امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم جلد ۵

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم60%

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 99

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 99 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71672 / ڈاؤنلوڈ: 2749
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

قبر کی اونچائی

قبر کو زمین سے چار انگلی بلند اس طرح بنانا جس کی لمبائی چوڑائی سے زیادہ ہو اس پر اس طرح پانی چھڑکنا کہ پانی ڈالنے والا قبلہ رُخ ہو کر سرہانے سے گراتا ہوا پائینتی کی طرف سے لا کر دوسری جانب سے پورا کرے اور جو پانی بچا رہے اس کو بیچ قبر پر ڈال دے۔ دفن کرنے کے بعد پھر تلقین پڑھنا چاہئے۔

سوالات :

۱ ۔ مرنے والے کو کس طرح لٹایا جانا چاہئے ؟

۲ ۔ غسل مس میت کب واجب ہوتا ہے ؟

۳ ۔ کس کے مردے کو غسل دینا واجب ہے ؟

۴ ۔ غسل میت کی ترکیب بتاؤ ؟

۵ ۔ حنوط کا طریقہ بتاؤ ؟

۶ ۔ نماز میت کی ترکیب بتاؤ ؟

۸ ۔ قبر کی اونچائی کتنی ہونی چاہئے ؟

۹ ۔ عورت اور مرد کی میت کو قبر میں کس طرح اتارا جائے اور لٹایا جائے ؟

۱۰ ۔ کفن کس طرح پہنایا جائےگا ؟

۴۱

سترہواں سبق

روزہ

خدا وند عالم کے حکم کی تعمیل کی نیت سے صبح کی اذان کے وقت سے مغرب کے وقت تک ان چیزوں سے باز رہنے کا نام روزہ ہے جن کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

نو چیزوں سے روزہ باطل ہو جاتا ہے

۱ ۔ کھانا پینا ۔ ۲ ۔ جماع ۳ ۔ منی نکلنا یا کوئی ایسا کام کرنا جس سے منی نکل آئے۔

۴ ۔ خدا و نبیؐ اور ان کے جانشین پر بہتان باندھنا ۔ ۵ ۔ غلیظ یعنی گہرے غبار یا دھوئیں یا بھاپ کو حلق میں داخل کرنا۔ ۶ ۔ پانی میں سر ڈبونا ۔ ۷ ۔ نماز صبح کے وقت تک جنابت ، حیض یا نفاس کی حالت پر غسل یا تیمم کئے بغیر باقی رہنا۔ ۸ ۔ سیال چیزوں سے انیما لینا۔ ۹ ۔ عمداً قے کرنا۔

دن بھر روزہ کی نیت کا باقی رہنا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص روزہ توڑنے کا ارادہ کرے مگر کسی وجہ سے نہ توڑے تب بھی نیت ٹوٹ جانے کی وجہ سے روزہ باقی نہ رہےگا۔ اس کی قضا واجب ہوگی اور اگر اس کے بعد بھی روزہ تور ڈالا تو کفارہ بھی واجب ہوگا۔ جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اگر بھول کر یا کسی کے جبر سے وہ چیزیں انجام پا جائیں تو روزہ نہیں ٹوٹتا البتہ ان کا موں کے عمداً کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ نماز صبح کا وقت آ جانے کے بعد احتلام ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹنا۔

۴۲

کفارہ کی تفصیل

جس شخص پر رمضان کے روزہ کا کفارہ واجب ہو وہ ایک غلام آزاد کرے یا دو مہینے کے روزے رکھے جس میں ۲۱ روز ے مسلسل رکھے یا ۶۰ اثنا عشری فقیروں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائیں یا ان میں سے ہر ایک کو تقریباً سات سو دس گرام گیہوں ، جو یا اس کے مانند کوئی دوسرا غلہ دے۔ جو شخص مذکورہ بالا کفاروں میں سے کسی کفارہ کے ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو جتنے روزے رکھ سکے رکھے اور جتنا غلہ دے سکے دے اور استغفار بھی کرے لیکن اس کے بعد جب کبھی کفارہ دینے کے قابل ہو جائے تو بنا پر احتیاط کفارہ دینا واجب ہوگا۔

جو شخص روزے کو عمداً حرام چیز سے توڑ دے مثلا شراب پی لے اس پر تینوں کفارے ایک ساتھ واجب ہوںگے۔ ایسا شخص اگر تینوں کفارے نہ دے سکتا ہو تو جو ممکن ہو اتنا کفارہ دے۔ اگر رمضان کے روزے میں ایک سے زیادہ بار بیوی سے جماع کرے یا خودکاری کرے تو ہر جماع یا خود کاری پر ایک کفارہ واجب ہوگا ہر بار حرام طریقہ سے جماع کریگا تو ہر حرام جماع پر تینوں کفارے ایک ساتھ واجب ہوںگے۔ ان کے علاوہ روزہ کو باطل کرنے والا کام اگر ایک ہی روزے میں بار بار کیا جائے تو صرف ایک ہی کفارہ واجب ہوگا۔ اگر جماع بھی کرے اور دوسرا کام بھی کرے جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے تو دو کفارے واجب ہوںگے۔

۴۳

جو شخص سفر کرنا چاہتا ہو لیکن سفر شروع کرنے سے پہلے حد تر خص سے باہر نکلنے سے پہلے روزہ توڑ ڈالے اس پر قضا اور کفارہ دونوں واجب ہوںگے۔ کفارہ کے ادا کرنےمیں تاخیر کرنا جائز ضرور ہے لیکن حتی الا مکان فوراً ادا کرنا چاہئے۔

قضا روزے

کافر پر زمانہ کفر کے روزوں کی قضا واجب نہیں ہے مگر جو مسلمان کافر ہو کر پھر مسلمان ہو جائے اس پر کفر کے زمانے کے روزوں کی قضا واجب ہوگی دیوانے پر اچھے ہونے کے بعد زمانہ دیوانگی کے روزوں کی قضا واجب نہیں لیکن بدمست پر مستی زائل ہونے کے بعد روزوں کی قضا واجب ہوگی۔ جب قضا روزوں کی تعدادییں شک ہو تو کم تعداد کے روزوں کی قضا واجب ہوگی اور زیادہ تعداد کے روزوں کی قضا مستحب ہے۔ رمضان کے قضا روزے کو قبل ظہر توڑا جا سکتا ہے بشرط یہ کہ قضا کا وقت تنگ نہ ہو۔ جو ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک مسلسل بیمار رہے اس پر پیچھلی رمضان کے روزوں کی قضا واجب نہ ہوگی۔ البتہ ہر روز کے عوض تقریباً سات سو دس گرام غلہ دینا ضروری ہوگا۔

باپ کے قضا روزے اور نماز کا ادا کرنا بڑے بیٹے پر واجب ہے اور ماں کے قضا روزے اور نماز کا ادا کرنا مستحب ہے۔

۴۴

مسافر کے روزے

سفر اگر جائز ہو تو اس میں روزہ رکھنا حرام ہے۔ ناجائز سفر کرنے والا اور جس کا پیشہ سفر کرنا ہو یہ لوگ سفر میں بھی روزے رکھیںگے۔ روزہ سے بچنے کے لئے سفر کرنا جائز ہے مگر مکرہ ہے۔

ظہر کے بعد سفر شروع کرنے والا روزہ نہیں توڑ سکتا اور ظہر سے پہلے سفر کرنے والا حد تر خص کے اندر قبل ظہر آ جائے اور اس نے روزہ توڑنے والا کوئی کام نہ یا ہو تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہو جائگا۔جب کم از کم تنتالیس کیلو میٹر چھ سو تیس میٹر کی مسافت کے سفر کا ارادہ ہو تو حد تر خص سے نکلنے کے بعد نماز اور روزے دونوں قصر ہوتے ہیں۔

کن لوگوں پر روزہ واجب نہیں

۱ ۔ جو شخص پڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا یو یا روزہ رکھنے میں غیر معمولی تکلیف محسوس کرنے والے کو ہر روزہ کے عوض فقیر شرعی کو سات سو دس گرام غلہ دینا ہوگا۔

۲ ۔ جو شخص ایسے مرض میں گرفتار ہو جس کے باعث پیاس شدید ہو اور اس پیاس میں روزہ رکھنا ناقابل برداشت ہو یا غیر معمولی تکلیف کا باعث ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے لیکن ہر روزہ کے عوض غلہ دینا واجب ہوگا۔ ایسے شخص پر رمضان کے دنوں میں واجب ہے کہ صرف ضرورت بھر پانی پیئے۔

۳ ۔ جس حاملہ عورت کو یا اس کے بچہ کو روزہ رکھنے کی صورت میں نقصان پہنچنے کا خوف ہو تو اس پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے لیکن بعد میں قضا واجب ہوگی۔ اور ہر روزہ کے عوض غلہ بھی دینا ہوگا۔

۴ ۔ جو شخص کسی بچہ کو دودھ پلاتی ہو چاہے بچہ کی ماں ہو یا نہ ہو روزہ سے بچہ کو نقصان پہونچنے کا خوف ہو تو اس پر رمضان میں روزہ رکھنا واجب نہ ہوگا مگر بعد میں قضا رکھنا ہوگی اور ہر روزہ کے عوض غلہ بھی دینا ہوگا لیکن اگر دوسری عورت دودھ پلانےپر تیار ہو جائے تو بچہ کو ا سکے حوالہ کر کے روزہ رکھنا واجب ہوگا۔

۴۵

چاند کے ثبوت کے طریقے

۱ ۔ خود چاند دیکھے ۲ ۔ اتنے آدمی چاند دیکھنے کی گواہی دیں جس سے اطمینان ہو جائے ۳ ۔ دو عادل مرد چاند دیکھنے کی گواہی دیں ۴ ۔ ماہ رواں کے تین دن پورے ہو جائیں۔

سوالات :

۱ ۔ کن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟

۲ ۔ روزہ توڑنے کی نیت کرے مگر نہ توڑے تو کیا حکم ہے ؟

۳ ۔ روزہ کے کفارے بیان کرو ؟

۴ ۔ کن لوگوں پر روزہ واجب نہیں ہے ؟

۵ ۔ چاند کے ثبوت کے کیا ذرائع ہیں ؟

۴۶

آٹھارہواں سبق

حج

خانہ کعبہ کی زیارت کرنے اور ان اعمال کو بجا لانے کو حج کہتے ہیں جن کے بجا لانے کا اس موقع پر حکم دیا گیا ہے۔ حج پوری عمر میں ایک بار واجب ہوتا ہے۔

حج واجب ہونے کے شرائط حسب ذیل ہیں۔

۱ ۔ بالغ ہونا ۔ ۲ ۔ عاقل ہونا ۔ ۳ ۔ آزاد ہونا ۔ ۴ ۔ حج کرنے کی وجہ سے کسی بڑے حرام کام کا کرنا یا کسی اہم واجب کام کا چھوڑنا لازم نہ آتا ہو ۔ ۵ ۔ حج کرنے والا مستطیع ہو یعنی سفر کے اخراجات رکھتا ہو مکہ تک جانے کی سواری مل سکتی ہو۔ حج کے فرائض کی ادائگی اور سفر کرنے کے قابل صحت ہو ، سفر میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ راستہ میں جان مال اور عزت کا خطرہ نہ ہو ، وقت کے اندر حج کے اعمال بجا لانے کا موقع ہو۔ واجب النفقہ افراد کو جن کا خرچ اس کے ذمہ واجب ہو حج کے زمانے میں ان کا خرچ دے سکتا ہو۔ حج کی واپسی پر اس کا ذریعہ معاش باقی رہے۔

۴۷

جس شخص پر حج واجب ہو مگر حج نہ کرے اور اس کے بعد بڑھاپے یا بیماری یا کمشوری کی وجہ سے خود حج کرنے سے ایسا مجبور ہو جائے کہ آئندہ بھی اسے خود حج کرنے کی امید نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ کسی کو اپنی طرف سے حج کرنے کے لئے بھیج دے۔ جس شخص پر حج واجب ہو مگر نہ کرے اور اس کے بعد غریب ہو جائے تو اس پر واجب ہے کہ چاہے جس قدر بھی زحمتیں ہوں حج کرنے جائے اگر بالکل مجبور ہو جائے مگر کوئی شخص اس کو اجرت پر حج بدل کرنے کے لئے بھیجے تو اس پر فرض ہے کہ پہلے حج بدل کرے اور پھر اگلے سال تک مکہ میں رہے تاکہ آئندہ سال اپنا حج کر سکے۔ جس شخص پر حج واجب ہو اور حج کئے بغیر مر جائے تو اس کی موت مسلمان کی موت نہیں ہوتی۔

سوالات :

۱ ۔ مستطیع کسے کہتے ہیں ؟

۲ ۔ حج واجب ہونے کے شرائط کیا ہیں ؟

۳ ۔ جس پر حج واجب ہو حج نہ کرے اور غریب ہو جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

۴۸

انیسواں سبق

زکوٰۃ

زکوٰۃ نو چیزوں پر واجب ہے

۱ ۔ گیہوں ۔ ۲ ۔ جو ۔ ۳ ۔ خرمہ ۔ ۴ ۔ چاندی ۔ ۵ ۔ کشمش ۔ ۶ ۔ سونا ۔ ۷ ۔ اونٹ ۔ ۸ ۔ گائے ، بھینس ۔ ۹ ۔ بھیڑ ، بکری اور گوسفند۔ ہر مال پر زکوٰۃ تب ہی واجب ہوتی ہے جب اس کی مقدار اس نصاب کے برابر ہو جس نصاب پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ زکوٰۃ اس پر واجب ہوتی ہے جس کے پاس نصاب بھر مال ہو خود مال کا مالک ہو اور مال اس کے قبضہ میں ہو۔ بالغ ، عاقل اور آزاد ہو۔

زکوٰۃ حسب ذیل آٹھ مقامات پر صرف کی جا سکتی ہے

۱ ۔ فقیر یعنی اثنا عشری جو اپنے اور اپنے عیال کے سال بھر کے خرچ کا ذخیرہ اور ذریعہ نہ رکھتا ہو۔

۲ ۔ مسکین جو فقیر سے بھی زیادہ غریب ہو ۔

۳ ۔ جو شخص امام علیہ السلام یا آپ کے نائب کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے معین ہو ۔

۴ ۔ وہ مسلمان جن کا ایمان ضعیف ہو ان کو ایمان میں پختہ کرنے کے لئے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے ۔

۵ ۔ جو غلام سختی میں ہو جس کی آزادی میں اس قسم کی ادائگی کی ضرورت ہو جس کو وہ ادا نہ کر سکتا ہو۔ اس صورت میں زکوٰۃ کے ذریعہ اس کو آزاد کرایا جا سکتا ہے۔

۶ ۔ جو شخص اپنا قرض نہ ادا کر سکتا ہو اُسے ادائگی قرض کے لئے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔

۷ ۔ زکوٰۃ ایسے تمام کاموں میں صرف کی جا سکتی ہے جن کا فائدہ دینی اور عام ہو مثلا مسجد ، مدرسہ ، سرائے بنانا وغیرہ۔

۸ ۔ جو مسافر سفر میں محتاج ہو گیا ہو اُسے ضرورت بھر زکوٰۃ دی جا سکتی ہے

۴۹

جن لوگوں کو زکوٰۃ دی جائے ان کا شیعہ اثنا عشری ہونا ضروری ہے اور ضروری ہے کہ وہ شخص علی الا علان گناہ کبیرہ نہ کرتا ہو۔ سید کو غیر سید کی زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ نکالنے والا ان لوگوں کو اپنی زکوٰۃ نہیں صرف کر سکتا جن کا خرچ دینا اس پر شرعاً واجب ہو۔

فطرہ

شب عید غریب کے وقت جو شخص بالغ اور عاقل ہو فقیر نہ ہو نہ غلام ہو اس پر واجب ہے کہ اپنا اور اپنے عیال کا فطرہ نکالے یعنی ہر شخص کی طرف سے فرداً فرداٍ تین کیلو گیہوں یا جو یا چاول یا ان کے مانند کوئی غلہ دے یا ان کی قیمت دے۔ قبل غریب آنے والے مہمان کا فطرہ میزبان پر واجب ہوتا ہے۔ فطرہ بھی انھیں جگہوں پر دیا جائےگا جہاں زکوٰۃ دی جاتی ہے۔ البتہ مستحب ہے کہ فطرہ صرف فقراء شیعہ پر صرف کیا جائے۔

فطرہ احتیاط واجب کی بنا پر فقط شیعہ اثنا عشری مستحق فقراٗ کو دینا ضروری ہے۔

( آیتہ۔۔۔۔۔ سیستانی مدظلہ )

سوالات :

۱ ۔ زکوٰۃ کن چیزوں پر واجب ہے ؟

۲ ۔ فطرہ کس شخص پر واجب ہے ؟

۳ ۔ زکوٰۃ اور فطرہ کا مصرف کیا ہے ؟

۵۰

بیسواں سبق

خمس

حسب ذیل چیزوں میں خمس واجب ہے۔

۱ ۔ سالانہ بچت ۔ ۲ ۔ کان ۔ ۳ ۔ خزانہ ۔ ۴ ۔ حلال و حرام مال ایک میں مل جائیں ۔ ۵ ۔ سمندر میں غوطہ لگا کر جو چیزیں نکالی جائیں ۔ ۶ ۔ میدان جہاد میں جو مال غنیمت ملے ۔ ۷ ۔ اگر کافر ذمی مسلمان سے زمین خریدے ۔

جس شخص کو بھی تجارت ، صنعت یا کسی دوسرے ذریعہ معاش سے آمدنی ہو یا ذریعہ معاش کے علاوہ مثلا ہبہ وغیرہ کے ذریعہ آمدنی ہو۔ اگر اس کے پاس اس آمدنی سے اپنے اور اپنے عیال کے سال بھر کے خرچ کے بعد کچھ بچے تو بچت کا پانچواں حصہ خمس میں نکالنا واجب ہوگا۔ خرچ کا حسب حیثیت اور جائز ہونا ضروری ہے ورنہ اس مال کا بھی خمس دینا پڑےگا جو ناجائز کاموں میں صرف ہوا ہو یا جسے حیثیت سے زیادہ خرچ کیا ہو۔ خمس نکالے بغیر مال پر تصرف ناجائز ہے اور اس سے خریدی یا بنائی جانے والی چیزوں میں عبادت درست نہیں ہوتی۔

۵۱

خمس کا مصرف

خمس کے دو حصے ہوتے ہیں ۔ آدھا حق سادات ہوتا ہے جو فقیر سید یا سید تییم یا اُس سید مسافر پر خرچ ہوگا جو سفر میں فقیر ہو گیا ہو۔ آدھا حصہ امام علیہ السلام ہے۔ آج کے زمانہ غیبت میں امام علیہ السلام کا حق مجتہد جامع الشرائط کو دیا جائے یا اس کی اجازت سے صرف کیا جائے۔ خمس اسی کو دیا جا سکتا ہے جو اثنا عشری شیعہ ہو ، علی الاعلان گناہ نہ کرتا ہو اور خمس نکالنے والے پر اس کا خرچ واجب نہ ہو اور سید ہو غیر سید کو خمس نہیں دیا جا سکتا ہے البتہ حق امام غیر سید پر بھی خرچ کیا جا سکتا ہے۔ جس کے لئے اعلم وقت کی اجازت ضروری ہے۔

سوالات :

۱-خمس کتنی چیزوں پر واجب ہے ؟

۲ ۔ خمس کن پر صرف کیا جائےگا ؟

۳ ۔ حق امامؐ کس کو دیا جائےگا ؟

۵۲

اکیسواں سبق

متفرق مسائل

۱ ۔ جو آوزیں گانے اور لہو و لعب کی محفلوں کے لئے مخصوص ہیں ان آوازوں کا نکالنا اور سننا حرام ہے۔ ان آوازوں سے قرآن نوحہ ، مرثیہ اور مجلس پڑھنا بھی حرام ہے۔

۲ ۔ داڑھی کا مونڈنا یا مشین سے کتر دینا کہ وہ منڈنے کے برابر ہو جائے حرام ہے۔ یہ حکم تمام لوگوں کے لئے یکساں ہے۔ لوگوں کے مذاق اڑانے کی وجہ سے حکم خدا نہیں بدلتا ہے۔ لڑکا جب بالغ ہو جائے تو اس پر داڑھی منڈانا حرام ہے چاہے داڑھی تھوڑی نکلی ہو یا زیادہ۔

۳ ۔ اگر نانی اپنے نواسہ یا نواسی کو دودھ پلا دے تو بچہ کی ماں اپنے شوہر پر حرام ہو جاتی ہے بشرطیکہ دودھ پلانے کے شرائط پورے ہوئے ہوں۔

۴ ۔ اگر کوئی شخص کسی لڑکے سے بدکاری کرے تو اس لڑکے کی بہن ، ماں ، بیٹی وغیرہ کا نکاح بدکاری کرنے والے سے کبھی جائز نہیں ہو سکتا۔

۵ ۔ لڑکا تب بالغ ہوتا ہے جب اس کی عمر پندرہ سال کی ہو جائے یا سوتے جاگتے میں منی نکلنے لگے یا زیر ناف بال نکل آئیں اور لڑکی تب بالغ ہوتی ہے جب پورے نو سال کی ہو جائے یا زیر ناف بال نکل آئیں یا حیض آئے۔بالغ ہونے کے بعد اگر لڑکے کے سوتے یا جاگتے میں منی نکل آئے تو اس پر غسل جنابت واجب ہوتا ہے۔ منی وہ رطوبت ہے جو پیشاب کی جگہ سے اچھل کر نکلتی ہے جس کے نکلنے کے بعد عضو میں سستی پیدا ہو جاتی ہے اور علی العموم شہوت کے بعد نکلتی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ گانا اور داڑھی منڈنا کیسا ہے ؟

۲ ۔ اگر نانی اپنے نواسہ یا نواسی کو دودھ پلائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

۳ ۔ کس عمر میں لڑکی اور لڑکے کو بالغ کہا جائےگا ؟

۵۳

اخلاق

اصلاح نفس

اصلاح معاشرہ

۵۴

بائیسواں سبق

سود ، غیبت ، اطاعت والدین اور جھوٹ

سود

ایسا بڑا اور کبیرہ گناہ ہے کہ خدا ایک جگہ فرماتا ہے کہ سودخوار اللہ اور رسولؐ سے لڑنے کے واسطے تیار رہیں۔ کافی میں امام جعفر صادقؐ سے منقول ہے کہ سود کا ایک درہم اس زنا سے جو ،ماں ، بہن وغیرہ سے ستر بار کیا جائے زیادہ بدتر ہے اور جناب امیرؐ فرماتے ہیں کہ سود لینے والا ، دینے والا ، لکھنے والا ، گواہ سب برابر کے گناہگار ہیں۔

سود کے معنی

جو دو چیزیں تولی یا ناپی جاتی ہیں کسی معاملے میں کمی و زیادتی کے ساتھ لینا دینا۔ پس اگر دونوں چیزیں ایک قسم کی نہ ہوں تو سود نہ ہوگا جیسے تولہ بھر سونا ے کر دس بھر چاندی لے تو کوئی مضائقہ نہیں ، یا ناپنے اور تولنے کی چیز نہ ہو تو بھی کمی و زیادتی میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن قرض کوئی چیز بھی کم دے کر زیادہ لینا سود ہے چاہے وہ تولی ناپی جاتی ہو یا نہ تولی ناپی جاتی ہو۔

سود سے بچنے کا طریقہ

سو روپئے دے اور اسکے بجائے نوے روپئے اور مثلا گھڑی یا کوئی اور چیز لے ، اس صورت میں اگرچہ دوسری چیز کی قیمت سو روپئے سے زیادہ ہو جائے مگر قسم بدل جانے کی وجہ سے خرمت ہو جائےگی۔

اس قسم کی صورتوں میں اکثر لوگ مذاق اڑاتے ہیں اور اس کو ایک کھیل اور مکاری سمجھتے ہیں۔ ان کے جواب میں صرف اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جس خدا نے سود کو حرام کہا ہے اسی نے اس کے گناہ سے بچنے کے طریقے بھی بتائے ہیں۔

۵۵

باپ ، بیٹے ، میاں ، بوی مالک ، غلام میں باہم کمی و زیادتی کے ساتھ معاملہ کرنا سود نہیں ہے اور مسلمانوں کا کفار سے زیادہ لینا بھی سود نہیں ہے۔

غیبت

جناب رسول مابؐ ، حضرت ابوذر سے ارشاد فرماتے ہیں۔ اے ابوزر اپنے کو غیبت سے باز رکھو کیوں کہ غیبت زنا سے بدتر ہے۔ ابوذر نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یہ کیوں ؟ آپ نے فرمایا۔ اس لئے کہ جب آدمی زنا کے بعد توبہ کرتا ہے تو خدا اُسے بخش دیتا ہے مگر غیبت میں جس کی غیبت کی ہے جب تک وہ نہ بخشے گناہ معاف نہیں ہوتا۔ ابوذر نے عرض کی یا رسولؐ اللہ غیبت کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ۔ کہ کسی بندہ مومن کا اس طرح تذکرہ کرنا جسے وہ برا مانے ، ابوذر نے عرض کی اگر وہ بات واقعی اس میں پائی جاتی ہو ، آپ نے فرمایا اگر وہ بات اس میں پائی جاتی ہے جب ہی تو غیبت ہے اور اگر نہیں پائی جاتی تو افترا و بہتان ہوگا۔ مومن کا فرض ہے کہ جب اس کے سامنے کسی کی غیبت کی جائے تو اس کو روک دے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہاں سے ہٹ جائے۔

غیبت زبان سے نہیں کی جاتی بلکہ اعضا سے بھی کی جا سکتی ہے مثلا کسی لنگڑے کے چلنے یا کسی کے بات کرنے یا کپڑے پہننے کی نقل کرنا بھی غیبت ہے۔

۵۶

کن مقامات پر غیبت جائز ہے

جائز غیبت

۱ ۔ اگر کسی شخص نے کسی پر ظلم کیا ہو تو مظلوم اس کے ظلم کی داستان کو ایسے شخص کے سامنے جو اس کے ظلم کا دفیعہ کر سکے بیان کر سکتا ہے اور دوسرا سن سکتا ہے۔

۲ ۔ جب کوئی شخص کسی کے بارے میں کسی معاملے نکاح ، قرض وغیرہ کی غرض سے مشورہ کرے تو مشورہ دینے والا اس کے واقع حالات بیان کر سکتا ہے۔

۳ ۔ اہل بدعت کی بدعت کا بیان کرنا مثلا کوئی شخص مجمع یا وعظ میں خلق خدا کو باطل یا جھوٹے مضامین سے فریب دیتا ہو یا دینی ضرر پہونچاتا ہو یا جھوٹا دعویٰ کرتا ہو تو اس کو روک دینا خصوصاً علما پر ضروری ہے۔

۴ ۔ اگر کوئی شخص کسی صفت بیان میں مشہور ہو یا اسی صفت سے پکارا جاتا ہو تو اس کا نام لینا یا صفت بیان کرنا جائز ہے مگر اس حالت میں ایسے الفاظ ادا نہ کرے کہ برا مانے۔

۵ ۔ جب کوئی کسی گناہ کو علانیہ کھلے عام کرتا ہو تو اس شخص کے اس عیب کا بیان کرنا غیبت نہیں ہے۔ بشرطیکہ توہین مقصد نہ ہو۔

۶ ۔ جو شخص اپنا شجرہ غلط بتاتا ہو اس کا صحیح شجرہ بتانا جائز ہے۔

غیبت کا کفارہ یہ ہے کرے کہ جس کی غیبت کی ہو اس سے معاف کرا لے اور اگر وہ مر گیا ہو تو اس کے لئے خدا سے بخشش کی دعا کرے۔

۵۷

اطاعت والدین :

ماں باپ کا احترام ، خدمت گزاری اور اطاعت کا خیال رکھنا دین اسلام کے اعلیٰ فرائض میں سے ہے۔ اس کا راضی رکھنا بہت بڑی عبادت ہے انکی نافرمانی ، ان کو اپنے سے آزردہ رکھنا گناہ کبیرہ ہے۔ خدا وند عالم ایک جگہ فرماتا ہے کہ ان کے جواب میں اگر چہ وہ کہیں ہی سختی کیوں نہ کریں اُف تک نہ کہو۔ ایک حدیث میں ہے کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ ان کو اس کی تکلیف نہ دو کہ ان کو کسی چیز کے مانگنے کی ضرورت پڑے ان کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرو۔ ان کے آگے ہو کر مت چلو۔ تیز نگاہ سے ان کو نہ دیکھو اگر وہ تمہیں ماریں تو تم ان کی بخشش کی دعا کرو۔ ان کے سامنے عاجز اور ذلیل کی طرح بیٹھو۔ اگر ماں باپ کافر ہوں اور تم سے کافر ہو جانے کو کہیں تو ان کا حکم نہ مانو مگر دینا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ پکارنے میں ان کا نام نہ لو۔ کسی جگہ ان سے پہلے نہ بیٹھو۔ ایسا کام نہ کرو جس سے ان پر گالیاں پڑیں۔ اگر وہ مر گئے ہوں تو ان کے لئے نمازیں پڑھو ، روزے رکھو۔ ان کی طرف سے حج کرو۔ ایک شبانہ روز کی خدمت ایک سال کے جہاد سے بہتر ہے۔ مقروض ہوں تو ان کے قرضے کو ادا کرو۔ ان کے مصارف کے متحمل ہو جو ان کی طرف غصے کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس کی نماز قبول نہیں۔ ان کی مدارت کرو۔ ان پر مہربانی کی نظر کرنا عبادت ہے۔

۵۸

سچا واقعہ :

نبی اسرا ئیل میں ایک عابد جریح نامی تھا اور برابر اپنی عبادت گاہ میں عبادت کرتا تھا۔ ایک دن اس کی ماں آئی اور اُس کو پکار ا مگر چو نکہ نمازمیں مشغول تھا جو اب نہ دے سکا ۔ وہ واپس گئی اور پھر دوبارہ آئی اور پھر یہ نماز میں مشغول ہونے کی وجہ سے جواب نہ دے سکا۔ پھر تیسری مرتبہ آئی اور پکارا اُس نے جواب نہ دیا اور نماز پڑھنے لگا۔ اس کی ماں نے غصہ میں کہا کہ میں خدا سے چاہتی ہوں کہ اس گناہ کا اس سے مواخذہ کرے۔ دوسرے دن ایک زناکار عورت اس کے عبادت خانہ کے پاس آ کر بیٹھی اس کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا اور وہ بالاعلان کہنے لگی کہ جریح نے میرے ساتھ بدکاری کی ہے اور یہ بچہ اسی کے نطفہ کا ہے۔ خبر بادشاہ تک پہونچی اور اس نے جریح کے سولی دینے کا حکم دیا۔ جب یہ حال جریح کی ماں کو معلوم تو روتی پیٹتی اس کے سامنے آئی۔ جریح نے کہا ۔ ماں یہ بلا تمہاری بد دعا کی بلائی ہوئی ہے جب لوگوں نے سنا تو اس واقعہ کی تفتیش کی اور جریح نے ساری داستان کہہ سنائی۔ لوگوں نے کہا کہ آخر تمہاری سچائی کا کچھ ثبوت بھی ہے۔ جریح بولا ہاں اس لڑکے کو لے آؤ۔ جب اُس کو لائے تو جریح نے پوچھا تو کس کا لڑکا ہے۔ خدا کے حکم سے وہ بول اٹھا کہ میں فٖلاں شخص کا لڑکا ہوں جو فلاں شخص کی بکریاں چراتا ہے۔ غرض عابد نے سولی سے رہائی پائی اور قسم کھائی کہ جب تک زندہ ہوں ماں کی خدمت کروںگا اور اس سے جدا نہ ہوں گا۔

۵۹

جھوٹ :

جھوٹ گناہ کبیرہ ہے۔ جا بجا قرآن مجید میں اسکی برائی مذکور ہےلَعنَةُ اللهِ عَلٰی الکَذِ بِینَ ہر شخص کی زبان پر ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جھوٹ شراب سے بدتر ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ جھوٹ ایمان کو خراب کرتا ہے۔ حضرت عیسیٰؐ سے منقول ہے کہ جو شخص زیادہ جھوٹ بولتا ہے خدا اس کو نسیان میں مبتلا کرتا ہے تاکہ لوگوں کی نظروں میں ذلیل و رسوا ہو۔ ہنسی مذاق میں بھی جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے۔ ہاں چند مقامات پر جھوٹ بولنا جائز ہے۔

۱ ۔ جب سچ بولنے میں کسی مومن کو نقصان ہوتا ہو یا ناحق قتل ہو جانے کا خوف ہو اور جھوٹ بولنے سے نجات ہو جائے تو جھوٹ بولنا جائز ہے بلکہ واجب ہے مگر بہتر یہ ہے کہ ایسے الفاظ میں مطلب ادا کرے کہ کام بھی نکلے اور خلاف واقعہ بھی نہ ہو۔ مثلا جب کسی کا مال تمہارے پاس امانت ہو اور کوئی حاکم جابر لینا چاہتا ہو اور تم سے دریافت کیا جائے تو یوں کہو کہ میرے ہاتھوں میں نہیں ہے یا میرے پاس نہیں ہے تم اس خیال سے کہو کہ ہاتھ یا جیب میں نہیں ہے اور وہ یہ سمجھے کہ تمہارے قبضہ میں نہیں ہے۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

نہ نوازا ہوتا تو وہ کبھی بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی تھی اور اسکے مطابق فیصلہ ممکن نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم عقل کے مطابق ہی جزا یا سزا دیگا۔

۲۔اطاعت خدا

جب فہم وادراک اورنظری معرفت کے میدان میں عقل کی اس قدر اہمیت ہے۔۔۔تو اسی نظری معرفت کے نتیجہ میں عملی معرفت پیدا ہوتی ہے جسکی بنا پر انسان کیلئے کچھ واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز واجب ہوجاتا ہے ۔

چنانچہ جس نظری معرفت کے نتیجہ میںعملی معرفت پیدا ہوتی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کے مقام ربوبیت والوہیت کو پہچان لے اور اس طرح اسکی عبودیت اور بندگی کے مقام کی معرفت بھی پیدا کرلے اورجب انسان یہ معرفت حاصل کرلیتاہے تو اس پر خداوند عالم کے احکام کی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہوجاتی ہے۔

یہ معرفت ،عقل کے خصوصیات میں سے ایک ہے اور یہی وہ معرفت ہے جو انسان کو خدا کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے پرہیز (واجبات و محرمات )کا ذمہ دار اور انکی ادائیگی یا مخالفت کی صورت میں جزاوسزا کا مستحق قرار دیتی ہے اور اگر معرفت نظری کے بعد یہ معرفت عملی نہ پائی جائے تو پھر انسان کے اوپر اوامر اور نواہی الٰہیہ نافذ(لاگو)نہیں ہوسکتے یعنی نہ اسکے اوپر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ ہی اسکو جزااور سزا کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔

اسی بیان کی طرف مندرجہ ذیل روایات میں اشارہ موجود ہے:

۸۱

امام محمد باقر نے فرمایا ہے:

(لماخلق ﷲ العقل استنطقه ثم قال له أقبل فأقبل،ثم قال له أدبرفأدبر،ثم قال له:وعزّتی وجلا لی ماخلقت خلقاً هوأحب لیّ منک،ولااکملک الافیمن احبأمانی یّاک آمرو یّاکأنهیٰ ویّاک اُعاقب ویّاک أثیب )( ۱ )

''یعنی جب پروردگار عالم نے عقل کو خلق فرمایا تو اسے گویا ہونے کاحکم دیا پھر اس سے فرمایا سامنے آ،تو وہ سامنے آگئی اسکے بعد فرمایا پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی تو پروردگار نے اس سے فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ اپنی محبوب کوئی اور مخلوق پیدا نہیں کی ہے اور میں تجھے اسکے اندر کامل کرونگا جس سے مجھے محبت ہوگی۔یاد رکھ کہ میں صرف اور صرف تیرے ہی مطابق کوئی حکم دونگا اور تیرے ہی مطابق کسی چیز سے منع کرونگا اور صرف تیرے مطابق عذا ب کرونگا اور تیرے ہی اعتبار سے ثواب دونگا''

امام جعفر صادق نے فرمایا:

(لماخلق ﷲ عزوجل العقل قال له ادبرفادبر،ثم قال اقبل فاقبل،فقال وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً احسن منک،یّاک آمرویّاک انهی،یّاک اُثیب ویّاکاُعاقب )( ۲ )

''جب ﷲ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی اسکے بعد فرمایا سامنے آ ،تو وہ آگئی تو ارشاد فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم : میں نے تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے لہٰذا صرف اور صرف تیرے ہی مطابق امرونہی کرونگا اور صرف اورصرف تیرے ہی مطابق ثواب یا عذاب دونگا''

بعینہ یہی مضمون دوسری روایات میں بھی موجود ہے ۔( ۳ )

ان روایات میں اس بات کی طرف کنایہ واشارہ پایا جاتا ہے کہ عقل، خداوند عالم کی مطیع

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ص۱۰۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۹۶۔

(۳)بحارالانوار ج۱ ص ۹۷ ۔

۸۲

وفرمانبردار مخلوق ہے کہ جب اسے حکم دیا گیا کہ سامنے آ، تو سامنے آگئی اور جب کہا گیا کہ واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ۔

روایات میں اس طرح کے اشارے اورکنائے ایک عام بات ہے۔

علم وعمل کے درمیان رابطہ کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد ہے:

(العاقل اذا علم عمل،واذا عمل اخلص )( ۱ )

'' عاقل جب کوئی چیز جان لیتا ہے تو اس پر عمل کرتا ہے اور جب عمل کرتا ہے تو اسکی نیت خالص رہتی ہے''

ﷲ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری میں عقل کیا کردار ادا کرتی ہے اسکے بارے میں اسلامی کتابو ں میں روایات موجود ہیں جنمیں سے ہم نمونے کے طورپر صرف چند روایات ذکر کر رہے ہیں۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(العاقل من أطاع ﷲ )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو خدا کا فرمانبردار ہو''

روایت ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟

قال :(العمل بطاعة الله،ان العمال بطاعة الله هم العقلاء )

''فرمایا :حکم خدا کے مطابق عمل کرنا، بیشک اطاعت خدا کے مطابق چلنے والے ہی صاحبان عقل ہیں''( ۳ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۱۰۱۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۱۶۰۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۱۔

۸۳

امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا :

''جس سے خداوند عالم (رحمن)کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے''راوی کہتا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ پھر معاویہ کے اندر کیا تھا؟فرمایا:وہ چال بازی اور شیطنت تھی''( ۱ )

حضرت علی :(اعقلکم اطوعکم )( ۲ )

''سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو سب سے زیادہ اطاعت گذار ہو''

امام جعفر صادق :

(العاقل من کان ذلولاً عند اجابة الحق )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو دعوت حق کو لبیک کہتے وقت اپنے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھے''

۳۔خواہشات کے مقابلہ کے لئے صبروتحمل(خواہشات کا دفاع)

یہ وہ تیسری فضیلت ہے جس سے خداوند عالم نے انسانی عقل کو نوازا ہے ۔اور یہ عقل کی ایک بنیادی اور دشوار گذار نیزاہم ذمہ داری ہے جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اسکی یہ ذمہ داری اطاعت الٰہی کا ہی ایک دوسرا رخ تصور کی جاتی ہے بلکہ در حقیقت(واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز)ہی اطاعت خدا کے مصداق ہیں اور ان کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں واجبات پر عمل کرکے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں اسکی حرام کردہ چیزوں سے پر ہیز کرکے خواہشات سے اپنے نفس کو روک کر اوران پر صبرکر کے اسکی فرمانبرداری کیجاتی ہے اس بنا پر عقل کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ خواہشات نفس کواپنے قابو میں رکھے اورانھیں اس طرح اپنے ماتحت رکھے کہ وہ کبھی اپنا سر نہ اٹھا سکیں۔

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۷۹۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۰۔

۸۴

خواہشات نفس کوکنڑول کرنے کے بارے میں عقل کی اس ڈیوٹی کے سلسلہ میں بیحد تاکید کی گئی ہے۔نمونہ کے طور پر حضرت علی کے مندرجہ ذیل اقوال حاضر خدمت ہیں:

٭(العقل حسام قاطع )( ۱ )

''عقل (خواہشات کو)کاٹ دینے والی تیز شمشیر ہے''

٭ (قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهیٰ )( ۳ )

''نفس کے اندر ہویٰ وہوس کی بنا پر مختلف حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور عقل ان سے منع کرتی ہے''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجرمنها )( ۴ )

''دلوں پر برے خیالات کا گذر ہوتا ہے تو عقل ان سے روکتی ہے''

٭ (العاقل من غلب هواه،ولم یبع آخرته بدنیاه )( ۵ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی خواہش کا مالک ہو اور اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے عوض فروخت نہ کرے''

٭ (العاقل من هجرشهوته،وباع دنیاه بآخرته )( ۶ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت سے بالکل دور ہوجائے اور اپنی دنیا کو اپنی آخرت کے عوض

____________________

(۱)نہج البلاغہ ۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)تحف العقول ص۹۶۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ ص ۰۴ ۱ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۸۶۔

۸۵

فروخت کرڈالے''

٭ (العاقل عدولذ ته والجاهل عبد شهوته )( ۱ )

''عاقل اپنی لذتوں کا دشمن ہوتا ہے اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے''

٭ (العاقل من عصیٰ هواه فی طاعة ربه )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کے لئے اپنی خواہش نفس (ہوس)کی مخالفت کرے''

٭ (العاقل من غلب نوازع أهویته )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو اپنے خواہشات کی لغزشوں پر غلبہ رکھے''

٭ (العاقل من أمات شهوته،والقوی من قمع لذته )( ۴ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت کو مردہ بنادے اور قوی وہ ہے جو اپنی لذتوں کا قلع قمع کردے''

لہٰذا عقل کے تین مرحلے ہیں:

۱۔معرفت خدا

۲۔واجبات میں اسکی اطاعت

۳۔جن خواہشات نفس اور محرمات سے ﷲ تعالی نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرنا۔

اس باب (بحث)میں ہماری منظور نظر عقل کا یہی تیسراکردارہے یعنی اس میں ہم خواہشات کے مقابلہ کا طریقہ ان پر قابو حاصل کرنے نیز انھیں کنٹرول کرنے کے طریقے بیان کرینگے ۔لہٰذا اب آپ نفس کے اندر عقل اور خواہشات کے درمیان موجود خلفشار اور کشمکش کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۸۷۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۰۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

۸۶

عقل اور خواہشات کی کشمکش اور انسان کی آخری منزل کی نشاندہی

عقل اور خواہشات کے درمیان جو جنگ بھڑکتی ہے اس سے انسان کے آخری انجام کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ وہ سعادت مند ہونے والا ہے یا بد بخت ؟

یعنی نفس کی اندرونی جنگ دنیاکے تمام لوگوں کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کردیتی ہے :

۱۔متقی

۲۔فاسق وفاجر

اس طرح بشری عادات و کردار کی بھی دوقسمیں ہیں:

۱۔تقویٰ وپرہیزگاری(نیک کردار)

۲۔فسق وفجور ( بد کردار)

تقویٰ یعنی خواہشات کے اوپر عقل کی حکومت اورفسق وفجور اور بد کرداری یعنی عقل کے اوپر خواہشات کا اندھا راج ،لہٰذا اسی دوراہے سے ہر انسان کی سعادت یا بدبختی کے راستے شمال و جنوب کے راستوں کی طرح ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیںاور اصحاب یمین (نیک افراد) اور اصحاب شمال (یعنی برے لوگوں)کے درمیان یہ جدائی بالکل حقیقی اور جوہری جدائی ہے جس میں کسی طرح کا اتصال ممکن نہیں ہے۔اور یہ جدائی اسی دو راہے سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنی خواہشات پر اپنی عقل کو حاکم رکھتے ہیں لہٰذا وہ متقی،صالح اور نیک کردار بن جاتے ہیں اور کچھ اپنی عقل کی باگ ڈوراپنی خواہشات کے حوالہ کردیتے ہیں لہٰذا وہ فاسق وفاجر بن جاتے ہیں اس طرح اہل دنیا دوحصوں میں بٹے ہوئے ہیں کچھ کا راستہ خدا تک پہنچتا ہے اور کچھ جہنم کی آگ کی تہوں میں پہونچ جاتے ہیں۔

۸۷

امیر المومنین نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

(من غلب عقله هواه افلح،ومن غلب هواه عقله افتضح )( ۱ )

''جس کی عقل اسکی خواہشات پر غالب ہے وہ کامیاب وکامران ہے اور جسکی عقل کے اوپر اسکے خواہشات غلبہ پیدا کرلیں وہ رسواو ذلیل ہوگیا''

آپ نے ہی یہ ارشاد فرمایا ہے:

(العقل صاحب جیش الرحمٰن،والهویٰ قائد جیش الشیطان والنفس متجاذبة بینهما،فأیهمایغلب کانت فی حیّزه )( ۲ )

''عقل لشکر رحمن کی سپہ سالارہے اور خواہشات شیطان کے لشکر کی سردار ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش اور کھنچائو کا شکاررہتا ہے چنانچہ ان میں جو غالب آجاتا ہے نفس اسکے ماتحت رہتا ہے''

اس طرح نفس کے اندر یہ جنگ جاری رہتی ہے اور نفس ان دونوں کے درمیان معلق رہتا ہے جب انمیں سے کوئی ایک اس جنگ کو جیت لیتا ہے تو انسان کا نفس بھی اسکی حکومت کے ماتحت چلاجاتا ہے اب چاہے عقل کامیاب ہوجائے یا خواہشات۔

حضرت علی :

(العقل والشهوة ضدان، مؤید العقل العلم،مزین الشهوة الهویٰ،والنفس متنازعة بینهما،فأیهما قهرکانت فی جانبه )( ۳ )

''عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں عقل کا مددگار علم ہے اور شہوت کو زینت بخشنے والی چیز

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۸۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۱۳۔

(۳)گذشتہ حوالہ ۔

۸۸

ہوس اور خواہشات ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان متذبذب رہتا ہے چنانچہ انمیں سے جوغالبآجاتا ہے نفس بھی اسی کی طرف ہوجاتا ہے''

یعنی نفس کے بارے میں عقل اور خواہشات کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے ۔چنانچہ انمیں سے جوغالب آجاتا ہے انسان کا نفس بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے۔

ضعف عقل اورقوت ہوس

شہوت(خواہشات)اور عقل کی وہ بنیادی لڑائی جسکے بعد انسان کی آخری منزل (سعادت وشقاوت) معین ہوتی ہے اس میں خواہشات کا پلڑاعقل کے مقابلہ میں کافی بھاری رہتا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ عقل فہم وادراک کا ایک آلہ ہے جبکہ خواہشات جسم کے اندر انسان کو متحرک بنانے والی ایک مضبوط طاقت ہے۔

اور یہ طے شدہ بات ہے کہ عقل ہرقدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسکو نفس کی قوت محرکہ نہیں کہاجاتا ہے۔

جبکہ خواہشات کے اندر انسان کو کسی کام پر اکسانے بلکہ بھڑکانے کے لئے اعلیٰ درجہ کی قدرت وطاقت وافرمقدار میں پائی جاتی ہے۔

حضرت علی نے فرمایا:

(کم من عقل اسیرعند هویٰ امیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں خواہشات کے آمرانہ پنجوںمیں گرفتار ہیں''

خواہشات انسان کو لالچ اور دھوکہ کے ذریعہ پستیوں کی طرف لیجاتی ہیں اور انسان بھی ان کے ساتھ پھسلتا چلا جاتا ہے ۔جبکہ عقل انسان کو ان چیزوںکی طرف دعوت دیتی ہے جن سے اسے نفرت ہے اور وہ انھیں پسند نہیں کرتا ہے۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۱۱

۸۹

امیر المومنین فرماتے ہیں:

(اکره نفسک علی الفضائل،فان الرذائل انت مطبوع علیها )( ۱ )

''نیک کام کرنے کے لئے اپنے نفس کے اوپر زور ڈالو،کیونکہ برائیوں کی طرف تو تم خود بخودجاتے ہو''

کیونکہ خواہشات کے مطابق چلتے وقت راستہ بالکل مزاج کے مطابق گویاڈھلان دار ہوتا ہے لہٰذاوہ اسکے اوپر بآسانی پستی کی طرف اتر تا چلاجاتا ہے لیکن کمالات اور اچھائیوں میں کیونکہ انسان کا رخ بلند یو ںکی طرف ہوتا ہے لہٰذا اس صورت میںہر ایک کو زحمت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل اور شہوت کے درمیان جو بھی جنگ چھڑتی ہے اس میں شہوتیں اپنے تمام لائو لشکر اور بھر پور قدرت وطاقت اور اثرات کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اوراسکے سامنے عقل کمزور پڑجاتی ہے۔

اور اکثر اوقات جب عقل اور خواہشات کے درمیان مقابلہ کی نوبت آتی ہے تو عقل کو ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں کیونکہ وہ اسکے اوپر اس طرح حاوی ہوجاتی ہیں کہ اسکو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اسکا پورا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیکر اسے بالکل لاچار بنادیتی ہیں۔

____________________

(۱)مستدرک وسائل الشیعہ ج ۲ ص۳۱۰۔

۹۰

عقل کے لشکر

پروردگار عالم نے انسان کے اندر ایک مجموعہ کے تحت کچھ ایسی قوتیں ، اسباب اور ذرائع جمع کردئے ہیں جو مشکل مرحلوں میں عقل کی امداد اور پشت پناہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور نفس کے اندر یہ خیروبرکت کا مجموعہ انسان کی فطرت ،ضمیر اورنیک جذبات (عواطف)کے عین مطابق ہے اور اس مجموعہ میں خواہشات کے مقابلہ میں انسان کو تحریک کرنے کی تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں

اور یہ خواہشات اور ہوس کو روکنے اور ان پر قابو پانے اور خاص طور سے ہوی وہوس کو کچلنے کے لئے عقل کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔

کیونکہ(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیںکہ) عقل تو فہم وادراک اور علم ومعرفت کا ایک آلہ ہے۔ جو انسان کو چیزوں کی صحیح تشخیص اور افہام وتفہیم کی قوت عطا کرتا ہے اور تنہااسکے اندر خواہشات کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔لہٰذا ایسے مواقع پر عقل خواہشات کو کنٹرول کرنے اور ان پر قابو پانے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کا سہارا لیتی ہے جوخداوند عالم نے انسان کے نفس کے اندر ودیعت کئے ہیںاور اس طرح عقل کیلئے خواہشات کا مقابلہ اورانکا دفاع کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے لہٰذاان اسباب کے پورے مجموعہ کو اسلامی اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کی زبان میں عقل کے لشکروں کا نام دیا گیا ہے۔جو ہر اعتبار سے ایک اسم بامسمّیٰ ہے۔

نمونہ کے طور پر اسکی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

کبھی کبھی انسان مال و دولت کی محبت کے جذبہ کے دبائو میں آکر غلط اور نا جا ئز راستوں سے دولت اکٹھا کرنے لگتا ہے ۔کیونکہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی حد تک مال و دولت کی محبت پائی جاتی ہے مگر بسا اوقات وہ اس میں افراط سے کام لیتا ہے ۔ایسے مواقع پر انسانی عقل ہر نفس کے اندر موجود ''عزت نفس ''کے ذخیرہ سے امداد حا صل کرتی ہے چنا نچہ جہاں تو ہین اور ذلت کا اندیشہ ہو تا ہے عزت نفس اسے وہاں سے دولت حاصل کرنے سے روک دیتی ہے اگر چہ اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جس جگہ بھی تو ہین اور ذلت کا خطرہ ہو تا ہے عقل اسکو اس سے اچھی طرح آگاہ کر دیتی ہے لیکن پھر بھی ایسے مو اقع پر مال و دو لت سمیٹنے سے روکنے کے لئے عقل کی رہنما ئی تنہا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عزت نفس کا تعا ون درکارہوتاہے جسکو حاصل کرکے وہ حب مال کی ہوس اور جذبہ کا مقابلہ کرتی ہے ۔

۹۱

۲۔جنسی خو ا ہشات انسان کے اندر سب سے زیادہ قوی خو ا ہشات ہو تی ہیں اوران کے دبائو کے بعد انسان اپنی جنسی جذبات کی تسلی کے لئے طرح طرح کے غلط اور حرام راستوں پردوڑتا چلا جاتا ہے اور اس میں بھی کو ئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ایسے اکثر حالات میں عقل جنسی بے راہ روی کے غلط مقامات کا بخوبی مقابلہ نہیں کر پاتی اور اسے صحیح الفطرت انسان کے نفس کے اندر مو جود ایک اور فطری طاقت یعنی عفت نفس (پاک دامنی )کی مدد حا صل کرنا پڑتی ہے ۔چنانچہ جب انسان کے سامنے اس کی عفت اور پاکدا منی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس بری حرکت سے رک جاتا ہے ۔

۳۔کبھی کبھی انسان کے اندرسربلندی ،انانیت اور غرور وتکبر کا اتنا مادہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو بالکل ذلیل اور پست سمجھنے لگتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جس کو عقل ہر اعتبار سے برا سمجھتی ہے اسکے باوجود جب تک عقل، نفس کے اندر خداوند عالم کی ودیعت کردہ قوت تواضع سے امداد حاصل نہ کرے وہ اس غرور و تکبر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

۴۔کبھی کبھی انسان اپنے نفس کے اندر موجود ایک طاقت یعنی غیظ وغضب اور غصہ کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجہ میں وہ دوسروں کی توہین اور بے عزتی کرنے لگتا ہے۔چنانچہ یہ کام عقل کی نگاہ با بصیرت میں کتنا ہی قبیح اور براکیوں نہ ہواسکے باوجود عقل صرف اورصرف اپنے بل بوتے پر انسان کے ہوش وحواس چھین لینے والی اس طاقت کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے لہٰذا ایسے مواقع پر عقل، عام طور سے انسان کے اندر موجود ،رحم وکرم کی فطری قوت وطاقت کو سہارا بناتی ہے۔کیونکہ اس صفت (رحم وکرم)میں غصہ کے برابر یا بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی قوت اور صلاحیت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان غصہ کی بنا پر کوئی جرم کرنا چاہتا ہے تو رحم وکرم کی مضبوط زنجیر یں اسکے ہاتھوں کو جکڑلیتی ہیں۔

۵۔اسی طرح انسان اپنی کسی اور خواہش کے اشارہ پر چلتا ہواخداوند عالم کی معصیت اور گناہ کے راستوں پر چلنے لگتا ہے تب عقل اسکو''خوف الٰہی''کے سہارے اس گناہ سے بچالیتی ہے۔

اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں سے مذکورہ مثالیں ہم نے صرف وضاحت کے لئے بطور نمونہ پیش کردی ہیں ان کے علاوہ کسی وضاحت کے بغیر کچھ اورمثالیں ملاحظہ فرمالیں۔

جیسے نمک حرامی کے مقابلہ میں شکر نعمت، بغض و حسد کے مقابلہ کے لئے پیار ومحبت اورمایوسی کے مقابلہ میں رجاء وامید کی مدد حاصل کرتی ہے۔

۹۲

لشکر عقل سے متعلق روایات

معصومین کی احادیث میں نفس کے اندر موجود پچھتّر صفات کو عقل کا لشکر کہا گیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ یہ ان دوسری پچھتّر صفات کا مقابلہ کرتی ہیں جنہیں خواہشات اور ہوس یاحدیث کے مطابق جہل کا لشکر کہا جاتا ہے ۔

چنانچہ نفس کے اندر یہ دونوں متضاد صفتیں درحقیقت نفس کے دو اندرونی جنگی محاذوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں جن میں ایک محاذ پر عقل کی فوجوںاور دوسری جانب جہل یا خواہشات کے لشکروں کے درمیان مسلسل جنگ کے شعلے بھرکتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی (رح)نے اپنی کتاب بحارالانوار کی پہلی جلدمیں اس سے متعلق امام جعفرصادق اور امام موسی کاظم سے بعض روایات نقل کی ہیںجن کو ہم ان کی سند کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تاکہ آئندہ ان کی وضاحت میں آسانی رہے۔

پہلی روایت

سعد اور حمیری دونوں نے برقی سے انھوں نے علی بن حدید سے انھوں نے سماعہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :میں امام جعفر صادق کی خدمت موجود تھا اور اس وقت آپ کی خدمت میں کچھ آپ کے چاہنے والے بھی حاضر تھے عقل اور جہل کا تذکرہ درمیان میں آگیا تو امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایاکہ: عقل اور اسکے لشکر کواور جہل اور اسکے لشکر کو پہچان لو تو ہدایت پاجائوگے۔ سماعہ کہتے ہیں کہ:میںنے عرض کی میں آپ پر قربان، جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں تو امام جعفر صادق نے فرمایا کہ خداوند عالم نے اپنی روحانی مخلوقات میں اپنے نور کے عرش کے دائیں حصہ سے جس مخلوق کو سب سے پہلے پیدا کیا ہے وہ عقل ہے۔پھر اس سے فرمایا سامنے آ:تو وہ سامنے حاضر ہوگئی پھر ارشاد فرمایا:واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ،تو ارشاد الٰہی ہوا، میں نے تجھے عظیم خلقت سے نوازا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر شرف بخشا ہے پھر آپ نے فرمایا:کہ پھر خداوند عالم نے جہل کو ظلمتوں کے کھار ی سمندرسے پیدا کیا اور اس سے فرمایا کہ پلٹ جا تو وہ پلٹ گیا پھر فرمایا : سامنے آ:تو اس نے اطاعت نہیں کی تو خداوند عالم نے اس سے فرمایا : تو نے غرور وتکبر سے کام لیا ہے؟پھر(خدانے) اس پر لعنت فرمائی ۔

۹۳

اسکے بعد عقل کے پچھتّر لشکر قرار دئے جب جہل نے عقل کے لئے یہ عزت و تکریم اور عطا دیکھی تو اسکے اندر عقل کی دشمنی پیدا ہوگئی تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار، یہ بھی میری طرح ایک مخلوق ہے جسے تو نے پیدا کرکے عزت اور طاقت سے نوازا ہے۔اور میں اسکی ضد ہوں جبکہ میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے لہٰذا جیسی فوج تو نے اسے دی ہے مجھے بھی ایسی ہی زبردست فوج عنایت فرما۔تو ارشاد الٰہی ہوا :بالکل ( عطاکرونگا)لیکن اگر اسکے بعد تونے میری نا فرمانی کی تومیں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت سے باہر نکال دونگا اس نے کہا مجھے منظور ہے تو خداوند عالم نے اسے بھی پچھتّر لشکر عنایت فرما ئے ۔چنانچہ عقل اورجہل کو جو الگ الگ پچھتّر لشکر عنایت کئے گئے انکی تفصیل یہ ہے:

خیر، عقل کا وزیرہے اور اسکی ضد شر کو قرار دیا جو جہل کا وزیر ہے ۔

ایمان کی ضد کفر

تصدیق کی ضد انکار

رجاء (امید)کی ضد مایوسی

عدل کی ضد ظلم وجور

رضا(خشنودی )کی ضد ناراضگی

شکرکی ضد کفران(ناشکری)

لالچ کی ضد یاس

توکل کی ضدحرص

رافت کی ضدغلظت؟

رحمت کی ضد غضب

علم کی ضد جہل

فہم کی ضد حماقت

عفت کی ضد بے غیرتی

زہد کی ضد رغبت(دلچسپی)

قرابت کی ضدجدائی

خوف کی ضد جرائت

۹۴

تواضع کی ضد تکبر

محبت کی ضدتسرع (جلد بازی)؟

علم کی ضد سفاہت

خاموشی کی ضد بکواس

سر سپردگی کی ضد استکبار

تسلیم(کسی کے سامنے تسلیم ہونا)کی ضدسرکشی

عفوکی ضد کینہ

نرمی کی ضد سختی

یقین کی ضد شک

صبر کی ضدجزع فزع (بے صبری کا اظہار کرنا)

خطا پر چشم پوشی (صفح)کی ضد انتقام

غنیٰ کی ضد فقر

تفکر کی ضد سہو

حافظہ کی ضد نسیان

عطوفت کی ضد قطع(تعلق)

قناعت کی ضد حرص

مواسات کی ضد محروم کرنا (کسی کا حق روکنا)

مودت کی ضد عداوت

وفا کی ضد غداری

اطاعت کی ضد معصیت

خضوع کی ضد اظہارسر بلندی

سلامتی کا ضد بلائ

حب کی ضد بغض

۹۵

صدق کی ضد کذب

حق کی ضد باطل

امانت کی ضد خیانت

اخلاص کی ضد ملاوٹ

ذکاوت کی ضد کند ذہنی

فہم کی ضد ناسمجھی

معرفت کی ضد انکار

مدارات کی ضد رسوا کرنا

سلامت کی ضد غیب

کتمان کی ضد افشا(ظاہر کر دینا)

نماز کی ضد اسے ضائع کرنا

روزہ کی ضد افطار

جہاد کی ضد بزدلی(دشمن سے پیچھے ہٹ جانا)

حج کی ضد عہد شکنی

راز داری کی ضدفاش کرنا

والدین کے ساتھ نیکی کی ضد عاق والدین

حقیقت کی ضد ریا

معروف کی ضد منکر

ستر(پوشش)کی ضد برہنگی

تقیہ کی ضد ظاہر کرنا

انصاف کی ضدحمیت

ہوشیاری کی ضد بغاوت

صفائی کی ضدگندگی

۹۶

حیاء کی ضد بے حیائی

قصد (استقامت )کی ضد عدوان

راحت کی ضدتعب(تھکن)

آسانی کی ضد مشکل

برکت کی ضدبے برکتی

عافیت کی ضد بلا

اعتدال کی ضد کثرت طلبی

حکمت کی ضد خواہش نفس

وقار کی ضد ہلکا پن

سعادت کی ضد شقاوت

توبہ کی ضد اصرار (برگناہ)

استغفار کی ضداغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)

احساس ذمہ داری کی ضد لاپرواہی

دعا کی ضدیعنی غرور وتکبر کا اظہار

نشاط کی ضد سستی

فرح(خوشی)کی ضد حزن

الفت کی ضد فرقت(جدائی)

سخاوت کی ضد بخل

پس عقل کے لشکروں کی یہ ساری صفتیں صرف نبی یا نبی کے وصی یا اسی بندئہ مومن میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو!البتہ ہمارے بقیہ چاہنے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسمیںان لشکروں کی بعض صفتیںنہ پائی جائیں یہاں تک کہ جب وہ انہیں اپنے اندر کامل کرلے اور جہل کے لشکر سے چھٹکارا پا لے تو وہ بھی انبیاء اوراوصیاء کے اعلیٰ درجہ میں پہونچ جائے گا ۔بلا شبہ کامیابی عقل اور اسکے لشکر کی معرفت اور جہل نیز اس کے لشکر سے دوری کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔

۹۷

خداوند عالم ہمیں اور خصوصیت سے تم لوگوں کو اپنی اطاعت اور رضا کی توفیق عطا فرمائے ۔( ۱ )

دوسری روایت

ہشام بن حکم نے یہ روایت امام موسیٰ کاظم سے نقل کی ہے اور شیخ کلینی (رہ)نے اسے اصول کافی میں تحریر کیا ہے اور اسی سے علامہ مجلسی (رہ)نے اپنی کتاب بحارالانوار میں نقل کیاہے۔( ۲ )

یہ روایت چونکہ کچھ طویل ہے لہٰذا ہم صرف بقدر ضرورت اسکااقتباس پیش کر رہے ہیں:

امام موسی کاظم نے فرمایا :اے ہشام عقل اور اسکے لشکروں کو اور جہل اور اسکے لشکروں کو پہچان لو اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجائو:ہشام نے عرض کی ہمیں تو صرف وہی معلوم ہے جوآپ نے سکھادیا ہے تو آپ نے فرمایا :اے ہشام بیشک خداوند عالم نے عقل کو پیدا کیا ہے اور ﷲ کی سب سے پہلی مخلوق ہے۔۔۔پھر عقل کے لئے پچھتّر لشکر قرار دئے چنانچہ عقل کو جو پچھتّر لشکر دئے گئے وہ یہ ہیں:

خیر ،عقل کا وزیر اور شر، جہل کا وزیر ہے

ایمان، کفر

تصدیق، تکذیب

اخلاص ،نفاق

رجا ئ،ناامیدی

عدل،جور

خوشی ،ناراضگی

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱ ص۱۰۹۔۱۱۱ کتاب العقل والجہل۔

(۲)اصول کافی جلد۱ص۱۳۔۲۳،بحارالانوار جلد۱ص۱۵۹۔

۹۸

شکر، کفران(ناشکری)

طمع رحمت ،رحمت سے مایوسی

توکل،حرص

نرم دلی،قساوت قلب

علم، جہل

عفت ،بے حیائی

زہد،دنیا پرستی

خوش اخلاقی،بد اخلاقی

خوف ،جرائت

تواضع ،کبر

صبر،جلدبازی

ہوشیاری ،بے وقوفی

خاموشی،حذر

سرسپردگی، استکبار

تسلیم،اظہار سربلندی

عفو، کینہ

رحمت، سختی

یقین ،شک

صبر،بے صبری (جزع)

عفو،انتقام

استغنا(مالداری) ، فقر

تفکر،سہو

حفظ،نسیان

۹۹