• ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10925 / ڈاؤنلوڈ: 3043
سائز سائز سائز
کتاب المومن

کتاب المومن

مؤلف:
اردو

باب ۳ ۔ خدا نے مومنوں میں محبت و اخوت پیدا کی ہے۔

۸۴-عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ بَنُو أَبٍ وَ أُمٍّ فَإِذَا ضَرَبَ عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ عِرْقٌ سَهِرَ الْآخَرُونَ ‏.

۱ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مومن آپس میں سگے بھائی ہیں، اگر ایک کو بھی کوئی دکھ ہوتا ہے تو سب بے چین ہو جاتے ہیں۔

۸۵-وَ عَنْ أَحَدِهِمَا ع أَنَّهُ قَالَ: الْمُؤْمِنُ أَخُو الْمُؤْمِنِ‏ َالْجَسَدِ الْوَاحِدِ إِذَا سَقَطَ مِنْهُ شَيْ‏ءٌ تَدَاعَى سَائِرُ الْجَسَدِ.

۲ ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: مومن کی مثال یہ ہے، جیسے ایک جسم۔ کہ جیسے ایک جسم کے اگر جسم کا ایک حصہ بھی ضایع ہوتا ہے تو پورا جسم متاثر ہوتا ہے۔

۸۶-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّهُ قَالَ: الْمُؤْمِنُ أَخُو الْمُؤْمِنِ كَالْجَسَدِ الْوَاحِدِ إِذَا اشْتَكَى شَيْئاً مِنْهُ وَجَدَ أَلَمَ‏ ذَلِكَ فِي سَائِرِ جَسَدِهِ لِأَنَّ أَرْوَاحَهُمْ مِنْ رُوحِ اللَّهِ تَعَالَى وَ إِنَّ رُوحَ الْمُؤْمِنِ لَأَشَدُّ اتِّصَالًا بِرُوحِ اللَّهِ مِنِ اتِّصَالِ شُعَاعِ‏ الشَّمْسِ بِهَا.

اور حضرت ابو عبد اللہ علیہ السلام ہی نے فرمایا مومن، مومن کا بھائی ہے۔ جیسے ایک جسم کے اعضا، اگر ایک کو تکلیف ہوتی ہے تو پوے جسم کو تکلیف ہوتی ہے۔ اور مومن کی روح کا تعلق روح الہی سے اس سے زیادہ جیسے سورج کی کرن کا آفتاب سے۔

۸۷-عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: تَنَفَّسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ ثُمَّ قُلْتُ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ هَمٌّ يُصِيبُنِي مِنْ غَيْرِ مُصِيبَةٍ تُصِيبُنِي أَوْ أَمْرٍ يَنْزِلُ بِي حَتَّى تَعْرِفُ ذَلِكَ أَهْلِي فِي وَجْهِي وَ يَعْرِفُهُ صَدِيقِي فَقَالَ نَعَمْ يَا جَابِرُ قُلْتُ مَا ذَلِكَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ‏ قَالَ وَ مَا تَصْنَعُ بِهِ قُلْتُ أُحِبُّ أَنْ أَعْلَمَهُ فَقَالَ يَا جَابِرُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ طِينِ الْجِنَانِ وَ أَجْرَى بِهِمْ مِنْ رِيحِ‏ الْجَنَّةِ رُوحَهُ فَكَذَلِكَ الْمُؤْمِنُ أَخُو الْمُؤْمِنِ لِأَبِيهِ وَ أُمِّهِ فَإِذَا أَصَابَ رُوحاً مِنْ تِلْكَ الْأَرْوَاحِ فِي بَلْدَةٍ مِنَ الْبُلْدَانِ شَيْ‏ءٌ حَزِنَتْ [خَرِبَتْ‏] هَذِهِ الْأَرْوَاحُ لِأَنَّهَا مِنْهَا.

۳ ۔ جابر نے حضرت ابو عبد اللہ علیہ السلام کے سامنے ٹھنڈی سانس بھری پھر کہا۔ فرزند رسول ص!کبھی کبھی مجھے کسی مصیبت کے بغیر یا سانحہ کے بغیر غم محسوس ہونے لگتا ہے، دوست اور میرے گھر والے میرے چہرے سے اس کا اندازہ کر لیتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا: ہاں جابر ٹھیک ہے۔ میں نے عرض ہے اس کا سبب کیا ہے؟ فرمایا: یہ پوچھ کر کیا کرو گے؟ عرض کی میرا دل چاہتا ہے کہ وجہ معلوم ہو۔ فرمایا: خدا نے مومن جنت کی مٹی سے پیدا کیا ہے، ان کی روح میں جنت کی ہوا ملائی ہے، جبھی تو مومن، مومن کا حقیقی بھائی ہے۔ مومن دنیا کے کسی حصہ میں ہو، اگر کسی روح کو صدمہ پہنچتا ہے تو اپنے اسی تعلق کی وجہ سے دوسری روح غمگین ہو جاتی ہے۔

۸۸-وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: الْمُؤْمِنُ أَخُو الْمُؤْمِنِ لِأَبِيهِ وَ أُمِّهِ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ طِينِ الْجِنَانِ وَ أَجْرَى فِي صُوَرِهِمْ مِنْ رِيحِ الْجِنَانِ فَلِذَلِكَ هُمْ إِخْوَةٌ لِأَبٍ وَ أُمٍ‏.

۴ ۔ ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا: مومن، موم کا حقیقی بھائی ہے۔ کیونکہ خدا نے انہیں جنت کی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ جنت کی ہوا ان کے جسم میں رکھی۔ جبھی تو وہ مادری و پدری بھائی ہوئے۔

۸۹-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: الْأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ تَلْتَقِي فَتَتَشَامُّ كَمَا تَتَشَامُّ الْخَيْلُ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ وَ مَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ وَ لَوْ أَنَّ مُؤْمِناً جَاءَ إِلَى مَسْجِدٍ فِيهِ أُنَاسٌ كَثِيرٌ لَيْسَ فِيهِمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَاحِدٌ لَمَالَتْ رُوحُهُ إِلَى ذَلِكَ الْمُؤْمِنِ حَتَّى يَجْلِسَ إِلَيْهِ‏.

۵ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: روحیں گروہ در گروہ ہیں اور یہ ایک دوسرے کو یوں محسوس کرتی ہیں، جیسے عمدہ نسل گھوڑے۔ اب اگر وہ پہچان لیتی ہیں تو مانوس ہو جاتی ہیں اور اگر وہ بات محسوس نہیں کرتیں تو تم الگ ہو جاتے ہو۔ اگر کسی مسجد میں بہت سے لوگ ہوں اور ایک مومن بھی ہو تو روحیں ادھر مائل ہوتی ہیں اور آدمی وہیں جا بھیٹتا ہے۔

۹۰-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: لَا وَ اللَّهِ لَا يَكُونُ [الْمُؤْمِنُ‏] مُؤْمِناً أَبَداً حَتَّى يَكُونَ لِأَخِيهِ مِثْلَ الْجَسَدِ إِذَا ضَرَبَ عَلَيْهِ عِرْقٌ وَاحِدٌ تَدَاعَتْ لَهُ سَائِرُ عُرُوقِهِ‏.

۶ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: نہیں با خدا، مومن اسی وقت مومن ہوگا جب وہ اپنے برادر ایمانی کیلئے جسم کے مانند ہو جائے۔ کہ جب اس کے کسی حصہ کو دکھ پہنچتا ہے، تمام اعضا بے قرار ہو جاتے ہیں۔

۹۱-وَ عَنْهُ ع قَالَ: لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ شَيْ‏ءٌ يَسْتَرِيحُ إِلَيْهِ وَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ يَسْتَرِيحُ إِلَى أَخِيهِ الْمُؤْمِنِ كَمَا يَسْتَرِيحُ الطَّيْرُ إِلَى شَكْلِهِ‏.

۷ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: ہر چیز کیلئے کوئی چیز سکون کا باعث بنتی ہے، مومن کیلئے سکون کا باعث اس کا ایمانی بھائی ہے جس کے پاس بیٹھ کر اسے وہ سکون ملتا ہے جو طائر کو اپنے ہمجنس کے پاس بیٹھ کر۔

۹۲-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: الْمُؤْمِنُونَ فِي تَبَارِّهِمْ وَ تَرَاحُمِهِمْ وَ تَعَاطُفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى تَدَاعَى لَهُ سَائِرُهُ بِالسَّهَرِ وَ الْحُمَّى‏.

۸ ۔ مومن آپس میں میل جول، حسن سلوک اور ہمدردیوں میں جسم کے مانند ہیں کہ جب ایک عضو کو دکھ ہوتا ہے تمام جسم بخار اور شب بیداری میں بسر کرتا ہے۔

باب ۴ ۔ مومن کا مومن پر حق

- عَنِ الْمُعَلَّى بْنِ خُنَيْسٍ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع مَا حَقُّ الْمُؤْمِنِ عَلَى الْمُؤْمِنِ قَالَ إِنِّي عَلَيْهِ شَفِيقٌ إِنِّي أَخَافُ أَنْ تَعْلَمَ وَ لَا تَعْمَلَ وَ تُضَيِّعَ وَ لَا تَحْفَظَ قَالَ فَقُلْتُ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ قَالَ لِلْمُؤْمِنِ عَلَى الْمُؤْمِنِ سَبْعَةُ حُقُوقٍ وَاجِبَةٍ وَ لَيْسَ مِنْهَا حَقٌّ إِلَّا وَ هُوَ وَاجِبٌ عَلَى أَخِيهِ إِنْ ضَيَّعَ مِنْهَا حَقّاً خَرَجَ مِنْ وَلَايَةِ اللَّهِ وَ تَرَكَ طَاعَتَهُ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ فِيهَا نَصِيبٌ أَيْسَرُ حَقٍّ مِنْهَا أَنْ تُحِبَّ لَهُ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ وَ أَنْ تَكْرَهَ لَهُ مَا تَكْرَهُهُ لِنَفْسِكَ وَ الثَّانِي أَنْ تُعِينَهُ بِنَفْسِكَ وَ مَالِكَ وَ لِسَانِكَ وَ يَدَيْكَ وَ رِجْلَيْكَ وَ الثَّالِثُ أَنْ تَتَّبِعَ رِضَاهُ وَ تَجْتَنِبَ سَخَطَهُ وَ تُطِيعَ أَمْرَهُ وَ الرَّابِعُ أَنْ تَكُونَ عَيْنَهُ وَ دَلِيلَهُ وَ مِرْآتَهُ وَ الْخَامِسُ أَنْ لَا تَشْبَعَ وَ يَجُوعَ وَ تَرْوَى وَ يَظْمَأَ وَ تَكْتَسِيَ وَ يَعْرَى وَ السَّادِسُ أَنْ يَكُونَ لَكَ خَادِمٌ وَ لَيْسَ لَهُ خَادِمٌ‏ وَ لَكَ امْرَأَةٌ تَقُومُ عَلَيْكَ وَ لَيْسَ لَهُ امْرَأَةٌ تَقُومُ عَلَيْهِ أَنْ تَبْعَثَ خَادِمَكَ يَغْسِلُ ثِيَابَهُ وَ يَصْنَعُ طَعَامَهُ وَ يُهَيِّئُ فِرَاشَهُ وَ السَّابِعُ أَنْ تُبِرَّ قَسَمَهُ وَ تُجِيبَ دَعْوَتَهُ وَ تَعُودَ مَرْضَتَهُ وَ تَشْهَدَ جَنَازَتَهُ وَ إِنْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ تُبَادِرُ مُبَادَرَةً إِلَى قَضَائِهَا وَ لَا تُكَلِّفْهُ أَنْ يَسْأَلَكَهَا فَإِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ وَصَلْتَ وَلَايَتَكَ بِوَلَايَتِهِ وَ وَلَايَتَهُ بِوَلَايَتِكَ.

و عن المعلى‏ مثله و قال في حديثه فإذا جعلت ذلك وصلت ولايتك بولايته‏ و ولايته بولاية الله عز وجل‏.

۱ ۔ معلی بن خنیس نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کی، مومن کا مومن پر حق کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا: مجھے ڈر ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں تم کو بتادوں اور تم عمل نہ کر سکو، بھول جائو اور یاد نہ رکھ سکو۔ میں نے عرض کی ایسا نہ ہوگا۔ فرمایا مومن کے مومن پر سات واجبی حقوق ہیں اور کوئی حق ایسا نہیں جو ایک پر ہو دوسرے پر نہ ہو۔ اگر ان میں ایک حق بھی تلف ہو گیا تو خدا کی نافرمانی بھی ہوئی اور اس کی ولایت سے باہر بھی ہو گیا۔ پھر اسے ایمان کا کوئی حصہ نصیب نہ ہوگا۔ ان حقوق میں سب سے آسان حق یہ ہے کہ مومن جو اپنے لیے پسند کرے وہی اپنے دوست کیلیے اور جو خود نا پسند کرے وہی دوسرے کیلئے ناپسند کرے۔ دوسرے، یہ کہ اپنے دوست کی جان و مال، ہاتھ پائوں اور زبان سے مدد کرے۔ تیسرے، اس کی رضامندی کے در پر رہے۔ اس کو ناراض نہ ہونے دے۔ اس کا کہنا مانے۔ چوتھے، اس کیلئے گناہ و آئینہ صفت رہنما بنے۔ پانچھویں، وہ بوکھا ہو تو تم شکم سیر نہ ہو۔ وہ پیاسا ہو تو تم سیراب نہ ہو۔ چھٹے، تمہارے پاس خادم ہو یا تمہاری خادمہ ہے جو تمہاری خدمت کرے اور دوست بے نوکر چاکر ہو تو اس وقت تم فرض ہے کہ اپنے نوکر کو بھیج کر اس کے کپڑے دھلوا دو، اس کیلئے کھانا پکوا دو، اس کا بچھونا بچھوا دو۔ ساتویں، دوست، دوست کی قسم پوری کرے اس کی دعوت قبول کرے بیمار ہو تو عیادت کرے، مر جائے تو جنازے میں شریک ہو۔اگر اسے کوئی ضرورت پیش آجائے تو اسے پورا کرنے میں کوشش اور جلدی کرے ۔ وہ مجبور ہو کر تم سے سوال نہ کرے۔ اگر یہ مرحلہ طے کر لیے تو تمہاری محبت اس کی محبت اور اس کی محبت تمہاری محبت سے وابستہ ہوجائے گی۔

معلی بن خنیس کی اسی روایت میں ایک سلسلہ سے یہ جملا بھی نقل ہے۔ جب تم نے یہ کر دیا تو اپنی محبت کو اس کی محبت سے اور اس کی محبت، محبت خداوند عالم سے وابستہ کر لی۔

. ۹۴- عَنْ عِيسَى بْنِ أَبِي مَنْصُورٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَا وَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَعْفُورٍ وَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَلْحَةَ فَقَالَ ع ابْتِدَاءً يَا ابْنَ أَبِي يَعْفُورٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص سِتُّ خِصَالٍ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ عَنْ يَمِينِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ قَالَ ابْنُ أَبِي يَعْفُورٍ وَ مَا هِيَ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ يُحِبُّ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِأَعَزِّ أَهْلِهِ وَ يَكْرَهُ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ لِأَخِيهِ مَا يَكْرَهُ لِأَعَزِّ أَهْلِهِ وَ يُنَاصِحُهُ الْوَلَايَةَ فَبَكَى ابْنُ أَبِي يَعْفُورٍ وَ قَالَ كَيْفَ يُنَاصِحُهُ الْوَلَايَةَ قَالَ يَا ابْنَ أَبِي يَعْفُورٍ إِذَا كَانَ مِنْهُ بِتِلْكَ الْمَنْزِلَةِ بَثَّهُ هَمَّهُ‏ يَهُمُّ لِهَمِّهِ وَ فَرِحَ لِفَرَحِهِ إِنْ هُوَ فَرِحَ وَ حَزِنَ لِحُزْنِهِ إِنْ هُوَ حَزِنَ فَإِنْ كَانَ عِنْدَهُ مَا يُفَرِّجُ عَنْهُ فَرَّجَ عَنْهُ وَ إِلَّا دَعَا اللَّهَ لَهُ قَالَ ثُمَّ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع ثَلَاثٌ لَكُمْ وَ ثَلَاثٌ لَنَا أَنْ تَعْرِفُوا فَضْلَنَا وَ أَنْ تَطَئُوا أَعْقَابَنَا وَ تَنْظُرُوا عَاقِبَتَنَا فَمَنْ كَانَ هَكَذَا كَانَ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ فَيَسْتَضِيئُ بِنُورِهِمُ مَنْ هُوَ أَسْفَلُ مِنْهُمْ‏ فَأَمَّا الَّذِينَ عَنْ يَمِينِ اللَّهِ فَلَوْ أَنَّهُمْ يَرَاهُمْ مَنْ دُونَهُمْ لَمْ يَهْنِئْهُمُ الْعَيْشُ مِمَّا يَرَوْنَ مِنْ فَضْلِهِمْ فَقَالَ ابْنُ أَبِي يَعْفُورٍ مَا لَهُمْ فَمَا يَرَوْنَهُمْ وَ هُمْ عَنْ يَمِينِ اللَّهِ قَالَ يَا ابْنَ أَبِي يَعْفُورٍ إِنَّهُمْ مَحْجُوبُونَ بِنُورِ اللَّهِ أَ مَا بَلَغَكَ حَدِيثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص كَانَ يَقُولُ إِنَّ الْمُؤْمِنِينَ عَنْ يَمِينِ اللَّهِ وَ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وُجُوهُهُمْ أَبْيَضُ مِنَ الثَّلْجِ وَ

أَضْوَأُ مِنَ الشَّمْسِ الضَّاحِيَةِ فَيَسْأَلُ السَّائِلُ مَنْ هَؤُلَاءِ فَيُقَالُ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ تَحَابُّوا فِي جَلَالِ اللَّهِ‏.

۲ ۔ عیسی بن ابی منصور کہتے ہیں: میں، عبد اللہ بن ابی یعفور اور عبد اللہ طلحہ ابو عبد اللہ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھے۔ امام علیہ السلام نے ابن ابی یعفور کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا: ابن ابی یعفور! رسول اللہ صہ کا فرمان ہے: جس میں چھ خصلتیں ہوں گی وہ حضور خدا میں اوپر اور دائیں طرف کے لوگوں میں ہوگا۔ ابن ابی یعفور نے عرض کی، وہ کونسی خلصتیں ہیں؟ میں آپ پر فدا ہوں۔ فرمایا: مسلمان اپنے بھائی کیلئے وہی چیز پسند کرے جو اس کو اپنے عزیز ترین گھر والے کیلئے محبوب ہو۔ اور مرد مسلمان اپنے بھائی کیلئے وہ بات پسند نہ کرے جو اپنے عزیز ترین رشتہ دار کیلئے پسند نہ ہو۔ اور اس سے پر خلوص محبت رکھے۔

ابن ابی یعفور رونے لگے اور پوچھا، پر خلوص محبت کیوں کر رکھی جائے۔ امام عہ نے فرمایا: اس کی تین صورتیں ہیں، اس کی فکر میں فکر کرے، اس کی خوشی میں خوش ہو، اس کے غم میں غمگین ہو۔ اگر دوست کو خوشی ہو تو اس کی خوشی میں مسرور ہو، ورنہ دوست کے لیے مسرت کی دعا کرے۔

راوی کہتا ہے، پھر ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: تین باتیں تم سے متعلق ہیں اور تیں ہم سے: ہمارے شرف سے باخبر رہو۔ ہماری اولاد کا خیال رکھو، ہمارے مستقبل کا انتظار کرو۔ جو مومن اس انداز کا ہوگا وہ حضور خدا میں سامنے حاضر ہوگا۔ اس سے کم درجہ کے لوگ اس کی روشنی سے نور حاصل کریں گے۔ لیکن وہ لوگ دائیں طرف ہوں گے ان کا بھی عالم یہ ہوگا کہ ان سے کمتر درجہ کے لوگ اگر ان کا مرتبہ دیکھ لیں تو اپنی زندگی سے بیزار ہو جائیں (اور جلد سے جلد موت کی تمنا کر کے وہ مرتبہ حاصل کریں)

ابن ابی یعفور نے پوچھا: تو کمتر درجہ کے لوگ انہیں دائیں طرف ہوتے ہوئے دیکھتے کیوں نہیں؟ فرمایا: وہ لوگ نور الہی کے پردوں میں ہیں۔ ابن ابی یعفور! تمہیں رسول اللہ صہ کی وہ خدا کے مقربین میں دائیں سمت اور سامنے کے حاضر باش ہیں ان کے چہرے برف سے زیادہ سفید اور دوپہر کے سورج سے زیادہ منور ہیں۔ پوچھنے والا پوچھے گا، یہ لوگ کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جلال خدا باہم دیگر محبت کی تھی۔

۹۵-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: وَ اللَّهِ مَا عُبِدَ اللَّهُ بِشَيْ‏ءٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَاءِ حَقِّ الْمُؤْمِنِ‏ فَقَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ أَفْضَلُ حَقّاً مِنَ الْكَعْبَةِ وَ قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ أَخُو الْمُؤْمِنِ عَيْنُهُ وَ دَلِيلُهُ فَلَا يَخُونُهُ وَ لَا يَخْذُلُهُ‏ وَ مِنْ حَقِّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ أَنْ لَا يَشْبَعَ وَ يَجُوعُ أَخُوهُ وَ لَا يَرْوَى وَ يَعْطَشُ أَخُوهُ وَ لَا يَلْبَسُ وَ يَعْرَى أَخُوهُ وَ مَا أَعْظَمَ حَقَّ الْمُسْلِمِ عَلَى أَخِيهِ الْمُسْلِمِ‏ وَ قَالَ أَحْبِبْ لِأَخِيكَ الْمُسْلِمِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ وَ إِذَا احْتَجْتَ فَسَلْهُ وَ إِذَا سَأَلَكَ فَأَعْطِهِ وَ لَا تَمَلَّهُ خَيْراً وَ لَا يَمَلَّهُ لَكَ كُنْ لَهُ ظَهِيراً فَإِنَّهُ لَكَ ظَهِيرٌ إِذَا غَابَ فَاحْفَظْهُ فِي غَيْبَتِهِ وَ إِنْ شَهِدَ زُرْهُ وَ أَجْلِلْهُ وَ أَكْرِمْهُ فَإِنَّهُ مِنْكَ وَ أَنْتَ مِنْهُ وَ إِنْ كَانَ عَاتِباً فَلَا تُفَارِقْهُ حَتَّى تَسُلَّ سَخِيمَتَهُ وَ إِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ فَاحْمَدِ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ وَ إِنِ ابْتُلِيَ فَأَعْطِهِ وَ تَحَمَّلْ عَنْهُ وَ أَعِنْهُ‏.

۳ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت ہے مومن کا حق ادا کرنے سے بہتر خدا کی کوئی عبادت ہی نہیں کی گئی۔

آپ ہی نے فرمایا: مومن کا حق، کعبہ کے حق سے بہتر ہے۔ آپ ہی نے فرمایا: مومن، مومن کا بھائی، اس کی آنکھ اور اس کا رہنما ہے۔ نہ اپنے بھائی سے خیانت کرتا ہے نہ اسے یکا و تنہا چھوڑتا ہے۔

اور مسلمان کا مسلمان پر یہ حق ہے کہ اس وقت تک شکم سیر نہ ہو جب تک اس کا بھائی بوکھا ہو۔ جب تک بھائی پیاسا ہو۔ اس وقت تک سیراب نہ ہو۔ لیکن اس وقت تک لباس نہ پہنے جب تک وہ برہنہ رہے۔ اور مسلمان کے حق سے زیادہ کسی مسلمان پر کوئی حق نہیں۔

اور آپ ہی نے فرمایا: اپنے مسلمان بھائی کیلئے وہی چیز پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ جب تمہیں ضرورت ہو تو اس سے سوال کر لو۔ اور جب وہ تم سے سوال کرے تو اس کی بات پوری کرو۔ اسے بری بات سنا کر غمگین نہ کرو اور اسے اپنے لئے ناگوار نہ سمجھو، اس کے مددگار بنو۔ اگر وہ موجود نہ ہو تو اس کی غیر حاضری میں اس کی عزت و آبرو کا خیال رکھو۔ اگر وہ موجود ہو تو اس کی ملاقات کو جائو۔ اس کا اعزاز و اکرام کرو۔ کیونکہ وہ تمہارا ہے، تم اس کے ہو۔ اور اگر وہ ناراض ہو جائے تو اس وقت تک اس کو نہ چھوڑو جب تک وہ تم سے خوش نہ ہو جائے۔ اگر اسے کوئی خوشی ہو تو خدا کا شکر ادا کرو۔ اگر آزمائش میں مبتلا ہو تو اسے کچھ مالی امداد دو۔ اس کی بات برداشت کرو۔ اس کی رعایت کرو۔

۹۶-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: الْمُؤْمِنُ أَخُو الْمُؤْمِنِ يَحِقُّ عَلَيْهِ نَصِيحَتُهُ وَ مُوَاسَاتُهُ وَ مَنْعُ عَدُوِّهِ مِنْهُ ‏ ۔

۴ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: مومن، مومن کا بھائی ہے۔ اس کا حق اپنے بھائی پر یہ ہے کہ اس کے ساتھ خلوص سے پیش آئے، ہمدردی کرے، اسے دشمن سے بچائے۔

۹۷-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: مَا عُبِدَ اللَّهُ بِشَيْ‏ءٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَاءِ حَقِّ الْمُؤْمِنِ‏.

۵ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: حق مومن ادا کرنے سے بہتر خدا کی عبادت ہی نہیں کی گئی۔

۹۸-وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ص‏ الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَخُونُهُ وَ لَا يَخْذُلُهُ وَ لَا يَعِيبُهُ وَ لَا يَحْرِمُهُ وَ لَا يَغْتَابُهُ ‏.

۶ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: رسول اللہ صہ کا ارشاد ہے: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ وہ اس سے خیانت کرتا ہے نہ عیب لگاتا ہے، نہ اسے چھوڑتا ہے ، نہ اس کی غیبت کرتا ہے۔

۹۹-وَ عَنْهُ ع قَالَ: إِنَّ مِنْ حَقِّ الْمُسْلِمِ إِنْ عَطَسَ أَنْ يُسَمِّتَهُ وَ إِنْ أَوْلَمَ أَتَاهُ وَ إِنْ مَرِضَ عَادَهُ وَ إِنْ مَاتَ شَهِدَ جَنَازَتَهُ ‏.

۷ ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: مسلمان کا مسلمان پر حق یہ ہے کہ جب وہ چھینکے تو " یرحمكَ اللَّهُ " کہے اور اگر بیمار ہو جائے تو عیادت کرے اور اگر وفات پا جائے تو جنازہ میں شریک ہو۔

۱۰۰-وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع‏ أَنَّ نَفَراً مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَرَجُوا فِي سَفَرٍ لَهُمْ فَأَضَلُّوا الطَّرِيقَ فَأَصَابَهُمْ عَطَشٌ شَدِيدٌ فَتَيَمَّمُوا وَ لَزِمُوا أُصُولَ الشَّجَرِ فَجَاءَهُمْ شَيْخٌ عَلَيْهِ ثِيَابٌ بِيضٌ فَقَالَ قُومُوا لَا بَأْسَ عَلَيْكُمْ هَذَا الْمَاءُ قَالَ فَقَامُوا وَ شَرِبُوا فَأُرْوُوا فَقَالُوا لَهُ مَنْ أَنْتَ رَحِمَكَ اللَّهُ قَالَ أَنَا مِنَ الْجِنِّ الَّذِينَ بَايَعُوا رَسُولَ اللَّهِ ص إِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ الْمُؤْمِنُ أَخُو الْمُؤْمِنِ عَيْنُهُ وَ دَلِيلُهُ فَلَمْ تَكُونُوا تَضِيعُوا بِحَضْرَتِي‏.

۸ ۔ ابو جعفر علیہ السلام فرماتے ہیں: کچھ مسلمان سفر کیلئے چلے اتفاقا راستے میں بھٹک گئے۔ اسی عالم میں انہیں سخت پیاس لگی۔ انہوں نے (غسل میت کے بدلہ) تیمم کر لیےاور درخت کے تنو کی آڑ میں بیٹھ گئے۔ اتنے میں ایک سفید پوش بزرگ آئے اور کہنے لگے: اٹھو۔ کوئی ڈر کی بات نہیں۔ لو یہ پانی ہے۔ یہ لوگ اٹھے اور سیر ہو کر پانی پیا۔ اور ان سے پوچھا: آپ کون ہیں؟ خدا آپ پر کرم فرمائے۔ انہوں نے کہا، میں ان جنوں میں سے ہوں جنہوں نے رسول اللہ صہ کی بیعت کی اور میں نے آنحضرت صہ سے سنا تھا: مومن، مومن کا بھائی ہے۔ اس کا نگہبان ہے، اس کا رہنما ہے۔ پھر تم میرے سامنے کیسے ہلاک ہو سکتے تھے۔

۱۰۱عَنْ سَمَاعَةَ قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنْ قَوْمٍ عِنْدَهُمْ فُضُولٌ وَ بِإِخْوَانِهِمْ حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ وَ لَيْسَ تَسَعُهُمُ الزَّكَاةُ وَ مَا يَسَعُهُمْ أَنْ يَشْبَعُوا وَ يَجُوعَ إِخْوَانُهُمْ فَإِنَّ الزَّمَانَ شَدِيدٌ فَقَالَ الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَ لَا يَخْذُلُهُ وَ لَا يَحْرِمُهُ‏ وَ يَحِقُّ عَلَى الْمُسْلِمِينَ‏ الِاجْتِهَادُ لَهُ وَ التَّوَاصُلُ عَلَى الْعَطْفِ‏ وَ الْمُوَاسَاةُ لِأَهْلِ الْحَاجَةِ وَ التَّعَطُّفُ مِنْكُمْ يَكُونُونَ عَلَى أَمْرِ اللَّهِ رُحَمَاءَ بَيْنَهُمْ مُتَرَاحِمِينَ مُهِمِّينَ‏ لِمَا غَابَ عَنْكُمْ مِنْ أَمْرِهِمْ عَلَى مَا مَضَى عَلَيْهِ مَعْشَرُ الْأَنْصَارِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ص‏.

۹ ۔ سماعہ کہتے ہیں، میں نے امام عہ سے پوچھا: کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس کچھ زائد دولت ہوتی ہے اور ان کے احباب شدید ضرورتوں میں مبتلا ہوتے ہیں، لیکن ان پر زکوات بھی واجب نہیں ہوتی، مگر یہ بھی گنجائش نہیں کہ خود شکم سیر ہوں اور ان کے بھائی بوکھے رہیں زمانہ بھی سخت ہے۔

حضرت نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ ظلم کرتا ہے، نہ اسے اکیلا چھوڑتا ہے اور نہ اسے محروم کرتا ہے۔ اور مسلمانوں پر حق ہے کہ محبت و شفقت کے ساتھ صلہ رحم میں کوشش کرے، حاجتمندوں کے ساتھ ہمدردی کرے اور ایک دوسرے کی خبر رکھے اور حکم خدا (رحماء بینھم؛ کی مثال بن جائیں۔ ایک دوسرے پر رحم کریں جو لوگ موجود نہ ہوں ان کے معاملات میں متفکر رہیں۔ جیسے رسول اللہ ص کے انصار تھے۔

۱۰۲وَ عَنْهُ ع قَالَ: سَأَلْنَاهُ عَنِ الرَّجُلِ لَا يَكُونُ عِنْدَهُ إِلَّا قُوتُ يَوْمِهِ وَ مِنْهُمْ مَنْ عِنْدَهُ قُوتُ شَهْرٍ وَ مِنْهُمْ مَنْ عِنْدَهُ قُوتُ سَنَةٍ أَ يَعْطِفُ مَنْ عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمٍ عَلَى مَنْ لَيْسَ عِنْدَهُ شَيْ‏ءٌ وَ مَنْ عِنْدَهُ قُوتُ شَهْرٍ عَلَى مَنْ دُونَهُ وَ مَنْ عِنْدَهُ قُوتُ سَنَةٍ عَلَى مَنْ دُونَهُ‏ عَلَى نَحْوِ ذَلِكَ وَ ذَلِكَ كُلُّهُ الْكَفَافُ الَّذِي لَا يُلَامُ عَلَيْهِ فَقَالَ ع هُمَا أَمْرَانِ أَفْضَلُكُمْ فِيهِ أَحْرَصُكُمْ عَلَى الرَّغْبَةِ فِيهِ وَ الْأَثَرَةِ عَلَى نَفْسِهِ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ‏ وَ يُؤْثِرُونَ عَلى‏ أَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كانَ بِهِمْ خَصاصَةٌ وَ إِلَّا لَا يُلَامُ عَلَيْهِ‏ وَ الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى وَ يَبْدَأُ بِمَنْ يَعُولُ‏.

۱۰ ۔ امام علیہ السلام سے پوچھا گیا: ایک ایسا شخص ہے جس کے پاس ایک دن کی خوراک ہے، کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس ایک مہینہ کی خوراک ہے، کچھ ایسے بھی ہیں جن کے پاس ایک سال کی روزی ہے۔ کیا ایک دن کی خوراک رکھنے والا، دوسرے آدمیوں کے ہوتے ہوئے اپنے ایک دن کی خوراک بوکھے کو دے دے گا۔ حالانکہ یہی خوراک اس کی کل مایہ بساط ہے۔ حضرت نے فرمایا: دونوں برابر ہیں۔ اب ان میں افضلیت اسے ملے گی جو رعایا پر زیادہ مہربان ہو، ورنہ وہ اپنی ذات کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ قرآن مجید میں انہی ایثار پسند مومنوں کی تعریف کی گئی ہے۔ سورہ حشر کی نویں آیت ہے۔ اور وہ لوگ انتہائی ضرورت کے دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں۔ اگر یہ جذبہ نہ ہو تو وہ دوسرے کو کچھ نہ دیں۔ اونچا ہاتھ پھیلے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اور پہل اسے دی جائے جو محتاج ہو۔

۱۰۳وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: أَ يَجِي‏ءُ أَحَدُكُمْ إِلَى أَخِيهِ فَيُدْخِلُ يَدَهُ فِي كِيسِهِ فَيَأْخُذُ حَاجَتَهُ فَلَا يَدْفَعُهُ فَقُلْتُ مَا أَعْرِفُ ذَلِكَ فِينَا قَالَ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع فَلَا شَيْ‏ءَ إِذاً قُلْتُ فَالْهَلَكَةُ إِذاً قَالَ إِنَّ الْقَوْمَ لَمْ يُعْطَوْا أَحْلَامَهُمْ بَعْدُ.

۱۱ ۔ ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا: کیا کبھی یہ بھی ہوا کہ ایک شخص اپنے برادر مومن کے پاس آئے۔ اس کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اپنی ضرورت کی چیز نکال لے۔ پھر واپس نہ کرے۔

راوی نے عرض کی: ایسا کوئی آدمی ہمارے دوستوں میں تو ہے نہیں۔ امام عہ نے فرمایا: تو پھر کچھ بھی نہیں۔ راوی نے عرض کی: اس کی معنی یہ ہے کہ ہم کہیں کے نہ رہے؟ حضرت نے فرمایا: اس قوم کو اب عقل کیا آئے گی۔

۱۰۴وَ عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع‏ قَالَ قَدْ فَرَضَ اللَّهُ التَّمَحُّلَ عَلَى الْأَبْرَارِ فِي كِتَابِ اللَّهِ قِيلَ وَ مَا التَّمَحُّلُ قَالَ إِذَا كَانَ وَجْهُكَ آثَرَ عَنْ وَجْهِهِ الْتَمَسْتَ‏ لَهُ‏ وَ قَالَ ع فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَ‏ وَ يُؤْثِرُونَ عَلى‏ أَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كانَ بِهِمْ خَصاصَةٌ قَالَ لَا تَسْتَأْثِرْ عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَحْوَجُ إِلَيْهِ مِنْكَ‏.

۱۲ ۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: خدا نے ابرار و نیکوکار لوگوں کو قرآن میں تمحل (یا تحمل) کا حکم دیا ہے۔ پوچھا گیا تمحل (یا تحمل) کی معنی کیا ہے؟ فرمایا: جب تمہاری آبرو اس شخص سے زیادہ ہو جس کیلئے تم سے درخواست کی گئی ہو۔ قرآن مجید کی آیت و یوثرون علی انفسھم و لو کان بھم خصاصہ۔ کے بارے میں ارشاد ہے کہ اپنے سے زیادہ محتاج شخص کو ضرورت میں ترجیح دو۔

۱۰۵وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ الْمُسْلِمَ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَلُمْهُ وَ لَا يَخْذُلُهُ وَ لَا يَعِيبُهُ وَ لَا يَغْتَابُهُ وَ لَا يَحْرِمُهُ وَ لَا يَخُونُهُ‏ وَ قَالَ لِلْمُسْلِمِ عَلَى أَخِيهِ مِنَ الْحَقِّ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ وَ يَعُودَهُ إِذَا مَرِضَ وَ يَنْصَحَ لَهُ إِذَا غَابَ وَ يُسَمِّتَهُ إِذَا عَطَسَ وَ يُجِيبَهُ إِذَا دَعَاهُ وَ يُشَيِّعَهُ إِذَا مَاتَ‏.

۱۳ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اسے تنہا چھوڑتا ہے، نہ اس کو عیب لگاتا ہے، نہ اسے محروم کرتا ہے، نہ اسے خیانت کرتا ہے۔

معصوم نے فرمایا: مسلمان کا اپنے بھائی پر یہ حق ہے کہ ملاقات ہو تو اس پر سلام کرے۔ بیمار ہو تو عیادت کو جائے۔ غیر حاضر ہو تو اس کیلئے خلوص برتے۔ جب چھینکے تو دعا دے۔ جب بلائے اور پکارے تو جواب دے۔ مر جائے تو جنازہ میں شرکت کرے۔

۱۰۶وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع‏ أَنَّهُ قَالَ لِأَبِي إِسْمَاعِيلَ يَا أَبَا إِسْمَاعِيلَ أَ رَأَيْتَ فِيمَنْ قِبَلَكُمْ إِذَا كَانَ الرَّجُلُ لَيْسَ عِنْدَهُ رِدَاءٌ وَ عِنْدَ بَعْضِ إِخْوَانِهِ فَضْلُ رِدَاءٍ أَ يَطْرَحُهُ عَلَيْهِ حَتَّى يُصِيبَ رِدَاءً قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَإِذَا كَانَ لَيْسَ لَهُ إِزَارٌ أَ يُرْسِلُ إِلَيْهِ بَعْضَ إِخْوَانِهِ بِإِزَارٍ حَتَّى يُصِيبَ إِزَاراً قُلْتُ لَا فَضَرَبَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ ثُمَّ قَالَ مَا هَؤُلَاءِ بِإِخْوَانٍ‏.

۱۴ ۔ ابو جعفر علیہ السلام سے روایت ہے: آپ نے ابو اسماعیل سے فرمایا: ابو اسماعیل!تمہارے دوستوں میں اگر کسی کے پاس ایک عبا (قبا یا شیروانی پر ڈالنے ایک عربی لباس) ہو اور اس کے دوست کے پاس زیادہ عبائیں (ردائیں) ہوں تو وہ اپنی زائد عبا اپنے بھائی کو دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے دوسری ردا ملے۔اسماعیل نے عرض کیا۔ نہیں۔ فرمایا: اچھا اگر کسی کے پاس زیر جامہ نہ ہوتو دوسرا شخص جس کے پاس کئے ہوں وہ اتنی مدت کیلئے بھیج دیتا ہے کہ زیر جامہ بنوا لے۔ عرض کی، جی نہیں! حضرت علیہ السلام نے زانو پر ہاتھ مار کر فرمایا: تو پھر وہ لوگ آپس میں دوست اور بھائی نہیں۔