• ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10927 / ڈاؤنلوڈ: 3043
سائز سائز سائز
کتاب المومن

کتاب المومن

مؤلف:
اردو

باب ۶ ۔ مومن کی ملاقات اور مزاج پرسی

۱۴۶عَنِ النَّبِيِّ ص أَنَّهُ قَالَ: أَيُّمَا مُؤْمِنٍ عَادَ مَرِيضاً فِي اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ خَاضَ فِي الرَّحْمَةِ خَوْضاً وَ إِذَا قَعَدَ عِنْدَهُ اسْتَنْقَعَ اسْتِنْقَاعاً فَإِنْ عَادَهُ غُدْوَةً صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ إِلَى أَنْ يُمْسِيَ فَإِنْ عَادَهُ عَشِيَّةً صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ إِلَى أَنْ يُصْبِحَ‏.

۱ ۔ رسول اللہ صہ نے فرمایا: جو مومن رضائے خدا کے لیے کسی مریض کی عیادت کرتا ہے۔ وہ رحمتوں میں ڈوبتا ہے اور جب وہ مزاج پرسی کرتا ہے تو وہ خدا سے بھرپور فائدے حاصل کرتا ہے۔ اگر وہ صبح کو عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس کے لیے رحمت طلب کرتے ہیں اور اگر شام کو جاتا ہے تو ستر ہزار ملائکہ صبح تک اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔

۱۴۷وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: أَيُّمَا مُؤْمِنٍ عَادَ أَخَاهُ الْمُؤْمِنَ فِي مَرَضِهِ‏ صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعَةٌ وَ سَبْعُونَ‏ أَلْفَ مَلَكٍ فَإِذَا قَعَدَ عِنْدَهُ غَمَرَتْهُ الرَّحْمَةُ وَ اسْتَغْفَرُوا لَهُ حَتَّى يُمْسِيَ فَإِنْ عَادَهُ مَسَاءً كَانَ لَهُ مِثْلُ ذَلِكَ حَتَّى يُصْبِحَ‏.

۲ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام فرماتے ہیں: جو مومن اپنے برادر مومن کی بیماری میں صبح کے وقت مزاج پرسی کے لیے جاتا ہے اس کے لیے ستر ہزار فرشتے صبح تک رحمت کی دعا کرتے ہیں اور اگر اس کے پاس جا کر بیٹھتا ہے تو رحمتیں ڈھانپ لیتی ہیں اور شام تک اس کے واسطے مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور اگر شام کو عیادت کرتا ہے تو فرشتے صبح تک دعائے مغفرت کرتے ہیں۔

۱۴۸وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ‏ يُرِيدُ أَخَاهُ لِلَّهِ لَا لِغَيْرِهِ الْتِمَاسَ وَجْهِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَغْبَةً فِيمَا عِنْدَهُ وَكَّلَ اللَّهُ بِهِ سَبْعِينَ أَلْفَ مَلَكٍ يُنَادُونَهُ مِنْ خَلْفِهِ إِلَى أَنْ يَرْجِعَ إِلَى مَنْزِلِهِ أَلَا طِبْتَ وَ طَابَتْ لَكَ الْجَنَّةُ.

۳ ۔ ابو جعفر علیہ السلام فرماتےہیں:جب مسلمان شخص خشنودی و رضائے خدا کےلیےاپنے بھائی سےملنےجاتاہےتوخداوند عالم ستر ہزار فرشتے اس کی منزل تک صدا دیتے رہتے ہیں، تم خوش و خرم رہو اور جنت تم کو گوار ہو۔

۱۴۹وَ عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع‏ أَنَّهُ قَالَ لِبَعْضِ أَصْحَابِهِ تَذْهَبُ بِنَا نَعُودُ فُلَاناً قَالَ فَذَهَبْتُ مَعَهُ فَإِذَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ جَالِسٌ عِنْدَهُ فَقَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع يَا أَبَا مُوسَى أَ عَائِداً جِئْتَ أَمْ زَائِراً فَقَالَ لَا بَلْ عَائِداً فَقَالَ أَمَا إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا عَادَ أَخَاهُ الْمُؤْمِنَ صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهِ‏.

۴ ۔ امیر المومنین علیہ السلام کے بارے میں روایت ہے کہ آپ نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا: آئو فلاں شخص کی عیادت کر آئیں۔ وہ اصحابی امیر المومنین علیہ السلام کے ہمرکاب وہاں گئے، تو دیکھا ابو موسی اشعری بھیٹے ہوئے ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام نے ابو موسی اشعری سے پوچھا، عیادت کرنے آئے ہیں یا ملاقات کے لیے؟ ابو موسی نے کیا، عیادت کے لیے۔ حضرت نے فرمایا: جب کوئی مومن اپنے مومن بھائی کی عیادت کو جاتا ہے، ستر ہزار فرشتے اس وقت تک اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں جب تک وہ اپنے گھر واپس نہ آجائے۔

۱۵۰وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ع عَنِ النَّبِيِّ ص أَنَّهُ قَالَ: حَدَّثَنِي جَبْرَئِيلُ ع أَنَّ اللَّهَ أَهْبَطَ إِلَى الْأَرْضِ مَلَكاً وَ أَقْبَلَ ذَلِكَ الْمَلَكُ يَمْشِي حَتَّى وَقَعَ إِلَى بَابِ دَارِ رَجُلٍ وَ إِذَا رَجُلٌ يَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّ الدَّارِ فَقَالَ لَهُ الْمَلَكُ مَا حَاجَتُكَ إِلَى رَبِّ الدَّارِ قَالَ أَخٌ لِي مُسْلِمٌ زُرْتُهُ فِي اللَّهِ قَالَ لَهُ‏ مَا جَاءَ بِكَ إِلَّا ذَلِكَ قَالَ مَا جَاءَ بِي إِلَّا ذَلِكَ قَالَ فَإِنِّي رَسُولُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَيْكَ‏ وَ هُوَ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ وَ يَقُولُ أَوْجَبْتُ لَكَ الْجَنَّةَ قَالَ وَ قَالَ الْمَلَكُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ أَيُّمَا مُسْلِمٍ زَارَ مُسْلِماً لَيْسَ إِيَّاهُ يَزُورُ وَ إِنَّمَا إِيَّايَ يَزُورُ وَ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ.

۵ ۔ ابو جعفر علیہ السلام نے اپنے والد، انہوں نے امام حسین علیہ السلام سے روایت نقل کی، رسول اللہ صہ نے فرمایا کہ مجھ سے جبرائیل نے کہا: خداوند عالم نے ایک فرشتہ زمین پر بھیجا، وہ فرشتہ ایک آدمی کے گھر پر پہنچا، وہاں دروازے پر ایک آدمی صاحب خانہ سے اندر جانے کی اجازت مانگ رہا تھا، فرشتہ نے اس سے پوچھا: صاحب خانہ سے آپ کو کیا کام ہے؟ اس نے کہا، میں خدا کی خوشنودی کے لیے اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کو آیا تھا۔ فرشتے نے کہا: کیا واقع تو صرف خدا کے لیے یہاں آیا تھا؟ اس نے کہا: ہاں، صرف خدا کے لیے۔ فرشتہ نے کہا: تو بھائی، میں خدا کا پیام بر ہوں، خدا تمہیں سلام کہتا ہے، اور تم پر جنت واجب ہو چکی ہے۔ حضرت نے کہا، کہ فرشتہ نے بیان کیا، خداوند عالم فرماتا ہے: جو مسلمان دوسرے مسلمان کی ملاقات کو صرف میری خاطر جاتا ہے وہ میری ملاقات کو آتا ہے اور اس کا ثواب جنت ہے۔

۱۵۱وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِرِجَالِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ النَّبِيُّ وَ الصَّدِيقُ وَ الشَّهِيدُ وَ الْوَلِيدُ وَ الرَّجُلُ الَّذِي يَزُورُ أَخَاهُ فِي نَاحِيَةِ الْمِصْرِ لَا يَزُورُهُ إِلَّا فِي اللَّهِ عَزَّ وَجَلَ ‏.

۶ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ رسول اللہ صہ کا ارشاد گرامی ہے: تم لوگوں میں سے جنتی لوگوں کو بتائوں وہ کون ہیں؟ لوگوں نے عرض کی، جی ہاں، ارشاد ہو۔ فرمایا: نبی، صدیق، شہید اور نو مولود بچہ اور وہ شخص جو شہر سے دور دراز گوشہ میں کسی سے صرف خوشنودی خدا کی خاطر کسی سے ملنے جائے۔

۱۵۲عَنْ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ سَمِعْتُ الْعَبْدَ الصَّالِحَ يَقُولُ‏ مَنْ زَارَ أَخَاهُ الْمُؤْمِنَ لِلَّهِ لَا لِغَيْرِهِ يَطْلُبُ بِهِ ثَوَابَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ يَنْتَجِزُ مَوَاعِيدَ اللَّهِ تَعَالَى‏ وَكَّلَ اللَّهُ بِهِ‏ سَبْعِينَ أَلْفَ مَلَكٍ مِنْ حِينِ يَخْرُجُ مِنْ مَنْزِلِهِ حَتَّى يَعُودَ إِلَيْهِ يُنَادُونَهُ أَلَا طِبْتَ وَ طَابَتْ لَكَ الْجَنَّةُ تَبَوَّأْتَ مِنَ الْجَنَّةِ مَنْزِلًا .

۷ ۔ ابو حمزہ کہتے ہیں، میں نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے سنا وہ فرما رہے تھے: جو اپنے مومن بھائی سے خوشنودی خدا کے لیے ملتا ہے اور اس کا ثواب صرف خدا سے چاہتا ہے اور خدا کے وعدوں پر بھروسہ رکھتا ہے۔ خدا ستر ہزار فرشتے اس کے واسطے نامزد کرتا ہے۔ یہ فرشتے اس کے برآمد ہونے سے گھر واپس آنے تک صدا دیتے رہتے ہیں: تو خود بھی خوش نصیب ہے اور جنت بھی تیری پسندیدہ جگہ ہے۔ یہ جنت تجھے ثواب میں ملی ہے۔

۱۵۳وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: مَنْ زَارَ أَخَاهُ الْمُؤْمِنَ قَالَ الرَّبُّ جَلَّ جَلَالُهُ أَيُّهَا الزَّائِرُ طِبْتَ وَ طَابَتْ لَكَ الْجَنَّةُ.

۸ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام کا ارشاد ہے: جب کوئی اپنے مومن بھائی کی ملاقات کو جاتا ہے تو خدا فرماتا ہے۔ اے ملنے آنے والے، خوش آمدید! تیرے لیے جنت خوشگوار و پسندیدہ مقام ہے۔

۱۵۴وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ أَيُّمَا مُسْلِمٍ عَادَ مَرِيضاً مِنَ الْمُؤْمِنِينَ‏ خَاضَ رِمَالَ‏ الرَّحْمَةِ فَإِذَا جَلَسَ إِلَيْهِ غَمَرَتْهُ الرَّحْمَةُ فَإِذَا رَجَعَ إِلَى مَنْزِلِهِ شَيَّعَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يَدْخُلَ إِلَى مَنْزِلِهِ كُلُّهُمْ يَقُولُونَ أَلَا طِبْتَ وَ طَابَتْ لَكَ الْجَنَّةُ.

۹ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: رسول اللہ صہ کا ارشاد ہے: جو مسلمان کسی بیمار کی عیادت کرنے جائے گا رحمت خدا اسے ڈھانپ لے گی اور جب وہ اس بیمار کے پاس بیٹھےگا اس وقت رحمت میں نہا جائے گا۔ جب واپس آئے گا تو ستر ہزار فرشتے کہتے ہوں گے۔ تو بھی پیارا، تیری جنت بھی تجھے پیاری ہو۔

۱۵۵وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ جَنَّةً لَا يَدْخُلُهَا إِلَّا ثَلَاثَةٌ رَجُلٌ حَكَمَ فِي نَفْسِهِ بِالْحَقِّ وَ رَجُلٌ زَارَ أَخَاهُ الْمُؤْمِنَ فِي الْبِرِّ وَ رَجُلٌ أَبَرَّ أَخَاهُ الْمُؤْمِنَ فِي اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَ ‏.

۱۰ ۔ ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی ایک ایسی جنت ہے جس میں تین قسم کے لوگ جا سکیں گے۔ اپنے نفس کے بارے میں بے لاگ فیصلہ کرنے والے، حسن سلوک کے طور پر اپنے مومن بھائی سے ملنے والے، رضائے خدا کی خاطر مومن سے حسن سلوک کرنے والے۔

۱۵۶وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ وَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أُوتِيَ‏ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَيُحَاسِبُهُ‏ حِساباً يَسِيراً ثُمَّ يُعَاتِبُهُ فَيَقُولُ لَهُ يَا مُؤْمِنُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَعُودَنِي حَيْثُ مَرِضْتُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ أَنْتَ رَبِّي وَ أَنَا عَبْدُكَ أَنْتَ الْحَيُّ الَّذِي لَا يُصِيبُكَ أَلَمٌ وَ لَا نَصَبٌ فَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَ جَلَّ مَنْ عَادَ مُؤْمِناً فَقَدْ عَادَنِي ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ هَلْ تَعْرِفُ فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ فَيَقُولُ نَعَمْ فَيَقُولُ لَهُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَعُودَهُ حَيْثُ مَرِضَ أَمَا لَوْ عُدْتَهُ لَعُدْتَنِي ثُمَّ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَ سُؤَالِكَ‏ ثُمَّ لَوْ سَأَلْتَنِي حَاجَةً لَقَضَيْتُهَا لَكَ ثُمَ‏ لَمْ أَرُدَّكَ عَنْهَا.

۱۱ ۔ ابو جعفر و ابو عبد اللہ علیھما السلام سے روایت ہے: قیامت کے دن خداوند عالم بندہ مومن کو قریب کرے گا، پھر سرسری حساب ہوگا، اس کے بعد اس کو سرزنش ہو گی کہ جب بیمار ہوا تھا تو مجھ تک آنے سے کس نے روکا تھا؟ مومن عرض کرے گا، پروردگارا! تو معبود ہے، میں بندہ ہوں، تو زندہ و پائندہ ہے جسے کوئی دکھ اور غم نہیں ہوتا، (یہ کیا ارشاد ہو رہا ہے؟) جواب ملے گا: جو بھی مومن کی عیادت کو گیا، اس نے میری عیادت کی۔ پھر دریافت کرے گا: تو فلاں ابن فلاں کو جانتا ہے؟ بندہ عرض کرے گا۔ ہاں، جانتا ہوں۔ ارشاد پوگا: کیا رکاوٹ تھی کہ وہ بیمار ہوا اور اس کی عیادت کو نہ گیا؟ اگر تو اس کی عیادت کو جاتا تو میں تیری عیادت کرتا۔ مجھے اپنی ضرورت کے وقت متوجہ پاتا۔ اگر کوئی حاجت طلب کرتا تو میں اسے پورا کرتا۔ پھر تجھے رد نہ کرتا اور تو محروم نہ لوٹتا۔

۱۵۷وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع‏ إِنَّ مَلَكاً مِنَ الْمَلَائِكَةِ مَرَّ بِرَجُلٍ قَائِمٍ عَلَى بَابِ دَارٍ فَقَالَ لَهُ الْمَلَكُ يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا يُقِيمُكَ عَلَى بَابِ هَذِهِ الدَّارِ قَالَ أَخٌ لِي فِي بَيْتِهَا أَرَدْتُ أَنْ‏ أُسَلِّمَ عَلَيْهِ فَقَالَ الْمَلَكُ هَلْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهُ رَحِمٌ مَاسَّةٌ أَوْ نَزَعَتْ بِكَ إِلَيْهِ حَاجَةٌ قَالَ لَا مَا بَيْنِي وَ بَيْنَهُ قَرَابَةٌ وَ لَا نَزَعَنِي‏ إِلَيْهِ حَاجَةٌ إِلَّا أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ وَ حُرْمَتُهُ فَأَنَا أَتَعَاهَدُهُ وَ أُسَلِّمُ عَلَيْهِ فِي اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ لَهُ الْمَلَكُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكَ وَ هُوَ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ وَ يَقُولُ لَكَ‏ إِنَّمَا إِيَّايَ أَرَدْتَ وَ إِلَيَّ تَعَمَّدْتَ وَ قَدْ أَوْجَبْتُ لَكَ الْجَنَّةَ وَ أَعْتَقْتُكَ مِنْ غَضَبِي وَ أَجَرْتُكَ مِنَ النَّارِ .

۱۲ ۔ ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا: ایک فرشتہ کسی راستے سے جا رہا تھا اس نے ایک آدمی کو ایک شخص کے دروازے پر کھڑے دیکھا۔ فرشتہ نے رک کر اس سے پوچھا: بندہ مومن اس دروازے پر کیسے کھڑے ہو؟ اس نے کہا: اس گھر میں میرا بھائی رہتا ہے، میں اسے سلام کرنے آیا ہوں۔ فرشتے نے کہا: اس کی تمہاری کوئی عزیزداری ہے یا کسی ضرورت سے آئے ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں کوئی قرابت داری نہیں، نہ کوئی ضرورت ہے۔ ہاں ، اخوت اسلامی اور حرمت دین کا رشتہ ضرور ہے۔ میں اس کا خیال رکھتا ہوں اور صاحب سلامت صرف خدا کے لیے کرتا ہوں۔ فرشتہ نے کہا: میں خدا قاصد ہوں اور تمہارے لیے اس کا سلام اور یہ پیام لایا ہوں کہ تم نے میری ہی بارگاہ کا ارادہ کیا ہے، میری ہی طرف بڑھے۔ میں نے جنت تمہارے لیے واجب قرار دی۔ میں نے تمہیں اپنے قہر و جلال سے آزاد اور جہنم سے رہا کیا۔

۱۵۸وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: أَيُّمَا مُؤْمِنٍ زَارَ مُؤْمِناً كَانَ زَائِراً لِلَّهِ‏ عَزَّ وَ جَلَ‏ وَ أَيُّمَا مُؤْمِنٍ عَادَ مُؤْمِناً خَاضَ الرَّحْمَةَ خَوْضاً فَإِذَا جَلَسَ غَمَرَتْهُ الرَّحْمَةُ فَإِذَا انْصَرَفَ وَكَّلَ اللَّهُ بِهِ‏ سَبْعِينَ أَلْفَ مَلَكٍ يَسْتَغْفِرُونَ لَهُ وَ يَسْتَرْحِمُونَ عَلَيْهِ وَ يَقُولُونَ طِبْتَ وَ طَابَتْ لَكَ الْجَنَّةُ إِلَى تِلْكَ السَّاعَةِ مِنَ الْغَدِ وَ كَانَ لَهُ‏ خَرِيفٌ مِنَ الْجَنَّةِ قَالَ الرَّاوِي وَ مَا الْخَرِيفُ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ زَاوِيَةٌ فِي الْجَنَّةِ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِيهَا أَرْبَعِينَ عَاماً .

۱۳ ۔ ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا: جو مومن دوسرے مومن کی ملاقات کو جاتا ہے، وہ شخص گویا خدا کی زیارت کو جاتا ہے۔ جو مومن کسی مومن کی عیادت کو جاتا ہے، وہ رحمت میں غوطہ لگاتا ہے اور جب بیمار کے پاس جا کر بیٹھتا ہے، رحمت اسے ہر طرف سے گھیر لیتی ہے، جب واپس جاتا ہے تو خدا ستر ہزار فرشتے نامزد کرتا ہے جو اس کے لیے اس وقت سے دوسرے دن تک مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے ہیں اور اس کے چاروں طرف خریف ہوتی ہے۔

راوی نے پوچھا: آپ پر میری جان فدا ہو، خریف کیا چیز ہے؟

فرمایا: جنت کا ایک کنارہ جس میں ایک گھوڑے سوار چالیس سال چلے تو اسے طے کر سکے گا۔

باب ۷: مومن کو کھلانے، پلانے، لباس دینے اور قرض ادا کرنے کا ثواب

۱۵۹عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع أَنَّهُ قَالَ: شِبَعُ أَرْبَعَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَعْدِلُ رَقَبَةً مِنْ وُلْدِ إِسْمَاعِيلَ ع‏.

۱ ۔ ابو جعفر علیہ السلام نےفرمایا:چارمسلمانوں کو کھاناکھلاناحضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک غلام کو آزاد کرنےکےبرابر ہے۔

۱۶۰وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: مَا مِنْ مُؤْمِنٍ يُدْخِلُ بَيْتَهُ مُؤْمِنَيْنِ يُطْعِمُهُمَا وَ يُشْبِعُهُمَا إِلَّا كَانَ ذَلِكَ أَفْضَلَ مِنْ عِتْقِ نَسَمَةٍ.

۲ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: جب کسی مومن کے گھر میں دو مومن آئیں اوروہ انہیں کھاناکھلائےتواسکایہ عمل ایک غلام آزادکرنےسےبہترہے۔

۱۶۱وَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع قَالَ: مَنْ أَطْعَمَ مُؤْمِناً مِنْ جُوعٍ أَطْعَمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ وَ مَنْ سَقَى مُؤْمِناً مِنْ ظَمَإٍ سَقَاهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الرَّحِيقِ الْمَخْتُومِ وَ مَنْ كَسَا مُؤْمِناً مِنَ الْعُرْيِ كَسَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنَ الثِّيَابِ الْخُضْرِ وَ فِي حَدِيثٍ آخَرَ قَالَ‏ مَنْ كَسَا مُؤْمِناً مِنْ عُرْيٍ لَمْ يَزَلْ فِي ضَمَانِ اللَّهِ مَا دَامَ عَلَيْهِ سِلْكٌ‏.

۱۶۲وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: مَنْ أَطْعَمَ مُؤْمِناً مِنْ جُوعٍ أَطْعَمَهُ اللَّهُ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ وَ أَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَقَى مُؤْمِناً سَقَاهُ اللَّهُ مِنَ الرَّحِيقِ الْمَخْتُومِ وَ أَيُّمَا مُؤْمِنٍ كَسَا مُؤْمِناً مِنْ عُرْيٍ لَمْ يَزَلْ فِي سِتْرِ اللَّهِ وَ حِفْظِهِ مَا بَقِيَتْ مِنْهُ خِرْقَةٌ.

۳ و ۴ ۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص کسی مومن کو بھوک میں شکم سیر کرے گا، خدا اسے جنت میں میووں سے سیر کرے گا اور جو کسی مومن کو پیاس کے وقت سیراب کرے گا، خدا اسے جنت کے بہترین مشروبات سے لطف اندوز ہونے کا شرف بخشے گا۔ جو مومن کسی بے لباس مومن کو لباس دے گا وہ اس وقت تک خدا کے ستر و حفظ و اماں میں رہے گا۔ جب تک اس کے جسم پر لباس کا ایک تار بھی باقی رہے۔ (چوتھی حدیث امام جعفر صادق علیہ السلام سے ہے اور صرف ایک لفظ عربی کا فرق ہے)۔

۱۶۳وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع‏ قَالَ لِبَعْضِ أَصْحَابِهِ يَا ثَابِتُ أَ مَا تَسْتَطِيعُ أَنْ تُعْتِقَ كُلَّ يَوْمٍ رَقَبَةً قُلْتُ أَصْلَحَكَ اللَّهُ مَا أَقْوَى عَلَى ذَلِكَ قَالَ أَ مَا تَقْدِرُ أَنْ تُغَدِّيَ أَوْ تُعَشِّيَ أَرْبَعَةً مِنَ الْمُسْلِمِينَ قُلْتُ أَمَّا هَذَا فَإِنِّي أَقْوَى عَلَيْهِ قَالَ هُوَ وَ اللَّهِ يَعْدِلُ عِتْقَ رَقَبَةٍ .

۵ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا: ثابت! روزانہ ایک غلام آزاد کر سکتے ہو؟ انہوں نے دعائیں دیتے ہوئے عرض کیا: میری حیثیت ایسی نہیں ہے ۔ فرمایا: چار آدمیوں کو صبح یا شام کا کھانا کھلا سکتے ہو؟ ثابت نے جواب دیا: جی ہاں، یہ تو ہو سکتا ہے۔ امام نے فرمایا: خدا کی قسم یہ کام ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔

۱۶۴وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: مَنْ كَسَا مُؤْمِناً ثَوْباً لَمْ يَزَلْ فِي رَحْمَةِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مَا بَقِيَ مِنَ الثَّوْبِ شَيْ‏ءٌ وَ مَنْ سَقَاهُ شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ سَقَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ رَحِيقٍ مَخْتُومٍ وَ مَنْ أَشْبَعَ جَوْعَتَهُ أَطْعَمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ.

۶ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نےفرمایا: جو کسی مومن کو لباس عطا کرے گا، جب تک اس لباس کا کوئی حصہ بھی مومن کے جسم پر رہے گا، اس وقت تک وہ خدا کی رحمتوں میں رہے گا اور جو مومن کو ایک گھونٹ پانی پلائے گا، خدا اسے جنت کی بہترین شراب پلائے گا اور جو مومن کی بھوک دور کرے گا، خدا اسے جنت کے پھلوں سے سیراب کرے گا۔

۱۶۵وَ عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٍّ ع أَنَّهُ قَالَ: لَأَنْ أُطْعِمَ أَخَاكَ لُقْمَةً أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِدِرْهَمٍ وَ لَأَنْ أُعْطِيَهُ دِرْهَماً أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِعَشَرَةٍ وَ لَأَنْ أُعْطِيَهُ عَشَرَةً أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُعْتِقَ رَقَبَةً.

۷ ۔ امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے روایت ہے: تمہارا اپنے مومن بھائی کو ایک لقمہ عطا کرنا، ایک درہم دینے سے زیادہ پسندیدہ ہے اور ایک درہم عطا کرنا، درہم صدقہ دینے سے زیادہ ا چھا ہے اور دس درہم عطا کرنا ایک غلام آزاد کرنے سے بہتر ہے۔

۱۶۶وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: مَا مِنْ مُؤْمِنٍ يُطْعِمُ مُؤْمِناً شِبَعاً إِلَّا أَطْعَمَهُ‏ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ وَ لَا سَقَاهُ شَرْبَةً إِلَّا سَقَاهُ اللَّهُ مِنَ الرَّحِيقِ الْمَخْتُومِ وَ لَا كَسَاهُ ثَوْباً إِلَّا كَسَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنَ الثِّيَابِ الْخُضْرِ وَ كَانَ فِي ضَمَانِ اللَّهِ تَعَالَى مَا دَامَ مِنْ ذَلِكَ الثَّوْبِ سِلْكٌ ‏.

۸ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: جو مومن بھی کسی مومن کو شکم سیر کرے گا، خداوند عالم اسے جنت کے پھلوں سے نوازے گا اور جب بھی کوئی مومن کسی کو سیراب کرے گا، خدا اسے جنت کا بہترین مشروب عطا فرمائے گا اور جو مومن بھی کسی مومن کو لباس پہنائے گا، خدا اسے جنت کے سبز رنگ کا لباس عطا کرے گا اور جب تک اس مومن کے جسم پر اس کپڑے کا ایک تار باقی رہے گا، لباس عطا کرنے والا مومن اس وقت تک خدا کی ضمانت میں رہے گا۔

۱۶۷وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: مِنْ‏ أَحَبِّ الْخِصَالِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ ثَلَاثَةٌ مُسْلِمٌ أَطْعَمَ مُسْلِماً مِنْ جُوعٍ أَوْ فَكَّ عَنْهُ كُرْبَةً أَوْ قَضَى عَنْهُ دَيْناً .

۹ ۔ ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا: خداوند عالم کی پسندیدہ خلصتیں تین ہیں: مسلمان کا کسی گرسنہ مسلمان کو سیر کرنا یا اس سے مصیبت دور کتنا اور مومن کے قرض کا ادا کرنا۔

۱۶۸وَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: أَوَّلُ مَا يُتْحَفُ بِهِ الْمُؤْمِنُ فِي قَبْرِهِ أَنْ يُغْفَرَ لِمَنْ تَبِعَ جَنَازَتَهُ‏.

۱۰ ۔ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: مرنے والوں کو اس کی قبر میں جو پہلا تحفہ دیا جائے گا، وہ یہ خوش خبری ہوگی کہ اس کے جنازے کے ساتھ آنے والے بخش دیے گئے۔

۱۶۹وَ عَنْ سَدِيرٍ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع‏ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُعْتِقَ كُلَّ يَوْمٍ نَسَمَةً قُلْتُ لَا يَحْتَمِلُ ذَلِكَ مَالِي قَالَ فَقَالَ تُطْعِمُ كُلَّ يَوْمٍ رَجُلًا مُسْلِماً فَقُلْتُ مُوسِراً أَوْ مُعْسِراً قَالَ إِنَّ الْمُوسِرَ قَدْ يَشْتَهِي الطَّعَامَ‏.

۱۱ ۔ سدیر سے روایت ہے کہ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا: تم روزانہ ایک غلام آزاد کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کی، میری مالی حیثیت اتنی بڑی نہیں ہے۔ فرمایا: روزانہ ایک مسلمان کو کھانا کھلا دیا کرو۔ میں نے عرض کی: پیسے والے آدمی کو یا محتاج کو؟ فرمایا: خوش حال تو کھانا خرید سکتا ہے۔

۱۷۰وَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع أَنَّهُ قَالَ: إِطْعَامُ مُسْلِمٍ يَعْدِلُ عِتْقَ‏ نَسَمَةٍ.

۱۲ ۔ ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا: مسلمان کو شکم سیر کرنا ایک غلام آزاد کرنے کے برابر (ثواب رکھتا) ہے۔