• ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10928 / ڈاؤنلوڈ: 3043
سائز سائز سائز
کتاب المومن

کتاب المومن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

تیسری صدی ہجری کی کتاب حدیث

کتاب المومن

تالیف حسین بن سعید اھوازی

تحقیق و ترجمہ سید مرتضی حسین صدر الفاضل

کمپوزنگ: غلام قاسم تسنیمی

ناشرین پروگریسو پبلشرز

۱۶ اردو بازار لاہور

مقدمہ

بزرگان ملت کے آثار کا تحفظ زندہ قوموں کی خصوصیت ہے۔ اور محمد و آل محمد کے تعلیمات کی اشاعت ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔ کتاب المومن، اسی قسم کی ایک خدمت ہے یہ کتاب گردش زمانہ کی ہاتھوں عام نگاہوں سے اوجھل تھی۔ دو تین قلمی نسخے کتاب خانوں کی زینت تھے جن میں سے ایک نسخہ میرے ایک بھائی کی کتابوں سے برآمد ہوا۔ جو میرے لئے از حد خوشی کا باعث تھا۔ کتاب المومن امام رضا علیہ السلام کے صحابی کی تالیف تھی۔ اس لئے فخر بھی ہوا۔

تاریخ تدوین حدیث شیعہ لکھتے ہوئے میں نے محسوس کیا تھا کہ علماء سابقین نے پہلی دوسری صدی ہجری کی چھوٹی چھوٹی تالیفات اور بڑے بڑے کتابوں کو اپنے ضخیم مجموعوں میں جمع کر کے احادیث اور اقوال محمد و آل محمد علیہم السلام کو محفوظ کر لیا۔ یہ ان کا بڑا احسان تھا۔ لیکن اگر وہ مجموعے الگ الگ بھی مل جاتے تو بڑا کام ہوتا۔ کتاب المحاسن، برقی اور کتاب الکافی کلینی کے مصادر مل جاتے۔ اکابر محدثین اور راویان احادیث کے انداز جمع و تدوین کا علم حاصل ہو جاتا۔

کتاب المومن ان کتابوں میں ہے جس سے علامہ برقی اور علامہ کلینی، علامہ طوسی اور علامہ مجلسی نے فائدہ اٹھایا۔ ان کی کتابوں میں اس کی حدیثیں موجود ہیں۔ آج ہم آپ کے سامنے اصل کتاب پیش کر رہے ہیں اور عرب و عجم میں یہ پہلی پیش کش ہے۔

کتاب المومن انسانی حقوق و فرائض کی دستاویز ہے۔ اس کتاب میں اہل ایمان کو باہمی اخوت، ایثار، ہمدردری اور تعاون کا درس دیا گیا ہے۔ آئمہ اہل بیت نے مسلمانوں کی قدر و قیمت سمجھائی ہے۔ سلف نے امیروں کو غریبوں کی خبرگیری کی دعوت دی ہے۔ غریبوں کی عزت نفس اور احترام ذات کا سبق دیا ہے۔ کتاب المومن آئمہ اہلبیت علیہم السلام کے فلسفہ اخلاق و معاشرت کی تعلیم کا مجموعہ اور دین اسلام کے عملی پہلووں کا اہم ذخیرہ ہے۔ کتاب کے آٹھ باب ہیں جیسے جنت کے آٹھ دروازے۔ ہر باب میں عقیدہ و عمل، نیت و ثواب، دعوت و تبلیغ کے رنگا رنگ پہلو سامنے لائے گئے ہیں۔

مومن کی سختیوں کا ذکر، مومنوں کے ثواب کا بیان، مومنوں کی اخوت کا تذکرہ، مومن کا مومن پر حق، مومن کی تکلیف دور کرنے کا ثواب اور اس کی حاجت برآوری کا اجر، مومن کو خوش حال کرنے کا شرف، مومن کی ملاقات اور بیمار پرسی کی تاکید، مومن کو سیر و سیراب کرنے، لباس دینے اور قرض ادا کرنے کے فوائد، مومن کی باہمی احترامات و اعزاز کی تفصیل، زیر نظر کتاب کے مسائل ہیں۔ کم و بیش دو سو حدیثوں میں تمثیل اور تشویق کے طور پر فرائض و احکام کی تفصیل موجود ہے۔ اگر مسلمان اس کتاب پو غور کریں تو انہیں انسان شناسی کی اعلی مثالیں اور اعلی تعلیمات ملیں گے جن پر عمل کرنے سے ہمارے بیمار معاشی اور اخلاقی مشکلات حل ہو سکتے ہیں۔

کتاب المومن کا قلمی نسخہ: میرے پاس جو قلمی کتاب ہے اس کی روشنائی اور کاغذ کی عمر زیادہ سے زیادہ ڈیڑہ سو برس ہوگی، اس کا سائز ۱۸ ضرب ۲۲ بٹا ۸ ہے اس کی پہلی سطر ہے۔

کتاب المومن : تالیف الحسین بن سعید الاھوازی قدس سرہ و ھو کوفی ثقۃ و قد تحول الی قم۔ ثم توفی رحمہ اللہ۔

دوسری سطر: بقم ایضا و لہ کتب جیدہ ۔۔۔۔

آخری صفحے کے دائیں حاشیہ پر یہ لکھ کر کاتب نے قلم روک لیا ہے:

”سلخ محرم“

سولہ ورق یا بتیس صفحے ہیں۔ اور ہر صفحے پر ۲۶ ، ۲۲ ، ۲۱ ، ۲۳ ، ۲۲ سطریں ہیں گویا بائیس سطر اوسط ہے۔ کاتب خوش خط اور بظاہر عالم ہے کہ اغلاط کم ہیں۔ حدیثوں کو مسلسل لکھا ہے۔ کوئی علامت اور امتیاز نہیں ہے۔ چار جگہ حاشیہ پر نسخہ بدل اور تین جگہ تشریحی مختصر حاشیہ ہے۔ نہ کاتب کا نام ہے نہ کتابت کی تاریخ، مگر نسخہ عمدہ ہے۔ پاکستان میں اس کتاب کے کسی نسخے کا سراغ نہ مل سکا۔ خوش قسمتی سے انہی دنوں ایک ایرانی فاضل اور نجفی طالب علم لاہور آئے۔ موصوف نے حجہ الاسلام مولانا سید عبد العزیز طباطبائی کو خط لکھنے کا مشورہ دیا۔ میں نے خط لکھا، جواب آیا:

یک نسخہ از آن در کتابخانه مرکزي دانشگاه تهران ضمن مجموعه ہست، نسخه دیگری ازان در تبريز آقاي سيدايرواني ہست و من از نسخه دانشگاه برائے خودم عکس گرفتم، من یک نسخہ از ایں کتاب دارم و با نسخہ تبریز خودم بردم مقابلہ کردم۔۔۔

یک نسخہ دیگر از کتاب مومن بخط حاجی میرزا حسین نوری در کتاب خانہ آیت اللہ حکیم در نجف است۔۔۔

مکتوب ۲۸ شوال ۱۳۸۸ ھ۔

ان نسخوں نے استفادہ ناممکن تھا۔ اس لیے اپنے ہی نسخہ کو بار بار دیکھتا، پڑھتا رہا اور تا بہ مقدور صحیح کر لیا۔ حدیثوں کو شمار کیا، واضح اور کشادہ مسودہ تیار کیا اور یہ عمل تین مرتبہ ہوا۔ اس کاوش و کوشش میں علامہ مجلسی کا نسخہ بحار کے مجلدات میں بکھرا ہوا ملا، جو شہید کے نسخے کی نقل تھا۔

بے شمار کتابوں کی بار بار ورق گردانی کے بعد اور پانچ مرتبہ از سر نو کتاب لکھ کر بڑی حد تک کام ختم کیا تھا کہ توفیق رفیق ہوئی اور مجھے (صفر ۱۳۸۹ ھ) میں امام موسی کاظم علیہ السلام و امام محمد تقی علیہ السلام کے جوار کاظمین میں، اس کتاب کی چھٹی قرائت کا موقعہ مل گیا۔ میں زیارت کے بعد نصف شب کو کتاب و حواشی لکھ رہا تھا۔ کیا بعید ہے کہ جناب حسین بن سعید یہاں آئے ہوں اور اپنے مخدوم امام سے استفادہ کیا ہو، دل باغ باغ تھا، زبان حمد خدا میں مصروف اور پیشانی سجدہ شکر میں تھی۔ بغداد سے کربلا اور کربلا سے نجف پہنچا اور جناب مولانا عبد العزیز صاحب نے صورت دیکھتے ہی اپنا نسخہ اور کتاب الزھد عاریتا مرحمت فرمایا۔

سرکار مرحوم آیت اللہ السید محسن طباطبائی کی خدمت میں حاضر ہوا۔

سرکار نے از راہ کرم اپنے نسخے کے استعمال کی اجازت مرحمت فرمائی اور میں نے کتب خانہ حکیم میں روبرے حرم اطہر امیر المومنین اپنے نسخے کا اس سے بھی مقابلہ کیا۔ اس طرح مقابلہ و تصحیح کی منزلیں، بلاد آئمہ علیہم السلام میں تمام ہوئیں اور تیسرا شرف یہ ملا کہ حضرت خاتم المحدثین آیت اللہ الشیخ محسن، مشہور بہ آغا بزرگ طہرانی (متوفی ۱۳۸۹) نے اس کتاب کو ملاحظہ فرما ۔۔۔ الذریعہ کے لیے ضروری نوٹ قلم بند فرمائے اور مجھے اجازہ ۔۔ مرحمت فرمایا۔

کتاب مع مقدمہ و تعلیقات و احوال رجال مکمل کر چکا تھا کہ اسی سال حج کی سعادت حاصل ہوئی اور کتاب کی چھٹی نقل یا آخری مسودہ مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ میں پھر نظر سے گزرا۔ حج سے واپسی پر جناب شیخ مہدی حسین صاحب بالقابہ اور ان کے فرزند سعید جناب ظفر مہدی حفظہ اللہ نے اثناء گفتگو میں کتاب شائع کرنے کا ذمہ لے لیا۔ ورنہ اس بے منفعت مادی کتاب کا شائع ہونا مشکل تھا۔ اب موصوف اسی سعادت و ثواب میں برابر کے حصہ دار ہیں۔ میرا شکریہ، صمیمانہ اس پر مستزاد، جناب محمد شریف صاحب نے جس خلوص اور محنت سے کتاب کی کمپوزنگ اور صحت اور خوش حالی کے مراحل انجام دئے اس کیلئے میں بے حد ممنون ہوں۔

کتاب کا اردو اور عربی مقدمہ بہت طویل تھا، فہرست احادیث اور اشاریہ بھی پچاس صفحے کا ہوگا۔ کاغذ نایاب ہونے کی وجہ سے میں نے اسے دوسری اشاعت کے لیے ملتوی کیا اور یہ مختصر مقدمہ از سر نو لکھ کر شریک طباعت کردیا۔

کتاب المومن میں تقریبا ۱۹۹ حدیثیں ہیں۔ ان کے نمبر میرے پاس ہیں، جس میں غلطی کا امکان ہے، ان میں دو، آنحضرت صہ سے چار حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے دو امام زین العابدین علیہ السلام سے سینتیس امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک غالبا امام موسی کاظم علیہ السلام سے تین امام رضا علیہ السلام سے اور باقی امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہیں۔ ان میں سے متعدد روایات کتب اہلسنت میں موجود ہیں۔ روایات عموما مرسل ہیں۔ لیکن دوسری کتابوں میں باسناد موجود ہیں۔ علامہ نوری رحمہ اللہ نے (خاتمہ مستدرک الوسائل ص ۲۹۲) میں کتاب المومن کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: کتاب مذکور جناب حسین بن سعید کی ان تیس کتابوں میں ہے جن کا اعتبار ضرب المثل ہے۔

ترجمہ:

عربی سے ناواقف حضرات کے لیے اس کا اردو ترجمہ ناگذیر تھا۔ ترجمہ آزاد اور مطلب خیز ہے تا کہ اگر کوئی صاحب براہ راست اس سے مستفید ہونا چاہیں تو زحمت نہ ہو۔ متن اور ترجمہ میں اگر کوئی فروگذاشت نظر آئے تو حقیر کو مطلع فرما کر شکر گذار کردیں۔

جناب حسین بن سعید اہوازی

مولف کتاب

حضرت حسین اہوازی کا ذکر تمام بنیادی کتب رجال میں موجود ہے۔ خلاصہ تحقیق یہ ہے۔ کہ

سعید بن حماد بن سعید بن مہران، امام زین العابدین علیہ السلام کے آزاد کردہ غلام تھے اور بظاہر مخلص شیعہ اور علم و فضل کے شیدائی تھے۔ انہوں نے اپنے دو فرزندوں کے نام اپنے دو اماموں کے نام پر رکھے۔ بڑے فرزند کا نام تھا حسن ؒ اور چھوٹے کو حسین ؒ کے نام سے موسوم کیا۔

ولادت

خیال ہے جناب حسین رحمہ اللہ کوفہ میں پیدا ہوئے اور میرے حساب اور اندازے کے مطابق ان کی پیدائش ۱۸۵ ۔ ۱۹۰ ھ کے لگ بھگ ہوئی، کیوں کہ تمام علماء رجال انہیں امام رضا علیہ السلام کے اصحاب میں شمار کرتے ہیں۔

تعلیم و تربیت

حسن بن سعید ان کے بڑے بھائی تھے۔ دونوں بھائیوں نے حدیث و روایت میں شہرت پائی اور فقہ و عقائد پر کتابیں لکھیں۔ اس لیے دونوں حضرات نے اپنے عہد کے علماء و اصحاب آئمہ علیہم السلام سے تعلیم حاصل کی۔ ذہانت و پاکیزہ نفسی میں کمال پایا۔ مشہور ہے کہ دونوں بھائیوں نے مل کر تیس کتابیں لکھی ہیں اور یہ کتابیں مدت مدید تک علماء میں مشہور رہیں۔ ابن ندیم کے بقول: حسن و حسین فرزندان سعید امام رضا علیہ السلام کے صحابی تھے اور اپنے عہد کے بہت بڑے عالم، فقہ، تاریخ اور حدیث و مناقب اور علوم شیعہ کے ماہر تھے۔ کوفہ کے باشندے اور اہواز کے متوطن تھے (الفہرست ابن ندیم، ص ۳۱۰) ۔

شیوخ و اساتذہ:

جناب حسین رحمہ اللہ نے متعدد علماء سے درس لیا ہوگا، بہت سے شیوخ کی خدمت میں حاضری دی ہوگی۔ تین معصوم اماموں کی زیارت کا شرف پایا۔ علماء ان کا احترام کرتے تھے اور محدثین نے ان کی توثیق کی ہے۔ رجال کی کتابوں میں ان کے چند شیوخ کے نام ملتے ہیں جو سب کے سب عظیم المرتبت ہیں۔ مثلا

۱ ۔حماد بن عیسے غریق جحفہ ۲۰۸ ھ۔

۲ ۔ ابو محمد، یونس بن عبد الرحمن المتوفی ۲۰۸ ھ۔

۳ ۔ ابان بن محمد المتوفی ۲۱۰ ھ۔

۴ ۔ ابو محمد البجلی، صفوان بن یحی المتوفی ۲۱۰ ھ۔

۵ ۔ محمد بن ابی عمیر متوفی ۲۱۷ ھ۔

۶ ۔ عبد اللہ بن جبلہ الکنانی متوفی ۲۱۹ ھ۔

۷ ۔ حسن بن فضال متوفی ۲۲۴ ھ۔

۸ ۔ حسن بن محبوب متوفی ۲۲۴ ھ۔

۹ ۔ احمد بن محمد بن عیسے

۱۰ ۔علی بن مہزیار اہوازی۔

یہ حضرات حدیث و فقہ، روایت و درایت کے ستون اور آئمہ اہلبیت علیہم السلام کے خاص اصحاب میں شمار ہوتے ہیں۔ حسین بن سعید نے اپنے بھائی اور مذکورہ شیوخ اصحاب سے کسب فیض کر کے خود علوم و عرفان کے دریا بہائے۔

وطن

جناب حسین بن سعید کے آباء و اجداد مدینہ میں رہتے ہوں گے۔ کیوں کہ امام زین العابدین کا بیشتر قیام مدینہ منورہ ہی میں رہا لیکن جناب حسن رحمہ اللہ و حسین رحمہ اللہ کوفہ میں رہے۔ آخر میں دونوں حضرات اہواز چلے گئےاور اسی نسبت سے مشہور ہوئے۔

وفات

جناب حسین رحمہ اللہ کوفہ سے اہواز اور آخر عمر میں اہواز سے، مرکز علم و ایمان۔ قم میں تشریف لے آئے تھے۔ قم میں حسن بن ابان کے گھر میں قیام تھااور حسن بن ابان ہی کے یہاں وفات پائی۔ تاریخ وفات کسی نے نہیں لکھی۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ واقعہ ۲۵۴ اور ۲۵۶ ھ کے قریب رونما ہوا، ساٹھ ستر کے درمیان عمر ہوگی۔

اولاد

حضرت شیخ الطائفہ ابو جعفر طوسی ؒنے کتاب الرجال میں جناب حسین بن سعید کے ایک صاحب زادے جناب احمدبن حسین کو اصحاب امام علی نقی و اصحاب امام حسن عسکری علیہما السلام میں شمار کیا ہے۔ لیکن ان سے کسی روایت کا سراغ نہیں ملتا۔ احمد بن حسین بن سعید، قم میں رہتے تھے اور غالبا ( ۳۲۰ ھ میں) قم ہی میں رحلت کر گئے۔ ان کی تین کتابوں کے نام کتب فہرست و رجال میں موجود ہیں۔

کتاب الاحتجاج، کتاب الانبیاء، کتاب المثالب

مولفات

جناب حسین بن سعید ثقہ اور متدین عالم اور متعدد کتابوں کے مولف و مصنف اور بلند پایہ محدث تھے۔ ان کی سب نے تعریف کی ہے اور ان کی کتابوں پر سب نے بھروسہ کیا ہے۔ وہ اپنے بھائی جناب حسن بن سعید کے ساتھ تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ دونوں بھائیوں نے مل کر تیس کتابیں قلم بند کیں جن کی موضوع کے اعتبار سے ترتیب یہ ہے:

۱ ۔ کتاب التفسیر۔ (تفسیر میں) تفسیر فرات میں اس کے مطالب نقل کئے گئے ہیں۔ (اعیان الشیعہ ۲۶ ، ۱۰۰) ۔

فقہ میں کتاب الوضوء، کتاب الصلاہ، کتاب الصوم، کتاب الحج، کتاب الزکواہ، کتاب الخمس، کتاب النکاح، کتاب الطلاق، کتاب العتق و التدبیر و المکاتبہ، کتاب الایمان و النذور، کتاب المکاسب، کتاب التجارات و الاجارات، کتاب الوصایا، کتاب الفرائض، کتاب الصید الذبائح، کتاب الاشربہ ، کتاب الشہادات، کتاب الحدود، کتاب الدیات۔

گویا فقہ کا مکمل متن تحریر کیا تھا جو ان کے معاصر اور کچھ بعد کے علماء نے اپنے مجموعوں میں محفوظ کر لیا۔ اصل کتاب آج کل نایاب ہے۔

اخلاق و حقوق، عقائد و مناقب میں:

کتاب المومن، جو صرف جناب حسین بن سعید کی تالیف ہے اور آپ کے سامنے ہے۔

کتاب الزھد، اس کا ایک نسخہ نجف اشرف میں مولانا عبد العزیز صاحب طباطبائی کے پاس دیکھا جو کتاب المومن سے کچھ زیادہ ضخیم ہے۔

کتاب المروہ، کتاب التقیہ، کتاب الملاحم، کتاب الزیارات، کتاب الدعا (اس کتاب کا حوالہ علامہ کفعمی ؒ نے مصباح المتہجد میں اور ابن طاووس نے المجتنی میں دیا ہے)۔ کتاب المناقب، کتاب الرد علی الغلاہ۔

کتاب المومن:

بلا اختلاف یہ کتاب جناب حسین بن سعید ہی کی تالیف ہے۔ البتہ اسے مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔ مثلا بقول نجاشی ؒ: کتاب حقوق المومن و فضلھم۔ بقول طوسی:ؒ

کتاب المومن۔

کتاب ابتلاء المومن

کتاب شدہ ابتلاء المومن، ممکن ہے یہ نام باب اول کے عنوان کی بنا پر لکھے گئے ہوں۔

نسخ مقابلہ اور ان کی علامتیں:

۱ ۔ میرا نسخہ جسے، اصل قرار دیا ہے۔

۲ ۔طباطبائی سے مراد جناب عبد العزیز طباطبائی کا ٖفوٹو گراف نسخہ ہے جس کے اصل کی تاریخ کتابت ۱۴ ربیع الثانی ۱۳۲۵ ھ ہے اور مولانا عبد العزیز صاحب نے نسخہ ایروانی سے اس کی تصحیح کی ہے۔

۳ ۔نسخہ حکیم ؒ یا نوری: علامت ہے حضرت آیت اللہ السید محسن الحکیم کے مملوکہ نسخے کی جسے حضرت محدث جلیل علامہ میرزا نوری ؒ نے جمعہ ۱۴ شوال ۱۲۷۹ ھ میں خود نقل فرمایا تھا۔

۴ ۔مجلسی ؒ: سے مراد وہ نسخہ ہے جس کے حوالے سے علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحار الانوار میں احادیث نقل فرماتے ہیں۔ اور وہ علامہ جباعی کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا۔

ثانوی مآخذ:

۱ ۔ کتاب المحاسن: احمد بن محمد البرقی طبع تہران ۱۳۷۰ ھ۔

۲ ۔ تحف العقول: حسن بن علی الحرانی، طبع تہران ۱۳۷۶ ھ۔

۳ ۔ الکافی، الاصول: محمد ابن یعقوب الکلینی، طبع تہران ۱۳۷۷ ھ۔

۴ ۔ الکافی، الفروع: محمد ابن یعقعوب کلینی طبع تہران ۱۳۱۵ ھ۔

۵ ۔بحار الانوار ج ۱۵: محمد باقر ابن محمد تقی المجلسی طبع تہران ۱۳۳۰ ھ۔

۶ ۔ بحار الانوار ج ۱۶ ، محمد باقر ابن محمد تقی المجلسی طبع تہران طبع ۱۳۱۵ ھ۔

۷ ۔ بحار الانوار، ج ۳ ، محمد باقر ابن محمد تقی المجلسی طبع تہران طبع ۱۳۱۵ ھ۔

۸ ۔ الوافی: محمد ابن مرتضی، طبع تہران ۱۳۲۴ ھ۔

۹ ۔الوافی، فیض الکاشانی، طبع تہران، ۱۳۲۴ ھ۔

۱۰ ۔ الصافی، التفسیر، فیض الکاشانی، طبع تہران، ۱۳۲۴ ھ۔

۱۱ ۔مصادقہ الاخوان: صدوق و مرتضی حسین لاہور، ۱۳۷۸ ھ۔

۱۲ ۔ مصادقہ الاخوان: صدوق و مشکواہ، طبع طہران، ۱۳۷۸ ھ۔

۱۳ ۔ کتاب الخصال: صدوق ؒ، طبع ایران ۱۳۷۴ ھ۔

۱۴ ۔ثواب الاعمال و عقاب الاعمال: صدوق، طبع بغداد ۱۹۶۲ ع۔

۱۵ ۔تنبیہ الخواطر و نزہہ النواظر: شیخ ورام، طبع ایران ۱۳۱۱ ھ۔

۱۶ ۔سفینہ البحار: شیخ عباس قمی، طبع ایران، ۱۳۵۵ ھ۔

۱۷ ۔ مستدرک الوسائل: نوری الطبرسی، طبع اول، ۱۳۵۵ ھ۔

۱۸ ۔ کتاب الاختصاص: شیخ مفید، طبع نجف ۱۳۷۹ ھ۔

۱۹ ۔ معانی الاخبار: صدوق، طہران، ۱۳۷۹ ھ خورشیدی۔

اور دوسرے مصادر جن کا ذکر حاشیہ میں کیا ہے۔

خاکسار

مرتضی حسین عفی عنہ

۲۸ جمادی الاول، ۱۳۹۱ ھ۔

بسم الرحمن الرحیم

رحمن و رحیم، اللہ کی رحمتیں ہوں رسولوں کےسردار(حضرت محمد مصطفی ص) اور ان کے معصوم اہلبیت پر۔

۱ -باب شدة ابتلاء المؤمن‏

۱-عَنْ زُرَارَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع يَقُولُ‏ فِي قَضَاءِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ كُلُّ خَيْرٍ لِلْمُؤْمِنِ ‏.