• ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10156 / ڈاؤنلوڈ: 2490
سائز سائز سائز
کتاب المومن

کتاب المومن

مؤلف:
اردو

پہلا باب: مومن کے امتحان کی سختیاں

۱ ۔ زرارہ بن اعین کہتے ہیں، امام ابو جعفر، محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا، خداوند عالم کے فیصلہ میں مومن کیلئے ہر طرح کی بھلائی ہوتی ہے۔

- وَ عَنِ الصَّادِقِ ع‏ إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا يَقْضِي اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ قَضَاءً إِلَّا كَانَ خَيْراً لَهُ وَ إِنْ مَلَكَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا كَانَ خَيْراً لَهُ‏ ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ فَوَقاهُ اللَّهُ سَيِّئاتِ ما مَكَرُوا ثُمَّ قَالَ أَمَا وَ اللَّهِ لَقَدْ تَسَلَّطُوا عَلَيْهِ وَ قَتَلُوهُ فَأَمَّا مَا وَقَاهُ اللَّهُ فَوَقَاهُ اللَّهُ أَنْ يَعْتُوَ فِي دِينِهِ‏

۲ ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: خداوند عالم، مسلمان کے حق میں ہمیشہ اچھا ہی فیصلہ کرتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ خدا نے مومن آل فرعون کو فرعونیوں کی تدبیروں کے شر سے بچا لیا۔ خدا کی قسم وہ لوگ اس مومن پر مسلط ہو گئے اور اسے قتل کر دیا، مگر خدا نے اس مرد مومن کو یوں بچایا کہ وہ لوگ اسے اس کے دین سے منحرف نہ کر سکے۔

۳-وَ عَنِ الصَّادِقِ ع قَالَ: لَوْ يَعْلَمُ الْمُؤْمِنُ مَا لَهُ فِي الْمَصَائِبِ مِنَ الْأَجْرِ لَتَمَنَّى أَنْ يُقَرَّضَ بِالْمَقَارِيضِ.

۳ ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اگر مومن کو یہ معلوم ہو جائے کہ اسے جو دکھ پہنچ رہے ہیں ان کا اجر کیا ہے، تو وہ قینچی سے اپنی بوٹیاں کٹوانے پر تیار ہوجائے۔ (کیوں کہ اس کے بدلے جو آخرت میں انعامات ملنے والے ہیں وہ ان تکلیفوں کا سب سے بڑا اور دلکش مداوا ہیں)۔

۴-عَنْ سَعْدِ بْنِ طَرِيفٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي جَعْفَرٍ ع فَجَاءَ جَمِيلٌ الْأَزْرَقُ فَدَخَلَ عَلَيْهِ قَالَ فَذَكَرُوا بَلَايَا الشِّيعَةِ وَ مَا يُصِيبُهُمْ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع إِنَّ أُنَاساً أَتَوْا عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ ع وَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ فَذَكَرُوا لَهُمَا نَحْواً مِمَّا ذَكَرْتُمْ قَالَ فَأَتَيَا الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ ع فَذَكَرَا لَهُ ذَلِكَ فَقَالَ الْحُسَيْنُ ع وَ اللَّهِ الْبَلَاءُ وَ الْفَقْرُ وَ الْقَتْلُ أَسْرَعُ إِلَى مَنْ أَحَبَّنَا مِنْ رَكْضِ الْبَرَاذِينِ‏ وَ مِنَ السَّيْلِ إِلَى صِمْرِهِ قُلْتُ وَ مَا الصِّمْرَةُ قَالَ مُنْتَهَاهُ وَ لَوْ لَا أَنْ تَكُونُوا كَذَلِكَ لَرَأَيْنَا أَنَّكُمْ لَسْتُمْ مِنَّا ۔

۴ ۔ ابن طریف نے بیان کیا کہ میں ایک دن امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا اتنے میں جمیل ازرق آ گئے اور شیعوں کے مشکلات اور مصائب کا تذکرہ ہونے لگا، امام نے فرمایا ایک مرتبہ کچھ لوگ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اور عبد اللہ بن عباس کے پاس حاضر ہوئے اور دونوں کے حضور میں یہی باتیں شروع ہو گئیں جن پر تم گفتگو کر رہے ہو۔ وہ دونوں حضرات اٹھے اور امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے خیالات امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں بیان کیے۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:

خدا کی قسم بلائیں اور فقر و فاقہ اور قتل تو ہمارے چاہنے والوں تک یوں آتا ہے جیسے شریف اچھی نسل کا ترکی گھوڑا مہمیز سے دوڑے یا سمرہ کی طرف سیلابی پانی کا بہاو ہو۔ راوی نے پوچھا سمرہ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: آخری حد۔ اور دیکھو، اگر لوگ اس طرح مصائب میں گرفتار نہ ہوں تو ہمیں یہ خیال ہو، کہ تم لوگ ہم سے کوئی وابستگی نہیں رکھتے۔

نکتہ:

ظاہر ہے کہ معاویہ کا دور شیعوں کے مصائب کا عہد شباب تھا، اور امام علیہ السلام کا ارشاد سو فی صد صحیح کربلا میں مصائب اور قتل میں ثابت قدمی، محبت اہلبیت کا سب سے بڑا معیار تھا۔ اس حدیث سے سیرت امام زین العابدین علیہ السلام کا یہ واقعہ بھی معلوم ہوا کہ امام حسین علیہ السلام کے عہد آخر میں آپ کے پاس لوگ آتے تھے اور آپ کی صحبت سے فیض اٹھاتے تھے۔ جن میں ابن عباس بھی تھے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کی نشست اپنے والد بزرگوار سے الگ تھی مگر کسی معاملہ میں آخری بات کے لیے پدر عالیقدر سے رجوع فرماتے تھے۔

۵-وَ عَنِ الْأَصْبَغِ بْنِ نُبَاتَةَ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع قَاعِداً فَجَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَ اللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ فِي اللَّهِ‏ فَقَالَ صَدَقْتَ إِنَّ طِينَتَنَا مَخْزُونَةٌ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَهَا مِنْ صُلْبِ آدَمَ فَاتَّخِذْ لِلْفَقْرِ جِلْبَاباً فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ص يَقُولُ وَ اللَّهِ يَا عَلِيُّ إِنَّ الْفَقْرَ لَأَسْرَعُ [أَسْرَعُ‏] إِلَى مُحِبِّيكَ مِنَ السَّيْلِ إِلَى بَطْنِ الْوَادِي‏.

۵ ۔ اصبغ بن نباتہ کی روایت ہے۔ ایک دن وہ امیرالمومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک شخص آیا اور حضرت سے عرض کرنے لگا یا امیر المومنین خدا کی قسم میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا: ٹھیک ہے مگر ہماری طینت (خمیر) محفوظ امانت ہے۔ خدا نے صلب آدم علیہ السلام سے اس کا میثاق لے لیا تھا۔ اب تم فقر کی چادر کے لیے تیار رہو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس سے سنا۔ خدا کی قسم، یا علی عہ وادی کے نشیب میں پانی کے بہاو سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ تمہارے شیعوں تک فقر پہنچتا ہے۔

نکتہ: مقصدیہ ہےکہ حب محمدوآل محمد کی راہ میں مشکلیں اور زحمتیں اول ہیں۔ ان مشکلوں سے گھبرانا نہیں چاہیے۔

۶-عَنْ الْفُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ إِنَّ الشَّيَاطِينَ أَكْثَرُ عَلَى الْمُؤْمِنِ مِنَ الزَّنَابِيرِ عَلَى اللَّحْمِ‏.

۶ ۔ فضیل بن یسار نےامام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ حضور نے فرمایا: جیسے نیلی مکھیاں گوشت پر چھا جاتی ہیں اس سے زیادہ شیطان مومن کو گھیرتا ہے۔

۷-وَ عَنْ أَحَدِهِمَا ع قَالَ: مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ ابْتَلَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بِمَكْرُوهٍ وَ صَبَرَ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَجْرَ أَلْفِ شَهِيدٍ.

۷ ۔ امام محمد باقر علیہ السلام یا امام جعفر صادق علیہ السلام (کافی ) امام جعفر صاق علیہ السلام سے روایت ہے جو مسلمان کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا اور صبر کرتاہے۔ خدا اسے ہزار شہیدوں کا اجر دیتا ہے۔

۸-وَ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ ع قَالَ: مَا أَحَدٌ مِنْ شِيعَتِنَا يَبْتَلِيهِ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بِبَلِيَّةٍ فَيَصْبِرُ عَلَيْهَا إِلَّا كَانَ لَهُ أَجْرُ أَلْفِ شَهِيدٍ .

۸ ۔ابو الحسن،موسی کاظم علیہ السلام نےفرمایا:جس شیعہ کو خدا آزمایش میں مبتلا کرتا ہے اور وہ صبر کر لیتا ہے تو خدا اسے ہزار شہیدوں کا اجر دیتا ہے۔

۹-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: فِيمَا أَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى ع أَنْ يَا مُوسَى مَا خَلَقْتُ خَلْقاً أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنَ وَ إِنِّي إِنَّمَا أَبْتَلِيهِ لِمَا هُوَ خَيْرٌ لَهُ وَ أُعْطِيهِ لِمَا هُوَ خَيْرٌ لَهُ‏ وَ أَزْوِي عَنْهُ لِمَا هُوَ خَيْرٌ لَهُ وَ أَنَا أَعْلَمُ بِمَا يَصْلُحُ عَلَيْهِ عَبْدِي فَلْيَصْبِرْ عَلَى بَلَائِي وَ لْيَرْضَ بِقَضَائِي وَ لْيَشْكُرْ نَعْمَائِي أَكْتُبْهُ فِي الصِّدِّيقِينَ عِنْدِي إِذَا عَمِلَ بِرِضَائِي وَ أَطَاعَ أَمْرِي‏.

۹ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: خداوند عالم نے حضرت موسی علیہ السلام سے ایک وحی میں ارشاد کیا۔ اے موسی عہ!مجھے اپنے بندہ مومن سے زیادہ اپنی مخلوق میں کوئی محبوب نہیں۔ میں اسے ایسے ہی مشکلات میں مبتلا کرتا ہوں جو اس کیلئے فائدہ مند ہوں۔ پھر اسے جو کچھ دیتا ہوں وہ بھی اس کیلئے بہتر ہوتا ہے۔ جس چیز سے محروم کرتا ہوں اس میں بھی اس کیلئے اچھائی ہوتی ہے۔ میں ہی خوب جانتا ہوں کہ اس کیلئے کیا زیادہ بہتر ہے۔ مومن کو میرے آزمانے پر صبر میرے فیصلوں پر راضی برضا، میری نعمتوں پر شکر کرنا چاہیے۔ میں اسے اپنے صدیقوں میں شامل کر لوں گا اگر میری رضا کے مطابق عمل اور میرے حکم کی فرمانبرداری کرے۔

۱۰-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: كَانَ لِمُوسَى بْنِ عِمْرَانَ أَخٌ فِي اللَّهِ وَ كَانَ مُوسَى يُكْرِمُهُ وَ يُحِبُّهُ وَ يُعَظِّمُهُ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ إِنِّي أُحِبُّ أَنْ تُكَلِّمَ لِي هَذَا الْجَبَّارَ وَ كَانَ الْجَبَّارُ مَلِكاً مِنْ مُلُوكِ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَقَالَ وَ اللَّهِ مَا أَعْرِفُهُ وَ لَا سَأَلْتُهُ حَاجَةً قَطُّ قَالَ وَ مَا عَلَيْكَ مِنْ هَذَا لَعَلَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقْضِي حَاجَتِي عَلَى يَدِكَ فَرَقَّ لَهُ وَ ذَهَبَ مَعَهُ مِنْ غَيْرِ عِلْمِ مُوسَى فَأَتَاهُ وَ دَخَلَ عَلَيْهِ فَلَمَّا رَآهُ الْجَبَّارُ أَدْنَاهُ وَ عَظَّمَهُ فَسَأَلَهُ حَاجَةَ الرَّجُلِ فَقَضَاهَا لَهُ فَلَمْ يَلْبَثْ ذَلِكَ الْجَبَّارُ أَنْ طُعِنَ فَمَاتَ فَحَشَدَ فِي جَنَازَتِهِ أَهْلُ مَمْلَكَتِهِ وَ غُلِّقَتْ لِمَوْتِهِ أَبْوَابُ الْأَسْوَاقِ لِحُضُورِ جَنَازَتِهِ وَ قُضِيَ مِنَ الْقَضَاءِ أَنَّ الشَّابَّ الْمُؤْمِنَ أَخَا مُوسَى مَاتَ يَوْمَ مَاتَ ذَلِكَ الْجَبَّارُ وَ كَانَ أَخُو مُوسَى إِذَا دَخَلَ مَنْزِلَهُ أَغْلَقَ عَلَيْهِ بَابَهُ فَلَا يَصِلُ إِلَيْهِ أَحَدٌ وَ كَانَ مُوسَى إِذَا أَرَادَهُ فَتَحَ الْبَابَ عَنْهُ وَ دَخَلَ عَلَيْهِ وَ إِنَّ مُوسَى نَسِيَهُ‏ ثَلَاثاً فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الرَّابِعُ ذَكَرَهُ مُوسَى فَقَالَ قَدْ تَرَكْتُ أَخِي مُنْذُ ثَلَاثٍ فَلَمْ آتِهِ فَفَتَحَ عَنْهُ الْبَابَ وَ دَخَلَ عَلَيْهِ فَإِذَا الرَّجُلُ مَيِّتٌ وَ إِذَا دَوَابُّ الْأَرْضِ دَبَّتْ إِلَيْهِ فَتَنَاوَلَتْ مِنْ مَحَاسِنِ وَجْهِهِ فَلَمَّا رَآهُ مُوسَى عِنْدَ ذَلِكَ قَالَ يَا رَبِّ عَدُوُّكَ حَشَرْتَ لَهُ النَّاسَ وَ وَلِيُّكَ أَمَتَّهُ فَسَلَّطْتَ عَلَيْهِ دَوَابَّ الْأَرْضِ تَنَاوَلَتْ مِنْ مَحَاسِنِ وَجْهِهِ فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ يَا مُوسَى إِنَّ وَلِيِّي سَأَلَ هَذَا الْجَبَّارَ حَاجَةً فَقَضَاهَا لَهُ فَحَشَدْتُ لَهُ أَهْلَ مَمْلَكَتِهِ لِلصَّلَاةِ عَلَيْهِ لِأُكَافِئَهُ عَنِ الْمُؤْمِنِ بِقَضَاءِ حَاجَتِهِ لِيَخْرُجَ مِنَ الدُّنْيَا وَ لَيْسَ لَهُ عِنْدِي حَسَنَةٌ أُكَافِئُهُ عَلَيْهَا وَ إِنَّ هَذَا الْمُؤْمِنَ سَلَّطْتُ عَلَيْهِ دَوَابَّ الْأَرْضِ لِتَتَنَاوَلَ مِنْ مَحَاسِنِ وَجْهِهِ لِسُؤَالِهِ ذَلِكَ الْجَبَّارَ وَ كَانَ لِي غَيْرَ رَضِيٍّ لِيَخْرُجَ مِنَ الدُّنْيَا وَ مَا لَهُ عِنْدِي ذَنْبٌ‏.

۱۰ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: حضرت موسی عہ بن عمران کے ایک مواخاتی بھائی یا رضائے خدا کیلئے آپ کے دوست تھے۔ حضرت موسی عہ ان کی عزت و تکریم کرتے۔ اور بہت محبت فرماتے تھے۔ اس مرد مومن کے پاس ایک مرتبہ کوئی شخص آیا اور کہنے لگا: جبار سے میری سفارش کر دیجیے۔ جبار، بنی اسرائیل کا بادشاہ تھا۔ اس مومن نے کہا: بخدا، میں نہ اسے جانتا ہوں، نہ کبھی اس سے کوئی درخواست کی ہے۔ سائل نے کہا: تو اس میں آپ کا نقصان ہی کیا ہے؟ ممکن ہے خدا آپ کے ذریعہ میرا یہ کام پورا کرا دے۔ وہ مرد مومن سفارش پر آمادہ ہو گئے اور حضرت موسی عہ سے مشورہ لیے بغیر جبار کے پاس چلے گئے۔ جبار، نے جو انہیں دیکھا، تو بڑی عزت سے پیش آیا، اپنے پاس بھٹایا، اور اس آدمی کا کام دریافت کیا، اور سفارش مان لی۔ کچھ دن بھی نہ گذرے تھے کہ کسی نے اسے زخمی کر دیا جس کی وجہ وہ مر گیا۔ اس کے مرنے پر شہر کے بازار بند ہوگئے اور لوگ جوک در جوک جنازہ میں جمع ہوئے۔ اتفاق دیکھئے کہ حضرت موسی عہ کا جوان، مومن دوست بھی اسی دن وفات پا گیا جس دن جبار، نے رحلت کی تھی۔ اس مومن کی عادت تھی کہ گھر میں آ کر اندر سے کنجی بند کر لیا کرتا تھا جب حضرت موسی عہ آتے تھے تو یہ شخص دروازہ کھولتا تھا اور حضرت موسی عہ گھر میں چلے جاتے تھے۔ حضرت موسی عہ تین دن کے بعد اس سے ملنے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اس مرتبہ تین دن کے بعد چوتھے دن حضرت کو خیال آیا کہ تین دن سے دوست کو نہیں دیکھا، آج چوتھا دن ہے چلنا چاہیے، گھر پہنچے، دروازا کھول کر اندر تشریف لے گئے تو دوست کو مردہ پایا، جنازہ پر کیڑے مکوڑوں کا قبضہ دیکھا۔ جسم کا حسن مٹ چکا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت موسی عہ نے فریاد کی۔ پروردگارا، دشمن کے جنازہ پر وہ مجمع اور ایسی شان تھی، اور دوست کا یہ حال ہے؟ کیڑے مکوڑوں کا قبضہ ہے، جسم کی خوبصورتی مٹ چکی ہے! جواب ملا: موسی عہ میرے دوست نے اس سے ایک درخواست کی تھی۔ میں نے جبار کو مومن کی طرف سے بدلہ دیا، اس کے جنازے کی شان بڑھادی۔ مجمع عظیم جمع ہوا، تا کہ بندہ مومن پر جبار کے احسان کا حق دنیا میں ہی ادا ہو جائے، جب میرے پاس آئے تو کوئی ایسی نیکی لے کر نہ آئے جس کا صلہ وہاں مانگ سکے اور اس مومن پر کیڑے مکوڑوں کو اس لئے مسلط کیا کہ وہ اس کے حسن کو نقصان پہنچائیں۔ اس نے میری رضا کا خیال کئے بغیر اس جبار سے سوال کیوں کیا؟ مطلب یہ تھا کہ جب دنیا سے اٹھے تو اس کے نامہ اعمال میں کوئی گناہ نہ ہو۔

۱۱-وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى إِذَا كَانَ مِنْ أَمْرِهِ أَنْ يُكْرِمَ عَبْداً وَ لَهُ عِنْدَهُ ذَنْبٌ ابْتَلَاهُ بِالسُّقْمِ فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ ابْتَلَاهُ بِالْحَاجَةِ فَإِنْ هُوَ لَمْ يَفْعَلْ شَدَّدَ عَلَيْهِ [عِنْدَ] الْمَوْتِ وَ إِذَا كَانَ مِنْ أَمْرِهِ أَنْ يُهِينَ عَبْداً وَ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةٌ أَصَحَّ بَدَنَهُ فَإِنْ هُوَ لَمْ يَفْعَلْ وَسَّعَ فِي مَعِيشَتِهِ فَإِنْ هُوَ لَمْ يَفْعَلْ هَوَّنَ عَلَيْهِ الْمَوْتَ ‏.

۱۱ ۔حضرت ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا جب خداوند عالم کسی گنہگار بندے کی عزت افزائی چاہتا ہے۔ تو اسے بیماری میں مبتلا کرتا ہے یا پھر کسی ضرورت میں الجھاتا ہے۔ یا پھر موت کی سختی بڑھا دیتا ہے۔ اور جب کسی انسان کے اعمال و کردار قابل سرزنش و سزا ہوں مگر اس کا کوئی قابل تعریف و انعام عمل بھی ہوتو خدا اس کو جسمانی صحت عطا فرماتا ہے اگر یہ نہیں تو اس کی معاشی حالت کو بہتر بنا دیتا ہے، اگر یہ بھی نہیں کرتا تو موت کی سختیاں کم کر دیتا ہے۔

۱۲-وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى وَ عِزَّتِي لَا أُخْرِجُ لِي عَبْداً مِنَ الدُّنْيَا أُرِيدُ رَحْمَتَهُ إِلَّا اسْتَوْفَيْتُ كُلَّ سَيِّئَةٍ هِيَ لَهُ إِمَّا بِالضِّيقِ فِي رِزْقِهِ أَوْ بِبَلَاءٍ فِي جَسَدِهِ وَ إِمَّا خَوْفٍ أُدْخِلُهُ عَلَيْهِ فَإِنْ بَقِيَ عَلَيْهِ شَيْ‏ءٌ شَدَّدْتُ عَلَيْهِ الْمَوْتَ وَ قَالَ ع وَ قَالَ اللَّهُ وَ عِزَّتِي لَا أُخْرِجُ لِي عَبْداً مِنَ الدُّنْيَا وَ أُرِيدُ عَذَابَهُ إِلَّا اسْتَوْفَيْتُهُ كُلَّ حَسَنَةٍ لَهُ إِمَّا بِالسَّعَةِ فِي رِزْقِهِ أَوْ بِالصِّحَّةِ فِي جَسَدِهِ وَ إِمَّا بِأَمْنٍ أُدْخِلُهُ عَلَيْهِ فَإِنْ بَقِيَ عَلَيْهِ شَيْ‏ءٌ هَوَّنْتُ عَلَيْهِ الْمَوْتَ‏.

۱۲ ۔ ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا: خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے۔ میں اپنی عزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔ جس مومن و نیک عمل شخص پر رحمت و انعام کی بارشیں کرنا چاہتا ہوں تو دنیاوی زندگی میں اس کے گناہوں کا بدلہ دے دیتا ہوں کبھی اس کی روزی میں سختی ہوتی ہے، یا جسمانی آزمائش، یا قلبی اور ذہنی پریشانیاں لاحق ہو جاتی ہیں۔اگر اس پر بھی ان گناہوں کے بدلہ میں کچھ کمی رہ جاتی ہے تو موت اور نزع میں سختیاں بڑہ جاتی ہیں۔ خداوند عالم نے فرمایا: میں قسم کھا کر کہتا ہوں جب میں کسی مستحق عذاب انسان کو دنیا سے اٹھاتا ہوں تو اس کے اچھے اعمال کا بدلہ اسی دنیا میں دے دیتا ہوں، یعنی وسعت رزق، یا جسمانی صحت، یا اطمینان خاطر اور پریشانیوں سے دوری یا موت کے وقت آسانی عطا کرتا ہوں۔

۱۳-وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: مَرَّ نَبِيٌّ مِنْ أَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِرَجُلٍ بَعْضُهُ تَحْتَ حَائِطٍ وَ بَعْضُهُ خَارِجٌ مِنْهُ فَمَا كَانَ خَارِجاً مِنْهُ قَدْ نَقَبَتْهُ الطَّيْرُ وَ مَزَّقَتْهُ الْكِلَابُ ثُمَّ مَضَى وَ وقعت [رُفِعَتْ‏] لَهُ مَدِينَةٌ فَدَخَلَهَا فَإِذَا هُوَ بِعَظِيمٍ مِنْ عُظَمَائِهَا مَيِّتٍ عَلَى سَرِيرٍ مُسَجًّى بِالدِّيبَاجِ حَوْلَهُ الْمَجَامِرُفَقَالَ يَا رَبِّ إِنَّكَ حَكَمٌ عَدْلٌ لَا تَجُورُ[ذَاكَ‏] عَبْدُكَ لَمْ يُشْرِكْ بِكَ طَرْفَةَ عَيْنٍ أَمَتَّهُ بِتِلْكَ الْمِيتَةِ وَ هَذَا عَبْدُكَ لَمْ يُؤْمِنْ بِكَ طَرْفَةَ عَيْنٍ أَمَتَّهُ بِهَذِهِ الْمِيتَةِ فَقَالَ [اللَّهُ‏] عَزَّ وَ جَلَّ عَبْدِي أَنَا كَمَا قُلْتَ حَكَمٌ عَدْلٌ لَا أَجُورُ ذَاكَ عَبْدِي كَانَتْ لَهُ عِنْدِي سَيِّئَةٌ وَ ذَنْبٌ فَأَمَتُّهُ بِتِلْكَ الْمِيتَةِ لِكَيْ يَلْقَانِي وَ لَمْ يَبْقَ عَلَيْهِ شَيْ‏ءٌ وَ هَذَا عَبْدِي كَانَتْ لَهُ عِنْدِي حَسَنَةٌ فَأَمَتُّهُ بِهَذِهِ الْمِيتَةِ لِكَيْ يَلْقَانِي وَ لَيْسَ لَهُ عِنْدِي شَيْ‏ءٌ .

۱۳ ۔ ابو جعفر علیہ السلام سے روایت ہے، آپ نے فرمایا: بنی اسرائیل کے ایک نبی نے ایک جگہ دیکھا کہ ایک شخص ایک دیوار میں دبا پڑا ہے، جس کا آدھا حصہ ملبہ میں ہے اور آدھا باہر ہے، جسے پرندوں اور کتوں نے نقصان پہنچایا ہے وہ نبی اس منظر کو دیکھ کر آگے بڑھے اور شہر میں آئے، دوسرا منظر دکھائی دیا، ایک بڑے آدمی کا جنازہ ہے، جس کے تابوت پر قیمتی چادر پڑی ہے، انگیٹھیوں میں خوشبو جل رہی ہے۔ یہ دیکھ کر نبی نے مناجات کی، پروردگارا! تو حاکم عادل اور منصف ہے۔ تو اپنے مومن اور موحد بندے پر عذاب نہیں کرتا۔ مگر کیا راز ہے؟ کہ ایک ایسا شخص جس نے ایک لمحہ کیلئے شرک نہیں کیا اس کی موت ایسی افسوسناک؟ اور یہ شخص جس نے کبھی ایمان قبول نہیں کیا۔ اس کی موت اس قدر قابل رشک؟ جواب ملاـ ہاں! میں منصف حاکم ہوں مگر وہ شخص کچھ گناہ کر چکا تھا، تو میں نے یہ چاہا کہ اسے ایسی موت دی جائے کہ جب میرے حضور میں آئے تو اس کے ذمہ کوئی گناہ باقی نہ رہے۔ اور یہ بندہ کچھ نیکیاں کر چکا تھا اس لئے صلہ میں ایسی موت دی گئی کہ جب میدان حشر میں آئے تو انعام کا استحقاق باقی نہ رہے۔

۱۴-عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ رَفَعَهُ‏ قَالَ: بَيْنَمَا مُوسَى يَمْشِي عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ إِذْ جَاءَ صَيَّادٌ فَخَرَّ لِلشَّمْسِ سَاجِداً وَ تَكَلَّمَ بِالشِّرْكِ ثُمَّ أَلْقَى شَبَكَتَهُ فَأَخْرَجَهَا مَمْلُوءَةً فَأَعَادَهَا فَأَخْرَجَهَا مَمْلُوءَةً ثُمَّ أَعَادَهَا فَأَخْرَجَ مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى اكْتَفَى ثُمَّ مَضَى ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ قَامَ وَ صَلَّى وَ حَمِدَ اللَّهَ وَ أَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ أَلْقَى شَبَكَتَهُ فَلَمْ تُخْرِجْ شَيْئاً ثُمَّ أَعَادَ فَلَمْ تُخْرِجْ شَيْئاً ثُمَّ أَعَادَ فَخَرَجَتْ سَمَكَةٌ صَغِيرَةٌ فَحَمِدَ اللَّهَ وَ أَثْنَى عَلَيْهِ وَ انْصَرَفَ فَقَالَ مُوسَى يَا رَبِّ عَبْدُكَ جَاءَ فَكَفَرَ بِكَ وَ صَلَّى لِلشَّمْسِ وَ تَكَلَّمَ بِالشِّرْكِ ثُمَّ أَلْقَى شَبَكَتَهُ فَأَخْرَجَهَا مَمْلُوءَةً ثُمَّ أَعَادَهَا فَأَخْرَجَهَا مَمْلُوءَةً ثُمَّ أَعَادَهَا فَأَخْرَجَهَا مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّى اكْتَفَى وَ انْصَرَفَ وَ جَاءَ عَبْدُكَ الْمُؤْمِنُ فَتَوَضَّأَ وَ أَسْبَغَ الْوُضُوءَ ثُمَّ صَلَّى وَ حَمِدَ وَ دَعَا وَ أَثْنَى ثُمَّ أَلْقَى شَبَكَتَهُ فَلَمْ يُخْرِجْ شَيْئاً ثُمَّ أَعَادَ فَلَمْ يُخْرِجْ شَيْئاً ثُمَّ أَعَادَ فَأَخْرَجَ سَمَكَةً صَغِيرَةً فَحَمَدَكَ وَ انْصَرَفَ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ يَا مُوسَى انْظُرْ عَنْ يَمِينِكَ فَنَظَرَ مُوسَى فَكَشَفَ لَهُ عَمَّا أَعَدَّهُ اللَّهُ لِعَبْدِهِ الْمُؤْمِنِ فَنَظَرَ ثُمَّ قِيلَ لَهُ يَا مُوسَى انْظُرْ عَنْ يَسَارِكَ فَكَشَفَ لَهُ عَمَّا أَعَدَّهُ اللَّهُ لِعَبْدِهِ الْكَافِرِ فَنَظَرَ ثُمَّ قَالَ اللَّهُ [تَعَالَى‏] يَا مُوسَى مَا نَفَعَ هَذَا مَا أَعْطَيْتُهُ وَ لَا ضَرَّ هَذَا مَا مَنَعْتُهُ فَقَالَ مُوسَى يَا رَبِّ حَقٌّ لِمَنْ عَرَفَكَ أَنْ يَرْضَى بِمَا صَنَعْتَ‏.

۱۴ ۔ محمد بن ابی عمیر نے اپنے روایتی سلسلہ کے ذریعہ بیان کیا ہے: حضرت موسی عہ دریا کے کنارہ جا رہے تھے، آپ نے دیکھا کہ شکاری آیا، آتے ہی اس نے سورج کو سجدہ کیااور کچھ مشرکانہ باتیں کیں، اس کے بعد ایک جال دریا میں ڈالا، اور مچھلیوں سے بھرا ہوا نکال لیا، کنارے پر خالی کیا اور دوبارہ ڈالا پھر جال بھر گیا، پھر نکالا اور خالی کیا، یہاں تک کہ جس قدر مچھلیاں چاہتا تھا پکڑ چکا تو اپنی راہ چلا گیا، اس کے بعد دوسرا شخص آیا اس نے آ کر ہاتھ منہ دھوئے وضو کیا نماز پڑھی حمد و ثنا کی پھر اس نے جال ڈالا مگر دو مرتبہ کوشش ناکام ہوئی، تیسری مرتبہ چھوٹی سی مچھلی پھنسی وہ غریب اسے دیکھ کر شکر خدا کر کے واپس چلا گیا۔ جناب موسی علیہ السلام نے فرمایا: پروردگارا تیرا ایک بندہ دیکھا، اس نے سورج کو پوجا، مشرکانہ و کافرانہ باتیں کیں پھر جال پھینکا اور تین مرتبہ مچھلیوں سے بھر بھر کے نکالا، یہاں تک کہ اس کی ضرورت پوری ہوئی اور وہ لدا پھندا چلا گیا۔ پھر ایک مومن آیا اس نے بہت اچھی طرح وضو کیا پھر نماز پڑھی حمد و ثنا کر کے جال ڈالا، کوئی مچھلی نہ ملی۔ دو مرتبہ کوشش کرنے کے بعد ایک چھوٹی سی مچھلی ملی، جسے وہ لے کر چلا گیا۔ (اس میں بھید کیا ہے؟) وحی ہوئی: موسی ! ذرہ دائیں طرف دیکھو۔ جناب موسی عہ نے دیکھا، تو خدا نے اپنے بندہ مومن کیلئے جو درجات معین کئے تھے اس پر سے پردے اٹھ گئے۔ جناب موسی نے وہ مراتب دیکھے۔ پھر حکم ہوا بائیں ہاتھ کی طرف دیکھو۔ حضرت کی نگاہوں میں اس مرد کافر کے مراتب آ گئے۔ خداوند عالم نے ارشاد فرمایا: موسی میں نے اس کافر کو جو دیا (مچھلیاں اور مسرتیں) اس سے کافر کو فائدہ نہ ہوگا، اور مومن کو جو نہ ملا اس سے اسے کوئی نقصان نہ ہوگا۔ موسی علیہ السلام نے فرمایا: جو تیری معرفت حاصل کر لے اس پر فرض ہے کہ جو بھی تو کرے اس پر راضی برضا رہے۔

۱۵-عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ رَأْسُ طَاعَةِ اللَّهِ [عَزَّ وَ جَلَ‏] الرِّضَا بِمَا صَنَعَ اللَّهُ إِلَى الْعَبْدِ فِيمَا أَحَبَّ وَ فِيمَا أَكْرَهَ وَ لَمْ يَصْنَعِ اللَّهُ بِعَبْدٍ شَيْئاً إِلَّا وَ هُوَ خَيْرٌ.

۱۵ اسحاق بن عمار کہتے ہیں، امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا: خدا اپنے بندے سے جو سلوک کرے وہ اچھا ہی ہوتا ہے خواہ بندہ اسے پسند کرے یا نہ کرے، راضی برضا رہنا ہی فرمان برداری کی بنیاد ہے۔

۱۶-عَنْ يُونُسَ بْنِ رِبَاطٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ إِنَّ أَهْلَ الْحَقِّ مُنْذُ مَا كَانُوا فِي شِدَّةٍ أَمَا إِنَّ ذَلِكَ إِلَى مُدَّةٍ قَرِيبَةٍ وَ عَافِيَةٍ طَوِيلَةٍ.

۱۶ ۔ یونس بن رباط نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا: حق پرست لوگ ہمیشہ سے سختیوں میں ہیں، مگر ان سختیوں کی مدت مختصر اور اس کے بعد عافیت و اطمیان کی مدت طویل ہوگی۔

-عَنْ سَمَاعَةَ قَالَ سَمِعْتُهُ‏ يَقُولُ‏ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ جَعَلَ وَلِيَّهُ غَرَضاً لِعَدُوِّهِ فِي الدُّنْيَا .

۱۷ ۔ سماعہ کہتے ہیں، میں نے حضرت کو یہ کہتے ہوئے سنا: خدا نے دنیا میں اپنے دوست کو اپنے دشمن کا نشانہ بنایا ہے۔

۱۸-عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ الصَّادِقِ ع وَ أَنَا عِنْدَهُ إِنَّ مَنْ قِبَلَنَا يَقُولُونَ إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ عَبْداً نَوَّهَ مُنَوِّهٌ مِنَ السَّمَاءِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَاناً فَأَحِبُّوهُ فَيُلْقِي اللَّهُ الْمَحَبَّةَ [لَهُ‏] فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ وَ إِذَا أَبْغَضَهُ نَوَّهَ مُنَوِّهٌ مِنَ السَّمَاءِ إِنَّ اللَّهَ يُبْغِضُ فُلَاناً فَأَبْغِضُوهُ فَيُلْقِي اللَّهُ لَهُ الْبَغْضَاءَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ قَالَ وَ كَانَ ع مُتَّكِئاً فَاسْتَوَى جَالِساً ثُمَّ نَفَضَ كُمَّهُ ثُمَّ قَالَ لَيْسَ هَكَذَا وَ لَكِنْ إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَبْداً أَغْرَى بِهِ النَّاسَ لِيَقُولُوا مَا لَيْسَ فِيهِ يُؤْجِرُهُ وَ يُؤْثِمُهُمْ وَ إِذَا أَبْغَضَ عَبْداً أَلْقَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ لَهُ الْمَحَبَّةَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ لِيَقُولُوا مَا لَيْسَ فِيهِ لِيُؤْثِمَهُمْ [وَ] إِيَّاهُ‏ ثُمَّ قَالَ مَنْ كَانَ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنْ يَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّا ثُمَّ أَغْرَى جَمِيعَ مَنْ رَأَيْتَ حَتَّى صَنَعُوا بِهِ مَا صَنَعُوا وَ مَنْ كَانَ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مِنَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ع أَغْرَى بِهِ حَتَّى قَتَلُوهُ وَ مَنْ كَانَ أَبْغَضَ إِلَى اللَّهِ مِنْ أَبِي فُلَانٍ وَ فُلَانٍ‏ لَيْسَ كَمَا قَالُوا.

۱۸ ۔ مفضل بن عمر کہتے ہیں، ایک آدمی نے میرے سامنے حضرت ابو عبد اللہ الصادق علیہ السلام سے پوچھا۔ وہ لوگ کہتے تھے کہ جب خدا کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو آسمان سے ایک ہاتف صدا دیتا ہے کہ فلاں شخص خدا سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو۔ پھر لوگوں کے دل میں اس کی محت جایگزین ہو جاتی ہے۔ اور جب خدا کو کوئی شخص نا پسند ہوتا ہے تو ایک منادی صدا دیتا ہے کہ فلاں شخص خدا کو محبوب نہیں اس لیے اس سے نفرت کرو۔ لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ امام، تکیہ لگائے تشریف فرما تھے یہ بات سن کر تکیہ سے ٹیک ہٹا کر بیٹھے، آستین کو جھاڑا اور فرمایا: نہیں یہ غلط ہے، ہاں، خدا جس سے محبت فرماتا ہے لوگ اس کے خلاف ہو جاتے ہیں اور اسے برا کہتے ہیں کہ اسے اجر ملے۔

اور ان پر گناہوں کا بوجھ بڑھے۔ اور جب خدا کسی کو نا پسند فرماتا ہے تو لوگوں کے دلوں میں محبت ڈال دیتا ہے، تا کہ اس کے بارے میں ایسی باتیں کرے جو اس میں نہیں ہیں اس طرح اس پر وہ گناہگار ہوں گے۔ پھر فرمایا:

یحیی بن زکریا عہ سے زیادہ خدا کا محبوب کون ہوگا؟ لیکن لوگ ان کے خلاف ہو گئے، اور انہوں نے جو کچھ کیا وہ سب کو معلوم ہے۔ اور حضرت امام حسین عہ سے زیادہ خدا کا محبوب کون ہوگا، مگر لوگ ان کے دشمن ہوئے اور حضرت کو قتل کر دیا اور فلاں ابو فلاں سے بڑہ کر خدا کو ناپسند کون ہوگا؟ لوگوں نے جوتم سے کہا وہ غلط ہے۔

۱۹-عَنْ زَيْدٍ الشَّحَّامِ قَالَ قَالَ الصَّادِقُ ع‏ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ إِذَا أَحَبَّ عَبْداً أَغْرَى بِهِ النَّاسَ ‏.

۱۹ ۔ زید ہشام نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے امام نے فرمایا جب خدا کسی بندے کو محبوب رکھتا ہے تو لوگ اس کے خلاف ہو جاتے ہیں۔

۲۰-عَنْ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع يَقُولُ‏ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَخَذَ مِيثَاقَ الْمُؤْمِنِ عَلَى بَلَايَا أَرْبَعٍ [الْأُولَى‏] أَيْسَرُهَا عَلَيْهِ مُؤْمِنٌ مِثْلُهُ يَحْسُدُهُ وَ الثَّانِيَةُ مُنَافِقٌ يَقْفُو أَثَرَهُ وَ الثَّالِثَةُ شَيْطَانٌ يَعْرِضُ لَهُ يَفْتِنُهُ وَ يُضِلُّهُ وَ الرَّابِعَةُ كَافِرٌ بِالَّذِي آمَنَ بِهِ يَرَى جِهَادَهُ جِهَاداً فَمَا بَقَاءُ الْمُؤْمِنِ بَعْدَ هَذَا.

۲۰ ۔ ابو حمزہ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سنا۔ آپ نے فرمایا: خداوند عالم نے مومن سے چار آزمایشوں کا عہد لیا ہے سب سے آسان بات یہ ہے کہ کوئی اس جیسا مومن اس سے حسد کرے گا۔ دوسرے کوئی منافق اس کا پیچھا کرےگا۔ تیسرے کوئی شیطان اس کے آڑھے آئے گا پریشان اور گمراہ کرنے کی کوشش کرےگا۔ چوتھے، کافر اس کے جہاد کو دیکھے۔ اس کے بعد مومن زندہ نہ رہے گا۔

عَنْ حُمْرَانَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: إِنَّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ لَيَكْرُمُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ حَتَّى لَوْ سَأَلَهُ الْجَنَّةَ وَ مَا فِيهَا أَعْطَاهَا إِيَّاهُ وَ لَمْ يَنْقُصْ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِهِ شَيْ‏ءٌ وَ لَوْ سَأَلَهُ مَوْضِعَ قَدَمِهِ مِنَ الدُّنْيَا حَرَمَهُ وَ إِنَّ الْعَبْدَ الْكَافِرَ لَيَهُونُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ لَوْ سَأَلَهُ الدُّنْيَا وَ مَا فِيهَا أَعْطَاهَا إِيَّاهُ وَ لَمْ يَنْقُصْ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِهِ شَيْ‏ءٌ وَ لَوْ سَأَلَهُ مَوْضِعَ قَدَمِهِ مِنَ الْجَنَّةِ حَرَمَهُ وَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَيَتَعَاهَدُ عَبْدَهُ الْمُؤْمِنَ بِالْبَلَاءِ كَمَا يَتَعَاهَدُ الرَّجُلُ أَهْلَهُ بِالْهَدِيَّةِ وَ يَحْمِيهِ كَمَا يَحْمِي الطَّبِيبُ الْمَرِيضَ‏.

۲۱ ۔ حمران نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ بندہ مومن خدا کی نظر میں زیادہ بلند ہے کہ اگر وہ جنت اور جنت کی تمام چیزوں کو مانگ لے تو خدا اسے عطا فرما دے اور اس کے خزانے میں کوئی کمی نہ ہو۔ لیکن اگر وہی مومن دنیا میں قدم ٹکانے کی جگہ مانگے تو خدا وہ جگہ نہ دے گا اور کافر کی خدا کے حضور میں کوئی اہمیت نہیں اگر دنیا و ما فیھا کا سوال کرے تو خدا عطا فرما سکتا ہے، اور اس کے خزانے میں کوئی کمی نہ آئے لیکن اگر یہی کافر جنت میں بالشت بھر زمین مانگے تو نہ دے گا۔ خداوند عالم مومن کا آزمایشوں میں یوں لحاظ کرتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے متعلقین کا تحفہ و ہدیہ کیلئے خیال کرتا ہے، اور خدا مومن کو دنیا سے یوں بچاتا ہے جیسے طبیب بیمار کو بد پرہیزی سے۔

عَنْ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع‏ إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ ضَنَائِنَ‏ مِنْ خَلْقِهِ يَضَنُّ بِهِمْ عَنِ الْبَلَاءِ يُحْيِيهِمْ فِي عَافِيَةٍ وَ يَرْزُقُهُمْ فِي عَافِيَةٍ وَ يُمِيتُهُمْ فِي‏ عَافِيَةٍ وَ يَبْعَثُهُمْ فِي عَافِيَةٍ وَ يُدْخِلُهُمُ‏ الْجَنَّةَ فِي عَافِيَةٍ.

۲۲ ۔ محمد بن عجلان نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ خداوند عالم کی مخلوق میں اس کے پسندیدہ کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر آسمان سے کوئی بلا نازل ہوتی ہے، یا روزی میں کمی ہوتی ہے تو خدا انہیں نوازتا ہےاور عافیت اور خوش حالی کو ان سے روکتا ہے۔ اس کے با وجود اگر ان مومنوں میں سے ایک کا نور بھی سارے عالم پر تقسیم کر دے تو سب لوگوں کیلئے کافی ہو۔

۲۳-عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ خَلْقِهِ عِبَاداً مَا مِنْ بَلِيَّةٍ تَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ أَوْ تَقْتِيرٍ فِي الرِّزْقِ إِلَّا سَاقَ إِلَيْهِمْ وَ لَا عَافِيَةٍ أَوْ سَعَةٍ فِي الرِّزْقِ إِلَّا صَرَفَ عَنْهُمْ [وَ] لَوْ أَنَّ نُورَ أَحَدِهِمْ قُسِمَ بَيْنَ أَهْلِ الْأَرْضِ جَمِيعاً لَاكْتَفَوْا بِهِ‏.

۲۳ ۔ ابو حمزہ نے کہا امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے، خداوند عالم کے کچھ خاص الخاص بندے ایسے ہیں جنہیں وہ بلائوں میں آزماتا ہے اور عافیت (ایمان) میں زندگی، عافیت (ایماں) میں روزی اور عافیت (ایماں) میں موت عطا فرماتا ہے۔

۲۴-عَنْ يَزِيدَ بْنِ خَلِيفَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: مَا قَضَى اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لِمُؤْمِنٍ [مِنْ‏] قَضَاءٍ إِلَّا جَعَلَ لَهُ الْخِيَرَةَ فِيمَا قَضَى‏.

۲۴ ۔ یزید بن خلیفہ ناقل ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: خداوند عالم نے جو فیصلہ بھی مومن کیلئے فرمایا اس میں مومن کی بہتری ہی ہوتی ہے۔

۲۵-عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ اللَّهَ يَذُودُ الْمُؤْمِنَ عَمَّا يَكْرَهُ مِمَّا يَشْتَهِي كَمَا يَذُودُ الرَّجُلُ الْبَعِيرَ عَنْ إِبِلِهِ‏ لَيْسَ مِنْهَا

۲۵ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: خداوند عالم اپنے بندہ مومن کو اس کی پسند اور اپنی نا پسند چیز سے یوں روکتا ہے، جیسے کوئی شخص اپنے اونٹوں میں دوسرے اونٹ کو نہ آنے دو۔

۲۶-وَ عَنْهُ ع قَالَ: إِنَّ الرَّبَّ لَيَتَعَاهَدُ الْمُؤْمِنَ فَمَا يَمُرُّ بِهِ أَرْبَعُونَ صَبَاحاً إِلَّا تَعَاهَدَهُ إِمَّا بِمَرَضٍ فِي جَسَدِهِ وَ إِمَّا بِمُصِيبَةٍ فِي أَهْلِهِ وَ مَالِهِ أَوْ بِمُصِيبَةٍ مِنْ مَصَائِبِ الدُّنْيَا لِيَأْجُرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ‏.

۲۶ ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: خداوند متعال مومن کی نگہداشت فرماتا ہے ، چالیس دن گذر جاتے ہیں تو حفاظت کے طور پر یا تو جسمانی بیماری میں مبتلا فرماتا ہے، یا اہل و عیال ، مال و اسباب پر کوئی مصیبت ڈال دیتا ہے۔ یا کسی اور دنیاوی زحمت میں مبتلا کر دیتا ہے کہ اسے اچھا اجر و بدلہ دے۔

۲۷-عَنْ ابْنِ حُمْرَانَ‏ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ‏ مَا مِنْ مُؤْمِنٍ يَمُرُّ بِهِ أَرْبَعُونَ لَيْلَةً إِلَّا وَ قَدْ يُذْكَرُ بِشَيْ‏ءٍ يُؤْجَرُ عَلَيْهِ أَدْنَاهُ هَمٌّ لَا يَدْرِي مِنْ أَيْنَ هُوَ.

۲۷ ۔ ابن حمران نے معصوم سے سنا۔ کوئی مومن ایسا نہ ہوگا جس پر چالیس راتیں گذریں۔ مگر یہ کہ کوئی چیز ایسی نہ آئے جو اس کو یاد دہانی کرائے اور اس پر اجر دیا جا سکے۔ کم از کم یہی ہوگا کہ وہ یہ بھول جائے کہ کہاں اور کس عالم میں ہے۔

۲۸-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ لَا يَصِيرُ عَلَى الْمُؤْمِنِ أَرْبَعُونَ صَبَاحاً إِلَّا تَعَاهَدَهُ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى بِوَجَعٍ فِي جَسَدِهِ أَوْ ذَهَابِ مَالِهِ أَوْ مُصِيبَةٍ يَأْجُرُهُ اللَّهُ عَلَيْهَا.

۲۸ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: مومن چالیس دن تک ایک حالت میں رہ سکتا ہی نہیں۔ خدا ضرور اس کی نگہداشت فرمائے گا۔ یا جسم کو تکلیف ہوگی یا مال جاتا رہے گا، یا کوئی ایسا صدمہ ہوگا جس کا اسے اجر دیا جا سکے۔

۲۹-وَ عَنْهُ ع قَالَ: مَا فَلَتَ الْمُؤْمِنُ مِنْ وَاحِدَةٍ مِنْ ثَلَاثٍ أَوْ جُمِعَتْ عَلَيْهِ الثَّلَاثَةُ أَنْ يَكُونَ مَعَهُ مَنْ يُغْلِقُ عَلَيْهِ بَابَهُ فِي دَارِهِ أَوْ جَارٌ يُؤْذِيهِ أَوْ مَنْ فِي طَرِيقِهِ إِلَى حَوَائِجِهِ [يُؤْذِيهِ‏] وَ لَوْ أَنَّ مُؤْمِناً عَلَى قُلَّةِ جَبَلٍ‏ لَبَعَثَ اللَّهُ شَيْطَاناً يُؤْذِيهِ وَ يَجْعَلُ اللَّهُ لَهُ مِنْ إِيمَانِهِ أُنْساً.

۲۹ ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: تین باتوں میں سے تینوں یا کم از کم ایک کا تو مومن کیلئے ضروری ہوگی کوئی ساتھی جو اس کیلئے گھر کا دروازا بند کر دے یا پڑوسی جو اسے دکھ دے یا کوئی شخص اس کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ مومن تو اگر پہاڑ کی چوٹی پر چلا جائے جب بھی کوئی شیطان اسے اذیت دینے کیلئے پہنچ جائے گا۔ ہاں خدا اس کا ایمان اس کی ڈہارس بنا دے گا۔

۳۰-عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ الْمُؤْمِنُ لَا يَمْضِي عَلَيْهِ أَرْبَعُونَ لَيْلَةً إِلَّا عَرَضَ لَهُ أَمْرٌ يَحْزُنُهُ وَ يَذْكُرُهُ بِهِ‏.

۳۰ ۔ محمد بن مسلم نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا، حضور فرماتے تھے: مومن، چالیس راتوں کے گذرنے سے پہلے کسی ایسی بات سے ضرور دچار ہوگاجو اسے تکلیف دے اور یاد خدا کا باعث ہو۔

۳۱-عَنْ أَبِي الصَّبَّاحِ‏ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فَشَكَا إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ عَقَّنِي وُلْدِي وَ إِخْوَتِي‏ وَ جَفَانِي إِخْوَانِي فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع إِنَّ لِلْحَقِّ دَوْلَةً وَ لِلْبَاطِلِ دَوْلَةً وَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا ذَلِيلٌ فِي دَوْلَةِ صَاحِبِهِ وَ إِنَّ أَدْنَى مَا يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ فِي دَوْلَةِ الْبَاطِلِ أَنْ يَعُقَّهُ وُلْدُهُ وَ إِخْوَتُهُ وَ يَجْفُوَهُ إِخْوَانُهُ وَ مَا مِنْ مُؤْمِنٍ يُصِيبُ رَفَاهِيَةً فِي دَوْلَةِ الْبَاطِلِ إِلَّا ابْتُلِيَ فِي بَدَنِهِ أَوْ مَالِهِ أَوْ أَهْلِهِ حَتَّى يُخَلِّصَهُ اللَّهُ تَعَالَى مِنَ السَّعَةِ الَّتِي كَانَ أَصَابَهَا فِي دَوْلَةِ الْبَاطِلِ لِيُؤَخَّرَ بِهِ حَظُّهُ فِي دَوْلَةِ الْحَقِّ فَاصْبِرُوا وَ أَبْشِرُوا.

۳۱ ۔ ابو الصباح کہتے ہیں۔ میں حضرت ابو عبد اللہ علیہ السلام کی خدمت میں تھا کہ ایک شخص آیا، اور اس نے اپنی مشکلات بیان کرتے ہوئے کہا، میرے والد نے عاق کر دیا، بھائیوں نے چھوڑ دیا، دوستوں نے بے وفائی کی۔ امام نے فرمایا: حق کو بھی اقتدار حاصل ہوتا ہے باطل کا بھی دور اقتدار ہوتا ہے، ہر شخص اپنے حریف کے اقتدار میں ذلیل ہوتا ہے، مومن کو باطل کے اقتدار میں کم از کم یہ نقصان پہنچتا ہے کہ اس کے باپ بھائی اسے چھوڑ دیں دوست احباب بے وفائی کریں۔ مومن کو باطل کے اقتدار میں فارغ البالی نصیب ہی نہیں ہو سکتی۔ اور اگر اسے اس دور میں خوش حالی مل جائے تو خداوند عالم اسے جسم مال یا اہل و عیال کے بارے میں کسی نہ کسی آزمائش میں ضرور مبتلا کرے گا تا کہ حق کے دور اقتدار میں اس کا حصہ زیادہ ہو صبر کوشعار بنائو اور بشارتیں قبول کرو۔

۳۲-عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالا إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُقَالُ لِرُوحِهِ وَ هُوَ يُغَسَّلُ أَ يَسُرُّكِ أَنْ تُرَدِّي إِلَى الْجَسَدِ الَّذِي كُنْتِ فِيهِ فَتَقُولُ مَا أَصْنَعُ بِالْبَلَاءِ وَ الْخُسْرَانِ وَ الْغَمِ‏.

۳۲ ۔ امام زین العابدین اور محمد باقر علیہما السلام سے منقول ہے: جب میت نہلائی جا رہی ہوگی۔ مومن کہے گا اے روح تجھے جسم سے رشتہ توڑنا کتنا آسان معلوم ہوا روح کہے گی۔ یہ بھلا نقصان اور غم کے ساتھ رہ کر کیا کرتی۔

۳۳-وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَ‏ يَا دُنْيَا مُرِّي عَلَى عَبْدِيَ الْمُؤْمِنِ بِأَنْوَاعِ الْبَلَايَا وَ مَا هُوَ فِيهِ مِنْ أَمْرِ دُنْيَاهُ وَ ضَيِّقِي عَلَيْهِ فِي مَعِيشَتِهِ وَ لَا تَحْلَوْلِي لَهُ فَيَسْكُنَ إِلَيْكِ‏.

۳۳ ۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے رسول اللہ صہ سے روایت کی ہے ، آنحضرت نے فرمایا: خداوند عالم دنیا کو حکم دیتا ہے۔ میرے بندہ مومن کے پاس طرح طرح کی آزمایشیں لے کر جا اور معاملات دنیا پیش کر اس پر روزی تنگ کر دے۔ اسے فکر و پریشانی سے دور نہ ہونے دے۔ کہیں اس کا دل تجھ میں نہ لگ جائے۔

۳۴-عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ سَيَابَةَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع مَا أَصَابَ الْمُؤْمِنَ مِنْ بَلَاءٍ فَبِذَنْبٍ قَالَ لَا وَ لَكِنْ لِيُسْمَعَ أَنِينُهُ وَ شَكْوَاهُ وَ دُعَاؤُهُ الَّذِي يُكْتَبُ لَهُ بِالْحَسَنَاتِ وَ تُحَطَّ عَنْهُ السَّيِّئَاتُ وَ تُدَّخَرَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

۳۴ ۔ صباح ابن سبابہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی: کیا مومن کے گناہوں کے بدلے اس پر مصائب نازل ہوتے ہیں۔ فرمایا: نہیں۔ خدا مومن کی آہیں اس کی فریادیں اور دعائیں سننا چاہتا ہے۔ تاکہ نیکیوں اضافہ اور گناہوں میں کمی کرے۔ اور قیامت کیلئے ذخیرہ ہو۔

۳۵-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَيَعْتَذِرُ إِلَى عَبْدِهِ الْمُحْوِجِ [الَّذِي‏] كَانَ فِي الدُّنْيَا كَمَا يَعْتَذِرُ الْأَخُ إِلَى أَخِيهِ فَيَقُولُ لَا وَ عِزَّتِي وَ جَلَالِي مَا أَفْقَرْتُكَ لِهَوَانٍ كَانَ بِكَ عَلَيَّ فَارْفَعْ هَذَا الْغِطَاءَ فَانْظُرْ مَا عَوَّضْتُكَ مِنَ الدُّنْيَا فَيُكْشَفُ لَهُ فَيَنْظُرُ مَا عَوَّضَهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنَ الدُّنْيَا فَيَقُولُ مَا ضَرَّنِي يَا رَبِّ مَعَ مَا عَوَّضْتَنِي‏.

۳۵ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا خداوند عالم اپنے محتاج دنیا بندے سے اس قسم کی دل دہی کرتا ہے، جیسے دو دوست ایک دوسرے کی دل دہی کریں۔ خدا فرماتا ہے: نہیں میرے بندے نہیں۔ میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے کسی دنیاوی پرخاش کی وجہ سے تجھے فقیری نہیں دی بلکہ مقصد یہ تھا کہ اپنی عطا و بخشش کو پاک و پاکیزہ کر دوں۔ اب دیکھ میں نے اس دنیا کے بدلے تجھے کیا دیا ہے، اس کے بعد ثواب و عطا سے پردے ہٹ جائیں گے۔ اور وہ ثواب و عطا مومن دیکھے گا اور عرض کرے گا اس معاوضہ کے بعد پروردگار میرا نقصان نہیں ہوا۔

۳۶-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّهُ قَالَ: نِعْمَ الْجُرْعَةُ الْغَيْظُ لِمَنْ صَبَرَ عَلَيْهَا فَإِنَّ عَظِيمَ الْأَجْرِ لَمَعَ‏ عَظِيمِ الْبَلَاءِ وَ مَا أَحَبَّ اللَّهُ قَوْماً إِلَّا ابْتَلَاهُمْ ‏.

۳۶ ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: شدید تکلیف میں غصہ کا کڑوا گھونٹ کیا عمدہ چیز ہے کیونکہ جتنی بڑی آزمایش ہوگی اتنا ہی بڑا اجر ہوگا۔ خدا جب کسی قوم سے محبت فرماتا ہے تو اسے امتحان میں ڈالتا ہے۔

۳۷-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ص قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَ‏ إِنَّ مِنْ عِبَادِيَ الْمُؤْمِنِينَ لَعِبَاداً لَا يَصْلُحُ لَهُمْ أَمْرُ دِينِهِمْ إِلَّا بِالْغِنَى‏ وَ السَّعَةِ وَ الصِّحَّةِ فِي الْبَدَنِ فَأَبْلُوهُمْ بِالْغِنَى وَ السَّعَةِ وَ الصِّحَّةِ فِي الْبَدَنِ فَيَصْلُحُ لَهُمْ أَمْرُ دِينِهِمْ وَ قَالَ إِنَّ مِنَ الْعِبَادِ لَعِبَاداً لَا يَصْلُحُ لَهُمْ أَمْرُ دِينِهِمْ إِلَّا بِالْفَاقَةِ وَ الْمَسْكَنَةِ وَ السُّقْمِ فِي أَبْدَانِهِمْ فَأَبْلُوهُمْ بِالْفَقْرِ وَ الْفَاقَةِ وَ الْمَسْكَنَةِ وَ السُّقْمِ فِي أَبْدَانِهِمْ‏ فَيَصْلُحُ لَهُمْ [عَلَيْهِ‏] أَمْرُ دِينِهِمْ‏.

۳۷ ۔ ابو عبد اللہ نے رسول اللہ صہ سے روایت کی ہے کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ میرے مومن بندوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جن کے دینی معاملات دولتمندی اور خوشحالی و صحت جسمانی کے بغیر ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ میں ان لوگوں کو دولت، خوش حالی اور صحت عطا کر کے آزماتا ہوں۔ وہ لوگ اپنے دین کے معاملات ٹھیک کر لیتے۔ اور کچھ لوگ فقر و فاقہ اور بیماری کے بغیر دینی معاملات ٹھیک نہیں کر سکتے ان کو اس آزمایش میں مبتلا کیا جاتا ہے جس کے بعد وہ اپنے دینی معاملات ٹھیک کر لیتے ہیں۔

۳۸-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الْمُؤْمِنِ عَلَى أَلَّا يُصَدَّقَ فِي مَقَالَتِهِ وَ لَا يُنْتَصَفَ مِنْ عَدُوِّهِ‏.

۳۸ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: خداوند متعال کی طرف سے مومن کی بات کی تردید بھی کی جائے گی اور اس کے دشمن کو چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔ تا کہ دعوی ایمان کے بعد اسے ہر بات سے بری اور ہر معاملا میں آزاد نہیں کر دیا گیاہے۔

۳۹-وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ إِذَا أَحَبَّ عَبْداً غَثَّهُ‏ بِالْبَلَاءِ غَثّاً وَ ثَجَّهُ بِالْبَلَاءِ ثَجّاً فَإِذَا دَعَاهُ قَالَ لَبَّيْكَ عَبْدِي لَبَّيْكَ عَبْدِي لَئِنْ عَجَّلْتُ لَكَ مَا سَأَلْتَ إِنِّي عَلَى ذَلِكَ لَقَادِرٌ وَ لَئِنْ ذَخَرْتُ لَكَ فَمَا ادَّخَرْتُ لَكَ خَيْرٌ لَكَ‏.

۳۹ ۔ ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا: خدا جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے بلائوں سے دبلا پتلا اور آزمائشوں کے ذریعہ لاغر و کمزور کر دیتا ہے۔ اور جب وہ مناجات کرتا ہے تو خدا کہتا ہے میرے مومن اگر تو رد بلا کیلئے جلدی کرتا تو میں اس پر قدرت رکھتا ہوں لیکن میں نے جو ذخیرہ جمع کیا ہے وہ تیرے ہی لئے اچھا اور سود مند ہے۔

۴۰-عَنْ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع‏ يَا ثَابِتُ‏ إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ عَبْداً غَثَّهُ بِالْبَلَاءِ غَثّاً وَ ثَجَّهُ بِهِ ثَجّاً وَ إِنَّا وَ إِيَّاكُمْ لَنُصْبِحُ بِهِ‏ وَ نُمْسِي ‏.

۴۰ ۔ ابو حمزہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: اے ثابت جب خداوند عالم کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے بلائوں میں مبتلا کرتا ہے اور اسے لاغر و ناتواں کر دیتا ہے۔ اس کے بعد بھی ہم اور تم دن کو دن اور رات کو رات کرتے ہیں اور زندگی گذر جاتی ہے۔

۴۱-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ الْحَوَارِيِّينَ شَكَوْا إِلَى عِيسَى مَا يَلْقَوْنَ مِنَ النَّاسِ وَ شِدَّتِهِمْ عَلَيْهِمْ فَقَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنِينَ لَمْ يَزَالُوا مُبْغَضِينَ وَ إِيمَانُهُمْ كَحَبَّةِ الْقَمْحِ مَا أَحْلَى مَذَاقَهَا وَ أَكْثَرَ عَذَابَهَا.

۴۱ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام فرماتے ہیں: حضرت عیسی عہ کے حواریوں نے ان مصائب کا شکوا کیا جو ان کے دشمنوں کی وجہ سے ان پر نازل ہوتے تھے۔ حضرت عیسی عہ نے جواب میں فرمایا: مومن سے ہمیشہ دشمنی کی گئی ہے مگر ان کا ایمان گیہوں کا دانہ ہے کس قدر خوش ذائقہ اور کس قدر زحمتوں کا باعث ہے۔

۴۲-عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ أَعْيَنَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ إِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَكُونُوا إِخْوَانِي وَ أَصْحَابِي فَوَطِّنُوا أَنْفُسَكُمْ عَلَى الْعَدَاوَةِ وَ الْبَغْضَاءِ مِنَ النَّاسِ وَ إِلَّا فَلَسْتُمْ لِي بِأَصْحَابٍ ‏.

۴۲. عبد الاعلی بن اعین نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا اگر تم میرے دوست بننا چاہتے ہو تو اپنے تیئن دشمنی اور بغض عوام کیلئے آمادہ کر رکھو اگر اس پر صبر نہیں کر سکتے تو ہمارے دوست نہیں ہو۔

۴۳-عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ سَيِّدِي أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فَشَكَا إِلَيْهِ رَجُلٌ الْحَاجَةَ فَقَالَ اصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَجْعَلُ لَكَ فَرَجاً ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الرَّجُلِ فَقَالَ أَخْبِرْنِي عَنْ سِجْنِ الْكُوفَةِ كَيْفَ هُوَ قَالَ أَصْلَحَكَ اللَّهُ ضَيِّقٌ مُنْتِنٌ وَ أَهْلُهُ بِأَسْوَإِ حَالَةٍ فَقَالَ ع إِنَّمَا أَنْتَ فِي السِّجْنِ تُرِيدُ أَنْ تَكُونَ فِي سَعَةٍ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ‏.

۴۳ ۔ محمد بن عجلان کہتے ہیں میں اپنے سید و آقا امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، ایک شخص نے کچھ مصائب و مشکلات کی شکایت کی،حضرت نے فرمایا: صبر کرو خدا آسودگی و گشایش عطا فرمائے گا۔ پھر کچھ دیر کیلئے خاموش ہونے کے بعد آپ نے اسی شخص کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا ۔ کوفہ کا قید خانہ کیسا ہے؟ اس نے عرض کی تنگ اور متعفن اور قیدیوں کا برا حال ہے۔ فرمایا: تم بھی تو آخر قیدخانہ میں ہو۔ پھر وسعتوں کی خواہش کیسی؟ تمہیں معلوم نہیں کہ دنیا مومن کیلئے قید خانہ ہے۔

۴۴-عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ عَبْداً بَعَثَ إِلَيْهِ مَلَكاً فَيَقُولُ أَسْقِمْهُ وَ شَدِّدِ الْبَلَاءَ عَلَيْهِ فَإِذَا بَرِأَ مِنْ شَيْ‏ءٍ فَابْتَلِهِ لِمَا هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ وَ قَوِيَ عَلَيْهِ حَتَّى يَذْكُرَنِي فَإِنِّي أَشْتَهِي أَنْ أَسْمَعَ دُعَاءَهُ [نِدَاءَهُ‏] وَ إِذَا أَبْغَضَ عَبْداً وَكَّلَ بِهِ مَلَكاً فَقَالَ صَحِّحْهُ وَ أَعْطِهِ كَيْ لَا يَذْكُرَنِي فَإِنِّي لَا أَشْتَهِي أَنْ أَسْمَعَ صَوْتَهُ‏.

۴۴ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: خداوند عالم جب کسی بندہ سے محبت کرتا ہے اس کے پاس ایک فرشتہ کو حکم دے کر بھیجتا ہے کہ اس شخص کو بیمار ڈالے اور بلائوں میں سختیاں کرے اور جب وہ شخص تندرست ہو جاتا ہے تو پھر اسے زیادہ سختیوں میں مبتلا کر دو۔ کیونکہ میں اس کی آواز و فریاد سننا چاہتا ہوں۔ اور جب کسی بندہ سے نفرت کرتا ہے تو اس پر ایک فرشتہ موکل کرتا ہے کہ اسے صحت دے تاکہ وہ مجھے یاد نہ کرے مجھے اس کی آواز سننا گوارا نہیں ہے۔

۴۵-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ الْعَبْدَ يَكُونُ لَهُ عِنْدَ رَبِّهِ دَرَجَةٌ لَا يَبْلُغُهَا بِعَمَلِهِ فَيُبْتَلَى فِي جَسَدِهِ أَوْ يُصَابُ فِي مَالِهِ‏ أَوْ يُصَابُ فِي وُلْدِهِ فَإِنْ هُوَ صَبَرَ بَلَّغَهُ اللَّهُ إِيَّاهَا .

۴۵ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: جب کسی شخص کا درجہ خدا کی بارگاہ میں بلند ہو اور وہ شخص اس درجہ تک نہ پہنچ سکے تو خدا اسے جسمانی بیماری یا اولاد کی مصیبت میں مبتلا کرتا ہے۔ اب اگر اس نے صبر کر لیا تو خدا اسی سے درجہ بلند تک پہنچا دیتا ہے۔

- وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ص‏ عَجَباً لِلْمُؤْمِنِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْضِي قَضَاءً إِلَّا كَانَ خَيْراً لَهُ فَإِنِ ابْتُلِيَ صَبَرَ وَ إِنْ أُعْطِيَ شَكَرَ.

و عن أبي جعفر ع قال [جاء] عن النبي ص‏ و ذكر مثله سواء.

۴۶ ۔ ابو جعفر علیہ السلام نے آنحجرت صہ سے روایت کی ہے کہ مومن احترام و اعزاز کے لائق ہے خدا جو فیصلہ کرتا ہے وہ اس کیلئے بہتر ہی ہوتا ہے۔ اگر آزماتا تو مومن صبر کرتا ہے، اور اگر کچھ عطا فرماتا ہے تو وہ شکر کرتا ہے یہی روایت یوں بھی ہے کہ ابو جعفر نے فرمایا کہ آنحضرت صہ تشریف لائے اور فرمایا۔

۴۷-وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يُعْطِي الدُّنْيَا مَنْ يُحِبُّ وَ يُبْغِضُ وَ لَا يُعْطِي الْآخِرَةَ إِلَّا مَنْ أَحَبَّ وَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيَسْأَلُ الرَّبَّ مَوْضِعَ سَوْطٍ فِي الدُّنْيَا فَلَا يُعْطِيهِ إِيَّاهُ وَ يَسْأَلُهُ الْآخِرَةَ فَيُعْطِيهِ مَا شَاءَ وَ يُعْطِي الْكَافِرَ فِي الدُّنْيَا مَا شَاءَ وَ يَسْأَلُ فِي الْآخِرَةِ مَوْضِعَ سَوْطٍ فَلَا يُعْطِيهِ إِيَّاهُ‏.

۴۷ ۔ ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا کہ خداوند عالم دنیا کی نعمتیں دوست و دشمن سب کو عطا کرتا ہے مگر آخرت کے انعام فقط مومن ہی کو دے گا۔ مومن آخرت کیلئے دعا کرتا ہے تو خدا اس کی دعا کے مطابق کرتا ہے اور کافر کو دنیا اس کی خواہش کے مطابق دیتا ہے۔ لیکن اگر کافر بالشت بھر کی جگہ آخرت میں طلب کرے تو اسے نہ دی جائے گی۔

۴۸-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنُ لَا أَصْرِفُهُ فِي شَيْ‏ءٍ إِلَّا جَعَلْتُ ذَلِكَ خَيْراً لَهُ فَلْيَرْضَ بِقَضَائِي وَ لْيَصْبِرْ عَلَى بَلَائِي وَ لْيَشْكُرْ عَلَى نَعْمَائِي أَكْتُبْهُ‏ فِي الصِّدِّيقِينَ عِنْدِي ‏.

۴۸ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے میں اپنے بندہ مومن سے جو چیز بھی لیتا ہوں اس کیلئے بہتری قرار دیتا ہوں مومن کو میرے فیصلہ پر راضی، میری آزمائش پر صبر اور میری نعمتوں پر شکر گذار رہنا چاہیے۔ میں اسے اپنی صدیقین میں شامل کروں گا۔

۴۹-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: ضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ ص حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ ثُمَّ قَالَ أَ لَا تَسْأَلُونِّي عَمَّا ضَحِكْتُ قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ عَجِبْتُ لِلْمَرْءِ الْمُسْلِمِ أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ قَضَاءٍ يَقْضِيهِ اللَّهُ لَهُ إِلَّا كَانَ خَيْراً لَهُ فِي عَاقِبَةِ أَمْرِهِ‏.

۴۹ ۔ حضرت ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا رسول اللہ صہ ایک مرتبہ مسکرائے کہ دندان مبارک نظر آنے لگے پھر فرمایا میرے ہنسنے کا سبب نہیں پوچھا۔ لوگوں نے عرض کیا جی یا رسول اللہ فرمایا مجھے مسلمان کے بارے میں حیرت ہوئی کہ خدا کا ہر فیصلہ ایسا ہوتا ہے کہ جس میں نتیجہ کے طور پر مسلمان کا فائدہ ہوتا ہے۔

۵۰-وَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع‏ إِنَّهُ لَيَكُونُ لِلْعَبْدِ مَنْزِلَةٌ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ لَا يَبْلُغُهَا إِلَّا بِإِحْدَى الْخَصْلَتَيْنِ إِمَّا بِبَلِيَّةٍ فِي جِسْمِهِ أَوْ بِذَهَابِ مَالِهِ‏.

۵۰ ۔ حضرت ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: خدا کے حضور میں بندہ مومن کا ایک مرتبہ ایسا بھی ہے جہاں صرف ایک صورت میں پہنچ سکتا ہے یا جسم کی آزمائش ہو یا مال کا نقصان ہو۔