امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم جلد ۴

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم 60%

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 83

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 83 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56766 / ڈاؤنلوڈ: 3115
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم جلد ۴

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

امامیہ اردو دینیات

درجہ چہارم

نظیم المکاتب

۳

معلمّ کے لئے ہدایت

۱ ۔ الفاظ کے معنی لکھوا کر یاد کرائے جائیں۔ مطلب ذہن نشین کرایا جائے۔

۲ ۔سبق کے بعد والے سوالات کے جوابات مختصر لکھوا کر زبانی یاد کرائے جائیں۔

۳ ۔مسائل میں جہاں ضرورت ہو وہاں عملی تعلیم دی جائے۔

اور

مسائل زبانی یاد کرا جائیں

۴

پہلا سبق

ضرورت مذہب

درخت جنگل میں بھی اُگتے ہیں ، باغ اور چمن میں بھی لگائے جاتے ہیں لیکن جنگل میں آدمی جاتے ہوئے ڈرتا ہے اور باغ میں جانے کو اس کا جی چاہتا ہے۔ یہ صرف اس لئے ہے کہ جنگل میں کسی قاعدہ اور قانون کے بغیر درخت اُگتے ہیں اور باغ میں قاعدےسے لگائے جاتے ہیں۔ جنگل میں کوئی مالی درختوں کی دیکھ بھال نہیں کرتا ہے اور باغ میں مالی درختوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

انسانوں کو بھی اگر بغیر قاعدہ اور قانون کے جینے کا موقع دیا جائے تو انسانوں کی آبادی بھی جنگل کا نمونہ بن جائیےگی اور اگر قاعدہ اور قانون سے لوگ زندگی بسر کریںگے تو آدمیوں کی بستیاں جنت کا نمونہ بن جائیںگی۔ لہذا ضرورت ہے ایک ایسے قانون کی جو انسان کو جینے کا طریقہ بتائے اور اسی قانون کا نام مذہب ہے۔ انسانوں کے اسی چمن باغبان اور مالی نبی اور امام ہوتے ہیں جن کو خدا نے ہمیشہ ہماری ہدایت کے لئے بھیجا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ انسانوں کا قانون کا پابند ہو کر رہنا ضروری کیاں ہے ؟

۲ ۔ مذہب کسے کہتے ہیں اور اس کا کیا مقصد ہے ؟

۵

دوسرا سبق

کیا خدا نہیں ہے ؟

اس دنیا میں جہاں بےشمار مذہب والے پائے جاتے ہیں وہاں کچھ لوگ لامذہب بھی ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو دہریہ کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ دنیا بغیر کسی خدا کے ایک دن آپ ہی آپ پیدا ہو گئی ہے اور ایک دن آئےگا جب آپ ہی آپ مٹ جائےگی۔

ان لوگوں کے سامنے دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کے لئے کہا جا سکے کہ یہ خود بخود پیدا ہو گئی ہے لیکن صرف خدا کا انکار کرنے کے لئے یہ کہنے لگے ہیں کہ یہ پوری دنیا بغیر پیدا کرنے والے کے پیدا ہو گئی ہے۔

ہمارے چھٹے امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس ایک دہریہ آیا۔ جس کا نام عبد اللہ ویصانی تھا۔ اس نے اصحاب کے سامنے حضرتؐ سے خدا کے بارے میں بحث کرنا چاہی۔ آپ نے اُس سے پوچھا " تیرا نام کیا ہے ؟"

وہ جواب دئیے بغیر چلا گیا۔ اصحاب نے حیرت سے پوچھا ۔ "حضور ! یہ شخص کیوں چلا گیا۔ یہ تو آپ سے بحث کرنے آیا تھا ؟"

آپ نے فرمایا ۔ " بحث ختم ہو گئی اور وہ اپنی بحث میں ہار گیا اس لئے شرمندہ ہو کر چلا گیا۔ "

اصحاب نے عرض کی۔ " مولا! اس نے تو کوئی بات ہی نہیں کی، پھر بحث کیسے ختم ہو گئی ؟"

آپ نے فرمایا ۔ " میں نے اس کا نام پوچھ لیا۔ وہ سمجھ گیا کہ نام بتانے پر میں فوراً اُس سے سوال کروں گا کہ اگر اللہ نہیں ہے تو پھر تو عبد اللہ کیو نکہ ہے ؟ عبد اللہ کے معنی ہیں اللہ کا بندہ۔ جب اللہ ہی نہیں تو بندہ کہاں سے آ گیا ؟"

حضرت یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ بغیر خدا کے بندے کا وجود محال ہے اور جب بندے موجود ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کا پیدا کرنے والا خدا بھی موجود ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کیا دہریوں کے سامنے کوئی ایسی چیز ہے جو خود بخود بن گئی ہو ؟

۲ ۔ دہریہ بحث میں کیسے ہارا ؟

۶

تیسرا سبق

اگر دو خدا ہوتے

ہم نے دنیا میں یہ تجربہ کیا ہے کہ جب کسی کام کو دو آدمی مل کر انجام دیتے ہیں تو اُن میں کبھی آپس میں میل جول رہتا ہے ، کبھی اختلاف ہو جاتا ہے۔

میل جول کی صورت میں دونوں ایک دوسرے کی رائے کے پابند اور ایک دوسرے کے مشورہ کے محتاج رہتے ہیں اور اختلاف کی صورت میں کوئی کام انجام نہیں پاتا۔ یہی حال دو خداؤں کا ہے۔ اگر دو خدا ہوتے تو یا آپس میں اتفاق ہوتا یا اختلاف ہوتا۔ اگر دونوں میں اتفاق ہوتا تو دونوں ایک دوسرے کے محتاج اور اس کی رائے کے پابند ہوتے اور محتاجی اور پابندی صرف بندوں میں پائی جا سکتی ہے۔ خدا میں نہیں پائی جا سکتی۔ خدا نہ کبھی کسی کا محتاج ہو سکتا ہے نہ پابند ، ورنہ وہ خدا نہ رہےگا۔ اور اگر دونوں میں اختلاف ہو گیا۔ ایک نے کہا پانی برسنا چاہئیے ، دوسرے نے کہا نہیں برسنا چاہئیے تو اس جھگڑے میں دنیا کا کاروبار درہم برہم ہو جائےگا۔ کیونکہ دونوں کی بات تو چل نہیں سکتی۔ ایک ہی کی چلے گی۔ جس کی بات چلےگی وہ طاقتور ہوگا اور جس کی بات نہ چلےگی وہ کمزور ہوگا۔ جو طاقتور ہوگا اُسی کی خدائی باقی رہےگی اور جو کمزور ہوگا اس کی خدائی ختم ہو جائےگی۔

اسی لئے ہ کو ماننا پڑتا ہے کہ خدا ایک ہے۔

سوالات :

۱ ۔دو خدا ہوتے تو کیا ہوتا ؟

۲ ۔ خدا کو ایک کیاں ماننا پڑتا ہے ؟

۷

چوتھا سبق

غیب پر ایمان

اسلام کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ اس نے جہاں انسانوں کو آنکھوں سے کام لینا سکھایا ہے وہاں عقل سے کام لینے کا بھی حکم دیا ہے۔ آنکھ کا کام اُن چیزوں کو دیکھنا ہے جو ظاہر میں اور عقل کا کام ان چیزوں کو دیکھنا ہے جو جائز ہیں اور آنکھوں سے نظر نہیں آ سکتیں۔

دنیا میں بہت سی چیزیں آنکھ سے دیکھنے کے بعد مانی جاتی ہیں۔ مثلا سورج ، چاند ، ستارے ، پہاڑ ، سمندر وغیرہ اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جو آج تک کسی کو دکھائی نہیں دی ہیں مگر لوگ ان کو بغیر دیکھے مانتے ہیں جیسے کرنٹ ، روح ، عقل وغیرہ۔ ہم نے بجلی کے تار دیکھے ہیں مگر اس پر دوڑتی ہوئی بجلی نہیں دیکھی ۔ روح کی وجہ سے ہم سب زندہ ہیں مگر کسی نے روح کو دیکھا نہیں۔ عقل سے سب کام لیتے ہیں مگر عقل آج تک کسی کو دکھائی نہیں دی۔

اسی طرح مذہب نے بھی کچھ چیزیں بتائی ہیں جن کا ماننا اور اُن کے ہونے پر یقین و ایمان رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے کیونکہ یہ باتیں خدا اور رسولؐ کی بتائی ہوئی ہیں جو سچے تھے اور ان کی بیان کی ہوئی کوئی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔

جن ، ملائکہ ، حور ، غلمان ، جنت ، دوزخ ، کوثر، وغیرہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو خدا نے پیدا کیا ہے مگر وہ نظر نہیں آتی ہیں۔ لیکن ہم مسلمان ان کے وجود کا قرار کرتے ہیں کیونکہ رسولؐ نے بیان کیا ہے کہ یہ چیزیں ہیں۔

غیب پر ایمان لانا ہی حقیقی اسلام ہے جو شخص غیب پر ایمان نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں ہے۔ اسلام خدا کے یقین سے شروع ہوا ہے جو غائب ہے اور قیامت اصول دین کی آخری بات ہے جو غائب ہے۔

۸

بارہویں امامؐ غائب ہیں۔ بحکم خدا انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ آپ کی غیبت پر ایمان رکھنا اور آپ کے وجود کا یقین رکھنا اسلام کا ایک ایسا جز ہے جس کے بغیر اسلام مکمل نہیں ہو سکتا۔

سوالات :

۱ ۔ پھول ، آم ، سیب ، روح ، عقل ، بجلی ۔ ان چیزوں میں کون کون آنکھ سے دیکھی جاتی ہیں اور کون کون عقل سے ؟

۲ ۔ قرآن اور برزخ میں سے آنکھ سے دیکھ کر کس پر ایمان ہوتا ہے اور عقل سے دیکھ کر کس پر ؟

۳ ۔ جس کا ایمان غیبت پر نہیں اس کو مسلمان کہیںگے یا نہیں ؟

۹

پانچواں سبق

توکل

توکل کے معنی ہیں بھروسہ کرنا۔ انسان کو چاہئیے ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کرے۔ ساری نعمتیں چھین جائیں تو بھی مایوس نہیں ہونا چاہئیے اور ساری دنیا مخالف ہو جائے تو بھی ڈرنا نہیں چاہئیے۔ جو خدا پر بھروسہ کرتا ہے خدا اُسے ہر نعمت عطا کرتا ہے اور جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اور کسی سے نہیں ڈرتا اس لئے کہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ ہر نفع اور ہر نقصان خدا کے ہاتھ میں ہے۔ جسے خدا بچائے اسے کوئی مٹا نہیں سکتا اور جسے خدا مٹائے اُسے کوئی بچا نہیں سکتا۔ اور اسی طرح خدا جسے محروم کر دے اُسے کوئی کچھ سے نہیں سکتا اور جسے خدا مالامال کر دے اس سے کوئی کچھ چھین نہیں سکتا۔

جو خدا سے نہیں ڈرتا وہ دنیا کی ہر چیز سے ڈرتا ہے۔جو خدا سے ڈرتا ہے وہ موت سے بھی نہیں ڈرتا ۔ خدا سے نہ ڈرنے والا بزدل ہوتا ہے۔ جو صرف خدا سے امید رکھتا ہے وہ بندوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا ، بندوں کی خوشامد کرنے کے بجائے اپنے خدا کے سامنے گڑگڑاتا ہے ، نااُمیدیوں میں بھی مایوس نہیں ہوتا ایسے شخص کو خدا ، بندوں کے سامنے ذلیل نہیں کرتا۔

۱۰

جناب ابراہیم علیہ السلام کو جب نمرود اور اس کی قوم نے لاکھوں من آگ میں ڈالا تھا تو آگ کے شعلوں میں جاتے ہوئے آپ نہیں ڈرے کیونکہ آپ صرف خدا سے ڈرتے تھے۔ شعلوں میں جانے کے بعد بھی جناب ابراہیم ؐ مایوس نہیں ہوئے کیونکہ آپ صرف خدا سے امید رکھتے تھے۔ اللہ نے بھی آگ کو ٹھنڈا کر کے جناب ابراہیم کو بچا لیا۔ لہذا ہم کو بھی کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے اور ہمارے دل سے کبھی خدا کا خوف نہیں نکلنا چاہئے۔ ہم کو خدا سے اس طرح نہیں ڈرنا چاہئیے جس طرح ہم ظالم یا درندے سے ڈرتے ہیں کیونکہ اس صورت میں صرف ڈر ہی ڈر ہوتا ہے امید کی کوئی جھلک نہیں ہوتی بلکہ اس طرح ڈرنا چاہئیے جس طرح ہم ماں باپ یا استاد سے ڈرتے ہیں جہاں خوف کے ساتھ امید اور سہارا بھی ہوتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ توکل کے کیا معنی ہیں ؟

۲ ۔ اللہ نے جناب ابراہیم کو آگ سے کیوں بچایا ؟

۳ ۔ اللہ سے کس طرح ڈرنا چاہئیے ؟

۱۱

چھٹا سبق

عدل

عدل کے معنی یہ ہیں کہ خدا ہر برائی سے پاک ہے۔ اُس کی ذات میں ہی مکمل موجود ہے۔ نہ وہ کوئی بڑا کام کر سکتا ہے اور نہ کوئی ایسے کام کے کرنے سے رُک سکتا ہے اور نہ جس کا کرنا ضروری ہو لہذا نہ خدا ظلم کر سکتا ہے اور نہ ظالم کو سزا دینے سے رُک سکتا ہے۔

خدا کے ہر برائی سے پاک ہونے کی دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی برا کام کوئی شخص تب کرتا ہے جب اسے اس کی برائی معلوم نہ ہو یا برائی جانتا ہو لیکن کسی نفع کے لئے جان بوجھ کر برائی کرے۔ خدا میں یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں۔ وہ عالم ہے لہذا ہر برائی کو جانتا ہے اور غنی ہے لہذا اس کو کسی چیز کی ضرورت یا لالچ نہیں ہے اس لئے وہ برائی نہیں کر سکتا۔

دوسری دلیل خدا کے عادل ہونے کی یہ ہے کہ اس نے بندوں کو حکم دیا ہے کہ ظلم نہ کریں۔ قرؔآن مجید میں بھی یہ حکم بار بار آیا ہے اور ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھی اس کا یہ حکم بیان کیا ہے لہذا ظلم نہ کرنے کا حکم دیکر وہ خود کیسے ظلم کو سکتا ہے ؟

۱۲

تیسری دلیل خدا کے عادل ہونے کی یہ ہے کہ خدا نے کہا ہے کہ برے کام کرنے والوں کو دوزخ میں ڈالوں گا اور اچھے کام کرنے والوں کو جنت دوںگا۔ انسان جنت کی لالچ اور دوزخ کے خوف کی وجہ سے اچھے کام کرتے ہیں اور بڑے کاموں کو چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ اُن کو خدا کی بات پر بھروسہ ہے لیکن اگر خدا عادل نہ ہو بلکہ ظالم ہو تو ہم سوچ سکتے ہیں کہ ممکن ہے ہم اطھے کام کریں پھر بھی خدا دوزخ میں ڈال دی۔ یہ سوچنے کے بعد نہ خدا پر بھروسہ رہےگا نہ کوئی شخص برا کام کرنے سے باز رہےگا اور نہ کوئی اچھا کام کرےگا۔ اس طرح دنیا برائی سے بھر جائےگی۔

خدا کو عادل ماننا ہم سب پو لازم ہے۔

سوالات :

۱ ۔ خدا کے عادل ہونے کا کیا مطلب ہے ؟

۲ ۔ خدا کے عادل ہونے کی کوئی ایک دلیل بیان کرو ؟

۳ ۔ خدا عادل نہ رہے تو دنیا برائیوں سے کیوں بھر جائےگی ؟

۱۳

ساتواں سبق

نبوت

اس دنیا میں آدمی بھی پیدا ہوتا ہے اور جانور بھی۔ زندگی بھر دونوں کھاتے پیتے ہیں اور رہتے ہیں۔ پھر ایک دن دونوں ہی کو موت آ جاتی ہے۔ ان باتوں میں ہر آدمی اور ہر جانور ایک دوسرے سے ملتے چلتے ہیں۔ لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ جانور سے اس کے اچھے اور بڑے کاموں کا حساب نہ لیا جائےگا اور اچھے یا بڑے کاموں کی وجہ سے اسے جنت یا دوزخ میں نہ بھیجا جائےگا لیکن انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر اپنے خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ جس سے خدا خوش ہوگا اس کو جنت کی اچھی نعمتیں ملیںگی اور جس سے خدا ناراض ہوگا اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائےگا۔ جانور کی زندگی میں یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ خدا کن باتوں سے خوش ہوتا ہے اور جن باتوں سے ناراض ہوتا ہے۔ مگر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان باتوں کو بھی معلوم کرے جن سے خدا خوش ہوتا ہے اور ان باتوں کو بھی معلوم کرے جن سے خدا ناراض ہوتا ہے۔

خدا بندوں پر مہربان ہے اس لئے یہ باتیں بتانے کے لئے اس نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی بھیجے، جن میں تین سو تیرہ بڑے نبی تھے۔ بڑے نبی کو رسول کہتے ہیں۔ تین سو تیرہ رسولوں میں پانچ بڑے رسول تھے جن کو اولو العزم کہتے ہیں۔ ان پانچوں میں سب سے بڑے ہمارے رسول حضرت محمد مصطفےٰ صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے جو خدا کے آخری نبی تھے۔ آپ کے بعد نہ کوئی نبی آیا ہے اور نہ آئےگا۔ جتنے لوگوں نے آپ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ سب جھوٹے ہیں۔ جیسے مسیلمہ ، کذاب ، سجاح اور مرزا غلام احمد قادیانی وغیرہ۔

۱۴

جن نبیوں کے نام کتابوں میں ملتے ہیں اُن میں مشہور یہ ہیں :۔

۱ ۔حضرت آدمؐ ۲ ۔ حضرت نوحؐ ۳ ۔ حضرت ادریسؐ ۴ ۔ حضرت ابراہیمؐ

۵ ۔ حضرت اسمعیلؐ ۶ ۔ حضرت اسحاقؐ ۷ ۔ حضرت یعقوبؐ ۸ ۔ حضرت یوسفؐ

۹ ۔ حضرت یونسؐ ۱۰ ۔ حضرت لوطؐ ۱۱ ۔ حضرت صالحؐ ۱۲ ۔ حضرت ہودؐ

۱۳ ۔ حضرت شعیبؐ ۱۴ ۔ حضرت شیث ۱۵ ۔ حضرت داودؐ ۱۶ ۔ حضرت سلیمانؐ

۱۷ ۔ حضرت ذواکفیلؐ ۱۸ ۔ حضرت اَ یلسعؐ ۱۹ ۔ حضرت الیاسؐ ۲۰ ۔ حجرت زکریاؐ

۲۱ ۔ حضرت یحییٰؐ ۲۲ ۔ حضرت موسیٰؐ ۲۳ ۔ حضرت ہارون ۲۴ ۔ حضرت یوشعؐ

۲۵ ۔ حضرت عیسیٰؐ ۲۶ ۔ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

پانچ ادلواعزم رسول جن کو خدا نے صاحب شریعت بنایا تھا وہ جناب نوحؐ ، جناب ابراہیمؐ ، جناب موسیٰؐ ، جناب عیسیٰ ؐ ، اور حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔

ہمارے رسولؐ کے آنے کے بعد پچھلی تمام شریعتیں خدا نے ختم کر دی ہیں۔ اب قیامت تک صرف آپ کی شریعت باقی رہےگی اور صرف اُس کی نجات ہوگی جو آپ کی شریعت کا ماننے والا ہوگا۔

سوالات :

۱ ۔ انسانوں اور جانوروں میں کیا فرق ہے ؟

۲ ۔ انسانوں کو خدا کی خوشی اور ناخوشی کیسے معلوم ہوئی ؟

۳ ۔ دو جھوٹے نبیوں کے نام بتاؤ ؟

۴ ۔ دس سچے نبیوں کے نام بتاؤ ؟

۵ ۔ اب کس کی شریعت باقی ہے اور قیامت تک کس کی شریعت چلےگی ؟

۶ ۔ کن لوگوں کی نجات ہوگی ؟

۱۵

آٹھواں سبق

نبی کے اوصاف

تم جانتے ہو کہ ہر نبی میں چند باتوں کا پایا جانا ضروری ہے۔

۱ ۔ نبی عالم پیدا ہوتا ہے۔ اس کے ماں باپ دادا دادی وغیرہ تمام آباؤ اجداد مسلمان ہوتے ہیں۔ نبی کسی کافر کی نسل میں نہیں پیدا ہوتا بلکہ ہمیشہ پاک و پاکیزہ اور طیب و طاہر نسل میں پیدا ہوتا ہے۔ نبی ہمیشہ شریف اور باعزت گھرانے میں پیدا ہوتا ہے۔ نبی کو کوئی قابل نفرت بیماری نہیں ہوتی ۔ نبی کوئی ایسا کام یا پیشہ نہیں کرتا جو ذلت اور رسوائی کا سبب ہو۔

۲ ۔ ہر نبی معصوم ہوتا ہے۔ اس سے نہ کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے نہ کوئی برائی۔ نہ بھول چوک ہوتی ہے اور نہ خطا اور غلطی۔ نبی چونکہ عالم پیدا ہوتا ہے اس لئے ہر گناہ سے نفرت کرتا ہے اور ہر برائی سے بیزار رہتا ہے۔ اسی نفرت اور بیزاری کی وجہ سے وہ کبھی گناہ نہیں کرتا۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ معصوم برائی نہ کرنے اور نیک کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ اپنے علم کے باعث اپنے ارادہ اور اختیار سے گناہوں سے بچتا ہے اور نیکیاں بجا لاتا ہے۔

۳ ۔ نبی جتنے لوگوں کی ہدایت کے لئے آتا ہے ان سب لوگوں سے ہر کمال اور خوبی میں بہتر ہوتا ہے۔ نبی کے زمانہ کا کوئی انسان کسی خوبی مین نبی سے افضل نہیں ہو سکتا۔

۴ ۔ کوئی نبی خود بخود نہیں بنتا ہے بلکہ خدا اس کو نبوت دیتا ہے۔

سوالات :ؒ

۱ ۔ کیا نبی کے آباداجداد میں کوئی کافر ہو سکتا ہے ؟

۲ ۔ کیا معصوم اچھے کام کرنے اور بڑے کام نہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے ؟

۳ ۔ نبی کن لوگوں سے افضل ہوتا ہے ؟

۱۶

نواں سبق

نبی کی پہچان

خدا نے کس کو نبی بنا کر بھیجا ؟۔ یہ بات ہم کو دو طرح سے معلوم ہوتی ہے۔ ۱ ۔ جو نبی موجود ہے وہ بعد میں آنے والے نبی کا نام پتہ اور نشان بتا کر جائے جیسے عیسیٰ علیہ السلام ہمارے نبیؐ کے آنے کی خبر دی گئے تھے۔ اور آپ نے پیشینگوئی فرمائی تھی کہ میرے بعد ایک نبی آئےگا جو آخری نبی ہوگا اور اس کا نام احمدؐ ہوگا۔ ہمارے نبیؐ کے آنے کی خبر حضرت موسیٰؐ نے بھی دی تھی۔ آپ نے بتایا تھا کہ یثرب کے شہر میں آخری نبی آئےگا، چناچہ یہودی ہمارے نبیؐ کے آنے سے پہلے ہی شہر یثرب میں آ کر آباد ہو گئے تھے۔یثرب مدینہ منورہ کا دوسرا نام ہے۔ یہودی اور عیسائی جناب موسیٰ اور جناب عیسیٰؐ سے خبر سن کر آخری نبی کا انتظار کر رہے تھے مگر ان کی سب سے بڑی بدبختی یہ تھی کہ جب وہ نبی تشریف لائے جن کا انتظار تھا تو بجائے ایمان لانے اور مدد کرنے کے آپ کے دشمن اور سخت مخالف ہو گئے۔

۲ ۔ نبی کے پہچاننے کا دوسسرا ذریعہ معجزہ ہے۔ معجزہ خدا کی دی ہوئی وہ طاقت ہے جس کے ذریعہ نبی ایسے حیرت انگیز کام کر دکھاتا ہے جس کا جواب لانے سے اس کے زمانے والے عاجز ہو جاتے ہیں۔اس طرح زمانہ کے لوگوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ معجزہ دکھانے والا خدا کا بھیجا ہوا نبی ہے۔ اسی لئے ہر نبی نبوت کے دعوے کے ثبوت میں معجزہ پیش کرتا ہے۔ جیسے جناب موسیٰ علیہ السلام کا عصا جس نے اژدہا بن کر جادوگروں کی ان تمام رسیوں کو نگل لیا تھا جو جادوگروں کے کرتب کی وجہ سے رینگتے ہوئے سانپ نظر آ رہی تھیں۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ اور بیماروں کو بغیر دوا کے اچھا کر دیتے تھے۔

۱۷

ہمارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی بہت سے معجزے دکھائے ہیں۔ آپ نے انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کر دئے تھے۔ ایک بار آپ کی انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری ہوا تھا۔ پتھر اور جانور آپ کے حکم پر انسانوں کی طرح آپ کی نبوت و رسالت کی گواہی دیتے تھے۔ درخت آپ کے حکم پر چل کر آپ کے پاس آ جاتے تھے۔ قرآن مجید ہمارے نبیؐ کا سب سے بڑا اور قیامت تک باقی رہنے والا معجزہ ہے جس میں تمام انسانوں اور جنوں کو چیلینج کیا گیا ہے کہ اگر ممکن ہو تو تم سب مل کر اس کا جواب لاؤ مگر آج تک جواب نہیں آ سکا جو قرآن مجید کے معجزہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

سوالات :

۱ ۔ نبی کی پہچان کے دو طریقے کیا ہیں ؟

۲ ۔ نبی کو خدا معجزہ کیوں دیتا ہے ؟

۳ ۔ پانچ معجزے بیان کرو ؟

۱۸

دسواں سبق

ہمارے آخری نبیؐ

ہمارے نبیؐ ۱۷/ ربیع الاول ۱ ؁ عام الفیل کو جمعہ کے دن صبح صادق کے قریب مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ نبی کریم کی والدہ ماجدہ جناب آمنہؐ خاتون ہیں۔ آپ کے نانا وہب ہیں جو مدینہ منورہ کے بہت باعزت آدمی تھے۔ نبی کریمؐ کی ولادت سے قبل ہی آپ کے والد محترم جناب عبدؐ اللہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ جناب ابو طالبؐ آنحضرتؐ کے چچا تھے۔ آپ کی ولادت کے وقت زمین سے آسمان تک ایک نور روشن تھا۔ ملائکہ آسمان سے بڑی تعداد میں زمین پر اُتر رہے تھے۔ شیطان نے گبھرا کر ملائکہ سے پوچھا کہ کیا قیامت آ گئی۔ ملائکہ نے بتایا کہ آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیدا ہوئے ہیں۔ ہم آسمانوں سے مبارکباد کے لئے آ رہے ہیں۔ شیطان یہ سنکر اسی وقت سے نبی کریم اور اُن کی آلؐ پاک کا دشمن ہو گیا۔

آپ جب چار برس کے تھے تو آپ کی والدہ ماجدہ جناب آمنہؐ خاتون نے مقام ابواء میں انتقال فرمایا۔ آپ آٹھ برس کے تھے جب آپ کی شفیق دادا جناب عبد المطلبؐ نے انتقال فرمایا۔ دادا کے انتقال کے بعد آپ کی پرورش آپ کے حقیقی اور مہربان چچا جناب ابو طالبؐ نے کی جناب ابوطالبؐ مرتے دم تک آپ کے حامی و مددگار اور ناصر و محافظ رہے۔ آپ کی چچی جناب فاطمہؐ بنت اسد حضرت علی عیہ السلام کی والدہ ماجدہ ہیں انھوں نے مثل ماں کے آپ کو پالا۔ آپ بھی ان کو ماں ہی کہتے تھے۔ جب آپ کا سن مبارک پچیس سال کا تھا تو آپ کی شادی عرب کی مشہور خاتون جناب خدیجہؐ سے ہوئی۔ جناب خدیجہؐ نے اپنی ساری دولت اسلام کی تبلیغ پر صرف کر دی۔ جناب خدیجہؐ کے انتقال کے بعد نبیؐ کریم نے بہت سی شادیاں کیں۔

۱۹

لیکن آپ اپنی وفات تک حضرت خدیجہؐ ہی کو یاد فرماتے رہے۔ جب آپ کا سن مبارک چالیس برس کا ہوا تو ۲۷ رجب کو خدا نے آپ کو اعلان نبوت کا حکم دیا۔ تین سال آپ نے پوشیدہ تبلیغ کی اس کے بعد کھل کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا۔جب آپ کی عمر اکیاون سال تھی اور اسلام کے اعلان کو گیارہ برس ہو چکے تھے تو چند مہینوں کے فاصلے سے یکے بعد دیگرے جناب ابوطالبؐ اور جناب خدیجہؐ نے انتقال کیا۔ آپ ان دونوں کی موت پر بہت رنجیدہ ہوئے اور اس سال کا نام " غم کا سال " رکھ دیا۔ جب آپ کی عمر ۵۳/ برس کی تھی تو مکہ میں تیرہ سال دین کی تبلیغ کر کے اور سخت ترین مصائب جھیل کر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ ہجرت کی رات دشمنوں نے آپ کا گھر گھیر لیا تھا۔ آپ اللہ کے حکم سے گھر کے باہر نکلے تو دشمن اندھے ہو گئے۔ آپ کو جاتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔ آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بستر پر سلا دیا۔ دشمن بھرا بستر دیکھ کر رات بھر یہی سمجھتے رہے کہ نبیؐ کریم آرام فرما رہے ہیں اور حضرت علی علیہ السلام دشمنوں کی کھینچی ہوئی تلواروں کے سایہ میں رات بھر بڑے اطمینان سے آرام فرماتے رہے۔ دس سال مدینہ منورہ میں آنحضرتؐ نے قیام فرمایا۔ ۶۳ سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔ آپ نے جس سال مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی ہے اسی سال سے یہ سن ہجری شروع ہوا ہے۔ ہجرت کے دوسرے سال آپ نے اپنی لخت جگر اسلام کی شہزادی جناب فاطمہؐ زہرا علیہا السلام کی شادی دین و دنیا کے مولا حضرت علی علیہ السلام سے کی ۱۰ ھ؁ میں آنحضرتؐ نے آخری حج کیا اور حج کی واپسی پر ۱۸/ ذی الحجہ کو غدیر خم کے مقام پر سوا لاکھ حاجیوں کے سامنے دن دوپہر کھلے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے اپنا خلیفہ اور جانشین مقرر فرمایا اور تمام مسلمانوں کا حاکم قرار دیا۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

۶ ۔مردوں کے لئے خالص ریشم کے کپڑے کا استعمال حرام ہے خواہ نماز میں ہو یا غیر نماز میں۔ ہاں اگر اس میں اتنا سوت وغیرہ ملا دیا جائے کہ وہ ریشمی نہ کہلائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۷ ۔ سونے کے توروں سے بنے ہوئے کپڑوں کا ستعمال مردوں کے لئے حرام ہے اسی طرح مردوں کے لئے سونے سے زینت اور آرائش بھی ناجائز ہے۔ جیسے سونے کی انگوٹھی ، چین ، چشمہ کا فریم ، گھڑی ، بٹن وغیرہ ۔ عورتوں کے لئے یہ تمام باتیں جائز ہیں۔

مردوں کے لئے سونے کا استعمال نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں حرام ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ سونے میں خالص کی قید نہیں بلکہ اگر مخلوط بھی ہے تو بھی ناجائز ہے۔ جب تک کہ اس میں تانبا یا کوئی دوسری دھات اتنی نہ ملا دی جائے کہ اسے سونا نہ کہہ سکیں۔

سوالات :

۱ ۔ نماز میں مرد اور عورت کو کتنا جسم چھپانا واجب ہے ؟

۲ ۔ نماز کے لباس کی تین شرطیں بیان کرو ؟

۳ ۔ نائلون کے کپڑے میں نماز کب ناجائز ہے ؟

۴۱

اکیسواں سبق

مکان

مکان سے مراد وہ جگہ ہے جہاں کھڑے ہو کر انسان نماز ادا کرتا ہے اس جگہ کے لئے پاک ہونے کی کوئی قید نہیں ہے بلکہ نجس بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جگہ کی تری بدن اور کپڑے تک نہ پہونچ جائے مگر سجدہ کی جگہ کا پاک ہونا بہرحال ضروری ہے۔

مکان نماز میں حسب ذیل شرائط ضروری ہیں :

۱ ۔ مباح و جائز ہو ۔ دوسرے کی زمین پر یا مشتر کہ اراض میں بغیر مالک و شریک کی اجازت کے نماز باطل ہے۔ عام موقوفات یعنی مسجد وغیرہ میں جو پہلے جگہ لے لے اُسے اُس کی جگہ سے ہٹایا نہیں جا سکتا ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جائےگی۔ اجازت کے صریح بیان کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مالک کے راضی رہنے کا یقین ہونا کافی ہے۔

۲ ۔ نماز میں معصوم کی قبر کے آگے نہ ہونا چاہئے بلکہ پیچھے پڑھے یا زیادہ سے زیادہ برابر کھڑا ہو آگے ہونا خلاف ادب ہے ہاں اگر کافی ٖاصلہ ہو جائے یا درمیان میں کوئی چیز جائل ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

۳ ۔ نماز کی جگہ کو ساکن اور ٹھرا ہوا ہونا چاہئے۔ چلتی ہوئی گاڑی پر اس وقت تک نماز جائز ہے جبکہ آخر وقت تک اُتر کر یا رُکی ہوئی گاڑی میں نماز پڑھنا ممکن رہے۔

۴۲

یوں تو نماز کے لئے کوئی جگہ معین نہیں ہے لیکن مسجد کو دیگر مقامات پر فوقیت و فضیلت حاصل ہے چاہے وہاں نماز جماعت ہو یا نہ ہو۔ جماعت کا ہونا مزید ثواب و برکت کا باعث ہے۔

مسجد کی عظمت یہ ہے کہ عام مسجدوں میں ایک نماز پچیس نمازوں کے برابر ہے اور جامع مسجد میں سو نمازوں کے برابر ہے۔ مسجد کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ مسجد کے پڑوسی کی نماز بغیر مسجد میں پڑھے مقبول نہیں ہو سکتی سوا اس کے کہ کوئی مجبوری ہو اور دوسری روایت یہ ہے کہ مسجد روز قیامت ان نمازوں سے فریاد کرےگی جو نماز پڑھتے تھے لیکن مسجد میں نہیں آتے تھے۔

سوالات :

۱ ۔ کیا نجس جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں ؟

۲ ۔ ریل پر نماز کیونکر پڑھی جائےگی ؟

۳ ۔ معصوم کی قبر کے آگے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟

۴ ۔ گھر کی نماز اور عام مسجد کی نما میں کیا فرق ہے ؟ عام مسجد اور جامع مسجد کی نماز میں کیا فرق ہے ؟

۵ ۔ جامع مسجد مین ایک نماز کا ثواب کیا ہے ؟

۶ ۔ چلتی ہوئی گاڑی میں نماز جائز ہے یا نہیں ؟

۴۳

بائیسواں سبق

اذان و اقامت

اذان و اقامت صرف پنچگانہ نمازوں کے لئے مستحب ہے اور انتہائی تاکید کے ساتھ مستحب ہے۔ باقی نمازوں میں اذان و اقامت ناجائز ہے چاہے وہ واجب ہوں یا غیر واجب۔ اذان اور اقامت میں حسب ذیل امور کا لحاظ ضروری ہے :

۱ ۔ نیت ۔ یعنی دونوں کو قربت کی نیت سے انجام سے اس لئے کہ کسی عبادت میں بغیر قصد قربت کے ثواب نہیں مل سکتا۔

۲ ۔ عقل ۔ دیوانے کی اذان و اقامت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

۳ ۔ بلوغ ، نابالغ کی اذان و اقامت ناکافی ہے۔

۴ ۔ ذکوریت ، عورت کی اذان و اقامت مرد کے لئے نا کافی ہے البتہ عورت کا اذان و اقامت کہنا عورتوں کے لئے کافی ہے۔

۵ ۔ ترتیب ۔ پہلے اذان اس کے بعد اقامت کہنا چاہئے۔

۶ ۔ موالات ۔ اذان کے بعد جلد ہی اقامت اور اقامت کے بعد فوراً نماز پڑھے۔ سلسلہ کے ٹوٹ جانے سے اذان و اقامت بیکار ہو جاتی ہے۔

۷ ۔ عربی ۔ اُردو میں یا غلط عربی میں اذان و اقامت درست نہیں ہے۔

۴۴

۸ ۔ وقت ۔

نماز کے وقت سے پہلے اس کا ادا کرنا غلط ہے البتہ قضا نماز پڑھی جا سکتی ہے اس لئے اس کا وقت ہر وقت رہتا ہے۔ اذان کے لئے طہارت ۔ قیام ۔ استقبال قبلہ مسجد ہے لیکن اقامت میں طہارت و قیام ضروری ہے۔ یہ رسم کہ اقامت کہتے کہتے قدقامت الصلوٰۃ پر کھڑے ہو گئے فرادی نماز میں بالکل نامناسب ہے اس طرح اقامت کا ثواب نہیں مل سکتا۔ اذان و اقامت دونوں میں ذکر رسولؐ اکرم کے بعد ذکر امیرالمومنین علیؐ ابن ابی طالبؐ ہونا چاہئے جو اذان کا جز نہیں ہے۔ لیکن حکم پیغمرؐ کی بنا پر مسحب ہے۔

اگر کوئی شخص اذان و اقامت دونوں بھول جائے اور نماز شروع کر دے تو اس کے لئے جائز ہے کہ رکوع میں پہونچنے سے پہلے نماز کو توڑ دے اور اذان و اقامت کہہ کر پھر نماز شروع کرے لیکن اگر صورف اقامت بھول گیا ہے تو الحمد شروع کرنے کے بعد نماز نہیں توڑ سکتا البتہ اس سے پہلے توڑ سکتا ہے۔ تنہا اذان کے بھول جانے سے نماز نہیں توڑی جا سکتی۔ اسی طرح کسی ایک کے بھی قصداً چھوڑ دینے پر نماز کا قطع کرنا حرام ہے۔

سوالات :

۱ ۔ نابالغ کی اذان و اقامت کیا کافی ہے ؟

۲ ۔ اقامت و نماز کے درمیان وقت کا فاصلہ کیا ہے ؟

۳ ۔ اگر نمازی اذان و اقامت بھول کر نماز شروع کر دے تو کیا حکم ہے ؟

۴ ۔ اقامت کی کوئی تین شرطیں بتاؤ ؟

۵ ۔ اذان اور اقامت میں جن باتوں کا لحاظ ضروری ہے وہ کتنی ہیں ؟

۴۵

تئیسواں سبق

واجبات نماز

نماز میں گیارہ چیزیں واجب ہیں اور انھیں کے مجموعہ کا نام نماز ہے۔

نیت : تکبیرۃ الاحرام ۔ قیام ۔ قرائت ۔ ذکر ۔ رکوع ۔ سجود ۔ تشہد ۔ سلام ۔ ترتیب ۔ موالات ۔ ان میں سے پانچ واجب کن ہیں یعنی ان کی کمی زیادتی بھولے سے بھی نماز کو باطل کر دیتی ہے۔ نیت تکبیرۃ الاحرام۔ قیام ۔ رکوع ۔ دونوں سجدے باقی سب غیر رکن ہیں یعنی ان کو قصداً چھوڑ دینے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ لیکن بھولے سے باطل نہیں ہوتی بلکہ ان کی قضا کرنا پڑتی ہے۔

نیت :

نیت رکن ہے اس کو ہمیشہ دل میں ہونا چاہئے زبان سے ادا کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ نماز احتیاط میں تو زبان سے ادا کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔

تکبیرۃ الاحرام ۔

نیت کے بعد اللہ اکبر کہنا رکن نماز ہے اور پوری نماز میں یہی ایک تکبیر واجب ہے اس کے علاوہ تمام تکبیریں سنت ہیں۔

قیام۔

انسان اپنے مکان بھر کھڑے ہوکر نماز پڑھے رونہ بیٹھ کر پڑھے اور اگ بیمار یا کمزور ہے تو جتنی دیر کھڑا رہ سکے ٹھرا رہے پھر اگر طاقت آ جائے تو پھر کھڑا ہو جائے اور جو بیٹھ بھی نہ سکے وہ لیٹ جائے داہنے یا بائیں کروٹ یا چت۔ بشرطیکہ قبلہ کی طرف اس کا چہرہ رہے۔ قیام ۔ الحمد اور سورہ ، پڑھتے وقت واجب ہے لیکن تکبیر کے وقت رکن ہے اور سورہ ، پڑھتے وقت واجب ہے لیکن تکبیر کے وقت رکن ہے اور اسی طرح رکوع سے پہلے بھی رکن ہے یعنی رکوع میں قیام سے جانا چاہئے یہی قیام متصل برکوع ہے۔ اس قیام کے رکن ہونے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر انسان حمد و سورہ کے بعد بھولے سے سجدہ کے لئے جھک گیا اور سجدہ کرنے سے پہلے یاد آیا کہ رکوع نہیں کیا ہے تو اب وہیں سے رکوع میں نہیں جا سکتا ورنہ نماز باطل ہو جائےگی بلکہ اسے چاہئے کہ سیدھے کھڑا ہو اور اس کے بعد رکوع میں جائے۔

۴۶

قرات ۔ تکبیر کے بعد پہلی دو رکعت میں الحمد اور اس کے بعد کوئی ایک سورہ پڑھنا واجب ہے۔ البتہ واجب سجدہوں والے سورے نہ پڑھے اور اتنے لمبے سورے نہ پڑھے کہ نماز کا وقت نکل جائے۔ جماعت کی حالت میں یہی دو سورے ماموم نہیں پڑھتا ہے ورنہ باقی نماز ماموم خود ادا کرےگا۔ آخری دو رکعتوں میں انسان کو اختیار ہے چاہے سورہ حمد پڑھے یا ایک مرتبہسُبحَانَ اللهِ وَ الحَمدُ لِلهِ وَ لاَ اِلٰهَ اِلاَّ للهُ وَ اللهُ اَکبَر پڑھے۔ تین مرتبہ پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔

رکوع ۔ نماز کا ایک اہم رکن ہے اگر اتفاقاً کبھی رہ جائے یا ایک سے دو ہو جائے تو نماز باطل ہے۔ رکوع میں اتنا جھکنا چاہئے کہ ہتھیلی گٹھنے تک پہونچ سکے۔ گٹھنے پر ہتھیلی کا رکھنا واجب نہیں ہے۔ رکوع میں ایک مرتبہ سبحان ربی العظیم و بحمدہ یا تین مرتبہ سبحان اللہ کہنا ضروری ہے۔ اس کے بعد ان کلمات کو بار بار دھرانا افضل و مستحب ہے۔ رکوع ختم کرنے کے بعد سیدھے کھڑا ہو کر سجدہ میں جائے اس لئے کہ یہ قیام بھی واجب ہے۔ کھڑے ہونے کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ ۔ اللہ اکبر کہنا مستحب ہے۔

سجدہ ۔

یہ بھی نماز کا ایک رکن ہے لیکن دونوں ملاکر جس کا مطلب یہ ہے کہ دو کے چار ہو جائیں یا اتفاق سے کسی رکعت میں ایک بھی نہ ہو سکے تو نماز باطل ہو جائےگی۔ سجدہ میں سات اعضا ، کا زمین پر ٹکنا ضروری ہے۔ پیشانی ۔ دونوں ہتھیلیاں ۔ دونوں گٹھنے ۔ دونوں پیر کے انگوٹھے سجدہ کا ذکرسبحان ربی الا علیٰ و بحمده یا تین مرتبہسبحان الله ہے۔ سجدہ مٹی پر ہوگا یا جو چیزیں زمین سے اُگی ہوں ان پر ہوگا بشرطیکہ وہ کھانے اور پہننے میں کام نہ آتی ہوں۔ خاک کربلا پر سجدہ کرنے کا زیادہ ثواب ہے۔ اس لئے کہ یہ خاک اسلامی قربانیوں کو یاد دلانے والی اور مسلمانوں میں جوش عقیدت کو ابھارنے والی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سجدہ کا جو ازارسی خاک پاک میں منحصر نہیں ہے بلکہ ہر پاک مٹی ، لکڑی ، پتے پر اپنے شرائط کے ساتھ سجدہ کیا جا سکتا ہے۔

۴۷

تشہد ۔

دوسری رکعت اور آخری رکعت میں دونوں سجدوں کے نعد تشہد واجب ہے جس کی صورت یہ ہےاَشهَدُ اَن لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحدَهُ لَا شَرِیکَ لَهُ وَ اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبدُهُ وَ رَسُولَهُ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ ٰالِ مُحَمَّد ! اگر کوئی شخص تشہد بھول جائے اور بھول کر کھڑا ہو جائے تو فوراً بیٹھ کر تشہد پڑھے اور نماز کے بعد دو سجدہ سہو کرے۔

سلام ۔

نماز کے خاتمہ پر ایک سلام واجب ہے چاہےاِلسِّلاِمُ عَلَینَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِینُ "یا "اَلسَّلاَم عَلَیکُم وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکاتُهُ بہر حال مستحب ہے۔ سلام نماز کا جز ہے۔

ترتیب ۔

نماز کو اپنی صحیح ترتیب کے ساتھ پڑھنا چاہئے مثلا نیت کر کے تکبیر کہے پھر سورہ حمد پڑھے دوسرا سورہ پڑھے پھر رکوع میں جائے۔ رکوع سے اُٹھ کر سجدہ میں جائے۔ ایک سجدہ سے اُٹھ کر پھر دوسرا سجدہ کریں پھر اسی طرح دوسری رکعت پڑھے۔ اگر دو ہی رکعت پڑھنا ہے تو سجدہ کے بعد تشہد و سلام پڑھ کر ختم کر دے ورنہ باقہ نماز اسی ترتیب سے ادا کرے۔

موالات ۔

نماز کے تمام اگعال کو پے در پے ہونا چاہئے۔ درمیان میں اتنا فاصلہ یا ایسی خاموشی نہ ہو جائے کہ صورت نماز ہی ختم ہو جائے۔

قنوت ۔

یہ دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے مستحب ہے اس میں ایک صلوات کا پڑھنا بھی کافی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ ارکان نماز کتنے ہیں اور ان کا کیا حکم ہے ؟

۲ ۔ کون سا قیام رکن ہے اور قیام متصل برکوع کا کیا مطلب ہے ؟

۳ ۔ واجب نماز کتنے ہیں ؟

۴ ۔موالات کسے کہتے ہیں ؟

۴۸

چوبیسواں سبق

مبطلات نماز

نو چیزیں ایسی ہیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اس کا دوبارہ ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔

۱ ۔ کسی ایسے حدث کا صادر ہو جانا جس سے وضو باطل ہو جاتا ہے یا غسل واجب ہو جاتا ہے اسلئے کہ ان چیزوں سے طہارت ختم ہو جاتی ہے اور طہارت کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی۔

۲ ۔ پورے بدن کا قبلہ سے منحرف ہو جانا یا تنہا چہرا کا اس قدر مڑ جانا جس سے پس پشت تک کی چیزیں دیکھ سکے، رہ گیا داہنے بائیں تھوڑا سا انحراف و التفات ہوتو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔

۳ ۔ حالت نماز میں ایسے کام انجام دینا جو جائز ہیں یا جن کے کرنے سے نماز کی صورت باقی نہیں رہتی۔ جیسے ناچنا ۔ گانا ۔ سینا پرونا وغیرہ

اسکے علاوہ ہاتھوں کو حرکت دینا کسی ضرورت سے جھکنا ۔ دو ایک قدم آگے پیچھے ۔ داہنے بائیں ہٹ جانا ۔ خطرہ میں سانپ بیچھو کا قتل کر دینا ۔ بچہ کو گود میں اٹھا لینا یا اس قسم کے دوسرے معمولی افعال سے نماز باطل نہیں ہوتی بشرطیہ حرکت کی حالت میں خاموش رہے کوئی ذکر وغیرہ کا خاص خیال رکھے۔بلا ضرورت یہ باتیں کسی طرح مناسب نہیں ہیں۔

۴۹

۴ ۔ کلام نماز کی حالت میں علاوہ ذکر و دعا کے کسی بھی لفظ کا استعمال کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ دعا وغیرہ میں بھی خطاب پروردگار عالم سے ہونا چاہئے کسی آدمی سے خطاب کر کے اسے دعا دینا ناجائز ہے۔نماز پڑھنے والے کو سلام کرنے کی ابتدا نہیں کرنی چاہئے لیکن اگر کوئی سلام کر دی تو فوراً سلام علیکم کہہ کر جواب دینا چاہئے علیکم السلام کہہ کر نہیں۔ اگر پوری جماعت کو سلام کیا جائے تو ایک شخص کا جواب کافی ہے لیکن اگر سب جواب کو ٹال جائیں گے تو گناہ میں بھی سب شریک رہیںگے۔

ہندوستان کے رسمی سلام "اداب عرض " ہے۔ تسلیمات وغیرہ جیسے فقروں کا جواب واجب نہیں ہے بلکہ حالت نماز میں تو ان الفاظ کا ادا کرنا جائز بھی نہیں ہے۔

۵ ۔ نماز میں آواز کے ساتھ یا اتنی شدت سے ہنسنا کہ سارا چہرہ سرخ ہو جائے خواہ آواز نہ بھی نکلے نماز کو باطل کر دیتا ہے البتہ معمولی مسکراہٹ میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہنسی سے جب چہرہ سرخ ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ نماز کو تمام کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔

۶ ۔ گریہ و بکا ۔ حالت نماز میں دنیاوی کاموں کے لئے رونا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر دفعتاً خود بخود رونا آ گیا اور انسان اس پر قابو نہ پا سکا جب بھی نماز باطل ہو جائےگی۔ سیدالشہدا پر گریہ کرنا خدا کی خوشنودی کی نیت سے جائز ہے۔

۵۰

۷ ۔ کھانا پینا ۔ نماز کی حالت میں کسی مقدار میں بھی کھانا پینا ناجائز ہے بلکہ مبطل نماز ہے ہاں اگر منھ میں شکر وغیرہ کے کچھ ریزے رہ گئے ہیں اور وہ پگھل کر اندر چلے جائیں تو اس سے کوئی اثر نماز پر نہیں پڑتا۔ اگر کوئی شخص درمیان نماز میں بھولے سے کھانے پینے میں مشغول ہو گیا تو اس کی نماز باطل نہ ہوگی بشرطیہ نمازی جانماز پر معلوم ہوتا ہو دسترخوان پر نہیں۔ اس حکم سے صرف وہ شخص آزاد ہے جو نماز وتر پڑھ رہا ہے اور صبح کے وقت اُسے روزہ رکھنا ہے۔ ایسے آدمی کو نہ اختیار رہے کہ نماز کی حالت میں پانی پی لے ۔ کھانا وہ بھی نہیں کھا سکتا۔ پانی پینے میں بھی قبلہ کا لحاظ انتہائی ضروری ہے۔

۸ ۔ تکفیر ۔ نماز میں ہاتھ باندھنا شریعت اسلام کی رو سے ناجائز ہے۔

۹ ۔ سورہ حمد کے خاتمہ پر عام مسلمانوں کی طرح آمین کہنا فقہ آل محمدؐ کی رو سے ناجائز بلکہ مبطل نماز ہے اتفاقی طور سے زبان سے نکل جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۵۱

یہ وہ مقامات ہیں جہاں نماز خود بخود باطل ہو جاتی ہے اس کے علاوہ کسی موقع پر بھی باطل ضرورت نماز کا قطع کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ ضرورت کے وقت ایسا ہو سکتا ہے چاہے وہ ضرورت دنیاوی ہو یا دینی بلکہ بعض حالات میں اگر جان و مال و آبرو کا خطرہ ہے تو نماز کا توڑ دینا واجب ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ نماز توڑتے وقت ایک سلام پڑھے۔

تنبیہ ۔

نماز یومیہ میں صبح ، مغرب اور عشا کی پہلی دو رکعتیں بآواز پڑھی جائیںگی۔ ظہر و عصر مکمل اور مغربین کی آخری رکعتیں آہستہ پڑھی جائینگی لیکن یہ خیال رہے کہ بات صرف حمد و سورہ کے بارے میں ہے اس کے علاوہ پوری نماز کے بارے میں انسان کو اختیار ہے کہ چاہے آہستہ پڑھے یا بآواز۔ حمد و سورہ اور دیگر ذکر و دعا کے پڑھنے میں عربی قواعد کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ حمد و سورہ بآواز پڑھتے وقت ہر ہر حرف کا آواز سے پڑھنا واجب ہے۔ مثلا ضآلین کا نون بھی آواز سے ادا کرنا ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ حالت نماز میں سانپ ، بچھو کا مارنا کیسا ہے نماز صحیح رہے گی یا باطل ہو جائےگی ؟

۲ ۔ کیا مسکراہٹ سے نماز باطل ہو جائےگی ؟

۳ ۔ نماز میں پانی پینا کیسا ہے ؟

۴ ۔ تکفیر کے معنی کیا ہیں ؟

۵ ۔ مبطلات نماز بتلائیے ؟

۶ ۔ کیا حالت نماز میں آداب عرض ، یا تسلیمات عرض کہا جائے تو نماز صحیح ہوگی ؟

۵۲

پچیسواں سبق

آداب ذکر و قرائت

۱ ۔ نیت کے موقع پر بعض حضرات قربتہً الا اللہ کہہ دیتے ہیں حالانکہ یہ لفظ " الی اللہ " ہے۔

۲ ۔ صلوات میںاَللهُم سَلِّ سے کہہ دیا جاتا ہے حالانکہ یہ رسولؐ اکرم کے لئے بد دعا ہے اصل لفظصَلِّ صاد سے ادا ہوتا ہے۔

۳ ۔اَشهَدُ اَن لاَ اِلٰهَ اِلاَّ الله میں اَن کا نون گرا کر الف کو بعد کے لام سے ملا کراَلاَّ اِلٰهَ پڑھنا چاہئے۔

۴ ۔ صلوات میں محمدٍّ و آلِ محمد میں واؤ پر تشدید دیکر وال کو واؤ سے ملاکر پڑھنا چاہئے۔

۵ ۔ کفو احد مٰیں لفظ کفوا کو کُفُواً واؤ کے ساتھ اور کُفُواً ۔ کُفؤاً ہمزہ کے ساتھ چار طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔

۶ ۔ حی علی الصلوۃ اور قد قامت الصلوۃ میں "ت" کو "ہ" پڑھنا چاہئے اس لئے کہ وقف اور ٹھراؤ میں گول ۃ "ہ "سے بدل جاتی ہے۔

۷ ۔ تشہد میںاَشهَدُ اَنَّ مُحمَداً عَبدُهُ وَ رَسُولَهُ میں عَبدَہُ کے دال پر پیش ہونا چاہئے زبر غلط ہے۔

۸ ۔ سورہ حمد میں المستقیم پر ٹھہر بھی سکتے ہیں اور المستقیمَ پڑھ کر بعد سے ملا بھی سکتے ہیں۔

۹ ۔ نماز کی حالت میں جتنے بھی ذکر واجب یا مستحب ہیں سب کو سکون و اطمینان کی حالت میں ادا کرنا چاہئے حرکت و اضطراب میں سوائےبِحولِ الله وَ قُوتهِ اَقُومُ وَ اَقعُد کے کسی ذکر کا ادا کرنا مناسب نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کتنی چیزیں ایسی ہیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ؟

۲ ۔ نیت میں اِلا اللہ درست ہے یا اِلی اللہ صحیح ہے ؟

۳ ۔ نماز میں وہ کون سی چیز ہے جس کو حرکت کی حالت میں بھی پڑھ سکتے ہیں ؟

۵۳

چھبیسواں سبق

نماز قضا

اگر انسان سے اپنی نماز ترک ہو گئی ہے یا بڑے بیٹے پر باپ کی قضا نماز واجب ہو گئی ہے تو اس کا فریضہ ہے کہ ان سب کی قضا ادا کرے قضا نماز تمام احکام مین باطل ادا جیسی ہے اگر سفر کی قجا ہے تو گھر میں بھی قصر ہی ادا کی جائے گی اور اسی طرح بر عکس۔ اگر جہری ہے تو جہری رہےگی اخفاقی ہے تو اخفاقی رہےگی۔فرادی بھی ہو سکتی ہے جماعت سے بھی ہو سکتی ہے ترتیب کا لحاظ بھی ضروری ہوگا۔ مثلا پہلے ظہر کی پھر عصر کی پہلے مغرب کی پھر عشاء کی البتہ یہ ممکن ہے کہ صبح کی قضا نماز ظہرین کی ادا کے بعد پڑھے یا ظہرین کی قضا نماز مغربین کی ادا کے بعد پڑھے۔ قضا کا کوئی وقت معین نہیں ہے ہر نماز کی قضا ہر وقت پرھی جا سکتی ہے۔

والدین کی نماز اگر خود ادا ادا کرنے پر قادر نہیں ہے تو اجرت دے کر پڑھوائے اجرت پڑھنے والا مرنے والے کی طرف سے نیت کر کے ویسی نماز پڑھے جیسی نماز مرنے والے کی قضا ہوئی ہے۔ لیکن جہر و اخفات میں اپنا طاظ کرے گا یعنی اگر مرد عورت کی طرف سے پڑھ رہا ہے تب بھی جس نماز میں مرد سورے آواز سے پڑھتا ہے اس نماز میں آواز سے ہی پڑھےگا۔ بڑے بیٹے کے علاوہ قضاء والد کسی دوسرے پر واجب نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ بڑے بیٹے کی نالائقی یا اس کے نہ ہونے کی صورت میں دیگر اولاد و اعزاء کو ازراہ ہمدردی اس فیضہ کو ادا کر دینا چاہئے۔ عورت پر زمانہ حیض و نفاس میں چھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا واجب نہیں ہے البتہ اس زمانہ کے روزے کی قضا ضروری ہے۔

۵۴

مردے کی طرف سے اگر کوئی شخص ازخود نماز ادا کر دے تو وارث کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیمار آدمی قضائے عمری کو بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا بلکہ صحت کا انتظار کرےگا۔ ہاں اگر صحت سے مایوس ہو گیا ہے تو بیٹھ کر ہی ادا کرےگا۔عام طور سے جمعتہ الوداع کے دن چار رکعت نماز کو زندگی بھر کا کفارہ مشہور کر دیا گیا ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے بلکہ قضا کا ادا کرنا بہرحال ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ جہری نمازیں کون ہیں اور اخفائی کون ؟

۲ ۔ باپ کی نماز کس بیٹے پر واجب ہے ؟

۳ ۔ اجرت پر نماز پڑھنے والے کا کیا حکم ہے ؟

۵۵

ستائیسواں سبق

نماز کی غلطیاں

بھول

نماز مین غلطیوں کی دو صورتیں ہوتی ہیں ، بھول اور شک۔ بھول جانے کی صورت یہ ہے کہ انسان حالت نماز میں کسی واجب کے ادا کرنے سے غافل ہو جائے۔ ایسی صورت میں اگر بھولی بات اگلے رکن میں داخل ہونے سے پہلے یاد آ جائے تو فوراً پلٹ کر اسے بجا لائے اور اگر رکن میں داخل ہونے کے بعد یاد آئے جیسے رکوع میں پہونچکر سورہ حمد یا دوسرے سورہ کا بھول جانا یاد آیا تو ایسی حالت میں جس چیز کو بھولا ہے اگر وہ خود رکن نہیں ہے تو نماز کو آگے پڑھا دے اور بعد میں ہر بھولی ہوئی بات کے لئے دو سجدہ سہو کرے اور اگر بھولی ہوئی بات خود رکن تھی تو نماز باطل ہو گئی پھر سے پڑھے۔ اگر پلٹ کر واجب کو ادا کرنے میں کوئی زیادتی ہو گئی ہے تو اس زیادتی کے لئے بھی سجدہ سہو کرےگا۔ مثلا کھڑے ہو جانے کے بعد یاد آئے کہ تشہد نہیں پڑھا ہے تو فوراً بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے اور نماز کے بعد سجدہ سہو کرے اس لئے کہ کھڑا ہو کر پھر بیٹھنا پڑا اور تشہد کے بعد پھر کھڑا ہونا پڑا۔ اس زیادتی کے لئے سجدہ سہو کرنا ہوگا۔

۵۶

سجدہ سہو چھ اسباب سے واجب ہوگا۔

۱ ۔ بھولے سے درمیان نماز میں کلام کر لینا ایسے میں نماز باطل نہ ہوگی بلکہ سجدہ سہو کرےگا۔

۲ ۔ بے محل سلام پڑھ دینا۔

۳ ۔دوسرے سجدہ کے بعد چوتھی اور پانچویں رکعت یا حالت قیام میں چوتھی یا پانچویں یا یا پانچویں اور چھٹی رکعت میں شک کرنا۔

۴ ۔ ایک سجدہ کا بھول جانا دونوں کے بھولنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے اس لئے وہ رکن ہیں۔

۵ ۔ بے محل کھڑا ہو جانا جیسے کہ دوسری رکعت میں بجائے تشہد کے قیام کرنا۔ ایسے میں بیٹھ کر تشہد پڑھےگا۔ اور نماز کے بعد سجدہ سہو کرےگا۔

۶ ۔ خود تشہد کا فراموش کر دینا اور بعد والی رکعت کے رکوع میں جاکر یاد آنا۔

سجدہ سہو کی ترکیب

نماز کے ختم ہوتے ہی قبلہ سے منحرف ہوئے بغیر فوراً دل میں نیت کرے کہ دو سجدہ سہو فلاں غلطی کی بنا پر کرتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ اور یہ قصد کر کے فوراً سجدہ میں جائے اور یہ ذکر کرے " "بِسمِ اللهِ وَ بِاللهِ اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ اَيهُّا النَّنِیُ وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُهُ " پھر سر اٹھا کر دوبارہ سجدہ کرے اور یہی ذکر پڑھے پھر سر اٹھا کر تشہد و سلام پڑھ کر کلام تمام کرے۔

اگر نماز میں ایک سجدہ یا تشہد بھول گہا تھا تو خاتمہ نماز پر پہلے اس سجدہ یا تشہد کی قضا کرے، اس کے بعد سجدہ سہو کرے۔

۵۷

شک

نماز میں شک پیدا ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ کبھی شک کا تعلق نماز کے

افعال سے ہوتا ہے اور کبھی نماز کی رکعتوں سے۔ افعال میں شک کا مطلبیہ ہے کہ دوران نماز تکبیر کہنے ، حمد یا سورہ پڑھنے ، رکوع یا سجدہ کونے وغیرہ میں شک ہو جائے ، ایسی صورت کا حکم یہ ہے کہ اگر بعد والے عمل میں داخل ہونے کے بعد کسی پہلے والے فعل میں شک ہوا ہے تو اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی جائےگی بلکہ نماز کو صحیح قرار دیا جائےگا مثلا کسی شخص کو قل ھو اللہ احد پڑھتے وقت سورہ حمد کے پڑھنے میں شک ہو گیا تو وہ بجائے پلٹنے کے نماز آگے پڑھتا رہےگا اور انشاء اللہ صحیح رہےگی۔

رکعات میں شک کا مطلب یہ ہے کہ رکعتوں کی صحیح تعداد یاد نہ رہے اس شک کی بظاہر بہت سی صورتیں ہیں لیکن صرف ۹ صورتوں میں نماز صحیح ہو سکتی ہے۔ باقی تمام صورتوں میں باطل ہوگی۔ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ شک پیدا ہوتے ہی دماغ پر زور دے کہ صحیح بات یاد کرنے کی کوشش کرے۔ اب اگر کوئی فیصلہ نہ کر سکے تو شریعت کی تفصیل یہ ہے۔

ان قوانین کی تفصیل یہ ہے :

۱ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد یہ شک ہو کہ یہ سجدہ دوسری رکعت کا تھا یا تیسری رکعت کا۔ ایسی صورت میں تیسری سمجھ کر اسی حساب سے نماز تمام کرے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے اس لئے کہ اگر واقعی دوسری رکعت تھی تو ایک ہی رکعت کی کمی ہوئی ہے۔

۵۸

۲ ۔تیسری اور چوتھی رکعت کے بارے میں کسی حالت میں شک ہو ۔ ایسے میں چوتھی قرار دے کر نماز تمام کرے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔

۳ ۔ دوسری سجدہ کے بعد دو اور چار میں شک ہو ۔ ایسے میں چوتھی رکعت ورار دے کر نمام تمام کرے اور دو رکعت نماز احتیاط پڑھے۔

۴ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد شک کرے کہ یہ رکعت دوسری تھی یا تیسری یا چوتھی ۔ ایسے میں چوتھی سمجھے اور پہلے دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پرھے پھر دو رکعت بیٹھ کر۔

۵ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد شک ہو کہ یہ رکعت چوتھی تھی یا پانچویں ۔ ایسے میں نماز وہیں پر تمام کرے اور دو سجدہ سہو کرے۔

۶ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ چوتھی ہے یا پانچویں ۔ ایسے میں فوراً بیٹھ کر نماز تمام کر دے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۷ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ تیسری ہے یا پانچویں ۔ ایسے میں بیٹھا کر نماز ختم کر دے اور دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔ اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۸ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ تیاری ہے یا چوتھی یا پانچویں ۔ ایسے میں بیٹھ کر نماز تمام کر دے اور دو رکعت کھڑے ہو کر اور دو رکعت بیٹھ کر نماز احتیاط پڑھے۔ اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۹ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ پانچویں ہے یا چھٹی ۔ ایسے میں بیٹھ کر نماز تمام کرے اور دو سجدہ سہو کرے۔ نیز بنا پر احتیاط واجب بےجا قیام کے لئے دو سجدہ مزید کرے۔

۵۹

شک کے بارے میں یہ بات ضرور ہیش نظر رہنی چاہے کہ یہ سارے احکام صرف اس نماز کے لئے ہیں جس میں چار رکعتیں ہوتی ہیں۔ سہ رکعتی نماز یعنی مغرب اور دو رکعتی نماز یعنی صبح اور حالت سفر کی ظہر و عصر و عشا کا حکم یہ ہے کہ شک پیدا ہوتے ہی کسی مقدار میں غور کرے اگر کوئی بات یاد آ جائے تو اس پر عمل کرے ورنہ نماز کو اسی جگہ سے توڑ دے اور دوبارہ چروع کرے۔

نماز احتیاط

اس نماز کا طریقہ یہ ہے کہ اصل نماز کے ختم کرنے کے بعد فوراً ہی بلا فاصلہ نیت کرے کہ نماز احتیاط ایک رکعت یا دو رکعت پڑھتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ اس نیت کا زبان سے ادا کرنا جائز ہے۔ اس کے بعد فقط سورہ حمد اور وہ بھی آہستہ پڑھ کر رکوع اور سجدہ کرے اگر ایک رکعتی ہے تو تشہد و سلام پڑھ کر نماز تمام کر دے ورنہ دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھے اور سجدوں کے بعد تشہد و سلام ادا کر کے نماز ختم کر دے۔ نماز احتیاط میں الحمد کے علاوہ دوسرا سورہ یا قنوت نہیں پڑھا جاتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر نماز میں کسی واجب کو ادا کرنا بھول جائے تو کیا کرے ؟

۲ ۔ سجدہ سہو کہاں واجب ہوتا ہے ؟

۳ ۔ سجدہ سہو اور نماز احتیاط کی ترکیب بتاؤ ؟

۴ ۔ شک کی کتنی صورتوں میں نماز صحیح رہےگی ؟

۵ ۔ نماز احتیاط یا سجدہ سہو چھوڑ کر کیا نماز دوبارہ پڑھی جا سکتی ہے ؟

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83