امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم جلد ۵

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم60%

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 99

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 99 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71691 / ڈاؤنلوڈ: 2749
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

قبر کی اونچائی

قبر کو زمین سے چار انگلی بلند اس طرح بنانا جس کی لمبائی چوڑائی سے زیادہ ہو اس پر اس طرح پانی چھڑکنا کہ پانی ڈالنے والا قبلہ رُخ ہو کر سرہانے سے گراتا ہوا پائینتی کی طرف سے لا کر دوسری جانب سے پورا کرے اور جو پانی بچا رہے اس کو بیچ قبر پر ڈال دے۔ دفن کرنے کے بعد پھر تلقین پڑھنا چاہئے۔

سوالات :

۱ ۔ مرنے والے کو کس طرح لٹایا جانا چاہئے ؟

۲ ۔ غسل مس میت کب واجب ہوتا ہے ؟

۳ ۔ کس کے مردے کو غسل دینا واجب ہے ؟

۴ ۔ غسل میت کی ترکیب بتاؤ ؟

۵ ۔ حنوط کا طریقہ بتاؤ ؟

۶ ۔ نماز میت کی ترکیب بتاؤ ؟

۸ ۔ قبر کی اونچائی کتنی ہونی چاہئے ؟

۹ ۔ عورت اور مرد کی میت کو قبر میں کس طرح اتارا جائے اور لٹایا جائے ؟

۱۰ ۔ کفن کس طرح پہنایا جائےگا ؟

۴۱

سترہواں سبق

روزہ

خدا وند عالم کے حکم کی تعمیل کی نیت سے صبح کی اذان کے وقت سے مغرب کے وقت تک ان چیزوں سے باز رہنے کا نام روزہ ہے جن کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

نو چیزوں سے روزہ باطل ہو جاتا ہے

۱ ۔ کھانا پینا ۔ ۲ ۔ جماع ۳ ۔ منی نکلنا یا کوئی ایسا کام کرنا جس سے منی نکل آئے۔

۴ ۔ خدا و نبیؐ اور ان کے جانشین پر بہتان باندھنا ۔ ۵ ۔ غلیظ یعنی گہرے غبار یا دھوئیں یا بھاپ کو حلق میں داخل کرنا۔ ۶ ۔ پانی میں سر ڈبونا ۔ ۷ ۔ نماز صبح کے وقت تک جنابت ، حیض یا نفاس کی حالت پر غسل یا تیمم کئے بغیر باقی رہنا۔ ۸ ۔ سیال چیزوں سے انیما لینا۔ ۹ ۔ عمداً قے کرنا۔

دن بھر روزہ کی نیت کا باقی رہنا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص روزہ توڑنے کا ارادہ کرے مگر کسی وجہ سے نہ توڑے تب بھی نیت ٹوٹ جانے کی وجہ سے روزہ باقی نہ رہےگا۔ اس کی قضا واجب ہوگی اور اگر اس کے بعد بھی روزہ تور ڈالا تو کفارہ بھی واجب ہوگا۔ جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اگر بھول کر یا کسی کے جبر سے وہ چیزیں انجام پا جائیں تو روزہ نہیں ٹوٹتا البتہ ان کا موں کے عمداً کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ نماز صبح کا وقت آ جانے کے بعد احتلام ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹنا۔

۴۲

کفارہ کی تفصیل

جس شخص پر رمضان کے روزہ کا کفارہ واجب ہو وہ ایک غلام آزاد کرے یا دو مہینے کے روزے رکھے جس میں ۲۱ روز ے مسلسل رکھے یا ۶۰ اثنا عشری فقیروں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائیں یا ان میں سے ہر ایک کو تقریباً سات سو دس گرام گیہوں ، جو یا اس کے مانند کوئی دوسرا غلہ دے۔ جو شخص مذکورہ بالا کفاروں میں سے کسی کفارہ کے ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو جتنے روزے رکھ سکے رکھے اور جتنا غلہ دے سکے دے اور استغفار بھی کرے لیکن اس کے بعد جب کبھی کفارہ دینے کے قابل ہو جائے تو بنا پر احتیاط کفارہ دینا واجب ہوگا۔

جو شخص روزے کو عمداً حرام چیز سے توڑ دے مثلا شراب پی لے اس پر تینوں کفارے ایک ساتھ واجب ہوںگے۔ ایسا شخص اگر تینوں کفارے نہ دے سکتا ہو تو جو ممکن ہو اتنا کفارہ دے۔ اگر رمضان کے روزے میں ایک سے زیادہ بار بیوی سے جماع کرے یا خودکاری کرے تو ہر جماع یا خود کاری پر ایک کفارہ واجب ہوگا ہر بار حرام طریقہ سے جماع کریگا تو ہر حرام جماع پر تینوں کفارے ایک ساتھ واجب ہوںگے۔ ان کے علاوہ روزہ کو باطل کرنے والا کام اگر ایک ہی روزے میں بار بار کیا جائے تو صرف ایک ہی کفارہ واجب ہوگا۔ اگر جماع بھی کرے اور دوسرا کام بھی کرے جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے تو دو کفارے واجب ہوںگے۔

۴۳

جو شخص سفر کرنا چاہتا ہو لیکن سفر شروع کرنے سے پہلے حد تر خص سے باہر نکلنے سے پہلے روزہ توڑ ڈالے اس پر قضا اور کفارہ دونوں واجب ہوںگے۔ کفارہ کے ادا کرنےمیں تاخیر کرنا جائز ضرور ہے لیکن حتی الا مکان فوراً ادا کرنا چاہئے۔

قضا روزے

کافر پر زمانہ کفر کے روزوں کی قضا واجب نہیں ہے مگر جو مسلمان کافر ہو کر پھر مسلمان ہو جائے اس پر کفر کے زمانے کے روزوں کی قضا واجب ہوگی دیوانے پر اچھے ہونے کے بعد زمانہ دیوانگی کے روزوں کی قضا واجب نہیں لیکن بدمست پر مستی زائل ہونے کے بعد روزوں کی قضا واجب ہوگی۔ جب قضا روزوں کی تعدادییں شک ہو تو کم تعداد کے روزوں کی قضا واجب ہوگی اور زیادہ تعداد کے روزوں کی قضا مستحب ہے۔ رمضان کے قضا روزے کو قبل ظہر توڑا جا سکتا ہے بشرط یہ کہ قضا کا وقت تنگ نہ ہو۔ جو ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک مسلسل بیمار رہے اس پر پیچھلی رمضان کے روزوں کی قضا واجب نہ ہوگی۔ البتہ ہر روز کے عوض تقریباً سات سو دس گرام غلہ دینا ضروری ہوگا۔

باپ کے قضا روزے اور نماز کا ادا کرنا بڑے بیٹے پر واجب ہے اور ماں کے قضا روزے اور نماز کا ادا کرنا مستحب ہے۔

۴۴

مسافر کے روزے

سفر اگر جائز ہو تو اس میں روزہ رکھنا حرام ہے۔ ناجائز سفر کرنے والا اور جس کا پیشہ سفر کرنا ہو یہ لوگ سفر میں بھی روزے رکھیںگے۔ روزہ سے بچنے کے لئے سفر کرنا جائز ہے مگر مکرہ ہے۔

ظہر کے بعد سفر شروع کرنے والا روزہ نہیں توڑ سکتا اور ظہر سے پہلے سفر کرنے والا حد تر خص کے اندر قبل ظہر آ جائے اور اس نے روزہ توڑنے والا کوئی کام نہ یا ہو تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہو جائگا۔جب کم از کم تنتالیس کیلو میٹر چھ سو تیس میٹر کی مسافت کے سفر کا ارادہ ہو تو حد تر خص سے نکلنے کے بعد نماز اور روزے دونوں قصر ہوتے ہیں۔

کن لوگوں پر روزہ واجب نہیں

۱ ۔ جو شخص پڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا یو یا روزہ رکھنے میں غیر معمولی تکلیف محسوس کرنے والے کو ہر روزہ کے عوض فقیر شرعی کو سات سو دس گرام غلہ دینا ہوگا۔

۲ ۔ جو شخص ایسے مرض میں گرفتار ہو جس کے باعث پیاس شدید ہو اور اس پیاس میں روزہ رکھنا ناقابل برداشت ہو یا غیر معمولی تکلیف کا باعث ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہے لیکن ہر روزہ کے عوض غلہ دینا واجب ہوگا۔ ایسے شخص پر رمضان کے دنوں میں واجب ہے کہ صرف ضرورت بھر پانی پیئے۔

۳ ۔ جس حاملہ عورت کو یا اس کے بچہ کو روزہ رکھنے کی صورت میں نقصان پہنچنے کا خوف ہو تو اس پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے لیکن بعد میں قضا واجب ہوگی۔ اور ہر روزہ کے عوض غلہ بھی دینا ہوگا۔

۴ ۔ جو شخص کسی بچہ کو دودھ پلاتی ہو چاہے بچہ کی ماں ہو یا نہ ہو روزہ سے بچہ کو نقصان پہونچنے کا خوف ہو تو اس پر رمضان میں روزہ رکھنا واجب نہ ہوگا مگر بعد میں قضا رکھنا ہوگی اور ہر روزہ کے عوض غلہ بھی دینا ہوگا لیکن اگر دوسری عورت دودھ پلانےپر تیار ہو جائے تو بچہ کو ا سکے حوالہ کر کے روزہ رکھنا واجب ہوگا۔

۴۵

چاند کے ثبوت کے طریقے

۱ ۔ خود چاند دیکھے ۲ ۔ اتنے آدمی چاند دیکھنے کی گواہی دیں جس سے اطمینان ہو جائے ۳ ۔ دو عادل مرد چاند دیکھنے کی گواہی دیں ۴ ۔ ماہ رواں کے تین دن پورے ہو جائیں۔

سوالات :

۱ ۔ کن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟

۲ ۔ روزہ توڑنے کی نیت کرے مگر نہ توڑے تو کیا حکم ہے ؟

۳ ۔ روزہ کے کفارے بیان کرو ؟

۴ ۔ کن لوگوں پر روزہ واجب نہیں ہے ؟

۵ ۔ چاند کے ثبوت کے کیا ذرائع ہیں ؟

۴۶

آٹھارہواں سبق

حج

خانہ کعبہ کی زیارت کرنے اور ان اعمال کو بجا لانے کو حج کہتے ہیں جن کے بجا لانے کا اس موقع پر حکم دیا گیا ہے۔ حج پوری عمر میں ایک بار واجب ہوتا ہے۔

حج واجب ہونے کے شرائط حسب ذیل ہیں۔

۱ ۔ بالغ ہونا ۔ ۲ ۔ عاقل ہونا ۔ ۳ ۔ آزاد ہونا ۔ ۴ ۔ حج کرنے کی وجہ سے کسی بڑے حرام کام کا کرنا یا کسی اہم واجب کام کا چھوڑنا لازم نہ آتا ہو ۔ ۵ ۔ حج کرنے والا مستطیع ہو یعنی سفر کے اخراجات رکھتا ہو مکہ تک جانے کی سواری مل سکتی ہو۔ حج کے فرائض کی ادائگی اور سفر کرنے کے قابل صحت ہو ، سفر میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ راستہ میں جان مال اور عزت کا خطرہ نہ ہو ، وقت کے اندر حج کے اعمال بجا لانے کا موقع ہو۔ واجب النفقہ افراد کو جن کا خرچ اس کے ذمہ واجب ہو حج کے زمانے میں ان کا خرچ دے سکتا ہو۔ حج کی واپسی پر اس کا ذریعہ معاش باقی رہے۔

۴۷

جس شخص پر حج واجب ہو مگر حج نہ کرے اور اس کے بعد بڑھاپے یا بیماری یا کمشوری کی وجہ سے خود حج کرنے سے ایسا مجبور ہو جائے کہ آئندہ بھی اسے خود حج کرنے کی امید نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ کسی کو اپنی طرف سے حج کرنے کے لئے بھیج دے۔ جس شخص پر حج واجب ہو مگر نہ کرے اور اس کے بعد غریب ہو جائے تو اس پر واجب ہے کہ چاہے جس قدر بھی زحمتیں ہوں حج کرنے جائے اگر بالکل مجبور ہو جائے مگر کوئی شخص اس کو اجرت پر حج بدل کرنے کے لئے بھیجے تو اس پر فرض ہے کہ پہلے حج بدل کرے اور پھر اگلے سال تک مکہ میں رہے تاکہ آئندہ سال اپنا حج کر سکے۔ جس شخص پر حج واجب ہو اور حج کئے بغیر مر جائے تو اس کی موت مسلمان کی موت نہیں ہوتی۔

سوالات :

۱ ۔ مستطیع کسے کہتے ہیں ؟

۲ ۔ حج واجب ہونے کے شرائط کیا ہیں ؟

۳ ۔ جس پر حج واجب ہو حج نہ کرے اور غریب ہو جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

۴۸

انیسواں سبق

زکوٰۃ

زکوٰۃ نو چیزوں پر واجب ہے

۱ ۔ گیہوں ۔ ۲ ۔ جو ۔ ۳ ۔ خرمہ ۔ ۴ ۔ چاندی ۔ ۵ ۔ کشمش ۔ ۶ ۔ سونا ۔ ۷ ۔ اونٹ ۔ ۸ ۔ گائے ، بھینس ۔ ۹ ۔ بھیڑ ، بکری اور گوسفند۔ ہر مال پر زکوٰۃ تب ہی واجب ہوتی ہے جب اس کی مقدار اس نصاب کے برابر ہو جس نصاب پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ زکوٰۃ اس پر واجب ہوتی ہے جس کے پاس نصاب بھر مال ہو خود مال کا مالک ہو اور مال اس کے قبضہ میں ہو۔ بالغ ، عاقل اور آزاد ہو۔

زکوٰۃ حسب ذیل آٹھ مقامات پر صرف کی جا سکتی ہے

۱ ۔ فقیر یعنی اثنا عشری جو اپنے اور اپنے عیال کے سال بھر کے خرچ کا ذخیرہ اور ذریعہ نہ رکھتا ہو۔

۲ ۔ مسکین جو فقیر سے بھی زیادہ غریب ہو ۔

۳ ۔ جو شخص امام علیہ السلام یا آپ کے نائب کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے معین ہو ۔

۴ ۔ وہ مسلمان جن کا ایمان ضعیف ہو ان کو ایمان میں پختہ کرنے کے لئے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے ۔

۵ ۔ جو غلام سختی میں ہو جس کی آزادی میں اس قسم کی ادائگی کی ضرورت ہو جس کو وہ ادا نہ کر سکتا ہو۔ اس صورت میں زکوٰۃ کے ذریعہ اس کو آزاد کرایا جا سکتا ہے۔

۶ ۔ جو شخص اپنا قرض نہ ادا کر سکتا ہو اُسے ادائگی قرض کے لئے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔

۷ ۔ زکوٰۃ ایسے تمام کاموں میں صرف کی جا سکتی ہے جن کا فائدہ دینی اور عام ہو مثلا مسجد ، مدرسہ ، سرائے بنانا وغیرہ۔

۸ ۔ جو مسافر سفر میں محتاج ہو گیا ہو اُسے ضرورت بھر زکوٰۃ دی جا سکتی ہے

۴۹

جن لوگوں کو زکوٰۃ دی جائے ان کا شیعہ اثنا عشری ہونا ضروری ہے اور ضروری ہے کہ وہ شخص علی الا علان گناہ کبیرہ نہ کرتا ہو۔ سید کو غیر سید کی زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ نکالنے والا ان لوگوں کو اپنی زکوٰۃ نہیں صرف کر سکتا جن کا خرچ دینا اس پر شرعاً واجب ہو۔

فطرہ

شب عید غریب کے وقت جو شخص بالغ اور عاقل ہو فقیر نہ ہو نہ غلام ہو اس پر واجب ہے کہ اپنا اور اپنے عیال کا فطرہ نکالے یعنی ہر شخص کی طرف سے فرداً فرداٍ تین کیلو گیہوں یا جو یا چاول یا ان کے مانند کوئی غلہ دے یا ان کی قیمت دے۔ قبل غریب آنے والے مہمان کا فطرہ میزبان پر واجب ہوتا ہے۔ فطرہ بھی انھیں جگہوں پر دیا جائےگا جہاں زکوٰۃ دی جاتی ہے۔ البتہ مستحب ہے کہ فطرہ صرف فقراء شیعہ پر صرف کیا جائے۔

فطرہ احتیاط واجب کی بنا پر فقط شیعہ اثنا عشری مستحق فقراٗ کو دینا ضروری ہے۔

( آیتہ۔۔۔۔۔ سیستانی مدظلہ )

سوالات :

۱ ۔ زکوٰۃ کن چیزوں پر واجب ہے ؟

۲ ۔ فطرہ کس شخص پر واجب ہے ؟

۳ ۔ زکوٰۃ اور فطرہ کا مصرف کیا ہے ؟

۵۰

بیسواں سبق

خمس

حسب ذیل چیزوں میں خمس واجب ہے۔

۱ ۔ سالانہ بچت ۔ ۲ ۔ کان ۔ ۳ ۔ خزانہ ۔ ۴ ۔ حلال و حرام مال ایک میں مل جائیں ۔ ۵ ۔ سمندر میں غوطہ لگا کر جو چیزیں نکالی جائیں ۔ ۶ ۔ میدان جہاد میں جو مال غنیمت ملے ۔ ۷ ۔ اگر کافر ذمی مسلمان سے زمین خریدے ۔

جس شخص کو بھی تجارت ، صنعت یا کسی دوسرے ذریعہ معاش سے آمدنی ہو یا ذریعہ معاش کے علاوہ مثلا ہبہ وغیرہ کے ذریعہ آمدنی ہو۔ اگر اس کے پاس اس آمدنی سے اپنے اور اپنے عیال کے سال بھر کے خرچ کے بعد کچھ بچے تو بچت کا پانچواں حصہ خمس میں نکالنا واجب ہوگا۔ خرچ کا حسب حیثیت اور جائز ہونا ضروری ہے ورنہ اس مال کا بھی خمس دینا پڑےگا جو ناجائز کاموں میں صرف ہوا ہو یا جسے حیثیت سے زیادہ خرچ کیا ہو۔ خمس نکالے بغیر مال پر تصرف ناجائز ہے اور اس سے خریدی یا بنائی جانے والی چیزوں میں عبادت درست نہیں ہوتی۔

۵۱

خمس کا مصرف

خمس کے دو حصے ہوتے ہیں ۔ آدھا حق سادات ہوتا ہے جو فقیر سید یا سید تییم یا اُس سید مسافر پر خرچ ہوگا جو سفر میں فقیر ہو گیا ہو۔ آدھا حصہ امام علیہ السلام ہے۔ آج کے زمانہ غیبت میں امام علیہ السلام کا حق مجتہد جامع الشرائط کو دیا جائے یا اس کی اجازت سے صرف کیا جائے۔ خمس اسی کو دیا جا سکتا ہے جو اثنا عشری شیعہ ہو ، علی الاعلان گناہ نہ کرتا ہو اور خمس نکالنے والے پر اس کا خرچ واجب نہ ہو اور سید ہو غیر سید کو خمس نہیں دیا جا سکتا ہے البتہ حق امام غیر سید پر بھی خرچ کیا جا سکتا ہے۔ جس کے لئے اعلم وقت کی اجازت ضروری ہے۔

سوالات :

۱-خمس کتنی چیزوں پر واجب ہے ؟

۲ ۔ خمس کن پر صرف کیا جائےگا ؟

۳ ۔ حق امامؐ کس کو دیا جائےگا ؟

۵۲

اکیسواں سبق

متفرق مسائل

۱ ۔ جو آوزیں گانے اور لہو و لعب کی محفلوں کے لئے مخصوص ہیں ان آوازوں کا نکالنا اور سننا حرام ہے۔ ان آوازوں سے قرآن نوحہ ، مرثیہ اور مجلس پڑھنا بھی حرام ہے۔

۲ ۔ داڑھی کا مونڈنا یا مشین سے کتر دینا کہ وہ منڈنے کے برابر ہو جائے حرام ہے۔ یہ حکم تمام لوگوں کے لئے یکساں ہے۔ لوگوں کے مذاق اڑانے کی وجہ سے حکم خدا نہیں بدلتا ہے۔ لڑکا جب بالغ ہو جائے تو اس پر داڑھی منڈانا حرام ہے چاہے داڑھی تھوڑی نکلی ہو یا زیادہ۔

۳ ۔ اگر نانی اپنے نواسہ یا نواسی کو دودھ پلا دے تو بچہ کی ماں اپنے شوہر پر حرام ہو جاتی ہے بشرطیکہ دودھ پلانے کے شرائط پورے ہوئے ہوں۔

۴ ۔ اگر کوئی شخص کسی لڑکے سے بدکاری کرے تو اس لڑکے کی بہن ، ماں ، بیٹی وغیرہ کا نکاح بدکاری کرنے والے سے کبھی جائز نہیں ہو سکتا۔

۵ ۔ لڑکا تب بالغ ہوتا ہے جب اس کی عمر پندرہ سال کی ہو جائے یا سوتے جاگتے میں منی نکلنے لگے یا زیر ناف بال نکل آئیں اور لڑکی تب بالغ ہوتی ہے جب پورے نو سال کی ہو جائے یا زیر ناف بال نکل آئیں یا حیض آئے۔بالغ ہونے کے بعد اگر لڑکے کے سوتے یا جاگتے میں منی نکل آئے تو اس پر غسل جنابت واجب ہوتا ہے۔ منی وہ رطوبت ہے جو پیشاب کی جگہ سے اچھل کر نکلتی ہے جس کے نکلنے کے بعد عضو میں سستی پیدا ہو جاتی ہے اور علی العموم شہوت کے بعد نکلتی ہے۔

سوالات :

۱ ۔ گانا اور داڑھی منڈنا کیسا ہے ؟

۲ ۔ اگر نانی اپنے نواسہ یا نواسی کو دودھ پلائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

۳ ۔ کس عمر میں لڑکی اور لڑکے کو بالغ کہا جائےگا ؟

۵۳

اخلاق

اصلاح نفس

اصلاح معاشرہ

۵۴

بائیسواں سبق

سود ، غیبت ، اطاعت والدین اور جھوٹ

سود

ایسا بڑا اور کبیرہ گناہ ہے کہ خدا ایک جگہ فرماتا ہے کہ سودخوار اللہ اور رسولؐ سے لڑنے کے واسطے تیار رہیں۔ کافی میں امام جعفر صادقؐ سے منقول ہے کہ سود کا ایک درہم اس زنا سے جو ،ماں ، بہن وغیرہ سے ستر بار کیا جائے زیادہ بدتر ہے اور جناب امیرؐ فرماتے ہیں کہ سود لینے والا ، دینے والا ، لکھنے والا ، گواہ سب برابر کے گناہگار ہیں۔

سود کے معنی

جو دو چیزیں تولی یا ناپی جاتی ہیں کسی معاملے میں کمی و زیادتی کے ساتھ لینا دینا۔ پس اگر دونوں چیزیں ایک قسم کی نہ ہوں تو سود نہ ہوگا جیسے تولہ بھر سونا ے کر دس بھر چاندی لے تو کوئی مضائقہ نہیں ، یا ناپنے اور تولنے کی چیز نہ ہو تو بھی کمی و زیادتی میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن قرض کوئی چیز بھی کم دے کر زیادہ لینا سود ہے چاہے وہ تولی ناپی جاتی ہو یا نہ تولی ناپی جاتی ہو۔

سود سے بچنے کا طریقہ

سو روپئے دے اور اسکے بجائے نوے روپئے اور مثلا گھڑی یا کوئی اور چیز لے ، اس صورت میں اگرچہ دوسری چیز کی قیمت سو روپئے سے زیادہ ہو جائے مگر قسم بدل جانے کی وجہ سے خرمت ہو جائےگی۔

اس قسم کی صورتوں میں اکثر لوگ مذاق اڑاتے ہیں اور اس کو ایک کھیل اور مکاری سمجھتے ہیں۔ ان کے جواب میں صرف اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جس خدا نے سود کو حرام کہا ہے اسی نے اس کے گناہ سے بچنے کے طریقے بھی بتائے ہیں۔

۵۵

باپ ، بیٹے ، میاں ، بوی مالک ، غلام میں باہم کمی و زیادتی کے ساتھ معاملہ کرنا سود نہیں ہے اور مسلمانوں کا کفار سے زیادہ لینا بھی سود نہیں ہے۔

غیبت

جناب رسول مابؐ ، حضرت ابوذر سے ارشاد فرماتے ہیں۔ اے ابوزر اپنے کو غیبت سے باز رکھو کیوں کہ غیبت زنا سے بدتر ہے۔ ابوذر نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یہ کیوں ؟ آپ نے فرمایا۔ اس لئے کہ جب آدمی زنا کے بعد توبہ کرتا ہے تو خدا اُسے بخش دیتا ہے مگر غیبت میں جس کی غیبت کی ہے جب تک وہ نہ بخشے گناہ معاف نہیں ہوتا۔ ابوذر نے عرض کی یا رسولؐ اللہ غیبت کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ۔ کہ کسی بندہ مومن کا اس طرح تذکرہ کرنا جسے وہ برا مانے ، ابوذر نے عرض کی اگر وہ بات واقعی اس میں پائی جاتی ہو ، آپ نے فرمایا اگر وہ بات اس میں پائی جاتی ہے جب ہی تو غیبت ہے اور اگر نہیں پائی جاتی تو افترا و بہتان ہوگا۔ مومن کا فرض ہے کہ جب اس کے سامنے کسی کی غیبت کی جائے تو اس کو روک دے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہاں سے ہٹ جائے۔

غیبت زبان سے نہیں کی جاتی بلکہ اعضا سے بھی کی جا سکتی ہے مثلا کسی لنگڑے کے چلنے یا کسی کے بات کرنے یا کپڑے پہننے کی نقل کرنا بھی غیبت ہے۔

۵۶

کن مقامات پر غیبت جائز ہے

جائز غیبت

۱ ۔ اگر کسی شخص نے کسی پر ظلم کیا ہو تو مظلوم اس کے ظلم کی داستان کو ایسے شخص کے سامنے جو اس کے ظلم کا دفیعہ کر سکے بیان کر سکتا ہے اور دوسرا سن سکتا ہے۔

۲ ۔ جب کوئی شخص کسی کے بارے میں کسی معاملے نکاح ، قرض وغیرہ کی غرض سے مشورہ کرے تو مشورہ دینے والا اس کے واقع حالات بیان کر سکتا ہے۔

۳ ۔ اہل بدعت کی بدعت کا بیان کرنا مثلا کوئی شخص مجمع یا وعظ میں خلق خدا کو باطل یا جھوٹے مضامین سے فریب دیتا ہو یا دینی ضرر پہونچاتا ہو یا جھوٹا دعویٰ کرتا ہو تو اس کو روک دینا خصوصاً علما پر ضروری ہے۔

۴ ۔ اگر کوئی شخص کسی صفت بیان میں مشہور ہو یا اسی صفت سے پکارا جاتا ہو تو اس کا نام لینا یا صفت بیان کرنا جائز ہے مگر اس حالت میں ایسے الفاظ ادا نہ کرے کہ برا مانے۔

۵ ۔ جب کوئی کسی گناہ کو علانیہ کھلے عام کرتا ہو تو اس شخص کے اس عیب کا بیان کرنا غیبت نہیں ہے۔ بشرطیکہ توہین مقصد نہ ہو۔

۶ ۔ جو شخص اپنا شجرہ غلط بتاتا ہو اس کا صحیح شجرہ بتانا جائز ہے۔

غیبت کا کفارہ یہ ہے کرے کہ جس کی غیبت کی ہو اس سے معاف کرا لے اور اگر وہ مر گیا ہو تو اس کے لئے خدا سے بخشش کی دعا کرے۔

۵۷

اطاعت والدین :

ماں باپ کا احترام ، خدمت گزاری اور اطاعت کا خیال رکھنا دین اسلام کے اعلیٰ فرائض میں سے ہے۔ اس کا راضی رکھنا بہت بڑی عبادت ہے انکی نافرمانی ، ان کو اپنے سے آزردہ رکھنا گناہ کبیرہ ہے۔ خدا وند عالم ایک جگہ فرماتا ہے کہ ان کے جواب میں اگر چہ وہ کہیں ہی سختی کیوں نہ کریں اُف تک نہ کہو۔ ایک حدیث میں ہے کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی یہ ہے کہ ان کو اس کی تکلیف نہ دو کہ ان کو کسی چیز کے مانگنے کی ضرورت پڑے ان کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرو۔ ان کے آگے ہو کر مت چلو۔ تیز نگاہ سے ان کو نہ دیکھو اگر وہ تمہیں ماریں تو تم ان کی بخشش کی دعا کرو۔ ان کے سامنے عاجز اور ذلیل کی طرح بیٹھو۔ اگر ماں باپ کافر ہوں اور تم سے کافر ہو جانے کو کہیں تو ان کا حکم نہ مانو مگر دینا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ پکارنے میں ان کا نام نہ لو۔ کسی جگہ ان سے پہلے نہ بیٹھو۔ ایسا کام نہ کرو جس سے ان پر گالیاں پڑیں۔ اگر وہ مر گئے ہوں تو ان کے لئے نمازیں پڑھو ، روزے رکھو۔ ان کی طرف سے حج کرو۔ ایک شبانہ روز کی خدمت ایک سال کے جہاد سے بہتر ہے۔ مقروض ہوں تو ان کے قرضے کو ادا کرو۔ ان کے مصارف کے متحمل ہو جو ان کی طرف غصے کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس کی نماز قبول نہیں۔ ان کی مدارت کرو۔ ان پر مہربانی کی نظر کرنا عبادت ہے۔

۵۸

سچا واقعہ :

نبی اسرا ئیل میں ایک عابد جریح نامی تھا اور برابر اپنی عبادت گاہ میں عبادت کرتا تھا۔ ایک دن اس کی ماں آئی اور اُس کو پکار ا مگر چو نکہ نمازمیں مشغول تھا جو اب نہ دے سکا ۔ وہ واپس گئی اور پھر دوبارہ آئی اور پھر یہ نماز میں مشغول ہونے کی وجہ سے جواب نہ دے سکا۔ پھر تیسری مرتبہ آئی اور پکارا اُس نے جواب نہ دیا اور نماز پڑھنے لگا۔ اس کی ماں نے غصہ میں کہا کہ میں خدا سے چاہتی ہوں کہ اس گناہ کا اس سے مواخذہ کرے۔ دوسرے دن ایک زناکار عورت اس کے عبادت خانہ کے پاس آ کر بیٹھی اس کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا اور وہ بالاعلان کہنے لگی کہ جریح نے میرے ساتھ بدکاری کی ہے اور یہ بچہ اسی کے نطفہ کا ہے۔ خبر بادشاہ تک پہونچی اور اس نے جریح کے سولی دینے کا حکم دیا۔ جب یہ حال جریح کی ماں کو معلوم تو روتی پیٹتی اس کے سامنے آئی۔ جریح نے کہا ۔ ماں یہ بلا تمہاری بد دعا کی بلائی ہوئی ہے جب لوگوں نے سنا تو اس واقعہ کی تفتیش کی اور جریح نے ساری داستان کہہ سنائی۔ لوگوں نے کہا کہ آخر تمہاری سچائی کا کچھ ثبوت بھی ہے۔ جریح بولا ہاں اس لڑکے کو لے آؤ۔ جب اُس کو لائے تو جریح نے پوچھا تو کس کا لڑکا ہے۔ خدا کے حکم سے وہ بول اٹھا کہ میں فٖلاں شخص کا لڑکا ہوں جو فلاں شخص کی بکریاں چراتا ہے۔ غرض عابد نے سولی سے رہائی پائی اور قسم کھائی کہ جب تک زندہ ہوں ماں کی خدمت کروںگا اور اس سے جدا نہ ہوں گا۔

۵۹

جھوٹ :

جھوٹ گناہ کبیرہ ہے۔ جا بجا قرآن مجید میں اسکی برائی مذکور ہےلَعنَةُ اللهِ عَلٰی الکَذِ بِینَ ہر شخص کی زبان پر ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جھوٹ شراب سے بدتر ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ جھوٹ ایمان کو خراب کرتا ہے۔ حضرت عیسیٰؐ سے منقول ہے کہ جو شخص زیادہ جھوٹ بولتا ہے خدا اس کو نسیان میں مبتلا کرتا ہے تاکہ لوگوں کی نظروں میں ذلیل و رسوا ہو۔ ہنسی مذاق میں بھی جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے۔ ہاں چند مقامات پر جھوٹ بولنا جائز ہے۔

۱ ۔ جب سچ بولنے میں کسی مومن کو نقصان ہوتا ہو یا ناحق قتل ہو جانے کا خوف ہو اور جھوٹ بولنے سے نجات ہو جائے تو جھوٹ بولنا جائز ہے بلکہ واجب ہے مگر بہتر یہ ہے کہ ایسے الفاظ میں مطلب ادا کرے کہ کام بھی نکلے اور خلاف واقعہ بھی نہ ہو۔ مثلا جب کسی کا مال تمہارے پاس امانت ہو اور کوئی حاکم جابر لینا چاہتا ہو اور تم سے دریافت کیا جائے تو یوں کہو کہ میرے ہاتھوں میں نہیں ہے یا میرے پاس نہیں ہے تم اس خیال سے کہو کہ ہاتھ یا جیب میں نہیں ہے اور وہ یہ سمجھے کہ تمہارے قبضہ میں نہیں ہے۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99