امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم جلد ۵

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم60%

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 99

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 99 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71682 / ڈاؤنلوڈ: 2749
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

جب حضورؐ تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ابو لہب نے آپ کی تقریر سے پہلے یہ کہہ کر مجمع کو بھڑکا دیا کہ ان کی تقریر مت سنو یہ جادوگر ہیں ، تم نے ابھی ابھی دیکھا ہے کہ انھوں نے تھوڑے کھانے کو جادو کے ذریعہ زیادہ کر دیا ہے اگر تقریر سنوگے تو یہ جادو کے ذریعہ تم کو تمہارے مذہب سے منحرف کر دیںگے۔ مجمع یہ سن کر اٹھا اور چلا گیا۔ رسول کریمؐ نے پھر حضرت علی علیہ السلام کو بھیج کر دوسرے دن کے لئے سب کو بلوایا اور کھانے کا بھی انتظام کیا۔ دوسرے دن بھی سب لوگ آئے اور نبیؐ کی برکت سے تھوڑا کھانا بہت ہو گیا۔ سب کے سیر ہونے کے بعد بھی بچ رہا۔ آج ابو لہب نے پھر تقریر میں روکاوٹ ڈالنا چاہی تو جناب ابو طالب علیہ السلام کھڑے ہو گئے اور ابو لہب کو سختی کے ساتھ ڈانٹا اور رسولؐ کریم سے عرض کی کہ اے میرے سردار آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہوں کہئے۔ رسولؐ نے اسلام پیش کیا۔ خدا کی توحید کا پیغام سنایا ، اپنی نبوت کا اعلان کیا اور اس کے بعد فرمایا۔

"جو شخص ہدایت کے کام میں میری مدد کرےگا میں اُسے اپنا بھائی ، وصی اور وزیر مقرر کروںگا۔ وہ میرے بعد میرا خلیفہ اور جانشین ہوگا اس کی اطاعت لوگوں پر میری طرف سے واجب ہوگی۔ "

نبیؐ کی آواز پر کسی نے آواز نہ دی صرف دس سال کے کمسن علیؐ نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ " میں مدد کا وعدہ کرتا ہوں "۔ رسولؐ اسلام نے حضرت علی علیہ السلام کی پشت پر ہاتھ رکھ کر آپ کو مجمع کے سامنے کیا اور یہ اعلان فرمایا کہ۔ انھوں نے میری مدد کا وعدہ کیا ، لہذا یہ میرے بھائی وصی اور وزیر ہیں۔ میرے بعد میرے خلیفہ اور جانشین ہیں میں ان کو اپنی طرف سے حاکم مقرر کرتا ہوں۔ انکی اطاعت تم سب پر واجب ہے۔ ابو لہب نے جل کر جناب ابو طالب علیہ السلام کو طعنہ دیا۔

۲۱

" محمدؐ تم کو بیٹے کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں" ۔

جناب ابو طالب علیہ السلام نے جواب دیا کہ

" میرا بھتیجا جو بات بھی کہتا ہے وہ بہرحال خیر ہے "۔

اس واقعہ کا نام دعوت ذوالعشیرہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے زندگی بھر اپنی جان اور مال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدد کی اور آپ کے بعد آپ کی پاک نسل یعنی گیارہ اماموںؐ نے دین کی مدد میں اپنی پاکیزہ زندگیاں صرف کیں۔ حضرت امیرؐ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور رسول اللہؐ نے بھی اپنے وعدہ کا ایفا فرمایا۔ حضرت علی علیہ السلام کو اور ان کے بعد ان کی نسل کے گیارہ اماموںؐ کو اپنا نائب ، جانشین اور خلیفہ مقرر کیا۔

یہ کہنا کہ حضورؐ انتقال کے وقت کسی کو خلیفہ بنا کر نہیں گئے بلکہ امت کو خلیفہ بنانے کا حق دے گئے غلط ہے اور رسول عظیمؐ کی پاک اور بے داغ سیرت پر وعدہ خلافی کا الزام بھی ہے۔ کوئی سچا مسلمان اپنے نبیؐ پر وعدہ خلافی کا الزام لگانا پسند نہیں کرےگا۔ لہذا رسولؐ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو بلا فصل خلیفہ ماننا ہر سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے۔

دوسری دلیل ۔

رسالتمابؐ نے اپنے انتقال سے دو مہینے دس دن پہلے اٹھارہ ذی الحجہ ۱۰ ھ؁ کو غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کا مفصل اور مکمل اعلان فرمایا۔ آپ اس وقت آخری حج کر کے مکہ معظمہ سے واپسی تشریف لا رہے تھے آپ کے ساتھ سوا لاکھ حاجیوں کا مجمع تھا۔ جلتی دوپہر میں قافلہ کو روک کر جمع کیا ۔ کجاوون کا ممبر بنوایا اور بحکم خدا حضرت علی علیہ السلام کو لیکر ممبر پر تقریر کے لئے تشریف لے گئے کیونکہ خدا کی طرف سے رسولؐ السلام پر ۔ آیہ تبلیغ نازل ہوئی تھی۔

۲۲

"اے رسولؐ اس بات کا اعلان کر دو جس کے اعلان کا ہم تم کو حکم دے چکے ہیں۔ اگر یہ اعلان نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا۔ خدا دشمنوں سے آپ کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے"۔

اس حکم کے بعد حضورؐ نے مجمع کے سامنے ایک طولانی تقریر فرمائی جس کے آخر میں ہر مسلمان سے پوچھا کہ تم اپنی جان اور مال کے مالک ہو یا میں تمہاری جان اور مال کا مالک ہوں۔

اس سوال کا مقصد یہ تھا کہ تم لوگ اپنے کو اپنا حاکم سمجھتے ہو یا مجھے اپنا حاکم سمجھتے ہو۔

سب نے کہا۔ حضورؐ ! آپ ہمارے حاکم اور ہماری جان و مال کے مالک ہیں۔" نبیؐ نے اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو بازو پکڑ کر پورے جسم سے اٹھا لیا اور فرمایا۔

"جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علیؐ مولا ہیں۔ جس کا میں حاکم ہوں یہ علی بھی اس کے حاکم ہیں "۔

۲۳

پھر آپ نے خدا سے دعا فرمائی۔ کہ تو اسے دوست رکھ جو علیؐ سے محبت کرے اور علیؐ کے ہر دشمن کو اپنا دشمن قرار دے۔ ممبر سے اتر کر سب مسلمانوں کو حکم دیا کہ جاکر علیؐ کی بیعت کرو اور ان کو مومنوں کا حاکم کہہ کر سلام کرو۔ سب نے حکم رسولؐ کی تعمیل کی حضرت عمر نے خصوصی مبارکباد دی کہ کہ آج آپ میرے اور ہر مومن اور مومنہ کے حاکم مقرر ہو گئے۔ اس واقعہ کو واقعہ غدیر کہتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد خدا نے آئیہ اکمال نازل فرمائی جس میں ارشاد ہے۔

"آج کے دن کافر تمہارے دین سے مایوس ہو گیا اب تم ان سے نہ ڈرنا بلکہ صرف مجھ سے ڈرنا۔ آج کے دن میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا تم پر نعمتیں تمام کر دیں اور اسلام کو تمہارے لئے بہ حیثیت دین کے پسند کر لیا۔"

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ نبیؐ نے اپنی عمر کے خر تک حضرت علی علیہ السلام ٍ کو اپنا جانشین رکھا اور جو حضرت علی علیہ السلام کو نبیؐ کا خلیفہ بلا فصل مانےگا خدا اسی کو دوست رکھےگا۔ جو خلافت بلا فصل مولا علیؐ کا قائل ہوگا اسی کا دین کامل ہوگا خدا کی نعمتیں اسی کو ملیںگی اور خدا اسی کے اسلام کو قبول کرےگا۔

سوالات :

۱ ۔آئیہ تبلیغ اور آئیہ اکمال میں خدا نے کیا کہا ہے ؟

۲ ۔ واقعہ ذوالعشیرہ کیا ہے ؟

۳ ۔ واقعہ غدیر پر سے خلافت ثابت کرو ؟

۴ ۔ حضرت علیؐ کو شیعہ اور سنی کس فرق کے ساتھ خلیفہ مانتے ہیں ؟

۲۴

گیارہواں سبق

بارہویں امامؐ

بارہویں امام علیہ السلام زندہ ہیں۔ پردہ غیبت میں ہیں۔ جب حکم خدا ہوگا اس وقت کعبہ کے پاس ظہور فرمائیںگے اور ظلم سے بھری ہوئی زمین کو عدل سے بھر دیںگے۔

بحمد اللہ آپ کی عمر ساڑھے گیارہ سو سال سے زیادہ ہو چکی ہے اور خدا وند عالم جب تک چاہےگا زندہ رکھےگا۔ حضرتؐ کی طولانی عمر پر تعجب نہ ہونا چاہئے ۔جناب نوحؐ کو خدا نے تقریباً دو ہزار سال کی عمر عطا فرمائی۔ جناب خضرؐ ، جناب الیاسؐ ، جناب اوریسؐ اور جناب عیسیؐ اب تک زندہ ہیں۔ جو شخص آپ کی طولانی عمر پر شک کرتا ہے وہ در اصل خدا کی قدرت پر شک کرتا ہے۔ خدا کی قدرت کے آگے نہ کوئی چیز مشکل ہے نہ قابل تعجب۔

اصحاب کہف ہزاروں سال سے غار میں سو رہے ہیں اور خدا کی قدرت سے زندہ ہیں۔جو خدا پہاڑ سے جناب صالحؐ نبی کے لئے آناً فاناً معہ بچہ کے اونٹنی پیدا کر سکتا ہے۔ جناب موسیٰؐ کے عصا کو اژدھا اور اژدھا کو عصا بنا سکتا ہے۔ جناب عیسیؐ کو بغیر باپ کے پیدا کر سکتا ہے۔ لاکھوں من آگ میں جناب ابراہیمؐ کو بچا سکتا ہے۔وہ خدا سینکڑوں کیا ہزاروں سال کی عمر امام علیہ السلام کو کیوں نہیں دے سکتا اور ان کو دشمنوں سے کیوں محفوظ نہیں رکھ سکتا ہے۔

بارہویں امام علیہ السلام کے وجود پر بہت سای دلیلیں ہیں جن میں سے چند آسان دلیلیں لکھی جاتی ہیں۔

۲۵

دلیل ۱

قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ وَ لِکُلِّ قَومٍ ھَادٍ یعنی ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہونا ضروری ہے۔

نبیؐ کریم کا ارشاد ہے "مَن مَّاتَ وَ لَم یَعرِف اِمَامَ زمَانِهِ فَقَدمَاتَ مِیتَةً جَا هِلِیَّةً یعنی جو شخص اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو اور مر جائے تو اس کی موت ہوتی ہے "۔ معلوم ہوا کہ ہر زمانہ میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے لہذا اس زمانہ میں بھی ایک ہادی اور امام ہونا چاہئے اور وہ ہمارے بارہویں امام علیہ السلام ہیں۔

دلیل ۲

قرآن مجید میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ صادقین کی پیروی کرو اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ ان دونوں حکموں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں ایک صادق اور صاحب امر ہونا چاہئے ہمارے بارہویں امامؐ کے علاوہ کسی کے لئے صادق اور صاحب امر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔

دلیل ۳ ۔

پیغمبرؐ اسلام کا ارشاد ہے "لَا یَذَالُ هٰذَ الَّذِّنُ قَاءِماً ایلی اِثنَا عَشَرَ خَلِفَةً مِّن قُرَیشٍ فَاذَا هَلَکُو مَاجَتِ الاَرضُ بِاَهلِهَا یعنی یہ دین اس وقت تک قائم رہےگا جب تک میرے بارہ خلیفہ پورے نہ ہو جائیں جو سب کے سب قریش ہوں گے ان بارہ خلیفہ کے ختم ہونے کے بعد زمین معہ اپنی تمام آبادیوں کے تباہ ہو جائےگی۔

اہلسنت کے مشہور عالم ملا علی متقی نے اپنی کتاب کنز العمال میں اس حدیث کو لھا ہے۔ اگر بارہ امام ختم ہو گئے ہوتے تو نہ یہ دنیا باقی ہوتی اور نہ دین۔ دونوں کا باقی رہنا دلیل ہے کہ بارہویں امام علیہ السلام زندہ ہیں جن کے دم سے دین اور دنیا دونوں قائم ہیں۔

سوالات :

۱ ۔ امامؐ زمانہ کی عمر اس وقت کیا ہے ؟ کچھ ایسے لوگوں کے نام بتاؤ جو امامؐ زمانہ کے پہلے سے اب تک زندہ ہیں ؟

۲ ۔ کس کی طولانی عمر پر تعجب کیوں نہ کرنا چاہئے ثبوت میں کوئی واقعہ پیش کرو ؟

۲۶

بارہواں سبق

نوابِ اربعہ

جب امام حسن عسکری علیہ السلام کا انتقال ہوا تو ہمارے امامؐ زمانہ کی عمر چار پانچ برس کی تھی لوگوں نے یہ طے کر لیا کہ آپ کو کسی صورت سے زندہ نہ رہنے دیا جائے ، آپ حکم خدا سے لوگوں کی نظروں سے غائب ہو گئے اور تقریباً ۷۰ برس تک اس غیبت صغریٰ کا سلسلہ جاری رہا۔ اس زمانہ میں آپ کے کچھ مخصوص اصحاب تھے جن کو آپ نے اپنا پتہ دیا تھا انھیں سے ملاقات کرتے تھے اور انھیں کے ذریعہ اپنے شیعوں تک اپنے پیغام بھیجا کرتے تھے۔ انھیں اصحاب کو نواب اربعہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ چار حضرات تھے اور چاروں کی قبریں بغداد میں ہیں جہاں لوگ برابر ان کی زیارت کے لئے جاتے رہتے ہیں۔ ان میں سے پہلے نائب جناب عثمان بن سعید تھے جو امام کی طعف سے مال کے وکیل تھے اور خمس کا سہم امام آپ ہی کو دیا جاتا تھا۔ دوسرے نائب آپ ہی کے فرزند محمد بن عثمان تھے جنھیں حضرت امام زمانہؐ نے ان کے باپ کے مرنے پر تعزیت کا خط لکھا تھا اور اس میں ان کے نائب ہونے کا ذکر فرمایا تھا۔ تیسرے نائب جناب حسین بن روح تھےجن کے ذریعہ اے آج بھی ۱۵/ شعبان کی صبح کو امامؐ کی خدمت میں عریضے بھیجے جاتے ہیں۔ آپ کا ایک مشہور واقعہ یہ ہے کہ بغداد کا رہنے والا ایک شخص بخارا گیا ہوا تھا جب وہاں سے آنے لگا تو وہاں کے ایک آدمی نے سونے کے دس پتھر یہ کہہ کردئے کہ انھیں حسین بن روح کے حوالہ کر دینا ، یہ شخص لے کر چلا تو راستے میں ایک پتھر گم ہو گیا۔

۲۷

بغداد میں آ کر سامان دیکھا تو اس کے گم ہو جانے کا پتہ چلا فوراً اسی قسم کا ایک پتھر بازار سے خرید کر سب کو جناب حسین بن روح کی خدمت میں لایا۔ آپ نے ان میں سے نو لئے اور ایک واپس کر دیا اس نے تعجب سے پوچھا کہ یہ کیوں واپس کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ پتھر جو تجھ سے گر گیا تھا وہ میرے پاس پہونچ گیا ہے اور یہ تو نے بازار سے خریدا ہے۔ آپ کے بعد چوتھے نائب علی ابن محمد سمری مقرر ہوئے اور ان کے انتقال کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ آپ کا انتقال ۱۵/ شعبان ۳۲۹ ھ؁ کو ہوا جس کے بعد امام نے یہ اعلان کر دیا کہ اب غیبت کبریٰ کا آغاز ہو رہا ہے اس میں جو نئے مسائل پیش آئیں۔ ان میں فقاء کی طرف رجوع کیا جائےگا۔ ان کا حکم ہمارا حکم ہوگا اور ہمارا حکم خدا کا حکم ہے۔

سوالات :

۱ ۔ نواب اربعہ کے نام بتاؤ ؟

۲ ۔ نواب اربعہ میں سے کسی کا کوئی واقعہ بتاؤ ؟

۳ ۔ نواب اربعہ کے زمانہ کی مدد بتاؤ ؟

۴ ۔ ان کے بعد ہمارا کیا فریضہ ہے ؟

۲۸

تیرھواں سبق

قیامت

قیامت کا دوسرا نام معاد ہے۔ قیامت وہ دن ہے جب انسان دوبرہ زندہ کئے جائیں گے تاکہ ان کے اچھے بڑے کاموں کا حساب لیا جائے اور اعمال کے مطابق ان کو جنت یا دوزخ میں جگہ دی جائے۔

مردوں کے زندہ کرنے پر تعجب نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ جو خدا اپنی قدرت سے بغیر کسی چیز کے سب کچھ پیدا کر سکتا ہے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دے۔

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ جناب ابراہیمؐ ایک دریا کے کنارے سے گزرے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک مردار ہے جس کا آدھا حصہ دریا کے باہر ہے اور آدھا دریا کے اندر۔ آپ کو یہ دیکھ کر سخت تعجب ہوا اور آپ نے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی۔ پروردگار مجھے یہ دیکھا دے کہ ایسے مردوں کو کیسے زندہ کرےگا۔ حکم خدا ہوا ابراہیمؐ ! چار پرندوں کو پکڑ لو اور انھیں اپنے سے مانوس بناؤ اس کے بعد انھیں ذبح کر کے ان کے ٹکڑے الگ الگ پہاڑوں پر رکھ دو اور سب کی منقار (چونچ) اپنے ہاتھ میں رکھو۔ اس کے بعد سب کو الگ الگ آواز دو۔ یہ سارے ٹکڑے دوڑ کر تمہارے پاس آ جائےںگے۔

۲۹

جناب ابراہیمؐ نے ایسا ہی کیا اور آپ نے جو آواز دی تو ہر جانور کے ٹکڑے آنے لگے۔ آپ نے ہر ایک کی چونچ اس کے جسم میں لگا دی اور ہر جانور پرواز کر گیا۔

اس واقعہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا وند عالم مرنے کے بعد بلکہ قیمہ قیمہ ہونے کے بعد بھی زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اسکی طاقت میں شک کرنا قرآن کریم پر ایمان نہ لانے اور خدا اور رسولؐ کی بات کا انکار کرنے کے برابر ہے۔

سوالات :

۱ ۔ معاد سے کیا مراد ہے ؟

۲ ۔ مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے پر تعجب کیوں نہ کرنا چاہئے ؟

۳ ۔ کیسے پتہ چلا کہ اللہ مردوں کو ریزہ ریزہ کرنے کے بعد بھی زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے ؟

۳۰

چودھواں سبق

برزخ

ہر انسان کے مرنے سے قیامت تک کے درمیانی فاصلے کا نام برزخ ہے۔ جس کی موت جس قدر قیامت سے قریب ہوگی اس کا برزخ اتنا ہی مختصر ہوگا اور جس قدر دور ہوگی اسی قدر برزخ بھی طولانی ہوگا۔

برزخ کی ضرورت اس لئے ہے کہ انسان اس دنیا میں دو قسم کے عمل انجام دیتا ہے ایک ظاہری عمل جسے کردار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ایک باطنی عمل جسے اعتقاد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

قیامت کا دن کردار کے مکمل حساب کے لئے معین ہے اور روح کے اعمال یعنی عقائد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس لئے ضرورت تھی کہ جسم کے روح سے الگ ہونے کے بعد ایک جگہ مقرر کر دی جائے جہاں روح کو اس کے عقائد کا اچھا یا بڑا بدلہ دیا جا سکے بس اسی عالم کا نام برزخ ہے۔ برزخ میں ہر شخص کو اس کے عقائد کے اعتبار سے اچھی یا بڑی جگہ دی جاتی ہے۔

برزخ میں روحیں اپنے جسم کے بجائے ایک دوسرے جسم میں رہتی ہیں جس طرح ہم جب بستر پر سوتے ہوتے ہیں اور خواب میں کسی جگہ جاتے ہیں کھاتے پیتے اور دوڑتے بھاگتے ہیں۔ خواب میں ہم کو جو اپنا جسم نظر آتا ہے برزخ خدا ہر انسان کو اسی سے ملتا جلتا ایک جسم دےگا جس کو جسم مثالی کہتے ہیں۔

حدیثوں میں آیا ہے کہ عالم برزخ میں مومنین کی روحیں وادی السلام میں رہتی ہیں اور کافروں ، منافقون اور اہلبیتؐ کے دشمنوں کی روحیں وادی برہوت میں رہتی ہیں۔

۳۱

مرنے کے بعد انبیاء ، ائمہ اور نابالغ ، کم عقل اور دیوانے لوگوں کے علاوہ فشار قبر بھی ہوتا ہے۔ جمعہ کی رات یا دن کو مرنے والا یا جوار ائمہؐ میں دفن ہونے والا فشار قبر سے محفوظ ہوتا ہے۔ فشار کا مطلب یہ ہے کہ خدا سے سرکشی کرنے والوں یا اپنے اہل و عیال یا مومنین سے سختی کرنے والوں کو زمین دباتی ہے۔

قیامت کے دن گناہگار مومنین کی شفاعت معصومین فرمائیںگے۔ لیکن برزخ میں کوئی شفاعت نہ ہوگی لہذا برزخ کے لئے ہر مومن کو خود اپنے اوپر بھروسہ کرنا پڑےگا۔ مرنے والے کے اعزا و احباب کا فریضہ ہے کہ وہ مرنے والے کے واجبات کو ادا کریں اسکے ذمہ جو حقوق خدا یا بندوں کے باقی ہوں انھیں بھی ادا کریں ، اسکے علاوہ ایصال ثواب کے لئے اعمال خیر بھی کریں تاکہ مومن کا برزخ آسانی سے گزر جائے۔

جو خدا کچھ نہ ہونے پر ساری دنیا کو پیدا کر سکتا ہے وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ بھی کر سکتا ہے اور دنیا کے ختم ہونے کے بعد اسے دوبارہ پیدا بھی کر سکتا ہے۔

وہ خدا اس پر بھی قادر ہے کہ جن مرنے والوں کی لاشیں زمین پر پڑی رہتی ہیں یا جلا دی جاتی ہیں یا دریا میں ڈال دی جاتی ہیں یا جن لاشوں کو چیل کوے یا درندے کھا جاتے ہیں ان سب کی روحوں کو بھی برزخ میں رکھے اگر چہ ان کی تکلیف یا راحت ہم کو نظر نہیں آتی۔

۳۲

ایک بار ایک کافر کی کھوپڑی ایک شخص نے پانچویں امامؐ کے سامنے پیش کی اور پوچھا کہ یہ کھوپڑی ٹھنڈی ہے اس کو عذاب کہاں دیا جا رہا ہے۔ امامؐ نے چقماق کے پتھر منگائے اور پوچھنے والے سے کہا کہ دیکھو یہ ٹھنڈے ہیں یا نہیں اُسنے چھو کر کہا کہ ٹھنڈے ہیں۔ امامؐ نے فرمایا کہ ان کو ایک دوسرے سے رگڑو۔ رگڑتے ہی پتھر سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔ امامؐ نے فرمایا جو خدا اس ٹھنڈے پتھر کے اندر آگ رکھ سکتا ہے وہ اس ٹھنڈی کھوپڑی کو بھی آگ کی سزا دے سکتا ہے۔ وہ شخص جواب سن کر امامؐ کو دعا دیتا ہوا چلا گیا۔

سوالات :

۱ ۔ برزخ کیوں رکھا گیا ؟

۲ ۔ برزخ میں جسم کیسا ہوتا ہے اسکی مثال دو ؟

۳ ۔ برزخ میں مومن و غیر مومن کی روحیں کہاں رہتی ہیں ؟

۴ ۔ برزخ میں مرنے والے کو آرام پہونچانے کے طریقے کیا ہیں ؟

۵ ۔ فشار قبر کیا ہے ؟ کن کو نہیں ہوتا اور کہاں نہیں ہوتا ؟

۳۳

پندرہواں سبق

عمل اور حساب

اللہ نے بندوں کو عمل کا موقع صرف دنیا میں دیا ہے۔ آخرت میں کسی کو عمل کا موقع نہیں ملےگا۔ جو لوگ اس دنیا میں نماز روزہ نہیں کرتے۔ زکوۃ خمس نہیں نکالتے۔ حج نہیں کرتے سور مر جاتے ہیں۔ وہ آخرت میں بہت پچھتائیں گے اور سوا افسوس کرنے کے کچھ ان کے ہاتھ نہیں لگےگا۔ آخرت صرف جزا اور سزا کی جگہ ہے عمل کی جگہ نہیں ہے۔ عمل کرنے کے لئے صرف دنیا ہے۔ یہاں جزا اور سزا نہیں ملتی۔ اگر دنیا میں اچھے کامو٘ کی جزا اور بڑے کاموں کی سزا مل جاتی ہوتی تو نبی ، امام اور اللہ کے نیک بندے مصیبتوں میں نہ رہتے اور نہ نمرود ، فرعون ، یزید جیسے برے لوگ راحت و آرام میں رہتے۔

خیرات کرنے سے بلائیں ضرور دور ہوتی ہیں لیکن خیرات کا ثواب آخرت میں ملےگا۔ اسی طرح گناہوں سے بلائیں نازل ہوتی ہیں مگر گناہوں کی سزا آخرت میں ملنے والی ہے۔

اللہ نے دو دو ملک ہر انسان پر معین کئے ہیں جو اس کے ہر کام کو لکھتے رہتے ہیں۔ حساب کے دن ملائکہ کے لکھے ہوئے اعمال نامے انسان کو دئے جائیں گے جس کے بعد کوئی شخص اپنے گناہوں سے انکار نہ کر سکےگا۔ اعمال نامہ کے علاوہ ہمارے ہاتھ ، پیر ، آنکھ ، کان سب اعضا بھی ہمارے ان تمام گناہوں کی گواہی دیںگے جو گناہ ہم نے ان اعضا سے کئے ہوںگے۔

اللہ نے جنت یا دوزخ میں جگہ دینے سے پہلے حساب کتاب اسلئے رکھا ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اعراض نہ کر سکے۔ اگر خدا پیدا کرتے ہی ہر انسان کو جنت یا دوزخ میں بھیج دیتا تو لوگ اعتراض کرتے کہ بغیر گناہ کے دوزخ میں کیوں ڈالا اور بغیر عبادت کے جنت میں جگہ کیوں دی۔ اعمال کے بعد کوئی شخص خدا پر اعتراض نہ کر سکےگا۔

سوالات :

۱ ۔ خیرات کا فائدہ کیا ہے اس کی جزا کہاں ملےگی ؟

۲ ۔ عمل کے لئے کون سی جگہ مخصوص ہے اور جزا و سزا کہاں ملےگی ؟

۳۴

فروع دین

سولہواں سبق

میت کے احکام

موت کا وقت

جو لوگ مرنے والے کے پاس موجود ہوں ان پر واجب ہے کہ مرنے والے کو اس طرح چت لٹا دیں کہ اس کا منہ اور پیر کے دونوں تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔ یہ حکم ہر مرنے والے کے لئے ہے چاہے مرنے والا مر دہو یا عورت۔ بچہ ہو یا جوان یا بوڑھا۔

غسل مسّ میت

آدمی کی میت چھونے سے غسل واجب ہوتا ہے اسی طرح اگر آدمی کی میت کا کوئی ٹکڑا چھو لے تب بھی غسل واجب ہو جائےگا۔ ٹکڑا چاہے زندگی میں کاٹا گیا ہو یا مرنے کے بعد کاٹا گیا ہو۔ شرط یہ ہے کہ اس میں ہڈی ہو مگر غسل اسی وقت واجب ہوگا جب میت یا اس کے ٹکڑے کو ٹھنڈا ہونے کے بعد اور غسل دینے سے پہلے چھوا جائے۔

جسم کے جن حصوں میں جان نہیں ہوتی جیسے بال ۔ دانت وغیر ان کے چھونے سے غسل واجب نہیں ہوتا۔ لیکن ناخن کے چھونے سے غسل واجب ہے۔

غسل میت

ہر مسلمان کے مردہ کو غسل دینا واجب ہے اگر میت کا صرف سینہ یا ہڈی ملے ایسا ٹکڑا ملے جس میں سینہ کی یا کوئی دوسری ہڈی لگی ہو تب بھی اس کو غسل دینا واجب ہے۔ اس بچہ کا غسل بھی واجب ہے جس کا اسقاط ہو گیا ہو مگر شرط یہ ہے کہ حمل چار مہینہ یا اس سے زیادہ کا ہو۔ میت کو پہلے بیری کی پانی سے پھر کافور کے پانی سے پھر خالص پانی سے غسل دینا واجب ہے۔

۳۵

غسل کی ترکیب

غسل سے پہلے میت کے سارے جسم کو نجاست اور میل سے صاف کرے پھر میت کو پاک کرنے کے بعد بیری کی تھوڑی سی پتی چھل کر پانی میں ملائے اور نیت کرے کہ اس میت کو غسل دیتا ہوں آب سدر سے واجب قربتہً الی اللہ۔ اس کے بعد اسی پانی سے پہلے میت کے سر و گردن کو دھوئے، پھر ذرا کروٹ کر کے اسی کے داہنے حصہ بدن کو گردن سے پیر کی انگلیوں تک، پھر اسی طرح بائیں جانب کو اچھی طرح دھوئے۔ اس کے بعد دوسرے خالص پانی میں تھوڑا کافور ملا کر پھر نیت کرے کہ غسل میت دیتا ہوں آب کافور سے واجب قربتہً الی اللہ اور اس پانی سے بھی اسی طرح غسل دے۔ اس کے بعد خالص پانی سے اسی طرح غسل دے۔ جسم کے ہر حصے کو دھونے میں تھوڑا سا بڑھا کر دھوئے۔

طریقہ حنوط

مردے کو غسل دینے کے بعد اس کے ساتوں مقامات سجدہ یعنی دونوں پیر کے انگوٹھے ، دونوں گھٹنے اور پیشانی اور دونوں ہتھیلیوں پر کافور ملنا واجب ہے بشرط یہ کہ مرنے والا شہید نہ ہو اور حالت احرام میں نہ ہو۔

کفن

میت مرد کی ہو یا عورت کی ، تین کپڑے دینا واجب ہے۔ پیراہن ، لنگی ، چادر مگر مرد کی میت کو علاوہ ان واجبی کپڑوں کے ایک ران پیچ ، ایک عمامہ اور ایک چادر دینا مستحب ہے۔ عورت کی میت کو ایک ران پینچ ، مقنعہ اور سینہ بند اور اوڑھنی اور ایک چادر دینا مستحب ہے۔

بردیمانی دینا دونوں کے لئے مستحب ہے۔

تصریح

مرد کو مرد اور عورت کو عورت غسل دے اور کفن پہنائے عورت اپنے شوہر کو اور مرد اپنی زوجہ کو غسل و کفن دے سکتا ہے۔

۳۶

کفن

پہلے چادر بچھائیں اس کے اوپر پیراہن گریبان کو پھاڑ کر آدھا بچھائیں اور آدھا سر کی جانب نکلا رہنے دیں ، پھر نصف چادر سے نیچے پیر کی جانب لنگی بچھا دیں اور اس پر ران پینچ رکھ دیں جس کا ایک سرا جو کمر سے متصل رہےگا طول میں پھاڑ دیں تاکہ کمر میں بندھ جائے۔ پھر ان کپڑوں پر میت کو لٹا کر ران پینچ کا سرز جو پھٹا ہوا ہے پہلے کمر میں اس طرح بنادھیں کہ گرہ ناف پر پڑے۔ اس کے بعد شرمگاہ پر میت کے اچھی طرح روئی رکھ کر دوسرا سرا اس ران پینچ کا اس بندھی ہوئی گرہ سے اس طرح نکالیں کہ مشل لنگوٹ کے ہو جائے اور روئی نہ گرنے پائے۔ اس کے بعد دونوں پیروں کو ملاکر لنگی سے لپیٹ دیں ، اس کے بعد پیراہن جو سر کی جانب نکلا ہے پہنا دیں۔ اگر عمامہ ہے تو سر پر باند کر دونوں سرے اس کے سینے پر دال دیں اور تین یعنی بیر یا خرمے یا بیر کی دو تازہ شاخیں لے کر ان پر شہادتین لکھ کر اس پر روئی لپیٹ کر ایک داہنی جانب جسم سے ملا کر ہنسلی سے بغل کے نیچے کمر تک اور دوسری بائیں جانب پیراہن کے اوپر ہنسلی کے پاس رکھیں اس کے بعد چادر دونوں طرف سے لپیٹ کر پیر ، کمر اور سر کے پاس باندھیں تاکہ علیحدہ نہ ہو جائے۔

عورت کے مردے کو پہلے ران پینچ اور لنگی اس کے بعد سینہ بند پہنا کر پیراہن پہنائیں اور مقنعہ کے بعد اوڑھنی اس کے بعد چادر لپیٹیں۔

۳۷

نماز میت

چھ سال یا اس سے زیادہ عمر والے مسلمان خورد و بزرگ کی نماز جنازہ واجب ہے خواہ وہ شیعہ ہو یا غیر شیعہ ، عادل ہو یا فاسق ، غلام ہو یا آزاد ، مرد ہو یا عورت ، یہاں تک کہ خود کشی کر کے مر جانے والے کی بھی نماز میت واجب ہے، اس نماز کے واجب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے بھی نماز نہ پڑھی تو تمام باخبر مسلمان گنہگار سمجھے جائےیںگے اور ایک شخص بھی پڑھ دےگا تو سب سے ساقط ہو جائےگی۔

یہ نماز فرادی بھی ہو سکتی ہے اور جماعت سے بھی۔ لیکن جماعت کی صورت میں امام جماعت کو عادل ہونا چاہئے دوسرے تمام مومین کو بھی امام کی طرح دعائیں پڑھنا چاہئے یہاں خاموش کھڑا ہونے والا بیکار شمار ہوگا بلکہ اس کی موجودگی دوسرے مامومین کے لئے حائل بن کر ان کی نماز بھی خراب کر سکتی ہے اگر ان کا اتصال امام تک ایسے ہی لوگوں کے ذریعہ سے ہو۔

اس نماز کے حسب ذیل شرائط ہیں :

۱ ۔ میت سامنے موجود ہو۔

۲ ۔ نماز گزار روبقبلہ ہو۔

۳ ۔ میت کا سر نمازی کے داہنی طرف ہو۔

۴ ۔ نمازی میت کے کسی حصے کے سامنے ہو اگر نماز جماعت سے نہ ہو رہی ہو۔ اکثر مقامات پر بہت سے افراد ایک ساتھ کھڑے ہو کر بلانیت جماعت نماز پڑھ لیتے ہیں ایسے میں صرف انھیں کی نماز صحیح ہوگی جو میت کے پاس ہیں باقی داہنے بائیں یا دوسری تیسری صف والوں کی نماز باطل ہے۔

۳۸

۵ ۔ نماز غسل و کفن کے بعد ہو۔

۶ ۔ ولی کی اجازت سے ہو۔

۷ ۔ نمازی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں۔

نماز میت میں طہارت کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر میت بغیر نماز کے دفن ہو گئی ہے تو نماز اس کی قبر پر پڑھی جائےگی جب تک کہ اس کا بدن زیر لحد پاش پاش نہ ہو جائے۔

ترکیب نماز میت

اس نماز کی ترکیب یہ ہے کہ پہلے نیت کرے نماز میت پڑھتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ پھر تکبیر کہہ کے پڑھےاَشهَدُ اَن لَّا اِلٰهَ الله وَ اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ الله پھر تکبیر کہے اور صلوات پڑھےاَللَّهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدِوَّ اَلِ مُحَمَّد پھر تکبیر کہہ کر یہ دعا پڑھےاَللَّهُمَّ اغفِر لِلمُومِنِینَ وَالمُومِنَاتِ پھر تکبیر کہے اور یہ دعا پڑھےاَلَّلهُمَّ اغفِر لهَنَا پھر تکبیر کہہ کر نماز ختم کر دے اگر میت نابالغ کی ہے تو یہ دعا پڑھےاَلَّلهُمَّ اجعَلُهُ لِاَبَویهِ وَلَنَا سَلَفاًدَّ فَرَطاً وَّ اَجرا

ایک جنازہ پر دو مرتبہ نماز مکروہ ہے لیکن اگر میت کسی بزرگ کی ہے تو کائی حرج نہیں ہے۔

کاندھا دینے کا طریقہ

جنازہ اٹھانے والوں کا رُخ میت کے سر کی جانب ہونا چاہئے۔ ایک آدمی میت کے داہنے شانے اور دوسرا آدمی اس کے داہنے پیر کو اپنے کاندھے پر اٹھائے۔ اسی طرح ایک آدمی میت کے بائیں شانے اور دوسرا میت کے بائیں پیر کو اپنے اپنے کاندھے پر اٹھائے۔ چند قدم کے جانے کے بعد جو آدمی میت کے داہنے شانے کو اٹھائے ہو میت کے داہنے پیر کی جگہ آ جائے اور وہاں کا آدمی بائیں پیر کی جگی اور وہاں کا آدمی میت کے بائیں شانے کی جگہ اور وہاں کا آدمی میت کے پائنتی سے ہو کر اس کے داہنے شانے کی جگہ چلا جائے۔ اسی طرح برابر کاندھا بدلتے ہوئے قبر تک لیجائیں۔

۳۹

طریقہ دفن

میت کو دفن میں اس طرح چھپانا واجب ہے کہ درندوں اور بدبو پھیلنے سے محفوظ رہے اور قبر کو قد آدم یا گلے تک گہرا کھودنا اور اس میں قبلہ کی جانب ایک لحد بیٹھنے کے قابل بنانا مستحب ہے۔

دفن میں مندرجہ ذیل باتوں کا لحاظ رکھنا چاہئے :

۱ ۔ میت کو یکایک قبر میں نہ اتارنا چاہئے بلکہ مرد کی میت کو دو جگہ رکھ کر تیسری بار قبر کی پائنتی رکھیں اور اس کے بعد سر آگے کر کے اتاریں۔

۲ ۔ عورت کی میت کو تیسری بار قبر کے پہلو میں قبلہ کی طرف رکھ کر چوتھی بار پہلو کی طرف سے اس طرح اتاریں کہ سر نیچا نہ ہو۔ جو شخص قبر میں اترے اس کا ننگے سر ننگے پاؤں رہنا اور کپڑوں کی تمام گرہوں کو کھول دینا مستحب ہے اور میت کو قبر میں داہنی کروٹ کر کے قبلہ رخ لٹا دیں اس کے بعد میت کے بندے کفن کھول دیں تاکہ میت کا منھ کھلا رہے اور داہنا رخسارہ میت کا زمین پر پہنچ جائے اور نیچے ذرا سی مٹی رکھ کر سر کو کچھ بلند کر دیں اور خود قبر میں ایک طرف کھڑا ہو تاکہ میت اس کے دونوں پیروں کے درمیان نہ ہو جائے اور سورہ حمد و سورہ قل اعوذبرب الفلق اور قل ہو اللہ اور آیتہ الکرسی اور اعوذباللہ من الشیطان الرجیم پڑھتا رہے اور قبر سے باہر نکلنے سے پہلے میت کو تلقین پڑھائے۔

۴۰

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99