معرفت نامہ

معرفت نامہ 0%

معرفت نامہ مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

معرفت نامہ

مؤلف: مولانا سید افتخار نقوی
زمرہ جات:

مشاہدے: 13375
ڈاؤنلوڈ: 2096

تبصرے:

معرفت نامہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 25 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13375 / ڈاؤنلوڈ: 2096
سائز سائز سائز
معرفت نامہ

معرفت نامہ

مؤلف:
اردو

حضرت امام مہدی علیہ السلام اہل سنت کی نظر میں حصہ اول

اہل سنت کی کتابوں میں حضرت امام مہدی ( علیہ السلام ) کے متعلق روایات کا تذکرہ

تمہید:

ساری زمین امن کے قیام کے واسطے ایک عالمی مصلح کا ظہور حتمی ہے،اور ایک عادلانہ حکومت روئے زمین پرضرور قائم ہونی ہے اس عقیدہ کا تعلق فقط آسمانی ادیان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا میں جتنے فلسفی، اور اجتماعی مکاتب ہیں جو غیر دینی ہیں ، وہ بھی اس بات کے قائل ہیں جیسے مادہ پرستوں کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کو لے لیں جو تاریخ کا تجزیہ و تحلیل تناضات اورتفادات کے ٹکراو سے کرتے ہیں ،وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ایک یوم موعود ہے جس میں ہر قسم کے تنافضات اورتضادات کا انسانی طبقات میں خاتمہ ہوجائے گا اور پوری انسانیت پر محبت، ہم آہنگی اور امن و سکون غالب آجائے گا۔ (تفصیل کے لئے دیکھیں ....امام مہدی علیہ السلام شہید باقر الصدر)

اسی طرح ہم بہت سارے علماءدین، مفکرین اور دانشوروں کے متعلق جانتے ہیں کہ وہ بھی اس بات کو یقینی سمجھتے ہیں کہ اس زمین پر ایک دن عدالت کا نفاذ ہوگا، امن کا راج ہو گا، ظلم کا اختتام ہوگا، زمین پر خوشحالی کا دور ہو گا۔

مشہور برطانوی دانشور برٹرنڈ راسیل کا قول ہے کہ

”پورا عالم ایک ایسے اصلاح کنندہ کا منتظر ہے جو سب کو ایک پرچم تلے جمع کر دے اور سب پر ایک ہی آواز موثر ہو، اورسب کا نعرہ ایک ہو“۔

فزکس کے معروف ماہر البرٹ السٹائن کہتے ہیں کہ

” وہ دن جس میں پورے عالم پر امن اور سلامتی کا راج ہو، سب ایک دوسرے سے محبت کریں، آپس میں بھائی بھائی ہوں، تو ایسا ضرور ہوگا، اس میں کوئی عجب نہیں ہے“۔

(بحوالہ: المہدی الموعود و دفع الشبہات عنہ)

آئر لینڈ کے مشہور دانشور برنارڈ شرا، ان دونوں بیانات سے زیادہ واضح انداز میں اسی نظریہ کو بیان کیا ہے اور زیادہ باریک بینی سے اس موضوع کو پیش کیا ہے، وہ عالم مصالح کے وجود اور اس کی طولانی عمر کو اس طرح بیان کرتا ہے۔

” بلا شک وہ مصلح ایک زندہ انسان، صحت مند جسمانی ہیکل رکھتا ہے اور حیرت انگیز ، غیر معمولی عقلی طاقت کامالک ہے، انتہائی بلند اور اعلیٰ صفات کا مالک انسان ہے، جس تک یہ عام اور معمولی صلاحیتوں والا انسان بڑی جدوجہد اور طویل تگ و دو کے بعد پہنچنے کے قابل ہو سکے، اور یہ کہ اس کی عمر طولانی ہو،تین سو سال سے بھی زائد ہو اور وہ اپنی اس طویل زندگی کے مختلف حالات کو یکجا کرکے ان صلاحیتوںسے استفادہ کر سکے“۔

غرض ان کے نزدیک مصلح انسان تمام انسانوں میں ہر حوالے سے ممتاز ہو اور اپنی طولانی عمر کی وجہ سے تمام انسانوں کی صلاحیتوں کا احاطہ رکھتا ہو“۔(برنارڈ شوے (عباس محمودالعقاد ص ۴۲۱،۵۲۱)

آسمانی ادیان میں حضرت امام مہدی ( علیہ السلام )کا تذکرہ

البتہ آسمانی ادیان میں عالمی مصلح کے ظہور کو ایک حتمی اور یقینی امر قرار دیا گیا ہے اور آسمانی ادیان کی کتابوں میں جو بھی غوطہ ور ہوتا ہے اور ان میں مستقبل کے بارے درج شدہ بشارتوں کا پوری دقت کے ساتھ مطالعہ کرتا ہے تو اس کے واسطے اس نتیجہ تک پہنچنا کوئی مشکل نہیں ہے کہ ان تمام کتابوں میں حضرت امام مہدی ( علیہ السلام ) کے وجود مقدس کے اشارات ملتے ہیں اور یہ کہ وہ آخری انسان ہیں جس نے پورے عالم کو امن و سکون دینا ہے عدالت کا نفاذ کرنا ہے، ظلم ختم کرنا ہے، وہ ہی حضرت امام مہدی( علیہ السلام ) ہیں اور ان کا اشارہ اسی مہدی( علیہ السلام )کی طرف ہے جس کا اظہار مذہب اہل البیت علیہ السلام میں موجود ہے۔

آسمانی ادیان کی کتب میں موجود بشارتوں کے بارے تحقیق کرنے والے اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں ۔

(ملاحظہ کریں بشارات عہدین للشیخ ڈاکٹر صادقی)

الکتاب المقدس سے العہد القدیم سے متعلق شعیا کی کتاب میں جو بشارتیں ذکر ہوئی ہیں ۔

قاضی الساباطی نے ان بشارتوں میں سے ایک بشارت کو لیا ہے اور اس کے بارے بیان کیا ہے کہ یہ بشارت حضرت امام مہدی( علیہ السلام ) کے متعلق واضح اور روشن بیان ہے وہ کہتے ہیں ” امامیہ فرقہ والے کہتے ہیں ”بلکہ وہ (مہدی علیہ السلام )محمد بن الحسن علیہ السلام العسکری علیہ السلام ہیں جو ۵۵۲ ھ میں پیدا ہوئے امام حسن( علیہ السلام ) کے اس حرم سے جن کا نام ”نرجس (سلام اللہ علیہ ا)“تھا اور سرزمین سرمن رای (سامرہ) شہر میں آپ کی ولادت ہوئی، خلیفہ المعتمد العباسی کا زمانہ تھا، پھر وہ ایک سال (جوبات مکتب اہل البیت علیہ السلام سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کی غیبت امام حسن عسکری ( علیہ السلام )کی وفات کے بعدشروع ہوئی جو تقریباً ستر سال رہی یہ پہلی غیبت تھی جسے غیبت صغریٰ کہا جاتا ہے اس کے بعد دوسری غیبت شروع ہوگی جسے غیبت کبریٰ کہا جاتا ہے جو ابھی تک جاری ہے) پھر آپ ظاہر ہوئے، پھر غائب ہو گئے اور یہ ان کی غیبت کبریٰ ہے، اس غیبت سے وہ واپس نہیں آئے مگر یہ کہ جب اللہ چاہے گا تو وہ واپس آئیں گے“۔

ساباطی اس بیان کے بعد لکھتے ہیں : اس لحاظ سے کہ امامیہ فرقہ کا نظریہ کتاب مقدس میں درج شدہ بشارت کے زیادہ قریب تھا اور میرا ہدف اور امت محمدیہ کے نظریات کا دفاع ہے مذہبی تعصب سے جداتھا اس لئے میں نے اس بات کا ذکر کر دیا ہے جس کے امامیہ فرقہ والے قائل ہیں ، جو کچھ وہ کہتے ہیں کتاب مقدس میں درج شدہ بعض اشارات اسی کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اسی طرح جب ”فخر الاسلام جو کہ نصرانی تھا“علامہ محمد رضا المظفرؒ سے ملتے ہیں اور اسلام قبول کر لیتے ہیں ، وہ مذہب اہل بیت علیہ السلام سے خود کو وابستہ کر لیتے ہیں وہ بھی اسی نتیجہ پر پہنچے، جس پر علامہ ساباطی اہل سنت کے عالم پہنچے، تو انہوں نے اسلام لانے کے بعد ”انیس الاسلام“ کتاب لکھی، جس میں یہود و نصاریٰ کے نظریات کو رد کیا گیا ہے اس کتاب میں اس نے کتاب مقدس میں بیان شدہ بشارتوں کو بیان کیا اور اس نتیجہ کو لیا کہ یہ سب بشارتیں حضرت امام مہدی ( علیہ السلام )بن الامام الحسن العسکری( علیہ السلام ) پر صادق آتی ہیں ۔

جوبات قابل غور ہے ان بشارتوں کے حوالے سے، وہ یہ کہ ان میں عالمی مصلح کے لئے جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں وہ مہدی( علیہ السلام ) کے علاوہ کسی اور شخصیت پر صادق نہیں آتے اور وہ بھی مذہب اہل البیت علیہ السلام کے نظریہ پرکے علاوہ ان بشارتوں کو کسی بھی اور نظریہ و خیال پر لاگو نہیں کیا جا سکتا ۔

انجیل کے مفسرین کا بیان

انجیل کے مفسرین نے”سفرالرویا“ کے فقرہ نمبر۱تا۱۷فصل نمبر۱۲ (یو حنا لاہوتی کے مکاشقات) کی تفسیر میں بیان کیا ہے، وہ سب تصریح کرتے ہیں کہ جس شخص کے متعلق ان بشارات میں بیان ہوا ہے اور یہ فقرات جس شخصیت کا بتا رہی ہیں وہ ابھی پیدا نہیں ہوئے اس لئے ان فقرات کی واضح اور روشن تفسیر،نامعلوم زمانہ کے سپرد ہے جس کا معنی اور مصداق اسی وقت ظاہر ہوگا۔ (بشارت عہدین ص ۴۶۲)

علماءاہل سنت کا نظریہ

علماءاہل سنت کی ایک بہت بڑی تعداد نے بھی اپنی تحقیق ابحاث کے نتیجہ میں مذہب اہل البیت علیہ السلام کے نظریہ کو اختیار کیا ہے ۔

مشہور عالم دین پروفیسر سعید ایوب کا خیال ہے کہ کتاب مقدس کی ”سفر الرویا“ کے فقرات میں جس شخصیت کی طرف اشارہ ملتا ہے، وہ مذہب اہل البیت علیہ السلام کے نظریہ پر صادق آتا ہے۔

وہ اس بارے کہتے ہیں کہ

”انبیاء علیہ السلام ماسلف کے اسفار میں جو کچھ درج ہے اس سے مراد مہدی ( علیہ السلام ) ہیں اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے“۔

اس تحریر پر انہوں نے اس طرح مزید تبصرہ کیا ہے ۔

ایک خاتون کا تذکرہ جس کی اولاد سے بارہ مرد ہوں گے

”میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ میں نے اہل کتاب کی (آسمانی) کتابوں میں اسی طرح سے موجود پایا ہے، اہل کتاب نے حضرت مہدی( علیہ السلام ) سے متعلق خبروں کا بھی اسی طرح دقت سے جائزہ لیا ہے جس طرح انہوں نے آپ علیہ السلام کے جد امجد حضرت محمد مصطفی(صل اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق اپنی کتابوں میں موجود خبروں کے بارے کیا تھا ان خبروں میں ایک باعظمت خاتون کا تذکرہ موجود ہے کہ جس کی اولاد سے بارہ مرد ہوں گے ،اس کے بعد ایک اور خاتون کا تذکرہ ہے جس سے آخری مرد کی ولادت ہوگی اور وہ آخری مرد پہلی باعظمت خاتون کی صلب سے ہوگا”السفر“ میں اس طرح ذکر ہوا ہے ”بتحقیق یہ خاتون جو انہیں ہر قسمی خطرات گھیر لیں گے، ان خطرات کی طرف فقط ”التنسین“ سے اشارہ کیا گیا ہے (اورالتنسین (خطرات)اس باعظمت خاتون کے سامنے آکھڑے ہوں گے، وہ اپنے بچے کی خیرچاہے گی یہاں تک کہ وہ اس بچے کو جنم دے دے گی) ۔

اس سے مراد یہ ہے کہ حکمران اس پیدا ہونے والے بچے کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں گے، جس وقت اس خاتون پر ہر طرف سے خطرات آن پڑیں گے تو اللہ تعالیٰ اس کے بیٹے کو اٹھالے گا اور اس کی حفاظت فرمائے گا۔

بارکلے ”دواختطف اللہ ولدھا“ کی تفسیر میں لکھتے ہیں ”ان اللہ غیب ھذالطفل“ بتحقیق اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو غائب کرلیا“۔

حضرت امام مہدی ( علیہ السلام ) کی بارہ سو دو ماہ عمر کا تذکرہ

”السفر“ میں آیا ہے ”بتحقیق اس بچے کی غیبت ایک ہزاردوسو ساٹھ دن ہوگی“ عبرانی میں اس مدت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے” وہ عنقریب التنسین (خطرات) کی وجہ سے ایک زمانہ، دو زمانے اور آدھا زمانہ غائب ہوں گے۔ (تفصیل کے لئے دیکھیں بشارات العہدین ص ۳۶۲)

اس مدت کے بارے اہل کتاب کے اپنے رموز اور بشارات ہیں پہلی خاتون کی نسل بارے، بارکلے لکھتے ہیں ”بتحقیق انتہائی سخت اور جھگڑالو دشمن جنگ چھیڑے گاجیسا کہ ”سفر الرویا“ ۱۳/۱۲میں ہے ”التنسین(خطرات) اس عورت پر غضبناک ہوں گے اور وہ خطرات سبب ہوں گے کہ اس خاتون کی باقی نسل کے ساتھ جنگ ہوگی جو اللہ کی وصیتوں (فرامین) کے محافظ ہوں گے“۔

استاد سعید ایوب نے گذشتہ ابحاث پر اس طرح تبصرہ کیا ہے

”یہ ہیں مہدی( علیہ السلام ) کے اوصاف جن کا ذکر کتاب مقدس میں ملتا ہے یہ بالکل وہی اوصاف ہیں جنہیں شیعہ امامیہ اثناءعشریہ بیان کرتے ہیں “۔

(المسیح الدجال تالیف سعید ایوب ص ۹۷۳،۰۸۳)

استاد سعید ایوب نے اپنی بات کو مزیداس بیان سے مستحکم کیا ہے کہ

”کتاب مقدس میں جو کچھ ذکر ہوا ہے وہ شیعہ امامیہ کے نظریہ کے مطابق ہے“۔

(بحوالہ اعلام الہدایة قسم الامام المہدی( علیہ السلام ))

سابقہ انبیاء علیہ السلام کی کتابوں سے نتیجہ

سابقہ انبیاء علیہ السلام کی کتابوں میں بشارتیں جو بیان ہوئی ہیں یہ سب واضح اشارے اس نظریہ کی جانب ہیں کہ جو نظریہ مذہب اہل بیت علیہ السلام کا ہے ۔

علماءاہل سنت کی روایات

اسکے بعدہم ان روایات کی طرف پلٹتے ہیں جو علماءاہل سنت نے اس موعود شخصیت کی ہویت اور خصوصیات کے بارے بیان کی ہیں ہم اس بارے دیکھیں کہ ان روایات میں ایسی عظیم مصلح شخصیت کے ظہور کے حتمی اور یقینی امر ہونے کے بعد اس شخصیت کے متعلق وہ روایات کیا راہنمائی دیتی ہیں ، کیا فقط مہدی علیہ السلام کے عنوان پر اکتفاءکیا گیا ہے یا بعینہ اس شخصیت کے بارے بھی بیان کیا گیا جس نے آکر پورے عالم میں عادلانہ حکومت قائم کرنی ہے۔

جواب : یہ بات واضح ہے کہ جو شخص بھی ایک مصلح کے ظہور کا عقیدہ رکھتاہے اور اس کو اس پر یقین کامل ہے لیکن اس کے واسطے یہ بات واضح اور متعین نہیں ہو سکتی کہ وہ مہدی ( علیہ السلام ) کون ہیں جو آخری زمانہ میں آئیں گے اور ایک خارجی اور حقیقی شخصیت کا روپ دھاریں گے ،تو حقیقت میں ایسا خیال اس مہدی ( علیہ السلام )کے بارے عقیدہ نہیں کہلاتا جس کے بارے اسلام کہتا ہے کیونکہ وہ مہدی ( علیہ السلام ) کے عنوان پر ایمان لایا ہے اس کے مضمون اور اس کی خارجی اور حقیقی شخصیت پرایمان نہیں لایایہ بات اسی طرح ہے کہ کوئی شخص نماز کے وجود کا معتقد ہو لیکن اس کے ارکان سے واقف نہ ہو۔ہم یہ جاننے کےلئے کہ امام مہدی علیہ السلام ایک عنوان نہیں بلکہ ایک حقیقی اور حقوقی شخصیت بھی ہیں اور اس بارے اہل سنت کی روایات کیا کہتی ہیں اور انکے بیانات سے کیا مطلب نکلتا ہے تو ہم ان روایات کوآنے والے صفحات میں چند عناوین کے تحت بیان کریں گے ۔

حضرت امام مہدی ( علیہ السلام )کی ولادت بارے

اس بارے کثیر تعداد میں اعتراضات موجود ہیں جنہیں علماءاہل سنت نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور بعض محققین نے ان اعتراضات کو یکجا اکٹھا کیا ہے ترتیب وار زمانی مراحل کو اس سلسلہ میں بیان کیا گیا ہے غیبت صغریٰ ۰۶۲ ھ سے غیبت کبریٰ ۹۲۳ ھ کے آغاز تک کے زمانہ اور پھر آج تک اس بارے جو اعتراضات کیے گئے ہیں انہیں زمانی ترتیب کے ساتھ درج کیا گیا ہے، ہم اس جگہ نمونہ کے چند حوالے دیتے ہیں ، تفصیل کے لئے اس موضوع پر لکھی گئی تحقیقی اور تفصیلی کتابوں میں رجوع کیا جائے ۔

(حوالہ کے لئے دیکھیں کتاب الایما الصیحح، تالیف سید قزوینی ۲ ۔ کتاب الامام المہدی علیہ السلام فی نہج البلاغہ تالیف شیخ مہدی فقیہ ایمانی ۳ ۔الزام الناصب تالیف شیخ علی حائری ۴ ۔ کتاب الامام المہدی علیہ السلام تالیف الاستاد علی محمد دخیل ۵ ۔کتاب دفاع عن الکافی تالیف الثامرالعبیدی اس آخری کتاب میں اہل سنت کی ۸۲۱ شخصیات کا ذکر کیا گیا جنہوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کا اعتراف کیا ہے، ان شخصیات کے ناموں کوسالوں کی ترتیب سے لکھا گیا ہے۔

پہلی شخصیت جناب ابوبکربن ہارون الرویانی تاریخ وفات ۷۰۳ ھ ہیں جنہوں نے اپنی مخطوطہ”المسند “ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے۔

آخری شخصیت معاصر (ہم عصر) محقق یونس احمد سامرائی ہیں جنہوں نے اپنی کتاب سامراءفی ادب القرن الثالث الہجری“ میں اس بات کو بیان کیا ہے اور یہ کتاب ۸۶۹۱ میں بغداد یونیورسٹی کی مدد سے شائع ہوئی ہے ۔

(ملاحظہ کریں دفاع عن الکافی ج ۱ ص ۸۶۵ ، ۲۹۵ چھٹی دلیل علماءاہل سنت کے اعتراضات)

حضرت امام مہدی ( علیہ السلام ) کی ولادت باریاہل سنت کی کتابوں سے حوالہ جات

حوالہ نمبر ۱:

علامہ ابن الاثیر الجزری عزالدین (تاریخ وفات ۰۳۶) انہوں نے اپنی کتاب الکامل فی التاریح ص ۴۷۲ ،ج ۷ پر، ۰۶۲ ھ ق کے واقعات میں لکھا ہے، اس سال میں ابو محمد العلوی العسکری کی وفات ہوئی، مذہب امامیہ کے تحت وہ گیارہویں امام ہیں اور وہ ہی محمد کے والد ہیں جن کے بارے مذہب امامیہ والوں کا عقیدہ ہے کہ وہ منتظرہیں ۔

حوالہ نمبر ۲:

ابن خلکان (تاریخ وفات ۱۸۶) نے اپنی کتاب وفیات الاعیان ج ۴ ص ۶۷۱ ، ۲۶۵ ،ج ۴ میں تحریر کیا ہے، ابو القاسم محمد بن الحسن العسکری علیہ السلام بن علی الہادی علیہ السلام بن محمد الجواد علیہ السلام (جن کاذکر پہلے ہو چکا) بارہویں امام علیہ السلام ہیں ، امامیہ عقیدہ کے مطابق.... جو بارہ آئمہ علیہ السلام کے قائل ہیں ۔” الحجة“ کے نام سے مشہور ہیں ، ان کی ولادت جمعہ کے دن ۵۱ شعبان ۰۵۵۲ ھ میں ہوئی اسکے بعد انہوں نے مشہور مورخ سیاح ابن الازرق الفارقی (تاریخ وفات ۷۷۵ ھ ق) کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے اپنی تاریخ ”میا فارقین“ میں لکھا ہے کہ مذکورہ” حجت “ ۹ربیع الاول ۸۵۲ ھ کو پیداہوئے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی ولادت ۸ شعبان ۶۵۲ ھ کو ہوئی ہے اور یہ دوسری روایت زیادہ صحیح ہے ۔

ابن الازرق کے قول پر تبصرہ

آپ کی ولادت کے بارے صحیح قول وہی ہے جسے ابن خلکان نے بیان کیا ہے ( ۵۱ شعبان بروز جمعہ ۵۵۲) اسی تاریخ پر شیعوں کا اتفاق ہے اس بارے انہوں نے صحیح روایات کو بنیاد بنایا ہے اور اس کے ساتھ قدیم علماءکے بیانات کو بطور سند بھی پیش کیا ہے الشیخ الکلینیؒ جو غیبت صغریٰ کے زمانہ میں موجود تھے انہوں نے بغیر کسی اختلافی حوالے کے اسی تاریخ کو بیان کیا ہے، اس تاریخ کے مخالف جو روایات ہیں ان سب پر اس تاریخ کو مقدم کیا ہے آپ نے تحریر کیا ہے آپ علیہ السلام ۵۱ شعبان ۵۵۲ ھ کو پیدا ہوئے (اصول الکافی ج ۱ ص ۴۱۵ باب ۵۲۱)

شیخ صدوق ؒ (تاریخ وفات ۱۸۳ ھ) نے اپنے استاد محمد بن محمد بن عصام الکلینی سے اور انہوں نے محمد بن یعقوب الکلینی سے، انہوں نے علی بن محمد بن بندارسے نقل کیا ہے کہ الصاحب علیہ السلام ۵۱ شعبان ۵۵۲ ھ کو پیدا ہوئے ۔

شیخ الکلینی نے اپنے قول کی نسبت علی بن محمد بن بندار سے نہیں دی، اسکی وجہ اس بارے شہرت تھی اور یہ کہ اس تاریخ پرسب کا اتفاق تھا (بہرحال شیعہ امامیہ اثناءعشریہ کے ہاں ۵۱ شعبان ۵۵۲ ھ میں آپ علیہ السلام کی ولادت باسعادت کا ہونا حتمی اور یقینی امر ہے اس پر سب کا اتفاق ہے)

حوالہ نمبر ۳:

الذہبی (تاریخ وفات ۸۴۷ ھ ق)نے اپنی تین کتابوں میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کا اعتراف کیا ہے، انہوں نے اپنی کتاب”العبر فی خبر من غیر ج ۳ ص ۱۳“ میں لکھا ہے ۶۵۲ ھ محمد بن الحسن بن علی الہادی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق العلوی الحسینی پیدا ہوئے وہ ہی ابوالقاسم ہیں ، رافضہ انہیں الخلف، الحجة، المہدی، المنتظر، صاحب الزمان کا لقب دیتے ہیں اور وہ ہی بارہ اماموں سے آخری ہیں ، اس سال میں ان کی ولادت ہوئی ۔

الذہبی نے تاریخ دول الاسلام میں امام حسن العسکری علیہ السلام کے حالات میں تحریر کیا ہے، وہ الحسن بن علی بن محمد بن علی الرضا بن موسیٰ بن جعفر الصادق ہیں ، وہ ابو محمد الہاشمی الحسینی ہیں ، شیعوں کے آئمہ سے ایک ہیں ، شیعہ ان کی عصمت کا دعویٰ کرتے ہیں ، انہیں الحسن العسکری علیہ السلام کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے سامرہ میں زندگی گذاری اور سامرہ کو”عسکر“ کہا جاتاتھا، وہ رافضیوں کے منتظر کے والد ہیں ، وہ اللہ کے رضوان میں چلے گئے، ان کی وفات ۸ ربیع الاول ۰۶۲ ھ کو ہوئی، اس وقت ان کی عمر ۹۲ سال تھی، آپ علیہ السلام اپنے والد کے پہلو میں دفن ہوئے ۔

بہر حال آپ کے بیٹے محمد بن الحسن جنہیں رافضی القائم ، الخلف سے پکارتے ہیں تو وہ ۸۵۲ ھ میں پیدا ہوئے اور بعض نے کہا ہے ۶۵۲ ھ میں پیدا ہوئے ۔

انہوں نے اپنی کتاب سیراعلام النبلاءمیں لکھا ہے۔

المنتظر، الشریف، ابوالقاسم علیہ السلام محمد بن الحسن العسکری علیہ السلام بن علی الہادی علیہ السلام بن محمد الجواد علیہ السلام بن علی الرض علیہ السلام بن موسیٰ الکاظم علیہ السلام بن جعفر الصادق علیہ السلام بن محمد الباقر علیہ السلام بن زین العابدین علی علیہ السلام بن الحسین علیہ السلام الشہید بن الامام علی علیہ السلام بن ابیطالب علیہ السلام ، الحسینی ،ہیں بارہ سرداروں کے خاتم ہیں ۔

ذہبی کی بات پر تبصرہ

الذہبی کی رائے حضرت امام مہدی ( علیہ السلام ) کی ولادت کے متعلق جو تھی اسے ہم نے ان کی کتابوں کے حوالہ سے بیان کر دیا، البتہ حضرت امام مہدی ( علیہ السلام ) کے متعلق اس کا عقیدہ اس کے باقی نظریات کی طرح سراب مانند ہے، جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ وہ بھی دوسرے افراد کی طرح مہدی ( علیہ السلام )کے بارے قائل ہے کہ وہ محمد بن عبد اللہ ہوں گے وہ اپنے اس نظریہ پر اشتباہ اور غلطی پر ہیں کہ مہدی محمد بن عبداللہ ہوں گے لیکن یہ بات ثابت ہوگئی ان کے بیانات سے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند محمد تھے جیسے شیعہ بارہواں مانتے ہیں ۔

حوالہ نمبر ۴:

ابن الوردی (تاریخ وفات ۹۴۷ ھ) نے المختصر المشہور تاریخ ابن الوردی میں لکھا ہے۔ محمد بن الحسن الخالص ۵۵۲ ھ میں پیدا ہوئے۔ (نور الابصار ص ۶۸۱)

حوالہ نمبر ۵:

احمد بن حجرالحیثمی الشافعی (تاریخ وفات ۴۷۹ ھ) نے اپنی کتاب” الصواعق المحرقہ“ کی آخری فصل کے باب ۱۱ میں اس طرح تحریر کیا ہے ”ابو محمد الحسن الخالص،کو ابن خلکان نے عسکری ہی قرار دیا ہے وہ ۲۳۲ ھ میں پیدا ہوئے.... اور سامراءمیں وفات پائی، وہ اپنے بابا اور چچا کے پہلو میں دفن ہوئے ،ان کی عمربوقت وفات ۸۲ سال تھی۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں زہر دیا گیا، وہ اپنے پیچھے سوائے ابوالقاسم محمد الحجة کے سوا کسی کو نہیں چھوڑ گئے، والد کی وفات کے وقت ان کی عمر پانچ سال تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان میں حکمت و دانائی کو رکھ دیا آپ علیہ السلام کو القائم علیہ السلام المنتظرکہا جاتا ہے.... کہا جاتا ہے وہ مدینہ میں مستور اورپوشیدہ اور غائب ہوگئے اور کسی کو معلوم نہیں ہو سکا کہ کہاں چلے گئے

حوالہ نمبر ۶:

الشبراوی الشافعی ( تاریخ وفات ۱۷۱۱ ھ) نے اپنی کتاب ”الاتحاف“ میں حضرت امام مہدی ( علیہ السلام ) محمد بن الحسن العسکری ( علیہ السلام )کی ولادت ،شب ۵۱ شعبان ۵۵۲ ھ لکھا ہے (الاتحاف بحب الاشراف ص ۸۶)

حوالہ نمبر ۷:

مومن بن حسن الشبلنجی (تاریخ وفات ۸۰۳۱ ھ) نے اپنی کتاب نورالابصار میں حضرت امام المہدی ( علیہ السلام )کے نام کا اعتراف کیا ہے اور آپ کے شریف و طاہر نسب کو بیان کیا ہے، آپ کی کنیت اور آپ کے القاب بھی لکھے ہیں ، ایک طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں ، امامیہ کے مذہب میں وہی بارہویں امام ہیں اور آخری امام ہیں ۔

حوالہ نمبر ۸:

خیر الدین الزرکلی (تاریخ وفات ۶۹۳۱ ھ) نے اپنی کتاب” الاعلام“ میں امام المہدی المنتظر ( علیہ السلام ) کے حالات میں لکھا ہے وہ ”محمد بن الحسن العسکری علیہ السلام الخالص بن علی الہادی، ابو القاسم علیہ السلام ہیں ، بارہ آئمہ میں آخری ہیں ، یہ امامیہ کا مذہب ہے، وہ سامراءمیں پیدا ہوئے جس وقت ان کے والد کی وفات ہوئی تو اس وقت ان کی عمر پانچ سال تھی، ان کی ولادت کی تاریخ بارے کہا گیا ہے کہ وہ ۵۱ شعبان کی رات ۵۵۲ ھ میں پیدا ہوئے اور آپ کی غیبت ۵۶۲ ھ میں ہوئی۔

خیر الدین کے بیان پر تبصرہ

غیبت صغریٰ کی ابتداء ۰۶۲ ھ سے ہے، اس پر تمام شیعہ امامیہ کا اتفاق ہے اور جس کسی نے غیبت کی تاریخ لکھی ہے جہاں تک ہماری معلومات ہیں ، سب نے اسی تاریخ کا بتایا ہے شاید جو کچھ” الاعلام“ میں غیبت کے شروع ہونے بارے بیان کیا گیا ہے یہ چھاپنے یا کتابت میں غلطی ہوگئی کیونکہ الزرکلی نے غیبت کی تاریخ درج نہیں کی، عدد کے غلط لکھے جانے کا امکان موجود ہے ۰۶۲ کو ۵۶۲ لکھ دیا ہو۔

ہم نے یہ علماءاہل سنت کے اعترافات سے نمونہ کے چند اقوال اس جگہ بیان کئے ہیں ، ان کے سب اقوال کو اس مختصر کتابچہ میں بیان کرنے کی گنجائش نہ ہے، تفصیلات کےلئے دیکھیں ”المہدی المنتظر فی الفکر الاسلامی“۔

۲ ۔ بارہویں امام( علیہ السلام ) کے نسب اور آپ( علیہ السلام ) کینام بارے

جو بھی اہل سنت کی کتابوں میں موجود احادیث کا غور سے جائزہ لے گا وہ اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ حضرت امام مہدی ( علیہ السلام ) کے نسب اور نام بارے سب کا اتفاق ہے ایسی احادیث کثرت کے ساتھ ساتھ جس حقیقت کو تاکید کے ساتھ بیان کر رہی ہیں یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کا نسب رسول اللہ سے جا ملتا ہے اور یہ کہ آپ اہل البیت علیہ السلام سے ہیں ، بارہ اماموں سے ہیں ، بارہ معصوم آئمہ علیہ السلام کے آخری ہیں اور وہ حضرت محمد بن الحسن العسکری علیہ السلام بن علی الہادی علیہ السلام بن محمد الجواد علیہ السلام بن علی الرض علیہ السلام ، بن موسیٰ الکاظم علیہ السلام بن جعفر الصادق علیہ السلام بن محمد الباقر علیہ السلام بن علی زین العابدین علیہ السلام بن الحسین علیہ السلام بن فاطمہ علیہ السلام بنت رسول اللہ و بن علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں ۔اور ان کا لقب المہدی علیہ السلام ، المنتظر ہے اور یہ بات اس عقیدہ سے ملتی ہے جو شیعہ امامیہ حضرت امام مہدی ( علیہ السلام ) کے بارے لکھتے ہیں ، اس بارے نمونہ کے طورپر چند روایات ملاحظہ ہوں۔

المہدی ( علیہ السلام ) کنانی ہیں ،ہاشمی ہیں

جناب قتادہ سے روایت ہے، وہ کہتاہے میں نے سعید بن المسےب سے سوال کیا کیا المہدی ( علیہ السلام ) برحق ہیں ؟۔

سعید: جی ہاں!برحق ہیں ۔

قنادہ: وہ کن کی نسل سے ہیں ؟۔

سعید: کنانہ قبیلہ سے ہیں ۔

قنادہ: کنانہ قبیلہ کی کون سی شاخ سے ان کا تعلق ہے؟

سعید: قریش سے۔

قنادہ: قریش کی کون سی شاخ سے ہیں ؟

سعید: بنی ہاشم سے ہیں

(بحوالہ عقد الداردالباب الاول ص ۲۴،۴۴ ، مستدرک الحاکم ج ۴ ص ۳۵۵ ، مجمع الزوائد ج ۷ ص ۵۱۱)

اس روایت کے مطابق المہدی، کنانی، قرشی، ہاشمی ہیں اور ان کے القاب میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ ہر ہاشمی قرشی ہوتا ہے اور ہر قرشی کنانہ سے ہے،کیونکہ قریش سے مراد النضر بن کنانہ ہیں ، اس پر تمام علماءانساب کا اتفاق ہے۔

المہدی ( علیہ السلام ) عبدالمطلب ( علیہ السلام ) کی اولاد سے ہیں

ابن ماجہ نے انس بن مالک سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ”ہم عبدالمطلب علیہ السلام کی اولاد جنتیوں کے سردار ہیں ، میں، حمزہ علیہ السلام ، علی علیہ السلام ، جعفر علیہ السلام ، حسن علیہ السلام ، حسین علیہ السلام اور مہدی علیہ السلام “۔

(بحوالہ السنن ابن ماجہ ج ۲ ص ۸۶۳۱ ،حدیث نمبر ۷۸۰۴ ، باب خروج المہدی علیہ السلام ، مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۱۱۲ ، جمع الجوامع للسیوطی ج ۱ ص ۱۵۸)

اس روایت کے مطابق حضرت امام مہدی ( علیہ السلام ) ، حضرت عبدالمطلب ( علیہ السلام ) کی اولاد سے ہیں ۔

المہدی ( علیہ السلام ) ابوطالب ( علیہ السلام ) کی اولاد سے ہیں

سیف بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتا ہے، میں، ابو جعفر المنصور کے پاس تھا اس نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے مجھ سے کہا اے سیف بن عمیرہ ”یہ بات حتمی ہے کہ آسمان سے ابو طالب علیہ السلام کی اولاد سے ایک مرد کے نام کی نداءآئے گی۔

سیف: میں آپ پر قربان جاوں اے امیرالمومنین !کیا آپ اس بات کی روایت کرتے ہیں ؟

ابو جعفر منصور:جی ہاں! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، کیونکہ میرے ان کانوں نے یہ خبر سنی ہے۔

سیف: اے امیرالمومنین !میں نے تو اس سے پہلے اس قسم کی حدیث کہیں نہیں سنی ۔

ابو جعفر منصور: اے سیف! یہ بات برحق ہے اور سچ ہے اور جب یہ نداءآئے گی تو ہم سب سے پہلے ہوں گے جو اس پر لبیک کہیں گے، بہر حال یہ نداءہمارے چچا کی اولاد سے ایک مرد کے نام کی ہوگی۔

سیف: وہ مرد، اولاد فاطمہ (سلام اللہ علیہ ا) سے ہوگا؟

منصور: جی ہاں!اے سیف، اگر میں نے یہ بات ابوجعفر محمد بن علی علیہ السلام سے نہ سنی ہوتی اور انہوں نے میرے لئے یہ بیان نہ کیا ہوتا، تو ان کے علاوہ اگر روئے زمین کے سارے لوگ مل کربھی اس حدیث کی روایت کرتے تو میں اسے قبول نہ کرتا لیکن اس حدیث کو بیان کرنے والے محمد بن علی علیہ السلام ہیں (اسے قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے)

(بحوالہ عقد الدررللمقدسی الشافعی الباب نمبر ۴ ص ۹۴۱ ، ۰۵۱)

یہ روایت تاکید کررہی ہے کہ حضرت امام مہدی ( علیہ السلام ) حضرت ابو طالب ( علیہ السلام ) کی اولاد سے ہیں ۔

حضرت مہدی ( علیہ السلام ) اہل البیت علیہ السلام سے ہیں

ابو سعید الخدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ”قیامت بپا نہیں ہوگی مگر یہ کہ زمین ظلم و جور سے بھر جائے “ اس کے بعد آپ نے فرمایا ”اس حال میں میری عترت اور میرے اہل بیت علیہ السلام سے ایک مرد خروج کرے گا وہ زمین کو عدالت اور انصاف سے بھر دے گا جس طرح زمین ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی “۔

(بحوالہ مسند احمد: ج ۳ ص ۴۲۴ حدیث ۰۲۹۰۱ ، مسند ابی یعلی ج ۲ ص ۴۷۲ حدیث نمبر ۷۸۹ ، المستدرک ج ۴ ص ۷۷۵ ، عقد الدرر باب ۱ موارد الظمان ۴۶۴ حدیث نمبر ۹۷۸۱ ، ۰۸۸۱ ، مقدمہ ابن خلدون ص ۰۵۲ فصل ۳۵ ، جمع الجوامع ج ۱ ص ۲۰۹ ، کنزالعمال ج ۴۱ ص ۱۷۲ حدیث ۱۹۶۸۳ ، ینابیع المودة ۳۳۴ باب ۳۷)

اسی طرح کی روایت عبداللہ ابن عباس نے حضرت نبی اکرم سے نقل کی ہے ، ”قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میرے اہل بیت علیہ السلام سے ایک مرد حکومت کرے گا اس کا نام میرے نام جیسا ہوگا“۔

(حوالہ جات: مسند البزاز ج ۱ ص ۱۸۲ ، مسند احمد: ۱۶۷۳ ، سنن الترمذی ج ۴ ص ۵۰۵ باب نمبر ۲۵ ، حدیث نمبر ۰۳۲۲ ، المعجم الکبیر ج ۰۱ ص ۵۳۱ حدیث ۱۲۲۰۱ ، تاریخ بغداد ج ۴ ص ۸۸۳ ، عقد الدرر: ۹۳ باب ۳ ، مطالب السوول :ج ۲ ص ۱۸ ، السیان فی اخبار صاحب الزمان ص ۱۹ تالیف محمد النوفلی القرشی الکنجی الشافعی، فرائد السمطین ج ۲ ص ۷۲۳ حدیث نمبر ۶۷۵ الدرالمنشور ج ۶ ص ۸۵ ، جمع الجوامع ج ۱ ص ۳۰۹ ، کنزالعمال ج ۴۱ ص ۱۷۴ ، حدیث نمبر ۲۹۶۸۳ ، برہان المتقی ج ۰۹ باب نمبر ۲ حدیث ۴)

حضرت علی ( علیہ السلام ) نے نبی اکرم سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا

”مہدی ( علیہ السلام ) ہم اہل البیت علیہ السلام سے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے واسطے تمام معاملات کو ایک رات میںدرست کر دے گا“۔

(حوالہ جات کے لئے دیکھیں ابن ابی شیبہ ج ۸ ص ۸۷۶ حدیث نمبر ۰۹۱ وفتن ابن حماد: ومسند احمد:ج ۱ ص ۴۸ وتاریخ البخاری ج ۱ ص ۱۷۳ ، حدیث ۴۹۹ ، وسنن ابن ماجة:ج ۲ ص ۷۶۳۱ ، باب ۴۳ حدیث ۵۸۰۴ ، و مسند ابو یعلی: ج ۱ ص ۹۵۳ حدیث ۵۶۴ وحلیة الاولیائ: ج ۳ ص ۷۷۱ والکامل لابن عدی:ج ۷ ص ۳۴۶۲ ، والفردوس: ج ۴ ص ۲۲۲ حدیث نمبر ۹۱۶۶ والبیان فی اخبار صاحب الزمان ۰۱۱ للکنجی الشافعی وعقد الدرر: ۳۸۱ باب ۶ والعلل المتناہیة ج ۲ ص ۶۵۸۲ حدیث ۲۳۴۱ وفرائد السمطین: ج ۲ ص ۱۳۳ حدیث ۳۸۵ ، ومیزان الاعتدال ج ۴ ص ۹۵۳ حدیث ۴۴۴۹ ، ومقدمة ابن خلدون ج ۱ ص ۶۹۳ باب ۳۵ وتہذیب التہذیب ج ۱۱ ص ۲۵۱ حدیث ۴۹۲ ، وعرف السیوطی الحاوی: ج ۲ ص ۳۱۲ والدر المنثورج ۶ ص ۸۵ وجمع الجوامع ج ۱ ص ۹۴۴ والجامع الصغیر ج ۲ ص ۲۷۶ ، حدیث نمبر ۳۴۲۹ وصواعق ابن حجر ص ۳۶۱ باب ۱۱۵ فصل ۱ وکنزالعمال ج ۴۱ ص ۴۶۲ ، حدیث ۴۶۶۸۳ ، وبرہان المتقی ج ۷۸ باب ۱ حدیث ۳۴ ومن ص ۹۸ ، باب ۲ ، حدیث ۱ ، ومرقاة المفاتیح ج ۹ ص ۹۴۳ ، مع اختلاف یسیر وفیض القدیر ج ۶ ص ۸۷۲ ، حدیث ۳۴۲۹)

مہدی ( علیہ السلام ) رسول اللہ کی اولاد سے

عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا

” زمانہ کے آخر میں میری اولادسے ایک مرد خروج کرے گا اس کا نام میرے نام جیسا ہو گا اور اس کی کنیت میری کنیت جیسی ہو گی، وہ زمین کو عدالت سے بھر دے گا(آباد کر دے گا) جس طرح زمین ظلم سے بھر چکی ہوگی (ویران ہو چکی ہوگی) بس وہی شخص ہی مہدی ( علیہ السلام )ہیں “۔

(حوالہ کے لئے دیکھیں تذکرة الخواص ،ص ۳۶۳ ،عقدالدرر ۳۴ باب امنہاج السنہ: ابن تیمیہ ج ۴ ص ۶۸،۷۸)

مہدی ( علیہ السلام ) فاطمہ(سلام اللہ علیہ ا) کی اولاد سے

نبی اکرم کی زوجہ جناب ام سلمہ علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ!

”مہدی ( علیہ السلام ) کا وجود برحق ہے اور وہ فاطمہ علیہ السلام کی اولاد سے ہو گا“۔

(حوالہ: تاریخ البخاری ج ۳ ص ۴۶۳ ، المعجم الکبیر ج ۳۲ ص ۷۶۲ ، حدیث ۶۶۵ ، مستدرک الحاکم ج ۴ ص ۷۷۵)

۲ ۔جناب ام سلمہ علیہ السلام نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایاکہ

”مہدی علیہ السلام میری عترت سے ہوگا اور وہ فاطمہ علیہ السلام کی اولاد سے ہی ہوگا“۔

(حوالہ کے لئے دیکھیں: سنن ابی داود ۴/۴۰۱ ،ح ۴۸۲۴ وسنن ابن ماجة: ۲/۸۶۳۱ ، باب ۴۳ ح ۶۸۰۴ ،والفردوس: ۴/۷۹۴ حدیث نمبر ۳۴۹۶ ومصابیح البغوی: ۳/۲۹۴ باب ۳ حدیث نمبر ۱۱۲۴ وجامع الاصول: ۵/۳۴۳ ،ومطالب السول: ۸ وعقد الدرر: ۶۳ باب ۱ ومیزان الاعتدال: ۲/۷۸ ومشکاة المصابیح: ۳/۴۲ فصل ۲ حدیث ۳۵۴۵ ، وتحفة الاشراف: ۳۱/۸ حدیث ۳۵۱۸۱ والجامع الصغیر: ۲/۲۸۶ حدیث ۱۴۲۹ والدر المنشور: ۶/۸۵ وجمع الجوامع: ۱/۹۴۴ وصواعق ابن حجر: ۱۴۱ باب ۱۱ ،فصل ۱ و،کنزالعمال: ۴۱/۳۶۲ حدیث ۲۶۶۸۳ ومرقاة المفاتیح: ۹/۰۵۳ واسعاف الراغبین: ۵۴۱ وفیض القدیر: ۶/۷۷۲ حدیث ۱۴۲۹ ، والتاج الجامع للاصول: ۵/۳۴۳)

حضرت امام مہدی ( علیہ السلام ) حضرت حسین ( علیہ السلام ) کی اولاد سے ہیں

جناب حذیفہ بن الیمانی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ نے ہم سے خطاب فرمایا اور رسول اللہ نے ہمارے لئے ان حالات کو بیان کیا جو مستقبل میں ہونے والے تھے پھر آپ نے فرمایا ”اگر دنیا کے خاتمہ سے فقط ایک دن باقی رہ گیا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو طولانی کر دے گا یہاں تک کہ اس دن میں میری اولاد سے ایک مردکو مبعوث کرے گا جس کا نام میرانام ہوگا“ بس سلمان الفارسی نے عرض کیا: یارسول اللہ !آپ کی کونسی اولاد سے ہوگا ؟۔

رسول اللہ: میرے اس فرزند سے ہوگا،اور آپ نے قریب بیٹھے اپنے بیٹے حسین علیہ السلام پر ہاتھ مار کر فرمایا: کہ میرے اس بیٹے سے ہوگا ۔

حوالہ:المنار المنیف لابن القیم : ۸۴۱،۹۲۳ فصل ۰۵ ، عن الطبرانی فی الاوسط، عقد الدرر: ۵۴ من الباب الاول وفیہ: اخرجہ الحافظ ابونعیم فی صفة المہدی ،ذخائر العقبیٰ، المحب الطبری: ۶۳۱ وفیہ :فیحمل ماورد مطلقاً فیما تقدم علی ہذاالمقید، فرائد السمطین ۲/۵۲۳،۵۷۵ باب ۱۶ ، القول المختصر لاابن حجر ۷/۷۳ باب ۱ ،فرائد فوائد الفکر: ۲ باب ۱ ، السیرة الحلیبة: ۱/۳۹۱ ، ینابیع المودة: ۳/۳۶ باب ۴۹ ، وہناک احادیث اخری بہذا الخصوص فی مقتل الامام الحسین علیہ السلام للخوارزمی الحنفی: ۱/۶۹۱ ،وفرائدالسمطین : ۲/۰۱۳-۵۱۳ الاحادیث ۱۶۵،۹۶۵ ، وینابیع المودة: ۳/۰۷۱/۲۱۲ باب ۳۹ وباب ۴۹)

اللہ کا انتخاب

ابی سعید الخدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ مریض ہو گئے اور اس بیماری میں آپ پر نقاہت طاری ہوگئی آپ کے پاس جناب فاطمہ(سلام اللہ علیہ ا) عیادت کے لئے تشریف لے آئیں، تو اس وقت میں رسول اللہکی دائیں جانب بیٹھا ہوا تھا پس جب جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہ ا)نے رسول اللہ کی حالت دیکھی اور آپ کی کمزوری کا آپ کو احساس ہوا ،تو جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہ ا) بے اختیار رو دیں اور آپ علیہ السلام کے آنسو جاری ہو گئے، تو اس وقت رسول اللہ نے فرمایا” اے فاطمہ علیہ السلام ! آپ علیہ السلام کو کون سی بات رلا رہی ہے؟ کیا آپ علیہ السلام کو معلوم نہیں اللہ تعالیٰ نے زمین پر آگہی کے لئے نظر ڈالی اور اس پوری زمین سے آپ کے بابا کو چن لیا اور انہیں نبی مبعوث کیا، پھر زمین پر نظر ڈالی اور اس سے تیرے شوہر کا انتخاب کرلیا، پھر مجھے وحی کردی اور میں نے تیرا نکاح ان سے کردیا اور انہیں میںنے اپنا وصی بنا دیا،کیا آپ علیہ السلام اس بات سے باخبر نہیں کہ اللہ کی کرامت آپ علیہ السلام پر ہے، یہ کہ تیرے بابا نے ایسے شخص سے تیرا رشتہ جوڑدیا جو ان سب میں علم کے لحاظ سے زیادہ ہیں ، حلم و حوصلہ مندی میں سب سے زیادہ ہیں اور صلح و سلامتی قائم کرنے میں سب سے آگے، ہیں فاطمہ(سلام اللہ علیہ ا)یہ بات سن کر مسکرائیں اور خوش ہو گئیں۔رسول اللہ نے آپ کو مزید خیر اور فضیلت کی خبردی، تمام وہ فضیلتیں جو اللہ تعالیٰ نے محمدوآل محمد کو عطا فرمائیںہیں ۔

رسول اللہ :اے فاطمہ(سلام اللہ علیہ ا)! علی( علیہ السلام ) کے لئے آٹھ منقبتیں ہیں ، اللہ پر ایمان، اللہ کے رسولوں پر ایمان، حکمت و دانائی، تیری جیسی زوجہ ان کے واسطے، دو سبطین حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام ان کے واسطے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا ان کی خاصیت۔

اے فاطمہ(سلام اللہ علیہ ا) : ہم اہل بیت علیہ السلام جو ہیں ہمیں چھ فضیلتیں عطاءہوئی ہیں اولین اور آخرین میں یہ فضیلتیں اور خوبیاں کسی کو نصیب نہ ہوئیں۔ نہ پہلے والوں نے ان کو پایا نہ بعد میں کوئی ایک بھی فضیلت ان میں سے پائے گا ہمارا نبی خیر الانبیاءاور وہ آپ علیہ السلام کے باپ ہیں ، ہمارا وصی خیر الاوصیاء علیہ السلام اور وہ آپ علیہ السلام کے شوہر ہیں ، ہمارا شہید خیر الشہداء علیہ السلام اوروہ تیرے باپ کے چچا حمزہ( علیہ السلام ) ہیں ، اس امت کے سبطین ہم سے ہیں اور وہ دونوں تیرے بیٹے ہیں اور اس امت کے مہدی( علیہ السلام ) ہم سے ہیں جن کے پیچھے عیسیٰ( علیہ السلام ) نماز ادا کریں گے، پھرحضرت امام حسین( علیہ السلام ) کے کاندھوں پر ہاتھ مار کر فرمایا! اس کی اولاد سے اس امت کے مہدی ( علیہ السلام )ہوں گے ۔(حوالہ کے لئے: البیان ص ۰۲۱ ، باب الفصول المہمہ ص ۶۸۲ ، دارالاضواء،فصل نمبر ۲۱ ینابیع المودة ص ۰۹۴ ، ۳۹۴ ، باب نمبر ۴۹ تھوڑے سے اختلاف سے )

حضرت امام مہدی( علیہ السلام ) کی والدہ کا نام

اور آپ( علیہ السلام ) کا حضرت امام جعفر صادق ( علیہ السلام )کی اولاد سے ہونا

مشہور اہل لغت مفسر ابن خشاب سے بیان ہوا ہے، وہ کہتا ہے: مجھے ابوالقاسم طاہر بن ہارون بن موسیٰ الکاظم نے اپنے باباسے یہ بات نقل فرمائی اور اپنے دادا سے بھی اسی بات کو نقل کیا کہ میرے سردار جعفر بن محمد( علیہ السلام ) نے مجھ سے فرمایا”الخلف الصالح میری اولادسے ہیں اور وہ ہی مہدی( علیہ السلام ) ہیں ، ان کا نام محمد ہے، ان کی کنیت ابوالقاسم علیہ السلام ہے ،وہ آخری زمانہ میں خروج فرمائیںگے “۔ انکی والدہ کو نرجس(سلام اللہ علیہ ا) کہا جاتا ہوگا، انکے سر پر ایک بادل ہوگا جو انہیں سورج کی گرمی سے محفوظ رکھے گا، وہ بادل اس جانب جائےگا جس طرف وہ تشریف لے جائیں گے اور اس بادل سے مسلسل یہ اعلان ہوتا جائے گا اور وہ فصیح اور واضح زبان میں کہہ رہا ہو گا لوگو!یہ مہدی( علیہ السلام ) ہیں تم سب لوگ ان کی پیروی کرو“۔

(بحوالہ ینابیع المودة ص ۱۹۴ حافظ ابونعیم الاصفہانی کی کتاب الاربعین سے اس بات کو نقل کیاہے)

حضرت امام مہدی ( علیہ السلام ) حضرت امام رضا ( علیہ السلام )کی اولاد سے

جناب حسن بن خالد سے روایت ہے، وہ کہتا ہے مجھ سے حضرت علی بن موسیٰ الرضا( علیہ السلام ) نے فرمایا! ”اس کا کوئی دین نہیں ہے جو گناہوں سے خود کونہیں بچاتا تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ کرامت والا وہی ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہوگا“۔

یعنی تم میں سے جو سب سے زیادہ تقویٰ کے بارے آگاہ ہو اور تقویٰ پر عمل کرتا ہو پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا ”میری اولاد سے چوتھے جو کہ سیدة الاماء(کنیزوں کی سردار)کے سردار کے بیٹے ہوں گے ان ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ زمین کو ظلم اور جور سے پاک و طاہر کردے گا( حوالہ :ینابیع المودة ص ۸۴۴،۹۸۴ کتاب فرائدالسمطین سے نقل کیاہے)

حضرت امام مہدی ( علیہ السلام ) کے والد کانام اور ان کا حلیہ مبارک

الرویانی، الطبرانی اور ان کے علاوہ دوسرے مورخین اور محدثین نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ رسول اللہ کا فرمان ہے”مہدی( علیہ السلام ) میری اولاد سے ہیں ،ان کا چہرہ دمکتے چمکتے ستارے کی مانند ہوگا، ان کا رنگ عربی ہوگا، ان کا قدوقامت اسرائیلی مردوں جیسا طویل ہوگا، وہ زمین کو عدالت کے نفاذ سے آباد کردیں گے جس طرح زمین ظلم وجور کے نظام سے ویران و برباد ہو چکی ہوگی، زمین اور آسمان والے ان کی زمین پر قائم خلافت اور حکومت سے خوش ہوں گے ۔

حلیہ مبارک بارے مزید بیان

آپ علیہ السلام کے حلیہ مبارک کے متعلق مزید اس طرح بیان ہوا ہے، آپ جوان ہوں گے، آپ علیہ السلام کی دونوں آنکھیں سرمئی رنگ کی ہوں گی، آپ علیہ السلام کے دونوں جاحب باریک ہوں گے، آپ علیہ السلام کی ناک مبارک اوپر اٹھی طویل ہوگی گھنی داڑھی ہوگی، آپ علیہ السلام کے دائیں رخسار پر خال (تل)ہوگا۔

شیخ قطب الغوث، میرے سردار جناب محی الدین ابن العزبی نے اپنی کتاب الفتوحات میں لکھا ہے یہ بات جان لو کہ حضرت امام مہدی( علیہ السلام ) کا خروج یقینی ہے لیکن وہ خروج نہیں کریں گے یہاں تک کہ زمین ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی، تب وہ آئیں گے اور زمین کو عدالت اور انصاف کے نفاذ سے بھر دیں گے، وہ رسول اللہ کی عترت سے ہیں فاطمہ(سلام اللہ علیہ ا) کی اولاد سے ہیں ، ان کے جد امجد حسین بن علی بن ابی طالب( علیہ السلام ) ہیں اوران کے والد امام الحسن العسکری علیہ السلام بن الامام علی النقی علیہ السلام ہیں ، وہ الامام محمد التقی بن الامام علی رض علیہ السلام بن الامام موسیٰ الکاظم علیہ السلام ابن الامام جعفر الصادق علیہ السلام ابن الامام محمد الباقر علیہ السلام بن الامام زین العابدین علی بن الحسین علیہ السلام بن علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں ، ان کانام رسول اللہ کا نام ہے، رکن اور مقام کے درمیان مسلمان ان کے ہاتھ پربیعت کریں گے، خلقت میں رسول اللہ سے شباہت رکھتے ہوں گے اخلاق بھی رسول اللہوالا ہوگا، تمام انسانوں میں کوفہ والے زیادہ سعادت مند اور خوش قسمت ہوں گے ،مال کو مساوی تقسیم کریں گے،خضر آپ علیہ السلام کے آگے آگے چلیں گے۔

حضرت امام مہدی ( علیہ السلام ) کے اوصاف

حضرت ولی العصر( علیہ السلام ) حجت علیہ السلام خدا صاحب الزمان علیہ السلام کا حلیہ مبارک

ہمارے اس مقالے کا عنوان ہے ”جمال یار“ یہ مقالہ جوادجعفری نے تحریر کیا ہے یہ سہ ماہ جریدے ”انتظار“ کے دوسرے سال کے پانچویں شمارے میں قم المقدسہ ایران سے شائع ہوا ہے یہ مضمون حضرت امام زمانہ( علیہ السلام )کی معرفت کے حوالے سے ہے اور ہر زمانے کے امام علیہ السلام کی معرفت حاصل کرنا اس زمانے کے لوگوں پر واجب ہے یہ معرفت امام زمانہ( علیہ السلام ) کا مسئلہ اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ حضرت نبی کریم نے اپنی آغاز رسالت ہی میں اپنی امت سے کہہ دیاتھا کہ ”جس شخص نے اپنے زمانے کے امام علیہ السلام کی معرفت حاصل نہ کی وہ جہالت اور کفر کی موت مر گیا“۔

حضرت پیغمبر اور ان کے بعد ان کے جانشین آئمہ طاہرین علیہ السلام نے لوگوں کے عقل و فہم اور شعور کو سامنے رکھ کر امام زمانہ( علیہ السلام ) کی شناخت اور معرفت کے حوالے سے مختلف احادیث ارشاد فرمائیں جو مختلف کتب میں موجود ہیں ان میں عقلی دلائل بھی موجود ہیں ، قرآنی استدلال بھی ہیں اور روایات بھی ہیں سابقہ انبیاء علیہ السلام کے حوالے بھی ہیں البتہ ان میں سے ہر شخص اپنے علم اور شعور و آگاہی کے ذریعے ہی اپنے ظرف کے مطابق اخذ کرتا ہے.... بہر حال امام زمانہ( علیہ السلام ) کی معرفت ہر حال میں معاشرے کے تمام طبقات پر لازم اور واجب ہے، حضرت نبی اکرم اور آئمہ معصومین علیہ السلام نے معاشرے کے تمام طبقوں کو مدنظر رکھ کر احادیث بیان فرمائی ہیں اور یہ سادہ سے سادہ اور دقیق سے دقیق نہج پر ہر طبقہ کے لئے موجود ہیں ۔

زیر نظر مقالہ حضرت امام زمانہ( علیہ السلام ) کے حوالے سے ہے اور ظاہر ہے ان کی معرفت اور پہچان ایک خاص اہمیت کی حامل ہے.... اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے جتنے امام علیہ السلام رہے، ہر زندہ امام علیہ السلام نے اپنے بعد میں آنے والے امام علیہ السلام کی معرفت کروائی.... اور امام علیہ السلام کی زندگی میں ہی آئندہ امام علیہ السلام کا تعارف ہو جاتا تھا.... لیکن اس وقت جس امام علیہ السلام کی ہم رعیت ہیں ، امام زمانہ( علیہ السلام ) کی ولادت ہی سے آپ علیہ السلام کا سلسلہ مخفی تھا، کیونکہ یہ آپ علیہ السلام کی حفاظت کے حوالے سے ساراالٰہی انتظام تھا، لہٰذا ان کی پہچان اور معرفت کروانے کے لئے عہدرسالت ہی سے اس کا اہتمام کیا گیا اور حضوراکرم نے نہ فقط یہ بتایا کہ فلاں میرے بارہویں جانشین ہیں م بلکہ اپنے بارہ جانشینوں کے اسماءمبارکہ، ان کے حلیہ ہائے مبارکہ، ان کے خدوخال اور خصوصیات تک کو ذکرکیااور موجودہ امام علیہ السلام کی غیبت کے بارے میں بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا اور یہ تذکرے فقط شیعہ کتب میں ہی نہیں غیر شیعہ کتب میں بھی یہ سب کچھ موجود ہے جیسا کہ آپ اس کتابچہ میں ملاحظہ فرما رہے ہیں بلکہ یہ کہنے میں بھی سو فیصدہم حق بجانب ہیں کہ آخری پیغمبراکرم کے آخری وصی علیہ السلام کا تعارف سابقہ آسمانی کتابوں میں اور سابقہ انبیاء علیہ السلام سے، جو ان کے اوصیاءکے کلمات نقل ہوئے ہیں یا سابقہ امتوں کے جوواقعات نقل ہوئے ہیں ، ان میں بھی یہ تذکرے موجود ہیں اور ابھی بہت سارے ادیان جو انحرافی شکل میں اس دنیا میں موجود ہیں حتیٰ کہ ہندو ازم ،بدھ مت کو بھی لے لیں، تو ان کے ہاں بھی ایک عالمی مصلح کا تصور موجود ہے اور ہر جہت میں یہ واضح ہے ....اس مقالے میں ہم حضرت ولی العصر(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف )کے وجود مبارک اور آپ کے خدوخال کے بارے میں جان سکیں گے اور ہم یہ سب کچھ اس لئے کتابچہ میں دے رہے ہیں تاکہ جو مومنین انتہائی سادہ قسم کے ہیں اور علمی بحثوں سے ان کا سروکار نہیں ہے وہ بھی اپنے وقت کے امام علیہ السلام کی شخصیت اور وجود مبارک کے متعلق آگاہی حاصل کر سکیں، حضرت امام زمانہ(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف )کی ظاہری پانچ صفات ہمارے مدنظر ہیں جو عام لوگوں کے لئے ہیں ، جن کےلئے اپنے زمانے کے امام علیہ السلام کی پہچان کا بہترین راستہ یہی ہے دوسری بات یہ ہے کہ جو عقلی اور نقلی روایات اور قرآنی دلائل سے کسی بات تک نہیں پہنچ سکتے ان کے لئے یہ حتمی اور دو ٹوک رائے بھی ہے ۔

اور اہل علم کے لئے بھی ایک جمالیاتی تذکرہ موجود ہے، نیز جو امامت علیہ السلام کے جھوٹے دعویدار ہیں کہ ان کے دعووں کو جھٹلانے کے لئے بھی یہ دلائل موثر ہیں ۔

مہدويت ایک عنوان و نظریہ ہی نہیں بلکہ ایک مخصوص شخصیت ہیں

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مہدويت علیہ السلام ایک نظریہ اور عنوان ہے اور یہ کسی ایک خاص شخص کے حوالے سے نہیں ہے ....یہ بیان ان کی بات کی بھی رد ہے کہ مہدی(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ) صرف ایک نظریہ اور عنوان ہی نہیں ہے بلکہ وہ ایک حقیقی وواقعی شخصیت ہیں ....وہ ایک معنوی اور تصوراتی چیز نہیں بلکہ ایک حقیقی اور واقعی شخصیت کا نام مہدی علیہ السلام ہے ....نیز عاشقان امام علیہ السلام کے لئے اپنے امام علیہ السلام کے مقدس وجود کو محسوس اور مشاہدہ کرنے کے لئے یہ اوصاف موثرترین ذرےعہ ہیں ۔

اس مقالے میں بحث کی جو روش اختیار کی گئی ہے کہ مختلف افراد جو حضرت نبی اکرم اور آئمہ طاہرین ( علیہ م السلام )کے تشریف لائے تو آپ( علیہ م السلام ) حضرات نے اپنے اس فرزند کی ایک ہی صفت کو مختلف پیرائے اور لفظوں میں بیان کیا ہے۔

ہم نے اس بحث میں اس حوالے سے ملنے والی تمام روایات کو نقل کیا ہے اگر چہ وہ روایات ایک دوسرے سے مشابہت بھی رکھتی ہیں ، مگر تھوڑی سی لفظی تبدیلی کے ساتھ راوی مختلف ہیں مفہوم ایک ہی ہے، ایک اور بات یہ ہے کہ بنیادی طورپر مصادر و مدارک و اسفاءکے تمام تفصیلی حوالے مہیا کئے گئے ہیں بالخصوص دوکتب اکمال الدین اور غیبت نعمانی.... ان کے فارسی تراجم کو سامنے رکھ کر اس کا سادہ اور سلیس اردو ترجمہ کیا ہے ، حضرت ولی العصر( علیہ السلام )کے وجود مبارک کے اعضائے مقدسہ کی تعریف و توصیف میں جوچیز کلی طورپر بیان ہوئی ہے وہ پانچ عناوین کے تحت ہے۔

۱ ۔ حضرت امام زمانہ (عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ) کن کی شبیہ ہیں ۔

۲ ۔ حضرت حجت(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ) خدا کا حسن و جمال ۔

۳ ۔ حضرت صاحب الزمان (عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف )کا سن مبارک۔

۴ ۔ حضرت ولی العصر(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف )کاقدو قامت ۔

۵ ۔ حضرت بقیة اللہ(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ) کے رخسار مبارک۔

اب ہم ان تمام عناوین پر فرداًفرداً روایات پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔

عربی میں تو ایک بات کئی کئی پیرائے سے بیان ہوئی ہے اس کے مقابلے میں اردو زبان کا دامن تنگ نظر آنے لگتا ہے کیونکہ عربی ادب کی فصاحب کے سامنے.... اردو ادب میں ہمیں محدود الفاظ ہی ملیں گے، یہاں ہم وہ مشترکہ باتیں بیان کریں گے جو تمام روایات میں ذکرہوئی ہیں اور اپنے معزز قارئین کے استفادہ کے لئے تمام حوالوں کو تحریر کررہے ہیں تاکہ وہ حسب ضرورت ان کتابوں سے رجوع کرکے مزید تفصیلات جان سکیں