امامیہ دینیات درجہ اوّل (بالغات)

امامیہ دینیات درجہ  اوّل (بالغات)0%

امامیہ دینیات درجہ  اوّل (بالغات) مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال

امامیہ دینیات درجہ  اوّل (بالغات)

مؤلف: تنظیم المکاتب
زمرہ جات:

مشاہدے: 6828
ڈاؤنلوڈ: 2746

تبصرے:

امامیہ دینیات درجہ اوّل (بالغات)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 50 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6828 / ڈاؤنلوڈ: 2746
سائز سائز سائز
امامیہ دینیات درجہ  اوّل (بالغات)

امامیہ دینیات درجہ اوّل (بالغات)

مؤلف:
اردو

نبوت

اس دنیا میں آدمی بھی پیدا ہوتا ہے اور جانور بھی۔ زندگی بھر دونوں کھاتے پیتے ہیں اور رہتے ہیں۔ پھر ایک دن دونوں ہی کو موت آ جاتی ہے۔ ان باتوں میں ہر آدمی اور ہر جانور ایک دوسرے سے ملتے چلتے ہیں۔ لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ جانور سے اس کے اچھے اور برے کاموں کا حساب نہ لیا جائےگا اور اچھے یا برے کاموں کی وجہ سے اسے جنت یا دوزخ میں نہ بھیجا جائےگا لیکن انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر اپنے خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ جس سے خدا خوش ہوگا اس کو جنت کی اچھی نعمتیں ملیںگی اور جس سے خدا ناراض ہوگا اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائےگا۔ جانور کی زندگی میں یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ خدا کن باتوں سے خوش ہوتا ہے اور جن باتوں سے ناراض ہوتا ہے۔ مگر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان باتوں کو بھی معلوم کرے جن سے خدا خوش ہوتا ہے اور ان باتوں کو بھی معلوم کرے جن سے خدا ناراض ہوتا ہے۔

خدا بندوں پر مہربان ہے اس لئے یہ باتیں بتانے کے لئے اس نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی بھیجے، جن میں تین سو تیرہ بڑے نبی تھے۔ بڑے نبی کو رسول کہتے ہیں۔ تین سو تیرہ رسولوں میں پانچ بڑے رسول تھے جن کو اولو العزم کہتے ہیں۔ ان پانچوں میں سب سے بڑے ہمارے رسول حضرت محمد مصطفےٰ صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے جو خدا کے آخری نبی تھے۔ آپ کے بعد نہ کوئی نبی آیا ہے اور نہ آئےگا۔ جتنے لوگوں نے آپ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ سب جھوٹے ہیں۔ جیسے مسیلمہ ، کذاب ، سجاح اور مرزا غلام احمد قادیانی وغیرہ۔

جن نبیوں کے نام کتابوں میں ملتے ہیں اُن میں مشہور یہ ہیں :۔

۱ ۔حضرت آدمؐ ۲ ۔ حضرت نوحؐ ۳ ۔ حضرت ادریسؐ ۴ ۔ حضرت ابراہیمؐ

۵ ۔ حضرت اسمعیلؐ ۶ ۔ حضرت اسحاقؐ ۷ ۔ حضرت یعقوبؐ ۸ ۔ حضرت یوسفؐ

۹ ۔ حضرت یونسؐ ۱۰ ۔ حضرت لوطؐ ۱۱ ۔ حضرت صالحؐ ۱۲ ۔ حضرت ہودؐ

۱۳ ۔ حضرت شعیبؐ ۱۴ ۔ حضرت شیث ۱۵ ۔ حضرت داودؐ ۱۶ ۔ حضرت سلیمانؐ

۱۷ ۔ حضرت ذواکفیلؐ ۱۸ ۔ حضرت یسعؐ ۱۹ ۔ حضرت الیاسؐ ۲۰ ۔ حضرت زکریاؐ

۲۱ ۔ حضرت یحییٰؐ ۲۲ ۔ حضرت موسیٰؐ ۲۳ ۔ حضرت ہارون ۲۴ ۔ حضرت یوشعؐ

۲۵ ۔ حضرت عیسیٰؐ ۲۶ ۔ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

پانچ ادلواعزم رسول جن کو خدا نے صاحب شریعت بنایا تھا وہ جناب نوحؐ ، جناب ابراہیمؐ ، جناب موسیٰؐ ، جناب عیسیٰ ؐ ، اور حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔

ہمارے رسولؐ کے آنے کے بعد پچھلی تمام شریعتیں خدا نے ختم کر دی ہیں۔ اب قیامت تک صرف آپ کی شریعت باقی رہےگی اور صرف اُس کی نجات ہوگی جو آپ کی شریعت کا ماننے والا ہوگا۔

نبی کے اوصاف

تم جانتے ہو کہ ہر نبی میں چند باتوں کا پایا جانا ضروری ہے۔

۱ ۔ نبی عالم پیدا ہوتا ہے۔ اس کے ماں باپ دادا دادی وغیرہ تمام آباؤ اجداد مسلمان ہوتے ہیں۔ نبی کسی کافر کی نسل میں نہیں پیدا ہوتا بلکہ ہمیشہ پاک و پاکیزہ اور طیب و طاہر نسل میں پیدا ہوتا ہے۔ نبی ہمیشہ شریف اور باعزت گھرانے میں پیدا ہوتا ہے۔ نبی کو کوئی قابل نفرت بیماری نہیں ہوتی ۔ نبی کوئی ایسا کام یا پیشہ نہیں کرتا جو ذلت اور رسوائی کا سبب ہو۔

۲ ۔ ہر نبی معصوم ہوتا ہے۔ اس سے نہ کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے نہ کوئی برائی۔ نہ بھول چوک ہوتی ہے اور نہ خطا اور غلطی۔ نبی چونکہ عالم پیدا ہوتا ہے اس لئے ہر گناہ سے نفرت کرتا ہے اور ہر برائی سے بیزار رہتا ہے۔ اسی نفرت اور بیزاری کی وجہ سے وہ کبھی گناہ نہیں کرتا۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ معصوم برائی نہ کرنے اور نیک کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ اپنے علم کے باعث اپنے ارادہ اور اختیار سے گناہوں سے بچتا ہے اور نیکیاں بجا لاتا ہے۔

۳ ۔ نبی جتنے لوگوں کی ہدایت کے لئے آتا ہے ان سب لوگوں سے ہر کمال اور خوبی میں بہتر ہوتا ہے۔ نبی کے زمانہ کا کوئی انسان کسی خوبی میں نبی سے افضل نہیں ہو سکتا۔

۴ ۔ کوئی نبی خود بخود نہیں بنتا ہے بلکہ خدا اس کو نبوت دیتا ہے۔

نبی کی پہچان

خدا نے کس کو نبی بنا کر بھیجا ؟۔ یہ بات ہم کو دو طرح سے معلوم ہوتی ہے۔

۱ ۔ جو نبی موجود ہے وہ بعد میں آنے والے نبی کا نام پتہ اور نشان بتا کر جائے جیسے عیسیٰ علیہ السلام ہمارے نبیؐ کے آنے کی خبر دے گئے تھے۔ اور آپ نے پیشینگوئی فرمائی تھی کہ میرے بعد ایک نبی آئےگا جو آخری نبی ہوگا اور اس کا نام احمدؐ ہوگا۔ ہمارے نبیؐ کے آنے کی خبر حضرت موسیٰؐ نے بھی دی تھی۔ آپ نے بتایا تھا کہ یثرب کے شہر میں آخری نبی آئےگا، چناچہ یہودی ہمارے نبیؐ کے آنے سے پہلے ہی شہر یثرب میں آ کر آباد ہو گئے تھے۔یثرب مدینہ منورہ کا دوسرا نام ہے۔ یہودی اور عیسائی جناب موسیٰ اور جناب عیسیٰؐ سے خبر سن کر آخری نبی کا انتظار کر رہے تھے مگر ان کی سب سے بڑی بدبختی یہ تھی کہ جب وہ نبی تشریف لائے جن کا انتظار تھا تو بجائے ایمان لانے اور مدد کرنے کے آپ کے دشمن اور سخت مخالف ہو گئے۔

۲ ۔ نبی کے پہچاننے کا دوسسرا ذریعہ معجزہ ہے۔ معجزہ خدا کی دی ہوئی وہ طاقت ہے جس کے ذریعہ نبی ایسے حیرت انگیز کام کر دکھاتا ہے جس کا جواب لانے سے اس کے زمانے والے عاجز ہو جاتے ہیں۔اس طرح زمانہ کے لوگوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ معجزہ دکھانے والا خدا کا بھیجا ہوا نبی ہے۔ اسی لئے ہر نبی نبوت کے دعوے کے ثبوت میں معجزہ پیش کرتا ہے۔ جیسے جناب موسیٰ علیہ السلام کا عصا جس نے اژدہا بن کر جادوگروں کی ان تمام رسیوں کو نگل لیا تھا جو جادوگروں کے کرتب کی وجہ سے رینگتے ہوئے سانپ نظر آ رہی تھیں۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ اور بیماروں کو بغیر دوا کے اچھا کر دیتے تھے۔ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی بہت سے معجزے دکھائے ہیں۔ آپ نے انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کر دئے تھے۔ ایک بار آپ کی انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری ہوا تھا۔ پتھر اور جانور آپ کے حکم پر انسانوں کی طرح آپ کی نبوت و رسالت کی گواہی دیتے تھے۔ درخت آپ کے حکم پر چل کر آپ کے پاس آ جاتے تھے۔ قرآن مجید ہمارے نبیؐ کا سب سے بڑا اور قیامت تک باقی رہنے والا معجزہ ہے جس میں تمام انسانوں اور جنوں کو چیلینج کیا گیا ہے کہ اگر ممکن ہو تو تم سب مل کر اس کا جواب لاؤ مگر آج تک جواب نہیں آ سکا جو قرآن مجید کے معجزہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

ہمارے آخری نبیؐ

ہمارے نبیؐ ۱۷/ ربیع الاول ۱ ؁ عام الفیل کو جمعہ کے دن صبح صادق کے قریب مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ نبی کریم کی والدہ ماجدہ جناب آمنہؐ خاتون ہیں۔ آپ کے نانا وہب ہیں جو مدینہ منورہ کے بہت باعزت آدمی تھے۔ نبی کریمؐ کی ولادت سے قبل ہی آپ کے والد محترم جناب عبدؐ اللہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ جناب ابو طالبؐ آنحضرتؐ کے چچا تھے۔ آپ کی ولادت کے وقت زمین سے آسمان تک ایک نور روشن تھا۔ ملائکہ آسمان سے بڑی تعداد میں زمین پر اُتر رہے تھے۔ شیطان نے گھبرا کر ملائکہ سے پوچھا کہ کیا قیامت آ گئی۔ ملائکہ نے بتایا کہ آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیدا ہوئے ہیں۔ ہم آسمانوں سے مبارکباد کے لئے آ رہے ہیں۔ شیطان یہ سنکر اسی وقت سے نبی کریم اور اُن کی آلؐ پاک کا دشمن ہو گیا۔

آپ جب چار برس کے تھے تو آپ کی والدہ ماجدہ جناب آمنہؐ خاتون نے مقام ابواء میں انتقال فرمایا۔ آپ آٹھ برس کے تھے جب آپ کے شفیق دادا جناب عبد المطلبؐ نے انتقال فرمایا۔ دادا کے انتقال کے بعد آپ کی پرورش آپ کے حقیقی اور مہربان چچا جناب ابو طالبؐ نے کی جناب ابوطالبؐ مرتے دم تک آپ کے حامی و مددگار اور ناصر و محافظ رہے۔ آپ کی چچی جناب فاطمہؐ بنت اسد حضرت علی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ ہیں انھوں نے مثل ماں کے آپ کو پالا۔ آپ بھی ان کو ماں ہی کہتے تھے۔ جب آپ کا سن مبارک پچیس سال کا تھا تو آپ کی شادی عرب کی مشہور خاتون جناب خدیجہؐ سے ہوئی۔ جناب خدیجہؐ نے اپنی ساری دولت اسلام کی تبلیغ پر صرف کر دی۔ جناب خدیجہؐ کے انتقال کے بعد نبیؐ کریم نے بہت سی شادیاں کیں۔ لیکن آپ اپنی وفات تک حضرت خدیجہؐ ہی کو یاد فرماتے رہے۔ جب آپ کا سن مبارک چالیس برس کا ہوا تو ۲۷ رجب کو خدا نے آپ کو اعلان نبوت کا حکم دیا۔ تین سال آپ نے پوشیدہ تبلیغ کی اس کے بعد کھل کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا۔جب آپ کی عمر اکیاون سال تھی اور اسلام کے اعلان کو گیارہ برس ہو چکے تھے تو چند مہینوں کے فاصلے سے یکے بعد دیگرے جناب ابوطالبؐ اور جناب خدیجہؐ نے انتقال کیا۔ آپ ان دونوں کی موت پر بہت رنجیدہ ہوئے اور اس سال کا نام "عام الحزن یعنی غم کا سال " رکھ دیا۔ جب آپ کی عمر ۵۳/ برس کی تھی تو مکہ میں تیرہ سال دین کی تبلیغ کر کے اور سخت ترین مصائب جھیل کر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ ہجرت کی رات دشمنوں نے آپ کا گھر گھیر لیا تھا۔ آپ اللہ کے حکم سے گھر کے باہر نکلے تو دشمن اندھے ہو گئے۔ آپ کو جاتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔ آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بستر پر سلا دیا۔ دشمن بھرا بستر دیکھ کر رات بھر یہی سمجھتے رہے کہ نبیؐ کریم آرام فرما رہے ہیں اور حضرت علی علیہ السلام دشمنوں کی کھیچی ہوئی تلواروں کے سایہ میں رات بھر بڑے اطمینان سے آرام فرماتے رہے۔ دس سال مدینہ منورہ میں آنحضرتؐ نے قیام فرمایا۔ ۶۳ سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔ آپ نے جس سال مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی ہے اسی سال سے یہ سن ہجری شروع ہوا ہے۔ ہجرت کے دوسرے سال آپ نے اپنی لخت جگر اسلام کی شہزادی جناب فاطمہؐ زہرا علیہا السلام کی شادی دین و دنیا کے مولا حضرت علی علیہ السلام سے کی ۱۰ ھ؁ میں آنحضرتؐ نے آخری حج کیا اور حج کی واپسی پر ۱۸/ ذی الحجہ کو غدیر خم کے مقام پر سوا لاکھ حاجیوں کے سامنے دن دوپہر کھلے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے اپنا خلیفہ اور جانشین مقرر فرمایا اور تمام مسلمانوں کا حاکم قرار دیا۔ مدینہ واپس آ کر آپ دو مہینے دس دن زندہ رہے اور چند دن بیمار رہ کر اٹھائیس صفر ۱۱ ھ؁ کو انتقال فرما گئے۔ حضرت علی علیہ السلام نے اللہ کے آخری رسولؐ کو غسل و کفن دیا اور رسالت کے آفتاب کو قبر کے مغرب میں چھپا دیا۔

عصمت

ہم جاہل پیدا ہوتے ہیں اور دنیا کی ہر چیز سے بے خبر ہوتے ہیں پھر دھیرے دھیرے علم حاصل کرتے ہیں۔ جتنا ہمارا علم بڑھتا ہے اسی قدر ہماری جہالت کم ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ہمارا علم کم ہی ہوتا ہے۔ ہم میں سے بڑے سے بڑا عالم بھی کم علم ہی ہوتا ہے۔ ہم جاننے کے باوجود بھول جاتے ہیں اور بھولے سے غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم جان بوجھ کر بھی غلطیاں اور گناہ کرتے ہیں۔ اللہ نے ان کمزوروں سے بچانے کے لئے اور ہماری ہدایت کے لئے نبی اور امام بھیجے۔

نبی اور امام کا ان تمام کمزوریوں سے پاک ہونا ضروری ہے ورنہ ہماری ہدایت نہ کر سکیںگے بلکہ ضرورت ہوگی کہ بھول۔چوک اور غلطی کے موقع پر کوئی ان کی ہدایت کرے۔ نبی اور امام کو معصوم بنانے کے لئے خدا ان کو اپنی ایک مخصوص مہربانی کے ذریعہ ایسا عالم اور پاک نفس بنا دیتا ہے کہ اس کے بعد وہ نہ کبھی کسی غلطی کا ارادہ کرتے ہیں اور نہ اُن سے کوئی گناہ ہو سکتا ہے۔ اس مخصوص مہربانی کا نام عصمت ہے اور خدا جس کو اپنی یہ مخصوص مہربانی عطا کرتا ہے وہ معصوم ہوتا ہے۔

چونکہ عصمت ایک پوشیدہ مہربانی ہے جو خدا اپنے مخصوص بندوں پر فرماتا ہے لہذا خدا کے بتائے بغیر کسی کا معصوم ہونا معلوم نہیں ہو سکتا۔ نبیؐ کریم ، بارہ امامؐ اور جناب فاطمہؐ کے لئے اللہ نے بتایا ہے کہ یہ معصوم ہیں۔ نبی یا امام کو صرف خدا ہی مقرر کر سکتا ہے کیونکہ ان کا معصوم ہونا ضروری ہے اس کی خبر سوا خدا کے کسی کو نہیں ہے لہذا ہر نبی یا امام وہی ہوتا ہے جسے خدا مقرر کرتا ہے اور جس کے معصوم ہونے کی اُس نے خبر دی ہو۔

حیات معصوم اور سن و سال

انسان کی زندگی میں بچپن ۔ جوانی اور بڑھاپا تین دور ہوتے ہیں۔ بچپن انتہائی لا علمی اور نا واقفیت کا ہوتا ہے انسان اپنے داہنے بائیں کی چیزوں سے بھی باخبر نہیں ہوتا۔ جوانی میں خواہشات کا طوفان رہتا ہے اور انسان بہکنے لگتا ہے۔ ضعیفی میں عقل کمزور ہو جاتی ہے اور انسان صحیح فیصلہ نہیں کر سکتا ۔

لیکن ہادی اور رہبری کی زندگی اس سے بالکل الگ ہوتی ہے وہ بچپن جوانی۔ بڑھاپا زندگی کے ہر دور میں باکمال ہوتے ہیں ان کے کمالات ان کے ہر منصب کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں اور ان کا منصب اس دنیا میں آنے کے پہلے سے اور اس دنیا سے جانے کے بعد تک باقی رہتا ہے۔ ہمارے نبی اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن برابر اذان و نماز میں ان کی رسالت کا اقرار کر رہے ہیں۔

ہادی اپنے بچپنے میں عالم و فاضل ہوتا ہے اور اپنی جوانی میں معصوم و محفوظ ضعیفی میں اس کی عقل اسی طرح کام کرتی ہے جس طرح جوانی میں کر رہی تھی۔

قرآن کریم اور تاریخ کے دامن میں ایسے بیشمار واقعات موجود ہیں جن سے ہادیان اسلام کے کردار کی بلندی اور ان کے بچپن ۔ جوانی اور بڑھاپے کی یکسا نیت ظاہر ہوتی ہے۔

بچپن ہی کا زمانہ تھا جب حضرت ابراہیمؐ غار سے براآمد ہوئے اور چاند سورج ۔ ستارے کو دیکھ کر یہ ثابت کر دیا کہ یہ خدا نہیں ہو سکتے۔ یہ ایک وقت میں نکل کر دوسرے وقت ڈوب جاتے ہیں۔ اور جو ڈوب جائے وہ خدا نہیں ہو سکتا۔

بچپن ہی کی عمر بھی جب جناب موسیٰ فرعون کے دربار میں پہونچے ہیں۔ اور فرعون نے انھیں دودھ پلانے کے لیے مختلف عورتوں کو بلایا ہے جناب موسیٰ نے کسی عورت کی طرف رخ نہیں کیا اور برابر بھوکے رہے یہاں تک کہ آپ کی مادر گرامی آئیں اور آپ نے ان کا دودھ پیا۔ اس لیے کہ ہادی و رہنما بھی نجس و ناپاک غذا استعمال نہیں کرتے ۔ جناب موسیٰ کے لیے کافر عورتوں کا دودھ حرام تھا اور ان کی والدہ کا دودھ جائز اس لیے آپ نے کسی کی طرف رخ نہیں کیا اور اپنی مادر گرامی کا دودھ پی لیا۔

بچپن ہی کی عمر تھی جب جناب مریم اپنے فرزند حضرت عیسیٰ کو لیکر قوم کے سامنے آئیں اور لوگوں نے پوچھا ! مریم اپنے فرزند حضرت عیسیٰ کو لیکر قوم کے سامنے آئیں اور لوگوں نے پوچھا مریم ! یہ کس کا بچہ ہے ؟ جناب مریم نے گہوارے کی طرف اشارہ کر دیا اور حضرت عیسیٰ نے جھولے میں لیٹے لیٹے آواز دی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں مجھے اللہ نے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔

بچپن ہی کا عالم تھا جب ہمارے مولا حضرت علیؐ ابن ابی طالبؐ نے تین دن کی عمر میں پیغمبرؐ کی گود میں توریت ۔ انجیل ۔ زبور اور قرآن کی تلاوت کی تھی۔

ان واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہادی و رہنما کا بچپنا عام انسانوں سے بالکل الگ ہوتا ہے وہ بچپنے ہی سے عالم و دانا اور حلال و حرام سے باخبر ہوتے ہیں۔

جوانی میں بھی ہمارے رسولؐ نے جب جناب خدیجہ سے شادی کی جو جناب خدیجہ کی عمر آپ سے زیادہ تھی لیکن آپ نے شادی کر کے بتا دیا کہ میرے کام دل کی پسند کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ اللہ کی مرضی کے لیے ہوتے ہیں۔

بڑھاپے میں عقل کے صحیح و سالم رہ جانے کی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔ جناب نوح ہزار سال زندہ رہے۔ جناب براہیمؐ نے سو سال سے زیادہ عمر پائی۔ لیکن ان حضرات کے عقل و ہوش میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا پس جس طرح یہ انبیائے کرام تھے اسی طرح ہمارے رسول اور امام تھے کہ ان کے کردار اور عمل میں زندگی کے کسی حصے میں کوئی فرق نہیں آیا اور ہر دور میں عالم و کامل اور نیک کردار و معصوم رہے۔

ہمارے نبیؐ کے خصوصیات

اللہ نے ہمارے نبی کو ساری کائنات سے افضل و برتر بنا کر آپ کو کچھ ایسے ملاکات عطا کر دئیے جو آپ کے علاوہ نہ کسی امتی کو دیے گئے ہیں اور نہ نبی و رسول کو۔ انھیں چیزوں کو خصوصیات نبی کہا جاتا ہے اور ان کی مشہور فہرست یہ ہے۔

 آپ جس طرح سامنے کی چیزوں کو دیکھتے تھے اسی طرح پس پشت کی چیزوں کو بھی دیکھ لیا کرتے تھے۔

 آپ کے بالوں کو آگ جلا نہیں سکتی تھی۔

 بیداری اور خواب کے عالم میں برابر نظر رکھا کرتے تھے۔

 آپ کے جسم اقدس کا سایہ نہ تھا۔

 آپ کے جسم مبارک پر مکھیاں نہ بیٹھ سکتی تھیں۔

 آپ جس بلند قامت آدمی کے ساتھ چلتے تھے آپ کا قد اس سے نکلتا ہوتا تھا۔

 انگڑائی اور جماہی نہیں لیا کرتے تھے۔

 نماز شب آپ کے لئے واجب تھی۔

 مسواک آپ کے لئے ضروری تھی

 آپ چار سے زیادہ شادیاں کر سکتے تھے۔

 آپ جس راستے گزر جایا کرتے تھے کئی دن تک برابر خوشبو پھیلی رہتی تھی۔

 آپ سخت سے سخت پتھر پر قدم رکھ دیتے تھے تو نقش قدم اُبھر آیا کرتے تھے

خدائی پیغامات

خدا وند عالم نے اپنے پیغمبروں کو سارے کمالات اور علوم دے کر بھیجا لیکن اس کے باوجود پیغمبر کی شان ظاہر کرنے کے لیے برابر احکام بھیجتا رہتا تھا۔ ان احکام کے بھیجنے کے چند طریقے تھے۔

کبھی نبی ان احکام کو خواب میں دیکھا کرتے تھے اور نبی کا خواب ہی حکم خدا ہوا کرتا تھا جیسا کہ جناب براہیمؐ کے واقعہ میں ہوا کہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کر رہا ہوں اور پھر اس کو حکم خدا سمجھ کر ذبح کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ ایسے خواب کو رویائے صادقہ کہتے ہیں۔

پیغام بھیجنے کا دوسرا طریقہ الہام ہے۔ الہام کے معنی یہ ہیں کہ خدا وند عالم اپنے فرستا دہ ہادی و رہنما کے دل میں ایک بات ڈال دیتا ہے اور ہادی و رہنما اس پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں اس لیے کہ معصوم کے دل پر شیطان کا قبضہ نہیں ہو سکتا۔ اس میں جوبات آئےگی وہ اللہ ہی کی ہوگی شیطان کی نہ ہوگی۔

تیسرے طریقہ کا نام وحی ہے جو کسی فرشتے کے ذریعہ بھیجی جاتی ہے چاہے پیغمبر اس فرشتے کو دیکھے یا نہ دیکھے۔ ہمارے پیغمبرؐ کے پاس جبریل امین پیغام لیکر آیا کرتے تھے اور آپ برابر ان سے ملاقات بھی فرماتے تھے۔

چوتھا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کسی چیز میں آواز پیدا کر کے اپنا پیغام سنا دے اور نبی اس پیغام کو سن لے جیسا کہ کوہ طور پر درخت کے ذریعہ جناب موسیٰؐ کو حکم سنایا گیا تھا۔

پانچواں طریقہ ہمارے نبیؐ کے ساتھ مخصوص ہے جہاں پروردگار عالم نے معراج کی رات عرش اعظم پر بلا کر حضرت علیؐ کے لہجہ میں بات کی تھی یہاں نہ کوئی خواب تھا نہ الہام ، نہ کوئی فرشتہ تھا نہ درخت صرف حضور تھے اور علیؐ کا لہجہ خدا بول رہا تھا اور اس کا جیب سن رہا تھا۔ امت تک اس پیغام کی حقیقت کچھ رسول کے بیان سے پہونچی ہے اور کچھ غدیر خم کے میدان میں رسول کے عمل سے۔

قرآن مجید کا اعجاز

یہ بات تو ساری دنیا جانتی ہے کہ آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے ہمارے رسولؐ نے قرآن مجید کو لوگوں کے سامنے یہ کہہ کہ پیش کیا تھا کہ اگر تمہیں اس کی برتری اور اس کے کلام خدا ہونے میں شک ہے تو اس کا جواب لے آؤ اور آج تک دنیا اس کا جواب نہ لا سکی۔ لیکن یہ بات بھی جاننے کے لائق ہے کہ وہ کون سی باتیں تھیں جن کا جواب نہ ہو سکا۔ ایسی باتیں حسب ذیل ہیں۔

۱ ۔ قرآن مجید میں بڑی سے بڑی بات کو کم سے کم لفظوں میں بڑے سے بڑے مطلب کو آسان طریقہ پر بیان کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے اس کی نظر دنیا میں نہیں ہے۔ اس میں نہ کوئی لفظ ایسا ہے جو آدمی کو سننے میں گراں گزرے اور نہ کوئی جملہ ایسا ہے جس کا ایک حرف کم کر دینے میں مطلب ادا ہو جائے۔

۲ ۔ قرآن مجید میں پیغمبرؐ اسلام کے ہزاروں سال پہلے اور پیغمبرؐ کے ہزاروں سال بعد قیامت تک کے حالات بیان کر دئے ہیں جن کی اطلاع نہ اس وقت کسی کو تھی اور نہ آج تک ہے۔

۳ ۔ قرآن مجید کے الفاظ کے صرف ظاہری معنی ہی نہیں ہیں بلکہ ایک ایک لفظ کے ستر ستر معنی ہیں۔ جن کا علم خدا اور رسولؐ اور ائمہؐ کے علاوہ کسی کو نہیں ہے۔

۴ ۔ قرآن مجید میں اکثر سوروں کے شروع میں حروف مقطعات المٓ ۔الرٓ ۔حمٓ ۔ وغیرہ استعمال کیے گئے ہیں جن کے معنی کسی کو معلوم نہیں ہیں اور نہ ان کی مصلحت کو کوئی آدمی جانتا ہے۔

۵ ۔ قرآن مجید نے تبلیغ و ہدایت کا جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ انسانی فطرت سے قریب اور سماج کے مزاج سے بالکل ہم آہنگ ہے اس نے پہلے عقائد کی درستگی کا انتظام کیا اس کے بعد اعمال کی اصلاح کی یہ طریقہ تبلیغ نہ کل کسی کے ذہن میں آیا تھا اور نہ آج یہ سلیقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔

آداب تلاوت

قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت ان علامتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

ج ۔ یہ علامت وقف جائز ہے یہاں پر ٹھہرنا جائز ہے۔

ز ۔ یہ بھی علامت وقف جائز کی علامت ہے مگر ملا کر پڑھنا بہتر ہے۔

لا ۔ اس علامت پر ٹھہرا نہیں چاہئیے بلکہ بعد سے ملا کر پڑھنا چاہئیے۔

ط ۔ یہ علامت وقف مطلق کی ہے جس سے آگے بڑھ جانا مناسب نہیں ہے۔

م ۔ یہ علامت وقف لازم کی ہے جس سے آگے بڑھنا جائز نہیں ہے۔

قف ۔ یہ ٹھہر جانے کی علامت ہے ۔

ص ۔ یہاں سانس توڑ دینے کی رخصت ہے۔

صلے ۔ یہاں وصل اولیٰ ہے (یعنی) آگے سے ملاکر پڑھنا بہتر ہے۔

یہ علامت جس لفظ کے آگے پیچھے ہوتی ہے اس میں دو میں سے ایک جگہ وقف کیا جاتا ہے

امامت

امامت بھی نبوت ہی کی طرح اصول دین میں ہے نہ کہ فروع دین میں اس لئے جو خدا بندوں کی ہدایت کے لئے نبی کے بعد نبی بھیجتا رہا ہے اُس خدا کے لئے ضروری ہے کہ نبوت ختم ہونے کے بعد قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کہ ہدایت کا انتظام کرے۔ چناچہ اس نے خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد بارہ اماموں کو انسانوں کا ہادی اور رہبر مقرر کیا ہے۔ ان بارہ اماموںؐ کی امامت کے خاتمہ پر دنیا ختم ہو جائےگی اور قیامت آجائےگی۔

امامت اصول دین کا مسئلہ ہے اس کو مانے بغیر نہ کوئی شخص با ایمان مر سکتا ہے اور نہ مرنے کے بعد جنت میں جگہ پا سکتا ہے۔ خدا وند عالم فرماتا ہے۔" قیامت کے دن ہم ہر انسان کو اس کے امام کے ساتھ بلائیںگے۔" معلوم ہوا کہ قیامت کے دن انسانوں سے فقطہ یہ سوال نہیں ہوگا کہ تمہارا خدا کون ہے۔ تمہارا رسول کون ہے تمہاری کتاب کونسی ہے ۔تمہارا قبلہ کیا ہے ۔ تمہارا دین کیا ہے بلکہ سب سے بڑا سوال یہ بھی ہوگا تمہارا امام کون ہے۔ لہذا امام کا جاننا اور ماننا ضروری ہے۔ حضرت رسولؐ کریم نے فرمایا ہے۔ " جو شخص اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مر جائے گا اس کی موت گمراہ اور کافر کی موت ہوگی "۔ معلوم ہوا کہ امام زمانہ کو مانے بغیر کوئی شخص مسلمان کی موت نہیں مر سکتا۔ جب امام کو ماننا اس قدر ضروری ہے تو خدا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اماموں کا انتخاب کرے اور نبی کے ذریعہ ان اماموں کے ناموں کا اعلان کرے۔

جب قیامت تک دین خدا اور قرآن کا رہنا ضروری ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ شریعت و کتاب و سنت کے کچھ محافظ بھی قیامت تک رہیں۔ بارہ امام اسی لئے مقرر کئے گئے کہ وہ نبی کے دین کو باقی رکھیں۔

امام۔ نبی کی طرح معصوم ہوتا ہے۔ ہر خطا ، غلطی ، بھول چوک اور سہود نسیان سے پاک ہوتا ہے۔

امام ۔ نبی کی طرح عالم پیدا ہوتا ہے اور وہ زندگی میں کسی چھوٹے سے چھوٹے یا بڑے سے بڑے مسئلہ کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے معلوم نہیں۔

امام ۔ نبی کی طرح معجزہ کی طاقت کا مالک ہوتا ہے۔ نبی اور امام کے معجزہ کا جواب لانا ممکن نہیں ہوتا۔

امام ۔ نبی کی طرح اپنے زمانہ کے تمام انسانوں سے ہر فضل و کمال میں افضل ہوتا ہے۔

امام ۔ نبی کی طرح ہر ذاتی ۔ خاندانی ۔ جسمانی ۔ روحانی ۔ ظاہری اور باطنی عیب سے پاک ہے۔

امام ۔ نبی کی طرح کمالات کا مجموعہ ہوتا ہے۔

امام ۔ نبی کی طرح اپنے زمانہ کا سب سے بہادر انسان ہوتا ہے۔

امام ۔ نبی کی طرح دین و دنیا کا مکمل حاکم ہوتا ہے۔

امام ۔ ہاشمی ہوتا ہے اور نبی کے اہلبیتؐ میں سے ہوتا ہے۔

امام کا ہونا ضروری ہے

امام کے بغیر نہ دنیا باقی وہ سکتی ہے اور نہ انسانوں کو ہدایت مل سکتی ہے۔ اس مسئلہ میں ہم ایک دلچسپ گفتگو سناتے ہیں۔

ہشام بن حکم جو جناب امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی اور شاگرد تھے انھوں نے سنا کہ عمرو بن عبیدہ بصرہ کی جامع مسجد میں لوگوں کے سامنے برے بڑے غلط اور جھوٹے دعوے کرتا ہے۔ تو ایک مرتبہ جمعہ کے دن اُس مسجد میں جا پہونچے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ لوگ اُسے گھیرے ہوئے ہیں اور کچھ پوچھ رہے ہیں۔ یہ بھی بھیڑ کو چیرتے ہوئے اس کے قریب جا پہونچے اور دونوں میں یوں باتیں ہونے لگیں۔

ہشام ۔ میں ایک مسافر ہوں اگر اجازت ہو تو میں بھی کچھ پوچھوں۔

عمرو ۔ (بیباکی سے) جو پوچھنا ہو پوچھو۔

ہشام ۔ کیا تمہاری آنکھیں ہیں ؟

عمرو ۔ یہ بھی کوئی سوال ہے۔ کیا اس سے بڑھ کر بےقوفی کا کوئی سوال ہو سکتا ہے۔

ہشام ۔ مجھے تو یہی پوچھنا ہے آکر بتانے میں تمہارا کیا بگڑتا ہے۔

عمرو ۔ اچھا خفا نہ ہو تمہیں اگر یہی پوچھنا ہے تو میں بھی جواب دیتا ہوں کہ آنکھیں ہیں۔

ہشام ۔ بھلا تم اس سے کیا کام لیتے ہو ؟

عمرو ۔ ارے بھائی یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ ظاہر ہے میں اس سے چیزوں کو دیکھتا اور رنگوں کا فرق پہچانتا ہوں۔

ہشام ۔ کیا تمہارے ناک بھی ہے ؟

عمرو ۔ ہے پھر آپ کا مطلب ؟

ہشام ۔ مطلب کچھ نہیں صرف یہ بتا دیجئیے کہ آپ اس سے کیا کام لیتے ہیں ؟

عمرو ۔ اس سے ہر طرح اچھی بری بو ، معلوم ہوتی ہے اس سے سانس لیتے ہیں۔

ہشام ۔ کیا زبان ہے ؟

عمرو ۔ اچھا بھائی یہ سوال بھی سہی، ہاں زبان بھی ہے۔

ہشام ۔ کیا اس سے کچھ کام لیتے ہو ؟

عمرو ۔ اس سے باتیں کرتا ہوں ۔ مختلف چیزوں کے مزے محسوس کرتا ہوں، میٹھا ، کڑوا نمکین ، پھیکا اسی سے معلوم ہوتا ہے۔

ہشام ۔ کیا تمہارے کان بھی ہیں ؟

عمرو ۔ ہاں بھائی ہیں۔

ہشام ۔ کہا یہ بھی کام آتے ہیں یا یوں ہی ؟

عمرو ۔ کیا خوب ۔ حضرت ان سے اچھی بری ، قریب اور دور کی باتیں سنتا ہوں۔

ہشام ۔ خیر ہوگا ، بھلا یہ تو فرمائیے ہاتھ بھی ہیں ؟

عمرو ۔ واہ واہ ہاتھ ہیں نہیں تو کیا ٹنڈا ہوں اپنا مطلب کہئے۔

ہشام ۔ ان سے کچھ کام بھی چلتا ہے یا صرف یونہی دیکھنے کے ہیں ؟

عمرو ۔ سبحان اللہ ! ارے بھائی انھیں سے تو سردی اور گرمی ، خشکی ، تری ، نرمی ، ختی، کھرمی اور چیکنی چیزیں معلوم ہوتی ہیں۔

عرض اس طرح ایک ایک عضو کے بارے میں پوچھتے پوچھتے آکر دل کے بارے میں سوال کیا۔

ہشام ۔ کیا تمہارے پاس دل بھی ہے، یا بغیر دل کے پیدا ہوئے ہو ؟

عمرو ۔ ماشاء اللہ جب دل ہی نہ ہو تو پھر کیونکر کام ہو۔ دل ہی سارے کاموں کا ذمہ دار ہے۔

ہشام ۔ کیا اس سے بھی کچھ کام نکلتا ہے ؟

عمرو ۔ کیا کہنا ۔ ارے بھائی یہ تو سارے بادشاہ ہے اور یہی بدن کی ساری سلطنت کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

ہشام ۔ کیا اور عضاء سب اس کے محتاج اور تابع فرمان ہیں ؟

عمرو ۔ ہاں بغیر اس کے تو کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا۔

ہشام ۔ جب یہ اعضاء صحیح و سالم ہیں تو دل کے محتاج کیوں ہیں ؟

عمرو ۔ میاں صاحبزادے جب یہ اعضاء کسی بات میں شک کرتے ہیں تو دل ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دل جو حکم کرتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں۔

ہشام ۔ کیا انسان کے بدن میں دل کا ہونا ضروری ہے کہ بغیر اس کے اعضاء کو کسی چیز کا یقین حاصل ہی نہیں ہو سکتا۔

عمرو ۔ ہاں ہاں ضرور ، بغیر اس کے کچھ نہیں ہو سکتا ۔

ہشام ۔ اے عمرو ! جب خدا نے جسم کے چند اعضاء کو بغیر رہنما اور حاکم کے نہیں چھوڑا ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ ساری دنیا کے انسانوں کو بغیر امام چھوڑ دے اور اُن کی ہدایت کا انتظام نہ کرے۔

یہ سن کر عمرو کے ہوش اڑ گئے اور گبھرا کر کہنے لگا۔

عمرو ۔ میاں کیا تم ہشام ہو ؟

ہشام ۔ نام سے کیا مطلب ؟

عمرو ۔ تم کیاں کے رہنے والے ہو ؟

ہشام۔ کوفہ کا باشندہ ہوں۔

عمرو ۔ "تب تو تم ضرور ہشام ہی ہو ۔" یہ کہہ کر جلدی سے اٹھا اور ہشام کو گلے لگا لیا اور مسند پر جگہ دی اور اپنے پہلو میں بٹھایا اور جب تک ہشام وہاں بیٹھے رہے ڈر کے مارے دم نہ مارا اور کوئی بات نہ کی۔

اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ ہر زمانہ میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے۔

بارہ امام

شیعہ اور سنی کی حدیث کی کتابوں میں میں حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بہت سی حدیثیں موجود ہیں جن میں آپ نے فرمایا ہے کہ میرے خلیفہ اور امت کے ہادی بارہ ہوںگے۔ بارہ کی قید کا مطلب یہی ہے کہ امام اور خلیفہ نہ بارہ سے کم ہو سکتے ہیں اور نہ بارہ سے زیادہ۔ آج مسلمانوں میں جتنے فرقے پائے جاتے ہیں ان میں صرف شیعہ اثنا عشری ہی ایسا فرقہ ہے جو بارہ اماموں کو مانتے ہیں ورنہ دوسرے فرقوں کے امام اور خلیفہ یا بارہ سے کم ہیں یا زیادہ ہیں یہی ان کے باطل ہونے کی دلیل ہے۔

شیعہ اثنا عشری اسی لئے کہلاتے ہیں کہ اثنا عشری کے معنی بارہ ہیں اور اثنا عشری شیعہ صرف بارہ اماموں کے ماننے والے ہیں اس دلیل سے شیعہ اثنا عشری کا سچا فرقہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ہم جن بارہ اماموں کو مانتے ہیں ان کے امام ہونے کی بہت سی دلیلیں ہیں۔

پہلی دلیلی ۔

حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ میرے بعد میرے خلیفہ علیؐ ہوںگے اُن کے بعد حسنؐ ان کے بعد حسینؐ ، پھر علیؐ ابن الحسینؐ زین العابدینؐ ۔ ان کے بعد محمدؐ ابن علیؐ الباقرؐ، پھر جعفرؐ ابن محمدؐ الصادقؐ ، ان کے بعد موسیؐ ابن جعفرؐ الکاظمؐ ، پھر علیؐ ابن موسیؐ الرضاؐ ، ان کے بعد محمدؐ ابن علیؐ التقیؐ ، پھر علیؐ ابن محمدؐ النقیؐ ، ان کے بعد حسنؐ ابن علی العسکریؐ ، پھر محمدؐ ابن حسنؐ المہدی ہوںگے۔معلوم ہوا نبیؐ اپنے بارہ اماموں کے نام مع لقب اور باپ کے نام کے بتلا گئے ہیں لہذا ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جب نبیؐ کا بتایا ہوا دین مانا ہے تو انکے بتائے ہوئے اماموں کا بھی اقرار کرے۔

دوسری دلیل ۔

پیغمبر اسلامؐ کی مشہور حدیث ہےاِنِّی تارِکٌ فِیکُمُ الثَّقَلینُ کِتَابَ اللهِ وَ اَهلَبَیتِی مَا اِن تَمَسَّکُتُم بِهِمَا لَن تَضِلُّوا بَعدِی وَ لَن یَّفتَرِقَا حَتَّیٰ یَرِدَا عَلَیَّ الحَوضَ ۔ میں تم میں دو بار عظمت اور گر انقدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جن سے وابستہ رہوگے تو کبھی ہرگز میرے بعد گمراہ نہ ہوگے۔ ایک اللہ کی کتاب ہے دوسرے میری عزتٔ ہے وہی میرے اہلبیت ہیں۔ قرآن مجید اور میرے اہلبیتؐ ایک دوسرے کے ساتھ رہیںگے کبھی خدا نہ ہوںگے۔ حوض کوثر پر دونوں میرے پاس آئیںگے۔

امام اسی لئے ہوتا ہے کہ وہ گمراہاہی کو روک سکے۔ پیغمبرؐ اسلام کے ارشاد کے مطابق قرآن اور اہلبیتؐ گمراہی سے بچانے والے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ قیامت تک قرآن کے ساتھ کوئی امام بھی رہے جو نبیؐ کی عترت یعنی آپ کی اولاد میں سے ہوا اور ہامرے بارہ امامؐ سب کے سب نبیؐ کے اہلبیتؐ اور آپ عترت ہیں۔ اس حدیث سے ہمارے بارہ اماموںؐ کا امام ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ بارہ اماموں کے علاوہ جتنے لوگوں نے خلیفہ یا امام ہونے کا دعویٰ کیا وہ نبیؐ کے اہلبیتؐ نہ تھے۔ لہذا ائمہ اہلبیت علیہم السلام کا امام ماننا ہر صاحب ایمان کے لئے ضروری ہے۔