تاریخ
۱ ۔ شخصیتیں
۲ ۔ واقعات
۳ ۔ مقامات
ہمارے ہادی
چودہ معصوم ہمارے ہادی اور رہبر ہیں جنھوں نے بڑی بڑی قربانیاں دے کر دین کو پھیلایا اور بچایا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتے تو آج زمانہ میں دین کا اجالا نہ ہوتا۔ ان کی محبت اور تعظیم ہم سب پر واجب ہے اور ان کے نقش قدم پر چلنا ہم سب کی زندگی کا مقصد ہے۔ ان کی زندگی ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔ ان کی زندگی کے حالات سے واقف اور باخبر ہونا ضروری ہے اس سبق میں ہر معصوم کی زندگی چند واقعات لکھے جاتے ہیں۔
ہمارے رسولؐ :
نبوت کے اعلان سے پہلے بھی تمام لوگ آپ سے محبت کرتے تھے۔ ہر شخص آپ پر بھروسہ کرتا تھا۔عرب جھگڑالو مزاج رکھتے تھے۔ بات بات پر لڑ پڑتے تھے۔ معمولی معمولی باتوں پر چالیس سال جنگ کرتے تھے۔ ہر قبیلہ ہر وقت دوسرےقبیلہ کو نیچا دکھانے کی فکر میں رہتا تھا۔ کوئی قبیلہ دوسرے قبیلہ کی عزت کو بڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مکہ میں جب ہر شخص قبیلہ اور خاندان میں بٹا ہوا تھا اُس وقت بھی ہمارے حضورؐ پورے شہر کی آنکھ کا تارا تھے اور آپ سے تمام قبیلوں کے آدمی یکساں محبت کرتے تھے لوگ آپ کو صادق و امین ، سچا اور امانتدار کہہ کر یاد کرتے تھے۔ خانہ کعبہ کی پرانی عمارت گرا کر نئی بنائی جا رہی تھی۔ ہر قبیلہ کے آدمی اس تعمیر میں حصہ لے رہے تھے اور قبیلہ مطمئین تھا کہ خانہ کعبہ کی عمارت بنانے کا شرف ہم سب کو ملا۔
حجر اسود ایک پتھر ہے جسے بحکم خدا جبرئیلؐ آسمان سے لائے تھے اور وہ خانہ کعبہ کی ایک دیوار میں نصب تھا۔ کعبہ کی نئی عمارت بننے کے بعد جب حجر اسود دوبارہ اس کی جگہ پر نصب کرنے کا وقت آیا تو ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ شرف اور عزت ہم کو مل جائے۔
چناچہ اس سوال پر کہ حجر اسود کون نصب کرے لوگوں کی تلواریں نکل آئیں۔ تھوڑی دیر پہلے جو لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کر رہے تھے وہ اب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ صورت حال بےحد خطرناک ہو گئی اور ہر آن خطرہ تھا کہ جنگ کی چنگاری اڑے اور سارے مکہ کو جلا کر خاک کر دے۔
کچھ سمجھدار لوگوں نے رائے دی کہ آج حجراسود کو نصب نہ کیا جائے بلکہ کل پھر ہم لوگ یہاں جمع ہوں اور جو شخص سب سے پہلے ہماری طرف آتا دکھائی دے اس کو ہم اپنے جھگڑے کا حکم مان لیں اور جو فیصلہ وہ کر دے اسے سب منظور کر لیں۔ یہ رائے پسند کی گئی رات بھر کے لئے تلواریں نیام میں چلی گئیں۔ دوسرے سب لوگ وعدہ کے مطابق جمع ہو گئے۔ دور سے ایک شخص آتا ہوا دکھائی دیا سب کی نظریں آنے والے پر جمی ہوئی تھیں۔ قریب آنے پر معلوم ہوا کہ آنے والے ہمارے نبیؐ تھے۔ آپ کو دیکھ کر مجمع خوشی سے جھوم اٹھا ۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا آپ سے بہتر فیصلہ کرنے والا نہیں مل سکتا۔ حضورؐ نے فیصلہ بھی ایسا فرمایا کہ سب کے دل باغ باغ ہو گئے۔ آپ نے ایک چادر منگائی چادر میں حجراسود رکھا اور ہر قبیلہ کے ایک ایک آدمی کو بلا کر کہا کہ سب مل کر چادر اٹھاؤ۔ سب نے مل کر چادر کو اٹھایا ۔ آخر میں حضور نے چادر سے اٹھا کر حجراسود کو اس کی جگہ پر رکھ دیا سارا مجمع آپ کے گن گاتا ہوا اپنے گھروں کو واپس ہو گیا۔
جناب فاطمہ زہراؐ :
آپ عورتوں کے لئے نمونہ عمل بن کر آئی تھیں جناب فضہ آپ کی کنیز تھیں مگر ہماری شہزادی نے ان کو گھر کا برابر کا درجہ دیا تھا۔ ایک دن خود کام کرتی تھیں اور ایک دن فضہ سے کام لیتیں تھیں۔ اہلبیتؐ کے گھر میں غلام اور آقا کنیز اور مالکہ میں فرق نہیں تھا۔ آپ کے در سے کبھی کوئی سائل خالی ہاتھ واپس نہیں ہوا۔ شادی کے بعد جب آپ باپ کے گھر سے رخصت ہو کر شوہر کے گھر آئیں تو دوسرے دن صبح کو حضورؐ اپنی بیٹی سے ملنے کے لئے حضرت علیؐ کے گھر آئے۔ حضورؐ نے دیکھا کہ جناب فاطمہؐ کے جسم پر شادی کے جوڑے کے بجائے پرانا لباس ہے۔ دریافت فرمایا بیٹی یہ کیا ہے آپ نے فرمایا کہ ایک غریب عورت لباس مانگنے آئی میں نے اسے دیدیا حضور نے فرمایا کہ پرانا لباس کیوں نہ دیدیا۔ عرض کی شادی کا جوڑا مجھے پسند تھا اور خدا نے فرمایا ہے کہ راہ خدا میں ہمیشہ اپنی پسندیدہ اور محبوب چیز دینا چاہئے۔ اس لئے پرانا لباس میں نے پہن لیا اور شادی کے کپڑے راہ خدا میں دیدئے۔
ایک بار حضورؐ بیٹی سے ملنے آئے ۔ آپ کے ساتھ آپ کے نابینا صحابی عبداللہ ابن مکتوم بھی تھے۔ آپ نے گھر میں آنے کی اجازت طلب کی تو جناب فاطمہ زہراؐ نے کہا کہ بابا پہلے میں پردہ کر لوں تب تشریف لائین کیو نکہ آپ کے ساتھ آپ کے صحابی بھی ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا مگر وہ تو نابینا ہیں۔ شہزادیؐ نے عرض کی مگر میں تو ان کو دیکھ سکتی ہوں۔ اس جواب پر حضورؐ نے خوش ہو کر شاہزادیؐ کو دعائیں دیں اور فرمایا میری بیٹی میری نبوت کا ایک حصہ ہے۔
حضرت علیؐ :
آپ بہت بہادر تھے۔ بڑے بڑے سورما آپ کا نام سن کر لرز جاتے تھے۔ آپ نے کئی من وزنی دروازہ جنگ خیبر میں اکھاڑ کر اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیا تھا۔ آپ کبھی خوف زدہ نہیں ہوتے تھے۔ مشکلوں میں گھبرانا آپ جانتے ہی نہ تھے۔ ہر جنگ آپ کے ہاتھ پر فتح ہوئی تھی۔
بہادر وہی ہوتا ہے جو گھبراتا نہیں۔ دنیا میں ایسے بہت سے بہادر گزرے ہیں جنھوں نے بڑے بڑے پہلوانوں کو پچھاڑ دیا ہے۔ مگر ایسے بہادر بہت کم گزرے ہیں جو اپنے نفس کو پچھاڑ دیتے ہوں اپنی خواہشوں کو زیر کر لیتے ہوں۔ اپنے تمناؤں سے جنگ کر لیتے ہوں۔ دشمن سے تلوار لے کر لڑنا چھوٹا جہاد ہے اور دل کی خواہشوں سے جنگ کرنا جہاد اکبر ہے آؤ تم کو حضرت علیؐ کی زندگی کا ایک ایسا واقعہ سنائیں جہاں آپ نے جہاد اکبر اور جہاد اصغر دونوں ایک ساتھ کئے۔
خندق کی جنگ تیسری اسلامی لڑائی ہے۔ اسلام اور نبی کا دشمن مکہ سے چل کر مدینہ کی سرحد تک آ چکا ہے۔ مسلمانوں نے میدان جنگ میں اپنی حفاظت کے لئے خندق کھودی ہے۔ خندق کی وجہ سے دشمن مدینہ میں داخل نہیں ہو سکا۔ خندق کے دونوں طرف دونوں فوجیں آمنے سامنے پڑاؤ ڈالے پڑی ہیں۔ مکہ کا کافر لشکر اپنے ساتھ عرب کا سب سے مشہور پہلوان لایا ہے۔ عربوں کے خیال میں عمرو بن عبدود سے بڑا پہلوان اور بہادر دنیا میں کوئی نہ تھا۔ عمرو کے مقابلہ پر آنے کی ہمت سوائے حضرت علیؐ کے کسی نے نہیں کی مکہ والے اپنے پہلوان کی فتح پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی اس یقین میں انکے ساتھ شریک تھی مگر دونوں لشکر حیرت میں پڑ گئے جب انھوں نے عمرو کے سینہ پر حضرت علیؐ کو بیٹھا دیکھا۔
حضرت علیؐ عمرو کو قتل کرنا چاہتے تھے کہ عمرو نے اپنی ہار سے کھیاکر حضرت پر تھوک دیا۔ اس کی نازیبا حرکت کے بعد فوراً ہی آپ اس کے سینہ سے اُتر آئے۔ جب لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ ایسے زبردست دشمن پر قابو پا کر اس کو آپ نے کیوں چھوڑ دیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ اس کے تھوکنے پر مجھے غصۃ آ گیا تھا۔ میں اس دشمن خدا کو صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے قتل کرنا چاہتا تھا۔ اگر غصہ میں قتل کر دیتا تو جہاد میں وہ خلوص نہ وہ جاتا لہذا میں عمرو کے سینے سے اتر کر پہلے اپنے غصہ سے لڑا اس کے بعد عمرو کو پھر پچھاڑا اور اس کا سر قلم کیا۔ حضورؐ نے اس موقع پر ایک حدیث ارشاد فرمائی تھی کہ " خندق کے دن علیؐ کی تلوار کا ایک وار دونوں جہاں کی عبادت سے افضل ہے۔ "
امام حسنؐ :
آپ بڑے عبادت گزار بہادر اور حلیم تھے۔ آپ کی سخاوت اور خیرات مشہور ہے۔ دو مرتبہ آپ نے اپنے کل مال کا آدھا آدھا حصہ راہ خدا میں لٹا دیا۔ امیر شام آپ کے سخت دشمن تھے۔ آپ کی سخاوت کا شہرہ سن کر دل میں جلتے رہتے تھے۔ ایک بار امیر شام نے آپ کو خط میں زیادہ خیرات کرنے سے روکتے ہوئے لکھا۔ " فضول خرچی میں بھلائی نہیں ہے ۔" آپ نے جواب میں امیر شام کا جملہ الٹ دیا اور اس کو لکھا ۔ " خیرات فضول خرچی نہیں ہے۔"
آپ کا سخاوت کو دیکھ کر کسی نے آپ کو مشورہ دیا کہ خیرات و سخاوت کم کیجئے۔ آنے والے کسی سخت وقت کے لئے مال و دولت بچا کر رکھئے۔ آپ نے فرمایا تمہارا مشورہ غلط ہے کیوں کہ اب تک اللہ مجھے دیتا ہے میں اس کے بندوں کو دیتا ہوں اگر میں اپنی عادت بدل دوں اور خدا کے بندوں کو عطئے دینا بند کروں تو یہ بھی ممکن ہے کہ خدا بھی اپنی عادت بدلے اور مجھے رزق دینا بند کر دے۔
آپ نے مسلمانوں میں خونریزی بند کرنے کے لئے امیر شام سے صلح کر لی جبکہ آپ کے بہت سے جوشیلے ساتھیوں کو صلح ناپسند تھی مگر آپ نے فرمایا موجودہ حالت میں جنگ کرنا خودکشی ہے۔ ایمان کی حفاظت کے لئے اس وقت صلح کرنا ضروری ہے۔ آپ صلح پر آخر تک قائم رہے اور لوگوں کی مذمت اور ملامت کی کوئی پرواہ نہیں کی جو لوگوں کی تنقید سے ڈر کر راستہ بدل دے وہ بزول ہے۔ بہادر وہی ہے جو حق کا راستہ نہ چھوڑے اور لوگوں کی رائے سے ڈر کر سچ سے منہ نہ موڑے۔
امام حسینؐ :
ہم آپ چاہے غلطی کو دیکھ کر خاموش رہیں لیکن ہادی اور امام کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ غلطی دیکھ کر آگے بڑھ جائے۔ امام حسنؐ امام حسینؐ بچپن میں ایک دن مدینہ کی کسی گلی سے گزر رہے تھے۔ رستہ میں ایک بوڑھا آدمی غلط وضو کر رہا تھا۔ اس کے غلط وضو کو دیکھ کر دونوں شاہزادے رک گئے اور فرمایا کہ ہم دونوں وضو کرتے ہیں آپ دیکھ کر بتائیں کہ کس کا وضو غلط ہے۔ بوڑھا دونوں کو وضو کرتا دیکھتا رہا۔ جب دونوں کے وضو ختم ہو گئے اور بوڑھے نے دیکھا کہ دونوں نے ایک وضو کیا تو سمجھ گیا کہ شاہزادے میرے غلط وضو کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ بڑے ادب سے بولا شاہزادو ! میں ہمیشہ تمہارا شکر گزار رہوںگا کہ بڑھاپے میں تم نے میرے وضو کو درست کر دیا۔
جب امام حسینؐ ایک شخص کے غلط وضو کو دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتے تھے اور جب تک اس کی اصلاح نہ کر لی آگے نہیں بڑھے تو جب دین کو یزید مٹا دینا چاہتا تھا تو کیونکر ممکن تھا کہ آپ خاموش بیٹھے رہتے۔ آپ نے یزید کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اس راہ میں آپ کو عظیم مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سارے ساتھی ، پورا کنبہ بھوکا پیاسا فرات کے کنارے شہید ہو گیا جو بچ رہے تھے وہ قیدوبند کی سخت ترین تکلیفیں جھیلتے رہے مگر آپ نے ہدایت کے لئے سب کچھ برداشت کر لیا۔ یزید ختم ہو گیا یزیدیت اپنی موت مر گئی۔ اسلام زندہ ہو گیا اور حسین کا ذکر عام ہو گیا۔
امام زین العابدینؐ :
آپ بڑے عبادت گزار تھے۔ اتنی نمازیں پڑھتے تھے کہ پیروں پر ورم آ جاتا تھا۔ سجدوں کی کثرت سے پیشانی اور سجدہ میں زمین پر ٹکنے والے دوسرے اعضا پر گھٹے پڑ جاتے تھے جو تراشے جاتے تھے۔ آپ نے اتنی عبادت کی تھی کہ سجدہ کے گٹھوں کے تراشے سے دو تھیلیاں بھر گئی تھیں۔ آپ راتوں کو پوشیدہ طور پر مدینہ کے غریب گھروں میں کھانے کا سامان اپنی پیٹھ پر لاد کر پہونچایا کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ کی پیٹھ پر سخت گٹھا پڑ گیا تھا۔
جن غریبوں تک سامان پہونچایا کرتے تھے ان کو معلوم بھی نہ تھا کہ کون اللہ کا بندہ ان کی خبر گیری کرتا ہے۔ جب آپ کی شہادت ہو گئی اور سامان کا آنا بند ہو گیا تب لوگوں کو پتہ چلا کی غریبوں کی غائبانہ مدد کرنے والے امام زین العابدین علیہ السلام تھے۔
صحیفہ کاملہ آپ کی دعاؤں کا مجموعہ ہے جسے زبور آل محمدؐ بھی کہا جاتا ہے۔
امام محمد باقرؐ :
آپ واقعہ کربلا موجود تھے۔ اس وقت آپ کا سن پانچ برس کا تھا سب کے ساتھ آپ قیدی بنا کر کوفہ اور دمشق لے جائے گئے۔
جب یزید نے امام زین العابدین علیہ السلام کے قتل کا حکم دیا تو آپ نے فرمایا کہ جناب موسیٰ بھی معصوم تھے اور میرے باپ بھی معصوم ہیں فرعون جناب موسیٰ کو قتل کرنے پر راضی نہیں ہوا نہ اس کے درباری اس بات پر راضی تھے کیونکہ وہ ناجائز اولاد نہیں تھے لیکن اے یزید تو اور تیرے درباری معصوم کے قتل کرنے پر اس لئے روضی اور تیار ہیں کہ تم سب ناجائز اولاد ہو اس لئے کہ صرف ایسے ہی لوگ معصوم کے قتل کرنے پر راضی ہو سکتے ہیں جو ناجائز اولاد ہوں۔ یزید یہ سن کر خاموش ہو گیا اور اس نے قتل کا ظالمانہ حکم واپس لےلیا۔
آپ کے سامنے ایک بار ایک شخص نے ایک کافر کی میت کی کھوپڑی پیش کر کے سوال کیا کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ کافر پر مرنے کے بعدعذاب ہوتا ہے مگر یہ عقیدہ غلط ہے کیونکہ یہ کافر کی کھوپڑی ہے مگر نہ جل رہی ہے نہ اس پر عذاب ہو رہا ہے۔ امامؐ نے چقماق کے دو پتھر منگوائے۔ چقماق اس پتھر کو کہتے ہیں جن کے ٹکرانے سے آگ پیدا ہو جاتی ہے۔ پہلے لوگ چقماق ہی سے دیا سلائی کے بجائے آگ جلایا کرتے تھے۔ غرض کہ امامؐ نے پتھر منگا کر اس شخص کو دئے اور کہا ان کو ایک دوسرے سے ٹکراؤ جب ٹکرانے پر آگ نکلی تو آپ نے فرمایا بتاؤ پتھر گرم ہے یا نہیں۔ اس نے کہا پتھر تو ٹھنڈا ہے۔ امامؐ نے فرمایا جو خدا اس پر قادر رہے کہ اس پتھر کو ٹھنڈا رکھے مگر اس کے اندر آگ بھ دے وہ خدا اس پر بھی قادر ہے کہ یہ کھوپڑی اوپر سے ٹھنڈی رہے مگر اس کے اندر عذاب کی آگ بھری ہو۔ آپ کا جواب سن کر وہ مطمئین ہو گیا۔