امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم جلد ۴

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم 0%

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 83

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم

مؤلف: تنظیم المکاتب
زمرہ جات:

صفحے: 83
مشاہدے: 51719
ڈاؤنلوڈ: 2605


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 83 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 51719 / ڈاؤنلوڈ: 2605
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم جلد 4

مؤلف:
اردو

اٹھئیسواں سبق

نماز جماعت

نماز جماعت اسلامی استحاد و مساوات کا بہترین نمونہ ہے شریعت نے اس کی بےحد تاکید کی ہے۔ جماعت کی ایک رکعت نماز کو راہ خدا میں ایک لاکھ دینار صدقہ دینے سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ نماز جماعت صرف واجب نمازوں کے لئے ہے سنتی نمازوں میں علاوہ نماز عیدین کے جماعت نہیں ہو سکتی۔ جماعت ہر واجب نماز میں مستحب ہے لیکن جمعہ اور ظہور امامؐ کے زمانہ کی عیدین میں واجب ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ ہر جماعت دو آدمیوں سے ہو جاتی ہے۔ ایک امام اور ایک ماموم لیکن ان دونوں نمازوں کی جماعت کے لئے پانچ آدمیوں کی قید ہے یعنی ایک امام اور چار ماموم۔

نماز پنچگانہ کی جماعت میں انسان کو اختیار ہے جس نماز کو چاہے دوسری نماز والے پیشنماز کے پیچھے پڑھ سکتا ہے۔ مثلا صبح کی قضا ظہر کی ادا کے ساتھ یا ظہر کی قضا مغربین کی ادا کے ساتھ پڑھی جا سکتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ نماز عیدین ، نماز آیات یا نماز میت پڑھنے والے کے ساتھ نماز یومیہ نہیں پڑھی جا سکتی اور نہ یہ نمازیں یومیہ پڑھنے والے کے پیچھے پڑھی جا سکتی ہیں۔ البتہ امام اور ماموم دونوں کی نماز ایک ہی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اس مقام پر چند باتیں قابل لحاظ ہیں۔

۱ ۔ جماعت ہمیشہ امام کے ساتھ پڑھی جائےگی کسی ماموم کی اقتدا کرنا جائز نہیں ہے۔

۲ ، امام کو صرف نیت کے ذریعہ معین کرے۔ نام و نسب ، رشتہ قرابتداری معلوم کرنے یا انگلی سے اشارہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

۶۱

۳ ۔ درمیان نماز میں ایک امام سے دوسرے امام کی طرف نیت نہیں بدلی جا سکتی لیکن اگر پہلا والا مر جائے یا بیہوش ہو جائے یا اس کی نماز باطل ہو جائے یا وصر ہونے کی وجہ سے ختم ہو جائے تو فوراً دوسرے امام کی نیت دل ہی دل میں کر لے اگر کوئی دوسرا موجود ہے ورنہ پھر فرادی نماز تمام کرے۔

۴ ۔ جماعت میں ضرورت کے وقت درمیان سے فرادی کی نیت کر سکتے ہیں لیکن اگر ایسا اَ ثنا قرائت میں کیا ہے تو حمد و سورہ پھر سے پڑھنا ہوگا۔

۵ ۔ نماز جماعت میں ایک رکعت شمار ہونے کے لئےرکوع میں شریک ضروری ہے۔ اور امام جماعت کے ساتھ قنوت اور تشہد پڑھنا ہوگا۔

۶ ۔ اگر رکوع تک پہونچ جانے کے خیال سے جماعت میں شامل ہو اور رکوع میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ امام نے ست اٹھا لیا ہے تو نماز باطل ہو جائےگی۔اور پھر سے شروع کرےگا لیکن اگر رکوع تک نہیں پہونچا ہے تو فرادیٰ پڑھ سکتا ہے۔

۶۲

شرائط جماعت

امام اور ماموم کے درمیان کوئی ایسی چیز جائز نہ ہو جس سے اتصال ختم ہو جائے اس لئے کہ ماموم کا امام تک براہ راست یا دیگر مامومین کے ذریعہ اتصال انتہائی ضروری ہے اتصال خواہ سامنے سے ہو یا دائیں بائیں سے۔ دیوار کے پیچھے کھڑے ہونے والے افراد کا سلسلہ اگر داہنے بائیں سے امام تک پہونچ جائے تو ان کی نماز صحیح ہے ورنہ بیکار۔ اگر ماموم مرد کے علاوہ عورت بھی ہو تو مرد عورت کے درمیان پردہ ہو سکتا ہے اور اس سے نماز پر کوئی اثر نہ پڑےگا۔ حائل اگر درمیان نماز میں پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے امام تک پہونچنے کا سلسلہ ٹوٹ جائے جیسے ایک سے زیادہ لوگ فرادیٰ کی نیت کر لیں اور ا س کاسلسلہ کسی اور طرف سے قائم نہ ہو سکے جیسا کہ پہلی صف میں ہوتا ہے تو ایسی حالت میں فرادیٰ کی نیت کر لینا چاہئے اور جماعت سے الگ ہوکر نماز تمام کرنا چاہئے البتہ اگر فرادیٰ والے لوگ دوسری رکعت سے پھر شریک ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔

۱ ۔ امام کی جگہ ماموم سے بلند نہ ہونی چاہئے۔ ماموم امام سے بلند ہو سکتا ہے خواہ کتنی ہی مقدار میں کیوں نہ بلند ہو بشرطیکہ نماز جماعت کی شکل باقی رہے۔ اگر امام کی جگہ ایک بالشت سے کم بلند ہے یا جگہ ڈہالو قسم کی ہے تو امام کی بلندی میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن یہ خیال رہے کہ ڈھال بھی زیادہ نہ ہو۔

۲ ۔ ماموم کی سجدہ گاہ اور امام کی جائے قیام میں ایک میٹر کا فاصلہ نہ ہو بلکہ یہی بات حتی الامکان آپس میں صفوں میں بھی ہونی چاہئے۔ ماموم کو امام سے مقدم نہ ہونا چاہئے بلکہ حتی الامکان برابر بھی نہ ہو۔

۶۳

شرائط پیشنماز

امام جماعت میں ایمان و عقل اور صحیح النسل ہونے کے علاوہ حسب ذیل شرائط لازم ہیں۔

۱ ۔ مردوں کے لئے امام مرد ہو ، عورت صرف عورتوں کی جماعت کو نماز پڑھا سکتی ہے

۲ ۔ امام عادل ہو اور اس کی عدالت کسی نہ کسی طرح سے معلوم ہو۔ نا معلوم شخص کے پیچھے نماز صحیح نہیں ہے البتہ اگر مامومین کے ذریعہ اطمینان پیدا ہو جائے تو نماز صحیح ہو جائےگی۔

۳ ۔ قرائت ( لہجہ ، زیر و زبر ) ٹھیک ہو ، ہاں اگر ماموم بھی امام ہی کی طرح کسی لفظ میں اٹک جاتا ہے تو دونوں کی آپس میں جماعت ہو سکتی ہے۔ جماعت امام ٹھیک سے ادا نہ کر سکے وہاں سے فرادی ہو کر خود پڑھے۔

پیشنماز کا علم میں ماموم سے بہتر ہونا یا اس کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔

۴ ۔ تیمم والا باوضو کو ، جبیرہ والا صحیح و سالم کو ، مجبوراً نجس لباس میں نماز پڑھنے والا پاک کپڑے والے کو نماز پڑھا سکتا ہے لیکن بیٹھ کر پڑھنے والا کھڑے ہو کر پڑھنے والے یا لیٹنے والا بیٹھنے والے کو نہیں پڑھا سکتا۔

اگر نماز کے بعد معلوم ہو کہ امام باقاعدہ امام نہ تھا تو نماز پر کوئی اثر نہ پڑےگا لیکن اگر جماعت کے بھروسے ایسی کمی ہو گئی ہے جو صرف جماعت میں روائے تو نماز کو پھر سے پڑھنا چاہئے۔

۶۴

احکام جماعت

۱ ۔ امام جماعت اپنے مامومین کی طرف سے سرف حمدہ سورہ کا ذمہ دار ہے اور وہ بھی اگر ماموم پہلی یا دوسری رکعت میں شریک ہو جائے ورنہ باقی اذکار کے ساتھ اسے خود ہی حمد و سورہ بھی پڑھنا ہوگا۔ اخفاتی نماز یعنی ظہر و عصر کی پہلی اور دوسری رکعت میں ماموم کےلئے قرائت ناجائز ہے۔ جہری نماز میں بھی اگر کسی طرح آواز پہونچتی ہے تو قرائت ناجائز ہے ہاں اگر آواز پہونچ پائے تو ماموم خود بھی حمد و سورہ پڑھ سکتا ہے۔

دوسری رکعت میں شریک ہونے والے امام کی تیسری رکعت میں قرائت خود ہی کرنا پڑےگی اسی طرح تیسری میں شرکت کرنے والے کو امام کی چوتھی رکعت میں بلکہ تیسری میں بھی اگر حالت قیام سے شرکت ہو گیا ہے تو قرائت خود ہی کرنا ہوگی۔ اس لئے بہتر ہے کہ رکوع سے شرکت کرے۔

۲ ۔ ماموم کو قرائت آہستہ کرنا چاہئے نماز جہری یعنی مغرب و عشا و صبح ہی کی کیوں نہ ہو جبکہ وہ آخری رکعتوں میں شریک ہوا ہے بلکہ اگر اس تک امام کی آواز پہلی دو رکعتوں میں نہیں پہونچتی ہے تو بھی جب قرائت کرے تو آہستہ کرے۔

۳ ۔ نماز کے افعال میں امام کی پیروی واجب ہے لیکن اقوال میں ماموم کو اختیار ہے۔ تکبیرۃ الاحرام اور سلام امام کے بعد ہی کہنا ہوگا۔

۶۵

۴ ۔ ایک نماز کو بلاوجہ دو مرتبہ نہیں پڑھ سکتی ہاں یہ ممکن ہے کہ فرادی پڑھ کر پھر اسے جماعت سے پڑھے لیکن دوبارہ نماز میں صرف قربت کی نیت کرنا چاہئے۔

۵ ۔ اگر ماموم ایک ہی ہے تو امام کے داہنے طرف ذرا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو لیکن اگر عورت ہے تو پیچھے ہی کھڑی ہوگی۔

سوالات :

۱ ۔ جماعت کن نمازوں میں واجب ہے ؟

۲ ۔ کیا نماز آیات کے ساتھ نماز یومیہ پڑھی جا سکتی ہے ؟

۳ ۔ نماز جماعت میں شریک ہرنے کا طریقہ کیا ہے ؟

۴ ۔ درمیان میں جماعت کی نیت بدلی جا سکتی ہے یا نہیں ؟

۵ ۔ پیش نماز کے شرائط بیان کرو ۔

۶۶

انتیسواں سبق

نماز قصر

سفر کی حالت میں چار رکعتی نماز قصر ہو جاتی ہے یعنی صرف دو رکعت رہ جاتی ہے۔ صبح سور مغرب کی نماز میں قصر جائز نہیں ہے۔ نماز کے قصر ہو جانے کی چند شرطیں یہ ہیں :

۱ ۔ شروع سے چوبیس میل شرعی یعنی تقریباً چوالیس کلو میٹر تک جانے کا ارادہ ہو یا آمد درفت ملاکر اتنی مسافت پوری ہو جاتی ہو۔ مسافت کا حساب آبادی کے آخری مکان سے ہوگا اور اگر کسی آدمی کا ارادہ اس سے کم کا ہو تو وہ قصر نہیں کر سکتا۔ چاہے تھوڑا تھوڑا کر کے اس سے زیادہ کیوں نہ ہو جائے۔

قصر کے لئے اختیاری سفر کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اگر کسی مجبور یا قیدی کو بھی یہ معلوم ہو جائے کہ مجھے اتنی مسافت تک زبردستی لے جایا جائےگا تو اسے بھی قصر کرنا ہوگا۔

۲ ۔ سفر کو جائز ہونا چاہئے ۔ حرام سفر میں قصر نہیں ہو سکتا خواہ سفر خود حرام ہو۔ جیسے غلام کا اپنے آقا سے فرار کر جانا یا مجاہد کا میدان جہاد سے بھاگ جانا یا سفر کی غرض و غایت حرام ہو جیسے قتل و غارت ، چوری و ڈاکہ زنی و زنا و شراب خوری ، جھوٹی گواہی یا سنیما کے لئے سفر کرنا ان تمام صورتوں میں نماز و روزہ قصر نہیں ہو سکتا۔

۳ ۔ سفر انسان کا پیشہ نہ ہو ۔ وہ لوگ جن کا کاروبار ہی سفر ہے جیسے ڈرائور ، ملاح ، پائلٹ ، اجینٹ وغیرہ ان کا فریضہ ہے کہ اپنے سفر میں قصر نہ کریں بشرطیکہ اس سفر کا تعلق پیشہ سے ہو لیکن اگر یہی لوگ اپنے کاروبار سے الگ پرائویٹ کام کے لئے سفر کریں گے تو یہ بھی قصر کریںگے ، جیسے ان لوگوں کا زیارت کے لئے سفر کرنا۔

۶۷

۴ ۔ انسان خانہ بدوش نہ ہو ۔ خانہ بدوش آدمی جب تک اپنی زندگی کے لئے سفر کرتا رہے گا نماز پوری پڑھےگا لیکن جب اپنی زندگی کے علاوہ کسی اور کام کے لئے سفر کرےگا تو وہ بھی نماز قصر کرےگا۔

۵ ۔ مسافر اس جگہ سے آگے نکل جائے جہاں تک شہر کا آخری گھر دکھائی دیتا ہے یا آخری مکان میں ہونے والی اذان کی آواز سنائی دیتی ہے کیونکہ اس علاقہ کے اندر قصر کرنا ناجائز ہے۔ وہ لوگ جو سفر کے لئے صبح ہی سے روزہ توڑ دیتے ہیں اور اس کے بعد گھر سے نکلتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں انھیں اس روزہ کا کفارہ دینا پڑےگا۔ روزہ مذکورہ بلاحدود سے نکلنے کے بعد ہی ٹوٹ سکتا ہے۔ اگر آبادی کافی بلندی پر ہے تو اس کا حساب نہیں ہوگا بلکہ عام بستیوں کے اعتبار سے قصر و اتمام کا معملہ لیا جائےگا۔

۶ ۔ درمیان سفر میں ایسی جگہ نہ پہونچے جو اس کا وطن ہو یا جہاں دس دن قیام کا ارادہ ہے اس لئے کہ ایسی جگہ پہونچنے پر قصر نہیں ہو سکتا۔

وطن وہ جگہ ہے کہ جہاں انسان پیدا ہوا ہے یا زندگی گزارنے کا ارادہ رکھتا ہے ایک آدمی کے دو وطن بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر اس کا ارادہ انھیں دو جگیوں پر زنگدی گزار دینے کا ہے۔ قدیم وطن ترک بھی ہو سکتا ہے اگر اس سے کنارہ کشی کر کے بے تعلقی پیدا کر لے جیسے بعض مہاجرین ایسا کرتے ہیں۔

اگر کسی آدمی نے دس دن کے ارادہ سے ایک نماز پوری پڑھ لی اور بعد میں رائے بدل گئی تو بہرحال نماز پوری ہی رہےگی جب تک کہ دوسرا سفر شروع نہ ہو جائے۔

۶۸

اگر کسی شخص نے قصر کی نیت سے نماز شروع کی اور درمیان میں رائے بدل گئی تو چار پوری کر دے اور اگر پوری کے ارادے سے شروع کی اور رائے بدل گئی تو تیسری رکعت کے رکوع سے پہلے پہلے قصر کر کے ختم کر دے لیکن تیسری رکعت کے رکوع میں پہونچنے کے بع رائے بدلی تو وہ نماز توڑ کر پھر سے شروع کرےگا۔

احکام سفر

۱ ۔ جو آدمی جانتا ہی نہیں ہے کہ نماز و روزہ قصر بھی ہوتا ہے وہ اگر غلط بھی پڑھ دےگا تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن جو شخص قصر و ایمان کو جانتا ہے اور اس کے احکام سے ناواقف ہے اس کی غلطی معاف نہ ہوگی بلکہ اسے قضا ادا کرنا پڑےگی۔

بھول کر قصر کی جگی تمام اور تمام کی جگہ قصر پڑھنے والے کا فرض ہے کہ اگر وقت کے اندر یاد آ جائے تو دوبارہ پڑھے وقت نکلنے کے بعد قضا کی ضرورت نہیں ہے۔

۲ ۔ قصر و تمام نماز ادا کرنے کا وقت دیکھا جائےگا لہذا اگر وقت آنے کے بعد سفر کیا ہے اور نماز نہیں پڑھی ہے تو قصر پڑھےگا اور اگر وقت باقی رہتے ہوئے سفر سے گھر آ گیا ہے تو پوری پڑھےگا۔

۳ ۔ مسجد کوفہ میں اور روضہ حضرت امام حسین علیہ السلام میں ضریح کے نزدیک اور پورے شہر مدینہ اور مکہ میں مسافر کو اختیار رہے کہ نماز پوری پڑھے یا قصر کرے۔ ان مقامات کے علاوہ کسی اور جگہ کے لئے یہ اختیار نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ نماز کتنی مسافت کے بعد قصر ہوتی ہے ؟

۲ ۔ قصر کے شرائط کیا ہیں ؟

۳ ۔ حد ترخص کے کیا معنی ہیں ؟

۴ ۔ کس جگہ قصر اور تمام دونوں کا اختیار ہے ؟

۶۹

اخلاق

۱ ۔ اصلاح نفس

۲ ۔ اصلاح معاشرہ

۷۰

تیسواں سبق

توفیق

ہم اپنی زندگی میں صبح و شام اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں کہ فلاں شخص کو خدا نے نیکی کی توفیق دی ہے اور فلاں کو توفیق نہیں دی۔

اگر اللہ توفیق دیدے تو ہم ایک مسجد بنوا دیں ، ایک امامباڑہ تعمیر کرا دیں ، ایک ہسپتال قائم کرا دیں ، دریا پر ایک پل تیار کرا دیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس توفیق کا مطلب کیا ہے۔

توفیق کے معنی ہیں نیکی کے لئے حالات پیدا کر دینا اور اس کے سامان فراہم کر دینا۔ پروردگار عالم جب کسی بندے کے کسی عمل سے خوش ہو جاتا ہے تو اس کے لئے زیادہ سے زیادہ نیکی کرنے کے سامان فراہم کر دیتا ہے اور اسی کا نام توفیق ہے۔

یہ شکایت کرنا غلط ہے کہ خدا نے ہمیں نماز پڑھنے کی توفیق نہیں دی یا روزہ رکھنے کی توفیق نہیں دی۔ یہ خدا وناد عالم پر بہت بڑا بہتان ہے۔ وہ ہر بندے کو ہر وقت توفیق دینے کے لئے تیار ہے۔ شرط یہ ہے کہ بندہ اپنے کو توفیق حاصل کرنے کے لائق بنا لے۔

غلطی پر اڑا رہنے والا آدمی کبھی توفیق کے لائق نہیں ہوتا اور اللہ اس سے اپنی توفیق کو چھین لیتا ہے اس کی غلطیوں کی ساری ذمہ داری اسی کے سر ہوتی ہے خدا پر کوئی الزام نہیں لگایا جا سکتا۔

سوالات :

۱ ۔ توفیق کیا ہے ؟ ۲

۔ توفیق کب ملتی ہے ؟

۳ ۔ بعض لوگوں کو توفیق کیوں نہیں ملتی ؟

۷۱

اکتیسواں سبق

خلوص

پروردگار عالم نے انسان کو پیدا کر کے اپنے اعمال میں آزاد بنا دیا ہے۔ اسے اختیار ہے چاہے نیکی کے راستے پر چلے یا برائی کے راستے پر لیکن یہ بتا دیا ہے کہ اگر نیکی کے راستے پر چلنا ہے تو خلوص سے چلنا ہاگا اپنے دل کی تسکین یا دنیا کو دکھانے کے لئے نیکی کرنے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

ہمارے مولیٰ اور آقا حضرت علی علیہ السلام کا واقعہ مشہور ہے کہ کہ آپ جنگ خندق میں جب اپنے دشمن عمرد بن عبدود کے سینے پر سوار ہو گئے تو اُس نے آپ کی طرف تھوک دیا۔ آپ اس کے سینے سے اُتر آئے اور تھوڑی دیر کے بعد سر کاٹا تو لوگوں نے شکایت کی یا علیؐ اتنا اچھا موقع پانے کے بعد آپ نے دشمن کو کیوں چھوڑ دیا۔ اگر وہ اٹھ کر بھاگ جاتا تو آپ کیا کرتے ؟

آپ نے فرمایا اُس نے میری شان میں بے ادبی کی تھی اور ظاہر ہے کہ یہ غصہ دلانے والی چیز ہے اب اگر میں سر کاٹ لیتا تو اللہ کی مرضی میں میرا غصہ بھی شامل سمجھ لیا جاتا۔ اس لئے میں دشمن کے سینے سے اُتر آیا کہ جو کام ہو وہ صرف اللہ کے لئے ہو اس میں بندوں کی کوئی پسند یا ناپسند شامل نہ ہو۔

عمل کے اسی طریقہ کا نام خلوص ہے۔ پروردگار عالم عمل میں خلوص ہی کو پسند کرتا ہے۔ جس کا جتنا خلوص ہوتا ہے اسے اعمال پر اتنا ہی ثواب ملتا ہے وہ سیکڑوں رکعت نماز ہزاروں فقیروں کی امداد نہیں دیکھتا بلکہ دل کے خلوص کو دیکھتا ہے۔ خلوص ہے تو یہ سب لائق ثواب ہے اور خلوص نہیں ہے تو سب بیکار ہے۔

سوالات :

۱ ۔ خلوص کیا ہے ؟

۲ ۔ بغیر خلوص عمل کا کیا انجام ہوتا ہے ؟

۳ ۔ کسی پر خلوص عمل کی مشال دو ؟

۷۲

بتیسواں سبق

اچھی زندگی

ہمارے مذہب نے اپنے ماننے والوں کو سب سے بڑی تعلیم یہ دی ہے کہ انھیں اس دنیا میں اچھی اور پاکیزہ زندگی گزارنا چاہئے۔ اچھی زندگی گزارنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو باتیں انسان کے ذمہ ہیں انھیں ادا کرے جن باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے ان کے نزدیک نہ جائے۔ کدا کے حقوق کا بھی خیال رکھے اور انسانوں کے حقوق کا بھی۔

رسولؐ کریم نے رسالت کے اعلان کے ساتھ ہی یہ بتا دیا تھا کہ میں دنیا کو نیک کردار سکھانے کےلئے ّیا ہوں جس نے نیک کردار نہیں سکھایا اس کو اسلام سے کچھ نہیں ملا۔

اسی کردار کے سدھار کے لئے اسلام نے چھوٹی بڑی برائیوں کی فہرست بتا دی تاکہ انسان ان برائیوں سے پرہیز کرے اور اپنی زندگی کو پاکیزہ بنا کر گزارے۔ انھیں چھوٹی بڑی برائیوں کا نام گناہ کبیرہ و صغیرہ ہے۔ گناہ صغیرہ وہ گناہ ہے جس پر جہنم کا عذاب رکھا گیا ہے۔ گناہ کبیرہ میں چند باتیں ہیں جن سے بچنا ہم سب کا فرض ہے تاکہ ہم اچھی زندگی گزار سکیں اور ہماری وجہ سے کسی دوسرے بندہ خدا کو کوئی تکلیف نہ ہو۔

۱ ۔ کسی کو خدا کا شریک بنانا۔ ۲ ۔ ناحق قتل کرنا۔ ۳ ۔ یتیموں کا مال کھانا۔ ۴ ۔ زنا کرنا ۔ ۵ ۔ والدین کی نافرمانی کرنا ۔ ۶ ۔ سود لینا ۔ ۷ ۔ جھوٹی قسم کھانا ۔ ۸ ۔ شراب پینا ۔ ۹ ۔ جوا کھیلنا ۔ ۱۰ ۔ بدکاری کرنا ۔ ۱۱ ۔ خدا کی رحمت سے مایوس ہونا ۔ ۱۲ ۔ خدا کے عذاب سے بےخوف ہونا ۔ ۱۳ ۔ گانا بجانا ۔ ۱۴ ۔ غیبت کرنا ۔ ۱۵ ۔ جھوٹ بولنا ۔ ۱۶ ۔ مردار کا گوشت کھانا ۔ ۱۷ ۔ ستار ، طمبورہ باجہ وغیرہ میں مشغول رہنا۔ ۱۸ ۔ رشوت لینا۔ ۱۹ ۔ ظالم کی مدد کرنا۔ ۲۰ ۔ چوری کرنا ۔ ۲۱ ۔ غریوں سے اچھا سلوک نہ کرنا۔ ۲۲ ۔ پیشاب کی نجاست سے نہ بچنا۔ ۲۳ ۔ ایسا کام کرنا جس کام کر کرنے والے کو ماں باپ کو لوگ گالی دیں ۔ ۲۴ ۔ خدائی فیصلوں پر اعتراض کرنا۔ ۲۵ ۔ غرور و تکبر کرنا۔ ۲۶ ۔ مہمان کو تکلیف پہونچنا۔ ۲۷ ۔ اہل و عیال کی خبر نہ لینا۔ ۲۸ ۔ شراب پینے کی جگہ پر بیٹھنا۔ ۲۹ ۔ گالی بکنا ، فحش باتیں کرنا۔ ۳۰ ۔ نجس یا حرام چیزیں کھانا وغیرہ۔

۷۳

تینتیسواں سبق

ذوالعشیرہ کا واقعہ

جب پروردگار عالم نے رسولؐ خدا کو کھل کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا اور یہ ہدایت کی کہ اسے رسولؐ سب سے پہلے قریبی رشتہ داروں میں تبلیغ کیجیئے تو حضرت علیؐ کو رسولؐ خدا نے خاندان عبد المطلبؐ کے تمام مردوں کے پاس یہ پیغام لے کر بھیجا کہ میرے چچازاد بھائی محمد مصطفےٰ نے تم کو دعوت میں بلایا ہے۔ دوسرے دن چالیس آدمی حضرت کے پاس آئے۔ آپ نے پہلے سب کو کھانا کھلایا اور کھانے کے بعد تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے۔ لیکن ابو لہب کے بھڑکانے پر تمام لوگ تقریر سنے بغیر چلے گئے ۔آپ نے حضرت علیؐ کو بھیج کر دوسرے دن پھر سب کو بلایا اور پہلے کھانا کھلایا پھر سب کے سامنے اسلام کو پیش کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کون شخص ہدایت کے کاموں میں میری مدد کرنے پر تیار ہے۔ جو شخص میری مدد کرےگا وہ میرا بھائی ، وصی ، وزیر اور خلیفہ ہوگا اور لوگوں پر میری طرف سے حاکم ہوگا۔

حضرت علیؐ فوراً کھڑے ہو گئے اور آپ نے رسولؐ خدا کی مدد کا وعدہ کیا۔ رسولؐ خدا نے فرمایا چونکہ علیؐ نے میری مدد کا وعدہ کیا ہے لہذا یہ میرے بھائی ، وصی ، وزیر اور خلیفہ ہیں اور میری طرف سے م لوگوں پر حاکم ہیں۔ ان کے احکام کو سنو اور ان کی اطاعت کرو۔

اس واقعہ کا نام دعوت ذوالعشیرہ ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولؐ خدا نے حضرت علیؐ کو تبلیغ کے پہلے دن ہی اپنا خلیفہ مقرر کر دیا تھا اور سب لوگوں پر آپ کی اطاعت واجب کر دی تھی۔

سوالات :

۱ ۔ ذوالعشیرہ کا واقعہ بتاؤ ؟

۲ مجمع کس کے بھڑکانے پر تقریر سنے بغیر چلا گیا تھا ؟

۳ ۔ دعوت ذوالعشیرہ میں رسولؐ خدا نے کس کو اپنا جانشین بنایا ؟

۷۴

چونتیسواں سبق

غدیر خم

پیغمبرؐ اسلام کی زندگی کا آخری زمانہ ہے۔ آپ ّخری حج کے لئے مکہ معظمہ کی طرف تشریف لے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں میں یہ خبر عام ہو چکی ہے۔ دنیا کے ہر گوشے سے مسلمان اللہ کے گھر کا طواف کرنے اور حضور کی زیارت کے شوق میں جوق در جوق چلے آ رہے ہیں۔

حج کا وقت آتے آتے مکہ معظمہ میں لاکھوں مسلمان جمع ہو گئے اور حضورؐ کے ساتھ حج کے اعمال بجا لائے۔ حج سے فارغ ہونے کے بعد حضورؐ نے مدینہ کا رخ کیا۔ مسلمانوں کے قافلے آپ کے ساتھ چلے۔ ہر دل میں شوق ہے کہ جتنا وقت بھی حضورؐ کی خدمت میں گزر جائے اپنی خوش قسمتی ہے۔

چلتے چلتے قافلہ غدیر خم کے چوراہے پر پہونچ گیا جہاں سے قافلوں کے رستے الگ الگ ہو جاتے تھے۔ مسلمان اپنے اپنے راستہ جانا ہی چاہتے تھے کہ جبرئیل امین خدا کا پیغام لےکر حضورؐ کی خدمت میں پہونچ گئے۔ " میری رسولؐ اُس پیغام کو پہونچا دو جو ہم پہلے تمہیں بتا چکے ہیں اور اگر یہ پیغام تم نے نہیں پہونچایا تو گویا رسالت کا کوئی کام ہی نہیں کیا۔ میرے رسولؐ ! پیغام کے پہونچانے میں گھبرانا نہیں ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار ہیں "۔

۷۵

یہ حکم سنتے ہی حضورؐ نے قافلہ کو رکنے کا حکم دیا۔ جو مسلمان آگے بڑھ گئے تھے وہ واپس بلائے گئے جو پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظار کیا گیا۔ یہاں تک کہ سوا لاکھ کلمہ پڑھنے والوں کا مجمع ہا گیا۔ حضورؐ کے حکم سے اونٹوں کے کجاؤوں کا ممبر تیار کیا گیا اور آپ اس پر تشریف لے گئے اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد مجمع سے سوال کیا۔ مسلمانوں بتاؤ ۔ کیا میں تمہارا حاکم نہیں ہوں ؟ سارے مجمع نے یک زبان ہو کر اقرار کیا کہ حضورؐ ہی ہمارے حاکم ہیں ۔ اس اقرار کے بعد حضورؐ نے امیر المومنین علی بن ابطالب علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کیا اور فرمایا یاد رکھو جس کا میں حاکم ہوں اس کا یہ علیؐ حاکم ہیں ۔"

اس واقعہ کو واقعہ غدیر خم کہا جاتا ہے جو ا ۱۸/ ذی الحجہ ۱۰ ھ؁ کو پیش آیا۔ جس کے بعد حضورؐ صرف دو مہینے دس دن زندہ رہے اور ۲۸/ صفر ۱۱ ھ؁ کو رحلت فرمائی۔

سوالات :

۱ ۔ واقعہ غدیر خم بیان کرو ؟

۲ ۔ غدیر میں کس چیز کا ممبر بنایا گیا تھا ؟

۳ ۔ حضورؐ کے انتقال کی تاریخ اور سن بتاؤ ؟

۷۶

فہرست

معلمّ کے لئے ہدایت ۴

پہلا سبق ۵

ضرورت مذہب ۵

سوالات : ۵

دوسرا سبق ۶

کیا خدا نہیں ہے ؟ ۶

سوالات : ۶

تیسرا سبق ۷

اگر دو خدا ہوتے ۷

سوالات : ۷

چوتھا سبق ۸

غیب پر ایمان ۸

سوالات : ۹

پانچواں سبق ۱۰

توکل ۱۰

سوالات : ۱۱

چھٹا سبق ۱۲

عدل ۱۲

سوالات : ۱۳

۷۷

ساتواں سبق ۱۴

نبوت ۱۴

سوالات : ۱۵

آٹھواں سبق ۱۶

نبی کے اوصاف ۱۶

سوالات :ؒ ۱۶

نواں سبق ۱۷

نبی کی پہچان ۱۷

سوالات : ۱۸

دسواں سبق ۱۹

ہمارے آخری نبیؐ ۱۹

سوالات : ۲۱

گہارہواں سبق ۲۲

عصمت ۲۲

سوالات : ۲۲

بارہواں سبق ۲۳

چودہ معصومؐ ۲۳

سوالات : ۲۴

تیرہواں سبق ۲۵

امامت ۲۵

۷۸

سوالات : ۲۶

چودھواں سبق ۲۷

امام کا ہونا ضروری ہے ۲۷

سوالات : ۳۰

پندرہواں سبق ۳۱

دنیا کا آخری انجام ۳۱

قیامت کی علامتیں : ۳۱

سوالات : ۳۱

فروع دین ۳۲

سولہواں سبق ۳۲

نماز ۳۲

ہمارا فریضہ :۔ ۳۲

سوالات : ۳۳

ستررہواں سبق ۳۴

معصومینؐ کی نمازیں ۳۴

نبی کی نماز :۔ ۳۴

پہلے امامؐ کی نماز :۔ ۳۴

تیسرے امامؐ کی نماز :۔ ۳۴

چوتھے امامؐ کی نماز :۔ ۳۵

نماز کی شان :۔ ۳۵

۷۹

سوالات : ۳۶

اٹھارہواں سبق ۳۷

واجب نمازیں ۳۷

شرائط نماز ۳۸

سوالات : ۳۸

انیسواں سبق ۳۹

قبلہ ۳۹

سوالات : ۳۹

بیسواں سبق ۴۰

لباس ۴۰

سوالات : ۴۱

اکیسواں سبق ۴۲

مکان ۴۲

سوالات : ۴۳

بائیسواں سبق ۴۴

اذان و اقامت ۴۴

سوالات : ۴۵

تئیسواں سبق ۴۶

واجبات نماز ۴۶

نیت : ۴۶

۸۰