امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم جلد ۴

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم 60%

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 83

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 83 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 54943 / ڈاؤنلوڈ: 2924
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

مدینہ واپس آ کر آپ دو مہینے دس دن زندہ رہے اور چند دن بیمار رہ کر اٹھائیس صفر ۱۱ ھ؁ کو انتقال فرما گئے۔ حضرت علی علیہ السلام نے اللہ کے آخری رسولؐ کو غسل و کفن دیا اور رسالت کے آفتاب کو قبر کے مغرب میں چھپا دیا۔

سوالات :

۱ ۔رسولؐ اللہ کی ولادت اور وفات کی تاریخ اور آپ کی عمر بتاؤ ؟

۲ ۔بچپن میں آنحضرت کی پرورش کس کس نے کی ؟

۳ ۔ آپ کی ماں اور آپ کی چچی کے نام کیا تھے ؟

۴ ۔ بعثت اور ہجرت کے وقت آپ کی عمر کیا تھی ؟

۵ ۔ سال غم کون سا سال ہے اور کیوں ؟

۶ ۔ جناب فاطمہ زہراؐ کی شادی کب اور کس سے ہوئی ؟

۷ ۔ حضرت علی علیہ السلام کو کب اور کہاں خلیفہ بنایا گیا ؟

۸ ۔ رسولؐ اللہ کو کس نے دفن کیا ؟

۹ ۔ اب کونسا ہجری ؁ ہے اور رسولؐ کی ہجرت کو کتنا زمانہ ہوا ؟

۲۱

گہارہواں سبق

عصمت

ہم جاہل پیدا ہوتے ہیں اور دنیا کی ہر چیز سے بے خبر ہوتے ہیں پھر دھیرے دھیرے علم حاصل کرتے ہیں۔ جتنا ہمارا علم بڑھتا ہے اسی قدر ہماری جہالت کم ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ہمارا علم کم ہی ہوتا ہے۔ ہم میں سے بڑے سے بڑا عالم بھی کم علم ہی ہوتا ہے۔ ہم جاننے کے باوجود بھول جاتے ہیں اور بھولے سے غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم جان بوجھ کر بھی غلطیاں اور گناہ کرتے ہیں۔ اللہ نے ان کمزوروں سے بچانے کے لئے اور ہماری ہدایت کے لئے نبی اور امام بھیجے۔

نبی اور امام کا ان تمام کمزوریوں سے پاک ہونا ضروری ہے ورنہ ہماری ہدایت نہ کر سکیںگے بلکہ ضرورت ہوگی کہ بھول۔چوک اور غلطی کے موقع پر کوئی ان کی ہدایت کرے۔ نبی اور امام کو معصوم بنانے کے لئے خدا ان کو اپنی ایک مخصوص مہربانی کے ذریعہ ایسا عالم اور پاک نفس بنا دیتا ہے کہ اس کے بعد وہ نہ کبھی کسی غلطی کا ارادہ کرتے ہیں اور نہ اُن سے کوئی گناہ ہو سکتا ہے۔ اس مخصوص مہربانی کا نام عصمت ہے اور خدا جس کو اپنی یہ مخصوص مہربانی عطا کرتا ہے وہ معصوم ہوتا ہے۔

چونکہ عصمت ایک پوشیدہ مہربانی ہے جو خدا اپنے مخصوص بندوں پر فرماتا ہے لہذا خدا کے بتائے بغیر کسی کا معصوم ہونا معلوم نہیں ہو سکتا۔ نبیؐ کریم ، بارہ امامؐ اور جناب فاطمہؐ کے لئے اللہ نے بتایا ہے کہ یہ معصوم ہیں۔ نبی یا امام کو صرف خدا ہی مقرر کر سکتا ہے کیونکہ ان کا معصوم ہونا ضروری ہے اس کی خبر سوا خدا کے کسی کو نہیں ہے لہذا ہر نبی یا امام وہی ہوتا ہے جسے خدا مقرر کرتا ہے اور جس کے معصوم ہونے کی اُس نے خبر دی ہو۔

سوالات :

۱ ۔ امام کی عصمت کا مطلب بتاؤ ؟

۲ ۔ عصمت کیسے معلوم ہوتی ہے ؟

۳ ۔ کیا عصمت کے بعد آدمی مجبور ہو جاتا ہے کہ گناہ نہ کر سکے ؟

۲۲

بارہواں سبق

چودہ معصومؐ

۱ ۔ ہمارے رسولؐ ۔ آپ کے باپ جناب عبدؐ اللہ ۔ دادا جناب عبد المطلبؐ اور ماں جناب آمنہؐ خاتون تھیں۔ آپ مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے اور مدینہ طیبہ میں انتقال فرمایا۔

۲ ۔ جناب فاطمہؐ کے باپ ہمارے رسول حضرت محمد مصطفےٰ اور ماں جناب خدیجہؐ تھیں۔ آپ کی شادی حضرت علیؐ سے ہوئی ۔ مکہ میں پیدا ہوئیں اور مدینہ میں شہادت پائی۔

۳ ۔ حضرت علیؐ کے باپ جناب ابوطالبؐ ۔ دادا جناب عبد المطلبؐ اور ماں جناب فاطمہؐ بنت اسد تھیں۔ آپ خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور مسجد کوفہ میں شہید ہوئے

۴ ۔ امام حسنؐ کے والد حضرت علیؐ اور والدہ فاطمہؐ تھیں۔ مدینہ ہی میں پیدا ہوئے اور مدینہ ہی میں شہید ہوئے۔

۵ ۔ امام حسینؐ کے والد حضرت علیؐ اور والدہ فاطمہؐ تھیں۔ مدینہ میں پیدا ہوئے اور کربلا میں شہید ہوئے۔

۶ ۔ امام زین العابدینؐ کا نام علیؐ تھا ۔ آپ امام حسینؐ کے بڑے فرزند تھے۔ جناب شہر بانو آپ کی ماں تھیں۔ مدینہ ہی میں پیدا ہوئے اور مدینہ ہی میں شہید ہوئے۔

۷ ۔ امام محمد باقر کا نام محمدؐ تھا۔ امام زین العابدینؐ آپ کے والد ماجد تھے اور امام حسنؐ کی بیٹی جناب فاطمہ آپ کی ماں تھیں۔ مدینہ میں پیدا ہوئے اور مدینہ ہی میں شہید ہوئے۔

۸ ۔ امام جعفر صادق ؐ کا نام جعفرؐ ہے باپ امام محمد باقرؐ تھے۔ ماں کا نام ام فروہ ہے۔ مدینہ میں پیدا ہوئے اور وہیں شہید ہوئے۔

۲۳

۹ ۔ امام موسیٰ کاظمؐ کا نام موسیٰ ہے۔ باپ امام جعفر صادقؐ تھے اور ماں کا نام حمیدہ ہے۔ آپ ابواء میں پیدا ہوئے اور بغداد میں شہید ہوئے۔

۱۰ ۔ امام علی رضاؐ کا نام علیؐ ہے۔ آپ امام موسیٰ کاظمؐ کے بیٹے تھے۔ آپ کی ماں کا نام نجمہ تھا۔ مدینہ میں پیدا ہوئے اور خراسان میں شہید ہوئے۔

۱۱ ۔ امام محمد تقیؐ کا نام محمدؐ ہے۔ آپ کے باپ امام علی رضاؐ تھے ۔ ماں کا نام سبیکہ تھا۔ مدینہ میں پیدا ہوئے اور کاظمین میں شہید ہوئے۔

۱۲ ۔ امام علی نقیؐ کا نام علیؐ ہے۔ باپ امام محمد تقیؐ اور ماں سمانہ تھیں۔ آپ مدینہ میں پیدا ہوئے اور سامرہ میں شہید ہوئے۔

۱۳ ۔ امام حسن عسکریؐ کا نام حسنؐ ہے۔ آپ کی ماں کا نام حدیثہ تھا اور باپ امام علی نقیؐ ہیں۔ آپ مدینہ میں پیدا ہوئے اور سامرہ میں شہید ہوئے۔

۱۴ ۔ امام مہدیؐ کا نام محمدؐ ہے۔ آپ امام حسن عسکریؐ کے بیٹے تھے۔ ماں کا نام نرجس خاتون ہے۔ سامرہ میں پیدا ہوئے اور بحکم خدا زندہ ہیں۔ آپ کےالقاب مہدی ۔ امام زمانہ ۔ ولی عصر ۔ حجتہ اللہ ۔ صاحب العصر ۔ صاحب الزمان وغیرہ ہیں۔ آپ کو نام کے بجائے ان القاب سے پکارنا چاہئیے۔

سوالات :

۱ ۔ دسویں امامؐ کہاں پیدا ہوئے اور آپ کی ماں کا نام کیا تھا ؟

۲ ۔ بارہویں امامؐ کو کیسے پکارنا چاہئیے ؟

۳ ۔ چودہ معصومینؐ کے مقام ولادت ، والد اور والدہ کے نام بتاؤ ؟

۲۴

تیرہواں سبق

امامت

امامت بھی نبوت ہی کی طرح اصول دین میں ہے نہ کہ فروع دین میں اس لئے جو خدا بندوں کی ہدایت کے لئے نبی کے بعد نبی بھیجتا رہا ہے اُس خدا کے لئے ضروری ہے کہ نبوت ختم ہونے کے بعد قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کہ ہدایت کا انتظام کرے۔ چنانچہ اس نے خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد بارہ اماموں کو انسانوں کا ہادی اور رہبر مقرر کیا ہے۔ ان بارہ اماموںؐ کی امامت کے خاتمہ پر دنیا ختم ہو جائےگی اور قیامت آجائےگی۔

امامت اصول دین کا مسئلہ ہے اس کو مانے بغیر نہ کوئی شخص با ایمان مر سکتا ہے اور نہ مرنے کے بعد جنت میں جگہ پا سکتا ہے۔ خدا وند عالم فرماتا ہے۔" قیامت کے دن ہم ہر انسان کو اس کے امام کے ساتھ بلائیںگے۔" معلوم ہوا کہ قیامت کے دن انسانوں سے فقط یہ سوال نہیں ہوگا کہ تمہارا خدا کون ہے۔ تمہارا رسول کون ہے تمہاری کتاب کونسی ہے ۔تمہارا قبلہ کیا ہے ۔ تمہارا دین کیا ہے بلکہ سب سے بڑا سوال یہ بھی ہوگا تمہارا امام کون ہے۔ لہذا امام کا جاننا اور ماننا ضروری ہے۔ حضرت رسولؐ کریم نے فرمایا ہے۔ " جو شخص اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مر جائے گا اس کی موت گمراہ اور کافر کی موت ہوگی "۔ معلوم ہوا کہ امام زمانہ کو مانے بغیر کوئی شخص مسلمان کی موت نہیں مر سکتا۔ جب امام کو ماننا اس قدر ضروری ہے تو خدا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اماموں کا انتخاب کرے اور نبی کے ذریعہ ان اماموں کے ناموں کا اعلان کرے۔

۲۵

جب قیامت تک دین خدا اور قرآن کا رہنا ضروری ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ شریعت و کتاب و سنت کے کچھ محافظ بھی قیامت تک رہیں۔ بارہ امام اسی لئے مقرر کئے گئے کہ وہ نبی کے دین کو باقی رکھیں۔

امام۔ نبی کی طرح معصوم ہوتا ہے۔ ہر خطا ، غلطی ، بھول چوک اور سہود نسیان سے پاک ہوتا ہے۔

امام ۔ نبی کی طرح عالم پیدا ہوتا ہے اور وہ زندگی میں کسی چھوٹے سے چھوٹے یا بڑے سے بڑے مسئلہ کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے معلوم نہیں۔

امام ۔ نبی کی طرح معجزہ کی طاقت کا مالک ہوتا ہے۔ نبی اور امام کے معجزہ کا جواب لانا ممکن نہیں ہوتا۔

امام ۔ نبی کی طرح اپنے زمانہ کے تمام انسانوں سے ہر فضل و کمال میں افضل ہوتا ہے۔

امام ۔ نبی کی طرح ہر ذاتی ۔ خاندانی ۔ جسمانی ۔ روحانی ۔ ظاہری اور باطنی عیب سے پاک ہوتا ہے۔

امام ۔ نبی کی طرح کمالات کا مجموعہ ہوتا ہے۔

امام ۔ نبی کی طرح اپنے زمانہ کا سب سے بہادر انسان ہوتا ہے۔

امام ۔ نبی کی طرح دین و دنیا کا مکمل حاکم ہوتا ہے۔

امام ۔ ہاشمی ہوتا ہے اور نبی کے اہلبیتؐ میں سے ہوتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ بتاؤ امام میں کون سی باتیں پائی جاتی ہیں ؟

۲ ۔ امامت اصول دین میں ہے اس کی دلیل میں ایک آیت ، ایک حدیث بیان کرو

۲۶

چودھواں سبق

امام کا ہونا ضروری ہے

امام کے بغیر نہ دنیا باقی رہ سکتی ہے اور نہ انسانوں کو ہدایت مل سکتی ہے۔ اس مسئلہ میں ہم ایک دلچسپ گفتگو سناتے ہیں۔

ہشام بن حکم جو جناب امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی اور شاگرد تھے انھوں نے سنا کہ عمرو بن عبیدہ بصرہ کی جامع مسجد میں لوگوں کے سامنے بڑے بڑے غلط اور جھوٹے دعوے کرتا ہے۔ تو ایک مرتبہ جمعہ کے دن اُس مسجد میں جا پہونچے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ لوگ اُسے گھیرے ہوئے ہیں اور کچھ پوچھ رہے ہیں۔ یہ بھی بھیڑ کو چیرتے ہوئے اس کے قریب جا پہونچے اور دونوں میں یوں باتیں ہونے لگیں۔

ہشام ۔ میں ایک مسافر ہوں اگر اجازت ہو تو میں بھی کچھ پوچھوں۔

عمرو ۔ (بیباکی سے) جو پوچھنا ہو پوچھو۔

ہشام ۔ کیا تمہاری آنکھیں ہیں ؟

عمرو ۔ یہ بھی کوئی سوال ہے۔ کیا اس سے بڑھ کر بیوقوفی کا کوئی سوال ہو سکتا ہے۔

ہشام ۔ مجھے تو یہی پوچھنا ہے آکر بتانے میں تمہارا کیا بگڑتا ہے۔

عمرو ۔ اچھا خفا نہ ہو تمہیں اگر یہی پوچھنا ہے تو میں بھی جواب دیتا ہوں کہ آنکھیں ہیں۔

ہشام ۔ بھلا تم اس سے کیا کام لیتے ہو ؟

۲۷

عمرو ۔ ارے بھائی یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ ظاہر ہے میں اس سے چیزوں کو دیکھتا اور رنگوں کا فرق پہچانتا ہوں۔

ہشام ۔ کیا تمہارے ناک بھی ہے ؟

عمرو ۔ ہے ۔ پھر آپ کا مطلب ؟

ہشام ۔ مطلب کچھ نہیں صرف یہ بتا دیجئیے کہ آپ اس سے کیا کام لیتے ہیں ؟

عمرو ۔ اس سے ہر طرح اچھی بری بو ، معلوم ہوتی ہے اس سے سانس لیتے ہیں۔

ہشام ۔ کیا زبان ہے ؟

عمرو ۔ اچھا بھائی یہ سوال بھی سہی، ہاں زبان بھی ہے۔

ہشام ۔ کیا اس سے کچھ کام لیتے ہو ؟

عمرو ۔ اس سے باتیں کرتا ہوں ۔ مختلف چیزوں کے مزے محسوس کرتا ہوں، میٹھا ، کڑوا نمکین ، پھیکا اسی سے معلوم ہوتا ہے۔

ہشام ۔ کیا تمہارے کان بھی ہیں ؟

عمرو ۔ ہاں بھائی ہیں۔

ہشام ۔ کہا یہ بھی کام آتے ہیں یا یوں ہی ؟

عمرو ۔ کیا خوب ۔ حضرت ان سے اچھی بری ، قریب اور دور کی باتیں سنتا ہوں۔

ہشام ۔ خیر ہوگا ، بھلا یہ تو فرمائے ہاتھ بھی ہیں ؟

عمرو ۔ واہ واہ ہاتھ ہیں نہیں تو کیا ٹنڈا ہوں اپنا مطلب کہئے۔

۲۸

ہشام ۔ ان سے کچھ کام بھی چلتا ہے یا صرف یونہی دیکھنے کے ہیں ؟

عمرو ۔ سبحان اللہ ! ارے بھائی انھیں سے تو سردی اور گرمی ، خشکی ، تری ، نرمی ، سختی، کھرمی اور چیکنی چیزیں معلوم ہوتی ہیں۔

عرض اس طرح ایک ایک عضو کے بارے میں پوچھتے پوچھتے آکر دل کے بارے میں سوال کیا۔

ہشام ۔ کیا تمہارے پاس دل بھی ہے، یا بغیر دل کے پیدا ہوئے ہو ؟

عمرو ۔ ماشاء اللہ جب دل ہی نہ ہو تو پھر کیونکر کام ہو۔ دل ہی سارے کاموں کا ذمہ دار ہے۔

ہشام ۔ کیا اس سے بھی کچھ کام نکلتا ہے ؟

عمرو ۔ کیا کہنا ۔ ارے بھائی یہ تو سارے بادشاہ ہے اور یہی بدن کی ساری سلطنت کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

ہشام ۔ کیا اور اعضاء سب اس کے محتاج اور تابع فرمان ہیں ؟

عمرو ۔ ہاں بغیر اس کے تو کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا۔

ہشام ۔ جب یہ اعضاء صحیح و سالم ہیں تو دل کے محتاج کیوں ہیں ؟

عمرو ۔ میاں صاحبزادے جب یہ اعضاء کسی بات میں شک کرتے ہیں تو دل ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دل جو حکم کرتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں۔

ہشام ۔ کیا انسان کے بدن میں دل کا ہونا ضروری ہے کہ بغیر اس کے اعضاء کو کسی چیز کا یقین حاصل ہی نہیں ہو سکتا۔

۲۹

عمرو ۔ ہاں ہاں ضرور ، بغیر اس کے کچھ نہیں ہو سکتا ۔

ہشام ۔ اے عمرو ! جب خدا نے جسم کے چند اعضاء کو بغیر رہنما اور حاکم کے نہیں چھوڑا ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ ساری دنیا کے انسانوں کو بغیر امم چھوڑ دے اور اُن کی ہدایت کا انتظام نہ کرے۔

یہ سن کر عمرو کے ہوش اڑ گئے اور گبھرا کر کہنے لگا۔

عمرو ۔ میاں کیا تم ہشام ہو ؟

ہشام ۔ نام سے کیا مطلب ؟

عمرو ۔ تم کہاں کے رہنے والے ہو ؟

ہشام ۔ کوفہ کا باشندہ ہوں۔

عمرو ۔ "تب تو تم ضرور ہشام ہی ہو ۔" یہ کہہ کر جلدی سے اٹھا اور ہشام کو گلے لگا لیا اور مسند پر جگہ دی اور اپنے پہلوں میں بٹھایا اور جب تک ہشام وہاں بیٹھے رہے ڈر کے مارے دم نہ مارا اور کوئی بات نہ کی۔

اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ ہر زمانہ میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ ہشام کون تھے ؟ کس کے صحابی تھے ؟

۲ ۔ انھوں نے عمرو بن عبیدہ بصری کو کیوں کر لاجواب کیا ؟

۳ ۔ ہشام کو یہ علم کس سے ملا تھا ؟

۴ ۔ ہشام کو عمرو کیسے پہچان گیا ؟

۳۰

پندرہواں سبق

دنیا کا آخری انجام

جس طرح پہلے یہ دنیا نہ تھی اور بعد میں پیدا ہو گئی اسی طرح ایک دن ایسا بھی آئےگا جب یہ دنیا رہےگی اور قیامت آ جائےگی۔ قیامت اس طرح آئیگی کہ خدا کے حکم سے حضرت اسرافیل ایک صور لےکر زمین پر آئیںگے صور کے اوپر کے سرے میں دو گوشے ہوںگے ایک گوشہ کا رخ آسمان کی طرف ہوگا اور دوسرے کا رخ زمین کی طرف ہوگا پہلے زمین کی طرف والے گوشہ میں صور پھونکیںگے، اس وقت زمین والے سے سب آسمان والے مر جائیںگے اور سوائے حضرت اسرافیل کے کوئی زندہ نہ رہےگا۔ پھر حضرت اسرافیل بھی حکم خدا سے مر جائیںگے اور خدائے عزیز کے علاوہ اور کوئی باقی نہ رہ جائےگا۔ اس کے بعد جب خدا کی مرضی ہوگی تو پہلے آسمان والوں کو اور پھر زمین والوں کو زندہ کیا جائگا اور سب کا حساب و کتاب ہوگا اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق لوگ جنت یا جہنم میں جائیںگے۔

قیامت کی علامتیں :

قیامت آنے سے پہلے کچھ باتیں ظاہر ہونگی جن سے پتہ چل جائےگا کہ قیامت آنے والی ہے۔

۱ ۔ یاجوج ماجوج :۔ یہ بڑی تباہی مچاتے تھے اور خونریزی کیا کرتے تھے۔ سکندر ذوالقرنین نے ایک دیوار بنا دی تھی جس کی وجہ سے یاجوج ماجوج کی مصیبتوں سے دنیا نجات پا گئی تھی۔ جب قیامت قریب ہوگی تو یہ دیوار گر جائےگی اور یاجوج ماجوج نکل آئیںگے اور بڑی تباہی پھیلائیںگے۔

۲ ۔ قیامت آتے وقت سورج پچھم سے نکلےگا۔

۳ ۔ قیامت آنے سے پہلے ساری دنیا میں دھواں پھیل جائےگا۔

سوالات :

۱ ۔قیامت کب آئےگی ؟

۲ ۔ حضرت اسرافیل کون ہیں ؟

۳ ۔ قیامت سے پہلے کو ن سے واقعات ہوںگے ؟

۳۱

فروع دین

سولہواں سبق

نماز

ہمارا فریضہ :۔

اللہ نے ہمیں زندگی دی۔ وہی ہمیں رزق دیتا ہے۔ اُسی نے ہمیں ماں باپ ،بھائی بہن دئے۔ وہی ہمیں علم اور ترقی دینے والا ہے۔ وہی ہمیں دولت اور عزت دیتا ہے۔ وہی ہمارے مال میں برکت دیتا ہے۔ غرض ہمیں جو کچھ ملتا ہے اُسی سے ملتا ہے۔

اللہ ہمارے ماں باپ سے زیادہ ہم سے محبت کرنے والا ہے۔ ہمیں بھی اُس محبت کرنے والے اللہ سے محبت کرنا چاہئے۔ اللہ کی محبت کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ کو ہمیشہ خوش رکھیں۔ اللہ کو خوش رکھنے کا نام عبادت ہے۔ عبادت کرنا ہمارا فریضہ ہے۔

نماز :۔ سب سے بڑی عبادت نماز ہے۔ اس میں دین اور دنیا کے بہت فائدے ہیں۔

نماز پڑھنے سے ہم میں وقت کی پابندی کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ نماز پڑھنے والے کا جسم صاف رہتا ہے اور دل پاک رہتا ہے۔

نماز سے علم ، ایمان اور دولت میں اللہ برکت دیتا ہے۔

نماز پڑھنے والے کو ہر شخص عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

۳۲

نماز پڑھنے والے سے اللہ بھی خوش ، رسولؐ بھی خوش ، ائمہ بھی خوش ایمان والے بھی خوش رہتے ہیں۔

نماز سے انسانی روح میں بلندی پیدا ہوتی ہے۔

نماز ہمیں بری باتوں سے روکتی ہے۔

نماز آخرت میں نجات کا سرمایہ ہے۔ جس کی نماز قبول اس کا ہر نیک عمل قبول۔ جس کی نماز قبول نہیں اس کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا۔

نماز سے بلائیں دور ہوتی ہیں ، آدمی کے مشکلات ختم ہو جاتے ہیں۔

نماز کو جو شخص ترک کرے وہ فاسق ہے۔ اُسے اللہ کے دربار سے سخت سزا ملےگی۔

نماز کو جو شخص حقیر اور بےکار سمجھے وہ کافر ہے۔ جس نے نماز کا انکار کیا اس نے گویا خدا کا انکار کیا۔ اور جس نے خدا کا انکار کیا وہ مسلمان نہیں۔

نماز پڑھنے والا اللہ سے ڈرتا ہے اس لئے وہ بڑے کاموں سے دور رہتا ہے۔

نماز پڑھنے والا اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ نماز سے اللہ کی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔

نماز ، جماعت کے ساتھ پڑھنے سے آپس میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہوتا ہے۔

نماز کا ایک قاعدہ مقرر ہے اور سب اسی طریقہ پر نماز ادا کرتے ہیں اس میں کوئی تبدیلی یا بے ترتیبی نہیں ہو سکتی۔ زندگی کے دوسرے کاموں میں بھی اگر یہی سلیقہ اور ترتیب برتی جائے تو ہر کام میں کامیابی یقینی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ عبادت کس چیز کا نام ہے ؟ اور سب سے بڑی عبادت کیا ہے ؟

۲ ۔ نماز کو بےکار سمجھنے والے کو کیا کہیںگے ؟

۳ ۔ نماز جماعت سے کیا فائدہ ہے ؟

۴ ۔ نماز کے کوئی تین فائدے بیان کرو ؟

۳۳

ستررہواں سبق

معصومینؐ کی نمازیں

نبی کی نماز :۔

ہمارے نبیؐ ساری رات نماز میں کھڑے رہتے تھے۔ آپ کے پاؤں پر ورم آ جاتا تھا۔ آخر اللہ کو کہنا پڑا ۔" اے کملی اوڑھنے والے جیب ، رات کو ذرا آرام بھی کیا کرو ۔"

پہلے امامؐ کی نماز :۔

ہمارے پہلے امام حضرت علی علیہ السلام دین و دنیا کے بادشاہ تھے۔ ایک مرتبہ آپ لڑائی کے لئے گئے۔بڑے گھمسان کارن پڑ رہا تھا، دشمن آپ کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھا اور یہ چاہتے تھے کہ آپ کو قتل کر ڈالیں۔ اتنے میں نماز کا وقت آ گیا۔ آپ نے یہ بھی نہیں سوچا کہ دشمن آپ کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں بس فوراً گھوڑے سے اُترے اور نماز شروع کر دی۔

جب نماز پڑھ چکے تو ایک صحابی نے آپ سے پوچھا " یا علیؐ !بھلا اس لڑائی کی حالت میں نماز پڑھنے کا کیا موقع تھا ؟"

آپ نے جواب دیا ۔" ہم اسی نماز کو قائم کرنے کے لئے جنگ کر رہے ہیں"

تیسرے امامؐ کی نماز :۔

ہمارے تیسرے امام حضرت امام حسین علیہ السلام کو ہزاروں دشمنوں نے کربلا میں گھیر لیا تھا اور آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ محرم کی دس تاریخ کو جب ظہر کا وقت آ گیا تو آپ نے اپنے دو ساتھیوں کو سامنے کھڑا کیا تاکہ وہ دشمنوں کے ہر وار کو اپنے اوپر روکیں اور خود نماز میں مشغول ہو گئے۔ آپ کو نہ ہزاروں دشمنوں کا خوف ہوا اور نہ برستے تیروں کا ڈر ، نہ موت کی فکر اور نہ زخمی ہونے کا خیال۔ آپ نے تیروں کی بوچھاڑ میں نماز پوری کی۔ دشمنوں نے عصر کے وقت آپ کو شہید کیا تو آپ کاسر سجدہ میں تھا۔ آپ نے سجدہ میں سر کٹا کے ہمیں بتایا کہ جان جا سکتی ہے مگر بندگی نہیں جا سکتی۔

۳۴

چوتھے امامؐ کی نماز :۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ہمارے چوتھے امام ہیں۔ آپ دن رات اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ اللہ کا ایسا ڈر طاری ہوتا کہ لوگ یہ سمجھتے کہ امام کا انتقال ہو گیا۔

ایک مرتبہ آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ شیطان نے سوچا کہ آپ کو آزمائے۔ چناچہ شیطان سانپ بن کر آپ کے مصلے پر آیا اور آپ کے انگوٹھے میں کاٹنا شروع کر دیا۔ آپ نماز میں اتنے محو ہو گئے تھے کہ سانپ انگوٹھا چباتا رہا اور آپ کو خبر بھی نہیں ہوئی۔ اس پر شیطان کو بہت تعجب ہوا۔ نماز ختم ہونے کے بعد ایک غیبی آواز آئی "بےشک آپ زین العابدینؐ ہیں "۔ یہی آپ کا مشہور لقب ہے۔

نماز کی شان :۔

نماز میں بس اللہ کو یاد کرنا چاہئے۔ ادھر اُدھر کا کوئی خیال دل میں نہیں آنے دینا چاہئے۔ اگر کوئی فکر ہے تو نماز کے بعد دعا کرنا چاہئے۔ وہ اسے دور کر دےگا۔ نماز میں بس اللہ کا دھیان رکھنا نماز کی شان ہے۔ دوسری باتیں سوچنے کے لئے ہمارے پاس دوسرا وقت موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سچےمسلمان نماز میں صرف اللہ سے لو لگاتے ہیں۔ کوئی دوسرا خیال دل میں نہیں آنے دیتے۔

۳۵

ایک لڑائی میں حضرت علی علیہ السلام کے پیر میں تیر لگ گیا تھا جس کے نکالتے وقت آپ درد سے بے چین ہو جاتے تھے۔ حضرت رسولؐ خدا نے فرمایا کہ جب علیؐ نماز پڑھیں تب تیر نکال لینا۔ چناچہ نماز کے دوران تیر نکال لیا گیا اور آپ کو خبر نہ ہوئی۔

اگر ہم اپنے اماموں کے سچے ماننے والے ہیں تو ہم کو نماز کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے اور نہ نماز کے دوران ہمارے دل میں اللہ کے سوا کوئی اور خیال آنا چاہئے۔

سوالات :

۱ ۔ عبادت کے معنی بیان کرو ؟

۲ ۔ نماز کے تین فائدے بیان کرو ؟

۳ ۔ کسی امامؐ کی نماز کا کوئی واقعہ بیان کرو ؟

۴ ۔ نماز کی شان کیا ہونا چاہئے ؟

۳۶

اٹھارہواں سبق

واجب نمازیں

امام عصر علیہ السلام کی غیبت کے زمانی میں چھ قسم کی نمازیں واجب ہیں۔

۱ ۔ نماز پنچگانہ ۔ یعنی صبح ، ظہر ، عصر ، مغرب ، عشا۔

۲ ۔ نماز آیات ۔ یعنی چاند گہن ، سورج گہن اور زلزلہ وغیرہ کے وقت کی نماز۔

۳ ۔ نماز میت

۴ ۔ نماز طواف واجب

۵ ۔ نماز قضائے والد

۶ ۔ نماز اجارہ و نذر و عہد وغیرہ

نماز جمعہ کا شمار نماز پنچگانہ میں ہوتا ہے۔ یہ جمعہ کے دن ظہر کے بدلے واجب تخیری ہے۔ لیکن شرائط کے ساتھ قیام کی صورت میں شرکت بنا پر احتیاط واجب ہے۔

۳۷

شرائط نماز

نماز سے پہلے چھ چیزیں واجب ہیں۔

۱ ۔ ازالہ نجاست : نجاست دور کرنا۔ پاک کپڑے پہننا۔

۲ ۔ طہارت : یعنی وضو یا غسل یا تیمم کرنا۔

۳ ۔ ستر : یعنی مرد اپنی اگلی پچھلی شرمگاہ چھپائے اور عورت پورے جسم کو چھپائے چاہے کوئی دیکھتا ہو یا نہ دیکھتا ہو۔ صرف چہرے ، گٹے تک ہاتھ اور گٹے تک پیروں کے ظاہری حصے کو کھلا رکھنا جائز ہے۔

۴ ۔ وقت : یعنی ہر نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔

۵ ۔ اباحت مکان : یعنی نماز کی جگہ جائز ہو غصبی نہ ہو۔

۶ ۔ استقبال قبلہ : یعنی قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھے۔

مردوں کو ریشمی یا سونا ملا ہوا کپڑا پہن کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔

سوالات :

۱ ۔ زمانہ غیبت میں کتنی نمازیں واجب ہیں ؟

۲ ۔ نماز سے پہلے جو چیزیں واجب ہیں وہ بیان کرو ؟

۳۸

انیسواں سبق

قبلہ

قبلہ وہ جگہ ہے جہاں کعبہ واقع ہے۔ خانہ کعبہ کے آس پاس کے رہنے والے جو بآسانی قبلہ کو معلوم کر سکتے ہیں ان پر واجب ہے کہ کعبہ کے مقابل کھڑے ہو کر نماز پڑھیں۔

اور کعبہ سے دور ہیں ان کو کعبہ کی سمت رخ کر کے نماز پڑھنا چاہئے۔

قبلہ کے معلوم کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں مثلا یہ دیکھیں کہ اس جگہ کے مسلمانوں کی مسجدیں کس رُخ پر بنی ہوئی ہیں یا مسجد نہ ہو تو یہ پتہ چلائیں کہ اس جگہ کے مسلمان کس سمت منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں یا مسلمانوں کی قبروں کو دیکھیں کہ وہ کس رُخ پر بنی ہوئی ہیں یا تمام وہ ذرائع جن سے سمت قبلہ کا گمان حاصل ہو سکتا ہو جیسے قطب نمایا مقامی باشندہ کا خبر دینا جس کے کہنے سے گمان پیدا ہو جائے۔

جب قبلہ کی تعین کا یقین یا گمان کسی طرح بھی ممکن نہ ہو تو قبلہ کا استقبال واجب نہیں ہے اور کسی ایک طرف نماز پڑھ لینا کافی ہے۔ اگر چہ بہتر یہی ہے کہ نماز کو چاروں طرف پڑھے۔

سوالات :

۱ ۔ قبلہ کیا ہے ؟

۲ ۔ کعبہ سے قریب والے کا کیا حکم ہے ؟

۳ ۔ خانہ کعبہ سے دور رہنے والے کا کیا حکم ہے ؟

۴ ۔ جب قبلہ نہ معلوم ہو تو کیا کرنا چاہئے

۳۹

بیسواں سبق

لباس

نماز کی حالت میں مردوں کے لئے اپنے آگے پیچھے کا چھپانا واجب ہے اور عورتوں کے لئے پورے جسم کا چھپانا واجب ہے یہاں تک کہ بال بھی چھپے رہیں صرف اتنا چہرا کھلا رہ سکتا ہے جو وضو میں دھویا جاتا ہے اور گٹے تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پیر کھلے رہ سکتے ہیں بشرطیکہ کوئی دیکھنے والا نہ ہو۔ لباس کے بارے میں چند شرطوں کا لحاظ ضروری ہے۔

۱ ۔ کپڑا جسم کو چھپا سکتا ہو۔ لہذا ہلکے نائلون یا ہلکے ململ وغیرہ کے کپڑے پہن کر عورتوں کے لئے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے جب تک کہ الگ سے چادر وغیرہ نہ اوڑھیں چاہے دیکھنے والا موجود نہ ہو۔

۲ ۔ کپڑا پاک ہو۔ نجس کپڑے میں نماز جائز نہیں ہے ہاں اگر پاک کرنے کا امکان نہ ہو اور وقت تنگ ہو تو اسی کپڑے میں نماز پڑھ سکتا ہے۔

۳ ۔ مباح ہو ۔ یعنی لباس اپنی ملکیت ہو یا مالک کی اجازت ہو۔ اگر بغیر خمس و زکوۃ دئیے ہوئے کسی رقم سے کپڑا خریدا گیا ہو یا کسی ایسے شخص کے ترکہ سے جس پر خمس و زکوٰۃ واجب تھا کوئی کپڑا خریدا گیا ہے تو اس میں نماز باطل ہے۔

۴ ۔مردار کی کھال کا نہ ہو۔ مردار سے بچنے کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ مسلمان سے خریدا گیا ہو۔ غیر مسلم سے خریدے ہوئے چمڑے میں نماز صحیح نہیں ہے جب تک کہ اس کے صحیح ذبح ہونے کا علم نہ ہو۔

۵ ۔ حرام گوشت جانور کا کوئی جز نہ ہو اس لئے کہ اس کے معمولی جز کہ شرکت سے بھی نماز باطل ہو جاتی ہے اسی لئے یہ کہا گیا ہے کہ نماز میں کپڑے پر کتے یا بلی کا ایک بال بھی پڑ جائے تو نماز باطل ہو جائےگی۔

۴۰

۶ ۔مردوں کے لئے خالص ریشم کے کپڑے کا استعمال حرام ہے خواہ نماز میں ہو یا غیر نماز میں۔ ہاں اگر اس میں اتنا سوت وغیرہ ملا دیا جائے کہ وہ ریشمی نہ کہلائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۷ ۔ سونے کے توروں سے بنے ہوئے کپڑوں کا ستعمال مردوں کے لئے حرام ہے اسی طرح مردوں کے لئے سونے سے زینت اور آرائش بھی ناجائز ہے۔ جیسے سونے کی انگوٹھی ، چین ، چشمہ کا فریم ، گھڑی ، بٹن وغیرہ ۔ عورتوں کے لئے یہ تمام باتیں جائز ہیں۔

مردوں کے لئے سونے کا استعمال نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں حرام ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ سونے میں خالص کی قید نہیں بلکہ اگر مخلوط بھی ہے تو بھی ناجائز ہے۔ جب تک کہ اس میں تانبا یا کوئی دوسری دھات اتنی نہ ملا دی جائے کہ اسے سونا نہ کہہ سکیں۔

سوالات :

۱ ۔ نماز میں مرد اور عورت کو کتنا جسم چھپانا واجب ہے ؟

۲ ۔ نماز کے لباس کی تین شرطیں بیان کرو ؟

۳ ۔ نائلون کے کپڑے میں نماز کب ناجائز ہے ؟

۴۱

اکیسواں سبق

مکان

مکان سے مراد وہ جگہ ہے جہاں کھڑے ہو کر انسان نماز ادا کرتا ہے اس جگہ کے لئے پاک ہونے کی کوئی قید نہیں ہے بلکہ نجس بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جگہ کی تری بدن اور کپڑے تک نہ پہونچ جائے مگر سجدہ کی جگہ کا پاک ہونا بہرحال ضروری ہے۔

مکان نماز میں حسب ذیل شرائط ضروری ہیں :

۱ ۔ مباح و جائز ہو ۔ دوسرے کی زمین پر یا مشتر کہ اراض میں بغیر مالک و شریک کی اجازت کے نماز باطل ہے۔ عام موقوفات یعنی مسجد وغیرہ میں جو پہلے جگہ لے لے اُسے اُس کی جگہ سے ہٹایا نہیں جا سکتا ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جائےگی۔ اجازت کے صریح بیان کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مالک کے راضی رہنے کا یقین ہونا کافی ہے۔

۲ ۔ نماز میں معصوم کی قبر کے آگے نہ ہونا چاہئے بلکہ پیچھے پڑھے یا زیادہ سے زیادہ برابر کھڑا ہو آگے ہونا خلاف ادب ہے ہاں اگر کافی ٖاصلہ ہو جائے یا درمیان میں کوئی چیز جائل ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

۳ ۔ نماز کی جگہ کو ساکن اور ٹھرا ہوا ہونا چاہئے۔ چلتی ہوئی گاڑی پر اس وقت تک نماز جائز ہے جبکہ آخر وقت تک اُتر کر یا رُکی ہوئی گاڑی میں نماز پڑھنا ممکن رہے۔

۴۲

یوں تو نماز کے لئے کوئی جگہ معین نہیں ہے لیکن مسجد کو دیگر مقامات پر فوقیت و فضیلت حاصل ہے چاہے وہاں نماز جماعت ہو یا نہ ہو۔ جماعت کا ہونا مزید ثواب و برکت کا باعث ہے۔

مسجد کی عظمت یہ ہے کہ عام مسجدوں میں ایک نماز پچیس نمازوں کے برابر ہے اور جامع مسجد میں سو نمازوں کے برابر ہے۔ مسجد کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ مسجد کے پڑوسی کی نماز بغیر مسجد میں پڑھے مقبول نہیں ہو سکتی سوا اس کے کہ کوئی مجبوری ہو اور دوسری روایت یہ ہے کہ مسجد روز قیامت ان نمازوں سے فریاد کرےگی جو نماز پڑھتے تھے لیکن مسجد میں نہیں آتے تھے۔

سوالات :

۱ ۔ کیا نجس جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں ؟

۲ ۔ ریل پر نماز کیونکر پڑھی جائےگی ؟

۳ ۔ معصوم کی قبر کے آگے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟

۴ ۔ گھر کی نماز اور عام مسجد کی نما میں کیا فرق ہے ؟ عام مسجد اور جامع مسجد کی نماز میں کیا فرق ہے ؟

۵ ۔ جامع مسجد مین ایک نماز کا ثواب کیا ہے ؟

۶ ۔ چلتی ہوئی گاڑی میں نماز جائز ہے یا نہیں ؟

۴۳

بائیسواں سبق

اذان و اقامت

اذان و اقامت صرف پنچگانہ نمازوں کے لئے مستحب ہے اور انتہائی تاکید کے ساتھ مستحب ہے۔ باقی نمازوں میں اذان و اقامت ناجائز ہے چاہے وہ واجب ہوں یا غیر واجب۔ اذان اور اقامت میں حسب ذیل امور کا لحاظ ضروری ہے :

۱ ۔ نیت ۔ یعنی دونوں کو قربت کی نیت سے انجام سے اس لئے کہ کسی عبادت میں بغیر قصد قربت کے ثواب نہیں مل سکتا۔

۲ ۔ عقل ۔ دیوانے کی اذان و اقامت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

۳ ۔ بلوغ ، نابالغ کی اذان و اقامت ناکافی ہے۔

۴ ۔ ذکوریت ، عورت کی اذان و اقامت مرد کے لئے نا کافی ہے البتہ عورت کا اذان و اقامت کہنا عورتوں کے لئے کافی ہے۔

۵ ۔ ترتیب ۔ پہلے اذان اس کے بعد اقامت کہنا چاہئے۔

۶ ۔ موالات ۔ اذان کے بعد جلد ہی اقامت اور اقامت کے بعد فوراً نماز پڑھے۔ سلسلہ کے ٹوٹ جانے سے اذان و اقامت بیکار ہو جاتی ہے۔

۷ ۔ عربی ۔ اُردو میں یا غلط عربی میں اذان و اقامت درست نہیں ہے۔

۴۴

۸ ۔ وقت ۔

نماز کے وقت سے پہلے اس کا ادا کرنا غلط ہے البتہ قضا نماز پڑھی جا سکتی ہے اس لئے اس کا وقت ہر وقت رہتا ہے۔ اذان کے لئے طہارت ۔ قیام ۔ استقبال قبلہ مسجد ہے لیکن اقامت میں طہارت و قیام ضروری ہے۔ یہ رسم کہ اقامت کہتے کہتے قدقامت الصلوٰۃ پر کھڑے ہو گئے فرادی نماز میں بالکل نامناسب ہے اس طرح اقامت کا ثواب نہیں مل سکتا۔ اذان و اقامت دونوں میں ذکر رسولؐ اکرم کے بعد ذکر امیرالمومنین علیؐ ابن ابی طالبؐ ہونا چاہئے جو اذان کا جز نہیں ہے۔ لیکن حکم پیغمرؐ کی بنا پر مسحب ہے۔

اگر کوئی شخص اذان و اقامت دونوں بھول جائے اور نماز شروع کر دے تو اس کے لئے جائز ہے کہ رکوع میں پہونچنے سے پہلے نماز کو توڑ دے اور اذان و اقامت کہہ کر پھر نماز شروع کرے لیکن اگر صورف اقامت بھول گیا ہے تو الحمد شروع کرنے کے بعد نماز نہیں توڑ سکتا البتہ اس سے پہلے توڑ سکتا ہے۔ تنہا اذان کے بھول جانے سے نماز نہیں توڑی جا سکتی۔ اسی طرح کسی ایک کے بھی قصداً چھوڑ دینے پر نماز کا قطع کرنا حرام ہے۔

سوالات :

۱ ۔ نابالغ کی اذان و اقامت کیا کافی ہے ؟

۲ ۔ اقامت و نماز کے درمیان وقت کا فاصلہ کیا ہے ؟

۳ ۔ اگر نمازی اذان و اقامت بھول کر نماز شروع کر دے تو کیا حکم ہے ؟

۴ ۔ اقامت کی کوئی تین شرطیں بتاؤ ؟

۵ ۔ اذان اور اقامت میں جن باتوں کا لحاظ ضروری ہے وہ کتنی ہیں ؟

۴۵

تئیسواں سبق

واجبات نماز

نماز میں گیارہ چیزیں واجب ہیں اور انھیں کے مجموعہ کا نام نماز ہے۔

نیت : تکبیرۃ الاحرام ۔ قیام ۔ قرائت ۔ ذکر ۔ رکوع ۔ سجود ۔ تشہد ۔ سلام ۔ ترتیب ۔ موالات ۔ ان میں سے پانچ واجب کن ہیں یعنی ان کی کمی زیادتی بھولے سے بھی نماز کو باطل کر دیتی ہے۔ نیت تکبیرۃ الاحرام۔ قیام ۔ رکوع ۔ دونوں سجدے باقی سب غیر رکن ہیں یعنی ان کو قصداً چھوڑ دینے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ لیکن بھولے سے باطل نہیں ہوتی بلکہ ان کی قضا کرنا پڑتی ہے۔

نیت :

نیت رکن ہے اس کو ہمیشہ دل میں ہونا چاہئے زبان سے ادا کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ نماز احتیاط میں تو زبان سے ادا کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔

تکبیرۃ الاحرام ۔

نیت کے بعد اللہ اکبر کہنا رکن نماز ہے اور پوری نماز میں یہی ایک تکبیر واجب ہے اس کے علاوہ تمام تکبیریں سنت ہیں۔

قیام۔

انسان اپنے مکان بھر کھڑے ہوکر نماز پڑھے رونہ بیٹھ کر پڑھے اور اگ بیمار یا کمزور ہے تو جتنی دیر کھڑا رہ سکے ٹھرا رہے پھر اگر طاقت آ جائے تو پھر کھڑا ہو جائے اور جو بیٹھ بھی نہ سکے وہ لیٹ جائے داہنے یا بائیں کروٹ یا چت۔ بشرطیکہ قبلہ کی طرف اس کا چہرہ رہے۔ قیام ۔ الحمد اور سورہ ، پڑھتے وقت واجب ہے لیکن تکبیر کے وقت رکن ہے اور سورہ ، پڑھتے وقت واجب ہے لیکن تکبیر کے وقت رکن ہے اور اسی طرح رکوع سے پہلے بھی رکن ہے یعنی رکوع میں قیام سے جانا چاہئے یہی قیام متصل برکوع ہے۔ اس قیام کے رکن ہونے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر انسان حمد و سورہ کے بعد بھولے سے سجدہ کے لئے جھک گیا اور سجدہ کرنے سے پہلے یاد آیا کہ رکوع نہیں کیا ہے تو اب وہیں سے رکوع میں نہیں جا سکتا ورنہ نماز باطل ہو جائےگی بلکہ اسے چاہئے کہ سیدھے کھڑا ہو اور اس کے بعد رکوع میں جائے۔

۴۶

قرات ۔ تکبیر کے بعد پہلی دو رکعت میں الحمد اور اس کے بعد کوئی ایک سورہ پڑھنا واجب ہے۔ البتہ واجب سجدہوں والے سورے نہ پڑھے اور اتنے لمبے سورے نہ پڑھے کہ نماز کا وقت نکل جائے۔ جماعت کی حالت میں یہی دو سورے ماموم نہیں پڑھتا ہے ورنہ باقی نماز ماموم خود ادا کرےگا۔ آخری دو رکعتوں میں انسان کو اختیار ہے چاہے سورہ حمد پڑھے یا ایک مرتبہسُبحَانَ اللهِ وَ الحَمدُ لِلهِ وَ لاَ اِلٰهَ اِلاَّ للهُ وَ اللهُ اَکبَر پڑھے۔ تین مرتبہ پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔

رکوع ۔ نماز کا ایک اہم رکن ہے اگر اتفاقاً کبھی رہ جائے یا ایک سے دو ہو جائے تو نماز باطل ہے۔ رکوع میں اتنا جھکنا چاہئے کہ ہتھیلی گٹھنے تک پہونچ سکے۔ گٹھنے پر ہتھیلی کا رکھنا واجب نہیں ہے۔ رکوع میں ایک مرتبہ سبحان ربی العظیم و بحمدہ یا تین مرتبہ سبحان اللہ کہنا ضروری ہے۔ اس کے بعد ان کلمات کو بار بار دھرانا افضل و مستحب ہے۔ رکوع ختم کرنے کے بعد سیدھے کھڑا ہو کر سجدہ میں جائے اس لئے کہ یہ قیام بھی واجب ہے۔ کھڑے ہونے کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ ۔ اللہ اکبر کہنا مستحب ہے۔

سجدہ ۔

یہ بھی نماز کا ایک رکن ہے لیکن دونوں ملاکر جس کا مطلب یہ ہے کہ دو کے چار ہو جائیں یا اتفاق سے کسی رکعت میں ایک بھی نہ ہو سکے تو نماز باطل ہو جائےگی۔ سجدہ میں سات اعضا ، کا زمین پر ٹکنا ضروری ہے۔ پیشانی ۔ دونوں ہتھیلیاں ۔ دونوں گٹھنے ۔ دونوں پیر کے انگوٹھے سجدہ کا ذکرسبحان ربی الا علیٰ و بحمده یا تین مرتبہسبحان الله ہے۔ سجدہ مٹی پر ہوگا یا جو چیزیں زمین سے اُگی ہوں ان پر ہوگا بشرطیکہ وہ کھانے اور پہننے میں کام نہ آتی ہوں۔ خاک کربلا پر سجدہ کرنے کا زیادہ ثواب ہے۔ اس لئے کہ یہ خاک اسلامی قربانیوں کو یاد دلانے والی اور مسلمانوں میں جوش عقیدت کو ابھارنے والی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سجدہ کا جو ازارسی خاک پاک میں منحصر نہیں ہے بلکہ ہر پاک مٹی ، لکڑی ، پتے پر اپنے شرائط کے ساتھ سجدہ کیا جا سکتا ہے۔

۴۷

تشہد ۔

دوسری رکعت اور آخری رکعت میں دونوں سجدوں کے نعد تشہد واجب ہے جس کی صورت یہ ہےاَشهَدُ اَن لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحدَهُ لَا شَرِیکَ لَهُ وَ اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبدُهُ وَ رَسُولَهُ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ ٰالِ مُحَمَّد ! اگر کوئی شخص تشہد بھول جائے اور بھول کر کھڑا ہو جائے تو فوراً بیٹھ کر تشہد پڑھے اور نماز کے بعد دو سجدہ سہو کرے۔

سلام ۔

نماز کے خاتمہ پر ایک سلام واجب ہے چاہےاِلسِّلاِمُ عَلَینَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِینُ "یا "اَلسَّلاَم عَلَیکُم وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکاتُهُ بہر حال مستحب ہے۔ سلام نماز کا جز ہے۔

ترتیب ۔

نماز کو اپنی صحیح ترتیب کے ساتھ پڑھنا چاہئے مثلا نیت کر کے تکبیر کہے پھر سورہ حمد پڑھے دوسرا سورہ پڑھے پھر رکوع میں جائے۔ رکوع سے اُٹھ کر سجدہ میں جائے۔ ایک سجدہ سے اُٹھ کر پھر دوسرا سجدہ کریں پھر اسی طرح دوسری رکعت پڑھے۔ اگر دو ہی رکعت پڑھنا ہے تو سجدہ کے بعد تشہد و سلام پڑھ کر ختم کر دے ورنہ باقہ نماز اسی ترتیب سے ادا کرے۔

موالات ۔

نماز کے تمام اگعال کو پے در پے ہونا چاہئے۔ درمیان میں اتنا فاصلہ یا ایسی خاموشی نہ ہو جائے کہ صورت نماز ہی ختم ہو جائے۔

قنوت ۔

یہ دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے مستحب ہے اس میں ایک صلوات کا پڑھنا بھی کافی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ ارکان نماز کتنے ہیں اور ان کا کیا حکم ہے ؟

۲ ۔ کون سا قیام رکن ہے اور قیام متصل برکوع کا کیا مطلب ہے ؟

۳ ۔ واجب نماز کتنے ہیں ؟

۴ ۔موالات کسے کہتے ہیں ؟

۴۸

چوبیسواں سبق

مبطلات نماز

نو چیزیں ایسی ہیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اس کا دوبارہ ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔

۱ ۔ کسی ایسے حدث کا صادر ہو جانا جس سے وضو باطل ہو جاتا ہے یا غسل واجب ہو جاتا ہے اسلئے کہ ان چیزوں سے طہارت ختم ہو جاتی ہے اور طہارت کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی۔

۲ ۔ پورے بدن کا قبلہ سے منحرف ہو جانا یا تنہا چہرا کا اس قدر مڑ جانا جس سے پس پشت تک کی چیزیں دیکھ سکے، رہ گیا داہنے بائیں تھوڑا سا انحراف و التفات ہوتو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔

۳ ۔ حالت نماز میں ایسے کام انجام دینا جو جائز ہیں یا جن کے کرنے سے نماز کی صورت باقی نہیں رہتی۔ جیسے ناچنا ۔ گانا ۔ سینا پرونا وغیرہ

اسکے علاوہ ہاتھوں کو حرکت دینا کسی ضرورت سے جھکنا ۔ دو ایک قدم آگے پیچھے ۔ داہنے بائیں ہٹ جانا ۔ خطرہ میں سانپ بیچھو کا قتل کر دینا ۔ بچہ کو گود میں اٹھا لینا یا اس قسم کے دوسرے معمولی افعال سے نماز باطل نہیں ہوتی بشرطیہ حرکت کی حالت میں خاموش رہے کوئی ذکر وغیرہ کا خاص خیال رکھے۔بلا ضرورت یہ باتیں کسی طرح مناسب نہیں ہیں۔

۴۹

۴ ۔ کلام نماز کی حالت میں علاوہ ذکر و دعا کے کسی بھی لفظ کا استعمال کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ دعا وغیرہ میں بھی خطاب پروردگار عالم سے ہونا چاہئے کسی آدمی سے خطاب کر کے اسے دعا دینا ناجائز ہے۔نماز پڑھنے والے کو سلام کرنے کی ابتدا نہیں کرنی چاہئے لیکن اگر کوئی سلام کر دی تو فوراً سلام علیکم کہہ کر جواب دینا چاہئے علیکم السلام کہہ کر نہیں۔ اگر پوری جماعت کو سلام کیا جائے تو ایک شخص کا جواب کافی ہے لیکن اگر سب جواب کو ٹال جائیں گے تو گناہ میں بھی سب شریک رہیںگے۔

ہندوستان کے رسمی سلام "اداب عرض " ہے۔ تسلیمات وغیرہ جیسے فقروں کا جواب واجب نہیں ہے بلکہ حالت نماز میں تو ان الفاظ کا ادا کرنا جائز بھی نہیں ہے۔

۵ ۔ نماز میں آواز کے ساتھ یا اتنی شدت سے ہنسنا کہ سارا چہرہ سرخ ہو جائے خواہ آواز نہ بھی نکلے نماز کو باطل کر دیتا ہے البتہ معمولی مسکراہٹ میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہنسی سے جب چہرہ سرخ ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ نماز کو تمام کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔

۶ ۔ گریہ و بکا ۔ حالت نماز میں دنیاوی کاموں کے لئے رونا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر دفعتاً خود بخود رونا آ گیا اور انسان اس پر قابو نہ پا سکا جب بھی نماز باطل ہو جائےگی۔ سیدالشہدا پر گریہ کرنا خدا کی خوشنودی کی نیت سے جائز ہے۔

۵۰

۷ ۔ کھانا پینا ۔ نماز کی حالت میں کسی مقدار میں بھی کھانا پینا ناجائز ہے بلکہ مبطل نماز ہے ہاں اگر منھ میں شکر وغیرہ کے کچھ ریزے رہ گئے ہیں اور وہ پگھل کر اندر چلے جائیں تو اس سے کوئی اثر نماز پر نہیں پڑتا۔ اگر کوئی شخص درمیان نماز میں بھولے سے کھانے پینے میں مشغول ہو گیا تو اس کی نماز باطل نہ ہوگی بشرطیہ نمازی جانماز پر معلوم ہوتا ہو دسترخوان پر نہیں۔ اس حکم سے صرف وہ شخص آزاد ہے جو نماز وتر پڑھ رہا ہے اور صبح کے وقت اُسے روزہ رکھنا ہے۔ ایسے آدمی کو نہ اختیار رہے کہ نماز کی حالت میں پانی پی لے ۔ کھانا وہ بھی نہیں کھا سکتا۔ پانی پینے میں بھی قبلہ کا لحاظ انتہائی ضروری ہے۔

۸ ۔ تکفیر ۔ نماز میں ہاتھ باندھنا شریعت اسلام کی رو سے ناجائز ہے۔

۹ ۔ سورہ حمد کے خاتمہ پر عام مسلمانوں کی طرح آمین کہنا فقہ آل محمدؐ کی رو سے ناجائز بلکہ مبطل نماز ہے اتفاقی طور سے زبان سے نکل جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۵۱

یہ وہ مقامات ہیں جہاں نماز خود بخود باطل ہو جاتی ہے اس کے علاوہ کسی موقع پر بھی باطل ضرورت نماز کا قطع کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ ضرورت کے وقت ایسا ہو سکتا ہے چاہے وہ ضرورت دنیاوی ہو یا دینی بلکہ بعض حالات میں اگر جان و مال و آبرو کا خطرہ ہے تو نماز کا توڑ دینا واجب ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ نماز توڑتے وقت ایک سلام پڑھے۔

تنبیہ ۔

نماز یومیہ میں صبح ، مغرب اور عشا کی پہلی دو رکعتیں بآواز پڑھی جائیںگی۔ ظہر و عصر مکمل اور مغربین کی آخری رکعتیں آہستہ پڑھی جائینگی لیکن یہ خیال رہے کہ بات صرف حمد و سورہ کے بارے میں ہے اس کے علاوہ پوری نماز کے بارے میں انسان کو اختیار ہے کہ چاہے آہستہ پڑھے یا بآواز۔ حمد و سورہ اور دیگر ذکر و دعا کے پڑھنے میں عربی قواعد کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ حمد و سورہ بآواز پڑھتے وقت ہر ہر حرف کا آواز سے پڑھنا واجب ہے۔ مثلا ضآلین کا نون بھی آواز سے ادا کرنا ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ حالت نماز میں سانپ ، بچھو کا مارنا کیسا ہے نماز صحیح رہے گی یا باطل ہو جائےگی ؟

۲ ۔ کیا مسکراہٹ سے نماز باطل ہو جائےگی ؟

۳ ۔ نماز میں پانی پینا کیسا ہے ؟

۴ ۔ تکفیر کے معنی کیا ہیں ؟

۵ ۔ مبطلات نماز بتلائیے ؟

۶ ۔ کیا حالت نماز میں آداب عرض ، یا تسلیمات عرض کہا جائے تو نماز صحیح ہوگی ؟

۵۲

پچیسواں سبق

آداب ذکر و قرائت

۱ ۔ نیت کے موقع پر بعض حضرات قربتہً الا اللہ کہہ دیتے ہیں حالانکہ یہ لفظ " الی اللہ " ہے۔

۲ ۔ صلوات میںاَللهُم سَلِّ سے کہہ دیا جاتا ہے حالانکہ یہ رسولؐ اکرم کے لئے بد دعا ہے اصل لفظصَلِّ صاد سے ادا ہوتا ہے۔

۳ ۔اَشهَدُ اَن لاَ اِلٰهَ اِلاَّ الله میں اَن کا نون گرا کر الف کو بعد کے لام سے ملا کراَلاَّ اِلٰهَ پڑھنا چاہئے۔

۴ ۔ صلوات میں محمدٍّ و آلِ محمد میں واؤ پر تشدید دیکر وال کو واؤ سے ملاکر پڑھنا چاہئے۔

۵ ۔ کفو احد مٰیں لفظ کفوا کو کُفُواً واؤ کے ساتھ اور کُفُواً ۔ کُفؤاً ہمزہ کے ساتھ چار طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔

۶ ۔ حی علی الصلوۃ اور قد قامت الصلوۃ میں "ت" کو "ہ" پڑھنا چاہئے اس لئے کہ وقف اور ٹھراؤ میں گول ۃ "ہ "سے بدل جاتی ہے۔

۷ ۔ تشہد میںاَشهَدُ اَنَّ مُحمَداً عَبدُهُ وَ رَسُولَهُ میں عَبدَہُ کے دال پر پیش ہونا چاہئے زبر غلط ہے۔

۸ ۔ سورہ حمد میں المستقیم پر ٹھہر بھی سکتے ہیں اور المستقیمَ پڑھ کر بعد سے ملا بھی سکتے ہیں۔

۹ ۔ نماز کی حالت میں جتنے بھی ذکر واجب یا مستحب ہیں سب کو سکون و اطمینان کی حالت میں ادا کرنا چاہئے حرکت و اضطراب میں سوائےبِحولِ الله وَ قُوتهِ اَقُومُ وَ اَقعُد کے کسی ذکر کا ادا کرنا مناسب نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کتنی چیزیں ایسی ہیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ؟

۲ ۔ نیت میں اِلا اللہ درست ہے یا اِلی اللہ صحیح ہے ؟

۳ ۔ نماز میں وہ کون سی چیز ہے جس کو حرکت کی حالت میں بھی پڑھ سکتے ہیں ؟

۵۳

چھبیسواں سبق

نماز قضا

اگر انسان سے اپنی نماز ترک ہو گئی ہے یا بڑے بیٹے پر باپ کی قضا نماز واجب ہو گئی ہے تو اس کا فریضہ ہے کہ ان سب کی قضا ادا کرے قضا نماز تمام احکام مین باطل ادا جیسی ہے اگر سفر کی قجا ہے تو گھر میں بھی قصر ہی ادا کی جائے گی اور اسی طرح بر عکس۔ اگر جہری ہے تو جہری رہےگی اخفاقی ہے تو اخفاقی رہےگی۔فرادی بھی ہو سکتی ہے جماعت سے بھی ہو سکتی ہے ترتیب کا لحاظ بھی ضروری ہوگا۔ مثلا پہلے ظہر کی پھر عصر کی پہلے مغرب کی پھر عشاء کی البتہ یہ ممکن ہے کہ صبح کی قضا نماز ظہرین کی ادا کے بعد پڑھے یا ظہرین کی قضا نماز مغربین کی ادا کے بعد پڑھے۔ قضا کا کوئی وقت معین نہیں ہے ہر نماز کی قضا ہر وقت پرھی جا سکتی ہے۔

والدین کی نماز اگر خود ادا ادا کرنے پر قادر نہیں ہے تو اجرت دے کر پڑھوائے اجرت پڑھنے والا مرنے والے کی طرف سے نیت کر کے ویسی نماز پڑھے جیسی نماز مرنے والے کی قضا ہوئی ہے۔ لیکن جہر و اخفات میں اپنا طاظ کرے گا یعنی اگر مرد عورت کی طرف سے پڑھ رہا ہے تب بھی جس نماز میں مرد سورے آواز سے پڑھتا ہے اس نماز میں آواز سے ہی پڑھےگا۔ بڑے بیٹے کے علاوہ قضاء والد کسی دوسرے پر واجب نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ بڑے بیٹے کی نالائقی یا اس کے نہ ہونے کی صورت میں دیگر اولاد و اعزاء کو ازراہ ہمدردی اس فیضہ کو ادا کر دینا چاہئے۔ عورت پر زمانہ حیض و نفاس میں چھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا واجب نہیں ہے البتہ اس زمانہ کے روزے کی قضا ضروری ہے۔

۵۴

مردے کی طرف سے اگر کوئی شخص ازخود نماز ادا کر دے تو وارث کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیمار آدمی قضائے عمری کو بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا بلکہ صحت کا انتظار کرےگا۔ ہاں اگر صحت سے مایوس ہو گیا ہے تو بیٹھ کر ہی ادا کرےگا۔عام طور سے جمعتہ الوداع کے دن چار رکعت نماز کو زندگی بھر کا کفارہ مشہور کر دیا گیا ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے بلکہ قضا کا ادا کرنا بہرحال ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ جہری نمازیں کون ہیں اور اخفائی کون ؟

۲ ۔ باپ کی نماز کس بیٹے پر واجب ہے ؟

۳ ۔ اجرت پر نماز پڑھنے والے کا کیا حکم ہے ؟

۵۵

ستائیسواں سبق

نماز کی غلطیاں

بھول

نماز مین غلطیوں کی دو صورتیں ہوتی ہیں ، بھول اور شک۔ بھول جانے کی صورت یہ ہے کہ انسان حالت نماز میں کسی واجب کے ادا کرنے سے غافل ہو جائے۔ ایسی صورت میں اگر بھولی بات اگلے رکن میں داخل ہونے سے پہلے یاد آ جائے تو فوراً پلٹ کر اسے بجا لائے اور اگر رکن میں داخل ہونے کے بعد یاد آئے جیسے رکوع میں پہونچکر سورہ حمد یا دوسرے سورہ کا بھول جانا یاد آیا تو ایسی حالت میں جس چیز کو بھولا ہے اگر وہ خود رکن نہیں ہے تو نماز کو آگے پڑھا دے اور بعد میں ہر بھولی ہوئی بات کے لئے دو سجدہ سہو کرے اور اگر بھولی ہوئی بات خود رکن تھی تو نماز باطل ہو گئی پھر سے پڑھے۔ اگر پلٹ کر واجب کو ادا کرنے میں کوئی زیادتی ہو گئی ہے تو اس زیادتی کے لئے بھی سجدہ سہو کرےگا۔ مثلا کھڑے ہو جانے کے بعد یاد آئے کہ تشہد نہیں پڑھا ہے تو فوراً بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے اور نماز کے بعد سجدہ سہو کرے اس لئے کہ کھڑا ہو کر پھر بیٹھنا پڑا اور تشہد کے بعد پھر کھڑا ہونا پڑا۔ اس زیادتی کے لئے سجدہ سہو کرنا ہوگا۔

۵۶

سجدہ سہو چھ اسباب سے واجب ہوگا۔

۱ ۔ بھولے سے درمیان نماز میں کلام کر لینا ایسے میں نماز باطل نہ ہوگی بلکہ سجدہ سہو کرےگا۔

۲ ۔ بے محل سلام پڑھ دینا۔

۳ ۔دوسرے سجدہ کے بعد چوتھی اور پانچویں رکعت یا حالت قیام میں چوتھی یا پانچویں یا یا پانچویں اور چھٹی رکعت میں شک کرنا۔

۴ ۔ ایک سجدہ کا بھول جانا دونوں کے بھولنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے اس لئے وہ رکن ہیں۔

۵ ۔ بے محل کھڑا ہو جانا جیسے کہ دوسری رکعت میں بجائے تشہد کے قیام کرنا۔ ایسے میں بیٹھ کر تشہد پڑھےگا۔ اور نماز کے بعد سجدہ سہو کرےگا۔

۶ ۔ خود تشہد کا فراموش کر دینا اور بعد والی رکعت کے رکوع میں جاکر یاد آنا۔

سجدہ سہو کی ترکیب

نماز کے ختم ہوتے ہی قبلہ سے منحرف ہوئے بغیر فوراً دل میں نیت کرے کہ دو سجدہ سہو فلاں غلطی کی بنا پر کرتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ اور یہ قصد کر کے فوراً سجدہ میں جائے اور یہ ذکر کرے " "بِسمِ اللهِ وَ بِاللهِ اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ اَيهُّا النَّنِیُ وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُهُ " پھر سر اٹھا کر دوبارہ سجدہ کرے اور یہی ذکر پڑھے پھر سر اٹھا کر تشہد و سلام پڑھ کر کلام تمام کرے۔

اگر نماز میں ایک سجدہ یا تشہد بھول گہا تھا تو خاتمہ نماز پر پہلے اس سجدہ یا تشہد کی قضا کرے، اس کے بعد سجدہ سہو کرے۔

۵۷

شک

نماز میں شک پیدا ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ کبھی شک کا تعلق نماز کے

افعال سے ہوتا ہے اور کبھی نماز کی رکعتوں سے۔ افعال میں شک کا مطلبیہ ہے کہ دوران نماز تکبیر کہنے ، حمد یا سورہ پڑھنے ، رکوع یا سجدہ کونے وغیرہ میں شک ہو جائے ، ایسی صورت کا حکم یہ ہے کہ اگر بعد والے عمل میں داخل ہونے کے بعد کسی پہلے والے فعل میں شک ہوا ہے تو اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی جائےگی بلکہ نماز کو صحیح قرار دیا جائےگا مثلا کسی شخص کو قل ھو اللہ احد پڑھتے وقت سورہ حمد کے پڑھنے میں شک ہو گیا تو وہ بجائے پلٹنے کے نماز آگے پڑھتا رہےگا اور انشاء اللہ صحیح رہےگی۔

رکعات میں شک کا مطلب یہ ہے کہ رکعتوں کی صحیح تعداد یاد نہ رہے اس شک کی بظاہر بہت سی صورتیں ہیں لیکن صرف ۹ صورتوں میں نماز صحیح ہو سکتی ہے۔ باقی تمام صورتوں میں باطل ہوگی۔ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ شک پیدا ہوتے ہی دماغ پر زور دے کہ صحیح بات یاد کرنے کی کوشش کرے۔ اب اگر کوئی فیصلہ نہ کر سکے تو شریعت کی تفصیل یہ ہے۔

ان قوانین کی تفصیل یہ ہے :

۱ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد یہ شک ہو کہ یہ سجدہ دوسری رکعت کا تھا یا تیسری رکعت کا۔ ایسی صورت میں تیسری سمجھ کر اسی حساب سے نماز تمام کرے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے اس لئے کہ اگر واقعی دوسری رکعت تھی تو ایک ہی رکعت کی کمی ہوئی ہے۔

۵۸

۲ ۔تیسری اور چوتھی رکعت کے بارے میں کسی حالت میں شک ہو ۔ ایسے میں چوتھی قرار دے کر نماز تمام کرے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔

۳ ۔ دوسری سجدہ کے بعد دو اور چار میں شک ہو ۔ ایسے میں چوتھی رکعت ورار دے کر نمام تمام کرے اور دو رکعت نماز احتیاط پڑھے۔

۴ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد شک کرے کہ یہ رکعت دوسری تھی یا تیسری یا چوتھی ۔ ایسے میں چوتھی سمجھے اور پہلے دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پرھے پھر دو رکعت بیٹھ کر۔

۵ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد شک ہو کہ یہ رکعت چوتھی تھی یا پانچویں ۔ ایسے میں نماز وہیں پر تمام کرے اور دو سجدہ سہو کرے۔

۶ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ چوتھی ہے یا پانچویں ۔ ایسے میں فوراً بیٹھ کر نماز تمام کر دے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۷ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ تیسری ہے یا پانچویں ۔ ایسے میں بیٹھا کر نماز ختم کر دے اور دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔ اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۸ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ تیاری ہے یا چوتھی یا پانچویں ۔ ایسے میں بیٹھ کر نماز تمام کر دے اور دو رکعت کھڑے ہو کر اور دو رکعت بیٹھ کر نماز احتیاط پڑھے۔ اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۹ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ پانچویں ہے یا چھٹی ۔ ایسے میں بیٹھ کر نماز تمام کرے اور دو سجدہ سہو کرے۔ نیز بنا پر احتیاط واجب بےجا قیام کے لئے دو سجدہ مزید کرے۔

۵۹

شک کے بارے میں یہ بات ضرور ہیش نظر رہنی چاہے کہ یہ سارے احکام صرف اس نماز کے لئے ہیں جس میں چار رکعتیں ہوتی ہیں۔ سہ رکعتی نماز یعنی مغرب اور دو رکعتی نماز یعنی صبح اور حالت سفر کی ظہر و عصر و عشا کا حکم یہ ہے کہ شک پیدا ہوتے ہی کسی مقدار میں غور کرے اگر کوئی بات یاد آ جائے تو اس پر عمل کرے ورنہ نماز کو اسی جگہ سے توڑ دے اور دوبارہ چروع کرے۔

نماز احتیاط

اس نماز کا طریقہ یہ ہے کہ اصل نماز کے ختم کرنے کے بعد فوراً ہی بلا فاصلہ نیت کرے کہ نماز احتیاط ایک رکعت یا دو رکعت پڑھتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ اس نیت کا زبان سے ادا کرنا جائز ہے۔ اس کے بعد فقط سورہ حمد اور وہ بھی آہستہ پڑھ کر رکوع اور سجدہ کرے اگر ایک رکعتی ہے تو تشہد و سلام پڑھ کر نماز تمام کر دے ورنہ دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھے اور سجدوں کے بعد تشہد و سلام ادا کر کے نماز ختم کر دے۔ نماز احتیاط میں الحمد کے علاوہ دوسرا سورہ یا قنوت نہیں پڑھا جاتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر نماز میں کسی واجب کو ادا کرنا بھول جائے تو کیا کرے ؟

۲ ۔ سجدہ سہو کہاں واجب ہوتا ہے ؟

۳ ۔ سجدہ سہو اور نماز احتیاط کی ترکیب بتاؤ ؟

۴ ۔ شک کی کتنی صورتوں میں نماز صحیح رہےگی ؟

۵ ۔ نماز احتیاط یا سجدہ سہو چھوڑ کر کیا نماز دوبارہ پڑھی جا سکتی ہے ؟

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83