معرفت نامہ

معرفت نامہ 0%

معرفت نامہ مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

معرفت نامہ

مؤلف: مولانا سید افتخار نقوی
زمرہ جات:

مشاہدے: 13524
ڈاؤنلوڈ: 2314

تبصرے:

معرفت نامہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 25 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13524 / ڈاؤنلوڈ: 2314
سائز سائز سائز
معرفت نامہ

معرفت نامہ

مؤلف:
اردو

غیبت کبریٰ کے زمانہ میں مومنین کی ذمہ داریاں

سوال : حضرت امام عصر”عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف “ کے حوالے سے زمانہ غیبت ِ کبریٰ میں ہماری ذمہ داری کیا بنتی ہے ؟

جواب:غیبت ِ کبریٰ کے زمانہ میں ہماری ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں جن پرعمل کرنا واجب ہے ان میں سے چند حسب ذیل ہیں ۔

۱ ۔ حضرت امام عصر ”عجل اللہ فرجہ علیہ السلام “ کی غیبت ِ کبریٰ میں امام علیہ السلام کی جدائی پر غم واندوہ اور پریشانی کے احساسات اور آثار کو اپنے پورے وجود میں محفوظ رکھ کر غم زدہ و پریشان رہنا۔

۲ ۔ آل محمد ” علیہ م الصلوٰة والسلام “ کے عالمی اسلامی حکومت کے قیام اور عدالت ِ الٰہیہ کے اللہ کی زمین پر نفاذ کا منتظر رہنا اورخود کوآپ علیہ السلام کی عادلانہ حکومت کے قیام کیلئے آمادہ رکھنا اور اس کیلئے اپنی استطاعت کے مطابق عملی جدوجہد کرنا اور ایسے اسباب مہیا کرنا کہ جن کی وجہ سے خوشی کا وہ دورجلد آجائے جس میں پورا عالم امن کا گہوارہ ہوگا ،ظلم وستم کا خاتمہ ہوگا ، ہر جگہ توحید کا پرچم لہرائے گا اور ولایت ِ اہل البیت ” علیہ م السلام ‘ کا راج ہو ۔

۳ ۔ حضرت امام عصر علیہ السلام کے وجود مبارک کی حفاظت اور آپ علیہ السلام کی سلامتی کیلئے دعاکرنا ۔

۴ ۔ حضرت امام عصر”عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف “ کی سلامتی کیلئے جس قدر ہوسکے صدقہ دینا۔

۵ ۔ اپنا واجب حج انجام دینے کے بعد حضرت امام عصر (عج) کی نیابت میں خود جاکر حج بجالائے یا کسی کو بھیجے جو حضرت امام عصر (عج) کی نیابت میں حج بجالائے ۔

۶ ۔ جس وقت حضرت امام عصر علیہ السلام کا نام سنا جائے تو آ پ علیہ السلام کی تعظیم اور تکریم کیلئے کھڑا ہوجانا چاہیے ۔

۷ ۔ زمانہ غیبت میں اللہ تعالیٰ سے تضرع وزار ی کیساتھ پورے خشوع وعاجزی سے دعاءومناجات کرنا کہ امت مسلمہ سے یہ مشکل گھڑی ٹل جائے، خوشحالی کا زمانہ آجائے ۔ اللہ اپنی عدالت کا نفاذ اپنی زمین پر جلد کرے ۔

خداوند سے اپنا ارتباط اور تعلق دعاءومناجات کے ذریعہ بہت زیادہ رکھا جائے اور خدا کی رحمت واسعہ سے پر امید رہنا چاہیے مایوسی کی کیفیت پیدا نہ ہونے پائے۔

۸ ۔ حضرت امام عصر”عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف“ سے توسل کرنا، ان سے مدد مانگنا ، انکے ذریعہ اپنی فریاد خدا تک پہچانا انہیں اپنے لئے مددگار اور خدا کے حضور شفاعت کنندہ اور سفارشی قرار دینا ، اپنی حاجات امام ” علیہ السلام “ کی خدمت میں پیش کرنا اور ان کیلئے ان سے مدد طلب کرنا ، امام ” علیہ السلام “ کی خدمت میں تحریری درخواست اپنے مسائل اور مشکلات کیلئے بھیجنا ۔

سوال:حضرت امام عصر(عج) کی غیبت کے زمانہ میں کس لئے آپ کی غیبت پر غم زدہ رہا جائے اور کیوں پریشانی کے احساسات اپنے اندر رکھے جائیں اسکا کیافائدہ ہے ؟

جواب:اس کیلئے چند وجوہات ہیں ۔

۱ ۔ امام ” علیہ السلام “ کا اپنی رعیت سے پردہ میں ہونا ،آپ کی رعیت کا آپ علیہ السلام کے دیدار سے محرومیت ، آپ علیہ السلام کے دیدار سے جو آنکھوں کو سرور اور دل کو ٹھنڈک محسوس ہونا تھی اس سے محرومیت ، ”عیون اخبار الرضا“ میں ایک روایت ہے جو اسی سے مربوط ہے امام ” علیہ السلام “ نے ایک طویل بیان میں فرمایا :کتنی زیادہ مومن خواتین ہیں کہ انکے دل کڑھتے ہیں ،ا نکے دل پریشان ہیں اورکتنے زیادہ مومن مرد ہیں جنہیں افسوس ہے اور وہ افسردہ ہیں کہ ”ماءمعین “(چشمہ کاشفاف پانی) ان سے غائب ہوگیا ہے یعنی حجت خدا” علیہ السلام “ کے فیضان حضوری سے محروم ہیں ۔

دعاءندبہ میں یہ جملے آئے ہیں حضرت امام زمانہ (عج) سے مخاطب ہو کر دعاءپڑھنے والاکہتا ہے.... میرے لئے یہ کتنا دشوار ہے؟ کہ میں ساری مخلوق کو تو دیکھوں اور آپ علیہ السلام کو دیکھ نہ پاوں اور میںنہ تو آپ علیہ السلام کی آہستہ آواز کو سن سکوں اورنہ ہی آپ علیہ السلام کی سرگوشی کا مجھے پتہ چل سکے، میرے اوپر یہ بات بھی بہت گراں ہے کہ آپ علیہ السلام کی خاطر میرے لئے آزمائش اور امتحان ہے اور میری طرف سے نہ تو آپ کے پاس شوروغوغاپہنچے اور نہ ہی میری پریشانی آپ علیہ السلام تک جائے اورنہ ہی کوئی گلہ اور شکایت آپ علیہ السلام سے کی جائے کہ آپ علیہ السلام ہم سے غائب ہیں تاکہ پتہ چلے کہ ہم آپ علیہ السلام کی غیبت کی وجہ سے افسردہ اور پریشان ہیں میری جان !آپ علیہ السلام پر قربان ، آپ علیہ السلام تو ایسے غائب ہیں جوہم سے جدا نہیں ہے، میری جان آپ علیہ السلام پر قربان ! آپ علیہ السلام تو ہم سے ایسے دور ہونے والے ہیں کہ جو درحقیقت دور نہیں ہیں ،میری جان آپ علیہ السلام پر قربان! کہ آپ علیہ السلام ہر شوق رکھنے والے کی تمنا اور آرزو ہیں ، ہر مومن مرد اور مومنہ عورت جب بھی آپ علیہ السلام کو یاد کرتے ہیں تو آپ علیہ السلام کے فراق اور جدائی میں بہت ہی مشتاق ہوتے ہیں اورآپ علیہ السلام کی جدائی انہیں ستانے لگتی ہے میرے اوپر یہ بات بھی بہت گراں گزرتی ہے کہ میں تو آپ علیہ السلام کو یاد کرکے رووں، آپ علیہ السلام کے ذکر سے رنجیدہ خاطر ہوجاوں جبکہ باقی مخلوق آپ علیہ السلام سے روگردانی کرے ، آپ علیہ السلام کو یاد بھی نہ کرے اورآپ علیہ السلام کی مددسے ہاتھ کھینچ لے اسی قسم کے جملے اس دعاءکے آخر تک موجود ہیں جو ایک درد اور کرب سے بھرے دل کی آواز ہیں وہ دل جس نے آپ علیہ السلام کی محبت کا شربت پی رکھا ہے اور آپ کی جدائی پر پریشان ہے ۔

اسی قسم کی اور دعائیں بھی ہیں کہ جن میں اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کی غیبت پر گریہ وزاری ، درد وکرب، غم واندوہ اور پریشانی کا اظہار کیاگیا ہے جس سے واضح پیغام سب مومنین کیلئے یہ ملتا ہے کہ زمانہ غیبت ِ کبریٰ میں امام زمانہ (عج) کی غیبت اور آپ کی عدم موجودگی کو یاد کرکے گریہ وزاری کی جائے ، پریشان رہا جائے ،درد اور تکلیف کا اظہار کیاجائے ۔

جیساکہ حضرت امام جعفرصادق ” علیہ السلام “ ایک مناجات میں آپ علیہ السلام کو نور ِ آل محمد کہتے ہیں اور آپ علیہ السلام کی غیبت کے طولانی ہونے پر زور زور سے گریہ وزاری فرماتے نظر آتے ہیں ۔

۲ ۔اس غم واندوہ کیلئے دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک عظیم الشان حکمران کیلئے جو رکاوٹ موجود ہے کہ وہ فساد کے اصلاح کیلئے کوشش کرے ، احکام الٰہی کا نفاذ کرے ، سب کو انکے حقوق دلوائے ، ظلم وزیادتی کا خاتمہ کرے ، حدود شرعیہ کا نفاذکرے ، غم اس بات کا ہے کہ ایسا عظیم اور لائق حکمران موجود بھی ہو اور اپنے اختیار کا استعمال نہ کرسکے وہ سب کچھ پامال ہوتا دیکھ رہا ہو لیکن حالات کی سنگینی کی وجہ سے اس بارے کچھ نہ کرسکے تو اس پر غمزدہ ہونا ایک فطری تقاضا ہے ۔

حضرت امام محمد باقر” علیہ السلام “سے روایت ہے کہ آپ نے جناب عبداللہ بن ظبیان سے فرمایا :مسلمانوں کیلئے کوئی عید کا دن نہیں آتا،چاہے عید قربان ہو یا عید فطر ہو ، مگریہ کہ اس عید کے دن آل محمد کا غم بڑھ جاتاہے یعنی ہر عید اور خوشی کا دن آل محمد کیلئے ایک نئے غم کو لے آتاہے ۔

راوی :ایساکس وجہ سے ہے ؟

امام علیہ السلام : کیونکہ وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ انکا حق اغیار کے ہاتھوںمیں ہے ۔

۳ ۔ دین مبین کے باطنی اور اندرونی دشمن اور ڈاکوغیبت کے زمانہ میں اپنی اپنی کچھاروں سے باہر نکل آئیں گے عوام میں شکوک و شبہات پھیلائیں گے بلکہ وہ انکے ایمانوں کو بھی متزلزل کرنے میں اپنا ہر حربہ استعمال کریں گے جس کے نتیجہ میں ایک گروہ کے بعد دوسرا گروہ ، ایک جماعت کے بعد دوسری جماعت گمراہ ہونگے ، دین سے مرتد ہوجائیں گے ، علماءحقہ اپنے علم کااظہار کرنے سے عاجز ہونگے ان پر ان داخلی دشمنوں نے عرصہ حیات تنگ کردیا ہوگا۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفرصادق ” علیہ ما السلام “ کا یہ فرمان سچا ہوگا کہ وہ فتنوں کا دور ہوگا اس دورمیں دین کو بچانا اس بات سے بھی مشکل تر ہوگا جس قدر آگ کے دہکتے انگارے کو ہتھیلی میں سنبھالنا مشکل ہوتاہے۔

جناب سدیر صیرفی سے روایت بیان ہوئی ہے وہ کہتا ہے میں مفضل بن عمر و جعفی ، ابوبصیر ،ابان بن تغلب اکٹھے اپنے مولا حضرت ابوعبداللہ جعفر بن محمد الصادق ” علیہ ما السلام “کی خدمت میں حاضر ہوئے اچانک ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارے مولا خاک پر بیٹھے ہوئے ہیں آپ کے اوپر خیبری اونی چادر ہے جسے آپ نے اپنے اوپر لپیٹا ہوا تھا جس کا گریبان بنا ہوا نہ تھا جس کی آستینیں چھوٹی تھیں (گویا عباءمانند چادر تھی) ایسی حالت میں آپ علیہ السلام اس طرح روروہے تھے جیسے کوئی شخص کسی عزیز کی جدائی پر غمگین ہوتا ہے ، ایسا رونا جس طرح کوئی ماں اپنے جگر گوشہ کی جدائی پر تڑپ تڑپ کر روتی ہے ،غم کے آثار رخساروں سے نمایاں تھے اورآپ علیہ السلام کے چہروںمیں تبدیلی واضح نظر آرہی تھی اور دونوں آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگی تھی اس حال میں آپ یہ فرمارہے تھے ۔

سدیر : ہم نے جب یہ منظر دیکھا تو ہماری عقلیں اس غم انگیز منظر سے ماوف ہوگئیں اور ہمارے دل گھبراہٹ سے پھٹنے لگے اورہم نے خیال کیا کہ یہ کوئی بڑی مصیبت ہے جو ٹوٹنے والی ہے یااس کی نشانی ہے یا کوئی مصیبت دنیا کی طرف سے آپ علیہ السلام پر آن پڑی ہے ،ہم سب نے مل کر یہ عرض کیا :اے خیر الواے میرے سردار! آپ علیہ السلام کی غیبت نے میری نیند اڑا دی اورمیرے لئے بستر کے سکون کو چھین لیا ہے ، مجھ سے میرے دل کے سکون کو اڑالیا ہے ۔

اے میرے سردار ! آپ علیہ السلام کی غیبت نے تو میرے مصائب کو ہمیشہ رہنے والی مصیبتوں سے ملا دیا ہے ایک کے بعد دوسرے کا چلاجانا جمعیت اور بڑی تعداد ختم ہی کردیتاہے پس میں تو اس آنسو کے قطرے کو اب محسوس بھی کرتاہوں جو میری آنکھ میںآکر رک جاتاہے اور درد بھری آہ جو میرے حلق سے نکلتی ہے جو مصائب کے مسلسل آنے اور گزشتگان پر آزمائشوں اور مشکلات کے پڑنے کی وجہ سے ،قبیلے کی تباہی کا منظر پیش کر ر ہی ہے ۔

ریٰ کے فرزند!اللہ تعالیٰ آپ کی آنکھوں کو کبھی نہ رلائے کونساحادثہ پیش آیا ہے جس پر آپ علیہ السلام کی آنکھوں سے آنسووں کا سیلاب امڈ آیا ہے اور آپ علیہ السلام زار وقطار روئے جارہے ہیں اورکس حالت نے آپ علیہ السلام کیلئے ماتم داری کی کیفیت طاری کردی ہے ؟!

حضرت امام صادق ” علیہ السلام “: آپ نے ایک لمبی آہ بھری میں آج صبح کتاب ”الجفر“ پڑھ رہا تھا یہ ایسی کتاب ہے جو علم منایا ، بلایا ، فتن ،حادثات وواقعات ، علم ماکان وما یکون ، جو ہوچکا اور جو ہونے والا ہے، قیامت تک کے حالات ، اس میں درج ہیں اس کتاب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد”صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ اور انکے بعد انکی اولاد سے آئمہ” علیہ م السلام “کے واسطے مخصوص کیا ہے میںنے اس کتاب کے مطالعہ کے دوران اپنے قائم (عج) کی ولادت اور انکی غیبت کے حالات ، انکے دیرسے ظہور فرمانے ، انکی عمر کے طولانی ہونے ، اس زمانہ کے مومنوں کی سخت آزمائش ، انکی پریشانیاں ، اور آپ کی غیبت کے طولانی ہو جانے کی وجہ سے مومنوں کے دلوں میں آپ کے بارے شکوک وشبہات کے پیدا ہوجانے اور اکثر مومنوں کا اپنے دین مبین سے مرتد ہوجانا اور اپنی گردنوں سے اسلام کو اتار پھینکنا جوکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی گردنوں میں لازمی قرار دیا تھا کہ وہ اسلام ہی پر رہیں یہ سب کچھ پڑھ کر میرے اوپر یہ ساری کیفیت طاری ہوگئی اور مجھے ان سارے واقعات پر ترس آیا ، غم کے بادل امڈآئے ....میں تو نورآل محمد” علیہ السلام “کے حالات و واقعات اور انکی غیبت کے دور میںجو حالات ہونگے اور مومنین پرجومصائب آئیں اور جو پریشانیاں ہوں ان سب کو یاد کرکے گریہ وزاری ،آہ وفغاں کر رہا تھا ۔

سدیر:کیا آپ نورآل محمد”صلوات اللہ علیہم“ نہیں ؟آپ نے فرمایا ،نورآل محمد ہمارے قائم ہیں جن کی غیبت ہوگی وہ غیبت طولانی ہوگی مومنین کے دلوں میں انکی طولانی غیبت کی وجہ سے شکوک و شبہات ایجاد کئے جائیں گے جس وجہ سے بہت سارے مومنین دین چھوڑ جائیں گے اور مرتد ہوجائیں گے۔

نتیجہ:اس روایت کا مضمون بڑا واضح ہے جب حضرت امام جعفرصادق ” علیہ السلام “ حضرت امام مہدی (عج) کے تولد سے پہلے آپ علیہ السلام کے حالات پڑھ کر ، آپ علیہ السلام کی غیبت کے دور میں مومنین کو درپیش حالات کو یاد کرکے جب اس قدر گریہ فرماتے ہیں ، پریشانی کااظہار کرتے ہیں ، ان مصائب کی شدت کو یاد کرنے سے امام ” علیہ السلام “ کا سکون جاتا رہتا ہے آپ کی نیند تک اڑ جاتی ہے تو ہم لوگ جو اس وقت ان مصائب اور مشکلات سے دوچار ہیں جو کچھ امام ” علیہ السلام “ اس وقت فرمایا: تھا وہ آج ہم دیکھ رہے ہیں تو ہمیں افسردہ ہونا چاہیے، غمگین رہنا چاہیے، امام زمانہ (عج) کے ظہورمیں تاخیر پر گریہ و زاری کرناچاہیے، امام علیہ السلام کے ناصران کی قلت کو یاد کرکے ہمیں پریشان ہونا چاہیے ،ظاہر ہے یہ غم واندوہ کی طویل رات اسی وقت ختم ہوگی جب نورآل محمد

تشریف لائیں گے، آپ علیہ السلام کی آمد سے ہی مومنوں کے دلوں کو سکون نصیب ہوگا،خوشحالی عام ہوگی غم کا فور ہوگا اس سہانے منظر کی انتظار میں ہر وقت رہنا اہم فرائض سے ہے اور غمگین دل سے آپ کی یاد ایمان کاتقاضا ہے ۔