امامیہ اردو دینیات درجہ سوم جلد ۳

امامیہ اردو دینیات درجہ سوم50%

امامیہ اردو دینیات درجہ سوم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 64

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 64 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45360 / ڈاؤنلوڈ: 3719
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ سوم

امامیہ اردو دینیات درجہ سوم جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا

زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا

مری خموشی نہیں ہے ، گویا مزار ہے حرف آرزو کا

*

جو موج دریا لگی یہ کہنے ، سفر سے قائم ہے شان میری

گہر یہ بولا صدف نشینی ہے مجھ کو سامان آبرو کا

*

نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل ، وہ تربیت سے نہیں سنورتے

ہوا نہ سرسبز رہ کے پانی میں عکس سرو کنار جو کا

*

کوئی دل ایسا نظر نہ آیا نہ جس میں خوابیدہ ہو تمنا

الہی تیرا جہان کیا ہے نگار خانہ ہے آرزو کا

*

کھلا یہ مر کر کہ زندگی اپنی تھی طلسم ہوس سراپا

جسے سمجھتے تھے جسم خاکی ، غبار تھا کوئے آرزو کا

*

اگر کوئی شے نہیں ہے پنہاں تو کیوں سراپا تلاش ہوں میں

نگہ کو نظارے کی تمنا ہے، دل کو سودا ہے جستجو کا

*

چمن میں گلچیں سے غنچہ کہتا تھا ، اتنا بیدرد کیوں ہے انساں

تری نگاہوں میں ہے تبسم شکستہ ہونا مرے سبو کا

*

۴۱

ریاض ہستی کے ذرے ذرے سے ہے محبت کا جلوہ پیدا

حقیقت گل کو تو جو سمجھے تو یہ بھی پیماں ہے رنگ و بو کا

*

تمام مضموں مرے پرانے ، کلام میرا خطا سراپا

ہنر کوئی دیکھتا ہے مجھ میں تو عیب ہے میرے عیب جو کا

*

سپاس شرط ادب ہے ورنہ کرم ترا ہے ستم سے بڑھ کر

ذرا سا اک دل دیا ہے ، وہ بھی فریب خوردہ ہے آرزو کا

*

کمال وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوک نشتر سے تو جو چھیڑے

یقیں ہے مجھ کو گرے رگ گل سے قطرہ انسان کے لہو کا

*

گیا ہے تقلید کا زمانہ ، مجاز رخت سفر اٹھائے

ہوئی حقیقت ہی جب نمایاں تو کس کو یارا ہے گفتگو کا

*

جو گھر سے اقبال دور ہوں میں ، تو ہوں نہ محزوں عزیز میرے

مثال گوہر وطن کی فرقت کمال ہے میری آبرو کا

***

۴۲

چمک تیری عیاں بجلی میں ، آتش میں ، شرارے میں

چمک تیری عیاں بجلی میں ، آتش میں ، شرارے میں

جھلک تیری ہویدا چاند میں ،سورج میں ، تارے میں

*

بلندی آسمانوں میں ، زمینوں میں تری پستی

روانی بحر میں ، افتادگی تیری کنارے میں

*

شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوق تکلم کی

چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں

*

جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے

شجر میں ، پھول میں ، حیواں میں ، پتھر میں ، ستارے میں

*

مجھے پھونکا ہے سوز قطرۂ اشک محبت نے

غضب کی آگ تھی پانی کے چھوٹے سے شرارے میں

*

نہیں جنس ثواب آخرت کی آرزو مجھ کو

وہ سوداگر ہوں ، میں نے نفع دیکھا ہے خسارے میں

*

سکوں نا آشنا رہنا اسے سامان ہستی ہے

تڑپ کس دل کی یا رب چھپ کے آ بیٹھی ہے پارے میں

*

صدائے لن ترانی سن کے اے اقبال میں چپ ہوں

تقاضوں کی کہاں طاقت ہے مجھ فرقت کے مارے میں

***

۴۳

یوں تو اے بزم جہاں! دلکش تھے ہنگامے ترے

یوں تو اے بزم جہاں! دلکش تھے ہنگامے ترے

اک ذرا افسردگی تیرے تماشاؤں میں تھی

*

پا گئی آسودگی کوئے محبت میں وہ خاک

مدتوں آوارہ جو حکمت کے صحراؤں میں تھی

*

کس قدر اے مے! تجھے رسم حجاب آئی پسند

پردہ انگور سے نکلی تو میناؤں میں تھی

*

حسن کی تاثیر پر غالب نہ آ سکتا تھا علم

اتنی نادانی جہاں کے سارے داناؤں میں تھی

*

میں نے اے اقبال یورپ میں اسے ڈھونڈا عبث

بات جو ہندوستاں کے ماہ سیماؤں میں تھی

***

۴۴

مثال پرتو مے ، طوف جام کرتے ہیں

مثال پرتو مے ، طوف جام کرتے ہیں

یہی نماز ادا صبح و شام کرتے ہیں

*

خصوصیت نہیں کچھ اس میں اے کلیم تری

شجر حجر بھی خدا سے کلام کرتے ہیں

*

نیا جہاں کوئی اے شمع ڈھونڈیے کہ یہاں

ستم کش تپش ناتمام کرتے ہیں

*

بھلی ہے ہم نفسو اس چمن میں خاموشی

کہ خوشنواؤں کو پابند دام کرتے ہیں

*

غرض نشاط ہے شغل شراب سے جن کی

حلال چیز کو گویا حرام کرتے ہیں

*

بھلا نبھے گی تری ہم سے کیونکر اے واعظ!

کہ ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں

*

الہی سحر ہے پیران خرقہ پوش میں کیا!

کہ اک نظر سے جوانوں کو رام کرتے ہیں

*

۴۵

میں ان کی محفل عشرت سے کانپ جاتا ہوں

جو گھر کو پھونک کے دنیا میں نام کرتے ہیں

*

ہرے رہو وطن مازنی کے میدانو!

جہاز پر سے تمھیں ہم سلام کرتے ہیں

*

جو بے نماز کبھی پڑھتے ہیں نماز اقبال

بلا کے دیر سے مجھ کو امام کرتے ہیں

***

۴۶

مارچ ۱۹۰۷ء

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا ، عام دیدار یار ہو گا

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا ، عام دیدار یار ہو گا

سکوت تھا پردہ دار جس کا ، وہ راز اب آشکار ہوگا

*

گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے

بنے گا سارا جہان مے خانہ ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا

*

کبھی جو آوارۂ جنوں تھے ، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے

برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خارزار ہو گا

*

سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر

جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا ، پھر استوار ہو گا

*

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا

سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے ، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

*

کیا مرا تذکرہ جوساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں

تو پیر میخانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے ، خوار ہو گا

*

دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ، وہ اب زر کم عیار ہو گا

*

۴۷

تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی

جوشاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ، ناپائدار ہو گا

*

سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا

ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہو گا

*

چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو

یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہو گا

*

جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا

یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا

*

کہا جو قمری سے میں نے اک دن ، یہاں کے آزاد پا بہ گل ہیں

تو غنچے کہنے لگے ، ہمارے چمن کا یہ راز دار ہو گا

*

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں ، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے

میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

*

یہ رسم بزم فنا ہے اے دل! گناہ ہے جنبش نظر بھی

رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہو گا

*

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو

شرر فشاں ہوگی آہ میری ، نفس مرا شعلہ بار ہو گا

*

۴۸

نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا

تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہو گا

*

نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانا ابھی وہی کیفیت ہے اس کی

کہیں سر رہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہو گا

***

۴۹

فہرست

عروس شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے ۴

حقیقت حسن ۶

سوامی رام تیر تھ ۷

طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام ۸

اختر صبح ۹

حسن و عشق ۱۰

کی گود میں بلی دیکھ کر ۱۲

کلی ۱۴

چاند اور تارے ۱۶

وصال ۱۸

سلیمی ۲۰

عاشق ہر جائی ۲۱

(۱) ۲۱

عاشق ہر جائی ۲۳

(۲) ۲۳

کوشش نا تمام ۲۵

نوائے غم ۲۶

عشر ت امروز ۲۷

۵۰

انسان ۲۸

قدرت کا عجیب یہ ستم ہے! ۲۸

جلوۂ حسن ۳۰

( دریائے نیکر "ہائیڈل برگ " کے کنارے پر ) ۳۱

ایک شام ۳۱

تنہائی ۳۲

پیام عشق ۳۳

فراق ۳۴

عبد القادر کے نام ۳۵

( جزیرہ سسلی) ۳۷

صقلیہ ۳۷

غزلیات ۳۹

الہی عقل خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سکھا دے ۴۰

زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا ۴۱

چمک تیری عیاں بجلی میں ، آتش میں ، شرارے میں ۴۳

یوں تو اے بزم جہاں! دلکش تھے ہنگامے ترے ۴۴

مثال پرتو مے ، طوف جام کرتے ہیں ۴۵

مارچ ۱۹۰۷ء ۴۷

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا ، عام دیدار یار ہو گا ۴۷

۵۱

اڑتیسواں سبق

غسل

واجب غسل چھ ہیں۔ ( ۱) جنابت ( ۲) مس میت ( ۳) میت۔

یہ تین غسل مردوں اور عورتوں دونوں پر واجب ہوتے ہیں لیکن عورتوں پر ان غسلوں کے علاوہ ۰۴) حیض ( ۵) نفاس ( ۶) استحاضہ کا غسل بھی واجب ہوتا ہے۔

جنابت اور حیض کی حالت میں تین باتیں حرام ہیں : ( ۱) مسجد اور معصومینؐ کے حرم میں جانا۔ ( ۲) قرآن مجید کے حرفوں کا چھونا۔ ( ۳) جن سوروں میں واجب سجدہ ہیں ان کا پڑھنا۔

غسل کے دو طریقے ہیں : ( ۱) ترتیبی ( ۲) ارتماسی۔

غسل ترتیبی کی مختلف شکلیں غسل ترتیبی کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے جسم سے گندگی اور چکنائی وغیرہ کو دور کر کے بدن کو پاک کرے پھر اس طرح نیت کرے کہ غسل کرتا ہوں قربتہً الی اللہ اس کے بعد سر اور گردن دھوئے ، پھر بدن کے داہنے حصے کو پھر بائیں حصے کو اس طرح دھوئے کہ پانی جلد تک پہنچ جائے۔ چاہے ہاتھ پھیر کر ہی تمام بدن تک پانی پہونچایا جائے۔

دریا یا تالاب میں غسل ترتیبی کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ تین مرتبہ غوطہ لگایا جائے ایک مرتبہ سر کی نیت سے دوسری مرتبہ داہنے حصہ بدن کی نیت سے اور تیسری مرتبہ بائیں حصے کی نیت سے۔

سر اور گردن دھوتے وقت یہ ضروری ہے کہ سر و گردن کے علاوہ کچھ حصہ بڑھا کر دھوئے۔

اسی طرح دایا ں حصہ جسم دھوتے وقت بائیں کا کچھ اور بایاں حصہ بدن دھوتے وقت دائیں کا کچھ حصہ بھی دھونا چاہئیے تاکہ یقین ہو جائے کہ جتنا دھونا واجب تھا اتنا دھل گیا۔

۵۲

غسل ترتیبی میں اختیار ہے کہ جس طرف سے چاہے شروع کرے۔ اوپر سے نیچے کی طرف دھونے کی شرط نہیں ہے بلکہ چاہے اوپر سے شروع کرے چاہے نیچے سے یا درمیان سے۔غسل ترتیبی میں صرف ترتیب لازم ہے۔ یونی پہلے سر اور گردن کو دھوئے پھر باقی جسم کو۔ موالات لازم نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ غسل کے کتنے طریقے ہیں ؟

۲ ۔ غسل ترتیبی کا کیا طریقہ ہے ؟

۳ ۔ واجب غسل کتنے ہیں ؟

۴ ۔ جنابت کی حالت میں کیا کیا حرام ہے

۵۳

انتالیسواں سبق

غسل ارتماسی

غسل ارتماسی یہ ہے کہ نیت کے ساتھ ہی اس طرح پانی میں غوطہ لگائے کہ سارا بدن پانی کے اندر ڈوب جائے اور کوئی حصہ باہر نہ رہ جائے۔ غسل ارتماسی میں سارے بدن کا پانی سے باہر ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ تالاب یا دریا میں کھڑے ہو کر غسل کی نیت کر کے غوطہ لگا سکتا ہے۔

اگر غسل ارتماسی کرنے کے بعد کسی کو یہ یقین ہو جائے کہ کسی حصہ بدن پر پانی نہیں پہونچ سکا تو پھر سے پورا غسل کرے صرف اس جگہ کا دھو لینا کافی نہیں ۔ غسل میں بال کو دھونا ضروری نہیں لہذا عورت کے لئے غسل کرتے وقت اپنے گندھے ہوئے بالوں کو کھولنا لازم نہیں ہے البتہ بالوں کے نیچے جلد تک پانی کا پہونچنا لازم ہے۔ روزہ کی حالت میں غسل ارتماسی نہیں ہو سکتا کیوں کہ روزہ میں سر کا ڈوبونا حرام ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر غسل ارتماسی کرنے کے بعد یہ یقین ہو جائے کہ کسی حصہ بدن پر پانی نہیں پہونچ سکا تو کیا کرنا چاہئیے ؟

۲ ۔غسل میں بالوں کا دھونا ضروری ہے یا نہیں اگر عورت کے بال گندھے ہوئے ہوں تو اسے کیا کرنا چاہئیے ؟

۵۴

چالیسواں سبق

غسل کی شرطیں

( ۱) نیت ( ۲) پانی پاک ہو ( ۳) اعضائے غسل پاک ہوں ( ۴) پانی خالص ہو مضاف نہ ہو ( ۵) مباح ہو غصبی نہ ہو ( ۶) پانی کا برتن بھی مباح ہو ( ۷) غسل کرنے کی جگہ بھی مباح ہو ( ۸) پانی کا برتن سونے چاندی کا نہ ہو ( ۹) جلد تک پانی پہونچنے سے کوئی مانع ہو تو وہ دور کر لیا جائے ( ۱۰) استعمال سے کوئی امر مانع نہ ہو یعنی کوئی ایسا مرض نہ ہو جس میں پانی نقصان دہ ہو یا غسل کر لینے کی وجہ سے پیاسے رہنے کا خوف نہ ہو یا وقت اتنا تنگ نہ ہو کہ غسل کرنے میں نماز کا وقت نکل جائے۔

سوالات :

۱ ۔ غسل ارتماسی کا کیا طریقہ ہے ؟

۲ ۔ غسل کے ‎ شرائط کیا ہیں ؟

۵۵

اکتالیسواں سبق

احکام غسل

جب انسان غسل کا ارادہ کرے اور اسکا بدن کہیں سے نجس ہو تو اسے اختیار ہے کہ غسل شروع کرنے کے بعد نجاست کی جگہ کو پاک کر لے اسکے بعد اُسے غسل کی نیت سے دھوئے مگر بہتر یہ ہے کہ پہلے ہی نجاست کی جگہ کو پاک کر لے۔ اسی طرح اگر نجس جگہ پر کھڑا ہو تو اختیار ہے چاہے غسل شروع کرنے کے قبل کھڑے ہونے کی جگہ کو پاک کر لے تب غسل شروع کرے چاہے چھوڑ دی اور جب دایاں حصہ بدن دھوتا ہوا پیر دھونے پر آئے تو پہلے پیر کو پاک کرے بعد میں دایاں پیر غسل کی نیت سے دھوئے۔ اسی طرح جب بایاں حصہ بدن دھوتا ہوا بائیں پیر دھونے پر آئے تو پہلے پیر پاک کرے پھر بائیں پیر کو غسل کی نیت سے دھوئے۔ اسی طرح غسل صحیح ہو جائےگا صرف بعد میں پیر پاک کرنا پڑے گا۔

ماہ رمضان میں دن کے وقت روزہ کی حالت میں غسل ارتماسی کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر کسی نے بھولے سے ماہ صیام میں غسل ارتماسی کر لیا ہے تو روزہ اور غسل دونوں صحیح رہیں گے اور اگر جان بوجھ کر ایسا لیا ہے تو روزہ اور غسل دونوں باطل ہانگے۔

غسل جنابت کے بعد وضو نہیں کرنا چاہئیے۔

سوالات :

۱ ۔ بدن ہر نجاست لگی ہو تو کیا کرے ؟

۲ ۔ غسل کرنے والا نجس جگہ پر کھڑا ہو تو کیا کرنا چاہئیے ؟

۳ ۔ کس غسل کے بعد وضو جائز نہیں ہے ؟

۵۶

بیالیسواں سبق

تیمم

اگر پانی نہ مل؛ سکتا ہو یا اس سے نقصان کا خطرہ ہو یا اس کا خریدنا حیثیت سے زیادہ ہو یا اس کے حاصل کرنے میں کوئی چوری ہو جانے کا اندیشہ ہو یا نماز کے وقت میں غسل و وضو کی گنجائش نہ ہو یا وضو کرنے کے بعد پالیں سے مرنے یا شدید تکلیف پہونچنے کا خطرہ ہو تو وضو یا غسل کے بدلے تیمم کر کے نماز پڑھنا واجب ہے۔

تیمم مٹی یا پتھر پر کرے اگر وہ نہ ہو تو گرد و غبار پر اور اگر وہ بھی نہ ہو تو گیلی مٹی پر تیمم کرے۔ تیمم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نیت کر کے زمین پر دونوں ہاتھ مارے اور انھیں جھاڑ کر پوری پیشانی کا مسح اوپر سے نیچے کی طرف کرے۔ اس کے بعد بائیں کی ہتھیلی سے داہنے ہاتھ کی پشت کا اور داہنے ہاتھ کی ہتھیلی سے بائیں ہاتھ کی پشت کا مسح کرے پھر احتیاطاً دوبارہ ہاتھ مارے اور صرف دونو ہاتھوں کا مسح کرے۔ تیمم چاہے وضو کے بدلے ہو یا غسل کے عوض دونوں صورتوں میں تیمم کرنے کا طریوہ یہی ہوگا۔ تیمم کو ہمیشہ آخری وقت میں کرنا چاہئیے لیکن اگر کسی کو یقین ہو جائے کہ میرا عذر یا مرض آخر وقت تک باقی رہےگا تو اول وقت بھی تیمم کر سکتا ہے۔ پھر اگر اس کے بعد وقت کے اندر عذر ختم ہو جائے تو دوبارہ نماز ادا کرنا چاہئیے۔

تیمم غسل کا مکمل بدل ہوتا ہے لہذا اس سے نماز بھی پڑھی جا سکتی ہے اور مسجد میں بھی داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ سوچنا کہ اس میں غسل کا لطف نہیں ہے یا اس سے دل نہیں بھرتا اسلام کے خلاف ہے۔ حکم خدا کی کسی انداز سے بھی توہین و مخلافت نہیں کی جا سکتی۔

سوالات :

۱َ تیمم کب کرنا چاہئیے ؟

۲ ۔ تیمم کن چیزوں پر صحیح ہوگا ؟

۳ ۔ تیمم کرنے کا طریوہ بتائے ؟

۵۷

فہرست

معلمّ کے لئے ہدایت ۴

پہلا سبق ۵

مذہب ۵

سوالات : ۵

دوسرا سبق ۶

اگر خدا نہ ہوتا ۶

سوالات : ۶

تیسرا سبق ۷

خدا کو بغیر دیکھے کیوں مانتے ہیں ؟ ۷

سوالات : ۷

چوتھا سبق ۸

ہمارا خدا ۸

سولات : ۸

پانچواں سبق ۹

مذہب اور لا مذہبیت ۹

سوالات : ۹

چھٹا سبق ۱۰

اصول اور فروع ۱۰

سوالات : ۱۰

۵۸

ساتواں سبق ۱۱

خدا عادل ہے ۱۱

سوالات : ۱۱

آٹھواں سبق ۱۲

نبوت ۱۲

سوالات : ۱۲

نواں سبق ۱۳

ہمارے رسولؐ ۱۳

سوالات : ۱۳

دسواں سبق ۱۴

امام ۱۴

سوالات : ۱۴

گیارہواں سبق ۱۵

ہمارے پہلے امامؐ ۱۵

سوالات : ۱۵

بارہواں سبق ۱۶

حضرت علیؐ کے اخلاق ۱۶

سوالات : ۱۶

تیرہواں سبق ۱۷

بارہ اماموں کی عمریں ۱۷

۵۹

سوالات : ۱۸

چودھواں سبق ۱۹

موت کے بعد ۱۹

سوالات : ۲۰

پندہواں سبق ۲۱

قرآن معجزہ ہے ۲۱

سوالات:۔ ۲۱

سولہواں سبق ۲۲

آداب تلاوت ۲۲

سالات : ۲۲

سترہواں سبق ۲۳

فرشتے ۲۳

سوالات : ۲۳

اٹھارہواں سبق ۲۴

اسباب خیر و برکت ۲۴

سوالات : ۲۴

انیسواں سبق ۲۵

اسباب نحوست ۲۵

سوالات : ۲۶

بیسواں سبق ۲۷

۶۰

61

62

63

64