ریاض المجالس

ریاض المجالس0%

ریاض المجالس مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

ریاض المجالس

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ حافظ ریاض حسین نجفی
زمرہ جات: مشاہدے: 9631
ڈاؤنلوڈ: 2910

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9631 / ڈاؤنلوڈ: 2910
سائز سائز سائز
ریاض المجالس

ریاض المجالس

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مجلس چہارم

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

( ایاک نعبد و ایاک نستعین )

صلواة

سامعین گرامی!

ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے علاوہ کسی اور کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرتے۔

انسان بارگاہِ رب العزت میں خشوع و خضوع کے ساتھ کھڑے ہوئے پاک و پاکیزہ بدن کے ساتھ اقرار کرتا ہے کہ ہماری گردن صرف تیرے ہی سامنے جھکے گی‘ تیرے علاوہ کسی اور کے سامنے نہیں جھکے گی۔

ظاہر ہے جب انسان بارگاہ رب العزت میں یہ دعویٰ کر رہا ہے تو ضرورت ہے کہ کوئی ایسی ذات ہو جو بتائے کہ خدا کی عبادت کس طرح کی جاتی ہے؟ خدا کے آگے سر تسلیم کس طرح خم کیا جائے؟ خدا کے سامنے جھکنے کا طریقہ کیا ہے؟ وہ اس لئے کہ خدا تو ہمارے سامنے آیا ہی نہیں کہ اسی سے پوچھ لیں‘ ہم میں اتنی طاقت نہیں کہ اس تک جا سکیں‘ اس سے خود پوچھ لیں کہ بغیر کسی واسطے کے کیسے پوچھیں۔ تو ضرورت ہے کہ کوئی ایسی ذوات مقدسہ ہوں جو خدا سے لیں اور ہمیں دیں یا دے سکیں۔ جن کا خدا کے ساتھ رابطہ ہو‘ جن کے انسانوں کے ساتھ بھی رابطے ہوں۔ ایسی ذوات مقدسہ ہوں جو ہمیں بتائیں کہ عبادت کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ خدا کے حکم پر چلنے کا طریقہ کیا ہے؟

اسی لئے ہم نے دیکھا کہ ایک فرشتہ جس نے کافی مدت تک خدا کی عبادت کی‘ خداوند کے حکم پر عمل کرتا رہا‘ خدا کو سجدہ کرتا رہا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ خدا نے کہا کہ حضرت آدم (علیہ السلام)کو سجدہ کرو۔

اس نے جواب دیا:

خدایا! میں آج تک تیری عبادت کرتا رہا ہوں‘ آج کے بعد بھی تیری عبادت کروں گا‘ زمین کے چپے چپے پہ تیری عبادت کروں گا‘ آسمان کے گوشے گوشے میں تیرے سامنے سر جھکاؤں گا‘ لیکن

آدم کے سامنے سجدہ نہیں کروں گا۔

اب دیکھئے کہ خدا کی عبادت سے اس نے انکار نہیں کیا‘ خدا کے سامنے جھکنے سے انکار نہیں کیا۔ بار بار کہہ رہا ہے‘ تیرے سامنے جھکوں گا‘ تیری عبادت کروں گا۔

بس! آدم کے سامنے سجدہ نہیں کروں گا۔

تو خدا نے ارشاد فرمایاکہ

میں چاہتا ہوں کہ میری عبادت کرو‘ لیکن عبادت اپنی مرضی کی چاہتا ہوں‘ تیری مرضی کی نہیں چاہتا۔

اب ہم اپنی مرضی سے عبادت کریں تو ہو سکتا ہے اسے پسند نہ آئے۔ کیا پتہ وہ ہماری عبادت قبول کرے یا نہ کرے‘ اس لئے پھر ایسی ذوات مقدہ کی ضرورت ہوئی نا جو ہمیں بتائیں عبادت کا طریقہ کیا ہے؟ خدا کے آگے جھکنے کا طریقہ کیا ہے؟ ہمیں بتائیں کہ اس طرح نماز پڑھو‘ جس طرح ہمیں نماز پڑھتے دیکھتے ہو‘ ان کی نماز دیکھ کر ہم بھی درست طریقہ سے نماز پڑھیں‘ ان کی عبادت دیکھ کر ہم بھی عبادت کریں‘ تاکہ یہ عبادت ایسی ہو جیسی خدا چاہتا ہے۔

صلواة

تو ایسی ذوات مقدسہ کو خدا نے پیدا فرمایا‘ جتنا کوئی خدا کے قریب ہو گا‘ اتنی ہی اس کی عظمت زیادہ ہو گی۔

کوئی نبی ہو‘ کوئی ولی ہو‘ کوئی وصی ہو‘ کوئی رسول ہو‘ کوئی پیغمبر ہو ان تمام کا دار و مدار اس پر ہے کہ ان کو خدا کی کس قدر پہچان ہے؟ یہ خدا کے کس قدر نزدیک ہیں؟ ان کا درجہ خدا کے نزدیک کیا ہے؟ جتنا ان کا قرب ہو گا‘ اتنا ہی درجہ بلند ہو گا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ خدا کے نزدیک زیادہ کون مقرب ہے؟

خدا کے قریب ہونے کے چار درجے ہیں‘ پہلا درجہ مخلوق ہونے کے ناطے کون خدا کے زیادہ نزدیک ہے؟ سب سے پہلے خدا نے کس کو پیدا کیا؟ ایسا شخص جس کا خدا اور اس کے درمیان پہلے کوئی واسطہ نہیں‘ خدا نے براہ راست اس کو پیدا فرمایا۔

ظاہر ہے جس کو خدا پہلے پیدا کرے گا‘ وہ مخلوق ہونے کے ناطے سے خدا کے زیادہ قریب ہو گا۔

سب سے پہلے خدا کی عبادت کس نے کی؟ جو سب سے پہلے خدا کے سامنے جھکا‘ ظاہر ہے وہ خدا کے زیادہ نزدیک ہو گا۔

منزلت کے اعتبار سے مرتبہ کے لحاظ سے ظاہری طور پر خدا کے کون زیادہ نزدیک ہے؟

جب خدا قیامت کے دن قبر سے اٹھائے گا تو سب سے پہلے کون شخص ہو گا جس کو اٹھایا جائے گا؟

چار قسم کے شرف جس کو حاصل ہوں‘ اس کا درجہ خدا کے نزدیک بڑا ہو گا‘ وہ ہی ہمارے لئے نمونہ عمل ہو گا‘ وہ ہی ہمارے لئے وعدہ قرار دیا جائے گا۔

تو سب سے پہلی چیز کیا؟

کہ مخلوق ہونے کے ناطے خدا کے قریب کون تھا؟

ایسا ہے کہ جس کو خدا کے بغیر کسی واسطے کے پیدا کیا کہ خدا اور اس کے درمیان کوئی واسطہ نہ تھا۔

بس خدا تھا یا وہ جسے خدا نے پیدا کیا۔

وہ جو بھی ہو گا مخلوق ہونے کے ناطے اس کا درجہ تمام مخلوق سے زیادہ ہو گا۔

صلواة

آپ بڑے سمجھدار لوگ ہیں‘ کوئی علمی چیز بیان کروں تاکہ آپ استفادہ حاصل کر سکیں۔ صلواة

عام طور پر یہ تاثر ہو سکتا ہے کہ کدا کی پہلی مخلوق حضرت آدم (علیہ السلام)ہیں‘ اس لئے کہ ابوالبشر ہیں‘ بشریت کا سلسلہ انہیں ۱ سے چلا ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ زمین بن چکی‘ فرشتے بن چکے تو حضرت آدم (علیہ السلام)کو خلق فرمایا گیا تو حضرت آدم (علیہ السلام)کو مخلوق اول نہیں کہا جا سکتا‘ فرشتے پہلے پیدا ہوئے‘ لیکن فرشے بھی مخلوق اول نہیں کیونکہ ان سے پہلے بھی کسی اور کو خلق کیا گیا۔

اگر کسی اور کو پہلے بنا کے خدا دوسری مخلوق پیدا کرے تو اس مخلوق کے درمیان فاصلہ ہو جائے گا‘ مخلوق اول نہیں ہو گی‘ واسطہ پہلے تھا‘ یہ بعد میں پیدا ہوئی۔ جب واسطہ ہو جائے گا تو مخلوق اول اس واسطہ اور وسیلے کو کہیں گے‘ بعد میں پیدا ہونے والی کو مخلوق اول نہیں کہا جا سکتا۔

ظاہر ہے کوئی ایسی مخلوق ہونی چاہئے کہ ان کے کوئی مادہ نہ ہو ان کا کوئی میٹریل نہ ہو‘ براہ راست خدا نے اپنی قدرت سے اس مخلوق کو پیدا کیا ہو۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ مخلوق تو کسی سے

حضرات محترم!

کوئی کاری گر جب کوئی چیز بناتا ہے‘ جب کوئی صانع چیز بناتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میں ایسی چیز بناؤں جس میں کسی قسم کا نقص نہ ہو‘ جو کمالات میں چاہتا ہوں وہ سب کے سب اس میں موجود ہوں‘ کوئی کمی نہ ہو تاکہ کل کو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اس کو اس طرح بناتا تو بہت اچھا ہوتا!

لیکن اس کے باوجود جب بھی کوئی کاریگر کسی چیز کو بناتا ہے تو اس میں کمی رہ جاتی ہے۔ ہوائی جہاز بنایا گیا‘ ہمیں یاد ہے کس قسم کا تھا‘ وہ جہاز بنانے والا اگر آج کے جہاز کو دیکھے تو حیران رہ جائے کہ دنیا کتنی ترقی کر گئی۔ اسی طرح دوسری چیزیں آپ دیکھیں تو ظاہر ہے

کاریگر کی‘ صانع کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ چیز اچھی بنائے‘ لیکن پھر بھی کمی رہ جاتی ہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟

ایک تو یہ کہ اس کے پاس اوزار نہیں تھے‘ ایسے آلات نہیں تھے کہ جن سے اس چیز کو کامل بناتا۔ آج کل کا زمانہ ترقی یافتہ ہے‘ بہترین اوزار موجود ہیں‘ بہترین اسباب موجود ہیں‘ جس سے چیز کو ہر طریقے سے بنایا جا سکتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس وقت علم نہیں تھا‘ تو جب علم نہیں تھا تو چیز کو کامل نہیں بنا سکتا تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا اس کے علم میں اضافہ ہو گیا۔ آج دنیا ترقی یافتہ ہے‘ ایک چیز کو اس طرح بنا رہے ہیں تو کل اس میں اور اضافہ ہو جائے گا‘ اس کو اور بہتر بنایا جائے گا۔

توجہ ہے

کسی چیز میں کمی رہ جاتی ہے تو اس کا سبب کیا ہوتا ہے؟ اسباب کی کمی ہوتی ہے یا علم کی‘ کسی وجہ سے کمی رہ گئی۔

مخلوق اول کو پیدا کرنے والا کون ہے؟

خدا

یہاں صانع کون ہے؟ خدا۔ جس نے اپنی کاریگری کا نمونہ دکھایا ہے۔ خدا کے پاس اسباب کی کوئی کمی نہ ہے‘ کیونکہ وہ خود مسب الاسباب ہے‘ خود اسباب کو پیدا کرنے والا ہے‘ اس کے ہاں اسباب کی کیا کمی ہو سکتی ہے۔ خدا کے ہاں علم کی کوئی کمی نہیں‘ خدا تو جلام الغیوب ہے۔

تو جب اسباب کی بھی کمی نہیں‘ علم کی بھی کمی نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ خدا ایسی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہے جس کے جمال و کمالات کو دیکھ کر خدا کے کمالات کا اندازہ ہو‘ جس کا کمال‘ کمال خداوندی کا آئینہ ہو۔

بہ ایں معنی کہ جب اس مخلوق کو دیکھیں تو دیکھ کر ہم سمجھ جائیں کہ جب یہ ایسے ہیں تو ان کو پیدا کرنے والا کیسا ہو گا‘ تو جب اس قسم کی مخلوق کو خدا نے پیدا کرنا چاہا تو اپنے کمالات سے ایک مخلوق کو پیدا کیا۔

جس مخلوق کے متعلق خدا چاہتا ہے کہ میرے کمالات کا آئینہ ہو‘ اس میں کسی قسم کا نقص نہ ہو‘ کسی قسم کا عیب نہ ہو‘ اس کی ذات کو نمونہ بناؤں‘ اس کی ذات کو نمونہ بناؤں‘ اس ذات کو اسوہ بناؤں اور لوگوں کو بتا دوں اس کو دیکھ لو اور سمجھ لو کہ ہم نے خدا دیکھ لیا۔ جب اس کی صفات کو دیکھ لو تو سمجھ لو ہم نے خدا کی صفات کو دیکھ لیا۔

تو خدا نے اپنی طاقت استعمال کی اور اس مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق نے کمالات کو لیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا جب پیدا کر رہا تھا تو اس کو علم تھا کہ اگر اس کو ایسے بنایا گیا تو اس میں کمی رہ جائے گی۔ جب یہ مخلوق پیدا ہو رہی تھی تو اس میں کوئی نقص نہ تھا‘ مخلوق نے پوری کوشش کے ساتھ کمال کو لیا‘ جو کمالات خدا نے اس کو عطا کئے تھے۔

چنانچہ یہ حقیقت محمدیہ ایسی حقیقت ہے کہ نہ اس سے پہلے ایسی مخلوق تھی اور نہ اس کے بعد ایسی مخلوق ہو گی۔

مخلوق اول ہے حقیقت محمدیہ

حقیقت محمدیہ کو خدا نے پیدا کیا‘ لیکن اب ایک اور چیز کی طرف توجہ کریں۔ میں نے ابھی عرض کیا تھا کہ کوئی میٹریل نہیں ہونا چاہئے‘ کوئی مادہ نہیں ہونا چاہئے‘ جس کو پہلے بنایا گیا‘ ان کو بعد میں۔ اگر میٹریل ہوتا‘ کوئی مادہ ہوتا تو وہ پہلے ہوتا‘ یہ بعد میں ہوتے۔ اس طرح ان کو مخلوق اول نہیں کہا جا سکتا۔

تو حقیقت محمدیہ کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:

نور عظمت:

خداوند عالم نے حقیقت محمدیہ ۱ کو اپنی عظمت کے نور سے پیدا کیا‘ اپنی عظمت کے نور سے پیدا کیا‘ اس لئے حقیقت محمدیہ یہ کہتی ہوئی نظر آئی:

میں ابراہیم کی دعوت ہوں‘ میں عیسیٰ کی خوشخبری ہوں۔ مجھے اس وقت پیدا کیا گیا جب خدا تھا اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔

صلواة

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت فرشتے پیدا ہو چکے تھے کہ نہیں؟ اگر فرشتے پہلے پیدا ہو چکے ہوتے تو حقیقت محمدیہ کو مخلوق اول نہیں کہا جا سکتا‘ کیونکہ فرشتے پہلے پیدا ہوئے۔

بہرحال حقیقت محمدیہ کا ایک حصہ آپ کا مولا حل مشاکل امیرالمومنین ۱ فرماتے ہیں کہ جب خداوند عالم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو پیدا کیا تو بارگاہ رب العزت سے آواز آئی:

اے جبرائیل ۱! میں کون ہوں اور تو کون ہے؟

پوچھنے والا خدا جبرائیل ۱ سے پوچھا جا رہا ہے۔

اب جبرائیل ۱ خاموش ہے‘ جواب نہیں دے رہا‘ بلکہ جبرائیل ۱ نے کہا‘ مجھے نہیں معلوم میں نہیں سمجھتا۔

انا انا و انت انت

"میں اپنی جگہ میں ہوں‘ تیری ذات اپنی جگہ ہے‘ کون ہے؟"

دوبارہ سوال ہوا

من انا و من انت

"تو کون ہے اور میں کون ہوں؟"

جبرائیل ۱ نے پھر وہی جواب دیا۔

تیسری دفعہ سوال ہوا۔

اب بھی جبرائیل ۱ چاہتا تھا کہ پہلے والا جواب دے‘ اسی وقت نور علوی ظاہر ہوا اور جبرائیل ۱ کو بتایا کہ اب یہ جواب نہ دینا۔

انا انا و انت انت

بلکہ کہہ کہ

انت رب جلیل و انا عبدالذلیل

"تو رب جلیل ہے اور میں تیرا ذلیل بندہ۔"

تو گویا حقیقت علویہ پہلے موجود تھی‘ تبھی تو جبرائیل ۱ کو سمجھایا گیا کہ یہ جواب دینا۔ جبرائیل ۱ بعد میں پیدا کیا گیا‘ تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ باقی جتنے فرشتے ہیں وہ بعد میں پیدا ہوئے اور حقیقت محمدیہ علویہ پہلے سے موجود تھی۔

اب دوسرا مرحلہ ہے کہ خدا کی عبادت کس طرح کریں؟ کون ہے جو خدا کی عبادت کا سب سے زیادہ حقدار ٹھہرا؟

قرآن مجید میں ان کا تذکرہ ہے کہ جناب رسالتمآب ۱ فرما رہے ہیں:

مجھی ۱ حکم دیا گیا ہے کہ میں پہلا مسلمان بنوں۔

قرآن کہہ رہا ہے:

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خدا کا اطاعت گذار بنوں۔ تو گویا حضور ۱ کو حکم دیا جا چکا ہے کہ پہلے پہل عبادت گذار آپ بنیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس حکم پر رسالتمآب نے عمل کیا؟

یقینا کیا ہے۔ اس کی گواہی ایک اور آیت میں ہے‘ ارشاد ہوتا ہے:

"میری نماز‘ میرے روزے‘ میری عبادت‘ میرا حج‘ میرا مرنا‘ میرا جینا اللہ ہی کے لئے ہے۔"

کون کہہ رہا ہے؟

محمد عربی کہہ رہے ہیں۔

انا صلواة میری صلواة‘ ونسکی میری ہر چیز و محی میری زندگی و مجاتی میری موت کس لئے ہے؟

اللہ رب العالمین کے کیلئے ہے۔

وہ رب کون ہے؟

لا شریک له

"اس کا کوئی شریک نہیں۔"

اس کے بعد حضرت ۱ کیا کہتے ہیں:

ومن ذلک امرت

"مجھے اسی کا حکم دیا گیا۔"

کہ میں اللہ کے لئے نماز پڑھوں‘ اللہ کی عبادت کروں۔ میرا جینا‘ میرا مرنا اللہ کے لئے ہے اور میں خداوند عالم کا پہلا مطیع ہوں۔

صلواة

جناب رسالتماب کے جو فضائل ہیں‘ وہ اہل بیت (علیھم السلام) کے فضائل ہوتے ہیں۔

پہلی آیت میں کہا گیا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں پہلا مسلمان بنوں۔ دوسری آیت میں کہا گیا کہ میں پہلا فرمانبردار ہوں‘ پہلا مطیع ہوں‘ پہلا مسلمان ہوں‘ یہ خود رسالتمآب ۱ کہہ رہے ہیں۔

جس کا تذکرہ قرآن کریم میں ہے کہ خدایا میں پہلا فرمانبردار ہوں‘ پہلا مطیع ہوں۔

ان کی عبادت دیکھ کر فرشتوں نے عبادت کی‘ ان کی تسلیل دیکھ کر فرشتوں نے تسلیل کی‘ ان کی تسبیح دیکھ کر فرشتوں نے تسبیح کی۔

صلواة

حضرات گرامی!

خلقت کے لحاظ سے حقیقت محمدیہ سب سے پہلے۔

عبادت کے لحاظ سے حقیقت محمدیہ سب سے پہلے۔

تو اب منزلت کے حساب سے حقیقت محمدیہ کا درجہ سب سے زیادہ ہے۔

جیسے میں نے کل عرض کیا تھا کہ جناب رسالتمآب کو معراج ہوئی عرش علیٰ پر‘ حضرت موسیٰ(علیہ السلام)کو معراج ہوئی کوہ طور پر۔

سدرة المنتہیٰ کے معنی‘ جب سدرة المنتہیٰ تک پہنچا ہے تو کہنے لگا کہ

اے محمد! اب آگے نہیں جا سکتا۔ جبرائیل ۱ کہتا ہے کہ میں اگر ذرہ برابر بھی آگے بڑھوں گا تو جل جاؤں گا۔ سدرة المنتہیٰ کے معنی‘ جہاں جبرائیل ۱ کی معراج ختم ہوتی ہے‘ وہاں سے محمد عربی کی معراج شروع ہوتی ہے۔

تو محمد عربی عرش علیٰ تک پہنچے‘ کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا۔

لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ منزلت کے لحاظ سے‘ درجہ کے لحاظ سے‘ مرتبہ کے لحاظ سے جتنا درجہ محمد عربی کا خدا کے نزدیک ہے‘ اتنا کسی اور کا نہیں ہو سکتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقیقت محمدیہ جب عرش علیٰ تک پہنچی تو وہاں کوئی اور بھی تھا کہ نہیں تھا۔ اب دو باتیں ہیں کہ جن سے شک ہو سکتا ہے کہ اور بھی ہو۔

روایت میں ملتا ہے کہ جب خدا نے رسالتمآب کے ساتھ کلام کی تو جب حضرت موسیٰ(علیہ السلام)کے ساتھ کلام ہوتی تھی تو درخت سے آواز آتی تھی‘ درخت کے ساتھ کلام کرتے تھے‘ لیکن رسالتمآب کے ساتھ جب کلام ہوئی تو علی (علیہ السلام)کے لہجے میں کلام کی۔

صلواة

گویا وہاں علی (علیہ السلام)کا تذکرہ موجود ہے‘ علی (علیہ السلام)کا لہجہ موجود ہے۔ صرف یہی نہیں‘ بلکہ ایک اور کلمہ ہے‘ حضرت فرماتے ہیں کہ علی (علیہ السلام)اور میری درمیان۔

حضرات گرامی!

اب دو صورتیں ہو سکتی ہیں کہ عرش پر ہوتے ہوئے رسول اللہ اتنے نیچے ہو گئے کہ علی (علیہ السلام)اور ان کے درمیان دو کمانوں کا فاصلہ تھا یا زمین پر ہوتے ہوئے علی (علیہ السلام)اتنے بلند ہو گئے کہ رسول اللہ اور علی (علیہ السلام)کے درمیان دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا۔

صلواة

خلقت کے لحاظ سے حقیقت محمدیہ سب سے پہلے خلق ہوئی۔

عبادت کے لحاظ سے سب سے پہلی عبادت گذار‘ منزلت کے لحاظ سے حقیقت محمدیہ کا درجہ سب سے زیادہ۔ چوتھی یہ کہ اللہ کی طرف رجوع کے لحاظ سے جب قیامت کا دن ہو گا‘ سب سے پہلے یہی اٹھائے جائیں گے‘ ان کے بعد باقی انبیاء(علیہم السلام)۔

لہٰذا رجوع کے لحاظ سے حضرت رسالتمآب اور علی (علیہ السلام)کا درجہ سب سے زیادہ‘ جب مخلوق اول ہونے کے لحاظ سے حقیقت محمدیہ کا درجہ سب سے زیادہ عبادت گذار سب سے پہلے یہی ہیں۔ منزلت کے لحاظ سے سب سے زیادہ‘ اسی طرح رجوع کے لحاظ سے سب سے پہلے ہیں۔

تو کہا جا سکتا ہے کہ خداوند کریم کے قریب ترین وہ ہیں جنہیں خداوند عالم نے ماڈل بنایا ہے‘ نمونہ بنایا ہے‘ جسے اسوہ بنایا ہے۔ ان کے کمالات کو دیکھا تو خدا کے کمالات کو دیکھ لیا‘ ان کو دیکھ لیا گویا خدا کو دیکھ لیا۔ ان کے مجالات کو دیکھ کر یہ سمجھ لو کہ جب یہ ایسے ہیں تو ان کا خدا کیسا ہو گا۔

گویا خدا کے بعد اگر کسی کا درجہ ہے تو وہ حقیقت محمدیہ ہے اور کوئی نہیں۔

صلواة

دیکھئے! خداوند عالم کی فضیلت کا مظہر اہل بیت (علیھم السلام)ہیں۔ خداوند عالم سے اس کائنات کی ابتداء ہے یعنی خداوند عالم ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔ کائنات کی ابشاء بھی خدا کی طرف سے ہے یا دوسرے لفظوں میں خدا وحدت حقیقت کا مالک ہے‘ کوئی خدا کا شریک نہیں‘ تو خدا اس کائنات میں وحدت مقاصد کا مالک ہے۔ جب تک وحدت نہ ہو‘ کائنات کا نظام نہیں چل سکتا‘ مثلاً

ایک گھر میں ہر شخص اپنی اپنی جگہ شہنشاہ بنے تو گھر کا نظام نہیں چل سکتا۔ ایک بڑا ملتا ہو گا‘ ایک بڑا ہو گا‘ سب اس کے ماتحت ہوں گے‘ تب گھر چلے گا۔

اسی طرح اگر ایک دکان میں دس آدمی کام کر رہے ہوں اور ہر ایک مختار ہو‘ اپنی مرضی کے مطابق سودا بیچے‘ اپنی مرضی سے قیمت لگائے تو کنٹرول نہیں ہو سکتا۔ ایک شخص کو بڑا بنانا پڑے گا‘ اس دنیا کا نظام وحدت کے بغیر نہیں چل سکتا۔

اب خداوند عالم وحدت حقیقہ کا مالک ہے‘ اس میں کسی قسم کا شک نہیں۔ لیکن جس ذات کو خدا نے اپنی ذات کا مظہر بنایا ہے‘ اپنی صفات اجمل کا آئینہ بنایا ہے‘ اپنے کمالات کا آئینہ بنایا ہے‘ آیا اس میں بھی وحدت پائی جاتی ہے یا نہیں؟

اب کائنات ان کے سامنے ہے‘ کائنات پر ان کو کنٹرول ہے‘ کائنات کی ہر چیز کا تصرف کر سکتے ہیں‘ تو جیسے خدا میں وحدت ہے‘ آیا اپنی وحدت کا مظہر بھی کسی کو بنایا ہے؟

وحدت کا مظہر بھی رسالتمآب کوذات کو بنایا گیا۔ حقیقت محمدیہ کے ساتھ اس حقیقت میں اور کوئی بھی شریک نہیں‘ پنجتن پاک شریک ہیں‘ لیکن ان کا نور جو حقیقت محمدیہ کا جز ہے‘ جدا نہیں ہے‘ بلکہ یہ نور مل کر کامل نور بنتا ہے‘ جسے حقیقت محمدیہ کہا جاتا ہے۔

ایک وحدت حقیقی ہے خدا کی ذات‘ دوسری وحدت خدا نے اس کائنات میں پیدا کی ہے‘ یہ وحدت نمونہ ہے وحدت خدا کی۔ تو اب ایک اور مسئلے کی طرف توجہ فرمائیں کہ کائنات کی ابتداء خدا سے کائنات کی انتہاء خدا سے۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

خدا کی طرف ہر چند رجوع کرنے والی ہے۔

ہمیشہ پڑھتے ہیں:

انا لله و انا الیه راجعون

ہم اللہ کے بندے ہیں‘ اس کی طرف سے آئے ہیں اور اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کی ابتداء خدا سے ہر چیز کی انتہاء خدا پر‘ ابتداء بھی خدا سے ہو رہی ہے‘ انتہاء بھی خدا سے ہو رہی ہے۔ لہٰذا اگر دائرہ کھینچا جائے تو یہاں سے ابتداء ہو رہی ہے‘ خدا کی سدرہ کی تہہ تک آ جائے انسان تک پہنچے گا‘ لہٰذا دائرئہ دائرہ قوم ہو گا‘ جس میں کسی قسم کا نقص نہیں ہو گا‘ جس میں کسی قسم کا دھوکہ نہیں ہو گا‘ کسی قسم کی کمی نہیں ہو گی‘ تو جب یہ دائرئہ دائرئہ کامل بنتا ہے‘ وحدت حقیقی خدا کا ابتداء بھی اس سے انتہاء بھی اس سے۔

اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ حقیقت محمدیہ جس کو خدا نے فضیلت عطا کی آیا حقیقت محمدیہ میں بھی دائرہ قائم بنتا ہے یا نہیں۔

صلواة

توجہ ہے نا

حقیقت‘ یعنی جیسے ابتداء خدا سے انتہا خدا پر‘ آیا خدا نے اپنی ان صفات کا نمونہ بھی کسی کو بنایا ہے یا نہیں؟

کسی کو ماڈل بنایا ہے‘ ہم کہہ سکیں کہ خالق ہونے کے ناطق سے ابتداء بھی اسی کی انتہاء بھی اسی سے۔ لیکن اگر مخلوق دیکھیں حقیقت محمدیہ ۱ کہ جس سے ابتداء بھی ہو رہی ہے‘ انتہا بھی ہو رہی ہے۔ اگر یہ نہ ہو گا تو پھر کہا جائے گا کہ اس صفت کا مظہر کوئی نہیں۔ گویا کہ اس صفت کا آئینہ کوئی نہیں‘ اس صفت کا ماڈل کوئی نہیں۔ ظاہر ہے کہ جب تمام صفات کا مظہر خدا نے اہل بیت (علیھم السلام)کو بنایا ہے تو اس صفت کا مظہر کیوں نہیں بنایا۔ تو اب یہ دائرہ کس طرح قائمہ بنے گا کہ ابتداء بھی محمد سے ہو انتہاء بھی محمد سے۔

دیکھئے حضرات!

جیسے میں نے ابھی عرض کیا کہ مخلوق اول حقیقت محمدیہ ہے تو جب مخلوق اول حقیقت محمدیہ ہے تو ابتداء تو محمد سے ہو رہی ہے آیا انتہاء محمد پر ہے کہ نہیں‘ تو مخلوق اول ہے حقیقت محمدیہ ۔ آدم (علیہ السلام) ‘ نوح(علیہ السلام)آئے‘ ابراہیم ۱ نے اپنا کام کیا‘ موسیٰ(علیہ السلام)تشریف لائے‘ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)آئے‘ تمام انبیاء(علیہم السلام)کے بعد خاتم النبین کس کو قرار دیا گیا؟ حضرت محمد کو۔ تو اب کہا جا سکتا ہے کہ حجت خدا کی ابتداء بھی محمد سے ہوئی اور انتہاء بھی محمد پر ہو گی۔

یعنی مخلوق اول بھی محمد ‘ پہلے ان کو نبی ۱ بنایا گیا۔ جب آدم (علیہ السلام) مٹی اور پانی کے درمیان تھے اور ظاہری طور پر بھی نبوت محمد کو دی گئی۔

صلواة

دیکھئے! اس کی مزید وضاحت ہو جائے کہ خداوند عالم کے مختلف منصب ہیں‘ مختلف عہدے ہیں‘ جو خداوند کریم نے انبیاء(علیہم السلام) ‘ اولیاء کو دیئے۔ ایک عہدہ ہے نبوت کا ‘ آیا رسالتمآب کوجب نور کی اہلیت سے پیدا کیا گیا‘ اس وقت نبی تھے یا نہیں‘ ظاہر ہے کوئی جواب تو ہو گا۔ آپ کہیں نبی تھے یا کہیں گے کہ نبی نہیں تھے

تو جناب رسالتمآب ۱ اس وقت بھی نبی تھے‘ اس لئے تو جناب نے فرمایا تھا:

کنت نبیاً و آدم بین الماء والطین

"میں اس وقت بھی نبی تھا‘ جب آدم (علیہ السلام)پانی اور مٹی کے درمیان تھا۔"

تو جب نوری خلقت محمد مصطفی کی ہوئی‘ اس وقت وہ نبی تھے توگویا نبوت کی ابتداء نوری لحاظ سے محمد سے ہوئی‘ عہدے کی ابتداء محمد سے ہوئی اور آخر میں‘ خاتم النبین ۱ کس کو قرار دیا گیا۔ جناب رسالتمآب ۱ کو۔ تو کہا جا سکتا ہے‘ اس نبوت کی ابتداء بھی محمد سے ہوئی اور انتہاء بھی محمد پر ہوئی‘ تو جیسے ہر چیز کا رجوع خدا پر‘ ابتداء بھی خدا پر۔ یہاں نبوت کی ابتداء بھی محمد پر‘ نبوت کی انتہا بھی محمد پر‘ لہٰذا یہ دائرہ دائرہ قائمہ بنے گا‘ اس میں کسی قسم کا نقص نہیں ہو گا۔

اب کہ جا سکتا ہے کہ جیسے ہر چیز کی ابتداء خدا پر‘ انتہاء خدا پر۔ ایسے منصب‘ عہدہ کی ابتداء محمد پر اور انتہاء محمد پر۔

صلواة

کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ منصب کی انتہاء محمد پر نہیں ہوئی۔ اس لئے محمد کے بعد ان کے اولیاء  ہیں‘ علی مرتضی ۱‘ حسن ۱ و حسین(علیہ السلام)ہیں‘ امام زین العابدین ۱ ہیں۔ ظاہر ہے کہ اولیاء  بھی وہی ہیں‘ منصب پر فائز نبی ۱ کے خلیفہ ہیں۔ منصب کی ابتداء تو محمدسے ہوئی‘ لیکن انتہاء محمد پر نہیں ہوئی۔

اس کے دو جواب دیئے جا سکتے ہیں۔

توجہ کے ساتھ سنیں:

پہلا جواب یہ ہے کہ یہ ذوات مقدسہ اگرچہ منصب ولایت پر فائز ہیں‘ مذہب خلافت پر فائز ہیں‘ لیکن یہ ذوات مقدسہ حقیقت محمدیہ کا جز ہیں۔ حقیقت محمدیہ سے جدا نہیں ہیں۔ اس لئے جناب رسالتمآبنے فرمایا:

اولنا محمد اوسطنا محمد کلنا محمد

"ہمارا پہلا بھی محمد ‘ ہمارا درمیانہ بھی محمد ‘ ہمارا آخری بھی محمد ‘ سب کے سب محمد ہیں۔"

صلواة

یہ سب محمد کے نور کے جز ہیں‘ ان کو علیحدہ شمار نہیں کرنا ہے‘ بلکہ محمدمیں شمار کئے جائیں گے۔

لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ خدا کے منصب کی ابتداء محمد سے ہوئی اور منصب کی انتہاء بھی محمد پر ہے‘ لہٰذا یہ دائرہ‘ دائرئہ قائمہ ب نے گا۔

یہیں ایک دوسری صورت بیان کی جا سکتی ہے کہ یہ ذوات مقدسہ محمد عربی کا جز میں‘ ان کے نور کا جز میں نور سے جدا نہیں ہیں‘ لیکن خداوند عالم نے ان ذوات مقدسہ میں کئی ذوات کو محمد قرار دیا۔

علی (علیہ السلام)کے لئے امام حسین(علیہ السلام) ‘ امام حسین(علیہ السلام) ‘ امام زین العابدین ۱ ان کے بعد کون ہے؟ محمد جعفر صادق ‘ موسیٰ کاظم ‘ علی رضا ‘ ان کے بعد محمد تقی (علیہ السلام)تو یہ نور کے لحاظ سے بھی محمد ‘ محمد کا جز اور نام کے لحاظ سے بھی وہی ہیں‘ جو محمد کا نام ہے۔ ان کے بعد علی نقی ۱‘ حسن عسکری آخری ہیں‘ ان کی خصوصیت ہے کہ ان کا نام بھی محمد اور کنیت بھی محمد ابوالقاسم ہے۔

توجہ ہے نا

جناب رسالتمآب ۱ کا فرمان ہے:

کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ میرا نام رکھے اور میری کنیت بھی رکھے۔ یہ حق صرف بارہویں لعل ولایت کو ہے کہ ان ۱ کا نام میرا نام ہے‘ ان ۱ کی کنیت میری کنیت ہے۔

تو اب کہا جا سکتا ہے کہ منصب کی ابتداء محمد سے ہوئی۔ جب وہ عالم نور میں تھے تو اس منصب کی انتہاء بارہویں لعل ولایت پر ہو رہی ہے۔ جو نام کے لحاظ سے محمد ہیں‘ کنیت کے لحاظ سے ابوالقاسم ہیں‘ لہٰذا اول محمد سے کام شروع‘ آخر محمد پر کام

ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم

فقط یہ نہیں کہ سب سے پہلے منصب نبوت پر رسالتمآب کو فائز کیا گیا اور سب سے آخر خاتم النبین بھی وہی ہیں‘ بلکہ جتنے بھی انبیاء(علیہم السلام)گزرے ہیں‘ سب سے ایک عہد لیا گیا تھا‘ تمام انبیاء(علیہم السلام)سے ایک میثاق لیا گیا تھا۔

قرآن کے تیسرے پارے میں ہے کہ خداوند عالم نے تمام انبیاء(علیہم السلام)سے ایک معاہدہ کیا‘ وہ معاہدہ کیا تھا؟

اے انبیاء(علیہم السلام) ! ہم نے تمہیں کتاب دی‘ ہم نے تمہیں حکمت دی‘ یہ سب چیزیں دیں‘ آپ نے ایک کام کرنا ہے‘ وہ یہ کہ تمہارے پاس ایک رسول آنے والا ہے‘ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ اس کی تصدیق کرے گا‘ تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے گا‘ متغیر و متبدل ہو چکی ہیں‘ اس میں تبدیلی ہو چکی ہے وہ نبی آ کے بتائے گا‘ یہ کتابیں صحیح ہیں‘ تورات صحیح ہے‘ زبور صحیح ہے‘ انجیل صحیح ہے۔ لوگوں نے تمہارے تذکرے اس طرح کئے ہیں کہ بعض اوقات تم میں نقص دکھایا گیا ہے‘ غلطیاں دکھائی گئی ہیں‘ وہ نبی آئے گا تمہاری عظمت کو ظاہر کرے گا۔

محترم مکرم!

وہ بتائے گا کہ تمام نبی معصوم ہوتے ہیں‘ ان میں کسی قسم کی غلطی نہیں ہوتی‘ وہ کسی قسم کی خطا نہیں کرتے‘ ان میں نسیان نہیں ہوتا‘ ان میں ہذیان نہیں ہوتا۔

گویا کہ بعد میں آنے والا نبی تمہاری نبوتوں کا بھی محافظ‘ تمہاری تبلیغات کا بھی محافظ اور تمہاری عظمتوں کا بھی محافظ‘ جو اشکال تم پر ہو رہی ہیں ان کو دور کرے گا کہ تمہاری عظمت محفوظ رہے‘ تمہاری تبلیغ محفوظ رہے‘ تم پر جو اشکال کئے گئے ہیں ان کا جواب دیا جا سکے۔

لیکن آپ نے کیا کام کرنا ہے جب وہ تمہاری تصدیق کرے گا‘ تمہاری نبوت کی حفاظت کرے گا‘ آپ کی تبلیغ کی حفاظت کرے گا تو آپ نے کیا کرنا ہے‘ تمہیں چاہئے کہ اس پر بھی ایمان لاؤ‘ اس کی مدد کرو۔ معاہدہ کیا جا رہا ہے‘ تمہیں کتاب دی گئی‘ حکمت دی گئی‘ نبوت دی گئی‘ بعد میں ایک نبی آ رہا ہے جو تمہاری عظمت کی حفاظت کرے گا‘ اس کے بدلے میں آپ نے کیا کرنا ہے‘ اس نبی پر ایمان لانا ہے اور اس کی مدد بھی کرنی ہے۔

اب آپ دیکھیں کہ اس معاہدے کی رو سے جتنے بھی انبیاء(علیہم السلام)آئے‘ ان کو نبوت تب ملی جب ان سے اقرار لے لیا گیا۔

تو اب اول میں بھی نبی کی نبوت‘ آخر میں بھی نبی کی نبوت‘ درمیان میں بھی۔ جتنے انبیاء(علیہم السلام)آئے وہ سب کے سب اس نبی کا تذکرہ کرتے آئے‘ چنانچہ اب ایمان کس طرح لائیں‘ کس طرح ان کا تذکرہ کریں؟

اوقات بتاتی ہیں کہ جب رسالتمآب ۱ معراج پر تشریف لے گئے‘ تمام انبیاء(علیہم السلام)کو نماز پڑھائی۔ ابراہیم خلیل اللہ بزرگ نبی تھے‘ حضرت فرمانے لگے

آپ بزرگ ہیں‘ آپ نماز پڑھائیں‘ میں آپ کے پیچھے نماز پڑھوں گا‘ لیکن ابراہیم ۱ نے کہا آپ زیادہ رتبے والے ہیں آپ نماز پڑھائیں ہم آپ کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔

لہٰذا تمام انبیاءنے آپ کے پیچھے نماز پڑھی‘ جب انبیاء(علیہم السلام)نماز پڑھ چکے تو خداوند عالم کا حکم ہوا کہ اے میرے حبیب! ان سے ایک سوال تو کرو‘ وہ سوال تو کرو۔

اے میرے حبیب! آپ سے پہلے جتنے رسول آئے‘ ان سے سوال کرو‘ وہ سوال کیا تھا؟

تمہیں نبی کیوں بنایا گیا؟ تمہیں مبعوث رسالت کیوں کیا گیا؟

توجہ

سب نے جواب دیا‘ جب ہمیں نبی بنایا گیا‘ مبعوث رسالت قرار دیا گیا‘ تو ہمیں کہا گیا کہ دیکھو! تین چیزوں کا اقرار کرنا ہے:

۱ ۔ اللہ کی وحدت کا اقرار بھی کرنا ہے اور اللہ کی واحدانیت کا پرچار بھی کرنا ہے کہ خدا وحدہ لاشریک ہے۔

۲ ۔ "نبوتک یا محمد" کہ محمد کی نبوت کا اقرار بھی کرنا ہے اور پرچار بھی کرنا ہے۔

۳ ۔ "بولاتیک ولی یا محمد" علی (علیہ السلام)کی ولایت کا اقرار بھی کرنا ہے اور علی (علیہ السلام)کی ولایت کا پرچار بھی کرنا ہے۔

تو ہم تمام انبیاء(علیہم السلام)ایمان لائے‘ رسول اللہ ۱ کی نبوت پر‘ علی (علیہ السلام)کی ولایت پر‘ ایمان تو ہو گیا لیکن دوسرے نمبر پر کہا گیا تھا کہ مدد بھی کرنی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبیوں ۱ نے کیا مدد کی‘ بلکہ آدم (علیہ السلام)کو توبہ کا وسیلہ تلاش کرنا پڑا‘ تو آدم (علیہ السلام)نے کس کی طرف رجوع کیا؟

محمد و آل محمد کی طرف۔

نوح(علیہ السلام)کی کشتی جب بھنور میں آئی تو کس کو وسیلہ تلاش کیا؟

اہل بیت (علیھم السلام)کی طرف رجوع کیا۔

ابراہیم ۱ کو جب آگ میں ڈالا جانے لگا تو انہوں ۱ نے بھی اہل بیت (علیھم السلام)کی طرف رجوع کیا۔

عیسیٰ(علیہ السلام)کو جب صلیب پر چڑھایا گیا تو عیسیٰ(علیہ السلام)نے اہل بیت (علیھم السلام)کی طرف رجوع کیا۔

اس سے ثابت ہوا کہ اہل بیت (علیھم السلام)نے انبیاء(علیہم السلام)کی مدد کی‘ انبیاء(علیہم السلام)نے تو اہل بیت (علیھم السلام)کی کوئی مدد نہ کی۔

لیکن قرآن کہتا ہے:

آپ نے مدد بھی کرنی ہو گی۔

اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ جتنے نبی آئے‘ مدد تو نہ کر سکے لیکن آدم (علیہ السلام)نے کہا‘ اے نوح(علیہ السلام) ! آپ بعد میں آئے ہیں‘ آپ نے مدد کرنا ہے۔ نوح(علیہ السلام)نے کہا‘ اے ابراہیم ۱! آپ بعد میں آئے ہیں‘ آپ نے مدد کرنا ہے۔ ابراہیم ۱ نے موسیٰ(علیہ السلام)سے کہہ دیا‘ موسیٰ(علیہ السلام)نے عیسیٰ(علیہ السلام)سے کہہ دیا۔

اب عیسیٰ(علیہ السلام)تمام نبیوں کے نمائندہ توجہ

اب عیسیٰ(علیہ السلام)نے مدد کرنی ہے رسالتمآب ۱ کی‘ اب عیسیٰ(علیہ السلام)کب مدد کریں گے‘ تاکہ دلیل ہو کہ تمام انبیاء(علیہم السلام)نے مدد کی‘ قرآن کے مطابق لیکن

عیسیٰ(علیہ السلام)بھی رسالتمآب کی مدد تو نہ کر سکے۔ میں کہتا ہوں عیسیٰ(علیہ السلام)نے مدد کی کہ جب بارہویں لعل ولایت تشریف لائیں گے‘ ان کی حکومت ہو گی‘ ان کی بادشاہی ہو گی‘ اس وقت عیسیٰ(علیہ السلام)آئیں گے اور بارہویں لعل ولایت ۱ کی مدد کریں گے‘ ان کی مدد کرنا گویا محمد مصطفی کی مدد کرنا ہے۔

عیسیٰ(علیہ السلام)تشریف لائیں گے‘ بارہویں لعل ولایت ۱ کہیں گے کہ عیسیٰ(علیہ السلام)آپ اللہ کے نبی ہیں‘ اوالعزم پیغمبر ہیں‘ صاحب کتاب ہیں‘ آگے بڑھئے اور نماز پڑھائے۔ اس وقت عیسیٰ(علیہ السلام)کہیں گے کہ میں نبی بھی تھا‘ رسول بھی تھا‘ میں پیغمبر تھا‘ میں صاحب کتاب بھی ہوں‘ چوتھے آسمان پر میرا بسیرا ہے‘ لیکن جہاں تک نماز کا تعلق ہے آپ کا کام ہے‘ نماز پڑھانا میرا کام نہیں‘ میرا کام آپ کے پیچھے نماز پڑھنا ہے۔ تو جہاں بارہویں لعل ولایت کے قدم ہوں گے‘ وہاں عیسیٰ(علیہ السلام)کا سر ہو گا۔

صلواة

تو جب حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)بارہویں لعل ولایت کے امام نہ بن سکے تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی صحابی نماز پڑھائے اور علی (علیہ السلام)اس کے پیچھے نماز پڑھیں۔

نعرئہ حیدری‘ یاعلی (علیہ السلام) !

اب آپ کہیں گے کہ خدایا‘ تیری حکمت کا کیا کہنا ہمیں تو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ یہ معاملہ کیا ہے؟ کہ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)تین دن کے تھے کہ انہوں نے نبوت کا اعلان کر دیا‘ کہہ دیا کہ کتاب بھی میرے پاس ہے‘ حکمت بھی میرے پاس ہے‘ میں نماز بھی پڑھتا ہوں‘ زکوٰة بھی دیتا ہوں‘ جب تک زندہ ہوں اپنی ماں کے ساتھ احسان بھی کرتا رہوں گا۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)تین گھنٹے یا تین دن کے تھے کہ نبوت کا اعلان کر دیا‘ لیکن

خدایا! یہ کیا مصلحت تھی کہ رسالتمآب چالیس سال تک انتظار کرتے رہے کہ نبوت کا اعلان کروں؟ جو خاتم النبین ہیں‘ تمام انبیاء(علیہم السلام)کے سردار ہیں‘ ان کو نبوت کب ملی؟ چالیس سال بعد۔ خدایا!

ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ اس میں تیری مصلحت کیا ہے؟ تو خدا فرمائے گا:

نہیں‘ نہیں‘ اس میں میری مصلحت نہیں تھی‘ مسلمانوں کی مصلحت تھی‘ میں نے تو نور محمد کو اس وقت نبی قرار دیا تھا‘ جب آدم (علیہ السلام) ‘ مٹی اور پانی کے درمیان موجود تھا۔ یہ مصلحت مسلمانوں کی ہے کہ وہ چالیس سال تک نبی ماننے کو تیار نہیں۔

خدایا!

یہ عجیب مصلحت ہے کہ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)تین گھنٹے یا تین دن کے تھے‘ پاک بھی تھے‘ نبی بھی تھے‘ کتاب بھی ان کو مل گئی‘ حکمت بھی مل گئی‘ ان کو آپریشن کی ضرورت نہیں پڑی۔ لیکن رسالتمآب چالیس سال تک تیری عبادت کرتے رہے‘ صادق اور امین کا لقب بھی پڑھا رکھا ہے‘ لیکن ہوا کیا تیرا فرشتہ آیا اور کہا:

اے محمد! پڑھئے۔

تو محمد کہنے لگے کہ میں تو ان پڑھ ہوں‘ کیسے پڑھوں؟ تو فرشتے نے ایسا دبایا کہ حضرت کے پسینے چھوٹ گئے اور پڑھنا شروع کر دیا‘ عجیب منطق ہے۔

مسلمانوں کو فرشتے نے دبایا تو عالم بن گئے کہ محمد عربی کو دبایا تو وہ عالم بھی ہو گئے اور پسینے بھی چھوٹ گئے‘ تب انہوں نے پڑھنا شروع کر دیا۔ اب اس کے بعد بھی ان کے پسینے میں غلاظت تھی یا غلط خون پیدا ہو گیا تھا کہ ان کا آپریشن بھی کرنا پڑا۔

آپریشن کرنے والا کون تھا؟

جبرائیل ۱ ۔

میرے مولا کا شاگرد۔

لیکن یہاں جبرائیل ۱ محمد کا استاد بنایا گیا ہے اور ان کو پڑھا رہا ہے۔

خدا

یہ کیا مصلحت ہے؟

تو خدا کہنے لگا‘ میں نے تو محمد کو پاک و پاکیزہ پیدا کیا تھا‘ اس وقت جب جبرائیل ۱ بھی پیدا نہیں ہوا تھا۔ یہ مسلمانوں کی مصلحت تھی کہ لوگوں کو اونچا کرنے کے لئے ان کی عظمت بنانے کے لئے‘ محمد کی عظمت کو گھٹایا گیا ورنہ محمد میں کسی قسم کی کمی پائی ہی نہیں جاتی۔

دیکھئے!

اس پوری کائنات میں دو خاندان ایسے ہیں کہ جن کا مقابلہ کسی صورت میں نہیں کیا جا سکتا‘ ان کو خداوند عالم نے عظمت بخشی‘ ان کا درجہ بلند کیا۔ ان دو خاندانوں کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔

ایک خاندان جسے آل ابراہیم کہا جاتا ہے۔

دوسرا خاندان جسے آل عمران کہا جاتا ہے۔

ان دونوں خاندانوں میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ یہ دونوں ایسے ہیں کہ پوری کائنات میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔ ان دونوں خاندانوں میں بیک وقت پانچ‘ پانچ معصوم ہیں‘ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ معصوموں کی تعداد بیک وقت زیادہ ہو۔

توجہ ہے نا!

آل عمران میں بھی بیک وقت پانچ معصوم ہیں۔

آل ابراہیم میں بھی پانچ معصوم ہیں۔

آل ابراہیم میں پانچ معصوم کون تھے؟ حضرت عمران ۱‘ حضرت زکریا ‘ حضرت یحییٰ ‘ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)اور ایک معصوم بی بی جن کا نام مریم طاہرہ ہے‘ تو مرد‘ دو بچے‘ ایک عورت ہے۔

آل عمران میں بھی بیک وقت پانچ معصوم ہیں‘ محمد مصطفی ‘ علی مرتضیٰ ‘ فاطمہ زہر ‘ حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام۔

آل ابراہیم میں ایک تعجب ناک چیز یہ تھی کہ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) بغیر باپ کے کیسے پیدا ہو گئے؟ اور آل عمران میں ایک تعجب خیز چیز ۲۷۲ ہجری میں امام زمانہ ۱ کی ولادت کیسے ہوئی؟ اور وہ آج تک کیسے موجود ہیں؟ تو ان میں بھی تعجب ہو رہا ہے‘ ان دونوں خاندانوں پر تعجب ہو رہا ہے۔ یہ دونوں خاندان شریف ہیں‘ دونوں خاندان عظیم ہیں‘ لیکن حقیقت کیا ہے؟ کہ ان دو خاندانوں میں عظمت کی مالکہ

آل عمران میں عظمت کی مالکہ فاطمہ زہرا (علیھا السلام)۔

آل ابراہیم میں عظمت کی مالکہ مریم طاہرہ صلواة

یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا‘ بلکہ مریم کا تذکرہ خدا نے کیا ہے۔

اصل میں تذکرہ تو مریم کا کیا‘ مگر ان کے باپ کا بھی تذکرہ ہو گیا۔ اصل میں تذکرہ مریم کا ہے مگر ان کے سفیر حضرت یحییٰ کا بھی ہو گیا۔ اصل میں تذکرہ مریم کا ہے مگر عیسیٰ(علیہ السلام)کا بھی تذکرہ ہو گیا۔

دیکھیں! اصل میں تذکرہ مریم کا کیا ہے؟ دو لفظوں میں۔

اے مریم! خدا نے تجھے مصطفی بنایا ہے‘ خدا نے تجھے مرتضیٰ بنایا ہے۔

اب دوسری طرف آیئے:

اصل میں تذکرہ فاطمہ زہرا (علیھا السلام)کا کیا گیا‘ مگر فاطمہ ۱ کے تذکرے سے فاطمہ ۱ کے بآپ کا بھی تذکرہ ہو گیا‘ فاطمہ ۱ کے شوہر ۱ کا بھی ہو گیا‘ فاطمہ ۱ کے بیٹوں ۱ کا بھی تذکرہ ہو گیا۔ حدیث کساء پڑھتے ہوئے پوچھا جاتا ہے کہ چادر میں کون ہے؟ تو تعارف کس طرح کرایا جاتا ہے؟

یہ فاطمہ ۱ ہے‘ یہ ان کے شوہر ۱‘ فاطمہ ۱ کا بآپ ‘ فاطمہ ۱ کے دو شہزادے ۱ ہیں۔ تو وہاں مریم کا تذکرہ موجود‘ یہاں فاطمہ ۱ کا تذکرہ موجود و مقصود۔

لیکن مریم کے تذکرے میں دو لفظ‘ خدا نے تجھے چن لیا ہے اور خدا نے تجھے پاک بنایا ہے‘ لیکن۔

جب فاطمہ ۱ کا تذکرہ ہوا تو قرآن کہتا ہے:

انما یرید الله لیزهب عنکم

قرآن مجید میں فاطمہ ۱ کو مصطفی کہا گیا ہے۔ قرآن مجید میں فاطمہ ۱ کو مجبتیٰ ۱ کہا گیا ہے۔ قرآن مجید میں طہارت کا تذکرہ ہے‘ تطہیر کا تذکرہ ہے‘ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ مریم کے لئے‘ دو لفظ ہیں قرآن مجید میں‘ مصطفی اور لفظ مرتضیٰ‘ طہارت۔ لیکن فاطمہ زہرا (علیھا السلام)کے لئے اصطفٰی بھی استعمال ہوا‘ ارتضیٰ بھی استعمال ہوا‘ اجتبٰی بھی اور ارادئہ خداوندی بھی استعمال ہوا‘ تطہیر بھی استعمال ہوا‘ اتطہیرا بھی استعمال ہوا تو مریم کے لئے دو لفظ اور فاطمہ ۱ کے لئے سات لفظ۔ اپنی طرف سے نہیں خہہ رہا بلکہ خدا نے ذکر کیا ہے۔

اب دیکھیں! مریم کے لئے دو لفظ اور فاطمہ ۱ کے لئے سات لفظ‘ گویا بتلانا مقصود ہے کہ مریم کے لئے دو لفظ میں تو فاطمہ ۱ کی طہارت کے لئے سات لفظ ہیں۔

صلواة

صرف یہی نہیں بلکہ مریم سے کہا جا سکتا ہے کہ اے مریم! ٹھیک ہے تیرا باپ معصوم تھا‘ تیرا بیٹا معصوم تھا‘ تو خود معصوم ہے‘ لیکن کیا کہنے!

فاطمہ زہرا (علیھا السلام)کا باپ بھی معصوم‘ فاطمہ ۱ کا شوہر ۱ بھی معصوم‘ فاطمہ ۱ کے بیٹے ۱ بھی معصوم‘ فاطمہ ۱ کے گیارہ بیٹے ۱ بھی معصوم۔ تو منزلت کے لحاظ سے فاطمہ ۱ کا درجہ بڑا ہے۔

منزلت کے لحاظ سے فاطمہ ۱ کا تذکرہ قرآن میں کیا گیا ہے کہ کوئی عورت مقابلہ نہیں کر سکتی‘ لیکن۔

کیا کہنے عیسائیوں کے

انہوں نے اپنے نبی کی ماں کی اس قدر عزت کی کہ ان کو بڑھا کر خدا کے ساتھ ملا دیا۔

مسلمانو!

تمہاری عزت کو کیا ہو گیا کہ تم نے اہل بیت (علیھم السلام)کو اس قدر گھٹایا کہ اہل بیت (علیھم السلام) کے لاشے گھوڑوں کی ٹاپوں کے نیچے روندے گئے۔

پھر تم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو۔

ایک شخص کہتا ہے کہ جب اس نے دیکھا کہ امام حسین(علیہ السلام)کو شہید کر کے سر تن سے جدا کر دیا گیا ہے تو سر ایک نیچی سیڑھی پر رکھا ہوا ہے۔

اس شخص نے پوچھا:

مجھے بتاؤ‘ یہ کون ہے؟

بتایا گیا کہ حسین(علیہ السلام)ابن فاطمہ ۱ ہے۔

اس نے پھر پوچھا کہ فاطمہ ۱ کون ہے؟

بتایا گیا کہ فاطمہ ۱ محمد کی بیٹی ہے۔

جب یہ نام آیا تو اس شخص نے چیخ کر کہا کہ

حضرت داؤد علیہ السلام اس دنیا میں نہیں ہیں‘ مگر ان کا ایک گدھا جس پر وہ سواری کرتے تھے‘ وہ ایک جگہ پر بیٹھا تو ہم نے وہاں زیارت گاہ بنائی اور وہاں جا کر زیارت کرتے ہیں۔

لیکن مسلمانوں تمہاری غیرت کو کیا ہو گیا ہے کہ محمد کی بیٹی فاطمہ ۱ اور فاطمہ ۱ کے بیٹے ۱ کو ذبح کر کے اس کی لاش پر گھوڑے دوڑائے گئے اور پھر کہتے ہو کہ ہم مسلمان ہیں۔

حضرات محترم!

اہل بیت (علیھم السلام)پر اس قدر مصیبتیں آئیں کہ ان کا ذکر کیا جانا بہت مشکل ہے‘ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ

دسویں کا دن میدان کربلا ہے‘ ہر شخص اپنی اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے جا رہا ہے‘ آخر میں ایک شخص جاتا ہے اور کہتا ہے:

مولا ! مجھے اجازت دیجئے‘ میں بھی جا کر جنگ کروں۔

ہر کسی کو حسین(علیہ السلام)نے خود بھیجا مگر اسے کیا جواب دیتے ہیں کہ تجھے میں اجازت نہیں دے سکتا‘ اگر اجازت لینی ہے تو زینب (علیھا السلام)کے پاس جاؤ۔

آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اجازت لینے والا کون تھا۔

اب زینب (علیھا السلام)کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں‘ سر جھکا ہوا ہے‘ آنکھوں میں آنسو ہیں‘ زینب (علیھا السلام)کی خدمت میں حاضر ہو کر کہتے ہیں کہ شہزادی ۱! اجازت کے لئے آیا ہوں‘ مجھے اجازت دیجئے۔

سامنے زینب (علیھا السلام)کھڑی ہیں‘ دونوں بہن بھائی گریہ کر رہے ہیں۔

تو جناب زینب (علیھا السلام)فرماتی ہیں کہ

بھیا!

تمہیں کیسے اجازت دے دوں تو‘ تو ہمارے لشکر کا سپہ سالار ہے۔

حضرت زینب (علیھا السلام)نے فرمایا کہ بھیا عباس!

زمین پر بیٹھ جاؤ۔

عباس زمین پر بیٹھ گئے اور عباس کے سامنے زینب (علیھا السلام)بیٹھ گئی۔

اب دونوں بہن بھائی بیٹھے ہیں۔

روایت میں ہے کہ زینب (علیھا السلام)کی آنکھوں میں آنسو ہیں اور زمین پر اپنے ہاتھوں سے لکیریں کھینچ رہی ہے اور رو رہی ہے‘ کافی دیر تک زینب (علیھا السلام)روتی رہی‘ عباس بھی رو رہے ہیں۔

اس کے بعد زینب (علیھا السلام)پوچھتی ہے‘ عباس میں نے تمہیں زمین پر کیوں بٹؤایا ہے؟ عباس کہتے ہیں:

شہزادی ۱!

عباس کی زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ زینب (علیھا السلام)رو رہی ہے اور لکیریں کھینچ رہی ہے۔

جناب زینب (علیھا السلام)نے کہا:

بھیا!

آج تجھے ایسی بات بتاتی ہوں جو میں نے بھائی حسین(علیہ السلام)کو بھی نہیں بتائی۔ جب ہم کوفہ میں رہتے تھے‘ میرے بابا کی شاہی تھی‘ ایک دن میں گھر میں اکیلی تھی‘ بابا آئے‘ میں اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی‘ بابا نے کہا:

زینب (علیھا السلام)ادھر آؤ۔

میں بابا کے سامنے آ گئی۔

بابا زمین پر بیٹھ گئے اور مجھے بھی زمین پر بٹھا لیا اور کافی دیر تک روتے رہے۔

میں حیران تھی کہ میں نے بابا کو پہلے کبھی روتے نہیں دیکھا‘ میرے بابا اس طرح گریہ تو نہیں کرتے تھے‘ آج ان ۱ کو کیا ہو گیا ہے۔

کون سی ایسی مصیبت آ پڑی کہ میرے بابا رو رہے ہیں۔

میں نے پوچھا:

بابا !

آپ کیوں رو رہے ہیں؟

تو بابا فرمانے لگے کہ بیٹی ۱! تجھے ایک بات بتانا چاہتا ہوں‘ وہ بات میں نے کبھی کسی کو نہیں بتائی۔

وہ بات کیا تھی؟

بیٹی ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ یہی کوفہ ہو گا‘ اسی کوفہ کے بازار میں تیرے دونوں ہاتھ پس پشت بندھے ہوں گے اور تجھے قید کر کے بازاروں اور درباروں میں پھیرایا جائے گا۔

جناب زینب (علیھا السلام)عرض کرتی ہیں:

بابا ! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟

مجھے کیسے قید کیا جائے گا؟

کیا میرا حسین(علیہ السلام)نہیں ہو گا؟

کیا میرا عباس نہیں ہو گا؟

کیا میرا بیٹا علی اکبر نہیں ہو گا؟

کیا میرا بیٹا قاسم نہیں ہو گا؟

لیکن بابا روتے رہے‘ جواب نہیں دیا۔

بھیا عباس!

جب آپ مجھ سے اجازت لینے آئے تو مجھے یقین ہو گیا کہ میرا پردہ نہیں رہے‘ مجھے قید کر کے کوفہ بھی لے جایا جائے گا‘ وہ وقت آ گیا ہے۔

علی (علیہ السلام)جب بستر مرگ پر پڑے تھے تو آپ نے تمام بیٹوں کو بلایا اور وصیتیں کر رہے ہیں‘ بیٹے حسن ۱ کو وصیت کی کہ

بیٹا! آپ امام ہیں‘ سب کا خیال کرنا‘ پھر

بیٹے حسین(علیہ السلام)کو بلایا‘ روایت بتاتی ہے کہ

حسین(علیہ السلام)کو گلے سے لگایا اور کافی دیر تک روتے رہے۔