مذہب کی ضرورت
بچہ جس چیز کو دیکھتا ہے اس کو لینے کے لئے لپکتا ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ کون سی چیز اچھی ہے اور کون سی چیز بڑی ہے لیکن اس کے ماں باپ اس کو ان چیزوں سے منع کرتے ہیں جو بری ہیں۔ چاہے وہ بچہ کو اچھی لگتی ہوں۔ اور ان چیزوں کو لینے کا حکم دیتے ہیں جو اچھی ہیں چاہے وہ بچہ کو بری لگتی ہوں۔ اسی طرح خدا نے اپنے بندوں کو مذہب کے ذریعہ اچھی اور بری باتیں بتائی ہیں۔ کیونکہ بندے سب چیزوں کی اچھائی اور برائی نہیں جانتے ہیں۔ مذہب اچھائیاں بتاتا ہے اور برائیاں پہچنواتا ہے۔ نیکی کرنے کا حکم دیتا ہے اور برائی کرنے سے روکتا ہے۔
مذہب کے بغیر انسانوں کی زندگی کی اصلاح ممکن نہیں ہے جس کی مثال یہ ہے درخت جنگل میں بھی اُگتے ہیں ، باغ اور چمن میں بھی لگائے جاتے ہیں لیکن جنگل میں آدمی جاتے ہوئے ڈرتا ہے اور باغ میں جانے کو اس کا جی چاہتا ہے۔ یہ صرف اس لئے ہے کہ جنگل میں کسی قاعدہ اور قانون کے بغیر درخت اُگتے ہیں اور باغ میں قاعدےسے لگائے جاتے ہیں۔ جنگل میں کوئی مالی درختوں کی دیکھ بھال نہیں کرتا ہے اور باغ میں مالی درختوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔
انسانوں کو بھی اگر بغیر قاعدہ اور قانون کے جینے کا موقع دیا جائے تو انسانوں کی آبادی بھی جنگل کا نمونہ بن جائیےگی اور اگر قاعدہ اور قانون سے لوگ زندگی بسر کریںگے تو آدمیوں کی بستیاں جنت کا نمونہ بن جائیںگی۔ لہذا ضرورت ہے ایک ایسے قانون کی جو انسان کو جینے کا طریقہ بتائے اور اسی قانون کا نام مذہب ہے۔ انسانوں کے اسی چمن باغبان اور مالی نبی اور امام ہوتے ہیں جن کو خدا نے ہمیشہ ہماری ہدایت کے لئے بھیجا ہے۔
کیا خدا نہیں ہے ؟
اس دنیا میں جہاں بےشمار مذہب والے پائے جاتے ہیں وہاں کچھ لوگ لامذہب بھی ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو دہریہ کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ دنیا بغیر کسی خدا کے ایک دن آپ ہی آپ پیدا ہو گئی ہے اور ایک دن آئےگا جب آپ ہی آپ مٹ جائےگی۔
ویسے یہ لوگ بھی دنیا کی ہر چیز کے لئے ایک بنانے والا مانتے ہیں ان کے خیال میں بھی مکان ، سڑک ، فیکٹری ، موٹر ہوائی جہاز ، ریل وغیرہ سے کوئی چیز بھی خود نہیں پیدا ہوئی جو نہیں بنی بلکہ کسی بنانے والے نے ان کو بنایا ہے ۔ لیکن یہی لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں اس ہٹ دھرمی پر اتر آئے ہیں کہ کہتے ہیں کہ یہ دنیا خود پیدا ہوئی ہے اس کا کوئی پیدا کرنے والا نہیں۔
ہمارے چھٹے امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس ایک دہریہ آیا۔ جس کا نام عبد اللہ ویصانی تھا۔ اس نے اصحاب کے سامنے حضرتؐ سے خدا کے بارے میں بحث کرنا چاہی۔ آپ نے اُس سے پوچھا " تیرا نام کیا ہے ؟"
وہ جواب دئیے بغیر چلا گیا۔ اصحاب نے حیرت سے پوچھا ۔ "حضور ! یہ شخص کیوں چلا گیا۔ یہ تو آپ سے بحث کرنے آیا تھا ؟"
آپ نے فرمایا ۔ " بحث ختم ہو گئی اور وہ اپنی بحث میں ہار گیا اس لئے شرمندہ ہو کر چلا گیا۔ "اصحاب نے عرض کی۔ " مولا! اس نے تو کوئی بات ہی نہیں کی، پھر بحث کیسے ختم ہو گئی ؟"آپ نے فرمایا ۔ " میں نے اس کا نام پوچھ لیا۔ وہ سمجھ گیا کہ نام بتانے پر میں فوراً اُس سے سوال کروں گا کہ اگر اللہ نہیں ہے تو پھر تو عبد اللہ کیوں نکہ ہے ؟ عبد اللہ کے معنی ہیں اللہ کا بندہ۔ جب اللہ ہی نہیں تو بندہ کہاں سے آ گیا ؟"
حضرت یہ سمجھنا چاہتے تھے کہ بغیر خدا کے بندے کا وجود محال ہے اور جب بندے موجود ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کا پیدا کرنے والا خدا بھی موجود ہے۔
بغیر پیدا کرنے والے کے یہ دینا نہیں پیدا ہو سکتا ، کیونکہ دنیا کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی بغیر بنانے والے کے نہیں بن سکتی۔ معمار کے بغیر مکان خود بخود نہیں بن سکتا۔ درزی کے بغیر کپڑا خود بخود نہیں سل سکتا۔ بغیر بڑھئیٰ کے الماری ، میز ، کرسی ، پلنگ ، تخت اور دروازے اپنے آپ نہیں بن سکتے تو اتنی بڑی دنیا ، آسمان ، زمین ، چاند ، سورج ، ستارے ، دریا ، پہاڑ ، درخت ، جانور ، آدمی کیسے اور دوسری لاکھوں چیزیں بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خود بخود کیسے پیدا ہو سکتی ہیں۔ اسی لئے ماننا پڑھتا ہے کہ ایک خدا ہے جس نے یہ دنیا پیدا کی ہے۔
ایک مرتبہ لوگوں نے ایک بڑھیا سے پوچھا کہ خدا ہے یا نہیں ؟ یہ بڑھیا اپنا چرخہ چلا رہی تھی۔ بڑھیا نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ چرخہ بھی فوراً رک گیا۔ اس نے کہا دیکھو جب میں چرخہ چلاتی ہوں تو چلتا ہے اور جب ہاتھ روک لیتی ہوں تو یہ بھی رک جاتا ہے۔ پھر بتائو کہ اگر دنیا کو چلانے والا کوئی نہیں ہے تو سارے جہاں کا یہ چرخہ کیو نکر چل رہا ہے۔
خدا کو بغیر دیکھے کیوں مانتے ہیں ؟
ہم ریل کے کسی ایک ڈبہ میں بیٹھ کر سفر کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ ریل چلتے چلتے اسٹیشنوں پر رکتی ہے۔ پرانے مسافروں کو اتار کر اور نئے مسافروں کو لے کر پھر روانہ ہو جاتی ہے۔ ہم ڈبہ سے جب جھانک کر دیکھتے ہیں تو ہمیں صرف ریل کا انجن گاڑی کو کھینچتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور انجن میں بیٹھ کر ریل کے چلانے والے ڈرائیور کو ہم نہیں دیکھ پاتے۔ پھر بھی ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اس گاڑی کا چلانے والا کوئی ضرور ہے۔ اسی طرح جب اس رواں رواں کائنات کو دیکھتے ہیں تو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ خدا ضرور ہے جو پوری دنیا کو چلا رہا ہے۔
ہمارے چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روز ایک دہریہ نے پوچھا کہ ہم نے خدا کو دیکھا نہیں اور آپ کہتے ہیں کہ خدا کو کوئی دیکھ بھی نہیں سکتا تو پھر بتائیے بغیر دیکھے ہم کو کیسے یقین آئے کہ خدا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کبھی تونے دریا کا سفر کیا ہے ؟ کہا ہاں۔آپ نے پوچھا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ تمہاری کشتی طوفان سے ٹوٹ کر ڈوبنے لگی ہو ؟ اس نے کہا ہاں ایسا بھی ہوا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا ! اچھا بتائو کہ جب تم کو کشتی کے ڈوبنے اور اپنے مرنے کا یقین ہو گیا تھا تب بھی تمہارا دل یہ کہتا تھا یا نہیں کہ اب بھی کوئی بچا سکتا ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں ضرور کہتا تھا۔ امام علیہ السلام نے پوچھا وہ کون تھا جس سے تم مایوسی کے بعد بھی لو لگائے ہوئے تھے۔ کیا تم نے اسے دیکھا تھا ؟ اس نے کہا دیکھا تو نہیں لیکن دل ان دیکھے سہارے سے لو لگائے تھا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا " مایوسی کی حالت میں جو ذات دل کو سہارا دیتی ہے وہی خدا ہے "۔
سچا مسلمان وہی ہے جو مشکلوں میں گر جانے کے باوجود بھی مایوس نہ ہو اور ہمیشہ خدا کی رحمتوں کی امید رکھے۔
اگر دو خدا ہوتے
ہم نے دنیا میں یہ تجربہ کیا ہے کہ جب کسی کام کو دو آدمی مل کر انجام دیتے ہیں تو اُن میں کبھی آپس میں میل جول رہتا ہے ، کبھی اختلاف ہو جاتا ہے۔
میل جول کی صورت میں دونوں ایک دوسرے کی رائے کے پابند اور ایک دوسرے کے مشورہ کے محتاج رہتے ہیں اور اختلاف کی صورت میں کوئی کام انجام نہیں پاتا۔ یہی حال دو خداؤں کا ہے۔ اگر دو خدا ہوتے تو یا آپس میں اتفاق ہوتا یا اختلاف ہوتا۔ اگر دونوں میں اتفاق ہوتا تو دونوں ایک دوسرے کے محتاج اور اس کی رائے کے پابند ہوتے اور محتاجی اور پابندی صرف بندوں میں پائی جا سکتی ہے۔ خدا میں نہیں پائی جا سکتی۔ خدا نہ کبھی کسی کا محتاج ہو سکتا ہے نہ پابند ، ورنہ وہ خدا نہ رہےگا۔ اور اگر دونوں میں اختلاف ہو گیا۔ ایک نے کہا پانی برسنا چاہئیے ، دوسرے نے کہا نہیں برسنا چاہئیے تو اس جھگڑے میں دنیا کا کاروبار درہم برہم ہو جائےگا۔ کیونکہ دونوں کی بات تو چل نہیں سکتی۔ ایک ہی کی چلے گی۔ جس کی بات چلےگی وہ طاقتور ہوگا اور جس کی بات نہ چلےگی وہ کمزور ہوگا۔ جو طاقتور ہوگا اُسی کی خدائی باقی رہےگی اور جو کمزور ہوگا اس کی خدائی ختم ہو جائےگی۔
اسی لئے ماننا پڑتا ہے کہ خدا ایک ہے۔