امامیہ دینیات درجہ اوّل (بالغات)

امامیہ دینیات درجہ  اوّل (بالغات)0%

امامیہ دینیات درجہ  اوّل (بالغات) مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال

امامیہ دینیات درجہ  اوّل (بالغات)

مؤلف: تنظیم المکاتب
زمرہ جات:

مشاہدے: 5942
ڈاؤنلوڈ: 2087

تبصرے:

امامیہ دینیات درجہ اوّل (بالغات)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 50 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 5942 / ڈاؤنلوڈ: 2087
سائز سائز سائز
امامیہ دینیات درجہ  اوّل (بالغات)

امامیہ دینیات درجہ اوّل (بالغات)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

امامیہ دینیات

درجہ اوّل (بالغات)

تنظیم المکاتب

اصول دین

اصول اور فروع

ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ ان کی باتوں کو ماننا اسلام ہے۔ ہمارے نبیؐ نے ہم کو جتنی باتیں بتائی ہین وہ دو طرح کی ہیں۔ ایک کا نام اصول دین ہے اور دوسرے کا نام فروع دین ہے۔

اصول دین :۔

ان باتوں کو کہتے ہیں جن پر دل سے یقین رکھنا ضروری ہے جیسے خدا ایک ہے، عادل ہے۔ آخری نبی ہمارے نبیؐ ہیں اور ان کے جانشین ہمارے بارہ امام ہیں۔ قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ قیامت کا ایک دن معین ہے۔

فروع دین :۔

ان باتوں کو کہتے ہیں جن پر عمل کرنا واجب ہے جیسے نماز پڑھنا روزہ رکھنا ، حج کرنا ، خمس ، زکوٰۃ نکالنا وغیرہ۔

ہر شخص پر واجب ہے کہ اصول دین کو دلیلوں کے ذریعہ سمجھے اور اپنی عقل سے پرکھ کر مانے، صرف کسی کے کہنے پر ماننا کافی نہیں ہے بلکہ دوسروں سے جو کچھ سنے یا معلوم کرے اسے اپنی عقل سے پرکھے جو صحیح ثابت ہو اسے مانے اور جو غلط ثابت ہو اسے نہ مانے۔

فروع دین خدا اور رسولؐ کے احکام کا نام ہے اور خدا اور رسولؐ کے احکام کا فیصلہ اپنی عقل سے نہیں کیا جا سکتا لہذا جو خدا رسولؐ اور امامؐ کا حکم ہوا اسی پر عمل کرنا چاہیئے۔ ان کے احکام کے مقابلہ میں اپنی عقل کو نہ لانا چاہئیے۔ اس لئے کہ فروع دین میں قیاس کرنا حرام ہے۔

اصول دین پانچ ہیں :۔

توحید ۔ عدل ۔ نبوت ۔ امامت ۔ قیامت۔

فروع دین دس ہیں :۔

نماز ۔ روزہ ۔ حج ۔ زکوٰۃ ۔ خمس ۔ جہاد ۔ امر بالمعروف ۔ نہی عن المنکر ۔ تولا ۔ تبرا۔

فروع دین کی بہت سی باتوں کے بارے میں حکم دین معلوم ہے جیسے نماز واجب ہے۔ مغرب کی تین رکعت ہیں۔ البتہ بعض باتوں میں حکم خدا یقینی طور پر نہیں معلوم ہے جیسے سنگ مرمر پر تیمم ہو سکتا ہے یا نہیں۔ سیپ کے بٹن کے ساتھ نماز صحیح ہوگی یا نہیں۔ اور چونکہ آج ہمارے امام علیہ السلام ظاہر نہیں ہیں جن سے ہم حکم خدا معلوم کریں لہذا جن باتوں میں حکم خدا نہیں معلوم ہے ان کو عالم دین سے معلوم کیا جاتا ہے۔ اس کا نام تقلید ہے۔ تقلید سب سے برے عالم دین اعلم کی ہوتی ہے۔

ہم کیوں پیدا ہوئے ؟

اس دنیا میں اللہ نے کوئی چیز بیکار نہیں پیدا کی بلکہ جو کچھ اس نے بنایا ہے کسی نہ کسی مقصد کے لئے بنایا ہے ۔ سورج روشنی دیتا ہے۔ چاند راتوں کے اندھیرے میں اجالا بخشتا ہے۔ بادل پانی برساتا ہے۔ پانی سے کھیتی ہری بھری ہوتی ہے۔ جانور انسانوں کے بہت سے کام کرتا ہے۔ سواری ، کھیتی ، سیچانئی وغیرہ میں جانوروں سے کام لیا جاتا ہے۔ انسان بھی بیکار نہیں پیدا ہوا ہے بلکہ اللہ کی عبادت کے لئے پیدا ہوا ہے۔

اللہ نے اس دنیا کی ہر چیز انسان کے لئے پیدا کی اور انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس دنیا میں تم کو یہ اصول نظر آئےگا کہ ہر مخلوق اپنے سے بلند کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ گھاس اس لئے پیدا ہوئی ہے کہ اسے جانور کھائے۔ جانور اس لئے پیدا ہوا ہے کہ وہ انسان کو کام آ سکے۔ انسان سے بلند صرف خدا ہے لہذا انسان خدا کے احکام ماننے اور اس کی عبادت کرنے کے لئے پیدا ہوا ہے۔

امام حسن عسکری علیہ السلام ایک دن بچپن میں بچوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ سب بچے کھیل کود رہے تھے۔ امام کھیلنے کے بجائے رو رہے تھے۔ ادھر سے بہلول کا گزرنا ہوا۔ بہلول بہت عقلمند اور دیندار آدمی تھے۔ امامؐ کو روتے دیکھ کر رک گئے اور رونے کا سبب پوچھنے لگے۔ تسلی دیتے ہوئے بہلول نے کہا۔ " میں تمہارے لئے بازار سے کھلونے خرید لاتا ہوں۔" حضرت نے کہا۔ " ہم کھیلنے کے لئے نہیں پیدا کئے گئے۔ " بہلول نے سوال کیا۔ " پھر کس لئے پیدا کئے گئے ہیں ؟" حضرت نے فرمایا ۔" ہم کو اللہ نے علم حاصل کرنے اور عبادت کرنے کے لئے پیدا کیا ہے ۔" اور امامؐ نے بہلول کو قرآن مجید کی آیت بھی سنائی جس میں خدا نے کہا کہ ہم انسان کو بیکار نہیں پیدا کیا ہے۔ بہلول امام کی بات سن کر سمجھ گئے کہ یہ کوئی معمولی بچہ نہیں ہے بلکہ زمانہ کا ہادی اور امام ہے۔

ہمارا فرض ہے کہ اپنی زندگی کو کھیل کود میں برباد نہ کریں۔ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی نہ کریں۔ ہر کام سے پہلے سوچ لیں کہ اللہ اس سے خوش ہوگا یا ناراض ، جن کاموں سے خدا ناراض ہوگا ان کو نہ کریں۔ صرف وہ کام کریں جس سے خدا خوش ہو چاہے نماز روزہ ہو یا تجارت اور کاروبار۔

مذہب کی ضرورت

بچہ جس چیز کو دیکھتا ہے اس کو لینے کے لئے لپکتا ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ کون سی چیز اچھی ہے اور کون سی چیز بڑی ہے لیکن اس کے ماں باپ اس کو ان چیزوں سے منع کرتے ہیں جو بری ہیں۔ چاہے وہ بچہ کو اچھی لگتی ہوں۔ اور ان چیزوں کو لینے کا حکم دیتے ہیں جو اچھی ہیں چاہے وہ بچہ کو بری لگتی ہوں۔ اسی طرح خدا نے اپنے بندوں کو مذہب کے ذریعہ اچھی اور بری باتیں بتائی ہیں۔ کیونکہ بندے سب چیزوں کی اچھائی اور برائی نہیں جانتے ہیں۔ مذہب اچھائیاں بتاتا ہے اور برائیاں پہچنواتا ہے۔ نیکی کرنے کا حکم دیتا ہے اور برائی کرنے سے روکتا ہے۔

مذہب کے بغیر انسانوں کی زندگی کی اصلاح ممکن نہیں ہے جس کی مثال یہ ہے درخت جنگل میں بھی اُگتے ہیں ، باغ اور چمن میں بھی لگائے جاتے ہیں لیکن جنگل میں آدمی جاتے ہوئے ڈرتا ہے اور باغ میں جانے کو اس کا جی چاہتا ہے۔ یہ صرف اس لئے ہے کہ جنگل میں کسی قاعدہ اور قانون کے بغیر درخت اُگتے ہیں اور باغ میں قاعدےسے لگائے جاتے ہیں۔ جنگل میں کوئی مالی درختوں کی دیکھ بھال نہیں کرتا ہے اور باغ میں مالی درختوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

انسانوں کو بھی اگر بغیر قاعدہ اور قانون کے جینے کا موقع دیا جائے تو انسانوں کی آبادی بھی جنگل کا نمونہ بن جائیےگی اور اگر قاعدہ اور قانون سے لوگ زندگی بسر کریںگے تو آدمیوں کی بستیاں جنت کا نمونہ بن جائیںگی۔ لہذا ضرورت ہے ایک ایسے قانون کی جو انسان کو جینے کا طریقہ بتائے اور اسی قانون کا نام مذہب ہے۔ انسانوں کے اسی چمن باغبان اور مالی نبی اور امام ہوتے ہیں جن کو خدا نے ہمیشہ ہماری ہدایت کے لئے بھیجا ہے۔

کیا خدا نہیں ہے ؟

اس دنیا میں جہاں بےشمار مذہب والے پائے جاتے ہیں وہاں کچھ لوگ لامذہب بھی ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو دہریہ کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ دنیا بغیر کسی خدا کے ایک دن آپ ہی آپ پیدا ہو گئی ہے اور ایک دن آئےگا جب آپ ہی آپ مٹ جائےگی۔

ویسے یہ لوگ بھی دنیا کی ہر چیز کے لئے ایک بنانے والا مانتے ہیں ان کے خیال میں بھی مکان ، سڑک ، فیکٹری ، موٹر ہوائی جہاز ، ریل وغیرہ سے کوئی چیز بھی خود نہیں پیدا ہوئی جو نہیں بنی بلکہ کسی بنانے والے نے ان کو بنایا ہے ۔ لیکن یہی لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں اس ہٹ دھرمی پر اتر آئے ہیں کہ کہتے ہیں کہ یہ دنیا خود پیدا ہوئی ہے اس کا کوئی پیدا کرنے والا نہیں۔

ہمارے چھٹے امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس ایک دہریہ آیا۔ جس کا نام عبد اللہ ویصانی تھا۔ اس نے اصحاب کے سامنے حضرتؐ سے خدا کے بارے میں بحث کرنا چاہی۔ آپ نے اُس سے پوچھا " تیرا نام کیا ہے ؟"

وہ جواب دئیے بغیر چلا گیا۔ اصحاب نے حیرت سے پوچھا ۔ "حضور ! یہ شخص کیوں چلا گیا۔ یہ تو آپ سے بحث کرنے آیا تھا ؟"

آپ نے فرمایا ۔ " بحث ختم ہو گئی اور وہ اپنی بحث میں ہار گیا اس لئے شرمندہ ہو کر چلا گیا۔ "اصحاب نے عرض کی۔ " مولا! اس نے تو کوئی بات ہی نہیں کی، پھر بحث کیسے ختم ہو گئی ؟"آپ نے فرمایا ۔ " میں نے اس کا نام پوچھ لیا۔ وہ سمجھ گیا کہ نام بتانے پر میں فوراً اُس سے سوال کروں گا کہ اگر اللہ نہیں ہے تو پھر تو عبد اللہ کیوں نکہ ہے ؟ عبد اللہ کے معنی ہیں اللہ کا بندہ۔ جب اللہ ہی نہیں تو بندہ کہاں سے آ گیا ؟"

حضرت یہ سمجھنا چاہتے تھے کہ بغیر خدا کے بندے کا وجود محال ہے اور جب بندے موجود ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کا پیدا کرنے والا خدا بھی موجود ہے۔

بغیر پیدا کرنے والے کے یہ دینا نہیں پیدا ہو سکتا ، کیونکہ دنیا کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی بغیر بنانے والے کے نہیں بن سکتی۔ معمار کے بغیر مکان خود بخود نہیں بن سکتا۔ درزی کے بغیر کپڑا خود بخود نہیں سل سکتا۔ بغیر بڑھئیٰ کے الماری ، میز ، کرسی ، پلنگ ، تخت اور دروازے اپنے آپ نہیں بن سکتے تو اتنی بڑی دنیا ، آسمان ، زمین ، چاند ، سورج ، ستارے ، دریا ، پہاڑ ، درخت ، جانور ، آدمی کیسے اور دوسری لاکھوں چیزیں بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خود بخود کیسے پیدا ہو سکتی ہیں۔ اسی لئے ماننا پڑھتا ہے کہ ایک خدا ہے جس نے یہ دنیا پیدا کی ہے۔

ایک مرتبہ لوگوں نے ایک بڑھیا سے پوچھا کہ خدا ہے یا نہیں ؟ یہ بڑھیا اپنا چرخہ چلا رہی تھی۔ بڑھیا نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ چرخہ بھی فوراً رک گیا۔ اس نے کہا دیکھو جب میں چرخہ چلاتی ہوں تو چلتا ہے اور جب ہاتھ روک لیتی ہوں تو یہ بھی رک جاتا ہے۔ پھر بتائو کہ اگر دنیا کو چلانے والا کوئی نہیں ہے تو سارے جہاں کا یہ چرخہ کیو نکر چل رہا ہے۔

خدا کو بغیر دیکھے کیوں مانتے ہیں ؟

ہم ریل کے کسی ایک ڈبہ میں بیٹھ کر سفر کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ ریل چلتے چلتے اسٹیشنوں پر رکتی ہے۔ پرانے مسافروں کو اتار کر اور نئے مسافروں کو لے کر پھر روانہ ہو جاتی ہے۔ ہم ڈبہ سے جب جھانک کر دیکھتے ہیں تو ہمیں صرف ریل کا انجن گاڑی کو کھینچتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور انجن میں بیٹھ کر ریل کے چلانے والے ڈرائیور کو ہم نہیں دیکھ پاتے۔ پھر بھی ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اس گاڑی کا چلانے والا کوئی ضرور ہے۔ اسی طرح جب اس رواں رواں کائنات کو دیکھتے ہیں تو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ خدا ضرور ہے جو پوری دنیا کو چلا رہا ہے۔

ہمارے چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روز ایک دہریہ نے پوچھا کہ ہم نے خدا کو دیکھا نہیں اور آپ کہتے ہیں کہ خدا کو کوئی دیکھ بھی نہیں سکتا تو پھر بتائیے بغیر دیکھے ہم کو کیسے یقین آئے کہ خدا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کبھی تونے دریا کا سفر کیا ہے ؟ کہا ہاں۔آپ نے پوچھا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ تمہاری کشتی طوفان سے ٹوٹ کر ڈوبنے لگی ہو ؟ اس نے کہا ہاں ایسا بھی ہوا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا ! اچھا بتائو کہ جب تم کو کشتی کے ڈوبنے اور اپنے مرنے کا یقین ہو گیا تھا تب بھی تمہارا دل یہ کہتا تھا یا نہیں کہ اب بھی کوئی بچا سکتا ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں ضرور کہتا تھا۔ امام علیہ السلام نے پوچھا وہ کون تھا جس سے تم مایوسی کے بعد بھی لو لگائے ہوئے تھے۔ کیا تم نے اسے دیکھا تھا ؟ اس نے کہا دیکھا تو نہیں لیکن دل ان دیکھے سہارے سے لو لگائے تھا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا " مایوسی کی حالت میں جو ذات دل کو سہارا دیتی ہے وہی خدا ہے "۔

سچا مسلمان وہی ہے جو مشکلوں میں گر جانے کے باوجود بھی مایوس نہ ہو اور ہمیشہ خدا کی رحمتوں کی امید رکھے۔

اگر دو خدا ہوتے

ہم نے دنیا میں یہ تجربہ کیا ہے کہ جب کسی کام کو دو آدمی مل کر انجام دیتے ہیں تو اُن میں کبھی آپس میں میل جول رہتا ہے ، کبھی اختلاف ہو جاتا ہے۔

میل جول کی صورت میں دونوں ایک دوسرے کی رائے کے پابند اور ایک دوسرے کے مشورہ کے محتاج رہتے ہیں اور اختلاف کی صورت میں کوئی کام انجام نہیں پاتا۔ یہی حال دو خداؤں کا ہے۔ اگر دو خدا ہوتے تو یا آپس میں اتفاق ہوتا یا اختلاف ہوتا۔ اگر دونوں میں اتفاق ہوتا تو دونوں ایک دوسرے کے محتاج اور اس کی رائے کے پابند ہوتے اور محتاجی اور پابندی صرف بندوں میں پائی جا سکتی ہے۔ خدا میں نہیں پائی جا سکتی۔ خدا نہ کبھی کسی کا محتاج ہو سکتا ہے نہ پابند ، ورنہ وہ خدا نہ رہےگا۔ اور اگر دونوں میں اختلاف ہو گیا۔ ایک نے کہا پانی برسنا چاہئیے ، دوسرے نے کہا نہیں برسنا چاہئیے تو اس جھگڑے میں دنیا کا کاروبار درہم برہم ہو جائےگا۔ کیونکہ دونوں کی بات تو چل نہیں سکتی۔ ایک ہی کی چلے گی۔ جس کی بات چلےگی وہ طاقتور ہوگا اور جس کی بات نہ چلےگی وہ کمزور ہوگا۔ جو طاقتور ہوگا اُسی کی خدائی باقی رہےگی اور جو کمزور ہوگا اس کی خدائی ختم ہو جائےگی۔

اسی لئے ماننا پڑتا ہے کہ خدا ایک ہے۔

ہمارا خدا

واحد ہے ۔ یعنی ایک اور اکیلا ہے اس کا کوئی ساتھی یا سنگھاتی نہیں ہے ۔ نہ کسی کو اپنے کام میں شریک کرتا ہے اور نہ اس کو کسی کی رائے کی ضرورت ہے۔

احد ہے۔ یعنی اس کا کوئی جز نہیں ہے اور نہ وہ کسی کا جز ہے۔ وہ ایک ہے اکیلا ہے اور مرکب نہیں ہے۔ جیسے شربت کہ وہ دیکھنے میں ایک چیز ہے لیکن اصل میں پانی اور شکر سے مل کر بنا ہے اور خدا ایسا نہیں ہے۔

صمد ہے. یعنی وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ ساری کائنات اس کی محتاج ہے اور وہ خود کسی کا محتاج نہیں ہے۔

ازلی ہے ۔ یعنی ہمیشہ سے ہے۔

ابدی ہے ۔ یعنی ہمیشہ رہےگا۔

سرمدی ہے ۔ یعنی زمانے سے پہلے تھا اور زمانہ کے بعد بھی رہےگا۔

قیوم ہے ۔ یعنی ساری کائنات کا قیام اسی کی وجہ سے ہے۔اس کا ارادہ بدل جائے تو دنیا دیکھتے دیکھتے فنا ہو جائے۔

( لَیسَ کَمثلهِ شَیءٌ )

یعنی خدا کا جیسا کوئی دوسرا نہیں ہے اور نہ اسے کسی کی مثال بنایا جا سکتا ہے۔

( لَم یَلَد وَ لَم یُولَد )

یعنی نہ اس کا کوئی باپ ہے نہ کوئی اسکا بیٹا۔

صفات ثبوتیہ

کوئی چیز بغیر بنانے والے کے نہیں بنتی ہی اس لئے ماننا پڑتا ہے کہ اس دنیا کا کوئی پیدا کرنے والا ہے۔ اُس کو کسی نے نہیں پیدا کیا ہے۔ وہ سب کا خالق ہے۔ خدا کے ماننے والے کا فرض ہے کہ خدا جیسا ہے اس کو ویسا ہی مانے۔ نہ اس کی مورتی بنائے۔ نہ دماغ میں اس کی تصویر سوچے اس لئے کہ ہاتھوں سے بننے والا مجسمہ یا دماغ میں بننے والی خیالی تصویر دماغ کی پیداوار ہوتی ہے اور خدا خالق ہے مخلوق نہیں ہے۔ اس کے لئے چند صفات کا جاننا ضروری ہے جو اس میں پائی جاتی ہیں اور ان کا نام صفات ثبوتیہ ہے۔ صفات ثبوتیہ حسب ذیل ہیں۔

قدیم ۔ یعنی وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہےگا کیوں نکہ نہ اس کو کسی نے پیدا کیا ہے اور نہ اس کو موت آ سکتی ہے۔

قادر ۔ یعنی خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ یعنی کسی کام کے کرنے پر مجبور نہیں ہے

عالم ۔ خدا عالم ہے ۔ یعنی سب کچھ جانتا ہے۔ اسی لئے اس دنیا کے کسی کام میں کبھی کوئی گڑبڑ نہیں ہوتی۔

مدرک ۔ خدا مدرک ہے۔ یعنی بغیر دماغ کے سب کچھ جانتا ہے۔ بغیر آنکھ کے سب کچھ دیکھتا ہے۔ بغیر کان کے ہر آواز سنتا ہے۔ بغیر ہاتھ پیر کے سب کام کرتا ہے۔ اگر وہ اپنے کامو٘ ں میں دماغ ، آنکھ ، کان ، ہاتھ اور پیر کا محتاج ہو جائے تو خدا نہ رہےگا اس لئے کہ خدا محتاج نہیں ہے۔

حیّ ۔ خدا سب کو زندگی اور موت دیتا ہے مگر اسے نہ کسی نے زندگی دی ہے اور نہ اس کو موت آ سکتی ہے۔ وہ حی ہے یعنی ہمیشہ سے زندہ ہے ہمیشہ زندہ رہےگا۔

مرید ۔ خدا مرید ہے یعنی جو کام جب چاہتا ہے کرتا ہے اور جب چاہتا ہے نہیں کرتا ہے۔ جب چاہتا ہے سورج کو چمکاتا ہے ، جب چاہتا ہے چاند نکالتا ہے۔ جب چاہتا ہے پانی برساتا ہے۔ جب چاہتا ہے روک دیتا ہے۔ نہ وہ کسی کام کے کرنے پر مجبور

ہے نہ کوئی اس کو کسی کام کے لئے مجبور کر سکتا ہے۔

متکلم ۔ خدا متکلم ہے یعنی جس چیز میں چاہتا ہے اپنی آواز پیدا کر کے اپنے بندوں سے باتیں کر لیتا ہے۔ جیسے جناب موسیؐ سے درخت میں آواز پیدا کر کے باتیں کیں اور ہمارے نبیؐ سے شب معراج حضرت علیؐ کے لہجہ میں باتیں کیں۔

صادق ۔ خدا صادق ہے یعنی اس کا ہر وعدہ پکا ہے۔ وہ ہر بات میں سچا ہے اس لئے کہ جھوٹ بولنا بڑا ہے اور خدا ہر بڑائی سے پاک ہے۔

صفات سلبیہ

اگر ہم کسی عالم کو جاہل اور کسی بہادر کو بزول سمجھیں تو وہ ہم سے کبھی خوش نہ ہوگا۔ اسی طرح اگر ہم خدا کو ایسی صفتوں والا مانیں جو صفتیں اس میں نہیں پائی جاتی ہیں تو خدا کبھی ہم سے راضی نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ضرورت ہے کہ ہم ان صفتوں کو بھی جان لیں جو خدا میں نہیں پائی جاتی ہیں اور جن کا ماننے والا خدا کا ماننے والا نہیں ہے۔ ان صفتوں کا نام صفات سلبیہ ہے۔

جو یہ ہیں۔

۱ ۔ خدا مرکب نہیں ۔ مرکب وہ چیز ہوتی ہے جو کچھ چیزوں سے مل کو بنتی ہے جیسے شربت شکر اور پانی سے مل کر بنتا ہے۔ خدا کسی چیز سے مل کر نہیں بنا ہے۔ شکر اور پانی شربت کے اجزاء ہیں اور خدا کا کوئی جز نہیں ہے اس لئے کہ شکر اور پانی پہلے ہوتے ہیں ، شربت بعد میں ہوتا ہے۔ اگر خدا بھی کچھ اجزاء سے مل کر بنا ہوگا تو اجزاء پہلے ہوںگے اور وہ خود بعد میں بنےگا۔ اس طرح نہ وہ قدیم رہےگا نہ خالق رہےگا بلکہ مخلوق ہو جائےگا جو پہلے نہیں ہوتا ہے پھر ہو جاتا ہے۔

۲ ۔ خدا جسم نہیں رکھتا ۔ اس لئے کہ جسم مرکب ہوتا ہے اور مخلوق ہوتا ہے اور خدا نہ مخلوق ہے نہ مرکب ہے۔

۳ ۔ خدا کی صفتیں عین ذات ہیں ۔ یعنی خدا کی صفتیں اس کی ذات سے الگ نہیں ہیں کیونکہ اگر اس کی ذات اور اس کی صفتیں الگ الگ ہونگی تو ذاتی طور پر خدا ان صفتوں سے خالی ہوگا اور جو صفات سے الگ ہو وہ خدا نہیں ہو سکتا۔

۴ ۔ خدا مرئی نہیں ۔ یعنی اس کو دنیا اور آخرت میں کہیں بھی کوئی نہیں دیکھ سکتا ۔ کیونکہ دکھائی دینے والا جسم ہوتا ہے اور خدا جسم نہیں رکھتا۔

۵ ۔ خدا کسی چیز میں حلول نہیں کرتا۔ جس طرح کھولتے پانی میں گرمی سما جاتی ہے یا برف میں ٹھنڈک یا جسم میں روح سما جاتی ہے۔ اس طرح خدا نہ کسی چیز میں سما سکتا ہے نہ کوئی چیز اس میں سما سکتی ہے کیونکہ حلول جسموں میں ہوتا ہے اور خدا جسم نہیں رکھتا۔

۶ ۔ خدا مکان نہیں رکھتا۔ یعنی نہ خدا کے رہنے کی کوئی خاص جگہ ہے نہ اس کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ اشارہ جسم کی طرف کیا جاتا ہے اور خدا جسم نہیں رکھتا۔

۷ ۔ خدا محل حوادث نہیں۔ یعنی خدا میں بدلنے والی کوئی چیز نہیں۔ بدلنے والی چیز نہ ہمیشہ سے ہوتی ہے نہ ہمیشہ رہتی ہے اور خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہےگا۔

۸ ۔ خدا کا کوئی شریک نہیں۔ یعنی نہ خدا کی ذات میں کوئی اسکا شریک ہے نہ اس کی صفتوں میں کوئی اس کا شریک ہے نہ اس کے کاموں میں کوئی شریک ہے اور نہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت کی جا سکتی ہے۔ وہ ایک اور اکیلا ہے اور ہر لحاظ سے لاشریک ہے۔

خدا قادر و مختار ہے

خدا قادر و مختار ہے۔ یعنی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ کسی کام کے کرنے سے عاجز نہیں ہے۔ خدا مختار بھی ہے۔ یعنی کسی کام کے کرنے پر مجبور نہیں ہے۔ جس کام کو چاہتا ہے کرتا ہے اور جس کام کو نہیں چاہتا ہے نہیں کرتا ہے۔بلکہ ایک ہی کام کو جب چاہتا ہے کرتا ہے اور جب چاہتا ہے نہیں کرتا۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ ٹھنڈی کر دی تھی اور جانب موسیٰ علیہ السلام نے جب انگارہ ہاتھ میں اٹھایا تو آپ کا ہاتھ جل گیا کیونکہ آگ کا جلانا یا بجھانا خدا کا مقصد نہ تھا بلکہ نبی کو بچانا مقصد تھا۔ جناب ابراہیم علیہ السلام تب ہی بچ سکتے تھے جب آگ ٹھنڈی ہو جائے اور جناب موسیٰ علیہ السلام تب ہی بچ سکتے تھے جب ہاتھ جل جائے کیونکہ فرعون کو شبہ تھا کہ وہ بچہ جناب موسیؐ ہی ہیں جو اس کی حکومت کو مٹا دےگا اور اگر انگارہ آپ کے ہاتھ نہ جلاتا تو فرعون پہچان لیتا اور آپ کو قتل کر ڈالتا۔ اس لئے آگ کو ٹھندا کرنا مناسب نہ تھا اور ہاتھ کا جل جانا ضروری تھا۔

خدا اپنے کسی کام میں کسی کے مشورہ اور مدد کا محتاج نہیں ہے نہ کوئی اس کو کسی کام سے روک سکتا ہے۔

خدا کی ذات و صفت ایک ہے

خدا ایک ہے۔ اس کے کسی بھی قسم کے حصے نہیں ہو سکتے۔ جو اس کی ذات ہے وہی اس کی صفتیں ہیں اور جو صفتیں ہیں وہی اس کی ذات ہے۔ اگر خدا کی ذات اور صفتیں الگ الگ ہوںگی تو اس کے دو حصے ہو جائیںگے اور خدا ایسا ہے جس کے حصے نہیں ہو سکتے ۔

بندہ کی ذات اور اس کی صفتیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ مثلاً کام کر سکتے ہیں ۔ برے ہو کر ہم میں اچھی یا بری صفتیں پیدا ہوتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اور ہیں اور ہماری صفتیں اور ہیں ۔ لیکن خدا کو کسی نے پیدا نہیں کیا ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیسہ رہےگا اور اُس کی صفتیں بھی ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیںگی۔ اُس کی ذات اور صفتیں میں نہ کوئی فرق ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ اس کی صفتیں عین ذات ہیں۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ سے عالم ہے، قادر ہے ، باکمال ہے اس کا کمال اُس کی ذات سے الگ نہیں ہے۔

غیب پر ایمان

اسلام کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ اس نے جہاں انسانوں کو آنکھوں سے کام لینا سکھایا ہے وہاں عقل سے کام لینے کا بھی حکم دیا ہے۔ آنکھ کا کام اُن چیزوں کو دیکھنا ہے جو ظاہر میں اور عقل کا کام ان چیزوں کو دیکھنا ہے جو جائز ہیں اور آنکھوں سے نظر نہیں آ سکتیں۔

دنیا میں بہت سی چیزیں آنکھ سے دیکھنے کے بعد مانی جاتی ہیں۔ مثلاً سورج ، چاند ، ستارے ، پہاڑ ، سمندر وغیرہ اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جو آج تک کسی کو دکھائی نہیں دی ہیں مگر لوگ ان کو بغیر دیکھے مانتے ہیں جیسے کرنٹ ، روح ، عقل وغیرہ۔ ہم نے بجلی کے تار دیکھے ہیں مگر اس پر دوڑتی ہوئی بجلی نہیں دیکھی ۔ روح کی وجہ سے ہم سب زندہ ہیں مگر کسی نے روح کو دیکھا نہیں۔ عقل سے سب کام لیتے ہیں مگر عقل آج تک کسی کو دکھائی نہیں دی۔

اسی طرح مذہب نے بھی کچھ چیزیں بتائی ہیں جن کا ماننا اور اُن کے ہونے پر یقین و ایمان رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے کیونکہ یہ باتیں خدا اور رسولؐ کی بتائی ہوئی ہیں جو سچے تھے اور ان کی بیان کی ہوئی کوئی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔

جن ، ملائکہ ، حور ، غلمان ، جنت ، دوزخ ، کوثر، وغیرہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو خدا نے پیدا کیا ہے مگر وہ نظر نہیں آتی ہیں۔ لیکن ہم مسلمان ان کے وجود کا اقرار کرتے ہیں کیونکہ رسولؐ نے بیان کیا ہے کہ یہ چیزیں ہیں۔

غیب پر ایمان لانا ہی حقیقی اسلام ہے جو شخص غیب پر ایمان نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں ہے۔ اسلام خدا کے یقین سے شروع ہوا ہے جو غائب ہے اور قیامت اصول دین کی آخری بات ہے جو غائب ہے۔

بارہویں امامؐ غائب ہیں۔ بحکم خدا انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ آپ کی غیبت پر ایمان رکھنا اور آپ کے وجود کا یقین رکھنا اسلام کا ایک ایسا جز ہے جس کے بغیر اسلام مکمل نہیں ہو سکتا۔

فرشتے

جس طرح اللہ نے زمین پر مٹی سے انسان کو پیدا کیا ہے اسی طرح نور سے ایک مخلوق پیدا کی ہے جس کا نام فرشتہ ہے۔ فرشتے اپنی خلقت میں معصوم ہوتے ہیں۔ ان سے کوئی غلطی نہیں ہوتی۔ یہ ہر وقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ کوئی رکوع میں رہتا ہے کوئی سجدہ میں کوئی قیام میں رہتا ہے کوئی تسبیح میں۔

فرشتوں کو اللہ نے مخلتف کاموں کے لئے پیدا کیا ہے کسی کو زمین کا انتظام سپرد کیا ہے ، کسی کو آسمان کا ، کسی کو پانی پر مقرر کیا ہے اور کسی کو ہوا پر۔

ان فرشتوں میں چار فرشتے زیادہ مشہور ہیں

۱ ۔ جبرئیل ۔ جو ہمارے نبیؐ کے پاس قرآن لیکر آیا کرتے تھے۔

۲ ۔ میکائیل ۔ جو بندوں کا رزق ان تک پہنچاتے ہیں ۔

۳ ۔ اسرافیل ۔ جن کے ایک صور پھونکنے پر ساری دنیا فنا ہو جائےگی۔

۴ ۔ عزائیل ۔ جن کا کام لوگوں کی روح قبض کرنا ہے۔

عدل

عدل کے معنی یہ ہیں کہ خدا ہر برائی سے پاک ہے۔ اُس کی ذات میں مکمل موجود ہے۔ نہ وہ کوئی برا کام کر سکتا ہے اور نہ کوئی ایسے کام کے کرنے سے رُک سکتا ہے اور نہ جس کا کرنا ضروری ہو لہذا نہ خدا ظلم کر سکتا ہے اور نہ ظالم کو سزا دینے سے رُک سکتا ہے۔

خدا کے ہر برائی سے پاک ہونے کی دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی برا کام کوئی شخص تب کرتا ہے جب اسے اس کی برائی معلوم نہ ہو یا برائی جانتا ہو لیکن کسی نفع کے لئے جان بوجھ کر برائی کرے۔ خدا میں یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں۔ وہ عالم ہے لہذا ہر برائی کو جانتا ہے اور غنی ہے لہذا اس کو کسی چیز کی ضرورت یا لالچ نہیں ہے اس لئے وہ برائی نہیں کر سکتا۔

دوسری دلیل خدا کے عادل ہونے کی یہ ہے کہ اس نے بندوں کو حکم دیا ہے کہ ظلم نہ کریں۔ قرؔآن مجید میں بھی یہ حکم بار بار آیا ہے اور ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھی اس کا یہ حکم بیان کیا ہے لہذا ظلم نہ کرنے کا حکم دیکر وہ خود کیسے ظلم کو سکتا ہے ؟

تیسری دلیل خدا کے عادل ہونے کی یہ ہے کہ خدا نے کہا ہے کہ برے کام کرنے والوں کو دوزخ میں ڈالوں گا اور اچھے کام کرنے والوں کو جنت دوںگا۔ انسان جنت کی لالچ اور دوزخ کے خوف کی وجہ سے اچھے کام کرتے ہیں اور برے کاموں کو چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ اُن کو خدا کی بات پر بھروسہ ہے لیکن اگر خدا عادل نہ ہو بلکہ ظالم ہو تو ہم سوچ سکتے ہیں کہ ممکن ہے ہم اچھے کام کریں پھر بھی خدا دوزخ میں ڈال دی۔ یہ سوچنے کے بعد نہ خدا پر بھروسہ رہےگا نہ کوئی شخص برا کام کرنے سے باز رہےگا اور نہ کوئی اچھا کام کرےگا۔ اس طرح دنیا برائی سے بھر جائےگی۔

خدا کو عادل ماننا ہم سب پر لازم ہے۔

خدا برائی نہیں کرتا

تم کو معلوم ہے کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے یعنی وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔

اس سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا برائی بھی کر سکتا ہے۔ جھوٹ بھی بول سکتا ہے ، ظلم بھی کر سکتا ہے اور وعدہ کر کے مکر بھی سکتا ہے اس لئے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

تم خود سوچو کہ کیا ایسا سمجھنا ٹھیک ہے ؟

قادر ہونے کے معنی ہیں " کر سکنا ، نہ کہ کرنا "۔ اس لئے خدا کے قادر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے مگر لازم نہیں کہ ضرور کرے۔

جب بری باتوں کو ہم پسند نہیں کرتے تو خدا کیسے پسند کر سکتا ہے

ہم ہر پانی سے منہ دھونے پر قادر ہیں چاہے وہ پانی نجس ہو یا پاک ہو۔ نہر میں بہ رہا ہو یا گندی نالی میں ، لیکن نالی میں بہنے والے گندے پانی سے صرف پاگل ہی منہ دھو سکتا ہے ہم نہیں دھو سکتے۔ اسی سے سمجھ لو کہ ہم گندے پانی سے منہ دھو سکتے ہیں مگر دھوتے نہیں۔ خدا بھی جھوٹ بول سکتا ہے مگر بولتا نہیں۔ ظلم کر سکتا ہے مگر کرتا نہیں۔ وعدہ کر کے مکر سکتا ہے مگر مکرتا نہیں اور برائی کر سکتا ہے مگر کرتا نہیں۔

انسان مجبور ہے یا مختار ؟

اس دنیا میں بہت سے کام ہیں جن کا انسان سے کوئی تعلق نہیں٘ ہے۔ مثلاً سورج کا نکلنا اور ڈوبنا ، موسم کا بدلنا وغیرہ۔ کام صرف خدا کے ہیں۔ ان کاموں کو بندہ نہیں کر سکتا۔

کچھ کام ایسے ہیں جن کے کرنے میں خدا اور بندے دونوں کا حصہ ہوتا ہے جیسے کھیت جوتنا ، بونا ، پانی دینا ، کھاد ڈالنا ، ہمارا کام ہے۔ درخت کا اُگنا اور اس میں پھول اور پھل پیدا کرنا خدا کا کام ہے۔

بہت سے کام ایسے ہیں جنھیں صرف ہم کرتے ہیں۔ اُن میں خدا شریک نہیں ہوتا جیسے ہم سچ بولتے ہیں یا جھوٹ ، حلال کھاتے ہیں یا حرام ، نماز پڑھتے ہیں یا نہیں پڑھتے ، روزہ رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے وغیرہ۔ یہ خالص ہمارے کام ہیں۔ ان کو ہم ہی کرتے ہیں۔ ہمارے ان کاموں میں خدا شریک نہیں ہوتا۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ ہمارے سارے کام اصل میں خدا کے کام ہیں جن کو وہ ہمارے ذریعہ انجام دیتا ہے اور ہم ان کاموں کے کرنے پر مجبور رہیں بلکہ ہم اپنے ان کاموں میں قادر اور مختار ہیں چاہے کریں یا نہ کریں۔

ایک مرتبہ ابو حنیفہ نے ہمارے چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے اس مسئلہ پر بحث کی تھی۔ ابو حنیفہ کو خیال میں خدا انسان کے ہر اچھے اور برے کام کا ذمہ دار تھا۔ امامؐ نے ابو حنیفہ کو جواب دیا کہ اگر انسان کے کام کو صرف خدا کرتا ہے تو اچھے یا برے کام کی جزا یا سزا بھی خدا ہی کو (معا ذاللہ) ملنا چاہئے اور اگر انسان اور خدا مل کر اچھے یا برے کام کرتے ہیں تو بھی انسان کے ساتھ خدا کو بھی (معاذاللہ) سزا یا جزا ملنا چاہئے لیکن یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ صحیح بات یہی ہے کہ انسان اپنے کام خود کرتا ہے اسی لئے اس کو جزا یا سزا ملےگی۔ امامؐ کی یہ بحث سن کر ابو حنیفہ شرمندہ ہو گئے اور کوئی جواب نہ دے سکے۔

غرض کہ جس طرح یہ کہنا غلط ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے بلکہ سب کچھ خدا کرتا ہے اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ ہم سب کام کر سکتے ہیں۔ ایک بار ہمارے مولا حضرت علی علیہ السلام سے کسی نے پوچھا تھا کہ انسان سب کام کر سکتا ہے یا نہیں تو آپ نے فرمایا کہ ایک پیر اٹھا کر کھڑے ہو جاؤ۔ جب اُس نے اپنا ایک پیر اٹھا لیا تو آپ نے فرمایا کہ اب دوسرا پیر بھی اٹھا لو۔ اس نے کہا کہ دوسرا پیر اٹھانے سے معذور ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ جس طرح ایک پیر کے بعد دوسرے پیر کا اٹھانا ناممکن ہے اسی طرح دنیا میں بہت سے کام ایسے ہیں جو ہمارے بس میں نہیں ہیں لہذا یاد رکھو کہ جس طرح بندہ خدا کے کام میں دخل نہیں دے سکتا اسی طرح خدا بھی بندوں کے کاموں میں شریک نہیں ہے جو جیسا کرےگا اس کو اسی اعتبار سے سزا یا جزا ملےگی۔

آٹھواں سبق

تین سوال ایک جواب

حضرت بہلول نہایت ہی ہوشیار اور عقلمند آدمی تھے۔ حاضر جوابی میں آپ کا جواب نہ تھا۔ ایک دن آپ ایک مسجد کے پاس سے گزرے جہاں ابو حنیفہ اپنے شاگردوں کو سبق دے رہے تھے۔ آپ نے یہ سنا کہ ابو حنیفہ کہ رہے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی تین باتیں اپنی سمجھ میں نہیں آتیں۔

 وہ کہتے ہیں کہ خدا قیامت کے دن بھی نہ دکھائی دےگا حالانکہ جو چیز موجود ہو وہ نظر ضرور آئےگی۔

 ان کا کہنا ہے کہ شیطان کو جہنم میں جلایا جائےگا حالانکہ شیطان آگ سے بنا ہے اور آگ آگ کو نہیں جلا سکتی۔

 ان کا بیان ہے کہ بندے اپنے کام میں خود مختار ہیں حالانکہ بندے کے بس میں کچھ نہیں ہے۔ جو کچھ کرتا ہے خدا کرتا ہے۔

بہلول کو یہ سن کر غصہ آ گیا اور جیسے ہی ابو حنیفہ باہر آئے۔ ایک ڈھیلا کھینچ مارا۔ ابو حنیفہ کے شاگردوں نے بہلوؒل کو پکڑ لیا اور قاضی کے سامنے لے گئے۔ بہلول نے کہا کہ یہ لوگ بلا وجہ سمجھے پکڑ لائے ہیں، میری کوئی خطا نہیں ہے۔ ابو حنیفہ بولے کہ تم نے مجھے ڈھیلا مارا ہے۔ بہلول نے کہا غلط ہے۔ میں نے نہیں مارا خدا نے مارا ہے۔ تم ابھی کہہ رہے تھے کہ سارے کام خدا کرتا ہے بندہ کچھ نہیں کرتا۔

ابو حنیفہ نے کہا کہ مجھے سخت چوٹ آ گئی ہے، درد سے بےچین ہوں اور تم مذاق کر رہے ہو۔

بہلول نے کہا۔ کہاں ہے درد ؟ ذرا دیکھیں تو ؟

ابو حنیفہ نے کہا۔ درد بھی کوئی دکھائی دینے والی چیز ہے۔

بہلول نے جواب دیا۔ اگر ہے تو اسے نظر آنا چاہیئے اس لئے کہ تم کہتے ہو کہ جو چیز موجود ہے وہ دکھائی ضرور دےگی اور پھر ڈھیلے سے تمہیں چوٹ آ بھی نہیں سکتی اس لئے کہ تم کہتے ہو شیطان آگ سے بنا ہے اسے جہنم کی آگ جلا نہیں سکتی۔ تم بھی مٹی کے بنے ہوئے ہو ڈھیلا بھی مٹی کا تھا اس سے تمہیں چوٹ کیسے آئی ؟

ابو حنیفہ سخت شرمندہ ہوئے اور بہلول ہنستے ہوئے چلے گئے۔

بہلول نے ایک ڈھیلے سے یہ ثابت کر دیا کہ انسان اپنے کاموں کا خود ذمہ دار ہے خدا پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔