امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم جلد ۵

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم0%

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 99

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم

مؤلف: تنظیم المکاتب
زمرہ جات:

صفحے: 99
مشاہدے: 57164
ڈاؤنلوڈ: 2122


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 99 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57164 / ڈاؤنلوڈ: 2122
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم جلد 5

مؤلف:
اردو

جب حضورؐ تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ابو لہب نے آپ کی تقریر سے پہلے یہ کہہ کر مجمع کو بھڑکا دیا کہ ان کی تقریر مت سنو یہ جادوگر ہیں ، تم نے ابھی ابھی دیکھا ہے کہ انھوں نے تھوڑے کھانے کو جادو کے ذریعہ زیادہ کر دیا ہے اگر تقریر سنوگے تو یہ جادو کے ذریعہ تم کو تمہارے مذہب سے منحرف کر دیںگے۔ مجمع یہ سن کر اٹھا اور چلا گیا۔ رسول کریمؐ نے پھر حضرت علی علیہ السلام کو بھیج کر دوسرے دن کے لئے سب کو بلوایا اور کھانے کا بھی انتظام کیا۔ دوسرے دن بھی سب لوگ آئے اور نبیؐ کی برکت سے تھوڑا کھانا بہت ہو گیا۔ سب کے سیر ہونے کے بعد بھی بچ رہا۔ آج ابو لہب نے پھر تقریر میں روکاوٹ ڈالنا چاہی تو جناب ابو طالب علیہ السلام کھڑے ہو گئے اور ابو لہب کو سختی کے ساتھ ڈانٹا اور رسولؐ کریم سے عرض کی کہ اے میرے سردار آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہوں کہئے۔ رسولؐ نے اسلام پیش کیا۔ خدا کی توحید کا پیغام سنایا ، اپنی نبوت کا اعلان کیا اور اس کے بعد فرمایا۔

"جو شخص ہدایت کے کام میں میری مدد کرےگا میں اُسے اپنا بھائی ، وصی اور وزیر مقرر کروںگا۔ وہ میرے بعد میرا خلیفہ اور جانشین ہوگا اس کی اطاعت لوگوں پر میری طرف سے واجب ہوگی۔ "

نبیؐ کی آواز پر کسی نے آواز نہ دی صرف دس سال کے کمسن علیؐ نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ " میں مدد کا وعدہ کرتا ہوں "۔ رسولؐ اسلام نے حضرت علی علیہ السلام کی پشت پر ہاتھ رکھ کر آپ کو مجمع کے سامنے کیا اور یہ اعلان فرمایا کہ۔ انھوں نے میری مدد کا وعدہ کیا ، لہذا یہ میرے بھائی وصی اور وزیر ہیں۔ میرے بعد میرے خلیفہ اور جانشین ہیں میں ان کو اپنی طرف سے حاکم مقرر کرتا ہوں۔ انکی اطاعت تم سب پر واجب ہے۔ ابو لہب نے جل کر جناب ابو طالب علیہ السلام کو طعنہ دیا۔

۲۱

" محمدؐ تم کو بیٹے کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں" ۔

جناب ابو طالب علیہ السلام نے جواب دیا کہ

" میرا بھتیجا جو بات بھی کہتا ہے وہ بہرحال خیر ہے "۔

اس واقعہ کا نام دعوت ذوالعشیرہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے زندگی بھر اپنی جان اور مال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدد کی اور آپ کے بعد آپ کی پاک نسل یعنی گیارہ اماموںؐ نے دین کی مدد میں اپنی پاکیزہ زندگیاں صرف کیں۔ حضرت امیرؐ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور رسول اللہؐ نے بھی اپنے وعدہ کا ایفا فرمایا۔ حضرت علی علیہ السلام کو اور ان کے بعد ان کی نسل کے گیارہ اماموںؐ کو اپنا نائب ، جانشین اور خلیفہ مقرر کیا۔

یہ کہنا کہ حضورؐ انتقال کے وقت کسی کو خلیفہ بنا کر نہیں گئے بلکہ امت کو خلیفہ بنانے کا حق دے گئے غلط ہے اور رسول عظیمؐ کی پاک اور بے داغ سیرت پر وعدہ خلافی کا الزام بھی ہے۔ کوئی سچا مسلمان اپنے نبیؐ پر وعدہ خلافی کا الزام لگانا پسند نہیں کرےگا۔ لہذا رسولؐ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو بلا فصل خلیفہ ماننا ہر سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے۔

دوسری دلیل ۔

رسالتمابؐ نے اپنے انتقال سے دو مہینے دس دن پہلے اٹھارہ ذی الحجہ ۱۰ ھ؁ کو غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کا مفصل اور مکمل اعلان فرمایا۔ آپ اس وقت آخری حج کر کے مکہ معظمہ سے واپسی تشریف لا رہے تھے آپ کے ساتھ سوا لاکھ حاجیوں کا مجمع تھا۔ جلتی دوپہر میں قافلہ کو روک کر جمع کیا ۔ کجاوون کا ممبر بنوایا اور بحکم خدا حضرت علی علیہ السلام کو لیکر ممبر پر تقریر کے لئے تشریف لے گئے کیونکہ خدا کی طرف سے رسولؐ السلام پر ۔ آیہ تبلیغ نازل ہوئی تھی۔

۲۲

"اے رسولؐ اس بات کا اعلان کر دو جس کے اعلان کا ہم تم کو حکم دے چکے ہیں۔ اگر یہ اعلان نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا۔ خدا دشمنوں سے آپ کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے"۔

اس حکم کے بعد حضورؐ نے مجمع کے سامنے ایک طولانی تقریر فرمائی جس کے آخر میں ہر مسلمان سے پوچھا کہ تم اپنی جان اور مال کے مالک ہو یا میں تمہاری جان اور مال کا مالک ہوں۔

اس سوال کا مقصد یہ تھا کہ تم لوگ اپنے کو اپنا حاکم سمجھتے ہو یا مجھے اپنا حاکم سمجھتے ہو۔

سب نے کہا۔ حضورؐ ! آپ ہمارے حاکم اور ہماری جان و مال کے مالک ہیں۔" نبیؐ نے اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو بازو پکڑ کر پورے جسم سے اٹھا لیا اور فرمایا۔

"جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علیؐ مولا ہیں۔ جس کا میں حاکم ہوں یہ علی بھی اس کے حاکم ہیں "۔

۲۳

پھر آپ نے خدا سے دعا فرمائی۔ کہ تو اسے دوست رکھ جو علیؐ سے محبت کرے اور علیؐ کے ہر دشمن کو اپنا دشمن قرار دے۔ ممبر سے اتر کر سب مسلمانوں کو حکم دیا کہ جاکر علیؐ کی بیعت کرو اور ان کو مومنوں کا حاکم کہہ کر سلام کرو۔ سب نے حکم رسولؐ کی تعمیل کی حضرت عمر نے خصوصی مبارکباد دی کہ کہ آج آپ میرے اور ہر مومن اور مومنہ کے حاکم مقرر ہو گئے۔ اس واقعہ کو واقعہ غدیر کہتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد خدا نے آئیہ اکمال نازل فرمائی جس میں ارشاد ہے۔

"آج کے دن کافر تمہارے دین سے مایوس ہو گیا اب تم ان سے نہ ڈرنا بلکہ صرف مجھ سے ڈرنا۔ آج کے دن میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا تم پر نعمتیں تمام کر دیں اور اسلام کو تمہارے لئے بہ حیثیت دین کے پسند کر لیا۔"

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ نبیؐ نے اپنی عمر کے خر تک حضرت علی علیہ السلام ٍ کو اپنا جانشین رکھا اور جو حضرت علی علیہ السلام کو نبیؐ کا خلیفہ بلا فصل مانےگا خدا اسی کو دوست رکھےگا۔ جو خلافت بلا فصل مولا علیؐ کا قائل ہوگا اسی کا دین کامل ہوگا خدا کی نعمتیں اسی کو ملیںگی اور خدا اسی کے اسلام کو قبول کرےگا۔

سوالات :

۱ ۔آئیہ تبلیغ اور آئیہ اکمال میں خدا نے کیا کہا ہے ؟

۲ ۔ واقعہ ذوالعشیرہ کیا ہے ؟

۳ ۔ واقعہ غدیر پر سے خلافت ثابت کرو ؟

۴ ۔ حضرت علیؐ کو شیعہ اور سنی کس فرق کے ساتھ خلیفہ مانتے ہیں ؟

۲۴

گیارہواں سبق

بارہویں امامؐ

بارہویں امام علیہ السلام زندہ ہیں۔ پردہ غیبت میں ہیں۔ جب حکم خدا ہوگا اس وقت کعبہ کے پاس ظہور فرمائیںگے اور ظلم سے بھری ہوئی زمین کو عدل سے بھر دیںگے۔

بحمد اللہ آپ کی عمر ساڑھے گیارہ سو سال سے زیادہ ہو چکی ہے اور خدا وند عالم جب تک چاہےگا زندہ رکھےگا۔ حضرتؐ کی طولانی عمر پر تعجب نہ ہونا چاہئے ۔جناب نوحؐ کو خدا نے تقریباً دو ہزار سال کی عمر عطا فرمائی۔ جناب خضرؐ ، جناب الیاسؐ ، جناب اوریسؐ اور جناب عیسیؐ اب تک زندہ ہیں۔ جو شخص آپ کی طولانی عمر پر شک کرتا ہے وہ در اصل خدا کی قدرت پر شک کرتا ہے۔ خدا کی قدرت کے آگے نہ کوئی چیز مشکل ہے نہ قابل تعجب۔

اصحاب کہف ہزاروں سال سے غار میں سو رہے ہیں اور خدا کی قدرت سے زندہ ہیں۔جو خدا پہاڑ سے جناب صالحؐ نبی کے لئے آناً فاناً معہ بچہ کے اونٹنی پیدا کر سکتا ہے۔ جناب موسیٰؐ کے عصا کو اژدھا اور اژدھا کو عصا بنا سکتا ہے۔ جناب عیسیؐ کو بغیر باپ کے پیدا کر سکتا ہے۔ لاکھوں من آگ میں جناب ابراہیمؐ کو بچا سکتا ہے۔وہ خدا سینکڑوں کیا ہزاروں سال کی عمر امام علیہ السلام کو کیوں نہیں دے سکتا اور ان کو دشمنوں سے کیوں محفوظ نہیں رکھ سکتا ہے۔

بارہویں امام علیہ السلام کے وجود پر بہت سای دلیلیں ہیں جن میں سے چند آسان دلیلیں لکھی جاتی ہیں۔

۲۵

دلیل ۱

قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ وَ لِکُلِّ قَومٍ ھَادٍ یعنی ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہونا ضروری ہے۔

نبیؐ کریم کا ارشاد ہے "مَن مَّاتَ وَ لَم یَعرِف اِمَامَ زمَانِهِ فَقَدمَاتَ مِیتَةً جَا هِلِیَّةً یعنی جو شخص اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو اور مر جائے تو اس کی موت ہوتی ہے "۔ معلوم ہوا کہ ہر زمانہ میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے لہذا اس زمانہ میں بھی ایک ہادی اور امام ہونا چاہئے اور وہ ہمارے بارہویں امام علیہ السلام ہیں۔

دلیل ۲

قرآن مجید میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ صادقین کی پیروی کرو اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔ ان دونوں حکموں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں ایک صادق اور صاحب امر ہونا چاہئے ہمارے بارہویں امامؐ کے علاوہ کسی کے لئے صادق اور صاحب امر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔

دلیل ۳ ۔

پیغمبرؐ اسلام کا ارشاد ہے "لَا یَذَالُ هٰذَ الَّذِّنُ قَاءِماً ایلی اِثنَا عَشَرَ خَلِفَةً مِّن قُرَیشٍ فَاذَا هَلَکُو مَاجَتِ الاَرضُ بِاَهلِهَا یعنی یہ دین اس وقت تک قائم رہےگا جب تک میرے بارہ خلیفہ پورے نہ ہو جائیں جو سب کے سب قریش ہوں گے ان بارہ خلیفہ کے ختم ہونے کے بعد زمین معہ اپنی تمام آبادیوں کے تباہ ہو جائےگی۔

اہلسنت کے مشہور عالم ملا علی متقی نے اپنی کتاب کنز العمال میں اس حدیث کو لھا ہے۔ اگر بارہ امام ختم ہو گئے ہوتے تو نہ یہ دنیا باقی ہوتی اور نہ دین۔ دونوں کا باقی رہنا دلیل ہے کہ بارہویں امام علیہ السلام زندہ ہیں جن کے دم سے دین اور دنیا دونوں قائم ہیں۔

سوالات :

۱ ۔ امامؐ زمانہ کی عمر اس وقت کیا ہے ؟ کچھ ایسے لوگوں کے نام بتاؤ جو امامؐ زمانہ کے پہلے سے اب تک زندہ ہیں ؟

۲ ۔ کس کی طولانی عمر پر تعجب کیوں نہ کرنا چاہئے ثبوت میں کوئی واقعہ پیش کرو ؟

۲۶

بارہواں سبق

نوابِ اربعہ

جب امام حسن عسکری علیہ السلام کا انتقال ہوا تو ہمارے امامؐ زمانہ کی عمر چار پانچ برس کی تھی لوگوں نے یہ طے کر لیا کہ آپ کو کسی صورت سے زندہ نہ رہنے دیا جائے ، آپ حکم خدا سے لوگوں کی نظروں سے غائب ہو گئے اور تقریباً ۷۰ برس تک اس غیبت صغریٰ کا سلسلہ جاری رہا۔ اس زمانہ میں آپ کے کچھ مخصوص اصحاب تھے جن کو آپ نے اپنا پتہ دیا تھا انھیں سے ملاقات کرتے تھے اور انھیں کے ذریعہ اپنے شیعوں تک اپنے پیغام بھیجا کرتے تھے۔ انھیں اصحاب کو نواب اربعہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ چار حضرات تھے اور چاروں کی قبریں بغداد میں ہیں جہاں لوگ برابر ان کی زیارت کے لئے جاتے رہتے ہیں۔ ان میں سے پہلے نائب جناب عثمان بن سعید تھے جو امام کی طعف سے مال کے وکیل تھے اور خمس کا سہم امام آپ ہی کو دیا جاتا تھا۔ دوسرے نائب آپ ہی کے فرزند محمد بن عثمان تھے جنھیں حضرت امام زمانہؐ نے ان کے باپ کے مرنے پر تعزیت کا خط لکھا تھا اور اس میں ان کے نائب ہونے کا ذکر فرمایا تھا۔ تیسرے نائب جناب حسین بن روح تھےجن کے ذریعہ اے آج بھی ۱۵/ شعبان کی صبح کو امامؐ کی خدمت میں عریضے بھیجے جاتے ہیں۔ آپ کا ایک مشہور واقعہ یہ ہے کہ بغداد کا رہنے والا ایک شخص بخارا گیا ہوا تھا جب وہاں سے آنے لگا تو وہاں کے ایک آدمی نے سونے کے دس پتھر یہ کہہ کردئے کہ انھیں حسین بن روح کے حوالہ کر دینا ، یہ شخص لے کر چلا تو راستے میں ایک پتھر گم ہو گیا۔

۲۷

بغداد میں آ کر سامان دیکھا تو اس کے گم ہو جانے کا پتہ چلا فوراً اسی قسم کا ایک پتھر بازار سے خرید کر سب کو جناب حسین بن روح کی خدمت میں لایا۔ آپ نے ان میں سے نو لئے اور ایک واپس کر دیا اس نے تعجب سے پوچھا کہ یہ کیوں واپس کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ پتھر جو تجھ سے گر گیا تھا وہ میرے پاس پہونچ گیا ہے اور یہ تو نے بازار سے خریدا ہے۔ آپ کے بعد چوتھے نائب علی ابن محمد سمری مقرر ہوئے اور ان کے انتقال کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ آپ کا انتقال ۱۵/ شعبان ۳۲۹ ھ؁ کو ہوا جس کے بعد امام نے یہ اعلان کر دیا کہ اب غیبت کبریٰ کا آغاز ہو رہا ہے اس میں جو نئے مسائل پیش آئیں۔ ان میں فقاء کی طرف رجوع کیا جائےگا۔ ان کا حکم ہمارا حکم ہوگا اور ہمارا حکم خدا کا حکم ہے۔

سوالات :

۱ ۔ نواب اربعہ کے نام بتاؤ ؟

۲ ۔ نواب اربعہ میں سے کسی کا کوئی واقعہ بتاؤ ؟

۳ ۔ نواب اربعہ کے زمانہ کی مدد بتاؤ ؟

۴ ۔ ان کے بعد ہمارا کیا فریضہ ہے ؟

۲۸

تیرھواں سبق

قیامت

قیامت کا دوسرا نام معاد ہے۔ قیامت وہ دن ہے جب انسان دوبرہ زندہ کئے جائیں گے تاکہ ان کے اچھے بڑے کاموں کا حساب لیا جائے اور اعمال کے مطابق ان کو جنت یا دوزخ میں جگہ دی جائے۔

مردوں کے زندہ کرنے پر تعجب نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ جو خدا اپنی قدرت سے بغیر کسی چیز کے سب کچھ پیدا کر سکتا ہے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دے۔

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ جناب ابراہیمؐ ایک دریا کے کنارے سے گزرے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک مردار ہے جس کا آدھا حصہ دریا کے باہر ہے اور آدھا دریا کے اندر۔ آپ کو یہ دیکھ کر سخت تعجب ہوا اور آپ نے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی۔ پروردگار مجھے یہ دیکھا دے کہ ایسے مردوں کو کیسے زندہ کرےگا۔ حکم خدا ہوا ابراہیمؐ ! چار پرندوں کو پکڑ لو اور انھیں اپنے سے مانوس بناؤ اس کے بعد انھیں ذبح کر کے ان کے ٹکڑے الگ الگ پہاڑوں پر رکھ دو اور سب کی منقار (چونچ) اپنے ہاتھ میں رکھو۔ اس کے بعد سب کو الگ الگ آواز دو۔ یہ سارے ٹکڑے دوڑ کر تمہارے پاس آ جائےںگے۔

۲۹

جناب ابراہیمؐ نے ایسا ہی کیا اور آپ نے جو آواز دی تو ہر جانور کے ٹکڑے آنے لگے۔ آپ نے ہر ایک کی چونچ اس کے جسم میں لگا دی اور ہر جانور پرواز کر گیا۔

اس واقعہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا وند عالم مرنے کے بعد بلکہ قیمہ قیمہ ہونے کے بعد بھی زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اسکی طاقت میں شک کرنا قرآن کریم پر ایمان نہ لانے اور خدا اور رسولؐ کی بات کا انکار کرنے کے برابر ہے۔

سوالات :

۱ ۔ معاد سے کیا مراد ہے ؟

۲ ۔ مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے پر تعجب کیوں نہ کرنا چاہئے ؟

۳ ۔ کیسے پتہ چلا کہ اللہ مردوں کو ریزہ ریزہ کرنے کے بعد بھی زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے ؟

۳۰

چودھواں سبق

برزخ

ہر انسان کے مرنے سے قیامت تک کے درمیانی فاصلے کا نام برزخ ہے۔ جس کی موت جس قدر قیامت سے قریب ہوگی اس کا برزخ اتنا ہی مختصر ہوگا اور جس قدر دور ہوگی اسی قدر برزخ بھی طولانی ہوگا۔

برزخ کی ضرورت اس لئے ہے کہ انسان اس دنیا میں دو قسم کے عمل انجام دیتا ہے ایک ظاہری عمل جسے کردار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ایک باطنی عمل جسے اعتقاد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

قیامت کا دن کردار کے مکمل حساب کے لئے معین ہے اور روح کے اعمال یعنی عقائد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس لئے ضرورت تھی کہ جسم کے روح سے الگ ہونے کے بعد ایک جگہ مقرر کر دی جائے جہاں روح کو اس کے عقائد کا اچھا یا بڑا بدلہ دیا جا سکے بس اسی عالم کا نام برزخ ہے۔ برزخ میں ہر شخص کو اس کے عقائد کے اعتبار سے اچھی یا بڑی جگہ دی جاتی ہے۔

برزخ میں روحیں اپنے جسم کے بجائے ایک دوسرے جسم میں رہتی ہیں جس طرح ہم جب بستر پر سوتے ہوتے ہیں اور خواب میں کسی جگہ جاتے ہیں کھاتے پیتے اور دوڑتے بھاگتے ہیں۔ خواب میں ہم کو جو اپنا جسم نظر آتا ہے برزخ خدا ہر انسان کو اسی سے ملتا جلتا ایک جسم دےگا جس کو جسم مثالی کہتے ہیں۔

حدیثوں میں آیا ہے کہ عالم برزخ میں مومنین کی روحیں وادی السلام میں رہتی ہیں اور کافروں ، منافقون اور اہلبیتؐ کے دشمنوں کی روحیں وادی برہوت میں رہتی ہیں۔

۳۱

مرنے کے بعد انبیاء ، ائمہ اور نابالغ ، کم عقل اور دیوانے لوگوں کے علاوہ فشار قبر بھی ہوتا ہے۔ جمعہ کی رات یا دن کو مرنے والا یا جوار ائمہؐ میں دفن ہونے والا فشار قبر سے محفوظ ہوتا ہے۔ فشار کا مطلب یہ ہے کہ خدا سے سرکشی کرنے والوں یا اپنے اہل و عیال یا مومنین سے سختی کرنے والوں کو زمین دباتی ہے۔

قیامت کے دن گناہگار مومنین کی شفاعت معصومین فرمائیںگے۔ لیکن برزخ میں کوئی شفاعت نہ ہوگی لہذا برزخ کے لئے ہر مومن کو خود اپنے اوپر بھروسہ کرنا پڑےگا۔ مرنے والے کے اعزا و احباب کا فریضہ ہے کہ وہ مرنے والے کے واجبات کو ادا کریں اسکے ذمہ جو حقوق خدا یا بندوں کے باقی ہوں انھیں بھی ادا کریں ، اسکے علاوہ ایصال ثواب کے لئے اعمال خیر بھی کریں تاکہ مومن کا برزخ آسانی سے گزر جائے۔

جو خدا کچھ نہ ہونے پر ساری دنیا کو پیدا کر سکتا ہے وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ بھی کر سکتا ہے اور دنیا کے ختم ہونے کے بعد اسے دوبارہ پیدا بھی کر سکتا ہے۔

وہ خدا اس پر بھی قادر ہے کہ جن مرنے والوں کی لاشیں زمین پر پڑی رہتی ہیں یا جلا دی جاتی ہیں یا دریا میں ڈال دی جاتی ہیں یا جن لاشوں کو چیل کوے یا درندے کھا جاتے ہیں ان سب کی روحوں کو بھی برزخ میں رکھے اگر چہ ان کی تکلیف یا راحت ہم کو نظر نہیں آتی۔

۳۲

ایک بار ایک کافر کی کھوپڑی ایک شخص نے پانچویں امامؐ کے سامنے پیش کی اور پوچھا کہ یہ کھوپڑی ٹھنڈی ہے اس کو عذاب کہاں دیا جا رہا ہے۔ امامؐ نے چقماق کے پتھر منگائے اور پوچھنے والے سے کہا کہ دیکھو یہ ٹھنڈے ہیں یا نہیں اُسنے چھو کر کہا کہ ٹھنڈے ہیں۔ امامؐ نے فرمایا کہ ان کو ایک دوسرے سے رگڑو۔ رگڑتے ہی پتھر سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔ امامؐ نے فرمایا جو خدا اس ٹھنڈے پتھر کے اندر آگ رکھ سکتا ہے وہ اس ٹھنڈی کھوپڑی کو بھی آگ کی سزا دے سکتا ہے۔ وہ شخص جواب سن کر امامؐ کو دعا دیتا ہوا چلا گیا۔

سوالات :

۱ ۔ برزخ کیوں رکھا گیا ؟

۲ ۔ برزخ میں جسم کیسا ہوتا ہے اسکی مثال دو ؟

۳ ۔ برزخ میں مومن و غیر مومن کی روحیں کہاں رہتی ہیں ؟

۴ ۔ برزخ میں مرنے والے کو آرام پہونچانے کے طریقے کیا ہیں ؟

۵ ۔ فشار قبر کیا ہے ؟ کن کو نہیں ہوتا اور کہاں نہیں ہوتا ؟

۳۳

پندرہواں سبق

عمل اور حساب

اللہ نے بندوں کو عمل کا موقع صرف دنیا میں دیا ہے۔ آخرت میں کسی کو عمل کا موقع نہیں ملےگا۔ جو لوگ اس دنیا میں نماز روزہ نہیں کرتے۔ زکوۃ خمس نہیں نکالتے۔ حج نہیں کرتے سور مر جاتے ہیں۔ وہ آخرت میں بہت پچھتائیں گے اور سوا افسوس کرنے کے کچھ ان کے ہاتھ نہیں لگےگا۔ آخرت صرف جزا اور سزا کی جگہ ہے عمل کی جگہ نہیں ہے۔ عمل کرنے کے لئے صرف دنیا ہے۔ یہاں جزا اور سزا نہیں ملتی۔ اگر دنیا میں اچھے کامو٘ کی جزا اور بڑے کاموں کی سزا مل جاتی ہوتی تو نبی ، امام اور اللہ کے نیک بندے مصیبتوں میں نہ رہتے اور نہ نمرود ، فرعون ، یزید جیسے برے لوگ راحت و آرام میں رہتے۔

خیرات کرنے سے بلائیں ضرور دور ہوتی ہیں لیکن خیرات کا ثواب آخرت میں ملےگا۔ اسی طرح گناہوں سے بلائیں نازل ہوتی ہیں مگر گناہوں کی سزا آخرت میں ملنے والی ہے۔

اللہ نے دو دو ملک ہر انسان پر معین کئے ہیں جو اس کے ہر کام کو لکھتے رہتے ہیں۔ حساب کے دن ملائکہ کے لکھے ہوئے اعمال نامے انسان کو دئے جائیں گے جس کے بعد کوئی شخص اپنے گناہوں سے انکار نہ کر سکےگا۔ اعمال نامہ کے علاوہ ہمارے ہاتھ ، پیر ، آنکھ ، کان سب اعضا بھی ہمارے ان تمام گناہوں کی گواہی دیںگے جو گناہ ہم نے ان اعضا سے کئے ہوںگے۔

اللہ نے جنت یا دوزخ میں جگہ دینے سے پہلے حساب کتاب اسلئے رکھا ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اعراض نہ کر سکے۔ اگر خدا پیدا کرتے ہی ہر انسان کو جنت یا دوزخ میں بھیج دیتا تو لوگ اعتراض کرتے کہ بغیر گناہ کے دوزخ میں کیوں ڈالا اور بغیر عبادت کے جنت میں جگہ کیوں دی۔ اعمال کے بعد کوئی شخص خدا پر اعتراض نہ کر سکےگا۔

سوالات :

۱ ۔ خیرات کا فائدہ کیا ہے اس کی جزا کہاں ملےگی ؟

۲ ۔ عمل کے لئے کون سی جگہ مخصوص ہے اور جزا و سزا کہاں ملےگی ؟

۳۴

فروع دین

سولہواں سبق

میت کے احکام

موت کا وقت

جو لوگ مرنے والے کے پاس موجود ہوں ان پر واجب ہے کہ مرنے والے کو اس طرح چت لٹا دیں کہ اس کا منہ اور پیر کے دونوں تلوے قبلہ کی طرف ہوں۔ یہ حکم ہر مرنے والے کے لئے ہے چاہے مرنے والا مر دہو یا عورت۔ بچہ ہو یا جوان یا بوڑھا۔

غسل مسّ میت

آدمی کی میت چھونے سے غسل واجب ہوتا ہے اسی طرح اگر آدمی کی میت کا کوئی ٹکڑا چھو لے تب بھی غسل واجب ہو جائےگا۔ ٹکڑا چاہے زندگی میں کاٹا گیا ہو یا مرنے کے بعد کاٹا گیا ہو۔ شرط یہ ہے کہ اس میں ہڈی ہو مگر غسل اسی وقت واجب ہوگا جب میت یا اس کے ٹکڑے کو ٹھنڈا ہونے کے بعد اور غسل دینے سے پہلے چھوا جائے۔

جسم کے جن حصوں میں جان نہیں ہوتی جیسے بال ۔ دانت وغیر ان کے چھونے سے غسل واجب نہیں ہوتا۔ لیکن ناخن کے چھونے سے غسل واجب ہے۔

غسل میت

ہر مسلمان کے مردہ کو غسل دینا واجب ہے اگر میت کا صرف سینہ یا ہڈی ملے ایسا ٹکڑا ملے جس میں سینہ کی یا کوئی دوسری ہڈی لگی ہو تب بھی اس کو غسل دینا واجب ہے۔ اس بچہ کا غسل بھی واجب ہے جس کا اسقاط ہو گیا ہو مگر شرط یہ ہے کہ حمل چار مہینہ یا اس سے زیادہ کا ہو۔ میت کو پہلے بیری کی پانی سے پھر کافور کے پانی سے پھر خالص پانی سے غسل دینا واجب ہے۔

۳۵

غسل کی ترکیب

غسل سے پہلے میت کے سارے جسم کو نجاست اور میل سے صاف کرے پھر میت کو پاک کرنے کے بعد بیری کی تھوڑی سی پتی چھل کر پانی میں ملائے اور نیت کرے کہ اس میت کو غسل دیتا ہوں آب سدر سے واجب قربتہً الی اللہ۔ اس کے بعد اسی پانی سے پہلے میت کے سر و گردن کو دھوئے، پھر ذرا کروٹ کر کے اسی کے داہنے حصہ بدن کو گردن سے پیر کی انگلیوں تک، پھر اسی طرح بائیں جانب کو اچھی طرح دھوئے۔ اس کے بعد دوسرے خالص پانی میں تھوڑا کافور ملا کر پھر نیت کرے کہ غسل میت دیتا ہوں آب کافور سے واجب قربتہً الی اللہ اور اس پانی سے بھی اسی طرح غسل دے۔ اس کے بعد خالص پانی سے اسی طرح غسل دے۔ جسم کے ہر حصے کو دھونے میں تھوڑا سا بڑھا کر دھوئے۔

طریقہ حنوط

مردے کو غسل دینے کے بعد اس کے ساتوں مقامات سجدہ یعنی دونوں پیر کے انگوٹھے ، دونوں گھٹنے اور پیشانی اور دونوں ہتھیلیوں پر کافور ملنا واجب ہے بشرط یہ کہ مرنے والا شہید نہ ہو اور حالت احرام میں نہ ہو۔

کفن

میت مرد کی ہو یا عورت کی ، تین کپڑے دینا واجب ہے۔ پیراہن ، لنگی ، چادر مگر مرد کی میت کو علاوہ ان واجبی کپڑوں کے ایک ران پیچ ، ایک عمامہ اور ایک چادر دینا مستحب ہے۔ عورت کی میت کو ایک ران پینچ ، مقنعہ اور سینہ بند اور اوڑھنی اور ایک چادر دینا مستحب ہے۔

بردیمانی دینا دونوں کے لئے مستحب ہے۔

تصریح

مرد کو مرد اور عورت کو عورت غسل دے اور کفن پہنائے عورت اپنے شوہر کو اور مرد اپنی زوجہ کو غسل و کفن دے سکتا ہے۔

۳۶

کفن

پہلے چادر بچھائیں اس کے اوپر پیراہن گریبان کو پھاڑ کر آدھا بچھائیں اور آدھا سر کی جانب نکلا رہنے دیں ، پھر نصف چادر سے نیچے پیر کی جانب لنگی بچھا دیں اور اس پر ران پینچ رکھ دیں جس کا ایک سرا جو کمر سے متصل رہےگا طول میں پھاڑ دیں تاکہ کمر میں بندھ جائے۔ پھر ان کپڑوں پر میت کو لٹا کر ران پینچ کا سرز جو پھٹا ہوا ہے پہلے کمر میں اس طرح بنادھیں کہ گرہ ناف پر پڑے۔ اس کے بعد شرمگاہ پر میت کے اچھی طرح روئی رکھ کر دوسرا سرا اس ران پینچ کا اس بندھی ہوئی گرہ سے اس طرح نکالیں کہ مشل لنگوٹ کے ہو جائے اور روئی نہ گرنے پائے۔ اس کے بعد دونوں پیروں کو ملاکر لنگی سے لپیٹ دیں ، اس کے بعد پیراہن جو سر کی جانب نکلا ہے پہنا دیں۔ اگر عمامہ ہے تو سر پر باند کر دونوں سرے اس کے سینے پر دال دیں اور تین یعنی بیر یا خرمے یا بیر کی دو تازہ شاخیں لے کر ان پر شہادتین لکھ کر اس پر روئی لپیٹ کر ایک داہنی جانب جسم سے ملا کر ہنسلی سے بغل کے نیچے کمر تک اور دوسری بائیں جانب پیراہن کے اوپر ہنسلی کے پاس رکھیں اس کے بعد چادر دونوں طرف سے لپیٹ کر پیر ، کمر اور سر کے پاس باندھیں تاکہ علیحدہ نہ ہو جائے۔

عورت کے مردے کو پہلے ران پینچ اور لنگی اس کے بعد سینہ بند پہنا کر پیراہن پہنائیں اور مقنعہ کے بعد اوڑھنی اس کے بعد چادر لپیٹیں۔

۳۷

نماز میت

چھ سال یا اس سے زیادہ عمر والے مسلمان خورد و بزرگ کی نماز جنازہ واجب ہے خواہ وہ شیعہ ہو یا غیر شیعہ ، عادل ہو یا فاسق ، غلام ہو یا آزاد ، مرد ہو یا عورت ، یہاں تک کہ خود کشی کر کے مر جانے والے کی بھی نماز میت واجب ہے، اس نماز کے واجب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے بھی نماز نہ پڑھی تو تمام باخبر مسلمان گنہگار سمجھے جائےیںگے اور ایک شخص بھی پڑھ دےگا تو سب سے ساقط ہو جائےگی۔

یہ نماز فرادی بھی ہو سکتی ہے اور جماعت سے بھی۔ لیکن جماعت کی صورت میں امام جماعت کو عادل ہونا چاہئے دوسرے تمام مومین کو بھی امام کی طرح دعائیں پڑھنا چاہئے یہاں خاموش کھڑا ہونے والا بیکار شمار ہوگا بلکہ اس کی موجودگی دوسرے مامومین کے لئے حائل بن کر ان کی نماز بھی خراب کر سکتی ہے اگر ان کا اتصال امام تک ایسے ہی لوگوں کے ذریعہ سے ہو۔

اس نماز کے حسب ذیل شرائط ہیں :

۱ ۔ میت سامنے موجود ہو۔

۲ ۔ نماز گزار روبقبلہ ہو۔

۳ ۔ میت کا سر نمازی کے داہنی طرف ہو۔

۴ ۔ نمازی میت کے کسی حصے کے سامنے ہو اگر نماز جماعت سے نہ ہو رہی ہو۔ اکثر مقامات پر بہت سے افراد ایک ساتھ کھڑے ہو کر بلانیت جماعت نماز پڑھ لیتے ہیں ایسے میں صرف انھیں کی نماز صحیح ہوگی جو میت کے پاس ہیں باقی داہنے بائیں یا دوسری تیسری صف والوں کی نماز باطل ہے۔

۳۸

۵ ۔ نماز غسل و کفن کے بعد ہو۔

۶ ۔ ولی کی اجازت سے ہو۔

۷ ۔ نمازی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں۔

نماز میت میں طہارت کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر میت بغیر نماز کے دفن ہو گئی ہے تو نماز اس کی قبر پر پڑھی جائےگی جب تک کہ اس کا بدن زیر لحد پاش پاش نہ ہو جائے۔

ترکیب نماز میت

اس نماز کی ترکیب یہ ہے کہ پہلے نیت کرے نماز میت پڑھتا ہوں واجب قربتہً الی اللہ پھر تکبیر کہہ کے پڑھےاَشهَدُ اَن لَّا اِلٰهَ الله وَ اَشهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ الله پھر تکبیر کہے اور صلوات پڑھےاَللَّهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدِوَّ اَلِ مُحَمَّد پھر تکبیر کہہ کر یہ دعا پڑھےاَللَّهُمَّ اغفِر لِلمُومِنِینَ وَالمُومِنَاتِ پھر تکبیر کہے اور یہ دعا پڑھےاَلَّلهُمَّ اغفِر لهَنَا پھر تکبیر کہہ کر نماز ختم کر دے اگر میت نابالغ کی ہے تو یہ دعا پڑھےاَلَّلهُمَّ اجعَلُهُ لِاَبَویهِ وَلَنَا سَلَفاًدَّ فَرَطاً وَّ اَجرا

ایک جنازہ پر دو مرتبہ نماز مکروہ ہے لیکن اگر میت کسی بزرگ کی ہے تو کائی حرج نہیں ہے۔

کاندھا دینے کا طریقہ

جنازہ اٹھانے والوں کا رُخ میت کے سر کی جانب ہونا چاہئے۔ ایک آدمی میت کے داہنے شانے اور دوسرا آدمی اس کے داہنے پیر کو اپنے کاندھے پر اٹھائے۔ اسی طرح ایک آدمی میت کے بائیں شانے اور دوسرا میت کے بائیں پیر کو اپنے اپنے کاندھے پر اٹھائے۔ چند قدم کے جانے کے بعد جو آدمی میت کے داہنے شانے کو اٹھائے ہو میت کے داہنے پیر کی جگہ آ جائے اور وہاں کا آدمی بائیں پیر کی جگی اور وہاں کا آدمی میت کے بائیں شانے کی جگہ اور وہاں کا آدمی میت کے پائنتی سے ہو کر اس کے داہنے شانے کی جگہ چلا جائے۔ اسی طرح برابر کاندھا بدلتے ہوئے قبر تک لیجائیں۔

۳۹

طریقہ دفن

میت کو دفن میں اس طرح چھپانا واجب ہے کہ درندوں اور بدبو پھیلنے سے محفوظ رہے اور قبر کو قد آدم یا گلے تک گہرا کھودنا اور اس میں قبلہ کی جانب ایک لحد بیٹھنے کے قابل بنانا مستحب ہے۔

دفن میں مندرجہ ذیل باتوں کا لحاظ رکھنا چاہئے :

۱ ۔ میت کو یکایک قبر میں نہ اتارنا چاہئے بلکہ مرد کی میت کو دو جگہ رکھ کر تیسری بار قبر کی پائنتی رکھیں اور اس کے بعد سر آگے کر کے اتاریں۔

۲ ۔ عورت کی میت کو تیسری بار قبر کے پہلو میں قبلہ کی طرف رکھ کر چوتھی بار پہلو کی طرف سے اس طرح اتاریں کہ سر نیچا نہ ہو۔ جو شخص قبر میں اترے اس کا ننگے سر ننگے پاؤں رہنا اور کپڑوں کی تمام گرہوں کو کھول دینا مستحب ہے اور میت کو قبر میں داہنی کروٹ کر کے قبلہ رخ لٹا دیں اس کے بعد میت کے بندے کفن کھول دیں تاکہ میت کا منھ کھلا رہے اور داہنا رخسارہ میت کا زمین پر پہنچ جائے اور نیچے ذرا سی مٹی رکھ کر سر کو کچھ بلند کر دیں اور خود قبر میں ایک طرف کھڑا ہو تاکہ میت اس کے دونوں پیروں کے درمیان نہ ہو جائے اور سورہ حمد و سورہ قل اعوذبرب الفلق اور قل ہو اللہ اور آیتہ الکرسی اور اعوذباللہ من الشیطان الرجیم پڑھتا رہے اور قبر سے باہر نکلنے سے پہلے میت کو تلقین پڑھائے۔

۴۰