امامیہ اردو دینیات درجہ دوم جلد ۲

امامیہ اردو  دینیات درجہ دوم0%

امامیہ اردو  دینیات درجہ دوم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 53

امامیہ اردو  دینیات درجہ دوم

مؤلف: تنظیم المکاتب
زمرہ جات:

صفحے: 53
مشاہدے: 33670
ڈاؤنلوڈ: 2235


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 53 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 33670 / ڈاؤنلوڈ: 2235
سائز سائز سائز
امامیہ اردو  دینیات درجہ دوم

امامیہ اردو دینیات درجہ دوم جلد 2

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

امامیہ اردو دینیات

درجہ دوم

نظیم المکاتب

۳

معلمّ کے لئے ہدایت

۱ ۔ سبق پڑھنے کے بعد بچوں سے ایسے سوالات کئے جائیں جن کے ذریعہ بچے سبق کے مفہوم کو ادا کر سکیں۔

۲ ۔سبق کے بعد والے سوالات کھلوا کر زبانی یاد کرائے جائیں۔

۳ ۔ مدرس خود بھی سوالات کریں۔

۴ ۔ جہاں ضرورت ہو وہاں عملی تعلیم دی جائے۔

۴

پہلا سبق

وجود خدا

گھروں سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کو دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ یہاں آگ روشن ہے۔ رستہ پر پیروں کے نشانات سے پتہ چلتا ہے کہ ادھر سے کوئی ضرور گزرا ہے۔

چلتی ریل ۔ بھاگتی موٹر اور دوڑتی سائکل دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ کسی نے ان کو بنایا ہے۔ یہ خود نہیں بنی ہیں اوریہ بھی یقین ہوتا ہے کہ کوئی ان کو چلا رہا ہے یہ خود نہیں چل رہی ہیں۔

اسی طرح زمین ۔ آسمان ۔ انسان ۔ حیوان ۔ چاند ۔ سورج ۔ ستارے ۔ دریا ۔درخت ۔ پہاڑ وغیرہ کو دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ کوئی نہ کوئی ان کا پیدا کرنے والا ضرور ہے۔ اسی پیدا کرنے والے کو خدا کہتے ہیں۔

ہم موٹر بنانے والے کو دیکھے بغیر فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ علم والا ہے۔ زندہ ہے ۔ قوت اور طاقت کا مالک ہے۔ اسی طرح اس چلتی پھرتی دنیا کو دیکھ کر ماننا پڑتا ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا بڑی قدرت و طاقت والا ہے۔ وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ اسی نے یہ دنیا پیدا کی ہے اور جب چاہے گا ایک اشارے میں فنا کر دےگا۔

سوالات :

۱ ۔ خدا کون ہے ؟

۲ ۔ خدا کو کیسے پہچانا ؟

۳ ۔ یہ دنیا کیوں ازخود پیدا نہیں ہو سکتی ؟

۵

دوسرا سبق

توحید

زمین سے لے کر آسمان تک پوری کائنات کا ایک ہی طریقہ پر چلنا۔ چاند سورج کا اپنے وقت پر نکلنا اور وقت پر ڈوب جانا دریائوں کا ایک دھارے پر بہنا۔ درختوں کا ایک انداز سے اُگنا اور بڑھنا۔ بتاتا ہے کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک اور صرف ایک ہے ورنہ دنیا کے انتظام میں گڑبڑی ہوتی۔

ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوںؐ نے اور تمام آسمانی کتابوں نے بھی یہی بیان کیا ہے کہ خدا ایک ہے ۔ اگر کوئی دوسرا خدا ہوتا تو وہ بھی نبی بھیجتا اور کتابیں نازل کرتا۔ لہذا معلوم ہوا کہ خدا ایک ہے۔

اگر دو خدا ہوتے تو دنیا ایک رنگ پر نہ چلتی۔ اگر دو خدا ہوتے تو دوسرے خدا کی پیدا کی ہوئی کوئی دوسری دنیا ہوتی اور چاند سورج دو طرح کے ہوتے۔ لیکن ایسا نہیں ہے جس سے ثابت ہوا کہ خدا ایک ہے۔

سوالات :

۱ ۔ خدا کے ایک ہونے کی پہلی دلیل کیا ہے ؟

۲ ۔ خدا کے ایک ہونے کی دوسری دلیل کیا ہے ؟

۳ ۔ دنیا کو دیکھ کر کیسے معلوم ہوا کہ خدا ایک ہے ؟

۶

تیسرا سبق

صفات ثبوتیہ

اللہ میں پائی جانے والی مشہور باتیں آٹھ ہیں جن کو صفات ثبوتیہ کہا جاتا ہے۔

( ۱) ۔ قدیم۔ یعنی خدا ہمیشہ سےہے اور ہمیشہ رہےگا۔

( ۲) ۔ قادر۔ یعنی خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ جو کام چاہے کرے جو کام چاہے نہ کرے۔

( ۳) ۔ عالم۔ یعنی خدا ہر چیز کا جاننے والا ہے کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔

( ۴) ۔ مدرک۔ یعنی خدا بغیر آنکھ کے سب کچھ دیکھتا ہے اور بغیر کان کے سب کچھ سنتا ہے۔

( ۵) ۔ حی۔ یعنی خدا ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہےگا۔

( ۶) ۔ مرید۔ یعنی خدا ہر کام اپنے ارادہ اور اختیار سے کرتا ہے اور وہ کسی کام کے کرنے پر مجبور نہیں ہے۔

( ۷) ۔ متکلم۔ یعنی خدا جس چیز میں چاہتا ہے اپنی آواز پیدا کر دیتا ہے۔

( ۸) ۔ صادق۔ یعنی خدا ہر بات میں سطا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ ہمارے اور خدا کے دیکھنے سننے میں کیا فرق ہے؟

۲ ۔ قادر اور حی کے معنی بتائے ۔

۳ ۔ ہمارے بولنے اور خدا کے متکلم ہونے میں کیا فرق ہے ؟

۷

چوتھا سبق

صفات سلبیہ

اللہ میں جو باتیں نہیں پائی جاتی ہیں ان میں سے مشہور آٹھ ہیں جن کو صفات سلبیہ کہتے ہیں۔

( ۱) ۔ مرکب یعنی خدا نہ کسی چیز سے ملکر بنا ہے نہ خدا سے ملکر کوئی چیز بنی ہے۔

( ۲) ۔ جسم نہیں۔ یعنی خدا ہاتھ ۔ پیر ۔ کان ۔ آنکھ ۔ منہ ۔ زبان وغیرہ نہیں رکھتا۔

( ۳) ۔ مکان نہیں۔ یعنی خدا کے رہنے کی کوئی جگہ نہیں ۔ البتہ اس کی قدرت کے کر شمے ہر جگہ موجود ہیں۔

( ۴) ۔ حلول نہیں۔ یعنی نہ خدا کسی چیز میں سما سکتا ہے اور نہ اس میں کوئی چیز سما سکتی ہے۔

( ۵) ۔ مرئی نہیں۔ یعنی خدا کو کوئی دنیا یا آخرت میں دیکھ نہیں سکتا۔

( ۶) ۔ محل حوادث نہیں۔ یعنی خدا میں بدلنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔

( ۷) ۔ شریک نہیں۔ یعنی خدا اکیلا ہے جس کا کوئی ساتھی نہیں۔

( ۸) ۔ صفات زائد برذات نہیں۔ یعنی خدا کی ذات اور صفات الگ الگ نہیں ہیں۔

سوالات :

۱ ۔ خدا کے رہنے کی جگہ بتاو ۔

۲ ۔ خدا کب دکھائی دیتا ہے ۔

۳ ۔ حلول کو کیا معنی ہیں ؟

۸

پانچواں سبق

اسلام، ایمان، تقویٰ

اصول دین کا تین ماننا اسلام ہے لہذا جو لوگ صرف توحید ، نبوت، قیامت کو اصول دین مانتے ہیں وہ مسلمان کہلاتے ہیں۔

اصول دین کا پانچ ماننا ایمان ہے۔ اس لیے جو لوگ توحید ، عدل ، نبوت ، امامت ، قیامت کو اصول دین مانتے ہیں وہ مومن ہوتے ہیں۔

خدا سے خوف رکھنا۔ اس کے عذاب سے ڈرنا اور اس کے احکام کی پابندی کرنے کا نام تقویٰ ہے۔

اسلام کو نہ ماننے والا کافر ہوتا ہے۔ ایمان نہیں رکھنے والا منافق ہے۔ دین کے احکام کی پابندی نہ کرنے والا فاسق کہلاتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اسلام کیا ہے اور اس کے مخالف کو کیا کہتے ہیں ؟

۲ ۔ ایمان کی تعریف بتاو۔

۳ ۔منافق اور فاسق میں کیا فرق ہے ؟

۹

چھٹا سبق

عقیدہ و عمل

انسان جب بھی کوئی کام کرتا ہے تو کام کرنے سے پہلے سوچتا ہے کہ کسی طرح کرے اور اس کے بعد کام شروع کرتا ہے۔ خیال جتنا اچھا ہوتا ہے عمل بھی اتنا ہی اچھا ہوتا ہے۔

اسی لیے اسلام نے اچھے کام کے لئے اچھے خیالات رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ان ہی اچھے خیالات کو عقیدہ کہتے ہیں۔

عقیدہ وہ یقین ہے جس سے انسان کی زندگی سدھرتی ہے اور اعمال کو اچھا اور پاکیزہ بنانے میں مدد ملتی ہے۔

توحید۔ ہر کام میں خدا کی اطاعت پر امادہ کرتی ہے۔

نبوت و امامت۔ کے ذریعہ اعمال بجا لانے کا طریقہ معلوم ہوتا ہے۔

عدالت۔ اچھے کاموں پر انعام پانے اور بڑے کاموں پر سزا پانے کا خیال دلاتی رہتی ہے۔

قیامت۔ جنت میں جانے کی امید اور دوزخ میں ڈالے جانے کا خوف پیدا کراتی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ عقیدہ اور عمل میں فرق بتاو۔

۲ ۔ اصول دین کا فائدہ بتاو۔

۳ ۔ عمل اچھا کب بنتا ہے ؟

۱۰

ساتواں سبق

عدل

خدا کو ایک ماننے کے ساتھ اس کو عادل اور انصاف والا ماننا ضروری ہے۔ خدا کے عادل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی اچھے کام کو چھوڑتا نہیں اور کسی برے کام کو کرتا نہیں۔

خدا جو کچھ کرتا ہے وہ ٹھیک کرتا ہے۔ ہم اس کے کام کی مصلحت اور ٖفائدہ کو نہیں سمجھ پاتے اس لئے اعتراض کر دیتے ہیں خدا کے کام سب کے لئے ہوتے ہیں۔ وہ کسی ایک آدمی یا کسی ایک جگہ کے فائدہ کے لئیے کام نہیں کرتا۔ جب کہ ہم لوگ صرف اپنا ہی فائدہ چاہتے ہیں اور اپنے ہی فائدہ کے لئے کام کرتے ہیں۔ لیکن خدا سب کا ہے۔ وہ ہر کام میں سب کا خیال رکھتا ہے۔ اس نے پیغمبر بھیجے تو سب کے لئے کتابیں نازل کیں تو سب کے لئے امام مقرر کئیےتو سب کے لئے وہ کسی کا رشتہ دار یا عزیز نہیں۔ خدا ہر اچھے شخص کو دوست رکھتا ہے اور ہر برے شخص کا دشمن ہے۔

سوالات :

۱ ۔ عدل کے معنی بتاو۔

۲ ۔ لوگ خدا کو ظالم کیوں سمجھ لیتے ہیں ؟

۳ ۔ خدا کے کام کس کے لئے ہوتے ہیں ؟

۱۱

آٹھواں سبق

بندوں کے کام

پروردگار عالم نے ہر انسان کو پیدا کرنے کے بعد اسے طاقت و قوت عطا کر دی اور اچھے برے کی پہچان بتا کر ہر شخص کو عمل کی آزادی دے دی۔ اب ہر انسان کو اختیار ہے چاہے دنیا میں اچھے کام کرے یا برے کام انجام دے۔ البتہ قیامت کے دن اسے اس کے ہر اچھے یا برے کام کا بدلہ ضرور دیا جائگا۔

چونکہ مجبور آدمی اچھا کام بھی کرتا ہے تو اس کی تعریف نہیں ہوتی اور برا کام بھی کرتا ہے تو اسے برا نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اسی لئے خدا نے کسی انسان کو کسی بات پر مجبور نہیں کیا۔

پیغمبروں نے بندوں کو نیکیوں کا راستہ بتا دیا اور برائی سے بچنے کی ہدایت کر دی۔ ان انسان یہ عذر نہیں کر سکتے کہ ہم کو اچھائی اور برائی کا علم نہ تھا۔

سوالات :

۱ ۔ بندے اپنے کاموں میں مجبور ہیں یا آزاد ؟

۲ ۔ مجبوری کا نقصان کیا ہے ؟

۳ ۔ انبیا کیوں بھیجے گئے ؟

۱۲

نواں سبق

اوصاف نبی

اللہ نے جن ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کو بھیجا ہے وہ شکل و صورت میں ہمارے جیسے انسان تھے۔ ہماری ہی طرح کھاتے پیتے اور سوتےجاگتے تھے۔ لیکن ان میں چند ایسی باتیں پائی جاتی تھیں جو ہم میں نہیں پائی جاتی ہیں۔

۱ ۔ نبیوں کو اللہ نے ہماری ہدایت کے لئے بھیجا اور ہم کو نبیوں کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔

۲ ۔ وہ عالم پیدا ہوتے ہیں اور بچپن ہی سے حلال و حرام کے پابند ہوتے ہیں۔ ہم جاہل پیدا ہوتے ہیں اور ہم پر حلال و حرام کی پابندی بالغ ہونے کے بعد واجب ہوتی ہے۔

۳ ۔ وہ دنیا میں کسی سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

۴ ۔ ان سے پوری زندگی میں ایک بھی غلطی نہیں ہوتی ۔ ہم سے اکثر غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔

۵ ۔ ان کو خدا منصب نبوت دیتا ہے جس کے ہم حقدار نہیں۔

سوالات :

۱ ۔ نبی کو کیسا ہونا چاہئیے ؟

۲ ۔ کیا کوئی جاہل یا گنہگار کبھی نبی ہو سکتا ہے ؟

۳ ۔ ہم میں اور نبی میں کیا فرق ہے ؟

۱۳

دسواں سبق

آخری نبیؐ

اللہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں میں تین سو تیرہ کو رسول بنایا۔ اور ان تین سو تیرہ رسولوں میں سے پانچ کو اولوالعزم رسول بنایا ہر اولوالعزم رسول کو خدا نے شریعت دی۔

رسول نبی سے بہتر ہوتا ہے اور اولوالعزم پیغمبر، رسول سے بہتر ہوتا ہے اور ان سب سے بہتر ہمارے رسول حضرت محمد مصطفےٰ ہیں۔

ہمارے رسولؐ کو اللہ نے قرآن جیسی عظیم کتاب دی ہے جو قیامت تک باقی رہےگی۔

اسلام جیسا دین دیا ہے جس میں دنیا اور آخرت کی ہر اچھائی اور برائی کے لئے ہدایت موجود ہے۔ اہلبیت جیسے معصوم عزیز پیغمبروں سے افضل ہیں۔

سوالات :

۱ ۔ ہمارے نبیؐ کا نام کیا ہے ؟

۲ ۔ رسول اور اولوالعزم میں کون بہتر ہے ؟

۳ ۔ ہمارے رسولؐ کو کیا کیا شرف ملے ؟

۱۴

گیارہواں سبق

اوصاف امام

نبی کے بعد دین کو چلانے والے اور بچانے والے کو امام کہا جاتا ہے۔ امام کا کام یہ ہے کہ دین کی ہر بات کو اس کی اصلی شکل میں باقی رکھے اور لوگوں کو دین کی طرف لانے کے لئے کوشش کرتا رہے۔

امام کے لئے معصوم ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا معصوم ہونا نبی کے لئے ضروری ہے۔ امام بھی نبی کی طرح بچپنے سے ہر بات کے عالم ہوتے ہیں اور حلال و حرام کی پابندی کرتے ہیں۔

ہمارے امام بارہ ہیں۔ انھیں اللہ نے ہمارے رسول حضرت محمد مصطفےٰؐ کا خلیفہ و جانشین بنایا ہے اور یہی شریعت کے محافظ مقرر ہوئے ہیں۔

چونکہ ہمارے نبیؐ سارے پیغمبروں سے افضل اور بالاتر ہیں اور بارہ امام آپ کے جانشین اور خلیفہ ہیں لہذا بارہ امام بھی ہمارے نبیؐ کی طرح سارے پیغمبروں سے افضل و بالاتر ہیں۔

سوالات :

۱ ۔ امام کسے کہتے ہیں ؟

۲ ۔ امام کا معصوم ہونا کیوں ضروری ہے ؟

۳ ۔ ہمارے امام پیغمبروں سے کیوں افضل ہیں ؟

۱۵

بارہواں سبق

آخری امامؐ

جس طرح اللہ نے ہمارے نبی حضرت محمد مصطفےٰؐ کو آخری نبی قرار دے کر آپ پر نبوت کو ختم کر دیا ہے۔اسی طرح ہمارے بارہویں امام حضرت مہدیؐ آخر الزّمان کو آخری امام قرار دیا ہے۔ نہ ہمارے نبیؐ کے بعد کوئی نبیؐ آیا اور نہ بارہویں امامؐ کے بعد کوئی امام آئےگا۔

بارہویں امامؐ بحکم خدا زندہ ہیں اور ہماری نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ جب حکم خدا ہوگا تب ظاہر ہوںگے اور وہ دنیا جو اس وقت ظلم و جور سے بھری ہوگی اسے عدل و انصاف سے بھر دیںگے۔

زمانہ غیبت میں ہمارے علماء امام کی نیابت کرتے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے احکام کی اطاعت کریں کیونکہ وہ امامؐ کے احکام بتاتے ہیں اور امام کے احکام خدا اور رسولؐ کے احکام ہیں۔

سوالات :

۱ ۔ آخری امامؐ کا نام بتاو ۔

۲ ۔ امامؐ آج ظاہر ہیں یا پردہ غیب میں ؟

۳ ۔ ظاہر ہونے کے بعد امام کیا کریںگے ؟

۴ ۔ ہم علما کے احکام کیوں مانتے ہیں ؟

۱۶

تیرہواں سبق

قیامت

مرنے کے بعد ایک دن آئےگا جب تمام لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیںگے۔ اس دن کا نام قیامت ہے۔ اس دن اچھے کاموں پر ثواب اور بڑے کاموں پر عذاب ہوگا۔

جنت :۔ وہ جگہ ہے۔ جہاں ہر طرح کا آرام اور تمام نعمتیں موجود ہوںگی۔ اور وہاں کسی قسم کا دکھ درد نہ ہوگا۔ جن کے اعمال اچھے ہوںگے وہ جنت میں ہمیشہ رہیںگے۔

دوزخ :۔ وہ جگہ ہے جہاں ہر طرح کا عذاب اور درد ہوگا۔ دوزخ کی ہر چیز کھانا پینا۔ اوڑھنا بچھونا آگ کا ہوگا۔ بڑے کام کرنے والے یہاں ہمیشہ رہیں گے۔

سوالات :

۱ ۔ قیامت کون سا دن ہے ؟

۲ ۔ جنت کس کی ہوگی اور وہاں کون لوگ رہیں گے ؟

۳ ۔ دوزخ کیسا ہوگا اور وہاں کون لوگ رہیں گے ؟

۱۷

چودہواں سبق

معجزہ

دنیا کا کوئی عقلمند انسان کسی کی بات کو دلیل کے بغیر نہیں مان سکتا۔ بات کہنے والے کی ذمہ داری ہے کہ اپنی بات منوانے کےلئے ثبوت پیش کرے اور ثبوت بھی ایسا ہو جو بات کو پوری طرح ثابت کر سکے۔

اللہ نے اپنے پیغمبروں اور اماموں کو معجزہ اسی لئے عطا کیا ہے۔ کہ اس کے ذریعہ نبی اور امام اپنی نبوت اور امامت کو ثابت کر سکیں۔

معجزہ اس کام کو کہتے ہیں جس کو کوئی بھی بندہ بغیر خدا کی مخصوص امداد کے نہ کر سکے۔ معجزہ تک کسی انسان کی رسائی اور پہونچ نہیں ہوتی

نبیؐ یا امامؐ اسی لئے معجزہ دکھاتے ہیں تاکہ لوگ یقین کر لیں کہ معجزہ دکھانے والا نبی یا امام ہے۔ عام انسان نہیں ہے بلکہ اللہ کا خاص بندہ ہے جسے خدا نے ہدایت کے لئے بھیجا ہے اور اسی لئے اللہ نے اس کو معجزہ کی مخصوص طاقت عطا فرمائی ہے۔

سولات :

۱ ۔ معجزہ کسے کہتے ہیں ؟

۲ ۔ معجزہ کا فائدہ کیا ہے ؟

۳ ۔ معجزہ کی ضرورت کیوں ہوتی ہے ؟

۱۸

پندرہواں سبق

قرآن

اللہ کی وہ آخری کتاب ہے جسے اللہ نے اپنے آخری نبیؐ حضرت محمد مصطفےٰؐ کا معجزہ بنا کر نازل کیا ہے اس میں کل ایک سو چودہ سورے ہیں۔ ہر سورہ بسم اللہ سے شروع ہوتا ہے صرف سورہ برائت میں بسم اللہ نہیں ہے۔

قرآن کا پورا علم صرف پیغمبرؐ اور ان کے اہلبیتؐ کے پاس ہے ان کے علاوہ کسی کو پورے قرآن کا علم نہیں ہے۔

وضو کے بغیر قرآن کے حرفوں کا چھونا حرام ہے۔ قرآن کریم میں چار آیتیں ایسی بھی ہیں جن کے پڑھنے یا سننے پر فوراً سجدہ واجب ہو جاتا ہے۔

یہ قرآن اتنی بلند و بالا کتاب ہے جس کا جواب آج تک ساری دنیا مل کر نہیں پیش کر سکی ہے اور نہ قیامت تک پیش کر سکے گی ۔

سوالات :

۱ ۔ قرآن کس پر نازل ہوا ؟

۲ ۔ اس میں کتنے سورے ہیں ؟

۳ ۔ قرآن کا علم کس کے پاس ہے ؟

۴ ۔ قرآن کے حرفوں کو چھونے کے لئے کیا شرط ہے ؟

۱۹

سولہواں سبق

کعبہ

کعبہ ملک عرب کے شہر مکہ میں اللہ کا گھر ہے جسے جناب ابراہیم اور جناب اسماعیلؐ نے اللہ کے حکم سے لوگوں کے لئے بنایا تھا۔

حاجی اسی کعبہ کا طواف کرتے ہیں۔ نماز میں اسی کعبہ کی طرف رخ کیا جاتا ہے۔ ہمارے پہلے امام حضرت علیؐ اسی کعبہ میں پیدا ہوئے تھے۔

جناب ابراہیمؐ کے بعد اس کعبہ میں بُت رکھ دئے گئے تھے۔ رسولؐ اللہ نے زمانے تک یہ بُت رکھے رہے جب آپ نے مکہ فتح کیا تو اشارے سے سارے بت گرا دئے اور جو بڑے بت اوپر رکھے ہوئے تھے انھیں حضرت علیؐ کو اپنے کاندھوں پر چڑھا کر ان کے ہاتھوں سے گرا دیا۔

کعبہ سے پہلے بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ تھا اس کے بعد ایک دن عین حالت نماز میں کعبہ کی طرف رخ موڑ دیا گیا جو آج تک باقی ہے۔

ہمارے آخری امامؐ کا ظہور بھی اسی کعبہ کے پاس ہوگا۔

سوالات :

۱ ۔ کعبہ کس نے بنایا ؟

۲ ۔ بتوں کی صفائی کب ہوئی ؟

۳ ۔ کعبہ کب قبلہ بنا ؟

۲۰