امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم جلد ۵

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم0%

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 99

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم

مؤلف: تنظیم المکاتب
زمرہ جات:

صفحے: 99
مشاہدے: 57161
ڈاؤنلوڈ: 2122


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 99 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57161 / ڈاؤنلوڈ: 2122
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم جلد 5

مؤلف:
اردو

۲ ۔ جب دو مومنوں کی رنجش اور کشیدگی کا دفع کرنا مقصود ہو اور دونوں میں میل جول کرانا چاہے تو ایک طرف سے جھوٹ موٹ ایسی باتیں دوسرے سے کہہ سکتا ہے جن سے باہم ملاپ ہو جائے۔

۳ ۔ جب کسی ایسی جگی ہو کہ اپنے مذہب کے اظہار سے جان یا آبرو کا خوف ہو اور اس کے دفیعہ کی کوئی تدبیر بھی نہ ہو تو حقیقت کو چھپا سکتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ سود کے لئے امام جعفر صادق علیہ السلام نے کیا فرمایا ہے ؟

۲ ۔ سود کے کیا معنی ہیں ؟ اور اس سے انسان کیونکر بچ سکتا ہے ؟

۳ ۔ غیبت کے گناہ کو کون معاف کر سکتا ہے ؟

۴ ۔ کیا غیبت کبھی جائز بھی ہو سکتی ہے ؟

۵ ۔ والدین کے مرنے کے بعد ان کو کس طرح خوش کیا جا سکتا ہے ؟

۶ ۔ جھوٹ میں کیا برائی ہے ؟

۶۱

تیئیسواں سبق

دین و شریعت

جس طرح مکان کے لئے چہاردیواری اور دریا کے لئے گھاٹ ضروری ہے اسی طرح دین کے اصول و قواعد کی حفاظت کے لئے کچھ اعمال و احکام ضروری ہیں جن کے ذریعہ ان اصولوں کو زندہ رکھا جا سکے اور انسانی دماغ سے مٹنے نہ دیا جائے۔ انھیں اعمال و احکام کا نام شریعت ہے۔ عربی زبان میں شریعت کے معنی گھاٹ کے ہیں۔ گھاٹ کا کام یہ ہے کہ دریا کے بہاؤ کو ایک راستے پر لے چلے اور پیاسوں کو دریا سے فائدہ اٹھانے کا راستہ دے۔ شریعت کے احکام کا مقصد یہی ہے ۔ وہ اصول دین کی حفاظت بھی کرتے ہیں اور ان سے فائدہ اٹھانے کا راستہ بھی بتاتے ہیں۔

نماز شریعت کا ایک حکم ہے۔ یہ اپنی نیت سے توحید کی یاد دلاتی ہے۔ سورہ حمد کی تلاوت ۔ خدا کے اوصاف اور قیامت کے عقیدہ کے ساتھ صراط مستقیم پر قائم رہنے کی تعلیم دیتی ہے۔ نماز کی ترکیب نبوت و امامت کو یاد دلاتی ہے جس کے زریعہ یہ نماز ہم تک پہنچی ہے۔

یہ نماز اصول دین اور عقائد کو یاد دلانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ چوبیس گھنٹے میں کئی مرتبہ عقائد کی یاد تازہ کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ عقائد سے فائدہ اٹھانے کا تنہا راستہ عبادت و عمل ہے۔ عمل کے بغیر عقیدہ میں ایمان نہیں پیدا ہوتی ہے جس طرح گھاٹ کے توٹ جانے سے پانی پھیل جاتا ہے اسی طرح اگر اعمال کو چھوڑ دیا گیا تو عقیدہ ایک راستہ پر نہ رہےگا بلکہ انسان نماز کی طرح پوجا پاٹ سے بھی خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرےگا جو بالکل غلط ہے۔

سوالات :

۱ ۔ شریعت کے کیا معنی ہیں اور اس سے کیا مراد ہے ؟

۲ ۔ عمل کے بغیر عقیدہ کیسا ہوتا ہے ؟

۶۲

چوبیسواں سبق

محبت ۔ نفرت

جس طرح اللہ نے دل ۔ دماغ ۔ آنکھ ۔ کان ۔ زبان بہت سی نعمتیں دی ہیں اسی طرح محبت اور نفرت کا خزانہ بھی عطا کیا ہے۔ یہ اللہ کی دی ہوئی نعمتیں ہیں ان کا صحیح طریقہ پر صرف کرنا ہم سب کا فریضہ ہے۔

محبت اور نفرت کا صحیح استعمال یہ ہے کہ نیکی اور نیک افراد سے محبت کی جائے اور برائی اور برے لوگوں سے نفرت کی جائے۔ نیک لوگوں سے نفرت کرنا جتنا بڑا گناہ ہے ۔ برے لوگوں سے محبت کربا بھی اتنا ہی بڑا گناہ ہے۔

ایک مسلمان کا فرض ہے کہ خدا و رسولؐ امامؐ سے بھر پور محبت کرے۔ ان کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھے۔ ان کے ہر حکم پر عمل کرے۔ ان کے دوستوں کو دوست رکھے۔ خدا ، رسول ، امام کی اس محبت کا نام تولا ہے

اسی طرح ہر مسلمان کا فرض ہے کہ خدا ، رسول ، امام کے دشمنوں سے نفرت کرے۔ ان کی عادتوں کے اختیار کرنے سے پرہیز کرے۔ ان کی محبت سے اپنے دل کو خالی رکھے۔ ان کی تعظیم نہ کرے۔ خدا ، رسول ، امام کے دشمنوں سے اسی علحدگی کے اختیار کرنے کا نام تبرا ہے۔

دوست کا دوست ، دوست ہوتا ہے اور دوست کا دشمن ، دشمن ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ ، رسول ، امام کا دوست ان کے دوستوں کو دوست رکھتا ہے۔ اور ان کے دشمنوں سے نفرت رکھتا ہے۔

جس طرح نیک لوگوں سے محبت کرنا واجب ہے اسی طرح نیکی سے محبت کرنا اور بڑائی سے نفرت کرنا بھی ہر شخص کا فرض ہے۔

۶۳

نیکی سے پہلی محبت یہ ہے کہ انسان خود اس کو اختیار کرے اور دوسری محبت یہ ہے کہ دوسروں میں نیکی پھیلانے کی اپنے مکان بھر کو شش کرے۔ نیکی پھیلانے کی کوشش کا نام امر بالمعروف ہے۔

برائی سے پہلی نفرت ہے کہ انسان پہلے اس سے خود پر ہیز کرے اور دوسری نفرت یہ ہے کہ دوسروں کو برائی سے بچانے کی کوشش کی جائے۔ برائی کو پھیلنے سے روکنے کا نام نہیں عن المنکر ہے۔

تولا ۔ تبرا ۔ امر بالمعروف ، نہیں عن المنکر ہر مسلمان پر اسی طرح واجب ہے جس طرح نماز۔ روزہ ہم سب پر واجب ہے۔

سوالات :

۱ ۔ محبت و نفرت کا کیا مطلب ہے ؟

۶۴

پچیسواں سبق

تقیہ

جب کوئی دین والے بےدینوں میں گھر جائے اور دین کے اعلان کرنے کی سورت میں دین دار کی عزت یا جان یا اتنے مال کے نقصان کا خطرہ ہو جس مالی نقصان کے بعد اس کے لئے زندگی بسر کرنے میں سخت دشواریوں کا سامنا ہو تو مذہب کا حکم ہے کہ ایسے موقع پر دین کا اعلان نہ کیا جائے اسی کو تقیہ کہتے ہیں مگر جب تقیہ کرنے کی وجہ سے خود دین کو نقصان پہونچتا ہو یا کسی دوسرے مومن کی عزت یا جان یا مال کا عظیم نقصان ہوتا ہو تو نقصان کرنا حرام ہے۔

تقیہ جھوٹ بولنا نہیں ہے اور نہ تقیہ کرنا خدا اور رسولؐ کی نظر میں بری بات ہے بلکہ جب تقیہ کرنے کا محل اور موقع ہوتا ہے تو تقیہ کرنے کا مذہب حکم دیتا ہے اور خدا اور رسولؐ خوش ہوتے ہیں۔ تقیہ کا حکم خدا اور رسولؐ نے دیا ہے لہذا تقیہ کی مخالفت کرنا یا اس کا مذاق اڑانا خدا اور رسولؐ کی مخالفت کرنا ہے۔ اس سلسلے میں ایک قرانی اور تاریخی واقعہ سناتے ہیں جس سے تقیہ کرنے کا طریقہ بھی معلوم ہا جائے گا اور تقیہ کا جائز ہونا بھی۔

فرعون جس نے خدا ہونے کا دعویٰ کیا تھا ، خود لا ولد تھا اس لئے اس نے اپنے چچا زاد بھائی حزقیل کو اپنا ولیعہد بنایا تھا مگر جناب حزقیل فرعون کو خدا نہیں مانتے تھے بلکہ خدا پر ایمان رکھتے تھے۔ جناب حزقیل کو مومن آل فرعون کہا جاتا ہے۔

۶۵

ایک بار فرعون کے دربار والوں نے جناب حزقیل کی شکایت فرعون سے کی کہ وہ تجھ کو خدا نہیں مانتے۔ اس خبر سے فرعون کو نہت غصہ آیا اور جناب حزقیل کو بلا کر کہا کہ یہ لوگ تمہاری شکایت لائے ہیں کہ تم مجھ کو خدا نہیں مانتے کیا یہ شکایت صحیح ہے۔ جناب حزقیل نے فرمایا کہ جو ان لوگوں کی جان و مال کا مالک ہے وہی میری جان و مال کا مالک ہے جو ان کو رزق دیتا ہے وہی مجھے بھی رزق دیتا ہے اور جو ان کا خدا ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہی میرا بھی خدا ہے اُس کے علاوہ میں کسی دوسرے کو خدا نہیں مانتا۔

فرعون اس جواب سے خوش ہو گیا۔ اس نے سمجھا کہ یہ مجھ کو خدا مانتے ہیں جب کہ جناب حزقیل نے حقیقی خدا کے اقرار کا اعلان فرمایا تھا۔ آپ کی اسی روش اور اچھے عمل کو اللہ تعلیٰ نے پسند فرما کر قرآن پاک میں تعریف کی ہے اور آپ کو مومن آل فرعون کا لقب دیا ہے۔

جناب حزقیل کا ایمان فرعون اور فرعونیوں سے پوشیدہ تھا چنانچہ خدا وند عالم نے فرمایا ہے ۔مومِنٌ ٰالِ فِرعَونَ یَکتُمُ اِیمَانَهُ یعنی فرعون کے خاندان میں ایک مرد مومن تھا جو اپنا ایمان چھپائے تھا۔ رسولؐ کریم نے فرمایا کہ دنیا میں تین صدیق ہیں جن میں سے ایک جناب حزقیل بھی ہیں اور سب سے افضل علی علیہ السلام ہیں۔

اگر تقیہ کرنا ناجائز ہوتا تو جناب حزقیل کی خدا تعریف نہ کرتا۔ اگر تقیہ کرنا جھوٹ بولنا ہوتا تو نبیؐ حزقیل کو صدیق نہ کہتے۔

۶۶

تقیہ کیسے کیا جاتا ہے

یہ بھی جناب حزقیل کے واقعہ سے معلوم ہوا کہ فرعون نے جب حزقیل سے ان کا دین پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ پہلے شکایت کرنے والوں سے ان کا دین پوچھا جائے۔ فرعون نے کہا ان سے تم ہی پوچھ لو۔ جناب حزقیل نے فرعون سے پوچھا تماہارا مالک کون تمہارا رازق تمہارا پیدا کرنے والا اور تمہارا خدا کون ہے۔ فرعون ہر سوال کے جواب میں کہتے رہے فرعون ہے۔ جناب حزقیل نے کہا کہ جو انکا خدا ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے جو ان کا را ز ق اور مالک ہے وہی میرا خدا ہے وہی میرا خالق ر ازق اور مالک ہے۔ یہ سن کر فرعون اور فرعونی مطمئین ہو گئے کہ حزقیل ہمارے دین پر ہیں حالانکہ جناب حزقیل خدا کو اپنا خدا اور مالک و رازق بتا رہے تھے۔ جناب حزقیل جھوٹ نہیں بولے مگر تقیہ کر کے اپنے کو بچا لیا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام نے اس لئے تقیہ نہیں کیا کہ اگر آپ تقیہ کر لیتے تو دین خطرہ میں پر جاتا اور تقیہ دین ہی کے بچانے کے لئے کیا جاتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ تقیہ کے شرائط کیا ہیں ؟

۲ ۔ تقیہ کب حرام ہے ؟

۳ ۔ جناب حزقیل کا واقعہ کیا ہے ؟

۴ ۔ امام حسینؐ نے تقیہ کیوں نہیں کیا ؟

۶۷

تاریخ

شخصیات

واقعات

۶۸

چھبیسواں سبق

ہمارے ہادی

چودہ معصوم ہمارے ہادی اور رہبر ہیں جنھوں نے بڑی بڑی قربانیاں دے کر دین کو پھیلایا اور بچایا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتے تو آج زمانہ میں دین کا اجالا نہ ہوتا۔ ان کی محبت اور تعظیم ہم سب پر واجب ہے اور ان کے نقش قدم پر چلنا ہم سب کی زندگی کا مقصد ہے۔ ان کی زندگی ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔ ان کی زندگی کے حالات سے واقف اور باخبر ہونا ضروری ہے اس سبق میں ہر معصوم کی زندگی چند واقعات لکھے جاتے ہیں۔

ہمارے رسولؐ :

نبوت کے اعلان سے پہلے بھی تمام لوگ آپ سے محبت کرتے تھے۔ ہر شخص آپ پر بھروسہ کرتا تھا۔عرب جھگڑالو مزاج رکھتے تھے۔ بات بات پر لڑ پڑتے تھے۔ معمولی معمولی باتوں پر چالیس سال جنگ کرتے تھے۔ ہر قبیلہ ہر وقت دوسرےقبیلہ کو نیچا دکھانے کی فکر میں رہتا تھا۔ کوئی قبیلہ دوسرے قبیلہ کی عزت کو بڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مکہ میں جب ہر شخص قبیلہ اور خاندان میں بٹا ہوا تھا اُس وقت بھی ہمارے حضورؐ پورے شہر کی آنکھ کا تارا تھے اور آپ سے تمام قبیلوں کے آدمی یکساں محبت کرتے تھے لوگ آپ کو صادق و امین ، سچا اور امانتدار کہہ کر یاد کرتے تھے۔ خانہ کعبہ کی پرانی عمارت گرا کر نئی بنائی جا رہی تھی۔ ہر قبیلہ کے آدمی اس تعمیر میں حصہ لے رہے تھے اور قبیلہ مطمئن تھا کہ خانہ کعبہ کی عمارت بنانے کا شرف ہم سب کو ملا۔

۶۹

حجر اسود ایک پتھر ہے جسے بحکم خدا جبرئیلؐ آسمان سے لائے تھے اور وہ خانہ کعبہ کی ایک دیوار میں نصب تھا۔ کعبہ کی نئی عمارت بننے کے بعد جب حجر اسود دوبارہ اس کی جگہ پر نصب کرنے کا وقت آیا تو ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ شرف اور عزت ہم کو مل جائے۔

چنانچہ اس سوال پر کہ حجر اسود کون نصب کرے لوگوں کی تلواریں نکل آئیں۔ تھوڑی دیر پہلے جو لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کر رہے تھے وہ اب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ صورت حال بےحد خطرناک ہو گئی اور ہر آن خطرہ تھا کہ جنگ کی چنگاری اڑے اور سارے مکہ کو جلا کر خاک کر دے۔

کچھ سمجھدار لوگوں نے رائے دی کہ آج حجراسود کو نصب نہ کیا جائے بلکہ کل پھر ہم لوگ یہاں جمع ہوں اور جو شخص سب سے پہلے ہماری طرف آتا دکھائی دے اس کو ہم اپنے جھگڑے کا حکم مان لیں اور جو فیصلہ وہ کر دے اسے سب منظور کر لیں۔ یہ رائے پسند کی گئی رات بھر کے لئے تلواریں نیام میں چلی گئیں۔ دوسرے سب لوگ وعدہ کے مطابق جمع ہو گئے۔ دور سے ایک شخص آتا ہوا دکھائی دیا سب کی نظریں آنے والے پر جمی ہوئی تھیں۔ قریب آنے پر معلوم ہوا کہ آنے والے ہمارے نبیؐ تھے۔ آپ کو دیکھ کر مجمع خوشی سے جھوم اٹھا ۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا آپ سے بہتر فیصلہ کرنے والا نہیں مل سکتا۔ حضورؐ نے فیصلہ بھی ایسا فرمایا کہ سب کے دل باغ باغ ہو گئے۔ آپ نے ایک چادر منگائی چادر میں حجراسود رکھا اور ہر قبیلہ کے ایک ایک آدمی کو بلا کر کہا کہ سب مل کر چادر اٹھاؤ۔ سب نے مل کر چادر کو اٹھایا ۔ آخر میں حضور نے چادر سے اٹھا کر حجراسود کو اس کی جگہ پر رکھ دیا سارا مجمع آپ کے گن گاتا ہوا اپنے گھروں کو واپس ہو گیا۔

۷۰

جناب فاطمہ زہراؐ :

آپ عورتوں کے لئے نمونہ عمل بن کر آئی تھیں جناب فضہ آپ کی کنیز تھیں مگر ہماری شہزادی نے ان کو گھر کا برابر کا درجہ دیا تھا۔ ایک دن خود کام کرتی تھیں اور ایک دن فضہ سے کام لیتیں تھیں۔ اہلبیتؐ کے گھر میں غلام اور آقا کنیز اور مالکہ میں فرق نہیں تھا۔ آپ کے در سے کبھی کوئی سائل خالی ہاتھ واپس نہیں ہوا۔ شادی کے بعد جب آپ باپ کے گھر سے رخصت ہو کر شوہر کے گھر آئیں تو دوسرے دن صبح کو حضورؐ اپنی بیٹی سے ملنے کے لئے حضرت علیؐ کے گھر آئے۔ حضورؐ نے دیکھا کہ جناب فاطمہؐ کے جسم پر شسدی کے جوڑے کے بجائے پرانا لباس ہے۔ دریافت فرمایا بیٹی یہ کیا ہے آپ نے فرمایا کہ ایک غریب عورت لباس مانگنے آئی میں نے اسے دیدیا حضور نے فرمایا کہ پرانا لباس کیوں نہ دیدیا۔ عرض کی شادی کا جوڑا مجھے پسند تھا اور خدا نے فرمایا ہے کہ راہ خدا میں ہمیشہ اپنی پسندیدہ اور محبوب چیز دینا چاہئے۔ اس لئے پرانا لباس میں نے پہن لیا اور شادی کے کپڑے راہ خدا میں دیدئے۔

ایک بار حضورؐ بیٹی سے ملنے آئے ۔ آپ کے ساتھ آپ کے نابینا صحابی عبداللہ ابن مکتوم بھی تھے۔ آپ نے گھر میں آنے کی اجازت طلب کی تو جناب فاطمہ زہراؐ نے کہا کہ بابا پہلے میں پردہ کر لوں تب تشریف لائین کیونکہ آپ کے ساتھ آپ کے صحابی بھی ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا مگر وہ تو نابینا ہیں۔ شہزادیؐ نے عرض کی مگر میں تو ان کو دیکھ سکتی ہوں۔ اس جواب پر حضورؐ نے خوش ہو کر شاھزادیؐ کو دعائیں دیں اور فرمایا میری بیٹی میری نبوت کا ایک حصہ ہے۔

۷۱

حضرت علیؐ :

آپ بہت بہادر تھے۔ بڑے بڑے سوما آپ کا نام سن کر لرز جاتے تھے۔ آپ نے کئی من وزنی دروازہ جنگ خیبر میں اکھاڑ کر اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیا تھا۔ آپ کبھی خوف زدہ نہیں ہوتے تھے۔ مشکلوں میں گھبرانا آپ جانتے ہی نہ تھے۔ ہر جنگ آپ کے ہاتھ پر فتح ہوئی تھی۔

بہادر وہی ہوتا ہے جو گھبراتا نہیں۔ دینا میں ایسے بہت سے بہادر گزرے ہیں جنھوں نے بڑے بڑے پہلوانوں کو پچھاڑ دیا ہے۔ مگر ایسے بہادر بہت کم گزرے ہیں جو اپنے نفس کو پچھاڑ دیتے ہوں اپنی خواہشوں کو زیر کر لیتے ہوں۔ اپنے تمناؤں سے جنگ کر لیتے ہوں۔ دشمن سے تلوار لے کر لڑنا چھوٹا جہاد ہے اور دل کی خوایہشوں سے جنگ کرنا جہاد اکبر ہے آؤ تم کو حضرت علیؐ کی زندگی کا ایک ایسا واقعہ سنائیں جہاں آپ نے جہاد اکبر اور جہاد اصغر دونوں ایک ساتھ کئے۔

خندق کی جنگ تیسری اسلامی لڑائی ہے۔ اسلام اور نبی کا دشمن مکہ سے چل کر مدینہ کی سرحد تک آ چکا ہے۔ مسلمانوں نے میدان جنگ میں اپنی حفاظت کے لئے خندق کھودی ہے۔ خندق کی وجہ سے دشمن مدینہ میں داخل نہیں ہو سکا۔ خندق کے دونوں طرف دونوں فوجیں آمنے سامنے پڑاؤ ڈالے پڑی ہیں۔ مکہ کا کافر لشکر اپنے ساتھ عرب کا سب سے مشہور پہلوان لایا ہے۔ عربوں کے خیال میں عمرو بن عبدود سے بڑا پہلوان اور بہادر دنیا میں کوئی نہ تھا۔ عمرو کے مقابلہ پر آنے کی ہمت سوائے حضرت علیؐ کے کسی نے نہیں کی مکہ والے اپنے پہلوان کی فتح پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی اس یقین میں انکے ساتھ شریک تھی مگر دونوں لشکر حیرت میں پڑ گئے جب انھوں نے عمرو کے سینہ پر حضرت علیؐ کو بیٹھا دیکھا۔

۷۲

حضرت علیؐ عمرو کو قتل کرنا چاہتے تھے کہ عمرو نے اپنی ہار سے کھسیاکر حضرت پر تھوک دیا۔ اس کی نازیبا حرکت کے بعد فوراً ہی آپ اس کے سینہ سے اُتر آئے۔ جب لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ ایسے زبردست دشمن پر قابو پا کر اس کو آپ نے کیوں چھوڑ دیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ اس کے تھوکنے پر مجھے غصۃ آ گیا تھا۔ میں اس دشمن خدا کو صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے قتل کرنا چاہتا تھا۔ اگر غصہ میں قتل کر دیتا تو جہاد میں وہ خلوص نہ وہ جاتا لہذا میں عمرو کے سینے سے اتر کر پہلے اپنے غصہ سے لڑا اس کے بعد عمرو کو پھر پچھاڑا اور اس کا سر قلم کیا۔ حضورؐ نے اس موقع پر ایک حدیث ارشاد فرمائی تھی کہ " خندق کے دن علیؐ کی تلوار کا ایک وار دونوں جہاں کی عبادت سے افضل ہے۔ "

امام حسنؐ :

آپ بڑے عبادت گزار بہادر اور حلیم تھے۔ آپ کی سخاوت اور خیرات مشہور ہے۔ دو مرتبہ آپ نے اپنے کل مال کا آدھا آدھا حصہ راہ خدا میں لٹا دیا۔ امیر شام آپ کے سخت دشمن تھے۔ آپ کی سخاوت کا شہرہ سن کر دل میں جلتے رہتے تھے۔ ایک بار امیر شام نے آپ کو خط میں زیادہ خیرات کرنے سے روکتے ہوئے لکھا۔ " فضول خرچی میں بھلائی نہیں ہے ۔" آپ نے جواب میں امیر شام کا جملہ الٹ دیا اور اس کو لکھا ۔ " خیرات فضول خرچی نہیں ہے۔"

آپ کی سخاوت کو دیکھ کر کسی نے آپ کو مشورہ دیا کہ خیرات و سخاوت کم کیجئے۔ آنے والے کسی سخت وقت کے لئے مال و دولت بچا کر رکھئے۔ آپ نے فرمایا تمہارا مشورہ غلط ہے کیوں کہ اب تک اللہ مجھے دیتا ہے میں اس کے بندوں کو دیتا ہوں اگر میں اپنی عادت بدل دوں اور خدا کے بندوں کو عطئے دینا بند کروں تو یہ بھی ممکن ہے کہ خدا بھی اپنی عادت بدلے اور مجھے رزق دینا بند کر دے۔

۷۳

آپ نے مسلمانوں میں خونریزی بند کرنے کے لئے امیر شام سے صلح کر لی جبکہ آپ کے بہت سے جوشیلے ساتھیوں کو صلح ناپسند تھی مگر آپ نے فرمایا موجودہ حالت میں جنگ کرنا خودکسی ہے۔ ایمان کی حفاظت کے لئے اس وقت صلح کرنا ضروری ہے۔ آپ صلح پر آخر تک قائم رہے اور لوگوں کی مذمت اور ملامت کی کوئی پرواہ نہیں کی جو لوگوں کی تنقید سے ڈر کر راستہ بدل دے وہ بزول ہے۔ بہادر وہی ہے جو حق کا راستہ نہ چھوڑے اور لوگوں کی رائے سے ڈر کر سچ سے منہ نہ موڑے۔

امام حسینؐ :

ہم آپ چاہے غلطی کو دیکھ کر خاموش رہیں لیکن ہادی اور امام کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ غلطی دیکھ کر آگے بڑھ جائے۔ امام حسنؐ امام حسینؐ بچپن میں ایک دن مدینہ کی کسی گلی سے گزر رہے تھے۔ رستہ میں ایک بوڑھا آدمی غلط وضو کر رہا تھا۔ اس کے غلط وضو کو دیکھ کر دونوں شاہزادے رک گئے اور فرمایا کہ ہم دونوں وضو کرتے ہیں آپ دیکھ کر بتائیں کہ کس کا وضو غلط ہے۔ بوڑھا دونوں کو وضو کرتا دیکھتا رہا۔ جب دونوں کے وضو ختم ہو گئے اور بوڑھے نے دیکھا کہ دونوں نے ایک وضو کیا تو سمجھ گیا کہ شاہزادے میرے غلط وضو کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ بڑے ادب سے بولا شاہزادو ! میں ہمیشہ تمہارا شکر گزار رہوںگا کہ بڑھاپے میں تم نے میرے وضو کو درست کر دیا۔

۷۴

جب امام حسینؐ ایک شخص کے غلط وضو کو دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتے تھے اور جب تک اس کی اصلاح نہ کر لی آگے نہیں بڑھے تو جب دین کو یزید مٹا دینا چاہتا تھا تو کیوں کر ممکن تھا کہ آپ خاموش بیٹھے رہتے۔ آپ یزید کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اس راہ میں آپ کو عظیم مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سارے ساتھی ، پورا کنبہ بھوکا پیاسا فرات کے کنارے شہید ہو گیا جو بچ رہے تھے وہ قیدوبند کی سخت ترین تکلیفیں جھیلتے رہے مگر آپ نے ہدایت کے لئے سب کچھ برداشت کر لیا۔ یزید ختم ہو گیا یزیدیت اپنی موت مر گئی۔ اسلام زندہ ہو گیا اور حسین کا ذکر عام ہو گیا۔

امام زین العابدینؐ :

آپ بڑے عبادت گزار تھے۔ اتنی نمازیں پڑھتے تھے کہ پیروں پر ورم آ جاتا تھا۔ سجدوں کی کثرت سے پیشانی اور سجدہ میں زمین پر ٹکنے والے دوسرے اعضا پر گھٹے پڑ جاتے تھے جو تراشے جاتے تھے۔ آپ نے اتنی عبادت کی تھی کہ سجدہ کے گٹھوں کے تراشنے سے دو تھیلیاں بھر گئی تھیں۔ آپ راتوں کو پوشیدہ طور پر مدینہ کے غریب گھروں میں کھانے کا سامان اپنی پیٹھ پر لاد کر پہونچایا کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ کی پیٹھ پر سخت گٹھا پڑ گیا تھا۔

جن غریبوں تک سامان پہونچایا کرتے تھے ان کو معلوم بھی نہ تھا کہ کون اللہ کا بندہ ان کی خبر گیری کرتا ہے۔ جب آپ کی شہادت ہو گئی اور سامان کا آنا بند ہو گیا تب لوگوں کو پتہ چلا کی غریبوں کی غائبانہ مدد کرنے والے امام زین العابدین علیہ السلام تھے۔

۷۵

صحیفہ کاملہ آپ کی دعاؤں کا مجموعہ ہے جسے زبور آل محمدؐ بھی کہا جاتا ہے۔

امام محمد باقرؐ :

آپ واقعہ کربلا موجود تھے۔ اس وقت آپ کا سن پانچ برس کا تھا سب کے ساتھ آپ قیدی بنا کر کوفہ اور دمشق لے جائے گئے۔

جب یزید نے امام زین العابدین علیہ السلام کے قتل کا حکم دیا تو آپ نے فرمایا کہ جناب موسیٰ بھی معصوم تھے اور میرے باپ بھی معصوم ہیں فرعون جناب موسیٰ کو قتل کرنے پر راضی نہیں ہوا نہ اس کے درباری اس بات پر راضی تھے کیونکہ وہ ناجائز اولاد نہیں تھے لیکن اے یزید تو اور تیرے درباری معصوم کے قتل کرنے پر اس لئے راضی اور تیار ہیں کہ تم سب ناجائز اولاد ہو اس لئے کہ صرف ایسے ہی لوگ معصوم کے قتل کرنے پر راضی ہو سکتے ہیں جو ناجائز اولاد ہوں۔ یزید یہ سن کر خاموش ہو گیا اور اس نے قتل کا ظالمانہ حکم واپس لےلیا۔

آپ کے سامنے ایک بار ایک شخص نے ایک کافر کی میت کی کھوپڑی پیش کر کے سوال کیا کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ کافر پر مرنے کے بعدعذاب ہوتا ہے مگر یہ عقیدہ غلط ہے کیونکہ یہ کافر کی کھوپڑی ہے مگر نہ جل رہی ہے نہ اس پر عذاب ہو رہا ہے۔ امامؐ نے چقماق کے دو پتھر منگوائے۔ چقماق اس پتھر کو کہتے ہیں جن کے ٹکرانے سے آگ پیدا ہو جاتی ہے۔ پہلے لوگ چقماق ہی سے دیا سلائی کے بجائے آگ جلایا کرتے تھے۔ غرض کہ امامؐ نے پتھر منگا کر اس شخص کو دئے اور کہا ان کو ایک دوسرے سے ٹکراؤ جب ٹکرانے پر آگ نکلی تو آپ نے فرمایا بتاؤ پتھر گرم ہے یا نہیں۔ اس نے کہا پتھر تو ٹھنڈا ہے۔ امامؐ نے فرمایا جو خدا اس پر قادر رہے کہ اس پتھر کو ٹھنڈا رکھے مگر اس کے اندر آگ بھ دے وہ خدا اس پر بھی قادر ہے کہ یہ کھوپڑی اوپر سے ٹھنڈی رہے مگر اس کے اندر عذاب کی آگ بھری ہو۔ آپ کا جواب سن کر وہ مطمئین ہو گیا۔

۷۶

امام جعفر صادقؐ :

آپ کے زمانہ میں علم دین کا چرچہ خوب پھیلا پورے ملک سے علماٗ سمٹ کر مدینہ آ گئے تھے چار ہزار آدمی ہر وقت قلم دوات لئے تیار رہتے تھے کہ جب بھی آپ کچھ فرمائیں وہ لوگ اُسے لکھ لیں۔

آپ کے زمانہ میں بنی امیہ کی حکومت ختم ہوئی اور بنی عباس کی حکومت قائم ہوئی۔ بنی عباس نے لوگوں کو امام حسینؐ کے خون ناحق کے نام پر بنی امیہ کے خلاف ابھارا تھا اس زمانہ میں جب لوگ اہلبیتؐ کی محبت کا چرچا کیا کرتے تھے خراسان کا ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا جب آپ کی حمایت و مدد کرنے والے صرف خراسان میں ایک لاکھ موجود ہیں تو اپنا حکومت کا حق کیوں نہیں حاصل کر لیتے۔ یہ سن کر آپ نے اس شخص سے کہا کہ بھڑکتے ہوئے تنور میں کود جاؤ۔ وہ شخص یہ سنکر لرز اٹھا اور التجا کرنے لگا کہ آپ اپنا حکم واپس لے لیں۔ اُسی وقت جناب ہارون مکی امام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے ہارون مکی سے بھی تنور میں کود جانے کے لئے کہا اور ہارون فوراً کود گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ اس شخص کو لیکر تنور تک قریب آئے۔ سب نے دیکھا ہارون تنور میں بیٹھے ہوئے ذکر خدا کر رہے ہیں اور آگ بالکل نقصان نہ پہونچا سکی۔

امام علیہ السلام نے اس شخص سے دریافت فرمایا ۔" بتاؤ خراسان میں ایسے ماننے والے کتنے ہیں " اس نے کہا ایک بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا آیندہ کبھی اپنے امام کو مشورہ نہ دینا۔

۷۷

امام مویٰ کاظمؐ :

آپ بہت حلیم اور بردبار تھے۔ ایک بار ایک کنیز کے ہاتھ سے گرم سالن کا پیالہ چھوٹ کر آپ کے اوپر گر پڑا۔ کنیز خوف زدہ ہو گئی اور اس نے برحبستہ قرآن مجید کا ایک فقرہ پڑھا جس میں ان لوگوں کی مدح خدا نے کی ہے جو غصہ ضبط کرتے ہیں امام علیہ السلام نے سن کر فرمایا میں نے غصہ کو ضبط کیا۔ پھر کنیز نے آیت کا وہ حصہ پڑھا جس میں خدا نے معاف کرنے والوں کی تعریف کی ہے۔ امام نے فرمایا میں نے تجھے معاف کیا۔ کنیز نے آخر میں آیت کا وہ حصہ پڑھا جس میں اللہ نے کہا ہے کہ میں ان لوگوں کو دوست رکھتا ہوں جو احسان کرتے ہیں۔ امام علیہ السلام نے یہ سن کر اس کنیز کو آزاد فرما دیا۔ آپ حلم میں اتنا مشہور ہوئے کہ کاظم آپ کا لقب پر گیا۔

امام علی رضاؐ :

آپ کے زمانہ میں شیعہ مذہب نے بہت ترقی کی۔ حکومت آپ سے ڈرتی تھی۔ جب مامون نے جو اس وقت خلیفہ تھا آپ کو دار الحکومت میں طلب کیا تو راستہ میں آپ بہت سے مقامات سے گزرے۔ ہر جگہ لوگ جوق در جوق آپ کی زیارت کے لئے جمع تھے اور آپ سے دین کی باتیں پوچھتے تھے۔ اس سفر میں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک شخص ابو جیب نے خواب دیکھا کہ رسولؐ خدا ان کی بستی میں تشریف لائے ہیں۔ ابو جیب مشتاق زیارت ہو کر حضور کی قیام گاہ کا پتہ پوچھتے ہوئے نکلے۔ ان کو معلوم ہوا کہ حضورؐ اس مسجد میں ہیں جہاں حاجی اترتے ہیں۔ ابو جیب نے مسجد میں جا کر دیکھا۔ حضورؐ مسجد کی ایک محراب میں تشریف فرما ہیں۔

۷۸

ابو جیب نے سلام کیا حضورؐ نے جواب سلام دے کر ایک مٹھی کھجوریں ابو جیب کو دیدیں جو اٹھارہ تھیں۔ ابو جیب نے اس خواب کی تعمیر یہ سمجھی کہ ان کی عمر میں اٹھارہ سال باقی ہیں۔ اس کے بعد امام رضا علیہ السلام ان کی بستی سے گزرے۔ ابو جیب مشتاق زیارت ہو کر نکلے تو امام کو اسی مسجد میں اُسی جگہ بیٹھتے دیکھا جہاں حضورؐ کو بیٹھے دیکھا تھا۔ امامؐ کے سامنے بھی ایک طبق میں خرمے رکھے تھے۔ ابوجیب نے سلام کیا۔ امامؐ نے سلام کا جواب دے کر ایک مٹھی خرمے دیدئے۔ ابوجیب نے جب اُنکو گنا تو وہ بھی اٹھارہ خرمے تھے۔ ابو جیب نے کہا مولاؐ کچھ اور بھی مرحمت فرمائے۔ امام علیہ السلام نے جواب دیا اگر میرے جد نے زیادہ خرمے دئے ہو تو میں بھی زیادہ دیتا۔

امام محمد تقیؐ :

آپ کے علم کا رعب و دبدبہ بچپنے سے ہی سب پر قادر ہو گیا تھا۔ ایک مرتبہ آپ بغداد کے ایک راستہ پر کھڑے تھے اور آپ کے علاوہ بچے کھیل رہے تھے۔ اس راستہ سے مامون بادشاہ عباسی کی سواری گزری، بادشاہ کی سواری دیکھ کر تمام بچے بھاگ گئے مگر آپ اپنی جگہ پر نہایت اطمینان سے کھڑے رہے۔ مامون کو امام علیہ السلام کا یہ اطمینان دیکھ کر بہت تعجب ہوا۔ اس نے آپ سے بچوں کے ساتھ نہ بھاگنے اور کھڑے رہنے کی وجہ پوچھی۔ آپ نے فرمایا کہ رستہ کشادہ تھا اس لئے ہٹنے کی ضرورت نہ تھی۔ میں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے خوف زدہ ہو کر بھاگ جاتا اور تو بے سبب مجھے ستائےگا یہ بدگمانی میں نے تیری طرف سے نہیں کی۔ پھر کیوں چلا جاتا اور کھڑا نہ رہتا مامون کو آپ کی گفتگو سن کربےحد تعجب ہوا اس نے آپ کا نام پوچھا آپ نے فرمایا میں امام علی رضاؐ کا بیٹا محمدؐ ہوں۔

۷۹

جب مامون اسی راستے سے واپس ہوا تو امام بھی اسی راستہ پر پہلے کی طرح کھڑے رہے اور تمام بچے بھاگ گئے۔ مامون نے مٹھی بند کر کے پوچھا بتاؤ میرے ہاتھ میں کیا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا خدا دریاؤں میں مچھلی پیدا کرتا ہے۔ بادشاہوں کے باز ان کا شکار کر کے لاتے ہیں اور بادشاہ مچھلی کو ہاتھ میں چھپا کر ہم اہلبیتؐ کا امتحان لیتا ہے۔ مامون نے کہا بیشک آپ علی رضاؐ کے بیٹے ہیں۔ بادشاہ امامؐ کو اپنے ساتھ لایا اور اپنی بیٹی کا نکاح آپ سے کر دیا۔ لوگوں نے مامون کی مذمت کی کہ ایک بچے سے اپنی بیٹی کا نکاح کیوں کرتے ہو۔ مامون نے اس وقت کے تمام علماٗ کو جمع کیا اور امامؐ سے مناظرہ کرایا۔ امام علیہ السلام نے سب کو لاجواب کر دیا اور سارے زمانے پر آپ کے حکم کا سکتہ بیٹھ گیا۔

امام علی نقیؐ :

آپ کی سخاوت ، عبادت ، اور علم کا شہرہ دور دور تک پھیلا تھا۔ حکومت آپ کے بڑھتے ہوئے اثر سے خوف زدہ رہتی تھی ۔ ایک مرتبہ ایک عورت نے یہ دعویٰ کر دیا کہ میں جناب فاطمہؐ کی بیٹی زینبؐ ہوں۔ غائب ہو گئی تھی اب ظاہر ہوئی ہوں۔ خلیفہ اس کے جھٹلانے سے عاجز تھا۔ آخر مجبور ہو کر امامؐ سے مدد مانگی۔ آپ نے فرمایا کہ جناب فاطمہؐ کی اولاد کو درندے نہیں کھا سکتے لہذا اس عورت کو درندوں کے سامنے ڈال دیا جائے حقیقت معلوم ہو جائےگی۔ اس عورت کے سامنے جب یہ بات پیش کی گئی تو اس نے خود ہی اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار کر لیا۔ لوگوں نے خلیفہ کو مشہور دیا کہ امام علی علیہ السلام بھی تو جناب فاطمہ زہراؐ کی اولاد ہیں ان ہی کے قول کے مطابق ان کو بھی درندوں کے سامنے آنے کے لئے کہا جائے چنانچہ خلیفہ نے آپ کے سامنے یہ بات پیش کی۔ وہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ درندے آپ کو نقصان پہونچائیں گے۔ مگر آپ تیار ہو گئے۔ امامؐ اس مکان میں تشریف کے گئے۔ خلیفہ اپنی چھت سے یہ نظر دیکھ رہا تھا کہ درندے نکلے اور امامؐ کے قدموں پر منھ ملنے لگے۔ سب یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔

۸۰