• ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10149 / ڈاؤنلوڈ: 2488
سائز سائز سائز
کتاب المومن

کتاب المومن

مؤلف:
اردو

باب ۲ - مومن کے خاص اعزازات و ثواب

۵۱-عَنْ زُرَارَةَ قَالَ: سُئِلَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع وَ أَنَا جَالِسٌ [عِنْدَهُ‏] عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى‏ مَنْ جاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثالِها أَ يَجْرِي لِهَؤُلَاءِ مِمَّنْ لَا يَعْرِفُ مِنْهُمْ هَذَا الْأَمْرَ قَالَ إِنَّمَا هِيَ لِلْمُؤْمِنِينَ خَاصَّةً.

۱ ۔ زرارہ کہتے ہیں میری حاضری امام جعفرصادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ سورہ نسا کی آیت ( ۱۲۰)

من جاء ۔۔ کا کلیہ ان لوگوں پر بھی جاری ہوسکتا ہے جو عارف (مرتبہ امامت آل محمد کے جاننے والے) نہیں۔

حضرت نے فرمایا یہ آیت صرف مومنین کیلئے ہے۔

۵۲-عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ شُعَيْبٍ قَالَ سَمِعْتُهُ‏ يَقُولُ‏ لَيْسَ لِأَحَدٍ عَلَى اللَّهِ ثَوَابٌ عَلَى عَمَلٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِينَ ‏.

۲ ۔ یعقوب بن شعیب کہتے ہیں کہ میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا مومن کے علاوہ کس شخص کے عمل کا ثواب خدا پر واجب نہیں۔

۵۳-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِذَا أَحْسَنَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ ضَاعَفَ اللَّهُ لَهُ عَمَلَهُ لِكُلِّ عَمَلٍ سَبْعُمِائَةِ ضِعْفٍ وَ ذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَ‏ يُضاعِفُ لِمَنْ يَشاءُ .

۳ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: جب بندہ مومن احسان کرتا ہے خدا اس کے ہر عمل کو سات سو درجہ بڑہا دیتا ہے۔ یہ مطلب ہے قرآن کی آیت یضاعف لمن یشاء کا۔

۵۴-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ قَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيَزْهَرُ نُورُهُ لِأَهْلِ السَّمَاءِ كَمَا تَزْهَرُ نُجُومُ السَّمَاءِ لِأَهْلِ الْأَرْضِ وَ قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ وَلِيُّ اللَّهِ يُعِينُهُ وَ يَصْنَعُ لَهُ وَ لَا يَقُولُ عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَ‏ وَ لَا يَخَافُ غَيْرَهُ وَ قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَيْنِ لَيَلْتَقِيَانِ فَيَتَصَافَحَانِ فَلَا يَزَالُ اللَّهُ عَلَيْهِمَا مُقْبِلًا بِوَجْهِهِ وَ الذُّنُوبُ تَتَحَاتُّ عَنْ وُجُوهِهِمَا حَتَّى يَفْتَرِقَا [يَتَفَرَّقَا].

۴ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: مومن کا نور اہل فلک کے سامنے یوں چمکتا ہے جیسے ستارے اہل زمین کیلئے۔

حضرت نے فرمایا: مومن خدا کا دوست ہے خدا اس کی مدد کرتا ہے، اور اس پر احسانات فرماتا ہے۔ مومن بھی خدا کے بارے میں ہمیشہ حق کہتا ہے اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔ دو مومن ملاقات کے وقت جب مصافحہ کرتے ہیں تو خداوند عالم دونوں پر توجہ خاص فرماتا ہے اور دونوں کے چہرہ سے گناہ اس وقت تک دور ہوتے رہتے ہیں جب تک دونوں الگ نہ ہوں۔

۵۵-وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَا يُوصَفُ وَ كَيْفَ يُوصَفُ وَ قَدْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَ‏ وَ ما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ‏ فَلَا يُوصَفُ بِقَدَرٍ إِلَّا كَانَ أَعْظَمَ مِنْ ذَلِكَ وَ إِنَّ النَّبِيَّ ص لَا يُوصَفُ وَ كَيْفَ يُوصَفُ عَبْدٌ رَفَعَهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَيْهِ وَ قَرَّبَهُ مِنْهُ وَ جَعَلَ طَاعَتَهُ فِي الْأَرْضِ كَطَاعَتِهِ فَقَالَ عَزَّ وَ جَلَ‏ ما آتاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَ ما نَهاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَ مَنْ أَطَاعَ هَذَا فَقَدْ أَطَاعَنِي وَ مَنْ عَصَاهُ فَقَدْ عَصَانِي وَ فَوَّضَ إِلَيْهِ وَ إِنَّا لَا نُوصَفُ وَ كَيْفَ يُوصَفُ قَوْمٌ رَفَعَ اللَّهُ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ هُوَ الشِّرْكُ‏ وَ الْمُؤْمِنُ لَا يُوصَفُ وَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيَلْقَى أَخَاهُ فَيُصَافِحُهُ فَلَا يَزَالُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ يَنْظُرُ إِلَيْهِمَا وَ الذُّنُوبُ تَتَحَاتُّ عَنْ وُجُوهِهِمَا [جِسْمَيْهِمَا] كَمَا يَتَحَاتُّ الْوَرَقُ عَنِ الشَّجَرَةِ.

۵ ۔ ابو جعفر علیہ السلام سے روایت ہے کہ خداوند عالم کی صفت و ثنا نہیں بیان کی جس سکتی۔ اور بیان بھی کیسے کی جائے کہ وہ فرماتا ہے: لوگوں نے کما حقہ خدا کی عزت و توقیر نہیں کی (سورہ ۲۲ ، آیت ۴۷)

جو بھی کہا جائے گا خدا اس سے بلند تر ہے اور نبی کریم صہ کی بھی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ آخر اس بندہ کی تعریف کیسے ہو جسے خدا نے بلندیاں عطا کی ہیں اسے اپنے قربت سے سربلند فرمایا ہے۔ روئے زمین پر اس کی فرمانبرداری کو اپنی فرمانبرداری قرار دیتے ہوئے ارشاد کیا ہے جو رسول دے اس پر کاربند رہو اور جس کام سے روک دے اس سے رک جائو۔ (سورہ ۵۹ ، آیت ۷) جس نے اس کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی جس نے اس مخالفت کی اس نے میری مخالفت کی خدا نے یہ منصب رسول صہ کو عطا کیا۔ اس طرح کیونکر اور کیسے اس قوم کی تعریف کی جا سکتی ہے جس کو خدا نے رفعت عطا کی ان سے رجس یعنی شرک کو دور کیا۔ اور مومن کی بھی تعریف نہیں کی جا سکتی ۔اور مومن جب اپنے دوست سے ہاتھ ملاتا ہے تو خدا مسلسل ان دونوں پر نگاہ کرم رکھتا ہے اور گناہ ان کے چہروں سے یوں دور ہوتے ہیں جیسے درخت سے پتے گریں۔

۵۶-عَنْ مَالِكٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي جَعْفَرٍ ع وَ قَدْ حَدَّثْتُ نَفْسِي بِأَشْيَاءَ فَقَالَ لِي يَا مَالِكُ أَحْسِنِ الظَّنَّ بِاللَّهِ وَ لَا تَظُنَّ أَنَّكَ مُفَرِّطٌ فِي أَمْرِكَ يَا مَالِكُ إِنَّهُ لَا تَقْدِرُ عَلَى صِفَةِ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ كَذَلِكَ لَا تَقْدِرُ عَلَى صِفَتِنَا وَ كَذَلِكَ لَا تَقْدِرُ عَلَى صِفَةِ الْمُؤْمِنِ يَا مَالِكُ إِنَّ الْمُؤْمِنَ يَلْقَى أَخَاهُ فَيُصَافِحُهُ فَلَا يَزَالُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ يَنْظُرُ إِلَيْهِمَا وَ الذُّنُوبُ تَتَحَاتُّ عَنْ‏ وُجُوهِهِمَا حَتَّى يَفْتَرِقَا وَ لَيْسَ عَلَيْهِمَا مِنَ الذُّنُوبِ شَيْ‏ءٌ فَكَيْفَ تَقْدِرُ عَلَى صِفَةِ مَنْ هُوَ هَكَذَا.

۶ ۔ مالک جہنی کہتے ہیں کہ میں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے دل میں کچھ باتیں تھیں حضرت نے فرمایا: مالک! خدا کے بارے میں عقیدہ کو استوار رکھو اور یہ خیال نہ کرو کہ تم افراط و تفریط کر رہے ہو۔ مالک! دیکھو تم رسول اللہ کی تعریف نہیں کر سکتے۔ اس طرح مومن کی مدح و ستایش بھی نہیں کر سکتے۔ مالک! جب مومن اپنے دوست سے ملتا اور مصافحہ کرتا ہے تو خدا مسلسل دونوں پر نگاہ کرم رکھتا ہے۔ اور جدا ہونے تک گناہ ان دونوں کے چہروں سے گرتے رہتے ہیں ۔ یہاں تک ان پر گناہ باقی نہیں رہتے۔ بتائو ایسے شخص کی تعریف کیسے کر سکتے ہو۔

۵۷-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِذَا الْتَقَى الْمُؤْمِنَانِ كَانَ بَيْنَهُمَا مِائَةُ رَحْمَةٍ تِسْعٌ وَ تِسْعُونَ لِأَشَدِّهِمَا حُبّاً لِصَاحِبِهِ‏.

۷ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: جب دو مومن ملاقات کرتے ہیں تو ان پر سو رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ ان میں سے نناوے رحمتیں اس کے حصہ میں آتی ہیں جو اپنے دوست کو زیادہ محبوب رکھتا ہو۔

۵۸-عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ: زَامَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع إِلَى مَكَّةَ فَكَانَ إِذَا نَزَلَ صَافَحَنِي وَ إِذَا رَكِبَ صَافَحَنِي‏ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ كَأَنَّكَ تَرَى فِي هَذَا شَيْئاً فَقَالَ نَعَمْ إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا لَقِيَ أَخَاهُ فَصَافَحَهُ تَفَرَّقَا مِنْ غَيْرِ ذَنْبٍ‏.

۸ ۔ ابو عبید اللہ کہتے ہیں میں مکہ تک امام محمد باقر علیہ السلام کے ہم رکاب تھا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت جہاں بھی اترتے اور سوار ہوتے تھے مجھ سے مصافحہ کرتے تھے میں نے عرض کیا میری جان آپ پر نثار آپ مصافحہ میں کوئی خاص بات محسوس فرماتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا: ہاں جب مومن اپنے دوست سے مصافحہ کرتا ہے تو دونوں کے جدا ہونے تک ان پر کوئی گناہ نہیں رہتا۔

۵۹-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: فَكَمَا لَا تَقْدِرُ الْخَلَائِقُ عَلَى كُنْهِ صِفَةِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَكَذَلِكَ لَا تَقْدِرُ عَلَى كُنْهِ صِفَةِ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ كَمَا لَا تَقْدِرُ عَلَى كُنْهِ صِفَةِ الرَّسُولِ ص كَذَلِكَ لَا تَقْدِرُ عَلَى كُنْهِ صِفَةِ الْإِمَامِ وَ كَمَا لَا تَقْدِرُ عَلَى كُنْهِ صِفَةِ الْإِمَامِ كَذَلِكَ لَا يَقْدِرُونَ عَلَى كُنْهِ صِفَةِ الْمُؤْمِنِ‏.

۹ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: مخلوق کیلئے کما حقہ خدا کی ثنا و صفت کا بیان نا ممکن ہے اس طرح کنہ مدح پیغمبر دشوار ہے۔ اور جیسے مدح پیغمبر مشکل ہے اسی طرح حقیقی طور پر امام کی مدح سرائی دشوار ہے۔ اور جیسے مدح امام مشکل ہے یوں ہی مومن کی تعریف مشکل ہے۔

۶۰-عَنْ صَفْوَانَ الْجَمَّالِ قَالَ سَمِعْتُهُ‏ يَقُولُ‏ مَا الْتَقَى مُؤْمِنَانِ قَطُّ فَتَصَافَحَا إِلَّا كَانَ أَفْضَلُهُمَا إِيمَاناً أَشَدَّهُمَا حُبّاً لِصَاحِبِهِ وَ مَا الْتَقَى مُؤْمِنَانِ قَطُّ فَتَصَافَحَا وَ ذَكَرَا اللَّهَ فَيَفْتَرِقَاحَتَّى يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ‏.

۱۰ ۔ صفوان جمال کہتے ہیں: میں نے معصوم سے سنا کہ جب بھی دو مومن آپس میں ملاقات کرتے ہیں۔مصافحہ اور ذکر خدا کرتے ہیں تو جدا ہوتے ہی خدا ان دونوں کو بخش دیتا ہے۔ بشرطیکہ اس کی مرضی ہو۔

۶۱-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: نَزَلَ جَبْرَئِيلُ عَلَى النَّبِيِّ ص فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ رَبَّكَ يَقُولُ مَنْ أَهَانَ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنَ فَقَدِ اسْتَقْبَلَنِي بِالْمُحَارَبَةِ وَ مَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنُ بِمِثْلِ أَدَاءِ الْفَرَائِضِ وَ إِنَّهُ لَيَتَنَفَّلُ لِي حَتَّى أُحِبَّهُ فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ وَ بَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ وَ يَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا وَ رِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا وَ مَا تَرَدَّدْتُ فِي شَيْ‏ءٍ أَنَا فَاعِلُهُ كَتَرَدُّدِي فِي مَوْتِ [فَوْتِ‏] عَبْدِيَ الْمُؤْمِنِ يَكْرَهُ الْمَوْتَ وَ أَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ‏ وَ إِنَّ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ لَا يَسَعُهُ إِلَّا الْفَقْرُ وَ لَوْ حَوَّلْتُهُ إِلَى الْغِنَى كَانَ شَرّاً لَهُ وَ مِنْهُمْ مَنْ لَا يَسَعُهُ إِلَّا الْغِنَى وَ لَوْ حَوَّلْتُهُ إِلَى الْفَقْرِ لَكَانَ شَرّاً لَهُ‏ وَ إِنَّ عَبْدِي لَيَسْأَلُنِي قَضَاءَ الْحَاجَةِ فَأَمْنَعُهُ إِيَّاهَا لِمَا هُوَ خَيْرٌ لَهُ‏.

۱۱ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام فرماتے ہیں: جبرائیل، رسول خدا صہ کی خدمت میں نازل ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ خداوند عالم ارشاد فرماتے ہیں، جو میرے مومن بندے کی بے حرمتی کرتا ہے وہ مجھ سے جنگ کے درپے ہوتا ہے۔

بندہ مومن فرائض (نمازیومیہ) ادا کر کے مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے۔ مگر جب وہ نافلہ پڑہتا ہے اور میرے لیے واجبات کے علاوہ اعمال مندوبہ بجا لاتا ہےتو میں اس سے محبت کرتا ہوں اور جب میں اسے محبوب بناتا ہوں تو اس کے سننے کا کان، اس کے دیکھنے کی آنکھ، اس کے توانائی بازوں کا ہاتھ، اس کے رفتار کا پائوں میں ہو جاتا ہوں۔

جو کچھ بھی میں کرتا ہوں اس میں مجھے وہ تردد نہیں ہوتا جو بندہ مومن کی موت میں ہوتا ہے۔ جسے وہ پسند نہ کرتا ہو۔ کیوں کہ مجھے مومن کو دکھ دینا اچھا نہیں لگتا۔ کچھ ایسے مومن بھی ہیں جو بہت تنگدست ہیں، اگر انہیں تونگری کی طرح موڑ دوں تو خود ان کے لئے نقصان کا باعث ہے۔ کچھ ایسے مومن ہیں جو دولتمند ہیں لیکن انہیں بے ذر و مال کر دوں تو نقصان دہ بات ہوگی۔

میرا بندہ مومن جب مجھ سے کسی حاجت کو پورا کرنے کی درخواست کرتا ہے، اور میں اسے پورا نہیں کرتا تو جو بہتر ہوتا ہے وہ اسے دیتا ہوں۔

۶۲-وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مَنْ أَهَانَ لِي وَلِيّاً فَقَدْ أَرْصَدَ لِمُحَارَبَتِي وَ مَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدٌ بِمِثْلِ مَا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ وَ إِنَّهُ لَيَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّافِلَةِ حَتَّى أُحِبَّهُ فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ وَ بَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ وَ يَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا وَ رِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا إِنْ دَعَانِي أَجَبْتُهُ وَ إِنْ سَأَلَنِي أَعْطَيْتُهُ وَ مَا تَرَدَّدْتُ فِي شَيْ‏ءٍ أَنَا فَاعِلُهُ كَتَرَدُّدِي فِي مَوْتِ الْمُؤْمِنِ يَكْرَهُ الْمَوْتَ‏ وَ أَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ‏.

۱۲ ۔ ابو جعفر علیہ السلام سے روایت ہے، خداوند عالم فرماتا ہے: جو شخص میرے دوست و ولی سے توہین آمیز سلوک کرتا ہے وہ مجھ سے جنگ کے در پے ہوتا ہے۔ بندہ مومن فرائض کے ذریعہ مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ نافلہ ادا کر کے اور زیادہ قربت اختیار کرتا ہے، پھر اسے محبوب بنا لیتا ہوں، جب محبوبیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے تو میں اس کے سننے کے کان، دیکھنی کی آنکھ، حملہ کا ہاتھ، سفر کا پائوں ہوتا ہوں۔ اگر وہ دعا کرتا ہے تو میں قبول کرتا ہوں۔ سوال کرتا ہے تو میں عطا کرتا ہوں۔ میں کسی بات میں اتنا تردد نہیں کرتا جس قدر مومن کی موت میں جسے وہ پسند نہ کرتا ہو۔ کیوں کہ میں مومن کو دکھ دینا نہیں چاہتا۔

۶۳-عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَ‏ مَنْ أَهَانَ لِي وَلِيّاً فَقَدْ أَرْصَدَ لِمُحَارَبَتِي وَ أَنَا أَسْرَعُ شَيْ‏ءٍ فِي نُصْرَةِ أَوْلِيَائِي وَ مَا تَرَدَّدْتُ فِي شَيْ‏ءٍ أَنَا فَاعِلُهُ كَتَرَدُّدِي فِي مَوْتِ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنِ إِنِّي لَأُحِبُّ لِقَاءَهُ فَيَكْرَهُ الْمَوْتَ فَأَصْرِفُهُ عَنْهُ وَ إِنَّهُ لَيَسْأَلُنِي فَأُعْطِيهِ وَ إِنَّهُ لَيَدْعُونِي فَأُجِيبُهُ وَ لَوْ لَمْ يَكُنْ فِي الدُّنْيَا إِلَّا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ لَاسْتَغْنَيْتُ بِهِ عَنْ جَمِيعِ خَلْقِي وَ لَجَعَلْتُ لَهُ مِنْ إِيمَانِهِ أُنْساً لَا يَسْتَوْحِشُ إِلَى أَحَدٍ.

۱۳ ۔ ابو عبد اللھ علیہ السلام سے روایت ہے کہ خداوند عالم فرماتا ہے: جو شخص میرے دوست (ولی) کی توہین کرتا ہے وہ مجھ سے لڑنے کی خواہش رکھتا ہے میں اپنے چاہنے والوں کی مدد جلد سے جلد کرتا ہوں۔ اور مجھے کسی بات میں وہ تردد نہیں ہوتا جو مومن کی موت میں ہوتا ہے۔ میں اس کی بقا کا مشتاق ہوتا ہوں اور وہ موت کو ناپسند کرتا ہے، میں موت کو روک لیتا ہوں۔ وہ مانگتا ہے میں اسے دیتا ہے۔ وہ دعا کرتا ہے میں قبول کرتا ہوں۔ اگر دنیا میں ایک بندہ مومن کے سوا کچھ نہ رہے جب بھی مجھے ساری دنیا کے مقابلہ میں کافی ہے۔ اور اس کی تنہائی کیلئے اس کے ایمان کو ایسا انیس و ہمدم بنا دیتا ہوں کہ اسے پھر کسی کی ہمنشینی درکار نہیں ہوتی۔

۶۴-وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: لَوْ كَانَتْ ذُنُوبُ الْمُؤْمِنِ مِثْلَ رَمْلِ عَالِجٍ وَ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ لَغَفَرَهَا اللَّهُ لَهُ فَلَا تَجْتَرُوا .

۱۴ ۔ ابو جعفر علیہ السلام کہتے ہیں کہ اگر مومن کے گناہ ریت کے ذرات اور سمندر کے پھین کے برابر ہوں جب بھی خدا بخش دے گا، دیکھو (اس خوشخبری سے خوش ہو کر گناہوں کی )جرات نہ کرنا۔

۶۵-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: يُتَوَفَّى الْمُؤْمِنُ مَغْفُوراً لَهُ ذُنُوبُهُ ثُمَّ قَالَ إِنَّا وَ اللَّهِ جَمِيعاً.

۱۵ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام فرماتے ہیں خدا مومن کو دنیا سے گناہ بخشنے کے بعد اٹھاتا ہے۔ پھر فرمایا خدا کی قسم! ہم سب اسی طرح اٹھیں گے۔

۶۶-وَ عَنْ أَبِي الصَّامِتِ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فَقَالَ يَا أَبَا الصَّامِتِ أَبْشِرْ ثُمَّ أَبْشِرْ ثُمَّ أَبْشِرْ ثُمَّ قَالَ لِي يَا أَبَا الصَّامِتِ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَغْفِرُ لِلْمُؤْمِنِ وَ إِنْ جَاءَ بِمِثْلِ ذَا وَ مِثْلِ ذَا وَ أَوْمَأَ إِلَى الْقِبَابِ قُلْتُ وَ إِنْ جَاءَ بِمِثْلِ تِلْكَ الْقِبَابِ فَقَالَ إِي وَ اللَّهِ وَ لَوْ كَانَ بِمِثْلِ تِلْكَ الْقِبَابِ إِي وَ اللَّهِ مَرَّتَيْنِ‏.

۱۶ ۔ ابو صامت کہتے ہیں ابو عبد اللہ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: ابو صامت! خداوند عالم مومن کے گناہ بخش دے گا خواہ وہ ایسے ہوں یا ایسے۔آپ نے اشارہ فرمایا۔ میں نے عرض کی اگر ان (گنبندوں اور) قبون جیسے ہوں۔ آپ نے فرمایا، ہاں با خدا چاہے ان گنبندوں جیسے ہوں۔ آپ نے دو مرتبہ قسم کھائی۔

۶۷-وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: قُلْتُ بِمَكَّةَ لَهُ إِنَّ لِي حَاجَةً فَقَالَ تَلْقَانِي بِمَكَّةَ فَلَقِيتُهُ فَقُلْتُ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ إِنَّ لِي حَاجَةً فَقَالَ تَلْقَانِي بِمِنًى‏ فَلَقِيتُهُ بِمِنًى فَقُلْتُ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ إِنَّ لِي حَاجَةً فَقَالَ هَاتِ‏ حَاجَتَكَ فَقُلْتُ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ أَذْنَبْتُ ذَنْباً فِيمَا بَيْنِي وَ بَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ لَمْ يَطَّلِعْ عَلَيْهِ أَحَدٌ وَ أُجِلُّكَ‏ أَنْ أَسْتَقْبِلَكَ بِهِ فَقَالَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ تَجَلَّى‏ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ لِعَبْدِهِ الْمُؤْمِنِ فَيُوقِفُهُ عَلَى ذُنُوبِهِ ذَنْباً ذَنْباً ثُمَّ يَغْفِرُهَا لَهُ لَا يَطَّلِعُ عَلَى ذَلِكَ مَلَكٌ مُقَرَّبٌ وَ لَا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ وَ فِي حَدِيثٍ آخَرَ وَ يَسْتُرُ عَلَيْهِ مِنْ ذُنُوبِهِ مَا يَكْرَهُ أَنْ يُوقِفَهُ عَلَيْهِ ثُمَّ يَقُولُ لِسَيِّئَاتِهِ كُونِي حَسَنَاتٍ وَ ذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَ‏ فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ‏.

۱۷ ۔ راوی کہتا ہے۔ میں نے ابو جعفر علیہ السلام سے مکہ میں عرض کیا مجھے ایک ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا: مکہ کے اندر بیان کرنا، میں نے مکہ کے اندر جا کر عرض کیا، فرزند رسول مجھے کچھ عرض کرنا ہے۔ فرمایا منی میں ملو، میں منی میں ملا اور عرض کیافرزند رسول کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں فرمایا ہاں بیان کرو۔ میں نے عرض کی، میں نے ایک ایسا گناہ کیا ہے، جسے صرف خداوند عالم جانتا ہے۔ حضرت نے فرمایا: قیامت کے دن خداوند عالم اپنے مومن بندے کو روکے گا اور اس کا ایک ایک گناہ گنوائے گا پھر انہیں فرمائے گااور اس کی خبر نہ کسی مقرب فرشتے کو ہوگی نہ کسی نبی مرسل کو۔

دوسری حدیث میں ہے۔ خدا بندہ مومن کے ان گناہوں پر پردہ ڈال دے گا جن کے بارے میں وہ یہ نہ چاہے گا کہ اسے با خبر کرے۔ اس کے گناہوں کو اشارہ ہوگا کہ حسنات میں بدل جائیں قرآن مجید میں یہ بات یوں ارشاد فرمائی ہے: یہ لوگ وہ ہیں جن کے سیئات کو خدا حسنات میں بدل دے گا۔

۶۸-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ أَنَّ الْكَافِرَ لَيَدْعُو فِي حَاجَتِهِ‏ فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَجِّلُوا حَاجَتَهُ بُغْضاً لِصَوْتِهِ وَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيَدْعُو فِي حَاجَتِهِ فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ أَخِّرُوا حَاجَتَهُ شَوْقاً إِلَى صَوْتِهِ فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ دَعَوْتَنِي فِي كَذَا وَ كَذَا فَأَخَّرْتُ إِجَابَتَكَ وَ ثَوَابُكَ كَذَا وَ كَذَا قَالَ فَيَتَمَنَّى الْمُؤْمِنُ أَنَّهُ لَمْ يُسْتَجَبْ لَهُ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا فِيمَا يَرَى مِنْ حُسْنِ الثَّوَابِ.

۱۸ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: کافر دعا کرتا ہے تو خداوند عالم حکم دیتا ہے اس کی دعا پوری کرو کہ اس کی آواز بری سمجھتا ہے۔ اور جب مومن دعا کرتا ہے تو خدا کہتا ہے اس کی حاجت روا کرنے میں دیر کرو مجھے اس کی آواز اچھی معلوم ہوتی ہے۔ پھر قیامت کے دن خدا کہے گا میرے بندہ مومن تو نے مجھے فلاں فلاں موقعہ پر پکارا تھا اور تیری دعا قبول ہونے میں تاخیر ہوئی تھی۔ اب تیرا ثواب یہ ہے۔ اس وقت مومن تمنا کرے گا کہ کاش دنیا میں اس کی کوئی بھی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی۔ اس ثواب و انعام کا مرتبہ دیکھ کر۔

۶۹-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا دَعَا اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَجَابَهُ فَشَخَصَ بَصَرِي نَحْوَهُ إِعْجَاباً بِهَا قَالَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ لِخَلْقِهِ‏.

۱۹ ۔ ابو عبد اللھ علیہ السلام نے فرمایا: کہ جب کوئی مومن دعا کرتا ہے تو خدا اسے قبول فرما لیتا ہے اس پر میری نگاہیں حیرت سے مڑیں۔ حضرت نے ارشاد کیا، بیشک خدا اپنی مخلوق کیلئے بڑی وسعتیں رکھتا ہے۔

۷۰-وَ عَنِ ابْنِ أَبِي الْبِلَادِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالَ: إِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ صَعِدَ مَلَكَاهُ فَقَالا يَا رَبِّ مَاتَ فُلَانٌ فَيَقُولُ انْزِلَا فَصَلِّيَا عَلَيْهِ عِنْدَ قَبْرِهِ وَ هَلِّلَانِي وَ كَبِّرَانِي إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَ اكْتُبَا مَا تَعْمَلَانِ لَهُ‏.

۲۰ ۔ ابن ابی الولاد نے اپنے والد سے انہوں نے کسی عالم کی زبانی نقل کیا ہے کہ جب مومن مرتا ہے تو اس کے دونوں (کاتب اعمال ) فرشتے عالم بالا میں جاتے اور حضور خداوندی میں عرض کرتے ہیں کہ پروردگارا فلاں شخص مر گیا، حکم ہوتا ہے جائو قیامت تک اس کی قبر کے پاس (عبادت کرو) نماز پڑہو، تکبیر و تحلیل کرو۔ اور جو عمل کرو اس کو اسی کے نامہ اعمال میں لکھتے رہو۔

۷۱-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ رُؤْيَاهُ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءاً مِنَ النُّبُوَّةِ وَ مِنْهُمْ مَنْ يُعْطَى عَلَى الثَّلَاثِ‏.

۲۱ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام کا ارشاد ہے: مومن کا خواب نبوت کا حصہ ہے، بعض لوگوں کو اس میں سے تین حصہ مل جاتے ہیں۔

۷۲-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ عَبْداً عَصَمَهُ وَ جَعَلَ غِنَاهُ فِي نَفْسِهِ‏ وَ جَعَلَ ثَوَابَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَ إِذَا أَبْغَضَهُ وَكَلَهُ إِلَى نَفْسِهِ وَ جَعَلَ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ‏.

۲۲ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام فرماتے ہیں جب خدا کسی بندہ سے محبت فرماتا ہے تو اسے ہر بات سے بچاتا ہے۔ اس کے دل میں بے نیازی پیدا کر دیتا ہے اور اس کا ثواب اسے دکھا دیتا ہے (اور جب کسی سے غضبناک ہوتا ہے تو اسے نفس امارہ کے حوالے کر دیتا ہےاور اس کی بے مایگی اس کی آنکھوں کے سامنے پیش کر دیتا ہے)

۷۳ابْنُ أَبِي الْبِلَادِ وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ الْعَبْدَ لَيَدْعُو فَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَ جَلَّ يَا جَبْرَئِيلُ احْبِسْهُ بِحَاجَتِهِ فَأَوْقِفْهَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ شَوْقاً إِلَى صَوْتِهِ‏.

۲۳ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب کوئی مومن دعا کرتا ہے تو خدا جبرائیل کو حکم دیتا ہے کہ جبرائیل اس کی حاجت روک لو اس کی آواز مجھے محبوب ہے۔

۷۴-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَ طِينَةَ الْمُؤْمِنِ مِنْ طِينَةِ الْأَنْبِيَاءِ فَلَنْ تَخْبُثَ‏ أَبَداً.

۲۴ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام فرماتے ہیں خداوند عالم نے مومن کی طینت پیغمبروں کی طینت سے بنائی ہے اس لئے وہ کبھی بھی نجس نہیں ہو سکتی۔

۷۵-عَنْ صَفْوَانَ الْجَمَّالِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ‏ إِنَّ هَلَاكَ الرَّجُلِ لَمِنْ ثَلْمِ الدِّينِ‏.

۲۵ ۔ صفوان جمال کہتے ہیں کہ میں ابو عبد اللہ علیہ السلام سے سنا کہ مسلمان آدمی کی موت دین میں رخنہ ڈالتی ہے۔

۱۷۶وَ قَالَ النَّبِيُّ ص‏ مَنْ لَا يَعْرِفُ لِأَخِيهِ مِثْلَ مَا يَعْرِفُ لَهُ فَلَيْسَ بِأَخِيهِ‏.

۲۶ ۔ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: مومن کا عمل جنت میں اس کے لئے انتظام کرتا ہے، جیسے کوئی شخص اپنے خادم کو بھیجےاور وہ اس لئے فرش وغیرہ تیار کرے۔ اس کے بعد آپ نے قرآن مجید کی آیت (سورہ روم، آیت ۴۴) پڑہی و من عمل صالحا ۔۔۔ اور جو شخص نیک عمل کرے گا وہ عمل اس کیلئے راہیں ہموار کریں گے۔

۷۷-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ اللَّهَ يَذُودُ الْمُؤْمِنَ عَمَّا يَكْرَهُ كَمَا يَذُودُ الرَّجُلُ الْبَعِيرَ الْغَرِيبَ لَيْسَ مِنْ إِبِلِهِ [أَهْلِهِ‏].

۲۷ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا اللہ مومن کو برائیوں سے یوں ڈھکیلتا ہے جیسے کوئی شخص اجنبی اونٹ اپنے اونٹوں سے نکال دے۔

۷۸-وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَيْنِ إِذَا الْتَقَيَا فَتَصَافَحَا أَدْخَلَ اللَّهُ يَدَهُ فَصَافَحَ‏ أَشَدَّهُمَا حُبّاً لِصَاحِبِهِ‏.

۲۸. حضرت ابو جعفر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب دو مومن ملاقات کے وقت مصافحہ کرتے ہیں تو (خداوند عالم) ان میں جو زیادہ محبت کرنے ولا ہے، اس پر دست کرم رکھتا ہے۔

۷۹-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّهُ قَالَ: كَمَا لَا يَنْفَعُ مَعَ الشِّرْكِ شَيْ‏ءٌ فَلَا يَضُرُّ مَعَ الْإِيمَانِ شَيْ‏ءٌ .

۲۹ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ جیسے شرک کے ساتھ کوئی چیز فائدہ نہیں پہنچا سکتی، اسی طرح ایمان کے ساتھ کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

۸۰-وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مَا تَرَدَّدْتُ فِي شَيْ‏ءٍ أَنَا فَاعِلُهُ كَتَرَدُّدِي عَلَى قَبْضِ رُوحِ عَبْدِيَ‏ الْمُؤْمِنِ لِأَنَّنِي أُحِبُّ لِقَاءَهُ وَ هُوَ يَكْرَهُ الْمَوْتَ فَأَزْوِيهِ عَنْهُ وَ لَوْ لَمْ يَكُنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَاحِدٌ لَاكْتَفَيْتُ بِهِ عَنْ جَمِيعِ خَلْقِي وَ جَعَلْتُ لَهُ مِنْ إِيمَانِهِ أُنْساً لَا يَحْتَاجُ فِيهِ إِلَى أَحَدٍ.

۳۰ ۔ ابو جعفر علیہ السلام فرماتے ہیں خداوند عالم فرماتا ہے: مجھے کوئی چیز متردد نہیں کرتی۔ ہاں اس مومن کی روح قبض کرنا، جسے موت اچھی معلوم نہ ہو اور میں اس سے ملاقات چاہوں۔پھر میں موت اس سے دور کر دیتا ہوں۔ اگر پوری زمین پر صرف ایک مومن رہ جائے تو ساری خلقت کے مقابلہ میں وہ ایک اکیلا کافی ہے۔ اور میں اس کے ایمان کو اس کا غمگسار بنا دوں کہ وہ کسی کا محتاج نہ رہے۔

۸۱-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: مَا مِنْ مُؤْمِنٍ يَمُوتُ فِي غُرْبَةٍ مِنَ‏ الْأَرْضِ فَيَغِيبُ عَنْهُ بَوَاكِيهِ إِلَّا بَكَتْهُ بِقَاعُ الْأَرْضِ الَّتِي كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَيْهَا وَ بَكَتْهُ أَثْوَابُهُ وَ بَكَتْهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ الَّتِي كَانَ يَصْعَدُ بِهَا عَمَلُهُ وَ بَكَاهُ الْمَلَكَانِ الْمُوَكَّلَانِ بِهِ‏.

۳۱ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام فرماتے ہیں اگر کوئی مومن ایسے عالم مسافرت میں دنیا سے اٹھتا ہے۔ جہاں اس پر رونے والیاں نہیں ہوتیں تو میں اس زمین کو اس پر رلاتا ہوں، جس پر اس نے نمازیں پڑہیں اور عبادتیں کی ہیں۔ اس کا ثواب روتا ہے۔ وہ دروازہ ہائے آسمان روتے ہیں جن سے اس کا عمل بلند ہوا کرتا تھا۔ اس کے وہ دونوں فرشتے روتے ہیں جو اس پر موکل تھے۔

۸۲-وَ عَنْ أَحَدِهِمَا ع قَالَ: إِنَّ ذُنُوبَ الْمُؤْمِنِ مَغْفُورَةٌ فَيَعْمَلُ الْمُؤْمِنُ لِمَا يَسْتَأْنِفُ أَمَا إِنَّهَا لَيْسَتْ إِلَّا لِأَهْلِ الْإِيمَانِ‏.

۳۲ ۔مومن کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں اور مومن از سر نو عمل کرتا ہے۔ یہ شرف صرف اہل ایمان ہی کو حاصل ہے۔

۸۳-عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَمَّارٍ قَالَ سَمِعْتُهُ‏ يَقُولُ‏ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَ‏ خَلْقاً ضَنَّ بِهِمْ عَنِ الْبَلَاءِ خَلَقَهُمْ فِي عَافِيَةٍ وَ أَحْيَاهُمْ فِي عَافِيَةٍ وَ أَمَاتَهُمْ فِي عَافِيَةٍ وَ أَدْخَلَهُمُ الْجَنَّةَ فِي عَافِيَةٍ.

۳۳ ۔ اسحق بن عمار کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا: کہ خداوند عالم کے کچھ خاص الخاص بندے ہیں جنہیں وہ ہر بلا سے بچاتا ہے، انہیں عافیت میں خلق فرمایا، عافیت کے ساتھ زندہ رکھا، عافیت کے ساتھ موت دی اور عافیت کے ساتھ جنت میں داخل کرے گا۔