امامیہ اردو دینیات درجہ سوم جلد ۳

امامیہ اردو دینیات درجہ سوم50%

امامیہ اردو دینیات درجہ سوم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 64

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 64 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45343 / ڈاؤنلوڈ: 3718
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ سوم

امامیہ اردو دینیات درجہ سوم جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

پندہواں سبق

قرآن معجزہ ہے

جس طرح اللہ نے بندوں کی ہدایت کے لئے توریت ، زبور ، اور انجیل نازل کی۔ اسی طرح قرآن کو بھی قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل کیا۔

قرآن ہمارے نبیؐ پر معجزہ بن کر نازل ہوا ہے۔ جس کو آپ نے اپنی نبوت کے دعوے کی سچائی کے ثبوت میں پیش کیا۔ اور قرآن میں خود خودا نے کہا کہ اگر کسی کو میرے نبیؐ کے دین میں شک ہو تو اسے چاہئیے کہ قرآن کے کسی ایک سورے کا جواب لے آئے۔ اور اگر جواب نہ لا سکے تو یقین کرے کہ ہمارا نبیؐ اور اس کا دین سچا ہے۔ آج تک کوئی بھی قرآن کی ایک آیت کا جواب نہیں لا سکا۔ اور جواب کا نہ آنا قرآن کے معجزہ ہونے کی دلیل ہے۔

سوالات:۔

۱ ۔ قیامت تک کی ہدایت کے لئے کون سی کتاب نازل ہوئی ؟

۲ ۔ قرآن کے معجزہ ہونے کی دلیل کیا ہے ؟

۲۱

سولہواں سبق

آداب تلاوت

قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت ان علامتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

ج ۔ وقف جائز علامت ہے یہاں پر ٹھہرنا ہے۔

ز ۔ یہ بھی وقف جائز کی علامت ہے مگر ملا کر پڑھنا بہتر ہے۔

لا ۔ اس علامت پر ٹھہرا نہیں چاہئیے بلکہ بعد سے ملا کر پڑھنا چاہئیے۔

ط ۔ یہ علامت وقف مطلق کی ہے جس سے آگے بڑھ جانا مناسب نہیں ہے۔

م ۔ یہ علامت وقف لازم کی ہے جس سے آگے بڑھنا جائز نہیں ہے۔

قف ۔ یہ ٹھہر جانے کی علامت ہے ۔

ص ۔ یہاں سانس توڑ دینے کی رخصت ہے۔

صلے ۔ یہاں وصل اولیٰ ہے (یعنی) آگے سے ملاکر پڑھنا بہتر ہے۔

۔ یہ علامت جس لفظ کے آگے پیچھے ہوتی ہے اس میں دو میں سے ایک جگہ وقف کیا جاتا ہے ۔

سالات :

۱ ۔ علامت کا لحاظ رکھے بغیر تلاوت قرآن کرنا کیسا ہے ؟

۲ ۔ " ز " اور " ج " کون سے وقف کی علامت ہیں اور دونوں کے حکم میں کیا فرق ہے

۲۲

سترہواں سبق

فرشتے

جس طرح اللہ نے زمین پر مٹی سے انسان کو پیدا کیا ہے اسی طرح نور سے ایک مخلوق پیدا کی ہے جس کا نام فرشتہ ہے۔ فرشتے اپنی خلقت میں معصوم ہوتے ہیں۔ ان سے کوئی غلطی نہیں ہوتی۔ یہ ہر وقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ کوئی رکوع میں رہتا ہے کوئی سجدہ میں کوئی قیام میں رہتا ہے کوئی تسبیح میں۔

فرشتوں کو اللہ نے مخلتف کاموں کے لئے پیدا کیا ہے کسی کو زمین کا انتظام سپرد کیا ہے ، کسی کو آسمان کا ، کسی کو پانی پر مقرر کیا ہے اور کسی کو ہوا پر۔

ان فرشتوں میں چار فرشتے زیادہ مشہور ہیں

۱ ۔ جبرئیل ۔ جو ہمارے نبیؐ کے پاس قرآن لیکر آیا کرتے تھے۔

۲ ۔ میکائیل ۔ جو بندوں کا رزق ان تک پہنچاتے ہیں ۔

۳ ۔ اسرافیل ۔ جن کے ایک صور پھونکنے پر ساری دنیا فنا ہو جائےگی۔

۴ ۔ عزرائیل ۔ جن کا کام لوگوں کی روح قبض کرنا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اللہ نے فرشتوں کو کس چیز سے پیدا کیا ان سے کبھی کوئی غلطی ہو سکتی ہے؟

۲ ۔ اس فرشتہ کا نام بتاؤ جو بندوں کو رزق پہنچاتا ہے ۔

۲۳

اٹھارہواں سبق

اسباب خیر و برکت

۱ ۔ قبل غروب چراغ جلانا۔

۲ ۔ گھر میں داخل ہوتے وقت سورہ توحید پڑھنا۔

۳ ۔ کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونا۔

۴ ۔ یاقوت اور فیروزہ کی انگوٹھی پہننا۔

۵ ۔ صبح سویرے اٹھنا۔

۶ ۔ مسجد میں قبل اذان پہنچنا۔

۷ ۔ باطہارت رہنا۔

۸ ۔ بعد نماز تعقیبات پڑھنا

۹ ۔ عزیزوں کے ساتھ احسان کرنا۔

۱۰ ۔ گھر کو صاف رکھنا۔

۱۱ ۔ مومن کی حاجت روائی کرنا۔

۱۲ ۔ فکر معاش میں صبح کو جانا۔

۱۳ ۔ موذن کی اذان دھرانا۔

۱۴ ۔ دسترخان پر گرے ہوئے ریزوں کو چن کر ادب سے کھانا۔

۱۵ ۔ رات کو باوضو سونا۔

سوالات :

۱ ۔ اسباب خیر و برکت میں کوئی پانچ اسباب بیان کرو ؟

۲ ۔ فکر معاش میں صبح کو جانا اور اذان دہرانا اسباب برکت میں سے اسباب نحوست میں۔

۲۴

انیسواں سبق

اسباب نحوست

۱ ۔ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا۔

۲ ۔ کھڑے ہو کر کھانا کھانا۔

۳ ۔ منھ سے چراغ بجھانا۔

۴ ۔ دامن یا آستین سے منھ پوچھنا۔

۵ ۔ حمام میں پیشاب کرنا۔

۶ ۔ مٹی سے ہاتھ دھونا۔

۷ ۔ لہسن ، پیاز کے چھلکے جلانا۔

۸ ۔ قبر پر بیٹھنا۔

۹ ۔ چوکھٹ پر بیٹھنا ۔

۱۰ ۔ دانتوں سے ناخن کاٹنا۔

۱۱ ۔ فقیروں سے بے تو جہی کرنا۔

۱۲ ۔ قلم پر پاؤں رکھنا۔

۱۳ ۔ مکڑی کا جالا گھر میں رکھنا۔

۱۴ ۔ حالت جنابت میں کچھ کھانا ۔

۱۵ ۔ کھڑے ہو کر کنگھی کرنا۔

۱۶ ۔ رات کو کھڑے ہوکر پانی پینا۔

۲۵

۱۷ ۔ کوڑا گھر میں رکھنا۔

۱۸ ۔ کھڑے ہوکر پائجامہ پہننا۔

۱۹ ۔ نماز صبح کے بعد اول طلوع آفتاب سو جانا۔

سوالات :

۱ ۔ اسباب نحوست میں سے کوئی پانچ سبب بیان کرو ؟

۲ ۔ قبر پر بیٹھنا اور باطہارت سونا میں کون اسباب خیر و برکت میں داخل ہے اور کون اسباب نحوست ہیں ؟

۲۶

بیسواں سبق

آداب بندگی

اگر اللہ ہمیں یاد رہے تو ہم کبھی گناہ نہ کریںگے کیوںکہ گناہ سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔ جب کوئی اچھا بیٹا اپنے باپ کو ناراض نہیں کرتا تو کوئی سچھا مسلمان اپنے خدا کو کیسے ناراض کر سکتا ہے۔ ایک سچھے مسلمان ہونے کی بنا پر ہمارا فرض ہے کہ ہم گناہوں سے بچیں اور خدا کے احکام بجا لائیں۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم خدا کو یاد رکھیں۔ خدا کی یاد سے دل پاک رہتا ہے۔ ہمارے کاموں میں برکت پیدا ہوتٰی ہے اور نحوست دور ہوتی ہے۔اس لئے عادت ڈالو کہ جب :

۱ ۔ کوئی کام شروع کرو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بسم الله ۔۔۔۔کہو

۲ ۔ کوئی کام ختم کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الحمد الله ۔۔۔۔کہو

۳ ۔ کوئی بری بات دیکھو یا کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔استغفر الله ۔۔۔۔کہو

۴ ۔ کوئی اچھی چیز دیکھو یا اچھا کام کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سبحان الله ۔۔۔۔کہو

۵ ۔ اٹھتے بیٹھتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاَ حَولَ وَ لاَ قُوَةَ اِلاَّ بِا للهِ ۔۔۔۔کہو

۶ ۔ غم کی خبر سنو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِنَّ لِلهِ وَ اَنَا اِليه راجِعُونَ ۔۔۔۔کہو

۷ ۔ خوشی کی خبر سنو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مَا شَآءَ الله ۔۔۔۔کہو

۸ ۔ کوئی وعدہ کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انشَآءَ الله ۔۔۔۔کہو

۹ ۔ جب کسی کو رخصت کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فی اَمَانِ الله ۔۔۔۔کہو

۱۰ ۔ جب کوئیٰ نعمت پاؤ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شُکراً الله ۔۔۔۔کہو

۱۱ ۔ جب کوئی بڑا خیال پیدا ہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اَعُوذُ بِا للهِ ۔۔۔۔کہو

۱۲ ۔ عجیب چیز دیکھو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اَلعَظَمَةُ للهِ ۔۔۔۔کہو

سوالات :

۱ ۔ خدا کو یاد رکھنے کے کیا گائدے ہیں ؟

۲ ۔ یاد رکھنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئیے ؟

۲۷

اکیسواں سبق

آداب زندگی

۱ ۔ حسنؐ اور حسینؐ میرے پھول ہیں ۔ حضرت رسولؐ کریم نے ارشاد فرمایا کہ

" نیک اولاد ایک پھول ہے جو خدا وند عالم نے اپنے بندوں کو مرحمت فرمایا ہے اور دنیا میں میرے پھول حسنؐ و حسینؐ ہیں "۔

۲ ۔ لڑکیاں نیکیاں اور لڑکے نعمت ہیں ۔ حضرت امام جعفر صادقؐ نے ارشاد فرمایا ہے ۔" لڑکیاں نیکیوں ہیں اور لڑکے نعمتیں ہیں۔ نیکیوں پر تم کو ثواب دیا جائےگا اور نعمتوں کے متعلق سوال کیا جائےگا۔

۳ ۔ لڑکوں کے نام نبی کے نام پر رکھنا چاہئیے ۔ حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ حضرت رسولؐ خدا کا ارشاد ہے کہ " جس شخص کے چار لؑڑکے ہوں اور وہ ایک کا نام بھی میرے نام پر نہ رکھے تو اس نے مجھ پر ظلم کیا "۔

۴ ۔ اذان اور اقامت کے بعد شیطان کا حملہ نہیں ہوتا ۔ حضرت مرسل اعظیمؐ نے ارشاد فرمایا کہ " جب بچہ پیدا ہو تو اس کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنی چاہئیے اس سے بچہ شیطان رجیم کے ا ثر سے محفوظ رہےگا۔

۵ ۔ عقیقہ اور مونڈن کا فرق ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جب بچہ پیدا ہو اس کا عقیقہ کرایا جائے۔ اس کا سر منڈوایا جائے اور اس کے بالوں کے برابر صدقہ دیا جائے۔

مونڈن اور عقیقہ الگ الگ کام میں دونوں کا ایک ساتھ ساتویں دن ہونا مستحب ہے۔ اگر ساتویں دن مونڈن نہ ہو تو عقیقہ کیا جائےگا یعنی جانور کو ذبح کیا جائیگا اور بالوں کا منڈوانا ضروری نہیں ہوگا۔

۲۸

۴ ۔ حضرت امیر المومنین علیؐ ابن ابی طالب کا فرمان ہے کہ " جب بچہ تین سال کا ہو جائے تو اس سے سات مرتبہ لااِله اِلاَّ الله کہلایا جائے۔ دو دن کے بعد اس سےمحمد رسول الله کہلایا جائے۔ جب چار سال پورے ہو جائیں تب اس سے کہا جائے کہصلی الله علیٰ محمد و آل محمد کہو، جب پانچ سال کا ہو جائے تو اس کو جنوب اور شمال کی شناخت کرائی جائے اور جب یہ جان لے تو اس کا رخ قبلہ کی طعف موڑو اور اس کو سجدہ کرنے کا حکم دو اوع جب چھہ سال کا ہو جائے تو اس کو رکوع و سجود کی تولیم دو۔ جب سات سال کا ہو جائے تب اس کو ہاتھ اور منھ کا دھونا سکھاؤ۔ جب وضو سیکھ لے تو اس کو نماز کا حکم دو۔ جب عمر نو سال ہو جائے اور وہ تمام آداب وضو سیکھ لے تو اس کو نماز کا حکم دو۔ اور نماز نہ پڑھنے پر بچہ کو مارا بھی جائے جب وہ وضو اور نماز سیکھ لےگا تو خدا اس کے ماں باپ کو بخش دیگا انشا اللہ تعالیٰ "۔

سوالات :

۱ ۔ رسولؐ نے کن لوگوں کو اپنا پھول کہا ہے ؟

۲ ۔ حضرت علیؐ نے تربیت اولاد میں کیا بتایا ہے ؟

۳ ۔ منڈن اور عقیقہ میں کیا فرق ہے ؟

۲۹

بائیسواں سبق

دعا کمیل

تم نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ شب جمعہ میں ایک دعا پڑھتے ہیں جس کا نام دعاء کمیل ہے۔ اس دعا کے بہت سے فائدے ہیں۔ دنیا میں آدمی کی روزی میں برکت ہوتی ہے۔ آخرت میں اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ اس دعا کو دعاء کمیل اس لئے کہتے ہیں کہ یہ حضرت علیؐ نے اپنے شاگرد حضرت کمیل کو بتائی تھی۔ حضرت کمیل کا خاندان بہت شریف تھا۔ وہ اپنی قوم کے سردار تھے۔ ایک مرتبہ بادشاہ نے کسی بات پر آپ کو ایک طمانچہ مار دیا تھا تو آپ نے ان سے بدلہ لینا چاہا اور وہ تیار بھی ہو گئے لیکن آپ نے معاف کر دیا۔ بادشاہ کے بدلے پر راضی ہو جانے سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب کمیل کا رعب بہت تھا اور لوگ ان سے خوف زدہ رہا کرتے تھے ورنہ بادشاہ کہیں کسی کو بدلا بھی دے سکتا ہے۔ حضرت کمیل نے اپنے حق کو معاف کر کے یہ بتا دیا کہ حضرت علیؐ کے چاہنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے ذاتی حق کو چھوڑ سکتے ہیں مگر خدا اور رسولؐ کے معاملہ میں کوئی رعایت نہیں کرتے۔

سوالات :

۱ ۔ دعا کمیل کو دعا کمیل کیوں کہتے ہیں ؟

۲ ۔ حضرت کمیل کون تھے ؟

۳ ۔ بادشاہ کا کمیل کے ساتھ کیا براتاؤ تھا ؟

۴ ۔ کمیل کا بادشاہ سے کیا برتاؤ تھا ؟

۳۰

تیئیسواں سبق

مالک ابن نویرہ

یہ رسولؐ اللہ کے صحابی تھے۔ انھیں حضرت نے مسلمانوں سے زکوٰۃ وغیرہ کا مال جمع کرنے کے لئے وکیل بنا دیا تھا۔ یہ رسولؐ اللہ کی وفات تک اپنے عہدے پر باقی رہے لیکن حضرت رسولؐ خدا کے انتقال کے بعد جب مدینہ میں آئے تو دیکھا کہ انھوں نے خلیفہ سے کہا کہ تم اپنی حالت پر باقی رہو اور اس جگہ کو اس کے اہل کے حوالہ کر دو۔ رسولؐ اللہ غدیر خم کے موقع پر حضرت علیؐ کو اپنا جانشین بنا چکے ہیں۔ اب کسی دوسرے کی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے بعد زکوٰۃ کا مال ان کو دینے سے انکار کر دیا تو انھوں نے خالد بن ولید کو جو ایک انتہائی جھگڑالو آدمی تھا لشکر کا سردار بنا کر بھیج دیا۔ اس نے مالک کی قوم پر زبردستی حملہ کر دیا اور سب کو قتل کرا دیا۔ اور مسلمانوں کے جان و مال عزت و آبرو کی کوئی پرواہ نہ کی حالانکہ مالک ابن نویرہ قتل ہوتے وقت بھی کلمہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر رہے تھے۔

سوالات :

۱ ۔ مالک ابن نویرہ کون تھے ؟

۲ ۔ ان کا کیا حکم تھا ؟

۳ ۔ حکومت نے ان پر کیوں چڑھائی کی ؟

۴ ۔ خالد نے ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ؟

۵ ۔ مالک حضرت علیؐ کو خلیفہ کیوں مانتے تھے ؟

۳۱

چوبیسواں سبق

تقلید

خدا نے اس دنیا میں کوئی چیز بیکار نہیں پیدا کی ہے اور ہم انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس لئے ہمارا فریضہ ہے کہ ہم دین کے ان تمام احکام پر عمل کریں جنھیں خدا نے ہمارے لئے مقرر کیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ عمل کرنا علم حاصل کئے بغیر ممکن نہیں ہے اس لئے پہلے ان احکام کا معلوم کرنا ضروری ہے اور یہ ہم انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ قرآن و حدیث سے احکام خدا معلوم کر سکے اس لئے ضروری ہے کہ علم دین کے جاننے والوں سے احکام دریافت کرے اور ان کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرے اسی چیز کا نام تقلید ہے۔

تقلید صرف ان احکام میں ہوتی ہے جن کا علم ہر مسلمان کو نہ ہو اور وہ مسلمانوں کے درمیان اتفاقی نہ ہوں۔ ایسے احکام جو اسلام میں انتہائی واضح ہیں جنھیں ہر مسلمان جانتا ہے جیسے نماز ، روزہ کے واجب ہونے کا حکم وغیرہ ان میں تقلید کی ضرورت نہیں ہے تقلید صرف اس عالم کی کی جاتی ہے جو اپنے زمانہ کے تمام علماء سے زیادہ علم رکھتا ہو اس لئے کہ ایسے عالم کے ہوتے ہوئے اس سے کمتری کی تقلید کرنا جائز بھی نہیں ہے اور خلاف عقل بھی اس لئے دیندار باخبر علماء جسے اعلم بتائے اسے اعلم ماننا چاہئیے۔

تقلید کرنے والے کا فریضہ ہے کہ وہ اعلم کے مسائل معلوم کر کے ان پر عمل کرے۔

سوالات :

۱ ۔ تقلید کا کیا مطلب ہے ؟

۲ ۔ کون اعلم ہے ؟

۳۲

پچیسواں سبق

طہارت اور نجاست

ہر چیز پاک ہے جب تک اس کا نجس ہونا معلوم نہ ہو ، کوئی پاک چیز صرف اسی وقت نجس ہوگی جب کوئی نجس چیز اس سے مل جائے اور دونوں میں سے کوئی ایک تر ہو۔ اگر کسی چیز کا پاک ہونا ہمیں پہلے سے معلوم ہو اور بعد میں اس کے نجس ہو جانے کے بارے میں شک پیدا ہو جائے تو اس شک کی وجہ سے وہ چیز نجس نہ سمجھی جائےگی بلکہ پاک ہی سمجھی جائےگی۔ اگر بجائے شک کے اس کی نجاست کا گمان بھی پیدا ہو جائے تب بھی محض گمان کی وجہ سے وہ شے نجس نہ ہوگی اور جب تک نجاست کا پورا یقین نہ ہو پاک ہی رہےگی۔

نجاست معلوم کرنے کے تین طریقے ہیں :۔

اول ۔ ذاتی علم ، یعنی ہم خود اپنی آنکھوں سے کسی چیز کو نجس ہوتے دیکھیں۔

دوسرے ۔ دو عادل گواہی دیں کہ فلاں چیز نجس ہے۔ ایک عادل کی گواہی کافی نہیں۔ البتہ اگر ایک ہی عادل کی گواہی سے یقین حاصل ہو جائے تو بھی اس یقین پر عمل کیا جائےگا اور اسے نجس سمجھا جائےگا۔

تیسرے ۔ جس شخص کے قبضے میں چیز ہو وہ کہے کہ یہ نجس ہے خواہ وہ مالک ہو یا کرایہ دار ہو ، عاریتہً لیا ہو یا امین ہو۔ قبضہ رکھنے والے کے لئے عادل ہونا ضروری نہیں۔

طہارت کے معلوم کرنے کے بھی تین طریقے ہیں:۔

اوّل ذاتی علم ، یعنی اسے پاک ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔

دوسرے ۔ دو عادل گواہی دیں کہ فلاں چیز پاک ہے۔

۳۳

تیسرے ۔ جس کے قبضہ میں وہ شے ہو وہ کہے کہ یہ پاک ہے۔

اگر کسی چیز کے نجس ہونے کا ہمیں پہلے سے علم ہو بعد میں اس شے کے پاک ہو جانے کا شک یا گمان پیدا ہو جائے تب بھی وہ شے نجس ہی رہےگی۔ البتہ اگر وہ شے اتنے عرصہ ہماری آنکھوں سے اوجھل رہے جس میں اسکے پاک کر لئے جانے کا امکان ہو تو ہم اس شے کو پاک قرار دے سکتے ہیں۔

اگر کسی شخص کے متعلق شک ہو کہ یہ مسلمان ہے یا کافر تو اس سے کھانے پینے کی چیزیں یا دوسری چیزیں خرید سکتے ہیں۔ خواہ وہ خشک ہو یا تر۔ ان چیزوں کو پاک ہی سمجھا جائےگا۔ چھان بین کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر پاک چیز کے نجس ہو جانے کا شک یا گمان پیدا ہو جائے تو کیا کریںگے ؟

۲ ۔ پاک چیز کو نجس کب سمجھیںگے ؟

۳ ۔ علم کے کیا معنی ہیں ؟

۴ ۔ گواہی کے کیا معنی ہیں ؟

۵ ۔ نجس چیز کو پاک کب قرار دیںگے ؟

۶ ۔ جس شخص کا مسلمان ہونا اور نہ ہونا معلوم نہ ہو اس سے کچھ خرید سکتے ہیں یا نہیں ؟

۳۴

چھبیسواں سبق

نجس پاک کے چند مسائل

دودھ ، دہی ، گھی ، روغن زیتون اور اسی قسم کی چیزوں میں جو چیز جمی ہوئی ہو اگر اس میں نجاست گر پرے تو جہاں نجاست گری ہے بس اتنا ہی حصہ نجس ہے باقی پاک ہے لیکن اگر وہ شے بہنے والی ہے تو پوری کی پوری نجس ہو جائے گی۔

اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ یہ چیز جمی ہوئی ہے یا بہنے والی تو اس میں سے ایک چمچہ نکالیں۔ اگر چمچہ کی جگہ فوراً بھر جائے تو بہنے والی سمجھی جائےگی اور اگر چمچہ کی جگہ نہ بھرے یا بہت دیر کے بعد بھرے تو دونوں صورتوں میں جہاں نجاست گری تھی بس اتنی جگہ اور اس کے آس پاس کی جگہ کو نجس سمجھنا چاہئیے اور چمچے سے اتنی مقدار کے نکالنے کے بعد جو باقی رہ جائے وہ پاک ہے۔

نجس چیز کا کھانا پینا حرام ہے بلکہ دوسروں کو بھی نجس کھلانا حرام ہے۔ قر‏آن مجید ، مسجد کا فرش ، انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کے مقابر کو نجس کرنا حرام ہے۔ اگر یہ جگہیں نجس ہو جائیں تو ان کو فوراً پاک کرنا واجب ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر جمے ہوئے دودھ یا گھی میں نجاست گر جائے تو کیا سب کا سب نجس ہو جائےگا ؟

۲ ۔ اگر دودھ ، گھی جما ہوا نہیں ہے اور اس میں نجاست گر پڑی ہے تو کیا حکم ہے ؟

۳ ۔ اگر پتہ نہ چل سکے کہ چیز بہنے والی ہے یا نہ بہنے والی تو کیونکہ پتہ چلایا جائے ؟

۴ ۔ نجس کھانے پینے کا کیا حکم ہے ؟

۵ ۔ کن چیزوں کو نجس کرنا حرام ہے ؟

۳۵

ستائیسواں سبق

بیت الخلاء کے آداب

ہر شخص پر واجب ہے کہ ہر حال میں دوسروں سے اپنی شرمگاہ کو چھپائے اور جب پائخانہ کرنےجائے تب بھی چھپائے۔ دوسروں کی شرمگاہ پر نظر ڈالنا حرام ہے۔

پیشاب کرنے کے بعد پانی ڈالنا واجب ہے۔ بغیر پانی کے پیشاب کی طہارت نہیں ہو سکتی۔ پائخانہ کرنے کے موقع پر اختیار ہے کہ چاہے پانی سے آبدست کرے یا تین پتھر ، کاغذ یا اسی طرح کی کسی چیز سے صاف کر دے۔ مگر جس چیز سے صاف کرے اس کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اگر ایک پتھر سے نجاست برطرف ہو جائے تو اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئیے بلکہ تین پتھروں سے صاف کرنا ضروری ہے۔ اگر تین سے برطرف نہ ہو تو جتنے پتھروں سے برطرف ہو اتنے استعمال کرنا واجب ہے ۔

ڈھیلے وغیرہ سے طہارت کرنے میں تین شرطیں سامنے رکھنا چاہئیے :۔

۱ ۔ پائخانہ اپنی جگہ سے آگے نہ پھیلا ہو۔

۲ ۔ کوئی نجاست الگ سے پائخانہ مقام پر نہ لگی ہو ۔

۳ ۔ خون نہ لگا ہو۔ اگر ان تین شرطوں میں سے ایک شرط بھی نہ پائی جائےگی تو صرف پانی ہی طہارت ہو سکےگی ڈھیلے وغیرہ سے طہار نہ ہوگی۔

۳۶

جب کوئی شخص پیشاب یا پائخانہ کرنے بیٹھے تو اس پر واجب ہے کہ بیٹھنے کی حالت میں اس کے جسم کا رخ اس طرح ہو کہ قبلہ نہ اس کے سامنے ہو اور نہ اس کی پیٹھ کی طرف۔

سوالات :

۱ ۔ کسی کو ننگا دیکھنا یا کسی کے سامنے ننگا ہونا کیسا ہے ؟

۲ ۔ پیشاب اور پائخانہ کی طہارت میں کیا فرق ہے ؟

۳ ۔ پانی کے علاوہ کن چیزوں سے پائخانہ کی طہارت کی جا سکتی ہے اور ان کے شرائط کیا ہیں ؟

۴ ۔ جب تین سے کم پتھر وغیرہ سے پائخانہ صاف ہو جائے یا تین پتھوں سے پائخانہ صاف نہ ہو تو بتاؤ کہ دونوں ضرورتوں میں کیا حکم ہے ؟

۵ ۔ پائخانہ پیشاب کرتے وقت کیسے بیٹھنا چاہئیے ؟

۳۷

اٹھائیسواں سبق

نجس چیزیں

دس چیزیں ایسی نجس ہیں جو پاک نہیں ہو سکتیں۔ ان کو نجاست کہا جاتا ہے۔

۱ ۔ پیشاب ۔ انسان اور ہر اُس جانور کا پیشاب نجس ہے جس کا گوشت کھانا حرام ہو اور ذبح کرتے وقت اس کی گردن سے خون اچھل کر نکلے۔

۲ ۔ پائخانہ ۔ جس کا پیشاب نجس ہوتا ہے اس کا پائخانہ بھی نجس ہوتا ہے۔

۳ ۔ منی ۔ منی آدمی اور ہر جانور کی نجس ہے چاہے اسکا گوشت حلال ہو یا حرام

۴ ۔ مردار ۔ آدمی اور ہر اس جانور کا مُردہ نجس ہے جس کی رگ سے ذبح کرتے وقت خون اچھل کر نکلے چاہے جانور خود مر گیا ہو یا خلاف شریعت ذبح کیا گیا ہو۔ مسلمان کی لاش غسل دینے کے بعد نجس نہیں رہتی۔

۵ ۔ خون ۔ آدمی اور ہر اُس جانور کا خون نجس ہے جو خون جہندہ رکھتا ہو ۔ مچھلی ، کھٹمل ۔ مچھر کا خون اِس لئے نجس نہیں ہے کہ ان میں اچھلنے والا خون نہیں ہے۔

۶ ۔ ۷ ۔کتا اور سور ۔ خشکی کے کتے اور سور کا سارا جسم نجس ہے ۔ اگر تری کے ساتھ کسی کا بدن یا لباس اس سے مس ہو جائے تو اسے بھی نجس کر دےگا۔

۸ ۔ کافر ۔ ہر وہ شخص نجس ہے جو خدا اور رسولؐ کا منکر ہو یا ایسے مسئلے کا انکار کرے جو اسلام میں واضح اور تمام مسلمانوں میں اتفاقہ ہو جیسے نماز ، روزہ کا واجب ہونا۔ یہی وجہ ہے کہ نماز ، روزہ کا مذاق اڑانے والا مسلمان کافر ہو جاتا ہے اور کافر نجس ہے بلکہ اس کا مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

۳۸

۹ ۔ شراب ۔ ہر قسم کی شراب نجس ہے اور اس کا پینا حرام ہے لیکن دوسری نشہ والی چیزیں جیسے بھنگ ، گانجہ ، چرس وغیرہ نجس نہیں ہیں لیکن ان کا کھانا پینا حرام ہے۔

۱۰ ۔ فقاع ۔ جو کی بنائی ہوئی شراب بھی نجس اور حرام ہے لیکن حکیموں کا بنایا ہوا " آب جو " شراب نہیں ہے لہذا پاک ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کون کون سے جانور کا مردار نجس ہے ؟

۲ ۔ دریائی کتا اور سور نجس ہے یا نہیں ؟

۳ ۔ نماز کا مذاق اڑانے والا پاک ہے یا نجس ؟

۴ ۔ جوں اور مکھی کا خون نجس ہے یا پاک ؟

۳۹

انیسواں سبق

پانی

پانی دو طرح کا ہوتا ہے :۔

۱ ۔ مضاف پانی ۔ یعنی وہ بہنے والی چیز جسے بغیر کسی قید کے صرف پانی نہ کہہ سکےیں جیسے عرق گلاب ، عرق لیمو وغیرہ ۔ دیکھنے میں عرق گلاب بھی پانی معلوم ہوتا ہے اور عرق لیموں بھی۔ مگر یہ خالص پانی نہیں ہے ۔ مضاف پانی کم ہو یا زیادہ نجاست کے ملتے ہی نجس ہو جاتا ہے آب مضاف سے نہ تو طہارت ہو سکتی ہے اور نہ وضو یا غسل کیا جا سکتا ہے۔

۲ ۔خالص پانی ۔ جسے ہم بغیر کسی قید کے پانی کہہ سکتے ہیں۔

خالص پانی چار طرح کا ہوتا ہے۔( ۱) ۔ قلیل پانی۔( ۲) ۔ کثیر پانی ۔ ( ۳) ۔ جاری پانی ۔( ۴) ۔ بارش کا پانی۔

قلیل پانی ۔ وہ ٹھہرا پانی ہے جو ایک کڑ سے کم ہو اور جاری نہ ہو۔ یہ پانی نجاست کے ملتے ہی نجس ہو جاتا ہے خواہ اسکا رنگ و بو اور مزہ نہ بدلے قلیل پانی سے طہارت بھی ہو سکتی ہے اور وضو و غسل بھی ہو سکتا ہے۔

کثیر پانی ۔ وہ ٹھہرا ہوا پانی ہے جو ایک کر یا اس سے زیادہ ہو۔

کر پانی ۔ وہ پانی ہے جس کو ناپیں تو تین بالشت لمبا ، تین بالشت چوڑا اور تین بالشت گہرا و۔

یہ اُسی وقت نجس ہوتا ہے جب اس کا رنگ یا بو مزہ نجاست سے مل کر بدل جائے۔

جاری پانی ۔ یعنی وہ پانی جو زمین سے پھوٹ کر نکلے چاہے کڑ بھر ہو یا کرسے کم۔ یہ پانی محض نجاست کے پڑنے سے نجس نہیں ہوتا جب تک نجاست سے مل کر اس کا رنگ یا بو یا مزہ نہ بدل جائے۔

۴۰

بارش کا پانی ۔ برستے وقت بارش کے پانی کا حکم وہی ہے جو جاری پانی کا ہے بشرطیکہ اتنا ہو کہ اسے بارش کہہ سکیں۔

آب قلیل پر بارش ہو رہی ہو تو بارش ختم ہونے سے پہلے تک وہ بھی جاری پانی کے حکم میں رہے گا اور جب پانی برس کے تھم جائےگا تو بارش کے پانی کا حکم بھی قلیل پانی کا ہو جائےگا۔ ہاں اگر کہیں اتنا پانی اکٹھا ہو جائے کہ کر یا کر سے زائد ہو تو پھر اس کا حکم آب جاری ہی کا رہےگا۔

سوالات :

۱ ۔ پانی کی کتنی قسمیں ہیں ؟

۲ ۔ مضاف پانی کا کیا حکم ہے ؟

۳ ۔ خالص پانی کی کتنی قسمیں ہیں ؟

۴ ۔ قلیل پانی کسے کہتے ہیں ؟ اور اس کا کیا حکم ہے ؟

۵ ۔ کثیر پانی کسے کہتے ہیں ؟ اور اس کا حکم کیا ہے ؟

۶ ۔ کڑ کسے کہتے ہیں ؟ اور اس کی مقدار بتاؤ ؟

۷ ۔ بارش جب قلیل پانی پر ہو رہی ہو تو اس کا حکم کیا ہے ؟ اور جب بارش رُک جائے تو کیا ہے ؟

۸ ۔ بارش کا پانی کر سے کم ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟

۴۱

تیسواں سبق

پانی سے طہارت

بدن یا کوئی دوسری چیز جس میں نجاست نہیں سمائی اگر پیشاب سے نجس ہو جائے تو دو مرتبہ دھونا چاہئے۔ اور اگر پیشاب کے علاوہ کسی اور نجاست کے لگ جانے سے نجس ہو تو آب قلیل و کثیر دونوں سے ایک مرتبہ دھونا کافی ہے مگر بہتر یہ ہے کہ دو مرتبہ دھویا جائے۔

کثیر یا کوئی دوسری شے جس میں نجاست سما جاتی ہے اگر پیشاب سے نجس ہو جائے تو دو مرتبہ اس طرح دھونا چاہئیے کہ ایک مرتبہ پانی ڈال کر اسے نچوڑیں پھر دوسری مرتبہ پانی ڈال کر پھر نچوڑیں۔

اگر پیشاب کے علاوہ وہ کسی اور چیز سے نجس ہو جائے تو نجاست دور کرنے کے بعد آب قلیل سے ایک مرتبہ دھو کر نچورنا کافی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر پیشاب سے بدن نجس ہو جائے تو اس کی کیونکرطہارت ہوگی ؟

۲ ۔ پیشاب کے علاوہ دوسری نجاست سے بدن نجس ہو جائے تو آب قلیل سے کیونکر طہارت ہوگی ؟

۳ ۔ اگر بدن پیشاب یا کسی دوسری نجاست سے نجس ہو جائے تو آب کثیر سے کیونکرطہارت ہوگی ؟

۴۲

اکتیسواں سبق

برتن کا پاک کرنا

اگر برتن نجس ہو جائے تو آب قلیل سے تین مرتبہ دھونے سے وہ برتن پاک ہو جائےگا۔

پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس برتن میں تین مرتبہ پانی ڈالیں اور پانی کو برتن کے اندر گھمائیں اور پھینک دیں یا تین مرتبہ اس برتن کو پانی بھر کے فوراً پانی گرا دیں۔

آب کثیر ، آب جاری اور بارش کے پانی سے جب برس رہا ہو ایک مرتبہ کافی ہے۔ اگر چہ بہتر یہی ہے کہ تین مرتبہ دھویا جائے۔

اگر کتا کسی برتن کو چاٹ لے تو پہلے پاک مٹی سے مانجھ کر ساف کرنا چاہئیےپھر دو مرتبہ پانی سے دھونا چاہئیے لیکن اگر آب کثیر یا آب جاری ہو تو صرف ایک مرتبہ دھونا کافی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کتا اگر برتن چاٹ لے تو کیسے طہارت کی جائےگی ؟

۲ ۔ قلیل اور کثیر پانی سے نجس برتن کو کتنی بار دھونا ضروری ہے ؟

۳ ۔ اگر پیشاب سے کپڑا نجس ہو جائے تو اسے کس طرح پاک کرنا چاہئیے ؟

۴۳

بتیسواں سبق

زمین اور آفتاب کے ذریعہ طہارت

پیر کا تلوا یا جوتے کا تلا نجس ہو جائے تو زمین پر چلنے سے نجاست کے دور ہو جانے کے بعد پاک ہو جائےگا بشرطیکہ زمین خشک ہو۔ تلوے یا جوتے کے تلے کا خشک ہونا کوئی ضروری نہیں ہے۔

زمین اور ناقابل نقل چیزیں جیسے عمارت ، درخت ، اور وہ ظروف جو زمین میں گڑے ہوئے ہوں یا بہت بڑی بڑی چٹائیاں اگر نجس ہو جائیں اور وہ تر ہوں اور آفتاب کی تمازت سے خشک ہو جائیں تو اصل نجاست کے دور ہو جانے کے بعد پاک ہو جائیںگی اور اگر خشک ہوں تو جہاں نجاست لگی ہو وہاں پانی ڈال دیا جائے۔ پھر جب خشک ہو جائیں تو پاک ہو جائیںگی۔ جو چیزیں منتقل ہو سکتی ہیں وہ اس طرح پاک نہیں ہو سکتیں۔

سورج سے طہارت کے لئے ضروری ہے کہ شعاعیں براہ راست نجاست پر پڑیں اور چیز بھی صرف آفتاب کی گرمی سے خشک ہو ، ہوا وغیرہ سے خشک نہ ہو۔

سوالات :

۱ ۔ زمین کن چیزوں کو پاک کر سکتی ہے اور کن شرطوں سے ؟

۲ ۔ آفتاب کن چیزوں کو پاک کر سکتا پہے ؟

۳ ۔ پیر کا تلوا یا جوتے کا تلا اگر نجس ہو جائے تو وہ زمین سے کس طرح پاک ہو سکتا ہے؟

۴۴

تنتیسواں سبق

طہارت کی دو مخصوص صورتیں

انسان کے علاوہ وہ دیگر جانور جو پاک ہیں جیسے گھوڑا ، بلی ، اونٹ وغیرہ اگر ان کے بدن پر نجاست لگ جائے تو پانی سے پاک کرنے کی ضرورت نہیں صرف نجاست کا دور ہو جانا کافی ہے ۔

انسان کے اندرونی اعضا مثلاً ناک وغیرہ کے اندرونی حصے اگر نجس ہو جائے تو انھیں بھی پانی سے پاک کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف نجاست کا دور ہو جانا کافی ہے ۔ لیکن ظاہری اعضاء سے صرف نجاست کا دور ہو جانا کافی نہیں بلکہ پانی سے پاک کرنا بھی ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ گھوڑے کے بدن پر اگر خون یا کوئی نجاست لگی ہو تو کیسے پاک ہوگا ؟

۲ ۔ اگر بلی کا منھ نجس ہو جائے اور عین نجاست زائل ہونے پر وہ کسی برتن میں کھا لے یا پی لے تو کیا وہ برتن نجس ہو جائےگا ؟

۳ ۔ منھ یا ناک اندر سے نجس ہوں تو کیسے پاک ہوںگے ؟

۴۵

چونتیسواں سبق

وضو

وضو کے معنی ہیں نیت کے ساتھ چہرہ اور دونوں ہاتھوں کا دھونا اور سر اور دونوں پیروں کا مسح کرنا۔

چہرہ لمبائی میں سر کے بال اُگنے کی جگہ سے ٹھڈی کے کانرے تک اور چوڑائی میں انگوٹھے اور بیچ کی اُنگلی کے درمیان کے حصہ کا دھونا واجب ہے بلکہ واجب حصے سے کچھ زیادہ حصہ اور ناک کے اندر کا بھی کچھ حصہ لے لیں تا کہ چہرے کے پورے واجب حصے کا دھو لینا یقینی ہو جائے۔

دونوں ہاتھوں کا کہنی سے انگلیوں کے سرے تک دھونا اور کہنی کے کچھ اور اوپر سے پانی ڈالنا چاہئیے تاکہ پوری کہنی کے دھلنے کا یقین ہو جائے۔

سر کا مسح پوری ہتھیلی سے بھی کر سکتے ہیں اور ایک انگلی سے بھی لیکن تین انگلیوں سے مسح کرنا بہتر ہے۔

سر کا مسح سر کے اگلے حصے اور اس پر اُگے ہوئے بالوں پر کرنا چاہئیے لیکن اگر اگلے حصے پر اتنے بڑے بال ہوں کہ پھیلا دیا جائے تو سر کے آگے کے حصے سے بڑھ جائیں تو اُن بڑھے ہوئے بالوں پر مسح کرنا جائز نہیں ہے بلکہ بالوں کو ہٹا کر بالوں کی جڑوں پر یا صلہ پر مسح کرنا چاہئیے۔

پیر کے مسح کی چوڑائی کا برائے نام ہونا بھی کافی ہے لیکن افضل یہ ہے کہ تین انگلیوں سے کیا جائے اور سب سے بہتر یہ ہے کہ پورے اوپر کے حصے کا مسح کیا جائے لیکن لمبائی میں پیر کی انگلیوں کے سرے سے ٹخنے تک مسح کرنا واجب ہے ۔

۴۶

اگر مسح کے لئے سر پر ہاتھ رکھا جائے اور بجائے ہاتھ کھینچنے کے سر کو حرکت دی جائے تو مسح صحیح نہیں ہوگا۔

اسی طرح اگر پیر کا مسح کرتے وقت ہاتھ ، پیر پر رکھا جائے اور ہاتھ پھرنے کے بجائے پیر کو حرکت دیدی جائے تو اس صورت میں بھی مسح نہیں صحیح ہوگا کیونکہ یہ سر اور پیر کا مسح نہیں ہوا بلکہ سر اور پیر کے ذریعہ ہاتھوں کا مسح ہو گیا۔

مسح ہتھیلی کی بچی ہوئی تری سے کرنا چاہئیے۔ اگر تری مسح کرنے سے پہلے خشک ہو جائے تو داڑھی میں جو تری ہو اس سے تری لے کر مسح کرے۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے پانی یا تری سے مسح کرنا صحیح نہیں ہے ۔

سو ۱ لات :

۱ ۔ وضو کیا ہے ؟

۲ ۔ چہرہ کی لمبائی میں کتنا دھونا چاہئیے اور چوڑائی میں کتنا ؟

۳ ۔ ہاتھوں کو کتنا دھونا چاہئیے ؟

۴ ۔ کیا سر کے مسح کا کوئی مخصوص طریقہ ہے ؟

۵ ۔ اگر ہاتھ کی تری پہلے سے خشک ہو جائے تو کیا کرنا چاہئیے ؟

۴۷

پینتیسواں سبق

وضو کن باتوں سے ٹوٹ جاتا ہے

ان پانچ باتوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے :

( ۱) ۔ پیشاب نکلنا۔ ( ۲) ۔ پائخانہ نکلنا۔ ( ۳) ۔ ریح کا خارج ہونا۔ ( ۴) ۔ ہر وہ امر جس سے عقل زائل ہو جائے جیسے جنون ، بیہوشی۔ ( ۵) ۔ ایسی نیند جو آنکھوں اور کانوں پر غالب آ جائے۔ اگر آنکھیں نیند کے جھوکوں سے بند ہو جائیں لیکن کان بیدار ہوں تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔ بغیر وضو کے قرآن کے حروفوں اور اسمائے باری تعالی کا چھونا حرام ہے مگر قرآن کے سادہ ورق یا سطروں کی درمیانی جگہ یا حاشیہ یا جلد کا چھونا حرام نہیں۔

انبیاء ، ائمہ معصومینؐ اور جناب فاطمہ زہراؐ کے ناموں کو بھی بغیر وضو کے نہ چھونا چاہئیے۔

سوالات :

۱ ۔ وضو کن باتوں سے ٹوٹ جاتا ہے ؟

۲ ۔ اگر آنکھوں پر نیند غالب ہو لیکن کانوں پر نہیں تو کیا وضو ٹوٹ جائے گا ؟

۳ ۔ بغیر وضو کن چیزوں کا چھونا حرام ہے ؟

۴۸

چھتیسواں سبق

شرائط وضو

شرائط وضو دس ہیں۔ ( ۱) نیت ۔ یعنی دل میں یہ ارادہ کرے کہ صرف خوشنودی خدا کے لئے وضو کر رہا ہوں۔ دنیا کو دکھانے کے ارادے سے وضو کرنا ، وضو کو باطل کر دیتا ہے۔ ( ۲) پانی پاک ہو ۔ نجس پانی سے وضو نہیں ہے۔

اعضا وضو پاک ہوں۔ اگر نجس ہوں تو وضو سے پہلے پاک کر لینا چاہئیے۔ ( ۴) خالص پانی سے وضو کیا جائے۔ آب مضاف جیسے عرق گلاب وغیرہ سے وضو نہیں ہے۔ ( ۵) پانی مباح ہو یعنی غصبی نہ ہو جس برتن میں ہو وہ بھی مباح ہو ، جہاں بیٹھ کر وضو کیا جائے وہ جگہ بھی مباح ہو اگر غصبی پانی سے یا غصبی برتن میں پانی لے کر یا غصبی جگہ پر بیٹھ کر وضو کیا جائے گا تو وضو صحیح نہیں ہو گا۔( ۶) اگر اعضا وضو پر کوئی چیز ایسی موجود ہو جو کھال انگلی میں انگوٹھی ہو تو اسے اُتار دیا جائے یا اُس کو حرکت دیدی جائے تاکہ پانی پہنچ جائے۔ اسی طرح اگر میل اتنا ہو جو پانی کو کھال تک نہ پہنچنے دے تو اس میل کا چھڑانا بھی واجب ہے۔ اسی طرح اگر نیل پالش لگی ہو تو وضو درست نہ ہو گا۔ ( ۷) ترتیب ، ترتیب کے معنی یہ ہیں کہ پہلے چہرہ کو دھویا جائے پھر داہنا ہاتھ پھر بایاں ہاتھ دھویا جائے۔

۴۹

اس کے بعد اگر سر کا مسح کیا جائے پھر دائیں پیر کا اور پھر بائیں پیر کا مسح کیا جائے اگر ترتیب میں خلل واقع ہو جائے تو پھر سے اس عضو کو دھونا چاہئیے جس سے ترتیب بگڑی ہے۔ مزلاً اگر کسی نے پہلے دایاں ہاتھ دھو لیا بعد میں چہرے پر پانی ڈالا تو وضو تب صحیح ہو گا جب چہرہ دھونے کے بعد پھر دایاں ہاتھ دھوئے اور اس کے بعد وضو کو مکمل کرے۔ ( ۸) موالات یعنی پہلے عضو کے خشک ہونے سے پہلے اس کے بعد والے عضو کو دھو لینا چاہئیے ۔ مثلاً چہرہ کے خشک ہونے سے پہلے دایاں ہاتھ دھو لے اور دایاں ہاتھ خشک ہونے سے پہلے بایاں ہاتھ دھو لے۔ ( ۹) پانی کے استعمال سے بیماری کا خطرہ نہ ہو۔ ( ۱۰) وضو کرنا خود ضروری ہے البتہ مجبور شخص کو دوسرا شخص وضو کرا سکتا ہے مگر نیت خود وضو کرنے والے کو کرنا ہو گی۔

سوالات :

۱ ۔ شرائط وضو کیا ہیں ؟

۲ ۔ نیت کیا ہے ؟

۳ ۔ اگر اعضا ، وضو نجس ہوں تو کیا کرنا چاہئیے ؟

۴ ۔ آب مضاف سے وضو صحیح ہے یا نہیں ؟

۵ ۔ اگر ہاتھ میں انگوٹھی ہو تو کیا کرنا چاہئیے ؟

۶ ۔ اگر ناخن پر نیل پالش لگی ہو تو کیا کرنا چاہئیے ؟

۵۰

سینتیسواں سبق

طہارت و حدث

اگر پہلے سے باوضو ہوں بعد میں کسی وجہ سے شک ہو جائے کہ وضو ٹوٹا یا نہیں تو ایسے شک کی طرف توجہ نہ کرنا چاہئیے اور وضو کو باقی سمجھنا چاہئیے۔ مثلاً کسی شخص کی آنکھیں اونگھنے میں بند ہو جائیں اور شک ہو کہ نیند کا غلبہ ہوا یا نہیں تو اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا۔

اسی طرح اگر شک ہو کہ وضو کے بعد پیشاب پائخانہ کیا ہے یا نہیں تو اس صورت میں بھی اپنے کو باوضو سمجھنا چاہئیے اور شک کی طرف کوئی توجہ نہ کرنا چاہئیے

لیکن اگر پہلے سے بے وضو ہو اور شک ہو جائے کہ بعد میں وضو کیا تھا یا نہیں تو وضو کرنا چاہئیے لیکن اگر یہ شک بعد نماز پیدا ہو جیسے کسی نے نماز پڑھی اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد شک پیدا ہوا کہ میں نے وضو بھی کیا تھا یا نہیں تو اس صورت میں نماز دوبارہ پڑھنا واجب نہیں ہے صرف آئندہ نمازوں کے لئے وضو کرنا چاہئیے لیکن اگر نماز کے بیچ میں یہ شک پیدا ہو جائے کہ میں نے وضو کیا تھا یا نہیں تو نماز توڑ دے اور وضو کر کے پھر سے نماز پڑھے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر طہارت کا یقین ہو اور حدث کا شک ہو تو کیا حکم ہے ؟

۲ ۔ اگر حدث کا یقین ہو اور طہارت کا شک ہو تو کیا حکم ہے ؟

۳ ۔ اگر نماز کے درمیان شک ہو کہ وضو کیا تھا یا نہیں تو کیا کرنا چاہئیے ؟

۵۱

اڑتیسواں سبق

غسل

واجب غسل چھ ہیں۔ ( ۱) جنابت ( ۲) مس میت ( ۳) میت۔

یہ تین غسل مردوں اور عورتوں دونوں پر واجب ہوتے ہیں لیکن عورتوں پر ان غسلوں کے علاوہ ۰۴) حیض ( ۵) نفاس ( ۶) استحاضہ کا غسل بھی واجب ہوتا ہے۔

جنابت اور حیض کی حالت میں تین باتیں حرام ہیں : ( ۱) مسجد اور معصومینؐ کے حرم میں جانا۔ ( ۲) قرآن مجید کے حرفوں کا چھونا۔ ( ۳) جن سوروں میں واجب سجدہ ہیں ان کا پڑھنا۔

غسل کے دو طریقے ہیں : ( ۱) ترتیبی ( ۲) ارتماسی۔

غسل ترتیبی کی مختلف شکلیں غسل ترتیبی کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے جسم سے گندگی اور چکنائی وغیرہ کو دور کر کے بدن کو پاک کرے پھر اس طرح نیت کرے کہ غسل کرتا ہوں قربتہً الی اللہ اس کے بعد سر اور گردن دھوئے ، پھر بدن کے داہنے حصے کو پھر بائیں حصے کو اس طرح دھوئے کہ پانی جلد تک پہنچ جائے۔ چاہے ہاتھ پھیر کر ہی تمام بدن تک پانی پہونچایا جائے۔

دریا یا تالاب میں غسل ترتیبی کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ تین مرتبہ غوطہ لگایا جائے ایک مرتبہ سر کی نیت سے دوسری مرتبہ داہنے حصہ بدن کی نیت سے اور تیسری مرتبہ بائیں حصے کی نیت سے۔

سر اور گردن دھوتے وقت یہ ضروری ہے کہ سر و گردن کے علاوہ کچھ حصہ بڑھا کر دھوئے۔

اسی طرح دایا ں حصہ جسم دھوتے وقت بائیں کا کچھ اور بایاں حصہ بدن دھوتے وقت دائیں کا کچھ حصہ بھی دھونا چاہئیے تاکہ یقین ہو جائے کہ جتنا دھونا واجب تھا اتنا دھل گیا۔

۵۲

غسل ترتیبی میں اختیار ہے کہ جس طرف سے چاہے شروع کرے۔ اوپر سے نیچے کی طرف دھونے کی شرط نہیں ہے بلکہ چاہے اوپر سے شروع کرے چاہے نیچے سے یا درمیان سے۔غسل ترتیبی میں صرف ترتیب لازم ہے۔ یونی پہلے سر اور گردن کو دھوئے پھر باقی جسم کو۔ موالات لازم نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ غسل کے کتنے طریقے ہیں ؟

۲ ۔ غسل ترتیبی کا کیا طریقہ ہے ؟

۳ ۔ واجب غسل کتنے ہیں ؟

۴ ۔ جنابت کی حالت میں کیا کیا حرام ہے

۵۳

انتالیسواں سبق

غسل ارتماسی

غسل ارتماسی یہ ہے کہ نیت کے ساتھ ہی اس طرح پانی میں غوطہ لگائے کہ سارا بدن پانی کے اندر ڈوب جائے اور کوئی حصہ باہر نہ رہ جائے۔ غسل ارتماسی میں سارے بدن کا پانی سے باہر ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ تالاب یا دریا میں کھڑے ہو کر غسل کی نیت کر کے غوطہ لگا سکتا ہے۔

اگر غسل ارتماسی کرنے کے بعد کسی کو یہ یقین ہو جائے کہ کسی حصہ بدن پر پانی نہیں پہونچ سکا تو پھر سے پورا غسل کرے صرف اس جگہ کا دھو لینا کافی نہیں ۔ غسل میں بال کو دھونا ضروری نہیں لہذا عورت کے لئے غسل کرتے وقت اپنے گندھے ہوئے بالوں کو کھولنا لازم نہیں ہے البتہ بالوں کے نیچے جلد تک پانی کا پہونچنا لازم ہے۔ روزہ کی حالت میں غسل ارتماسی نہیں ہو سکتا کیوں کہ روزہ میں سر کا ڈوبونا حرام ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر غسل ارتماسی کرنے کے بعد یہ یقین ہو جائے کہ کسی حصہ بدن پر پانی نہیں پہونچ سکا تو کیا کرنا چاہئیے ؟

۲ ۔غسل میں بالوں کا دھونا ضروری ہے یا نہیں اگر عورت کے بال گندھے ہوئے ہوں تو اسے کیا کرنا چاہئیے ؟

۵۴

چالیسواں سبق

غسل کی شرطیں

( ۱) نیت ( ۲) پانی پاک ہو ( ۳) اعضائے غسل پاک ہوں ( ۴) پانی خالص ہو مضاف نہ ہو ( ۵) مباح ہو غصبی نہ ہو ( ۶) پانی کا برتن بھی مباح ہو ( ۷) غسل کرنے کی جگہ بھی مباح ہو ( ۸) پانی کا برتن سونے چاندی کا نہ ہو ( ۹) جلد تک پانی پہونچنے سے کوئی مانع ہو تو وہ دور کر لیا جائے ( ۱۰) استعمال سے کوئی امر مانع نہ ہو یعنی کوئی ایسا مرض نہ ہو جس میں پانی نقصان دہ ہو یا غسل کر لینے کی وجہ سے پیاسے رہنے کا خوف نہ ہو یا وقت اتنا تنگ نہ ہو کہ غسل کرنے میں نماز کا وقت نکل جائے۔

سوالات :

۱ ۔ غسل ارتماسی کا کیا طریقہ ہے ؟

۲ ۔ غسل کے ‎ شرائط کیا ہیں ؟

۵۵

اکتالیسواں سبق

احکام غسل

جب انسان غسل کا ارادہ کرے اور اسکا بدن کہیں سے نجس ہو تو اسے اختیار ہے کہ غسل شروع کرنے کے بعد نجاست کی جگہ کو پاک کر لے اسکے بعد اُسے غسل کی نیت سے دھوئے مگر بہتر یہ ہے کہ پہلے ہی نجاست کی جگہ کو پاک کر لے۔ اسی طرح اگر نجس جگہ پر کھڑا ہو تو اختیار ہے چاہے غسل شروع کرنے کے قبل کھڑے ہونے کی جگہ کو پاک کر لے تب غسل شروع کرے چاہے چھوڑ دی اور جب دایاں حصہ بدن دھوتا ہوا پیر دھونے پر آئے تو پہلے پیر کو پاک کرے بعد میں دایاں پیر غسل کی نیت سے دھوئے۔ اسی طرح جب بایاں حصہ بدن دھوتا ہوا بائیں پیر دھونے پر آئے تو پہلے پیر پاک کرے پھر بائیں پیر کو غسل کی نیت سے دھوئے۔ اسی طرح غسل صحیح ہو جائےگا صرف بعد میں پیر پاک کرنا پڑے گا۔

ماہ رمضان میں دن کے وقت روزہ کی حالت میں غسل ارتماسی کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر کسی نے بھولے سے ماہ صیام میں غسل ارتماسی کر لیا ہے تو روزہ اور غسل دونوں صحیح رہیں گے اور اگر جان بوجھ کر ایسا لیا ہے تو روزہ اور غسل دونوں باطل ہانگے۔

غسل جنابت کے بعد وضو نہیں کرنا چاہئیے۔

سوالات :

۱ ۔ بدن ہر نجاست لگی ہو تو کیا کرے ؟

۲ ۔ غسل کرنے والا نجس جگہ پر کھڑا ہو تو کیا کرنا چاہئیے ؟

۳ ۔ کس غسل کے بعد وضو جائز نہیں ہے ؟

۵۶

بیالیسواں سبق

تیمم

اگر پانی نہ مل؛ سکتا ہو یا اس سے نقصان کا خطرہ ہو یا اس کا خریدنا حیثیت سے زیادہ ہو یا اس کے حاصل کرنے میں کوئی چوری ہو جانے کا اندیشہ ہو یا نماز کے وقت میں غسل و وضو کی گنجائش نہ ہو یا وضو کرنے کے بعد پالیں سے مرنے یا شدید تکلیف پہونچنے کا خطرہ ہو تو وضو یا غسل کے بدلے تیمم کر کے نماز پڑھنا واجب ہے۔

تیمم مٹی یا پتھر پر کرے اگر وہ نہ ہو تو گرد و غبار پر اور اگر وہ بھی نہ ہو تو گیلی مٹی پر تیمم کرے۔ تیمم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نیت کر کے زمین پر دونوں ہاتھ مارے اور انھیں جھاڑ کر پوری پیشانی کا مسح اوپر سے نیچے کی طرف کرے۔ اس کے بعد بائیں کی ہتھیلی سے داہنے ہاتھ کی پشت کا اور داہنے ہاتھ کی ہتھیلی سے بائیں ہاتھ کی پشت کا مسح کرے پھر احتیاطاً دوبارہ ہاتھ مارے اور صرف دونو ہاتھوں کا مسح کرے۔ تیمم چاہے وضو کے بدلے ہو یا غسل کے عوض دونوں صورتوں میں تیمم کرنے کا طریوہ یہی ہوگا۔ تیمم کو ہمیشہ آخری وقت میں کرنا چاہئیے لیکن اگر کسی کو یقین ہو جائے کہ میرا عذر یا مرض آخر وقت تک باقی رہےگا تو اول وقت بھی تیمم کر سکتا ہے۔ پھر اگر اس کے بعد وقت کے اندر عذر ختم ہو جائے تو دوبارہ نماز ادا کرنا چاہئیے۔

تیمم غسل کا مکمل بدل ہوتا ہے لہذا اس سے نماز بھی پڑھی جا سکتی ہے اور مسجد میں بھی داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ سوچنا کہ اس میں غسل کا لطف نہیں ہے یا اس سے دل نہیں بھرتا اسلام کے خلاف ہے۔ حکم خدا کی کسی انداز سے بھی توہین و مخلافت نہیں کی جا سکتی۔

سوالات :

۱َ تیمم کب کرنا چاہئیے ؟

۲ ۔ تیمم کن چیزوں پر صحیح ہوگا ؟

۳ ۔ تیمم کرنے کا طریوہ بتائے ؟

۵۷

فہرست

معلمّ کے لئے ہدایت ۴

پہلا سبق ۵

مذہب ۵

سوالات : ۵

دوسرا سبق ۶

اگر خدا نہ ہوتا ۶

سوالات : ۶

تیسرا سبق ۷

خدا کو بغیر دیکھے کیوں مانتے ہیں ؟ ۷

سوالات : ۷

چوتھا سبق ۸

ہمارا خدا ۸

سولات : ۸

پانچواں سبق ۹

مذہب اور لا مذہبیت ۹

سوالات : ۹

چھٹا سبق ۱۰

اصول اور فروع ۱۰

سوالات : ۱۰

۵۸

ساتواں سبق ۱۱

خدا عادل ہے ۱۱

سوالات : ۱۱

آٹھواں سبق ۱۲

نبوت ۱۲

سوالات : ۱۲

نواں سبق ۱۳

ہمارے رسولؐ ۱۳

سوالات : ۱۳

دسواں سبق ۱۴

امام ۱۴

سوالات : ۱۴

گیارہواں سبق ۱۵

ہمارے پہلے امامؐ ۱۵

سوالات : ۱۵

بارہواں سبق ۱۶

حضرت علیؐ کے اخلاق ۱۶

سوالات : ۱۶

تیرہواں سبق ۱۷

بارہ اماموں کی عمریں ۱۷

۵۹

سوالات : ۱۸

چودھواں سبق ۱۹

موت کے بعد ۱۹

سوالات : ۲۰

پندہواں سبق ۲۱

قرآن معجزہ ہے ۲۱

سوالات:۔ ۲۱

سولہواں سبق ۲۲

آداب تلاوت ۲۲

سالات : ۲۲

سترہواں سبق ۲۳

فرشتے ۲۳

سوالات : ۲۳

اٹھارہواں سبق ۲۴

اسباب خیر و برکت ۲۴

سوالات : ۲۴

انیسواں سبق ۲۵

اسباب نحوست ۲۵

سوالات : ۲۶

بیسواں سبق ۲۷

۶۰

61

62

63

64