امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم جلد ۴

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم 40%

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 83

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 83 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56761 / ڈاؤنلوڈ: 3115
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

۶ ۔مردوں کے لئے خالص ریشم کے کپڑے کا استعمال حرام ہے خواہ نماز میں ہو یا غیر نماز میں۔ ہاں اگر اس میں اتنا سوت وغیرہ ملا دیا جائے کہ وہ ریشمی نہ کہلائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۷ ۔ سونے کے توروں سے بنے ہوئے کپڑوں کا ستعمال مردوں کے لئے حرام ہے اسی طرح مردوں کے لئے سونے سے زینت اور آرائش بھی ناجائز ہے۔ جیسے سونے کی انگوٹھی ، چین ، چشمہ کا فریم ، گھڑی ، بٹن وغیرہ ۔ عورتوں کے لئے یہ تمام باتیں جائز ہیں۔

مردوں کے لئے سونے کا استعمال نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں حرام ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ سونے میں خالص کی قید نہیں بلکہ اگر مخلوط بھی ہے تو بھی ناجائز ہے۔ جب تک کہ اس میں تانبا یا کوئی دوسری دھات اتنی نہ ملا دی جائے کہ اسے سونا نہ کہہ سکیں۔

سوالات :

۱ ۔ نماز میں مرد اور عورت کو کتنا جسم چھپانا واجب ہے ؟

۲ ۔ نماز کے لباس کی تین شرطیں بیان کرو ؟

۳ ۔ نائلون کے کپڑے میں نماز کب ناجائز ہے ؟

۴۱

اکیسواں سبق

مکان

مکان سے مراد وہ جگہ ہے جہاں کھڑے ہو کر انسان نماز ادا کرتا ہے اس جگہ کے لئے پاک ہونے کی کوئی قید نہیں ہے بلکہ نجس بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جگہ کی تری بدن اور کپڑے تک نہ پہونچ جائے مگر سجدہ کی جگہ کا پاک ہونا بہرحال ضروری ہے۔

مکان نماز میں حسب ذیل شرائط ضروری ہیں :

۱ ۔ مباح و جائز ہو ۔ دوسرے کی زمین پر یا مشتر کہ اراض میں بغیر مالک و شریک کی اجازت کے نماز باطل ہے۔ عام موقوفات یعنی مسجد وغیرہ میں جو پہلے جگہ لے لے اُسے اُس کی جگہ سے ہٹایا نہیں جا سکتا ایسا کرنے سے نماز باطل ہو جائےگی۔ اجازت کے صریح بیان کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مالک کے راضی رہنے کا یقین ہونا کافی ہے۔

۲ ۔ نماز میں معصوم کی قبر کے آگے نہ ہونا چاہئے بلکہ پیچھے پڑھے یا زیادہ سے زیادہ برابر کھڑا ہو آگے ہونا خلاف ادب ہے ہاں اگر کافی ٖاصلہ ہو جائے یا درمیان میں کوئی چیز جائل ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

۳ ۔ نماز کی جگہ کو ساکن اور ٹھرا ہوا ہونا چاہئے۔ چلتی ہوئی گاڑی پر اس وقت تک نماز جائز ہے جبکہ آخر وقت تک اُتر کر یا رُکی ہوئی گاڑی میں نماز پڑھنا ممکن رہے۔

۴۲

یوں تو نماز کے لئے کوئی جگہ معین نہیں ہے لیکن مسجد کو دیگر مقامات پر فوقیت و فضیلت حاصل ہے چاہے وہاں نماز جماعت ہو یا نہ ہو۔ جماعت کا ہونا مزید ثواب و برکت کا باعث ہے۔

مسجد کی عظمت یہ ہے کہ عام مسجدوں میں ایک نماز پچیس نمازوں کے برابر ہے اور جامع مسجد میں سو نمازوں کے برابر ہے۔ مسجد کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ مسجد کے پڑوسی کی نماز بغیر مسجد میں پڑھے مقبول نہیں ہو سکتی سوا اس کے کہ کوئی مجبوری ہو اور دوسری روایت یہ ہے کہ مسجد روز قیامت ان نمازوں سے فریاد کرےگی جو نماز پڑھتے تھے لیکن مسجد میں نہیں آتے تھے۔

سوالات :

۱ ۔ کیا نجس جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں ؟

۲ ۔ ریل پر نماز کیونکر پڑھی جائےگی ؟

۳ ۔ معصوم کی قبر کے آگے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟

۴ ۔ گھر کی نماز اور عام مسجد کی نما میں کیا فرق ہے ؟ عام مسجد اور جامع مسجد کی نماز میں کیا فرق ہے ؟

۵ ۔ جامع مسجد مین ایک نماز کا ثواب کیا ہے ؟

۶ ۔ چلتی ہوئی گاڑی میں نماز جائز ہے یا نہیں ؟

۴۳

بائیسواں سبق

اذان و اقامت

اذان و اقامت صرف پنچگانہ نمازوں کے لئے مستحب ہے اور انتہائی تاکید کے ساتھ مستحب ہے۔ باقی نمازوں میں اذان و اقامت ناجائز ہے چاہے وہ واجب ہوں یا غیر واجب۔ اذان اور اقامت میں حسب ذیل امور کا لحاظ ضروری ہے :

۱ ۔ نیت ۔ یعنی دونوں کو قربت کی نیت سے انجام سے اس لئے کہ کسی عبادت میں بغیر قصد قربت کے ثواب نہیں مل سکتا۔

۲ ۔ عقل ۔ دیوانے کی اذان و اقامت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

۳ ۔ بلوغ ، نابالغ کی اذان و اقامت ناکافی ہے۔

۴ ۔ ذکوریت ، عورت کی اذان و اقامت مرد کے لئے نا کافی ہے البتہ عورت کا اذان و اقامت کہنا عورتوں کے لئے کافی ہے۔

۵ ۔ ترتیب ۔ پہلے اذان اس کے بعد اقامت کہنا چاہئے۔

۶ ۔ موالات ۔ اذان کے بعد جلد ہی اقامت اور اقامت کے بعد فوراً نماز پڑھے۔ سلسلہ کے ٹوٹ جانے سے اذان و اقامت بیکار ہو جاتی ہے۔

۷ ۔ عربی ۔ اُردو میں یا غلط عربی میں اذان و اقامت درست نہیں ہے۔

۴۴

۸ ۔ وقت ۔

نماز کے وقت سے پہلے اس کا ادا کرنا غلط ہے البتہ قضا نماز پڑھی جا سکتی ہے اس لئے اس کا وقت ہر وقت رہتا ہے۔ اذان کے لئے طہارت ۔ قیام ۔ استقبال قبلہ مسجد ہے لیکن اقامت میں طہارت و قیام ضروری ہے۔ یہ رسم کہ اقامت کہتے کہتے قدقامت الصلوٰۃ پر کھڑے ہو گئے فرادی نماز میں بالکل نامناسب ہے اس طرح اقامت کا ثواب نہیں مل سکتا۔ اذان و اقامت دونوں میں ذکر رسولؐ اکرم کے بعد ذکر امیرالمومنین علیؐ ابن ابی طالبؐ ہونا چاہئے جو اذان کا جز نہیں ہے۔ لیکن حکم پیغمرؐ کی بنا پر مسحب ہے۔

اگر کوئی شخص اذان و اقامت دونوں بھول جائے اور نماز شروع کر دے تو اس کے لئے جائز ہے کہ رکوع میں پہونچنے سے پہلے نماز کو توڑ دے اور اذان و اقامت کہہ کر پھر نماز شروع کرے لیکن اگر صورف اقامت بھول گیا ہے تو الحمد شروع کرنے کے بعد نماز نہیں توڑ سکتا البتہ اس سے پہلے توڑ سکتا ہے۔ تنہا اذان کے بھول جانے سے نماز نہیں توڑی جا سکتی۔ اسی طرح کسی ایک کے بھی قصداً چھوڑ دینے پر نماز کا قطع کرنا حرام ہے۔

سوالات :

۱ ۔ نابالغ کی اذان و اقامت کیا کافی ہے ؟

۲ ۔ اقامت و نماز کے درمیان وقت کا فاصلہ کیا ہے ؟

۳ ۔ اگر نمازی اذان و اقامت بھول کر نماز شروع کر دے تو کیا حکم ہے ؟

۴ ۔ اقامت کی کوئی تین شرطیں بتاؤ ؟

۵ ۔ اذان اور اقامت میں جن باتوں کا لحاظ ضروری ہے وہ کتنی ہیں ؟

۴۵

تئیسواں سبق

واجبات نماز

نماز میں گیارہ چیزیں واجب ہیں اور انھیں کے مجموعہ کا نام نماز ہے۔

نیت : تکبیرۃ الاحرام ۔ قیام ۔ قرائت ۔ ذکر ۔ رکوع ۔ سجود ۔ تشہد ۔ سلام ۔ ترتیب ۔ موالات ۔ ان میں سے پانچ واجب کن ہیں یعنی ان کی کمی زیادتی بھولے سے بھی نماز کو باطل کر دیتی ہے۔ نیت تکبیرۃ الاحرام۔ قیام ۔ رکوع ۔ دونوں سجدے باقی سب غیر رکن ہیں یعنی ان کو قصداً چھوڑ دینے سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ لیکن بھولے سے باطل نہیں ہوتی بلکہ ان کی قضا کرنا پڑتی ہے۔

نیت :

نیت رکن ہے اس کو ہمیشہ دل میں ہونا چاہئے زبان سے ادا کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ نماز احتیاط میں تو زبان سے ادا کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔

تکبیرۃ الاحرام ۔

نیت کے بعد اللہ اکبر کہنا رکن نماز ہے اور پوری نماز میں یہی ایک تکبیر واجب ہے اس کے علاوہ تمام تکبیریں سنت ہیں۔

قیام۔

انسان اپنے مکان بھر کھڑے ہوکر نماز پڑھے رونہ بیٹھ کر پڑھے اور اگ بیمار یا کمزور ہے تو جتنی دیر کھڑا رہ سکے ٹھرا رہے پھر اگر طاقت آ جائے تو پھر کھڑا ہو جائے اور جو بیٹھ بھی نہ سکے وہ لیٹ جائے داہنے یا بائیں کروٹ یا چت۔ بشرطیکہ قبلہ کی طرف اس کا چہرہ رہے۔ قیام ۔ الحمد اور سورہ ، پڑھتے وقت واجب ہے لیکن تکبیر کے وقت رکن ہے اور سورہ ، پڑھتے وقت واجب ہے لیکن تکبیر کے وقت رکن ہے اور اسی طرح رکوع سے پہلے بھی رکن ہے یعنی رکوع میں قیام سے جانا چاہئے یہی قیام متصل برکوع ہے۔ اس قیام کے رکن ہونے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر انسان حمد و سورہ کے بعد بھولے سے سجدہ کے لئے جھک گیا اور سجدہ کرنے سے پہلے یاد آیا کہ رکوع نہیں کیا ہے تو اب وہیں سے رکوع میں نہیں جا سکتا ورنہ نماز باطل ہو جائےگی بلکہ اسے چاہئے کہ سیدھے کھڑا ہو اور اس کے بعد رکوع میں جائے۔

۴۶

قرات ۔ تکبیر کے بعد پہلی دو رکعت میں الحمد اور اس کے بعد کوئی ایک سورہ پڑھنا واجب ہے۔ البتہ واجب سجدہوں والے سورے نہ پڑھے اور اتنے لمبے سورے نہ پڑھے کہ نماز کا وقت نکل جائے۔ جماعت کی حالت میں یہی دو سورے ماموم نہیں پڑھتا ہے ورنہ باقی نماز ماموم خود ادا کرےگا۔ آخری دو رکعتوں میں انسان کو اختیار ہے چاہے سورہ حمد پڑھے یا ایک مرتبہسُبحَانَ اللهِ وَ الحَمدُ لِلهِ وَ لاَ اِلٰهَ اِلاَّ للهُ وَ اللهُ اَکبَر پڑھے۔ تین مرتبہ پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔

رکوع ۔ نماز کا ایک اہم رکن ہے اگر اتفاقاً کبھی رہ جائے یا ایک سے دو ہو جائے تو نماز باطل ہے۔ رکوع میں اتنا جھکنا چاہئے کہ ہتھیلی گٹھنے تک پہونچ سکے۔ گٹھنے پر ہتھیلی کا رکھنا واجب نہیں ہے۔ رکوع میں ایک مرتبہ سبحان ربی العظیم و بحمدہ یا تین مرتبہ سبحان اللہ کہنا ضروری ہے۔ اس کے بعد ان کلمات کو بار بار دھرانا افضل و مستحب ہے۔ رکوع ختم کرنے کے بعد سیدھے کھڑا ہو کر سجدہ میں جائے اس لئے کہ یہ قیام بھی واجب ہے۔ کھڑے ہونے کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ ۔ اللہ اکبر کہنا مستحب ہے۔

سجدہ ۔

یہ بھی نماز کا ایک رکن ہے لیکن دونوں ملاکر جس کا مطلب یہ ہے کہ دو کے چار ہو جائیں یا اتفاق سے کسی رکعت میں ایک بھی نہ ہو سکے تو نماز باطل ہو جائےگی۔ سجدہ میں سات اعضا ، کا زمین پر ٹکنا ضروری ہے۔ پیشانی ۔ دونوں ہتھیلیاں ۔ دونوں گٹھنے ۔ دونوں پیر کے انگوٹھے سجدہ کا ذکرسبحان ربی الا علیٰ و بحمده یا تین مرتبہسبحان الله ہے۔ سجدہ مٹی پر ہوگا یا جو چیزیں زمین سے اُگی ہوں ان پر ہوگا بشرطیکہ وہ کھانے اور پہننے میں کام نہ آتی ہوں۔ خاک کربلا پر سجدہ کرنے کا زیادہ ثواب ہے۔ اس لئے کہ یہ خاک اسلامی قربانیوں کو یاد دلانے والی اور مسلمانوں میں جوش عقیدت کو ابھارنے والی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سجدہ کا جو ازارسی خاک پاک میں منحصر نہیں ہے بلکہ ہر پاک مٹی ، لکڑی ، پتے پر اپنے شرائط کے ساتھ سجدہ کیا جا سکتا ہے۔

۴۷

تشہد ۔

دوسری رکعت اور آخری رکعت میں دونوں سجدوں کے نعد تشہد واجب ہے جس کی صورت یہ ہےاَشهَدُ اَن لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحدَهُ لَا شَرِیکَ لَهُ وَ اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبدُهُ وَ رَسُولَهُ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ ٰالِ مُحَمَّد ! اگر کوئی شخص تشہد بھول جائے اور بھول کر کھڑا ہو جائے تو فوراً بیٹھ کر تشہد پڑھے اور نماز کے بعد دو سجدہ سہو کرے۔

سلام ۔

نماز کے خاتمہ پر ایک سلام واجب ہے چاہےاِلسِّلاِمُ عَلَینَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِینُ "یا "اَلسَّلاَم عَلَیکُم وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکاتُهُ بہر حال مستحب ہے۔ سلام نماز کا جز ہے۔

ترتیب ۔

نماز کو اپنی صحیح ترتیب کے ساتھ پڑھنا چاہئے مثلا نیت کر کے تکبیر کہے پھر سورہ حمد پڑھے دوسرا سورہ پڑھے پھر رکوع میں جائے۔ رکوع سے اُٹھ کر سجدہ میں جائے۔ ایک سجدہ سے اُٹھ کر پھر دوسرا سجدہ کریں پھر اسی طرح دوسری رکعت پڑھے۔ اگر دو ہی رکعت پڑھنا ہے تو سجدہ کے بعد تشہد و سلام پڑھ کر ختم کر دے ورنہ باقہ نماز اسی ترتیب سے ادا کرے۔

موالات ۔

نماز کے تمام اگعال کو پے در پے ہونا چاہئے۔ درمیان میں اتنا فاصلہ یا ایسی خاموشی نہ ہو جائے کہ صورت نماز ہی ختم ہو جائے۔

قنوت ۔

یہ دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے مستحب ہے اس میں ایک صلوات کا پڑھنا بھی کافی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ ارکان نماز کتنے ہیں اور ان کا کیا حکم ہے ؟

۲ ۔ کون سا قیام رکن ہے اور قیام متصل برکوع کا کیا مطلب ہے ؟

۳ ۔ واجب نماز کتنے ہیں ؟

۴ ۔موالات کسے کہتے ہیں ؟

۴۸

چوبیسواں سبق

مبطلات نماز

نو چیزیں ایسی ہیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اس کا دوبارہ ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔

۱ ۔ کسی ایسے حدث کا صادر ہو جانا جس سے وضو باطل ہو جاتا ہے یا غسل واجب ہو جاتا ہے اسلئے کہ ان چیزوں سے طہارت ختم ہو جاتی ہے اور طہارت کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی۔

۲ ۔ پورے بدن کا قبلہ سے منحرف ہو جانا یا تنہا چہرا کا اس قدر مڑ جانا جس سے پس پشت تک کی چیزیں دیکھ سکے، رہ گیا داہنے بائیں تھوڑا سا انحراف و التفات ہوتو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔

۳ ۔ حالت نماز میں ایسے کام انجام دینا جو جائز ہیں یا جن کے کرنے سے نماز کی صورت باقی نہیں رہتی۔ جیسے ناچنا ۔ گانا ۔ سینا پرونا وغیرہ

اسکے علاوہ ہاتھوں کو حرکت دینا کسی ضرورت سے جھکنا ۔ دو ایک قدم آگے پیچھے ۔ داہنے بائیں ہٹ جانا ۔ خطرہ میں سانپ بیچھو کا قتل کر دینا ۔ بچہ کو گود میں اٹھا لینا یا اس قسم کے دوسرے معمولی افعال سے نماز باطل نہیں ہوتی بشرطیہ حرکت کی حالت میں خاموش رہے کوئی ذکر وغیرہ کا خاص خیال رکھے۔بلا ضرورت یہ باتیں کسی طرح مناسب نہیں ہیں۔

۴۹

۴ ۔ کلام نماز کی حالت میں علاوہ ذکر و دعا کے کسی بھی لفظ کا استعمال کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ دعا وغیرہ میں بھی خطاب پروردگار عالم سے ہونا چاہئے کسی آدمی سے خطاب کر کے اسے دعا دینا ناجائز ہے۔نماز پڑھنے والے کو سلام کرنے کی ابتدا نہیں کرنی چاہئے لیکن اگر کوئی سلام کر دی تو فوراً سلام علیکم کہہ کر جواب دینا چاہئے علیکم السلام کہہ کر نہیں۔ اگر پوری جماعت کو سلام کیا جائے تو ایک شخص کا جواب کافی ہے لیکن اگر سب جواب کو ٹال جائیں گے تو گناہ میں بھی سب شریک رہیںگے۔

ہندوستان کے رسمی سلام "اداب عرض " ہے۔ تسلیمات وغیرہ جیسے فقروں کا جواب واجب نہیں ہے بلکہ حالت نماز میں تو ان الفاظ کا ادا کرنا جائز بھی نہیں ہے۔

۵ ۔ نماز میں آواز کے ساتھ یا اتنی شدت سے ہنسنا کہ سارا چہرہ سرخ ہو جائے خواہ آواز نہ بھی نکلے نماز کو باطل کر دیتا ہے البتہ معمولی مسکراہٹ میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہنسی سے جب چہرہ سرخ ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ نماز کو تمام کرے اور دوبارہ نماز پڑھے۔

۶ ۔ گریہ و بکا ۔ حالت نماز میں دنیاوی کاموں کے لئے رونا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر دفعتاً خود بخود رونا آ گیا اور انسان اس پر قابو نہ پا سکا جب بھی نماز باطل ہو جائےگی۔ سیدالشہدا پر گریہ کرنا خدا کی خوشنودی کی نیت سے جائز ہے۔

۵۰

۷ ۔ کھانا پینا ۔ نماز کی حالت میں کسی مقدار میں بھی کھانا پینا ناجائز ہے بلکہ مبطل نماز ہے ہاں اگر منھ میں شکر وغیرہ کے کچھ ریزے رہ گئے ہیں اور وہ پگھل کر اندر چلے جائیں تو اس سے کوئی اثر نماز پر نہیں پڑتا۔ اگر کوئی شخص درمیان نماز میں بھولے سے کھانے پینے میں مشغول ہو گیا تو اس کی نماز باطل نہ ہوگی بشرطیہ نمازی جانماز پر معلوم ہوتا ہو دسترخوان پر نہیں۔ اس حکم سے صرف وہ شخص آزاد ہے جو نماز وتر پڑھ رہا ہے اور صبح کے وقت اُسے روزہ رکھنا ہے۔ ایسے آدمی کو نہ اختیار رہے کہ نماز کی حالت میں پانی پی لے ۔ کھانا وہ بھی نہیں کھا سکتا۔ پانی پینے میں بھی قبلہ کا لحاظ انتہائی ضروری ہے۔

۸ ۔ تکفیر ۔ نماز میں ہاتھ باندھنا شریعت اسلام کی رو سے ناجائز ہے۔

۹ ۔ سورہ حمد کے خاتمہ پر عام مسلمانوں کی طرح آمین کہنا فقہ آل محمدؐ کی رو سے ناجائز بلکہ مبطل نماز ہے اتفاقی طور سے زبان سے نکل جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۵۱

یہ وہ مقامات ہیں جہاں نماز خود بخود باطل ہو جاتی ہے اس کے علاوہ کسی موقع پر بھی باطل ضرورت نماز کا قطع کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ ضرورت کے وقت ایسا ہو سکتا ہے چاہے وہ ضرورت دنیاوی ہو یا دینی بلکہ بعض حالات میں اگر جان و مال و آبرو کا خطرہ ہے تو نماز کا توڑ دینا واجب ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ نماز توڑتے وقت ایک سلام پڑھے۔

تنبیہ ۔

نماز یومیہ میں صبح ، مغرب اور عشا کی پہلی دو رکعتیں بآواز پڑھی جائیںگی۔ ظہر و عصر مکمل اور مغربین کی آخری رکعتیں آہستہ پڑھی جائینگی لیکن یہ خیال رہے کہ بات صرف حمد و سورہ کے بارے میں ہے اس کے علاوہ پوری نماز کے بارے میں انسان کو اختیار ہے کہ چاہے آہستہ پڑھے یا بآواز۔ حمد و سورہ اور دیگر ذکر و دعا کے پڑھنے میں عربی قواعد کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ حمد و سورہ بآواز پڑھتے وقت ہر ہر حرف کا آواز سے پڑھنا واجب ہے۔ مثلا ضآلین کا نون بھی آواز سے ادا کرنا ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ حالت نماز میں سانپ ، بچھو کا مارنا کیسا ہے نماز صحیح رہے گی یا باطل ہو جائےگی ؟

۲ ۔ کیا مسکراہٹ سے نماز باطل ہو جائےگی ؟

۳ ۔ نماز میں پانی پینا کیسا ہے ؟

۴ ۔ تکفیر کے معنی کیا ہیں ؟

۵ ۔ مبطلات نماز بتلائیے ؟

۶ ۔ کیا حالت نماز میں آداب عرض ، یا تسلیمات عرض کہا جائے تو نماز صحیح ہوگی ؟

۵۲

پچیسواں سبق

آداب ذکر و قرائت

۱ ۔ نیت کے موقع پر بعض حضرات قربتہً الا اللہ کہہ دیتے ہیں حالانکہ یہ لفظ " الی اللہ " ہے۔

۲ ۔ صلوات میںاَللهُم سَلِّ سے کہہ دیا جاتا ہے حالانکہ یہ رسولؐ اکرم کے لئے بد دعا ہے اصل لفظصَلِّ صاد سے ادا ہوتا ہے۔

۳ ۔اَشهَدُ اَن لاَ اِلٰهَ اِلاَّ الله میں اَن کا نون گرا کر الف کو بعد کے لام سے ملا کراَلاَّ اِلٰهَ پڑھنا چاہئے۔

۴ ۔ صلوات میں محمدٍّ و آلِ محمد میں واؤ پر تشدید دیکر وال کو واؤ سے ملاکر پڑھنا چاہئے۔

۵ ۔ کفو احد مٰیں لفظ کفوا کو کُفُواً واؤ کے ساتھ اور کُفُواً ۔ کُفؤاً ہمزہ کے ساتھ چار طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔

۶ ۔ حی علی الصلوۃ اور قد قامت الصلوۃ میں "ت" کو "ہ" پڑھنا چاہئے اس لئے کہ وقف اور ٹھراؤ میں گول ۃ "ہ "سے بدل جاتی ہے۔

۷ ۔ تشہد میںاَشهَدُ اَنَّ مُحمَداً عَبدُهُ وَ رَسُولَهُ میں عَبدَہُ کے دال پر پیش ہونا چاہئے زبر غلط ہے۔

۸ ۔ سورہ حمد میں المستقیم پر ٹھہر بھی سکتے ہیں اور المستقیمَ پڑھ کر بعد سے ملا بھی سکتے ہیں۔

۹ ۔ نماز کی حالت میں جتنے بھی ذکر واجب یا مستحب ہیں سب کو سکون و اطمینان کی حالت میں ادا کرنا چاہئے حرکت و اضطراب میں سوائےبِحولِ الله وَ قُوتهِ اَقُومُ وَ اَقعُد کے کسی ذکر کا ادا کرنا مناسب نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کتنی چیزیں ایسی ہیں جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ؟

۲ ۔ نیت میں اِلا اللہ درست ہے یا اِلی اللہ صحیح ہے ؟

۳ ۔ نماز میں وہ کون سی چیز ہے جس کو حرکت کی حالت میں بھی پڑھ سکتے ہیں ؟

۵۳

چھبیسواں سبق

نماز قضا

اگر انسان سے اپنی نماز ترک ہو گئی ہے یا بڑے بیٹے پر باپ کی قضا نماز واجب ہو گئی ہے تو اس کا فریضہ ہے کہ ان سب کی قضا ادا کرے قضا نماز تمام احکام مین باطل ادا جیسی ہے اگر سفر کی قجا ہے تو گھر میں بھی قصر ہی ادا کی جائے گی اور اسی طرح بر عکس۔ اگر جہری ہے تو جہری رہےگی اخفاقی ہے تو اخفاقی رہےگی۔فرادی بھی ہو سکتی ہے جماعت سے بھی ہو سکتی ہے ترتیب کا لحاظ بھی ضروری ہوگا۔ مثلا پہلے ظہر کی پھر عصر کی پہلے مغرب کی پھر عشاء کی البتہ یہ ممکن ہے کہ صبح کی قضا نماز ظہرین کی ادا کے بعد پڑھے یا ظہرین کی قضا نماز مغربین کی ادا کے بعد پڑھے۔ قضا کا کوئی وقت معین نہیں ہے ہر نماز کی قضا ہر وقت پرھی جا سکتی ہے۔

والدین کی نماز اگر خود ادا ادا کرنے پر قادر نہیں ہے تو اجرت دے کر پڑھوائے اجرت پڑھنے والا مرنے والے کی طرف سے نیت کر کے ویسی نماز پڑھے جیسی نماز مرنے والے کی قضا ہوئی ہے۔ لیکن جہر و اخفات میں اپنا طاظ کرے گا یعنی اگر مرد عورت کی طرف سے پڑھ رہا ہے تب بھی جس نماز میں مرد سورے آواز سے پڑھتا ہے اس نماز میں آواز سے ہی پڑھےگا۔ بڑے بیٹے کے علاوہ قضاء والد کسی دوسرے پر واجب نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ بڑے بیٹے کی نالائقی یا اس کے نہ ہونے کی صورت میں دیگر اولاد و اعزاء کو ازراہ ہمدردی اس فیضہ کو ادا کر دینا چاہئے۔ عورت پر زمانہ حیض و نفاس میں چھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا واجب نہیں ہے البتہ اس زمانہ کے روزے کی قضا ضروری ہے۔

۵۴

مردے کی طرف سے اگر کوئی شخص ازخود نماز ادا کر دے تو وارث کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیمار آدمی قضائے عمری کو بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا بلکہ صحت کا انتظار کرےگا۔ ہاں اگر صحت سے مایوس ہو گیا ہے تو بیٹھ کر ہی ادا کرےگا۔عام طور سے جمعتہ الوداع کے دن چار رکعت نماز کو زندگی بھر کا کفارہ مشہور کر دیا گیا ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے بلکہ قضا کا ادا کرنا بہرحال ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ جہری نمازیں کون ہیں اور اخفائی کون ؟

۲ ۔ باپ کی نماز کس بیٹے پر واجب ہے ؟

۳ ۔ اجرت پر نماز پڑھنے والے کا کیا حکم ہے ؟

۵۵

ستائیسواں سبق

نماز کی غلطیاں

بھول

نماز مین غلطیوں کی دو صورتیں ہوتی ہیں ، بھول اور شک۔ بھول جانے کی صورت یہ ہے کہ انسان حالت نماز میں کسی واجب کے ادا کرنے سے غافل ہو جائے۔ ایسی صورت میں اگر بھولی بات اگلے رکن میں داخل ہونے سے پہلے یاد آ جائے تو فوراً پلٹ کر اسے بجا لائے اور اگر رکن میں داخل ہونے کے بعد یاد آئے جیسے رکوع میں پہونچکر سورہ حمد یا دوسرے سورہ کا بھول جانا یاد آیا تو ایسی حالت میں جس چیز کو بھولا ہے اگر وہ خود رکن نہیں ہے تو نماز کو آگے پڑھا دے اور بعد میں ہر بھولی ہوئی بات کے لئے دو سجدہ سہو کرے اور اگر بھولی ہوئی بات خود رکن تھی تو نماز باطل ہو گئی پھر سے پڑھے۔ اگر پلٹ کر واجب کو ادا کرنے میں کوئی زیادتی ہو گئی ہے تو اس زیادتی کے لئے بھی سجدہ سہو کرےگا۔ مثلا کھڑے ہو جانے کے بعد یاد آئے کہ تشہد نہیں پڑھا ہے تو فوراً بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے اور نماز کے بعد سجدہ سہو کرے اس لئے کہ کھڑا ہو کر پھر بیٹھنا پڑا اور تشہد کے بعد پھر کھڑا ہونا پڑا۔ اس زیادتی کے لئے سجدہ سہو کرنا ہوگا۔

۵۶

سجدہ سہو چھ اسباب سے واجب ہوگا۔

۱ ۔ بھولے سے درمیان نماز میں کلام کر لینا ایسے میں نماز باطل نہ ہوگی بلکہ سجدہ سہو کرےگا۔

۲ ۔ بے محل سلام پڑھ دینا۔

۳ ۔دوسرے سجدہ کے بعد چوتھی اور پانچویں رکعت یا حالت قیام میں چوتھی یا پانچویں یا یا پانچویں اور چھٹی رکعت میں شک کرنا۔

۴ ۔ ایک سجدہ کا بھول جانا دونوں کے بھولنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے اس لئے وہ رکن ہیں۔

۵ ۔ بے محل کھڑا ہو جانا جیسے کہ دوسری رکعت میں بجائے تشہد کے قیام کرنا۔ ایسے میں بیٹھ کر تشہد پڑھےگا۔ اور نماز کے بعد سجدہ سہو کرےگا۔

۶ ۔ خود تشہد کا فراموش کر دینا اور بعد والی رکعت کے رکوع میں جاکر یاد آنا۔

سجدہ سہو کی ترکیب

نماز کے ختم ہوتے ہی قبلہ سے منحرف ہوئے بغیر فوراً دل میں نیت کرے کہ دو سجدہ سہو فلاں غلطی کی بنا پر کرتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ اور یہ قصد کر کے فوراً سجدہ میں جائے اور یہ ذکر کرے " "بِسمِ اللهِ وَ بِاللهِ اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ اَيهُّا النَّنِیُ وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُهُ " پھر سر اٹھا کر دوبارہ سجدہ کرے اور یہی ذکر پڑھے پھر سر اٹھا کر تشہد و سلام پڑھ کر کلام تمام کرے۔

اگر نماز میں ایک سجدہ یا تشہد بھول گہا تھا تو خاتمہ نماز پر پہلے اس سجدہ یا تشہد کی قضا کرے، اس کے بعد سجدہ سہو کرے۔

۵۷

شک

نماز میں شک پیدا ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ کبھی شک کا تعلق نماز کے

افعال سے ہوتا ہے اور کبھی نماز کی رکعتوں سے۔ افعال میں شک کا مطلبیہ ہے کہ دوران نماز تکبیر کہنے ، حمد یا سورہ پڑھنے ، رکوع یا سجدہ کونے وغیرہ میں شک ہو جائے ، ایسی صورت کا حکم یہ ہے کہ اگر بعد والے عمل میں داخل ہونے کے بعد کسی پہلے والے فعل میں شک ہوا ہے تو اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی جائےگی بلکہ نماز کو صحیح قرار دیا جائےگا مثلا کسی شخص کو قل ھو اللہ احد پڑھتے وقت سورہ حمد کے پڑھنے میں شک ہو گیا تو وہ بجائے پلٹنے کے نماز آگے پڑھتا رہےگا اور انشاء اللہ صحیح رہےگی۔

رکعات میں شک کا مطلب یہ ہے کہ رکعتوں کی صحیح تعداد یاد نہ رہے اس شک کی بظاہر بہت سی صورتیں ہیں لیکن صرف ۹ صورتوں میں نماز صحیح ہو سکتی ہے۔ باقی تمام صورتوں میں باطل ہوگی۔ اس کا قاعدہ یہ ہے کہ شک پیدا ہوتے ہی دماغ پر زور دے کہ صحیح بات یاد کرنے کی کوشش کرے۔ اب اگر کوئی فیصلہ نہ کر سکے تو شریعت کی تفصیل یہ ہے۔

ان قوانین کی تفصیل یہ ہے :

۱ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد یہ شک ہو کہ یہ سجدہ دوسری رکعت کا تھا یا تیسری رکعت کا۔ ایسی صورت میں تیسری سمجھ کر اسی حساب سے نماز تمام کرے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے اس لئے کہ اگر واقعی دوسری رکعت تھی تو ایک ہی رکعت کی کمی ہوئی ہے۔

۵۸

۲ ۔تیسری اور چوتھی رکعت کے بارے میں کسی حالت میں شک ہو ۔ ایسے میں چوتھی قرار دے کر نماز تمام کرے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔

۳ ۔ دوسری سجدہ کے بعد دو اور چار میں شک ہو ۔ ایسے میں چوتھی رکعت ورار دے کر نمام تمام کرے اور دو رکعت نماز احتیاط پڑھے۔

۴ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد شک کرے کہ یہ رکعت دوسری تھی یا تیسری یا چوتھی ۔ ایسے میں چوتھی سمجھے اور پہلے دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پرھے پھر دو رکعت بیٹھ کر۔

۵ ۔ دوسرے سجدہ کے بعد شک ہو کہ یہ رکعت چوتھی تھی یا پانچویں ۔ ایسے میں نماز وہیں پر تمام کرے اور دو سجدہ سہو کرے۔

۶ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ چوتھی ہے یا پانچویں ۔ ایسے میں فوراً بیٹھ کر نماز تمام کر دے اور ایک رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۷ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ تیسری ہے یا پانچویں ۔ ایسے میں بیٹھا کر نماز ختم کر دے اور دو رکعت نماز احتیاط کھڑے ہو کر پڑھے۔ اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۸ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ تیاری ہے یا چوتھی یا پانچویں ۔ ایسے میں بیٹھ کر نماز تمام کر دے اور دو رکعت کھڑے ہو کر اور دو رکعت بیٹھ کر نماز احتیاط پڑھے۔ اور دو سجدہ سہو بھی کرے۔

۹ ۔ حالت قیام میں شک ہو کہ یہ پانچویں ہے یا چھٹی ۔ ایسے میں بیٹھ کر نماز تمام کرے اور دو سجدہ سہو کرے۔ نیز بنا پر احتیاط واجب بےجا قیام کے لئے دو سجدہ مزید کرے۔

۵۹

شک کے بارے میں یہ بات ضرور ہیش نظر رہنی چاہے کہ یہ سارے احکام صرف اس نماز کے لئے ہیں جس میں چار رکعتیں ہوتی ہیں۔ سہ رکعتی نماز یعنی مغرب اور دو رکعتی نماز یعنی صبح اور حالت سفر کی ظہر و عصر و عشا کا حکم یہ ہے کہ شک پیدا ہوتے ہی کسی مقدار میں غور کرے اگر کوئی بات یاد آ جائے تو اس پر عمل کرے ورنہ نماز کو اسی جگہ سے توڑ دے اور دوبارہ چروع کرے۔

نماز احتیاط

اس نماز کا طریقہ یہ ہے کہ اصل نماز کے ختم کرنے کے بعد فوراً ہی بلا فاصلہ نیت کرے کہ نماز احتیاط ایک رکعت یا دو رکعت پڑھتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ اس نیت کا زبان سے ادا کرنا جائز ہے۔ اس کے بعد فقط سورہ حمد اور وہ بھی آہستہ پڑھ کر رکوع اور سجدہ کرے اگر ایک رکعتی ہے تو تشہد و سلام پڑھ کر نماز تمام کر دے ورنہ دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھے اور سجدوں کے بعد تشہد و سلام ادا کر کے نماز ختم کر دے۔ نماز احتیاط میں الحمد کے علاوہ دوسرا سورہ یا قنوت نہیں پڑھا جاتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر نماز میں کسی واجب کو ادا کرنا بھول جائے تو کیا کرے ؟

۲ ۔ سجدہ سہو کہاں واجب ہوتا ہے ؟

۳ ۔ سجدہ سہو اور نماز احتیاط کی ترکیب بتاؤ ؟

۴ ۔ شک کی کتنی صورتوں میں نماز صحیح رہےگی ؟

۵ ۔ نماز احتیاط یا سجدہ سہو چھوڑ کر کیا نماز دوبارہ پڑھی جا سکتی ہے ؟

۶۰

اٹھئیسواں سبق

نماز جماعت

نماز جماعت اسلامی استحاد و مساوات کا بہترین نمونہ ہے شریعت نے اس کی بےحد تاکید کی ہے۔ جماعت کی ایک رکعت نماز کو راہ خدا میں ایک لاکھ دینار صدقہ دینے سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ نماز جماعت صرف واجب نمازوں کے لئے ہے سنتی نمازوں میں علاوہ نماز عیدین کے جماعت نہیں ہو سکتی۔ جماعت ہر واجب نماز میں مستحب ہے لیکن جمعہ اور ظہور امامؐ کے زمانہ کی عیدین میں واجب ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ ہر جماعت دو آدمیوں سے ہو جاتی ہے۔ ایک امام اور ایک ماموم لیکن ان دونوں نمازوں کی جماعت کے لئے پانچ آدمیوں کی قید ہے یعنی ایک امام اور چار ماموم۔

نماز پنچگانہ کی جماعت میں انسان کو اختیار ہے جس نماز کو چاہے دوسری نماز والے پیشنماز کے پیچھے پڑھ سکتا ہے۔ مثلا صبح کی قضا ظہر کی ادا کے ساتھ یا ظہر کی قضا مغربین کی ادا کے ساتھ پڑھی جا سکتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ نماز عیدین ، نماز آیات یا نماز میت پڑھنے والے کے ساتھ نماز یومیہ نہیں پڑھی جا سکتی اور نہ یہ نمازیں یومیہ پڑھنے والے کے پیچھے پڑھی جا سکتی ہیں۔ البتہ امام اور ماموم دونوں کی نماز ایک ہی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اس مقام پر چند باتیں قابل لحاظ ہیں۔

۱ ۔ جماعت ہمیشہ امام کے ساتھ پڑھی جائےگی کسی ماموم کی اقتدا کرنا جائز نہیں ہے۔

۲ ، امام کو صرف نیت کے ذریعہ معین کرے۔ نام و نسب ، رشتہ قرابتداری معلوم کرنے یا انگلی سے اشارہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

۶۱

۳ ۔ درمیان نماز میں ایک امام سے دوسرے امام کی طرف نیت نہیں بدلی جا سکتی لیکن اگر پہلا والا مر جائے یا بیہوش ہو جائے یا اس کی نماز باطل ہو جائے یا وصر ہونے کی وجہ سے ختم ہو جائے تو فوراً دوسرے امام کی نیت دل ہی دل میں کر لے اگر کوئی دوسرا موجود ہے ورنہ پھر فرادی نماز تمام کرے۔

۴ ۔ جماعت میں ضرورت کے وقت درمیان سے فرادی کی نیت کر سکتے ہیں لیکن اگر ایسا اَ ثنا قرائت میں کیا ہے تو حمد و سورہ پھر سے پڑھنا ہوگا۔

۵ ۔ نماز جماعت میں ایک رکعت شمار ہونے کے لئےرکوع میں شریک ضروری ہے۔ اور امام جماعت کے ساتھ قنوت اور تشہد پڑھنا ہوگا۔

۶ ۔ اگر رکوع تک پہونچ جانے کے خیال سے جماعت میں شامل ہو اور رکوع میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ امام نے ست اٹھا لیا ہے تو نماز باطل ہو جائےگی۔اور پھر سے شروع کرےگا لیکن اگر رکوع تک نہیں پہونچا ہے تو فرادیٰ پڑھ سکتا ہے۔

۶۲

شرائط جماعت

امام اور ماموم کے درمیان کوئی ایسی چیز جائز نہ ہو جس سے اتصال ختم ہو جائے اس لئے کہ ماموم کا امام تک براہ راست یا دیگر مامومین کے ذریعہ اتصال انتہائی ضروری ہے اتصال خواہ سامنے سے ہو یا دائیں بائیں سے۔ دیوار کے پیچھے کھڑے ہونے والے افراد کا سلسلہ اگر داہنے بائیں سے امام تک پہونچ جائے تو ان کی نماز صحیح ہے ورنہ بیکار۔ اگر ماموم مرد کے علاوہ عورت بھی ہو تو مرد عورت کے درمیان پردہ ہو سکتا ہے اور اس سے نماز پر کوئی اثر نہ پڑےگا۔ حائل اگر درمیان نماز میں پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے امام تک پہونچنے کا سلسلہ ٹوٹ جائے جیسے ایک سے زیادہ لوگ فرادیٰ کی نیت کر لیں اور ا س کاسلسلہ کسی اور طرف سے قائم نہ ہو سکے جیسا کہ پہلی صف میں ہوتا ہے تو ایسی حالت میں فرادیٰ کی نیت کر لینا چاہئے اور جماعت سے الگ ہوکر نماز تمام کرنا چاہئے البتہ اگر فرادیٰ والے لوگ دوسری رکعت سے پھر شریک ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۱ ۔ امام کی جگہ ماموم سے بلند نہ ہونی چاہئے۔ ماموم امام سے بلند ہو سکتا ہے خواہ کتنی ہی مقدار میں کیوں نہ بلند ہو بشرطیکہ نماز جماعت کی شکل باقی رہے۔ اگر امام کی جگہ ایک بالشت سے کم بلند ہے یا جگہ ڈہالو قسم کی ہے تو امام کی بلندی میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن یہ خیال رہے کہ ڈھال بھی زیادہ نہ ہو۔

۲ ۔ ماموم کی سجدہ گاہ اور امام کی جائے قیام میں ایک میٹر کا فاصلہ نہ ہو بلکہ یہی بات حتی الامکان آپس میں صفوں میں بھی ہونی چاہئے۔ ماموم کو امام سے مقدم نہ ہونا چاہئے بلکہ حتی الامکان برابر بھی نہ ہو۔

۶۳

شرائط پیشنماز

امام جماعت میں ایمان و عقل اور صحیح النسل ہونے کے علاوہ حسب ذیل شرائط لازم ہیں۔

۱ ۔ مردوں کے لئے امام مرد ہو ، عورت صرف عورتوں کی جماعت کو نماز پڑھا سکتی ہے

۲ ۔ امام عادل ہو اور اس کی عدالت کسی نہ کسی طرح سے معلوم ہو۔ نا معلوم شخص کے پیچھے نماز صحیح نہیں ہے البتہ اگر مامومین کے ذریعہ اطمینان پیدا ہو جائے تو نماز صحیح ہو جائےگی۔

۳ ۔ قرائت ( لہجہ ، زیر و زبر ) ٹھیک ہو ، ہاں اگر ماموم بھی امام ہی کی طرح کسی لفظ میں اٹک جاتا ہے تو دونوں کی آپس میں جماعت ہو سکتی ہے۔ جماعت امام ٹھیک سے ادا نہ کر سکے وہاں سے فرادی ہو کر خود پڑھے۔

پیشنماز کا علم میں ماموم سے بہتر ہونا یا اس کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔

۴ ۔ تیمم والا باوضو کو ، جبیرہ والا صحیح و سالم کو ، مجبوراً نجس لباس میں نماز پڑھنے والا پاک کپڑے والے کو نماز پڑھا سکتا ہے لیکن بیٹھ کر پڑھنے والا کھڑے ہو کر پڑھنے والے یا لیٹنے والا بیٹھنے والے کو نہیں پڑھا سکتا۔

اگر نماز کے بعد معلوم ہو کہ امام باقاعدہ امام نہ تھا تو نماز پر کوئی اثر نہ پڑےگا لیکن اگر جماعت کے بھروسے ایسی کمی ہو گئی ہے جو صرف جماعت میں روائے تو نماز کو پھر سے پڑھنا چاہئے۔

۶۴

احکام جماعت

۱ ۔ امام جماعت اپنے مامومین کی طرف سے سرف حمدہ سورہ کا ذمہ دار ہے اور وہ بھی اگر ماموم پہلی یا دوسری رکعت میں شریک ہو جائے ورنہ باقی اذکار کے ساتھ اسے خود ہی حمد و سورہ بھی پڑھنا ہوگا۔ اخفاتی نماز یعنی ظہر و عصر کی پہلی اور دوسری رکعت میں ماموم کےلئے قرائت ناجائز ہے۔ جہری نماز میں بھی اگر کسی طرح آواز پہونچتی ہے تو قرائت ناجائز ہے ہاں اگر آواز پہونچ پائے تو ماموم خود بھی حمد و سورہ پڑھ سکتا ہے۔

دوسری رکعت میں شریک ہونے والے امام کی تیسری رکعت میں قرائت خود ہی کرنا پڑےگی اسی طرح تیسری میں شرکت کرنے والے کو امام کی چوتھی رکعت میں بلکہ تیسری میں بھی اگر حالت قیام سے شرکت ہو گیا ہے تو قرائت خود ہی کرنا ہوگی۔ اس لئے بہتر ہے کہ رکوع سے شرکت کرے۔

۲ ۔ ماموم کو قرائت آہستہ کرنا چاہئے نماز جہری یعنی مغرب و عشا و صبح ہی کی کیوں نہ ہو جبکہ وہ آخری رکعتوں میں شریک ہوا ہے بلکہ اگر اس تک امام کی آواز پہلی دو رکعتوں میں نہیں پہونچتی ہے تو بھی جب قرائت کرے تو آہستہ کرے۔

۳ ۔ نماز کے افعال میں امام کی پیروی واجب ہے لیکن اقوال میں ماموم کو اختیار ہے۔ تکبیرۃ الاحرام اور سلام امام کے بعد ہی کہنا ہوگا۔

۶۵

۴ ۔ ایک نماز کو بلاوجہ دو مرتبہ نہیں پڑھ سکتی ہاں یہ ممکن ہے کہ فرادی پڑھ کر پھر اسے جماعت سے پڑھے لیکن دوبارہ نماز میں صرف قربت کی نیت کرنا چاہئے۔

۵ ۔ اگر ماموم ایک ہی ہے تو امام کے داہنے طرف ذرا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو لیکن اگر عورت ہے تو پیچھے ہی کھڑی ہوگی۔

سوالات :

۱ ۔ جماعت کن نمازوں میں واجب ہے ؟

۲ ۔ کیا نماز آیات کے ساتھ نماز یومیہ پڑھی جا سکتی ہے ؟

۳ ۔ نماز جماعت میں شریک ہرنے کا طریقہ کیا ہے ؟

۴ ۔ درمیان میں جماعت کی نیت بدلی جا سکتی ہے یا نہیں ؟

۵ ۔ پیش نماز کے شرائط بیان کرو ۔

۶۶

انتیسواں سبق

نماز قصر

سفر کی حالت میں چار رکعتی نماز قصر ہو جاتی ہے یعنی صرف دو رکعت رہ جاتی ہے۔ صبح سور مغرب کی نماز میں قصر جائز نہیں ہے۔ نماز کے قصر ہو جانے کی چند شرطیں یہ ہیں :

۱ ۔ شروع سے چوبیس میل شرعی یعنی تقریباً چوالیس کلو میٹر تک جانے کا ارادہ ہو یا آمد درفت ملاکر اتنی مسافت پوری ہو جاتی ہو۔ مسافت کا حساب آبادی کے آخری مکان سے ہوگا اور اگر کسی آدمی کا ارادہ اس سے کم کا ہو تو وہ قصر نہیں کر سکتا۔ چاہے تھوڑا تھوڑا کر کے اس سے زیادہ کیوں نہ ہو جائے۔

قصر کے لئے اختیاری سفر کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اگر کسی مجبور یا قیدی کو بھی یہ معلوم ہو جائے کہ مجھے اتنی مسافت تک زبردستی لے جایا جائےگا تو اسے بھی قصر کرنا ہوگا۔

۲ ۔ سفر کو جائز ہونا چاہئے ۔ حرام سفر میں قصر نہیں ہو سکتا خواہ سفر خود حرام ہو۔ جیسے غلام کا اپنے آقا سے فرار کر جانا یا مجاہد کا میدان جہاد سے بھاگ جانا یا سفر کی غرض و غایت حرام ہو جیسے قتل و غارت ، چوری و ڈاکہ زنی و زنا و شراب خوری ، جھوٹی گواہی یا سنیما کے لئے سفر کرنا ان تمام صورتوں میں نماز و روزہ قصر نہیں ہو سکتا۔

۳ ۔ سفر انسان کا پیشہ نہ ہو ۔ وہ لوگ جن کا کاروبار ہی سفر ہے جیسے ڈرائور ، ملاح ، پائلٹ ، اجینٹ وغیرہ ان کا فریضہ ہے کہ اپنے سفر میں قصر نہ کریں بشرطیکہ اس سفر کا تعلق پیشہ سے ہو لیکن اگر یہی لوگ اپنے کاروبار سے الگ پرائویٹ کام کے لئے سفر کریں گے تو یہ بھی قصر کریںگے ، جیسے ان لوگوں کا زیارت کے لئے سفر کرنا۔

۶۷

۴ ۔ انسان خانہ بدوش نہ ہو ۔ خانہ بدوش آدمی جب تک اپنی زندگی کے لئے سفر کرتا رہے گا نماز پوری پڑھےگا لیکن جب اپنی زندگی کے علاوہ کسی اور کام کے لئے سفر کرےگا تو وہ بھی نماز قصر کرےگا۔

۵ ۔ مسافر اس جگہ سے آگے نکل جائے جہاں تک شہر کا آخری گھر دکھائی دیتا ہے یا آخری مکان میں ہونے والی اذان کی آواز سنائی دیتی ہے کیونکہ اس علاقہ کے اندر قصر کرنا ناجائز ہے۔ وہ لوگ جو سفر کے لئے صبح ہی سے روزہ توڑ دیتے ہیں اور اس کے بعد گھر سے نکلتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں انھیں اس روزہ کا کفارہ دینا پڑےگا۔ روزہ مذکورہ بلاحدود سے نکلنے کے بعد ہی ٹوٹ سکتا ہے۔ اگر آبادی کافی بلندی پر ہے تو اس کا حساب نہیں ہوگا بلکہ عام بستیوں کے اعتبار سے قصر و اتمام کا معملہ لیا جائےگا۔

۶ ۔ درمیان سفر میں ایسی جگہ نہ پہونچے جو اس کا وطن ہو یا جہاں دس دن قیام کا ارادہ ہے اس لئے کہ ایسی جگہ پہونچنے پر قصر نہیں ہو سکتا۔

وطن وہ جگہ ہے کہ جہاں انسان پیدا ہوا ہے یا زندگی گزارنے کا ارادہ رکھتا ہے ایک آدمی کے دو وطن بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر اس کا ارادہ انھیں دو جگیوں پر زنگدی گزار دینے کا ہے۔ قدیم وطن ترک بھی ہو سکتا ہے اگر اس سے کنارہ کشی کر کے بے تعلقی پیدا کر لے جیسے بعض مہاجرین ایسا کرتے ہیں۔

اگر کسی آدمی نے دس دن کے ارادہ سے ایک نماز پوری پڑھ لی اور بعد میں رائے بدل گئی تو بہرحال نماز پوری ہی رہےگی جب تک کہ دوسرا سفر شروع نہ ہو جائے۔

۶۸

اگر کسی شخص نے قصر کی نیت سے نماز شروع کی اور درمیان میں رائے بدل گئی تو چار پوری کر دے اور اگر پوری کے ارادے سے شروع کی اور رائے بدل گئی تو تیسری رکعت کے رکوع سے پہلے پہلے قصر کر کے ختم کر دے لیکن تیسری رکعت کے رکوع میں پہونچنے کے بع رائے بدلی تو وہ نماز توڑ کر پھر سے شروع کرےگا۔

احکام سفر

۱ ۔ جو آدمی جانتا ہی نہیں ہے کہ نماز و روزہ قصر بھی ہوتا ہے وہ اگر غلط بھی پڑھ دےگا تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن جو شخص قصر و ایمان کو جانتا ہے اور اس کے احکام سے ناواقف ہے اس کی غلطی معاف نہ ہوگی بلکہ اسے قضا ادا کرنا پڑےگی۔

بھول کر قصر کی جگی تمام اور تمام کی جگہ قصر پڑھنے والے کا فرض ہے کہ اگر وقت کے اندر یاد آ جائے تو دوبارہ پڑھے وقت نکلنے کے بعد قضا کی ضرورت نہیں ہے۔

۲ ۔ قصر و تمام نماز ادا کرنے کا وقت دیکھا جائےگا لہذا اگر وقت آنے کے بعد سفر کیا ہے اور نماز نہیں پڑھی ہے تو قصر پڑھےگا اور اگر وقت باقی رہتے ہوئے سفر سے گھر آ گیا ہے تو پوری پڑھےگا۔

۳ ۔ مسجد کوفہ میں اور روضہ حضرت امام حسین علیہ السلام میں ضریح کے نزدیک اور پورے شہر مدینہ اور مکہ میں مسافر کو اختیار رہے کہ نماز پوری پڑھے یا قصر کرے۔ ان مقامات کے علاوہ کسی اور جگہ کے لئے یہ اختیار نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ نماز کتنی مسافت کے بعد قصر ہوتی ہے ؟

۲ ۔ قصر کے شرائط کیا ہیں ؟

۳ ۔ حد ترخص کے کیا معنی ہیں ؟

۴ ۔ کس جگہ قصر اور تمام دونوں کا اختیار ہے ؟

۶۹

اخلاق

۱ ۔ اصلاح نفس

۲ ۔ اصلاح معاشرہ

۷۰

تیسواں سبق

توفیق

ہم اپنی زندگی میں صبح و شام اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں کہ فلاں شخص کو خدا نے نیکی کی توفیق دی ہے اور فلاں کو توفیق نہیں دی۔

اگر اللہ توفیق دیدے تو ہم ایک مسجد بنوا دیں ، ایک امامباڑہ تعمیر کرا دیں ، ایک ہسپتال قائم کرا دیں ، دریا پر ایک پل تیار کرا دیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس توفیق کا مطلب کیا ہے۔

توفیق کے معنی ہیں نیکی کے لئے حالات پیدا کر دینا اور اس کے سامان فراہم کر دینا۔ پروردگار عالم جب کسی بندے کے کسی عمل سے خوش ہو جاتا ہے تو اس کے لئے زیادہ سے زیادہ نیکی کرنے کے سامان فراہم کر دیتا ہے اور اسی کا نام توفیق ہے۔

یہ شکایت کرنا غلط ہے کہ خدا نے ہمیں نماز پڑھنے کی توفیق نہیں دی یا روزہ رکھنے کی توفیق نہیں دی۔ یہ خدا وناد عالم پر بہت بڑا بہتان ہے۔ وہ ہر بندے کو ہر وقت توفیق دینے کے لئے تیار ہے۔ شرط یہ ہے کہ بندہ اپنے کو توفیق حاصل کرنے کے لائق بنا لے۔

غلطی پر اڑا رہنے والا آدمی کبھی توفیق کے لائق نہیں ہوتا اور اللہ اس سے اپنی توفیق کو چھین لیتا ہے اس کی غلطیوں کی ساری ذمہ داری اسی کے سر ہوتی ہے خدا پر کوئی الزام نہیں لگایا جا سکتا۔

سوالات :

۱ ۔ توفیق کیا ہے ؟ ۲

۔ توفیق کب ملتی ہے ؟

۳ ۔ بعض لوگوں کو توفیق کیوں نہیں ملتی ؟

۷۱

اکتیسواں سبق

خلوص

پروردگار عالم نے انسان کو پیدا کر کے اپنے اعمال میں آزاد بنا دیا ہے۔ اسے اختیار ہے چاہے نیکی کے راستے پر چلے یا برائی کے راستے پر لیکن یہ بتا دیا ہے کہ اگر نیکی کے راستے پر چلنا ہے تو خلوص سے چلنا ہاگا اپنے دل کی تسکین یا دنیا کو دکھانے کے لئے نیکی کرنے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

ہمارے مولیٰ اور آقا حضرت علی علیہ السلام کا واقعہ مشہور ہے کہ کہ آپ جنگ خندق میں جب اپنے دشمن عمرد بن عبدود کے سینے پر سوار ہو گئے تو اُس نے آپ کی طرف تھوک دیا۔ آپ اس کے سینے سے اُتر آئے اور تھوڑی دیر کے بعد سر کاٹا تو لوگوں نے شکایت کی یا علیؐ اتنا اچھا موقع پانے کے بعد آپ نے دشمن کو کیوں چھوڑ دیا۔ اگر وہ اٹھ کر بھاگ جاتا تو آپ کیا کرتے ؟

آپ نے فرمایا اُس نے میری شان میں بے ادبی کی تھی اور ظاہر ہے کہ یہ غصہ دلانے والی چیز ہے اب اگر میں سر کاٹ لیتا تو اللہ کی مرضی میں میرا غصہ بھی شامل سمجھ لیا جاتا۔ اس لئے میں دشمن کے سینے سے اُتر آیا کہ جو کام ہو وہ صرف اللہ کے لئے ہو اس میں بندوں کی کوئی پسند یا ناپسند شامل نہ ہو۔

عمل کے اسی طریقہ کا نام خلوص ہے۔ پروردگار عالم عمل میں خلوص ہی کو پسند کرتا ہے۔ جس کا جتنا خلوص ہوتا ہے اسے اعمال پر اتنا ہی ثواب ملتا ہے وہ سیکڑوں رکعت نماز ہزاروں فقیروں کی امداد نہیں دیکھتا بلکہ دل کے خلوص کو دیکھتا ہے۔ خلوص ہے تو یہ سب لائق ثواب ہے اور خلوص نہیں ہے تو سب بیکار ہے۔

سوالات :

۱ ۔ خلوص کیا ہے ؟

۲ ۔ بغیر خلوص عمل کا کیا انجام ہوتا ہے ؟

۳ ۔ کسی پر خلوص عمل کی مشال دو ؟

۷۲

بتیسواں سبق

اچھی زندگی

ہمارے مذہب نے اپنے ماننے والوں کو سب سے بڑی تعلیم یہ دی ہے کہ انھیں اس دنیا میں اچھی اور پاکیزہ زندگی گزارنا چاہئے۔ اچھی زندگی گزارنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو باتیں انسان کے ذمہ ہیں انھیں ادا کرے جن باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے ان کے نزدیک نہ جائے۔ کدا کے حقوق کا بھی خیال رکھے اور انسانوں کے حقوق کا بھی۔

رسولؐ کریم نے رسالت کے اعلان کے ساتھ ہی یہ بتا دیا تھا کہ میں دنیا کو نیک کردار سکھانے کےلئے ّیا ہوں جس نے نیک کردار نہیں سکھایا اس کو اسلام سے کچھ نہیں ملا۔

اسی کردار کے سدھار کے لئے اسلام نے چھوٹی بڑی برائیوں کی فہرست بتا دی تاکہ انسان ان برائیوں سے پرہیز کرے اور اپنی زندگی کو پاکیزہ بنا کر گزارے۔ انھیں چھوٹی بڑی برائیوں کا نام گناہ کبیرہ و صغیرہ ہے۔ گناہ صغیرہ وہ گناہ ہے جس پر جہنم کا عذاب رکھا گیا ہے۔ گناہ کبیرہ میں چند باتیں ہیں جن سے بچنا ہم سب کا فرض ہے تاکہ ہم اچھی زندگی گزار سکیں اور ہماری وجہ سے کسی دوسرے بندہ خدا کو کوئی تکلیف نہ ہو۔

۱ ۔ کسی کو خدا کا شریک بنانا۔ ۲ ۔ ناحق قتل کرنا۔ ۳ ۔ یتیموں کا مال کھانا۔ ۴ ۔ زنا کرنا ۔ ۵ ۔ والدین کی نافرمانی کرنا ۔ ۶ ۔ سود لینا ۔ ۷ ۔ جھوٹی قسم کھانا ۔ ۸ ۔ شراب پینا ۔ ۹ ۔ جوا کھیلنا ۔ ۱۰ ۔ بدکاری کرنا ۔ ۱۱ ۔ خدا کی رحمت سے مایوس ہونا ۔ ۱۲ ۔ خدا کے عذاب سے بےخوف ہونا ۔ ۱۳ ۔ گانا بجانا ۔ ۱۴ ۔ غیبت کرنا ۔ ۱۵ ۔ جھوٹ بولنا ۔ ۱۶ ۔ مردار کا گوشت کھانا ۔ ۱۷ ۔ ستار ، طمبورہ باجہ وغیرہ میں مشغول رہنا۔ ۱۸ ۔ رشوت لینا۔ ۱۹ ۔ ظالم کی مدد کرنا۔ ۲۰ ۔ چوری کرنا ۔ ۲۱ ۔ غریوں سے اچھا سلوک نہ کرنا۔ ۲۲ ۔ پیشاب کی نجاست سے نہ بچنا۔ ۲۳ ۔ ایسا کام کرنا جس کام کر کرنے والے کو ماں باپ کو لوگ گالی دیں ۔ ۲۴ ۔ خدائی فیصلوں پر اعتراض کرنا۔ ۲۵ ۔ غرور و تکبر کرنا۔ ۲۶ ۔ مہمان کو تکلیف پہونچنا۔ ۲۷ ۔ اہل و عیال کی خبر نہ لینا۔ ۲۸ ۔ شراب پینے کی جگہ پر بیٹھنا۔ ۲۹ ۔ گالی بکنا ، فحش باتیں کرنا۔ ۳۰ ۔ نجس یا حرام چیزیں کھانا وغیرہ۔

۷۳

تینتیسواں سبق

ذوالعشیرہ کا واقعہ

جب پروردگار عالم نے رسولؐ خدا کو کھل کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا اور یہ ہدایت کی کہ اسے رسولؐ سب سے پہلے قریبی رشتہ داروں میں تبلیغ کیجیئے تو حضرت علیؐ کو رسولؐ خدا نے خاندان عبد المطلبؐ کے تمام مردوں کے پاس یہ پیغام لے کر بھیجا کہ میرے چچازاد بھائی محمد مصطفےٰ نے تم کو دعوت میں بلایا ہے۔ دوسرے دن چالیس آدمی حضرت کے پاس آئے۔ آپ نے پہلے سب کو کھانا کھلایا اور کھانے کے بعد تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے۔ لیکن ابو لہب کے بھڑکانے پر تمام لوگ تقریر سنے بغیر چلے گئے ۔آپ نے حضرت علیؐ کو بھیج کر دوسرے دن پھر سب کو بلایا اور پہلے کھانا کھلایا پھر سب کے سامنے اسلام کو پیش کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کون شخص ہدایت کے کاموں میں میری مدد کرنے پر تیار ہے۔ جو شخص میری مدد کرےگا وہ میرا بھائی ، وصی ، وزیر اور خلیفہ ہوگا اور لوگوں پر میری طرف سے حاکم ہوگا۔

حضرت علیؐ فوراً کھڑے ہو گئے اور آپ نے رسولؐ خدا کی مدد کا وعدہ کیا۔ رسولؐ خدا نے فرمایا چونکہ علیؐ نے میری مدد کا وعدہ کیا ہے لہذا یہ میرے بھائی ، وصی ، وزیر اور خلیفہ ہیں اور میری طرف سے م لوگوں پر حاکم ہیں۔ ان کے احکام کو سنو اور ان کی اطاعت کرو۔

اس واقعہ کا نام دعوت ذوالعشیرہ ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولؐ خدا نے حضرت علیؐ کو تبلیغ کے پہلے دن ہی اپنا خلیفہ مقرر کر دیا تھا اور سب لوگوں پر آپ کی اطاعت واجب کر دی تھی۔

سوالات :

۱ ۔ ذوالعشیرہ کا واقعہ بتاؤ ؟

۲ مجمع کس کے بھڑکانے پر تقریر سنے بغیر چلا گیا تھا ؟

۳ ۔ دعوت ذوالعشیرہ میں رسولؐ خدا نے کس کو اپنا جانشین بنایا ؟

۷۴

چونتیسواں سبق

غدیر خم

پیغمبرؐ اسلام کی زندگی کا آخری زمانہ ہے۔ آپ ّخری حج کے لئے مکہ معظمہ کی طرف تشریف لے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں میں یہ خبر عام ہو چکی ہے۔ دنیا کے ہر گوشے سے مسلمان اللہ کے گھر کا طواف کرنے اور حضور کی زیارت کے شوق میں جوق در جوق چلے آ رہے ہیں۔

حج کا وقت آتے آتے مکہ معظمہ میں لاکھوں مسلمان جمع ہو گئے اور حضورؐ کے ساتھ حج کے اعمال بجا لائے۔ حج سے فارغ ہونے کے بعد حضورؐ نے مدینہ کا رخ کیا۔ مسلمانوں کے قافلے آپ کے ساتھ چلے۔ ہر دل میں شوق ہے کہ جتنا وقت بھی حضورؐ کی خدمت میں گزر جائے اپنی خوش قسمتی ہے۔

چلتے چلتے قافلہ غدیر خم کے چوراہے پر پہونچ گیا جہاں سے قافلوں کے رستے الگ الگ ہو جاتے تھے۔ مسلمان اپنے اپنے راستہ جانا ہی چاہتے تھے کہ جبرئیل امین خدا کا پیغام لےکر حضورؐ کی خدمت میں پہونچ گئے۔ " میری رسولؐ اُس پیغام کو پہونچا دو جو ہم پہلے تمہیں بتا چکے ہیں اور اگر یہ پیغام تم نے نہیں پہونچایا تو گویا رسالت کا کوئی کام ہی نہیں کیا۔ میرے رسولؐ ! پیغام کے پہونچانے میں گھبرانا نہیں ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار ہیں "۔

۷۵

یہ حکم سنتے ہی حضورؐ نے قافلہ کو رکنے کا حکم دیا۔ جو مسلمان آگے بڑھ گئے تھے وہ واپس بلائے گئے جو پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظار کیا گیا۔ یہاں تک کہ سوا لاکھ کلمہ پڑھنے والوں کا مجمع ہا گیا۔ حضورؐ کے حکم سے اونٹوں کے کجاؤوں کا ممبر تیار کیا گیا اور آپ اس پر تشریف لے گئے اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد مجمع سے سوال کیا۔ مسلمانوں بتاؤ ۔ کیا میں تمہارا حاکم نہیں ہوں ؟ سارے مجمع نے یک زبان ہو کر اقرار کیا کہ حضورؐ ہی ہمارے حاکم ہیں ۔ اس اقرار کے بعد حضورؐ نے امیر المومنین علی بن ابطالب علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کیا اور فرمایا یاد رکھو جس کا میں حاکم ہوں اس کا یہ علیؐ حاکم ہیں ۔"

اس واقعہ کو واقعہ غدیر خم کہا جاتا ہے جو ا ۱۸/ ذی الحجہ ۱۰ ھ؁ کو پیش آیا۔ جس کے بعد حضورؐ صرف دو مہینے دس دن زندہ رہے اور ۲۸/ صفر ۱۱ ھ؁ کو رحلت فرمائی۔

سوالات :

۱ ۔ واقعہ غدیر خم بیان کرو ؟

۲ ۔ غدیر میں کس چیز کا ممبر بنایا گیا تھا ؟

۳ ۔ حضورؐ کے انتقال کی تاریخ اور سن بتاؤ ؟

۷۶

فہرست

معلمّ کے لئے ہدایت ۴

پہلا سبق ۵

ضرورت مذہب ۵

سوالات : ۵

دوسرا سبق ۶

کیا خدا نہیں ہے ؟ ۶

سوالات : ۶

تیسرا سبق ۷

اگر دو خدا ہوتے ۷

سوالات : ۷

چوتھا سبق ۸

غیب پر ایمان ۸

سوالات : ۹

پانچواں سبق ۱۰

توکل ۱۰

سوالات : ۱۱

چھٹا سبق ۱۲

عدل ۱۲

سوالات : ۱۳

۷۷

ساتواں سبق ۱۴

نبوت ۱۴

سوالات : ۱۵

آٹھواں سبق ۱۶

نبی کے اوصاف ۱۶

سوالات :ؒ ۱۶

نواں سبق ۱۷

نبی کی پہچان ۱۷

سوالات : ۱۸

دسواں سبق ۱۹

ہمارے آخری نبیؐ ۱۹

سوالات : ۲۱

گہارہواں سبق ۲۲

عصمت ۲۲

سوالات : ۲۲

بارہواں سبق ۲۳

چودہ معصومؐ ۲۳

سوالات : ۲۴

تیرہواں سبق ۲۵

امامت ۲۵

۷۸

سوالات : ۲۶

چودھواں سبق ۲۷

امام کا ہونا ضروری ہے ۲۷

سوالات : ۳۰

پندرہواں سبق ۳۱

دنیا کا آخری انجام ۳۱

قیامت کی علامتیں : ۳۱

سوالات : ۳۱

فروع دین ۳۲

سولہواں سبق ۳۲

نماز ۳۲

ہمارا فریضہ :۔ ۳۲

سوالات : ۳۳

ستررہواں سبق ۳۴

معصومینؐ کی نمازیں ۳۴

نبی کی نماز :۔ ۳۴

پہلے امامؐ کی نماز :۔ ۳۴

تیسرے امامؐ کی نماز :۔ ۳۴

چوتھے امامؐ کی نماز :۔ ۳۵

نماز کی شان :۔ ۳۵

۷۹

سوالات : ۳۶

اٹھارہواں سبق ۳۷

واجب نمازیں ۳۷

شرائط نماز ۳۸

سوالات : ۳۸

انیسواں سبق ۳۹

قبلہ ۳۹

سوالات : ۳۹

بیسواں سبق ۴۰

لباس ۴۰

سوالات : ۴۱

اکیسواں سبق ۴۲

مکان ۴۲

سوالات : ۴۳

بائیسواں سبق ۴۴

اذان و اقامت ۴۴

سوالات : ۴۵

تئیسواں سبق ۴۶

واجبات نماز ۴۶

نیت : ۴۶

۸۰

81

82

83