ریاض المجالس

ریاض المجالس0%

ریاض المجالس مؤلف:
زمرہ جات: امام حسین(علیہ السلام)

ریاض المجالس

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: علامہ حافظ ریاض حسین نجفی
زمرہ جات: مشاہدے: 9514
ڈاؤنلوڈ: 2807

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9514 / ڈاؤنلوڈ: 2807
سائز سائز سائز
ریاض المجالس

ریاض المجالس

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مجلس ششم

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

( ایاک نعبد و ایاک نستعین )

حضراتِ محترم!

اگر انسان کے پاس مال و دولت ہو تو لوگ یقیناً ساتھ رہے ہیں اور اگر کچھ بھی پاس نہ ہو اور کسی کو کہا جائے کہ میرا ساتھ دو تمہیں بہت کچھ دوں گا‘ لوگ سوچیں گے کہ اس کے پاس خود کچھ نہیں یہ مجھے کیا دے گا؟

دیکھئے! رسالتمآب ۱ کو حکم ہو رہا ہے:

و انذر عستیر تک الاقربین

اپنے خاندان والوں کو بلائیں‘ انہیں بلا کر سمجھائیں کہ مجھے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے‘ کیونکہ سب سے پہلے گھر والوں کو خاندان والوں کو سمجھایا جاتا ہے‘ گھر والے اگر کسی کو نہیں مانتے تو باہر والے کیا مانیں گے۔

بہرحال خاندان والوں کو بلایا گیا‘ بہت بڑی بہترین دعوت کھلائی گئی‘ لوگ آئے‘ ایک بکرا ذبح کیا گیا‘ لوگوں کی تعداد زیادہ تھی‘ عرب ماشاء اللہ کھاتے بھی زیادہ تھے‘ ان کی خوراک کافی زیادہ ہوتی ہے‘ وہ کھانے کے ماہر ہیں‘ بہرحال ان لوگوں کو دعوت دی گئی اور بکرا ایک۔ کھانے والے ایسے کہ ایک ایک بکرا کھا جاتے تھے‘ لیکن صورت حال یہ ہوتی ہے کہ ایک بکرے کی رانیں نکل رہی ہیں‘ لوگ کھا رہے ہیں‘ پتہ ہی نہیں چل رہا‘ کتنی رانیں نکل گئی ہیں اور کتنی رانیں لوگ کھا رہے ہیں‘ تو جب لوگ کھا پی چکے تو کسی نے شرارت کر دی۔ ابوجہل جیسے لوگ موجود تھے‘ کہنے لگے کہ آج ابو طالب (علیہ السلام) کے بھتیجے نے بڑا جادو کر دیا۔ کس قسم کا جادو؟ کہ بکرا تو ایک تھا اور رانیں اتنی کہ پتہ ہی نہ چلا کتنے لوگ کھا گئے۔

تو ظاہر ہے نبی کے ہاتھ پر اتنا کمال بھی ظاہر نہ ہوتا تو باقی کمال کہاں سے نظر آتے؟ خیر۔

رسول اللہ جو کچھ کہنا چاہتے تھے آج کچھ نہ کہہ سکے۔ اب پھر دوسرے دن علی (علیہ السلام) سے کہا گیا‘ بکرا تلاش کرو‘ ان لوگوں کی پھر دعوت کرو‘ اب دوسرے دن پھر دعوت کی گئی۔ جب دوسرے دن یہ لوگ کھانا کھا چکے تو اسی وقت رسول اللہ نے ایک کلمہ کہا:

کون ہے جو میرا رفیق عمل بنے گا؟ کون ہے جو اس مشن میں میری مدد کرے گا‘ جو اس رسالت میں میرے ساتھ رہے گا‘ جو میرا ساتھ دے گا؟ وہی میرا خلیفہ ہو گا‘ وہی میرا وصی ہو گا‘ وہ میرا جانشین ہوگا‘ وہی میرا وزیر ہو گا۔ اب یہ کس نے کہا؟

رسالتمآب نے کہا۔ کس وقت کہا جا رہا ہے؟ پتہ نہیں کامیابی ہو گی یا نہیں ہوگی۔ حضرت فرما رہے ہیں‘ کون میرا رفیق بنتا ہے؟

کون میرا ساتھ دیتا ہے؟ کون میرے مشن میں میرا ساتھ دیتا ہے؟

کون ہے جو میرے ساتھ مل کر کام کرتا ہے؟

کون ہے جو تکلیف برداشت کرنے کے لئے تیار ہے؟

مجمع میں سناٹا ہے‘ مجمع میں خاموشی ہے‘ اس لئے کہ کامیابی کا پتہ نہیں کہ کامیابی ہو گی کہ نہیں‘ محمد کامیاب ہوں گے کہ نہیں۔

اور پھر اس وقت محمد کے اردگرد دولت کے ڈؤیر بھی نہیں لگے ہوئے‘ مال و دولت بھی پاس نہیں ہے۔

لہٰذا سب کے سب خاموش ہیں‘ منہ پر تالے لگے ہوئے ہیں‘ کوئی بولنے کے لئے تیار نہیں ہو رہا۔

لیکن ایک چھوٹا بچہ جس کا سن زیادہ سے زیادہ دس سال ہے‘ وہ کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے:

انا ناصرک یا نبی اللہ

اے اللہ کے نبی! میں مدد کروں گا۔

دیکھو! علی (علیہ السلام) نے اس وقت اعلان کیا‘ جب رسالتمآب کے پاس ظاہری طور پر کچھ بھی نہ تھا‘ مال و دولت نہیں تھی‘ نبوت تھی لیکن لوگ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے اور یہ بھی پتہ نہیں کہ آیا کامیابی ہو گی یا نہیں ہو گی؟

مال غنیمت بھی نہیں ہے‘ دولت بھی نہیں ہے‘ کوئی ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہے‘ لیکن ان حالات میں بھی علی (علیہ السلام) کہہ رہے ہیں:

انا ناصرک یا نبی اللہ

اے اللہ کے نبی! میں تیری مدد کروں گا۔

تو ماننا پڑے گا کہ علی (علیہ السلام) نے رسول ۱ کا ساتھاس وقت دیا تھا‘ اس وقت اعلان نصرت کیا تھا‘ جب رسول اللہ کے پاس ظاہراً کچھ بھی نہ تھا‘ کچھ پتہ نہیں تھا‘ کامیابی ہو گی یا نہیں۔

اب رسول اللہ چاہتے تھے‘ علی (علیہ السلام) نے مدد کا اعلان کر دیا‘ اب میں انہیں(علیہ السلام) جانشین بناؤں۔

میں انہیں(علیہ السلام) خلیفہ بناؤں‘ میں انہیں(علیہ السلام) اپنا وزیر بناؤں۔

لہٰذا‘ کیا ہوا؟

اس واقعے کو کہتے ہیں یوم الخمیس‘ یعنی خمیس کا دن‘ یعنی جس دن رسالتمآب چاہتے تھے کہ مسلمانوں سے قلم دوات لے کر کچھ لکھ دوں‘ لیکن کیا کہا گیا کہ ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔

حسبنا کتاب الله

ہمیں الل کی کتاب کافی ہے۔

اس دن کا ذکر کرتے ہوئے ابن عباس فرماتے ہیں کہ

ما یوم الخمیس

یوم الخمیس کس وقت مصیب کا دن ہے کہ رسول اللہ فیصلہ کرنے والے تھے‘ اپنا فیصلہ لکھنے والے تھے کہ کون ہے جس نے ہر جگہ پر میری مدد کی؟ کون ہے جو ہر جگہ میرا ۱ معین بنا؟ کوئی ہے جو میرا مددگار رہا ہے؟ پہلے ہی دن جس نے میری ساتھ وعدہ کیا تھا اور میں نے اس کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ میری مدد کرے گا؟ وہی میرا جانشین ہو گا۔

اب رسول اللہ چاہتے ہیں کہ قلم و دوات لیں اور لکھ کر دیں کہ میرا جانشین کون ہے‘ میرا وزیر کون ہے۔

بس سمجھنے والے سمجھ گئے۔

اسی لئے انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب ہی کافی ہے‘ اس بے چارے کا تو دماغ خراب ہے۔ نعوذ باللہ!

اگر لکھ لیا جاتا تو پھر کوئی اختلاف نہ ہوتا‘ جھگڑا نہ ہوتا‘ لیکن پھر بھی رسول اللہ نے اپنے وعدے کو پورا کیا۔

جیسے پہلے تذکرہ کیا جا چکا ہے کہ ایک بہت بڑے میدان میں سب کو جمع کر کے‘ جو وہ ابتدائی دنوں میں کہا اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور لوگوں کو بتا دیا کہ

لوگو! یاد رکھو‘ جو مجھی مولا سمجھتا ہے‘ اسے پتہ ہونا چاہئے کہ

من کنت مولا فهذا علی مولا

جس جس کا میں مولا ہوں‘ اس اس کا علی (علیہ السلام) مولا ہے۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ علی (علیہ السلام) میں چار فضیلتیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ کسی کو بھی یہ فضیلتیں حاصل نہیں ہیں۔

چار فضیلتیں حاصل ہیں جو کسی کو میسر نہیں ہو سکیں:

سب سے پہلے فضیلت کہ کوئی ایسی جنگ نہیں کہ جس کو مسلمانوں نے فتح خیا‘ مگر یہ کہ اس جنگ کا علمدار علی (علیہ السلام) نہ ہو‘ اس جنگ کا فاتح علی (علیہ السلام) ‘ سپہ سالار علی (علیہ السلام) ‘ اس جنگ کا بیرو علی (علیہ السلام) بلکہ اس جنگ کا سب کچھ علی (علیہ السلام) نہ ہو۔

دوسری فضیلت کہ کوئی ایسی جنگ نہیں کہ جس جنگ میں رسول اللہ کے ماننے والوں نے پشت نہ پھیری ہو‘ رسول اللہ کے ماننے والے انہیں چھوڑ نہ گئے ہوں۔

لیکن ابن عباس کہتے ہیں کہ

فقط‘ علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی شخصیت ایسی ذات ہے کہ جس نے رسول اللہ ۱ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔

ایک جنگ میں جب رسول اللہ نے فرمایا:

اے علی (علیہ السلام) ! جب سب چلے گئے تو آپ ۱ کیوں نہیں گئے؟

تو علی (علیہ السلام) نے جواب میں کہا:

اکفر و بعد الایمان

کیا میں ایمان کے بعد کافر ہو جاؤں؟

تیسری فضیلت‘ علی (علیہ السلام) کی کہ تمام لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہے‘ مشغول رہے‘ اگر کسی نے رسول اعظم ۱ کو غسل دیا ہے تو وہ فقط اور فقط علی (علیہ السلام) کی ذات ہے‘ ورنہ مسلمانوں میں کوئی بھی رسول اعظم کے غسل میں شریک نہ تھا۔

چوتھی فضیلت کہ مسلمان تو اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گئے‘ اگر کسی نے رسول اللہ ۱ کو دفن کیا ہے تو وہ دفن کرنے والے صرف اور صرف علی (علیہ السلام) تھے۔

سامعین محترم!

اب آپ غور فرمائیں کہ علی (علیہ السلام) نے رسول اللہ (ص)کا ساتھ کس طرح دیا؟

ہر جنگ میں رسول اللہ کے ساتھی‘ مصیبت میں رسول اللہ کے ساتھی۔ رسول اس دنیا سے چلے جاتے ہیں‘ سب اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گئے‘ لیکن علی (علیہ السلام) غسل دے رہے ہیں‘ علی (علیہ السلام) دفن کر رہے ہیں‘ علی (علیہ السلام) جنازہ پڑھ رہے ہیں‘ تمام کام کر رہے ہیں‘ تو علی (علیہ السلام) نے تمام کام کر کے گویا جو وعدہ پہلے دن کیا تھا‘ "میں ہر حال میں‘ ہر کام میں رسول اللہ ۱ کی مدد کروں گا"، اس کو پورا کر دکھایا۔

صلواة

چھوٹا سا واقعہ!

افریقہ میں ہمارے کافی سارے مبلغین گئے ہوئے ہیں‘ جو تبلیغ کر رہے ہیں۔ ادھر عیسائی پیسے کے لالچ سے ہمارے افریقیوں کو عیسائی بنا رہے ہیں‘ عیسائیت کا کام بھی بہت ہو رہا ہے‘ لیکن ہمارے آدمی بھی ادھر موجود ہیں۔ اگر ان کی تعداد اتنی نہیں جتنا آٹے میں نمک ہوتا ہے‘ لیکن اپنی جگہ وہ کام کر رہے ہیں۔

وہاں پر ایک بہت بڑا پادری تھا‘ ہمارے ایک عالم نے اس پادری کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم کیا‘ تعلقات بنائے۔

عالم دین کے پاس وہ پادری صاحب بیٹھے رہتے اور عالم پادری کے ہاں جاتے رہتے۔

اسی طرح وہ پادری جب کبھی عالم کے ہاں تشریف لاتے تو کئی کئی دن انہی کے ہاں قیام فرماتے‘ بلکہ ایک دفعہ تو وہ پادری عالم دین کے ہاں برابر چھ ماہ رہے اور دوران قیام اس پادری کا اس عالم دین کے ساتھ مباحثہ ہوتا رہا‘ شعوری و لاشعور طر پور ہر طرح سے پادری کو اسلام سمجھایا جاتا رہا۔

نتیجتاً پادری مسلمان ہو گیا۔

جب اس نے اسلام قبول کر لیا تو اپنی سابقہ برادری‘ عیسائی برادری کے پاس آیا‘ جو پادری اس کے ماتحت تھے‘ جو اس کے شاگرد تھے ان سب کو اس نے بلایا‘ ان سب کو جمع کیا اور کہا دیکھو کہ

کیا تم کو مجھ پر اعتماد ہے؟ یا نہیں؟

سب کہنے لگے‘ یقینا! ہمیں آپ پر اعتماد ہے‘ آپ ہمارے استاد ہیں‘ آپ ہمارے بزرگ ہیں‘ آپ نے ہمیں تعلیم دی ہے‘ ہم آپ کے شاگرد ہیں‘ اگر آج ہم عالم بن چکے ہیں تو آپ ہی کے صدق میں ہمیں علم نصیب ہوا ہے۔ پھر اس نو مسلم عالم نے کہا کہ اگر میں خہوں کہ فلاں چیز حق ہے تو کیا تسلیم کر لو گے؟

سب نے کہا کہ ہم تسلیم کر لیں گے۔

تو اس نے کہا:

میں مسلمانوں کے ساتھ رہا ہوں چھ مہینے متواتر‘ میں نے ان کے ساتھ بحث و مباحثہ کیا ہے‘ میں نے اس بحث و تمحیص اور تحقیق کے بعد یہی سمجھا ہے کہ اگر کوئی دین‘ دین برحق ہے تو وہ دین اسلام ہے‘ اسی لئے میں نے اسے قبول کر لیا ہے اور اب آپ لوگوں سے بھی یہی کہتا ہوں کہ آپ بھی اسلام قبول کر لیں۔

دیکھئے!

ستر آدمی کوئی بچے تو نہیں ہوتے۔ ایک آدمی کھڑا ہو گیا‘ وہ عرض کرتا ہے کہ آپ نے اچھا کیا کہ اسلام کو سمجھ لیا ہے‘ ہم آپ کی بات ماننے کو تیار ہیں‘ لیکن یہ تو فرمائیں کہ

مسلمانوں میں ۷۲ فرقے ہیں‘ ہمیں کیا پتہ کہ اس میں کون سا فرقہ حق پر ہے اور کون سا نہیں؟

تو گویا اس نے طعنہ دیا کہ کون سا فرقہ حق ہے اور کون سا باطل؟

لیکن کیا کہنے پادری کے! اس کے ذہن میں بڑی عجیب بات آئی‘ اگرچہ ہے معمولی چیز لیکن جب آپ سنیں گے تو معلوم ہو گا کہ اس چیز نے سب کو مسلمان کر دیا۔

تو جواباً اس نو مسلم عالم نے کہا:

اے شاگردو! اے اپنے مذہب کے عالمو!

اگرچہ وہ تہتر فرقے ہیں‘ لیکن حقیقتاً وہ دو فرقے ہیں‘ بہتر ( ۷۲) ایک طرف اور ایک فرقہ ایک طرف‘ کیونکہ ۷۲ فرقوں میں بنیادی کوئی فرق نہیں ہے‘ تو فرقے کتنے ہو گئے؟ صرف دو۔ ایک ہی عقیدہ رکھنے والے ۷۲ فرقے اور ان سے جدا نظریہ رکھنے والا ایک فرقہ۔

پھر مثال دیتے ہوئے کہنے لگا:

آپ سب میرے شاگرد ہیں‘ فلاں جگہ میرا بہت بڑا باغ ہے‘ اگر ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ میں بیمار ہو جاؤں اور میری بیماری اس حد تک بڑھ جائے کہ یقین ہو جائے کہ اب میں مر جاؤں گا‘ یہ اب گیا کہ اب اور آپ میں سے دو گروہ ہو جائیں‘ ایک کہے کہ ہمیں چاہئے کہ باغ کے درخت شمار کر لیں‘ کیونکہ استاد جی مرنے والے ہیں‘ ان کے انتقال کے بعد کوئی مصیبت نہ کھڑی ہو جائے‘ ہم ابھی سے باغ کے درخت شمار کر لیں‘ تو کچھ لوگ چلے جائیں جا کر درخت شمار کرنے شروع کر دیں اور کچھ لوگ مجھے بیمار سمجھ کر‘ میرے پاس بیٹھ رہیں اور کہیں کہ یہ ہمارا استاد تھا‘ ہمارا بزرگ تھا‘ باغ کی حیثیت کیا ہے‘ بے شک لے جاتے ہیں تو لے جائیں‘ ہم تو اس کے کفن دفن کا انتظام کریں گے‘ ہم تو اسے غسل دیں گے‘ کفن دیں گے‘ دفن کریں گے۔

اب ان دونوں گروہوں کے بارے میں آپ سب فیصلہ دیں۔

تو ان شاگردوں نے کہا:

جناب باغ والے بدنیت ہیں‘ وہ اچھے نہیں ہیں‘ اچھے وہی ہیں جو آپ کے پاس بیٹھے ہیں۔

تو استاد نے کہا کہ

اس سے سمجھ لو کہ ایک فرقے کا سربراہ علی (علیہ السلام) رسول کے پاس بیٹھا رہا تاکہ انہیں سنبھالے‘ ان کی خدمت کرے‘ غسل دے‘ کفن پہنائے‘ دفن کرے اور دوسرا فرقہ

انہوں نے کہا کہ رسول کا باغ ہے‘ رسول ۱ کا وارث بنا لو‘ گلشن جا کر بانٹ لیں گے۔

تو اس نے فیصلہ کر دیا‘ تو نتیجہ یہ ہوا کہ ستر پادری مسلمان ہو گئے اور آج وہں مل کر تبلیغ کر رہے ہیں۔

فیصلہ ہو گیا‘ ایک آیت ہی لے کر بیٹھ جاتا‘ استعجاب ہوتا رہتا کوئی نتیجہ نہ نکلتا۔

بخاری شریف کی ایک اور حدیث:

علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی عظمت بیان کرنے کے لئے جناب رسالتمآب ۱ کا ایک مشہور کلمہ‘ اس میں چند نکات بیان کرتے ہیں:

رسالتمآب جنگ میں موجود ہیں‘ جنگ ہو رہی ہے‘ کافی دن گزر گئے‘ لیکن جنگ فتح نہیں ہو رہی ہے۔

رسالتمآب نے اس وقت ایک کلمہ کہا:

لا عطین الرایه غدارجلا کرارا غیر فرار یحب الله و رسوله ویحبه الله و رسوله ولم یرجع حتی یفتح الله علی یدیه

کیا ارشاد فرمایا رسول نے؟

اے مسلمانو!

آپ روزانہ جا رہے ہیں‘ جنگ ہو رہی ہے‘ کوئی فیصلہ نہیں ہو رہا‘ جو جاتا ہے واپس آ جاتا ہے۔ ظاہر ہے!

میں تو نہیں کہتا کہ کس انداز میں واپس آتے تھے۔

خیر

جس طرح بھی واپس آتے‘ امن و سلامتی‘ صلح و آشتی سے آ جاتے۔ آخرالاہر رسول نے فرمایا: لاعطین۔ کل میں ۱ علم‘ کل میں اسلامی جھنڈا دوں گا‘ کس کو؟

جو کردار غیر فرار ہو گا‘ جو کراکر ہو گا۔ کرار کے معنی ہیں بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والا‘ غیر فرار‘ جو بھاگنے والا نہ ہو گا۔

اب آپ سمجھتے ہیں کہ جب کرار کہہ دیا‘ بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والا‘ تو غیر فرار کہنے کی ضرورت کیا تھی۔

بہرحال‘ مصلحت تھی‘ جس کو رسول سمجھتے تھے‘ کس کی وجہ سے کلمہ کہا گیا‘ ایک مرد کو علم دوں گا‘ جو بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والا ہے۔

حملہ سے زیادہ یہ تعریف ہے:

یحب الله و رسوله

اس مرد کو خدا کے ساتھ محبت ہو گی اور خدا کے رسول کے ساتھ محبت ہو گی۔ کتنا بڑا تمغہ اس علم والے کو دیا جا رہا ہے کہ اس کو خدا کے ساتھ محبت ہو گی‘ اس کو رسول کے ساتھ محبت ہو گی‘ لیکن اس کے بعد ایک اور تمغہ دیا گیا جو اس سے بھی ارفع ہے:

یحبه الله و رسوله

اور اللہ اور رسول ۱ کو اس سے محبت ہو گی۔

یہ مرد کرار ہو گا‘ بڑھ چڑھ کر حملہ کرنے والا ہو گا‘ اس مرد کو خدا کے ساتھ محبت ہو گی‘ خدا کے رسول کے ساتھ محبت ہو گی اور اسی طرح خدا اور رسول ۱ کو اس کے ساتھ محبت ہو گی تو محبت کا تمغہ دینے کے بعد فرمایا:

ولم یرجع

یہ واپس نہیں آئے گا۔

حتی یفتح الله علی یدیه

حتیٰ کہ اسے خداوند عالم فتح دے گا۔

رسول اللہ ۱ فرما رہے ہیں:

لا عطین الرایه غدا

نام نہیں لیا کہ کون ہے؟ کل میں علم دوں گا‘ کہہ رہے ہیں۔

کیا آج نہیں ہو سکتا؟

اس وقت علم نہیں دیا جا سکتا؟

علم تو موجود ہے‘ لیکن انہیں انتظار دی جا رہی ہے کہ وہ علم کی انتظار کریں‘ انتظار کروائی جا رہی ہے۔

لہٰذا‘ مسلمان ساری رات پریشان رہے۔ ایک کہتا تھا مجھے ملے گا‘ دوسرا کہتا تھا کہ مجھے ملے گا۔

حتیٰ کہ جب صبح ہوئی کہ حضرت نے ارشاد فرمایا:

این این علی ابن ابی طالب

علی (علیہ السلام) کہاں گئے؟ علی (علیہ السلام) کہاں ہیں؟

جب علی (علیہ السلام) کا نام آیا بڑے بڑے مسلمان آگے بڑھے اور کہا:

یا رسول اللہ! آپ علی (علیہ السلام) کو بلا رہے ہیں‘ ان ۱  کی تو آنکھیں دکھ رہی ہیں‘ وہ ۱  تو جنگ کے قابل نہیں ہیں۔

تو حضرت نے علی (علیہ السلام) کو بلایا‘ تب علی (علیہ السلام) تشریف لائے۔

تو روایت بتاتی ہے کہ میدان خیبر میں رسول اللہ زمین پر بیٹھ گئے‘ علی (علیہ السلام) کو لٹایا‘ علی (علیہ السلام) کا سر اٹھا کر اپنے زانو پر رکھ لیا اور لعاب دہن علی (علیہ السلام) کی آنکھوں میں لگایا تو علی (علیہ السلام) کی آنکھیں اس طرح کھل گئیں جس طرح ورق قرآن کھلتا ہے۔

نعرہ حیدری

صلواة

تو علی (علیہ السلام) میدان میں گئے جیسے پہلے لوگ میدان میں جاتے تھے‘ تو اب دیکھنے والوں نے سمجھا کہ اس طرح آئے ہیں۔

تو وہ بہادر حملہ کرنے کے لئے آیا‘ لیکن علی (علیہ السلام) نے اس وقت ایک کلمہ کہا:

انا الذی سمتنی امی حیدر

میں وہ ہوں کہ میری ۱  ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے۔

میں نے کسی جگہ ذکر کیا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت اسد‘ (نعوذ باللہ) کافرہ تھیں‘ ابو طالب (معاذ اللہ) کافر تھے۔

ابو طالب رسول اللہ کی پرورش کرتے رہے۔ قرآن نے جن کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے رسول ۱ کو نیاہ دی ہے‘ رسول کی مدد کی‘ وہ ۱  ایمان کے آخری درجے پر فائز ہیں‘ لیکن پتہ نہیں ان لوگوں کو کیا دکھ ہے کہ انہوں نے کہہ دیا کہ کافر۔

تو آج علی (علیہ السلام) فخر کر رہے ہیں کہ میری ماں نے میرا ۱  نام حیدر رکھا ہے۔ فخر کر کے بتا رہے ہیں کہ میری ماں کتنی عظمت کی مالکہ ہے کہ میں علی (علیہ السلام) فخر کر رہا ہوں کہ میری ۱  ماں نے میرا ۱  نام حیدر رکھا۔

حضرات گرامی!

میں عرض کر رہا تھا کہ علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) گئے‘ جنگ فتح ہوئی۔ جیسے بھی جنگ فتح ہوئی میں اس کا تذکرہ نہیں کرتا۔ آپ سنتے رہتے ہیں کہ مولا امیر ۱  نے در خیبر اکھاڑا‘ در خیبر اتنا بڑا تھا کہ اگر کئی آدمی مل کر کوشش کرتے‘ پوری فوج مل کر کوشش کرتی‘ تب بھی در خیبر کو حرکت نہ دے سکتے تھے‘ لیکن علی (علیہ السلام) نے در خیبر کو اکھاڑا۔

کس طرح؟ دیکھئے!

مولا امیر ۱  فرما رہے ہیں۔

حدیث قدسی میں خدا کا فرمان ہے‘ جناب رسالتمآب نے فرمایا:

عبدی اطعنی اجعلک مثلی

اے میرے بندے! میری اطاعت کرو۔

تو! میرے حکم کے مطابق چل‘ اجعلک مثلیمیں تجھے اپنے جیسا بنا دوں گا۔

یعنی ایک میری صفت تیرے اندر پیدا ہو جائے گی‘ تو اس وقت کہا:

میں اس چیز کو کہتا ہوں ہو جا‘ پس وہ ہو جاتی ہے۔

جب تو میری اطاعت کرے گا‘ جیسے اطاعت کرنے کا حق ہے تو پھر تو جب کسی چیز کو کہے گا ہو جا‘ تو وہ جائے گی۔

اب اس کے ساتھ ایک اور حدیث ہے وہ کیا ہے؟

لا یزال عبدی بتقرب الی بالنوافل

ایک تو ہوتا ہے فرقہ‘ جیسے نماز ہے‘ ایک ڈیوٹی ہے۔

زکوٰة ہے‘ اس کی کوئی فضیلت علیحدہ نہیں ہے۔ یہ تو ادا کرنا ہی ہے‘ جیسے سرکاری ٹیکس ہوتا ہے۔ اس طرح نماز ایک ڈیوٹی ہے‘ جو ہر صورت میں انجام دینا ہے۔

نماز کا ذکر نہیں ہو رہا بلکہ کہا جا رہا ہے:

لا یزال عبدی بقرب الی بالنوافل

میرا بندہ بار بار نفل نماز پڑھتا ہے‘ مستجب نماز پڑھتا ہے‘ پوری دسترس سے میری عبادت کرتا ہے‘ ہر وقت عبادت کرتا رہتا ہے‘ جب میرا بندہ میری عبادت کرے‘ تب میں کیا کرتا ہوں؟

"جب کوئی آدمی میرا تقرب حاصل کرے‘ میرا قرب حاصل کرے‘ نیک کام کر کے مستجاب ادا کر کے نوافل ادا کرے‘ میرا مقرب بن جاتا ہے‘ تو میں خدا اس میں اتنی عظمت پیدا کر دیتا ہوں کہ میں اس کا کان بن جاتا ہوں‘ جس سے وہ سنتا ہے۔"

یعنی مطلب کیا کہ

اس کا سننا میرا سننا۔ میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں‘ جس سے وہ دیکھتا ہے‘ یعنی اس کا دیکھنا میرا دیکھنا۔ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں‘ جس ہاتھ سے وہ کام کرتا ہے‘ گویا اس کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے۔

اب بتائیں علی (علیہ السلام) جیسا عبادت گزار‘ جو ہر رات ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے‘ خدا کی عبادت کی‘ اس لئے ان کی آنکھ کو عین اللہ کہا گیا‘ علی (علیہ السلام) کے کان کو اذن اللہ کہا گیا‘ علی (علیہ السلام) کے ہاتھ کو ید اسد کہا گیا۔ اس کی طرف علی (علیہ السلام) خود اشارہ کر رہے ہیں‘ کیا فرماتے ہیں:

ما قلعت باب خیبر بقوة جسمانیه بل لقوة ربانیه

اے مسلمانو!

میں ۱  نے خیبر کا قلعہ اپنی جسمانی طاقت سے فتح نہیں کیا بلکہ یہ ربانی قوت سے فتح کیا گیا ہے۔

علی (علیہ السلام) نے خیبر کا قلعہ فتح کیا‘ کس سے؟

قوت ربانیہ سے فتح کیا۔

اب علی (علیہ السلام) آ رہے ہیں۔ روایت یہ بتاتی ہے کہ علی (علیہ السلام) جھوم جھوم کے آ رہے ہیں اور تو کچھ نہیں ہو سکتا تھا‘ لوگوں نے اشکال کیا‘ کہنے لگے:

یا رسول اللہ!

علی (علیہ السلام) میں کس قدر تکبر آ گیا ہے کہ جھو جھوم کر آ رہے ہیں‘ انہیں خشوع و خضوع کا مالک ہونا چاہئے۔

اس وقت رسالتمآب نے ارشاد فرمایا:

علی (علیہ السلام) کے اس جھومنے پر خدا خود جھوم رہا ہے۔

صلواة نعرئہ حیدری!

جھومتے ہوئے علی (علیہ السلام) تشریف لائے‘ ایک ہاتھ میں علم ہے‘ تلوار ہے اور مرحب کا سر ہے۔

یہ سب چیزیں لے کر مولا  خدمت رسالت میں آئے۔ جب وہ پہنچے ہیں تو رسول اللہ نے علم اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور بہت زیادہ خوش ہوئے اور فرماتے ہیں:

اے علی (علیہ السلام) ! آج مجھی اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ اتنی خوشی کبھی مجھی ۱ کسی چیز سے نہیں ہوئی۔ علم کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ

آج مجھے اس لئے خوشی ہوئی کہ قلعہ خیبر فتح ہوا ہے‘ جب کہ ۳۹ دن گزر گئے۔ ایک روایت میں ۱۹ دن اور ایک روایت میں ۳۹ دن ہیں۔

بہرحال دونوں میں سے کسی ایک کا ذکر کے ۱۹ یا ۳۹ دن گزر گئے کہ قلعہ خیبر فتح نہ ہو رہا تھا‘ آج مجھی بڑی خوشی ہوئی۔ اس لئے کہ یہودیوں کا آپ  نے قلع قمع کر دیا اور جب ۱۹۶۱ ء میں اسرائیل نے عربوں پر حملہ کیا‘ اردن کے قبیلہ پر قبضہ کیا‘ مصر کے علاقہ پر بھی قبضہ کر لیا‘ شام کی جولان کی پہاڑیاں بھی قبضہ میں لے لیں تو اس وقت کے اسرائیلی وزیرعاظم نے ایک تقریر کی تھی اور اس میں کہا تھا:

اے مسلمانو!

آج ہم نے قلعہ خیبر کی فتح کا بدلہ لے لیا ہے۔

علی (علیہ السلام) نے اس زمانے میں فتح کیا تھا‘ آج ہم نے فتح کر کے وہ بدلہ لے لیا ہے۔ دنیا تو علی (علیہ السلام) کو بھول گئی تھی‘ انہیں احساس تک نہیں رہا‘ حالانکہ جو اسلام آج آپ کے سامنے موجود ہے۔

لا الہ الا اللہ مسلمان پڑھتے ہیں‘ محمد رسول اللہ کہتے ہیں‘ علی ولی اللہ پڑھتے ہو۔ یہ علی (علیہ السلام) کے تیرزور قرب کا اثر ہے کہ جس نے تمہیں محفوظ رکھا۔ یہ عمل علی (علیہ السلام) نہ ہوتے یا علی (علیہ السلام) اولاد نہ ہوتی‘ اسلام کے لئے قربانی نہ دیتے تو آج کبھی اسلام موجود نہ ہوتا۔ چہ جائیکہ تمہاری نمازیں ہوتیں‘ چہ جائیکہ تم اپنے اسلام پر خوش ہوتے‘ چہ جائیکہ تم اپنے اسلام پر ناز کرتے۔

تو رسالتمآب اس علم پر خوش ہوئے۔ ایک خیبر کی فتح تھی اور دوسری خوشی یہ کہ حضرت جعفر طیار  ۱ حبشہ گئے ہوئے تھے‘ وہاں سے یہاں تشریف لائے۔ اس وقت رسول اللہ نے کہا‘ مجھی دو قسم کی خوشی محسوس ہو رہی ہے‘ ایک فتح کی خوشی اور دوسری جعفر طیار ۱  کی واپسی کی خوشی۔

ریاض القدس میں موجود ہے کہ

یہ کلمہ کہنے کے بعد حضرت تھوڑے سے آبدیدہ ہو گئے۔

لوگ حیران ہوئے۔ کہنے لگے:

یا رسول اللہ! آپ ۱ آبدیدہ کیوں ہوئے؟

تو حضرت نے فرمایا:

جس لمحے علی (علیہ السلام) کے علم کو دیکھ کر میں خوش رہا تھا‘ اس وقت ایک اور علم بھی مجھے یاد آ گیا‘ وہ بھی علی (علیہ السلام) ہی کا علم ہو گا‘ لیکن علی (علیہ السلام) کے بیٹے عباس کے ہاتھ میں ہو گا‘ میدان کربلا میں علی (علیہ السلام) کے بیٹے عباس کے ہاتھوں میں ہو گا اور اس علم کو جب حسین (علیہ السلام) اپنے خیمہ کی طرف لے کر آئیں گے‘ اس وقت حالت یہ ہو گی کہ عباس کا لاشہ فرات کے قریب پڑا ہو گا اور علم کو خالی لے کر حسین (علیہ السلام) اپنے خیمہ کی طرف آئیں گے۔ اب وہ علم حسین (علیہ السلام) کے ہاتھوں میں ہے‘ حسین (علیہ السلام) نے اس علم کو ہاتھوں میں لے کر فوج اشقیاء پر حملہ کیا‘ جب فوج اشقیاء پر حملہ کیا تو روایت میں ہے کہ

حسین (علیہ السلام) جب گئے تو پہلے حسین (علیہ السلام) نے اپنا تعارف کرایا کہ

اے لوگو!

جو مجھے ۱  جانتے ہیں‘ وہ جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے‘ انہیں بتا دوں کہ میں کون ہوں؟

اس کے بعد حسین (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا:

لوگو! اس وقت پوری کائنات میں فقط میں ہوں جو رسول ۱ کا نواسہ ہے۔ میرا نانا رسول ہے‘ اکیلا میں رسول ۱ کا نواسہ ہوں۔

اور فرمایا:

اس وقت میں ۱  اکیلا ہوں‘ جس کا چچا جعفر طیار ہے‘ جس کا چچا حمزہ سیدالشہداء ہے۔

ان تمام کلمات کا ذکر کرنے کے بعد حسین (علیہ السلام) کہنے لگے:

لوگو!

میں ۱  وہ ہوں کہ جس کی ماں فاطمة الزہرا (علیھا السلام)  ہے۔

لوگو! مباہلہ میں‘ میں گیا تھا‘ مباہلہ فتح ہوا تھا۔

لوگو! رسول اللہ مجھے ۱  اپنے اوپر سوار کرتے تھے اور اپنی زلفیں میرے ۱  ہاتھ میں دیتے تھے۔

لوگو! میں ۱  وہ ہوں کہ میرے ۱  اور میرے ۱  بھائی حسین (علیہ السلام) کے متعلق رسول اللہ نے فرمایا تھا:

الحسن و الحسین سیدا شباب اهل الجنة

"حسن ۱  اور حسین (علیہ السلام) جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔"

میں ۱  وہ ہوں کہ اگر کبھی میں ۱  آ رہا ہوتا اور نانا رسول اللہ خطبہ دے رہے ہوتے‘ میں ۱۱  ۱ گر جاتا تو رسول اللہ خطبہ چھوڑ کر پہلے مجھے ۱  اٹھاتے تھے پھر خطبہ دیتے۔

یہ کہنے کے بعد امام(علیہ السلام) نے ایک آخری کلمہ کہا:

لوگو!

بتاؤ کیا میں ۱  نے دین میں کوئی تبدیلی کی ہے؟

کیا میں ۱  نے کوئی غلط کام کیا ہے؟

یا حکم خدا کی نافرمانی کی ہے‘ تو جب میں ۱  نے کوئی نافرمانی نہیں کی‘ مجھے ۱  بتاؤ کہ کیا یہ تمہارا انصاف ہے کہ یہ پانی جو میری ۱  ماں سیدہ فاطمة الزہرا (علیھا السلام)  کا حق مہر تھا‘ اب اس پانی سے جانور تو سیراب ہو رہے ہیں‘ لیکن نبی ۱ کی اولاد پیاسی ہے۔

کیا اس کے بعد تم کہہ سکتے ہو کہ ہم مسلمان ہیں۔

حضرت  نے اپنا تعارف کرانے کے بعد حملہ کیا۔ روایت میں موجود ہے کہ حسین (علیہ السلام) کا یہ حملہ

اندازہ کریں کہ حسین (علیہ السلام) کے بھائی مارے گئے‘ بیٹے مارے گئے‘ حسین (علیہ السلام) کے بھتیجے مارے گئے‘ یار و انصار مارے گئے۔ اب حسین (علیہ السلام) اکیلے اور اکیلا آدمی کتنا پریشان ہوتا ہے‘ لیکن روایت بتاتی ہے کہ

حسین (علیہ السلام) نے جو حملہ کیا‘ وہ حملہ اتنا سخت تھا کہ اشقیاء کی فوجیں کربلا سے دوڑتی ہوئی تک چلی گئیں۔ یہ کوفہ کی چھاؤنی تھی۔ کربلا سے پندرہ میل دور فوجیں دوڑتی ہوئیں تک پہنچ گئیں۔ جب حسین (علیہ السلام) کا حملہ اتنا سخت ہوا تو اس کے بعد حسین (علیہ السلام) ۱ تھوڑی دیر سستا رہے تھے کہ اوپر سے ایک کاغذ آیا اور کہتا ہے:

اے حسین (علیہ السلام) ! تجھے اپنا وعدہ یاد ہے۔

حسین (علیہ السلام) تو جنگ فتح کرنے کے لئے نہیں آیا‘ تو تو خون دینے کے لئے آیا ہے‘ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے آیا ہے تاکہ تیرے نانا کا دین بچ جائے۔ اس پیغام کا آنا تھا کہ حسین (علیہ السلام) نے اپنی تلوار نیام میں ڈالی اور اس کے بعد اپنے خیمے میں آئے‘ اب اس خیمہ میں آخری الوداع کرنے حسین (علیہ السلام) آئے۔ خدا آپ  کو جزائے خیر دے۔

روایت میں موجود ہے:

حسین (علیہ السلام) آئے کہاں پہنچے؟

اپنے بیٹے عابد ۱  بیمار کے پاس۔ اندازہ کریں‘ بوڑھا باپ زخموں سے چور‘ بیمار بیٹا ۱  غشی کی حالت میں پڑا ہوا۔

حسین (علیہ السلام) اپنے بیٹے ۱  کے سرہانے بیٹھ کر کیا کہتے ہیں:

بیٹا سجاد ۱  اٹھو!

مولا  نے آواز دی‘ مگر زین العابدین ۱  نے آنکھیں نہیں کھولیں‘ غشی کی حالت میں تھے۔

دوبارہ کہا‘ میرے ۱  بیٹے میں تجھ ۱  سے وداع کرنے آیا ہوں۔

اٹھو!

ابھی تک سجاد ۱  نے آنکھیں نہیں کھولیں‘ غشی طاری تھی۔

اس کے بعد حسین (علیہ السلام) نے کہا‘ بیٹا! تیرا ۱  مظلوم بآپ  تجھ سے وداع ہونے کے لئے آیا ہے‘ اٹھو! مجھے ۱  وداع کر لو اور اسباب امامت مجھ ۱  سے لے لو اور مجھ ۱  سے وداع کرو۔

اب بھی بیٹے ۱  کی غشی نہیں ٹوٹی‘ لیکن جب

گرم گرم آنسو امام زین العابدین ۱  کے رخسار پر پڑے ہیں تو اس وقت امام سجاد ۱  نے آنکھیں کھولیں اور کیا کہتے ہیں:

میرے ۱  مظلوم بابا !