امامیہ اردو دینیات درجہ سوم جلد ۳

امامیہ اردو دینیات درجہ سوم75%

امامیہ اردو دینیات درجہ سوم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 64

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 64 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45331 / ڈاؤنلوڈ: 3718
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ سوم

امامیہ اردو دینیات درجہ سوم جلد ۳

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

امامیہ اردو دینیات

درجہ سوم

نظیم المکاتب

۳

معلمّ کے لئے ہدایت

۱ ۔ سبق پڑھنے کے بعد بچوں سے ایسے سوالات کئے جائیں جن کے ذریعہ بچے سبق کے مفہوم کو ادا کر سکیں۔

۲ ۔سبق کے بعد والے سوالات کے جوابات مختصر لکھوا کر زبانی یاد کرائے جائیں۔

۴ ۔ مسائل زبانی یاد کرا‏‏ئے جائیں اور جہاں ضرورت ہو وہاں عملی تعلیم دی جائے۔

۴

پہلا سبق

مذہب

بچہ جس چیز کو دیکھتا ہے اس کو لینے کے لئے لپکتا ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ کون سی چیز اچھی ہے اور کون سی چیز بری ہے لیکن اس کے ماں باپ اس کو ان چیزوں سے منع کرتے ہیں جو بری ہیں۔ چاہے وہ بچہ کو اچھی لگتی ہوں۔ اور ان چیزوں کو لینے کا حکم دیتے ہیں جو اچھی ہیں چاہے وہ بچہ کو بری لگتی ہوں۔ اسی طرح خدا نے اپنے بندوں کو مذہب کے ذریعہ اچھی اور بری باتیں بتائی ہیں۔ کیو نکہ بندے سب چیزوں کی اچھائی اور برائی نہیں جانتے ہیں۔ مذہب اچھائیاں بتاتا ہے اور برائیاں پہچنواتا ہے۔ نیکی کونے کا حکم دیتا ہے اور برائی کرنے سے روکتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ خدا نے مذہب کے ذریعہ اپنے بندوں کو کیا بتایا ہے ؟

۲ ۔ مذہب انسانوں کو کن باتوں کا حکم دیتا ہے "

۵

دوسرا سبق

اگر خدا نہ ہوتا

دنیا کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی بغیر بنانے والے کے نہیں بن سکتی۔ معمار کے بغیر مکان خود بخود نہیں بن سکتا۔ درزی کے بغیر کپڑا خود بخود نہیں سل سکتا۔ بغیر بڑھئیٰ کے الماری ، میز ، کرسی ، پلنگ ، تخت اور دروازے اپنے آپ نہیں بن سکتے تو اتنی بڑی دنیا ، آسمان ، زمین ، چاند ، سورج ، ستارے ، دریا ، پہاڑ ، درخت ، جانور ، آدمی کیسے اور دوسری لاکھوں چیزیں بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خود بخود کیسے پیدا ہو سکتی ہیں۔ اسی لئے ماننا پڑھتا ہے کہ ایک خدا ہے جس نے یہ دنیا پیدا کی ہے۔

ایک مرتبہ لوگوں نے ایک بڑھیا سے پوچھا کہ خدا ہے یا نہیں ؟ یہ بڑھیا اپنا چرخہ چلا رہی تھی۔ بڑھیا نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ چرخہ بھی فوراً رک گیا۔ اس نے کہا دیکھو جب میں چرخہ چلاتی ہوں تو چلتا ہے اور جب ہاتھ روک لیتی ہوں تو یہ بھی رک جاتا ہے۔ پھر بتاو کہ اگر دنیا کو چلانے والا کوئی نہیں ہے تو سارے جہاں کا یہ چرخہ کیونکر چل رہا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ دنیا بغیر بنانے والے کے کیوں نہیں بن سکتی ؟

۲ ۔ بڑھیا نے کیونکر سمجھایا کہ خدا ہے ؟

۶

تیسرا سبق

خدا کو بغیر دیکھے کیوں مانتے ہیں ؟

ہم ریل کے کسی ایک ڈبہ میں بیٹھ کر سفر کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ ریل چلتے چلتے اسٹیشنوں پر رکتی ہے۔ پرانے مسافروں کو اتار کر اور نئے مسافروں کو لے کر پھر روانہ ہو جاتی ہے۔ ہم ڈبہ سے جب جھانک کر دیکھتے ہیں تو ہمیں صرف ریل کا انجن گاڑی کو کھینچتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور انجن میں بیٹھ کر ریل کے چلانے والے ڈرائیور کو ہم نہیں دیکھ پاتے۔ پھر بھی ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اس گاڑی کا چلانے والا کوئی ضرور ہے۔ اسی طرح جب اس رواں رواں کائنات کو دیکھتے ہیں تو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ خدا ضرور ہے جو پوری دنیا کو چلا رہا ہے۔

ہمارے چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روز ایک دہریہ نے پوچھا کہ ہم نے خدا کو دیکھا نہیں اور آپ کہتے ہیں کہ خدا کو کوئی دیکھ بھی نہیں سکتا تو پھر بتائیے بغیر دیکھے ہم کو کیسے یقین آئے کہ خدا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کبھی تونے دریا کا سفر کیا ہے ؟ کہا ہاں۔آپ نے پوچھا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ تمہاری کشتی طوفان سے ٹوٹ کر ڈوبنے لگی ہو ؟ اس نے کہا ہاں ایسا بھی ہوا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا ! اچھا بتاو کہ جب تم کو کشتی کے ڈوبنے اور اپنے مرنے کا یقین ہو گیا تھا تب بھی تمہارا دل یہ کہتا تھا یا نہیں کہ اب بھی کوئی بچا سکتا ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں ضرور کہتا تھا۔ امام علیہ السلام نے پوچھا وہ کون تھا جس سے تم مایوسی کے بعد بھی لو لگائے ہوئے تھے۔ کیا تم نے اسے دیکھا تھا ؟ اس نے کہا دیکھا تو نہیں لیکن دل ان دیکھ سہارے سے لو لگائے تھا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا " مایوسی کی حالت میں جو ذات دل کو سہارا دیتی ہے وہی خدا ہے "۔

سچا مسلمان وہی ہے جو مشکلوں میں گھر جانے کے باوجود بھی مایوس نہ ہو اور ہمیشہ خدا کی رحمتوں کی امید رکھے۔

سوالات :

۱ ۔ خدا کو بغیر دیکھے کس طرح مانا کا سکتا ہے ؟

۲ ۔ امام علیہ السلام نے خدا کو ماننے کے لئے کیا دلیل دی ؟

۳ ۔ سچا مسلمان کون ہے ؟

۷

چوتھا سبق

ہمارا خدا

واحد ہے ۔ یعنی ایک اور اکیلا ہے اس کا کوئی ساتھی یا سنگھاتی نہیں ہے ۔ نہ کسی کو اپنے کام میں شریک کرتا ہے اور نی اس کو کسی کی رائے کی ضرورت ہے۔

احد ہے۔ یعنی اس کا کوئی جز نہیں ہے اور نہ وہ کسی کا جز ہے۔ وہ ایک ہے اکیلا ہے اور مرکب نہیں ہے۔ جیسے شربت کہ وہ دیکھنے میں ایک چیز ہے لیکن اصل میں پانی اور شکر سے مل کر بنا ہے اور خدا ایسا نہیں ہے۔

صمد ہے ۔ یعنی وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ ساری کائنات اس کی محتاج ہے اور وہ خود کسی کا محتاج نہیں ہے۔

ازلی ہے ۔ یعنی ہمیشہ سے ہے۔

ابدی ہے ۔ یعنی ہمیشہ رہےگا۔

سرمدی ہے ۔ یعنی زمانے سے پہلے تھا اور زمانہ کے بعد بھی رہےگا۔

قیوم ہے ۔ یعنی ساری کائنات کا قیام اسی کی وجہ سے ہے۔اس کا ارادہ بدل جائے تو دنیا دیکھتے دیکھتے فنا ہو جائے۔

لَیسَ کَمَثلِه شَیءٌ ۔ یعنی خدا کا جیسا کوئی دوسرا نہیں ہے اور نہ اسے کسی کی مثال بنایا جا سکتا ہے۔

لَم یَلَد وَ لَم یُولَد ۔ یعنی نہ اس کا کوئی باپ ہے نہ کوئی اسکا بیٹا۔

سولات :

۱ ۔ واحد اور احد کے معنی بتاو اور دونوں کا فرق سمجھ کر بتاو ؟

۲ ۔ صمد اور سرمدی کا کیا مطلب ہے ؟

۳ ۔ اگر خدا کا ارادہ بدل جائے تو کیا ہوگا ؟

۸

پانچواں سبق

مذہب اور لا مذہبیت

دنیا میں جو لوگ بستے ہیں ان میں کچھ تو مذہب کو مانتے ہیں اور کچھ نہیں مانتے ہیں۔ جو لوگ مذہب کو مانتے ہیں وہ بھی کئی طرح کے ہیں اور جو نہیں مانتے ہیں وہ بھی کئی طرح کے ہیں۔

مسلمان ۔ یعنی توحید ، رسالت ، اور قیامت کا اقرار کرنے والا۔

مومن ۔ یعنی توحید ،عدالت رسالت ، امامت اور قیامت کا قرار کرنے والا۔

کافر ۔ یعنی اصول دین یا نماز روزہ وغیرہ جیسے اسلام کے کسی بھی مانے ہوئے حکم کا انکار کرنے والا۔

منافق ۔ یعنی زبان سے کلمہ پڑھنے کے باوجود دل میں کفر رکھنے والا۔

مشرک ۔ یعنی کئی خداووں کا ماننے والا۔

مرتد ۔ یعنی جو مسلمان کافر ہو جائے۔

مرتدملی ۔ یعنی وہ کافر جو مسلمان ہونے کے بعد پھر کافر ہو جائے ۔مرتد فطری ۔ یعنی وہ مسلمان جس کے ماں باپ میں سے کوئی ایک مسلمان ہو اور وہ خود کافر ہو جائے۔

یہودی ۔ وہ لوگ ہیں جو حضرت موسیٰؐ کے بعد کسی نبی کو نہیں مانتے۔

عیسائی ۔ وہ لوگ ہیں جو حضرت عیسیٰ ؐ کو آخری نبی سمجھتے ہیں ۔

مجوسی وہ لوگ ہیں جو آگ کو خدا مانتے ہیں ۔

کافر ذمی ۔ وہ کافر جس کا نبیؐ امامؐ سے معاہدہ ہو ۔

کافر حربی ۔ وہ کافر جس کا نبیؐ یا مامؐ سے معاہدہ نہ ہو ۔

سوالات :

۱ ۔ دنیا میں کتنی طرح کے لوگ رہتے ہیں ؟

۲ ۔ مرتد فطری اور مرتد ملی کسے کہتے ہیں ؟

۳ ۔ جس کافر کا امام سے معاہدہ نہ ہو اسے کیا کہیں گے ؟

۹

چھٹا سبق

اصول اور فروع

ہمارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ ان کی باتوں کو ماننا اسلام ہے۔ ہمارے نبیؐ نے ہم کو جتنی باتیں بتائی ہیں وہ دو طرح کی ہیں۔ ایک کا نام اصول دین ہے اور دسرے کا نام فروع دین ہے۔

اصول دین :۔ ان باتوں کو کہتے ہیں جن پر دل سے یقین رکھنا ضروری ہے جیسے

خدا ایک ہے ، عادل ہے ۔ آخری نبی ہمارے نبیؐ ہیں اور ان کے جانشین ہمارے بارہ امام ہیں۔قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ قیامت کا ایک دن معین ہے ۔

فروع دین :۔ ان باتوں کو کہتے ہیں جن پر عمل کرنا واجب ہے جیسے نماز پڑھنا ، روزہ رکھنا ، حج کرنا ، خمس ، زکوٰۃ نکالنا وغیرہ۔ ہر شخص پر واجب ہے کہ اصول دین کو دلیلوں کے ذریعہ سمجھے اور اپنی عقل سے پرکھ کر مانے ، صرف کسی کے کہنے پر ماننا کافی نہیں ہے بلکہ دوسروں سے جو کچھ سنے یا معلوم کرے اسے اپنی عقل سے پرکھے جو صحیح ثابت ہو اسے

مانے اور جو غلط ثابت ہو اسے نہ مانے۔

فروع دین خدا اور رسولؐ کے احکام کا نام ہے اور خدا اور رسولؐ کے احکام کا فیصلہ اپنی عقل سے نہیں کیا جا سکتا لہذا جو خدا اور رسولؐ اور امامؐ کا حکم ہو اسی پر عمل کرنا چاہئیے۔

سوالات :

۱ ۔ خدا ایک ہے۔ امام بارہ ہیں۔ یہ باتیں اصول دین میں ہیں یا فروع دیں میں ؟

۲ ۔ فروع دین کون سی باتوں کو کہتے ہیں ؟

۳ ۔ اپنی عقل سے پرکھ کر اصول دین کو ماننا چاہئیے یا فروع دین کو ؟

۱۰

ساتواں سبق

خدا عادل ہے

خدا عادل ہے یعنی نہ اس نے کبھی ظلم کیا ہے نہ کبھی ظلم کرےگا۔ خدا ہر برائی سے پاک ہے۔ نہ خود کبھی برائی کرتا ہے نہ کسی کی برائی کو پسند کرتا ہے۔ ہر انسان کو نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔ ایسا حکم دینے والا نہ کسی اچھائی کو چھوڑ سکتا ہے نہ کسی برائی کا روادار ہو سکتا ہے۔

خدا کو عادل ماننے کا مطلب ہے کہ اس کے ہر حکم کو صحیح مانا جائے۔ غلط حکم دینے والا کبھی عادل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ خدا نے شیطان اور ملائکہ دونوں کو حکم دیا تھا کہ جناب آدمؐ کے سامنے سجدہ کریں۔ ملائکہ نے سجدہ کا حکم مانا اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ خدا عادل ہے غلط حکم نہیں دے سکتا۔ شیطان خدا کو عادل نہیں مانتا تھا لہذا اس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ نہ صرف انکار کیا بلکہ خدا پر الزام لگایا کہ تو مجھے اس کے سامنے جھکنے کا حکم دیتا ہے جس سے میں بہتر اور افضل ہوں۔

جو لوگ خدا کے احکام پر اعتراض کرتے رہتے ہیں وہ صرف حکم خدا پر اعتراض نہیں کرتے بلکہ خدا کے عادل ہونے سے بھی انکار کرتے ہیں۔ کسی کی موت کو نا وقت موت سمجھنا بھی اللہ کو عادل ماننے کے خلاف ہے کیونکہ خدا نے ہر شخص کی موت کا ایک وقت معین کیا ہے۔ خدا کے مقرر کئے ہوئے موت کے وقت کو غلط کہنا درست نہیں ہے۔

سوالات :

ا۔ شیطان نے حضرت آدمؐ کو سجدہ کیوں نہیں کیا ؟

۲ ۔ کسی کی موت کو ناوقت موت سمجھنا کیسا ہے ؟

۱۱

آٹھواں سبق

نبوت

نبی اور پیغمبر شکل و صورت میں ہمارے ہی جیسے ٓادمی ہوتے ہیں ہماری ہی طرح چلتے پھرتے ہیں۔ کھاتے پیتے اور سوتے جاگتے ہیں۔ لیکن ہم میں اور ان میں یہ فرق ہوتا ہے کہ ہم جاہل پیدا ہوتے ہیں وہ خدا سے علم لے کر آتے ہیں۔ جس طرح ہم گندگی سے بیزار رہتے ہیں اسی طرح وہ گناہوں سے بیزار رہتے ہیں۔ ہم گندگی کو چھو سکتے ہیں مگر کبھی نہیں چھوتے۔ اسی طرح نبی گناہ پر قدرت رکھتے ہیں مگر کبھی گناہ نہیں کرتے ۔ وہ معصوم ہیں، ہر عیب سے پاک ہیں۔ نہ جھوٹ بولتے ہیں نہ کسی کو ستاتے ہیں نہ کسی کا مال چھینتے ہیں اور نہ کوئی برائی کرتے ہیں، نہ کبھی خدا کی نافرمانی کرتے ہیں۔

یاد رکھو ! ہم میں اور نبی میں تین باتوں کا فرق ہوتا ہے :

۱ ۔ نبی عالم پیدا ہوتے ہیں۔ ان سے بھول چوک، غلطی اور خطا نہیں ہوتی۔ خدا ان کو عالم بنا کر پیدا کرتا ہے اور ہم جاہل پیدا ہوتے ہیں۔

۲ ۔ نبی معصوم ہوتا ہے کیونکہ ان کا علم مکمل ہوتا ہے وہ گناہوں کی برائیوں سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں اور اسی درجہ سے ہر گناہ سے بیزار رہتے ہیں۔ بیزار رہنے کی وجہ ان سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا اور ہم سے گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں۔

۳ ۔ خدا ان کو اپنی طرف سے ہماری ہدایت کے لئے بھیجا ہے اور ہمارا کام ان سے ہدایت حاصل کرنا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ ہم میں اور نبی میں کیا فرق ہے ؟

۲ ۔ نبی گناہ کیوں نہیں کرتے ؟

۳ ۔ نبی کیوں معصوم ہوتے ہیں ؟

۱۲

نواں سبق

ہمارے رسولؐ

ہمارے رسولؐ ابھی اپنی مادر گرامی کے شکم مبارک ہی میں تھے کہ آپ کے والد جناب عبد اللہ کا انتقال ہو گیا۔ جب آپ چار برس کے تھے تو آپ کی والدہ جناب آمنہ کا انتقال ہو گیا۔ آپ کے دادا جناب عبد المطلب ٌ کا انتقال اس وقت ہوا جب آپ کی عمر آٹھ برس کی تھی۔ دادا نے انتقال کے وقت ہمارے رسولؐ کو اپنے سب سے لائق بیٹے جناب ابو طالبؐ کے حوالہ کیا۔ جناب ابو طالب ؐ مرتے دم تک آپ کی سب سے بڑھ کرحفاظت کی۔ جناب خدیجہّ بلند کردار اور مالدار بیبی تھیں نے اپنی ساری دولت اسلام کی مدد میں خرچ کر دی ۔ جب آپ چالیس سال کے ہوئے تو خدا نے آپ کو نبوت کے اعلان کا حکم دیا۔ جناب خدیجہ ّ سے آپ کے کئی بیٹے پیدا ہوئے جو زندہ نہ رہے۔ ان میں سے ایک بیٹے کا نام قاسم تھا اور انھیں کی وجہ سے آپ کی کنیت ابو القاسم (یعنی قاسم کے باپ) ہوئی۔

بیٹوں کے انتقال کے بعد ہماری شاہزادی جناب فاطمہ زہراؐ صلوات اللہ علیہاپیدا ہوئیں۔ آپ کی نسل آپ کی اکلوتی بیٹی جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا ہی سے چلی ہے۔ انتقال کے وقت ہمارے رسولؐ کی عمر ترسٹھ سال کی تھی۔

سوالات :

۱ ۔ ہمارے رسولؐ کو ابوالقاسم کیوں کہتے ہیں ؟

۲ ۔ ہمارے رسولؐ کے والد کا نام کیا تھا ؟

۳ ۔ پیغمبر اکرمؐ کے دادا کا کیا نام تھا ؟

۴ ۔ ہمارے رسولؐ کی نسل کس سے چلی ؟

۱۳

دسواں سبق

امام

خدا ہمیشہ بندوں کی ہدایت کے لئے ایک نبی کے بعد دوسرا نبی بھیجتا رہا۔ سب سے آخر میں ہمارے نبیؐ تشریف لائے۔ جن کے بعد کوئی نبی نہ آیا ہے نہ آئےگا لیکن بندوں کی ہدایت کا سلسلہ جاری رکھنا ضروری تھا تاکہ لوگ ہدایت پاتے رہیں اور گمراہی سے محفوظ رہیں لہذا نبوت کے خاتمہ کے بعد اللہ نے بندوں کی ہدایت کے لئے اماموں کو بھیجا۔

امام بھی چونکہ نبی کی طرح ہدایت کرنے کے لئے آتا ہے لہذا اس میں بھی وہ ساری باتیں پائی جاتی ہیں جو نبی میں پائی جاتی ہیں۔ امام وہ ہوتا ہے جس میں تین باتیں پائی جائیں۔

۱ ۔ امام عالم پیدا ہوتا ہے اور اپنے زمانہ کے تمام لوگوں سے علم اور دوسری باتوں میں افضل ہوتا ہے۔ اس سے بھی کبھی بھول چوک غلطی یا خطا نہیں ہوتی۔

۲ ۔ امام بھی نبی کی طرح معصوم ہوتا ہے۔

۳ ۔ امام کو بھی خدا اپنے حکم سے مقرر کرتا ہے۔ چناچہ ہمارے نبیؐ نے اپنے چچا زاد بھائی اور داماد حضرت علی علیہ السلام کو خدا کے حکم سے اپنا خلیفہ جانشین مقرر کیا تھا۔ آپ ہی ہمارے پہلے امام ہیں۔ آپ کے بعد آپ کے گیارہ فرزند امام ہوئے جو سب کے سب حضرت علیؐ کی اولاد تھے اور سب کو خدا نے امام مقرر کیا تھا۔

نبی اور امام میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ نبی صاحب شریعت ہوتا ہے اور امام محافظ شریعت ہوتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ امام کی کیوں ضرورت ہوتی ہے ؟

۲ ۔ امام میں نبی کی کونسی باتیں پائی جاتی ہیں ؟

۳ ۔ اماموں کے نام بتائیے ؟

۴ ۔ نبی و امام کا فرق بتائیے ؟

۱۴

گیارہواں سبق

ہمارے پہلے امامؐ

ہمارے امام بارہ ہیں۔ جن میں سے پہلے امام حضرت علی علیہ السلام ہیں آپ خانہ کعبہ میں تیرہ رجب کو پیدا ہوئے۔ آپ کے تین بھائی اور تھے۔ طالب ، عقیل اور جعفر طیار۔ آپ سب سے چھوٹے تھے۔ آپ کے بھائیوں میں ہر بھائی ایک دوسرے سے دس سال چھوٹا تھا۔ سب سے بڑے بھائی طالب تھے اور اسی وجہ سے آپ کے والد ابو طالب کہلائے۔ آپ کے والد کا اصلی نام عمران تھا۔ حضرت علیؐ سے بڑے جعفر طیار تھے۔ ان کے بازو جنگ موتہ میں کٹ گئے تھے۔ شہادت کے بعد خدا نے آپ کو دو پر عنایت کئے جن سے آپ جنت میں پرواز کرتے ہیں اسی لئے آپ کو طیار یعنی اڑنے والا کہا جاتا ہے۔

جعفر طیار سے بڑے عقیل تھے جن کے بیٹے مسلمؐ بن عقیل ، امام حسینؐ کے ایلچی بن کر کوفہ میں آئے تھے اور شہید ہوئے۔ سب سے بڑے بھائی طالب تھے۔ آپ کی ایک بہن ام ہانی تھیں جو بڑی مومنہ تھیں۔ حضرت علی علیہ السلام کی ماں فاطمہ بنت اسد کو ہمارے نبی ؐ محبت اور احترام سے اپنی ماں کہتے تھے کیوں کہ فاطمہ بنت اسد نے ہمارے رسولؐ کی بڑی خدمت کی تھی اور آپ رسولؐ کو اپنی اولاد سے زیادہ چاہتی تھیں۔ حضرت ابو طالب ہمیشہ رسولؐ کے سینہ سپر رہے۔ آپ رسولؐ کی جگہ پر اپنے بیٹوں کو سلادیتے تھے تاکہ اگر رات کے وقت دشمن حضور پر حملہ کر دیں تو آپ کی جان بچ جائے چاہے میرے بچے قتل ہو جائیں۔ حضرت علیؐ علیہ السلام کی اولاد میں امام حسنؐ علیہ السلام اور امام حسینؐ علیہ السلام کی سگی بہنیں جناب زینبؐ اور جناب ام کلثومؐ اور سوتیلے بھائی جناب عباسؐ اور جانب محمد حنفیہ زیادہ مشہور ہیں۔

سوالات :

۱ ۔ حضرت علیؐ کے کتنے بھائی تھے ؟ ان کے نام بتا ؤ ؟

۲ ۔ جناب عباس اور محمد حنفیہ کون تھے ؟

۳ ۔ حضرت ابو طالب کا نام بتا ؤ ؟

۴ ۔ فاطمہ ؐ بنت اسد کون تھیں ؟

۱۵

بارہواں سبق

حضرت علیؐ کے اخلاق

دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو برائی کرنے کے بعد اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ پروردگار نے ان سے بدلا نہیں لیا۔ انھیں یہ خبر نہیں ہے کہ دنیا کی برکت و نحوست اور آخرت کا عذاب و ثواب سب اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ جب چاہےگا ان برائیوں کا بدلہ لیلےگا۔

میثم تمار، حضرت علیؐ کے ایک مشہور صحابی تھے۔ کوفہ میں خرمہ کی تجارت کرتے تھے۔ حضرت علیؐ کا دستور تھا کہ میثم کی دکان پر آ کر بیٹھ جایا کرتے تھے اور لوگوں کو تجارت کی خوبی سے آگاہ کیا کرتے تھے۔ ایک دن میثم آپ کو اپنی دکان پر بٹھا کر چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص خرمہ خریدنے آیا۔ آپ نے خرمہ تول کر دیدیا اس نے آپ کو کھوٹا درہم دیدیا اور خوشی خوشی چلا گیا۔

میثم پلٹ کر آئے تو آپ نے انھیں درہم دیا۔ انھوں نے عرض کی مولاؐ ! یہ درہم تو کھوٹا ہے۔ آپ نے فرمایا کوئی پرواہ نہیں ہے میں جانتا تھا لیکن میں نے اسے ذلیل کرنا نہیں چاہا۔ اللہ اس کا اچھا بدلہ دےگا۔ تھوڑی دیر کے بعد شخص واپس آیا اور کہنے لگا علیؐ ان کھجوروں میں کیڑے پڑے ہوئے ہیں۔ آپ نے فرمایا اپنا درہم لے لے اور میرے خرمے واپس کر دے۔ اس نے خرمے دے دیئے اور درہم واپس لے کر چلا گیا۔ میثم نے دیکھا خرمے بالکل ٹھیک ہیں تو عرض کی۔ میرے مولاؐ ! یہ واقعہً کیا ہوا ؟ فرمایا اے میثم پروردگار اپنے نیک بندوں کا اسی طرح خیال رکھتا ہے اس شخص نے ہم لوگوں کو دھوکہ دینا چاہا۔ اللہ نے اس کا بدلہ لے لیا اور اسے کامیاب نہیں ہونے دیا۔

سوالات :

۱ ۔ میثم کون تھے ؟

۲ ۔ حضرت علیؐ نے کھوٹا درہم کیوں لے لیا تھا ؟

۱۶

تیرہواں سبق

بارہ اماموں کی عمریں

حضرت امام علی علیہ السلام : آپ تیرہ رجب ۳۰ ؁ عام الفیل یعنی ہجرت سے تیس سال پہلے شہر مکہ میں جمعہ کے دن خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور اکیس رمضان ۴۰ ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ترسٹھ برس کی تھی۔ آپ کی قبر مطہر نجف میں ہے۔

حضرت امام حسن علیہ السلام : آپ پندرہ رمضان ۳ ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور اٹھائیس صفر ۵۰ ؁ میں شید ہوئے ۔آپ جنت البقیع مدینہ میں دفن ہوئے،

حضرت امام حسین علیہ السلام : آپ کی عمر سینتالیس برس تھی۔ آپ تین شعبان ۴ ؁ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور دس محرم ۲۱ ؁ میں شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ستاون برس تھی۔ آپ کا روضہ کربلا میں ہے

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام : آپ پندرہ جمادی الاول ۳۸ ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۲۵ ؁ محرم ۹۵ ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ستاون برس تھی۔ آپ کی قبر جنت البقیع مدینہ میں ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام : آپ پہلی ۵۷ ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور سات الحجہ ۱۱۴ ؁ کو شہید ہوئے۔آپ کی عمر ستاون برس تھی۔ آپ بھی جنت البقیع مدینہ منورہ میں دفن ہوئے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام : آپ ۱۷ ربیع الاول ۸۳ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۱۵ شوال ۱۴۸ ھ؁ میں شہید ہوئے۔ آپ کی عمر پینسٹھ برس تھی۔ آپ کی قبر بھی جنت البقیع مدینہ منورہ میں ہے۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام : آپ سات صفر ۱۲۸ ھ؁ کو ابوا میں پیدا ہوئے اور ۲۵ رجب ۱۸۳ ھ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ۵۵ برس تھی۔ آپ کا روضہ کاظمین میں ہے۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام : آپ گیارہ ذیقعدہ ۱۵۳ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں بیدا ہوئے اور ۲۳ ذیقعدہ ۲۰۳ ھ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ۵۰ برس تھی۔ آپ کا روضہ مشہد میں ہے۔

۱۷

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام : آپ دس رجب ۱۹۵ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۲۹ ذیقعدہ ۲۲۰ ھ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ۲۵ برس تھی۔ کاظمین میں آپ کی قبر مطہر ہے۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام : آپ پانچ رجب ۲۱۴ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور تین رجب ۲۵۴ ھ؁ میں شہید ہوئے۔ آپ کی عمر چالیس برس تھی۔ آپ سامرہ میں دفن ہوئے۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام : آپ دس ربیع الشانی ۲۳۲ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور آٹھ ربیع الاول ۲۶۰ ھ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ۲۸ برس تھی۔ آپ کا روضہ بھی سامرہ میں ہے۔

حضرت امام مہدی آخرالزماں علیہ السلام : آپ پندرہ شعبان ۲۵۶ ھ؁ کو شہر سامرہ میں پیدا ہوئے اور آج تک بحکم خدا زندہ ہیں اور پردہ غیب میں ہیں جب حکم خدا ہوگا تو ظاہر ہوں گے۔

سوالات :

۱ ۔ جنت البقیع میں کون کون امام دفن ہیں ؟

۲ ۔ مشہد ، کاظمین ، اور سامرہ میں کون ائمہ کی قبریں ہیں ؟

۳ ۔ حضرت علیؐ اور امام حسینؐ کی قبریں کہاں ہیں ؟

۴ ۔ تیسرے ، چھٹے اور نویں امام کی تاریخ ولادت و وفات بتائے ۔

۱۸

چودھواں سبق

موت کے بعد

برزخ :۔

ہر آدمی کے مرنے کے بعد سے لے کر قیامت تک کی مدت کو برزخ کہتے ہیں۔ برزخ میں صحیح عقیدے والے آرام سے اور برے عقیدے والے تکلیف سے رہتے ہیں۔

قبر میں سوال و جواب :۔

مرنے کے بعد قبر میں دو فرشتے آتے ہیں جو مردہ کو زندہ کر کے اس سے سوال کرتے ہیں۔ اچھے اعمال والوں کے پاس آنے والے فرشتوں کے نام مبشر و بشیر ہیں اور برے اعمال والوں کے پاس آنے والے فرشتوں کے نام منکر و نکیر ہیں۔

فرشتوں کے سوال جواب

تیرا خدا کون ہے ؟ اللہ

تیرا دین کیا ہے ؟ اسلام

تیرے پیغمبر کون ہیں ؟ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

تیرا امام کوں ہیں ؟ حضرت علی علیہ السلام اور ان کے بعد گیارہ امامؐ

تیری کتاب کیا ہے ؟ قرآن مجید

تیرا قبلہ کیا ہے ؟ کعبہ محترم

جو شخص ان سوالوں کا جواب ٹھیک دیتا ہے اس کی قبر کو فرشتے جنت کا ایک باغ بنا دیتے ہیں اور جس کے جواب ٹھیک نہیں ہوتے اس کی قبر کو دوزخ کی آگ سے بھر دیتے ہیں۔

۱۹

نامئہ اعمال :۔

خدا کی طرف سے ہر شخص پر دو فرشتے مقرر ہیں۔ ایک اچھے اعمال لکھتا ہے۔ دوسرا برے اعمال لکھتا ہے۔ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کا اعمالنامہ دیا جائےگا۔

میزان :۔

قیامت کے دن ہر ہر شخص کے اعمال انصاف کی ترازو میں تولے جائیںگے۔ اسی ترازو کو میزان کہتے ہیں۔

صراط :۔

ہر شخص کو قیامت کے دن ایک پل پر سے گزرنا ہوگا جو بال سے زیادہ باریک ، تلوار کی دھار سے زیادہ تیز اور آگ سے زیادہ گرم ہوگا۔ صحیح ایمان اور اچھے اعمال والے اس پر سے گزر جائیںگے اور جن کا ایمان و عمل خراب ہوگا وہ دوزخ میں گر پڑیںگے۔

شفاعت :

قیامت کے دن ہمارے نبیؐ اور امام گنہگار مومنین کو شفاعت کر کے بجشوائیں گے اور خدا ان کی شفاعت کو قبول کرےگا۔

سوالات :

۱ ۔ برزخ سے کیا مراد ہے ؟

۲ ۔ منکر و نکیر اور مبشر و بشیر کون ہیں ؟

۳ ۔ صراط کس کو کہتے ہیں ؟

۴ ۔ شفاعت کون کس کی کرےگا ؟

۲۰

تشریح:

شیعہ اور سنی روایات کے مطابق یہ آیت 18 ذی الحجہ کو غدیر خم کے مقام پر نازل ہوئی جہاں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کی امامت اور جانشینی کا اعلان کیا۔

اس دن کی چار خاص باتیں یہ ہیں۔

1۔ کفار کی ناامیدی - 2۔ کمال دین-3۔ اتمام نعمت-4۔ خدا کی خوشنودی

(3) ولایت

اِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللّٰهُ وَ رَسُولُه وَالَّذِیْنَ أَمَنُواْ الَّذِیْنَ یُقِیْمُونَ الصَّلوٰةَ وَ یُؤتُونَ الزَّکاةَ وَهُمْ رٰاکِعُونَ-(مائده ٥٥)

ترجمہ:

تمھارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول وہ صاحبان ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں۔

تشریح:

ایک دن ایک فقیر نے مسجد نبوی میں داخل ہونے کے بعد لوگوں سے مدد مانگی مگر کسی نے اس کی کچھ مدد نہ کی ایسے میں حضرت علی (ع) نے حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی اُسے بخش دی اس وقت یہ آیت حضرت علی (ع) کی شان کرم کو بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی۔

اس واقعہ کو ابن عباس، عمار یاسراور ابوذر جیسے دس صحابہ کرام نے نقل کیا ہے ، اور یہ آیت باتفاق مفسرین شیعہ و سنی حضرت علی (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

۲۱

(4) تکمیل رسالت

یَا ایُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لم تَفْعَلْ فَمَا بَلَغْتَ رِسَالَتَه-(مائده ٦٧)

ترجمہ:

اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادین جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اور اگر آپ نے یہ نہ کیا توگویااس کا کوئی پیغام نہیں پہنچایا۔

تشریح:

تمام شیعہ اور بعض سنی مفسرین اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی (ع) کی جانشینی سے متعلق ہے جس کا اعلان پیغمبر اسلام(ص) نے 18 ذی الحجہ سن دس ہجری کو حج سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر کیا۔

اہل سنت کی معتبر کتابوں ، مسند احمد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی اس حدیث''مَنْ کُنْتُ مِوْلاه' فهذا عَلِی مَولَاه' '' کو نقل کیا ہے۔

۲۲

(5) صادقین

فَقُلْ تَعٰالَوْا نَدْعُ أَبْنٰآء نَا وَ أَبْنٰآئَ کُمْْ وَنِسَآئَ نَا وَنِسَآ ئَ کُم وَ أَنْفُسَنَا وَ أَنْفُسَکُم-( آل عمران ٦١)

ترجمہ:

ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں۔

تشریح:

یہ آیت آیہ مباہلہ کے نام سے مشہور ہے۔

مباہلہ کے معنی دو مخالف گروہ کا خدا کے سامنے گڑگڑا کر ایک دوسرے پر لعنت کرنا ہے نجران کے عیسائیوں نے اپنی طرف سے کچھ لوگوں کو بھیجا جبکہ پیغمبر اسلام اپنے ساتھ علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین کے لے گئے، عیسائیوں کا گروہ ان ذوات مقدسہ کو دیکھتے ہی مباہلہ سے دستبردار ہو کر جزیہ دینے پر راضی ہوگیا۔

آیت میں ''انفسنا'' کے مصداق مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام ہیں جو پیغمبر کی جان ہیں ۔مباہلہ کا واقعہ 25 ذی الحجہ کو پیش آیا۔

۲۳

(6) ایثار کا نمونہ

اِنَّمٰا نُطعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَلَا شُکُوْرًا-( دهر ٩)

ترجمہ:

ہم صرف اللہ کی مرضی کی خاطر تمھیں کھلاتے ہیں ورنہ نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔

تشریح:

ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت علی (ع) اور جناب فاطمہ زہرا(س) نے حضرت امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کی بیماری سے صحت یابی کے لیے تین دن روزے رکھنے کی نذر کی ان کے صحت یاب ہونے کے بعد نذر پورا کرنے کیلئے تین دن روزے رکھے پہلے دن افطار کے وقت اپنا کھانا فقیر، دوسرے دن یتیم اور تیسرے دن اسیر کو دے کر خود پانی سے افطار کرلیا، خداوند عالم نے سورہ دہر کو ان کی شان میں نازل کیا ہے اور 17 آیتوں میں ان کے بلند و بالا مقام کی مدح سرائی کی ہے۔

(7) برائی سے دوری

أَلَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوآ اِیْمٰانَهُمْ بِظُلْمٍ أُوْلٰئِکَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهتَدُونَ-( انعام ٨٢)

ترجمہ:

جو لوگ ایمان لے آئے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا انہی لوگوں کے لئے امن و امان ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں ۔

۲۴

تشریح:

حضرت امام محمد باقر (ع) سے روایت ہے کہ یہ آیت حضرت علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں ایک لمحے کے لیے بھی شرک نہیں برتا۔

(8) خوشنودی خدا

وَمِنَ النّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰهِط وَاللّٰهُ رَئُ وفم بِالْعِبٰادِ-( بقره ٢٠٧)

ترجمہ:

اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور خدا ایسے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔

تشریح:

اہل سنت کے جید عالم دین ابن ابی الحدید (وفات سن 7 ھ ق ) کا کہنا کہ مفسرین عظام اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت حضرت علی (ع) کی شان میں شب ہجرت اس وقت نازل ہوئی جب عرب کے قبائل پیغمبر اسلام کو قتل کرنے کی سازش کیے ہوئے تھے ایسے میں حضرت علی(ع) آنحضرت کے بستر پر لیٹ گئے تاکہ آپ(ص) آرام و اطمینان کے ساتھ مکہ سے نکل جائیں۔

۲۵

(9) انفاق

أَلَّذِیْنَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرَّاً وعَلَانِیَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْف عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ-(بقره ٢٧٤)

ترجمہ:

جو لوگ اپنے مال کو راہ خدا میں رات میں، دن میں خاموشی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ہیں ان کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے، اور انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ آذردہ ہوں گے۔

تشریح:

تفسیر صافی ، تفسیر مجمع البیان، تفسیر قرطبی اور تفسیر فخر رازی میں ہے کہ یہ آیت حضرت علی (ع) کی شان میں نازل ہوئی آپ کے پاس چار درہم تھے، جن میں سے ایک دن میں ، ایک رات میں ایک خاموشی سے اور ایک علی الاعلان خدا کی راہ میں خرچ کردیا۔

۲۶

(10) پیغمبر(ص) کے مددگار

هُوَ الّذِیْ أَیَّدَکَ یَنصُرِهِ وَ بِالْمُومِنِیْنَ-(انفال ٦٢)

ترجمہ:

اس (خدا) نے آپ(ص) کی تائید اپنی نصرت اور صاحبان ایمان کے ذریعے کی ہے۔

تشریح:

پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ عرش الٰہی پر یہ جملہ لکھاہے ''لا الہ اِلا اللّٰہ أنا وحدی محمد عبدی و رسولی ایدتہ بعلیٍ '' میرے سوا کوئی معبود نہیں اور نہ ہی میرا کوئی شریک ہے اور محمد میرے بندے اور رسول ہیں، اور میں نے علی کے ذریعہ ان کی مدد کی ہے۔

(11) اطاعت

یَآیُّهَا الَّذِیْنَ أَمَنُوآ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَسُولَ وَأُولِی الأَمْرِ مِنْکُمْ-( نساء ٥٩)

ترجمہ:

ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمھیں میں سے ہیں۔

۲۷

تشریح:

ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام جنگ تبوک کے لئے مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تو حضرت علی (ع) کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا اور فرمایا: '' یاعلی أنت منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ '' اے علی تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ھارون کو موسیٰ سے تھی، اس کے بعد سور نساء کی آیت نمبر 59 نازل ہوئی۔

(12) مودَّت اہل بیت

قُلْ لَا أَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبیٰ -(شوریٰ ٢٣)

ترجمہ :

کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا سوا اسکے کہ میرے قرابتداروں سے محبت کرو۔

تشریح:

سورہ سباء کی آیت نمبر 47 کی روشنی میں (جس میں کہا گیا ہے کہ میں تم سے اجر رسالت چاہتا ہوں اس میں تمھارا ہی فائدہ ہے) یہ نتیجہ نکلتاہے کہ اہل بیت کی محبت و مودت رسالت محمد(ص) کا ایسا اجر ہے جس میں اُمت اسلامیہ ہی کا فائدہ ہے۔

شیعہ اور سنی کی اکثر روایات اس بات کی تائید کرتی ہیں۔

۲۸

(13) بہترین خلائق

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحٰاتِ أُوْلٰئِکَ خَیْرُ البَرِیَّةِ (بیّنه ٧)

ترجمہ :

یشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کرتے رہے یہی لوگ بہترین خلائق ہیں۔

تشریح:

ابن عباس سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام نے حضرت علی (ع) سے فرمایا: آپ اور آپ کے شیعہ قیامت کے دن خیر البریّہ ہیں، خدا بھی آپ لوگوں سے راضی ہے اور آپ لوگ بھی خدا سے راضی ہیں۔

(14) محبوب خدا

یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا مَنْ یَّرتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِهِ فَسَوْفَ یَاتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّونَه-(مائده ٥٤)

ترجمہ :

اے ایمان والو تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اس کی محبوب اور اُس سے محبت کرنے والی ہوگی۔

۲۹

تشریح:

اسعد بن وقاص سے روایت ہے ، پیغمبر نے جنگ خیبر میں فرمایا: میں علم اُسے دوں گا جو خدا اور رسول کا دوستدار ہوگا اور خدا اس کے ہاتھ پر فتح دے گا اور یہ کہ کر آپ جناب علی مرتضیٰ کی طرف بڑھے اور علم ان کے ہاتھ میں دے دیا۔

(15) علم و حکمت کے پیکر اتم

یُؤتِی الحِکْمَةُ مَنْ یَشَآئُ وَمِنْ یُّوْتَ الحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا کَثِیراً ، وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّا أُولُوالْأَلْبٰابِ-(بقره ٢٦٩)

ترجمہ :

اور وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اور جسے حکمت عطا کردی جائے اُسے خیر کثیر عطا کردیا گیا اور اس بات کو صاحبان عقل کے علاوہ کوئی نہیں سمجھتا ہے۔

تشریح:

پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ جو ابراہیم(ع) کو ان کے حلم میں نوح(ع) کو ان کی حکمت میں اور یوسف(ع) کو ان کی خوبصورتی اور زیبائی میں دیکھنا چاہے، اُسے علی(ع) کی زیارت کرنی چاہیے۔

۳۰

(16) خیر کثیر

اِنَّا أَعْطُیْنَاکَ الْکَوْثَر - فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ-(کوثر ١،٢)

ترجمہ :

اے رسول ہم نے تم کو کوثر عطا کیا تو تم اپنے پروردگار کی نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔

تشریح:

پیغمبر اسلام کے دو بیٹوں کا انتقال بچپنے میں ہی ہوگیا تھا جس کی وجہ سے کفار مکہ آپ کو ابتر ہونے کا طعنہ دیتے تھے لہٰذا خداوند عالم نے پیغمبر کو فاطمہ زہرا جیسی بیٹی عنایت کرکے اُسے کوثر کے نام سے یاد کیا اور ان کے ذریعہ پیغمبر اسلام کی نسل کو قیامت تک کے لیے باقی اور دائمی بنادیا، تاکہ پیغمبر اسلام کا نام رہتی دنیا تک باقی رہے۔

(17) ھادی

اِنَّمٰا أَنْتَ مُنْذِر وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ-(رعد ٧)

ترجمہ :

(اے رسول) تم تو صرف (خدا سے) ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک ھادی اور رھبر ہے۔

۳۱

تشریح:

ابن عباس سے منقول ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام نے فرمایا: میں ڈرانے والا ہوں اور میرے بعد علی ہدایت اور رہبری کرنے والے ہیں، اس کے بعد علی کے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا اے علی تم میرے بعد ان لوگوں کی ہدایت کرنے والے ہو جو ہدایت کے طلب گار ہیں۔

کتاب شواہد التنزیل میں 19 روایتیں اس بارے میں موجود ہیں۔

(18) صراط مستقیم

وَاللَّهُ یَدْعُوْآ اِلی دَارِالسَّلٰمِ - وَیَهدِی مَنْ یَّشَآء اِلیٰ صِراطٍ مُسْتَقِیمٍ o (یونس ٢٥)

ترجمہ :

اللہ ہر ایک کو سلامتی کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت کرتاہے۔

تشریح:

ابن عباس سے مروی ہے کہ صراط مستقیم سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

۳۲

(19) حقِ طہارت

اِنَّمٰا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرُکُمْ تَطْهِیرًا-(احزاب ٣٣)

ترجمہ :

اے اہل بیت خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو (ہر طرح) کی برای سے دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

تشریح:

انس بن مالک سے مروی ہے کہ پیغمبر اسلام جب نماز صبح کے لیے مسجد تشریف لاتے تو جناب فاطمہ زہرا(س) کے گھر کے سامنے سے گذرتے ہوئے اس آیت کی تلاوت کرتے اور یہ عمل چھ مہینے تک جاری رہا۔

جابر بن عبداللہ انصاری سے منقول ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت گھر میں علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہم السلام )کے علاوہ کوئی اور نہ تھا اور پیغمبر(ص) نے فرمایا: یہ ہیں میرے اہل بیت۔

کتاب شواہد التنزیل میں 137 روایتیں اس بارے میں موجود ہیں۔

۳۳

(20) نور الھی

أَللّٰهُ نُورُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ-مَثَلُ نُورِهِ کَمِشْکَوٰةٍ فِیْهٰا مِصْبٰاح-الْمِصْبٰاحُ فِیْ زُجٰاجَةٍ أَالزُّجَاجَةُ کَأَنَّهٰا کَوْکَب، دُرِّیّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبٰارَکَةٍ زَیْتُونَةٍ لَّا شَرْ قِیَّةٍ وَّلَا غَرْبِیِّةٍ یَّکَادُ زَیْتُهَا یُضِی ئُ وَلَوْلم تَمْسَسْهُ نَار، نور عَلٰی نُوْرٍ یَهدِی اللّٰهُ لِنُورِهِ مَنْ یَشٰائُ- (نور ٣٥)

ترجمہ:

خدا تو سارے آسمان اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثل ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے جس میں ایک روشن چراغ ہو، اور چراغ ایک شیشے کی قندیل میں ہو، قندیل گویا ایک روشن ستارہ ہے (وہ چراغ) زیتون کے ایسے مبارک درخت سے روشن کیا جائے، جو نہ پورپ کی طرف ہو اور نہ پچھم کی طرف (بلکہ بیچ وبیچ) میدان میں اسکا تیل (ایسا شفاف ہو کہ) اگرچہ آگ اُسے چھوئے بھی نہیں تاہم ایسا معلوم ہو کہ خود ہی روشن ہوجائے گا ، (غرض ایک نور نہیں بلکہ) نور علی نور ہے خدا اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔

تشریح:

جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ میں ایک دن جب مسجد میں داخل ہوا اور حضرت علی(ع) سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا: مجھے تعجب ہے اُس شخص پر جو اس آیت کی تلاوت کرتا ہے مگر اس کے معانی پر غور نہیں کرتا ہے میں نے عرض کی کون سی آیت تو آپ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا:

۳۴

مشکاة سے مراد محمد (ص) ہیں ،مصباح سے مراد میں ہوں، زجاجہ سے مراد حسن ، حسین ہیں، کوکب دری سے مراد علی ابن الحسین، شجرہ مبارکہ سے مراد محمد بن علی، زیتونہ سے مراد جعفر بن محمد ، لاشرقیہ سے مراد موسیٰ بن جعفر، لاغربیہ سے مراد علی بن موسیٰ الرضا ، یکاد زیتھا سے مراد محمد بن علی ، لم تمسہ النار سے مراد علی بن محمد، نور علی نور سے مراد حسن بن علی اور یھدی اللہ لنورہ من یشاء سے مراد حضرت مہدی ہیں۔

(21)جناب ابراہیم امیر المومنین کے شیعہ

وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِهِ لَاِبْرَاهِیْم- ( صافّات ٨٣)

ترجمہ :

اور یقینا ان ہی (نوح) کے پیروکار میں سے ابراہیم بھی تھے۔

تشریح:

حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ جب جناب ابراہیم کی خلقت ہوئی تو انھوں نے عرش الٰہی کے پاس ایک نور دیکھا ، پوچھا خدایا یہ کس کا نور ہے جواب ملا یہ نور محمد ہے پھر نور محمد کے ساتھ ایک اور نور دیکھا پوچھا یہ کس کا نور ہے، جواب ملا یہ علی کا نور ہے پھر تین نور ااور دیکھے اور اس کے بعد نو(9) نور اور دیکھے پوچھا یہ کس کے نور ہیں ؟ جواب ملا یہ تین نور فاطمہ زہرا اور حسن ، حسین کے ہیں اور نو (9) نور نو اماموں کے ہیں جو سب کے سب حسین کی نسل سے ہوں گے، تب جناب ابراہیم نے فرمایا: خدایا! مجھے امیر المومنین کے شیعوں میں سے قرار دے اور یہ آیت نازل ہوئی ۔ ''ان من شیعتہ لابراھیم''

۳۵

تیسری فصل(امام زمان عج)

۳۶

(1) مومنین کی خوشی اور مسر ت کا دن

---یَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ المُومِنُونَ بِنَصْرِ اللّٰه---(روم ٤،٥)

ترجمہ:

اس دن صاحبان ایمان اللہ کی مدد سے خوشی منائیں گے۔

تشریح:

امام جعفر صادق ـ سے مروی ہے کہ آخری امام کے ظہور کا دن وہ دن ہے جب مؤمنین اللہ کی نصرت و امداد کے سہارے خوشی منائیں گے۔

(2) امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھی

وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسَیٰ أُمةً یَهدُوْنَ بِالْحَقّ وَ بِهِ یَعْدِلُونَ-(اعراف ١٥٩)

ترجمہ:

اور موسیٰ کی قوم میں سے ایک ایسی جماعت بھی ہے جو حق کے ساتھ ہدایت کرتی ہے اور معاملات میں حق و انصاف کے ساتھ کام کرتی ہے۔

۳۷

تشریح:

حضرت امام جعفر صادق ـسے منقول ہے کہ جب قائم آل محمد ـ کعبہ سے ظہور کریں گے تو 27 افراد ان کے ساتھ ہوں گے جن میں سے 15 کا تعلق قوم حضرت موسیٰ ـ ، 7 افراد اصحاب کھف، یوشع جناب موسیٰ کے جانشین سلمان، مقداد ومالک اشتر وغیرہ یہ سب کے سب حضرت کے ساتھی ، اور آپ کی جانب سے فوج پر حُکّام ہوں گے۔

(3) آئمہ کی معرفت

مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الاٰخِرَة نَزِد لَه' فِی حَرْثِه وَ مَنْ کَانَ یُرِیْدُحَرْثَ الدُّنْیَا ---(شوریٰ ٢٠)

ترجمہ:

جو انسان آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کے لئے اضافہ کردیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی کا طلب گار ہے اسے اسی میں سے عطا کر دیتے ہیں۔

تشریح:

امام جعفر صادق ـ سے روایت ہے کہ ''حرث الاخرة''سے مراد علی ـ اور باقی آئمہ علیہم السلام کی معرفت ہے۔ اور ''حرث الدنیا'' سے مراد اُن لوگوں کی تلاش اور کوشش جن کا حضرت بقیة اللہ کی حکومت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

۳۸

(4) حق کی کامیابی کا دن

--- وَ یَمحُ اللّٰهُ البٰاطِلَ وَ یَحِقُ الحَقَّ بِکَلِمٰاتِهِ -(شوریٰ ٢٤)

ترجمہ:

اور خدا باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعہ ثابت اور پائیدار بنا دیتا ہے۔

تشریح:

امام صادق ـ سے منقول ہے کہ اس آیت میں کلمات سے مراد آئمہ علیہم السلام اور قائم آل محمد ـ ہیں کہ جن کے ذریعہ خدا حق کو غلبہ عطا کرے گا۔

(5) دین حق

هو الذی أَرسَلَ رَسُولَه' بِالْهُدیٰ وَ دِیْنَ الحَقّ لِیُظْهِرَه عَلیٰ الدِّیْنِ کُلِّهِ ---(فتح ٢٨)

ترجمہ:

وہی وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام ادیان پر غالب بنائے۔

تشریح:

امام صادق ـسے روایت ہے کہ غلبہ سے مراد امام زمانہ ـ کا ظہور ہے جو تمام ادیان پر غالب آکر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے۔

۳۹

(6) اہل زمین کا دوبارہ زندہ ہونا

اِعْلَمُوا انَّ اللّٰه یُحْیِ الارض بعَدَ مَوتِهٰا --- (حدید ١٧)

ترجمہ:

یاد رکھو کہ خدا مردہ زمینوں کا زندہ کرنے والا ہے۔

تشریح:

امام جعفر صادق ـ سے مروی ہے کہ زمین کے مردہ ہونے سے مراد اہل زمین کا کفر اختیار کرنا ہے۔ خداوند عالم حضرت حجة ابن الحسن ـ کے ذریعہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر کر زمین کو زندگی عطا کریگا۔

(7) نورِ الٰہی

یُرِیدُوْنَ لِیُطْفِؤا نورَ اللّٰهِ بِأفواهِهِمْ وَاللّٰه مُثمُّ نُوْرِهِ و نَوکَرِهَ الْکٰافِرُونَ - (صف ٨)

ترجمہ:

یہ لوگو چاہتے ہیں کہ نور خدا کو پنے منہ سے بجھادیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے چاہے یہ بات کفار کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64