امامیہ اردو دینیات درجہ سوم جلد ۳

امامیہ اردو دینیات درجہ سوم75%

امامیہ اردو دینیات درجہ سوم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 64

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 64 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45326 / ڈاؤنلوڈ: 3718
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ سوم

امامیہ اردو دینیات درجہ سوم جلد ۳

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

امامیہ اردو دینیات

درجہ سوم

نظیم المکاتب

۳

معلمّ کے لئے ہدایت

۱ ۔ سبق پڑھنے کے بعد بچوں سے ایسے سوالات کئے جائیں جن کے ذریعہ بچے سبق کے مفہوم کو ادا کر سکیں۔

۲ ۔سبق کے بعد والے سوالات کے جوابات مختصر لکھوا کر زبانی یاد کرائے جائیں۔

۴ ۔ مسائل زبانی یاد کرا‏‏ئے جائیں اور جہاں ضرورت ہو وہاں عملی تعلیم دی جائے۔

۴

پہلا سبق

مذہب

بچہ جس چیز کو دیکھتا ہے اس کو لینے کے لئے لپکتا ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ کون سی چیز اچھی ہے اور کون سی چیز بری ہے لیکن اس کے ماں باپ اس کو ان چیزوں سے منع کرتے ہیں جو بری ہیں۔ چاہے وہ بچہ کو اچھی لگتی ہوں۔ اور ان چیزوں کو لینے کا حکم دیتے ہیں جو اچھی ہیں چاہے وہ بچہ کو بری لگتی ہوں۔ اسی طرح خدا نے اپنے بندوں کو مذہب کے ذریعہ اچھی اور بری باتیں بتائی ہیں۔ کیو نکہ بندے سب چیزوں کی اچھائی اور برائی نہیں جانتے ہیں۔ مذہب اچھائیاں بتاتا ہے اور برائیاں پہچنواتا ہے۔ نیکی کونے کا حکم دیتا ہے اور برائی کرنے سے روکتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ خدا نے مذہب کے ذریعہ اپنے بندوں کو کیا بتایا ہے ؟

۲ ۔ مذہب انسانوں کو کن باتوں کا حکم دیتا ہے "

۵

دوسرا سبق

اگر خدا نہ ہوتا

دنیا کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی بغیر بنانے والے کے نہیں بن سکتی۔ معمار کے بغیر مکان خود بخود نہیں بن سکتا۔ درزی کے بغیر کپڑا خود بخود نہیں سل سکتا۔ بغیر بڑھئیٰ کے الماری ، میز ، کرسی ، پلنگ ، تخت اور دروازے اپنے آپ نہیں بن سکتے تو اتنی بڑی دنیا ، آسمان ، زمین ، چاند ، سورج ، ستارے ، دریا ، پہاڑ ، درخت ، جانور ، آدمی کیسے اور دوسری لاکھوں چیزیں بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خود بخود کیسے پیدا ہو سکتی ہیں۔ اسی لئے ماننا پڑھتا ہے کہ ایک خدا ہے جس نے یہ دنیا پیدا کی ہے۔

ایک مرتبہ لوگوں نے ایک بڑھیا سے پوچھا کہ خدا ہے یا نہیں ؟ یہ بڑھیا اپنا چرخہ چلا رہی تھی۔ بڑھیا نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ چرخہ بھی فوراً رک گیا۔ اس نے کہا دیکھو جب میں چرخہ چلاتی ہوں تو چلتا ہے اور جب ہاتھ روک لیتی ہوں تو یہ بھی رک جاتا ہے۔ پھر بتاو کہ اگر دنیا کو چلانے والا کوئی نہیں ہے تو سارے جہاں کا یہ چرخہ کیونکر چل رہا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ دنیا بغیر بنانے والے کے کیوں نہیں بن سکتی ؟

۲ ۔ بڑھیا نے کیونکر سمجھایا کہ خدا ہے ؟

۶

تیسرا سبق

خدا کو بغیر دیکھے کیوں مانتے ہیں ؟

ہم ریل کے کسی ایک ڈبہ میں بیٹھ کر سفر کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ ریل چلتے چلتے اسٹیشنوں پر رکتی ہے۔ پرانے مسافروں کو اتار کر اور نئے مسافروں کو لے کر پھر روانہ ہو جاتی ہے۔ ہم ڈبہ سے جب جھانک کر دیکھتے ہیں تو ہمیں صرف ریل کا انجن گاڑی کو کھینچتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور انجن میں بیٹھ کر ریل کے چلانے والے ڈرائیور کو ہم نہیں دیکھ پاتے۔ پھر بھی ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اس گاڑی کا چلانے والا کوئی ضرور ہے۔ اسی طرح جب اس رواں رواں کائنات کو دیکھتے ہیں تو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ خدا ضرور ہے جو پوری دنیا کو چلا رہا ہے۔

ہمارے چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روز ایک دہریہ نے پوچھا کہ ہم نے خدا کو دیکھا نہیں اور آپ کہتے ہیں کہ خدا کو کوئی دیکھ بھی نہیں سکتا تو پھر بتائیے بغیر دیکھے ہم کو کیسے یقین آئے کہ خدا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کبھی تونے دریا کا سفر کیا ہے ؟ کہا ہاں۔آپ نے پوچھا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ تمہاری کشتی طوفان سے ٹوٹ کر ڈوبنے لگی ہو ؟ اس نے کہا ہاں ایسا بھی ہوا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا ! اچھا بتاو کہ جب تم کو کشتی کے ڈوبنے اور اپنے مرنے کا یقین ہو گیا تھا تب بھی تمہارا دل یہ کہتا تھا یا نہیں کہ اب بھی کوئی بچا سکتا ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں ضرور کہتا تھا۔ امام علیہ السلام نے پوچھا وہ کون تھا جس سے تم مایوسی کے بعد بھی لو لگائے ہوئے تھے۔ کیا تم نے اسے دیکھا تھا ؟ اس نے کہا دیکھا تو نہیں لیکن دل ان دیکھ سہارے سے لو لگائے تھا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا " مایوسی کی حالت میں جو ذات دل کو سہارا دیتی ہے وہی خدا ہے "۔

سچا مسلمان وہی ہے جو مشکلوں میں گھر جانے کے باوجود بھی مایوس نہ ہو اور ہمیشہ خدا کی رحمتوں کی امید رکھے۔

سوالات :

۱ ۔ خدا کو بغیر دیکھے کس طرح مانا کا سکتا ہے ؟

۲ ۔ امام علیہ السلام نے خدا کو ماننے کے لئے کیا دلیل دی ؟

۳ ۔ سچا مسلمان کون ہے ؟

۷

چوتھا سبق

ہمارا خدا

واحد ہے ۔ یعنی ایک اور اکیلا ہے اس کا کوئی ساتھی یا سنگھاتی نہیں ہے ۔ نہ کسی کو اپنے کام میں شریک کرتا ہے اور نی اس کو کسی کی رائے کی ضرورت ہے۔

احد ہے۔ یعنی اس کا کوئی جز نہیں ہے اور نہ وہ کسی کا جز ہے۔ وہ ایک ہے اکیلا ہے اور مرکب نہیں ہے۔ جیسے شربت کہ وہ دیکھنے میں ایک چیز ہے لیکن اصل میں پانی اور شکر سے مل کر بنا ہے اور خدا ایسا نہیں ہے۔

صمد ہے ۔ یعنی وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ ساری کائنات اس کی محتاج ہے اور وہ خود کسی کا محتاج نہیں ہے۔

ازلی ہے ۔ یعنی ہمیشہ سے ہے۔

ابدی ہے ۔ یعنی ہمیشہ رہےگا۔

سرمدی ہے ۔ یعنی زمانے سے پہلے تھا اور زمانہ کے بعد بھی رہےگا۔

قیوم ہے ۔ یعنی ساری کائنات کا قیام اسی کی وجہ سے ہے۔اس کا ارادہ بدل جائے تو دنیا دیکھتے دیکھتے فنا ہو جائے۔

لَیسَ کَمَثلِه شَیءٌ ۔ یعنی خدا کا جیسا کوئی دوسرا نہیں ہے اور نہ اسے کسی کی مثال بنایا جا سکتا ہے۔

لَم یَلَد وَ لَم یُولَد ۔ یعنی نہ اس کا کوئی باپ ہے نہ کوئی اسکا بیٹا۔

سولات :

۱ ۔ واحد اور احد کے معنی بتاو اور دونوں کا فرق سمجھ کر بتاو ؟

۲ ۔ صمد اور سرمدی کا کیا مطلب ہے ؟

۳ ۔ اگر خدا کا ارادہ بدل جائے تو کیا ہوگا ؟

۸

پانچواں سبق

مذہب اور لا مذہبیت

دنیا میں جو لوگ بستے ہیں ان میں کچھ تو مذہب کو مانتے ہیں اور کچھ نہیں مانتے ہیں۔ جو لوگ مذہب کو مانتے ہیں وہ بھی کئی طرح کے ہیں اور جو نہیں مانتے ہیں وہ بھی کئی طرح کے ہیں۔

مسلمان ۔ یعنی توحید ، رسالت ، اور قیامت کا اقرار کرنے والا۔

مومن ۔ یعنی توحید ،عدالت رسالت ، امامت اور قیامت کا قرار کرنے والا۔

کافر ۔ یعنی اصول دین یا نماز روزہ وغیرہ جیسے اسلام کے کسی بھی مانے ہوئے حکم کا انکار کرنے والا۔

منافق ۔ یعنی زبان سے کلمہ پڑھنے کے باوجود دل میں کفر رکھنے والا۔

مشرک ۔ یعنی کئی خداووں کا ماننے والا۔

مرتد ۔ یعنی جو مسلمان کافر ہو جائے۔

مرتدملی ۔ یعنی وہ کافر جو مسلمان ہونے کے بعد پھر کافر ہو جائے ۔مرتد فطری ۔ یعنی وہ مسلمان جس کے ماں باپ میں سے کوئی ایک مسلمان ہو اور وہ خود کافر ہو جائے۔

یہودی ۔ وہ لوگ ہیں جو حضرت موسیٰؐ کے بعد کسی نبی کو نہیں مانتے۔

عیسائی ۔ وہ لوگ ہیں جو حضرت عیسیٰ ؐ کو آخری نبی سمجھتے ہیں ۔

مجوسی وہ لوگ ہیں جو آگ کو خدا مانتے ہیں ۔

کافر ذمی ۔ وہ کافر جس کا نبیؐ امامؐ سے معاہدہ ہو ۔

کافر حربی ۔ وہ کافر جس کا نبیؐ یا مامؐ سے معاہدہ نہ ہو ۔

سوالات :

۱ ۔ دنیا میں کتنی طرح کے لوگ رہتے ہیں ؟

۲ ۔ مرتد فطری اور مرتد ملی کسے کہتے ہیں ؟

۳ ۔ جس کافر کا امام سے معاہدہ نہ ہو اسے کیا کہیں گے ؟

۹

چھٹا سبق

اصول اور فروع

ہمارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ ان کی باتوں کو ماننا اسلام ہے۔ ہمارے نبیؐ نے ہم کو جتنی باتیں بتائی ہیں وہ دو طرح کی ہیں۔ ایک کا نام اصول دین ہے اور دسرے کا نام فروع دین ہے۔

اصول دین :۔ ان باتوں کو کہتے ہیں جن پر دل سے یقین رکھنا ضروری ہے جیسے

خدا ایک ہے ، عادل ہے ۔ آخری نبی ہمارے نبیؐ ہیں اور ان کے جانشین ہمارے بارہ امام ہیں۔قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ قیامت کا ایک دن معین ہے ۔

فروع دین :۔ ان باتوں کو کہتے ہیں جن پر عمل کرنا واجب ہے جیسے نماز پڑھنا ، روزہ رکھنا ، حج کرنا ، خمس ، زکوٰۃ نکالنا وغیرہ۔ ہر شخص پر واجب ہے کہ اصول دین کو دلیلوں کے ذریعہ سمجھے اور اپنی عقل سے پرکھ کر مانے ، صرف کسی کے کہنے پر ماننا کافی نہیں ہے بلکہ دوسروں سے جو کچھ سنے یا معلوم کرے اسے اپنی عقل سے پرکھے جو صحیح ثابت ہو اسے

مانے اور جو غلط ثابت ہو اسے نہ مانے۔

فروع دین خدا اور رسولؐ کے احکام کا نام ہے اور خدا اور رسولؐ کے احکام کا فیصلہ اپنی عقل سے نہیں کیا جا سکتا لہذا جو خدا اور رسولؐ اور امامؐ کا حکم ہو اسی پر عمل کرنا چاہئیے۔

سوالات :

۱ ۔ خدا ایک ہے۔ امام بارہ ہیں۔ یہ باتیں اصول دین میں ہیں یا فروع دیں میں ؟

۲ ۔ فروع دین کون سی باتوں کو کہتے ہیں ؟

۳ ۔ اپنی عقل سے پرکھ کر اصول دین کو ماننا چاہئیے یا فروع دین کو ؟

۱۰

ساتواں سبق

خدا عادل ہے

خدا عادل ہے یعنی نہ اس نے کبھی ظلم کیا ہے نہ کبھی ظلم کرےگا۔ خدا ہر برائی سے پاک ہے۔ نہ خود کبھی برائی کرتا ہے نہ کسی کی برائی کو پسند کرتا ہے۔ ہر انسان کو نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔ ایسا حکم دینے والا نہ کسی اچھائی کو چھوڑ سکتا ہے نہ کسی برائی کا روادار ہو سکتا ہے۔

خدا کو عادل ماننے کا مطلب ہے کہ اس کے ہر حکم کو صحیح مانا جائے۔ غلط حکم دینے والا کبھی عادل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ خدا نے شیطان اور ملائکہ دونوں کو حکم دیا تھا کہ جناب آدمؐ کے سامنے سجدہ کریں۔ ملائکہ نے سجدہ کا حکم مانا اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ خدا عادل ہے غلط حکم نہیں دے سکتا۔ شیطان خدا کو عادل نہیں مانتا تھا لہذا اس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ نہ صرف انکار کیا بلکہ خدا پر الزام لگایا کہ تو مجھے اس کے سامنے جھکنے کا حکم دیتا ہے جس سے میں بہتر اور افضل ہوں۔

جو لوگ خدا کے احکام پر اعتراض کرتے رہتے ہیں وہ صرف حکم خدا پر اعتراض نہیں کرتے بلکہ خدا کے عادل ہونے سے بھی انکار کرتے ہیں۔ کسی کی موت کو نا وقت موت سمجھنا بھی اللہ کو عادل ماننے کے خلاف ہے کیونکہ خدا نے ہر شخص کی موت کا ایک وقت معین کیا ہے۔ خدا کے مقرر کئے ہوئے موت کے وقت کو غلط کہنا درست نہیں ہے۔

سوالات :

ا۔ شیطان نے حضرت آدمؐ کو سجدہ کیوں نہیں کیا ؟

۲ ۔ کسی کی موت کو ناوقت موت سمجھنا کیسا ہے ؟

۱۱

آٹھواں سبق

نبوت

نبی اور پیغمبر شکل و صورت میں ہمارے ہی جیسے ٓادمی ہوتے ہیں ہماری ہی طرح چلتے پھرتے ہیں۔ کھاتے پیتے اور سوتے جاگتے ہیں۔ لیکن ہم میں اور ان میں یہ فرق ہوتا ہے کہ ہم جاہل پیدا ہوتے ہیں وہ خدا سے علم لے کر آتے ہیں۔ جس طرح ہم گندگی سے بیزار رہتے ہیں اسی طرح وہ گناہوں سے بیزار رہتے ہیں۔ ہم گندگی کو چھو سکتے ہیں مگر کبھی نہیں چھوتے۔ اسی طرح نبی گناہ پر قدرت رکھتے ہیں مگر کبھی گناہ نہیں کرتے ۔ وہ معصوم ہیں، ہر عیب سے پاک ہیں۔ نہ جھوٹ بولتے ہیں نہ کسی کو ستاتے ہیں نہ کسی کا مال چھینتے ہیں اور نہ کوئی برائی کرتے ہیں، نہ کبھی خدا کی نافرمانی کرتے ہیں۔

یاد رکھو ! ہم میں اور نبی میں تین باتوں کا فرق ہوتا ہے :

۱ ۔ نبی عالم پیدا ہوتے ہیں۔ ان سے بھول چوک، غلطی اور خطا نہیں ہوتی۔ خدا ان کو عالم بنا کر پیدا کرتا ہے اور ہم جاہل پیدا ہوتے ہیں۔

۲ ۔ نبی معصوم ہوتا ہے کیونکہ ان کا علم مکمل ہوتا ہے وہ گناہوں کی برائیوں سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں اور اسی درجہ سے ہر گناہ سے بیزار رہتے ہیں۔ بیزار رہنے کی وجہ ان سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا اور ہم سے گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں۔

۳ ۔ خدا ان کو اپنی طرف سے ہماری ہدایت کے لئے بھیجا ہے اور ہمارا کام ان سے ہدایت حاصل کرنا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ ہم میں اور نبی میں کیا فرق ہے ؟

۲ ۔ نبی گناہ کیوں نہیں کرتے ؟

۳ ۔ نبی کیوں معصوم ہوتے ہیں ؟

۱۲

نواں سبق

ہمارے رسولؐ

ہمارے رسولؐ ابھی اپنی مادر گرامی کے شکم مبارک ہی میں تھے کہ آپ کے والد جناب عبد اللہ کا انتقال ہو گیا۔ جب آپ چار برس کے تھے تو آپ کی والدہ جناب آمنہ کا انتقال ہو گیا۔ آپ کے دادا جناب عبد المطلب ٌ کا انتقال اس وقت ہوا جب آپ کی عمر آٹھ برس کی تھی۔ دادا نے انتقال کے وقت ہمارے رسولؐ کو اپنے سب سے لائق بیٹے جناب ابو طالبؐ کے حوالہ کیا۔ جناب ابو طالب ؐ مرتے دم تک آپ کی سب سے بڑھ کرحفاظت کی۔ جناب خدیجہّ بلند کردار اور مالدار بیبی تھیں نے اپنی ساری دولت اسلام کی مدد میں خرچ کر دی ۔ جب آپ چالیس سال کے ہوئے تو خدا نے آپ کو نبوت کے اعلان کا حکم دیا۔ جناب خدیجہ ّ سے آپ کے کئی بیٹے پیدا ہوئے جو زندہ نہ رہے۔ ان میں سے ایک بیٹے کا نام قاسم تھا اور انھیں کی وجہ سے آپ کی کنیت ابو القاسم (یعنی قاسم کے باپ) ہوئی۔

بیٹوں کے انتقال کے بعد ہماری شاہزادی جناب فاطمہ زہراؐ صلوات اللہ علیہاپیدا ہوئیں۔ آپ کی نسل آپ کی اکلوتی بیٹی جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا ہی سے چلی ہے۔ انتقال کے وقت ہمارے رسولؐ کی عمر ترسٹھ سال کی تھی۔

سوالات :

۱ ۔ ہمارے رسولؐ کو ابوالقاسم کیوں کہتے ہیں ؟

۲ ۔ ہمارے رسولؐ کے والد کا نام کیا تھا ؟

۳ ۔ پیغمبر اکرمؐ کے دادا کا کیا نام تھا ؟

۴ ۔ ہمارے رسولؐ کی نسل کس سے چلی ؟

۱۳

دسواں سبق

امام

خدا ہمیشہ بندوں کی ہدایت کے لئے ایک نبی کے بعد دوسرا نبی بھیجتا رہا۔ سب سے آخر میں ہمارے نبیؐ تشریف لائے۔ جن کے بعد کوئی نبی نہ آیا ہے نہ آئےگا لیکن بندوں کی ہدایت کا سلسلہ جاری رکھنا ضروری تھا تاکہ لوگ ہدایت پاتے رہیں اور گمراہی سے محفوظ رہیں لہذا نبوت کے خاتمہ کے بعد اللہ نے بندوں کی ہدایت کے لئے اماموں کو بھیجا۔

امام بھی چونکہ نبی کی طرح ہدایت کرنے کے لئے آتا ہے لہذا اس میں بھی وہ ساری باتیں پائی جاتی ہیں جو نبی میں پائی جاتی ہیں۔ امام وہ ہوتا ہے جس میں تین باتیں پائی جائیں۔

۱ ۔ امام عالم پیدا ہوتا ہے اور اپنے زمانہ کے تمام لوگوں سے علم اور دوسری باتوں میں افضل ہوتا ہے۔ اس سے بھی کبھی بھول چوک غلطی یا خطا نہیں ہوتی۔

۲ ۔ امام بھی نبی کی طرح معصوم ہوتا ہے۔

۳ ۔ امام کو بھی خدا اپنے حکم سے مقرر کرتا ہے۔ چناچہ ہمارے نبیؐ نے اپنے چچا زاد بھائی اور داماد حضرت علی علیہ السلام کو خدا کے حکم سے اپنا خلیفہ جانشین مقرر کیا تھا۔ آپ ہی ہمارے پہلے امام ہیں۔ آپ کے بعد آپ کے گیارہ فرزند امام ہوئے جو سب کے سب حضرت علیؐ کی اولاد تھے اور سب کو خدا نے امام مقرر کیا تھا۔

نبی اور امام میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ نبی صاحب شریعت ہوتا ہے اور امام محافظ شریعت ہوتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ امام کی کیوں ضرورت ہوتی ہے ؟

۲ ۔ امام میں نبی کی کونسی باتیں پائی جاتی ہیں ؟

۳ ۔ اماموں کے نام بتائیے ؟

۴ ۔ نبی و امام کا فرق بتائیے ؟

۱۴

گیارہواں سبق

ہمارے پہلے امامؐ

ہمارے امام بارہ ہیں۔ جن میں سے پہلے امام حضرت علی علیہ السلام ہیں آپ خانہ کعبہ میں تیرہ رجب کو پیدا ہوئے۔ آپ کے تین بھائی اور تھے۔ طالب ، عقیل اور جعفر طیار۔ آپ سب سے چھوٹے تھے۔ آپ کے بھائیوں میں ہر بھائی ایک دوسرے سے دس سال چھوٹا تھا۔ سب سے بڑے بھائی طالب تھے اور اسی وجہ سے آپ کے والد ابو طالب کہلائے۔ آپ کے والد کا اصلی نام عمران تھا۔ حضرت علیؐ سے بڑے جعفر طیار تھے۔ ان کے بازو جنگ موتہ میں کٹ گئے تھے۔ شہادت کے بعد خدا نے آپ کو دو پر عنایت کئے جن سے آپ جنت میں پرواز کرتے ہیں اسی لئے آپ کو طیار یعنی اڑنے والا کہا جاتا ہے۔

جعفر طیار سے بڑے عقیل تھے جن کے بیٹے مسلمؐ بن عقیل ، امام حسینؐ کے ایلچی بن کر کوفہ میں آئے تھے اور شہید ہوئے۔ سب سے بڑے بھائی طالب تھے۔ آپ کی ایک بہن ام ہانی تھیں جو بڑی مومنہ تھیں۔ حضرت علی علیہ السلام کی ماں فاطمہ بنت اسد کو ہمارے نبی ؐ محبت اور احترام سے اپنی ماں کہتے تھے کیوں کہ فاطمہ بنت اسد نے ہمارے رسولؐ کی بڑی خدمت کی تھی اور آپ رسولؐ کو اپنی اولاد سے زیادہ چاہتی تھیں۔ حضرت ابو طالب ہمیشہ رسولؐ کے سینہ سپر رہے۔ آپ رسولؐ کی جگہ پر اپنے بیٹوں کو سلادیتے تھے تاکہ اگر رات کے وقت دشمن حضور پر حملہ کر دیں تو آپ کی جان بچ جائے چاہے میرے بچے قتل ہو جائیں۔ حضرت علیؐ علیہ السلام کی اولاد میں امام حسنؐ علیہ السلام اور امام حسینؐ علیہ السلام کی سگی بہنیں جناب زینبؐ اور جناب ام کلثومؐ اور سوتیلے بھائی جناب عباسؐ اور جانب محمد حنفیہ زیادہ مشہور ہیں۔

سوالات :

۱ ۔ حضرت علیؐ کے کتنے بھائی تھے ؟ ان کے نام بتا ؤ ؟

۲ ۔ جناب عباس اور محمد حنفیہ کون تھے ؟

۳ ۔ حضرت ابو طالب کا نام بتا ؤ ؟

۴ ۔ فاطمہ ؐ بنت اسد کون تھیں ؟

۱۵

بارہواں سبق

حضرت علیؐ کے اخلاق

دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو برائی کرنے کے بعد اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ پروردگار نے ان سے بدلا نہیں لیا۔ انھیں یہ خبر نہیں ہے کہ دنیا کی برکت و نحوست اور آخرت کا عذاب و ثواب سب اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ جب چاہےگا ان برائیوں کا بدلہ لیلےگا۔

میثم تمار، حضرت علیؐ کے ایک مشہور صحابی تھے۔ کوفہ میں خرمہ کی تجارت کرتے تھے۔ حضرت علیؐ کا دستور تھا کہ میثم کی دکان پر آ کر بیٹھ جایا کرتے تھے اور لوگوں کو تجارت کی خوبی سے آگاہ کیا کرتے تھے۔ ایک دن میثم آپ کو اپنی دکان پر بٹھا کر چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص خرمہ خریدنے آیا۔ آپ نے خرمہ تول کر دیدیا اس نے آپ کو کھوٹا درہم دیدیا اور خوشی خوشی چلا گیا۔

میثم پلٹ کر آئے تو آپ نے انھیں درہم دیا۔ انھوں نے عرض کی مولاؐ ! یہ درہم تو کھوٹا ہے۔ آپ نے فرمایا کوئی پرواہ نہیں ہے میں جانتا تھا لیکن میں نے اسے ذلیل کرنا نہیں چاہا۔ اللہ اس کا اچھا بدلہ دےگا۔ تھوڑی دیر کے بعد شخص واپس آیا اور کہنے لگا علیؐ ان کھجوروں میں کیڑے پڑے ہوئے ہیں۔ آپ نے فرمایا اپنا درہم لے لے اور میرے خرمے واپس کر دے۔ اس نے خرمے دے دیئے اور درہم واپس لے کر چلا گیا۔ میثم نے دیکھا خرمے بالکل ٹھیک ہیں تو عرض کی۔ میرے مولاؐ ! یہ واقعہً کیا ہوا ؟ فرمایا اے میثم پروردگار اپنے نیک بندوں کا اسی طرح خیال رکھتا ہے اس شخص نے ہم لوگوں کو دھوکہ دینا چاہا۔ اللہ نے اس کا بدلہ لے لیا اور اسے کامیاب نہیں ہونے دیا۔

سوالات :

۱ ۔ میثم کون تھے ؟

۲ ۔ حضرت علیؐ نے کھوٹا درہم کیوں لے لیا تھا ؟

۱۶

تیرہواں سبق

بارہ اماموں کی عمریں

حضرت امام علی علیہ السلام : آپ تیرہ رجب ۳۰ ؁ عام الفیل یعنی ہجرت سے تیس سال پہلے شہر مکہ میں جمعہ کے دن خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور اکیس رمضان ۴۰ ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ترسٹھ برس کی تھی۔ آپ کی قبر مطہر نجف میں ہے۔

حضرت امام حسن علیہ السلام : آپ پندرہ رمضان ۳ ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور اٹھائیس صفر ۵۰ ؁ میں شید ہوئے ۔آپ جنت البقیع مدینہ میں دفن ہوئے،

حضرت امام حسین علیہ السلام : آپ کی عمر سینتالیس برس تھی۔ آپ تین شعبان ۴ ؁ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور دس محرم ۲۱ ؁ میں شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ستاون برس تھی۔ آپ کا روضہ کربلا میں ہے

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام : آپ پندرہ جمادی الاول ۳۸ ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۲۵ ؁ محرم ۹۵ ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ستاون برس تھی۔ آپ کی قبر جنت البقیع مدینہ میں ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام : آپ پہلی ۵۷ ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور سات الحجہ ۱۱۴ ؁ کو شہید ہوئے۔آپ کی عمر ستاون برس تھی۔ آپ بھی جنت البقیع مدینہ منورہ میں دفن ہوئے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام : آپ ۱۷ ربیع الاول ۸۳ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۱۵ شوال ۱۴۸ ھ؁ میں شہید ہوئے۔ آپ کی عمر پینسٹھ برس تھی۔ آپ کی قبر بھی جنت البقیع مدینہ منورہ میں ہے۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام : آپ سات صفر ۱۲۸ ھ؁ کو ابوا میں پیدا ہوئے اور ۲۵ رجب ۱۸۳ ھ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ۵۵ برس تھی۔ آپ کا روضہ کاظمین میں ہے۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام : آپ گیارہ ذیقعدہ ۱۵۳ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں بیدا ہوئے اور ۲۳ ذیقعدہ ۲۰۳ ھ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ۵۰ برس تھی۔ آپ کا روضہ مشہد میں ہے۔

۱۷

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام : آپ دس رجب ۱۹۵ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۲۹ ذیقعدہ ۲۲۰ ھ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ۲۵ برس تھی۔ کاظمین میں آپ کی قبر مطہر ہے۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام : آپ پانچ رجب ۲۱۴ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور تین رجب ۲۵۴ ھ؁ میں شہید ہوئے۔ آپ کی عمر چالیس برس تھی۔ آپ سامرہ میں دفن ہوئے۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام : آپ دس ربیع الشانی ۲۳۲ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور آٹھ ربیع الاول ۲۶۰ ھ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ۲۸ برس تھی۔ آپ کا روضہ بھی سامرہ میں ہے۔

حضرت امام مہدی آخرالزماں علیہ السلام : آپ پندرہ شعبان ۲۵۶ ھ؁ کو شہر سامرہ میں پیدا ہوئے اور آج تک بحکم خدا زندہ ہیں اور پردہ غیب میں ہیں جب حکم خدا ہوگا تو ظاہر ہوں گے۔

سوالات :

۱ ۔ جنت البقیع میں کون کون امام دفن ہیں ؟

۲ ۔ مشہد ، کاظمین ، اور سامرہ میں کون ائمہ کی قبریں ہیں ؟

۳ ۔ حضرت علیؐ اور امام حسینؐ کی قبریں کہاں ہیں ؟

۴ ۔ تیسرے ، چھٹے اور نویں امام کی تاریخ ولادت و وفات بتائے ۔

۱۸

چودھواں سبق

موت کے بعد

برزخ :۔

ہر آدمی کے مرنے کے بعد سے لے کر قیامت تک کی مدت کو برزخ کہتے ہیں۔ برزخ میں صحیح عقیدے والے آرام سے اور برے عقیدے والے تکلیف سے رہتے ہیں۔

قبر میں سوال و جواب :۔

مرنے کے بعد قبر میں دو فرشتے آتے ہیں جو مردہ کو زندہ کر کے اس سے سوال کرتے ہیں۔ اچھے اعمال والوں کے پاس آنے والے فرشتوں کے نام مبشر و بشیر ہیں اور برے اعمال والوں کے پاس آنے والے فرشتوں کے نام منکر و نکیر ہیں۔

فرشتوں کے سوال جواب

تیرا خدا کون ہے ؟ اللہ

تیرا دین کیا ہے ؟ اسلام

تیرے پیغمبر کون ہیں ؟ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

تیرا امام کوں ہیں ؟ حضرت علی علیہ السلام اور ان کے بعد گیارہ امامؐ

تیری کتاب کیا ہے ؟ قرآن مجید

تیرا قبلہ کیا ہے ؟ کعبہ محترم

جو شخص ان سوالوں کا جواب ٹھیک دیتا ہے اس کی قبر کو فرشتے جنت کا ایک باغ بنا دیتے ہیں اور جس کے جواب ٹھیک نہیں ہوتے اس کی قبر کو دوزخ کی آگ سے بھر دیتے ہیں۔

۱۹

نامئہ اعمال :۔

خدا کی طرف سے ہر شخص پر دو فرشتے مقرر ہیں۔ ایک اچھے اعمال لکھتا ہے۔ دوسرا برے اعمال لکھتا ہے۔ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کا اعمالنامہ دیا جائےگا۔

میزان :۔

قیامت کے دن ہر ہر شخص کے اعمال انصاف کی ترازو میں تولے جائیںگے۔ اسی ترازو کو میزان کہتے ہیں۔

صراط :۔

ہر شخص کو قیامت کے دن ایک پل پر سے گزرنا ہوگا جو بال سے زیادہ باریک ، تلوار کی دھار سے زیادہ تیز اور آگ سے زیادہ گرم ہوگا۔ صحیح ایمان اور اچھے اعمال والے اس پر سے گزر جائیںگے اور جن کا ایمان و عمل خراب ہوگا وہ دوزخ میں گر پڑیںگے۔

شفاعت :

قیامت کے دن ہمارے نبیؐ اور امام گنہگار مومنین کو شفاعت کر کے بجشوائیں گے اور خدا ان کی شفاعت کو قبول کرےگا۔

سوالات :

۱ ۔ برزخ سے کیا مراد ہے ؟

۲ ۔ منکر و نکیر اور مبشر و بشیر کون ہیں ؟

۳ ۔ صراط کس کو کہتے ہیں ؟

۴ ۔ شفاعت کون کس کی کرےگا ؟

۲۰

پندہواں سبق

قرآن معجزہ ہے

جس طرح اللہ نے بندوں کی ہدایت کے لئے توریت ، زبور ، اور انجیل نازل کی۔ اسی طرح قرآن کو بھی قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل کیا۔

قرآن ہمارے نبیؐ پر معجزہ بن کر نازل ہوا ہے۔ جس کو آپ نے اپنی نبوت کے دعوے کی سچائی کے ثبوت میں پیش کیا۔ اور قرآن میں خود خودا نے کہا کہ اگر کسی کو میرے نبیؐ کے دین میں شک ہو تو اسے چاہئیے کہ قرآن کے کسی ایک سورے کا جواب لے آئے۔ اور اگر جواب نہ لا سکے تو یقین کرے کہ ہمارا نبیؐ اور اس کا دین سچا ہے۔ آج تک کوئی بھی قرآن کی ایک آیت کا جواب نہیں لا سکا۔ اور جواب کا نہ آنا قرآن کے معجزہ ہونے کی دلیل ہے۔

سوالات:۔

۱ ۔ قیامت تک کی ہدایت کے لئے کون سی کتاب نازل ہوئی ؟

۲ ۔ قرآن کے معجزہ ہونے کی دلیل کیا ہے ؟

۲۱

سولہواں سبق

آداب تلاوت

قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت ان علامتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

ج ۔ وقف جائز علامت ہے یہاں پر ٹھہرنا ہے۔

ز ۔ یہ بھی وقف جائز کی علامت ہے مگر ملا کر پڑھنا بہتر ہے۔

لا ۔ اس علامت پر ٹھہرا نہیں چاہئیے بلکہ بعد سے ملا کر پڑھنا چاہئیے۔

ط ۔ یہ علامت وقف مطلق کی ہے جس سے آگے بڑھ جانا مناسب نہیں ہے۔

م ۔ یہ علامت وقف لازم کی ہے جس سے آگے بڑھنا جائز نہیں ہے۔

قف ۔ یہ ٹھہر جانے کی علامت ہے ۔

ص ۔ یہاں سانس توڑ دینے کی رخصت ہے۔

صلے ۔ یہاں وصل اولیٰ ہے (یعنی) آگے سے ملاکر پڑھنا بہتر ہے۔

۔ یہ علامت جس لفظ کے آگے پیچھے ہوتی ہے اس میں دو میں سے ایک جگہ وقف کیا جاتا ہے ۔

سالات :

۱ ۔ علامت کا لحاظ رکھے بغیر تلاوت قرآن کرنا کیسا ہے ؟

۲ ۔ " ز " اور " ج " کون سے وقف کی علامت ہیں اور دونوں کے حکم میں کیا فرق ہے

۲۲

سترہواں سبق

فرشتے

جس طرح اللہ نے زمین پر مٹی سے انسان کو پیدا کیا ہے اسی طرح نور سے ایک مخلوق پیدا کی ہے جس کا نام فرشتہ ہے۔ فرشتے اپنی خلقت میں معصوم ہوتے ہیں۔ ان سے کوئی غلطی نہیں ہوتی۔ یہ ہر وقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ کوئی رکوع میں رہتا ہے کوئی سجدہ میں کوئی قیام میں رہتا ہے کوئی تسبیح میں۔

فرشتوں کو اللہ نے مخلتف کاموں کے لئے پیدا کیا ہے کسی کو زمین کا انتظام سپرد کیا ہے ، کسی کو آسمان کا ، کسی کو پانی پر مقرر کیا ہے اور کسی کو ہوا پر۔

ان فرشتوں میں چار فرشتے زیادہ مشہور ہیں

۱ ۔ جبرئیل ۔ جو ہمارے نبیؐ کے پاس قرآن لیکر آیا کرتے تھے۔

۲ ۔ میکائیل ۔ جو بندوں کا رزق ان تک پہنچاتے ہیں ۔

۳ ۔ اسرافیل ۔ جن کے ایک صور پھونکنے پر ساری دنیا فنا ہو جائےگی۔

۴ ۔ عزرائیل ۔ جن کا کام لوگوں کی روح قبض کرنا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اللہ نے فرشتوں کو کس چیز سے پیدا کیا ان سے کبھی کوئی غلطی ہو سکتی ہے؟

۲ ۔ اس فرشتہ کا نام بتاؤ جو بندوں کو رزق پہنچاتا ہے ۔

۲۳

اٹھارہواں سبق

اسباب خیر و برکت

۱ ۔ قبل غروب چراغ جلانا۔

۲ ۔ گھر میں داخل ہوتے وقت سورہ توحید پڑھنا۔

۳ ۔ کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونا۔

۴ ۔ یاقوت اور فیروزہ کی انگوٹھی پہننا۔

۵ ۔ صبح سویرے اٹھنا۔

۶ ۔ مسجد میں قبل اذان پہنچنا۔

۷ ۔ باطہارت رہنا۔

۸ ۔ بعد نماز تعقیبات پڑھنا

۹ ۔ عزیزوں کے ساتھ احسان کرنا۔

۱۰ ۔ گھر کو صاف رکھنا۔

۱۱ ۔ مومن کی حاجت روائی کرنا۔

۱۲ ۔ فکر معاش میں صبح کو جانا۔

۱۳ ۔ موذن کی اذان دھرانا۔

۱۴ ۔ دسترخان پر گرے ہوئے ریزوں کو چن کر ادب سے کھانا۔

۱۵ ۔ رات کو باوضو سونا۔

سوالات :

۱ ۔ اسباب خیر و برکت میں کوئی پانچ اسباب بیان کرو ؟

۲ ۔ فکر معاش میں صبح کو جانا اور اذان دہرانا اسباب برکت میں سے اسباب نحوست میں۔

۲۴

انیسواں سبق

اسباب نحوست

۱ ۔ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا۔

۲ ۔ کھڑے ہو کر کھانا کھانا۔

۳ ۔ منھ سے چراغ بجھانا۔

۴ ۔ دامن یا آستین سے منھ پوچھنا۔

۵ ۔ حمام میں پیشاب کرنا۔

۶ ۔ مٹی سے ہاتھ دھونا۔

۷ ۔ لہسن ، پیاز کے چھلکے جلانا۔

۸ ۔ قبر پر بیٹھنا۔

۹ ۔ چوکھٹ پر بیٹھنا ۔

۱۰ ۔ دانتوں سے ناخن کاٹنا۔

۱۱ ۔ فقیروں سے بے تو جہی کرنا۔

۱۲ ۔ قلم پر پاؤں رکھنا۔

۱۳ ۔ مکڑی کا جالا گھر میں رکھنا۔

۱۴ ۔ حالت جنابت میں کچھ کھانا ۔

۱۵ ۔ کھڑے ہو کر کنگھی کرنا۔

۱۶ ۔ رات کو کھڑے ہوکر پانی پینا۔

۲۵

۱۷ ۔ کوڑا گھر میں رکھنا۔

۱۸ ۔ کھڑے ہوکر پائجامہ پہننا۔

۱۹ ۔ نماز صبح کے بعد اول طلوع آفتاب سو جانا۔

سوالات :

۱ ۔ اسباب نحوست میں سے کوئی پانچ سبب بیان کرو ؟

۲ ۔ قبر پر بیٹھنا اور باطہارت سونا میں کون اسباب خیر و برکت میں داخل ہے اور کون اسباب نحوست ہیں ؟

۲۶

بیسواں سبق

آداب بندگی

اگر اللہ ہمیں یاد رہے تو ہم کبھی گناہ نہ کریںگے کیوںکہ گناہ سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔ جب کوئی اچھا بیٹا اپنے باپ کو ناراض نہیں کرتا تو کوئی سچھا مسلمان اپنے خدا کو کیسے ناراض کر سکتا ہے۔ ایک سچھے مسلمان ہونے کی بنا پر ہمارا فرض ہے کہ ہم گناہوں سے بچیں اور خدا کے احکام بجا لائیں۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم خدا کو یاد رکھیں۔ خدا کی یاد سے دل پاک رہتا ہے۔ ہمارے کاموں میں برکت پیدا ہوتٰی ہے اور نحوست دور ہوتی ہے۔اس لئے عادت ڈالو کہ جب :

۱ ۔ کوئی کام شروع کرو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بسم الله ۔۔۔۔کہو

۲ ۔ کوئی کام ختم کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الحمد الله ۔۔۔۔کہو

۳ ۔ کوئی بری بات دیکھو یا کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔استغفر الله ۔۔۔۔کہو

۴ ۔ کوئی اچھی چیز دیکھو یا اچھا کام کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سبحان الله ۔۔۔۔کہو

۵ ۔ اٹھتے بیٹھتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاَ حَولَ وَ لاَ قُوَةَ اِلاَّ بِا للهِ ۔۔۔۔کہو

۶ ۔ غم کی خبر سنو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِنَّ لِلهِ وَ اَنَا اِليه راجِعُونَ ۔۔۔۔کہو

۷ ۔ خوشی کی خبر سنو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مَا شَآءَ الله ۔۔۔۔کہو

۸ ۔ کوئی وعدہ کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انشَآءَ الله ۔۔۔۔کہو

۹ ۔ جب کسی کو رخصت کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فی اَمَانِ الله ۔۔۔۔کہو

۱۰ ۔ جب کوئیٰ نعمت پاؤ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شُکراً الله ۔۔۔۔کہو

۱۱ ۔ جب کوئی بڑا خیال پیدا ہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اَعُوذُ بِا للهِ ۔۔۔۔کہو

۱۲ ۔ عجیب چیز دیکھو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اَلعَظَمَةُ للهِ ۔۔۔۔کہو

سوالات :

۱ ۔ خدا کو یاد رکھنے کے کیا گائدے ہیں ؟

۲ ۔ یاد رکھنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئیے ؟

۲۷

اکیسواں سبق

آداب زندگی

۱ ۔ حسنؐ اور حسینؐ میرے پھول ہیں ۔ حضرت رسولؐ کریم نے ارشاد فرمایا کہ

" نیک اولاد ایک پھول ہے جو خدا وند عالم نے اپنے بندوں کو مرحمت فرمایا ہے اور دنیا میں میرے پھول حسنؐ و حسینؐ ہیں "۔

۲ ۔ لڑکیاں نیکیاں اور لڑکے نعمت ہیں ۔ حضرت امام جعفر صادقؐ نے ارشاد فرمایا ہے ۔" لڑکیاں نیکیوں ہیں اور لڑکے نعمتیں ہیں۔ نیکیوں پر تم کو ثواب دیا جائےگا اور نعمتوں کے متعلق سوال کیا جائےگا۔

۳ ۔ لڑکوں کے نام نبی کے نام پر رکھنا چاہئیے ۔ حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ حضرت رسولؐ خدا کا ارشاد ہے کہ " جس شخص کے چار لؑڑکے ہوں اور وہ ایک کا نام بھی میرے نام پر نہ رکھے تو اس نے مجھ پر ظلم کیا "۔

۴ ۔ اذان اور اقامت کے بعد شیطان کا حملہ نہیں ہوتا ۔ حضرت مرسل اعظیمؐ نے ارشاد فرمایا کہ " جب بچہ پیدا ہو تو اس کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنی چاہئیے اس سے بچہ شیطان رجیم کے ا ثر سے محفوظ رہےگا۔

۵ ۔ عقیقہ اور مونڈن کا فرق ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جب بچہ پیدا ہو اس کا عقیقہ کرایا جائے۔ اس کا سر منڈوایا جائے اور اس کے بالوں کے برابر صدقہ دیا جائے۔

مونڈن اور عقیقہ الگ الگ کام میں دونوں کا ایک ساتھ ساتویں دن ہونا مستحب ہے۔ اگر ساتویں دن مونڈن نہ ہو تو عقیقہ کیا جائےگا یعنی جانور کو ذبح کیا جائیگا اور بالوں کا منڈوانا ضروری نہیں ہوگا۔

۲۸

۴ ۔ حضرت امیر المومنین علیؐ ابن ابی طالب کا فرمان ہے کہ " جب بچہ تین سال کا ہو جائے تو اس سے سات مرتبہ لااِله اِلاَّ الله کہلایا جائے۔ دو دن کے بعد اس سےمحمد رسول الله کہلایا جائے۔ جب چار سال پورے ہو جائیں تب اس سے کہا جائے کہصلی الله علیٰ محمد و آل محمد کہو، جب پانچ سال کا ہو جائے تو اس کو جنوب اور شمال کی شناخت کرائی جائے اور جب یہ جان لے تو اس کا رخ قبلہ کی طعف موڑو اور اس کو سجدہ کرنے کا حکم دو اوع جب چھہ سال کا ہو جائے تو اس کو رکوع و سجود کی تولیم دو۔ جب سات سال کا ہو جائے تب اس کو ہاتھ اور منھ کا دھونا سکھاؤ۔ جب وضو سیکھ لے تو اس کو نماز کا حکم دو۔ جب عمر نو سال ہو جائے اور وہ تمام آداب وضو سیکھ لے تو اس کو نماز کا حکم دو۔ اور نماز نہ پڑھنے پر بچہ کو مارا بھی جائے جب وہ وضو اور نماز سیکھ لےگا تو خدا اس کے ماں باپ کو بخش دیگا انشا اللہ تعالیٰ "۔

سوالات :

۱ ۔ رسولؐ نے کن لوگوں کو اپنا پھول کہا ہے ؟

۲ ۔ حضرت علیؐ نے تربیت اولاد میں کیا بتایا ہے ؟

۳ ۔ منڈن اور عقیقہ میں کیا فرق ہے ؟

۲۹

بائیسواں سبق

دعا کمیل

تم نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ شب جمعہ میں ایک دعا پڑھتے ہیں جس کا نام دعاء کمیل ہے۔ اس دعا کے بہت سے فائدے ہیں۔ دنیا میں آدمی کی روزی میں برکت ہوتی ہے۔ آخرت میں اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ اس دعا کو دعاء کمیل اس لئے کہتے ہیں کہ یہ حضرت علیؐ نے اپنے شاگرد حضرت کمیل کو بتائی تھی۔ حضرت کمیل کا خاندان بہت شریف تھا۔ وہ اپنی قوم کے سردار تھے۔ ایک مرتبہ بادشاہ نے کسی بات پر آپ کو ایک طمانچہ مار دیا تھا تو آپ نے ان سے بدلہ لینا چاہا اور وہ تیار بھی ہو گئے لیکن آپ نے معاف کر دیا۔ بادشاہ کے بدلے پر راضی ہو جانے سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب کمیل کا رعب بہت تھا اور لوگ ان سے خوف زدہ رہا کرتے تھے ورنہ بادشاہ کہیں کسی کو بدلا بھی دے سکتا ہے۔ حضرت کمیل نے اپنے حق کو معاف کر کے یہ بتا دیا کہ حضرت علیؐ کے چاہنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے ذاتی حق کو چھوڑ سکتے ہیں مگر خدا اور رسولؐ کے معاملہ میں کوئی رعایت نہیں کرتے۔

سوالات :

۱ ۔ دعا کمیل کو دعا کمیل کیوں کہتے ہیں ؟

۲ ۔ حضرت کمیل کون تھے ؟

۳ ۔ بادشاہ کا کمیل کے ساتھ کیا براتاؤ تھا ؟

۴ ۔ کمیل کا بادشاہ سے کیا برتاؤ تھا ؟

۳۰

تیئیسواں سبق

مالک ابن نویرہ

یہ رسولؐ اللہ کے صحابی تھے۔ انھیں حضرت نے مسلمانوں سے زکوٰۃ وغیرہ کا مال جمع کرنے کے لئے وکیل بنا دیا تھا۔ یہ رسولؐ اللہ کی وفات تک اپنے عہدے پر باقی رہے لیکن حضرت رسولؐ خدا کے انتقال کے بعد جب مدینہ میں آئے تو دیکھا کہ انھوں نے خلیفہ سے کہا کہ تم اپنی حالت پر باقی رہو اور اس جگہ کو اس کے اہل کے حوالہ کر دو۔ رسولؐ اللہ غدیر خم کے موقع پر حضرت علیؐ کو اپنا جانشین بنا چکے ہیں۔ اب کسی دوسرے کی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے بعد زکوٰۃ کا مال ان کو دینے سے انکار کر دیا تو انھوں نے خالد بن ولید کو جو ایک انتہائی جھگڑالو آدمی تھا لشکر کا سردار بنا کر بھیج دیا۔ اس نے مالک کی قوم پر زبردستی حملہ کر دیا اور سب کو قتل کرا دیا۔ اور مسلمانوں کے جان و مال عزت و آبرو کی کوئی پرواہ نہ کی حالانکہ مالک ابن نویرہ قتل ہوتے وقت بھی کلمہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر رہے تھے۔

سوالات :

۱ ۔ مالک ابن نویرہ کون تھے ؟

۲ ۔ ان کا کیا حکم تھا ؟

۳ ۔ حکومت نے ان پر کیوں چڑھائی کی ؟

۴ ۔ خالد نے ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ؟

۵ ۔ مالک حضرت علیؐ کو خلیفہ کیوں مانتے تھے ؟

۳۱

چوبیسواں سبق

تقلید

خدا نے اس دنیا میں کوئی چیز بیکار نہیں پیدا کی ہے اور ہم انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس لئے ہمارا فریضہ ہے کہ ہم دین کے ان تمام احکام پر عمل کریں جنھیں خدا نے ہمارے لئے مقرر کیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ عمل کرنا علم حاصل کئے بغیر ممکن نہیں ہے اس لئے پہلے ان احکام کا معلوم کرنا ضروری ہے اور یہ ہم انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ قرآن و حدیث سے احکام خدا معلوم کر سکے اس لئے ضروری ہے کہ علم دین کے جاننے والوں سے احکام دریافت کرے اور ان کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرے اسی چیز کا نام تقلید ہے۔

تقلید صرف ان احکام میں ہوتی ہے جن کا علم ہر مسلمان کو نہ ہو اور وہ مسلمانوں کے درمیان اتفاقی نہ ہوں۔ ایسے احکام جو اسلام میں انتہائی واضح ہیں جنھیں ہر مسلمان جانتا ہے جیسے نماز ، روزہ کے واجب ہونے کا حکم وغیرہ ان میں تقلید کی ضرورت نہیں ہے تقلید صرف اس عالم کی کی جاتی ہے جو اپنے زمانہ کے تمام علماء سے زیادہ علم رکھتا ہو اس لئے کہ ایسے عالم کے ہوتے ہوئے اس سے کمتری کی تقلید کرنا جائز بھی نہیں ہے اور خلاف عقل بھی اس لئے دیندار باخبر علماء جسے اعلم بتائے اسے اعلم ماننا چاہئیے۔

تقلید کرنے والے کا فریضہ ہے کہ وہ اعلم کے مسائل معلوم کر کے ان پر عمل کرے۔

سوالات :

۱ ۔ تقلید کا کیا مطلب ہے ؟

۲ ۔ کون اعلم ہے ؟

۳۲

پچیسواں سبق

طہارت اور نجاست

ہر چیز پاک ہے جب تک اس کا نجس ہونا معلوم نہ ہو ، کوئی پاک چیز صرف اسی وقت نجس ہوگی جب کوئی نجس چیز اس سے مل جائے اور دونوں میں سے کوئی ایک تر ہو۔ اگر کسی چیز کا پاک ہونا ہمیں پہلے سے معلوم ہو اور بعد میں اس کے نجس ہو جانے کے بارے میں شک پیدا ہو جائے تو اس شک کی وجہ سے وہ چیز نجس نہ سمجھی جائےگی بلکہ پاک ہی سمجھی جائےگی۔ اگر بجائے شک کے اس کی نجاست کا گمان بھی پیدا ہو جائے تب بھی محض گمان کی وجہ سے وہ شے نجس نہ ہوگی اور جب تک نجاست کا پورا یقین نہ ہو پاک ہی رہےگی۔

نجاست معلوم کرنے کے تین طریقے ہیں :۔

اول ۔ ذاتی علم ، یعنی ہم خود اپنی آنکھوں سے کسی چیز کو نجس ہوتے دیکھیں۔

دوسرے ۔ دو عادل گواہی دیں کہ فلاں چیز نجس ہے۔ ایک عادل کی گواہی کافی نہیں۔ البتہ اگر ایک ہی عادل کی گواہی سے یقین حاصل ہو جائے تو بھی اس یقین پر عمل کیا جائےگا اور اسے نجس سمجھا جائےگا۔

تیسرے ۔ جس شخص کے قبضے میں چیز ہو وہ کہے کہ یہ نجس ہے خواہ وہ مالک ہو یا کرایہ دار ہو ، عاریتہً لیا ہو یا امین ہو۔ قبضہ رکھنے والے کے لئے عادل ہونا ضروری نہیں۔

طہارت کے معلوم کرنے کے بھی تین طریقے ہیں:۔

اوّل ذاتی علم ، یعنی اسے پاک ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔

دوسرے ۔ دو عادل گواہی دیں کہ فلاں چیز پاک ہے۔

۳۳

تیسرے ۔ جس کے قبضہ میں وہ شے ہو وہ کہے کہ یہ پاک ہے۔

اگر کسی چیز کے نجس ہونے کا ہمیں پہلے سے علم ہو بعد میں اس شے کے پاک ہو جانے کا شک یا گمان پیدا ہو جائے تب بھی وہ شے نجس ہی رہےگی۔ البتہ اگر وہ شے اتنے عرصہ ہماری آنکھوں سے اوجھل رہے جس میں اسکے پاک کر لئے جانے کا امکان ہو تو ہم اس شے کو پاک قرار دے سکتے ہیں۔

اگر کسی شخص کے متعلق شک ہو کہ یہ مسلمان ہے یا کافر تو اس سے کھانے پینے کی چیزیں یا دوسری چیزیں خرید سکتے ہیں۔ خواہ وہ خشک ہو یا تر۔ ان چیزوں کو پاک ہی سمجھا جائےگا۔ چھان بین کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر پاک چیز کے نجس ہو جانے کا شک یا گمان پیدا ہو جائے تو کیا کریںگے ؟

۲ ۔ پاک چیز کو نجس کب سمجھیںگے ؟

۳ ۔ علم کے کیا معنی ہیں ؟

۴ ۔ گواہی کے کیا معنی ہیں ؟

۵ ۔ نجس چیز کو پاک کب قرار دیںگے ؟

۶ ۔ جس شخص کا مسلمان ہونا اور نہ ہونا معلوم نہ ہو اس سے کچھ خرید سکتے ہیں یا نہیں ؟

۳۴

چھبیسواں سبق

نجس پاک کے چند مسائل

دودھ ، دہی ، گھی ، روغن زیتون اور اسی قسم کی چیزوں میں جو چیز جمی ہوئی ہو اگر اس میں نجاست گر پرے تو جہاں نجاست گری ہے بس اتنا ہی حصہ نجس ہے باقی پاک ہے لیکن اگر وہ شے بہنے والی ہے تو پوری کی پوری نجس ہو جائے گی۔

اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ یہ چیز جمی ہوئی ہے یا بہنے والی تو اس میں سے ایک چمچہ نکالیں۔ اگر چمچہ کی جگہ فوراً بھر جائے تو بہنے والی سمجھی جائےگی اور اگر چمچہ کی جگہ نہ بھرے یا بہت دیر کے بعد بھرے تو دونوں صورتوں میں جہاں نجاست گری تھی بس اتنی جگہ اور اس کے آس پاس کی جگہ کو نجس سمجھنا چاہئیے اور چمچے سے اتنی مقدار کے نکالنے کے بعد جو باقی رہ جائے وہ پاک ہے۔

نجس چیز کا کھانا پینا حرام ہے بلکہ دوسروں کو بھی نجس کھلانا حرام ہے۔ قر‏آن مجید ، مسجد کا فرش ، انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کے مقابر کو نجس کرنا حرام ہے۔ اگر یہ جگہیں نجس ہو جائیں تو ان کو فوراً پاک کرنا واجب ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر جمے ہوئے دودھ یا گھی میں نجاست گر جائے تو کیا سب کا سب نجس ہو جائےگا ؟

۲ ۔ اگر دودھ ، گھی جما ہوا نہیں ہے اور اس میں نجاست گر پڑی ہے تو کیا حکم ہے ؟

۳ ۔ اگر پتہ نہ چل سکے کہ چیز بہنے والی ہے یا نہ بہنے والی تو کیونکہ پتہ چلایا جائے ؟

۴ ۔ نجس کھانے پینے کا کیا حکم ہے ؟

۵ ۔ کن چیزوں کو نجس کرنا حرام ہے ؟

۳۵

ستائیسواں سبق

بیت الخلاء کے آداب

ہر شخص پر واجب ہے کہ ہر حال میں دوسروں سے اپنی شرمگاہ کو چھپائے اور جب پائخانہ کرنےجائے تب بھی چھپائے۔ دوسروں کی شرمگاہ پر نظر ڈالنا حرام ہے۔

پیشاب کرنے کے بعد پانی ڈالنا واجب ہے۔ بغیر پانی کے پیشاب کی طہارت نہیں ہو سکتی۔ پائخانہ کرنے کے موقع پر اختیار ہے کہ چاہے پانی سے آبدست کرے یا تین پتھر ، کاغذ یا اسی طرح کی کسی چیز سے صاف کر دے۔ مگر جس چیز سے صاف کرے اس کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اگر ایک پتھر سے نجاست برطرف ہو جائے تو اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئیے بلکہ تین پتھروں سے صاف کرنا ضروری ہے۔ اگر تین سے برطرف نہ ہو تو جتنے پتھروں سے برطرف ہو اتنے استعمال کرنا واجب ہے ۔

ڈھیلے وغیرہ سے طہارت کرنے میں تین شرطیں سامنے رکھنا چاہئیے :۔

۱ ۔ پائخانہ اپنی جگہ سے آگے نہ پھیلا ہو۔

۲ ۔ کوئی نجاست الگ سے پائخانہ مقام پر نہ لگی ہو ۔

۳ ۔ خون نہ لگا ہو۔ اگر ان تین شرطوں میں سے ایک شرط بھی نہ پائی جائےگی تو صرف پانی ہی طہارت ہو سکےگی ڈھیلے وغیرہ سے طہار نہ ہوگی۔

۳۶

جب کوئی شخص پیشاب یا پائخانہ کرنے بیٹھے تو اس پر واجب ہے کہ بیٹھنے کی حالت میں اس کے جسم کا رخ اس طرح ہو کہ قبلہ نہ اس کے سامنے ہو اور نہ اس کی پیٹھ کی طرف۔

سوالات :

۱ ۔ کسی کو ننگا دیکھنا یا کسی کے سامنے ننگا ہونا کیسا ہے ؟

۲ ۔ پیشاب اور پائخانہ کی طہارت میں کیا فرق ہے ؟

۳ ۔ پانی کے علاوہ کن چیزوں سے پائخانہ کی طہارت کی جا سکتی ہے اور ان کے شرائط کیا ہیں ؟

۴ ۔ جب تین سے کم پتھر وغیرہ سے پائخانہ صاف ہو جائے یا تین پتھوں سے پائخانہ صاف نہ ہو تو بتاؤ کہ دونوں ضرورتوں میں کیا حکم ہے ؟

۵ ۔ پائخانہ پیشاب کرتے وقت کیسے بیٹھنا چاہئیے ؟

۳۷

اٹھائیسواں سبق

نجس چیزیں

دس چیزیں ایسی نجس ہیں جو پاک نہیں ہو سکتیں۔ ان کو نجاست کہا جاتا ہے۔

۱ ۔ پیشاب ۔ انسان اور ہر اُس جانور کا پیشاب نجس ہے جس کا گوشت کھانا حرام ہو اور ذبح کرتے وقت اس کی گردن سے خون اچھل کر نکلے۔

۲ ۔ پائخانہ ۔ جس کا پیشاب نجس ہوتا ہے اس کا پائخانہ بھی نجس ہوتا ہے۔

۳ ۔ منی ۔ منی آدمی اور ہر جانور کی نجس ہے چاہے اسکا گوشت حلال ہو یا حرام

۴ ۔ مردار ۔ آدمی اور ہر اس جانور کا مُردہ نجس ہے جس کی رگ سے ذبح کرتے وقت خون اچھل کر نکلے چاہے جانور خود مر گیا ہو یا خلاف شریعت ذبح کیا گیا ہو۔ مسلمان کی لاش غسل دینے کے بعد نجس نہیں رہتی۔

۵ ۔ خون ۔ آدمی اور ہر اُس جانور کا خون نجس ہے جو خون جہندہ رکھتا ہو ۔ مچھلی ، کھٹمل ۔ مچھر کا خون اِس لئے نجس نہیں ہے کہ ان میں اچھلنے والا خون نہیں ہے۔

۶ ۔ ۷ ۔کتا اور سور ۔ خشکی کے کتے اور سور کا سارا جسم نجس ہے ۔ اگر تری کے ساتھ کسی کا بدن یا لباس اس سے مس ہو جائے تو اسے بھی نجس کر دےگا۔

۸ ۔ کافر ۔ ہر وہ شخص نجس ہے جو خدا اور رسولؐ کا منکر ہو یا ایسے مسئلے کا انکار کرے جو اسلام میں واضح اور تمام مسلمانوں میں اتفاقہ ہو جیسے نماز ، روزہ کا واجب ہونا۔ یہی وجہ ہے کہ نماز ، روزہ کا مذاق اڑانے والا مسلمان کافر ہو جاتا ہے اور کافر نجس ہے بلکہ اس کا مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

۳۸

۹ ۔ شراب ۔ ہر قسم کی شراب نجس ہے اور اس کا پینا حرام ہے لیکن دوسری نشہ والی چیزیں جیسے بھنگ ، گانجہ ، چرس وغیرہ نجس نہیں ہیں لیکن ان کا کھانا پینا حرام ہے۔

۱۰ ۔ فقاع ۔ جو کی بنائی ہوئی شراب بھی نجس اور حرام ہے لیکن حکیموں کا بنایا ہوا " آب جو " شراب نہیں ہے لہذا پاک ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کون کون سے جانور کا مردار نجس ہے ؟

۲ ۔ دریائی کتا اور سور نجس ہے یا نہیں ؟

۳ ۔ نماز کا مذاق اڑانے والا پاک ہے یا نجس ؟

۴ ۔ جوں اور مکھی کا خون نجس ہے یا پاک ؟

۳۹

انیسواں سبق

پانی

پانی دو طرح کا ہوتا ہے :۔

۱ ۔ مضاف پانی ۔ یعنی وہ بہنے والی چیز جسے بغیر کسی قید کے صرف پانی نہ کہہ سکےیں جیسے عرق گلاب ، عرق لیمو وغیرہ ۔ دیکھنے میں عرق گلاب بھی پانی معلوم ہوتا ہے اور عرق لیموں بھی۔ مگر یہ خالص پانی نہیں ہے ۔ مضاف پانی کم ہو یا زیادہ نجاست کے ملتے ہی نجس ہو جاتا ہے آب مضاف سے نہ تو طہارت ہو سکتی ہے اور نہ وضو یا غسل کیا جا سکتا ہے۔

۲ ۔خالص پانی ۔ جسے ہم بغیر کسی قید کے پانی کہہ سکتے ہیں۔

خالص پانی چار طرح کا ہوتا ہے۔( ۱) ۔ قلیل پانی۔( ۲) ۔ کثیر پانی ۔ ( ۳) ۔ جاری پانی ۔( ۴) ۔ بارش کا پانی۔

قلیل پانی ۔ وہ ٹھہرا پانی ہے جو ایک کڑ سے کم ہو اور جاری نہ ہو۔ یہ پانی نجاست کے ملتے ہی نجس ہو جاتا ہے خواہ اسکا رنگ و بو اور مزہ نہ بدلے قلیل پانی سے طہارت بھی ہو سکتی ہے اور وضو و غسل بھی ہو سکتا ہے۔

کثیر پانی ۔ وہ ٹھہرا ہوا پانی ہے جو ایک کر یا اس سے زیادہ ہو۔

کر پانی ۔ وہ پانی ہے جس کو ناپیں تو تین بالشت لمبا ، تین بالشت چوڑا اور تین بالشت گہرا و۔

یہ اُسی وقت نجس ہوتا ہے جب اس کا رنگ یا بو مزہ نجاست سے مل کر بدل جائے۔

جاری پانی ۔ یعنی وہ پانی جو زمین سے پھوٹ کر نکلے چاہے کڑ بھر ہو یا کرسے کم۔ یہ پانی محض نجاست کے پڑنے سے نجس نہیں ہوتا جب تک نجاست سے مل کر اس کا رنگ یا بو یا مزہ نہ بدل جائے۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64