ریاض المجالس

ریاض المجالس0%

ریاض المجالس مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

ریاض المجالس

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ حافظ ریاض حسین نجفی
زمرہ جات: مشاہدے: 9632
ڈاؤنلوڈ: 2912

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9632 / ڈاؤنلوڈ: 2912
سائز سائز سائز
ریاض المجالس

ریاض المجالس

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مجلس دوم

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

( ایاک نعبد و ایاک نستعین )

"ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔"

سامعین گرامی!

انسان بارگاہ رب العزت میں طہارت و پاکیزگی کے ساتھ کھڑے ہوئے دن میں بار بار یہ دعویٰ کرتا ہے کہ تیری ذات میری معبود ہے۔ میری گردن تیرے ہی سامنے جھکے گی۔ میرا سر فقط تیرے سامنے خم ہو گا۔ اس انسان نے جب کلمہ پڑھا یعنی کہا لا الہ الا اللّٰہ‘ تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘ تیرے علاوہ کسی کو خدا نہیں مانتا۔ اب جب عبادت کر رہا ہے اس کا بدن پاک و پاکیزہ ہے‘ اس کے کپڑے پاک ہیں‘ خشوع و خضوع سے اس کے دربار میں کھڑا ہے‘ اپنے سامنے ذات کردگار کو پاتا ہے۔ اس وقت بھی یہی کہہ رہا ہوتا ہے کہ یااللہ میں تیرے سامنے جھکوں گا‘ تیرے علاوہ کسی کے سامنے نہیں جھکوں گا۔ اتنا بڑا دعویٰ انسان کرتا ہے‘ ظاہر ہے دعویٰ کرتے وقت اس کے ذہن میں یہ چیز ضرور آنی چاہئے کہ میں اتنی بڑی ذات کے سامنے افراد کر رہا ہوں۔ یہ وہ ذات ہے جو کبھی غافل ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی چیز اس سے مخفی ہے‘ جسے کبھی نسیان نہیں ہوتا۔ وہ ذات میرے ہر ہر عمل کو ہر ہر وقت دیکھ رہی ہے۔ یہ وہ ذات ہے کہ جس کے سامنے دعویٰ کر رہا ہوں۔ آیا اس دعویٰ کے مطابق میرا عمل بھی ہوتا ہے یا نہیں۔ اسے یہ سوچنا‘ چاہئے۔ صلواة

انسان مرکب ہے دو چیزوں کا‘ ایک ہے بدن اور دوسری ہے اس کی روح۔ بدن اور روح مل کر انسان مکمل کرتے ہیں‘ جہاں تک بدن کا تعلق ہے جس طرح انسان کا بدن ہے اسی طرح حیوان کا بھی بدن ہے‘ بدن کی وجہ سے انسان ممتاز نہیں ہے حیوان سے اگرچہ اس کا بدن ہڈی اچھی پیدائش سے بنایا گیا ہے۔

کما احسن الله الخالقین

انسان بدن کی وجہ سے ممتاز نہیں ہے بلکہ انسان کی عظمت‘ صفت اس کی روح کی وجہ سے ہے۔ اگر روح بلند ہے‘ انسان بلند ہے‘ اگر روح پست ہے تو انسان پست۔

جتنا اپنے اندر روحانیت کو بلند کرتا جائے اتنا ہی مرتبہ بلند ہو گا۔ جتنا روحانیت سے ہٹتے ہوئے مادیت کی طرف ہو گا‘ اتنا ہی اس کے اندر پستی آتی جائے گی۔ اگر روحانیت کو بلند کرتا جائے اور مادیت کو اپنے پیروں تلے روندتا چلا جائے تو اس وقت انسان میں اتنی طاقت پیدا ہو جائے گی کہ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا‘ کسی اور سے نہیں ڈرتا‘ حتیٰ کہ کسی طاقت سے نہیں ڈرتا کیوں؟ اس لئے کہ اس کی توجہ خدائے بزرگ و برتر کی طرف ہے۔ اس کی توجہ ذات اقدس کی طرف ہے‘ اپنے خالق کی طرف ہے۔ اس وقت یہ سمجھتا ہے کہ مجھے نفع و نقصان صرف میرا خالق ہی دے سکتا ہے‘ مجھے تباہی سے میرا خالق ہی بچا سکتا ہے‘ کوئی دوسرا نقصان دے ہی نہیں سکتا‘ یعنی صحت ہے تو خالق کی طرف سے اگر نہیں تب بھی خالق کی طرف سے مال و دولت ہے وہ بھی خالق کی طرف سے۔

اس وقت اس کی روحانیت اتنی بلند ہوتی ہے کہتا ہے کہ یااللہ تجھے دیکھ رہا ہوں‘ تیرے علاوہ کسی کو نہیں دیکھ رہا۔ اس وقت اپنے رب کی عظمت اس کے دل میں اس قدر ہوتی ہے کہ کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتا۔ آپ خود دل میں سوچیں‘ اپنے ضمیر کو ٹٹولیں‘ جب عظمت خدا پیدا ہو جائے‘ پھر دنیا کی جتنی بھی قوتیں ہوں وہ کسی سے نہیں ڈرتا بلکہ اس وقت یہی کہتا ہے خدایا‘ تیری ذات ایسی ہے جو سب کچھ کر سکتی ہے‘ تیرے علاوہ کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ جب یہ حالت پیدا ہو جائے‘ اتنی قوت پیدا ہو جاتی ہے تو اس وقت کہتا ہے‘ کون میرے ساتھ ہے‘ میرا اللہ میرے ساتھ‘ میرا خالق میرے ساتھ ہے‘ میرا معبود میرے ساتھ ہے۔

اس وقت اگر کسی سے ٹکرائے‘ کسی کے ساتھ مقابلہ کرے چونکہ اس کی توجہ خدا کی طرف ہوتی ہے‘ لہٰذا جتنا بڑا ہو‘ اس کے مقابلے میں کبھی نہیں ہو سکتا کہ اس سے مار کھا جائے۔

جب بھی مار کھائے‘ جب بھی ذلیل و خوار ہو‘ جتنی روحانیت بلند ہو گی‘ چاہے اس کے سامنے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو‘ کیا آپ نے دیکھا نہیں؟ کتنی بڑی طاقت تھی امریکہ جس نے اپنی قوت کے بل پر حملہ کیا‘ مقابلے میں کوئی آدمی بھی موجود نہ تھا‘ حملہ کیا اور خود ہی تباہ ہو گیا۔ تباہ ہونے کے بعد ان کے بڑے نے یہ کہا کہ ہم کیا کرتے ہم نے تو سوچ سمجھ کر حملہ کیا تھا‘ ہمیں توقع تھی کہ ہمیں ضرور کامیابی ہو گی لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ان کے ساتھ تھی۔ دیکھئے کہ عظمت پیدا ہو گئی‘ طاقت پیدا ہو گئی‘ قوت پیدا ہو گئی‘ انسان میں

آپ اپنی طرف دیکھیں‘ ہماری حالت کیا تھی۔ جب ہم میں جذبہ ایمان پیدا ہوا‘ ہماری روحانیت بلند ہوئی‘ جب ہماری توجہ خدا کی طرف ہوئی تو سامنے ایک قوت تھی‘ ایک طاقت تھی جو اپنی فرعونیت میں غرق تھی‘ جس کی گردن اکڑی ہوئی تھی اور وہ یہ کہتا تھا کہ کون ہے جو میری بات کو نہ مانے‘ کون ہے جو میری بات کو ٹالے گا۔ لیکن جب آپ اسلام آباد پہنچے تو سامنے توپیں تھیں‘ سامنے قوت تھی‘ طاقت تھی‘ لیکن چونکہ آپ کی خدا کی طرف توجہ تھی‘ روحانیت تھی‘ نتیجہ کیا نکلا؟ کہ وہ قوتیں روندی چلی گئیں اور ہمیں عزت دی گئی۔

عزیزانِ محترم!

یہ سب کچھ کیسے ہو گیا؟

کیونکہ مادیت فنا ہو گئی‘ روحانیت بلند ہو گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک مطلق آمر اپنی پوری طاقت کے ساتھ مفتی جعفر حسین(علیہ السلام) کے پاس بیٹھ کر بار بار یہ کہتا ہے کہ میں تو علماء کا خادم ہوں‘ آپ حکم کریں‘ میں آپ کا ہر حکم ماننے کو تیار ہوں۔

یہ سب کچھ کیوں؟ اس لئے کہ روحانیت پیدا ہو گئی‘ روحانیت کے ہوتے ہوئے کسی طاقت کا خوف نہیں‘ ڈر نہیں تھا۔ ہمارے امام (علیہ السلام)یہی فرماتے ہیں‘ خدا یہی فرماتا ہے کہ اگر روحانیت پیدا ہو جائے تو پھر دنیا کی کسی طاقت کا ڈر نہیں رہتا۔

صلواة

انسان کی روح‘ انسان کا جسم دو چیزوں کا مرکب ہے‘ بدن اور روح سے اصل روح ہے۔ روح اگر بلند ہو جائے تو انسان بلند ہو جائے۔ روح کا مسئلہ مشکل ہے تھوڑی سی توجہ کی جائے‘ انسان کی زندگی کا دار و مدار اس کی روح پر ہے‘ روح اگر ہمارے اندر ہے تو ہم زندہ ہیں‘ اگر روح چلی جائے‘ طاقتیں ختم ہو جائیں گی‘ قوتیں ختم ہو جائیں گی‘ انسان مردہ ہو جائے گا۔ اس وقت گھر والے‘ خاندان والے یہی کہیں گے کہ جتنی جلدی ہو‘ اسے دفن کریں اور اپنے گھر چلیں۔

انسان کی روح میں تین خصوصیتیں ہیں:

۱ ۔ روح پہلے پیدا کی گئی‘ انسان بعد میں پیدا گیا۔ روح ہزاروں سال پہلے پیدا کی گئی‘ انسان ہزاروں برس بعد پیدا کیا گیا۔

لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ روح ہے پہلے جسم انسان بعد میں پیدا ہوا۔

۲ ۔ روح سارے اعضاء کا علم رکھتی ہے‘ اسے پتہ ہے کہ کس عضو سے میں نے کیا کام لینا ہے‘ کونسا عضو کونسا کام کرے گا۔ انسان کی روح اپنے جسم کی تمام چیزوں کی عالم ہے‘ اسے سارا علم ہے‘ بدن میں جتنی چیزیں پائی جاتی ہیں‘ کوئی چیز اس سے مخفی نہیں‘ چھپی ہوئی نہیں۔

۳ ۔ روح کا کنٹرول ہے بدن پر‘ قبضہ ہے بدن پر‘ جس عوض سے روح جو کام لینا چاہے‘ بدن انکار نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ اس کا قبضہ‘ اس کا کنٹرول اس قدر ہے کہ روح کو کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ روح کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ کام ہو اور وہ کام فوراً شروع ہو جاتا ہے‘ زبان بولنا شروع کر دیتی ہے‘ روح کی خواہش ہوتی ہے‘ ہاتھ حرکت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

گویا کہ روح کی جیسی نیت ہو گی یہ اعضاء سارے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

اسی طرح پوری کی پوری کائنات پورے کا پورا عالم بمنزلہ ایک بدن کے ہے۔ میں نہیں کہہ رہا‘ آپ کے میرے مولا حل مشاکل امیرالمومنین ۱ کا فرمان ہے کہ

اتزعم انک جرم صغیر فیک الطوی عالم الاکبر

"اے انسان! تو یہ خیال کرتا ہے کہ چھوٹا سا جسم ہے‘ نہیں‘ پورے کا پورا عالم تیرے اندر پوشیدہ ہے‘ عالم اکبر میں جو کچھ پایا جاتا ہے‘ انسان کے اندر پوشیدہ ہے۔"

گویا انسان میں جو کچھ پایا جاتا ہے وہ پوری کائنات میں پایا جاتا ہے جیسے اس انسان کا چھوٹا سا بدن۔ اس میں بدن بھی ہے‘ روح بھی ہے۔ اسی طرح پوری کائنات بمنزلہ ایک بدن کے ہے۔ اس پوری کائنات کی بھی ایک روح ہونی چاہئے‘ اس کی بھی ایک روح ہو گی‘ البتہ فرق یہ ہو گا کہ مارا بدن ایک چھوٹا سا بدن ہے‘ اس کی روح کو فلسفی زبان میں روح کلی کہا جائے گا‘ ایک بدن کے ساتھ اس کا تعلق ہے۔ عالم چونکہ بہت بڑا ہے‘ عالم کی روح جو ہو گی‘ اس کو روح کلی کہا جائے گا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جیسے ایک انسان میں ایک روح ہے جس کو روح جزوی کہا جاتا ہے۔ انسان کی زندگی کا دار و مدار اسی روح جزوی پر ہے۔ کائنات کی زندگی کا دار و مدار اس روح کلی پر ہے۔ بعینہ یہ کائنات جو آپ کو نظر آ رہی ہے‘ آسمان‘ زمین‘ سورج‘ چاند ان میں روح کلی موجود ہے‘ تبھی یہ کائنات موجود ہے۔ جیسے انسان کی روح جانے سے انسان مردہ ہو جاتا ہے‘ اسی طرح کائنات کی روح کے ایک سیکنڈ کے لئے بھی جانے سے پورے کا پورا عالم کائنات تباہ و برباد ہو جائے گا۔

صلواة

ظاہر ہے روح کی خصوصیت میری روح بدن سے پہلے پیدا کی گئی۔ آپ کی روح آپ کے بدن سے پہلے پیدا ہوئی۔ تواسی طرح یہ کائنات‘ یہ عالم اس کی روح بھی اس سے پہلے پیدا کی گئی ہو گی اور یہ عالم‘ یہ جہاں بعد میں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس عالم کی روح کلی نہ ہوتی تو عالم کو پیدا نہ کیا جاتا‘ یعنی اس عالم کے وجود کا دار و مدار اس روح کلی پر ہے۔

روح کلی پہلے تھی‘ عالم بعد میں اور یہ روح کلی جب تک رہے گا اس وقت تک عالم رہے گا۔

خداوند عالم حدیث قدسی میں اپنے حبیب ۱ کو مخاطب کر رہا ہے:

اے میرے حبیب!

انت المرید و انت المراد

مرید کے معنی پیری مریدی نہیں ہوتی بلکہ اس کے معنی انت المرید یعنی تیری توجہ میری طرف ہوتی ہے‘ تو ہمیشہ میری ذات کو دیکھتا ہے‘ میری مشیت کے مطابق چلتا ہے‘ جس طرح میری مشیت ہو تو‘ توُ اس کے مطابق بولتا ہے‘ جیسے میری مشیت ہو اس کے مطابق کام کرتا ہے‘ تیری توجہ اپنی طرف بھی نہیں ہوتی بلکہ میری طرف ہوتی ہے۔ حالانکہ تو دیکھتا ہے کہ میرا خالق مجھ سے کیا چاہتا ہے‘ حالانکہ تیری توجہ ہوتی ہے کہ میرا مالک مجھ سے کیا چاہتا ہے۔ اگر یہ کلمہ ہوتا یعنی رسالتمآب کی توجہ ہر وقت خدا کی طرف ہوتی ہے۔

رسالتمآب دنیا سے کسی چیز کو نہیں دیکھتے‘ اپنے بدن کی طرف بھی توجہ نہیں فرماتے‘ اپنی ذات کی طرف بھی توجہ نہیں کرتے۔ یہ بہت بڑا کلمہ تھا‘ لیکن اس کے بعد اس سے بھی بڑا کلمہ کہا گیا۔

ارشاد ہوا کہ

انت المرید و انت المراد

"اے میرے حبیب! جس طرح تیری توجہ میری طرف ہوتی ہے‘ اسی طرح میری توجہ تیری طرف ہوتی ہے۔"

صلواة

"جس طرح تیری توجہ میری طرف ہوتی ہے تو دیکھتا ہے کہ میرا مالک کیا چاہتا ہے‘ اسی طرح میری توجہ تیری طرف ہوتی ہے‘ میں دیکھتا ہوں کہ میرا حبیب ۱ کیا چاہتا ہے۔"

ارشاد ہوا کہ

انت سیدی فی خلقی

"پوری کائنات میں سے میں نے تجھی پسند کیا‘ میں نے تجھے چن لیا۔"

اب وہ کلمہ جس کے لئے یہ حدیث قدسی بیان کی۔

ارشاد قدرت ہوا کہ

وعدنی و خلاتی لولاک لما خلقت الا فلاک

"مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم اگر تجھی پیدا نہ کرتا تو کائنات میں سے کچھ نہ بناتا۔"

حضرات گرامی!

آپ نے غور فرمایا کہ جناب رسالتمآب ۱ کی ذات گرامی وہ ذات ہے کہ جس کی وجہ سے یہ کائنات پیدا کی گئی‘ جس کی وجہ سے افلاک پیدا کئے گئے۔ گویا کہ رسالتمآب کا وجود پہلے تھا‘ یہ کائنات بعد میں پیدا ہوئی۔

اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ پوری کی پوری کائنات بمنزلہ ایک جسم کے لئے پوری کی پوری کائنات بمنزلہ ایک بدن کے لئے اس کی روح خیا ہے؟

اس کی روح حقیقت محمدیہ ہے‘ یہ پہلے خلق ہوئی اور بعد میں کائنات۔ تو پوری کائنات کی غرض و غایت حقیقت محمدیہ ہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ جب تک روح کلی اس کائنات میں موجود رہے گی‘ حقیقت محمدیہ کا کوئی فرد اس کائنات میں موجود رہے گا‘ اس وقت تک یہ کائنات موجود رہے گی‘ کیونکہ کوئی چیز اس وقت تک زندہ نہیں رہ سکتی جب تک کہ اس کی روح موجود نہ ہو۔ تو یہ حقیقت محمدیہ‘ اس کا کوئی فرد جب تک موجود ہو گا‘ کائنات رہے گی اور اگر موجود نہ ہوتا تو کائنات نہ ہوتی۔

اسی لئے ارشاد ربانی ہوا کہ

لولا الحجة یسخط الارض وما فیها

"اگر حجت خدا زمین میں موجود نہ ہوتی تو یہ کائنات ایک سیکنڈ کے لئے بھی باقی نہ رہتی۔"

تو اس کائنات کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں بارہویں لعل ولایت موجود ہیں‘ جن کی وجہ سے یہ کائنات باقی ہے۔

عزیزان محترم!

عرض کیا ہے کہ عالم کلی کی بھی ایک روح ہوتی ہے اور وہ روح حقیقت محمدیہ ہے‘ اس کو پہلے ہونا چاہئے‘ کائنات کو بعد میں‘ بلکہ حضرت آدم علیہ السلام‘ جنہیں ابوالبشر کہا جاتا ہے‘ ان سے پہلے بھی یہ روح ہونی چاہئے‘ کیونکہ عالم کلی کی روح حقیقت محمدیہ ہے۔ حقیقت محمدیہ کو پہلے ہونا چاہئے‘ آدم (علیہ السلام)کی پیدائش بعد میں ہونی چاہئے۔

اس لئے حقیقت محمدیہ نے یہ ارشاد فرمایا:

کنت بنیاو آدم بین الماء والطین

"میں اس وقت بھی نبی تھا‘ جب کہ حضرت آدم (علیہ السلام)پانی اور مٹی کے درمیان تھے۔"

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا حقیقت محمدیہ پہلے تھی یا اس نور کے جتنے اجزاء ہیں وہ سب کے سب اکٹھے موجود تھے‘ سب کے سب اکٹھے روح عالم کلی کہلاتے ہیں۔

حضور ارشاد فرماتے ہیں۔

امیرالمومنین ۱ کی طرف دیکھ کر ایک کلمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ

"اگر لوگوں کو یہ پتہ چل جاتا کہ امیرالمومنین ۱ کو امیرالمومنین ۱ کا لقب کیوں دیا گیا ہے تو وہ امیرالمومنین ۱ کا کبھی انکار نہ کرتے۔"

وہ امیرالمومنین کب کہا گیا؟

مولائے کائنات ۱ کو امیرالمومنین اس وقت کہا گیا جب حضرت آدم علیہ السلام کا جسم اور روح ابھی اکٹھے نہ ہوئے تھے‘ بلکہ جدا جدا تھے۔

ہاں تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ عالم کلی کی ایک روح ہے‘ وہ حقیقت محمدیہ ہے۔ یہ روح جب تک موجود ہے‘ کائنات موجود ہے۔ حقیقت محمدیہ کو پہلے پیدا کیا گیا اور یہ پوری کائنات بعد میں وجود میں آئی۔ اب روح کی دوسری خصوصیت کہ روح اپنے بدن کی عالم ہوتی ہے‘ روح کو پتہ ہوتا ہے کہ کیسے کام لینا ہے۔ تو جیسے ایک انسان کی روح اس کے بدن کی عالم ہے‘ اسی طرح کائنات عالم کلی کی روح ہو گی‘ اس کو پتہ ہے پوری کائنات کی عالم ہے‘ کوئی چیز اس سے مخفی نہیں‘ حالانکہ وہ کائنات کو دیکھ رہے ہیں‘ ہر وقت دعویٰ کرتے ہیں‘ ہر چیز ان کے سامنے ہے‘ اس کی دلیل ہے‘ روح کو عالم ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس روح کلی کے جتنے افراد تھے‘ جتنا جتنا علم دینا چاہئے تھا‘ ان کے زمانے میں ان کو دے دیا گیا۔

اب دیکھئے!

حضرت آدم علیہ السلام کا مقابلہ فرشتوں سے ہو رہا ہے۔ فرشتے کہتے ہیں کہ ہم خدا کی عبادت کرتے ہیں‘ ہم تقدیس کرتے ہیں‘ ہم خدا کی پاکیزگی کو بیان کرتے ہیں‘ لہٰذا منصب ہمیں ملنا چاہئے‘ منصب حضرت آدم (علیہ السلام)کو مل گیا۔ تو سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ عہدہ کیوں ملا؟

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

وعلم آدم الاسماء کلها

حضرت آدم علیہ السلام کو اسماء کا علم کیوں دیا گیا؟ حضرت آدم (علیہ السلام)کیوں ممتاز ہوئے؟ مسجود ملائکہ کیوں ہوئے؟ آپ کو یہ عہدہ کیوں دیا گیا؟ کیونکہ اسماء کا علم فرشتے نہ جانتے تھے۔ حضرت آدم (علیہ السلام)کے پاس یہ علم تھا‘ تو اب آپ نے دیکھا کہ آدم (علیہ السلام)کیوں ممتاز ہوئے؟ عالم کلی کی بد روح کیوں ممتاز ہوئی؟ آدم (علیہ السلام)معمولی شخصیت نہ تھے‘ آدم (علیہ السلام)مسجود و ملائکہ تھے۔ تمام قوتیں جس کے سامنے جھکی ہیں‘ تمام قوتوں نے جس کو سجدہ کیا ہے‘ اس آدم (علیہ السلام)کی فضیلت بیان کی جا رہی ہے کہ ان کو اسماء کا علم تھا۔

اب آدم (علیہ السلام)کے بعد ذرا آگے چلیں۔ آدم (علیہ السلام)کا علم سب سے زیادہ تھا‘ اس کے بعد حضرت نوح علیہ السلام۔ حضرت نوح(علیہ السلام)کا علم حضرت آدم (علیہ السلام)کے علم سے بھی زیادہ تھا۔

حضرت نوح علیہ السلام کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ آنے والی نسلوں کی طرف دیکھ رہے تھے‘ ان کی توجہ آنے والی نسلوں کی طرف تھی‘ وہ دیکھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے:

رب لا نذر علی الارض من الکفرین دیارا

"اے میرے پالنے والے! اس زمین پر کافروں کا ایک گھر بھی نہ چھوڑ سب کو تباہ و برباد کر دے۔"

اے اللہ کے نبی ۱ یہ کیوں فرمایا اس لئے کہ ان کے جو بچے پیدا ہوں گے وہ بھی کافر ہوں گے۔ تو نوح(علیہ السلام)کو اس قدر علم دیا گیا کہ وہ آنے والی نسلوں کو دیکھ رہے ہیں۔

ایک واقعہ عرض کرتا چلوں کہ

جنگ صفین میں ایک رات جنگ ہو رہی تھی‘ لیلة الحدیر کے باوجود بھی مولائے کائنات ۱ نے نماز تہجد نہیں چھوڑی‘ میرے مولا نے صفوں کے درمیان نماز تہجد ادا فرمائی۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ مولا یہ نماز کا وقت ہے‘ اتنی جنگ ہو رہی ہے

مولا فرماتے ہیں‘ اسی نماز کے لئے ہی تو ہم لڑے ہیں۔

بہرحال اس رات کو مولا نے تین سو ( ۳۰۰) آدمیوں کو فی النار کیا اور آپ کے صحابی خاص ساتھی مالک اشتر نے بھی ۳۰۰ آدمیوں کو فی النار کیا۔ مالک اشتر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا‘ عرض کرتا ہے کہ مولا ! آپ کا غلام ہوں‘ آپ ۱ کا خادم ہوں‘ اس کے باوجود بھی آپ نے بھی ۳۰۰ آدمیوں کو فی النار کیا اور میں نے بھی‘ اس لحاظ سے آقا اور غلام دونوں برابر ہوئے۔

مولا ارشاد فرماتے ہیں:

"اے مالک اشتر! ایک فرق ہے تیری اور میری تلوار میں‘ جو تیرے سامنے آیا تو اس کو گاجر اور مولی کی کاٹ دیتا ہے‘ تیری تلوار یہ نہیں دیکھتی کہ کوئی مومن ہے یا منافق۔ لیکن علی (علیہ السلام)کی تلوار میں یہ فرق ہے کہ میری تلوار یہ دیکھتی ہے کہ آیا اس کی پشتوں میں کوئی مومن پیدا ہونے والا تو نہیں ہے‘ سات پشتوں تک علی (علیہ السلام)کی تلوار دیکھ کر چلتی ہے کہ اس کی نسل سے کوئی مومن پیدا ہونے والا نہیں ہے‘ اس لئے میں نے تین سو آدمیوں کو فی النار کیا۔"

حضرت آدم (علیہ السلام)کو اسماء کا علم عطا کیا گیا۔ حضرت نوح(علیہ السلام)آنے والی نسلوں کو دیکھ رہے ہیں‘ ان کا علم بڑھ گیا تو جب حضرت ابراہیم ۱ کا زمانہ آیا تو قرآن کہہ رہا ہے کہ

کذلک

"ہم نے ابراہیم ۱ کو آسمان اور زمین کے حقائق بتائے۔"

یعنی ان کا علم حضرت نوح(علیہ السلام)سے بڑھ گیا‘ روح خلی کا علم اب اور زیادہ ہو گیا۔ حضرت ابراہیم ۱ حقائق آسمان کو دیکھ رہے ہیں‘ لیکن کیوں

ارشاد ہوا کہ

ولیکون من المومنین

"تاکہ حضرت ابراہیم ۱ کو یقین ہو جائے۔"

اب تمام معاملات حضرت ابراہیم ۱ آسمان اور زمین کے حقائق دیکھ رہے ہیں تاکہ ان کو یقین ہو جائے اور وہ مومنین میں شمار ہو جائیں‘ لیکن اس کے باوجود ایک وقت ایسا آتا ہے‘ حضرت ابراہیم ۱ کہتے ہیں کہ اے رب العزت! تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے اور کس طرح مارتا ہے؟

ارشاد ہوتا ہے کہ

"اے ابراہیم! کیا تم ۱۱ ایمان نہیں رکھتے۔"

حضرت ابراہیم ۱ عرض کرتے ہیں کہ پاک پروردگار اطمینان قلب چاہتا ہوں۔

گویا مطلب ہوا کہ ابھی تک حضرت ابراہیم ۱ کے علم میں کچھ کمی پائی جاتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس کمی کو دور کریں‘ اطمینان قلب‘ وہ چاہتے ہیں۔

اب علم اتنا بلند ہو گیا کہ آسمان و زمین کے حقائق سامنے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود کمی پائی جاتی ہے۔

ایک زمانہ ایسا آیا کہ علم اپنے عروج پر تھا‘ وہ کس کا زمانہ؟

حبیب خدا کا زمانہ جن کے لئے یہ ساری کائنات بنائی جاتی ہے۔ اس کا علم اس قدر بڑھا‘ اتنا بلند ہوا کہ انہیں کہنا پڑا:

انا مدینة العلم و علی بابها

"میں ۱ علم کا شہر ہوں اور علی (علیہ السلام)اس کا دروازہ ہے۔"

صلواة

رسول کے بھائی رسول کے شاگرد کے علم کی انتہا کہاں تک پہنچ گئی۔

لیکن یہ ذہن میں رہے حضرت ابراہیم ۱ کے سامنے صرف آسمان اور زمین کے حقائق کھولے گئے تو ابھی اطمینان قلب حاصل نہیں ہوا‘ کمی رہ گئی‘ لیکن رسول اللہ کے بھائی رسول اللہ کے شاگرد علم کی انتہا بیان فرماتے ہیں:

لو کشف الفطا لما ازدرت یقینا

علی (علیہ السلام)کا علم اس حد تک پہنچ گیا کہ اب کوئی پردہ نہیں رہا جس کو ہٹانے کی ضرورت ہو۔ اب کہا جا سکتا ہے کہ علم اب اپنے عروج کو پہنچ گیا کہ پوری کائنات ہر وقت سامنے ہے‘ کوئی چیز مخفی ہے تاکہ علم کی کمی ہو‘ پردہ ہٹانے کی ضرورت ہو۔ اس لئے مولا کا فرمان ہے۔

حضور فرماتے ہیں:

رسول اللہ (ص)کو تکلیف دیتے ہو‘ رسول اللہ (ص)کو اذیت دیتے ہو۔ مومنین سے کہا جا رہا ہے۔

مومنین حیران ہو کر عرض کرتے ہیں کہ مولا ! ہم کیا تکلیف دے سکتے ہیں‘ ہمارے ماں باپ آپ پر قربان‘ ہم کیسے اذیت پہنچا سکتے ہیں؟

حضور ارشاد فرماتے ہیں:

کیا تم نہیں جانتے ہو

ہم اس وقت جو عمل کر رہے ہیں‘ گھر میں جو عمل کرتے ہیں‘ چھپ کر کرتے ہیں‘ تاریکی میں کرتے ہیں‘ اس حالت میں کرتے ہیں کہ کوئی بچہ بھی نہیں دیکھتا‘ بیوی نہیں دیکھ رہی ہوتی‘ لیکن کیا تم جانتے نہیں ہو کہ تمہارے اعمال سے رسول اللہ واقف ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ۱ ہمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

جب تم کوئی اچھا عمل کرتے ہو تو رسول اللہ خوش ہوتے ہیں اور دعا فرماتے ہیں۔ جب تم کوئی برا عمل کرتے ہو تو رسول اللہ کو اذیت ہوتی ہے۔ ہمارا ہر عمل ذات مقدسہ کے سامنے ہوتا ہے۔ ہم جب کوئی کام کرتے ہیں تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہمارا ہر عمل رسول اللہ کے سامنے ہوتا ہے‘ امام (علیہ السلام)کے سامنے ہے۔ آیا ہمارے عمل سے ان کو کوئی اذیت تو نہیں ہو گی‘ آیا دن رات میں کتنی مرتبہ ان کو خوش کرتے ہیں اور کتنی مرتبہ ناراض

اگر ہم ان کو خوش نہیں کرتے تو رسول اللہ کا فرمان صادق آئے گا۔

تم رسول اللہ (ص)کو اذیت کیوں دیتے ہو؟

صلواة

سامعین گرامی!

تو میں عرض کر رہا تھا کہ عالم کلی کی روح پوری کائنات کی عالم ہے‘ جس طرح ایک بدن کی روح اس کے پورے بدن کی عالم ہوتی ہے۔ رسول اللہ نے اپنے بھائی علی (علیہ السلام)کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

من اراد ان ینظر الیٰ آدم فی علمه و الیٰ نوح فی حلمه و الیٰ ابراهیم فی خلة والی یوسف فی جماله والی موسیٰ فی هیبه والی عیسیٰ فی کمله والی یحیی فی زهده فلینظر الی وجهه علی ابن ابی طالب

"اگر آدم (علیہ السلام)کے علم کو دیکھنا چاہو‘ نوح(علیہ السلام)کا حلم دیکھنا چاہو‘ ابراہیم ۱ کی خلت دیکھنا چاہو‘ یوسف ۱ کا جمال دیکھنا چاہو‘ موسیٰ(علیہ السلام)کی ہیبت‘ عیسیٰ کا کمال علی (علیہ السلام)کے چہرئہ مبارک کی طرف دیکھئے‘ تمام کمالات نظر آئیں گے۔"

گویا کہ ان تمام بڑی بڑی شخصیتوں کے کمالات اگر اکٹھے کر دیئے جائیں تو بنتے ہیں اور اگر علی (علیہ السلام)کے کمالات کو پھیلا دیا جائے تو انبیاء(علیہم السلام)بنتے ہیں۔

ذرا غور کے ساتھ سماعت فرمائیں

حضرت نے یہ نہیں کہا کہ اگر حضرت آدم (علیہ السلام)کے علم کو دیکھنا چاہتے ہو تو علی (علیہ السلام)کو دیکھ لو‘ مطلب یہ ہوتا کہ علی (علیہ السلام)کا علم اور آدم (علیہ السلام)کا علم برابر ہے۔ آدم (علیہ السلام)کے علم کو دیکھنا ہے تو علی (علیہ السلام)کے علم کو دیکھو‘ آدم (علیہ السلام)کے علم کا پتہ چل جائے گا۔

حضرت ابراہیم ۱ کی خلت کو دیکھنا چاہتے ہو تو علی (علیہ السلام)کی خلت کو دیکھو۔ موسیٰ(علیہ السلام)کی ہیبت کو دیکھنا ہے تو علی (علیہ السلام)کی ہیبت کو دیکھو۔ یہ نہیں فرمایا گیا‘ بلکہ یہ فرمایا گیا کہ اگر آدم (علیہ السلام)کے علم کو دیکھنا ہے تو علی (علیہ السلام)کے چہرے کو دیکھو۔

یہ نہیں فرمایا گیا کہ آدم (علیہ السلام)کا علم دیکھنا ہے تو علی (علیہ السلام)کو دیکھو‘ اگر علی (علیہ السلام)کو دیکھا جاتا تو آدم (علیہ السلام)اور علی (علیہ السلام)کا علم برابر ہو جاتا۔ کہا کیا جاتا ہے کہ آدم (علیہ السلام)کے علم کو دیکھنا ہے تو علی (علیہ السلام)کے چہرے کو دیکھو۔

کمالات کا مرکز انسان کا باطن ہے‘ کمالات کا منبع انسان کا باطن ہے۔ کمالات انسان کا اپنا باطن ہوتا ہے‘ اس کے اثرات انسان کے چہرے پر ہوتے ہیں‘ اس کے کچھ

مثلاً

فرض کیجئے اگر آپ کسی چیز سے خوذ ہوتے ہیں تو خوشی کا تعلق دل کے ساتھ ہے‘ خوشی کا تعلق باطن کے ساتھ ہے اور خوشی کے آثار انسان کے چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں۔

اگر غمی ہے تو غمی کا تعلق باطن کے ساتھ ہے‘ اس کے کچھ آثار انسان کے چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں۔ جتنا بھی غم کو چھپانے کی کوشش کرے پھر بھی ظاہر ہو جاتے ہیں‘ جتنا بھی خوشی کو چھپانے کی کوشش کرے پھر بھی آثار ظاہر ہو جاتے ہیں۔ تو جتنی خوشی انسان کے دل میں ہو وہ پوری کی پوری چہرے سے معلوم نہیں ہوتی‘ اس کے فقط نشانات معلوم ہوتے ہیں۔ جتنی غمی دل میں ہو وہ بھی ساری ظاہر نہیں ہوتی‘ بلکہ اس کے کچھ نشانات چہرے سے ظاہر ہوتے ہیں۔

اب آپ غور فرمایئے کہ کہا جا رہا ہے کہ آدم (علیہ السلام)کے علم کو‘ ابراہیم ۱ کی خلت کو‘ نوح(علیہ السلام)کے حلم کو‘ موسیٰ(علیہ السلام)کی ہیبت‘ عیسیٰ کی حکمت دیکھنی ہو تو علی (علیہ السلام)کے چہرے کی طرف دیکھو۔ گویا بتلانا مقصود ہے کہ علی (علیہ السلام)کے علم اور آدم (علیہ السلام)کے علم میں کوئی نسبت نہیں۔ اگر آدم (علیہ السلام)کا علم دیکھنا ہے تو مقابلہ نہیں ہے‘ بلکہ علی (علیہ السلام)کے چہرے کو دیکھ آدم (علیہ السلام)کا علم اتنا ہے‘ جس طرح علی (علیہ السلام)کے علم کے کچھ نہ کچھ نشانات ان کے چہرے میں پائے جاتے ہیں۔

ورنہ علی کا علم کجا اور آدم کا علم کجا۔

تو میں ذکر کر رہا تھا کہ روح پہلے ہے‘ یہ عالم بعد میں پیدا کیا گیا۔ روح عالم کی تمام چیزوں کی عالم ہے‘ یہ روح کلی حقیقت محمدیہ ہے۔ حقیقت محمد و آل محمدکے سامنے عالم کی ہر چیز موجود ہے۔

چونکہ حقیقت محمدیہ روح ہے عالم کے لئے اور عالم اس کا بدن ہے۔ تو اب عالم میں جو کچھ ہو گا اس کے اثرات روح پر پڑیں گے اور روح کو اگر تکلیف ہو گی تو اس کے اثرات عالم پر پڑیں گے۔ جس ذات نے اپنے خالق کے سامنے جھکنا ہے‘ اپنے خالق کے سامنے گردن خم کرنی ہے تو اس کی گردن اس کی روح کی قسم ہو گی۔ بدن میں جب تک روح ہے‘ بدن جھکے گا‘ اگر روح نہ ہو تو بدن جھک نہیں سکتا‘ تو جب روح نے جھکنا ہو تو انسان کے اندر عظمت ربی پائی جائے‘ خوف خدا پایا جائے‘ انسان کی روح میں محبت خدا ہو تو وہ خدا کے سامنے جھکے گا۔ اگر روح میں محبت خدا نہ ہو‘ خوف خدا نہ ہو تو اگر وہ کسی وقت جھک بھی گیا تو یہ ایسے ہے‘ جیسے ڈنڈے کے خوف سے جھکا ہو‘ ادھر ڈنڈا ہٹا ادھر روح جھکنے سے ہٹی

تو حقیقت میں جھکنا تب ہے جب محبت خدا دل میں پائی جائے‘ خوف خدا پایا جائے‘ عظمت خداوندی کا احساس ہو۔ جن ذوات مقدسہ کو ہم عالم کائنات حاکم سمجھتے ہیں‘ صادق کائنات سمجھتے ہیں‘ ان کی توجہ اپنے خالق کی طرف ہوتی ہے۔ اس طرح ہوتی ہے کہ جب وہ عبادت کر رہے ہوتے ہیں‘ ان کی اپنے بدن کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔

مشہور واقعہ ہے کہ

ایک نیزہ حضرت امیر علیہ السلام کے پاؤں میں لگ گیا‘ اس کو نکالنے کی کوشش کرتے تو بڑی تکلیف ہوتی۔ تو جناب رسالتمآب نے فرمایا کہ میرا بھائی علی (علیہ السلام)جب نماز پڑھ رہا ہو اس وقت نیزہ نکال لینا‘ میرے بھائی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔

کیونکہ ان کی توجہ صرف اور صرف خدا کی طرف ہے۔ تو علی (علیہ السلام)عبادت خدا میں اس قدر غرق ہوتے تھے کہ خدا کے علاوہ ان کی توجہ ان کے اپنے بدن کی طرف بھی نہ ہوتی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ ان سے سوال کیا گیا کہ اے علی (علیہ السلام) ! آپ خدا کی عبادت کرتے ہیں‘ کیا آپ نے خدا کو دیکھا ہے؟

تو علی (علیہ السلام)فرماتے ہیں:

لم اعبد من لم اراه

"علی کبھی ایسے خدا کی عبادت نہیں کرتا جس کو دیکھا نہ ہو۔"

حیران ہوں کہ اللہ قرآن میں فرماتا ہے:

لا تدرکه الابصار ویدرک الابصار

"یہ آنکھیں خدا کو نہیں دیکھتیں بلکہ خدا ان آنکھوں کو دیکھتا ہے۔"

آپ نے فرمایا کہ میں ۱ خدا کو دیکھا‘ تبھی اس کی عبادت کرتا ہوں۔

اس وقت مولا نے فرمایا‘ یہ آنکھیں خدا کو نہیں دیکھتیں بلکہ یں نے اپنے دل کی آنکھوں‘ قلب کی آنکھ سے خدا کو دیکھا ہے۔

تو پوچھا گیا‘ جب آپ نے اپنے دل کی بصیرت‘ قلب کی آنکھ سے خدا کو دیکھا ہے تو کیسا پایا؟

تو حضرت فرماتے ہیں:

میں نے خدا کو ایسا پایا کہ چیز سے پہلے خدا تھا‘ ہر چیز کے بعد بھی خدا ہے اور ہر چیز کے بعد خدا ہی رہے گا۔

یہ عبادت ہے مولا کی‘ ہم اس مولا کے ماننے والے ہیں‘ ہماری توجہ اس مولا کی طرف ہوتی ہے‘ ہم مولا کو حل مشاکل کہتے ہیں‘ مشکل کشا عالم کہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہماری عبادت مولا کی طرح ہو‘ لیکن مولا فرماتے ہیں کہ کم از کم ہمارے راستے پر چلنے کی کوشش کرو۔

یہ تھا مولا کا فرمان۔

اب آپ کا مولا حسین(علیہ السلام)۔ حسین(علیہ السلام)کی عبادت کس طرح تھی؟ حسین(علیہ السلام)نے بھی یہی فقرہ کہا ہے‘ جو بابا نے کہا تھا‘ لیکن تھوڑا سا تبدیل کر دیا‘ تاکہ باپ بیٹے میں فرق تو ہو جائے۔

بابا نے کیا کلمہ کہا‘ بیٹے ۱ نے کیا کلمہ کہا۔

حسین(علیہ السلام)کہتے ہیں‘ خداوند کو مخاطب کر کے:

خدایا! تو محسن ہے‘ کب غائب ہوا کہ کسی رہبر کی ضرورت پڑے‘ کوئی رہبری کرے۔ خدایا! تو کب دور ہوا کہ تیری طرف پہنچنے کے لئے کسی وسیلے کی ضرورت ہو نہیں‘ نہیں‘ تیری ذات غائب نہیں‘ تیری ذات دور نہیں‘ تیری ذات بہت قریب ہے‘ تیری ذات شہ رگ سے بھی قریب ہے۔"

اس کے بعد حسین(علیہ السلام)نے ایک کلمہ کہا۔

حسین(علیہ السلام)کے بابا نے کہا:

لم اعبدن لم اراه

"میں کبھی ایسے خدا کی عبادت نہیں کرتا‘ جس کو میں نے دیکھا نہ ہو۔"

لیکن حسین(علیہ السلام)نے عجیب کہا:

"خدایا! جو آنکھ تجھے دیکھتی نہیں وہ اندھی ہے۔"

اور یہ کلمہ حسین(علیہ السلام)نے کربلا کے میدان کہا:

ترکت الخلق فی هواک و ایتمت عیالی لکی اراک

"خدایا! تیری محبت میں‘ میں ۱ نے ساری مخلوق کو چھوڑ دیا‘ تیری محبت میں‘ میں ۱ نے بچوں کو چھوڑ دیا‘ تیری محبت میں‘ میں ۱ نے بھتیجوں کو چھوڑ دیا‘ تیری محبت میں‘ میں ۱ نے اصحاب کو چھوڑ دیا‘ خدایا میں ۱ نے اپنے بچوں کو یتیم کیا۔"

یہ ہے حسین(علیہ السلام)کی عبادت۔ علی (علیہ السلام)کہہ رہے ہیں کہ میں ایسے رب کی عبادت نہیں کرتا جس کو دیکھا نہ ہو۔

حسین(علیہ السلام)کہہ رہے ہیں:

"اندھی ہو جائے وہ آنکھ جو خدا کو نہ دیکھے۔"

حسین(علیہ السلام)کی توجہ ہر وقت خدا کی طرف ہوتی تھی۔ حسین(علیہ السلام)کہہ رہے تھے ‘خدایا! میں نے سب چیزوں کو چھوڑا‘ تیری محبت میں بچوں کو یتیم کیا‘ کیوں نہ تیرا دیدار کروں؟ حسین(علیہ السلام)جا رہے ہیں‘ کربلا کو۔

منادی والا منادی کر رہا ہے کہ یہ لوگ موت کی طرف جا رہے ہیں لیکن موت ان کے آگے آگے جا رہی ہے۔

روایت میں ہے کہ حسین(علیہ السلام)کی آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی ہے۔ علی اکبر دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں‘ بابا آپ گریہ کر رہے ہیں:

حسین(علیہ السلام)فرماتے ہیں‘ بیٹا! منادی یہ ندا کر رہا ہے کہ یہ لوگ جا رہے ہیں‘ لیکن موت ان کے آگے جا رہی ہے۔

کیا کہنا علی اکبر کا۔

بابا گھبرانے کی کیا ضرورت ہے‘ کیا ہم حق پر نہیں؟

موت ہم پر آ پڑے یا ہم موت پر

لوگو! میں مرنے کے لئے جا رہا ہوں‘ تمام صحابی جمع ہیں‘ تمام اقرباء جمع ہیں۔

دو آدمی دوڑے دوڑے آ رہے ہیں۔ ایک آدمی نے کہا‘ لگتا ہے یہ بنی اسد کے آدمی ہیں۔ مولا نے ان سے پوچھا کوئی خبر ہے؟

انہوں نے کہا‘ مولا خبر ہے‘ لیکن آپ کو تنہائی میں بتائیں گے۔

مولا نے فرمایا‘ میں نے کوئی پردہ نہیں کیا‘ میں نے کوئی چیز چھپائی ہوئی نہیں‘ جو خبر دینی ہو دے دو۔

ان لوگوں نے کہا:

مولا ہم دیکھ کر آئے ہیں‘ مسلم بن عقیل قتل ہو چکے ہیں۔

حضرت نے پوچھا‘ مسلم بن عقیل کو کس طرح قتل کیا گیا؟

انہوں نے عرض کی کہ ہم نے دیکھا جب مسلم زخمی ہو گئے تو مسلم نے پانی مانگا۔

ایک نے کہا‘ یہ انسان ہے اسے پانی دے دو۔

پانی میں خون آ گیا۔

دوبارہ۔

تیسری مرتبہ‘ اب جو مسلم نے پانی کی طرف توجہ کی تو ان کے اگلے دونوں دانت پانی میں گر گئے۔

مسلم نے کہا:

یہ پانی میری قسمت میں نہیں۔

میں عرض کروں گا:

مسلم تو حسین(علیہ السلام)کا سفیر ہے‘ حسین(علیہ السلام)تین دن کا پیاسا کربلا میں شہید ہو گا تو کس طرح پانی پئے گا؟

مسلم کے بدن کو چھت کے اوپر لے جایا گیا اور وہاں سے نیچے پھینک دیا گیا۔

ہم نے دیکھا ہے کہ لوگوں کے ہاتھ میں رسی ہے جو مسلم کی گردن میں بندھی ہوئی ہے اور بازاروں‘ درباروں میں پھیرایا جا رہا ہے۔

اس کے بعد امام حسین(علیہ السلام)نے اپنے صحابہ ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

میں جان دینے جا رہا ہوں‘ حکومت لینے نہیں جا رہا‘ جس نے میرے ساتھ جانا ہے جائے۔

حضرت اپنے گھر تشریف لائے‘ خاموشی طاری ہے‘ آتے ہی زمین پر بیٹھ گئے۔

بہن نے دیکھا‘ کہنے لگی‘ عجیب بات ہے کیا ہوا؟

فرمانے لگے:

بہن زینب (علیھا السلام)میری دونوں بچیوں کو بلاؤ‘ مسلم کی بچیوں کو بلاؤ۔ مسلم کی بچیاں جب آئیں‘ حسین(علیہ السلام)نے ایک کو دائیں زانو پر بٹھایا اور دوسری کو بائیں زانو پر‘ دونوں کی پیشانی چوم رہے ہیں‘ بال چوم رہے ہیں‘ دونوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیر رہے ہیں‘ جب ہاتھ پھیر رہے تھے تو دونوں بچیاں کہتی ہیں:

مولا لگتا ہے‘ کہیں ہم یتیم تو نہیں ہو گئیں؟

کہیں ہمارا باپ مارا تو نہیں گیا؟

مولا نے کہا‘ یتیموں کے سر پر ایسا شفقت کا ہاتھ پھیرا جاتا ہے۔ میری بچیو! گھبراؤ نہیں‘ میں ۱ تمہارا باپ ہوں‘ اکبر تمہارا بھائی‘ اصغر تمہارا بھائی ہے‘ قاسم تمہارا بھائی ہے‘ روتے روتے عجیب حالت ہو گئی‘ روتے روتے کہنے لگے:

زینب (علیھا السلام)ان بچیوں کا خیال رکھنا‘ اب یہ بچیاں یتیم ہو گئی ہیں۔

حسین(علیہ السلام)کا قافلہ چل رہا ہے‘ حسین(علیہ السلام)گھوڑے پر سوار تھے۔ ایک جگہ پہنچتے ہی حسین(علیہ السلام)کے گھوڑے نے چلنے سے انکار کر دیا‘ دوسرا گھوڑا بدلا‘ اس نے بھی چلنے سے انکار کر دیا‘ تیسرا بدلا اس نے بھی انکار کیا۔

یہ دو روایتیں ہیں:

ایک میں سات گھوڑے بدلے‘ ایک میں ہے کہ چار گھوڑے بدلے‘ بہرحال جب آخری گھوڑے پر آپ کا مولا سوار ہوا‘ دیکھا کہ گھوڑا حرکت نہیں کر رہا۔

فرمایا:

یہ تو بتاؤ اس جگہ کا نام کیا ہے؟

فرمایا:

هل لها اسم آخر؟

"کیا اس کا کوئی اور نام بھی ہے؟"

بتایا گیا کہ اس کو شط فرات بھی کہتے ہیں۔

حضرت نے فرمایا:

کوئی اور نام؟

عرض کیا گیا‘ مولا اسے نینوا بھی کہتے ہیں۔

پھر مولا نے پوچھا:

هل لها اسم آخر؟

"کیا اور نام بھی ہے؟"

بتایا گیا کہ

اسمھا کربلا

جب کربلا کا نام آیا تو امام (علیہ السلام)نے فرمایا:

کہ یہ ہمارے اترنے کی جگہ ہے۔

حضرت اپنے ساتھیوں کو بتا رہے تھے کہ ایسی ہوا آئی کہ

حضرت گھر گئے‘ ایسی حالت ہوئی کہ بہنیں اپنے بھائی کو نہ دیکھ سکیں

حسین(علیہ السلام)ہوا کے بگولے میں گھر گئے‘ جب بگولا ہٹا دونوں بہنیں دوڑ کر آئیں اور بھائی کے گلے سے لپٹ گئیں۔ کلثوم (علیھا السلام)نے کہا‘ بھیا! یہ کیسی ہوا تھی؟ یہ جگہ بڑی خطرناک ہے۔

مولا نے کہا:

یہ وہی جگہ ہے جہاں ہماری شہادت ہو گی‘ جہاں ہم پر پانی بند ہوگا‘ یہ وہی جگہ ہے جہاں اکبر و اصغر شہید کر دیئے جائیں گے‘ یہ وہی جگہ ہے جہاں مجھ غریب کو تیروں‘ تلواروں سے شہید

اتنی دیر میں حسین(علیہ السلام)کے سینے پر سونے والی تین سالہ بچی حسین(علیہ السلام)کے پاس آئی‘ کہنے لگی:

بابا‘ میری خواہش ہے

آپ زمین پر بیٹھ گئے‘ بچی آپ کے زانو پر آ بیٹھی‘ جب بیٹھ چکی تو کہا:

بابا! ذرا اپنا ہاتھ اٹھا کر میرے سر پر شفقت سے پھیریں۔

حسین(علیہ السلام)نے ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا:

بیٹی ایسا کیوں کیا؟

بابا! میں نے منزل زبالہ یہ دیکھا تھا کہ مسلم کی بیٹیوں کے سروں پر آپ نے شفقت کا ہاتھ پھیرا تھا بابا مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میں بھی یتیم ہو جاؤں گی۔

حسین(علیہ السلام)نے کہا:

بیٹی در چھن جائیں گے تو صبر کرنا۔

بیٹی طمانچے لگ جائیں تو صبر کرنا۔

بیٹی چادر چھن جائے تو صبر کرنا۔