امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم جلد ۴

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم 40%

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 83

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 83 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56618 / ڈاؤنلوڈ: 3102
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم

امامیہ اردو دینیات درجہ چہارم جلد ۴

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

امامیہ اردو دینیات

درجہ چہارم

نظیم المکاتب

۳

معلمّ کے لئے ہدایت

۱ ۔ الفاظ کے معنی لکھوا کر یاد کرائے جائیں۔ مطلب ذہن نشین کرایا جائے۔

۲ ۔سبق کے بعد والے سوالات کے جوابات مختصر لکھوا کر زبانی یاد کرائے جائیں۔

۳ ۔مسائل میں جہاں ضرورت ہو وہاں عملی تعلیم دی جائے۔

اور

مسائل زبانی یاد کرا جائیں

۴

پہلا سبق

ضرورت مذہب

درخت جنگل میں بھی اُگتے ہیں ، باغ اور چمن میں بھی لگائے جاتے ہیں لیکن جنگل میں آدمی جاتے ہوئے ڈرتا ہے اور باغ میں جانے کو اس کا جی چاہتا ہے۔ یہ صرف اس لئے ہے کہ جنگل میں کسی قاعدہ اور قانون کے بغیر درخت اُگتے ہیں اور باغ میں قاعدےسے لگائے جاتے ہیں۔ جنگل میں کوئی مالی درختوں کی دیکھ بھال نہیں کرتا ہے اور باغ میں مالی درختوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

انسانوں کو بھی اگر بغیر قاعدہ اور قانون کے جینے کا موقع دیا جائے تو انسانوں کی آبادی بھی جنگل کا نمونہ بن جائیےگی اور اگر قاعدہ اور قانون سے لوگ زندگی بسر کریںگے تو آدمیوں کی بستیاں جنت کا نمونہ بن جائیںگی۔ لہذا ضرورت ہے ایک ایسے قانون کی جو انسان کو جینے کا طریقہ بتائے اور اسی قانون کا نام مذہب ہے۔ انسانوں کے اسی چمن باغبان اور مالی نبی اور امام ہوتے ہیں جن کو خدا نے ہمیشہ ہماری ہدایت کے لئے بھیجا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ انسانوں کا قانون کا پابند ہو کر رہنا ضروری کیاں ہے ؟

۲ ۔ مذہب کسے کہتے ہیں اور اس کا کیا مقصد ہے ؟

۵

دوسرا سبق

کیا خدا نہیں ہے ؟

اس دنیا میں جہاں بےشمار مذہب والے پائے جاتے ہیں وہاں کچھ لوگ لامذہب بھی ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو دہریہ کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ دنیا بغیر کسی خدا کے ایک دن آپ ہی آپ پیدا ہو گئی ہے اور ایک دن آئےگا جب آپ ہی آپ مٹ جائےگی۔

ان لوگوں کے سامنے دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کے لئے کہا جا سکے کہ یہ خود بخود پیدا ہو گئی ہے لیکن صرف خدا کا انکار کرنے کے لئے یہ کہنے لگے ہیں کہ یہ پوری دنیا بغیر پیدا کرنے والے کے پیدا ہو گئی ہے۔

ہمارے چھٹے امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس ایک دہریہ آیا۔ جس کا نام عبد اللہ ویصانی تھا۔ اس نے اصحاب کے سامنے حضرتؐ سے خدا کے بارے میں بحث کرنا چاہی۔ آپ نے اُس سے پوچھا " تیرا نام کیا ہے ؟"

وہ جواب دئیے بغیر چلا گیا۔ اصحاب نے حیرت سے پوچھا ۔ "حضور ! یہ شخص کیوں چلا گیا۔ یہ تو آپ سے بحث کرنے آیا تھا ؟"

آپ نے فرمایا ۔ " بحث ختم ہو گئی اور وہ اپنی بحث میں ہار گیا اس لئے شرمندہ ہو کر چلا گیا۔ "

اصحاب نے عرض کی۔ " مولا! اس نے تو کوئی بات ہی نہیں کی، پھر بحث کیسے ختم ہو گئی ؟"

آپ نے فرمایا ۔ " میں نے اس کا نام پوچھ لیا۔ وہ سمجھ گیا کہ نام بتانے پر میں فوراً اُس سے سوال کروں گا کہ اگر اللہ نہیں ہے تو پھر تو عبد اللہ کیو نکہ ہے ؟ عبد اللہ کے معنی ہیں اللہ کا بندہ۔ جب اللہ ہی نہیں تو بندہ کہاں سے آ گیا ؟"

حضرت یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ بغیر خدا کے بندے کا وجود محال ہے اور جب بندے موجود ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کا پیدا کرنے والا خدا بھی موجود ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کیا دہریوں کے سامنے کوئی ایسی چیز ہے جو خود بخود بن گئی ہو ؟

۲ ۔ دہریہ بحث میں کیسے ہارا ؟

۶

تیسرا سبق

اگر دو خدا ہوتے

ہم نے دنیا میں یہ تجربہ کیا ہے کہ جب کسی کام کو دو آدمی مل کر انجام دیتے ہیں تو اُن میں کبھی آپس میں میل جول رہتا ہے ، کبھی اختلاف ہو جاتا ہے۔

میل جول کی صورت میں دونوں ایک دوسرے کی رائے کے پابند اور ایک دوسرے کے مشورہ کے محتاج رہتے ہیں اور اختلاف کی صورت میں کوئی کام انجام نہیں پاتا۔ یہی حال دو خداؤں کا ہے۔ اگر دو خدا ہوتے تو یا آپس میں اتفاق ہوتا یا اختلاف ہوتا۔ اگر دونوں میں اتفاق ہوتا تو دونوں ایک دوسرے کے محتاج اور اس کی رائے کے پابند ہوتے اور محتاجی اور پابندی صرف بندوں میں پائی جا سکتی ہے۔ خدا میں نہیں پائی جا سکتی۔ خدا نہ کبھی کسی کا محتاج ہو سکتا ہے نہ پابند ، ورنہ وہ خدا نہ رہےگا۔ اور اگر دونوں میں اختلاف ہو گیا۔ ایک نے کہا پانی برسنا چاہئیے ، دوسرے نے کہا نہیں برسنا چاہئیے تو اس جھگڑے میں دنیا کا کاروبار درہم برہم ہو جائےگا۔ کیونکہ دونوں کی بات تو چل نہیں سکتی۔ ایک ہی کی چلے گی۔ جس کی بات چلےگی وہ طاقتور ہوگا اور جس کی بات نہ چلےگی وہ کمزور ہوگا۔ جو طاقتور ہوگا اُسی کی خدائی باقی رہےگی اور جو کمزور ہوگا اس کی خدائی ختم ہو جائےگی۔

اسی لئے ہ کو ماننا پڑتا ہے کہ خدا ایک ہے۔

سوالات :

۱ ۔دو خدا ہوتے تو کیا ہوتا ؟

۲ ۔ خدا کو ایک کیاں ماننا پڑتا ہے ؟

۷

چوتھا سبق

غیب پر ایمان

اسلام کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ اس نے جہاں انسانوں کو آنکھوں سے کام لینا سکھایا ہے وہاں عقل سے کام لینے کا بھی حکم دیا ہے۔ آنکھ کا کام اُن چیزوں کو دیکھنا ہے جو ظاہر میں اور عقل کا کام ان چیزوں کو دیکھنا ہے جو جائز ہیں اور آنکھوں سے نظر نہیں آ سکتیں۔

دنیا میں بہت سی چیزیں آنکھ سے دیکھنے کے بعد مانی جاتی ہیں۔ مثلا سورج ، چاند ، ستارے ، پہاڑ ، سمندر وغیرہ اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جو آج تک کسی کو دکھائی نہیں دی ہیں مگر لوگ ان کو بغیر دیکھے مانتے ہیں جیسے کرنٹ ، روح ، عقل وغیرہ۔ ہم نے بجلی کے تار دیکھے ہیں مگر اس پر دوڑتی ہوئی بجلی نہیں دیکھی ۔ روح کی وجہ سے ہم سب زندہ ہیں مگر کسی نے روح کو دیکھا نہیں۔ عقل سے سب کام لیتے ہیں مگر عقل آج تک کسی کو دکھائی نہیں دی۔

اسی طرح مذہب نے بھی کچھ چیزیں بتائی ہیں جن کا ماننا اور اُن کے ہونے پر یقین و ایمان رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے کیونکہ یہ باتیں خدا اور رسولؐ کی بتائی ہوئی ہیں جو سچے تھے اور ان کی بیان کی ہوئی کوئی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔

جن ، ملائکہ ، حور ، غلمان ، جنت ، دوزخ ، کوثر، وغیرہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو خدا نے پیدا کیا ہے مگر وہ نظر نہیں آتی ہیں۔ لیکن ہم مسلمان ان کے وجود کا قرار کرتے ہیں کیونکہ رسولؐ نے بیان کیا ہے کہ یہ چیزیں ہیں۔

غیب پر ایمان لانا ہی حقیقی اسلام ہے جو شخص غیب پر ایمان نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں ہے۔ اسلام خدا کے یقین سے شروع ہوا ہے جو غائب ہے اور قیامت اصول دین کی آخری بات ہے جو غائب ہے۔

۸

بارہویں امامؐ غائب ہیں۔ بحکم خدا انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ آپ کی غیبت پر ایمان رکھنا اور آپ کے وجود کا یقین رکھنا اسلام کا ایک ایسا جز ہے جس کے بغیر اسلام مکمل نہیں ہو سکتا۔

سوالات :

۱ ۔ پھول ، آم ، سیب ، روح ، عقل ، بجلی ۔ ان چیزوں میں کون کون آنکھ سے دیکھی جاتی ہیں اور کون کون عقل سے ؟

۲ ۔ قرآن اور برزخ میں سے آنکھ سے دیکھ کر کس پر ایمان ہوتا ہے اور عقل سے دیکھ کر کس پر ؟

۳ ۔ جس کا ایمان غیبت پر نہیں اس کو مسلمان کہیںگے یا نہیں ؟

۹

پانچواں سبق

توکل

توکل کے معنی ہیں بھروسہ کرنا۔ انسان کو چاہئیے ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کرے۔ ساری نعمتیں چھین جائیں تو بھی مایوس نہیں ہونا چاہئیے اور ساری دنیا مخالف ہو جائے تو بھی ڈرنا نہیں چاہئیے۔ جو خدا پر بھروسہ کرتا ہے خدا اُسے ہر نعمت عطا کرتا ہے اور جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اور کسی سے نہیں ڈرتا اس لئے کہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ ہر نفع اور ہر نقصان خدا کے ہاتھ میں ہے۔ جسے خدا بچائے اسے کوئی مٹا نہیں سکتا اور جسے خدا مٹائے اُسے کوئی بچا نہیں سکتا۔ اور اسی طرح خدا جسے محروم کر دے اُسے کوئی کچھ سے نہیں سکتا اور جسے خدا مالامال کر دے اس سے کوئی کچھ چھین نہیں سکتا۔

جو خدا سے نہیں ڈرتا وہ دنیا کی ہر چیز سے ڈرتا ہے۔جو خدا سے ڈرتا ہے وہ موت سے بھی نہیں ڈرتا ۔ خدا سے نہ ڈرنے والا بزدل ہوتا ہے۔ جو صرف خدا سے امید رکھتا ہے وہ بندوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا ، بندوں کی خوشامد کرنے کے بجائے اپنے خدا کے سامنے گڑگڑاتا ہے ، نااُمیدیوں میں بھی مایوس نہیں ہوتا ایسے شخص کو خدا ، بندوں کے سامنے ذلیل نہیں کرتا۔

۱۰

جناب ابراہیم علیہ السلام کو جب نمرود اور اس کی قوم نے لاکھوں من آگ میں ڈالا تھا تو آگ کے شعلوں میں جاتے ہوئے آپ نہیں ڈرے کیونکہ آپ صرف خدا سے ڈرتے تھے۔ شعلوں میں جانے کے بعد بھی جناب ابراہیم ؐ مایوس نہیں ہوئے کیونکہ آپ صرف خدا سے امید رکھتے تھے۔ اللہ نے بھی آگ کو ٹھنڈا کر کے جناب ابراہیم کو بچا لیا۔ لہذا ہم کو بھی کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے اور ہمارے دل سے کبھی خدا کا خوف نہیں نکلنا چاہئے۔ ہم کو خدا سے اس طرح نہیں ڈرنا چاہئیے جس طرح ہم ظالم یا درندے سے ڈرتے ہیں کیونکہ اس صورت میں صرف ڈر ہی ڈر ہوتا ہے امید کی کوئی جھلک نہیں ہوتی بلکہ اس طرح ڈرنا چاہئیے جس طرح ہم ماں باپ یا استاد سے ڈرتے ہیں جہاں خوف کے ساتھ امید اور سہارا بھی ہوتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ توکل کے کیا معنی ہیں ؟

۲ ۔ اللہ نے جناب ابراہیم کو آگ سے کیوں بچایا ؟

۳ ۔ اللہ سے کس طرح ڈرنا چاہئیے ؟

۱۱

چھٹا سبق

عدل

عدل کے معنی یہ ہیں کہ خدا ہر برائی سے پاک ہے۔ اُس کی ذات میں ہی مکمل موجود ہے۔ نہ وہ کوئی بڑا کام کر سکتا ہے اور نہ کوئی ایسے کام کے کرنے سے رُک سکتا ہے اور نہ جس کا کرنا ضروری ہو لہذا نہ خدا ظلم کر سکتا ہے اور نہ ظالم کو سزا دینے سے رُک سکتا ہے۔

خدا کے ہر برائی سے پاک ہونے کی دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی برا کام کوئی شخص تب کرتا ہے جب اسے اس کی برائی معلوم نہ ہو یا برائی جانتا ہو لیکن کسی نفع کے لئے جان بوجھ کر برائی کرے۔ خدا میں یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں۔ وہ عالم ہے لہذا ہر برائی کو جانتا ہے اور غنی ہے لہذا اس کو کسی چیز کی ضرورت یا لالچ نہیں ہے اس لئے وہ برائی نہیں کر سکتا۔

دوسری دلیل خدا کے عادل ہونے کی یہ ہے کہ اس نے بندوں کو حکم دیا ہے کہ ظلم نہ کریں۔ قرؔآن مجید میں بھی یہ حکم بار بار آیا ہے اور ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھی اس کا یہ حکم بیان کیا ہے لہذا ظلم نہ کرنے کا حکم دیکر وہ خود کیسے ظلم کو سکتا ہے ؟

۱۲

تیسری دلیل خدا کے عادل ہونے کی یہ ہے کہ خدا نے کہا ہے کہ برے کام کرنے والوں کو دوزخ میں ڈالوں گا اور اچھے کام کرنے والوں کو جنت دوںگا۔ انسان جنت کی لالچ اور دوزخ کے خوف کی وجہ سے اچھے کام کرتے ہیں اور بڑے کاموں کو چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ اُن کو خدا کی بات پر بھروسہ ہے لیکن اگر خدا عادل نہ ہو بلکہ ظالم ہو تو ہم سوچ سکتے ہیں کہ ممکن ہے ہم اطھے کام کریں پھر بھی خدا دوزخ میں ڈال دی۔ یہ سوچنے کے بعد نہ خدا پر بھروسہ رہےگا نہ کوئی شخص برا کام کرنے سے باز رہےگا اور نہ کوئی اچھا کام کرےگا۔ اس طرح دنیا برائی سے بھر جائےگی۔

خدا کو عادل ماننا ہم سب پو لازم ہے۔

سوالات :

۱ ۔ خدا کے عادل ہونے کا کیا مطلب ہے ؟

۲ ۔ خدا کے عادل ہونے کی کوئی ایک دلیل بیان کرو ؟

۳ ۔ خدا عادل نہ رہے تو دنیا برائیوں سے کیوں بھر جائےگی ؟

۱۳

ساتواں سبق

نبوت

اس دنیا میں آدمی بھی پیدا ہوتا ہے اور جانور بھی۔ زندگی بھر دونوں کھاتے پیتے ہیں اور رہتے ہیں۔ پھر ایک دن دونوں ہی کو موت آ جاتی ہے۔ ان باتوں میں ہر آدمی اور ہر جانور ایک دوسرے سے ملتے چلتے ہیں۔ لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ جانور سے اس کے اچھے اور بڑے کاموں کا حساب نہ لیا جائےگا اور اچھے یا بڑے کاموں کی وجہ سے اسے جنت یا دوزخ میں نہ بھیجا جائےگا لیکن انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر اپنے خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ جس سے خدا خوش ہوگا اس کو جنت کی اچھی نعمتیں ملیںگی اور جس سے خدا ناراض ہوگا اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائےگا۔ جانور کی زندگی میں یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ خدا کن باتوں سے خوش ہوتا ہے اور جن باتوں سے ناراض ہوتا ہے۔ مگر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان باتوں کو بھی معلوم کرے جن سے خدا خوش ہوتا ہے اور ان باتوں کو بھی معلوم کرے جن سے خدا ناراض ہوتا ہے۔

خدا بندوں پر مہربان ہے اس لئے یہ باتیں بتانے کے لئے اس نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی بھیجے، جن میں تین سو تیرہ بڑے نبی تھے۔ بڑے نبی کو رسول کہتے ہیں۔ تین سو تیرہ رسولوں میں پانچ بڑے رسول تھے جن کو اولو العزم کہتے ہیں۔ ان پانچوں میں سب سے بڑے ہمارے رسول حضرت محمد مصطفےٰ صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے جو خدا کے آخری نبی تھے۔ آپ کے بعد نہ کوئی نبی آیا ہے اور نہ آئےگا۔ جتنے لوگوں نے آپ کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ سب جھوٹے ہیں۔ جیسے مسیلمہ ، کذاب ، سجاح اور مرزا غلام احمد قادیانی وغیرہ۔

۱۴

جن نبیوں کے نام کتابوں میں ملتے ہیں اُن میں مشہور یہ ہیں :۔

۱ ۔حضرت آدمؐ ۲ ۔ حضرت نوحؐ ۳ ۔ حضرت ادریسؐ ۴ ۔ حضرت ابراہیمؐ

۵ ۔ حضرت اسمعیلؐ ۶ ۔ حضرت اسحاقؐ ۷ ۔ حضرت یعقوبؐ ۸ ۔ حضرت یوسفؐ

۹ ۔ حضرت یونسؐ ۱۰ ۔ حضرت لوطؐ ۱۱ ۔ حضرت صالحؐ ۱۲ ۔ حضرت ہودؐ

۱۳ ۔ حضرت شعیبؐ ۱۴ ۔ حضرت شیث ۱۵ ۔ حضرت داودؐ ۱۶ ۔ حضرت سلیمانؐ

۱۷ ۔ حضرت ذواکفیلؐ ۱۸ ۔ حضرت اَ یلسعؐ ۱۹ ۔ حضرت الیاسؐ ۲۰ ۔ حجرت زکریاؐ

۲۱ ۔ حضرت یحییٰؐ ۲۲ ۔ حضرت موسیٰؐ ۲۳ ۔ حضرت ہارون ۲۴ ۔ حضرت یوشعؐ

۲۵ ۔ حضرت عیسیٰؐ ۲۶ ۔ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔

پانچ ادلواعزم رسول جن کو خدا نے صاحب شریعت بنایا تھا وہ جناب نوحؐ ، جناب ابراہیمؐ ، جناب موسیٰؐ ، جناب عیسیٰ ؐ ، اور حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔

ہمارے رسولؐ کے آنے کے بعد پچھلی تمام شریعتیں خدا نے ختم کر دی ہیں۔ اب قیامت تک صرف آپ کی شریعت باقی رہےگی اور صرف اُس کی نجات ہوگی جو آپ کی شریعت کا ماننے والا ہوگا۔

سوالات :

۱ ۔ انسانوں اور جانوروں میں کیا فرق ہے ؟

۲ ۔ انسانوں کو خدا کی خوشی اور ناخوشی کیسے معلوم ہوئی ؟

۳ ۔ دو جھوٹے نبیوں کے نام بتاؤ ؟

۴ ۔ دس سچے نبیوں کے نام بتاؤ ؟

۵ ۔ اب کس کی شریعت باقی ہے اور قیامت تک کس کی شریعت چلےگی ؟

۶ ۔ کن لوگوں کی نجات ہوگی ؟

۱۵

آٹھواں سبق

نبی کے اوصاف

تم جانتے ہو کہ ہر نبی میں چند باتوں کا پایا جانا ضروری ہے۔

۱ ۔ نبی عالم پیدا ہوتا ہے۔ اس کے ماں باپ دادا دادی وغیرہ تمام آباؤ اجداد مسلمان ہوتے ہیں۔ نبی کسی کافر کی نسل میں نہیں پیدا ہوتا بلکہ ہمیشہ پاک و پاکیزہ اور طیب و طاہر نسل میں پیدا ہوتا ہے۔ نبی ہمیشہ شریف اور باعزت گھرانے میں پیدا ہوتا ہے۔ نبی کو کوئی قابل نفرت بیماری نہیں ہوتی ۔ نبی کوئی ایسا کام یا پیشہ نہیں کرتا جو ذلت اور رسوائی کا سبب ہو۔

۲ ۔ ہر نبی معصوم ہوتا ہے۔ اس سے نہ کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے نہ کوئی برائی۔ نہ بھول چوک ہوتی ہے اور نہ خطا اور غلطی۔ نبی چونکہ عالم پیدا ہوتا ہے اس لئے ہر گناہ سے نفرت کرتا ہے اور ہر برائی سے بیزار رہتا ہے۔ اسی نفرت اور بیزاری کی وجہ سے وہ کبھی گناہ نہیں کرتا۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ معصوم برائی نہ کرنے اور نیک کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ اپنے علم کے باعث اپنے ارادہ اور اختیار سے گناہوں سے بچتا ہے اور نیکیاں بجا لاتا ہے۔

۳ ۔ نبی جتنے لوگوں کی ہدایت کے لئے آتا ہے ان سب لوگوں سے ہر کمال اور خوبی میں بہتر ہوتا ہے۔ نبی کے زمانہ کا کوئی انسان کسی خوبی مین نبی سے افضل نہیں ہو سکتا۔

۴ ۔ کوئی نبی خود بخود نہیں بنتا ہے بلکہ خدا اس کو نبوت دیتا ہے۔

سوالات :ؒ

۱ ۔ کیا نبی کے آباداجداد میں کوئی کافر ہو سکتا ہے ؟

۲ ۔ کیا معصوم اچھے کام کرنے اور بڑے کام نہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے ؟

۳ ۔ نبی کن لوگوں سے افضل ہوتا ہے ؟

۱۶

نواں سبق

نبی کی پہچان

خدا نے کس کو نبی بنا کر بھیجا ؟۔ یہ بات ہم کو دو طرح سے معلوم ہوتی ہے۔ ۱ ۔ جو نبی موجود ہے وہ بعد میں آنے والے نبی کا نام پتہ اور نشان بتا کر جائے جیسے عیسیٰ علیہ السلام ہمارے نبیؐ کے آنے کی خبر دی گئے تھے۔ اور آپ نے پیشینگوئی فرمائی تھی کہ میرے بعد ایک نبی آئےگا جو آخری نبی ہوگا اور اس کا نام احمدؐ ہوگا۔ ہمارے نبیؐ کے آنے کی خبر حضرت موسیٰؐ نے بھی دی تھی۔ آپ نے بتایا تھا کہ یثرب کے شہر میں آخری نبی آئےگا، چناچہ یہودی ہمارے نبیؐ کے آنے سے پہلے ہی شہر یثرب میں آ کر آباد ہو گئے تھے۔یثرب مدینہ منورہ کا دوسرا نام ہے۔ یہودی اور عیسائی جناب موسیٰ اور جناب عیسیٰؐ سے خبر سن کر آخری نبی کا انتظار کر رہے تھے مگر ان کی سب سے بڑی بدبختی یہ تھی کہ جب وہ نبی تشریف لائے جن کا انتظار تھا تو بجائے ایمان لانے اور مدد کرنے کے آپ کے دشمن اور سخت مخالف ہو گئے۔

۲ ۔ نبی کے پہچاننے کا دوسسرا ذریعہ معجزہ ہے۔ معجزہ خدا کی دی ہوئی وہ طاقت ہے جس کے ذریعہ نبی ایسے حیرت انگیز کام کر دکھاتا ہے جس کا جواب لانے سے اس کے زمانے والے عاجز ہو جاتے ہیں۔اس طرح زمانہ کے لوگوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ معجزہ دکھانے والا خدا کا بھیجا ہوا نبی ہے۔ اسی لئے ہر نبی نبوت کے دعوے کے ثبوت میں معجزہ پیش کرتا ہے۔ جیسے جناب موسیٰ علیہ السلام کا عصا جس نے اژدہا بن کر جادوگروں کی ان تمام رسیوں کو نگل لیا تھا جو جادوگروں کے کرتب کی وجہ سے رینگتے ہوئے سانپ نظر آ رہی تھیں۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ اور بیماروں کو بغیر دوا کے اچھا کر دیتے تھے۔

۱۷

ہمارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی بہت سے معجزے دکھائے ہیں۔ آپ نے انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کر دئے تھے۔ ایک بار آپ کی انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری ہوا تھا۔ پتھر اور جانور آپ کے حکم پر انسانوں کی طرح آپ کی نبوت و رسالت کی گواہی دیتے تھے۔ درخت آپ کے حکم پر چل کر آپ کے پاس آ جاتے تھے۔ قرآن مجید ہمارے نبیؐ کا سب سے بڑا اور قیامت تک باقی رہنے والا معجزہ ہے جس میں تمام انسانوں اور جنوں کو چیلینج کیا گیا ہے کہ اگر ممکن ہو تو تم سب مل کر اس کا جواب لاؤ مگر آج تک جواب نہیں آ سکا جو قرآن مجید کے معجزہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

سوالات :

۱ ۔ نبی کی پہچان کے دو طریقے کیا ہیں ؟

۲ ۔ نبی کو خدا معجزہ کیوں دیتا ہے ؟

۳ ۔ پانچ معجزے بیان کرو ؟

۱۸

دسواں سبق

ہمارے آخری نبیؐ

ہمارے نبیؐ ۱۷/ ربیع الاول ۱ ؁ عام الفیل کو جمعہ کے دن صبح صادق کے قریب مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ نبی کریم کی والدہ ماجدہ جناب آمنہؐ خاتون ہیں۔ آپ کے نانا وہب ہیں جو مدینہ منورہ کے بہت باعزت آدمی تھے۔ نبی کریمؐ کی ولادت سے قبل ہی آپ کے والد محترم جناب عبدؐ اللہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ جناب ابو طالبؐ آنحضرتؐ کے چچا تھے۔ آپ کی ولادت کے وقت زمین سے آسمان تک ایک نور روشن تھا۔ ملائکہ آسمان سے بڑی تعداد میں زمین پر اُتر رہے تھے۔ شیطان نے گبھرا کر ملائکہ سے پوچھا کہ کیا قیامت آ گئی۔ ملائکہ نے بتایا کہ آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیدا ہوئے ہیں۔ ہم آسمانوں سے مبارکباد کے لئے آ رہے ہیں۔ شیطان یہ سنکر اسی وقت سے نبی کریم اور اُن کی آلؐ پاک کا دشمن ہو گیا۔

آپ جب چار برس کے تھے تو آپ کی والدہ ماجدہ جناب آمنہؐ خاتون نے مقام ابواء میں انتقال فرمایا۔ آپ آٹھ برس کے تھے جب آپ کی شفیق دادا جناب عبد المطلبؐ نے انتقال فرمایا۔ دادا کے انتقال کے بعد آپ کی پرورش آپ کے حقیقی اور مہربان چچا جناب ابو طالبؐ نے کی جناب ابوطالبؐ مرتے دم تک آپ کے حامی و مددگار اور ناصر و محافظ رہے۔ آپ کی چچی جناب فاطمہؐ بنت اسد حضرت علی عیہ السلام کی والدہ ماجدہ ہیں انھوں نے مثل ماں کے آپ کو پالا۔ آپ بھی ان کو ماں ہی کہتے تھے۔ جب آپ کا سن مبارک پچیس سال کا تھا تو آپ کی شادی عرب کی مشہور خاتون جناب خدیجہؐ سے ہوئی۔ جناب خدیجہؐ نے اپنی ساری دولت اسلام کی تبلیغ پر صرف کر دی۔ جناب خدیجہؐ کے انتقال کے بعد نبیؐ کریم نے بہت سی شادیاں کیں۔

۱۹

لیکن آپ اپنی وفات تک حضرت خدیجہؐ ہی کو یاد فرماتے رہے۔ جب آپ کا سن مبارک چالیس برس کا ہوا تو ۲۷ رجب کو خدا نے آپ کو اعلان نبوت کا حکم دیا۔ تین سال آپ نے پوشیدہ تبلیغ کی اس کے بعد کھل کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا۔جب آپ کی عمر اکیاون سال تھی اور اسلام کے اعلان کو گیارہ برس ہو چکے تھے تو چند مہینوں کے فاصلے سے یکے بعد دیگرے جناب ابوطالبؐ اور جناب خدیجہؐ نے انتقال کیا۔ آپ ان دونوں کی موت پر بہت رنجیدہ ہوئے اور اس سال کا نام " غم کا سال " رکھ دیا۔ جب آپ کی عمر ۵۳/ برس کی تھی تو مکہ میں تیرہ سال دین کی تبلیغ کر کے اور سخت ترین مصائب جھیل کر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ ہجرت کی رات دشمنوں نے آپ کا گھر گھیر لیا تھا۔ آپ اللہ کے حکم سے گھر کے باہر نکلے تو دشمن اندھے ہو گئے۔ آپ کو جاتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔ آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بستر پر سلا دیا۔ دشمن بھرا بستر دیکھ کر رات بھر یہی سمجھتے رہے کہ نبیؐ کریم آرام فرما رہے ہیں اور حضرت علی علیہ السلام دشمنوں کی کھینچی ہوئی تلواروں کے سایہ میں رات بھر بڑے اطمینان سے آرام فرماتے رہے۔ دس سال مدینہ منورہ میں آنحضرتؐ نے قیام فرمایا۔ ۶۳ سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔ آپ نے جس سال مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی ہے اسی سال سے یہ سن ہجری شروع ہوا ہے۔ ہجرت کے دوسرے سال آپ نے اپنی لخت جگر اسلام کی شہزادی جناب فاطمہؐ زہرا علیہا السلام کی شادی دین و دنیا کے مولا حضرت علی علیہ السلام سے کی ۱۰ ھ؁ میں آنحضرتؐ نے آخری حج کیا اور حج کی واپسی پر ۱۸/ ذی الحجہ کو غدیر خم کے مقام پر سوا لاکھ حاجیوں کے سامنے دن دوپہر کھلے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے اپنا خلیفہ اور جانشین مقرر فرمایا اور تمام مسلمانوں کا حاکم قرار دیا۔

۲۰

مدینہ واپس آ کر آپ دو مہینے دس دن زندہ رہے اور چند دن بیمار رہ کر اٹھائیس صفر ۱۱ ھ؁ کو انتقال فرما گئے۔ حضرت علی علیہ السلام نے اللہ کے آخری رسولؐ کو غسل و کفن دیا اور رسالت کے آفتاب کو قبر کے مغرب میں چھپا دیا۔

سوالات :

۱ ۔رسولؐ اللہ کی ولادت اور وفات کی تاریخ اور آپ کی عمر بتاؤ ؟

۲ ۔بچپن میں آنحضرت کی پرورش کس کس نے کی ؟

۳ ۔ آپ کی ماں اور آپ کی چچی کے نام کیا تھے ؟

۴ ۔ بعثت اور ہجرت کے وقت آپ کی عمر کیا تھی ؟

۵ ۔ سال غم کون سا سال ہے اور کیوں ؟

۶ ۔ جناب فاطمہ زہراؐ کی شادی کب اور کس سے ہوئی ؟

۷ ۔ حضرت علی علیہ السلام کو کب اور کہاں خلیفہ بنایا گیا ؟

۸ ۔ رسولؐ اللہ کو کس نے دفن کیا ؟

۹ ۔ اب کونسا ہجری ؁ ہے اور رسولؐ کی ہجرت کو کتنا زمانہ ہوا ؟

۲۱

گہارہواں سبق

عصمت

ہم جاہل پیدا ہوتے ہیں اور دنیا کی ہر چیز سے بے خبر ہوتے ہیں پھر دھیرے دھیرے علم حاصل کرتے ہیں۔ جتنا ہمارا علم بڑھتا ہے اسی قدر ہماری جہالت کم ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ہمارا علم کم ہی ہوتا ہے۔ ہم میں سے بڑے سے بڑا عالم بھی کم علم ہی ہوتا ہے۔ ہم جاننے کے باوجود بھول جاتے ہیں اور بھولے سے غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم جان بوجھ کر بھی غلطیاں اور گناہ کرتے ہیں۔ اللہ نے ان کمزوروں سے بچانے کے لئے اور ہماری ہدایت کے لئے نبی اور امام بھیجے۔

نبی اور امام کا ان تمام کمزوریوں سے پاک ہونا ضروری ہے ورنہ ہماری ہدایت نہ کر سکیںگے بلکہ ضرورت ہوگی کہ بھول۔چوک اور غلطی کے موقع پر کوئی ان کی ہدایت کرے۔ نبی اور امام کو معصوم بنانے کے لئے خدا ان کو اپنی ایک مخصوص مہربانی کے ذریعہ ایسا عالم اور پاک نفس بنا دیتا ہے کہ اس کے بعد وہ نہ کبھی کسی غلطی کا ارادہ کرتے ہیں اور نہ اُن سے کوئی گناہ ہو سکتا ہے۔ اس مخصوص مہربانی کا نام عصمت ہے اور خدا جس کو اپنی یہ مخصوص مہربانی عطا کرتا ہے وہ معصوم ہوتا ہے۔

چونکہ عصمت ایک پوشیدہ مہربانی ہے جو خدا اپنے مخصوص بندوں پر فرماتا ہے لہذا خدا کے بتائے بغیر کسی کا معصوم ہونا معلوم نہیں ہو سکتا۔ نبیؐ کریم ، بارہ امامؐ اور جناب فاطمہؐ کے لئے اللہ نے بتایا ہے کہ یہ معصوم ہیں۔ نبی یا امام کو صرف خدا ہی مقرر کر سکتا ہے کیونکہ ان کا معصوم ہونا ضروری ہے اس کی خبر سوا خدا کے کسی کو نہیں ہے لہذا ہر نبی یا امام وہی ہوتا ہے جسے خدا مقرر کرتا ہے اور جس کے معصوم ہونے کی اُس نے خبر دی ہو۔

سوالات :

۱ ۔ امام کی عصمت کا مطلب بتاؤ ؟

۲ ۔ عصمت کیسے معلوم ہوتی ہے ؟

۳ ۔ کیا عصمت کے بعد آدمی مجبور ہو جاتا ہے کہ گناہ نہ کر سکے ؟

۲۲

بارہواں سبق

چودہ معصومؐ

۱ ۔ ہمارے رسولؐ ۔ آپ کے باپ جناب عبدؐ اللہ ۔ دادا جناب عبد المطلبؐ اور ماں جناب آمنہؐ خاتون تھیں۔ آپ مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے اور مدینہ طیبہ میں انتقال فرمایا۔

۲ ۔ جناب فاطمہؐ کے باپ ہمارے رسول حضرت محمد مصطفےٰ اور ماں جناب خدیجہؐ تھیں۔ آپ کی شادی حضرت علیؐ سے ہوئی ۔ مکہ میں پیدا ہوئیں اور مدینہ میں شہادت پائی۔

۳ ۔ حضرت علیؐ کے باپ جناب ابوطالبؐ ۔ دادا جناب عبد المطلبؐ اور ماں جناب فاطمہؐ بنت اسد تھیں۔ آپ خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور مسجد کوفہ میں شہید ہوئے

۴ ۔ امام حسنؐ کے والد حضرت علیؐ اور والدہ فاطمہؐ تھیں۔ مدینہ ہی میں پیدا ہوئے اور مدینہ ہی میں شہید ہوئے۔

۵ ۔ امام حسینؐ کے والد حضرت علیؐ اور والدہ فاطمہؐ تھیں۔ مدینہ میں پیدا ہوئے اور کربلا میں شہید ہوئے۔

۶ ۔ امام زین العابدینؐ کا نام علیؐ تھا ۔ آپ امام حسینؐ کے بڑے فرزند تھے۔ جناب شہر بانو آپ کی ماں تھیں۔ مدینہ ہی میں پیدا ہوئے اور مدینہ ہی میں شہید ہوئے۔

۷ ۔ امام محمد باقر کا نام محمدؐ تھا۔ امام زین العابدینؐ آپ کے والد ماجد تھے اور امام حسنؐ کی بیٹی جناب فاطمہ آپ کی ماں تھیں۔ مدینہ میں پیدا ہوئے اور مدینہ ہی میں شہید ہوئے۔

۸ ۔ امام جعفر صادق ؐ کا نام جعفرؐ ہے باپ امام محمد باقرؐ تھے۔ ماں کا نام ام فروہ ہے۔ مدینہ میں پیدا ہوئے اور وہیں شہید ہوئے۔

۲۳

۹ ۔ امام موسیٰ کاظمؐ کا نام موسیٰ ہے۔ باپ امام جعفر صادقؐ تھے اور ماں کا نام حمیدہ ہے۔ آپ ابواء میں پیدا ہوئے اور بغداد میں شہید ہوئے۔

۱۰ ۔ امام علی رضاؐ کا نام علیؐ ہے۔ آپ امام موسیٰ کاظمؐ کے بیٹے تھے۔ آپ کی ماں کا نام نجمہ تھا۔ مدینہ میں پیدا ہوئے اور خراسان میں شہید ہوئے۔

۱۱ ۔ امام محمد تقیؐ کا نام محمدؐ ہے۔ آپ کے باپ امام علی رضاؐ تھے ۔ ماں کا نام سبیکہ تھا۔ مدینہ میں پیدا ہوئے اور کاظمین میں شہید ہوئے۔

۱۲ ۔ امام علی نقیؐ کا نام علیؐ ہے۔ باپ امام محمد تقیؐ اور ماں سمانہ تھیں۔ آپ مدینہ میں پیدا ہوئے اور سامرہ میں شہید ہوئے۔

۱۳ ۔ امام حسن عسکریؐ کا نام حسنؐ ہے۔ آپ کی ماں کا نام حدیثہ تھا اور باپ امام علی نقیؐ ہیں۔ آپ مدینہ میں پیدا ہوئے اور سامرہ میں شہید ہوئے۔

۱۴ ۔ امام مہدیؐ کا نام محمدؐ ہے۔ آپ امام حسن عسکریؐ کے بیٹے تھے۔ ماں کا نام نرجس خاتون ہے۔ سامرہ میں پیدا ہوئے اور بحکم خدا زندہ ہیں۔ آپ کےالقاب مہدی ۔ امام زمانہ ۔ ولی عصر ۔ حجتہ اللہ ۔ صاحب العصر ۔ صاحب الزمان وغیرہ ہیں۔ آپ کو نام کے بجائے ان القاب سے پکارنا چاہئیے۔

سوالات :

۱ ۔ دسویں امامؐ کہاں پیدا ہوئے اور آپ کی ماں کا نام کیا تھا ؟

۲ ۔ بارہویں امامؐ کو کیسے پکارنا چاہئیے ؟

۳ ۔ چودہ معصومینؐ کے مقام ولادت ، والد اور والدہ کے نام بتاؤ ؟

۲۴

تیرہواں سبق

امامت

امامت بھی نبوت ہی کی طرح اصول دین میں ہے نہ کہ فروع دین میں اس لئے جو خدا بندوں کی ہدایت کے لئے نبی کے بعد نبی بھیجتا رہا ہے اُس خدا کے لئے ضروری ہے کہ نبوت ختم ہونے کے بعد قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کہ ہدایت کا انتظام کرے۔ چنانچہ اس نے خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد بارہ اماموں کو انسانوں کا ہادی اور رہبر مقرر کیا ہے۔ ان بارہ اماموںؐ کی امامت کے خاتمہ پر دنیا ختم ہو جائےگی اور قیامت آجائےگی۔

امامت اصول دین کا مسئلہ ہے اس کو مانے بغیر نہ کوئی شخص با ایمان مر سکتا ہے اور نہ مرنے کے بعد جنت میں جگہ پا سکتا ہے۔ خدا وند عالم فرماتا ہے۔" قیامت کے دن ہم ہر انسان کو اس کے امام کے ساتھ بلائیںگے۔" معلوم ہوا کہ قیامت کے دن انسانوں سے فقط یہ سوال نہیں ہوگا کہ تمہارا خدا کون ہے۔ تمہارا رسول کون ہے تمہاری کتاب کونسی ہے ۔تمہارا قبلہ کیا ہے ۔ تمہارا دین کیا ہے بلکہ سب سے بڑا سوال یہ بھی ہوگا تمہارا امام کون ہے۔ لہذا امام کا جاننا اور ماننا ضروری ہے۔ حضرت رسولؐ کریم نے فرمایا ہے۔ " جو شخص اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مر جائے گا اس کی موت گمراہ اور کافر کی موت ہوگی "۔ معلوم ہوا کہ امام زمانہ کو مانے بغیر کوئی شخص مسلمان کی موت نہیں مر سکتا۔ جب امام کو ماننا اس قدر ضروری ہے تو خدا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اماموں کا انتخاب کرے اور نبی کے ذریعہ ان اماموں کے ناموں کا اعلان کرے۔

۲۵

جب قیامت تک دین خدا اور قرآن کا رہنا ضروری ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ شریعت و کتاب و سنت کے کچھ محافظ بھی قیامت تک رہیں۔ بارہ امام اسی لئے مقرر کئے گئے کہ وہ نبی کے دین کو باقی رکھیں۔

امام۔ نبی کی طرح معصوم ہوتا ہے۔ ہر خطا ، غلطی ، بھول چوک اور سہود نسیان سے پاک ہوتا ہے۔

امام ۔ نبی کی طرح عالم پیدا ہوتا ہے اور وہ زندگی میں کسی چھوٹے سے چھوٹے یا بڑے سے بڑے مسئلہ کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے معلوم نہیں۔

امام ۔ نبی کی طرح معجزہ کی طاقت کا مالک ہوتا ہے۔ نبی اور امام کے معجزہ کا جواب لانا ممکن نہیں ہوتا۔

امام ۔ نبی کی طرح اپنے زمانہ کے تمام انسانوں سے ہر فضل و کمال میں افضل ہوتا ہے۔

امام ۔ نبی کی طرح ہر ذاتی ۔ خاندانی ۔ جسمانی ۔ روحانی ۔ ظاہری اور باطنی عیب سے پاک ہوتا ہے۔

امام ۔ نبی کی طرح کمالات کا مجموعہ ہوتا ہے۔

امام ۔ نبی کی طرح اپنے زمانہ کا سب سے بہادر انسان ہوتا ہے۔

امام ۔ نبی کی طرح دین و دنیا کا مکمل حاکم ہوتا ہے۔

امام ۔ ہاشمی ہوتا ہے اور نبی کے اہلبیتؐ میں سے ہوتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ بتاؤ امام میں کون سی باتیں پائی جاتی ہیں ؟

۲ ۔ امامت اصول دین میں ہے اس کی دلیل میں ایک آیت ، ایک حدیث بیان کرو

۲۶

چودھواں سبق

امام کا ہونا ضروری ہے

امام کے بغیر نہ دنیا باقی رہ سکتی ہے اور نہ انسانوں کو ہدایت مل سکتی ہے۔ اس مسئلہ میں ہم ایک دلچسپ گفتگو سناتے ہیں۔

ہشام بن حکم جو جناب امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی اور شاگرد تھے انھوں نے سنا کہ عمرو بن عبیدہ بصرہ کی جامع مسجد میں لوگوں کے سامنے بڑے بڑے غلط اور جھوٹے دعوے کرتا ہے۔ تو ایک مرتبہ جمعہ کے دن اُس مسجد میں جا پہونچے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ لوگ اُسے گھیرے ہوئے ہیں اور کچھ پوچھ رہے ہیں۔ یہ بھی بھیڑ کو چیرتے ہوئے اس کے قریب جا پہونچے اور دونوں میں یوں باتیں ہونے لگیں۔

ہشام ۔ میں ایک مسافر ہوں اگر اجازت ہو تو میں بھی کچھ پوچھوں۔

عمرو ۔ (بیباکی سے) جو پوچھنا ہو پوچھو۔

ہشام ۔ کیا تمہاری آنکھیں ہیں ؟

عمرو ۔ یہ بھی کوئی سوال ہے۔ کیا اس سے بڑھ کر بیوقوفی کا کوئی سوال ہو سکتا ہے۔

ہشام ۔ مجھے تو یہی پوچھنا ہے آکر بتانے میں تمہارا کیا بگڑتا ہے۔

عمرو ۔ اچھا خفا نہ ہو تمہیں اگر یہی پوچھنا ہے تو میں بھی جواب دیتا ہوں کہ آنکھیں ہیں۔

ہشام ۔ بھلا تم اس سے کیا کام لیتے ہو ؟

۲۷

عمرو ۔ ارے بھائی یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ ظاہر ہے میں اس سے چیزوں کو دیکھتا اور رنگوں کا فرق پہچانتا ہوں۔

ہشام ۔ کیا تمہارے ناک بھی ہے ؟

عمرو ۔ ہے ۔ پھر آپ کا مطلب ؟

ہشام ۔ مطلب کچھ نہیں صرف یہ بتا دیجئیے کہ آپ اس سے کیا کام لیتے ہیں ؟

عمرو ۔ اس سے ہر طرح اچھی بری بو ، معلوم ہوتی ہے اس سے سانس لیتے ہیں۔

ہشام ۔ کیا زبان ہے ؟

عمرو ۔ اچھا بھائی یہ سوال بھی سہی، ہاں زبان بھی ہے۔

ہشام ۔ کیا اس سے کچھ کام لیتے ہو ؟

عمرو ۔ اس سے باتیں کرتا ہوں ۔ مختلف چیزوں کے مزے محسوس کرتا ہوں، میٹھا ، کڑوا نمکین ، پھیکا اسی سے معلوم ہوتا ہے۔

ہشام ۔ کیا تمہارے کان بھی ہیں ؟

عمرو ۔ ہاں بھائی ہیں۔

ہشام ۔ کہا یہ بھی کام آتے ہیں یا یوں ہی ؟

عمرو ۔ کیا خوب ۔ حضرت ان سے اچھی بری ، قریب اور دور کی باتیں سنتا ہوں۔

ہشام ۔ خیر ہوگا ، بھلا یہ تو فرمائے ہاتھ بھی ہیں ؟

عمرو ۔ واہ واہ ہاتھ ہیں نہیں تو کیا ٹنڈا ہوں اپنا مطلب کہئے۔

۲۸

ہشام ۔ ان سے کچھ کام بھی چلتا ہے یا صرف یونہی دیکھنے کے ہیں ؟

عمرو ۔ سبحان اللہ ! ارے بھائی انھیں سے تو سردی اور گرمی ، خشکی ، تری ، نرمی ، سختی، کھرمی اور چیکنی چیزیں معلوم ہوتی ہیں۔

عرض اس طرح ایک ایک عضو کے بارے میں پوچھتے پوچھتے آکر دل کے بارے میں سوال کیا۔

ہشام ۔ کیا تمہارے پاس دل بھی ہے، یا بغیر دل کے پیدا ہوئے ہو ؟

عمرو ۔ ماشاء اللہ جب دل ہی نہ ہو تو پھر کیونکر کام ہو۔ دل ہی سارے کاموں کا ذمہ دار ہے۔

ہشام ۔ کیا اس سے بھی کچھ کام نکلتا ہے ؟

عمرو ۔ کیا کہنا ۔ ارے بھائی یہ تو سارے بادشاہ ہے اور یہی بدن کی ساری سلطنت کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

ہشام ۔ کیا اور اعضاء سب اس کے محتاج اور تابع فرمان ہیں ؟

عمرو ۔ ہاں بغیر اس کے تو کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا۔

ہشام ۔ جب یہ اعضاء صحیح و سالم ہیں تو دل کے محتاج کیوں ہیں ؟

عمرو ۔ میاں صاحبزادے جب یہ اعضاء کسی بات میں شک کرتے ہیں تو دل ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دل جو حکم کرتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں۔

ہشام ۔ کیا انسان کے بدن میں دل کا ہونا ضروری ہے کہ بغیر اس کے اعضاء کو کسی چیز کا یقین حاصل ہی نہیں ہو سکتا۔

۲۹

عمرو ۔ ہاں ہاں ضرور ، بغیر اس کے کچھ نہیں ہو سکتا ۔

ہشام ۔ اے عمرو ! جب خدا نے جسم کے چند اعضاء کو بغیر رہنما اور حاکم کے نہیں چھوڑا ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ ساری دنیا کے انسانوں کو بغیر امم چھوڑ دے اور اُن کی ہدایت کا انتظام نہ کرے۔

یہ سن کر عمرو کے ہوش اڑ گئے اور گبھرا کر کہنے لگا۔

عمرو ۔ میاں کیا تم ہشام ہو ؟

ہشام ۔ نام سے کیا مطلب ؟

عمرو ۔ تم کہاں کے رہنے والے ہو ؟

ہشام ۔ کوفہ کا باشندہ ہوں۔

عمرو ۔ "تب تو تم ضرور ہشام ہی ہو ۔" یہ کہہ کر جلدی سے اٹھا اور ہشام کو گلے لگا لیا اور مسند پر جگہ دی اور اپنے پہلوں میں بٹھایا اور جب تک ہشام وہاں بیٹھے رہے ڈر کے مارے دم نہ مارا اور کوئی بات نہ کی۔

اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ ہر زمانہ میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے۔

سوالات :

۱ ۔ ہشام کون تھے ؟ کس کے صحابی تھے ؟

۲ ۔ انھوں نے عمرو بن عبیدہ بصری کو کیوں کر لاجواب کیا ؟

۳ ۔ ہشام کو یہ علم کس سے ملا تھا ؟

۴ ۔ ہشام کو عمرو کیسے پہچان گیا ؟

۳۰

پندرہواں سبق

دنیا کا آخری انجام

جس طرح پہلے یہ دنیا نہ تھی اور بعد میں پیدا ہو گئی اسی طرح ایک دن ایسا بھی آئےگا جب یہ دنیا رہےگی اور قیامت آ جائےگی۔ قیامت اس طرح آئیگی کہ خدا کے حکم سے حضرت اسرافیل ایک صور لےکر زمین پر آئیںگے صور کے اوپر کے سرے میں دو گوشے ہوںگے ایک گوشہ کا رخ آسمان کی طرف ہوگا اور دوسرے کا رخ زمین کی طرف ہوگا پہلے زمین کی طرف والے گوشہ میں صور پھونکیںگے، اس وقت زمین والے سے سب آسمان والے مر جائیںگے اور سوائے حضرت اسرافیل کے کوئی زندہ نہ رہےگا۔ پھر حضرت اسرافیل بھی حکم خدا سے مر جائیںگے اور خدائے عزیز کے علاوہ اور کوئی باقی نہ رہ جائےگا۔ اس کے بعد جب خدا کی مرضی ہوگی تو پہلے آسمان والوں کو اور پھر زمین والوں کو زندہ کیا جائگا اور سب کا حساب و کتاب ہوگا اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق لوگ جنت یا جہنم میں جائیںگے۔

قیامت کی علامتیں :

قیامت آنے سے پہلے کچھ باتیں ظاہر ہونگی جن سے پتہ چل جائےگا کہ قیامت آنے والی ہے۔

۱ ۔ یاجوج ماجوج :۔ یہ بڑی تباہی مچاتے تھے اور خونریزی کیا کرتے تھے۔ سکندر ذوالقرنین نے ایک دیوار بنا دی تھی جس کی وجہ سے یاجوج ماجوج کی مصیبتوں سے دنیا نجات پا گئی تھی۔ جب قیامت قریب ہوگی تو یہ دیوار گر جائےگی اور یاجوج ماجوج نکل آئیںگے اور بڑی تباہی پھیلائیںگے۔

۲ ۔ قیامت آتے وقت سورج پچھم سے نکلےگا۔

۳ ۔ قیامت آنے سے پہلے ساری دنیا میں دھواں پھیل جائےگا۔

سوالات :

۱ ۔قیامت کب آئےگی ؟

۲ ۔ حضرت اسرافیل کون ہیں ؟

۳ ۔ قیامت سے پہلے کو ن سے واقعات ہوںگے ؟

۳۱

فروع دین

سولہواں سبق

نماز

ہمارا فریضہ :۔

اللہ نے ہمیں زندگی دی۔ وہی ہمیں رزق دیتا ہے۔ اُسی نے ہمیں ماں باپ ،بھائی بہن دئے۔ وہی ہمیں علم اور ترقی دینے والا ہے۔ وہی ہمیں دولت اور عزت دیتا ہے۔ وہی ہمارے مال میں برکت دیتا ہے۔ غرض ہمیں جو کچھ ملتا ہے اُسی سے ملتا ہے۔

اللہ ہمارے ماں باپ سے زیادہ ہم سے محبت کرنے والا ہے۔ ہمیں بھی اُس محبت کرنے والے اللہ سے محبت کرنا چاہئے۔ اللہ کی محبت کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ کو ہمیشہ خوش رکھیں۔ اللہ کو خوش رکھنے کا نام عبادت ہے۔ عبادت کرنا ہمارا فریضہ ہے۔

نماز :۔ سب سے بڑی عبادت نماز ہے۔ اس میں دین اور دنیا کے بہت فائدے ہیں۔

نماز پڑھنے سے ہم میں وقت کی پابندی کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ نماز پڑھنے والے کا جسم صاف رہتا ہے اور دل پاک رہتا ہے۔

نماز سے علم ، ایمان اور دولت میں اللہ برکت دیتا ہے۔

نماز پڑھنے والے کو ہر شخص عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

۳۲

نماز پڑھنے والے سے اللہ بھی خوش ، رسولؐ بھی خوش ، ائمہ بھی خوش ایمان والے بھی خوش رہتے ہیں۔

نماز سے انسانی روح میں بلندی پیدا ہوتی ہے۔

نماز ہمیں بری باتوں سے روکتی ہے۔

نماز آخرت میں نجات کا سرمایہ ہے۔ جس کی نماز قبول اس کا ہر نیک عمل قبول۔ جس کی نماز قبول نہیں اس کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا۔

نماز سے بلائیں دور ہوتی ہیں ، آدمی کے مشکلات ختم ہو جاتے ہیں۔

نماز کو جو شخص ترک کرے وہ فاسق ہے۔ اُسے اللہ کے دربار سے سخت سزا ملےگی۔

نماز کو جو شخص حقیر اور بےکار سمجھے وہ کافر ہے۔ جس نے نماز کا انکار کیا اس نے گویا خدا کا انکار کیا۔ اور جس نے خدا کا انکار کیا وہ مسلمان نہیں۔

نماز پڑھنے والا اللہ سے ڈرتا ہے اس لئے وہ بڑے کاموں سے دور رہتا ہے۔

نماز پڑھنے والا اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ نماز سے اللہ کی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔

نماز ، جماعت کے ساتھ پڑھنے سے آپس میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہوتا ہے۔

نماز کا ایک قاعدہ مقرر ہے اور سب اسی طریقہ پر نماز ادا کرتے ہیں اس میں کوئی تبدیلی یا بے ترتیبی نہیں ہو سکتی۔ زندگی کے دوسرے کاموں میں بھی اگر یہی سلیقہ اور ترتیب برتی جائے تو ہر کام میں کامیابی یقینی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ عبادت کس چیز کا نام ہے ؟ اور سب سے بڑی عبادت کیا ہے ؟

۲ ۔ نماز کو بےکار سمجھنے والے کو کیا کہیںگے ؟

۳ ۔ نماز جماعت سے کیا فائدہ ہے ؟

۴ ۔ نماز کے کوئی تین فائدے بیان کرو ؟

۳۳

ستررہواں سبق

معصومینؐ کی نمازیں

نبی کی نماز :۔

ہمارے نبیؐ ساری رات نماز میں کھڑے رہتے تھے۔ آپ کے پاؤں پر ورم آ جاتا تھا۔ آخر اللہ کو کہنا پڑا ۔" اے کملی اوڑھنے والے جیب ، رات کو ذرا آرام بھی کیا کرو ۔"

پہلے امامؐ کی نماز :۔

ہمارے پہلے امام حضرت علی علیہ السلام دین و دنیا کے بادشاہ تھے۔ ایک مرتبہ آپ لڑائی کے لئے گئے۔بڑے گھمسان کارن پڑ رہا تھا، دشمن آپ کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھا اور یہ چاہتے تھے کہ آپ کو قتل کر ڈالیں۔ اتنے میں نماز کا وقت آ گیا۔ آپ نے یہ بھی نہیں سوچا کہ دشمن آپ کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں بس فوراً گھوڑے سے اُترے اور نماز شروع کر دی۔

جب نماز پڑھ چکے تو ایک صحابی نے آپ سے پوچھا " یا علیؐ !بھلا اس لڑائی کی حالت میں نماز پڑھنے کا کیا موقع تھا ؟"

آپ نے جواب دیا ۔" ہم اسی نماز کو قائم کرنے کے لئے جنگ کر رہے ہیں"

تیسرے امامؐ کی نماز :۔

ہمارے تیسرے امام حضرت امام حسین علیہ السلام کو ہزاروں دشمنوں نے کربلا میں گھیر لیا تھا اور آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ محرم کی دس تاریخ کو جب ظہر کا وقت آ گیا تو آپ نے اپنے دو ساتھیوں کو سامنے کھڑا کیا تاکہ وہ دشمنوں کے ہر وار کو اپنے اوپر روکیں اور خود نماز میں مشغول ہو گئے۔ آپ کو نہ ہزاروں دشمنوں کا خوف ہوا اور نہ برستے تیروں کا ڈر ، نہ موت کی فکر اور نہ زخمی ہونے کا خیال۔ آپ نے تیروں کی بوچھاڑ میں نماز پوری کی۔ دشمنوں نے عصر کے وقت آپ کو شہید کیا تو آپ کاسر سجدہ میں تھا۔ آپ نے سجدہ میں سر کٹا کے ہمیں بتایا کہ جان جا سکتی ہے مگر بندگی نہیں جا سکتی۔

۳۴

چوتھے امامؐ کی نماز :۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ہمارے چوتھے امام ہیں۔ آپ دن رات اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ اللہ کا ایسا ڈر طاری ہوتا کہ لوگ یہ سمجھتے کہ امام کا انتقال ہو گیا۔

ایک مرتبہ آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ شیطان نے سوچا کہ آپ کو آزمائے۔ چناچہ شیطان سانپ بن کر آپ کے مصلے پر آیا اور آپ کے انگوٹھے میں کاٹنا شروع کر دیا۔ آپ نماز میں اتنے محو ہو گئے تھے کہ سانپ انگوٹھا چباتا رہا اور آپ کو خبر بھی نہیں ہوئی۔ اس پر شیطان کو بہت تعجب ہوا۔ نماز ختم ہونے کے بعد ایک غیبی آواز آئی "بےشک آپ زین العابدینؐ ہیں "۔ یہی آپ کا مشہور لقب ہے۔

نماز کی شان :۔

نماز میں بس اللہ کو یاد کرنا چاہئے۔ ادھر اُدھر کا کوئی خیال دل میں نہیں آنے دینا چاہئے۔ اگر کوئی فکر ہے تو نماز کے بعد دعا کرنا چاہئے۔ وہ اسے دور کر دےگا۔ نماز میں بس اللہ کا دھیان رکھنا نماز کی شان ہے۔ دوسری باتیں سوچنے کے لئے ہمارے پاس دوسرا وقت موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سچےمسلمان نماز میں صرف اللہ سے لو لگاتے ہیں۔ کوئی دوسرا خیال دل میں نہیں آنے دیتے۔

۳۵

ایک لڑائی میں حضرت علی علیہ السلام کے پیر میں تیر لگ گیا تھا جس کے نکالتے وقت آپ درد سے بے چین ہو جاتے تھے۔ حضرت رسولؐ خدا نے فرمایا کہ جب علیؐ نماز پڑھیں تب تیر نکال لینا۔ چناچہ نماز کے دوران تیر نکال لیا گیا اور آپ کو خبر نہ ہوئی۔

اگر ہم اپنے اماموں کے سچے ماننے والے ہیں تو ہم کو نماز کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے اور نہ نماز کے دوران ہمارے دل میں اللہ کے سوا کوئی اور خیال آنا چاہئے۔

سوالات :

۱ ۔ عبادت کے معنی بیان کرو ؟

۲ ۔ نماز کے تین فائدے بیان کرو ؟

۳ ۔ کسی امامؐ کی نماز کا کوئی واقعہ بیان کرو ؟

۴ ۔ نماز کی شان کیا ہونا چاہئے ؟

۳۶

اٹھارہواں سبق

واجب نمازیں

امام عصر علیہ السلام کی غیبت کے زمانی میں چھ قسم کی نمازیں واجب ہیں۔

۱ ۔ نماز پنچگانہ ۔ یعنی صبح ، ظہر ، عصر ، مغرب ، عشا۔

۲ ۔ نماز آیات ۔ یعنی چاند گہن ، سورج گہن اور زلزلہ وغیرہ کے وقت کی نماز۔

۳ ۔ نماز میت

۴ ۔ نماز طواف واجب

۵ ۔ نماز قضائے والد

۶ ۔ نماز اجارہ و نذر و عہد وغیرہ

نماز جمعہ کا شمار نماز پنچگانہ میں ہوتا ہے۔ یہ جمعہ کے دن ظہر کے بدلے واجب تخیری ہے۔ لیکن شرائط کے ساتھ قیام کی صورت میں شرکت بنا پر احتیاط واجب ہے۔

۳۷

شرائط نماز

نماز سے پہلے چھ چیزیں واجب ہیں۔

۱ ۔ ازالہ نجاست : نجاست دور کرنا۔ پاک کپڑے پہننا۔

۲ ۔ طہارت : یعنی وضو یا غسل یا تیمم کرنا۔

۳ ۔ ستر : یعنی مرد اپنی اگلی پچھلی شرمگاہ چھپائے اور عورت پورے جسم کو چھپائے چاہے کوئی دیکھتا ہو یا نہ دیکھتا ہو۔ صرف چہرے ، گٹے تک ہاتھ اور گٹے تک پیروں کے ظاہری حصے کو کھلا رکھنا جائز ہے۔

۴ ۔ وقت : یعنی ہر نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔

۵ ۔ اباحت مکان : یعنی نماز کی جگہ جائز ہو غصبی نہ ہو۔

۶ ۔ استقبال قبلہ : یعنی قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھے۔

مردوں کو ریشمی یا سونا ملا ہوا کپڑا پہن کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔

سوالات :

۱ ۔ زمانہ غیبت میں کتنی نمازیں واجب ہیں ؟

۲ ۔ نماز سے پہلے جو چیزیں واجب ہیں وہ بیان کرو ؟

۳۸

انیسواں سبق

قبلہ

قبلہ وہ جگہ ہے جہاں کعبہ واقع ہے۔ خانہ کعبہ کے آس پاس کے رہنے والے جو بآسانی قبلہ کو معلوم کر سکتے ہیں ان پر واجب ہے کہ کعبہ کے مقابل کھڑے ہو کر نماز پڑھیں۔

اور کعبہ سے دور ہیں ان کو کعبہ کی سمت رخ کر کے نماز پڑھنا چاہئے۔

قبلہ کے معلوم کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں مثلا یہ دیکھیں کہ اس جگہ کے مسلمانوں کی مسجدیں کس رُخ پر بنی ہوئی ہیں یا مسجد نہ ہو تو یہ پتہ چلائیں کہ اس جگہ کے مسلمان کس سمت منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں یا مسلمانوں کی قبروں کو دیکھیں کہ وہ کس رُخ پر بنی ہوئی ہیں یا تمام وہ ذرائع جن سے سمت قبلہ کا گمان حاصل ہو سکتا ہو جیسے قطب نمایا مقامی باشندہ کا خبر دینا جس کے کہنے سے گمان پیدا ہو جائے۔

جب قبلہ کی تعین کا یقین یا گمان کسی طرح بھی ممکن نہ ہو تو قبلہ کا استقبال واجب نہیں ہے اور کسی ایک طرف نماز پڑھ لینا کافی ہے۔ اگر چہ بہتر یہی ہے کہ نماز کو چاروں طرف پڑھے۔

سوالات :

۱ ۔ قبلہ کیا ہے ؟

۲ ۔ کعبہ سے قریب والے کا کیا حکم ہے ؟

۳ ۔ خانہ کعبہ سے دور رہنے والے کا کیا حکم ہے ؟

۴ ۔ جب قبلہ نہ معلوم ہو تو کیا کرنا چاہئے

۳۹

بیسواں سبق

لباس

نماز کی حالت میں مردوں کے لئے اپنے آگے پیچھے کا چھپانا واجب ہے اور عورتوں کے لئے پورے جسم کا چھپانا واجب ہے یہاں تک کہ بال بھی چھپے رہیں صرف اتنا چہرا کھلا رہ سکتا ہے جو وضو میں دھویا جاتا ہے اور گٹے تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پیر کھلے رہ سکتے ہیں بشرطیکہ کوئی دیکھنے والا نہ ہو۔ لباس کے بارے میں چند شرطوں کا لحاظ ضروری ہے۔

۱ ۔ کپڑا جسم کو چھپا سکتا ہو۔ لہذا ہلکے نائلون یا ہلکے ململ وغیرہ کے کپڑے پہن کر عورتوں کے لئے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے جب تک کہ الگ سے چادر وغیرہ نہ اوڑھیں چاہے دیکھنے والا موجود نہ ہو۔

۲ ۔ کپڑا پاک ہو۔ نجس کپڑے میں نماز جائز نہیں ہے ہاں اگر پاک کرنے کا امکان نہ ہو اور وقت تنگ ہو تو اسی کپڑے میں نماز پڑھ سکتا ہے۔

۳ ۔ مباح ہو ۔ یعنی لباس اپنی ملکیت ہو یا مالک کی اجازت ہو۔ اگر بغیر خمس و زکوۃ دئیے ہوئے کسی رقم سے کپڑا خریدا گیا ہو یا کسی ایسے شخص کے ترکہ سے جس پر خمس و زکوٰۃ واجب تھا کوئی کپڑا خریدا گیا ہے تو اس میں نماز باطل ہے۔

۴ ۔مردار کی کھال کا نہ ہو۔ مردار سے بچنے کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ مسلمان سے خریدا گیا ہو۔ غیر مسلم سے خریدے ہوئے چمڑے میں نماز صحیح نہیں ہے جب تک کہ اس کے صحیح ذبح ہونے کا علم نہ ہو۔

۵ ۔ حرام گوشت جانور کا کوئی جز نہ ہو اس لئے کہ اس کے معمولی جز کہ شرکت سے بھی نماز باطل ہو جاتی ہے اسی لئے یہ کہا گیا ہے کہ نماز میں کپڑے پر کتے یا بلی کا ایک بال بھی پڑ جائے تو نماز باطل ہو جائےگی۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83