امامیہ اردو دینیات درجہ سوم جلد ۳

امامیہ اردو دینیات درجہ سوم50%

امامیہ اردو دینیات درجہ سوم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 64

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 64 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45355 / ڈاؤنلوڈ: 3718
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ سوم

امامیہ اردو دینیات درجہ سوم جلد ۳

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

قدرت نے اظہار عشق رسول(ص) کے لیے سعادت حسن آس کو وہ سلیقہ ودیعت کیا ہے جو پاسِ ادب اور حسنِ طلب سے ایسا مزین ہے کہ وہ خموشی سے بھی زبان کا کام لینا چاہتے اور جانتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اظہار عشق رسول(ص) محتاج حروف و صوت ہے نہ سزاوارِ نطق و زباں۔وہ خود سے مخاطب ہوتے ہیں شدت جذبات سے مخاطب ہوتے ہیں دیوانگی اور وارفتگی سے ہمکلام ہوتے ہیں اور کہتے ہیں:

ہے یہ دربارِ نبی(ص) خاموش رہ

چپ کو بھی ہے چپ لگی خاموش رہ

٭

بولنا حدِ ادب میں جرم ہے

خامشی سب سے بھلی خاموش رہ

٭

بھیگی پلکیں کر نہ دیں رسوا تجھے

ضبط کر دیوانگی خاموش رہ

٭٭٭

۲۱

وہ اوصافِ محبوب (ص) بیان فرمانے لگتے ہیں تو مقام محبوب کم مائیگی کا احساس دلاتا ہے اور نعت خوان و نعت گو ہونے کے باوجود عجز بیان کا اظہار کرتے ہیں۔

اوصاف پاک آپ کے جس سے تمام ہوں بیاں

ایسا کوئی قلم نہیں ایسی کوئی زبان نہیں

٭٭٭

نعت نبی(ص) کہنے کا منصب کبھی ان کا مایہ ناز ہوتا ہے تو کبھی مقام عجز و نیاز نعت رسول(ص) لکھتے ہیں تو کبھی نگاہ مستی میں زمانہ ہیچ نظر آتا ہے اور کبھی سر نیاز شکر بجا لانے کو جھک جاتا ہے۔

میں لکھوں جو نعت حضور کی دل مضطرب کے سرور کی

کبھی چشم ناز بلند ہو کبھی سر نیاز سے خم رہے

٭٭٭

حبیب خدا کے عشق میں شہر حبیب کا ذکر بھی لازم ہے اور شہر بھی وہ جو یثرب سے مدینۃ النبی(ص) بنا ہو۔ بھلا کیسے ممکن ہے کہ" آس" اس کا ذکر نہ کریں وہ مدینۃ النبی(ص) کو اپنی حسین سوچوں کا محور مرکز قرار دیتے ہیں اور ان کی زندگی اسی شہر کے تصور سے مہکتی ہے۔

جن حسین سوچوں سے زندگی مہکتی ہے

آس ان کا ہوتا ہے رابطہ مدینے سے

٭٭٭

۲۲

سعادت حسن آس کو خدائے محمد(ص) نے نعت گوئی کا مقدس فریضہ سونپا ہے تو اس فن کے اسرار و رموز اور اس کے ساری لطافتوں اور نزاکتوں کا شعور بھی عطا کیا ہے وہ بڑی مرصع نعت کہتے ہیں چونکہ خود خوش الحان نعت خواں بھی ہیں اور جشن میلاد النبی(ص) مناتے ہوئے ترنم سے نعت پڑھتے ہیں اس لیے ان کی نعتوں میں ترنم اور نغمگی کا وصف بھی بکثرت پایا جاتا ہے ان کے آسمان نعت پر ایسی متعدد نعتوں کے ستارے جگمگا رہے ہیں مثال کی طور پر ان کی ایک نعت کے صرف دو اشعار پیش ہیں:

یا رب میری حیات پہ اتنا کرم رہے

مدحت سدا حضور کی زیب قلم رہے

٭

اصحاب مصطفی کا مجھے راستہ ملے

آل نبی کے پیار کا سر پر علم رہے

٭٭٭

انہوں نے نعت کے مضامین کو صرف غزل کی ہیئت تک محدود نہیں رکھا بلکہ گیت کا اسلوب بھی اپنایا ہے اور درجنوں نعتیں اسی ہیئت میں لکھی ہیں جو نہایت مترنم ہیں ان نعتوں میں انہوں نے فن شعر گوئی پر اپنی دسترس کا ثبوت بھی دیا ہے سادگی کا جادو بھی جگایا ہے۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ نعت کے اشعار کو فن کی کسوٹی پر پرکھنا اور ان میں فنی محاسن و مصائب تلاش کرنا اس مقدس جذبے کی توہین ہے جو ان کی تخلیق کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے۔نعت عقیدت کا اظہار ہے اور عقیدت کے اظہار میں جذبے کی صداقت اس کی شدت اور والہانہ پن بعض اوقات چھوٹی چھوٹی فنی پابندیوں سے صرف نظر کر کے بھی معتبر ہی ٹھہرتے ہیں۔سعادت حسن آس نعت گوئی اور اظہار کے سارے اسلوب اور قرینے جانتے ہوئے بھی کہتے ہیں:

کوئی اسلوب ،سلیقہ نہ، قرینہ مجھ میں

سوچتا ہوں انہیں کس طور سے، ڈھب سے مانگوں

٭٭٭

۲۳

یہ ان کی انکساری ہے ان کا عجز ہے جو عشق رسول(ص) کے طفیل ان کی شخصیت کا حصہ بن گیا ہے جو سادگی اور انکساری ان کے مزاج میں ہے وہی ان کے کلام میں بھی نمایاں ہے تاہم نعت گوئی میں ان کی سادگی ایسے اشعار بھی تخلیق کرتی ہے۔

آپ سے مہکا تخیل، آپ پر نازاں قلم۔۔ اے رسول محترم

میری ہر اک سوچ پر ہے آپ کا لطف و کرم۔ اے رسول محترم

٭

آپ آئے کائنات حسن پر چھا یا نکھار۔ اے حبیب کردگار

بزم ہستی کے ہیں محسن آپ کے نقش قدم۔ اے رسول محترم

٭٭

ایک اور نعت کے دو اشعار ملاحظہ ہوں جن میں دوسرا شعر ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

یاد نبی(ص) میں کٹنے والی رات مقدس

ہونٹوں کی چپ ،آنکھوں کی برسات مقدس

٭

جان کے آنکھیں پھیرنے والو تم سے تو

اسم محمد لکھنے والے ہات مقدس

٭٭

۲۴

دوسرے شعر میں جس واقعہ کا ذکر ہے اسے سعادت حسن جیسا عاشق رسول(ص) ہی شعر کر سکتا ہے ورنہ تو کئی کم نظروں نے اس واقعہ پر توجہ ہی نہیں دی اور کتنے ہی بدبختوں نے اس کا مذاق اڑایا واقعہ یوں ہے کہ اٹک کے ریلوے کالونی کے ایک سرکاری کوارٹر کے مکین محمد طارق نے اپنے کوارٹر کی دیوار کو قلعی کرایا۔دوسری صبح جب وہ نماز فجر ادا کر کے گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی دیوار پر کسی نے "محمد" لکھ دیا ہے جب کہ اس کا آدھا نام"طارق" نہیں لکھا وہ دیوار کے قریب پہنچا تو لفظ "محمد" دھندلا گیا اس نے دوبارہ دور جا کر دیکھا تو اسم محمد پھر نمایا ں ہو گیا آخر کار کھلا کہ گھر کے قریب اگے ہوئے درخت کی کسی پڑوسی نے کاٹ چانٹ کی تھی اس کی ایک شاخ سے پیوست ایک نرم و نازک سی ٹہنی پر لگے کچھ پتوں کا سایہ دوسرے مکان کی دیوار پر لگے بلب کی روشنی سے اس دیوار پر پڑھ رہا ہے جس نے لفظ "محمد" کی شکل اختیار کر لی تھی اٹک شہر اور نواحی دیہات کے ہزاروں خواتین و حضرات اور بچوں نے اس مقدس سایہ کی زیارت کی جو شام کو بلب روشن ہوتے ہی محمد طارق کی اجلی دیوار پر اجاگر ہوتا اور صبح بلب بجھنے پر غائب ہو جاتا تھا۔عشاق محمد(ص) نے اسے کرشمہ قدرت گردانا اور محبوب خدا سے خدائے بر تر کی محبت کا ثبوت کہا جب کہ کم نظروں نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھا اور ایک بدبخت تیسرے یا چوتھے روز موقعہ پا کر اس ٹہنی کو شاخ سے توڑ کر لے بھاگا۔وہ پتے جن کا سایہ دیوار پر اسم محمد(ص) لکھتا تھا اس شقی القلب نے نوچ لیے مگر جو نام لوح محفوظ پر کندہ اور دلوں پر رقم ہو وہ مٹائے کب مٹتا ہے۔ہزاروں عقیدت مندوں نے اس مذموم حرکت پر غم و غصہ کا اظہار کیا مگر سعادت حسن آس وہ واحد عاشق رسول ثابت ہوئے جنہوں نے اس واقعہ کو شعر کے قالب میں ڈھال کر نہ صرف اپنی عقیدت کا اظہار کیا بلکہ ان پتوں کی شان اور کور نگاہوں کی پست قامتی کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر کے ایک تاریخی دستاویز بنا دیا۔

میری دعا ہے ہے کہ سعادت حسن کی ہر آس پوری ہو۔ ان کی مساعی کو دربار رسالت میں قبولیت حاصل ہو ان کا جذبہ و اظہار ان کی بخشش کا وسیلہ بنے اور ان کی نعت کے ستارے"آسمان" پر تا قیامت چمکتے رہیں۔آمین

مشتاق عاجر

(اٹک)

۸ مارچ ۲۰۰۶ ء

۲۵

خوش قسمت انسان(از:شوکت محمود شوکت ایڈووکیٹ)

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی شاعر یا ادیب(خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو) کی زندگی میں بعض ایسے مواقع آتے ہیں جب قدرت کلام جواب دے جاتی ہے آج سعادت حسن آس کے منتخب نعتیہ کلام‘ پر لکھتے ہوئے عجز بیاں کا ایسا ہی مرحلہ مجھے بھی درپیش ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔پہلی وجہ تو یہ ہے۔کہ سعادت حسن آس کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ بحیثیت نعت گو شاعرایک دنیا انہیں جانتی ہے۔اس سے قبل ان کے دو نعتیہ مجموعے "آقا ہمارے" اور"آس کے پھول" بالترتیب ۱۹۸۲ ء اور ۱۹۹۰ ء میں منصۂ شہود پر جلوہ گرہو کر علمی، ادبی اور مذہبی حلقوں سے بھرپور داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ ان کا تیسرا مجموعہ کلام"آدھا سورج" ۱۹۹۶ ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا (جس میں کچھ نعتیں اور کشمیر کے حوالے سے ایک خوبصورت طویل نظم بھی شامل ہے) پر انہیں "بزم علم و فن" اسلام آباد کی جانب سے ۱۹۹۶ ء کی بہترین نظم کے ایوارڈ" سید نعمت علی شاہ" ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ،آس صاحب ایک طویل عرصہ سے میلاد پارٹیوں سے بھی وابستہ ہیں۔انہوں نے اپنی ایک میلاد پارٹی بھی بنائی ہے۔جہاں ہر سال میلاد النبی(ص) کے موقع پروہ بحیثیت نعت خوان نعتیں بھی پڑھتے ہیں۔لہذا مجھ جیسا خطا کار اور کم علم شخص آس صاحب کی نعت گوئی پر کچھ لکھے۔ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔اور دوسری وجہ، جو نہایت اہم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی نازک مسئلہ بھی ہے۔ وہ ہے نعت رسول پاک پر کچھ لکھنا بقول میر

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

٭

۲۶

مگر سعادت حسن آس کا حکم ہے کہ کچھ لکھوں تو حقیقتاً یہ میرے لیے سعادت ہے۔ آس صاحب کے اس چوتھے منتخب مجموعۂ کلام "آسمان" کا میں نے بہ غور مطالعہ کیا۔ شروع سے آخر تک تمام نعتیں اپنی مثال آپ ہیں۔خواہ وہ اردو زبان میں کہی گئی ہیں یا پنجابی میں۔ آس صاحب کی گرفت نعت گوئی پر دونوں زبانوں میں مضبوط معلوم ہوتی ہے۔ در اصل بات یہ ہے۔ کہ"نعت گوئی" ہر شخص کا مقدر ہو ہی نہیں سکتی۔ سرور کائنات(ص) خود ایسی ہستیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جو آپ کی مدح کرتے ہیں۔یا جن کو آپ (ص) کا غم عطا ہوتا ہے۔ آس صاحب کہتے ہیں

نصیبوں پر میں اپنے ناز جتنا بھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم کہاں روشن

٭٭٭

اور واقعی آس صاحب کے دل میں "حضور پاک(ص) " کا غم روشن ہے۔ ( جو ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے) ہر گھڑی، ہر پل درود پاک پڑھنا ،آپ کا ذکر اور باتیں کرنا آس صاحب کا وطیرہ ہے:

پیارے نبی کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

ان کی چاہ میں جی جی مرنا اچھا لگتا ہے

٭٭

المختصر یہ کہ آس صاحب، خوش قسمت انسان ہیں۔ جنہیں "غم رسول(ص)" اور"عشق رسول(ص)" ودیعت کر دیا گیا ہے وہ اس پر جتنا بھی ناز کریں کم ہے۔

۱۲/ فروری ۲۰۰۶ ء

شوکت محمود شوکت (ایڈووکیٹ)

۲۷

سعادت حسن آس(از:الحاج صوفی محمد بشیر احمد شاہ)

سعادت حسن آس صاحب ایک خوش قسمت انسان ہیں جن کو وجہِ تخلیقِ کائنات،آقائے دو جہان، محبوب خدا(ص) کی شان کو حروف کے موتیوں میں پرونے کا سلیقہ عطا ہوا ہے۔ان کی محبت، عقیدت عاشق رسول حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے ہے جن کی یاد کو ہر سال عقیدت و احترام سے مناتے ہیں جس کے لیے انہوں نے اپنی جدو جہد سے شان مصطفیٰ(ص) کی ایک پارٹی بھی تیار کی ہوئی ہے جو کہ عقیدت کے پھول بڑے سوز و گداز سے نچھاور کرتے ہیں اور جس محفل میں ہوں اہلِ محفل کے دلوں کو محبتِ سرکار (ص) سے گرماتے ہیں۔ یہ سعادت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

محبت ایک معجزہ ہے معجزے کب عام ہوتے ہیں

مخصوص دلوں پر عشق کے الہام ہوتے ہیں

٭٭٭

مصنف نے بڑے ہی عقیدت کے پھول خوبصورت سلیقہ سے نچھاور کیے ہیں جن سے ان کی محبت و عقیدت سرکار دوجہاں کا اظہار ہے جیسا کہ خود اپنے کلام میں لکھتے ہیں۔

اپنے کرم کی بھیک سے مجھ کو بھی سرفراز کر

تیرے سوا کوئی میرا دکھ درد آشنا نہیں

٭

یوں تو کھلے تھے آس کے سینے میں پھول سینکڑوں

آنکھوں میں آپ کے سوا کوئی مگر جچا نہیں

٭

دعاگو

الحاج صوفی محمد بشیر احمد شاہ ڈھوک فتح اٹک شہر

۲۸

تبصرہ(از:سید عبدالدیان بادشاہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کی محمد(ص) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

٭

جناب سعادت حسن آس نعت کے حوالہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک میں بھی جانی پہچانی شخصیت ہیں ۔ اُن کی نعتوں میں سرکار دوعالم(ص) کی عقیدت و محبت ایک دائرے میں رہ کر دلکش اندازمیںرقم کی گئی ہے۔ بعض نعتوں میں تو یوں لگتا ہے جیسے کسی ذات نے سرکار کی مدحت خود لکھوائی ہے۔ میرے سامنے اسوقت آس صاحب کا مجموعہ نعتیہ انتخاب۔’’ آسمان‘‘ کا مسودہ ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اس میں شامل تمام کی تمام نعتیں عشاقِ مصطفےٰ کے دلوں کی ترجمان ہیں۔

اللہ تبار ک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آس صاحب کے’’ آسمان ‘‘ کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔ اٰمین

آمین الُلھم ربناآمین یاربُ العالمین!

دعا گو

فقیر سید عبدالدّیان بادشاہ

خطیب مرکزی جانع مسجد استقامت محلہ عید گاہ اٹک شھر۔

۲۹

دعا

اے خالقِ کل سامنے اک بندہ ترا ہے

تو کر دے عطا تجھ سے یہ کچھ مانگ رہا ہے

٭

تو مالک و معبود بھی مسجود بھی تو ہے

میں جو بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں سب تجھ کو پتا ہے

٭

احباب مرے کتنے ترے پاس گئے ہیں

تو بخش دے ان سب کی خطائیں یہ دعا ہے

٭

ہم مانتے ہیں حد سے بھی بڑھ کر ہیں گنہگار

تو پاک ہے کر معاف ہوئی جو بھی خطا ہے

٭

تو پاک ہے ہر عیب سے اے مالک و مولا

بندہ ترا ہر عیب کی حد سے بھی بڑھا ہے

٭

سرکارِ دو عالم کی میں امت سے ہوں مولا

میں جو بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں تو دیکھ رہا ہے

٭

۳۰

مالک مرے تو سیدھا عطا کر مجھے رستہ

وہ رستہ کہ جس پر ترا اکرام ہوا ہے

٭

میں اور میری اولاد ہو اسلام کی داعی

اور آئندہ نسلوں کے لیے بھی یہ دعا ہے

٭

سرکار دو عالم کی عطا کر مجھے الفت

وہ کام کریں جس کے لیے تو نے کہا ہے

٭

اسلام کی دولت سے منور مجھے کرنا

ہر وقت یہ ہر لمحہ مری تجھ سے دعا ہے

٭

محروم ہیں جو ان کو بھی صالح ملے اولاد

اولاد ہو نیک ان کی کرم جن پہ ترا ہے

٭

مقروض ہیں بے کار ہیں معذور ہیں جو بھی

ان پر بھی کرم کر دے کہ تو سب کا خدا ہے

٭

۳۱

یا رب مرے اس ملک میں نافذ ہو شریعت

ہر صاحب ایمان کی یہ تجھ سے دعا ہے

٭

یا رب ہمیں اسلام کا وہ داعی بنا دے

جس میں ترے محبوب کی اور تیری رضا ہے

٭

یا رب مجھے شیطان کے ہر شر سے بچانا

تو ظاہر و باطن کو مرے دیکھ رہا ہے

٭

ہم سے بھی وہی کام لے اے مالک و مولا

جو کام ترے نبیوں نے ولیوں نے کیا ہے

٭

ہم چاہنے والے ترے محبوب کے مولا!

وہ بھی ہو عطا جس کا نہیں ہم نے کہا ہے

٭

جو بیٹیاں بیٹھی ہیں جواں رشتوں کی خاطر

تو نیک سبب کر کہ تو ان کا بھی خدا ہے

٭

۳۲

غافل ہیں ہدایت سے تری جو بھی مسلماں

تو ان کو ہدایت دے کہ تو راہ نما ہے

٭

مظلوم جہاں پر بھی مسلمان ہیں مولا

ان پر بھی کرم ہو کہ یہ دل ان سے جڑا ہے

٭

سرکار کے صدقے میں نہ رد ہوں یہ دعائیں

ہر شخص کا تو دستِ طلب دیکھ رہا ہے

٭

اے مالک و مولا ہو دعا آس کی مقبول

یہ بھی ترے محبوب کا اک مدح سرا ہے

آمین یا رب العالمین

٭٭٭٭

۳۳

سلام

شانِ محبوبِ وحدت پہ لاکھوں سلام

نازِ ختم رسالت پہ لاکھوں سلام

٭

تاجدارِ نبوت پہ لاکھوں سلام

عدل، تقویٰ، صداقت پہ لاکھوں سلام

٭

یا نبی(ص) تیری سیرت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

ہر طرف تیرے انوار سے چاندنی

ہر طرف تیرے کردار سے روشنی

٭

ہر طرف تیری گفتار سے دل کشی

ہر طرف تیری سرکار سے زندگی

٭

تیری پر نور صورت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۴

ہر سحر میں ترے اسم سے رونقیں

ہر نظر میں ترے اسم سے رفعتیں

٭

ہر زباں پر ترے اسم سے لذتیں

ہر بدن میں ترے اسم سے نکہتیں

٭

اسم اقدس کی حرمت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

تیرے اعجاز کیا کیا کروں میں بیاں

تیری مٹھی نے دی کنکروں کو زباں

٭

تیری تحریم سے ہے زمیں، آسماں

تیری تجسیم ہے باعثِ دو جہاں

٭

تیری عظمت پہ رفعت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۵

سب رسولوں نے کی ہے تیری آرزو

دشمنوں نے بھی کی ہے تیری جستجو

٭

تجھ سے دونوں جہانوں میں ہے رنگ و بو

میرا بھی آسمانِ محبت ہے تو

٭

تیری رحمت پہ رافت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

تو ہی بحرِ کرم دستِ جود و سخا

کوئی ثانی ترا ہے نہ سایہ ترا

٭

اس نے پایا خدا جس کو تو مل گیا

لائقِ وصف ہے تو ہی بعد از خدا

٭

تیری عظمت پہ رفعت پہ پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۶

اے حبیبِ خدا خاتمِ مرسلاں

اتنی بے انتہا ہیں تری خوبیاں

٭

کر سکا ہے بیاں کوئی اب تک کہاں

اک نظر آس پر، کر سکے کچھ بیاں

٭

تیری چشمِ عنایت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭

۳۷

نعتیں

عشق بس عشق مصطفےٰ مانگوں

عشق س عشق مصطفےٰ مانگوں

اور تجھ سے نہ کچھ خدا مانگوں

٭

اس دعا سے ڑی دعا کیا ہے

اس سے ڑھ کر میں کیا دعا مانگوں

٭

میرے سوزِ جگر کے چارہ رساں!

تجھ سے ہر زخم کی دوا مانگوں

٭

زندگی مجھ کو خشنے والے !

زندگی کا میں مدعا مانگوں

٭

اپنے آپے سے ہو کے اہر آج

تجھ سے میں تیرا دل را مانگوں

لوگ کہتے ہیں جن کو ے سایہ

ان کے سائے کا آسرا مانگوں

جاں ھی جائے تو آس دے کر میں

ان کے کوچے کی خاک پا مانگوں

۳۸

پھول نعتوں کے سدا د ل میں کھلائے رکھنا

پھول نعتوں کے سدا د ل میں کھلائے رکھنا

اپنی ہر سانس کو خوشو میں سائے رکھنا

٭

ان کے ارشاد دل و جاں سے مقدم رکھنا

ان کی سیرت پہ سدا سر کو جھکائے رکھنا

٭

جانے کس پہر دے پاؤں وہ اتریں دل میں

اشک پلکوں پہ سرِ شام سجائے رکھنا

٭

چاہتے ہو تمہیں آقا کی غلامی مل جائے

فصل سینے میں محت کی اگائے رکھنا

٭

روشنی اتنی ہے منزل ھی دھواں لگتی ہے

آپ رہر ہیں مجھے راہ دکھائے رکھنا

٭

آرزو ہے! مرا خطہ یونہی آاد رہے

ار رحمت کے سدا اس پر جھکائے رکھنا

٭

آس ہو جائے گی آقا کی زیارت ھی نصی

ان کی راہوں میں نگاہوں کو چھائے رکھنا

٭٭٭

۳۹

زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن

زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن

ظہورِ مصطفےٰ سے ہو گئے دونوں جہاں روشن

٭

گئی جن راستوں سے تھی سواری کملی والے کی

انہی رستوں کا ا تک ہے غار کارواں روشن

٭

نصیوں پر میں اپنے ناز جتنا ھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم، کہاں روشن؟

٭

ستاروں سے پرے کے ھی مناظر دیکھ لیتی ہیں

جن آنکھوں میں نی کے پیار کی ہیں جلیاں روشن

٭

خدا سے آشنائی کا کسے معلوم تھا رستہ

وہ آئے تو ہوئے ہیں راستوں کے س نشاں روشن

٭

خدا نے خش دی ج سے سعادت نعت گوئی کی

ہوئیں اس دن سے میرے دل کی ساری ستیاں روشن

٭

مقدر کے اندھیرے آس اس کا کیا گاڑیں گے

ہے جس کے پاس یادِ مصطفےٰ کی کہکشاں روشن

٭٭٭

۴۰

بارش کا پانی ۔ برستے وقت بارش کے پانی کا حکم وہی ہے جو جاری پانی کا ہے بشرطیکہ اتنا ہو کہ اسے بارش کہہ سکیں۔

آب قلیل پر بارش ہو رہی ہو تو بارش ختم ہونے سے پہلے تک وہ بھی جاری پانی کے حکم میں رہے گا اور جب پانی برس کے تھم جائےگا تو بارش کے پانی کا حکم بھی قلیل پانی کا ہو جائےگا۔ ہاں اگر کہیں اتنا پانی اکٹھا ہو جائے کہ کر یا کر سے زائد ہو تو پھر اس کا حکم آب جاری ہی کا رہےگا۔

سوالات :

۱ ۔ پانی کی کتنی قسمیں ہیں ؟

۲ ۔ مضاف پانی کا کیا حکم ہے ؟

۳ ۔ خالص پانی کی کتنی قسمیں ہیں ؟

۴ ۔ قلیل پانی کسے کہتے ہیں ؟ اور اس کا کیا حکم ہے ؟

۵ ۔ کثیر پانی کسے کہتے ہیں ؟ اور اس کا حکم کیا ہے ؟

۶ ۔ کڑ کسے کہتے ہیں ؟ اور اس کی مقدار بتاؤ ؟

۷ ۔ بارش جب قلیل پانی پر ہو رہی ہو تو اس کا حکم کیا ہے ؟ اور جب بارش رُک جائے تو کیا ہے ؟

۸ ۔ بارش کا پانی کر سے کم ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟

۴۱

تیسواں سبق

پانی سے طہارت

بدن یا کوئی دوسری چیز جس میں نجاست نہیں سمائی اگر پیشاب سے نجس ہو جائے تو دو مرتبہ دھونا چاہئے۔ اور اگر پیشاب کے علاوہ کسی اور نجاست کے لگ جانے سے نجس ہو تو آب قلیل و کثیر دونوں سے ایک مرتبہ دھونا کافی ہے مگر بہتر یہ ہے کہ دو مرتبہ دھویا جائے۔

کثیر یا کوئی دوسری شے جس میں نجاست سما جاتی ہے اگر پیشاب سے نجس ہو جائے تو دو مرتبہ اس طرح دھونا چاہئیے کہ ایک مرتبہ پانی ڈال کر اسے نچوڑیں پھر دوسری مرتبہ پانی ڈال کر پھر نچوڑیں۔

اگر پیشاب کے علاوہ وہ کسی اور چیز سے نجس ہو جائے تو نجاست دور کرنے کے بعد آب قلیل سے ایک مرتبہ دھو کر نچورنا کافی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر پیشاب سے بدن نجس ہو جائے تو اس کی کیونکرطہارت ہوگی ؟

۲ ۔ پیشاب کے علاوہ دوسری نجاست سے بدن نجس ہو جائے تو آب قلیل سے کیونکر طہارت ہوگی ؟

۳ ۔ اگر بدن پیشاب یا کسی دوسری نجاست سے نجس ہو جائے تو آب کثیر سے کیونکرطہارت ہوگی ؟

۴۲

اکتیسواں سبق

برتن کا پاک کرنا

اگر برتن نجس ہو جائے تو آب قلیل سے تین مرتبہ دھونے سے وہ برتن پاک ہو جائےگا۔

پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس برتن میں تین مرتبہ پانی ڈالیں اور پانی کو برتن کے اندر گھمائیں اور پھینک دیں یا تین مرتبہ اس برتن کو پانی بھر کے فوراً پانی گرا دیں۔

آب کثیر ، آب جاری اور بارش کے پانی سے جب برس رہا ہو ایک مرتبہ کافی ہے۔ اگر چہ بہتر یہی ہے کہ تین مرتبہ دھویا جائے۔

اگر کتا کسی برتن کو چاٹ لے تو پہلے پاک مٹی سے مانجھ کر ساف کرنا چاہئیےپھر دو مرتبہ پانی سے دھونا چاہئیے لیکن اگر آب کثیر یا آب جاری ہو تو صرف ایک مرتبہ دھونا کافی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کتا اگر برتن چاٹ لے تو کیسے طہارت کی جائےگی ؟

۲ ۔ قلیل اور کثیر پانی سے نجس برتن کو کتنی بار دھونا ضروری ہے ؟

۳ ۔ اگر پیشاب سے کپڑا نجس ہو جائے تو اسے کس طرح پاک کرنا چاہئیے ؟

۴۳

بتیسواں سبق

زمین اور آفتاب کے ذریعہ طہارت

پیر کا تلوا یا جوتے کا تلا نجس ہو جائے تو زمین پر چلنے سے نجاست کے دور ہو جانے کے بعد پاک ہو جائےگا بشرطیکہ زمین خشک ہو۔ تلوے یا جوتے کے تلے کا خشک ہونا کوئی ضروری نہیں ہے۔

زمین اور ناقابل نقل چیزیں جیسے عمارت ، درخت ، اور وہ ظروف جو زمین میں گڑے ہوئے ہوں یا بہت بڑی بڑی چٹائیاں اگر نجس ہو جائیں اور وہ تر ہوں اور آفتاب کی تمازت سے خشک ہو جائیں تو اصل نجاست کے دور ہو جانے کے بعد پاک ہو جائیںگی اور اگر خشک ہوں تو جہاں نجاست لگی ہو وہاں پانی ڈال دیا جائے۔ پھر جب خشک ہو جائیں تو پاک ہو جائیںگی۔ جو چیزیں منتقل ہو سکتی ہیں وہ اس طرح پاک نہیں ہو سکتیں۔

سورج سے طہارت کے لئے ضروری ہے کہ شعاعیں براہ راست نجاست پر پڑیں اور چیز بھی صرف آفتاب کی گرمی سے خشک ہو ، ہوا وغیرہ سے خشک نہ ہو۔

سوالات :

۱ ۔ زمین کن چیزوں کو پاک کر سکتی ہے اور کن شرطوں سے ؟

۲ ۔ آفتاب کن چیزوں کو پاک کر سکتا پہے ؟

۳ ۔ پیر کا تلوا یا جوتے کا تلا اگر نجس ہو جائے تو وہ زمین سے کس طرح پاک ہو سکتا ہے؟

۴۴

تنتیسواں سبق

طہارت کی دو مخصوص صورتیں

انسان کے علاوہ وہ دیگر جانور جو پاک ہیں جیسے گھوڑا ، بلی ، اونٹ وغیرہ اگر ان کے بدن پر نجاست لگ جائے تو پانی سے پاک کرنے کی ضرورت نہیں صرف نجاست کا دور ہو جانا کافی ہے ۔

انسان کے اندرونی اعضا مثلاً ناک وغیرہ کے اندرونی حصے اگر نجس ہو جائے تو انھیں بھی پانی سے پاک کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف نجاست کا دور ہو جانا کافی ہے ۔ لیکن ظاہری اعضاء سے صرف نجاست کا دور ہو جانا کافی نہیں بلکہ پانی سے پاک کرنا بھی ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ گھوڑے کے بدن پر اگر خون یا کوئی نجاست لگی ہو تو کیسے پاک ہوگا ؟

۲ ۔ اگر بلی کا منھ نجس ہو جائے اور عین نجاست زائل ہونے پر وہ کسی برتن میں کھا لے یا پی لے تو کیا وہ برتن نجس ہو جائےگا ؟

۳ ۔ منھ یا ناک اندر سے نجس ہوں تو کیسے پاک ہوںگے ؟

۴۵

چونتیسواں سبق

وضو

وضو کے معنی ہیں نیت کے ساتھ چہرہ اور دونوں ہاتھوں کا دھونا اور سر اور دونوں پیروں کا مسح کرنا۔

چہرہ لمبائی میں سر کے بال اُگنے کی جگہ سے ٹھڈی کے کانرے تک اور چوڑائی میں انگوٹھے اور بیچ کی اُنگلی کے درمیان کے حصہ کا دھونا واجب ہے بلکہ واجب حصے سے کچھ زیادہ حصہ اور ناک کے اندر کا بھی کچھ حصہ لے لیں تا کہ چہرے کے پورے واجب حصے کا دھو لینا یقینی ہو جائے۔

دونوں ہاتھوں کا کہنی سے انگلیوں کے سرے تک دھونا اور کہنی کے کچھ اور اوپر سے پانی ڈالنا چاہئیے تاکہ پوری کہنی کے دھلنے کا یقین ہو جائے۔

سر کا مسح پوری ہتھیلی سے بھی کر سکتے ہیں اور ایک انگلی سے بھی لیکن تین انگلیوں سے مسح کرنا بہتر ہے۔

سر کا مسح سر کے اگلے حصے اور اس پر اُگے ہوئے بالوں پر کرنا چاہئیے لیکن اگر اگلے حصے پر اتنے بڑے بال ہوں کہ پھیلا دیا جائے تو سر کے آگے کے حصے سے بڑھ جائیں تو اُن بڑھے ہوئے بالوں پر مسح کرنا جائز نہیں ہے بلکہ بالوں کو ہٹا کر بالوں کی جڑوں پر یا صلہ پر مسح کرنا چاہئیے۔

پیر کے مسح کی چوڑائی کا برائے نام ہونا بھی کافی ہے لیکن افضل یہ ہے کہ تین انگلیوں سے کیا جائے اور سب سے بہتر یہ ہے کہ پورے اوپر کے حصے کا مسح کیا جائے لیکن لمبائی میں پیر کی انگلیوں کے سرے سے ٹخنے تک مسح کرنا واجب ہے ۔

۴۶

اگر مسح کے لئے سر پر ہاتھ رکھا جائے اور بجائے ہاتھ کھینچنے کے سر کو حرکت دی جائے تو مسح صحیح نہیں ہوگا۔

اسی طرح اگر پیر کا مسح کرتے وقت ہاتھ ، پیر پر رکھا جائے اور ہاتھ پھرنے کے بجائے پیر کو حرکت دیدی جائے تو اس صورت میں بھی مسح نہیں صحیح ہوگا کیونکہ یہ سر اور پیر کا مسح نہیں ہوا بلکہ سر اور پیر کے ذریعہ ہاتھوں کا مسح ہو گیا۔

مسح ہتھیلی کی بچی ہوئی تری سے کرنا چاہئیے۔ اگر تری مسح کرنے سے پہلے خشک ہو جائے تو داڑھی میں جو تری ہو اس سے تری لے کر مسح کرے۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے پانی یا تری سے مسح کرنا صحیح نہیں ہے ۔

سو ۱ لات :

۱ ۔ وضو کیا ہے ؟

۲ ۔ چہرہ کی لمبائی میں کتنا دھونا چاہئیے اور چوڑائی میں کتنا ؟

۳ ۔ ہاتھوں کو کتنا دھونا چاہئیے ؟

۴ ۔ کیا سر کے مسح کا کوئی مخصوص طریقہ ہے ؟

۵ ۔ اگر ہاتھ کی تری پہلے سے خشک ہو جائے تو کیا کرنا چاہئیے ؟

۴۷

پینتیسواں سبق

وضو کن باتوں سے ٹوٹ جاتا ہے

ان پانچ باتوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے :

( ۱) ۔ پیشاب نکلنا۔ ( ۲) ۔ پائخانہ نکلنا۔ ( ۳) ۔ ریح کا خارج ہونا۔ ( ۴) ۔ ہر وہ امر جس سے عقل زائل ہو جائے جیسے جنون ، بیہوشی۔ ( ۵) ۔ ایسی نیند جو آنکھوں اور کانوں پر غالب آ جائے۔ اگر آنکھیں نیند کے جھوکوں سے بند ہو جائیں لیکن کان بیدار ہوں تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔ بغیر وضو کے قرآن کے حروفوں اور اسمائے باری تعالی کا چھونا حرام ہے مگر قرآن کے سادہ ورق یا سطروں کی درمیانی جگہ یا حاشیہ یا جلد کا چھونا حرام نہیں۔

انبیاء ، ائمہ معصومینؐ اور جناب فاطمہ زہراؐ کے ناموں کو بھی بغیر وضو کے نہ چھونا چاہئیے۔

سوالات :

۱ ۔ وضو کن باتوں سے ٹوٹ جاتا ہے ؟

۲ ۔ اگر آنکھوں پر نیند غالب ہو لیکن کانوں پر نہیں تو کیا وضو ٹوٹ جائے گا ؟

۳ ۔ بغیر وضو کن چیزوں کا چھونا حرام ہے ؟

۴۸

چھتیسواں سبق

شرائط وضو

شرائط وضو دس ہیں۔ ( ۱) نیت ۔ یعنی دل میں یہ ارادہ کرے کہ صرف خوشنودی خدا کے لئے وضو کر رہا ہوں۔ دنیا کو دکھانے کے ارادے سے وضو کرنا ، وضو کو باطل کر دیتا ہے۔ ( ۲) پانی پاک ہو ۔ نجس پانی سے وضو نہیں ہے۔

اعضا وضو پاک ہوں۔ اگر نجس ہوں تو وضو سے پہلے پاک کر لینا چاہئیے۔ ( ۴) خالص پانی سے وضو کیا جائے۔ آب مضاف جیسے عرق گلاب وغیرہ سے وضو نہیں ہے۔ ( ۵) پانی مباح ہو یعنی غصبی نہ ہو جس برتن میں ہو وہ بھی مباح ہو ، جہاں بیٹھ کر وضو کیا جائے وہ جگہ بھی مباح ہو اگر غصبی پانی سے یا غصبی برتن میں پانی لے کر یا غصبی جگہ پر بیٹھ کر وضو کیا جائے گا تو وضو صحیح نہیں ہو گا۔( ۶) اگر اعضا وضو پر کوئی چیز ایسی موجود ہو جو کھال انگلی میں انگوٹھی ہو تو اسے اُتار دیا جائے یا اُس کو حرکت دیدی جائے تاکہ پانی پہنچ جائے۔ اسی طرح اگر میل اتنا ہو جو پانی کو کھال تک نہ پہنچنے دے تو اس میل کا چھڑانا بھی واجب ہے۔ اسی طرح اگر نیل پالش لگی ہو تو وضو درست نہ ہو گا۔ ( ۷) ترتیب ، ترتیب کے معنی یہ ہیں کہ پہلے چہرہ کو دھویا جائے پھر داہنا ہاتھ پھر بایاں ہاتھ دھویا جائے۔

۴۹

اس کے بعد اگر سر کا مسح کیا جائے پھر دائیں پیر کا اور پھر بائیں پیر کا مسح کیا جائے اگر ترتیب میں خلل واقع ہو جائے تو پھر سے اس عضو کو دھونا چاہئیے جس سے ترتیب بگڑی ہے۔ مزلاً اگر کسی نے پہلے دایاں ہاتھ دھو لیا بعد میں چہرے پر پانی ڈالا تو وضو تب صحیح ہو گا جب چہرہ دھونے کے بعد پھر دایاں ہاتھ دھوئے اور اس کے بعد وضو کو مکمل کرے۔ ( ۸) موالات یعنی پہلے عضو کے خشک ہونے سے پہلے اس کے بعد والے عضو کو دھو لینا چاہئیے ۔ مثلاً چہرہ کے خشک ہونے سے پہلے دایاں ہاتھ دھو لے اور دایاں ہاتھ خشک ہونے سے پہلے بایاں ہاتھ دھو لے۔ ( ۹) پانی کے استعمال سے بیماری کا خطرہ نہ ہو۔ ( ۱۰) وضو کرنا خود ضروری ہے البتہ مجبور شخص کو دوسرا شخص وضو کرا سکتا ہے مگر نیت خود وضو کرنے والے کو کرنا ہو گی۔

سوالات :

۱ ۔ شرائط وضو کیا ہیں ؟

۲ ۔ نیت کیا ہے ؟

۳ ۔ اگر اعضا ، وضو نجس ہوں تو کیا کرنا چاہئیے ؟

۴ ۔ آب مضاف سے وضو صحیح ہے یا نہیں ؟

۵ ۔ اگر ہاتھ میں انگوٹھی ہو تو کیا کرنا چاہئیے ؟

۶ ۔ اگر ناخن پر نیل پالش لگی ہو تو کیا کرنا چاہئیے ؟

۵۰

سینتیسواں سبق

طہارت و حدث

اگر پہلے سے باوضو ہوں بعد میں کسی وجہ سے شک ہو جائے کہ وضو ٹوٹا یا نہیں تو ایسے شک کی طرف توجہ نہ کرنا چاہئیے اور وضو کو باقی سمجھنا چاہئیے۔ مثلاً کسی شخص کی آنکھیں اونگھنے میں بند ہو جائیں اور شک ہو کہ نیند کا غلبہ ہوا یا نہیں تو اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا۔

اسی طرح اگر شک ہو کہ وضو کے بعد پیشاب پائخانہ کیا ہے یا نہیں تو اس صورت میں بھی اپنے کو باوضو سمجھنا چاہئیے اور شک کی طرف کوئی توجہ نہ کرنا چاہئیے

لیکن اگر پہلے سے بے وضو ہو اور شک ہو جائے کہ بعد میں وضو کیا تھا یا نہیں تو وضو کرنا چاہئیے لیکن اگر یہ شک بعد نماز پیدا ہو جیسے کسی نے نماز پڑھی اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد شک پیدا ہوا کہ میں نے وضو بھی کیا تھا یا نہیں تو اس صورت میں نماز دوبارہ پڑھنا واجب نہیں ہے صرف آئندہ نمازوں کے لئے وضو کرنا چاہئیے لیکن اگر نماز کے بیچ میں یہ شک پیدا ہو جائے کہ میں نے وضو کیا تھا یا نہیں تو نماز توڑ دے اور وضو کر کے پھر سے نماز پڑھے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر طہارت کا یقین ہو اور حدث کا شک ہو تو کیا حکم ہے ؟

۲ ۔ اگر حدث کا یقین ہو اور طہارت کا شک ہو تو کیا حکم ہے ؟

۳ ۔ اگر نماز کے درمیان شک ہو کہ وضو کیا تھا یا نہیں تو کیا کرنا چاہئیے ؟

۵۱

اڑتیسواں سبق

غسل

واجب غسل چھ ہیں۔ ( ۱) جنابت ( ۲) مس میت ( ۳) میت۔

یہ تین غسل مردوں اور عورتوں دونوں پر واجب ہوتے ہیں لیکن عورتوں پر ان غسلوں کے علاوہ ۰۴) حیض ( ۵) نفاس ( ۶) استحاضہ کا غسل بھی واجب ہوتا ہے۔

جنابت اور حیض کی حالت میں تین باتیں حرام ہیں : ( ۱) مسجد اور معصومینؐ کے حرم میں جانا۔ ( ۲) قرآن مجید کے حرفوں کا چھونا۔ ( ۳) جن سوروں میں واجب سجدہ ہیں ان کا پڑھنا۔

غسل کے دو طریقے ہیں : ( ۱) ترتیبی ( ۲) ارتماسی۔

غسل ترتیبی کی مختلف شکلیں غسل ترتیبی کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے جسم سے گندگی اور چکنائی وغیرہ کو دور کر کے بدن کو پاک کرے پھر اس طرح نیت کرے کہ غسل کرتا ہوں قربتہً الی اللہ اس کے بعد سر اور گردن دھوئے ، پھر بدن کے داہنے حصے کو پھر بائیں حصے کو اس طرح دھوئے کہ پانی جلد تک پہنچ جائے۔ چاہے ہاتھ پھیر کر ہی تمام بدن تک پانی پہونچایا جائے۔

دریا یا تالاب میں غسل ترتیبی کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ تین مرتبہ غوطہ لگایا جائے ایک مرتبہ سر کی نیت سے دوسری مرتبہ داہنے حصہ بدن کی نیت سے اور تیسری مرتبہ بائیں حصے کی نیت سے۔

سر اور گردن دھوتے وقت یہ ضروری ہے کہ سر و گردن کے علاوہ کچھ حصہ بڑھا کر دھوئے۔

اسی طرح دایا ں حصہ جسم دھوتے وقت بائیں کا کچھ اور بایاں حصہ بدن دھوتے وقت دائیں کا کچھ حصہ بھی دھونا چاہئیے تاکہ یقین ہو جائے کہ جتنا دھونا واجب تھا اتنا دھل گیا۔

۵۲

غسل ترتیبی میں اختیار ہے کہ جس طرف سے چاہے شروع کرے۔ اوپر سے نیچے کی طرف دھونے کی شرط نہیں ہے بلکہ چاہے اوپر سے شروع کرے چاہے نیچے سے یا درمیان سے۔غسل ترتیبی میں صرف ترتیب لازم ہے۔ یونی پہلے سر اور گردن کو دھوئے پھر باقی جسم کو۔ موالات لازم نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ غسل کے کتنے طریقے ہیں ؟

۲ ۔ غسل ترتیبی کا کیا طریقہ ہے ؟

۳ ۔ واجب غسل کتنے ہیں ؟

۴ ۔ جنابت کی حالت میں کیا کیا حرام ہے

۵۳

انتالیسواں سبق

غسل ارتماسی

غسل ارتماسی یہ ہے کہ نیت کے ساتھ ہی اس طرح پانی میں غوطہ لگائے کہ سارا بدن پانی کے اندر ڈوب جائے اور کوئی حصہ باہر نہ رہ جائے۔ غسل ارتماسی میں سارے بدن کا پانی سے باہر ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ تالاب یا دریا میں کھڑے ہو کر غسل کی نیت کر کے غوطہ لگا سکتا ہے۔

اگر غسل ارتماسی کرنے کے بعد کسی کو یہ یقین ہو جائے کہ کسی حصہ بدن پر پانی نہیں پہونچ سکا تو پھر سے پورا غسل کرے صرف اس جگہ کا دھو لینا کافی نہیں ۔ غسل میں بال کو دھونا ضروری نہیں لہذا عورت کے لئے غسل کرتے وقت اپنے گندھے ہوئے بالوں کو کھولنا لازم نہیں ہے البتہ بالوں کے نیچے جلد تک پانی کا پہونچنا لازم ہے۔ روزہ کی حالت میں غسل ارتماسی نہیں ہو سکتا کیوں کہ روزہ میں سر کا ڈوبونا حرام ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر غسل ارتماسی کرنے کے بعد یہ یقین ہو جائے کہ کسی حصہ بدن پر پانی نہیں پہونچ سکا تو کیا کرنا چاہئیے ؟

۲ ۔غسل میں بالوں کا دھونا ضروری ہے یا نہیں اگر عورت کے بال گندھے ہوئے ہوں تو اسے کیا کرنا چاہئیے ؟

۵۴

چالیسواں سبق

غسل کی شرطیں

( ۱) نیت ( ۲) پانی پاک ہو ( ۳) اعضائے غسل پاک ہوں ( ۴) پانی خالص ہو مضاف نہ ہو ( ۵) مباح ہو غصبی نہ ہو ( ۶) پانی کا برتن بھی مباح ہو ( ۷) غسل کرنے کی جگہ بھی مباح ہو ( ۸) پانی کا برتن سونے چاندی کا نہ ہو ( ۹) جلد تک پانی پہونچنے سے کوئی مانع ہو تو وہ دور کر لیا جائے ( ۱۰) استعمال سے کوئی امر مانع نہ ہو یعنی کوئی ایسا مرض نہ ہو جس میں پانی نقصان دہ ہو یا غسل کر لینے کی وجہ سے پیاسے رہنے کا خوف نہ ہو یا وقت اتنا تنگ نہ ہو کہ غسل کرنے میں نماز کا وقت نکل جائے۔

سوالات :

۱ ۔ غسل ارتماسی کا کیا طریقہ ہے ؟

۲ ۔ غسل کے ‎ شرائط کیا ہیں ؟

۵۵

اکتالیسواں سبق

احکام غسل

جب انسان غسل کا ارادہ کرے اور اسکا بدن کہیں سے نجس ہو تو اسے اختیار ہے کہ غسل شروع کرنے کے بعد نجاست کی جگہ کو پاک کر لے اسکے بعد اُسے غسل کی نیت سے دھوئے مگر بہتر یہ ہے کہ پہلے ہی نجاست کی جگہ کو پاک کر لے۔ اسی طرح اگر نجس جگہ پر کھڑا ہو تو اختیار ہے چاہے غسل شروع کرنے کے قبل کھڑے ہونے کی جگہ کو پاک کر لے تب غسل شروع کرے چاہے چھوڑ دی اور جب دایاں حصہ بدن دھوتا ہوا پیر دھونے پر آئے تو پہلے پیر کو پاک کرے بعد میں دایاں پیر غسل کی نیت سے دھوئے۔ اسی طرح جب بایاں حصہ بدن دھوتا ہوا بائیں پیر دھونے پر آئے تو پہلے پیر پاک کرے پھر بائیں پیر کو غسل کی نیت سے دھوئے۔ اسی طرح غسل صحیح ہو جائےگا صرف بعد میں پیر پاک کرنا پڑے گا۔

ماہ رمضان میں دن کے وقت روزہ کی حالت میں غسل ارتماسی کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر کسی نے بھولے سے ماہ صیام میں غسل ارتماسی کر لیا ہے تو روزہ اور غسل دونوں صحیح رہیں گے اور اگر جان بوجھ کر ایسا لیا ہے تو روزہ اور غسل دونوں باطل ہانگے۔

غسل جنابت کے بعد وضو نہیں کرنا چاہئیے۔

سوالات :

۱ ۔ بدن ہر نجاست لگی ہو تو کیا کرے ؟

۲ ۔ غسل کرنے والا نجس جگہ پر کھڑا ہو تو کیا کرنا چاہئیے ؟

۳ ۔ کس غسل کے بعد وضو جائز نہیں ہے ؟

۵۶

بیالیسواں سبق

تیمم

اگر پانی نہ مل؛ سکتا ہو یا اس سے نقصان کا خطرہ ہو یا اس کا خریدنا حیثیت سے زیادہ ہو یا اس کے حاصل کرنے میں کوئی چوری ہو جانے کا اندیشہ ہو یا نماز کے وقت میں غسل و وضو کی گنجائش نہ ہو یا وضو کرنے کے بعد پالیں سے مرنے یا شدید تکلیف پہونچنے کا خطرہ ہو تو وضو یا غسل کے بدلے تیمم کر کے نماز پڑھنا واجب ہے۔

تیمم مٹی یا پتھر پر کرے اگر وہ نہ ہو تو گرد و غبار پر اور اگر وہ بھی نہ ہو تو گیلی مٹی پر تیمم کرے۔ تیمم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نیت کر کے زمین پر دونوں ہاتھ مارے اور انھیں جھاڑ کر پوری پیشانی کا مسح اوپر سے نیچے کی طرف کرے۔ اس کے بعد بائیں کی ہتھیلی سے داہنے ہاتھ کی پشت کا اور داہنے ہاتھ کی ہتھیلی سے بائیں ہاتھ کی پشت کا مسح کرے پھر احتیاطاً دوبارہ ہاتھ مارے اور صرف دونو ہاتھوں کا مسح کرے۔ تیمم چاہے وضو کے بدلے ہو یا غسل کے عوض دونوں صورتوں میں تیمم کرنے کا طریوہ یہی ہوگا۔ تیمم کو ہمیشہ آخری وقت میں کرنا چاہئیے لیکن اگر کسی کو یقین ہو جائے کہ میرا عذر یا مرض آخر وقت تک باقی رہےگا تو اول وقت بھی تیمم کر سکتا ہے۔ پھر اگر اس کے بعد وقت کے اندر عذر ختم ہو جائے تو دوبارہ نماز ادا کرنا چاہئیے۔

تیمم غسل کا مکمل بدل ہوتا ہے لہذا اس سے نماز بھی پڑھی جا سکتی ہے اور مسجد میں بھی داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ سوچنا کہ اس میں غسل کا لطف نہیں ہے یا اس سے دل نہیں بھرتا اسلام کے خلاف ہے۔ حکم خدا کی کسی انداز سے بھی توہین و مخلافت نہیں کی جا سکتی۔

سوالات :

۱َ تیمم کب کرنا چاہئیے ؟

۲ ۔ تیمم کن چیزوں پر صحیح ہوگا ؟

۳ ۔ تیمم کرنے کا طریوہ بتائے ؟

۵۷

فہرست

معلمّ کے لئے ہدایت ۴

پہلا سبق ۵

مذہب ۵

سوالات : ۵

دوسرا سبق ۶

اگر خدا نہ ہوتا ۶

سوالات : ۶

تیسرا سبق ۷

خدا کو بغیر دیکھے کیوں مانتے ہیں ؟ ۷

سوالات : ۷

چوتھا سبق ۸

ہمارا خدا ۸

سولات : ۸

پانچواں سبق ۹

مذہب اور لا مذہبیت ۹

سوالات : ۹

چھٹا سبق ۱۰

اصول اور فروع ۱۰

سوالات : ۱۰

۵۸

ساتواں سبق ۱۱

خدا عادل ہے ۱۱

سوالات : ۱۱

آٹھواں سبق ۱۲

نبوت ۱۲

سوالات : ۱۲

نواں سبق ۱۳

ہمارے رسولؐ ۱۳

سوالات : ۱۳

دسواں سبق ۱۴

امام ۱۴

سوالات : ۱۴

گیارہواں سبق ۱۵

ہمارے پہلے امامؐ ۱۵

سوالات : ۱۵

بارہواں سبق ۱۶

حضرت علیؐ کے اخلاق ۱۶

سوالات : ۱۶

تیرہواں سبق ۱۷

بارہ اماموں کی عمریں ۱۷

۵۹

سوالات : ۱۸

چودھواں سبق ۱۹

موت کے بعد ۱۹

سوالات : ۲۰

پندہواں سبق ۲۱

قرآن معجزہ ہے ۲۱

سوالات:۔ ۲۱

سولہواں سبق ۲۲

آداب تلاوت ۲۲

سالات : ۲۲

سترہواں سبق ۲۳

فرشتے ۲۳

سوالات : ۲۳

اٹھارہواں سبق ۲۴

اسباب خیر و برکت ۲۴

سوالات : ۲۴

انیسواں سبق ۲۵

اسباب نحوست ۲۵

سوالات : ۲۶

بیسواں سبق ۲۷

۶۰

61

62

63

64