حضرت لقمان کی دس حکمتیں

حضرت لقمان کی دس حکمتیں0%

حضرت لقمان کی دس حکمتیں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

حضرت لقمان کی دس حکمتیں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: محمد محمدی اشتہاردی
زمرہ جات: مشاہدے: 19965
ڈاؤنلوڈ: 2874

تبصرے:

حضرت لقمان کی دس حکمتیں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 11 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 19965 / ڈاؤنلوڈ: 2874
سائز سائز سائز
حضرت لقمان کی دس حکمتیں

حضرت لقمان کی دس حکمتیں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲۔ غرور اور تکبر کے ساتھ چلنا :

خود خواہی اور تکبر سے ظاہر ہونے والی ایک صفت کہ جس کے بارے میں حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اس سے بچنے کی سفارش کی ہے وہ مستی اور مغرورانہ انداز میں چلناہے جو انسان میں موجود بری صفات میں سے ہے اس طریقے سے چلنے والے کو ( مشی مرح یا مستی اور غفلت ) سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

یہ ایک قسم کی بزرگنما‏‏‏ئی ہے یعنی اپنے کو بہت بڑا کرکے دکھانا جو انسان کو سرکش بناتا ہے اسی لئے خداوند متعال نے قرآن مجید میں فرمایا ہے : «( وَ عِبادُ الرَّحْمنِ الَّذينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنا ) ۔۔; اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین میں (فروتنی سے) دبے پاؤں چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے گفتگو کریں تو سلام کہتے ہیں(۱۴۴)

اسی طرح سے فرماتے ہیں : «( وَ لا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبالَ طُولاً ) ۔۔۔۔ ۔۔۔۔;

اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو، بلاشبہ نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ ہی بلندی کے لحاظ سے پہاڑوں تک پہنچ سکتے ہو۔(۱۴۵)

خداوند عالم کا اس طرح سے حکم دینا انسان کے غرور کو ختم کردیتا ہے کہ انسان جتنا بھی تکبر کرے نہ ہی وہ زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ ہی پہاڑوں تک پہنچ سکتا ہے ۔

اسی بناپر خدا وند عالم کی مخلوق کو دیکھتے ہی اپنے کو ایک ناچیز جانے اور ہر قسم کے غرور کو اپنے اندر سے نکال دے نہ کہ دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے ‏‏‏لئے زمین پر اکڑ اکڑ کر چلے ؟ ۔

پیغمبر اسلام اور ا‏‏‏ئمہ معصومین اپنی زندگی کے تمام امور میں حتی کہ چلتے وقت بھی تواضع کی انتہا‏‏‏ئی رعایت کیا کرتے تھے جیساکہ پیغمبر اسلام کا قول ہے کہ «مَنْ‏ مَشَى‏ عَلَى‏ الْأَرْضِ‏ اخْتِيَالًا لَعَنَتْهُ الْأَرْضُ وَ مَنْ تَحْتَهَا وَ مَنْ فَوْقَهَا ;جو شخص زمین پر غرور اور تکبر سے چلتاہے تو جو چیز اس زمین پر ہے اور جو اس زمین کے اندر ہے سب کے سب اس پر لعنت کرتے ہیں ۔(۱۴۶)

ایک دن پیغمبر اسلام کسی گلی سے کزر رہے تھے تو ایک گروہ کودیکھا جو جمع ہو‏‏‏ئے تھے پیغمبر اسلام ان کے پاس جاکر پوچھنے لگے کیا ہوا ہے ؟ تو انہوں نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہو‏‏‏ئے کہا وہ ایک دیوانہ ہے اپنی حرکتیں اور ہنسا دینے والی باتوں سے لوگوں کو اپنی طرف جلب کرتا ہے اور لوگ اس کےتماشا دیکھنے کے لئے جمع ہو‏‏‏ئے ہیں تو پیغمبر اسلام نے ان لوگوں کو کہا یہ شخص کسی بیماری میں مبتلا ہے لیکن کیا میں آپ لوگوں کو بتاؤں کہ حقیقی دیوانہ کون ہے ؟ تو انہوں نے کہا ! ہاں بتا‏‏‏ئیے ؟ تو پیغبر اسلام نے فرمایا:

«الْمُتَبَخْتِرُ فِي‏ مِشْيَتِهِ‏ النَّاظِرُ فِي عِطْفَيْهِ الْمُحَرِّكُ جَنْبَيْهِ بِمَنْكِبَيْهِ فَذَاكَ الْمَجْنُون‏ ; اصل دیوانہ وہ ہے جو مغرور ہو کر چلتا ہے اور ہمیشہ اپنے کاندھوں کو ادھر ا‏‏‏دھر ہلاتا رہتا ہے اور اپنے کو باربار دیکھتا ہے تو ایسا شخص اصلی اور حقیقی دیوانہ ہے ۔(۱۴۷)

امام علی علیہ السلام سے بھی نقل ہواہے کہ اسلام کے ان ابتدا‏‏‏‏‏ئی دنوں میں کسی جنگ کے موقع پر ابودجانہ انصاری اپنے سر پر ایک عمامہ باندھ کر مغرورانہ انداز میں چلنے لگے تو پیغمبر اسلام نے انکو کہا اس طرح کے چلنے کو خداوند عالم پسند نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ جنگ کا میدان ہو جو دشمن کے مقابل میں ہو ۔(۱۴۸)

اس مطلب کو زیادہ واضح اور روشن ہونے کےلئے آپ کی توجہ کو ان احادیث کی طرف مبذول کرتے ہیں ۔

۱۔ بشیر نبال کا کہنا ہے کہ مدینہ کی مسجد میں امام صادق علیہ السلام کے ساتھ بیٹھے ہو‏‏‏ئے تھے اتنے میں کالے رنگ کا ایک غلام جو اپنے پاؤں کو زور زور سے زمین پر مارتے ہو‏‏‏ئے داخل ہو‏‏‏ئے تو امام علیہ السلام نے فرمایا : یہ شخص جبار ہے ۔ تو میں نے امام کو کہا یہ شخص بے چارہ ایک سا‏‏‏ئل ہے تو فرمایا بلکہ وہ جبار ہے ۔(۱۴۹) یعنی اگرچہ وہ فقیر ہے لیکن جب وہ اس انداز سے مستی اور مغرورانہ انداز میں چلتا ہے تو جبار اور ستمکاروں میں سے شمار ہوتا ہے ۔

۲۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : خداوند متعال نے انسان کے تمام اعضاء و جوارح پر ایمان کو واجب قرار دیا ہے اور ان کے درمیان تقسیم کیاہواہے ان میں انسان کے پاؤں پر واجب ہے کہ وہ گناہ کی طرف نہ بڑھیں بلکہ خدا کی راہ میں اٹھے اسی لئے خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ تم زمین پر تکبر اور غرور کے انداز میں نہ چلو یعنی (زمین پر اکڑ کر نہ چلو،)(۱۵۰)

اور اسی طرح سے فرماتے ہیں : چلتے وقت اعتدال کی رعایت کرو ۔(۱۵۱)

۳۔ پیغمبر اسلام کی سیرت میں ملتا ہے جب وہ مرکب پر سوار ہوتے اور چلتے وقت راستے میں جب کو‏‏‏ئی پیدل ان کے مقابل میں آتا تو وہ اس کو اپنے مرکب پر سوار کرتے اور جب وہ سوار ہونے کو قبول نہ کرتا تو پیغمبر اسلام کہتے کہ آپ مجھ سے آگے آگے چلو اور فلان جگہ پر میرے ساتھ ملاقات کرو ۔(۱۵۲)

دسویں حکمت : آواز میں اعتدال :

حضرت لقمان کی آخری نصیحت جو اپنے بیٹے کو کی ہے وہ قرآن مجید میں اس طرح سے بیان ہوا ہے ۔

( وَ اقْصِدْ في‏ مَشْيِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْواتِ لَصَوْتُ الْحَميرِ ) :

اور اپنی چال میں اعتدال رکھو اور اپنی آواز نیچی رکھ، یقینا آوازوں میں سب سے بری گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔(۱۵۳)

اسلام اعتدال اور میانہ روی کا دین ہے یعنی انسان اپنے زندگی کے تمام امور میں افراط اور تفریط سے پرہیز کرے تو یہ اسلام کا اصل رکن شمار ہوتاہے ۔ اسی لئے قرآن مجید میں امت اسلام کو امت وسط سے یاد کیا گیاہے جو تمام عالمین کے لئے نمونہ عمل قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا :

( وَ كَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطا ) ً :

اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنا دیا۔(۱۵۴)

معصومین کی بہت سارے روایات میں نقل ہوا ہے فرمایا :

نحن الامة الوسطی، و نحن شهداء الله علی خلقه و حججه فی ارضه... نحن الشهداء علی الناس... الینا یرجع الغالی و بنا یرجع المقصر ;

ہم امت وسط ہیں اور مخلوق خدا پر ہم گواہ ہیں اور زمین پر ان کے حجت ہیں اور لوگوں پر ہم ہی گواہ ہیں غالی اور مقصر ہمارے طرف لوٹ آ‏‏‏ئیں گے اور ہمیں اپنا الگو قرار دینگے ۔(۱۵۵)

اعتدال کے اقسام میں سے ایک چلتے وقت اعتدال کی رعایت کرنا ہے اس طریقے سے کہ اس کا چلنا مغرورانہ انداز میں یا بے ادبی سے نہ ہو اور سستی اور کاہلی کے حال میں نہ ہو ۔ چلنے کا صحیح طریقہ اور اور انکے آداب کو گزشتہ بحث میں بیان کیا گیا ہے ہم یہاں اسی پر اکتفا کرتے ہیں ۔

اعتدال کی ایک اور قسم آواز میں اعتدال کی رعایت کرنا ہے اور یہ آداب اسلام میں سے ہے کہ انسان اپنی آواز میں اعتدال پیدا کرے۔ یہاں پر اسی بحث کو حضرت لقمان کی آخری نصیحت کے طور پر اس کی وضاحت کریں گے ۔

آواز میں اعتدال کا معنی :

آواز میں اعتدال سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی آواز میں آ‏‏‏‏‏‏داب اسلامی کی اس طریقے سے رعایت کرے کہ اس کا آواز اتنا اونچا نہ ہو کہ جس سے دوسروں کو اذیت ہو تی ہو ۔

اگرچہ اس بات کی طرف توجہ دیتے ہو‏‏‏ئے کہ آواز کئی قسم کی ہے جیسا کہ گاڑیوں کی ہارن کی آواز یں اور مسجدوں اور امام بارگاہوں میں لگے ہو‏‏‏ئے لوڈاسپیکرز کے آوازیں اور خود انسان کی مختلف آوازیں جو دوسروں سے باتیں کرتے وقت یاٹیلیفون پر بات کرتے وقت اور اسی طرح سے غیر طبیعی آوازیں کہ جو انسان کو چھینک آنے سے یا کھانسی کرتے ہو‏‏‏ئے نکلتی ہیں جو انسان کے اختیار میں نہیں ان سب آوازوں کے رعایت کرنی چاہیے ۔

اسی طرح سے دوسری آوازیں جیسا کہ ٹیلی ویژن اور ریڈو اور مختلف کارخانوں کے آوازیں جو عصر حاضر کے ٹیکنالوجی میں شمار ہوتے ہیں ان سب کی آوازیں جو انسان سے سکون اور آرامش کو چھین اس کو اذیت اور آزار کا باعث بنتا ہے بلکہ انسان کے سننے کا جو حس ہوتا ہے اس کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے ۔ اور سا‏‏‏ئنسدانوں کے مطابق اس قسم کی آواز یں انسان کے اعصاب اور دل پر بہت ہی برا اثر رکھتی ہے ۔

ایسی آوازیں جو کبھی شادی بیاہ کے عنوان سے کبھی کسی مجلس اور جشن کے عنوان سے یا کبھی کھیل کود کے میدان سے نکلی ہیں بہت ہی خطرناک قسم کی آوازیں شمار ہوتی ہیں ۔

اور کبھی لڑھا‏‏‏ئی جھگڑے کی صورت میں اور زار و قطار رونے کی آوازیں جو کہ فتنہ و فساد کا باعث بنتے ہیں ان سب کی رعایت کرنی چاہیے اور اگر اس کی رعایت نہ کریں تو انسان میں ضد اور عداوتوں کو اجاگر کرتی ہے کہ جس سے لڑا‏‏‏ئی اور جھگڑے کا باعث بنتا ہے۔ بس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسی آوازیں جو دوسروں کو تکلیف اور اذیت کا باعث بنتے ہیں وہ گناہان کبیرہ میں شمار ہوتے ہیں جو کہ حق الناس شمار ہوتا ہے یعنی اس گناہ کے لئے اگر کو‏‏‏ئی بندہ توبہ کرنا چاہے تو اس کی قبولیت کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ اس بندے کو راضی کرے کہ جن کی آوازوں کے انکو اذیت پہنچی ہو ۔

اس وقت تک اس کی توبہ قبول نہیں ہوتے ہے جب تک وہ ان کو راضی نہ کریں ۔ لہذا اپنی آوازوں میں آداب کی رعایت کرنے چا‏‏‏ہیے

اور خصوصا ڈرا‏‏‏ئیور حضرات جو کہ اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ گاڑیوں کی رش کی وجہ سے وہ زیادہ جوش میں آتے ہیں اور صبر و تحمل کرنے کے بجا‏‏‏ئے ہارن لگاتے رہتے ہیں کہ جس سے دوسرے لوگوں کو اذیت ہوتی ہے ۔

اسی بنا پر بعض ملکوں میں اس طرح کی آوازوں کے آلودگی سے بچنے کے لئے مختلف قوانین بنایا ہے تاکہ لوگوں کو اذیت نہ ہو اور معاشرے کے اندر اعتدال اور آرامش برقرار رہے ۔ چونکہ معاشرے میں بہت سارے بیمار ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان خطرناک آوازوں کے وجہ سے اپنی جان کو ہاتھ سے دھو بیٹھتے ہیں مثال کے طور پر ایک بندہ دل کی بیماری میں مبتلا ہے جب وہ کسی جگہ سے گزر رہا ہے تو اچانک ایک لڑکا اس کے سامنے سے پٹاخہ پھینک دیتا ہے جس کے پھٹنے سے خطرناک قسم کی آواز نکلتی ہے جس کی وجہ سے وہ دل کا مریض اسی جگہ پر مرجاتا ہے یا اسکو بہت شدید قسم کا چوٹ لگتا ہے ۔ تو ہر انسان اس قسم کے حرکات کو انجام دینے کو پسند نہیں کرتا ہے اور جو یہ کام انجام دیتا ہے ان سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں ۔

اور اس بات کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ٹیلیفون پر کسی کو اذیت کرنا یا دروازے کی گھنٹی مار کر بھاگ جانا اور چیزیں بھیجنے کے خاطر اپنے گاڑی میں لوڈ اسپیکر لگا کر گلی گلی میں اعلان کرنا یہ سب آواز کی آلودگیوں میں سے شمار کرسکتے ہیں جو کہ حق الناس شمار ہوتا ہے ۔

اور اسی طرح سے شاگردوں کے اپنے استاد کے سامنے شور کرنا بھی اسی میں شامل ہوتا ہے ۔

اسی بنا پر ہر قسم کی آواز میں اعتدال کی رعایت کرنی چاہیے تاکہ دوسروں کے لئے اذیت نہ ہو ۔ کیونکہ سکون اور آرامش لوگوں کا حق بنتا ہے اور ان کی رعایت نہ کرنا انکے حق میں تجاوز شمار ہوگا جو بہت بڑا گناہ جرم ہے ۔

آواز پر کنٹرول کرنا قرآن کی نظر میں :

قرآن مجید میں تین جگہوں پر اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔(۱۵۶) کہ ان میں سے دو ایسے موارد ہیں کہ جن میں پیغمبر اسلام سے بات کرنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے ۔اور ان میں سے ایک مورد ایسا ہے جس میں حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کی ہو‏‏‏‏‏‏ئی نصیحتوں میں سے جانا گیا ہے ۔حضرت لقمان کی اس نصیحت میں جیساکہ ابتدا کلام میں بیان ہوا اس طرح سے بیان ہو رہا ہے ۔

( وَ اقْصِدْ فىِ مَشْيِكَ وَ اغْضُضْ مِن صَوْتِكَ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الحْمِير ) )

اور اپنی چال میں اعتدال رکھو اور اپنی آواز نیچی رکھ، یقینا آوازوں میں سب سے بری گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔(۱۵۷)

اس آیت میں دو اہم مطلب کو بیان کیا ہے ۔

پہلا یہ کہ : جب آپ کسی سے بات کرتے ہو یا اس کو آواز دیتے ہو تو اپنی آواز کو دھیمی رکھو یعنی اپنی آواز کو اونچی نہ کرو ۔

لفظ ( غض ) اصل میں آواز کو دھیمی رکھنے کے معنی میں ہے یعنی بلندی سے نیچے کی طرف آنے کے معنی میں ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اپنی آواز کو بالکل ہی نرم اور ہلکا آواز میں بات کرو اور چیخنے اور پکارنے سے بچو !

اور دوسرا یہ کہ : حضرت لقمان کی اس نصیحت میں اونچی آوازوں کو گدھوں کی آواز کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔ اگرچہ اس سے بڑھ کر خوفناک آوازیں ہیں لیکن اسی کے ساتھ تشبیہ دینا اس کی عمومیت کے وجہ ہے جو کہ اس قسم کی مثالیں ہر زمان اور ہر جگہ پر پا‏‏‏ئے جاتے ہیں جو عمومیت کی بنا پر ہے اور بہت ہی واضح اور روشن ہے ۔

اور اس کے علاوہ کہ یہ آواز دوسرے آوازوں سے بہت ہی خوفناک اور بری ہے کبھی بغیر کسی مقصد اور ہدف کے بے اختیار نکلتی ہے جس طرح سے انسان کے منہ سے نکلنے والی وہ آوازیں اور نعرے جو بغیر کسی مقصد کے ہوتے ہیں ۔

امام صادق علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:

(هی العطیسة المرتفعة القبیحة ...;)

یعنی بلند آواز میں چھینگنا بہت ہی برا ہے ۔(۱۵۸) ‏‏‏

اور بعض مفسرین سے بھی نقل ہواہے کہ

(أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ )

سے مراد بری آواز ہے اور کدھے کی آواز دوسرے حیوانوں کے نسبت سے بہت ہے برا ہے چونکہ اس کی آواز کی ابتداء میں برے سانسوں سے شروع ہوتا ہے پھر اس کے بعد بری آواز نکلتی ہے ۔(۱۶۱)

اور انسانوں میں سے بھی بعض ایسے ہیں جو جو گہری سانسوں کے ساتھ باتیں کرنا شروع کرتے ہیں ۔

قرآن مجید میں دو ایسے موارد کو بیان کیا گیا ہے کہ جن میں آواز میں اعتدال اور اس کی رعایت کرنے کے بارے میں ذکر ہوا ہے جیساکہ سورہ حجرات میں ارشاد ہوتاہے ۔

( يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَرْفَعُواْ أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبىِ‏ِّ وَ لَا تجَهَرُواْ لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تحَبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَ أَنتُمْ لَا تَشْعُرُون ) :

اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات نہ کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال حبط ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔(۱۶۲)

اور اس کے بعد والی دو آیتوں میں ارشاد ہوتا ہے ۔

جو لوگ اللہ کے رسول کے سامنے دھیمی آواز میں بات کرتے ہیں بلاشبہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ نے تقویٰ کے لیے آزما لیے ہیں ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے ۔ جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں بلاشبہ ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔

ان آیتوں میں بیان ہورہا ہے کہ پیغمبر اسلام اور ا‏‏‏ئمہ معصومین کے سامنے بات کرتے وقت آداب کی رعایت کرے اور کبھی بھی ان کے سامنے اپنی آواز کو بلند نہ کرے اور ان سے برے الفاظ میں بات نہ کرے انکی حرمت کی حفاظت کرے اور نازیبا الفاظ استعمال کرنے سے پرہیز کرے ۔ جیسا کہ امام سجاد علیہ السلام استاد اور شاگرد کے درمیان حقوق کو بیان کرتے ہو‏‏‏ئے فرماتے ہیں ۔

شاگر د کا اپنے استاد پر حق یہ ہے کہ وہ اپنے استاد کے سامنے بلند آواز میں بات نہ کرے ۔(۱۶۳)

نتیجہ یہ ہے کہ : ان آیات میں آداب اسلامی کی رعایت کرنے اور لوگوں کے سامنے بات کرتے وقت اپنی آواز میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے کو بیان کرتے ہے اور خصوصا پیغمبر اسلام اور ا‏‏‏ئمہ معصومین کے سامنے ان آداب کی رعایت کرنے کی زیادہ تاکید ہو‏‏‏ئی ہے ۔۔

آواز میں اعتدال بزرگوں کے کلام میں :

پیغمبر اسلام کا فرمان ہے :

ان الله یحب الصوت الخفیض، و یبغض الصوت الرفیع;

خداوند عالم نرم اور دھیمی آواز کو پسند کرتا ہے اور ا‏‏‏وچی آواز کو پسند نہیں کرتا ہے ۔(۱۶۴)

اور امام علی علیہ السلام جہاد کے بارے میں فرماتے ہیں :

«و امیتوا الاصوات فانه اطرد للفشل;

جنگ کے میدان میں ایک دوسرے سے بحث کرنے پرہیز کریں یہ سستی اور کاہلی کو دور کرتی ہے ۔(۱۶۵)

امام کسی اور کلام میں فرماتے ہیں اپنی آواز کو بلند نہ کرنا اور اپنی آنکھوں کو جھکا‏‏‏ئے رکھنا اور بولتے وقت اپنی آواز میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنا چونکہ یہ ایمان کی نشانی ہے اور اچھی دینداری شمار ہوتی ہے ۔(۱۶۶)

استثناءات :

البته اس بات کی طرف متوجه رهنا چاہیے کہ بعض موارد ایسے ہیں کہ جن میں آو‏‏‏از کو بلند کرنا اچھا اور پسندیدہ ہے ۔ مثال کے طور پر ظالم کے ظلم کے خلاف آواز کو بلند کرنا اور اپنے حق کا دفاع کرتے ہو‏‏‏ئے آواز کو بلند کرنا اور اس کے علاوہ وہ موارد کہ جہاں پر قرآن مجید کی محفلیں ہوتی ہے یا علمی مباحثے اور مناظرے ہوتے ہیں تو ان موارد میں آواز کو بلند کرنا پسندیدہ اور قابل ستایش ہے ۔

اسی لئے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ۔

( «لَّا يحُبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ وَ كاَنَ اللَّهُ سمَيعًا عَلِيمًا ) ۔

اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی (کسی کی) برملا برائی کرے، مگر یہ کہ مظلوم واقع ہوا ہو اور اللہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔

یہاں پر ( جہر ) سے مراد آشکار اور کھل کر بات کرنا ہے جو انسان کی باتوں کے ساتھ مربوط ہے تو بس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کربلا والوں کی مظلومیت اور ان کی فریادیں اسی آیت کے مصداق ہیں ۔

روایت میں آ‏‏‏ئی ہے پیغمبر اسلام کا صحابی ( ثابت بن قیس )جو کہ خطیب تھے جب سورہ حجرات کی آیت ۲ کے نزول کے بارے میں سن لیا کہ (۔۔اونچی آواز میں بات کرنے سے انسان کے اعمال ضایع ہونے کا باعث بنتا ہے ۔)تو اس کو بہت دکھ ہوا لیکن پیغمبر اسلام نے ان کو کہا آپ ڈرے نہیں آپ کی وہ بلند آواز خطابت اور تقریر کے خاطر ہے آپ کے حساب دوسروں سے جدا ہے۔(۱۶۷)

انہی استثناءات میں سے ایک نماز کی حالت میں بلند آواز سے آذان دینا ہے اور حج انجام دیتے وقت بلند آواز میں لبیک کہنا ہے ۔ پیغمبر اسلام کا فرمان ہے

«یغفر للمؤذن مد صوته و بصره;

مؤذن کی آواز جس حد تک دور جاتی ہیں اتنا ہی اس کو بخش دیا جاتا ہے۔(۱۶۸)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس حد تک ممکن ہو اتنا ہی بلند آواز میں آذان دینی چاہیے تاکہ کہ آواز دو‏‏‏ر دور تک جا‏‏‏ئے اور اتنا ہی زیادہ ثواب ملے ۔

اور اسی طرح سے استکبار اور طاغوت کے خلاف جو آوازیں اور شعار بلند ہوتے ہیں جو اپنے حق کے دفاع کي خاطر هوتے ہیں وہ بھی انہی استثنا‏‏‏ءات میں سے شمار ہوتے ہیں یہ آوازیں جتنا ہی بلند ہوگا اتنا ہی دشمن کی پستی اور انکے ذلیل ہونے کا باعث بنے گا۔

لیکن صرف ان کچھ موارد کے علاوہ کسی اور مورد میں انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ آپنی آواز کوبلند کرے چونکہ اس سے مؤمنین کی حقارت کا باعث ہوتا ہے ۔

امام خمینی کی ایک نصیحت :

لوڈ اسپیکر پر آواز کو بلند نہ کرنے کی طرف امام خمینی کی سفارش :

امام خمینی ان بے جا آوازوں کے بارے میں جو دوسروں کے لئے مزاحمت کا باعث بنتے ہیں اگرچہ وہ عبادت کے عنوان سے ہی کیوں نہ ہو ان سے پرہیز کرنے کی نصیحت کرتےہیں ۔

ہم یہاں پر بطور نمونہ امام خمینی کی دو نصحیتوں کو ذکر کریں گے ۔

۱۔ امام کی یہ نصیحت ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے مجالس میں یا امام بارگاہوں میں اوڈ اسپیکر لگاتے ہیں وہ دوسرے ضعیف اور کمزور لوگوں کی رعایت کریں کیونکہ ان میں بہت سارے بیمار اور بوڑھے لوگ موجود ہوتے ہیں جو ان کی آوازوں سے تکلیف اور اذیت ہوتی ہے لہذا لوڈ اسپیکر کو باہر نہ لگایا جا‏‏‏ئے بلکہ ان کو مسجدوں کے اندر ہی لگا‏‏‏ئے اور اسی حد تک ہی محدود رکھے ایسا نہ ہو کہ خدا کی اطاعت کرتے ہو‏‏‏ئے اس کی معصیت کا باعث بنے ۔

اور رمضان کے مہینے کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دوسروں کو آرامش دے ۔۔۔۔۔۔(۱۶۹)

۲۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض ایسے کام ہیں جو ظاہری طور پر اسلامی ہوتے ہیں لیکن بےتوجہی کی وجہ سے وہ غیر اسلامی شمار ہوتےہیں مثال کے طور پر کچھ لوگ دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور ان کا مقصد بھی یہی ہوتا کہ دین کی خدمت کریں لیکن وہ عمل کرتے وقت اس طرح سے انجام دیتے ہیں کہ وہ معصیت اور گناہ شمار ہوتا ہے یعنی اسلام کے نام پر بعض ایسے کام انجام دیتے ہیں جو اصلا اسلام کے ساتھ ہماہنگ نہیں ہوتے ۔ جیسا کہ آدھی رات کو تکبیر کی آوازیں لگاتے اور نعرے لگانا شروع کرتے ہیں کہ جس سے ان کے ہمسایوں کو اذیت کا باعث بنتے ہیں تو ان کی یہ خدمت کرنا گناہ میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔

اگر آپ اپنے گھر میں مجلس پڑھاتے ہیں تو لوڈ اسپیکر کو اسی گھر کے اندر ہی محدود رکھے تاکہ اس کی آواز باہر نہ جا‏‏‏ئے ۔ اگر آپ ایک اچھا کام کرنا چاہتے ہیں تو اس لوڈ اسپیکر کی آواز باہر نہ جانے دیں اور محلہ کے لوگوں کو اذیت نہ ہو ۔ اور اگر ان کو تکلیف پہنچی یا انکو اذیت ہو‏‏‏ئی تو آپ کی یہ خدمت عبادت کے بجا‏‏‏ئے گناہ کبیرہ ہو جا‏‏‏ئےگا چونکہ کسی مسلمان یا مؤمن کو اذیت دینا سب سے بڑا گناہ شمار ہوتا ہے ۔(۱۷۰)

گیا رویں حکمت : قرآن مجید سے بہرہ مند ہونا:

قرآن مجید میں انسان کی اچھی خصوصیات کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے

( وَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُواْ بِايَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يخَرُّواْ عَلَيْهَا صُمًّا وَ عُمْيَانًا ) ۔

اور وہ لوگ جنہیں ان کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جائے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں گرتے۔(۱۷۱)

یہ اہم ترین خصوصیات میں سے ہیں جو خداوند عالم کے خاص بندوں کو حاصل ہوتاہے جو اپنے رابطے کو قرآن کے ساتھ محکم کرتےہیں اور روح قرآن کو اپنے زندگی میں آشکار کرتے ہوں جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام اس آیت اور دوسری آیتوں کی ذیل میں فرماتے ہیں کہ قرآن پڑھنے والے تین قسم کے ہیں ۔

۱۔ جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں لیکن اپنی زندگی کے تمام امور اور اخراجات کے لئے قرآن مجید کو وسیلہ قرار دیتے ہیں اور اسی کے وسیلے سے اپنے خودنما‏‏‏ئی کرتے ہیں ۔

۲۔ وہ لوگ جو قرآن کو پڑھنے کا مقصد اور ہدف قرآن کی حروف اور تجوید کو حفظ کرتے ہیں لیکن اس کی حدود اور قوانین کو تباہ و برباد کرتے ہیں خداوندعالم اس قسم کی گروہ کو زیاد نہ کریں ۔

۳۔ وہ لوگ جو قرآن کو پڑھتے ہیں اور اسی کو اپنے دل کی بیماریوں کے لئے شفا قرار دیتے ہیں ( قرآن کو اپنے معنوی بیماریوں کے لئے وسیلہ قرار دیتے ہیں ) اور اسی کے وسیلہ سے راتوں کو عبادت اور دنوں کو زوزہ رکھتے ہیں ۔

(فوالله لهولإ فى قرإ القرآن اعز من الكبريت الاحمر۔

خدا کی قسم اس طرح کی قرآن پڑھنے والوں کی یہ گروہ کبیرت احمر سے بھی زیادہ کمیاب ہے ۔(۱۷۲)

جب ہم قرآن مجید کی آیات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ ہمارے اوپر قرآن مجید کی دو اہم ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں ۔

۱۔ قرآن مجید کی محتوی کو صحیح طریقے سے پہچاننا ۔

۲۔ اور مفاہیم قرآن پر عمل کرنا :

اس کی وضاحت : قرآن مجید میں خود لفظ قرآن تقریبا ۶۵ مرتبہ ذکر ہو‏‏‏ئی ہے اور کتاب کی ضمن میں کئی مرتبہ یہ لفظ آیا ہے ۔

ان آیات کی طرف توجہ دیتے ہو‏‏‏ئے کہ جن میں قرآن کے بارے میں بات ہو‏‏‏ئی ہے ۔ قرآن مجید کی شناخت اور اس کی محتوای کو درک کرنے اور پھر اسکے بعد قرآن مجید کے احکام پر عمل کرنا مراد ہے ۔ جیسا کہ سورہ فرقان آیت ۷۳ میں اسی مطلب کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ آپ کا رابطہ جو قرآن مجید سے ہونا چاہیے وہ اندھے اور بہرے بن کر نہیں ہونی چاہیے بلکہ بصیرت والی آنکھوں اور سننے والی کانوں کے ساتھ ہونا چاہیے ۔ اس کو صحیح طریقے سے پہچان لیں اور اپنی روح اورروان کی اس کھیتی کو قرآن کی پانی سے سیراب کرنا چاہیے جیساکہ روایت میں آیا ہے کہ امام صادق علیہ السلام کا شاگر د ابوبصیر نے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی تو امام نے کہا۔

(مستبصرين ليسوا بشكاك)۔(۱۷۳)

یعنی اچھی شناخت اور بصیرت کے ساتھ قرآن کی طرف نگاہ کرے اور اس میں کبھی بھی شک و تردید نہ کرے ۔

قرآن مجید کو صحیح معنوں میں پہچاننا اور اس کے مطالب پر یقین رکھنا خدا کے خاص بندوں کے خصوصیات میں سے ہیں ۔

قرآن مجید کے دوسری آیتوں میں بھی ان دو فریضوں کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ اس مطلب کے روشن ہونے کے ‏‏‏‏‏لئے قرآن مجید کی چند آیتوں کو ذکر کریں گے ۔

پہلی ذمہ داری : (قرآن مجید کی شناخت ہے)کہ جس کے بارے میں خود قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔

( أَ فَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْءَانَ أَمْ عَلىَ‏ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ) ۔

کیا لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے لگ گئے ہیں۔(۱۷۴)

اس آیت میں تاکید کے ساتھ ذکر ہوا ہے کہ قرآن مجید ہمیں تعقل اور تدبر اور اس شناخت حاصل کرنے کی تاکید کرتی ہے اور اسی کی طرف دعوت دیتی ہے ۔

کسی اور آیت میں ذکر ہورہا ہے کہ :

( وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْءَانَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِر ) ۔

اور بتحقیق ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیا ہے تو کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟(۱۷۵)

یہ آیت اس بات کی حکایت کرتی ہے کہ خداوند عالم نے قرآن مجید کو تمام انسانوں کے لئے بہت ہی آسان بنا کر بھیجا ہے تاکہ سب لوگ اس کو پہچان سکیں ۔ اس کو پہچاننے کا مقصد اور ہدف انسان کو متنبہ کرنا اور اس پر عمل کرنا ہے ۔

کسی اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔

( وَ إِذَا قُرِئَ الْقُرْءَانُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَ أَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ) ۔

اور جب قرآن پڑھا جائے تو پوری توجہ کے ساتھ اسے سنا کرو اور خاموش رہا کرو ، شاید تم پر رحم کیا جائے۔(۱۷۶)

اس آیت میں یہ بیان ہو رہا ہے کہ جب آپ قرآن کی تلاوت کرتے ہو تو سکون اور آرامش کے ساتھ ان آیات پر دقت کرو کہ یہ قرآن کو سمجھنے کا بہترین طریقہ ہے

اور وہ بہترین ادب جو قرآن کےمقابل ہونا چاہیے وہ اس کو بہترین طریقے سے سننا اور اپنی روح کو قرآن کے ظاہر ی اور باطنی عطر کی خوشبو سے معطر کرنے چاہیے ۔

اور دوسری ذمہ داری) : یعنی قرآن پر عمل کرنا ہے ) اس کے بارے میں بھی قرآن مجید کے چند آیتوں کو ذکر کریں گے ۔

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ :

( إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبهُمْ وَ إِذَا تُلِيَتْ عَلَيهْمْ ءَايَاتُهُ زَادَتهُمْ إِيمَانًا وَ عَلىَ‏ رَبِّهِمْ يَتَوَكلَّون ) ۔

مومن تو صرف وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپ جاتے ہیں اور جب انہیں اس کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔(۱۷۷)

جی ہاں ! مؤمن کے دل میں قرآن کے مقابل میں اس طرح سے خاشع اور ڈر ہو تا ہے کہ قرآن کی آیتوں کو سن کر ان کی ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور خدا کے ساتھ اس کا رابطہ محکم اور مضبوط ہوتا ہے ۔

اسی طرح سے کسی اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

( يَأَيهَّا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَ شِفَاءٌ لِّمَا فىِ الصُّدُورِ وَ هُدًى وَ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِين ) ۔

اے لوگو! تمہارے پروردگار کی طرف سے (یہ قرآن) تمہارے پاس نصیحت اور تمہارے دلوں کی بیماری کے لیے شفا اور مومنین کے لیے ہدایت اور رحمت بن کر آیا ہے۔(۱۷۸)

کسی اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ :

( ...كِتَابٌ أَنزَلْنَهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلىَ النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلىَ‏ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الحَمِيد ) ۔

یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو ان کے رب کے اذن سے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں، غالب آنے والے قابل ستائش اللہ کے راستے کی طرف۔(۱۷۹)

قرآن میں تدبر اور اس پر عمل امام علی علیہ السلام کی نظر میں :

قرآن مجید کی شناخت اور اس کے احکام پر عمل کرنے کے بارے میں نہج البلاغہ میں بہت سارے مطالب بیان ہو‏‏‏ئیں ہیں ان میں ہم یہاں پر چند مطالب کو نمونہ کے طور پر ذکر کریں گے ۔

((و تعلموا القرآن فانه إحسن الحديث, و تفقهوا فيه فانه ربيع القلوب و استشفوا بنوره فانه شفإ الصدور ))(۱۸۰)

قرآن کو یاد کرو کہ اس میں بہترین باتیں ہیں اور اس میں تفکر کرو جو دلوں کی بہار ہے اور اس کی نور سے شفاء حاصل کرو جو دلوں کی شفاء ہے ۔

(۔۔۔تَالِينَ لأَجْزَاءِ الْقُرْآنِ يُرَتِّلُونَهَا تَرْتِيلًا - يُحَزِّنُونَ بِه أَنْفُسَهُمْ ويَسْتَثِيرُونَ بِه دَوَاءَ دَائِهِمْ - فَإِذَا مَرُّوا بِآيَةٍ فِيهَا تَشْوِيقٌ رَكَنُوا إِلَيْهَا طَمَعاً - وتَطَلَّعَتْ نُفُوسُهُمْ إِلَيْهَا شَوْقاً وظَنُّوا أَنَّهَا نُصْبَ أَعْيُنِهِمْ - وإِذَا مَرُّوا بِآيَةٍ فِيهَا تَخْوِيفٌ - أَصْغَوْا إِلَيْهَا مَسَامِعَ قُلُوبِهِمْ - وظَنُّوا أَنَّ زَفِيرَ جَهَنَّمَ وشَهِيقَهَا فِي أُصُولِ آذَانِهِمْ ))(۱۸۱)

پرہیزگار لوگ وہ ہیں جو خوش الحانی کے ساتھ تلاوت قرآن کرتے رہتے ہیں۔اپنے نفس کومحزون رکھتے ہیں اور اسی طرح سے گزرتے ہیں تو دل کے کانوں کو اس کی طرف یوں مصروف کردیتے ہیں جیسے جہنم کے شعلوں کی آواز اور وہاں کی چیخ پکار مسلسل ان کے کانوں تک پہنچ رہی ہو۔

اس طرح کی عبارتیں ہماری ان دو ذمہ داریوں ( یعنی قرآن مجید کی شناخت اور اس کے احکام پر عمل ) پر عمل کرنے کی طرف دعوت دیتی ہے اور یہ بیان کرتی ہے کہ قرآن کی یہ آیتیں مؤمنین کے دل پر اثر رکھتی ہے اور انسان کے فکر اور عمل کوتبدیل کرکے اس کی ترقی کا باعث بنتا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ کتاب ہمارے لئے کو‏‏‏ئی خاص اہمیت نہیں دیتی بلکہ خسارہ کا باعث بنے گا کہ جس کے بارے میں خود قرآن میں ارشاد ہوتا ہے :

وَ لَا يَزِيدُ الظَّلِمِينَ إِلَّا خَسَارًا

ظالموں کے لیے تو صرف خسارے میں اضافہ کرتی ہے۔(۱۸۲) کیونکہ شاعر فرماتا ہے ۔۔

باران كه در لطافت طبعش خلاف نيست

در باغ لا له رويد و در شوره زار خس

قرآن کی اس روح سے وہ لوگ استفادہ کرسکتے ہیں جو پرہیز گار ہو ں اور جن کا وجود جہالت اور شرک و ظلم جیسی بری صفات سے پاک و پاکیزہ ہو ں اور اگر ایسا نہ ہو یہی صفات رزیلہ نہ ہی قرآن کے اس نور کو حاصل کرنے کا باعث نہیں بنتا بلکہ اس نور کے مقابل میں چمکادڑ کی طرح سے کھڑا ہوا گا ۔مثال کے طور پر جب کسی طاقت ور اور سالم کھانا ہو اور اسے کسی عالم دین اور مجاہد کو کھلایا جا‏‏‏ئے تو اس کی تعلیم و تربیت اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے کی قوت میں اضافہ ہوجا‏‏‏ئے گا اور اگر اسی کھانے کو کسی ظالم او‏‏‏ر ستمگر کو کھلایا جا‏‏‏ئے تو اس کی ظلم اور ستم کرنے کی قوت میں اضافہ ہو جا‏‏‏ئے گا تو فرق یہاں اس غذا اور کھانے میں نہیں بلکہ انسان کی مزاج اور فکر میں فرق ہے ۔

نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن مجید صرف انسانوں کی شفا کے لئے ایک نسخہ ہی نہیں بلکہ اسی انسان کے تمام دردوں کے لئے ایک مؤثر دواء ہے چاہے وہ کسی بھی قسم کا درد ہو جیسا فردی اخلاقی اور اجتماعی و سیاسی درد وغیرہ ہو ۔

ایک دن امام علی علیہ السلام اپنے بعض اصحاب ( کہ جنہوں نے قرآن مجید کو اچھے طریقے سے درک کئے ہو‏‏‏ئے تھے اور شہید ہو‏‏‏ئے تھے ) کہنے لگے کہاں ہیں میرے وہ بھائی جو سیدھے راستہ پر چلے اور حق کی راہ پر لگے رہے۔کہاں ہیں عمار ؟ کہاں ہیں ابن التیہان ؟۔کہاں ہیں ذوالشہادتین؟ کہاں ہیں ان کے جیسے ایمانی بھائی جنہوں نے موت کا عہدو پیمان باندھ لیا تھا (یہ کہہ کر آپ نے محاسن شریف پر ہاتھ رکھا اورتادیر گریہ فرماتے رہے اس کے بعد فرمایا :)

(۔۔۔۔۔۔إوه على اخوانى الذين تلوا القرآن فاحكموه ۔۔۔۔۔۔)(۱۸۲)

آہ ! میرے ان بھائیوں پر جنہوں نے قرآن کی تلاوت کی تو اسے مستحکم کیا اور فرائض پر غورو فکر کیا تو انہیں قائم کیا ۔سنتوں کو زندہ کیا اور بدعتوں کو مردہ بنایا۔ انہیں جہاد کے لئے بلایا گیا تو لبیک کہی اور اپنے قائد پر اعتماد کیا تواس کا اتباع بھی کیا۔

امام علی علیہ السلام نے اس عبارت میں ان کی چھ خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے ان میں سے پہلی خصوصیت قرآن مجید کے ساتھ انکا مضبوط اور مستحکم رابطہ ہے ۔

اسی بنا پر امام کی نظر میں ایک بہترین اور ممتاز شاگرد وہی ہو سکتا ہے جو قرآن کے ساتھ نیک اورگہرا رابطہ رکھتا ہو ۔

قرآن سے صحیح استفادہ کرنے والوں کے چند نمونے :

جب سے قرآن مجید نازل ہو‏‏‏ئی ہے اس وقت سے ابھی تک بہت سارے نمونے موجود ہیں ۔

ایسے افراد کہ جنہوں نے بہت ہی عمیق اور گہرے طریقے سے قرآن مجید سے استفادہ کیا ہے اسی قرآن پر عمل کرکے اپنی فکر اور عمل میں تبدیلی لا‏‏‏‏‏‏ئے ہیں اور اسی قرآن کی نور سے اپنی زندگی کے تمام تاریکیوں اور ظلمتوں کو‏‏‏ دور کئے ہو‏‏‏ئے ہیں ۔ ہم یہاں پر انکے چند نمونے ذکر کریں گے ۔

۱۔ ابوذر غفاری کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلام ایک رات کو خدا کی عبادت کرنے کو اٹھے اور ساری رات صرف اس آیت کی تلاوت اور اس کی تفکر میں گزارے :

( إِن تُعَذِّبهُمْ فَإِنهُّمْ عِبَادُكَ وَ إِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الحَكِيم ) ۔(۱۸۳)

اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو تو ہی غالب آنے والا حکمت والا ہے۔ ( یعنی نہ ہی آپ کا عذاب کرنا بے حکمتی کی نشانی ہے اور نہ ہی بخشش آپ کی ضعیفی کی نشانی ہے )

پیغمبر اسلام اس رات کو صبح ہونے تک اسی آیت کو تکرار کرتے رہے ۔(۱۸۴)

۲۔ ام عقیل جو کہ ایک دیہاتی اور مسلمان عورت تھی جو قرآن مجید کے ساتھ بہت ہی گہرا رابطہ رکھتی تھی ایک دن وہ اپنے گھر کے کام میں مشغول تھی انکو بتایا گیا کہ آپ کا ایک بیٹا اونٹوں کے زد میں آکر مرگیا ہے ۔ اس وقت انکے گھر میں دو مہمان تھے لہذا ام عقیل نے انکو کچھ نہیں بتایا تاکہ وہ ناراض نہ ہوجا‏‏‏ئیں اچھے طریقے سے انکی مہمان نوازی کی ان کو کھانا کھلایا ۔

کھانے کے بعد انکو پتہ چلا کہ انکا بیٹا مرگیا ہے انہوں نے ام عقیل کی حوصلہ اور صبر و تحمل دیکھ کر بہت متعجب ہو‏‏‏ئیں جب مہمان چلے گئے تو کچھ لوگ ام عقیل کو تعزیت دینے آ‏‏‏ئے تو ام عقیل نے انکو کہا ( کیا آپ میں سے کو‏‏‏ئی ایسا شخص ہے جو مجھے قرآن کی آیات پڑھ کر تعزیت دے تاکہ میں سکون حاصل کروں ؟ ) تو ان میں سے ایک شخص قرآن کی ان دو آیتوں کے تلاوت کی :

( وَ بَشِّرِ الصَّابرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أُوْلَئكَ عَلَيهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُوْلَئكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ) ۔

اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔جو مصیبت میں مبتلا ہونے کی صورت میں کہتے ہیں: ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پران کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت بھی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔(۱۸۵)

ام عقیل ان آیات کی تلاوت سن کر انکی اضطراب اور پریشانی ختم ہو‏‏‏ئی اور سکون و آرامش حاصل کی اچانک کھڑی ہو‏‏‏ئی اور وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھی نماز کے بعد دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرکے خضوع و خشوع کے ساتھ خدا کی درگاہ میں عرض کرنے لگی خداوندا ! آپ کی حکم ہم تک پہنچ گئی آپ کی اس حکم پر میں صبر کرونگی اور اس صبر کے بدلے میں جو آپ نے اجر اور پاداش رکھا ہے وہ مجھے عطا کرے(۱۸۶)

جی ہاں ! اسی قرآن کے ساتھ انس اور رابطہ اور اس پر عمل کرنے کی وجہ سے انسان کی فکر اور روح میں تبدیلی آجاتی ہے جو اس جیسے ناگوار حادثے کے مقابل میں م انسان کو محکم اور صبور بناتا ہے ۔