امامیہ دینیات درجہ اوّل (بالغات)

امامیہ دینیات درجہ  اوّل (بالغات)0%

امامیہ دینیات درجہ  اوّل (بالغات) مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال

امامیہ دینیات درجہ  اوّل (بالغات)

مؤلف: تنظیم المکاتب
زمرہ جات:

مشاہدے: 6024
ڈاؤنلوڈ: 2148

تبصرے:

امامیہ دینیات درجہ اوّل (بالغات)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 50 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 6024 / ڈاؤنلوڈ: 2148
سائز سائز سائز
امامیہ دینیات درجہ  اوّل (بالغات)

امامیہ دینیات درجہ اوّل (بالغات)

مؤلف:
اردو

تاریخ

۱ ۔ شخصیتیں

۲ ۔ واقعات

۳ ۔ مقامات

ہمارے ہادی

چودہ معصوم ہمارے ہادی اور رہبر ہیں جنھوں نے بڑی بڑی قربانیاں دے کر دین کو پھیلایا اور بچایا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتے تو آج زمانہ میں دین کا اجالا نہ ہوتا۔ ان کی محبت اور تعظیم ہم سب پر واجب ہے اور ان کے نقش قدم پر چلنا ہم سب کی زندگی کا مقصد ہے۔ ان کی زندگی ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔ ان کی زندگی کے حالات سے واقف اور باخبر ہونا ضروری ہے اس سبق میں ہر معصوم کی زندگی چند واقعات لکھے جاتے ہیں۔

ہمارے رسولؐ :

نبوت کے اعلان سے پہلے بھی تمام لوگ آپ سے محبت کرتے تھے۔ ہر شخص آپ پر بھروسہ کرتا تھا۔عرب جھگڑالو مزاج رکھتے تھے۔ بات بات پر لڑ پڑتے تھے۔ معمولی معمولی باتوں پر چالیس سال جنگ کرتے تھے۔ ہر قبیلہ ہر وقت دوسرےقبیلہ کو نیچا دکھانے کی فکر میں رہتا تھا۔ کوئی قبیلہ دوسرے قبیلہ کی عزت کو بڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مکہ میں جب ہر شخص قبیلہ اور خاندان میں بٹا ہوا تھا اُس وقت بھی ہمارے حضورؐ پورے شہر کی آنکھ کا تارا تھے اور آپ سے تمام قبیلوں کے آدمی یکساں محبت کرتے تھے لوگ آپ کو صادق و امین ، سچا اور امانتدار کہہ کر یاد کرتے تھے۔ خانہ کعبہ کی پرانی عمارت گرا کر نئی بنائی جا رہی تھی۔ ہر قبیلہ کے آدمی اس تعمیر میں حصہ لے رہے تھے اور قبیلہ مطمئین تھا کہ خانہ کعبہ کی عمارت بنانے کا شرف ہم سب کو ملا۔

حجر اسود ایک پتھر ہے جسے بحکم خدا جبرئیلؐ آسمان سے لائے تھے اور وہ خانہ کعبہ کی ایک دیوار میں نصب تھا۔ کعبہ کی نئی عمارت بننے کے بعد جب حجر اسود دوبارہ اس کی جگہ پر نصب کرنے کا وقت آیا تو ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ شرف اور عزت ہم کو مل جائے۔

چناچہ اس سوال پر کہ حجر اسود کون نصب کرے لوگوں کی تلواریں نکل آئیں۔ تھوڑی دیر پہلے جو لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کر رہے تھے وہ اب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ صورت حال بےحد خطرناک ہو گئی اور ہر آن خطرہ تھا کہ جنگ کی چنگاری اڑے اور سارے مکہ کو جلا کر خاک کر دے۔

کچھ سمجھدار لوگوں نے رائے دی کہ آج حجراسود کو نصب نہ کیا جائے بلکہ کل پھر ہم لوگ یہاں جمع ہوں اور جو شخص سب سے پہلے ہماری طرف آتا دکھائی دے اس کو ہم اپنے جھگڑے کا حکم مان لیں اور جو فیصلہ وہ کر دے اسے سب منظور کر لیں۔ یہ رائے پسند کی گئی رات بھر کے لئے تلواریں نیام میں چلی گئیں۔ دوسرے سب لوگ وعدہ کے مطابق جمع ہو گئے۔ دور سے ایک شخص آتا ہوا دکھائی دیا سب کی نظریں آنے والے پر جمی ہوئی تھیں۔ قریب آنے پر معلوم ہوا کہ آنے والے ہمارے نبیؐ تھے۔ آپ کو دیکھ کر مجمع خوشی سے جھوم اٹھا ۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا آپ سے بہتر فیصلہ کرنے والا نہیں مل سکتا۔ حضورؐ نے فیصلہ بھی ایسا فرمایا کہ سب کے دل باغ باغ ہو گئے۔ آپ نے ایک چادر منگائی چادر میں حجراسود رکھا اور ہر قبیلہ کے ایک ایک آدمی کو بلا کر کہا کہ سب مل کر چادر اٹھاؤ۔ سب نے مل کر چادر کو اٹھایا ۔ آخر میں حضور نے چادر سے اٹھا کر حجراسود کو اس کی جگہ پر رکھ دیا سارا مجمع آپ کے گن گاتا ہوا اپنے گھروں کو واپس ہو گیا۔

جناب فاطمہ زہراؐ :

آپ عورتوں کے لئے نمونہ عمل بن کر آئی تھیں جناب فضہ آپ کی کنیز تھیں مگر ہماری شہزادی نے ان کو گھر کا برابر کا درجہ دیا تھا۔ ایک دن خود کام کرتی تھیں اور ایک دن فضہ سے کام لیتیں تھیں۔ اہلبیتؐ کے گھر میں غلام اور آقا کنیز اور مالکہ میں فرق نہیں تھا۔ آپ کے در سے کبھی کوئی سائل خالی ہاتھ واپس نہیں ہوا۔ شادی کے بعد جب آپ باپ کے گھر سے رخصت ہو کر شوہر کے گھر آئیں تو دوسرے دن صبح کو حضورؐ اپنی بیٹی سے ملنے کے لئے حضرت علیؐ کے گھر آئے۔ حضورؐ نے دیکھا کہ جناب فاطمہؐ کے جسم پر شادی کے جوڑے کے بجائے پرانا لباس ہے۔ دریافت فرمایا بیٹی یہ کیا ہے آپ نے فرمایا کہ ایک غریب عورت لباس مانگنے آئی میں نے اسے دیدیا حضور نے فرمایا کہ پرانا لباس کیوں نہ دیدیا۔ عرض کی شادی کا جوڑا مجھے پسند تھا اور خدا نے فرمایا ہے کہ راہ خدا میں ہمیشہ اپنی پسندیدہ اور محبوب چیز دینا چاہئے۔ اس لئے پرانا لباس میں نے پہن لیا اور شادی کے کپڑے راہ خدا میں دیدئے۔

ایک بار حضورؐ بیٹی سے ملنے آئے ۔ آپ کے ساتھ آپ کے نابینا صحابی عبداللہ ابن مکتوم بھی تھے۔ آپ نے گھر میں آنے کی اجازت طلب کی تو جناب فاطمہ زہراؐ نے کہا کہ بابا پہلے میں پردہ کر لوں تب تشریف لائین کیو نکہ آپ کے ساتھ آپ کے صحابی بھی ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا مگر وہ تو نابینا ہیں۔ شہزادیؐ نے عرض کی مگر میں تو ان کو دیکھ سکتی ہوں۔ اس جواب پر حضورؐ نے خوش ہو کر شاہزادیؐ کو دعائیں دیں اور فرمایا میری بیٹی میری نبوت کا ایک حصہ ہے۔

حضرت علیؐ :

آپ بہت بہادر تھے۔ بڑے بڑے سورما آپ کا نام سن کر لرز جاتے تھے۔ آپ نے کئی من وزنی دروازہ جنگ خیبر میں اکھاڑ کر اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیا تھا۔ آپ کبھی خوف زدہ نہیں ہوتے تھے۔ مشکلوں میں گھبرانا آپ جانتے ہی نہ تھے۔ ہر جنگ آپ کے ہاتھ پر فتح ہوئی تھی۔

بہادر وہی ہوتا ہے جو گھبراتا نہیں۔ دنیا میں ایسے بہت سے بہادر گزرے ہیں جنھوں نے بڑے بڑے پہلوانوں کو پچھاڑ دیا ہے۔ مگر ایسے بہادر بہت کم گزرے ہیں جو اپنے نفس کو پچھاڑ دیتے ہوں اپنی خواہشوں کو زیر کر لیتے ہوں۔ اپنے تمناؤں سے جنگ کر لیتے ہوں۔ دشمن سے تلوار لے کر لڑنا چھوٹا جہاد ہے اور دل کی خواہشوں سے جنگ کرنا جہاد اکبر ہے آؤ تم کو حضرت علیؐ کی زندگی کا ایک ایسا واقعہ سنائیں جہاں آپ نے جہاد اکبر اور جہاد اصغر دونوں ایک ساتھ کئے۔

خندق کی جنگ تیسری اسلامی لڑائی ہے۔ اسلام اور نبی کا دشمن مکہ سے چل کر مدینہ کی سرحد تک آ چکا ہے۔ مسلمانوں نے میدان جنگ میں اپنی حفاظت کے لئے خندق کھودی ہے۔ خندق کی وجہ سے دشمن مدینہ میں داخل نہیں ہو سکا۔ خندق کے دونوں طرف دونوں فوجیں آمنے سامنے پڑاؤ ڈالے پڑی ہیں۔ مکہ کا کافر لشکر اپنے ساتھ عرب کا سب سے مشہور پہلوان لایا ہے۔ عربوں کے خیال میں عمرو بن عبدود سے بڑا پہلوان اور بہادر دنیا میں کوئی نہ تھا۔ عمرو کے مقابلہ پر آنے کی ہمت سوائے حضرت علیؐ کے کسی نے نہیں کی مکہ والے اپنے پہلوان کی فتح پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی اس یقین میں انکے ساتھ شریک تھی مگر دونوں لشکر حیرت میں پڑ گئے جب انھوں نے عمرو کے سینہ پر حضرت علیؐ کو بیٹھا دیکھا۔

حضرت علیؐ عمرو کو قتل کرنا چاہتے تھے کہ عمرو نے اپنی ہار سے کھیاکر حضرت پر تھوک دیا۔ اس کی نازیبا حرکت کے بعد فوراً ہی آپ اس کے سینہ سے اُتر آئے۔ جب لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ ایسے زبردست دشمن پر قابو پا کر اس کو آپ نے کیوں چھوڑ دیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ اس کے تھوکنے پر مجھے غصۃ آ گیا تھا۔ میں اس دشمن خدا کو صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے قتل کرنا چاہتا تھا۔ اگر غصہ میں قتل کر دیتا تو جہاد میں وہ خلوص نہ وہ جاتا لہذا میں عمرو کے سینے سے اتر کر پہلے اپنے غصہ سے لڑا اس کے بعد عمرو کو پھر پچھاڑا اور اس کا سر قلم کیا۔ حضورؐ نے اس موقع پر ایک حدیث ارشاد فرمائی تھی کہ " خندق کے دن علیؐ کی تلوار کا ایک وار دونوں جہاں کی عبادت سے افضل ہے۔ "

امام حسنؐ :

آپ بڑے عبادت گزار بہادر اور حلیم تھے۔ آپ کی سخاوت اور خیرات مشہور ہے۔ دو مرتبہ آپ نے اپنے کل مال کا آدھا آدھا حصہ راہ خدا میں لٹا دیا۔ امیر شام آپ کے سخت دشمن تھے۔ آپ کی سخاوت کا شہرہ سن کر دل میں جلتے رہتے تھے۔ ایک بار امیر شام نے آپ کو خط میں زیادہ خیرات کرنے سے روکتے ہوئے لکھا۔ " فضول خرچی میں بھلائی نہیں ہے ۔" آپ نے جواب میں امیر شام کا جملہ الٹ دیا اور اس کو لکھا ۔ " خیرات فضول خرچی نہیں ہے۔"

آپ کا سخاوت کو دیکھ کر کسی نے آپ کو مشورہ دیا کہ خیرات و سخاوت کم کیجئے۔ آنے والے کسی سخت وقت کے لئے مال و دولت بچا کر رکھئے۔ آپ نے فرمایا تمہارا مشورہ غلط ہے کیوں کہ اب تک اللہ مجھے دیتا ہے میں اس کے بندوں کو دیتا ہوں اگر میں اپنی عادت بدل دوں اور خدا کے بندوں کو عطئے دینا بند کروں تو یہ بھی ممکن ہے کہ خدا بھی اپنی عادت بدلے اور مجھے رزق دینا بند کر دے۔

آپ نے مسلمانوں میں خونریزی بند کرنے کے لئے امیر شام سے صلح کر لی جبکہ آپ کے بہت سے جوشیلے ساتھیوں کو صلح ناپسند تھی مگر آپ نے فرمایا موجودہ حالت میں جنگ کرنا خودکشی ہے۔ ایمان کی حفاظت کے لئے اس وقت صلح کرنا ضروری ہے۔ آپ صلح پر آخر تک قائم رہے اور لوگوں کی مذمت اور ملامت کی کوئی پرواہ نہیں کی جو لوگوں کی تنقید سے ڈر کر راستہ بدل دے وہ بزول ہے۔ بہادر وہی ہے جو حق کا راستہ نہ چھوڑے اور لوگوں کی رائے سے ڈر کر سچ سے منہ نہ موڑے۔

امام حسینؐ :

ہم آپ چاہے غلطی کو دیکھ کر خاموش رہیں لیکن ہادی اور امام کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ غلطی دیکھ کر آگے بڑھ جائے۔ امام حسنؐ امام حسینؐ بچپن میں ایک دن مدینہ کی کسی گلی سے گزر رہے تھے۔ رستہ میں ایک بوڑھا آدمی غلط وضو کر رہا تھا۔ اس کے غلط وضو کو دیکھ کر دونوں شاہزادے رک گئے اور فرمایا کہ ہم دونوں وضو کرتے ہیں آپ دیکھ کر بتائیں کہ کس کا وضو غلط ہے۔ بوڑھا دونوں کو وضو کرتا دیکھتا رہا۔ جب دونوں کے وضو ختم ہو گئے اور بوڑھے نے دیکھا کہ دونوں نے ایک وضو کیا تو سمجھ گیا کہ شاہزادے میرے غلط وضو کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ بڑے ادب سے بولا شاہزادو ! میں ہمیشہ تمہارا شکر گزار رہوںگا کہ بڑھاپے میں تم نے میرے وضو کو درست کر دیا۔

جب امام حسینؐ ایک شخص کے غلط وضو کو دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتے تھے اور جب تک اس کی اصلاح نہ کر لی آگے نہیں بڑھے تو جب دین کو یزید مٹا دینا چاہتا تھا تو کیونکر ممکن تھا کہ آپ خاموش بیٹھے رہتے۔ آپ نے یزید کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اس راہ میں آپ کو عظیم مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سارے ساتھی ، پورا کنبہ بھوکا پیاسا فرات کے کنارے شہید ہو گیا جو بچ رہے تھے وہ قیدوبند کی سخت ترین تکلیفیں جھیلتے رہے مگر آپ نے ہدایت کے لئے سب کچھ برداشت کر لیا۔ یزید ختم ہو گیا یزیدیت اپنی موت مر گئی۔ اسلام زندہ ہو گیا اور حسین کا ذکر عام ہو گیا۔

امام زین العابدینؐ :

آپ بڑے عبادت گزار تھے۔ اتنی نمازیں پڑھتے تھے کہ پیروں پر ورم آ جاتا تھا۔ سجدوں کی کثرت سے پیشانی اور سجدہ میں زمین پر ٹکنے والے دوسرے اعضا پر گھٹے پڑ جاتے تھے جو تراشے جاتے تھے۔ آپ نے اتنی عبادت کی تھی کہ سجدہ کے گٹھوں کے تراشے سے دو تھیلیاں بھر گئی تھیں۔ آپ راتوں کو پوشیدہ طور پر مدینہ کے غریب گھروں میں کھانے کا سامان اپنی پیٹھ پر لاد کر پہونچایا کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ کی پیٹھ پر سخت گٹھا پڑ گیا تھا۔

جن غریبوں تک سامان پہونچایا کرتے تھے ان کو معلوم بھی نہ تھا کہ کون اللہ کا بندہ ان کی خبر گیری کرتا ہے۔ جب آپ کی شہادت ہو گئی اور سامان کا آنا بند ہو گیا تب لوگوں کو پتہ چلا کی غریبوں کی غائبانہ مدد کرنے والے امام زین العابدین علیہ السلام تھے۔

صحیفہ کاملہ آپ کی دعاؤں کا مجموعہ ہے جسے زبور آل محمدؐ بھی کہا جاتا ہے۔

امام محمد باقرؐ :

آپ واقعہ کربلا موجود تھے۔ اس وقت آپ کا سن پانچ برس کا تھا سب کے ساتھ آپ قیدی بنا کر کوفہ اور دمشق لے جائے گئے۔

جب یزید نے امام زین العابدین علیہ السلام کے قتل کا حکم دیا تو آپ نے فرمایا کہ جناب موسیٰ بھی معصوم تھے اور میرے باپ بھی معصوم ہیں فرعون جناب موسیٰ کو قتل کرنے پر راضی نہیں ہوا نہ اس کے درباری اس بات پر راضی تھے کیونکہ وہ ناجائز اولاد نہیں تھے لیکن اے یزید تو اور تیرے درباری معصوم کے قتل کرنے پر اس لئے روضی اور تیار ہیں کہ تم سب ناجائز اولاد ہو اس لئے کہ صرف ایسے ہی لوگ معصوم کے قتل کرنے پر راضی ہو سکتے ہیں جو ناجائز اولاد ہوں۔ یزید یہ سن کر خاموش ہو گیا اور اس نے قتل کا ظالمانہ حکم واپس لےلیا۔

آپ کے سامنے ایک بار ایک شخص نے ایک کافر کی میت کی کھوپڑی پیش کر کے سوال کیا کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ کافر پر مرنے کے بعدعذاب ہوتا ہے مگر یہ عقیدہ غلط ہے کیونکہ یہ کافر کی کھوپڑی ہے مگر نہ جل رہی ہے نہ اس پر عذاب ہو رہا ہے۔ امامؐ نے چقماق کے دو پتھر منگوائے۔ چقماق اس پتھر کو کہتے ہیں جن کے ٹکرانے سے آگ پیدا ہو جاتی ہے۔ پہلے لوگ چقماق ہی سے دیا سلائی کے بجائے آگ جلایا کرتے تھے۔ غرض کہ امامؐ نے پتھر منگا کر اس شخص کو دئے اور کہا ان کو ایک دوسرے سے ٹکراؤ جب ٹکرانے پر آگ نکلی تو آپ نے فرمایا بتاؤ پتھر گرم ہے یا نہیں۔ اس نے کہا پتھر تو ٹھنڈا ہے۔ امامؐ نے فرمایا جو خدا اس پر قادر رہے کہ اس پتھر کو ٹھنڈا رکھے مگر اس کے اندر آگ بھ دے وہ خدا اس پر بھی قادر ہے کہ یہ کھوپڑی اوپر سے ٹھنڈی رہے مگر اس کے اندر عذاب کی آگ بھری ہو۔ آپ کا جواب سن کر وہ مطمئین ہو گیا۔

امام جعفر صادقؐ :

آپ کے زمانہ میں علم دین کا چرچہ خوب پھیلا پورے ملک سے علماٗ سمٹ کر مدینہ آ گئے تھے چار ہزار آدمی ہر وقت قلم دوات لئے تیار رہتے تھے کہ جب بھی آپ کچھ فرمائیں وہ لوگ اُسے لکھ لیں۔

آپ کے زمانہ میں بنی امیہ کی حکومت ختم ہوئی اور بنی عباس کی حکومت قائم ہوئی۔ بنی عباس نے لوگوں کو امام حسینؐ کے خون ناحق کے نام پر بنی امیہ کے خلاف ابھارا تھا اس زمانہ میں جب لوگ اہلبیتؐ کی محبت کا چرچا کیا کرتے تھے خراسان کا ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا جب آپ کی حمایت و مدد کرنے والے صرف خراسان میں ایک لاکھ موجود ہیں تو اپنا حکومت کا حق کیوں نہیں حاصل کر لیتے۔ یہ سن کر آپ نے اس شخص سے کہا کہ بھڑکتے ہوئے تنور میں کود جاؤ۔ وہ شخص یہ سنکر لرز اٹھا اور التجا کرنے لگا کہ آپ اپنا حکم واپس لے لیں۔ اُسی وقت جناب ہارون مکی امام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے ہارون مکی سے بھی تنور میں کود جانے کے لئے کہا اور ہارون فوراً کود گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ اس شخص کو لیکر تنور تک قریب آئے۔ سب نے دیکھا ہارون تنور میں بیٹھے ہوئے ذکر خدا کر رہے ہیں اور آگ بالکل نقصان نہ پہونچا سکی۔

امام علیہ السلام نے اس شخص سے دریافت فرمایا ۔" بتاؤ خراسان میں ایسے ماننے والے کتنے ہیں " اس نے کہا ایک بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا آیندہ کبھی اپنے امام کو مشورہ نہ دینا۔

امام مویٰ کاظمؐ :

آپ بہت حلیم اور بردبار تھے۔ ایک بار ایک کنیز کے ہاتھ سے گرم سالن کا پیالہ چھوٹ کر آپ کے اوپر گر پڑا۔ کنیز خوف زدہ ہو گئی اور اس نے برحبستہ قرآن مجید کا ایک فقرہ پڑھا جس میں ان لوگوں کی مدح خدا نے کی ہے جو غصہ ضبط کرتے ہیں امام علیہ السلام نے سن کر فرمایا میں نے غصہ کو ضبط کیا۔ پھر کنیز نے آیت کا وہ حصہ پڑھا جس میں خدا نے معاف کرنے والوں کی تعریف کی ہے۔ امام نے فرمایا میں نے تجھے معاف کیا۔ کنیز نے آخر میں آیت کا وہ حصہ پڑھا جس میں اللہ نے کہا ہے کہ میں ان لوگوں کو دوست رکھتا ہوں جو احسان کرتے ہیں۔ امام علیہ السلام نے یہ سن کر اس کنیز کو آزاد فرما دیا۔ آپ حلم میں اتنا مشہور ہوئے کہ کاظم آپ کا لقب پر گیا۔

امام علی رضاؐ :

آپ کے زمانہ میں شیعہ مذہب نے بہت ترقی کی۔ حکومت آپ سے ڈرتی تھی۔ جب مامون نے جو اس وقت خلیفہ تھا آپ کو دار الحکومت میں طلب کیا تو راستہ میں آپ بہت سے مقامات سے گزرے۔ ہر جگہ لوگ جوق در جوق آپ کی زیارت کے لئے جمع تھے اور آپ سے دین کی باتیں پوچھتے تھے۔ اس سفر میں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک شخص ابو جیب نے خواب دیکھا کہ رسولؐ خدا ان کی بستی میں تشریف لائے ہیں۔ ابو جیب مشتاق زیارت ہو کر حضور کی قیام گاہ کا پتہ پوچھتے ہوئے نکلے۔ ان کو معلوم ہوا کہ حضورؐ اس مسجد میں ہیں جہاں حاجی اترتے ہیں۔ ابو جیب نے مسجد میں جا کر دیکھا۔ حضورؐ مسجد کی ایک محراب میں تشریف فرما ہیں۔ ابو جیب نے سلام کیا حضورؐ نے جواب سلام دے کر ایک مٹھی کھجوریں ابو جیب کو دیدیں جو اٹھارہ تھیں۔ ابو جیب نے اس خواب کی تعمیر یہ سمجھی کہ ان کی عمر میں اٹھارہ سال باقی ہیں۔ اس کے بعد امام رضا علیہ السلام ان کی بستی سے گزرے۔ ابو جیب مشتاق زیارت ہو کر نکلے تو امام کو اسی مسجد میں اُسی جگہ بیٹھتے دیکھا جہاں حضورؐ کو بیٹھے دیکھا تھا۔ امامؐ کے سامنے بھی ایک طبق میں خرمے رکھے تھے۔ ابوجیب نے سلام کیا۔ امامؐ نے سلام کا جواب دے کر ایک مٹھی خرمے دیدئے۔ ابوجیب نے جب اُنکو گنا تو وہ بھی اٹھارہ خرمے تھے۔ ابو جیب نے کہا مولاؐ کچھ اور بھی مرحمت فرمائے۔ امام علیہ السلام نے جواب دیا اگر میرے جد نے زیادہ خرمے دئے ہو تو میں بھی زیادہ دیتا۔

امام محمد تقیؐ :

آپ کے علم کا رعب و دبدبہ بچپنے سے ہی سب پر قادر ہو گیا تھا۔ ایک مرتبہ آپ بغداد کے ایک راستہ پر کھڑے تھے اور آپ کے علاوہ بچے کھیل رہے تھے۔ اس راستہ سے مامون بادشاہ عباسی کی سواری گزری، بادشاہ کی سواری دیکھ کر تمام بچے بھاگ گئے مگر آپ اپنی جگہ پر نہایت اطمینان سے کھڑے رہے۔ مامون کو امام علیہ السلام کا یہ اطمینان دیکھ کر بہت تعجب ہوا۔ اس نے آپ سے بچوں کے ساتھ نہ بھاگنے اور کھڑے رہنے کی وجہ پوچھی۔ آپ نے فرمایا کہ رستہ کشادہ تھا اس لئے ہٹنے کی ضرورت نہ تھی۔ میں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے خوف زدہ ہو کر بھاگ جاتا اور تو بے سبب مجھے ستائےگا یہ بدگمانی میں نے تیری طرف سے نہیں کی۔ پھر کیوں چلا جاتا اور کھڑا نہ رہتا مامون کو آپ کی گفتگو سن کربےحد تعجب ہوا اس نے آپ کا نام پوچھا آپ نے فرمایا میں امام علی رضاؐ کا بیٹا محمدؐ ہوں۔

جب مامون اسی راستے سے واپس ہوا تو امام بھی اسی راستہ پر پہلے کی طرح کھڑے رہے اور تمام بچے بھاگ گئے۔ مامون نے مٹھی بند کر کے پوچھا بتاؤ میرے ہاتھ میں کیا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا خدا دریاؤں میں مچھلی پیدا کرتا ہے۔ بادشاہوں کے باز ان کا شکار کر کے لاتے ہیں اور بادشاہ مچھلی کو ہاتھ میں چھپا کر ہم اہلبیتؐ کا امتحان لیتا ہے۔ مامون نے کہا بیشک آپ علی رضاؐ کے بیٹے ہیں۔ بادشاہ امامؐ کو اپنے ساتھ لایا اور اپنی بیٹی کا نکاح آپ سے کر دیا۔ لوگوں نے مامون کی مذمت کی کہ ایک بچے سے اپنی بیٹی کا نکاح کیوں کرتے ہو۔ مامون نے اس وقت کے تمام علماٗ کو جمع کیا اور امامؐ سے مناظرہ کرایا۔ امام علیہ السلام نے سب کو لاجواب کر دیا اور سارے زمانے پر آپ کے حکم کا سکہ بیٹھ گیا۔

امام علی نقیؐ :

آپ کی سخاوت ، عبادت ، اور علم کا شہرہ دور دور تک پھیلا تھا۔ حکومت آپ کے بڑھتے ہوئے اثر سے خوف زدہ رہتی تھی ۔ ایک مرتبہ ایک عورت نے یہ دعویٰ کر دیا کہ میں جناب فاطمہؐ کی بیٹی زینبؐ ہوں۔ غائب ہو گئی تھی اب ظاہر ہوئی ہوں۔ خلیفہ اس کے جھٹلانے سے عاجز تھا۔ آخر مجبور ہو کر امامؐ سے مدد مانگی۔ آپ نے فرمایا کہ جناب فاطمہؐ کی اولاد کو درندے نہیں کھا سکتے لہذا اس عورت کو درندوں کے سامنے ڈال دیا جائے حقیقت معلوم ہو جائےگی۔ اس عورت کے سامنے جب یہ بات پیش کی گئی تو اس نے خود ہی اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار کر لیا۔ لوگوں نے خلیفہ کو مشہور دیا کہ امام علی علیہ السلام بھی تو جناب فاطمہ زہراؐ کی اولاد ہیں ان ہی کے قول کے مطابق ان کو بھی درندوں کے سامنے آنے کے لئے کہا جائے چناچہ خلیفہ نے آپ کے سامنے یہ بات پیش کی۔ وہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ درندے آپ کو نقصان پہونچائیں گے۔ مگر آپ تیار ہو گئے۔ امامؐ اس مکان میں تشریف کے گئے۔ خلیفہ اپنی چھت سے یہ نظر دیکھ رہا تھا کہ درندے نکلے اور امامؐ کے قدموں پر منہ ملنے لگے۔ سب یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔

امام حسن عسکریؐ :

آپ بھی اپنے معصوم بزرگوں کی طرح دین کی حفاظت فرماتے رہے۔ آپ کے زمانہ میں ایک مرتبہ قحط پڑا۔ مسلمان نماز استقاٗ پڑھ کر دعا مانگ چکے تھے مگر پانی کو نہ برسنا تھا نہ برسا۔ لوگ حیران و پریشان تھے اُسی وقت ایک عیسائی راہب نکلا۔ وہ جس وقت دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا تھا اُسی وقت پانی برسنے لگتا تھا۔ مسلمانوں میں بڑی بےچینی پھیل گئی جس کے دور کرنے کا کوئی ذریعہ حکومت کے پاس نہ تھا۔ عزت بچانے کے لئے حکومت امامؐ سے مدد لینے پر مجبور ہوئی۔ آپ تشریف لائے اور راہب نے جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو آپ نے اپنے صحابی سے فرمایا جو چیز اس کی انگلیوں کے درمیان ہے اسے نکال لو۔ جو چیز نکالی گئی وہ ایک ہڈی تھی۔ آپ نے فرمایا یہ کسی نبی کے جسم کی ہڈی ہے۔ جب بھی اس کو زیر آسمان برہنہ کیا جائےگا پانی برسنے لگےگا۔ آپ نے اس ہڈی کو دفن کر دیا پھر خود نماز استقاٗ پڑھ کر دعا فرمائی۔ پانی برسا اور خوب برسا کہ زمین جل تھل ہو گئی اور لوگ نہال ہو گئے۔

بارہویں امامؐ

جناب ابراہیمؐ اور جناب موسیؐ کی طرح زمانے کے ظالم آپ کی پیدائش سے پہلے ہی آپ کے دشمن تھے اور چاہتے تھے کہ آپ پیدا نہ ہونے پائیں کیونکہ وہ سب جانتے تھے کہ آپ ظاہر ہو کر دنیا سے ہر ظالم کے ظلم کو مٹا دیں گے۔ اسی وجہ سے ہر ظالم آپ کے پیدا ہونے سے ڈرتا تھا۔ خدا وند عالم نے آپ کی حفاظت کا یہ انتظام فرمایا کہ جناب نرجس خاتون کے یہاں آثار حمل ظاہر ہی نہیں ہوئے اور کسی کو ولادت سے پہلے پتہ نہ چل سکا کہ کہ جناب نرجس خاتون کی گود امام زمانہؐ سے آباد ہونے والی ہے۔ آپ کی پرورش بھی پوشیدہ طور پر ہوتی رہی۔ ابھی آپ کا سن مبارک چار سال کا تھا کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ گیارہویں امامؐ کی شہادت کے بعد آپ لوگوں کی نظر سے پوشیدہ رہتے تھے۔ صرف آپ کے نائب آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور ان کے ذریعہ مسائل کے جواب ملتے تھے۔ ستر سال کے بعد جب غیبت صغریٰ کی مدت پوری ہو گئی اور حضرت کے چوتھے نائب کا بھی انتقال ہو گیا تو آپ نے اعلان فرمایا کہ اب کوئی میرا نائب نہیں ہے اور اس وقت سے غیبت کبریٰ کا دور شروع ہو گیا۔ غیبت کبریٰ کے زمانہ میں بھی بہت سے خوش نصیب افراد کو حضرت کی زیارت نصیب ہوتی رہتی ہے۔

نوٹ : بچوں کو یہ سبق اس طرح پڑھایا جائے کہ واقعات ذہن نشین ہو جائے۔

ذوالعشیرہ کا واقعہ

جب پروردگار عالم نے رسولؐ خدا کو کھل کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا اور یہ ہدایت کی کہ اسے رسولؐ سب سے پہلے قریبی رشتہ داروں میں تبلیغ کیجیئے تو حضرت علیؐ کو رسولؐ خدا نے خاندان عبد المطلبؐ کے تمام مردوں کے پاس یہ پیغام لے کر بھیجا کہ میرے چچازاد بھائی محمد مصطفےٰ نے تم کو دعوت میں بلایا ہے۔ دوسرے دن چالیس آدمی حضرت کے پاس آئے۔ آپ نے پہلے سب کو کھانا کھلایا اور کھانے کے بعد تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے۔ لیکن ابو لہب کے بھڑکانے پر تمام لوگ تقریر سنے بغیر چلے گئے ۔آپ نے حضرت علیؐ کو بھیج کر دوسرے دن پھر سب کو بلایا اور پہلے کھانا کھلایا پھر سب کے سامنے اسلام کو پیش کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کون شخص ہدایت کے کاموں میں میری مدد کرنے پر تیار ہے۔ جو شخص میری مدد کرےگا وہ میرا بھائی ، وصی ، وزیر اور خلیفہ ہوگا اور لوگوں پر میری طرف سے حاکم ہوگا۔

حضرت علیؐ فوراً کھڑے ہو گئے اور آپ نے رسولؐ خدا کی مدد کا وعدہ کیا۔ رسولؐ خدا نے فرمایا کیونکہ علیؐ نے میری مدد کا وعدہ کیا ہے لہذا یہ میرے بھائی ، وصی ، وزیر اور خلیفہ ہیں اور میری طرف سے تم لوگوں پر حاکم ہیں۔ ان کے احکام کو سنو اور ان کی اطاعت کرو۔

اس واقعہ کا نام دعوت ذوالعشیرہ ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولؐ خدا نے حضرت علیؐ کو تبلیغ کے پہلے دن ہی اپنا خلیفہ مقرر کر دیا تھا اور سب لوگوں پر آپ کی اطاعت واجب کر دی تھی۔

غدیر خم

پیغمبرؐ اسلام کی زندگی کا آخری زمانہ ہے۔ آپ ّآخری حج کے لئے مکہ معظمہ کی طرف تشریف لے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں میں یہ خبر عام ہو چکی ہے۔ دنیا کے ہر گوشے سے مسلمان اللہ کے گھر کا طواف کرنے اور حضور کی زیارت کے شوق میں جوق در جوق چلے آ رہے ہیں۔

حج کا وقت آتے آتے مکہ معظمہ میں لاکھوں مسلمان جمع ہو گئے اور حضورؐ کے ساتھ حج کے اعمال بجا لائے۔ حج سے فارغ ہونے کے بعد حضورؐ نے مدینہ کا رخ کیا۔ مسلمانوں کے قافلے آپ کے ساتھ چلے۔ ہر دل میں شوق ہے کہ جتنا وقت بھی حضورؐ کی خدمت میں گزر جائے اپنی خوش قسمتی ہے۔

چلتے چلتے قافلہ غدیر خم کے چوراہے پر پہونچ گیا جہاں سے قافلوں کے رستے الگ الگ ہو جاتے تھے۔ مسلمان اپنے اپنے راستہ جانا ہی چاہتے تھے کہ جبرئیل امین خدا کا پیغام لےکر حضورؐ کی خدمت میں پہونچ گئے۔ " میری رسولؐ اُس پیغام کو پہونچا دو جو ہم پہلے تمہیں بتا چکے ہیں اور اگر یہ پیغام تم نے نہیں پہونچایا تو گویا رسالت کا کوئی کام ہی نہیں کیا۔ میرے رسولؐ ! پیغام کے پہونچانے میں گھبرانا نہیں ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار ہیں "۔

یہ حکم سنتے ہی حضورؐ نے قافلہ کو رکنے کا حکم دیا۔ جو مسلمان آگے بڑھ گئے تھے وہ واپس بلائے گئے جو پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظار کیا گیا۔ یہاں تک کہ سوا لاکھ کلمہ پڑھنے والوں کا مجمع ہو گیا۔ حضورؐ کے حکم سے اونٹوں کے کجاؤوں کا ممبر تیار کیا گیا اور آپ اس پر تشریف لے گئے اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد مجمع سے سوال کیا۔ مسلمانوں بتاؤ ۔ کیا میں تمہارا حاکم نہیں ہوں ؟ سارے مجمع نے یک زبان ہو کر اقرار کیا کہ حضورؐ ہی ہمارے حاکم ہیں ۔ اس اقرار کے بعد حضورؐ نے امیر المومنین علی بن ابطالب علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کیا اور فرمایا یاد رکھو جس کا میں حاکم ہوں اس کا یہ علیؐ حاکم ہیں ۔"

اس واقعہ کو واقعہ غدیر خم کہا جاتا ہے جو ا ۱۸/ ذی الحجہ ۱۰ ھ؁ کو پیش آیا۔ جس کے بعد حضورؐ صرف دو مہینے دس دن زندہ رہے اور ۲۸/ صفر ۱۱ ھ؁ کو رحلت فرمائی۔

چند واقعات

شب ہجرت :

جب کفار مکہ نے قتل کرنے کی نیت سے رات کو رسولؐ کے گھر کو گھیر لیا تو آپ نے حکم خدا سے ہجرت کی گھر چھوڑا ور غارثور میں پناہ لی اور وہاں سے مدینہ تشریف لائے۔ جب آنحضرتؐ گھر سے چلے تو حضرت علیؐ کو اپنے بستر پر لٹا دیا تاکہ دشمن رات بھر یہ سمجھتے رہیں کہ رسولؐ گھر میں موجود ہیں۔ حضرت علیؐ کھنچی تلواروں میں بڑے چین کی نیند سوئے۔ خدا نے جبرئیلؐ اور میکائیلؐ کو آپ کی حفاظت اور پہرے کے لئے بھیجا اور آیت اتار کر اعلان کیا کہ علیؐ نے میری خوشنودی کے لئے اپنا نفس میرے ہاتھ بیچ ڈالا۔ اسی لئے حضرت علیؐ کو نفس اللہ کہتے ہیں۔

آئیہ ولایت :

ایک شخص نے رسولؐ کی مسجد میں آکر سب نمازیوں سے سوال کیا مگر کسی نے کچھ جواب نہ دیا جب وہ واپس جا رہا تھا تو حضرت علیؐ نے انگلی ہلاکر انگوٹھی اتارنے کا اشارہ کیا۔ آپ اس وقت رکوع میں تھے۔ خدا نے آیت اتاری۔ " تمہارا ولی صرف اللہ ہے اور اللہ کا رسولؐ ہے اور وہ ایمان والے ہیں٘ جو نماز پڑھتے ہوئے حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔ " اس آیت کا نام آیہ ولایت ہے۔

آئیہ تطہیر :

ایک دن رسولؐ جناب فاطمہؐ کے گھر تشریف لائے اور ایک یمنی چادر اوڑھ کر لیٹ رہے۔امام حسنؐ امام حسینؐ ، حضرت علیؐ اور جناب فاطمہؐ یکے بعد دیگرے اجازت لے کر چادر میں داخل ہوئے۔ خدا نے ملائکہ سے کہا کہ میں نے دنیا اور اس کی ہر چیز ان پنجتنؐ کی محبت میں پیدا کی ہے اور اسکے بعد جبرئیلؐ کو ایک آیت لے جانے کا حکم دیا۔ جبرئیلؐ نے چادر میں داخل ہو کر آیہ تطہیر سنائی جس میں خدا نے کہا کہ " اے اہلبیتؐ اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ ہر برائی کو تم سے دور رکھے اور کمال سے تم کو اتنا آراستہ و پیراستہ رکھے جو آراستہ کرنے کی آخری حد ہے ۔" اس ّآیت کا نام آیہ تطہیر ہے۔ کساٗ کے معنی چادر کے ہیں اس لئے اس روایت کا نام حدیث کساٗ ہے۔ اور اسی وجہ سے پنجتن پاک کو اصحاب کساٗ کہا جاتا ہے۔

آیہ مودّت :

ایک بار امام حسنؐ اور امام حسینؐ بیمار ہوئے رسولؐ کے ارشاد کے مطابق ماں باپ نے بچوں کی صحت کے لئے تین روزوں کی نذر مانی۔ صحت ہو جانے پر حضرت علیؐ ، جناب فاطمہ نے روزے رکھے۔ دونوں شہزادے بھی روزے سے رہے اور گھر کی کنیز نے بھی روزہ رکھا۔ تینوں دن جب یہ لوگ روزہ کھولنے بیٹھتے تھے تو کوئی نہ کوئی سائل آجاتا تھا۔ سب لوگ اپنی اپنی روٹیاں مانگنے والے کو دیدیتے تھے اور پانی سے روزہ افطار کر کے سو رہتے تھے۔ چوتھے دن جب رسالتمابؐ ملنے آئے تو کمزوری اور بھوک کی شدت سے دونوں شہزادے کانپ رہے تھے حضورؐ نے دعا فرمائی اُسی وقت جنت سے سب کے لئے کھانا آیا اور خدا نے سورہ دہر بھی نازل فرمایا جس میں اہلبیتؐ کے اس ایثار قربانی اور خیر خیرات کی بہت تعریف کی گئی۔

مباہلہ :

نجران کے عیسائی رسولؐ کے پاس مذہبی بحث کرنے آئے کیونکہ حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں اس لئے وہ خدا کے بیٹے ہیں۔ جواب میں رسولؐ نے قرآن کی آیت کا حوالہ دیا کہ حضرت آدمؐ اگر بغیر ماں باپ کے پیدا ہو سکتے ہیں تو حضرت عیسیٰؐ بغیر باپ کے کیاں پیدا نہیں ہو سکتا۔ مگر جب وہ دلیلوں سے قائل نہ ہوئے تو خدا نے آیت اتاری کہ " اے پیغمبرؐ کھلی دلیلوں کے بعد بھی جو حق نہیں مانتا اس سے کہئے کہ تم اپنے بچوں ، عورتوں اور نفسوں کو لے آؤ ، میں بھی اپنے بچوں ، عورتوں اور نفسوں کو لے کر آتا ہوں۔ پھر ہم سب جمع ہو کر مباہلہ کریں تاکہ جھوٹے پر خدا کا عذاب نازل ہو۔ رسولؐ مباہلہ میں اس طرح آئے کہ گود میں امام حسینؐ تھے۔ انگلی پکڑ کر امام حسنؐ چل رہے تھے نبیؐ کے پیچھے جناب فاطمہؐ تھیں اور آپ کے پیچھے حضرت علیؐ تھے۔ آپ نے سب کو بٹھلا کر کہا کہ جب میں میں بد دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا۔ عیسائی مباہلہ کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ان کے عالموں نے کہا رسولؐ اپنے ساتھ ایسے لوگوں کو لے کر آئے ہیں کہ وہ جو بھی کہہ دیں گے وہ بات ہو کر رہےگی لہذا سالانہ کچھ دینے کا وعدہ کر کے عیسائیوں نے صلح کر لی۔ اس واقعہ کا نام مباہلہ ہے۔ نبیؐ بچوں میں صرف حسنینؐ کو عورتوں میں صرف جناب فاطمہؐ کو اور نفسوں میں صرف حضرت علیؐ کو لے کر آئے تھے اسی وجہ سے حضرت علیؐ کو نفس رسولؐ کہا جاتا ہے۔

مکہّ ۔ مدینہ

مکہّ ۔ مدینہ ۔ سعودی عرب کے دو مشہور شہر ہیں۔ مسلمانوں میں ان دونوں شہروں کی بیحد اہمیت ہے۔ مکہّ میں اللہ کا گھر کعبہ ہے جسے اللہ کے دو نبی جناب ابراہیمؐ اور جناب اسمعیلؐ نے مل کر تعمیر کیا تھا۔ اس کی تعمیر میں کسی غیر معصوم کا حصہ نہ تھا۔ جناب ابراہیمؐ اور جناب اسمعیلؐ اس کی دیواروں کو بلند کر رہے تھے اور جبرئیل امین ان دونوں کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ اسی کعبہ کی ایک دیوار میں حجر اسود نصب ہے جو ایک جنتی پتھر ہے۔ کعبہ کی تاریخ کا سب سے مشہور واقعہ یہ ہے کہ جناب فاطمہ بنت اسدؐ اسی کعبہ کی دیوار کے قریب دعا کر رہی تھیں دیوار شق ہوئی اور آپ اندر تشریف لے گئیں اور وہیں مولائے کائنات حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی۔

ہمارے رسول جناب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسی مکہّ میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے خاندان کے بزرگوں میں جناب عبد المطلب ، جناب ابو طالب کی قبریں اسی مکہ میں ہیں جسے جنت المعلیٰ کہا جاتا ہے۔ رسول کریمؐ کو مکہ سے بےحد محبت تھی۔ جب آپ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو برابر مکہّ کے حالات دریافت کیا کرتے تھے اور اپنے وطن میں پلٹ کر آنے کے خواہشمند تھے یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو موقع دیا اور آپ ۸ ھ؁ میں اپنے اصلی وطن میں ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے۔

مدینہ منورہ ۔ نبی کریمؐ کا حرم کہا جاتا ہے۔ یہاں حضورؐ کی قبر مطہر ہے۔ ہجرت کے بعد حضورؐ نے اسی مدینہ میں آ کر قیام فرمایا تھا۔ اہل مدینہ نے آپ کا بڑا زبردست استقبال کیا تھا۔ اس موقع کا مشہور واقعہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے اونٹ کو آزاد کر کے یہ اعلان کر دیا تھا کہ جس کے دروازے پر اونٹ بیٹھ جائے گا میں اسی کے مکان میں قیام کروں گا۔ اونٹ حضرت ابو ایوب انصاری کے دروازے پر ٹھہرا اور آپ نے انھیں کے یہاں قیام فرمایا۔

مدینہ آنے پر جہاں اہل مدینہ نے آپ کی حمایت کی وہاں کفار مکہّ برابر آپ پر حملہ کرتے رہے اور آپ کو چند سال کے اندر بہت سی لڑائیاں لڑنا پڑیں۔ ۲۸/ صفر ۱۱ ھ؁ کو آپ نے اسی مدینہ میں انتقال فرمایا اور یہیں دفن ہوئے۔ اب یہ مدینہ "مدینہ منورہ " اور " مدینتہ الرسول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اسی مدینہ میں ایک مشہور قبرستان جنت البقیع ہے جہاں چار امام۔ حضرت امام حسنؐ ، حضرت امام زین العابدینؐ ، حضرت امام محمد باقرؐ ، حضرت امام جعفر صادقؐ اور ایک معصومہ عالم جناب فاطمہ زہراؐ کی قبریں ہیں۔ مدینہ بے حد با برکت جگہ ہے۔