امامیہ اردو دینیات درجہ سوم جلد ۳

امامیہ اردو دینیات درجہ سوم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 64

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 64 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45328 / ڈاؤنلوڈ: 3718
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ سوم

امامیہ اردو دینیات درجہ سوم جلد ۳

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

امامیہ اردو دینیات

درجہ سوم

نظیم المکاتب

۳

معلمّ کے لئے ہدایت

۱ ۔ سبق پڑھنے کے بعد بچوں سے ایسے سوالات کئے جائیں جن کے ذریعہ بچے سبق کے مفہوم کو ادا کر سکیں۔

۲ ۔سبق کے بعد والے سوالات کے جوابات مختصر لکھوا کر زبانی یاد کرائے جائیں۔

۴ ۔ مسائل زبانی یاد کرا‏‏ئے جائیں اور جہاں ضرورت ہو وہاں عملی تعلیم دی جائے۔

۴

پہلا سبق

مذہب

بچہ جس چیز کو دیکھتا ہے اس کو لینے کے لئے لپکتا ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ کون سی چیز اچھی ہے اور کون سی چیز بری ہے لیکن اس کے ماں باپ اس کو ان چیزوں سے منع کرتے ہیں جو بری ہیں۔ چاہے وہ بچہ کو اچھی لگتی ہوں۔ اور ان چیزوں کو لینے کا حکم دیتے ہیں جو اچھی ہیں چاہے وہ بچہ کو بری لگتی ہوں۔ اسی طرح خدا نے اپنے بندوں کو مذہب کے ذریعہ اچھی اور بری باتیں بتائی ہیں۔ کیو نکہ بندے سب چیزوں کی اچھائی اور برائی نہیں جانتے ہیں۔ مذہب اچھائیاں بتاتا ہے اور برائیاں پہچنواتا ہے۔ نیکی کونے کا حکم دیتا ہے اور برائی کرنے سے روکتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ خدا نے مذہب کے ذریعہ اپنے بندوں کو کیا بتایا ہے ؟

۲ ۔ مذہب انسانوں کو کن باتوں کا حکم دیتا ہے "

۵

دوسرا سبق

اگر خدا نہ ہوتا

دنیا کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی بغیر بنانے والے کے نہیں بن سکتی۔ معمار کے بغیر مکان خود بخود نہیں بن سکتا۔ درزی کے بغیر کپڑا خود بخود نہیں سل سکتا۔ بغیر بڑھئیٰ کے الماری ، میز ، کرسی ، پلنگ ، تخت اور دروازے اپنے آپ نہیں بن سکتے تو اتنی بڑی دنیا ، آسمان ، زمین ، چاند ، سورج ، ستارے ، دریا ، پہاڑ ، درخت ، جانور ، آدمی کیسے اور دوسری لاکھوں چیزیں بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خود بخود کیسے پیدا ہو سکتی ہیں۔ اسی لئے ماننا پڑھتا ہے کہ ایک خدا ہے جس نے یہ دنیا پیدا کی ہے۔

ایک مرتبہ لوگوں نے ایک بڑھیا سے پوچھا کہ خدا ہے یا نہیں ؟ یہ بڑھیا اپنا چرخہ چلا رہی تھی۔ بڑھیا نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ چرخہ بھی فوراً رک گیا۔ اس نے کہا دیکھو جب میں چرخہ چلاتی ہوں تو چلتا ہے اور جب ہاتھ روک لیتی ہوں تو یہ بھی رک جاتا ہے۔ پھر بتاو کہ اگر دنیا کو چلانے والا کوئی نہیں ہے تو سارے جہاں کا یہ چرخہ کیونکر چل رہا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ دنیا بغیر بنانے والے کے کیوں نہیں بن سکتی ؟

۲ ۔ بڑھیا نے کیونکر سمجھایا کہ خدا ہے ؟

۶

تیسرا سبق

خدا کو بغیر دیکھے کیوں مانتے ہیں ؟

ہم ریل کے کسی ایک ڈبہ میں بیٹھ کر سفر کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ ریل چلتے چلتے اسٹیشنوں پر رکتی ہے۔ پرانے مسافروں کو اتار کر اور نئے مسافروں کو لے کر پھر روانہ ہو جاتی ہے۔ ہم ڈبہ سے جب جھانک کر دیکھتے ہیں تو ہمیں صرف ریل کا انجن گاڑی کو کھینچتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور انجن میں بیٹھ کر ریل کے چلانے والے ڈرائیور کو ہم نہیں دیکھ پاتے۔ پھر بھی ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اس گاڑی کا چلانے والا کوئی ضرور ہے۔ اسی طرح جب اس رواں رواں کائنات کو دیکھتے ہیں تو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ خدا ضرور ہے جو پوری دنیا کو چلا رہا ہے۔

ہمارے چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روز ایک دہریہ نے پوچھا کہ ہم نے خدا کو دیکھا نہیں اور آپ کہتے ہیں کہ خدا کو کوئی دیکھ بھی نہیں سکتا تو پھر بتائیے بغیر دیکھے ہم کو کیسے یقین آئے کہ خدا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کبھی تونے دریا کا سفر کیا ہے ؟ کہا ہاں۔آپ نے پوچھا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ تمہاری کشتی طوفان سے ٹوٹ کر ڈوبنے لگی ہو ؟ اس نے کہا ہاں ایسا بھی ہوا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا ! اچھا بتاو کہ جب تم کو کشتی کے ڈوبنے اور اپنے مرنے کا یقین ہو گیا تھا تب بھی تمہارا دل یہ کہتا تھا یا نہیں کہ اب بھی کوئی بچا سکتا ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں ضرور کہتا تھا۔ امام علیہ السلام نے پوچھا وہ کون تھا جس سے تم مایوسی کے بعد بھی لو لگائے ہوئے تھے۔ کیا تم نے اسے دیکھا تھا ؟ اس نے کہا دیکھا تو نہیں لیکن دل ان دیکھ سہارے سے لو لگائے تھا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا " مایوسی کی حالت میں جو ذات دل کو سہارا دیتی ہے وہی خدا ہے "۔

سچا مسلمان وہی ہے جو مشکلوں میں گھر جانے کے باوجود بھی مایوس نہ ہو اور ہمیشہ خدا کی رحمتوں کی امید رکھے۔

سوالات :

۱ ۔ خدا کو بغیر دیکھے کس طرح مانا کا سکتا ہے ؟

۲ ۔ امام علیہ السلام نے خدا کو ماننے کے لئے کیا دلیل دی ؟

۳ ۔ سچا مسلمان کون ہے ؟

۷

چوتھا سبق

ہمارا خدا

واحد ہے ۔ یعنی ایک اور اکیلا ہے اس کا کوئی ساتھی یا سنگھاتی نہیں ہے ۔ نہ کسی کو اپنے کام میں شریک کرتا ہے اور نی اس کو کسی کی رائے کی ضرورت ہے۔

احد ہے۔ یعنی اس کا کوئی جز نہیں ہے اور نہ وہ کسی کا جز ہے۔ وہ ایک ہے اکیلا ہے اور مرکب نہیں ہے۔ جیسے شربت کہ وہ دیکھنے میں ایک چیز ہے لیکن اصل میں پانی اور شکر سے مل کر بنا ہے اور خدا ایسا نہیں ہے۔

صمد ہے ۔ یعنی وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ ساری کائنات اس کی محتاج ہے اور وہ خود کسی کا محتاج نہیں ہے۔

ازلی ہے ۔ یعنی ہمیشہ سے ہے۔

ابدی ہے ۔ یعنی ہمیشہ رہےگا۔

سرمدی ہے ۔ یعنی زمانے سے پہلے تھا اور زمانہ کے بعد بھی رہےگا۔

قیوم ہے ۔ یعنی ساری کائنات کا قیام اسی کی وجہ سے ہے۔اس کا ارادہ بدل جائے تو دنیا دیکھتے دیکھتے فنا ہو جائے۔

لَیسَ کَمَثلِه شَیءٌ ۔ یعنی خدا کا جیسا کوئی دوسرا نہیں ہے اور نہ اسے کسی کی مثال بنایا جا سکتا ہے۔

لَم یَلَد وَ لَم یُولَد ۔ یعنی نہ اس کا کوئی باپ ہے نہ کوئی اسکا بیٹا۔

سولات :

۱ ۔ واحد اور احد کے معنی بتاو اور دونوں کا فرق سمجھ کر بتاو ؟

۲ ۔ صمد اور سرمدی کا کیا مطلب ہے ؟

۳ ۔ اگر خدا کا ارادہ بدل جائے تو کیا ہوگا ؟

۸

پانچواں سبق

مذہب اور لا مذہبیت

دنیا میں جو لوگ بستے ہیں ان میں کچھ تو مذہب کو مانتے ہیں اور کچھ نہیں مانتے ہیں۔ جو لوگ مذہب کو مانتے ہیں وہ بھی کئی طرح کے ہیں اور جو نہیں مانتے ہیں وہ بھی کئی طرح کے ہیں۔

مسلمان ۔ یعنی توحید ، رسالت ، اور قیامت کا اقرار کرنے والا۔

مومن ۔ یعنی توحید ،عدالت رسالت ، امامت اور قیامت کا قرار کرنے والا۔

کافر ۔ یعنی اصول دین یا نماز روزہ وغیرہ جیسے اسلام کے کسی بھی مانے ہوئے حکم کا انکار کرنے والا۔

منافق ۔ یعنی زبان سے کلمہ پڑھنے کے باوجود دل میں کفر رکھنے والا۔

مشرک ۔ یعنی کئی خداووں کا ماننے والا۔

مرتد ۔ یعنی جو مسلمان کافر ہو جائے۔

مرتدملی ۔ یعنی وہ کافر جو مسلمان ہونے کے بعد پھر کافر ہو جائے ۔مرتد فطری ۔ یعنی وہ مسلمان جس کے ماں باپ میں سے کوئی ایک مسلمان ہو اور وہ خود کافر ہو جائے۔

یہودی ۔ وہ لوگ ہیں جو حضرت موسیٰؐ کے بعد کسی نبی کو نہیں مانتے۔

عیسائی ۔ وہ لوگ ہیں جو حضرت عیسیٰ ؐ کو آخری نبی سمجھتے ہیں ۔

مجوسی وہ لوگ ہیں جو آگ کو خدا مانتے ہیں ۔

کافر ذمی ۔ وہ کافر جس کا نبیؐ امامؐ سے معاہدہ ہو ۔

کافر حربی ۔ وہ کافر جس کا نبیؐ یا مامؐ سے معاہدہ نہ ہو ۔

سوالات :

۱ ۔ دنیا میں کتنی طرح کے لوگ رہتے ہیں ؟

۲ ۔ مرتد فطری اور مرتد ملی کسے کہتے ہیں ؟

۳ ۔ جس کافر کا امام سے معاہدہ نہ ہو اسے کیا کہیں گے ؟

۹

چھٹا سبق

اصول اور فروع

ہمارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ ان کی باتوں کو ماننا اسلام ہے۔ ہمارے نبیؐ نے ہم کو جتنی باتیں بتائی ہیں وہ دو طرح کی ہیں۔ ایک کا نام اصول دین ہے اور دسرے کا نام فروع دین ہے۔

اصول دین :۔ ان باتوں کو کہتے ہیں جن پر دل سے یقین رکھنا ضروری ہے جیسے

خدا ایک ہے ، عادل ہے ۔ آخری نبی ہمارے نبیؐ ہیں اور ان کے جانشین ہمارے بارہ امام ہیں۔قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ قیامت کا ایک دن معین ہے ۔

فروع دین :۔ ان باتوں کو کہتے ہیں جن پر عمل کرنا واجب ہے جیسے نماز پڑھنا ، روزہ رکھنا ، حج کرنا ، خمس ، زکوٰۃ نکالنا وغیرہ۔ ہر شخص پر واجب ہے کہ اصول دین کو دلیلوں کے ذریعہ سمجھے اور اپنی عقل سے پرکھ کر مانے ، صرف کسی کے کہنے پر ماننا کافی نہیں ہے بلکہ دوسروں سے جو کچھ سنے یا معلوم کرے اسے اپنی عقل سے پرکھے جو صحیح ثابت ہو اسے

مانے اور جو غلط ثابت ہو اسے نہ مانے۔

فروع دین خدا اور رسولؐ کے احکام کا نام ہے اور خدا اور رسولؐ کے احکام کا فیصلہ اپنی عقل سے نہیں کیا جا سکتا لہذا جو خدا اور رسولؐ اور امامؐ کا حکم ہو اسی پر عمل کرنا چاہئیے۔

سوالات :

۱ ۔ خدا ایک ہے۔ امام بارہ ہیں۔ یہ باتیں اصول دین میں ہیں یا فروع دیں میں ؟

۲ ۔ فروع دین کون سی باتوں کو کہتے ہیں ؟

۳ ۔ اپنی عقل سے پرکھ کر اصول دین کو ماننا چاہئیے یا فروع دین کو ؟

۱۰

ساتواں سبق

خدا عادل ہے

خدا عادل ہے یعنی نہ اس نے کبھی ظلم کیا ہے نہ کبھی ظلم کرےگا۔ خدا ہر برائی سے پاک ہے۔ نہ خود کبھی برائی کرتا ہے نہ کسی کی برائی کو پسند کرتا ہے۔ ہر انسان کو نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔ ایسا حکم دینے والا نہ کسی اچھائی کو چھوڑ سکتا ہے نہ کسی برائی کا روادار ہو سکتا ہے۔

خدا کو عادل ماننے کا مطلب ہے کہ اس کے ہر حکم کو صحیح مانا جائے۔ غلط حکم دینے والا کبھی عادل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ خدا نے شیطان اور ملائکہ دونوں کو حکم دیا تھا کہ جناب آدمؐ کے سامنے سجدہ کریں۔ ملائکہ نے سجدہ کا حکم مانا اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ خدا عادل ہے غلط حکم نہیں دے سکتا۔ شیطان خدا کو عادل نہیں مانتا تھا لہذا اس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ نہ صرف انکار کیا بلکہ خدا پر الزام لگایا کہ تو مجھے اس کے سامنے جھکنے کا حکم دیتا ہے جس سے میں بہتر اور افضل ہوں۔

جو لوگ خدا کے احکام پر اعتراض کرتے رہتے ہیں وہ صرف حکم خدا پر اعتراض نہیں کرتے بلکہ خدا کے عادل ہونے سے بھی انکار کرتے ہیں۔ کسی کی موت کو نا وقت موت سمجھنا بھی اللہ کو عادل ماننے کے خلاف ہے کیونکہ خدا نے ہر شخص کی موت کا ایک وقت معین کیا ہے۔ خدا کے مقرر کئے ہوئے موت کے وقت کو غلط کہنا درست نہیں ہے۔

سوالات :

ا۔ شیطان نے حضرت آدمؐ کو سجدہ کیوں نہیں کیا ؟

۲ ۔ کسی کی موت کو ناوقت موت سمجھنا کیسا ہے ؟

۱۱

آٹھواں سبق

نبوت

نبی اور پیغمبر شکل و صورت میں ہمارے ہی جیسے ٓادمی ہوتے ہیں ہماری ہی طرح چلتے پھرتے ہیں۔ کھاتے پیتے اور سوتے جاگتے ہیں۔ لیکن ہم میں اور ان میں یہ فرق ہوتا ہے کہ ہم جاہل پیدا ہوتے ہیں وہ خدا سے علم لے کر آتے ہیں۔ جس طرح ہم گندگی سے بیزار رہتے ہیں اسی طرح وہ گناہوں سے بیزار رہتے ہیں۔ ہم گندگی کو چھو سکتے ہیں مگر کبھی نہیں چھوتے۔ اسی طرح نبی گناہ پر قدرت رکھتے ہیں مگر کبھی گناہ نہیں کرتے ۔ وہ معصوم ہیں، ہر عیب سے پاک ہیں۔ نہ جھوٹ بولتے ہیں نہ کسی کو ستاتے ہیں نہ کسی کا مال چھینتے ہیں اور نہ کوئی برائی کرتے ہیں، نہ کبھی خدا کی نافرمانی کرتے ہیں۔

یاد رکھو ! ہم میں اور نبی میں تین باتوں کا فرق ہوتا ہے :

۱ ۔ نبی عالم پیدا ہوتے ہیں۔ ان سے بھول چوک، غلطی اور خطا نہیں ہوتی۔ خدا ان کو عالم بنا کر پیدا کرتا ہے اور ہم جاہل پیدا ہوتے ہیں۔

۲ ۔ نبی معصوم ہوتا ہے کیونکہ ان کا علم مکمل ہوتا ہے وہ گناہوں کی برائیوں سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں اور اسی درجہ سے ہر گناہ سے بیزار رہتے ہیں۔ بیزار رہنے کی وجہ ان سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا اور ہم سے گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں۔

۳ ۔ خدا ان کو اپنی طرف سے ہماری ہدایت کے لئے بھیجا ہے اور ہمارا کام ان سے ہدایت حاصل کرنا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ ہم میں اور نبی میں کیا فرق ہے ؟

۲ ۔ نبی گناہ کیوں نہیں کرتے ؟

۳ ۔ نبی کیوں معصوم ہوتے ہیں ؟

۱۲

نواں سبق

ہمارے رسولؐ

ہمارے رسولؐ ابھی اپنی مادر گرامی کے شکم مبارک ہی میں تھے کہ آپ کے والد جناب عبد اللہ کا انتقال ہو گیا۔ جب آپ چار برس کے تھے تو آپ کی والدہ جناب آمنہ کا انتقال ہو گیا۔ آپ کے دادا جناب عبد المطلب ٌ کا انتقال اس وقت ہوا جب آپ کی عمر آٹھ برس کی تھی۔ دادا نے انتقال کے وقت ہمارے رسولؐ کو اپنے سب سے لائق بیٹے جناب ابو طالبؐ کے حوالہ کیا۔ جناب ابو طالب ؐ مرتے دم تک آپ کی سب سے بڑھ کرحفاظت کی۔ جناب خدیجہّ بلند کردار اور مالدار بیبی تھیں نے اپنی ساری دولت اسلام کی مدد میں خرچ کر دی ۔ جب آپ چالیس سال کے ہوئے تو خدا نے آپ کو نبوت کے اعلان کا حکم دیا۔ جناب خدیجہ ّ سے آپ کے کئی بیٹے پیدا ہوئے جو زندہ نہ رہے۔ ان میں سے ایک بیٹے کا نام قاسم تھا اور انھیں کی وجہ سے آپ کی کنیت ابو القاسم (یعنی قاسم کے باپ) ہوئی۔

بیٹوں کے انتقال کے بعد ہماری شاہزادی جناب فاطمہ زہراؐ صلوات اللہ علیہاپیدا ہوئیں۔ آپ کی نسل آپ کی اکلوتی بیٹی جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا ہی سے چلی ہے۔ انتقال کے وقت ہمارے رسولؐ کی عمر ترسٹھ سال کی تھی۔

سوالات :

۱ ۔ ہمارے رسولؐ کو ابوالقاسم کیوں کہتے ہیں ؟

۲ ۔ ہمارے رسولؐ کے والد کا نام کیا تھا ؟

۳ ۔ پیغمبر اکرمؐ کے دادا کا کیا نام تھا ؟

۴ ۔ ہمارے رسولؐ کی نسل کس سے چلی ؟

۱۳

دسواں سبق

امام

خدا ہمیشہ بندوں کی ہدایت کے لئے ایک نبی کے بعد دوسرا نبی بھیجتا رہا۔ سب سے آخر میں ہمارے نبیؐ تشریف لائے۔ جن کے بعد کوئی نبی نہ آیا ہے نہ آئےگا لیکن بندوں کی ہدایت کا سلسلہ جاری رکھنا ضروری تھا تاکہ لوگ ہدایت پاتے رہیں اور گمراہی سے محفوظ رہیں لہذا نبوت کے خاتمہ کے بعد اللہ نے بندوں کی ہدایت کے لئے اماموں کو بھیجا۔

امام بھی چونکہ نبی کی طرح ہدایت کرنے کے لئے آتا ہے لہذا اس میں بھی وہ ساری باتیں پائی جاتی ہیں جو نبی میں پائی جاتی ہیں۔ امام وہ ہوتا ہے جس میں تین باتیں پائی جائیں۔

۱ ۔ امام عالم پیدا ہوتا ہے اور اپنے زمانہ کے تمام لوگوں سے علم اور دوسری باتوں میں افضل ہوتا ہے۔ اس سے بھی کبھی بھول چوک غلطی یا خطا نہیں ہوتی۔

۲ ۔ امام بھی نبی کی طرح معصوم ہوتا ہے۔

۳ ۔ امام کو بھی خدا اپنے حکم سے مقرر کرتا ہے۔ چناچہ ہمارے نبیؐ نے اپنے چچا زاد بھائی اور داماد حضرت علی علیہ السلام کو خدا کے حکم سے اپنا خلیفہ جانشین مقرر کیا تھا۔ آپ ہی ہمارے پہلے امام ہیں۔ آپ کے بعد آپ کے گیارہ فرزند امام ہوئے جو سب کے سب حضرت علیؐ کی اولاد تھے اور سب کو خدا نے امام مقرر کیا تھا۔

نبی اور امام میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ نبی صاحب شریعت ہوتا ہے اور امام محافظ شریعت ہوتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ امام کی کیوں ضرورت ہوتی ہے ؟

۲ ۔ امام میں نبی کی کونسی باتیں پائی جاتی ہیں ؟

۳ ۔ اماموں کے نام بتائیے ؟

۴ ۔ نبی و امام کا فرق بتائیے ؟

۱۴

گیارہواں سبق

ہمارے پہلے امامؐ

ہمارے امام بارہ ہیں۔ جن میں سے پہلے امام حضرت علی علیہ السلام ہیں آپ خانہ کعبہ میں تیرہ رجب کو پیدا ہوئے۔ آپ کے تین بھائی اور تھے۔ طالب ، عقیل اور جعفر طیار۔ آپ سب سے چھوٹے تھے۔ آپ کے بھائیوں میں ہر بھائی ایک دوسرے سے دس سال چھوٹا تھا۔ سب سے بڑے بھائی طالب تھے اور اسی وجہ سے آپ کے والد ابو طالب کہلائے۔ آپ کے والد کا اصلی نام عمران تھا۔ حضرت علیؐ سے بڑے جعفر طیار تھے۔ ان کے بازو جنگ موتہ میں کٹ گئے تھے۔ شہادت کے بعد خدا نے آپ کو دو پر عنایت کئے جن سے آپ جنت میں پرواز کرتے ہیں اسی لئے آپ کو طیار یعنی اڑنے والا کہا جاتا ہے۔

جعفر طیار سے بڑے عقیل تھے جن کے بیٹے مسلمؐ بن عقیل ، امام حسینؐ کے ایلچی بن کر کوفہ میں آئے تھے اور شہید ہوئے۔ سب سے بڑے بھائی طالب تھے۔ آپ کی ایک بہن ام ہانی تھیں جو بڑی مومنہ تھیں۔ حضرت علی علیہ السلام کی ماں فاطمہ بنت اسد کو ہمارے نبی ؐ محبت اور احترام سے اپنی ماں کہتے تھے کیوں کہ فاطمہ بنت اسد نے ہمارے رسولؐ کی بڑی خدمت کی تھی اور آپ رسولؐ کو اپنی اولاد سے زیادہ چاہتی تھیں۔ حضرت ابو طالب ہمیشہ رسولؐ کے سینہ سپر رہے۔ آپ رسولؐ کی جگہ پر اپنے بیٹوں کو سلادیتے تھے تاکہ اگر رات کے وقت دشمن حضور پر حملہ کر دیں تو آپ کی جان بچ جائے چاہے میرے بچے قتل ہو جائیں۔ حضرت علیؐ علیہ السلام کی اولاد میں امام حسنؐ علیہ السلام اور امام حسینؐ علیہ السلام کی سگی بہنیں جناب زینبؐ اور جناب ام کلثومؐ اور سوتیلے بھائی جناب عباسؐ اور جانب محمد حنفیہ زیادہ مشہور ہیں۔

سوالات :

۱ ۔ حضرت علیؐ کے کتنے بھائی تھے ؟ ان کے نام بتا ؤ ؟

۲ ۔ جناب عباس اور محمد حنفیہ کون تھے ؟

۳ ۔ حضرت ابو طالب کا نام بتا ؤ ؟

۴ ۔ فاطمہ ؐ بنت اسد کون تھیں ؟

۱۵

بارہواں سبق

حضرت علیؐ کے اخلاق

دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو برائی کرنے کے بعد اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ پروردگار نے ان سے بدلا نہیں لیا۔ انھیں یہ خبر نہیں ہے کہ دنیا کی برکت و نحوست اور آخرت کا عذاب و ثواب سب اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ جب چاہےگا ان برائیوں کا بدلہ لیلےگا۔

میثم تمار، حضرت علیؐ کے ایک مشہور صحابی تھے۔ کوفہ میں خرمہ کی تجارت کرتے تھے۔ حضرت علیؐ کا دستور تھا کہ میثم کی دکان پر آ کر بیٹھ جایا کرتے تھے اور لوگوں کو تجارت کی خوبی سے آگاہ کیا کرتے تھے۔ ایک دن میثم آپ کو اپنی دکان پر بٹھا کر چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص خرمہ خریدنے آیا۔ آپ نے خرمہ تول کر دیدیا اس نے آپ کو کھوٹا درہم دیدیا اور خوشی خوشی چلا گیا۔

میثم پلٹ کر آئے تو آپ نے انھیں درہم دیا۔ انھوں نے عرض کی مولاؐ ! یہ درہم تو کھوٹا ہے۔ آپ نے فرمایا کوئی پرواہ نہیں ہے میں جانتا تھا لیکن میں نے اسے ذلیل کرنا نہیں چاہا۔ اللہ اس کا اچھا بدلہ دےگا۔ تھوڑی دیر کے بعد شخص واپس آیا اور کہنے لگا علیؐ ان کھجوروں میں کیڑے پڑے ہوئے ہیں۔ آپ نے فرمایا اپنا درہم لے لے اور میرے خرمے واپس کر دے۔ اس نے خرمے دے دیئے اور درہم واپس لے کر چلا گیا۔ میثم نے دیکھا خرمے بالکل ٹھیک ہیں تو عرض کی۔ میرے مولاؐ ! یہ واقعہً کیا ہوا ؟ فرمایا اے میثم پروردگار اپنے نیک بندوں کا اسی طرح خیال رکھتا ہے اس شخص نے ہم لوگوں کو دھوکہ دینا چاہا۔ اللہ نے اس کا بدلہ لے لیا اور اسے کامیاب نہیں ہونے دیا۔

سوالات :

۱ ۔ میثم کون تھے ؟

۲ ۔ حضرت علیؐ نے کھوٹا درہم کیوں لے لیا تھا ؟

۱۶

تیرہواں سبق

بارہ اماموں کی عمریں

حضرت امام علی علیہ السلام : آپ تیرہ رجب ۳۰ ؁ عام الفیل یعنی ہجرت سے تیس سال پہلے شہر مکہ میں جمعہ کے دن خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور اکیس رمضان ۴۰ ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ترسٹھ برس کی تھی۔ آپ کی قبر مطہر نجف میں ہے۔

حضرت امام حسن علیہ السلام : آپ پندرہ رمضان ۳ ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور اٹھائیس صفر ۵۰ ؁ میں شید ہوئے ۔آپ جنت البقیع مدینہ میں دفن ہوئے،

حضرت امام حسین علیہ السلام : آپ کی عمر سینتالیس برس تھی۔ آپ تین شعبان ۴ ؁ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور دس محرم ۲۱ ؁ میں شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ستاون برس تھی۔ آپ کا روضہ کربلا میں ہے

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام : آپ پندرہ جمادی الاول ۳۸ ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۲۵ ؁ محرم ۹۵ ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ستاون برس تھی۔ آپ کی قبر جنت البقیع مدینہ میں ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام : آپ پہلی ۵۷ ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور سات الحجہ ۱۱۴ ؁ کو شہید ہوئے۔آپ کی عمر ستاون برس تھی۔ آپ بھی جنت البقیع مدینہ منورہ میں دفن ہوئے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام : آپ ۱۷ ربیع الاول ۸۳ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۱۵ شوال ۱۴۸ ھ؁ میں شہید ہوئے۔ آپ کی عمر پینسٹھ برس تھی۔ آپ کی قبر بھی جنت البقیع مدینہ منورہ میں ہے۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام : آپ سات صفر ۱۲۸ ھ؁ کو ابوا میں پیدا ہوئے اور ۲۵ رجب ۱۸۳ ھ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ۵۵ برس تھی۔ آپ کا روضہ کاظمین میں ہے۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام : آپ گیارہ ذیقعدہ ۱۵۳ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں بیدا ہوئے اور ۲۳ ذیقعدہ ۲۰۳ ھ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ۵۰ برس تھی۔ آپ کا روضہ مشہد میں ہے۔

۱۷

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام : آپ دس رجب ۱۹۵ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۲۹ ذیقعدہ ۲۲۰ ھ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ۲۵ برس تھی۔ کاظمین میں آپ کی قبر مطہر ہے۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام : آپ پانچ رجب ۲۱۴ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور تین رجب ۲۵۴ ھ؁ میں شہید ہوئے۔ آپ کی عمر چالیس برس تھی۔ آپ سامرہ میں دفن ہوئے۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام : آپ دس ربیع الشانی ۲۳۲ ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور آٹھ ربیع الاول ۲۶۰ ھ؁ کو شہید ہوئے۔ آپ کی عمر ۲۸ برس تھی۔ آپ کا روضہ بھی سامرہ میں ہے۔

حضرت امام مہدی آخرالزماں علیہ السلام : آپ پندرہ شعبان ۲۵۶ ھ؁ کو شہر سامرہ میں پیدا ہوئے اور آج تک بحکم خدا زندہ ہیں اور پردہ غیب میں ہیں جب حکم خدا ہوگا تو ظاہر ہوں گے۔

سوالات :

۱ ۔ جنت البقیع میں کون کون امام دفن ہیں ؟

۲ ۔ مشہد ، کاظمین ، اور سامرہ میں کون ائمہ کی قبریں ہیں ؟

۳ ۔ حضرت علیؐ اور امام حسینؐ کی قبریں کہاں ہیں ؟

۴ ۔ تیسرے ، چھٹے اور نویں امام کی تاریخ ولادت و وفات بتائے ۔

۱۸

چودھواں سبق

موت کے بعد

برزخ :۔

ہر آدمی کے مرنے کے بعد سے لے کر قیامت تک کی مدت کو برزخ کہتے ہیں۔ برزخ میں صحیح عقیدے والے آرام سے اور برے عقیدے والے تکلیف سے رہتے ہیں۔

قبر میں سوال و جواب :۔

مرنے کے بعد قبر میں دو فرشتے آتے ہیں جو مردہ کو زندہ کر کے اس سے سوال کرتے ہیں۔ اچھے اعمال والوں کے پاس آنے والے فرشتوں کے نام مبشر و بشیر ہیں اور برے اعمال والوں کے پاس آنے والے فرشتوں کے نام منکر و نکیر ہیں۔

فرشتوں کے سوال جواب

تیرا خدا کون ہے ؟ اللہ

تیرا دین کیا ہے ؟ اسلام

تیرے پیغمبر کون ہیں ؟ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

تیرا امام کوں ہیں ؟ حضرت علی علیہ السلام اور ان کے بعد گیارہ امامؐ

تیری کتاب کیا ہے ؟ قرآن مجید

تیرا قبلہ کیا ہے ؟ کعبہ محترم

جو شخص ان سوالوں کا جواب ٹھیک دیتا ہے اس کی قبر کو فرشتے جنت کا ایک باغ بنا دیتے ہیں اور جس کے جواب ٹھیک نہیں ہوتے اس کی قبر کو دوزخ کی آگ سے بھر دیتے ہیں۔

۱۹

نامئہ اعمال :۔

خدا کی طرف سے ہر شخص پر دو فرشتے مقرر ہیں۔ ایک اچھے اعمال لکھتا ہے۔ دوسرا برے اعمال لکھتا ہے۔ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کا اعمالنامہ دیا جائےگا۔

میزان :۔

قیامت کے دن ہر ہر شخص کے اعمال انصاف کی ترازو میں تولے جائیںگے۔ اسی ترازو کو میزان کہتے ہیں۔

صراط :۔

ہر شخص کو قیامت کے دن ایک پل پر سے گزرنا ہوگا جو بال سے زیادہ باریک ، تلوار کی دھار سے زیادہ تیز اور آگ سے زیادہ گرم ہوگا۔ صحیح ایمان اور اچھے اعمال والے اس پر سے گزر جائیںگے اور جن کا ایمان و عمل خراب ہوگا وہ دوزخ میں گر پڑیںگے۔

شفاعت :

قیامت کے دن ہمارے نبیؐ اور امام گنہگار مومنین کو شفاعت کر کے بجشوائیں گے اور خدا ان کی شفاعت کو قبول کرےگا۔

سوالات :

۱ ۔ برزخ سے کیا مراد ہے ؟

۲ ۔ منکر و نکیر اور مبشر و بشیر کون ہیں ؟

۳ ۔ صراط کس کو کہتے ہیں ؟

۴ ۔ شفاعت کون کس کی کرےگا ؟

۲۰

۲۱

۲۲

۲۳

۲۴

۲۵

۲۶

۲۷

۲۸

۲۹

۳۰

۳۱

۳۲

۳۳

۳۴

۳۵

۳۶

۳۷

۳۸

۳۹

۴۰

وضو

مسئلہ ٢ ۴ ٢ وضوميں واجب ہے کہ چہرہ اور دونوں ہاتھ دهوئے جائيں، سر کے اگلے حصے اور دونوں پاؤں کے سامنے والے حصے کا مسح کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٣ چھرے کو لمبائی ميں پيشانی کے اوپر اس جگہ سے لے کر جهاں سر کے بال اگتے ہيں ٹھ وڑی کے آخری کنارے تک دهونا ضروری ہے اور چوڑائی ميں بيچ کی انگلی اور انگوٹھ ے کے پهيلاؤميں جتنی جگہ آجائے اسے دهونا ضروری ہے اور اتنی مقدار دهل جانے کا یقين حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس مقدار کی اطراف سے بھی کچھ دهولے۔

مسئلہ ٢ ۴۴ اگر کسی شخص کے ہاتھ یا چہرہ عام لوگوں کی نسبت بڑے یا چھوٹے ہوں تو ضروری ہے کہ عام لوگوں کو دیکھے کہ کهاں تک اپنا چہرہ دهوتے ہيں پھر وہ بھی اتنا ہی دهوئے۔

هاں، اگر اس کے ہاتھ اور چہرہ دونوں عام لوگوں کی نسبت فرق کرتے ہوں ليکن آپس ميں متناسب ہوں تو ضروری ہے کہ پچهلے مسئلے ميں بيان شدہ کيفيت کے مطابق دهوئے۔

مسئلہ ٢ ۴۵ اگر اس بات کا احتمال ہو کہ بهوؤں، آنکه کے گوشوں اور ہونٹوں پر ميل یا کوئی اور ایسی چيز ہے جو پانی کے ان تک پهنچنے ميں مانع ہے اور اس کا یہ احتمال عقلائی ہو تو ضروری ہے کہ وضو سے پهلے تحقيق کر لے تاکہ اگر کوئی ایسی چيز ہو تو اسے دور کر لے۔

مسئلہ ٢ ۴۶ اگر چھرے کی جلد بالوں کے نيچے سے نظر آتی ہوتو پانی جلد تک پهنچانا ضروری ہے اور اگر نظر نہ آتی ہو تو بالوں کا دهونا کافی ہے اور ان کے نيچے تک پانی پهنچانا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٧ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ آیا اس کے چھرے کی جلد بالوں کے نيچے سے نظر آتی ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ بالوں کو دهوئے اور پانی کو جلد تک پهنچائے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٨ ناک کے اندرونی حصے اور ہونٹوں اور آنکہوں کے ان حصوں کا جو بند کرنے پر نظر نہيں آتے، دهونا واجب نہيں ہے ، ليکن اس بات کا یقين حاصل کرنا ضروری ہے کہ جن جگہوں کو دهونا ضروری ہے اس ميں سے کچھ باقی نہيں رہا ہے اور جو شخص یہ نہيں جانتا تھا کہ واجب کی انجا م دهی کے یقين تک دهونا ضروری ہے ، اگر نہ جانتا ہو کہ جو وضو اس نے کئے ہيں اس ميں اس نے اس مقدار تک دهویا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اس وضو کے ساته پڑھی گئی نماز کا وقت اگر باقی ہے تو اسے نئے وضو کے ساته دوبارہ پڑھے اورجن نمازوں کا وقت گذر چکا ہے ان کی قضا کرے۔

۴۱

مسئلہ ٢ ۴ ٩ ہاتھوں کو وضو ميں اوپر سے نيچے کی طرف دهونا ضروری ہے اور اگر نيچے سے اوپر کی طرف دهوئے تو وضو باطل ہے اور بنا بر احتياط واجب چھرے کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٠ اگر ہاتھ کو تر کر کے چھرے اور ہاتھوں پر پهيرا جائے اور ہاتھ ميں اتنی تری ہوکہ ہاتھ پهيرنے سے ذرا سا پانی ان پر بهے تو کافی ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ١ چہرہ دهونے کے بعد ضروری ہے کہ پهلے دایاں اور پھر بایاں ہاتھ کهنی سے انگليوں کے سروں تک دهویا جائے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢ کهنی کے مکمل طور پر دهل جانے کا یقين حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کهنی سے اوپر کی کچھ مقدار بھی دهوئے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣ جس شخص نے چہرہ دهونے سے پهلے اپنے ہاتھوں کو کلائی تک دهویا ہو ضروری ہے کہ وضو کرتے وقت انگليوں کے سروں تک دهوئے، اگر وہ صرف کلائی تک دهوئے گا تو اس کا وضو باطل ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵۴ وضو ميں چھرے اور ہاتھوں کا دهونا پهلی مرتبہ واجب، دوسری مرتبہ مستحب اور تيسری مرتبہ یا اس سے زیادہ مرتبہ دهونا حرام ہے ۔ جهاں تک یہ سوال ہے کہ کون سا دهونا پهلا، دوسرا یا تيسرا ہے اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ اعضاء وضو کو وضوکی نيت سے دهویا جائے، مثلاًاگر تين مرتبہ چھرے پر پانی ڈالے اور تيسری مرتبہ وضو کے لئے دهونے کی نيت کرے، تو کوئی حرج نہيں اور تيسری مرتبہ دهونا پهلا دهونا شمار ہو گا، ليکن اگر تين مرتبہ چھرے پر پانی ڈالے اور ہر مرتبہ وضو کے لئے دهونے کی نيت کرے تو تيسری مرتبہ پانی ڈالنا حرام ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵۵ ضروری ہے کہ دونوںہاتھ دهونے کے بعد سر کے اگلے حصے کا، ہاتھ ميں رہ جانے والی وضو کے پانی کی تری سے مسح کرے اور احتياط واجب یہ ہے کہ مسح سيدهے ہاتھ کی ہتھيلی کی طرف سے کيا جائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اوپر سے نيچے کی طرف انجام دیا جائے۔

مسئلہ ٢ ۵۶ سر کے چار حصوں ميں سے ایک حصہ جو پيشانی سے ملاہو ا ہے ، مسح کر نے کا مقام ہے ۔ اس حصے ميں جهاں بھی اور جس انداز سے بھی مسح کرے کافی ہے اگرچہ مستحب ہے کہ لمبائی ميں ایک انگلی کی لمبائی کے لگ بھگ اور چوڑائی ميں تين ملی ہوئی انگليوں کے لگ بھگ جگہ پر مسح کيا جائے۔

۴۲

مسئلہ ٢ ۵ ٧ یہ ضروری نہيں کہ سر کا مسح جلد پر کيا جائے بلکہ سر کے اگلے حصے کے بالوں پر کرنا بھی درست ہے ليکن اگر کسی کے سر کے بال اتنے لمبے ہوں کہ مثلاً کنگھا کرتے وقت چھرے پر آگریں یا سر کے کسی دوسرے حصے تک جا پهنچيں تو ضروری ہے کہ بالوں کی جڑ پر یا مانگ نکال کر سر کی جلد پر مسح کرے اور اگر وہ چھرے پر آگرنے والے یا سر کے دوسرے حصے تک پهنچنے والے بالوں کو آگے کی طرف جمع کر کے ان پر مسح کرے یا سر کے دوسرے حصوں کے بالوں پر جو آگے بڑھ آئے ہوں مسح کرے تو ایسا مسح باطل ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٨ ضروری ہے سر کے مسح کے بعد ہاتھوں ميں بچ جانے والی وضو کے پانی کی تری سے پاؤں کے اوپری حصے کا مسح کرے۔ اس کی واجب مقدار پاؤں کی ایک انگلی سے لے کر گٹوں کے ابهار تک ہے اور احتياط مستحب پاؤں کے جوڑ تک ہے ۔ احتياط واجب یہ ہے کہ سيدهے پاؤں کا مسح الٹے پاؤں سے پهلے کرے، اسی طرح سيدهے ہاتھ سے سيدهے پاؤں اور الٹے ہاتھ سے الٹے پاؤں کا مسح کرے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٩ پاؤں پر مسح کی چوڑائی جتنی بھی ہو کافی ہے ليکن افضل یہ ہے کہ پاؤں کے پورے اوپری حصے کا مسح پوری ہتھيلی سے کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠ احتياط واجب یہ ہے کہ پاؤں کا مسح کرتے وقت ہاتھ انگليوں کے سروں پر رکھے اور پھر پاؤں کے ابهار کی جانب کھينچے یا ہاتھ گٹوں کے ابهار یا پاؤں کے جوڑ پر رکھ کر انگليوں کے سروں کی طرف کھينچے، یہ نہ ہو کہ پورا ہاتھ پاؤ ںپر رکھ کر تهوڑا سا کھينچ دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ١ سر اور پاؤں کا مسح کرتے وقت ضروری ہے کہ ہاتھ کو ان پر کھينچے، نہ کہ ہاتھ کو رکھ کر سر یا پاؤں کو حرکت دے، ليکن ہاتھ کھينچنے کے وقت سر یا پاؤں کے معمولی حرکت کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢ ضروری ہے کہ مسح کی جگہ خشک ہو، لہٰذا اگر وہ اس قدر تر ہو کہ ہتھيلی کی تری اس پر اثر نہ کرے تو مسح باطل ہے ۔ ہاں، اگر اس پر نمی یا تری اتنی کم ہو کہ مسح کے بعد جو تری نظر آئے اسے صرف ہاتھ کی تری کها جائے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣ اگر مسح کرنے کے لئے ہتھيلی پر تری باقی نہ رہی ہو تو کسی اور پانی سے تر نہيں کيا جاسکتا، بلکہ ایسی صورت ميں ضروری ہے کہ داڑھی کے اس حصے سے جو چھرے کی حدود ميں ہے ، تری لے کر مسح کرے اور داڑھی کے علاوہ کسی اور جگہ سے تری لے کر مسح کرنا محلِ اشکال ہے ۔

۴۳

مسئلہ ٢ ۶۴ اگر ہتھيلی کی تری صرف سر کے مسح کے لئے کافی ہو تو سر کا مسح اس تری سے کرے اور پاؤں کے مسح کے لئے داڑھی سے، جو چھرے کی حدود ميں داخل ہے ، تری حاصل کرے۔

مسئلہ ٢ ۶۵ موزے اور جوتے پر مسح کرنا باطل ہے ۔ ہاں، اگر سخت سردی کی وجہ سے یا چور یا درندے وغيرہ کے خوف سے جوتے یا موزے نہ اتار سکے تو احتياط واجب یہ ہے کہ موزے اور جوتے پر مسح کرے اور تيمم بھی کرے۔

مسئلہ ٢ ۶۶ اگر پاؤں کا اوپر والا حصہ نجس ہو اور مسح کرنے کے لئے اسے پاک نہ کيا جا سکتا ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

ارتماسی وضو

مسئلہ ٢ ۶ ٧ ارتماسی وضو یہ ہے کہ انسان چھرے اور ہاتھوں کو وضو کی نيت سے پانی ميں ڈبودے ليکن ارتماسی طریقے سے دهلے ہوئے ہاتھ کی تری سے مسح کرنے ميں اشکال ہے ۔ لہذا، اگر بایاں ہاتھ ارتماسی طریقے سے دهوئے تو اس ہتھيلی کی طرف سے کچھ مقدار پانی ميں نہ ڈالے بلکہ سيدهے ہاتھ سے اس حصے کو دهو لے۔

احتياط واجب کی بنا پر اعضائے وضو کوپانی سے باہر نکالنے پر ارتماسی وضو محقق نہيں ہوتا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٨ ارتماسی وضو ميں ہاتھوں کو اوپر سے نيچے کی طرف دهونا ضروری ہے ۔ پس اگر ہاتھوں کو پانی ميں وضو کے قصد سے ڈبوئے تو ضروری ہے کہ کهنيوں کی طرف سے داخل کرے۔ اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر چھرے کو پيشانی کی طرف سے پانی ميں داخل کرے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩ وضو ميں بعض اعضاء کو ارتماسی اور بعض کو غير ارتماسی طریقے سے دهونے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

وضو کے وقت کی مستحب دعائيں

مسئلہ ٢٧٠ جو شخص وضو کر رہا ہو اس کے لئے مستحب ہے کہ:

جب پانی ہاتھ ميں لے تو کهے:

بِسْمِ اللّٰهِ وَ بِاللّٰهِ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِيْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَهِّرِیْن

اور کلی کرتے وقت یہ کهے:

اَللّٰهُمَّ لَقِّنِیْ حُجَّتِیْ یَوْمَ ا لَْٔقَاکَ وَ ا طَْٔلِقْ لِسَانِیْ بِذِکْرِک

اور ناک ميں پانی ڈالتے وقت یہ دعا پڑھے :

اَللّٰهُمَّ لاَ تُحَرِّمْ عَلَیَّ رِیْحَ الْجَنَّةِ وَاجْعَلْنِی مِمَّنْ یَّشُمُّ رِیْحَهَا وَ رَوْحَهَا وَ طِيْبَهَا

۴۴

چهرہ دهوتے وقت یہ دعا پڑھے :

اَللّٰهُمَّ بَيِّضْ وَجْهِیْ یَوْمَ تَسْوَدُّ فِيْهِ الْوُجُوْهُ وَلاَ تُسَوِّدْ وَجْهِیْ یَوْمَ تَبْيَضُّ فِيْهِ الْوُجُوه

دایاں ہاتھ دهوتے وقت یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ ا عَْٔطِنِیْ کِتَابِیْ بِيَمِيْنِیْ وَالْخُلْدَ فِی الْجَنَانِ بِيَسَارِیْ وَحَاسِبْنِیْ حِسَاباً یَّسِيْرًا

بایاں ہاتھ دهوتے وقت یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ لاَ تُعْطِنِیْ کِتَابِی بِشِمَالِی وَلاَ مِنْ وَّرَاءِ ظَهْرِیْ وَلاَ تَجْعَلْهَا مَغْلُوْلَةً إِلٰی عُنُقِیْ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِن مُّقَطَّعَاتِ النِّيْرَان

سر کا مسح کرتے وقت یہ دعا پڑھے :

اَللّٰهُمَّ غَشِّنِیْ بِرَحْمَتِکَ وَبَرَکَاتِکَ وَعَفْوِک

پاؤں کا مسح کرتے وقت یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ ثَبِّتْنِیْ عَلَی الصِّرَاطِ یَوْمَ تَزِلُّ فِيْهِ اْلا قَْٔدَامُ وَاجْعَلْ سَعْيِیْ فِی مَا یُرْضِيْکَ عَنِّی یَا ذَا الْجَلاَلِ وَاْلإِکْرَام اور مستحب ہے کہ جب وضو کر لے تو یہ پڑھے :

ا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِی مِنَ التَّوَّابِيْنَ وَاجْعَلْنِی مِنَ الْمُتَطَهِّرِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِين

وضو صحيح ہونے کی شرائط

وضو صحيح ہونے کی چند شرائط ہيں :

پهلی شرط: وضو کا پانی پاک ہو۔

دوسری شرط: وضو کا پانی مطلق ہو۔

مسئلہ ٢٧١ نجس یا مضاف پانی سے وضو باطل ہے ، چاہے وضو کرنے والا شخص اس کے نجس یا مضاف ہونے کے بارے ميں علم ہی نہ رکھتا ہو یا بھول گيا ہو اور اگر وہ اس وضو کے ساته نماز پڑھ چکا ہو توضروری ہے کہ صحيح وضو کے ساته دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ٢٧٢ اگر مٹی ملے ہوئے مضاف پانی کے علاوہ کوئی اور پانی وضو کے لئے نہ ہو اور نماز کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کر لے ليکن اگر وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کے صاف ہونے کا انتظار کرے یا اسے صاف کر کے وضو کر لے۔

۴۵

تيسری شرط: یہ کہ وضو کا پانی مباح ہو اور احتياط واجب کی بناپر جس فضاميں وضو کررہاہے وہ بهی مباح ہو۔

مسئلہ ٢٧٣ غصبی پانی یا ایسے پانی سے جس کے مالک کی رضایت پر دليل نہ رکھتا ہو، وضو کرنا حرام اور باطل ہے اور اگر وضوکا پانی غصبی جگہ پر گرے اور اس کے علاوہ وضو کرنے کے لئے کوئی جگہ بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے اور اگر اس جگہ کہ علاوہ کہيں وضو کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ وہاں وضو کرے اور اگر کوئی شخص گناہ کرتے ہوئے وہيں وضو کرلے تو اس وضو کا صحيح ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۴ کسی مدرسے کے ایسے حوض سے وضو کرنا کہ جس کے بارے ميں انسان نہ جانتا ہو کہ یہ حوض تمام افراد کے لئے وقف ہے یا فقط مدرسے کے طلاب کے لئے ، جائز نہيں ہے اور اگر انسان کو، چاہے عام لوگوں کو وضو کرتا ہوا دیکھ کر ہی سهی، یہ اطمينان ہو جائے کہ یہ تمام افراد کے لئے وقف ہے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۵ جو شخص کسی مسجد ميں نما ز نہ پڑھنا چاہتا ہو اور یہ بھی نہ جانتا ہو کہ آیا اس مسجد کا حوض تما م افراد کے لئے وقف ہے یا صرف اس مسجد ميں نماز پڑھنے والوں کے لئے تو اس کے لئے ا س حوض سے وضو کرنا صحيح نہيں ہے ، ليکن اگر عموماًوہ لوگ بھی اس حوض سے وضو کرتے ہوں جو اس مسجد ميں نماز نہ پڑھنا چاہتے ہوں اور ان کے وضو کرنے سے عموميت وقف کا اطمينان حاصل ہو جائے تو اس حوض سے وضو کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۶ سرائے، مسافر خانوں اور ایسے ہی دوسرے مقامات کے حوض سے ان لوگوں کے لئے جو ان ميں مقيم نہ ہوں، وضو کرنا اس صورت ميں صحيح ہے جب ا ن کے مالکان کی رضایت کا اطمينان ہو جائے، چاہے یہ اطمينان وہاں نہ رہنے والے لوگوں کے وضو کرنے سے حاصل ہو۔

مسئلہ ٢٧٧ بڑی نهروں سے وضو کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے اگرچہ انسان ان کے مالک کی رضایت کا علم نہ رکھتا ہو، ليکن اگر ان نهروں کا مالک وضو کرنے سے منع کرے یا یہ کہ انسان کو علم ہو کہ اس کا مالک راضی نہيں ہے تو ان سے وضو کرنا جائز نہيں ہے ۔ یهی حکم احتياط واجب کی بنا پر اس وقت ہے جب مالک بچہ یا پاگل ہو یا یہ نہر کسی غاصب کے قبضے ميں ہو یا گمان ہو کہ مالک راضی نہيں ہے ۔ ہاں، نهروں اور قناتوں کے اس پانی سے جو آبادی مثلاًدیهات سے گزرتا ہے ، وضو کرنے پينے اور اس جيسے دوسرے کام لينے ميں کوئی حرج نہيں چاہے ان کا مالک بچہ یا پاگل ہی کيوں نہ ہو۔

مسئلہ ٢٧٨ اگر کوئی شخص بھول جائے کہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کر لے تو اس کا وضو صحيح ہے ، ليکن اگر خود پانی کو غصب کيا ہو اور بعد ميں اس کا غصبی ہونا بھول کر وضو کر لے تو اگر اس نے غصب سے توبہ نہ کی ہو، اس کا وضو باطل ہے اور اگر توبہ کر چکا ہو تو اس کا باطل ہو نا محلِ اشکال ہے ۔

۴۶

چوتھی شرط : یہ کہ وضو کے پانی کا برتن مباح ہو۔

پانچویں شرط:وضو کے پانی کا برتن احتياط واجب کی بنا پر سونے اور چاندی کا نہ ہو۔

ان دو شرائط کی تفصيل اگلے مسائل ميں آرہی ہے ۔

مسئلہ ٢٧٩ اگر وضو کا پانی غصبی برتن ميں ہو اور اس کے علاوہ کوئی اور پانی نہ ہو تو اگر وہ اس پانی کو شرعی طریقے سے دوسرے برتن ميں انڈیل سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اسے کسی دوسرے برتن ميں انڈیل لے، پھر اس سے وضو کرے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے یا اگر کوئی پانی موجود ہو تو اس سے وضو کرے۔ ہاں، ان دونوں صورتوں ميں اگر وہ معصيت کرے اور پانی کو اس ميں سے اٹھ ائے اور اٹھ ا نے کے بعدوضو کرے تو اس کا وضو صحيح ہو گا۔

اسی طریقے سے اگر سونے یا چاندی کے برتن سے وضو کرے تو وضو صحيح ہے چاہے دوسرا پانی ہو یا نہ ہو۔

اگر غصبی برتن سے ارتماسی وضو کرے تو وضو حرام اور باطل ہے چاہے دوسرا پانی ہو یا نہ ہو، ليکن اگر سونے اور چاندی کے برتن ميں ارتماسی وضو کرے تو اس کا وضو جائز اور صحيح ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٨٠ جس حوض ميں مثلاًایک اینٹ یا ایک پتّھر غصبی ہو اور عرف عام ميں اس حوض ميں سے پانی نکالنا اس اینٹ یا پتّھر پر تصرف نہ سمجھا جائے تو کوئی حرج نہيں اور اگر تصرف سمجھا جائے اور اس کے علاوہ کوئی اور پانی بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور پانی موجود ہو تو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس پانی سے وضو کرے، ليکن اگر دونوں صورتوں ميں معصيت کرتے ہوئے پانی اٹھ ائے اور اٹھ انے کے بعد وضو کرے تو اس کا وضو صحيح ہے ۔ جب کہ دونوں صورتوں ميں ارتماسی وضو کرنا، اگر غصبی چيز ميں تصرف سمجھا جائے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٢٨١ ائمہ عليهم السلام یا امام زادگان کے صحن ميں جو پهلے قبرستان تھا اگر کوئی حوض یا نہر کهودی جائے اور یہ علم نہ ہو کہ صحن کی زمين قبرستان کے لئے وقف ہو چکی ہے تو اس حوض یا نہر کے پانی سے وضو کرنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

چھٹی شرط:وضو کے اعضاء دهوتے وقت اور مسح کرتے وقت پاک ہوں اگر چہ یہ طهارت

وضو کے دوران معتصم پانی سے دهوتے وقت حاصل ہو جائے۔ معتصم اس پانی کوکہتے ہيں جو نجاست کے ملنے سے نجس نہ ہو جيسے بارش کا پانی، کرُ یا جاری پانی۔

مسئلہ ٢٨٢ اگر وضو مکمل ہونے سے پهلے وہ جگہ جس کو دهویا یا مسح کيا جاچکا ہو نجس ہو جائے تو وضو صحيح ہو گا۔

مسئلہ ٢٨٣ اگر اعضاء وضوکے علاوہ انسان کے بدن کا کوئی حصہ نجس ہو تو اس کا وضو صحيح ہے ليکن اگر پيشاب یا پاخانے کی جگہ پاک نہ کی ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ انہيں پاک کرنے کے بعد وضو کرے۔

۴۷

مسئلہ ٢٨ ۴ اگر اعضاء وضو ميں سے کوئی ایک نجس ہو اور وضو کرنے کے بعد شک کرے کہ وضو سے پهلے اس جگہ کو پاک کيا تھا یا نہيں ، تو اگر وضو کرتے وقت وہ اس جگہ کے پاک یا نجس ہونے کے بارے ميں متوجہ نہيں تھا تو اس کا وضو باطل ہے اور اگر جانتا ہو یا احتمال رکھتا ہو کہ متوجہ تھا تو اس کا وضو صحيح ہے اور دونوں صورتوں ميں نجس جگہ کو پاک کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٨ ۵ اگر چھرے یا ہاتھوں پر کوئی ایسی خراش یا زخم ہو جس کا خون نہ رک رہا ہو اورپانی اس کے لئے مضر بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس عضو کے صحيح وسالم اجزاء کو دهونے کے بعد وضو کے مسئلہ نمبر” ٢ ۴ ٩ “ميں بيان شدہ طریقے کے مطابق ترتيب کا خيال رکھتے ہوئے زخم یا خراش والے حصے کو کرُیا جاری پانی ميں ڈبو دے اور اسے اس قدر دبائے کہ خون آنا بند ہو جائے اور ہاتھ کو پانی کے نيچے ہی زخم یا خراش پر وضو کی نيت سے اوپر سے نيچے کی طرف پهيرے تاکہ پانی اس پر جاری ہوجائے، اس کے بعد بقيہ وضو کو انجام دے اور اس بات کا خيال رکھے کہ مسح ہاتھ کی تری سے ہی انجام پائے۔

ساتویں شرط:وضو اور نما زکے لئے وقت ميں گنجائش ہو۔

مسئلہ ٢٨ ۶ اگر وقت اتنا تنگ ہو کہ وضو کرنے کی صورت ميں ساری کی ساری نما زیا اس کا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھنا پڑے تو ضروری ہے کہ تيمم کر لے ليکن اگر تيمم اور وضو کے لئے یکساں وقت درکار ہو تو پھر وضو کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٨٧ جس شخص کے لئے نماز کا وقت تنگ ہونے کے باعث تيمم کرنا ضروری ہو اور وہ اس نيت سے کہ وضو کرنا مستحب ہے یا کسی ایسے مستحب کام مثلاً قرآن مجيد پڑھنے کے لئے وضو کرے جس کے لئے شریعت ميں وضو کرنے کا حکم آیا ہے تو اس کا وضو صحيح ہے ، ليکن اگر اس نماز کو پڑھنے کے لئے اس طرح وضو کرے کہ اگر باوضو ہو کر نمازپڑھنے کا حکم نہ ہوتا تووضو کا ارادہ بھی نہ ہوتا، تو یہ وضو باطل ہے ۔

آٹھ ویں شرط:وضو قصد قربت اور خلوص کے ساته کرے۔

”قصد قربت“سے مراد یہ ہے کہ عمل کو اس چيز کے ارادے سے جسے خداوند متعال سے نسبت دے رہا ہے مثلاًا س کے حکم کی بجا آوری یا اس کی محبوبيت حاصل کرنے کے لئے انجام دے۔

مسئلہ ٢٨٨ وضو کی نيت زبان پر لانا یا دل ميں گزارناضروری نہيں ہے بلکہ اگر کوئی شخص وضو کے تمام افعال الله تعالی کے لئے بجا لائے تو کافی ہے ۔

نویں شرط:وضو کو بيان شدہ ترتيب کے مطابق انجام دے،

یعنی پهلے چہرہ ، اس کے بعد دایاں اور پھر بایاں ہاتھ دهوئے اس کے بعد سر کا اور پھر پاؤں کا مسح کرے اور بنا بر احتياط واجب بائيں پاؤں کا مسح دائيں پاؤںکے بعد کرے۔

۴۸

دسویں شرط:وضو کے افعال پے درپے انجام دے۔

مسئلہ ٢٨٩ اگر وضو کے افعال کے درميان اتنا فاصلہ ہو جائے کہ جب وہ کسی عضو کو دهونا یا اس پر مسح کرنا چاہے تو اس پهلے والے اعضاء کی رطوبت خشک ہو چکی ہو تو اس کا وضو باطل ہے اور اگر جس عضو کو دهونا یا اس پر مسح کرنا ہے ، صرف اس سے پهلے دهوئے ہوئے یا مسح کئے ہوئے عضو کی تری خشک ہو گئی ہومثلاًبایاں ہاتھ دهوتے وقت صرف دائيں ہاتھ کی تری خشک ہو چکی ہو ليکن چہرہ تر ہو، تو وضو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٩٠ اگر وضو کے افعال پے درپے انجام دے ليکن موسم یا بدن کی گرمی یا ایسی ہی کسی وجہ سے پچهلے حصوں کی رطوبت خشک ہو جائے تو اس کا وضو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٩١ وضو کے دوران چلنے پھرنے ميں کوئی حرج نہيں ، لہٰذا اگر کوئی شخص چہرہ اور ہاتھ دهونے کے بعد چند قدم چلے اور پھر سر او ر پاؤں کا مسح کرے تو اس کا وضو صحيح ہے ۔

گيارہویں شرط:انسان خود اپنا چہرہ اور ہاتھ دهوئے اور سر اور پاؤں کا مسح کرے۔

اگر کوئی دوسرا اسے وضو کرائے یا اس کے چھرے یا ہاتھوں پر پانی ڈالنے یا سر اور پاؤں کا مسح کرنے ميں اس کی مدد کرے تو اس کا وضو باطل ہے ۔

مسئلہ ٢٩٢ اگر کوئی شخص خود وضو نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ کسی کو نائب بنائے جو اس کو وضو کرائے اور اگر نائب مزدوری مانگے جب کہ مزدوری دینا ممکن ہو اور باعث حرج نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے مزدوری دے، ليکن ضروری ہے کہ وضو کی نيت خود کرے اور بنا بر احتياط واجب نائب بھی وضو کی نيت کرے اور مسح خود کرے اور اگر مسح خود نہ کر سکتا ہو تو نائب مسح کی جگہوں پر اس کا ہاتھ کھينچے اور اگریہ بھی ممکن نہ ہو تو نائب اس کے ہاتھ سے رطوبت لے کر اس کے سر اور پاؤں کا مسح کرے۔

مسئلہ ٢٩٣ وضو کے جو بھی افعال انسان خود انجام دے سکتا ہو ضروری ہے کہ ان کی انجام دهی ميں دوسروں سے مدد نہ لے۔

بارہویں شرط:وضو کرنے والے کے لئے پانی کے استعمال ميں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

مسئلہ ٢٩ ۴ جس شخص کو خوف ہو کہ وضو کرنے سے بيمار ہو جائے گا تو ضروری ہے کہ وضو نہ کرے اور جس شخص کو خوف ہو کہ پانی وضوميں استعمال کرنے سے پياسا رہ جائے گا تو اگر پياس بيماری کا باعث بنے تو ضروری ہے کہ وضو نہ کرے اور اگر بيماری کا باعث نہ ہو تو اختيار ہے کہ وضو کرے یا تيمم کرے اور اگر نہ جانتا ہو کہ پانی کا استعمال اس کے لئے مضر ہے اور وضو کرلے اگر چہ بعد ميں اسے معلوم ہوجائے کہ پانی کا استعمال اس کے لئے مضر تھا ليکن ضرر، ضررِحرام نہ تھا، تواس کا وضو صحيح ہے ۔

۴۹

مسئلہ ٢٩ ۵ اگر چھرے اور ہاتھوں کو اتنے کم پانی سے دهونا جس سے وضو صحيح ہو جاتا ہے ضرر رساں نہ ہو اور اس سے زیادہ ضرر رساں ہو تو ضروری ہے کہ کم مقدار سے ہی وضو کرلے۔

تيرہویں شرط:اعضائے وضو تک پانی پهنچنے ميں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

مسئلہ ٢٩ ۶ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ اس کے اعضائے وضو پر کوئی چيز لگی ہوئی ہے ليکن اس کے بارے ميں اسے شک ہو کہ آیا وہ چيز پانی کے ان اعضا ء تک پهنچنے ميں رکاوٹ ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ یا تو اس چيز کو ہٹا دے یا پانی کو اس کے نيچے تک پهنچائے۔

مسئلہ ٢٩٧ اگرمعمول کے مطابق بڑھے ہوئے ناخنوں کے نيچے ميل ہو تو وضو کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔ ہاں، ناخنوں کو کاٹ دینے کی صورت ميں وضو کے لئے اسے برطرف کرنا ضروری ہے اور اگر ناخن معمول سے زیادہ بڑھے ہوئے ہوں تو جو ميل معمول سے زیادہ والی مقدار کے نيچے ہے اسے برطرف کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٩٨ اگر کسی شخص کے چھرے، ہاتھوں، سر کے اگلے حصے یا پاؤں سے اوپر والے حصے پر جل جانے سے یا کسی اور وجہ سے ورم ہو جائے تو اسے دهو لينا اور اس پر مسح کر لينا کافی ہے اور اگر اس ميں سوراخ ہو جائے تو پانی جلد کے نيچے پهنچانا ضروری نہيں بلکہ اگر جلد کا ایک حصہ اکهڑ جائے تب بھی جو حصہ نہيں اکهڑا اس کے نيچے تک پانی پهنچانا ضروری نہيں ، ليکن جب اکهڑی ہوئی جلد کبهی بدن سے چپک جاتی ہو اور کبهی اٹھ جاتی ہو تو ضروری ہے کہ اسے کاٹ دے یا اس کے نيچے پانی پهنچائے۔

مسئلہ ٢٩٩ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس کے وضو کے اعضاء سے کوئی چيز چپکی ہوئی ہے یا نہيں اور اس کا یہ احتمال لوگوں کی نظر ميں بھی درست ہو مثلاً، گارے سے کوئی کام کرنے کے بعد شک ہو کہ گارا اس کے ہاتھ سے لگا رہ گياہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ تحقيق کر لے یا اپنے ہاتھوں کو اتنا ملے کہ اطمينان ہو جائے کہ اگر اس پر گارا رہ گياتها تو اب دور ہو گيا ہے یا پانی اس کے نيچے پهنچ گيا ہے ۔

مسئلہ ٣٠٠ دهونے یا مسح کرنے کی جگہ پر اگر ميل ہو ليکن وہ ميل پانی کے جلد تک پهنچنے ميں رکاوٹ نہ ڈالے تو کوئی حرج نہيں ۔ اسی طرح اگر پلستر وغيرہ کا کام کرنے کے بعد سفيدی ہاتھ پر لگی رہ جائے جو پانی کو جلد تک پهنچنے سے نہ روکے تو اس ميں بھی کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر شک ہو کہ ان چيزوں کی موجودگی پانی کے جلد تک پهنچنے ميں مانع ہے یا نہيں تو انہيں دور کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣٠١ اگر کوئی شخص وضو کرنے سے پهلے جانتا ہو کہ وضو کے بعض اعضاء پر ایسی چيز موجود ہے جو ان تک پانی پهنچنے ميں مانع ہے اور وضو کے بعد شک کرے کہ وضو کے دوران ا ن اعضاء تک پانی پهنچا ہے یا نہيں ، اگر اسے وضو کے دوران غافل ہونے کا یقين نہ ہو تو ا س کا وضو صحيح ہے ۔

۵۰

مسئلہ ٣٠٢ اگر وضو کے بعض اعضاء پر کوئی ایسی رکاوٹ ہو جس کے نيچے پانی کبهی خود بخود چلا جاتا ہے اور کبهی خود نہيں پهنچ پاتا اور انسان وضو کے بعد شک کرے کہ پانی اس کے نيچے پهنچا ہے یا نہيں ، اگر جانتا ہو کہ وضو کے وقت اس سے غافل تھا تو ضروری ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔

مسئلہ ٣٠٣ اگر وضو کرنے کے بعد اعضائے وضو پر کوئی ایسی چيز دیکھے جو پانی کے پهنچنے ميں رکاوٹ ہو اور وہ نہ جانتا ہو کہ وضو کرتے وقت یہ رکاوٹ موجود تھی یا بعد ميں آئی ہے تو اگر وضو کرتے وقت جانتا ہواس امر سے غافل تھا تو ضروری ہے کہ دوبارہ وضو کرے اور اگر اس امر کی طرف متوجہ تھا تو اس کا وضو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣٠ ۴ اگر وضو کرنے کے بعد شک کرے کہ جو چيز پانی کے پهنچنے ميں مانع ہے وضو کے اعضاء پر تھی یا نہيں تو اگر وضو کرتے وقت اس امر سے غافل ہونے کا علم نہ ہو تو اس کا وضو صحيح ہے ۔

احکام وضو

مسئلہ ٣٠ ۵ اگر کوئی شخص افعالِ وضو اور شرائط ميں بہت شک کرتا ہو، اگر اس کا شک وسواس کی حد تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مسئلہ ٣٠ ۶ جس شخص کو شک ہو کہ اس کا وضو باطل ہوا ہے یا نہيں تو سمجھے کہ اس کا وضو باقی ہے ، ليکن اگر اس نے پيشاب کرنے کے بعد استبرا کئے بغير وضو کر ليا ہو اور وضو کے بعد اس سے ایسی رطوبت خارج ہو جس کے بارے ميں نہ جانتا ہو کہ پيشاب ہے یا کوئی اور چيز تو اس کا وضو باطل ہے ۔

مسئلہ ٣٠٧ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس نے وضو کيا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ وضو کرے۔

مسئلہ ٣٠٨ جس شخص کو معلوم ہو کہ اس نے وضو کيا ہے اور اس سے حدث بھی واقع ہو گيا ہے مثلاًاس نے پيشاب کيا ہے ، ليکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کون سی چيز پهلے واقع ہوئی ہے ، اگر یہ صورت نماز سے پهلے پيش آئے تو ضروری ہے کہ وضو کرے اوراگر نما زکے دوران یہ صورت پيش آئے تو ضروری ہے کہ نما زتوڑ کر وضو کرے اور اگر نمازکے بعد یہ صورت پيش آئے تو جو نما زپڑھ چکا ہے اس شرط پر صحيح ہے کہ نما زشروع کرتے وقت غفلت کا یقين نہ ہو، البتہ اگلی نمازوں کے لئے وضو کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣٠٩ اگر کسی شخص کو وضو کے بعد یا وضو کے دوران یقين آجائے کہ اس نے بعض جگہيں نہيں دهوئيں یا ان کا مسح نہيں کيا، جب کہ جن اعضاء کی باری ان سے پهلے تھی ان کی تری زیادہ وقت گزر جانے کی وجہ سے خشک ہو چکی ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ وضو کرے، ليکن اگر وہ تری خشک نہ ہوئی ہو یا گرمی یا ایسی ہی کسی وجہ سے خشک ہو گئی ہو تو ضروری ہے کہ بھولی ہوئی اور اس کے بعد آنے والی جگہوں کو دهوئے یا ان کا مسح کرے۔ اسی طرح وضو کے دوران کسی عضو کے دهونے یا مسح کرنے کے بارے ميں شک کی صورت ميں اسی حکم پر عمل کرنا ضروری ہے ۔

۵۱

مسئلہ ٣١٠ اگر کسی شخص کو نماز پڑھنے کے بعد شک ہو کہ اس نے وضو کيا تھا یا نہيں تو اس صورت ميں کہ اسے یقين نہ ہو کہ شروع کرتے وقت وہ اس بات سے غافل تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ۔ البتہ دوسری نماز وں کے لئے ضروری ہے کہ وضو کرے۔

مسئلہ ٣١١ اگر کسی شخص کو نما زکے دوران شک ہو کہ وضو کيا تھا یا نہيں تو اس کی نماز باطل ہے اور ضروری ہے کہ وضو کرکے نماز پڑھے۔

مسئلہ ٣١٢ اگر کوئی شخص نماز کے بعد یہ جان لے کہ اس کا وضو باطل ہو گيا تھا ليکن شک کرے کہ نماز کے بعد باطل ہوا تھا یا اس سے پهلے، تو جو نما زپڑھ چکا ہے وہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣١٣ اگر کوئی شخص ایسے مرض ميں مبتلا ہوکہ اس کا پيشاب قطرہ قطرہ ٹپکتاہویا پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو، اگر اسے یقين ہو کہ نماز کے اول وقت سے آخر وقت تک اسے اتنا وقفہ مل جائے گا کہ وضو کر کے نماز پڑھ سکے تو ضروری ہے کہ اس وقفے کے دوران نماز پڑھے اور اگر اسے وضو اور نما زکے صرف واجب افعال انجام دینے کا وقت ملے تو ضروری ہے کہ اس وقفے ميں وضو ونماز کے صرف واجبات کو انجام دے اور مستحبات کو چھوڑ دے۔

مسئلہ ٣١ ۴ اگر اس شخص کو وضو اور نما زپڑھنے کے کی مقدار کے برابر وقفہ نہ ملتا ہو اور نماز کے دوران ایک یا چند بار پيشاب یا پاخانہ اس سے خارج ہو تا ہو، اگر اسی نما زکو ایک وضو سے پڑھے تو کافی ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ جب بھی پيشاب یا پاخانہ خارج ہو موالات ختم ہونے سے پهلے وضو کرے اور بقيہ نماز کو مکمل کرے۔

مسئلہ ٣١ ۵ جس شخص کا پيشاب یاپاخانہ پے درپے خارج ہوتو وہ ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھ سکتا ہے سوائے اس کے کہ کسی دوسرے حدث ميں مبتلا ہو جائے اور بہتر یہ ہے کہ ہر نماز کے لئے ایک وضو کرے، ليکن بھولے ہوئے سجدے وتشهد اور نماز احتياط کے لئے دوسرا وضو ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣١ ۶ جس شخص کا پيشا ب یاپاخانہ پے درپے خارج ہوتا ہو اس کے لئے ضروری نہيں کہ وضو کے بعد فوراًنماز پڑھے اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ وضو کے فوراًبعد نماز پڑھے۔

مسئلہ ٣١٧ جس شخص کا پيشاب یاپاخانہ پے درپے خارج ہوتا ہو وضو کے بعد بنابر احتياط مستحب ان چيزوں کو مس کرنے سے پرہيز کرے جنہيں مس کرنا محدث پر حرام ہے ۔

مسئلہ ٣١٨ جس شخص کو قطرہ قطرہ پيشاب آتاہو ضروری ہے کہ نماز ميں خود کو ایک ایسی تهيلی کے ذریعے پيشاب سے بچائے جس ميں روئی یا کوئی اور چيز رکھی ہو جو پيشاب کو دوسری جگہوں پر نہ پهنچنے دے اور احتياط واجب یہ ہے کہ ہر نماز سے پهلے مقام پيشاب کو پاک کرے سوائے اس صورت کے کہ باعث حرج ہو۔

۵۲

اور ظہر وعصر یا مغرب وعشا کو ملا کر پڑھنے کی صورت ميں دوسری نماز کے لئے مقام پيشاب کو پاک کرنا ضروری نہيں ہے ۔

اور اگر کوئی شخص پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو تو ضروری ہے کہ جهاں تک ممکن ہو نماز پڑھنے کی مقدار تک پاخانہ دوسری جگہ تک پهنچنے سے روکے اور بنابر احتياط واجب ہر نماز کے لئے مقام پاخانہ کو پاک کرے، سوائے اس صورت ميں کہ باعث حرج ہو۔

مسئلہ ٣١٩ جو شخص پيشاب یا پاخانہ روکنے پر قدرت نہ رکھتا ہو، ضروری ہے کہ ممکنہ حد تک حرج نہ ہونے کی صورت ميں نماز پڑ هنے کی مقدار تک پيشاب وپاخانہ کو نکلنے سے روکے، اور اگر آسانی سے اس مرض کا علاج ہو سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اس کا علاج کرائے۔

مسئلہ ٣٢٠ جو شخص پيشاب یا پاخانہ روکنے پر قدرت نہيں رکھتا، صحت یا ب ہونے کے بعد ضروری نہيں ہے کہ جو نمازیں اس نے بيماری کی حالت ميں اپنی ذمہ داری کے مطابق پڑھی تہيں ، ان کی قضا کرے ليکن اگر نما زکے وقت کے دوران مرض سے شفا پا جائے تو ضروری ہے کہ اس وقت ميں پڑھی ہوئی نماز کو دهرائے۔

مسئلہ ٣٢١ جو شخص اپنی ریح روکنے پر قادر نہ ہو ضروری ہے کہ ان لوگوں کے وظيفے کے مطابق عمل کرے جو پيشاب یا پاخا نہ روکنے پر قدرت نہيں رکھتے۔

وہ چيزيں جن کے لئے حدث سے پاک ہونا ضروری ہے

مسئلہ ٣٢٢ چھ چيزوں کے لئے وضو کرنا واجب ہے :

١) نماز ميت کے علاوہ تمام واجب نمازوںکے لئے اور مستحب نمازوں ميں وضو شرط صِحت ہے ۔

٢) بھولے ہوئے سجدے اور تشهد کی قضا کے لئے اور تشهد بھولنے کی وجہ سے انجام دئے جانے والے سجدہ سهو کٔے لئے اور اگر ان کے اور نماز کے درميان اس سے کوئی حدث سر زد ہوا ہو مثلاًپيشاب کر دیا ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے۔ ہاں، مذکورہ سجدہ سهوکے علاوہ دوسرے موارد ميں وضو کرنا واجب نہيں ہے ۔

٣) حج وعمرے کے واجب طواف کے لئے ۔

۴) اگر کسی نے وضو کرنے کی نذر کی ہو، عهد کيا ہو یا قسم کهائی ہو۔

۵) جب کسی نے نذر کی ہو کہ اپنے بدن کے کسی حصے کو قرآن کے حروف سے مس کرے گا، جب کہ یہ نذر صحيح ہو، مثلاًقرآن کو بوسہ دینا۔

۵۳

۶) نجس قرآن کو پاک کرنے یا قرآن کو ایسی جگہ سے نکالنے کے لئے جهاں قرآن کا ہونا توهين کا باعث ہو، جب کہ صورت حال یہ ہو کہ انسان اپنے ہاتھ یا بدن کے کسی حصے کو قرآن کے حروف سے مس کرنے پر مجبور ہو، ليکن اگر وضو کے لئے رکنا قرآن کی بے احترامی کا باعث ہو تو ضروری ہے کہ بغير وضو ہی قرآن کو اس جگہ سے نکالے یا اگر نجس ہو گيا ہو تو اسے پاک کرے۔

مسئلہ ٣٢٣ جو شخص باوضو نہ ہو اس کے لئے قرآن کے حروف کو مس کر نا، یعنی بدن کا کوئی حصہ قرآن کے حروف سے لگانا، حرام ہے ليکن اگر بال کھال کے تابع شمار نہ ہو ں تو انہيں قران کے حروف سے مس کرنے ميں کوئی حرج نہيں اور اگر قرآن کا اردو یا کسی اور زبان ميں ترجمہ کيا گيا ہو تو خداوندِمتعال کے اسم ذات اور اسماء صفات کے علاوہ کومس کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣٢ ۴ بچے اور دیوانے کو قرآن مجيد کے الفاظ کو مس کرنے سے روکنا واجب نہيں ، ليکن اگر ان کے ایسا کرنے سے قرآن مجيد کی بے حرمتی ہوتی ہو تو انہيں روکنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣٢ ۵ جو شخص باوضو نہ ہو اس کے لئے الله تعالی کی ذات او ر اس کی صفات کے ناموں کو خواہ کسی بھی زبان ميں لکھے ہوں مس کرنا حرام ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ چودہ معصومين عليهم السلام کے اسماء مبارک کو بھی بغير وضو کے مس نہ کيا جائے۔

مسئلہ ٣٢ ۶ اگر کوئی شخص نما زکا وقت آنے سے پهلے باطهارت ہونے کے ارادے سے وضو یا غسل کرے تو صحيح ہے اور نماز کے وقت کے نزدیک بھی اگر نما ز کے لئے تيار ہونے کی نيت سے وضو کرے تو کوئی حرج نہيں ، بلکہ مستحب ہے ۔

مسئلہ ٣٢٧ اگر کسی کو یقين ہو یا شرعی دليل رکھتا ہو کہ نما زکا وقت داخل ہو چکا ہے اور وہ واجب کی نيت سے وضو کرے جب کہ اس کا قصد وجوب سے مقيد نہ ہو اور وضو کے بعد معلوم ہو کہ وقت داخل نہيں ہوا تھا تو اس کاوضو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣٢٨ انسان کے لئے مستحب ہے کہ ہر اس کام کے لئے جس کے صحيح ہونے کے لئے وضو کرنا اگر چہ شرط نہيں ليکن اس عمل کے کمال ميں معتبر ہے ، وضو کرے۔ مثلاًواجب طواف اور نماز طواف کے علاوہ باقی تمام مناسک حج کے لئے ، کيونکہ ان دو ميں وضو کرنا شرطِ صحت ہے ۔

اسی طرح نماز ميت پڑھنے، ميت کو قبر ميں داخل کرنے، مسجد جانے، قرآن پڑھنے اور لکھنے اور سوتے وقت وضو کرنا مستحب ہے ۔ یہ بھی مستحب ہے کہ جو شخص با وضو ہو وہ دوبارہ وضو کرے۔

مذکورہ بالا کاموں ميں سے کسی ایک کے لئے بھی وضو کرنے کی صورت ميں انسان ہر وہ کام انجام دے سکتا ہے جس کے لئے وضو کرنا ضروری ہے مثلاًاس وضو سے نماز پڑھ سکتا ہے یا واجب طواف کر سکتا ہے ۔

۵۴

مبطلات وضو

مسئلہ ٣٢٩ سات چيزیں وضو کر باطل کرتی ہيں :

٢)پيشاب وپاخانہ، جب کہ اپنی طبيعی جگہ سے نکلے یا عادت کے مطابق غير طبيعی جگہ ،١

نکلے۔ اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر بغير عادت کے غير طبيعی مقام سے پيشاب یا پاخانہ نکلنے پر بھی وضو باطل ہو جاتا ہے ۔

وہ تری جو پيشاب سے شباہت رکھتی ہو اور استبرا سے پهلے نکلے پيشاب کا حکم رکھتی ہے ۔

٣) طبيعی مقام سے نکلنے والی آنتوں کی ریح اور پاخانے کے مورد ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق غير طبيعی مقام سے نکلنے والی ریح بھی جب کہ اس مقام کا دو مخصوص ناموں ميں سے ایک نام رکھا جا سکے۔

۴) نيند، جو اس وقت ثابت ہوگی جب کان سن نہ سکيں۔

۵) عقل کو زائل کر دینے والی چيزیں جيسے دیوانگی، مستی، بے ہوشی وغيرہ۔

۶) عورتوں کا استحاضہ جس کی تفصيل بعد ميں آئے گی۔

٧) جنابت۔

جبيرہ وضوکے احکام

وہ چيز جس سے زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کو باندها جاتا ہے اور وہ دوا جو زخم یا ایسی ہی کسی چيز پر لگائی جاتی ہے جبيرہ کهلاتی ہے ۔

مسئلہ ٣٣٠ اگر اعضاء وضو ميں سے کسی پر زخم یا پھوڑا ہو یا ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو، تو اگر اس پر کوئی چيز نہ ہو اور پانی اس کے ليے مضر نہ ہو تو ضروری ہے کہ عام طریقے سے وضو کيا جائے۔

مسئلہ ٣٣١ اگر زخم پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی چھرے یا ہاتھوںپر ہو اوراس پر کوئی چيز نہ ہو جب کہ پانی ڈالنا اس کے لئے مضر ہو تو اگر اس پر گيلا ہاتھ پهيرنا مضر نہ ہو تو ٹوٹی ہوئی ہڈی کی صورت ميں ضروری ہے کہ اس پر گيلا ہاتھ پهيرے، جب کہ زخم یا پھوڑا ہونے کی صورت ميں احتياط واجب یہ ہے کہ گيلا ہاتھ پهيرے اور اس کے بعد احتياط مستحب کی بنا پر ایک پاک کپڑا اس پر رکھ کر گيلا ہاتھ کپڑے پر بھی پهيرے۔

اور اگر یہ بھی مضر ہو یا زخم اور ٹوٹی ہوئی ہڈی وغيرہ نجس ہو جسے پاک نہ کيا جا سکتا ہو تو زخم کی صورت ميں ضروری ہے کہ زخم کے اطراف کو وضو ميں بيان شدہ طریقے کے مطابق اوپر سے نيچے کی طرف دهوئے اور تيمم بھی ضروری نہيں ، البتہ احتياط مستحب یہ ہے کہ زخم پر پاک کپڑا رکھ کر اس پر گيلا ہاتھ پهيرے اور تيمم بھی کرے۔

۵۵

اور ٹوٹی ہوئی ہڈی کی صورت ميں ضروری ہے کہ تيمم کرے اور احتياط واجب کی بنا پر وضو بھی کرے اور اس پر پاک کپڑارکھ کر گيلا ہاتھ پهير دے۔

مسئلہ ٣٣٢ زخم، پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کسی کے سر یا پاؤں کے اوپر والے حصے ميں ہو اور اس پر کوئی چيز بھی نہ ہو، اگر وہ اس پر مسح نہ کر سکتا ہو، یعنی مثلا زخم مسح کے سارے مقام پر پهيلا ہوا ہو یا سالم حصوں پر مسح کرنا بھی ممکن نہ ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ ایک پاک کپڑا زخم وغيرہ پر رکھ کر ہاتھ ميں بچی ہوئی وضو کی تری سے اس پر مسح کرتے ہوئے وضو بھی کرے اور تيمم بھی کرے۔

مسئلہ ٣٣٣ اگر پهوڑے، زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کو کسی چيز سے باندها گيا ہو، اگر اس کا کهو لنا مشقت کا باعث نہ ہو اور پانی بھی اس کے لئے مضر نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے کھول کر وضو کرے خواہ زخم وغيرہ چھرے اور ہاتھوں پر ہو یا سر کے اگلے حصے یا پاؤں کے اوپر والے حصے پر ہو۔

مسئلہ ٣٣ ۴ اگر کسی شخص کا زخم، پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی جو کسی چيز سے بندهی ہو اس کے چھرے یا ہاتھوں پر ہواور اسے کھولنے یا پانی ڈالنے ميں ضرر یا مشقت ہو تو جتنی مقدار ميں ضرر اور مشقت نہ ہو، اسے دهوئے اور جبيرہ کے اوپر گيلا ہاتھ پهيرے۔

مسئلہ ٣٣ ۵ اگر زخم کو کھولا نہ جاسکتا ہو ليکن خود زخم اور جو چيز ا س پر لگا ئی ہو پاک ہوں اور زخم تک پانی پهنچانا ممکن ہو اور مضر اور باعث مشقت بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کو زخم پر ترتيب کا خيال رکھتے ہوئے، جس کا خيال رکھنا چھرے ميں احتياط واجب کی بنا پرہے، پهنچائے، ليکن اگر جبيرہ چھرے پر ہو اور پانی پهنچانے ميں ترتيب کا خيال رکھنا ممکن نہ ہو تو بنا بر احتياط اسے دهوئے بھی اور ترتيب کا خيال رکھتے ہوئے گيلا ہاتھ بھی پهيرے۔

اور اگر زخم یا وہ چيز جو ا س کے اوپر رکھی ہے نجس ہو، چنانچہ اسے پاک کر نا اور زخم تک پانی پهنچانا ممکن ہو اور ضرر ومشقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے پاک کرے اور وضو کے وقت پانی کو زخم تک پهنچائے۔

اور اگر زخم تک پانی پهنچانا ممکن نہ ہو یا ضرر یا مشقت ہو یا زخم نجس ہو اور اسے پاک کرنا ممکن نہ ہو یا ضرر یا مشقت ہو تو ضروری ہے کہ زخم کے اطراف کو دهوئے اور اگر جبيرہ پاک ہو تو اس کے اوپر گيلا ہاتھ پهيرے، اور اگر جبيرہ نجس ہو یا گيلا ہاتھ اس کے اوپر نہيں پهير سکتے تو ممکنہ صورت ميں پاک کپڑا اس پر رکھ کر احتياط واجب کی بنا پر تيمم بھی کرے اور اس کپڑ ے پر گيلا ہاتھ بھی پهيرے اور حتی الامکان اس کپڑ ے کو اس طرح رکھے کہ جبيرہ کا جزء سمجھا جائے اور اگر دوسرا کپڑا رکھنا یا اس پر گيلا ہاتھ پهيرنا ممکن نہ ہو تو بنا بر احتياط واجب اس کے اطراف کو وضو ميں بيا ن شدہ طریقے کے مطابق دهوئے اور تيمم بھی کرے۔

مسئلہ ٣٣ ۶ اگر جبيرہ تمام چھرے یا پورے ایک ہاتھ یا پورے دونوں ہاتھوں کو گھيرے ہوئے ہو، احتياط واجب یہ ہے کہ وضوئے جبيرہ اور تيمم دونوں کرے۔

۵۶

مسئلہ ٣٣٧ اگر جبيرہ تمام اعضاء وضو کو گھيرے ہوئے ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ وضوئے جبيرہ اور تيمم دونوں کرے۔

مسئلہ ٣٣٨ جس شخص کی ہتھيلی اور انگليوں پر جبيرہ ہو اور وضو کرتے وقت اس پر گيلا ہاتھ پهيرا ہو تو وہ سر اور پاؤں کا مسح اسی رطوبت سے کرے۔

مسئلہ ٣٣٩ اگر کسی شخص کے پاؤں کے اوپر والے پورے حصے پر جبيرہ ہو ليکن کچھ حصہ انگليوں کی طرف سے اورکچه حصہ پاؤںکے اوپر والے حصے کی طرف سے کہ جس پر مسح واجب ہے ، کهلا ہوا ہو تو ضروری ہے کہ جو جگہيں کهلی ہيں وہاں پاؤں کے اوپر والے حصے پر اور جن جگہوں پر جبيرہ ہے وہاں جبيرہ پر مسح کرے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٠ اگر چھرے یاہاتھوں پر ایک سے زیادہ جبيرے ہوں تو ان کا درميانی حصہ دهونا ضروری ہے اور اگر سر یاپاؤں کے اوپر والے حصے پر چند جبيرے ہوں تو ان کے درميانی حصے کا مسح کرنا ضروری ہے اور جهاں جبيرے ہوں وہاں جبيرے کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣ ۴ ١ اگر جبيرہ زخم کے آس پاس کے حصوں کو معمول سے زیادہ گھيرے ہوئے ہو اور اس کو ہٹا نا بغير مشقت کے ممکن نہ ہوتو بنا بر احتياط واجب وضو ئے جبيرہ بھی کرے اور تيمم بھی اور اگر جبيرے کی معمول سے زیادہ بڑھی ہوئی مقدار کو ہٹانے ميں مشقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے ہٹا لے، پس اگر زخم چھرے یا ہاتھوں پر ہو تو ان کو دهولے اور اگر سر یا پيروں کے اوپر والے حصے پر ہوکہ جس کا مسح واجب ہے تو اس کا مسح کرے اور زخم کی جگہ پر جبيرہ کے احکام کے مطابق عمل کرے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٢ اگر اعضائے وضو پر زخم، چوٹ یا ٹوٹی ہوئی ہڈی نہ ہو ليکن کسی اور وجہ سے پانی ان کے لئے مضر ہو تو تيمم کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣ ۴ ٣ اگر اعضائے وضو ميں سے کسی جگہ کی رگ کٹوا کر خون نکلوایا ہواور اس مقام کو ضرر کی وجہ سے نہ دهویا جاسکتا ہو تو اس پر زخم کے احکام جاری ہوں گے جن کا تذکرہ پچهلے مسائل ميں ہو ا اور اگر کسی اور وجہ سے مثلا خون نہ رکنے کی وجہ سے اسے دهونا ممکن نہ ہوتو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

مسئلہ ٣ ۴۴ اگر وضو یا غسل کی جگہ پر کوئی ایسی چيز چپک گئی ہو جس کا اتارنا ممکن نہ ہو یا باعثِ حرج ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ وضو یا غسل جبيرہ بھی کرے اور تيمم بهی۔

۵۷

مسئلہ ٣ ۴۵ غسل ميت کے علاوہ غسل کی تمام اقسام ميں غسل جبيرہ وضوئے جبيرہ کی طرح ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اسے ترتيبی طریقے سے انجام دے، ليکن اگر بد ن ميں زخم یا پھوڑا ہو تو چاہے اس مقام پر جبيرہ ہو یا نہ ہو، اگرچہ مکلف کے غسل یا تيمم ميں سے کسی ایک کو انجام دینے پر صاحب اختيار ہونے کی دليل ہے ، ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ غسل کرے اور ٹوٹی ہوئی جگہ، زخم اور پهوڑے کاحکم غسل ميں وهی ہے جو وضو ميں چھرے اور ہاتھوں کے سلسلے ميں بيان کيا جاچکاہے۔

مسئلہ ٣ ۴۶ جس شخص کی ذمہ داری تيمم ہو اگر اس کے بعض اعضائے تيمم پر زخم یاپھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی ہو تو ضروری ہے کہ وضوئے جبيرہ کے احکام کے مطابق تيمم جبيرہ انجام دے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٧ جس شخص کے لئے وضوئے جبيرہ یا غسل جبيرہ کے ساته نماز پڑھنا ضروری ہو، اگر جانتاہو کہ نماز کے آخری وقت تک اس کا عذر دور نہيں ہوگا، تو وہ اول وقت ميں نماز پڑھ

سکتاہے ، ليکن اگر اميد ہو کہ آخر وقت تک عذر بر طرف ہو جائے گا تو بہتر ہے کہ صبر کرلے اور عذر برطرف نہ ہونے کی صورت ميں نماز کو آخر وقت ميں وضوئے جبيرہ یا غسلِ جبيرہ کے ساته انجام دے، اور اگر اول وقت ميں نماز پڑھ چکا ہو اور آخر وقت ميں عذر بر طرف ہوجائے تو ضروری ہے کہ وضو یا غسل کرکے دوبارہ نماز پڑھے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٨ اگر کسی شخص نے آنکه کی بيماری کی وجہ سے پلکيں چپکا کر رکھی ہو ں یا آنکه ميں درد کی وجہ سے پانی اس کے لئے مضر ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٩ جو شخص نہ جانتا ہو کہ آیا اس کا وظيفہ تيمم ہے یا وضو ئے جبيرہ تو ضروری ہے کہ احتياط کرتے ہوئے وضو بھی کرے اور تيمم بھی کرے۔

مسئلہ ٣ ۵ ٠ جونمازیں انسان نے وضوء جبيرہ سے پڑھی ہوں اور آخر وقت تک عذر باقی رہا ہو، صحيح ہيں اور بعد کی نمازوں کو بھی اگر تمام وقت ميں عذر باقی رہے تو اسی وضو سے پڑھ سکتا ہے اور جب بھی عذر ختم ہوجائے احتياط واجب کی بنا پر بعد کی نمازوں کے لئے وضو کرے۔

واجب غسل واجب غسل سات ہيں :

١) غسل جنابت

٢) غسل حيض

٣) غسل نفاس

۴) غسل استحاضہ

۵۸

۵) غسل مسِ ميت

۶) غسل ميت

٧) وہ غسل جو نذر، قسم یا ان جيسی چيزوں کی وجہ سے واجب ہوجائے۔

جنابت کے احکام

مسئلہ ٣ ۵ ١ انسان دو چيزوں سے جنب ہوتا ہے :

١) جماع

٢) منی کے خارج ہونے سے، خواہ وہ نيند کی حالت ميں نکلے یا بيداری ميں ، کم ہو یا زیادہ، شهوت سے نکلے یا بغير شهوت کے، اختيار سے نکلے یا بغير اختيار کے۔

مسئلہ ٣ ۵ ٢ اگر کسی مرد کے بدن سے کوئی رطوبت خارج ہو اور وہ یہ نہ جانتا ہوکہ منی ہے یا پيشاب یا کوئی اور چيز، اگر وہ رطوبت شهوت کے ساته اور اچھل کر نکلے اور اس کے نکلنے کے بعد بدن سست پڑ جائے تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے ، ليکن اگر ان تين علامتوں ميں سے ساری یا کچھ موجود نہ ہوں تو وہ رطوبت منی کے حکم ميں نہيں آئے گی، ليکن اگر بيمار ہو اور وہ رطوبت شهوت کے ساته نکلی ہو تو چاہے اچھل کر نہ نکلی ہواور اس کے نکلنے کے بعد جسم سست نہ پڑا ہو، تب بھی منی کے حکم ميں ہے اور اگر عورت شهوت کے ساته انزال کرے تو اس پر غسل جنابت واجب ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵ ٣ اگر کسی ایسے مرد کے مقام پيشاب سے جو بيمار نہ ہو کوئی ایسا پانی خارج ہو، جس ميں ان مذکورہ بالا تين علامات ميں سے کوئی ایک علامت موجود ہو ليکن نہ جانتا ہو کہ بقيہ علامات بھی اس ميں موجود ہيں یا نہيں ، تو اگر اس پانی کے خارج ہونے سے پهلے اس نے وضو کيا ہوا ہو تو وهی وضو کافی ہے اور اگر وضو نہيں کيا تھا تو صرف وضو کرنا کافی ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵۴ منی خارج ہونے کے بعد انسان کے لئے پيشاب کرنا مستحب ہے اور اگر پيشاب نہ کرے اور غسل کے بعد اس سے کوئی رطوبت خارج ہو جس کے بارے ميں نہ جانتا ہوکہ منی ہے یا کوئی اور رطوبت تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵۵ اگر کوئی شخص جماع کرے اور عضو تناسل ختنہ گاہ کی مقدار تک یا اس سے زیادہ عورت کی شرمگاہ ميں داخل ہوجائے تو خواہ یہ دخول فرج ميں ہو یا دبر ميں ، دونوں جنب ہو جائيں گے، اگرچہ منی بھی خارج نہ ہوئی ہو اور اگر مرد سے جماع کرے تو پهلے سے باوضو نہ ہونے کی صورت ميں احتياط واجب یہ ہے کہ وضو بھی کرے اور غسل بھی ورنہ غسل کرنا کافی ہے ۔ مذکورہ بالا حکم ميں بالغ ونابالغ، عاقل ودیوانے اور با ارادہ یا بے ارادہ کے درميان کوئی فرق نہيں ۔

۵۹

مسئلہ ٣ ۵۶ اگر کسی کو شک ہو کہ عضو تناسل ختنہ گاہ تک داخل ہوا ہے یا نہيں ، تو اس پر غسل واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵ ٧ اگر کوئی شخص کسی حيوان کے ساته وطی کرے اور اس کی منی خارج ہو تو صرف غسل کرنا کافی ہے اور اگر منی خارج نہ ہو ليکن وطی سے پهلے با وضو ہو تب بھی صرف غسل کافی ہے اور اگر باوضو نہ ہو تو بنا بر احتياط واجب وضو بھی کرے اور غسل بهی۔

مسئلہ ٣ ۵ ٨ اگر منی اپنی جگہ سے حرکت کرے ليکن خارج نہ ہو یا انسان کو شک ہو کہ منی خارج ہوئی ہے یا نہيں تو اس پر غسل واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵ ٩ جو شخص غسل نہ کرسکتا ہو ليکن تيمم کر سکتا ہو، وہ نما زکا وقت داخل ہونے کے بعد بھی اپنی بيوی سے جماع کر سکتاہے۔

مسئلہ ٣ ۶ ٠ اگر کوئی شخص اپنے لباس ميں منی دیکھے اور جانتا ہو کہ اس کی اپنی منی ہے اور اس کے لئے غسل نہ کيا ہو تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور جن نمازوں کے بارے ميں اسے یقين ہو کہ وہ اس نے منی خارج ہونے کے بعد پڑھی ہيں ، اگر وقت باقی ہو تو ادا کرلے اور اگر وقت گزر چکا ہو تو ان نمازوں کی قضا کرے، ليکن جن نمازوں کے بارے ميں احتمال ہو کہ منی خارج ہونے سے پهلے پڑھی ہيں ان کی ادا یاقضا نہيں ۔

وہ چيزيں جو جنب پر حرام ہيں

مسئلہ ٣ ۶ ١ پانچ چيزیں جنب شخص پر حرام ہيں :

١) اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجيد کے الفاظ، الله تعالی کے نام، خواہ کسی بھی زبان ميں ہو اور باقی اسمائے حسنی سے مس کرنا۔ احتياط مستحب یہ ہے کہ پيغمبروں، ائمہ اور حضرت زهرا عليها السلام کے ناموں سے بھی اپنا بدن مس نہ کرے۔

٢) مسجدا لحرام اور مسجد النبوی صلی الله عليہ و آلہ وسلم ميں جانا، خواہ ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل آئے۔

٣) دوسری مسجدوں ميں ٹہرنا، ليکن اگر ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل آئے تو کوئی حرج نہيں ہے اور اسی طرح ائمہ عليهم السلام کے حرم ميں ٹہرنا حرام ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ ائمہ عليهم السلام کے حرم ميں ، حتی ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے دروازے سے نکلنے کی حد تک بھی نہ جائے۔

۴) کسی چيز کو مسجد ميں رکھنے کے لئے اور اسی طرح بنا بر احتياط واجب کسی چيز کو مسجد سے اٹھ انے کے لئے داخل ہونا۔

۶۰

۶۱

۶۲

۶۳

۶۴