقت اور ہرحال میں کہو۔

”الحمدللّٰه رب العالمین“

عالمین کا رب ایک ہی ہے اور وہ اللہ ہے، اللہ کے علاوہ جس کسی کو اللہ کی مخلوق میں سے کسی پر ربوبیت ملی تو وہ ذاتی نہیں اللہ سے لی ہوئی ہے اور وہ بھی مستقل نہیں بلکہ عارضی ہے اور اصلی نہیں بلکہ طفیلی ہے۔

پس اس جگہ بھی کبریائی کا اعلان کرنے کے بعد الوہیت کا اقرار کیا اور پھر دوبارہ کبریائی کا ذکر کرکے اللہ کی حمد بجالایاہے۔

حمد بجالانے کی وجہ

۲ الحَمدُ لِلّٰهِ الَّذِیهدَانَا لِهٰذَا وَعَرَّفَنَآ اَو لِیَآءه وَاَعدآءه وَوَفَّقَنَا لِزِیَارَةِ اَئِمَّتِنَا وَلَم یَجعَلنَا مِنَ المُعَانِدِینَ النَّاصِبِینَ وَلاَ مِنَ الغُلاَ ةِ المُفَوِّضِینَ وَلاَ مِنَ المُرتابِینَ المُقَصِّرِینَ

اس کے بعد زائر اپنے انداز میں واضح کرتا ہے کہ میں ”اللّٰہ اکبر، لاالہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر“ کہنے کے بعد ”للّٰہ الحمد“ کیوں کہاہے۔

تمام تعریف ،حمد!، اللہ کےلئے ہے ،اب اسی بات کی تشریح زائر ان الفاظ میں کرتا ہے اور اسی طرح اللہ کے اپنے اوپر انعامات کا ذکر کرتاہے جن انعامات پر اسے اپنے رب کا شکر بجالانا اور حمد کرنا لازم ہوجاتا ہے زائر کہتا ہے۔

اللہ کےلئے حمد ہے جس اللہ نے ہمارے لئے اس امر کی (یعنی مجھے یہاں تک آنے کی، اپنے ولی کے دروازہ پر پہنچنے کی) ہدایت فرمائی ہے ۔

اللہ نے ہمارے لئے اپنے اولیاءکی معرفت عطا کردی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے دشمنوں کی ہمیں پہچان کروادی ہے۔

اللہ نے ہمیں یہ توفیق دی ہے کہ ہم اپنے آئمہ علیہ السلام کی زیارت اور ملاقات کے لئے ان کے گھروں میں آئیں ،اللہ تعالیٰ نے ہمیں ناصبیوں سے قرار نہ دیا اور نہ ہی ہمیں معاند اور آئمہ علیہ السلام سے دشمنی رکھنے والا بنا۔

ناصبیوں ، غالیوں اور مفوضہ سے اعلان برائت

اللہ تعالیٰ نے ہمیں دشمنان ، ناصبوں اور غالیوں سے بھی نہیں بنایا کہ جو آئمہ کی صحیح معرفت نہیں رکھتے اور آئمہ علیہ السلام کی شان ایسے انداز میں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ سننے والا یہ سمجھے کہ یہ لوگ آئمہ علیہ السلام ہی کو اللہ سمجھتے ہیں یا پھر اللہ سے ہی بڑا سمجھتے ہیں ، ظاہر ہے ایسے لوگ نہ خدا کی معرفت رکھتے ہیں کیونکہ اگر خدا کی معرفت رکھتے ہوتے تو خدا کے نمائندگان کے بارے کوئی ایسی بات نہ کرتے جس سے خدا کی شان میں گستاخی ہوتی اور ایسے لوگ آئمہ علیہ السلام کی معرفت بھی نہیں رکھتے کیونکہ آئمہ تو اپنے اللہ کے حضور سجدہ ریز نظرآتے ہیں ، وہ تو اپنے مالک کے خالص بندگان ہیں اور اللہ کی مخلوق میں اللہ کے نمائندہ ہیں ۔

اے اللہ! تو نے ہمیں مفوضہ سے بھی نہیں بنایا جو اللہ اور اللہ کی مخلوق کے درمیان آئمہ کے واسطہ اور وسیلہ ہونے کا معنی ہی نہیں سمجھ سکے اور ایسے انداز میں اس بات کو کرگئے کہ گویا خداوند معطل ہوچکا ہے جیساکہ یہودیوں نے کہا تھا کہ اب اللہ کے ہاتھ تو بندھے ہوئے ہیں اس نے سب کچھ اپنے نمائندہ کے حوالہ کردیا ہے ۔

بہرحال بات حق وہ ہے جو ہمارے آئمہ علیہ السلام نے فرمائی ہے کہ ہم اللہ نہیں ہیں ، اللہ کے عبدہیں ،اللہ کے نمائندہ ہیں ،اللہ کی زمین پر اللہ کی حجت ہیں ، اللہ کی دھرتی پرہماراجو اختیار ہے وہ اللہ کا عطاء کردہ ہے اور ہم ہر آن اللہ کے محتاج ہیں ، اللہ کے سوا کسی اور کے محتاج نہ ہیں ،اللہ ہمارا محتاج نہیں ہے اورنہ ہی اللہ کو ہماری ضرورت ہے ہم اللہ کے محتاج ہیں اور ہمیں اللہ کی ضرورت ہے ۔ سب احسان ، منت اور فضل اللہ کا ہے کہ اس نے ہمیں اپنی معرفت کا وسیلہ بنایا ہے ہمیں اپنی مخلوق حجت قرار دیا ہے یہ سب اسی کا کرم ہے کہ اس نے ہماری اطاعت کو ساری مخلوقات پر فرض قرار دیا ہے ہماری محبت کو اپنے اوپر ایمان کی نشانی بنایا ہے ہم اللہ کی طرف سے اللہ کی مخلوق تک فیض رسانی کا واسطہ ہیں اورہمیں یہ صلاحیت بھی اللہ نے دی ہے، ہمارا جو کچھ ہے اللہ کی جانب سے ہے، وہ ہم سے چھین بھی سکتا ہے، غلوبھی نا درست ہے اور تفویض والی بات بھی نہیں ہے، ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں وہ دیتاہے، ہم وہی کرتے ہیں اور وہی کہتے ہیں جو اس ذات کی مشیت اورمرضی ہوتی ہے، ہمارا اپنا اختیار اس لئے نہیں کہ ہمارا اختیار اس کا اختیار ہے، اس نے ہمیں مجبو رنہیں بنایا لیکن ہم اس کی رضا کے بغیرنہ کچھ کرتے ہیں ،نہ کچھ کہتے ہیں اورجو سوچتے ہیں تو وہ بھی وہی ہوتا ہے جو مرضی رب ہوتاہے ۔

آئمہ اہل البیت ( علیہ م السلام ) ہم جیسے نہیں

اے اللہ تیری حمدہے کہ تو نے ہمیں غالی ، مقصر اور شک کرنیوالوں سے بھی نہیں بنایا، ہم وہ نہیں ہیں جو آئمہ اطہار علیہ السلام کو اور اللہ کے نمائندگان کو اپنے جیسا قرار دیتے ہیں ، انکی بشریٰ حقیقت کو ہم اس انداز سے ہر گز نہیں لیتے کہ وہ ہماری طرح سوچتے اور کرتے تھے اورنہ ہی انہیں اپنے جیسا قرار دیتے ہیں ، ان کا جسمانی پہلو ہم سے رابطہ کیلئے ہے اور نورانی پہلو اللہ تعالیٰ سے لیکر ہمیں دینے کیلئے ہے ،وہ کس طرح ہم جیسے ہوسکتے ہیں کہ وہ تو ہرحال میں مسجد میں داخل ہوسکتے ہیں جبکہ ہم حالت ِ جنب میں مسجد میں داخل نہیں ہوسکتے، وہ بیدار ہوتے ہی اللہ کا سجدہ کرتے ہیں ، ہر نجاست سے پاک ہوتے ہیں ، عام آدمی کی حالت سب پر واضح ہے ۔اسی قسم کی اور ظاہری خصوصیات جو سب کے سامنے ہیں ان میں وہ عام انسان کے حالات سے مختلف ہیں ۔

ولایت کی نعمت سب نعمتوں کی سردار نعمت ہے

اصل بات یہ ہے کہ جو حالت ہمیں جنت میں جاکر حاصل ہو گی انکے واسطے وہی حالت اس وقت اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی حاصل ہے اور اس پرتعجب کی بات بھی نہیں ہے بہرحال انکے فضائل میں شک کرنے والا خداوند نے ہمیں نہیں بنایا اورنہ ہی ان سے بنایاجو انکی شان کوکم کرتے ہیں ، اللہ نے ہمیںمقصرین سے نہیں بنایا ،یہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہے، اس انعام پر خدا کی حمد ہے، اس انعام پر جتنا شکر بجالایا جائے کم ہے ،یہی وہ نعمت ہے جس کے بارے قیامت کے دن سوال کیا جائے گاکہ اس نعمت کی قدرکیوں نہ کی ؟ نعمت ِولایت ہی سب نعمتوں پر بالادست اور سب کی سردار بلکہ یہ نعمت سب نعمتوں کو لانے کا سبب ہے جو اس نعمت کا منکر ہے اس کیلئے سوائے آتش جہنم کے اور کچھ نہ ہے۔

زائر ومومن موالی کا اپنے وقت کے امام پر سلام

اور آپ کے بارے چند تعریفی کلمات

۳ السلام عَلٰی وَلِیِّ اللّٰهِ وَابن اَو لِیَآئِه السلام عَلیَ المُدَّخَرِ لِکَرَامَةِ اَو لِیَآئِ اللّٰهِ وَبَوَارِ اَعدآئِه السلام عَلیَ النُّورِ الَّذِی ٓ اَرَادَ اَهل الکُفرِ اِطفَآءه ،فَاَبَی اللّٰهُ اِلاَّ ٓ اَن یُتِمَّ نُورَه بِکُفرِهِهِم وَاَیَّدَه بِالحَیٰوةِ حَتیّٰ یُظهِرَ عَلٰی یَدِهِ الحَقَّ بِرَغمِهِم

اللہ کے ولی پر سلام ہواور اللہ کے اولیاءکے فرزند پر سلام ہو، سلام ہو اس پر جسے اللہ نے اپنے اولیاءکی عزت و کرامت واسطے ذخیرہ کیا ہواہے اور اپنے دشمنوں کی بربادی اور ہلاکت کے واسطے اسے بچا کررکھا ہوا ہے، سلام ہے اس پر جو اللہ کا نور ہے، اللہ کا وہ نور جسے کفر والوں نے ختم کرنے کی کوشش کی اوریہ چاہاکہ اس کے وجو دکو ہی ختم کردیں اور اسکی زندگی کا چراغ گل کردیں لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ اپنا فیصلہ ہے کہ اس نے اپنی نمائندگی کی آخری کڑی اور اپنے اس نور کو ہر دشمن کے شر سے محفوظ رکھنا ہے او اپنے نور اور اپنی نمائندگی کو پورا کرناہے اگرچہ کا فر اسے ناپسند ہی کیوں نہ کریں، اللہ تعالیٰ نے اپنے اس آخری نمائندہ کو زندگی دے کراپنے دین کو استحکام بخشا اوران کی زندگی ہی میں خود ان کے ہاتھ پر حق کو ظاہر کرے گا اور اپنے دین کو مکمل غلبہ دے گا باوجودیکہ کا فر ایسانہ چاہیں گے ،یہ تو خداکا فیصلہ ہے اوراسے ضرور پورا ہونا ہے ۔

امام زمانہ (عج) کے عہدہ اور منصب ملنے کا وقت وعرصہ

۴ اَشهَدُ اَنَّ اللّٰهَ اصطَفٰیکَ صَغِیرًا وَّاکمَلَ لَکَ عُلُو مَه علیه السلام کَبِیرًا وَّاِنَّکَ حَیّ لاَّتمُوتُ حَتّٰیتبطِلَ الجِبتَ وَالطَّاغُوتَ

اس حصہ میں ایک بنیادی اصول کو بیان کیاگیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی نمائندگی کے واسطے عمر کی شرط نہ ہے ،اللہ نے جس کو اپنا نمائندہ بنایاہے تو اسے وہ سب کچھ بچپن میں ہی دے دیتاہے جس کی اسے اللہ کی مخلوق میں رہتے ہوئے ضرورت ہوتی ہے چنانچہ حضرت ولی العصر (عج) کیلئے بھی اسی قانون کی پاسداری کی گئی چنانچہ ایک مومن موالی اپنے اس عقیدہ کا اظہار اس طرح کرتا ہے ۔

٭میں یہ گواہی دیتاہوں اے میرے مولا ! کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچپن ہی سے چن لیا اور اس وقت بچپن ہی میں آپ کیلئے سارے علوم مکمل طور پر دے دیئے اور اپنے علوم کو تیرے لئے مخصوص کر دیا جن علوم کی ضرورت بڑے ہو کر آپ کیلئے تھی آپ بچپن سے ہی اللہ کا انتخاب ہیں اور آپ کی بزرگی میں اللہ کے کامل علوم موجود ہیں اوریہ کہ آپ اب تک زندہ ہیں ، آپ مرے نہیں ہیں یعنی جب سے آپ پیدا ہوئے اس وقت سے لیکر اب تک آپ اسی دنیا میں زندہ ہیں ، آپ کو موت نہیں آئے گی یہاں تک کہ آپ کفروطاغوت ،خدا کے مخالفین کو نابود کردیں گے ۔

اس بیان سے اس نظریہ کی نفی کی ہے جو یہ کہتا ہے کہ آپ پیداہوں گے اور اس خیال کی بھی نفی کردی ہے کہ آپ مرکر پھر واپس آئیںگے یا آپ کسی اور حالت میں چلے گئے ہیں اوراس ظاہری جسم و بدن کیساتھ نہیں ہیں بلکہ اعلان کیا ہے کہ آپ اس بدن وجسم کیساتھ زندہ و موجود ہیں ۔

مومن موالی اپنے امام علیہ السلام اور انکے متعلقین کے بارے اللہ سے دعابھی کرتاہے اور اس دعاءکے ضمن میں اپنی عقیدت کا اپنے امام علیہ السلام کے باریاعلان بھی کرتاہے

۵ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَیه وَعَلٰی خُدَّامِه وَاَعوَانِه عَلٰی غَیبَتِه وَنَایِه وَاستُره سَترًا عَزِیزًا وَّاجعَل لَّه علیه السلام مَع قِلاً حَرِیزًا وَّاشدُدِ اَللّٰهُمَّ وَطَاتکَ عَلٰی مُعَانِدِیه وَاحرُس مَوَالِیَه علیه السلام وَزَآئِرِیه

اے اللہ ! اس پر (اپنے ولی پر) صلوات ، انکے خادموں پر، انکے نوکروں پر ، انکے مددگاروں پر انکے معاونین پر ،جو آپ کی غیبت اور آپ کے عام لوگوں سے دور رہنے کے زمانہ میں آپ کے مددگار ہیں ، آپ کے نوکرہیں ، آپ کے ملازمین ہیں ،ان سب پر اے اللہ ،صلوات بھیج۔

امام زمانہ علیہ السلام کاسیکرٹریٹ

اس بیان میں اس دعاءکے ساتھ اس عقیدہ کا اظہار کیا گیا ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام غیبت کے زمانہ میں اکیلے نہیں ہیں بلکہ آپ کا باقاعدہ ایک سیکرٹریٹ ہے ،آپ کے خدام ہیں ، ملازمین ہیں ، اعوان وانصارہیں ، ایک پوری ٹیم ہے جو آپ کےساتھ پورے عالم کے کام انجام دینے میں صروف ہے۔

اللہ سے دعائیں

اے اللہ ! اس پر پردہ ڈالے رکھ کسی دشمن کوانکی خبر تک نہ ہو، ایک مضبوط پناہ گاہ میں انہیں رکھ ،کوئی بھی دشمن ان تک نہ جاسکے ۔

اے اللہ ! ........اپنے مخالفوں اور سرکش دشمنوں پر،انکے ذریعہ عذاب اتاردے اوریہ کہ ان کے ذریعہ اپنے دشمنوں پر مضبوط ہاتھ ڈال ۔

اے اللہ ! اپنے ولی (امام زمانہ علیہ السلام )کے موالیوں اورانکے زائرین کی حفاظت فرما۔

اس جملہ سے واضح ہوتاہے کہ پہلے جملے والی دعاءان کے بارے ہے جو زمانہ غیبت میں آپ کے ہمراہ رہتے ہیں اور اس جملہ میں آپ کے ان موالیوں اور چاہنے والوں اور زائرین کے بارے دعاءہے جو آپ تک نہیں پہنچ سکتے ۔

مومن موالی کی آرزو اور دعاءکے ضمن میں اپنے ارادوں کا اعلان

۶ اَللّٰهُمَّ کَمَا جَعَلت قَل بِی بِذِکرِه مَع مُو رًا،فَاجعَل سَلاَ حِی بِنُصرَتِه مَشهو رًا وَّاِن حَالبَینِی وَبَینَ لِقَآئِهِ المَوتُ الَّذِی جَعَلته علیه السلام عَلٰی عِبَادِکَ حَتمًا وَّاَقدَرت بِه عَلٰی خَلِیفَتِکَ رَغمًا فَابعَث نِی عِند خُرُو ِه،ظَاهِرًا مِّن حُفرَتِی مُوتزِرًا کَفَنِی حَتّٰیٓ اُجَاهِدَ بَینَ یَدِیه فِی الصَّفِّ الَّذِی ٓ اَثنَیت عَلٰیٓ اَهله فِی کِتَابِکَ فَقُلت،کَاَنَّهُم بُنیَان مَّرصُوص

اے اللہ ! جس طرح تو نے اپنے ولی کے ذکر سے میرے دل کو آباد کردیا ہے ،تو میرے اسلحہ کو بھی اس کی مدد کے واسطے مشہود وظاہر کردے اور اگر میرے اور انکے درمیان (امام زمانہ عج کے درمیان) وہ موت حائل ہوجائے جسے تونے اپنے بندگان پر حتمی قرار دے رکھا ہے اور اس کے ذریعہ اپنی مخلوق پر اپنی قدرت کا اظہار فرمایا ہے تو جب انکا خروج ہوجائے۔

تو اے اللہ ! مجھے میری قبر سے جس گڑھے میں میں دفن کیاجاونگا اس سے مجھے اٹھا دینا ،باہر نکال لانا ، میں اپنے کفن میں لپٹاہواہوں تاکہ میں بھی اس صف میں کھڑے ہوکر ان کے سامنے جہاد کر سکوں، جس صف والوں کی اے اللہ تو نے اپنی کتاب (قرآن) میں توصیف بیان کی ہے اور اے اللہ! تو نے انکے بارے فرمایاہے گویا کہ وہ ایک مضبوط و سیسہ پلائی ہوئی دیوارکی مانند ہیں ۔

غیبت طولانی ہونے پر غم ودرد کا اظہار

۷ اَللّٰهُمَّ طَالالاِنتظَارُ وَشَمِتَ مِنَّا الفُجَّارُ وَصَعُبَ عَلَینَا الاِنتصَارُ

اے اللہ انتظار لمبی ہوگئی، زمانہ بہت گزر گیا، دشمن ہمارے اوپر طعنہ زنی کرتے ہیں ،ہمارا مذاق اڑاتے ہیں ، فاجر اور کمینے لوگ ہماری توہین کرتے ہیں ، ہمارے عقیدہ کا مذاق اڑاتے ہیں اور اب ہمارے لئے نصرت طلب کرنے کا عمل مشکل اور سخت ہوگیاہے۔

ان جملوں میں درد ہے ،حقیقت کااظہار ہے کیونکہ جیسے جیسے زمانہ لمباہوتاجاتاہے ویسے ویسے لوگ اس نظریہ سے باغی ہوتے جارہے ہیں ، دشمنوں کی طرف سے پروپیگنڈہ کیاجاتاہے کہ یہ نظریہ ہی غلط ہے کسی کو اگر امام زمانہ (عج) کی نصرت کا کہتے ہیں تو وہ آگے سے ہنستا ہے، مذاق بناتاہے یہ حالت ایسی ہی سخت اور تکلیف دہ ہے جس طرح اس بات کااظہار کیاگیا ہے ۔

زندگی میںامام علیہ السلام کی زیارت اور ملاقات کی آرزو

۸ اَللّٰهُمَّ اَرِنَا وَجه وَلِیِّکَ المَیمُونَ فِی حَیَاتِنَا وَبَعد المَنُونِ

اے اللہ ! مجھے اپنے ولی کے بابرکت نورانی چہرے کا دیدار کروادے اورہمیں ہماری زندگی میں ہمیںاپنے ولی سے ملوا دے اورمرنے کے بعد بھی ہماری یہ ملاقات جاری رہے ۔

رجعت کا عقیدہ اور اپنے امام علیہ السلام سے گفتگو

۹ اَللّٰهُمَّ اِنِّی اَدِینُ لَکَ بِالرَّجعَةِ بَینَ یَدَی صَاحِبِ هٰذِهِ البُقعَةِالغَو ثَ الغَو ثَ،الغَو ثَ،یَا صَاحِبَ الزَّمَانِ، قَطَعتُ فِی وُصلَتِکَ الخُلاَّنَ وَهَجَرتُ لِزِیَارَتِکَ الاَو طَانَ وَاَخفَیتُ اَمرِی عَن اَهل البُلدَانِ لِتَکُونَ شَفِیعًا عِند رَبِّکَ وَرَبِّی وَاِلٰیٓ اٰبَآئِکَ وَمَوَالِیَّ فِی حُسنِ التَّو فِیقِ لِی وَاِسبَاغِ النِّعمَةِ عَلَیَّ وَسَوقِ الاِحسَانِ اِلَیَّ

اے اللہ ! میں اس بقعہ والے کے سامنے اورانکے گھر میں یہ اعلان کررہاہوں کہ میرا رجعت پر ایمان ہے ،فریاد ہے، فریاد ہے ،اے صاحب الزمان ۔

میں نے تیرے ساتھ اپنا تعلق جوڑنے کیلئے سارے دوستوں کو ، سارے احباب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اورمیں اپنے اوطان سے دورہ کا فاصلہ طے کرکے تیری طرف ہجرت کرآیاہوں، میں نے بہت سارے اپنے شہر والوں سے ،اپنے اس ارادہ کو پوشیدہ رکھا ہے، اس لئے تیری جناب میں حاضری دی ہے تاکہ آپ اپنے اور میرے رب کے پاس میری سفارش کریں اور اپنے آباءکے پاس بھی میرے لئے سفارش فرمائیں کہ وہ مجھ سے راضی رہیں کہ جو میرے سردارہیں ،میرے موالی بھی ہیں ،جن سے میں محبت کرتاہوں، میرے لئے یہ اچھی توفیق جو ہے برقرار رہے اور میرے اوپر اپنے موالیوں سے محبت کرنے کی نعمت باقی رہے اور میری جانب احسان اور بھلائی آتی رہے، مجھے خیر و برکت ملتی رہے ۔

اختتامی دعاء

۰۱ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ اَصحَابِ الحَقِّ وَقَادَةِ الخَلقِ وَاستجِب مِنِّی مَا دَعَوتکَ وَاَعطِنِی مَالَم اَنطِق بِه فِی دُعَآئِی مِن صَلاَحِ دِینِی وَدُنیَایَ اِنَّکَ حَمِید مَّجِید وَّصَلَّی اللّٰهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِهِ الطَّاهِرِینَ

اے اللہ ! محمدوآل علیہ السلام محمد پر صلوات بھیج وہ آل علیہ السلام محمد جو اصحاب حق ہیں ،مخلوق کے قائدین ہیں ، جو میں نے دعاءمانگی ہے اسے قبول کرلے اورجو میں نے نہیں بولا وہ بھی مجھے دے دے.... وہ دے جو میرے دین کیلئے بہتر ہو، میری دنیا کا اس میں فائدہ ہو، بے شک توں تو، حمید و مجید ہے اور محمد وآل علیہ السلام محمد پر صلوات ہو جوکہ طاہرین ہیں ۔