حضرت علی علیہ السلام کی خلافت
حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے ثبوت میں قرآن مجید کی بہت سی آیتیں ، رسول کریمؐ کی بہت سی حدیثیں اور تاریخ اسلام کے بہت سے واقعات پیش کئے جا سکتے ہیں یہاں پر ان میں سے صرف دو دلیلیں لکھی جاتی ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام کو شیعہ بھی خلیفہ مانتے ہیں اور سنی بھی۔ فرق یہ ہے کہ سنی حضرات آپ کو چوتھا خلیفہ مانتے ہیں اور شیعہ بلا فصل اور پہلا خلیفہ مانتے ہیں۔ سنی اس لئے خلیفہ مانتے ہیں کہ لوگوں نے اپنے تیسرے خلیفہ کے قتل کے بعد آپ کو خلیفہ تسلیم کر لیا تھا اور شیعہ اس لئے خلیفہ مانتے ہیں کہ رسولؐ کریم اپنی زندگی میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بحکم خدا بنا گئے تھے۔
پہلی دلیل ۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کھلی تبلیغ کرنے کا حکم ملا تو آپ نے حکم خدا کے مطابق حضرت علی علیہ السلام کو بھیج کر سب سے پہلے اپنے خاندان کے لوگوں کو بلایا۔ خاندان عبد المطلبؐ کے چالیس آدمی جمع ہوئے۔ حضرت امیرؐ نے رسولؐ کے ارشاد کے مطابق آنے والے مہمانوں کی ضیافت کا بھی انتظام کیا تھا۔ کھانے کی مقدار کم تھی اور کھانے والے زیادہ تھے مگر جب نبی کریمؐ نے دودھ ، روٹی اور گوشت کو پہلے ذرا ذرا سا چکھنے کے بعد مجمع سے کھانے کے لئے کہا تو آپ کی برکت اور آپ کی زبان سے نکلی ہوئی بسم اللہ کے اثر سے تھوڑا کھانا بہت ہو گیا اور کھانے والے کھا کر سیر ہو گئے پھر بھی کھانا بچ رہا۔ جب حضورؐ تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ابو لہب نے آپ کی تقریر سے پہلے یہ کہہ کر مجمع کو بھڑکا دیا کہ ان کی تقریر مت سنو یہ جادوگر ہیں ، تم نے ابھی ابھی دیکھا ہے کہ انھوں نے تھوڑے کھانے کو جادو کے ذریعہ زیادہ کر دیا ہے اگر تقریر سنوگے تو یہ جادو کے ذریعہ تم کو تمہارے مذہب سے منحرف کر دیںگے۔ مجمع یہ سن کر اٹھا اور چلا گیا۔ رسول کریمؐ نے پھر حضرت علی علیہ السلام کو بھیج کر دوسرے دن کے لئے سب کو بلوایا اور کھانے کا بھی انتظام کیا۔ دوسرے دن بھی سب لوگ آئے اور نبیؐ کی برکت سے تھوڑا کھانا بہت ہو گیا۔ سب کے سیر ہونے کے بعد بھی بچ رہا۔ آج ابو لہب نے پھر تقریر میں روکاوٹ ڈالنا چاہی تو جناب ابو طالب علیہ السلام کھڑے ہو گئے اور ابو لہب کو سختی کے ساتھ ڈانٹا اور رسولؐ کریم سے عرض کی کہ اے میرے سردار آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہوں کہئے۔ رسولؐ نے اسلام پیش کیا۔ خدا کی توحید کا پیغام سنایا ، اپنی نبوت کا اعلان کیا اور اس کے بعد فرمایا۔
"جو شخص ہدایت کے کام میں میری مدد کرےگا میں اُسے اپنا بھائی ، وصی اور وزیر مقرر کروںگا۔ وہ میرے بعد میرا خلیفہ اور جانشین ہوگا اس کی اطاعت لوگوں پر میری طرف سے واجب ہوگی۔ "
نبیؐ کی آواز پر کسی نے آواز نہ دی صرف دس سال کے کمسن علیؐ نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ " میں مدد کا وعدہ کرتا ہوں "۔ رسولؐ اسلام نے حضرت علی علیہ السلام کی پشت پر ہاتھ رکھ کر آپ کو مجمع کے سامنے کیا اور یہ اعلان فرمایا کہ۔ انھوں نے میری مدد کا وعدہ کیا ، لہذا یہ میرے بھائی وصی اور وزیر ہیں۔ میرے بعد میرے خلیفہ اور جانشین ہیں میں ان کو اپنی طرف سے حاکم مقرر کرتا ہوں۔ انکی اطاعت تم سب پر واجب ہے۔ ابو لہب نے جل کر جناب ابو طالب علیہ السلام کو طعنہ دیا۔
" محمدؐ تم کو بیٹے کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں" ۔
جناب ابو طالب علیہ السلام نے جواب دیا کہ
" میرا بھتیجا جو بات بھی کہتا ہے وہ بہرحال خیر ہے "۔
اس واقعہ کا نام دعوت ذوالعشیرہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے زندگی بھر اپنی جان اور مال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدد کی اور آپ کے بعد آپ کی پاک نسل یعنی گیارہ اماموںؐ نے دین کی مدد میں اپنی پاکیزہ زندگیاں صرف کیں۔ حضرت امیرؐ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور رسول اللہؐ نے بھی اپنے وعدہ کا ایفا فرمایا۔ حضرت علی علیہ السلام کو اور ان کے بعد ان کی نسل کے گیارہ اماموںؐ کو اپنا نائب ، جانشین اور خلیفہ مقرر کیا۔
یہ کہنا کہ حضورؐ انتقال کے وقت کسی کو خلیفہ بنا کر نہیں گئے بلکہ امت کو خلیفہ بنانے کا حق دے گئے غلط ہے اور رسول اعظمؐ کی پاک اور بے داغ سیرت پر وعدہ خلافی کا الزام بھی ہے۔ کوئی سچا مسلمان اپنے نبیؐ پر وعدہ خلافی کا الزام لگانا پسند نہیں کرےگا۔ لہذا رسولؐ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو بلا فصل خلیفہ ماننا ہر سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے۔
دوسری دلیل ۔
رسالتمابؐ نے اپنے انتقال سے دو مہینے دس دن پہلے اٹھارہ ذی الحجہ ۱۰ ھ کو غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کا مفصل اور مکمل اعلان فرمایا۔ آپ اس وقت آخری حج کر کے مکہ معظمہ سے واپسی تشریف لا رہے تھے آپ کے ساتھ سوا لاکھ حاجیوں کا مجمع تھا۔ جلتی دوپہر میں قافلہ کو روک کر جمع کیا ۔ کجاوون کا ممبر بنوایا اور بحکم خدا حضرت علی علیہ السلام کو لیکر ممبر پر تقریر کے لئے تشریف لے گئے کیونکہ خدا کی طرف سے رسولؐ السلام پر ۔ آیہ تبلیغ نازل ہوئی تھی۔
"اے رسولؐ اس بات کا اعلان کر دو جس کے اعلان کا ہم تم کو حکم دے چکے ہیں۔ اگر یہ اعلان نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا۔ خدا دشمنوں سے آپ کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے"۔
اس حکم خدا کے بعد حضورؐ نے مجمع کے سامنے ایک طولانی تقریر فرمائی جس کے آخر میں ہر مسلمان سے پوچھا کہ تم اپنی جان اور مال کے مالک ہو یا میں تمہاری جان اور مال کا مالک ہوں۔اس سوال کا مقصد یہ تھا کہ تم لوگ اپنے کو اپنا حاکم سمجھتے ہو یا مجھے اپنا حاکم سمجھتے ہو۔
سب نے کہا۔ حضورؐ ! آپ ہمارے حاکم اور ہماری جان و مال کے مالک ہیں۔" نبیؐ نے اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو بازو پکڑ کر پورے جسم سے اٹھا لیا اور فرمایا۔
"جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علیؐ مولا ہیں۔ جس کا میں حاکم ہوں یہ علی بھی اس کے حاکم ہیں "۔پھر آپ نے خدا سے دعا فرمائی۔ کہ تو اسے دوست رکھ جو علیؐ سے محبت کرے اور علیؐ کے ہر دشمن کو اپنا دشمن قرار دے۔ ممبر سے اتر کر سب مسلمانوں کو حکم دیا کہ جاکر علیؐ کی بیعت کرو اور ان کو مومنوں کا حاکم کہہ کر سلام کرو۔ سب نے حکم رسولؐ کی تعمیل کی حضرت عمر نے خصوصی مبارکباد دی کہ کہ آج آپ میرے اور ہر مومن اور مومنہ کے حاکم مقرر ہو گئے۔ اس واقعہ کو واقعہ غدیر کہتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد خدا نے آئیہ اکمال نازل فرمائی جس میں ارشاد ہے۔
"آج کے دن کافر تمہارے دین سے مایوس ہو گیا اب تم ان سے نہ ڈرنا بلکہ صرف مجھ سے ڈرنا۔ آج کے دن میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا تم پر نعمتیں تمام کر دیں اور اسلام کو تمہارے لئے بہ حیثیت دین کے پسند کر لیا۔"
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ نبیؐ نے اپنی عمر کے آخر تک حضرت علی علیہ السلام ٍ کو اپنا جانشین رکھا اور جو حضرت علی علیہ السلام کو نبیؐ کا خلیفہ بلا فصل مانےگا خدا اسی کو دوست رکھےگا۔ جو خلافت بلا فصل مولا علیؐ کا قائل ہوگا اسی کا دین کامل ہوگا خدا کی نعمتیں اسی کو ملیںگی اور خدا اسی کے اسلام کو قبول کرےگا۔