امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم جلد ۴

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم 60%

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 83

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 83 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 54939 / ڈاؤنلوڈ: 2924
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم جلد ۴

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

امامیہ اردو دینیات

درجہ چہارم

نظیم المکاتب

۳

معلمّ کے لئے ہدایت

۱ ۔ الفاظ کے معنی لکھوا کر یاد کرائے جائیں۔ مطلب ذہن نشین کرایا جائے۔

۲ ۔سبق کے بعد والے سوالات کے جوابات مختصر لکھوا کر زبانی یاد کرائے جائیں۔

۳ ۔مسائل میں جہاں ضرورت ہو وہاں عملی تعلیم دی جائے۔

اور

مسائل زبانی یاد کرا جائیں

۴

پہلا سبق

ضرورت مذہب

درخت جنگل میں بھی اُگتے ہیں ، باغ اور چمن میں بھی لگائے جاتے ہیں لیکن جنگل میں آدمی جاتے ہوئے ڈرتا ہے اور باغ میں جانے کو اس کا جی چاہتا ہے۔ یہ صرف اس لئے ہے کہ جنگل میں کسی قاعدہ اور قانون کے بغیر درخت اُگتے ہیں اور باغ میں قاعدےسے لگائے جاتے ہیں۔ جنگل میں کوئی مالی درختوں کی دیکھ بھال نہیں کرتا ہے اور باغ میں مالی درختوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

انسانوں کو بھی اگر بغیر قاعدہ اور قانون کے جینے کا موقع دیا جائے تو انسانوں کی آبادی بھی جنگل کا نمونہ بن جائیےگی اور اگر قاعدہ اور قانون سے لوگ زندگی بسر کریںگے تو آدمیوں کی بستیاں جنت کا نمونہ بن جائیںگی۔ لہذا ضرورت ہے ایک ایسے قانون کی جو انسان کو جینے کا طریقہ بتائے اور اسی قانون کا نام مذہب ہے۔ انسانوں کے اسی چمن باغبان اور مالی نبی اور امام ہوتے ہیں جن کو خدا نے ہمیشہ ہماری ہدایت کے لئے بھیجا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ انسانوں کا قانون کا پابند ہو کر رہنا ضروری کیاں ہے ؟

۲ ۔ مذہب کسے کہتے ہیں اور اس کا کیا مقصد ہے ؟

۵

دوسرا سبق

کیا خدا نہیں ہے ؟

اس دنیا میں جہاں بےشمار مذہب والے پائے جاتے ہیں وہاں کچھ لوگ لامذہب بھی ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو دہریہ کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ دنیا بغیر کسی خدا کے ایک دن آپ ہی آپ پیدا ہو گئی ہے اور ایک دن آئےگا جب آپ ہی آپ مٹ جائےگی۔

ان لوگوں کے سامنے دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کے لئے کہا جا سکے کہ یہ خود بخود پیدا ہو گئی ہے لیکن صرف خدا کا انکار کرنے کے لئے یہ کہنے لگے ہیں کہ یہ پوری دنیا بغیر پیدا کرنے والے کے پیدا ہو گئی ہے۔

ہمارے چھٹے امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس ایک دہریہ آیا۔ جس کا نام عبد اللہ ویصانی تھا۔ اس نے اصحاب کے سامنے حضرتؐ سے خدا کے بارے میں بحث کرنا چاہی۔ آپ نے اُس سے پوچھا " تیرا نام کیا ہے ؟"

وہ جواب دئیے بغیر چلا گیا۔ اصحاب نے حیرت سے پوچھا ۔ "حضور ! یہ شخص کیوں چلا گیا۔ یہ تو آپ سے بحث کرنے آیا تھا ؟"

آپ نے فرمایا ۔ " بحث ختم ہو گئی اور وہ اپنی بحث میں ہار گیا اس لئے شرمندہ ہو کر چلا گیا۔ "

اصحاب نے عرض کی۔ " مولا! اس نے تو کوئی بات ہی نہیں کی، پھر بحث کیسے ختم ہو گئی ؟"

آپ نے فرمایا ۔ " میں نے اس کا نام پوچھ لیا۔ وہ سمجھ گیا کہ نام بتانے پر میں فوراً اُس سے سوال کروں گا کہ اگر اللہ نہیں ہے تو پھر تو عبد اللہ کیو نکہ ہے ؟ عبد اللہ کے معنی ہیں اللہ کا بندہ۔ جب اللہ ہی نہیں تو بندہ کہاں سے آ گیا ؟"

حضرت یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ بغیر خدا کے بندے کا وجود محال ہے اور جب بندے موجود ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کا پیدا کرنے والا خدا بھی موجود ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کیا دہریوں کے سامنے کوئی ایسی چیز ہے جو خود بخود بن گئی ہو ؟

۲ ۔ دہریہ بحث میں کیسے ہارا ؟

۶

تیسرا سبق

اگر دو خدا ہوتے

ہم نے دنیا میں یہ تجربہ کیا ہے کہ جب کسی کام کو دو آدمی مل کر انجام دیتے ہیں تو اُن میں کبھی آپس میں میل جول رہتا ہے ، کبھی اختلاف ہو جاتا ہے۔

میل جول کی صورت میں دونوں ایک دوسرے کی رائے کے پابند اور ایک دوسرے کے مشورہ کے محتاج رہتے ہیں اور اختلاف کی صورت میں کوئی کام انجام نہیں پاتا۔ یہی حال دو خداؤں کا ہے۔ اگر دو خدا ہوتے تو یا آپس میں اتفاق ہوتا یا اختلاف ہوتا۔ اگر دونوں میں اتفاق ہوتا تو دونوں ایک دوسرے کے محتاج اور اس کی رائے کے پابند ہوتے اور محتاجی اور پابندی صرف بندوں میں پائی جا سکتی ہے۔ خدا میں نہیں پائی جا سکتی۔ خدا نہ کبھی کسی کا محتاج ہو سکتا ہے نہ پابند ، ورنہ وہ خدا نہ رہےگا۔ اور اگر دونوں میں اختلاف ہو گیا۔ ایک نے کہا پانی برسنا چاہئیے ، دوسرے نے کہا نہیں برسنا چاہئیے تو اس جھگڑے میں دنیا کا کاروبار درہم برہم ہو جائےگا۔ کیونکہ دونوں کی بات تو چل نہیں سکتی۔ ایک ہی کی چلے گی۔ جس کی بات چلےگی وہ طاقتور ہوگا اور جس کی بات نہ چلےگی وہ کمزور ہوگا۔ جو طاقتور ہوگا اُسی کی خدائی باقی رہےگی اور جو کمزور ہوگا اس کی خدائی ختم ہو جائےگی۔

اسی لئے ہ کو ماننا پڑتا ہے کہ خدا ایک ہے۔

سوالات :

۱ ۔دو خدا ہوتے تو کیا ہوتا ؟

۲ ۔ خدا کو ایک کیاں ماننا پڑتا ہے ؟

۷

چوتھا سبق

غیب پر ایمان

اسلام کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ اس نے جہاں انسانوں کو آنکھوں سے کام لینا سکھایا ہے وہاں عقل سے کام لینے کا بھی حکم دیا ہے۔ آنکھ کا کام اُن چیزوں کو دیکھنا ہے جو ظاہر میں اور عقل کا کام ان چیزوں کو دیکھنا ہے جو جائز ہیں اور آنکھوں سے نظر نہیں آ سکتیں۔

دنیا میں بہت سی چیزیں آنکھ سے دیکھنے کے بعد مانی جاتی ہیں۔ مثلا سورج ، چاند ، ستارے ، پہاڑ ، سمندر وغیرہ اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جو آج تک کسی کو دکھائی نہیں دی ہیں مگر لوگ ان کو بغیر دیکھے مانتے ہیں جیسے کرنٹ ، روح ، عقل وغیرہ۔ ہم نے بجلی کے تار دیکھے ہیں مگر اس پر دوڑتی ہوئی بجلی نہیں دیکھی ۔ روح کی وجہ سے ہم سب زندہ ہیں مگر کسی نے روح کو دیکھا نہیں۔ عقل سے سب کام لیتے ہیں مگر عقل آج تک کسی کو دکھائی نہیں دی۔

اسی طرح مذہب نے بھی کچھ چیزیں بتائی ہیں جن کا ماننا اور اُن کے ہونے پر یقین و ایمان رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے کیونکہ یہ باتیں خدا اور رسولؐ کی بتائی ہوئی ہیں جو سچے تھے اور ان کی بیان کی ہوئی کوئی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔

جن ، ملائکہ ، حور ، غلمان ، جنت ، دوزخ ، کوثر، وغیرہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو خدا نے پیدا کیا ہے مگر وہ نظر نہیں آتی ہیں۔ لیکن ہم مسلمان ان کے وجود کا قرار کرتے ہیں کیونکہ رسولؐ نے بیان کیا ہے کہ یہ چیزیں ہیں۔

غیب پر ایمان لانا ہی حقیقی اسلام ہے جو شخص غیب پر ایمان نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں ہے۔ اسلام خدا کے یقین سے شروع ہوا ہے جو غائب ہے اور قیامت اصول دین کی آخری بات ہے جو غائب ہے۔

۸

بارہویں امامؐ غائب ہیں۔ بحکم خدا انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ آپ کی غیبت پر ایمان رکھنا اور آپ کے وجود کا یقین رکھنا اسلام کا ایک ایسا جز ہے جس کے بغیر اسلام مکمل نہیں ہو سکتا۔

سوالات :

۱ ۔ پھول ، آم ، سیب ، روح ، عقل ، بجلی ۔ ان چیزوں میں کون کون آنکھ سے دیکھی جاتی ہیں اور کون کون عقل سے ؟

۲ ۔ قرآن اور برزخ میں سے آنکھ سے دیکھ کر کس پر ایمان ہوتا ہے اور عقل سے دیکھ کر کس پر ؟

۳ ۔ جس کا ایمان غیبت پر نہیں اس کو مسلمان کہیںگے یا نہیں ؟

۹

پانچواں سبق

توکل

توکل کے معنی ہیں بھروسہ کرنا۔ انسان کو چاہئیے ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کرے۔ ساری نعمتیں چھین جائیں تو بھی مایوس نہیں ہونا چاہئیے اور ساری دنیا مخالف ہو جائے تو بھی ڈرنا نہیں چاہئیے۔ جو خدا پر بھروسہ کرتا ہے خدا اُسے ہر نعمت عطا کرتا ہے اور جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اور کسی سے نہیں ڈرتا اس لئے کہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ ہر نفع اور ہر نقصان خدا کے ہاتھ میں ہے۔ جسے خدا بچائے اسے کوئی مٹا نہیں سکتا اور جسے خدا مٹائے اُسے کوئی بچا نہیں سکتا۔ اور اسی طرح خدا جسے محروم کر دے اُسے کوئی کچھ سے نہیں سکتا اور جسے خدا مالامال کر دے اس سے کوئی کچھ چھین نہیں سکتا۔

جو خدا سے نہیں ڈرتا وہ دنیا کی ہر چیز سے ڈرتا ہے۔جو خدا سے ڈرتا ہے وہ موت سے بھی نہیں ڈرتا ۔ خدا سے نہ ڈرنے والا بزدل ہوتا ہے۔ جو صرف خدا سے امید رکھتا ہے وہ بندوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا ، بندوں کی خوشامد کرنے کے بجائے اپنے خدا کے سامنے گڑگڑاتا ہے ، نااُمیدیوں میں بھی مایوس نہیں ہوتا ایسے شخص کو خدا ، بندوں کے سامنے ذلیل نہیں کرتا۔

۱۰

جناب ابراہیم علیہ السلام کو جب نمرود اور اس کی قوم نے لاکھوں من آگ میں ڈالا تھا تو آگ کے شعلوں میں جاتے ہوئے آپ نہیں ڈرے کیونکہ آپ صرف خدا سے ڈرتے تھے۔ شعلوں میں جانے کے بعد بھی جناب ابراہیم ؐ مایوس نہیں ہوئے کیونکہ آپ صرف خدا سے امید رکھتے تھے۔ اللہ نے بھی آگ کو ٹھنڈا کر کے جناب ابراہیم کو بچا لیا۔ لہذا ہم کو بھی کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے اور ہمارے دل سے کبھی خدا کا خوف نہیں نکلنا چاہئے۔ ہم کو خدا سے اس طرح نہیں ڈرنا چاہئیے جس طرح ہم ظالم یا درندے سے ڈرتے ہیں کیونکہ اس صورت میں صرف ڈر ہی ڈر ہوتا ہے امید کی کوئی جھلک نہیں ہوتی بلکہ اس طرح ڈرنا چاہئیے جس طرح ہم ماں باپ یا استاد سے ڈرتے ہیں جہاں خوف کے ساتھ امید اور سہارا بھی ہوتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ توکل کے کیا معنی ہیں ؟

۲ ۔ اللہ نے جناب ابراہیم کو آگ سے کیوں بچایا ؟

۳ ۔ اللہ سے کس طرح ڈرنا چاہئیے ؟

۱۱

چھٹا سبق

عدل

عدل کے معنی یہ ہیں کہ خدا ہر برائی سے پاک ہے۔ اُس کی ذات میں ہی مکمل موجود ہے۔ نہ وہ کوئی بڑا کام کر سکتا ہے اور نہ کوئی ایسے کام کے کرنے سے رُک سکتا ہے اور نہ جس کا کرنا ضروری ہو لہذا نہ خدا ظلم کر سکتا ہے اور نہ ظالم کو سزا دینے سے رُک سکتا ہے۔

خدا کے ہر برائی سے پاک ہونے کی دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی برا کام کوئی شخص تب کرتا ہے جب اسے اس کی برائی معلوم نہ ہو یا برائی جانتا ہو لیکن کسی نفع کے لئے جان بوجھ کر برائی کرے۔ خدا میں یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں۔ وہ عالم ہے لہذا ہر برائی کو جانتا ہے اور غنی ہے لہذا اس کو کسی چیز کی ضرورت یا لالچ نہیں ہے اس لئے وہ برائی نہیں کر سکتا۔

دوسری دلیل خدا کے عادل ہونے کی یہ ہے کہ اس نے بندوں کو حکم دیا ہے کہ ظلم نہ کریں۔ قرؔآن مجید میں بھی یہ حکم بار بار آیا ہے اور ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھی اس کا یہ حکم بیان کیا ہے لہذا ظلم نہ کرنے کا حکم دیکر وہ خود کیسے ظلم کو سکتا ہے ؟

۱۲

تیسری دلیل خدا کے عادل ہونے کی یہ ہے کہ خدا نے کہا ہے کہ برے کام کرنے والوں کو دوزخ میں ڈالوں گا اور اچھے کام کرنے والوں کو جنت دوںگا۔ انسان جنت کی لالچ اور دوزخ کے خوف کی وجہ سے اچھے کام کرتے ہیں اور بڑے کاموں کو چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ اُن کو خدا کی بات پر بھروسہ ہے لیکن اگر خدا عادل نہ ہو بلکہ ظالم ہو تو ہم سوچ سکتے ہیں کہ ممکن ہے ہم اطھے کام کریں پھر بھی خدا دوزخ میں ڈال دی۔ یہ سوچنے کے بعد نہ خدا پر بھروسہ رہےگا نہ کوئی شخص برا کام کرنے سے باز رہےگا اور نہ کوئی اچھا کام کرےگا۔ اس طرح دنیا برائی سے بھر جائےگی۔

خدا کو عادل ماننا ہم سب پو لازم ہے۔

سوالات :

۱ ۔ خدا کے عادل ہونے کا کیا مطلب ہے ؟

۲ ۔ خدا کے عادل ہونے کی کوئی ایک دلیل بیان کرو ؟

۳ ۔ خدا عادل نہ رہے تو دنیا برائیوں سے کیوں بھر جائےگی ؟

۱۳

ساتواں سبق

نبوت

اس دنیا میں آدمی بھی پیدا ہوتا ہے اور جانور بھی۔ زندگی بھر دونوں کھاتے پیتے ہیں اور رہتے ہیں۔ پھر ایک دن دونوں ہی کو موت آ جاتی ہے۔ ان باتوں میں ہر آدمی اور ہر جانور ایک دوسرے سے ملتے چلتے ہیں۔ لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ جانور سے اس کے اچھے اور بڑے کاموں کا حساب نہ لیا جائےگا اور اچھے یا بڑے کاموں کی وجہ سے اسے جنت یا دوزخ میں نہ بھیجا جائےگا لیکن انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر اپنے خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ جس سے خدا خوش ہوگا اس کو جنت کی اچھی نعمتیں ملیںگی اور جس سے خدا ناراض ہوگا اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائےگا۔ جانور کی زندگی میں یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ خدا کن باتوں سے خوش ہوتا ہے اور جن باتوں سے ناراض ہوتا ہے۔ مگر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان باتوں کو بھی معلوم کرے جن سے خدا خوش ہوتا ہے اور ان باتوں کو بھی معلوم کرے جن سے خدا ناراض ہوتا ہے۔

خدا بندوں پر مہربان ہے اس لئے یہ باتیں بتانے کے لئے اس نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی بھیجے، جن میں تین سو تیرہ بڑے نبی تھے۔ بڑے نبی کو رسول کہتے ہیں۔ تین سو تیرہ رسولوں میں پانچ بڑے رسول تھے جن کو اولو العزم کہتے ہیں۔ ان پانچوں میں سب سے بڑے ہمارے رسول حضرت محمد مصطفےٰ صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے جو خدا کے آخری نبی تھے۔ آپ کے بعد نہ کوئی نبی آیا ہے اور نہ آئےگا۔ جتنے لوگوں نے آپ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ سب جھوٹے ہیں۔ جیسے مسیلمہ ، کذاب ، سجاح اور مرزا غلام احمد قادیانی وغیرہ۔

۱۴

جن نبیوں کے نام کتابوں میں ملتے ہیں اُن میں مشہور یہ ہیں :۔

۱ ۔حضرت آدمؐ ۲ ۔ حضرت نوحؐ ۳ ۔ حضرت ادریسؐ ۴ ۔ حضرت ابراہیمؐ

۵ ۔ حضرت اسمعیلؐ ۶ ۔ حضرت اسحاقؐ ۷ ۔ حضرت یعقوبؐ ۸ ۔ حضرت یوسفؐ

۹ ۔ حضرت یونسؐ ۱۰ ۔ حضرت لوطؐ ۱۱ ۔ حضرت صالحؐ ۱۲ ۔ حضرت ہودؐ

۱۳ ۔ حضرت شعیبؐ ۱۴ ۔ حضرت شیث ۱۵ ۔ حضرت داودؐ ۱۶ ۔ حضرت سلیمانؐ

۱۷ ۔ حضرت ذواکفیلؐ ۱۸ ۔ حضرت اَ یلسعؐ ۱۹ ۔ حضرت الیاسؐ ۲۰ ۔ حجرت زکریاؐ

۲۱ ۔ حضرت یحییٰؐ ۲۲ ۔ حضرت موسیٰؐ ۲۳ ۔ حضرت ہارون ۲۴ ۔ حضرت یوشعؐ

۲۵ ۔ حضرت عیسیٰؐ ۲۶ ۔ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

پانچ ادلواعزم رسول جن کو خدا نے صاحب شریعت بنایا تھا وہ جناب نوحؐ ، جناب ابراہیمؐ ، جناب موسیٰؐ ، جناب عیسیٰ ؐ ، اور حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔

ہمارے رسولؐ کے آنے کے بعد پچھلی تمام شریعتیں خدا نے ختم کر دی ہیں۔ اب قیامت تک صرف آپ کی شریعت باقی رہےگی اور صرف اُس کی نجات ہوگی جو آپ کی شریعت کا ماننے والا ہوگا۔

سوالات :

۱ ۔ انسانوں اور جانوروں میں کیا فرق ہے ؟

۲ ۔ انسانوں کو خدا کی خوشی اور ناخوشی کیسے معلوم ہوئی ؟

۳ ۔ دو جھوٹے نبیوں کے نام بتاؤ ؟

۴ ۔ دس سچے نبیوں کے نام بتاؤ ؟

۵ ۔ اب کس کی شریعت باقی ہے اور قیامت تک کس کی شریعت چلےگی ؟

۶ ۔ کن لوگوں کی نجات ہوگی ؟

۱۵

آٹھواں سبق

نبی کے اوصاف

تم جانتے ہو کہ ہر نبی میں چند باتوں کا پایا جانا ضروری ہے۔

۱ ۔ نبی عالم پیدا ہوتا ہے۔ اس کے ماں باپ دادا دادی وغیرہ تمام آباؤ اجداد مسلمان ہوتے ہیں۔ نبی کسی کافر کی نسل میں نہیں پیدا ہوتا بلکہ ہمیشہ پاک و پاکیزہ اور طیب و طاہر نسل میں پیدا ہوتا ہے۔ نبی ہمیشہ شریف اور باعزت گھرانے میں پیدا ہوتا ہے۔ نبی کو کوئی قابل نفرت بیماری نہیں ہوتی ۔ نبی کوئی ایسا کام یا پیشہ نہیں کرتا جو ذلت اور رسوائی کا سبب ہو۔

۲ ۔ ہر نبی معصوم ہوتا ہے۔ اس سے نہ کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے نہ کوئی برائی۔ نہ بھول چوک ہوتی ہے اور نہ خطا اور غلطی۔ نبی چونکہ عالم پیدا ہوتا ہے اس لئے ہر گناہ سے نفرت کرتا ہے اور ہر برائی سے بیزار رہتا ہے۔ اسی نفرت اور بیزاری کی وجہ سے وہ کبھی گناہ نہیں کرتا۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ معصوم برائی نہ کرنے اور نیک کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ اپنے علم کے باعث اپنے ارادہ اور اختیار سے گناہوں سے بچتا ہے اور نیکیاں بجا لاتا ہے۔

۳ ۔ نبی جتنے لوگوں کی ہدایت کے لئے آتا ہے ان سب لوگوں سے ہر کمال اور خوبی میں بہتر ہوتا ہے۔ نبی کے زمانہ کا کوئی انسان کسی خوبی مین نبی سے افضل نہیں ہو سکتا۔

۴ ۔ کوئی نبی خود بخود نہیں بنتا ہے بلکہ خدا اس کو نبوت دیتا ہے۔

سوالات :ؒ

۱ ۔ کیا نبی کے آباداجداد میں کوئی کافر ہو سکتا ہے ؟

۲ ۔ کیا معصوم اچھے کام کرنے اور بڑے کام نہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے ؟

۳ ۔ نبی کن لوگوں سے افضل ہوتا ہے ؟

۱۶

نواں سبق

نبی کی پہچان

خدا نے کس کو نبی بنا کر بھیجا ؟۔ یہ بات ہم کو دو طرح سے معلوم ہوتی ہے۔ ۱ ۔ جو نبی موجود ہے وہ بعد میں آنے والے نبی کا نام پتہ اور نشان بتا کر جائے جیسے عیسیٰ علیہ السلام ہمارے نبیؐ کے آنے کی خبر دی گئے تھے۔ اور آپ نے پیشینگوئی فرمائی تھی کہ میرے بعد ایک نبی آئےگا جو آخری نبی ہوگا اور اس کا نام احمدؐ ہوگا۔ ہمارے نبیؐ کے آنے کی خبر حضرت موسیٰؐ نے بھی دی تھی۔ آپ نے بتایا تھا کہ یثرب کے شہر میں آخری نبی آئےگا، چناچہ یہودی ہمارے نبیؐ کے آنے سے پہلے ہی شہر یثرب میں آ کر آباد ہو گئے تھے۔یثرب مدینہ منورہ کا دوسرا نام ہے۔ یہودی اور عیسائی جناب موسیٰ اور جناب عیسیٰؐ سے خبر سن کر آخری نبی کا انتظار کر رہے تھے مگر ان کی سب سے بڑی بدبختی یہ تھی کہ جب وہ نبی تشریف لائے جن کا انتظار تھا تو بجائے ایمان لانے اور مدد کرنے کے آپ کے دشمن اور سخت مخالف ہو گئے۔

۲ ۔ نبی کے پہچاننے کا دوسسرا ذریعہ معجزہ ہے۔ معجزہ خدا کی دی ہوئی وہ طاقت ہے جس کے ذریعہ نبی ایسے حیرت انگیز کام کر دکھاتا ہے جس کا جواب لانے سے اس کے زمانے والے عاجز ہو جاتے ہیں۔اس طرح زمانہ کے لوگوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ معجزہ دکھانے والا خدا کا بھیجا ہوا نبی ہے۔ اسی لئے ہر نبی نبوت کے دعوے کے ثبوت میں معجزہ پیش کرتا ہے۔ جیسے جناب موسیٰ علیہ السلام کا عصا جس نے اژدہا بن کر جادوگروں کی ان تمام رسیوں کو نگل لیا تھا جو جادوگروں کے کرتب کی وجہ سے رینگتے ہوئے سانپ نظر آ رہی تھیں۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ اور بیماروں کو بغیر دوا کے اچھا کر دیتے تھے۔

۱۷

ہمارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی بہت سے معجزے دکھائے ہیں۔ آپ نے انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کر دئے تھے۔ ایک بار آپ کی انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری ہوا تھا۔ پتھر اور جانور آپ کے حکم پر انسانوں کی طرح آپ کی نبوت و رسالت کی گواہی دیتے تھے۔ درخت آپ کے حکم پر چل کر آپ کے پاس آ جاتے تھے۔ قرآن مجید ہمارے نبیؐ کا سب سے بڑا اور قیامت تک باقی رہنے والا معجزہ ہے جس میں تمام انسانوں اور جنوں کو چیلینج کیا گیا ہے کہ اگر ممکن ہو تو تم سب مل کر اس کا جواب لاؤ مگر آج تک جواب نہیں آ سکا جو قرآن مجید کے معجزہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

سوالات :

۱ ۔ نبی کی پہچان کے دو طریقے کیا ہیں ؟

۲ ۔ نبی کو خدا معجزہ کیوں دیتا ہے ؟

۳ ۔ پانچ معجزے بیان کرو ؟

۱۸

دسواں سبق

ہمارے آخری نبیؐ

ہمارے نبیؐ ۱۷/ ربیع الاول ۱ ؁ عام الفیل کو جمعہ کے دن صبح صادق کے قریب مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ نبی کریم کی والدہ ماجدہ جناب آمنہؐ خاتون ہیں۔ آپ کے نانا وہب ہیں جو مدینہ منورہ کے بہت باعزت آدمی تھے۔ نبی کریمؐ کی ولادت سے قبل ہی آپ کے والد محترم جناب عبدؐ اللہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ جناب ابو طالبؐ آنحضرتؐ کے چچا تھے۔ آپ کی ولادت کے وقت زمین سے آسمان تک ایک نور روشن تھا۔ ملائکہ آسمان سے بڑی تعداد میں زمین پر اُتر رہے تھے۔ شیطان نے گبھرا کر ملائکہ سے پوچھا کہ کیا قیامت آ گئی۔ ملائکہ نے بتایا کہ آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیدا ہوئے ہیں۔ ہم آسمانوں سے مبارکباد کے لئے آ رہے ہیں۔ شیطان یہ سنکر اسی وقت سے نبی کریم اور اُن کی آلؐ پاک کا دشمن ہو گیا۔

آپ جب چار برس کے تھے تو آپ کی والدہ ماجدہ جناب آمنہؐ خاتون نے مقام ابواء میں انتقال فرمایا۔ آپ آٹھ برس کے تھے جب آپ کی شفیق دادا جناب عبد المطلبؐ نے انتقال فرمایا۔ دادا کے انتقال کے بعد آپ کی پرورش آپ کے حقیقی اور مہربان چچا جناب ابو طالبؐ نے کی جناب ابوطالبؐ مرتے دم تک آپ کے حامی و مددگار اور ناصر و محافظ رہے۔ آپ کی چچی جناب فاطمہؐ بنت اسد حضرت علی عیہ السلام کی والدہ ماجدہ ہیں انھوں نے مثل ماں کے آپ کو پالا۔ آپ بھی ان کو ماں ہی کہتے تھے۔ جب آپ کا سن مبارک پچیس سال کا تھا تو آپ کی شادی عرب کی مشہور خاتون جناب خدیجہؐ سے ہوئی۔ جناب خدیجہؐ نے اپنی ساری دولت اسلام کی تبلیغ پر صرف کر دی۔ جناب خدیجہؐ کے انتقال کے بعد نبیؐ کریم نے بہت سی شادیاں کیں۔

۱۹

لیکن آپ اپنی وفات تک حضرت خدیجہؐ ہی کو یاد فرماتے رہے۔ جب آپ کا سن مبارک چالیس برس کا ہوا تو ۲۷ رجب کو خدا نے آپ کو اعلان نبوت کا حکم دیا۔ تین سال آپ نے پوشیدہ تبلیغ کی اس کے بعد کھل کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا۔جب آپ کی عمر اکیاون سال تھی اور اسلام کے اعلان کو گیارہ برس ہو چکے تھے تو چند مہینوں کے فاصلے سے یکے بعد دیگرے جناب ابوطالبؐ اور جناب خدیجہؐ نے انتقال کیا۔ آپ ان دونوں کی موت پر بہت رنجیدہ ہوئے اور اس سال کا نام " غم کا سال " رکھ دیا۔ جب آپ کی عمر ۵۳/ برس کی تھی تو مکہ میں تیرہ سال دین کی تبلیغ کر کے اور سخت ترین مصائب جھیل کر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ ہجرت کی رات دشمنوں نے آپ کا گھر گھیر لیا تھا۔ آپ اللہ کے حکم سے گھر کے باہر نکلے تو دشمن اندھے ہو گئے۔ آپ کو جاتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔ آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بستر پر سلا دیا۔ دشمن بھرا بستر دیکھ کر رات بھر یہی سمجھتے رہے کہ نبیؐ کریم آرام فرما رہے ہیں اور حضرت علی علیہ السلام دشمنوں کی کھینچی ہوئی تلواروں کے سایہ میں رات بھر بڑے اطمینان سے آرام فرماتے رہے۔ دس سال مدینہ منورہ میں آنحضرتؐ نے قیام فرمایا۔ ۶۳ سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔ آپ نے جس سال مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی ہے اسی سال سے یہ سن ہجری شروع ہوا ہے۔ ہجرت کے دوسرے سال آپ نے اپنی لخت جگر اسلام کی شہزادی جناب فاطمہؐ زہرا علیہا السلام کی شادی دین و دنیا کے مولا حضرت علی علیہ السلام سے کی ۱۰ ھ؁ میں آنحضرتؐ نے آخری حج کیا اور حج کی واپسی پر ۱۸/ ذی الحجہ کو غدیر خم کے مقام پر سوا لاکھ حاجیوں کے سامنے دن دوپہر کھلے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے اپنا خلیفہ اور جانشین مقرر فرمایا اور تمام مسلمانوں کا حاکم قرار دیا۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

كيا اس صورتحال ميں حفصہ سے رسول خدا كى شادى ايك بيوہ كى نفسياتى شكست اور عثمان و ابوبكر سے ازردگى ختم كرنے كيلئے نہيں تھى ؟

اسى زمانے ميں دوسرى خواتين جيسے ام سلمہ جو بڑى عمر كى اور صاحب اولاد تھيں اور ان كے شوھر جنگ احد ميں مارے گئے تھے ،شھر غربت ميںكيا كر سكتى تھيں كيا ان كے لئے ايسا ممكن تھا كہ اسى خانوادے ميں واپس جائيں جنكے تشدد سے تنگ اكر انھوں نے حبشہ كى طرف فرار كيا تھا _

يا وہ دوسرى خاتون زينب بنت خزيمہ جنكى رسول خدا سے پہلے دو مرد وں سے شادياں ہوئي تھيں اور دوسرے شوہر جنگ احد ميں شھيد ہوئے تھے ، وہ اپنى زندگى كے دن كيسے كاٹ سكتى تھيں ؟

اسى طرح ابو سفيان كى بيٹى ام حبيبہ جو اپنے خاندان كى سختيوں سے تنگ اكر اپنے شوہر كے ساتھ حبشہ بھاگ گئي تھيں ، وہاں ان كے شوہر كا انتقال ہوگيا انكى بيچارگى كا درمان سوائے اس كے اور كيا تھا كہ رسول كے زير سايہ اجائيں ام حبيبہ اسى ابو سفيان كى بيٹى ہيں جس نے اسلام كا نام و نشان مٹانے اور رسول خدا كو ذليل كرنے كيلئے كوئي پاپ نہيں چھوڑا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے خلاف جو بھى سركشى كا پرچم بلند ہوا اسكا بانى مبانى ابو سفيان ، اپ نے اسى ابو سفيان كى ابرو كا اسطرح تحفظ فرمايا كہ جسكا گمان بھى نہيں كيا جاسكتا تھا ، ہاں ، اگر قريش نے ابو سفيان كى سر كشى ميں يہ كوشش كى تھى كہ اپ كى بيٹيوں كو طلاق دلا كر انكے گھر واپس كرديا جائے اج وہى پيغمبر ہيں ، اسى ابو سفيان كى بيٹى كو حبشہ سے نكاح نامے كے ساتھ اپنى زوجہ بنا ليا ، انھيں اعزاز و اكرام كے ساتھ مدينہ بلوايا ، يعنى انھيں عرب كے شريف ترين شخص كى خاتون بنا ليا ، رسول خدا خانوادہ ء عبد المطلب سے جو تھے يہى وہ بات تھى كہ ابو سفيان جھومنے لگا ، اور ايسا جملہ زبان سے نكالا جو ہميشہ كيلئے ضرب المثل بن گياذالك الفحل لا يقدع انفه _

يہ وہ مرد ہے كہ اسكى ناك نہيں رگڑى جا سكتى اسكے دماغ پر ہتھوڑا نہيں لگايا جا سكتا ، ايسى كردار كى عظمت كا رد عمل تمام بنى اميہ كے افراد خاندان ميں كيا تھى جو كچھ گذشتہ صفحات ميں نقل كيا گيا اسكى مثال ميرے علم ميں تو نہيں ہے ليكن اس واقع كى نطير جو مجھے معلوم ہے قبيلہ بنى المصطلق كے سردار كى بيٹى كى شادى كا واقعہ ، تفصيلى انداز ميں نظر اتا ہے

۴۱

قبيلہ بنى المصطلق خزائمہ كى ايك شاخ تھا ، اور مدينے سے پانچ منزل پر رہتا تھا ، اسكا سردار حارث رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ كرنے كيلئے قبائل عرب كو ملا كر ايك بڑا لشكر تيار كر چكا تھا كہ ناگہان رسول خدا نے اچانك ان پر حملہ كر ديا ،

اس وقت دوسرے قبائل جو اسكى كمك ميں ائے تھے سبھى بھاگ گئے ، رسول خدا نے ان سے اسلام قبول كرنے كو كہا ، انھوں نے قبول نہيں كيا ، جنگ بھڑك اٹھى ، حارث كے قبيلے نے شكست كھا كر ہتھيار ڈال دئے ، قيديوں ميں خود حارث كى بيٹى بھى تھى ، جس انصارى نے اسے اسير كيا تھا رسول خدا نے اسكو خريد كر ازاد كر ديا ، پھر اس سے خود ہى عقد كر ليا ، اور اپنى ازواج ميں شامل كر ليا ، حالانكہ اگر چاہتے تو بطور كنيز اس سے ہم بستر ہوتے ، مسلمانوں نے اس ازدواج كے احترام ميں اپنے تمام قيديوں كو ازاد كر ديا ، اس اعلى ظرفى كى خبر حارث كو ملى تو مدينے ايا اور اسلام قبول كر ليا اسكے بعد تمام قبيلے والے مسلمان ہو گئے ، صلح حديبيہ كے زمانے ميں اسكا قبيلہ اور خزائمہ كا قبيلہ جس طرح قريش ہم پيمان ہوئے تھے يہ بھى ہم پيمان ہوئے _

يہيں سے جنگ زدہ عرب كے قبائل كى حكمت پر نظر جاتى ہے ، وہ لوگ جب چاہتے تھے كہ صلح و اشتى قائم ہو تو ظالم قبيلہ مظلوم قبيلے كو اپنى بيٹى ديديتا تھا ، اور اس طرح شادى بياہ كے ذريعے سياسى رابطہ بر قرار ہو جاتا تھا ، واضح بات ہے كہ رسول خدا كى تمام شادياں اس قاعدے سے مستثنى نہيں تھيں ، مثلاً صفيہ سے اپكا نكاح جو خيبر كے يہودى سردار كى بيٹى تھيں يا ريحانہ جو بنى نظير كے يہوديوں ميں سے تھيں اور اسكا شوہر بنو قريظہ كا يہودى تھا _

اس طرح كى شاديوں سے رسول خدا كا مقصد واضح ہوتا ہے كہ اپ سركش قبائل سے رشتہ قائم كرنا چاہتے تھے ، اس حكمت كى وضاحت اس سے بھى ہوتى ہے كہ اپ نے كوئي ايك رشتہ بھى انصار سے قائم نہيں كيا ، كيونكہ انصار كى بيوہ عورتيں خود اپنے گھر اور ٹھكانے ميں تھيں ، اپنے خاندان ميں تھيں ، ان كو كسى سرپرستى يا معاشى تعاون كى ضرورت نہيں تھى ، بلكہ انصار ہى نے مكہ كے مہاجروں كى مالى مدد كى ، انھيں گھر ، لباس اور كھانا ديا ، ان تمام شاديوں سے رسول خدا كى حكمت عملى روشن ہے صرف دو مواقع ہيں جنكے تجزيے كى ضرورت ہے ، پہلى تو عائشه سے اپ كى شادى ، كيونكہ رسول خدا نے ان سے نو سال پورے ہوتے ہى ازدواج فرمايا ،اور خود ہى يہ رواج موجودہ عادات كے مخالف ہے ،اور جو لوگ شھرى زندگى بسر كرتے ہيں ان كے خصوصيات سے ميل نہيں كھاتا _

اس اعتراض كے جواب ميں اول تو ہم يہ كہيں گے كہ اس عہد كے زمانى و مكانى حالت كو اج كے زمانى و مكانى حالت پر قياس كرنا غلط ہے ، ہم يہ بھى كہيں گے كہ خود رسول ہى نے ايسى كم عمر ميں شادى نہيں كى ، بلكہ اپ نے بھى اپنى پيارى بيٹى كا عقد نو سال ہى كى عمر ميں كيا ،اور يہ بات اسلامى قانونى لحاظ سے صحيح ہے دوسرے يہ كہ انسان كى فطرت ہے كہ گرم شہروں ميں جلد بالغ ہو جاتا ہے اور جلد ہى ٹوٹ پھوٹ بھى جاتا ہے ، يہ چيز اج ہندوستان ميں ديكھى

۴۲

جا سكتى ہے ، وہاں كى اكثر لڑكياں جلد بالغ اور بچے والى ہو جاتى ہيں اور جلد ہى بوڑھى بھى ہوجاتى ہيں ، اسى كے مقابل تبتى كہساروں معاملہ اس كے الٹا ہے ، جيسا كہ كہا جاتا ہے وہاں مردوں كا سن كبھى كبھى دو سو سال تك پہونچ جاتا ہے اور سو سال ميں وہ جوان نظر اتا ہے _

دوسرا واقعہ زينب بنت جحش كے نكاح كا ہے ، جو رسول كے منھ بولے بيٹے اسامہ كى مطلقہ تھيں ، اس ازدواج كى حكمت ميں نے وہيں بيان كى ہے _

ان تمام تجزيوں سے رسول خدا كى متعدد ازواج كى حكمت واضح ہے پھر ان كے بارے ميں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ اخر كيا بات ہوتى كہ رسول خدا كے خلاف بد گمانى اور غلط فہمى تعدد ازواج كے بارے ميں پيدا ہو گئي ، اس سوال كا جواب يہ ہے كہ جس وقت ہم نے حديث و سيرت كے تجزيے كئے تو ہم نے ديكھا كہ تمام غلط فہمياں صرف اور صرف ان حديثوں سے رسول خدا كے عورت باز ہونے كى نشان دہى ہوتى ہے ، اور خود يہى اہم ترين مسئلہ اس كتاب كے لكھنے كا سبب بنا ہے _

ايندہ فصلوں ميں ہم بعض روايات پر بحث كريں گے _

عائشه رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر ميں

رشك، و غيرت

ہم نے بتايا كہ عائشه نفسياتى اعتبار سے بلند پرواز جاہ طلب ، تند خو اور شوھر كے لئے دل ميں رشك برتنے والى تھيں ، وہ شوہر كے دل ميں دوسرے كو جاگزيں نہيں ديكھ سكتى تھيں _

ان كے شديد غيرت و حسد كا نمونہ اس وقت نظر اتا ہے جب رسول خدا نے وقتى مصلحت كے تحت دوسرى شادى كى _

عائشه كا حسد اس وقت سامنے اتا ہے جب ام سلمہ زينب اور دوسرى خواتين رسول كے گھر ميں ائيں ، اس دور ميں ان لوگوں كا نام درميان ميں اتا ہے اور بے جھجھك اپنے اندرونى احساسات كو بغير كسى پردہ پوشى كے ظاہر كيا ہے ، اور اپنى شديد غيرت كو لچر اور بے بنياد خيالات ميں بيان كيا ہے _ خاص كر ان راتوں ميں جب رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا عبادت كے لئے گھر سے نكلتے ہيں ، رسول خدا اندھيرى راتوں ميں جس وقت كے تمام دينا سكون و اطميان سے سو رہى ہوتى

۴۳

اپنے خدا سے راز و نياز ميں مصروف ہو جاتے ، كچھ رات گذرتى تو خداسے خلوت و عبادت كرتے ، اس قسم كى عبادت كا اقدام اسطرح ہوتا كہ رسول خدا كى ہر رات كسى زوجہ كيلئے مخصوص ہوتى ، يہى وجہ تھى كہ كچھ رات گذرنے كے بعد گھر سے باہر نكلتے جيسے مسجد ميں يا بقيع كے قبرستان ميں جاتے ، اور وہيں عبادت كرتے ، اسى طرح ايك رات جبكہ عائشه كى بارى تھى ، رسول خدا كو انھيں كے گھر رہنا تھا ، جس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے كچھ رات گذرنے كے بعد عبادت كے لئے گھر سے قدم نكالا عائشه كى نسوانى رشك و غيرت بھڑك اٹھى ، انھوں نے رسول خدا كا تعاقب كيا ، ان كے پيچھے پيچھے چليں تاكہ يہ ديكھيں كہ رسول خدا كہاں جا رہے ہيں اور كيا كر رہے ہيں ؟

عائشه نے خود ہى مختلف مواقع اور مختلف راتوں ميں اس تعاقب كے نمونے بيان كئے ہيں ، ايئےم انھيں كى زبانى سنيں _

راتوں كا تعاقب

عائشه كہتى ہيں ، ايك رات ميں نے محسوس كيا كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اپنے بستر پر نہيں ہيں ، ميرے غم و غصے سے بھرے و سوسے اور خيالات نے اس گمان پر مجبوركيا كہ يقينى طور سے كسى دوسرى عورت كے يہاں گئے ہيں ، يہ سوچكر ميں اپنى جگہ سے اٹھى اور انھيں تلاش كرنے لگى كہ ناگاہ انھيں مسجد ميں پايا ، وہ مسجد ميں پڑے فرما رہے تھے _

ربّ اغفرلى (خدا يا مجھے بخش دے )(۲) _

ايك اور جگہ فرماتى ہيں :

ميں نے ايك رات ديكھا كہ پيغمبر اپنے بستر پر نہيں ہيں ميں نے دل ميں سوچا كہ يقينا كسى دوسرى زوجہ كے يہاں گئے ہيں ، كان كھڑے كر كے ادھر ادھر تلاش كرنے لگى ناگہاں ديكھا كہ بارگاہ خدا وندى ميں ركوع كر رہے ہيں(۳)

ان كا يہ بھى بيان ہے كہ ميں نے ايك رات اپ كو اپنے بستر پر نہيں پايا ، انھيں ڈھونڈھنے كيلئے اپنى جگہ سے اٹھى اور

____________________

۲_ مسند احمد ج۶ /ص ۱۴۷

۳_ مسند احمد ج۶ص ۱۵۱

۴۴

تاريك رات ميں ہر طرف بے اختيار ہاتھ چلانے لگى اچانك ميرا ہاتھ ان كے تلوے پر پڑ گيا ، وہ مسجد كے اندر بارگاہ خدا وندى ميں سجدہ كى حالت ميں فرما رہے تھے(۴) _

اسى طرح وہ فرماتى ہيں :

ايك رات ميرى بارى تھى كہ رسول خدا ميرے گھر رات بسر كريں ، اپ نے عباء دوش سے اتار كر ايك طرف ڈالا ، جوتے ڈھونڈ ھكر بستر كے نزديك پيروں كے پاس ڈالا اسوقت اپنے چادر منھ پر ڈالى اور ليٹ گئے ، دير تك ايسے ہى رہے اس حد تك كہ اندازہ كر ليا كہ ميں سو گئي ہوں پھر اپ اپنى جگہ سے اٹھے دھيرے سے اپنى عبا اٹھائي اسطرح جوتے پہنے كہ اواز نہ ہو ، پھر اپ نے كواڑكھولى اور گھر سے اسطرح نكلے كہ پيروں كى چاپ بھى نہ سنائي دے ، ميں بغير كچھ سونچے اپنى جگہ سے اٹھى ، اپنے كپڑے پہنے ، اوڑھنى سر پر ڈالى اس پر عبا كھينچ كر تيزى كے ساتھ گھر سے نكلى اور ان كا پيچھا كرنے لگى ،ميں نے انھيں بقيع كے قبرستان ميں پايا ، رسول خدا وہاں بيٹھے اور كافى دير ٹھرے رہے پھر ميں نے ديكھا كہ تين بار ہاتھوں كو اسمان كى طرف بلند كيا ،پھر واپس ہوئے ميں بھى واپس ہوئي ،وہ تيز بڑھنے لگے ،ميں بھى تيز چلنے لگى ،وہ اور تيزى سے قدم بڑھائے ميں نے بھى ايسا ہى كيا ، وہ دوڑنے لگے تو ميں بھى دوڑى ، اخر كار ان سے پہلے گھر ميں اگئي اور بس اتنى دير كہ اپنے كپڑے اتار لے اور ليٹ گئي ، اتنے ميں رسول خدا اگئے ، اس وقت ميرى سانس پھول رہى تھى رسول خدا نے فرمايا ، اس طرح تيز سانسيں كيوں لے رہى ہو؟

كچھ نہيں ، اے خدا كے رسول

تم خود كہو گى يا ميرا واقفكار خدا اس راز سے اگاہ كرے گا ؟

ميرے ماں باپ فدا ہوں ، بات اصل ميں ايسى اور ايسى تھي

اچھا تو وہ سياہى جو ميرے اگے اگے تھى وہ تم تھيں ؟

جى ہاں _اسوقت رسول خدا نے ہتھيلى سے ميرى پشت پر اسقدر زور سے مارا كہ درد ہونے لگا _

تو نے ايسا گمان كيا تھا كہ خدا و رسول تيرے اوپر ظلم كريں گے ؟(۵)

____________________

۴_ مسند احمد ج۶ ص۵۸ و ج۶ ص۲۰۱

۵_ مسند احمد ج۶ ص۲۱ ۲

۴۵

يہ بھى بيان ہے :

ايك رات رسول خدا ميرے پاس سے نكل كھڑے ہوئے ميرى غيرت اور حسد خويش ميں ايا ، غصے ميں بھر گئي ، جب انحضڑت واپس ائے اور ميرا حال ديكھا تو وجہ پوچھى ، اور فرمايا عائشه تجھے كيا ہوگيا ہے پھر بھى تو حسد اور غصہ كرتى ہے _

اخر ميرے جيسى اپ جيسے كى حسد كيوں نہ كرے _

تو پھر اپنے شيطان كے جال ميں پھنس گئي ہے(۶)

يہ بھى بيان ہے :

جب كچھ رات گذر گئي ، رسول خدا اٹھے اور گھر سے نكل گئے ميں نے گمان كيا كہ كسى زوجہ كے گھر گئے ہوں گے _

پھر ميں اٹھى اور دھيرے دھيرے ان كا پيچھا كرنے لگى ، يہاں تك كہ اپ بقيع كے قبرستان ميں گئے ، وہاں اپ بيٹھ گئے ، اور ان مومنوں سے جو ابدى نيند سوئے ہوئے تھے خطاب فرمايا :

اے گروہ مومنين تم پرصلوات

اچانك اپ مڑے تو مجھے اپنا پيچھا كرتے پايا تو فرمايا :

وائے ہو اس پر ، اگر قابو چلے تو كيا كيا كر گذرے(۷)

عائشه اور ديگر ازواج رسول (ص)

مد بھيڑ _سوتاپا

ام المومنين عائشه سے رنگ و صورت سے رشك و حسد اور نسوانى غيرت ، اور بد خلقى ظاہر ہوئي ہے ، جس كے نمونے دوسرى ازواج رسول كے لئے اپے سے باہر ہونے ، برتن توڑنے اور كھانوں كو پھينكنے ، چال ڈھال كے ڈھنگ اور مد بھيڑوں ميں نظر اتے ہيں ، ميں نے ان دونوں باتوں كى الگ الگ طريقے سے بحث و تحقيق كى ہے ، پہلے عائشه كے رد عمل كو پيش كرونگا كہ دوسرى خواتين نے رسول خدا كے لئے كھانا تيار كر كے خدمت ميں حاضر كيا تو عائشه كا رد عمل كيا ہوا ، اسكے بعد دوسرى ازواج رسول سے انكى مد بھيڑوں كو مورد بحث و تحقيق قرار دوں گا _

____________________

۶_مسند احمد ج۶ ص ۱۱۵

۷_ مسند احمد ,ج۶صفحات ۸۶ و ۱۱۱, بروايت قاسم مسند طيالمى حديث ۱۴۲۹

۴۶

بد حواسياں

فلما رايت الجاريه اخذتنى رعدة حتى استقلنى افكل ، فضربت القصعة فرميت بها

ميں نے جيسے ہى كھانے لئے ہوئي كنيز كو ديكھا تو ميں تھر تھر كانپنے لگى ، پھر تو ميں نے بد حواسى ميں كھانے كا برتن تھاما اور دور پھينك ديا _

اتفاق ايسا ہوا كہ انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عائشه كے گھر ميں تھے ، ايك دوسرى زوجہ نے اپ كے لئے كھانا تيار كر كے بھيجا اس وقت ام المومنين قابو سے باہر ہو گئيں اور شديد رد عمل ميں ايسا غصہ دكھايا كہ اسكے نمونے يہاں پيش كئے جاتے ہيں

عائشه اور ام سلمہ كى غذا

ايك دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عائشه كے گھر ميں تھے ام سلمہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لئے كھانا تيار كر كے ايك برتن ميں ركھ كر بھيجا ، عائشه كو پہلے يہ ام سلمہ كى ہى يہ خوش خدمتى معلوم ہو گئي تھى وہ خود كو عبا ميں لپيٹے ہوئي تھيں ، ہاتھ ميں پتھر تھا ،اسى پتھر سے كھانے كے برتن كو ايسا مارا كہ برتن ٹوٹ گيا ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عائشه كى يہ حركت ديكھى تو اس برتن كے بدلے دوسرا برتن ام سلمہ كے لئے بھيج ديا(۸)

عائشه اور حفصہ كا كھانا

خود ہى عائشه كا بيان ہے:

ميں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے لئے كھانا تيار كيا تھا ، اتنے ميں مجھے خبر ملى كہ حفصہ نے بھى ايسا ہى كيا ہے ، ميں نے اپنى كنيز كو حكم ديا كہ تيار رہو اگر ديكھنا كہ حفصہ مجھ سے پہلے كھانا لے ائي ہے تو اس سے چھين كر دور پھينك دينا ، كنيز حكم بجا لائي اور ايسا ہى كيا ، نتيجے ميں حفصہ كے كھانے كا برتن ٹوٹ گيا اور جو كچھ برتن ميں تھا چرمى دستر خوان پر بكھر گيا ،رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بذات خود گرے ہوئے كھانے كو جمع كر كے مجھ سے فرمايا :

اپنا برتن لائو اور حفصہ كے ٹوٹے برتن كے بدلے اسے بھيج دو(۹)

____________________

۸ _ صحيح مسلم باب الغيرة

۹_ مسند احمد ج۶ /۱۱۱،و كنزالعمال ج۴ ,ص۴۴

۴۷

عائشه اور صفيہ كا كھانا

صفيہ كا تعارف گذشتہ صفحات ميں كيا گيا ، اب ذرا ام المومنين عائشه كے بارے ميں بھى سنئے ، خود عائشه كى زبانى كھانے كا برتن دور پھينكنا اور صفيہ كا برتن ٹوٹنا ملاحظہ فرمايئے عائشه كہتى ہيں :

ايك دن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ميرے گھر ميں تھے ، صفيہ نے كھانا پكا كر انحضرت كى خدمت ميں بھيجا ، جب ميں نے كھانا لئے ہوئے كنيز كو ديكھا تو ميرے جسم مين لرزہ پڑ گيا يہاں تك كہ ميں نے بد حواسى ميں كھانے كا برتن چھين كر دور پھينك ديا ، ميں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى انكھيں غصے سے لال ديكھيں ان كے تمام وجود سے غم و غصہ جھلك رہا تھا ، ميں نے فوڑاً كہا :

رسول خدا كے غصے سے حضرت كى پناہ چاہتى ہوں ، مجھے اميد ہے كہ نفرين نہ فرمائيں گے ، تو بہ كرو _

اب ميں اس عمل كى تلافى كيسے كروں ؟

ويسا ہى كھانا بھيجو اور ويسا ہى برتن فراہم كر كے بدلے ميں بھيجو(۱۰) _

مد بھيڑيں

تغار على قلب زوجها ، فلا تريد ان تشاركها فيه انثى غيرها

عائشه اپنے شوہر پر بہت حاسد تھيں يہ حداست تھا كہ اپنے سوا دوسرى عورت كے لئے شوہر كے دل ميں ذرا گنجائشے نہيں ديكھ سكتى تھيں اب موقع ہے كہ ديگر ازواج رسول سے ام المومنين عائشه كى تند مد بھيڑوں اور گرما گرم اقدامات كا مطالبہ كيا جائے_

عائشه و صفيہ

عائشه اور صفيہ ايك گھر يلو مد بھيڑ ميں ايك دوسرے كے ساتھ بد كلامى كرنے لگيں طعنہ زنى كے ساتھ مار پيٹ كرنے لگيں _

جب رسول خدا كو ان دونوں كے جھگڑے اور دعوے كى خبر ہوئي تو صفيہ سے فرمايا جو عائشه كى ملامت اور ڈينگو ں سے سخت رنجيدہ تھيں تم نے يہ كيوں نہ كہا كہ ميرے باپ ہارون تھے اور چچا حضرت موسى تھے ؟(۱۱)

____________________

۱۰_ مسند احمد ج ۶ ص ۲۷۷ ،۱۴۴_ نسائي ج۲ ص ۱۵۹، سيرة حلبيہ ۲۸۳ ،۲۸۴

۱۱_ طبقات ابن سعد ج,۸

۴۸

خود عائشه كا بيان ہے :

ميں نے رسول خدا سے شكايت كرتے ہوئے كہا كہ صفيہ ايسى اور ويسى ہے ، ميں نے اسكى بڑى مذمت كى رسول خدا نے ميرا جواب ديا :

صفيہ كے بارے ميں تم نے ايسى باتيں كہى ہيں كہ اس سے سمندر بھى گندہ ہو جائے(۱۲)

صفيہ كا بيان ہے :

ميں رسول خدا كى خدمت ميں روتى ہوئي پہونچى ،مجھے روتے ہوئے ديكھا تو فرمايا :

جس كى بيٹى كيو ں رورہى ہو؟

ميں نے سنا ہے كہ عائشه و صفيہ بيٹھ كر ميرى برائياں كرتى ہيں(۱۳)

سودہ كے ساتھ

ام المومنين عائشه كا سودہ كے ساتھ دعوى اور تھپڑ بازى كا قصہ يوںپيش ايا كہ ايك دن عائشه نے سودہ كوشعر گنگنا تے ہوئے سن ليا ،عدى و تيم تبتغى من تحالف_

عدى اور تيم (دونوں كے نام ہيں ) اس بات كے در پے ہيں كہ ايك دوسرے كے ساتھ تعاون كے ہم پيمان ہوں _

سودہ سے يہ شعر سن كر ام المومنين لال بھبھوكا سرخ انگارہ ہوگئيں _

عمر كى بيٹى حفصہ سے كہا :

سودہ اپنے شعر سے ميرى اور تمھارى مذمت كر رہى ہے(۱۴) ميں اس بد تميزى كى سزا دونگى جب تم ديكھنا كہ ميں سودہ كا گلا دبا ديا ہے تو ميرى مدد كو اجانا _

پھر وہ اٹھيں اور سودہ كے پاس پہونچى ان كا گريبان پكڑ ليا ، اور ان كے اوپر گھونسے اور لاتيںبرسانے لگيں ، حفصہ بھى ام المومنين كى پشتيبانى ميں كھڑى تھيں ، ام سلمہ نے يہ منظر ديكھا تو سودہ كى مدد كرنے پہونچ گئيں _

____________________

۱۲_ ترمذى بحوالہ زر كشى اجابہ ص۷۳

۱۳_ مستدرك الصحيحين ج۴ ، ص۲۹

۱۴_ جيسا كہ بيان كيا گيا عائشہ قبيلہء تيم سے تھيں اور حفصہ قبيلہء عدى سے يہ دونوں تيم و عدى قبيلے الگ الگ قريش كے قبيلے تھے

۴۹

اب تو چار عورتيں غصے اور كينہ توزى كا مظاہرہ كر رہى تھيں ، نتيجے ميں گھوسے بازى سے اواز تيز ہوتى گئي ، لوگوں نے رسول خدا كو خبر دى كہ اپ كے ازواج جان لينے دينے پر امادہ ہيں ، انحضرت تشريف لائے اور ان سے خطاب فرمايا :

تم سب پر افسوس ہے اخر تم لوگوں كو كيا ہو گيا ہے ؟

عائشه نے جواب ديا :

خدا كے رسول اپ نے سنا نہيں كہ سودہ يہ شعر پڑھ رہى ہے عدى و تيم تبتغى من تحالف _

وائے ہو تم پر ، اس شعر مين تمھارے قبيلہ تيم كى طرف نہيں ہے نہ حفصہ كے قبيلہ عدى كى طرف اشارہ ہے ، بلكہ يہ تو بنى تيم كے دو قبيلوں كى طرف اشارہ ہے _

بے مہر يہ عورتوں كے ساتھ

عائشه كا بيان ہے:

ايسى عورتوں پر جو بغير مہر لئے اپنے كو رسول خدا كيلئے پيش كرتيں اور اپ كى زوجہ بننے كى خواہشمند ہوتيں ، ميرا خون

جوش مارنے لگتا ، مارے غصے كے ميں ان سے كہتى ، كيا ازاد اور اہميت والى عورت بھى خود كو دوسروں كے لئے بخشتى ہے ؟

خاص طور سے ايسے وقت جبكہ يہ آيت نازل ہوئي ،اپنى ازواج ميں سے جسے چاہو الگ كردو اور جسے چاہو اپنے لئے ركھو ، تمھارے اوپر كوئي گناہ نہيں (سورہ احزاب آيت ۵۰_ ۵۱)

ميں نے رسول خدا كى طرف رخ كر كے كہا ، ميں ديكھ رہى ہوں كہ خدا بھى اپ كى خواہش كے مطابق آيت اتار ديتا ہے(۱۵)

ابن سعد نے اپنى طبقات ميں تفصيلى طور سے خواتين كے بارے ميں جنھوں نے بغير مہر لئے اپنے كو رسول كے لئے پيش كيا ، اور انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زوجہ بننے كى خواہش كى ان كے بارے ميں قلم فرسائي كى ہے ، خاص طور سے اس خاتون كے لئے جن كے بارے ميں ابھى اشارہ كيا گيا ، اسكا نام شريك اورغزيہ بتايا ہے(۱۶) اسى بات كو ابن حجر نے بھى كتاب اصابہ ميں تفصيل سے لكھا ہے(۱۷)

____________________

۱۵_ صحيح بخارى تفسير سورہ احزاب ميں ج۳ ص۱۱۸_ صحيح مسلم ج۴ ص ۲۷۴

۱۶_ طبقات بن سعدج ۸ص ۱۵۴_۱۵۶

۱۷_ اصابہ ابن حجر ج۴ ص ۳۶۱و ۱۷۴

۵۰

ليكن بطور كلى علماء نے ان متذكرہ خاتون كے بارے ميں جسكى طرف قران نے اشارہ كيا ہے ، اختلاف كيا ہے ، اور يہ اختلاف اس صورت سے ہے كہ جس خاتون يا جن خواتين نے اپنے كو بے مہر لئے خدمت رسالت ميں پيش كيا اور ام المومنين عائشه كے غم و غصے كا شكار ہوئيں وہ ايك ہيں يا كئي عورتيں ہيں ، اگر چہ آيت صرف ايك عورت كے بارے ميں نازل ہوئي ہے ، افسوسناك بات تو يہ ہے كہ اس خاتون كے نام كى اج تك نشاندہى نہيں ہو سكى _

ليكن اس دليل سے كہ عائشه نے جن خواتين كيلئے غم و غصہ ظاہر كيا اسے جمع كے لفظ سے بيان كيا ہے (كنت انحا ء على اللائي و هبن )

( ميں ان عورتوں پر جو بے مہر لئے )اس سے ثابت ہوتا ہے كہ وہ كئي خواتين تھيں امام احمد نے اپنى مسند ميں اس بات كو جمع كى ضمير كے ساتھ ام المومنين كى طرف نسبت دى ہے _

وہ (عائشه )ان عورتوں كو ملامت كرنے لگيں جنہوں نے اپنے كو بغير مہر لئے رسول كى خدمت ميں پيش كيا(۱۸)

مسلم نے اپنى صحيح ميں ھشام كى روايت نقل كى ہے كہ خولہ بنت حكيم ان عورتوں ميں تھيں جنھوں نے بغير مہر لئے رسول

سے ازدواج كى خواہش ظاہر كى ، اور اپنے كو رسول كے لئے بخشا ، عائشه اس بات پر بہت غصہ ہوئيں اور كہاكيا يہ عورت كيلئے شرمناك نہيں ہے كہ خود كو كسى مرد كيلئے بخشے اور بغير مہر كے ازدواج كى خواہش كرے(۱۹)

مليكہ كے ساتھ

رسول خدا نے فتح مكہ كے بعد مليكہ بنت كعب سے عقد فرمايا ، مليكہ كے باپ كعب فتح مكہ كے موقع پر خالد كے ہاتھوں قتل ہوئے تھے _

كہتے ہيں كہ مليكہ انتہائي حسين و خوبصورت عورت تھى ، گويا اس وصال سے عائشه كا نفرت و عناد بر انگيختہ ہونا بنيادى بات ہو سكتى ہے كيونكہ عائشه اپنى خاص موقع شناسى اور نسوانى تندى احساس لئے ہوئے مليكہ سے مليں اور كہا ، تمھيں شرم نہيں اتى كہ اپنے باپ كے قاتل كو شوہر بنا ليا ہے ؟

____________________

۱۸_ مسند احمد ج۴ ص ۱۳۴ _ صحيح بخارى ج۴ ص ۱۶۲ - ابن ھشام ج۴ ص ۳۲۵ _

۱۹_ صحيح مسلم ج۳ ص ۱۶۳

۵۱

مليكہ اسانى سے عائشه كى اس سرزنش كا شكار ہوگئيں اور ايسا دھوكہ كھايا كہ رسول خدا سے الگ ہو گئيں ، رسول خدا نے بھى انھيں طلاق ديدى اس كے رشتہ دار رسول خدا كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور كہا كہ :

اے خدا كے رسول وہ ابھى نوجوان ہے ، وہ دھوكہ كھا گئي ہے ، اس سے جو رد عمل ظاہر ہوا ہے اس كى اپنى رائے سے نہيں ہوا ہے اسے معاف كر ديجئے اور واپس بلا ليجئے ، ليكن رسول خدا نے اسے قبو ل نہ فرمايا(۲۰)

اسماء كے ساتھ

اسماء بنت لقمان قبيلہ كندہ كى خاتون تھيں ، وہ خاص طور سے عائشه كے رشك و حسد كا شكار ہوئيں ، رسول خدا نے اسماء سے عقد فرمايا عائشه تو اس قسم كى باتوں ميں سخت حساس ہو ہى جاتى تھيں اسكى مسافر ت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قبضے ميں كر ليا اور طعنہ ديا كہ ،

( اب دوسرى بار اوارہ وطن ہے اور انھيں بھى ہم سے چھين كر اپنے لئے خاص ، ہم سے لے لى )

قبيلہ كندہ كا ايك وفد جسميں اسماء كا باپ لقمان بھى تھا ، رسول خدا كى خدمت ميں ايا رسول خدا نے ان سے اسماء كى خواستگارى كى جب رسول كى ازواج نے اسماء كو ديكھا تو رشك كرنے لگيں اور رسول كى نظر سے گرانے كے لئے مكارى سے بوليں ،اگر خوش قسمت بننا چاہتى ہو تو جسوقت رسول خدا تمھارے پاس ائيں ان سے كہو ،تم سے خدا كى پناہ چاہتى ہوں اسماء اسانى سے دھوكہ كھا گئي ، جيسے ہى رسول خدا نے كمرے ميں قدم ركھا اور اس كى طرف بڑھے ، اسماء نے كہا :

تم سے خدا كى پناہ چاہتى ہوں

جو بھى خدا كى پناہ طلب كرے ، وہ اسكى امان ميں ہے ، اب تم اپنے گھر واپس جائو ، اپ غصے ميں بھرے كمرے سے باہر نكل ائے اسماء كا واقعہ حمزہ بن ابواسيد ساعدى اپنے باپ سے روايت كرتے ہوئے اسطرح نقل كرتے ہيں ، رسول خدا نے قبيلہ جون و كندہ كى اسماء بنت نعمان سے عقد كيا ، مجھے بھيجا كہ اسے جاكر لے ائوں وہ ائي تو عائشه و حفصہ نے سازش كى كہ اسے ايك خضاب كرے اور دوسرى سر ميں كنگھى كرے اسى درميان دونوں ميں سے كسى نے ايك نے اسماء سے كہا :

____________________

۲۰_ طبقات ابن سعد ج۸ ص ۱۴۸_ تاريخ ذھبى ج۱ ص ۳۳۵ _ تاريخ ابن كثيرہ ج۵ ص ۱۹۹ _ اصابہ ج۴ ص ۳۹۲

۵۲

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس عورت سے خوش ہوتے ہيں جو كہتى ہے كہ ميں خدا كى پناہ طلب كرتى ہوں ، تم بھى اگر انكى پيارى بننا چاہتى ہو تو ايسا ہى كہو ،رسول خدا اسماء كے پاس ائے تو جيسا اسے پڑھايا گيا تھا اس نے رسول خدا سے كہا ، اپ سے خدا كى پناہ طلب كرتى ہوں ،يہ سنتے ہى رسول خدا نے استين سے اپنا منھ چھپا كر تين بار فرمايا:

تو نے سب سے بڑى پناہ پكڑى ، پھر اپ كمرے سے باہر اگئے اور مجھ سے فرمايا :

ابو اسيد اسكو اسكے خاندان ميں واپس پہونچا دو اور دو روٹى بھر كے تھيلے بطور تحفہ ديدينا اسماء اس اچانك واقعے سے سناٹے ميں تھى ، جو فريب ديا گيا تھا ،اسكى وجہ سے بہت رنجيدہ تھى عمر بھر اس واقع كو ياد كرتى رہى ، وہ كہتى تھى اب مجھے اسماء نہ كہا كرو بلكہ بد بخت كہا كرو اور اسطرح پكا را كرو ادعونى الشقية (ميرے لئے بد بخت كو بلا دو )(۲۱)

اس واقع سے معلوم ہوتا ہے كہ جن خواتين نےام المومنين كے سكھانے پڑھانے سے خدا كى پناہ طلب كى وہ ايك سے زيادہ تھيں _

____________________

۲۱_ ذيل المذيل طبرى ج۱۲ ص۷۹ و مستدرك حاكم ج۷ ص۳۴ _ استيعاب ج۲ ص ۷۰۳ _ اصابہ ج۳ ص ۵۳۰ ۹۵ ميں ہے كہ اسماء تمام عمر خون تھوكتى رہى اسے دق ہو گئي تھى اور وہ مر گئي _

۵۳

ماريہ كے ساتھ

اسكندريہ كے حكمراں مقوقس ۷ھ اپنے بوڑھے بھائي مابور كے ساتھ ماريہ اور اسكى بہن شيريں كو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے ايلچى حاطب(۱) بن بلتعہ كے ساتھ انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں ہديہ بھيجا ، انھيں كے ساتھ ہزار مثقال سونا ، بيس ريشمى كپڑے ، مشھور خچر دلدل اور عفير نام كا گدھا روانہ كيا ، حاطب نے راستے ميں ماريہ اور شيريں كو اسلام قبول كرنے كيلئے كہا ان دونوں نے خوشى سے اسلام قبول كر ليا ، ليكن مابور مدينہ پہونچنے تك اپنے دين پر باقى تھا_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ماريہ كو اپنے لئے مخصوص فرماليا اور انھيں محلہ عاليہ(۲) كے ايك گھر جو اج مشربہ ام ابراہيم كے نام سے مشھور ہے ركھا ازاد عورتوں كى طرح انھيں حجاب ميں ركھا اور ان سے ازدواج فرمايا ،ماريہ كو حمل ٹھرا اور اسى گھر ميں لڑكا پيدا ہوا جس وقت ابراہيم پيدا ہوئے انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى كنيز سلمى(۳) نے دايہ كے فرائض انجام دئے ، سلمى كے شوہر ابو رافع نے جب انحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو فرزند ابراہيم كے ولادت كى خوشخبرى سنائي تو اپ نے خوشى ميں انھيں انعام ديا _

ابراہيم كى ولادت ۸ھ ميں ہوئي ، انصار كو اس سے بڑى خوشى ہوئي تھى انھوں نے ماريہ كى ضرورت پورى كرنے ميں ايك دوسرے سے بارى لے جانے كى كوشش كى اور بوجھ بٹانے كى ہر ممكن سعى كى ، كيونكہ وہ ماريہ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كا والہانہ تعلق ديكھ رہے تھے _

اس لئے دوسرى ازواج كو جب ولادت ابراہيم كى خبر معلوم ہوئي تو ماريہ سے ان كا رشك و حسد بڑھ گيا ، وہ جل بھن گئيں ، انھوں نے اعتراض و شكايت كى زبانيں بھى كھول ديں ، ليكن اس طعن و ميں كوئي بھى عائشه سے اگے نہ بڑھ سكا _(۴)

____________________

۱_ حاطب كا نام عمر بن عمير اور كنيت ابو عبد اللہ تھى _ قبيلہ لخم كے تھے رسول نے انہيں ۶ھ ميں مقوقس كے پاس بھيجا _ مقوقس نے ماريہ اور شيريں و ديگر ہدايا كے ساتھ روانہ كيا _ حاطب كى ۳۱ھ ميں مدينہ ميں وفات ہوئي _ عثمان نے انكى نماز جنازہ پڑھائي _ اسد الغابہ _ اصابہ اور استيعاب ديكھئے

۲_ مدينے كے بالائي حصہ كو عاليہ كہتے _ وہاں قبيلہ بنى نظير رہتا تھا

۳_ زوجہء رسول صفيہ كى كنيز سلمى تھيں_ وہ جنگ خيبر ميں موجود تھيں حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ عليھا كى دايہ كے فرائض بھى انجام دئے تھے _ انہوں نے غسل فاطمہ ميں بھى شركت كى تھى

۴_ طبقات بن سعد ج۱ ص ۱۳۴

۵۴

خود عائشه كا بيان :

مجھے ماريہ سے زيادہ كسى عورت پر رشك و حسد نہيں ہوا ، ماريہ بہت حسين تھى ، اسكے بال گھونگھريالے تھے ، جو ديكھتا ديكھتا ہى رہ جاتا ، اس پر مزيد يہ كہ رسول خدا اس سے بہت محبت كرتے تھے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شروع ميں ماريہ كو حارثہ(۵) بن نعمان كے گھر ميں ركھا اور جب ميں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى اس سے والہانہ محبت ديكھى تو ماريہ كى مخالفت ميں جٹ گئي ، اس قدر ستايا كہ ماريہ نے مجھ سے تنگ اكر رسول سے شكايت كى ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بھى اسے عاليہ كے مكان ميں منتقل كر ديا اور وہيں اسكے پاس جاتے ،يہ تو ميرے اوپر اور بھى گراں گذرا خاص طور سے ميرى اتش رنج اور جلن اتنى بڑھى كہ خدا نے اسے لڑكا بھى ديديا ، حالانكہ خدا نے مجھے اولاد سے محروم ركھا وہ يہ بھى كہتى ہيں _

جب ابراہيم پيدا ہوئے ايك دن رسول خدا بچے كو ميرے پاس لائے اور فرمايا :

_ذرا ديكھوتو مجھ سے كس قدر شباھت ركھتا ہے

_ نہيں ، ہرگز ايسا نہيں ، ميں تو كوئي شباہت نہيں ديكھتي

_ كيا تم اسے ميرى طرح گورا نہيں ديكھ رہى ہو ،بالكل ميرے بدن كى طرح ہے_

_ ارے جسے بھى بكرى كا دودھ پلايا جائے گا سفيد اور موٹا ہوہى جائےگا_

عائشه اور حفصہ كى انہيں حركتوں اور سخت جلن كى وجہ سے خدا نے ماريہ كى برائت ميں سورہ تحريم نازل فرمائي موثق روايات كى بناء پر رسول خدا نے حفصہ كے گھر ميں ماريہ سے ہمبسترى فرمائي _ جب حفصہ كو اس كى خبر ہوئي تو بھڑك اٹھيں _لگيں انحضرت سے چلّا چلا كر گلا شكايتيں كرنے ، اس قدر اسمان سر پر اٹھا يا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حفصہ كى دلجوئي اور خوشنودى كے لئے ماريہ كو اپنے اوپر حرام كر ليا ، ليكن اسى كے ساتھ حفصہ سے كہا كہ يہ بات كسى سے نہ كہنا ، اور اس راز كو كسى دوسرے سے بيان نہ كرنا حفصہ نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تمام تاكيدوں كو قطعى نظر انداز كر ديا ، اس راز كو عائشه سے بيان كر ڈالا ، وہ بھى ايك تحريك ميں معاون ہو گئيں پھر تو دونوں كى عيارياں اور كج رفتارياں بڑھتى گئيں ، اخر كار ان دونوں كى سرزنش ميں سورہ تحريم نازل ہوئي اور خدا نے اس راز سے پردہ اٹھا يا _(۶)

____________________

۵_ حارثہ قبيلہ بنى نجار سے تھے _ جنگ بدر اور بعد كى دوسرى جنگوں ميں شريك رہے حارثہ كى خلافت معاويہ كى زمانے ميں وفات ہوئي _ اسد الغابہ ج۱ ص ۳۵۸ _ اصابہ ج۱ ص ۱۵۳۲

۶_ طبقات بن سعد ج۸ ص ۱۳۴

۵۵

سورہ تحريم

خدا كے نام سے جو بخشنے والا اور مہربان ہے

اے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم كيوں اس چيز كو حرام كرتے ہو جسے خدا نے تمھارے لئے حلال كى ہے ، تم اپنى بيويوں كى خوشى چاہتے ہو ؟اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے _

اللہ نے تم لوگوں كے لئے اپنى قسموں كى پابندى سے نكلنے كا طريقہ مقرر كر ديا ہے ، اللہ تمھارا مولا ہے اور وہى دانا اور حكيم ہے _

اور جس وقت پيغمبر نے اپنى ايك بيوى (حفصہ ) سے راز كى ايك بات كہى تھى ، پھر جب اس بيوى نے اس راز كو (عائشه )پر راز ظاہر كر ديا ، خدا نے اس افشائے راز كو پيغمبر سے باخبر كر ديا (پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى ) اس پر كسى حد تك جو عائشه اور حفصہ كے درميان گذرى تھى تذكرے كے انداز ميں حفصہ سے بيان كيا اور بعض سے در گزر كيا ، پھر جب پيغمبر نے اس افشائے راز كى بات بتائي تو حفصہ نے پوچھا اپ كو اس كى كس نے خبر دى ؟ پيغمبر نے حفصہ كے جواب ميں فرمايا ، مجھے اس نے خبر دى ہے جو سب كچھ جانتا ہے اور اچھى طرح با خبر ہے

اگر تم دونوں (عائشه و حفصہ )خدا كى طرف واپس اتى ہو اور توبہ كرتى ہو تو تمہارے دل سيدھى راہ سے ہٹ گئے ہيں ، اور اگر پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مقابلے ميں تم نے باہم جتھہ بندى كى تو جان ركھو كہ اللہ اس كا مولى ہے اور اس كے بعد جبرئيل اور مومنوں ميں مرد صالح ہے ، اور سب ملائكہ اسكے ساتھى اور مددگار ہيں ،بعيد نہيں كہ اگر پيغمبر تم سب بيويوں كو طلاق ديدے تو اللہ اسے ايسى بيوياں تمہارے بدلے ميں عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں ، سچى مسلمان ، با ايمان ، اطاعت گذار ، توبہ والى ، عبادت گذار اور روزہ دار ہوں خواہ شوہر ديدہ ہوں يا باكرہ _

۵۶

اے لوگو جو ايمان لائے ہو بچائو اپنے اپ كو اور اپنے اہل و عيال كو اس اگ سے جسكا ايندھن انسان اور پتھر ہوں گے ، جس پر نہايت تند خو اور سخت گير فرشتے مقرر ہوں گے ، جو كبھى اللہ كے حكم كى نافرمانى نہيں كرتے اور جو حكم بھى انھيں ديا جاتا ہے اسے بجالاتے ہيں _

اے كافرو اج معذرتيں پيش نہ كرو تمھيں تو ويسا ہى بدلہ ديا جا رہا ہے جيسے تم عمل كر رہے تھے _

اے لوگو جو ايمان لائے ہو ، اللہ سے توبہ كرو ، خالص توبہ ، اميد ہے كہ اللہ تمہارى برائياں تم سے دور كر دے اور تمھيں ايسى جنتوں ميں داخل فرمادے جن كے نيچے نہر يں بہہ رہى ہوں گى ، يہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے پيغمبر كو اور ان لوگوں كو جو اس كے ساتھ ايمان لائے ہيں رسوا نہ كرے گا ان كا نور ان كے اگے اگے اور ان كے دائيں جانب دوڑ رہا ہو گا ، اور وہ كہہ رہے ہوں گے كہ اے ہمارے پروردگار ، ہمارا نور ہمارے لئے مكمل كر دے اور ہم سے درگزر فرما ، تو ہر چيز پر قدرت ركھتا ہے _

اے رسول ، كفار اور منافقين سے جہاد كرو اور ان كے ساتھ سختى سے پيش ائو ، ان كا ٹھكانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھكانا ہے _

اللہ كافروں كے معاملے ميں نوح اور لوط كى بيويوں كو بطور مثال پيش كرتا ہے وہ ہمارے دو صالح بندوں كى زوجيت ميں تھيں ، مگر انھوں نے اپنے شوھروں سے خيانت كى اور اللہ كے مقابلے ميں ان كے كچھ بھى نہ كام اسكے ، دونوں سے كہہ ديا گيا كہ جائو اگ ميں جانے والوں كے ساتھ تم بھى چلى جائو اور اہل ايمان كے مقابلے ميں اللہ فرعون كے بيوى كى مثال پيش كرتا ہے جبكہ اس نے دعا كى ،اے ميرے رب ، ميرے لئے اپنے يہاں جنت ميں ايك گھر بنا دے اور مجھے فرعون اور اس كے عمل سے بچالے اور ظالم قوم سے مجھے نجات دے اور عمران كى بيٹى مريم كى مثال ديتا ہے جس نے اپنى عفت كى حفاظت كى پھر ہم نے اس كے اندر اپنى طرف سے روح پھونك دى اور اس نے اپنے رب كے ارشادات اور اسكى كتابوں كى تصديق كى اور وہ اطاعت گزار لوگوں ميں سے تھى _

سورہ تحريم ام المومنين عائشه بنت ابو بكر اور حفصہ بنت عمر بن خطا ب كے بارے ميں نازل ہوئي ہے ، اس سلسلے ميں سيكڑوں حديثيں ابن عباس كے طريق سے اور خود عمر بن خطاب كے طريق سے وار د ہوئي ہيں جن سے اس حقيقت كا پتہ چلتا ہے_(۷)

اور ميں انشاء اللہ بعد كے صفحات ميں جہاں ام المومنين عائشه كى احاديث پر بحث كروں گا ، وہيں تفصيلى تبصرہ كروں گا _

____________________

۷_صحيح بخارى مطبوعہ مصر سال ۳۶_۳۷ جلد ۳/ ص۱۳۷ ،تفسير سورہء تحريم ، كتاب فضائل القران جلد ۳ / ص۱۳۸ ، اور باب موعظہ الرجل جلد ۳/ ص ۱۴۷ ،كتاب المظالم جلد ۴/ ص۴۷ ، صحيح مسلم الرضاع جلد ۱/ ۵۰۹ صحيح ترمذى ج۲ / ۴۰۹ ، مطبوعہ ہندوستان ، صحيح نسائي ج۱/ ص ۳۰۲ ، اسكے علاوہ تفسير طبرى اور در منثور بھى ديكھى جا سكتى ہے

۵۷

عائشه اور خديجہ كى ياديں

عائشه كا بيان ہے :

ازواج رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ميں خديجہ سے زيادہ مجھے كسى پر بھى رشك و حسد نہيں ہوا ، وجہ يہ تھى كہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا انھيں بہت يا د كرتے تھے ہر وقت تعريف كرتے رہتے ، خصوصيت يہ تھى كہ خدا وند عالم نے اپنے پيغمبر كو وحى كے ذريعے خبر دى تھى كہ خديجہ كے لئے جنت ميں ايك پر شكوہ اور سجا سجايا محل عطا فرمايا ہے _(۸)

يہ بھى بيان ہے كہ_ حالانكہ ميں نے خديجہ كو نہيں ديكھا تھا ، پھر خديجہ سے زيادہ كسى پر بھى رشك و حسد نہيں ہوا ، كيونكہ اكثر ايسا ہوتا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خديجہ كى اچھائيوں كو ياد كرتے ، انكى تعريف و ستائشے كرتے ، اكثر اپ ايك گوسفند ان كے نام سے قربانى كرتے ،اسكى بوٹياں كركے تقسيم فرما ديتے(۹)

يہ بھى حكايت كرتى ہيں كہ :

ايك دن خديجہ كى بہن ہالہ بنت خويلد نے رسول خدا سے ملاقات كى اجازت مانگى ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے جيسے ہى ہالہ كى اواز سنى ، خديجہ كى ياد اگئي اپ كى حالت شدت سے متغير ہوگئي اور بے اختيار فرمايا :

ہائے ميرے خدا ، ہالہ

يہ سنكر ميرى تو خديجہ سے جلن بھڑك اٹھى تھى ، فوراً كہا اپ اس بے دانت كى بڑھيا كو كتنا ياد كرتے رہتے ہيں ؟

زمانہ ہوا كہ وہ مر گئي اور خدا نے اس سے بہتر اپ كو عطا فرما ديا(۱۰)

ايك دوسرى روايت ميں يہى بات يوں بيان كى ہے _

ميرے اس اعتراض پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كو ميں نے ديكھا كہ چہرہ بھڑك اٹھا ، چہرے كى حالت متغير ہو كر ويسى ہو گئي

____________________

۸_ بخارى ج۲ ص۲۷۷

۹_ بخارى ج۲ ص۲۱۰

۱۰_ حضرت خديجہ كے حالات زندگى ، فداكارياں ، امتيازى اور اہم ترين اخلاقى خصوصيات پر مستقل كتاب كى ضرورت ہے _ اپ كے حالات طبقات بن سعد ، استيعاب ، اسد الغابہ اور اصابہ كے علاوہ وہ بہت سى كتابيں ديكھنے كى ضرورت ہے _

۵۸

جيسى وحى نازل ہوتے وقت ہوتى ، جب اپ اسمانى حكم كے منتظر ہوتے كہ پيغام رحمت نازل ہوتا ہے يا عذاب(۱۱)

ايك دوسرى روايت ميں ہے _

عائشه كہتى ہيں كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا ، نہيں ہرگز خدا وند عالم نے مجھے اسكے بدلے اس سے اچھى عورت نہيں دى ، كيونكہ جسوقت تمام لوگ ميرا انكار كررہے تھے ، وہ مجھ پر ايمان لائيں ، لوگ جب مجھے جھوٹا سمجھ رہے تھے ، خديجہ نے ميرى تصديق كى ، جب لوگوں نے مجھے مالى پريشانيوں ميں ڈالا تو انھوں نے اپنى بے حساب دولت ميں مجھے شريك كيا ، خدا نے دوسرى عورتوں سے مجھے اولاد نہيں دى ،خديجہ سے مجھے اولاد عطا فرمائي(۱۲)

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ہميشہ اپنى اس پہلى رفيقہ حيات كى اچھائيوں كو ياد كرتے ، انكى يادوں اور ياد گاروں كى تجديد فرماتے ، ان كے رشتہ داروں كے ساتھ حسن سلوك فرماتے ، انھيں دوسروں پر مقدم كرتے انكى ياديں تمام زندگى پر محيط رہيں ، يہى وجہ تھى كہ ام المومنين كا سينہ ان كى نفرت و حسد و جلن سے بھر گيا تھا ، اسى وجہ سے جب بھى خديجہ كا نام اتا ، اپ انھيں ياد كرتے تو يہ اعتراض كى زبان كھول ديتيں سب سے بد تر يہ كہ وہ خديجہ كى تعريف سنكر اندوہ سے پاگل ہو جاتيں اپنے كو سرزنش و مذمت كا سزاوار پاتيں ، انھيں باتو ں كى وجہ سے خديجہ كى بيٹى حضرت فاطمہ اور ان كے بچوں سے روابط خراب تھے ، كيونكہ رسول خدا ان سے والہانہ پيار كرتے _

اسى دشمنى اور اندرونى نفرت كے اثرات كا اندازہ مسند احمد بن حنبل كى روايت سے ہوتا ہے جسے نعمان بن بشير نے بيان كيا ہے _

ايك دن ابو بكر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات كى اجازت چاہى اسى وقت انھوں نے كمرے سے عائشه كى اواز سنى جو چلا رہى تھيں _

خدا كى قسم ، ميں اچھى طرح جانتى ہوں كہ اپ على كو ميرے باپ سے زيادہ چاہتے ہيں

____________________

۱۱_ مسند احمد ج۶ ص ۱۵۰، ۱۵۴

۱۲_ مسند احمد ج۶ ص۱۱۷ ،وسنن ترمذى ص۲۴۷

۵۹

حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے بارے ميں نفرت و عناد كا ايك گوشہ ايك تقرير ميں بيان فرمايا ، ليكن وہ ...عائشه ، اس نے عورتوں كے مزاج كے مطابق عقل كو طاق پر ركھ ديا ہے ، كينہ و عناد كے شرارت اپنے دل ميں اسطرح بھڑكا لئے ہيں جيسے لوہاروں كى بھٹى دھونكى جاتى ہے ، اگر اس سے كہا جائے كہ جو سلوك ،ميرے ساتھ كرتى ہے دوسرے كے ساتھ بھى كرے تو ہرگز پسند نہ كر يگى نہ مانے گى اخر امير المومنين نے بات اس پر ختم كى _

اسكے باوجود اسكے سابقہ احترامات محفوظ ہيں ، اسكے كرتوتوں كا بدلہ خدا ديگا ، وہ جسے چاہتا ہے بخش ديتا ہے اور جسے چاہتا ہے عذاب ديتا ہے _

ابن ابى الحديد كى عبارت

و كانت تكثر الشكوى من عائشه ، و يغشا ها نساء المدينه فينقلن اليها كلمات عن عائشه _

فاطمہ كا دل عائشه كے طعنوں سے بھر اہوا تھا كيونكہ مدينے كى عورتيں اپ كے پاس اتيں اور طعنوں بھرى باتيں عائشه كى پہونچاتى رہتى تھيں ابن ابى الحديد :

حضرت على بن ابى طالبعليه‌السلام كے بيان كينہ ء عائشه كے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے كہ ابن ابى الحديد معتزلى كے بيان و شرح كو بھى بيان كيا جائے كيونكہ يہ بيان غور طلب ہے ، وہ لكھتے ہيں :

ميں جس وقت علم كلام كى تحصيل ميں مشغول تھا ، ميں نے امام كے اس خطبے كو اپنے استاد شيخ ابو يعقوب يوسف بن اسماعيل لمعانى كے سامنے پڑھا ، اور ان سے خواہش ظاہر كى كہ اس كے راز سے مطلع فرمايئے ، شيخ نے ميرى خواہش قبول كى ، انھوں نے جو اس خطبے كى تشريح فرمائي اسكو بطور خلاصہ يہاں نقل كر رہا ہوں ، كيو نكہ انكى پورى بات اس وقت ميرے حافظے ميں نہيں ، پورى تفصيل كو اختصار كے ساتھ پيش كر رہا ہوں _

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83