ملاصدرا کے نظریہ کی رد میں تین برجستہ شخصیتوں کے اقوال
اس بحث کے خاتمہ پرتین اہم علمی صاحب تقویٰ شخصیتوں کے اقوال کو نقل کرتے ہیں وہ برجستہ شخصیتیں مرحوم آیةاللہ مرزا احمد آشتیانی ، آیة اللہ حاج شیخ محمد تقی آملی رحمة اللہ علیہ اورآیة اللہ سید احمد خوانساری رحمةاللہ علیہ ہیں کہ جنھوں نے مطالب کی اچھی طرح سے شرح کی ہے اور ملاصدرا کے نظریہ کی رد اور مخالفت میں شرعی دلیلوں کو کتاب خدا اور سنت نبوی واحادیث کے ذریعہ ثابت کیا ہے اس کو آپ حضرات کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے ملاحظہ فرمائیں :۔
١۔مرحوم مرزا احمد آشتیانی، اصل معاد کو ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
''الثانی انه بعد ماثبت بحکم العقل والنقل لزوم المعاد ویوم الجزاء وقع البحث فی ان ما ینتقل الیه الارواح فی القیامة الکبری ویوم الحساب، هل هو عین الابدان الدنیویة البالیة العنصریة بشمل شتاتها وجمع جهاتها بامره تبارک وتعالی کما یقتضیه الاعتبار حیث ان النفس خالفت او اطاعت وانقادت لما کانت بتلک الجوارح فحسن المجازات وکمال المکافات بان یکون المجازی عین من اطاع او عصی ام لا ،بل تنتقل الی صور مجردة تعلیمیه ذات امتداد نظیرالقوالب المثالیته والصور المارتیه؟''
الی ان قال:
''ماوقع التصریح به فی القرآن الکریم هوالاول ،کما فی جواب سؤال ابراهیم ں حیث قال:رب ارنی کیف تحیی الموتی قال اولم... حکیم وقوله تعالی فی جواب (ایحسب الانسان ان لن نجمع عظامه بلی قادرین علی ان نسوی بنانه) وقوله عزشانه فی جواب سؤال من یحیی العظام وهی رمیم قل یحییها الذی انشاها اول مرة وهو بکل خلق علیم وغیر ذلک من الایات''
الی ان قال:
''ولکن جماعة من اهل الحکمة المتعارفه ذهبوا لشبهة عرضت لهم الی الثانی ولابد لنا من حلها ودفعها بعون الله تعالی''
دوم :عقل اور نقل کے حکم کے مطابق معاد کے لازم ہونے اور روز حساب کے ثابتہونے کے بعد ،بحث اس میں ہے کہ جس چیز سے ارواح قیامت اور روز حساب تعلق رکھیں گی بعینہ و بالکل یہی دینوی اجسام ہیں کہ جن کے پراکندہ ہونے کے باوجود انھیں انہی بدنوں کو جمع کیا جائے گا خداوند عالم کے حکم کے مطابق جس طرح عقلائی اعتبارسے بھی ان ہی مطالبکی اقتضاء کرتا ہے اس لئے کہ : خداوند کی مخالفت یا موا فقیت اور اطاعت ان ہی اعضاء اورجوارح نے کی ہے پس بہتر ہے قیامت کے دن مجازات و عقوبت بھی ان ہی اعضاء وجوارح کوہونی چاہیئے اس بیان کے مطابق جزا یا سزا پانے والا وہی اطاعت یانافرمانی کرنے والا ہو یا وہ نہ ہو بلکہ ارواحمجردہ ہوں ، اجسام تعلیمی کی صورتوں میں کہ جس میں امتداد بھی موجود ہو جسے مثالی (برزخی)ڈھانچہ یا ان صورتوں اور شکلوں کی طرح جو آئینوں میں منتقل ہوتی ہیں اس کے بعد آپ فرماتے ہیں :
جس چیز کی قرآن کریم تصریح کرتا ہے وہ در حقیقت پہلا قول ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہاکہ اے میرے پروردگار ! تو کیسے مردوں کو زندہ کرے گا وغیرہ
اس کے جواب میں خداوند عالم نے فرمایا : کیا تم یقین نہیں رکھتے ہو؟ اسی طرح خدا نے اس کے جواب میں فرمایا: انسان گمان کرتا ہے ہم اس کے بدن کی ہڈیوں کو جمع نہیں کریں گے بلکہ ہم یقینا جمع کریں گے اور ان ہی ہڈیوں کو پہلی حالت میں پلٹانے کی طاقت رکھتے ہیں حالانکہ ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کے پور پور کو پہلی حالت پر پلٹا دیں ۔
خداوند رب العزت نے اس سوال کے جواب میں کہ (جب ایک شخص خدمت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ میں ایکبوسیدہ ہڈی لیکر آیا اور ہاتھوں میں پیسنے کے بعد کہتا ہے کہ کون ہے جو ان بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرے گا حالانکہ یہ تو بالکل پراگندہ و متلاشی ہوچکی ہے؟۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ آپ کہہ دیجئے ! ان بوسیدہ ہڈیوں کو وہی زندہ کرے گا جس نے ابتداء میں ان کوخلق کیا ہے اور وہ ہر چیز کے خلق کرنے پر قادر وداناوتوانا ہے۔ (چاہے کوئی چیزپہلے سے ہو یا نہ ہو ۔ یا کوئی چیز ہو لیکن پراگندہ ہو چکی ہو تو اس چیز کو پہلی صورت میں پلٹا سکتا ہے ) اس طرح قرآنی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس بدن عنصری کومادی کے سا تھ انسان کی بازگشت ہے۔
لیکن فلاسفہ کے ایک گروہ کے یہاں شبہہ ایجاد ہوا ہے، جس کی بنا پر وہ دوسرے قول اور نظریہ کے قائل ہیں ۔ (قیامت کے دن روح کا تعلق مثالی بدن کی شکل میں ہوگا) لہٰذا ضروری ہے کہ ان کے شبہات کو خداوند عالم کی مدد اور استعانت سے حاصل کریں ،اس کے بعد آخوند ملا صدرا کے مسلک کو خلاصہ کے طور پر بیان کرتے ہوئے اس پر انتقاد و تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
''فانکار المعاد الجسمانی وعود الارواح الی الاجسام الذی یساعده العقل السلیم یخالف نص القران بل جمیع الادیان و انکار لما هو ضروری الاسلام ، اعاذنا الله تعالی من زلات الاوهام و تسویلات الشیطان
۔''
معاد جسمانی کا انکار اور ارواح کا اجسام میں پلٹنا جس پر عقل بھی مساعدہے اور اس کو مانتی ہے یہ انکار قرآن کریم کے نص کے خلاف ہے بلکہ یوں عرض کروں تمام ادیان کے خلاف ہے اور دین مقدس اسلام کے ضروریات کا ا نکار ہے خداوند عالم ہم کو ایسی وہمی غلطیوں اور لغزشوں سے محفوظ رکھے اور شیطانی افکار اور وسوسوں سے نجات د ے۔
٢۔ جناب آیة اللہ احمد خوانساری بحث معاد میں فرماتے ہیں پس بیشک جو بدن قیامت کے دن محشور ہوگاوہ یہی مادی و عنصری بدن ہے، چنانچہ یہ مطلب بالکل صراحت کے ساتھ قرآنی آیات و احادیث میں موجود ہے اور کبھی کہاجاتا ہے قیامت کے دن جو بدن محشور ہوگا وہ یہ بدن مادی نہیں ہے بلکہ بدن مثالی ہے جو خداوند عالم کے اذن سے نفس کے ذریعہ وجود میں آیا ہے اور یہ بدن مثالی مختلف ہے اختلاف ملکات نفسانیہ کی بناپر کہ جو دنیا میں حاصل ہوا ہے
اس کے بعد شروع کرتے ہیں شبہوں کو ذکر کرنا اور ان کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
اس بحث میں کچھ شبہات موجودہیں کہ جو دوسرے قول سے مناسبت رکھتے ہیں ۔ (وہ یہ کہ قیامت میں مثالی بد ن محشور ہونگے ) اس کے بعدشبہوں کو ذکر کرتے ہوئے ان کا جواب دیتے ہیں ۔اس کے بعد وہ آیات اور روایات جو معاد کومذکورہمعنی میں ثابت کرتی ہیں ان کو ذکر کرتے ہیں ۔
٣۔ مرحوم آیةاللہ مرزا محمد تقی آملی رحمة اللہ علیہ فقیہ وفلسفی ، تعلیقہ شرح منظومہ کے درر الفوائد میں توضیح اور تعلیق کے بعد اس سلسلے میں جس کو مصنف نے اختیار کیا ہے فرماتے ہیں یہ آخری چیز ہے جو کہ اس طریقہ کے بارے میں کہا جاسکتاہے لیکن حقیقت مطلب ومفہوم یہ ہے کہ :
''هذا غایة ما یمکن ان یقال فی هذه الطریقة ولکن الانصاف انه عین انحصار المعاد بالروحانی لکن بعبارة اخفی فانه بعد فرض کون شیئیة الشیء بصورته وانّ صورة ذات النفس هو نفسه وان المادة الدنیویة لمکان عدم مدخلیتها فی قوام الشیء لایحشر، وان المحشور هوالنفس ،غایة الامر اما مع انشائها لبدن مثالی قائم بها قیاما صدوریاً مجرداًعن المادة ولوازمها الا المقدار کما فی نفوس المتوسطین من اصحاب الشمال او اصحاب الیمین و اما بدون ذلک ایضاً کما فی المقربین (ولعمری) ان هذا غیر مطابق مع ما نطق علیه الشرع المقدس علی صادعه السلام والتحیةوانا اشهد الله وملائکته وانبیائه ورسله انی اعتقد فی هذه الساعة وهی ساعة الثلاث من یوم الأحد الرابع عشر من شهر شعبان المعظم سنة ١٣٦٨ فی امر المعاد الجسمانی بما نطق به القران الکریم واعتقد به محمد صلی الله علیه وآله والائمة المعصومین صلوات اللّٰه علیهم اجمعین وعلیه اطبقت الامة الاسلامیة ...''
یہ آخری چیز ہے جو اس طریقہ وروش کے بارے میں کہی جاسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بات سے معاد کا معاد روحانی میں ثابت ہونا منحصر ہے مگر یہ بات نہایت ہی پوشیدہ اورمخفی طور پر کہی گئی ہے بس جب ہم نے فرض کر لیا کہ کسی شے کی ہستی اور وجوداسی صورت میں اور یہ کہ صاحب نفس کی صورت خود اس کا نفس ہے اور یہ کہ دنیوی مادہ کسی شے میں مداخلت نہ رکھنے کی وجہ سے محشور نہیں ہوگااور یہ کہ قیامت کے دن جو چیز محشور ہوگی وہ وہی نفس ہے نہایت امر یا جسم مثالی نفس کے انشاء سے حاصل ہوتا ہیکہ اس بدن مثالی کا قیام ایک قسم کا صدور جو مادہ اور لوازم مادہ سے عاری ہے سوائے مقدار کے ۔چنانچہ یہ مطلب نفوس متوسطہ جیسے اصحاب شمال (جہنمیوں ) یا اصحاب یمین (بہشتیوں ) میں موجود ہے ۔ یا انشائے نفس کے بغیر ہے جسم مثالی محشور ہوتا ہیجس طرح یہ بات مقربین سے مخصوص ہے، لیکن مجھیاپنی جان کی قسم ہے کہ یہ عقیدہ شریعت مقدسہ کے مطابق نہیں ہے کہ اس شریعت کے مبلغ اور مبین پر (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ) درود وسلام ہو،اور میں اللہ اور اس کے ملائکہ اور انبیاء و مرسلین کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ اس وقت ١٤شعبان المعظم ١٣٦٨ھ اتوار کے دن تین بجے ، اس معاد جسمانی پر میرا عقیدہ ہے کہ جس کو قرآن مجید اور حضور اکرم ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ اور ائمہ معصومین (ع) نیبیان فرمایا ہے اور اس بیان پر میرا عقیدہ استوارو قائم ہے اور اس پر تمام امت اسلامی کا اتفاق ہے ان تین اقوال میں ملاصدرا کے نظریہ اور عقیدہ کو شدت سے رد کیا گیا ہے ۔ اور وہی معاد جسمانی کا عقیدہ تمام علماء وفقہاء اور محدثین کی نظر میں مورد قبول واقع ہوا ہے۔