امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم جلد ۵

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم40%

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 99

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 99 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71695 / ڈاؤنلوڈ: 2749
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

۲ ۔ جب دو مومنوں کی رنجش اور کشیدگی کا دفع کرنا مقصود ہو اور دونوں میں میل جول کرانا چاہے تو ایک طرف سے جھوٹ موٹ ایسی باتیں دوسرے سے کہہ سکتا ہے جن سے باہم ملاپ ہو جائے۔

۳ ۔ جب کسی ایسی جگی ہو کہ اپنے مذہب کے اظہار سے جان یا آبرو کا خوف ہو اور اس کے دفیعہ کی کوئی تدبیر بھی نہ ہو تو حقیقت کو چھپا سکتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ سود کے لئے امام جعفر صادق علیہ السلام نے کیا فرمایا ہے ؟

۲ ۔ سود کے کیا معنی ہیں ؟ اور اس سے انسان کیونکر بچ سکتا ہے ؟

۳ ۔ غیبت کے گناہ کو کون معاف کر سکتا ہے ؟

۴ ۔ کیا غیبت کبھی جائز بھی ہو سکتی ہے ؟

۵ ۔ والدین کے مرنے کے بعد ان کو کس طرح خوش کیا جا سکتا ہے ؟

۶ ۔ جھوٹ میں کیا برائی ہے ؟

۶۱

تیئیسواں سبق

دین و شریعت

جس طرح مکان کے لئے چہاردیواری اور دریا کے لئے گھاٹ ضروری ہے اسی طرح دین کے اصول و قواعد کی حفاظت کے لئے کچھ اعمال و احکام ضروری ہیں جن کے ذریعہ ان اصولوں کو زندہ رکھا جا سکے اور انسانی دماغ سے مٹنے نہ دیا جائے۔ انھیں اعمال و احکام کا نام شریعت ہے۔ عربی زبان میں شریعت کے معنی گھاٹ کے ہیں۔ گھاٹ کا کام یہ ہے کہ دریا کے بہاؤ کو ایک راستے پر لے چلے اور پیاسوں کو دریا سے فائدہ اٹھانے کا راستہ دے۔ شریعت کے احکام کا مقصد یہی ہے ۔ وہ اصول دین کی حفاظت بھی کرتے ہیں اور ان سے فائدہ اٹھانے کا راستہ بھی بتاتے ہیں۔

نماز شریعت کا ایک حکم ہے۔ یہ اپنی نیت سے توحید کی یاد دلاتی ہے۔ سورہ حمد کی تلاوت ۔ خدا کے اوصاف اور قیامت کے عقیدہ کے ساتھ صراط مستقیم پر قائم رہنے کی تعلیم دیتی ہے۔ نماز کی ترکیب نبوت و امامت کو یاد دلاتی ہے جس کے زریعہ یہ نماز ہم تک پہنچی ہے۔

یہ نماز اصول دین اور عقائد کو یاد دلانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ چوبیس گھنٹے میں کئی مرتبہ عقائد کی یاد تازہ کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ عقائد سے فائدہ اٹھانے کا تنہا راستہ عبادت و عمل ہے۔ عمل کے بغیر عقیدہ میں ایمان نہیں پیدا ہوتی ہے جس طرح گھاٹ کے توٹ جانے سے پانی پھیل جاتا ہے اسی طرح اگر اعمال کو چھوڑ دیا گیا تو عقیدہ ایک راستہ پر نہ رہےگا بلکہ انسان نماز کی طرح پوجا پاٹ سے بھی خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرےگا جو بالکل غلط ہے۔

سوالات :

۱ ۔ شریعت کے کیا معنی ہیں اور اس سے کیا مراد ہے ؟

۲ ۔ عمل کے بغیر عقیدہ کیسا ہوتا ہے ؟

۶۲

چوبیسواں سبق

محبت ۔ نفرت

جس طرح اللہ نے دل ۔ دماغ ۔ آنکھ ۔ کان ۔ زبان بہت سی نعمتیں دی ہیں اسی طرح محبت اور نفرت کا خزانہ بھی عطا کیا ہے۔ یہ اللہ کی دی ہوئی نعمتیں ہیں ان کا صحیح طریقہ پر صرف کرنا ہم سب کا فریضہ ہے۔

محبت اور نفرت کا صحیح استعمال یہ ہے کہ نیکی اور نیک افراد سے محبت کی جائے اور برائی اور برے لوگوں سے نفرت کی جائے۔ نیک لوگوں سے نفرت کرنا جتنا بڑا گناہ ہے ۔ برے لوگوں سے محبت کربا بھی اتنا ہی بڑا گناہ ہے۔

ایک مسلمان کا فرض ہے کہ خدا و رسولؐ امامؐ سے بھر پور محبت کرے۔ ان کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھے۔ ان کے ہر حکم پر عمل کرے۔ ان کے دوستوں کو دوست رکھے۔ خدا ، رسول ، امام کی اس محبت کا نام تولا ہے

اسی طرح ہر مسلمان کا فرض ہے کہ خدا ، رسول ، امام کے دشمنوں سے نفرت کرے۔ ان کی عادتوں کے اختیار کرنے سے پرہیز کرے۔ ان کی محبت سے اپنے دل کو خالی رکھے۔ ان کی تعظیم نہ کرے۔ خدا ، رسول ، امام کے دشمنوں سے اسی علحدگی کے اختیار کرنے کا نام تبرا ہے۔

دوست کا دوست ، دوست ہوتا ہے اور دوست کا دشمن ، دشمن ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ ، رسول ، امام کا دوست ان کے دوستوں کو دوست رکھتا ہے۔ اور ان کے دشمنوں سے نفرت رکھتا ہے۔

جس طرح نیک لوگوں سے محبت کرنا واجب ہے اسی طرح نیکی سے محبت کرنا اور بڑائی سے نفرت کرنا بھی ہر شخص کا فرض ہے۔

۶۳

نیکی سے پہلی محبت یہ ہے کہ انسان خود اس کو اختیار کرے اور دوسری محبت یہ ہے کہ دوسروں میں نیکی پھیلانے کی اپنے مکان بھر کو شش کرے۔ نیکی پھیلانے کی کوشش کا نام امر بالمعروف ہے۔

برائی سے پہلی نفرت ہے کہ انسان پہلے اس سے خود پر ہیز کرے اور دوسری نفرت یہ ہے کہ دوسروں کو برائی سے بچانے کی کوشش کی جائے۔ برائی کو پھیلنے سے روکنے کا نام نہیں عن المنکر ہے۔

تولا ۔ تبرا ۔ امر بالمعروف ، نہیں عن المنکر ہر مسلمان پر اسی طرح واجب ہے جس طرح نماز۔ روزہ ہم سب پر واجب ہے۔

سوالات :

۱ ۔ محبت و نفرت کا کیا مطلب ہے ؟

۶۴

پچیسواں سبق

تقیہ

جب کوئی دین والے بےدینوں میں گھر جائے اور دین کے اعلان کرنے کی سورت میں دین دار کی عزت یا جان یا اتنے مال کے نقصان کا خطرہ ہو جس مالی نقصان کے بعد اس کے لئے زندگی بسر کرنے میں سخت دشواریوں کا سامنا ہو تو مذہب کا حکم ہے کہ ایسے موقع پر دین کا اعلان نہ کیا جائے اسی کو تقیہ کہتے ہیں مگر جب تقیہ کرنے کی وجہ سے خود دین کو نقصان پہونچتا ہو یا کسی دوسرے مومن کی عزت یا جان یا مال کا عظیم نقصان ہوتا ہو تو نقصان کرنا حرام ہے۔

تقیہ جھوٹ بولنا نہیں ہے اور نہ تقیہ کرنا خدا اور رسولؐ کی نظر میں بری بات ہے بلکہ جب تقیہ کرنے کا محل اور موقع ہوتا ہے تو تقیہ کرنے کا مذہب حکم دیتا ہے اور خدا اور رسولؐ خوش ہوتے ہیں۔ تقیہ کا حکم خدا اور رسولؐ نے دیا ہے لہذا تقیہ کی مخالفت کرنا یا اس کا مذاق اڑانا خدا اور رسولؐ کی مخالفت کرنا ہے۔ اس سلسلے میں ایک قرانی اور تاریخی واقعہ سناتے ہیں جس سے تقیہ کرنے کا طریقہ بھی معلوم ہا جائے گا اور تقیہ کا جائز ہونا بھی۔

فرعون جس نے خدا ہونے کا دعویٰ کیا تھا ، خود لا ولد تھا اس لئے اس نے اپنے چچا زاد بھائی حزقیل کو اپنا ولیعہد بنایا تھا مگر جناب حزقیل فرعون کو خدا نہیں مانتے تھے بلکہ خدا پر ایمان رکھتے تھے۔ جناب حزقیل کو مومن آل فرعون کہا جاتا ہے۔

۶۵

ایک بار فرعون کے دربار والوں نے جناب حزقیل کی شکایت فرعون سے کی کہ وہ تجھ کو خدا نہیں مانتے۔ اس خبر سے فرعون کو نہت غصہ آیا اور جناب حزقیل کو بلا کر کہا کہ یہ لوگ تمہاری شکایت لائے ہیں کہ تم مجھ کو خدا نہیں مانتے کیا یہ شکایت صحیح ہے۔ جناب حزقیل نے فرمایا کہ جو ان لوگوں کی جان و مال کا مالک ہے وہی میری جان و مال کا مالک ہے جو ان کو رزق دیتا ہے وہی مجھے بھی رزق دیتا ہے اور جو ان کا خدا ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہی میرا بھی خدا ہے اُس کے علاوہ میں کسی دوسرے کو خدا نہیں مانتا۔

فرعون اس جواب سے خوش ہو گیا۔ اس نے سمجھا کہ یہ مجھ کو خدا مانتے ہیں جب کہ جناب حزقیل نے حقیقی خدا کے اقرار کا اعلان فرمایا تھا۔ آپ کی اسی روش اور اچھے عمل کو اللہ تعلیٰ نے پسند فرما کر قرآن پاک میں تعریف کی ہے اور آپ کو مومن آل فرعون کا لقب دیا ہے۔

جناب حزقیل کا ایمان فرعون اور فرعونیوں سے پوشیدہ تھا چنانچہ خدا وند عالم نے فرمایا ہے ۔مومِنٌ ٰالِ فِرعَونَ یَکتُمُ اِیمَانَهُ یعنی فرعون کے خاندان میں ایک مرد مومن تھا جو اپنا ایمان چھپائے تھا۔ رسولؐ کریم نے فرمایا کہ دنیا میں تین صدیق ہیں جن میں سے ایک جناب حزقیل بھی ہیں اور سب سے افضل علی علیہ السلام ہیں۔

اگر تقیہ کرنا ناجائز ہوتا تو جناب حزقیل کی خدا تعریف نہ کرتا۔ اگر تقیہ کرنا جھوٹ بولنا ہوتا تو نبیؐ حزقیل کو صدیق نہ کہتے۔

۶۶

تقیہ کیسے کیا جاتا ہے

یہ بھی جناب حزقیل کے واقعہ سے معلوم ہوا کہ فرعون نے جب حزقیل سے ان کا دین پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ پہلے شکایت کرنے والوں سے ان کا دین پوچھا جائے۔ فرعون نے کہا ان سے تم ہی پوچھ لو۔ جناب حزقیل نے فرعون سے پوچھا تماہارا مالک کون تمہارا رازق تمہارا پیدا کرنے والا اور تمہارا خدا کون ہے۔ فرعون ہر سوال کے جواب میں کہتے رہے فرعون ہے۔ جناب حزقیل نے کہا کہ جو انکا خدا ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے جو ان کا را ز ق اور مالک ہے وہی میرا خدا ہے وہی میرا خالق ر ازق اور مالک ہے۔ یہ سن کر فرعون اور فرعونی مطمئین ہو گئے کہ حزقیل ہمارے دین پر ہیں حالانکہ جناب حزقیل خدا کو اپنا خدا اور مالک و رازق بتا رہے تھے۔ جناب حزقیل جھوٹ نہیں بولے مگر تقیہ کر کے اپنے کو بچا لیا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام نے اس لئے تقیہ نہیں کیا کہ اگر آپ تقیہ کر لیتے تو دین خطرہ میں پر جاتا اور تقیہ دین ہی کے بچانے کے لئے کیا جاتا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ تقیہ کے شرائط کیا ہیں ؟

۲ ۔ تقیہ کب حرام ہے ؟

۳ ۔ جناب حزقیل کا واقعہ کیا ہے ؟

۴ ۔ امام حسینؐ نے تقیہ کیوں نہیں کیا ؟

۶۷

تاریخ

شخصیات

واقعات

۶۸

چھبیسواں سبق

ہمارے ہادی

چودہ معصوم ہمارے ہادی اور رہبر ہیں جنھوں نے بڑی بڑی قربانیاں دے کر دین کو پھیلایا اور بچایا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتے تو آج زمانہ میں دین کا اجالا نہ ہوتا۔ ان کی محبت اور تعظیم ہم سب پر واجب ہے اور ان کے نقش قدم پر چلنا ہم سب کی زندگی کا مقصد ہے۔ ان کی زندگی ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔ ان کی زندگی کے حالات سے واقف اور باخبر ہونا ضروری ہے اس سبق میں ہر معصوم کی زندگی چند واقعات لکھے جاتے ہیں۔

ہمارے رسولؐ :

نبوت کے اعلان سے پہلے بھی تمام لوگ آپ سے محبت کرتے تھے۔ ہر شخص آپ پر بھروسہ کرتا تھا۔عرب جھگڑالو مزاج رکھتے تھے۔ بات بات پر لڑ پڑتے تھے۔ معمولی معمولی باتوں پر چالیس سال جنگ کرتے تھے۔ ہر قبیلہ ہر وقت دوسرےقبیلہ کو نیچا دکھانے کی فکر میں رہتا تھا۔ کوئی قبیلہ دوسرے قبیلہ کی عزت کو بڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مکہ میں جب ہر شخص قبیلہ اور خاندان میں بٹا ہوا تھا اُس وقت بھی ہمارے حضورؐ پورے شہر کی آنکھ کا تارا تھے اور آپ سے تمام قبیلوں کے آدمی یکساں محبت کرتے تھے لوگ آپ کو صادق و امین ، سچا اور امانتدار کہہ کر یاد کرتے تھے۔ خانہ کعبہ کی پرانی عمارت گرا کر نئی بنائی جا رہی تھی۔ ہر قبیلہ کے آدمی اس تعمیر میں حصہ لے رہے تھے اور قبیلہ مطمئن تھا کہ خانہ کعبہ کی عمارت بنانے کا شرف ہم سب کو ملا۔

۶۹

حجر اسود ایک پتھر ہے جسے بحکم خدا جبرئیلؐ آسمان سے لائے تھے اور وہ خانہ کعبہ کی ایک دیوار میں نصب تھا۔ کعبہ کی نئی عمارت بننے کے بعد جب حجر اسود دوبارہ اس کی جگہ پر نصب کرنے کا وقت آیا تو ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ شرف اور عزت ہم کو مل جائے۔

چنانچہ اس سوال پر کہ حجر اسود کون نصب کرے لوگوں کی تلواریں نکل آئیں۔ تھوڑی دیر پہلے جو لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کر رہے تھے وہ اب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ صورت حال بےحد خطرناک ہو گئی اور ہر آن خطرہ تھا کہ جنگ کی چنگاری اڑے اور سارے مکہ کو جلا کر خاک کر دے۔

کچھ سمجھدار لوگوں نے رائے دی کہ آج حجراسود کو نصب نہ کیا جائے بلکہ کل پھر ہم لوگ یہاں جمع ہوں اور جو شخص سب سے پہلے ہماری طرف آتا دکھائی دے اس کو ہم اپنے جھگڑے کا حکم مان لیں اور جو فیصلہ وہ کر دے اسے سب منظور کر لیں۔ یہ رائے پسند کی گئی رات بھر کے لئے تلواریں نیام میں چلی گئیں۔ دوسرے سب لوگ وعدہ کے مطابق جمع ہو گئے۔ دور سے ایک شخص آتا ہوا دکھائی دیا سب کی نظریں آنے والے پر جمی ہوئی تھیں۔ قریب آنے پر معلوم ہوا کہ آنے والے ہمارے نبیؐ تھے۔ آپ کو دیکھ کر مجمع خوشی سے جھوم اٹھا ۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا آپ سے بہتر فیصلہ کرنے والا نہیں مل سکتا۔ حضورؐ نے فیصلہ بھی ایسا فرمایا کہ سب کے دل باغ باغ ہو گئے۔ آپ نے ایک چادر منگائی چادر میں حجراسود رکھا اور ہر قبیلہ کے ایک ایک آدمی کو بلا کر کہا کہ سب مل کر چادر اٹھاؤ۔ سب نے مل کر چادر کو اٹھایا ۔ آخر میں حضور نے چادر سے اٹھا کر حجراسود کو اس کی جگہ پر رکھ دیا سارا مجمع آپ کے گن گاتا ہوا اپنے گھروں کو واپس ہو گیا۔

۷۰

جناب فاطمہ زہراؐ :

آپ عورتوں کے لئے نمونہ عمل بن کر آئی تھیں جناب فضہ آپ کی کنیز تھیں مگر ہماری شہزادی نے ان کو گھر کا برابر کا درجہ دیا تھا۔ ایک دن خود کام کرتی تھیں اور ایک دن فضہ سے کام لیتیں تھیں۔ اہلبیتؐ کے گھر میں غلام اور آقا کنیز اور مالکہ میں فرق نہیں تھا۔ آپ کے در سے کبھی کوئی سائل خالی ہاتھ واپس نہیں ہوا۔ شادی کے بعد جب آپ باپ کے گھر سے رخصت ہو کر شوہر کے گھر آئیں تو دوسرے دن صبح کو حضورؐ اپنی بیٹی سے ملنے کے لئے حضرت علیؐ کے گھر آئے۔ حضورؐ نے دیکھا کہ جناب فاطمہؐ کے جسم پر شسدی کے جوڑے کے بجائے پرانا لباس ہے۔ دریافت فرمایا بیٹی یہ کیا ہے آپ نے فرمایا کہ ایک غریب عورت لباس مانگنے آئی میں نے اسے دیدیا حضور نے فرمایا کہ پرانا لباس کیوں نہ دیدیا۔ عرض کی شادی کا جوڑا مجھے پسند تھا اور خدا نے فرمایا ہے کہ راہ خدا میں ہمیشہ اپنی پسندیدہ اور محبوب چیز دینا چاہئے۔ اس لئے پرانا لباس میں نے پہن لیا اور شادی کے کپڑے راہ خدا میں دیدئے۔

ایک بار حضورؐ بیٹی سے ملنے آئے ۔ آپ کے ساتھ آپ کے نابینا صحابی عبداللہ ابن مکتوم بھی تھے۔ آپ نے گھر میں آنے کی اجازت طلب کی تو جناب فاطمہ زہراؐ نے کہا کہ بابا پہلے میں پردہ کر لوں تب تشریف لائین کیونکہ آپ کے ساتھ آپ کے صحابی بھی ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا مگر وہ تو نابینا ہیں۔ شہزادیؐ نے عرض کی مگر میں تو ان کو دیکھ سکتی ہوں۔ اس جواب پر حضورؐ نے خوش ہو کر شاھزادیؐ کو دعائیں دیں اور فرمایا میری بیٹی میری نبوت کا ایک حصہ ہے۔

۷۱

حضرت علیؐ :

آپ بہت بہادر تھے۔ بڑے بڑے سوما آپ کا نام سن کر لرز جاتے تھے۔ آپ نے کئی من وزنی دروازہ جنگ خیبر میں اکھاڑ کر اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیا تھا۔ آپ کبھی خوف زدہ نہیں ہوتے تھے۔ مشکلوں میں گھبرانا آپ جانتے ہی نہ تھے۔ ہر جنگ آپ کے ہاتھ پر فتح ہوئی تھی۔

بہادر وہی ہوتا ہے جو گھبراتا نہیں۔ دینا میں ایسے بہت سے بہادر گزرے ہیں جنھوں نے بڑے بڑے پہلوانوں کو پچھاڑ دیا ہے۔ مگر ایسے بہادر بہت کم گزرے ہیں جو اپنے نفس کو پچھاڑ دیتے ہوں اپنی خواہشوں کو زیر کر لیتے ہوں۔ اپنے تمناؤں سے جنگ کر لیتے ہوں۔ دشمن سے تلوار لے کر لڑنا چھوٹا جہاد ہے اور دل کی خوایہشوں سے جنگ کرنا جہاد اکبر ہے آؤ تم کو حضرت علیؐ کی زندگی کا ایک ایسا واقعہ سنائیں جہاں آپ نے جہاد اکبر اور جہاد اصغر دونوں ایک ساتھ کئے۔

خندق کی جنگ تیسری اسلامی لڑائی ہے۔ اسلام اور نبی کا دشمن مکہ سے چل کر مدینہ کی سرحد تک آ چکا ہے۔ مسلمانوں نے میدان جنگ میں اپنی حفاظت کے لئے خندق کھودی ہے۔ خندق کی وجہ سے دشمن مدینہ میں داخل نہیں ہو سکا۔ خندق کے دونوں طرف دونوں فوجیں آمنے سامنے پڑاؤ ڈالے پڑی ہیں۔ مکہ کا کافر لشکر اپنے ساتھ عرب کا سب سے مشہور پہلوان لایا ہے۔ عربوں کے خیال میں عمرو بن عبدود سے بڑا پہلوان اور بہادر دنیا میں کوئی نہ تھا۔ عمرو کے مقابلہ پر آنے کی ہمت سوائے حضرت علیؐ کے کسی نے نہیں کی مکہ والے اپنے پہلوان کی فتح پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی اس یقین میں انکے ساتھ شریک تھی مگر دونوں لشکر حیرت میں پڑ گئے جب انھوں نے عمرو کے سینہ پر حضرت علیؐ کو بیٹھا دیکھا۔

۷۲

حضرت علیؐ عمرو کو قتل کرنا چاہتے تھے کہ عمرو نے اپنی ہار سے کھسیاکر حضرت پر تھوک دیا۔ اس کی نازیبا حرکت کے بعد فوراً ہی آپ اس کے سینہ سے اُتر آئے۔ جب لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ ایسے زبردست دشمن پر قابو پا کر اس کو آپ نے کیوں چھوڑ دیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ اس کے تھوکنے پر مجھے غصۃ آ گیا تھا۔ میں اس دشمن خدا کو صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے قتل کرنا چاہتا تھا۔ اگر غصہ میں قتل کر دیتا تو جہاد میں وہ خلوص نہ وہ جاتا لہذا میں عمرو کے سینے سے اتر کر پہلے اپنے غصہ سے لڑا اس کے بعد عمرو کو پھر پچھاڑا اور اس کا سر قلم کیا۔ حضورؐ نے اس موقع پر ایک حدیث ارشاد فرمائی تھی کہ " خندق کے دن علیؐ کی تلوار کا ایک وار دونوں جہاں کی عبادت سے افضل ہے۔ "

امام حسنؐ :

آپ بڑے عبادت گزار بہادر اور حلیم تھے۔ آپ کی سخاوت اور خیرات مشہور ہے۔ دو مرتبہ آپ نے اپنے کل مال کا آدھا آدھا حصہ راہ خدا میں لٹا دیا۔ امیر شام آپ کے سخت دشمن تھے۔ آپ کی سخاوت کا شہرہ سن کر دل میں جلتے رہتے تھے۔ ایک بار امیر شام نے آپ کو خط میں زیادہ خیرات کرنے سے روکتے ہوئے لکھا۔ " فضول خرچی میں بھلائی نہیں ہے ۔" آپ نے جواب میں امیر شام کا جملہ الٹ دیا اور اس کو لکھا ۔ " خیرات فضول خرچی نہیں ہے۔"

آپ کی سخاوت کو دیکھ کر کسی نے آپ کو مشورہ دیا کہ خیرات و سخاوت کم کیجئے۔ آنے والے کسی سخت وقت کے لئے مال و دولت بچا کر رکھئے۔ آپ نے فرمایا تمہارا مشورہ غلط ہے کیوں کہ اب تک اللہ مجھے دیتا ہے میں اس کے بندوں کو دیتا ہوں اگر میں اپنی عادت بدل دوں اور خدا کے بندوں کو عطئے دینا بند کروں تو یہ بھی ممکن ہے کہ خدا بھی اپنی عادت بدلے اور مجھے رزق دینا بند کر دے۔

۷۳

آپ نے مسلمانوں میں خونریزی بند کرنے کے لئے امیر شام سے صلح کر لی جبکہ آپ کے بہت سے جوشیلے ساتھیوں کو صلح ناپسند تھی مگر آپ نے فرمایا موجودہ حالت میں جنگ کرنا خودکسی ہے۔ ایمان کی حفاظت کے لئے اس وقت صلح کرنا ضروری ہے۔ آپ صلح پر آخر تک قائم رہے اور لوگوں کی مذمت اور ملامت کی کوئی پرواہ نہیں کی جو لوگوں کی تنقید سے ڈر کر راستہ بدل دے وہ بزول ہے۔ بہادر وہی ہے جو حق کا راستہ نہ چھوڑے اور لوگوں کی رائے سے ڈر کر سچ سے منہ نہ موڑے۔

امام حسینؐ :

ہم آپ چاہے غلطی کو دیکھ کر خاموش رہیں لیکن ہادی اور امام کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ غلطی دیکھ کر آگے بڑھ جائے۔ امام حسنؐ امام حسینؐ بچپن میں ایک دن مدینہ کی کسی گلی سے گزر رہے تھے۔ رستہ میں ایک بوڑھا آدمی غلط وضو کر رہا تھا۔ اس کے غلط وضو کو دیکھ کر دونوں شاہزادے رک گئے اور فرمایا کہ ہم دونوں وضو کرتے ہیں آپ دیکھ کر بتائیں کہ کس کا وضو غلط ہے۔ بوڑھا دونوں کو وضو کرتا دیکھتا رہا۔ جب دونوں کے وضو ختم ہو گئے اور بوڑھے نے دیکھا کہ دونوں نے ایک وضو کیا تو سمجھ گیا کہ شاہزادے میرے غلط وضو کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ بڑے ادب سے بولا شاہزادو ! میں ہمیشہ تمہارا شکر گزار رہوںگا کہ بڑھاپے میں تم نے میرے وضو کو درست کر دیا۔

۷۴

جب امام حسینؐ ایک شخص کے غلط وضو کو دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتے تھے اور جب تک اس کی اصلاح نہ کر لی آگے نہیں بڑھے تو جب دین کو یزید مٹا دینا چاہتا تھا تو کیوں کر ممکن تھا کہ آپ خاموش بیٹھے رہتے۔ آپ یزید کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اس راہ میں آپ کو عظیم مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سارے ساتھی ، پورا کنبہ بھوکا پیاسا فرات کے کنارے شہید ہو گیا جو بچ رہے تھے وہ قیدوبند کی سخت ترین تکلیفیں جھیلتے رہے مگر آپ نے ہدایت کے لئے سب کچھ برداشت کر لیا۔ یزید ختم ہو گیا یزیدیت اپنی موت مر گئی۔ اسلام زندہ ہو گیا اور حسین کا ذکر عام ہو گیا۔

امام زین العابدینؐ :

آپ بڑے عبادت گزار تھے۔ اتنی نمازیں پڑھتے تھے کہ پیروں پر ورم آ جاتا تھا۔ سجدوں کی کثرت سے پیشانی اور سجدہ میں زمین پر ٹکنے والے دوسرے اعضا پر گھٹے پڑ جاتے تھے جو تراشے جاتے تھے۔ آپ نے اتنی عبادت کی تھی کہ سجدہ کے گٹھوں کے تراشنے سے دو تھیلیاں بھر گئی تھیں۔ آپ راتوں کو پوشیدہ طور پر مدینہ کے غریب گھروں میں کھانے کا سامان اپنی پیٹھ پر لاد کر پہونچایا کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ کی پیٹھ پر سخت گٹھا پڑ گیا تھا۔

جن غریبوں تک سامان پہونچایا کرتے تھے ان کو معلوم بھی نہ تھا کہ کون اللہ کا بندہ ان کی خبر گیری کرتا ہے۔ جب آپ کی شہادت ہو گئی اور سامان کا آنا بند ہو گیا تب لوگوں کو پتہ چلا کی غریبوں کی غائبانہ مدد کرنے والے امام زین العابدین علیہ السلام تھے۔

۷۵

صحیفہ کاملہ آپ کی دعاؤں کا مجموعہ ہے جسے زبور آل محمدؐ بھی کہا جاتا ہے۔

امام محمد باقرؐ :

آپ واقعہ کربلا موجود تھے۔ اس وقت آپ کا سن پانچ برس کا تھا سب کے ساتھ آپ قیدی بنا کر کوفہ اور دمشق لے جائے گئے۔

جب یزید نے امام زین العابدین علیہ السلام کے قتل کا حکم دیا تو آپ نے فرمایا کہ جناب موسیٰ بھی معصوم تھے اور میرے باپ بھی معصوم ہیں فرعون جناب موسیٰ کو قتل کرنے پر راضی نہیں ہوا نہ اس کے درباری اس بات پر راضی تھے کیونکہ وہ ناجائز اولاد نہیں تھے لیکن اے یزید تو اور تیرے درباری معصوم کے قتل کرنے پر اس لئے راضی اور تیار ہیں کہ تم سب ناجائز اولاد ہو اس لئے کہ صرف ایسے ہی لوگ معصوم کے قتل کرنے پر راضی ہو سکتے ہیں جو ناجائز اولاد ہوں۔ یزید یہ سن کر خاموش ہو گیا اور اس نے قتل کا ظالمانہ حکم واپس لےلیا۔

آپ کے سامنے ایک بار ایک شخص نے ایک کافر کی میت کی کھوپڑی پیش کر کے سوال کیا کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ کافر پر مرنے کے بعدعذاب ہوتا ہے مگر یہ عقیدہ غلط ہے کیونکہ یہ کافر کی کھوپڑی ہے مگر نہ جل رہی ہے نہ اس پر عذاب ہو رہا ہے۔ امامؐ نے چقماق کے دو پتھر منگوائے۔ چقماق اس پتھر کو کہتے ہیں جن کے ٹکرانے سے آگ پیدا ہو جاتی ہے۔ پہلے لوگ چقماق ہی سے دیا سلائی کے بجائے آگ جلایا کرتے تھے۔ غرض کہ امامؐ نے پتھر منگا کر اس شخص کو دئے اور کہا ان کو ایک دوسرے سے ٹکراؤ جب ٹکرانے پر آگ نکلی تو آپ نے فرمایا بتاؤ پتھر گرم ہے یا نہیں۔ اس نے کہا پتھر تو ٹھنڈا ہے۔ امامؐ نے فرمایا جو خدا اس پر قادر رہے کہ اس پتھر کو ٹھنڈا رکھے مگر اس کے اندر آگ بھ دے وہ خدا اس پر بھی قادر ہے کہ یہ کھوپڑی اوپر سے ٹھنڈی رہے مگر اس کے اندر عذاب کی آگ بھری ہو۔ آپ کا جواب سن کر وہ مطمئین ہو گیا۔

۷۶

امام جعفر صادقؐ :

آپ کے زمانہ میں علم دین کا چرچہ خوب پھیلا پورے ملک سے علماٗ سمٹ کر مدینہ آ گئے تھے چار ہزار آدمی ہر وقت قلم دوات لئے تیار رہتے تھے کہ جب بھی آپ کچھ فرمائیں وہ لوگ اُسے لکھ لیں۔

آپ کے زمانہ میں بنی امیہ کی حکومت ختم ہوئی اور بنی عباس کی حکومت قائم ہوئی۔ بنی عباس نے لوگوں کو امام حسینؐ کے خون ناحق کے نام پر بنی امیہ کے خلاف ابھارا تھا اس زمانہ میں جب لوگ اہلبیتؐ کی محبت کا چرچا کیا کرتے تھے خراسان کا ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا جب آپ کی حمایت و مدد کرنے والے صرف خراسان میں ایک لاکھ موجود ہیں تو اپنا حکومت کا حق کیوں نہیں حاصل کر لیتے۔ یہ سن کر آپ نے اس شخص سے کہا کہ بھڑکتے ہوئے تنور میں کود جاؤ۔ وہ شخص یہ سنکر لرز اٹھا اور التجا کرنے لگا کہ آپ اپنا حکم واپس لے لیں۔ اُسی وقت جناب ہارون مکی امام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے ہارون مکی سے بھی تنور میں کود جانے کے لئے کہا اور ہارون فوراً کود گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ اس شخص کو لیکر تنور تک قریب آئے۔ سب نے دیکھا ہارون تنور میں بیٹھے ہوئے ذکر خدا کر رہے ہیں اور آگ بالکل نقصان نہ پہونچا سکی۔

امام علیہ السلام نے اس شخص سے دریافت فرمایا ۔" بتاؤ خراسان میں ایسے ماننے والے کتنے ہیں " اس نے کہا ایک بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا آیندہ کبھی اپنے امام کو مشورہ نہ دینا۔

۷۷

امام مویٰ کاظمؐ :

آپ بہت حلیم اور بردبار تھے۔ ایک بار ایک کنیز کے ہاتھ سے گرم سالن کا پیالہ چھوٹ کر آپ کے اوپر گر پڑا۔ کنیز خوف زدہ ہو گئی اور اس نے برحبستہ قرآن مجید کا ایک فقرہ پڑھا جس میں ان لوگوں کی مدح خدا نے کی ہے جو غصہ ضبط کرتے ہیں امام علیہ السلام نے سن کر فرمایا میں نے غصہ کو ضبط کیا۔ پھر کنیز نے آیت کا وہ حصہ پڑھا جس میں خدا نے معاف کرنے والوں کی تعریف کی ہے۔ امام نے فرمایا میں نے تجھے معاف کیا۔ کنیز نے آخر میں آیت کا وہ حصہ پڑھا جس میں اللہ نے کہا ہے کہ میں ان لوگوں کو دوست رکھتا ہوں جو احسان کرتے ہیں۔ امام علیہ السلام نے یہ سن کر اس کنیز کو آزاد فرما دیا۔ آپ حلم میں اتنا مشہور ہوئے کہ کاظم آپ کا لقب پر گیا۔

امام علی رضاؐ :

آپ کے زمانہ میں شیعہ مذہب نے بہت ترقی کی۔ حکومت آپ سے ڈرتی تھی۔ جب مامون نے جو اس وقت خلیفہ تھا آپ کو دار الحکومت میں طلب کیا تو راستہ میں آپ بہت سے مقامات سے گزرے۔ ہر جگہ لوگ جوق در جوق آپ کی زیارت کے لئے جمع تھے اور آپ سے دین کی باتیں پوچھتے تھے۔ اس سفر میں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک شخص ابو جیب نے خواب دیکھا کہ رسولؐ خدا ان کی بستی میں تشریف لائے ہیں۔ ابو جیب مشتاق زیارت ہو کر حضور کی قیام گاہ کا پتہ پوچھتے ہوئے نکلے۔ ان کو معلوم ہوا کہ حضورؐ اس مسجد میں ہیں جہاں حاجی اترتے ہیں۔ ابو جیب نے مسجد میں جا کر دیکھا۔ حضورؐ مسجد کی ایک محراب میں تشریف فرما ہیں۔

۷۸

ابو جیب نے سلام کیا حضورؐ نے جواب سلام دے کر ایک مٹھی کھجوریں ابو جیب کو دیدیں جو اٹھارہ تھیں۔ ابو جیب نے اس خواب کی تعمیر یہ سمجھی کہ ان کی عمر میں اٹھارہ سال باقی ہیں۔ اس کے بعد امام رضا علیہ السلام ان کی بستی سے گزرے۔ ابو جیب مشتاق زیارت ہو کر نکلے تو امام کو اسی مسجد میں اُسی جگہ بیٹھتے دیکھا جہاں حضورؐ کو بیٹھے دیکھا تھا۔ امامؐ کے سامنے بھی ایک طبق میں خرمے رکھے تھے۔ ابوجیب نے سلام کیا۔ امامؐ نے سلام کا جواب دے کر ایک مٹھی خرمے دیدئے۔ ابوجیب نے جب اُنکو گنا تو وہ بھی اٹھارہ خرمے تھے۔ ابو جیب نے کہا مولاؐ کچھ اور بھی مرحمت فرمائے۔ امام علیہ السلام نے جواب دیا اگر میرے جد نے زیادہ خرمے دئے ہو تو میں بھی زیادہ دیتا۔

امام محمد تقیؐ :

آپ کے علم کا رعب و دبدبہ بچپنے سے ہی سب پر قادر ہو گیا تھا۔ ایک مرتبہ آپ بغداد کے ایک راستہ پر کھڑے تھے اور آپ کے علاوہ بچے کھیل رہے تھے۔ اس راستہ سے مامون بادشاہ عباسی کی سواری گزری، بادشاہ کی سواری دیکھ کر تمام بچے بھاگ گئے مگر آپ اپنی جگہ پر نہایت اطمینان سے کھڑے رہے۔ مامون کو امام علیہ السلام کا یہ اطمینان دیکھ کر بہت تعجب ہوا۔ اس نے آپ سے بچوں کے ساتھ نہ بھاگنے اور کھڑے رہنے کی وجہ پوچھی۔ آپ نے فرمایا کہ رستہ کشادہ تھا اس لئے ہٹنے کی ضرورت نہ تھی۔ میں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے خوف زدہ ہو کر بھاگ جاتا اور تو بے سبب مجھے ستائےگا یہ بدگمانی میں نے تیری طرف سے نہیں کی۔ پھر کیوں چلا جاتا اور کھڑا نہ رہتا مامون کو آپ کی گفتگو سن کربےحد تعجب ہوا اس نے آپ کا نام پوچھا آپ نے فرمایا میں امام علی رضاؐ کا بیٹا محمدؐ ہوں۔

۷۹

جب مامون اسی راستے سے واپس ہوا تو امام بھی اسی راستہ پر پہلے کی طرح کھڑے رہے اور تمام بچے بھاگ گئے۔ مامون نے مٹھی بند کر کے پوچھا بتاؤ میرے ہاتھ میں کیا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا خدا دریاؤں میں مچھلی پیدا کرتا ہے۔ بادشاہوں کے باز ان کا شکار کر کے لاتے ہیں اور بادشاہ مچھلی کو ہاتھ میں چھپا کر ہم اہلبیتؐ کا امتحان لیتا ہے۔ مامون نے کہا بیشک آپ علی رضاؐ کے بیٹے ہیں۔ بادشاہ امامؐ کو اپنے ساتھ لایا اور اپنی بیٹی کا نکاح آپ سے کر دیا۔ لوگوں نے مامون کی مذمت کی کہ ایک بچے سے اپنی بیٹی کا نکاح کیوں کرتے ہو۔ مامون نے اس وقت کے تمام علماٗ کو جمع کیا اور امامؐ سے مناظرہ کرایا۔ امام علیہ السلام نے سب کو لاجواب کر دیا اور سارے زمانے پر آپ کے حکم کا سکتہ بیٹھ گیا۔

امام علی نقیؐ :

آپ کی سخاوت ، عبادت ، اور علم کا شہرہ دور دور تک پھیلا تھا۔ حکومت آپ کے بڑھتے ہوئے اثر سے خوف زدہ رہتی تھی ۔ ایک مرتبہ ایک عورت نے یہ دعویٰ کر دیا کہ میں جناب فاطمہؐ کی بیٹی زینبؐ ہوں۔ غائب ہو گئی تھی اب ظاہر ہوئی ہوں۔ خلیفہ اس کے جھٹلانے سے عاجز تھا۔ آخر مجبور ہو کر امامؐ سے مدد مانگی۔ آپ نے فرمایا کہ جناب فاطمہؐ کی اولاد کو درندے نہیں کھا سکتے لہذا اس عورت کو درندوں کے سامنے ڈال دیا جائے حقیقت معلوم ہو جائےگی۔ اس عورت کے سامنے جب یہ بات پیش کی گئی تو اس نے خود ہی اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار کر لیا۔ لوگوں نے خلیفہ کو مشہور دیا کہ امام علی علیہ السلام بھی تو جناب فاطمہ زہراؐ کی اولاد ہیں ان ہی کے قول کے مطابق ان کو بھی درندوں کے سامنے آنے کے لئے کہا جائے چنانچہ خلیفہ نے آپ کے سامنے یہ بات پیش کی۔ وہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ درندے آپ کو نقصان پہونچائیں گے۔ مگر آپ تیار ہو گئے۔ امامؐ اس مکان میں تشریف کے گئے۔ خلیفہ اپنی چھت سے یہ نظر دیکھ رہا تھا کہ درندے نکلے اور امامؐ کے قدموں پر منھ ملنے لگے۔ سب یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔

۸۰

جوں جوں انسان کی آگاہی کا درجہ بڑھتا جاتا ہے‘ اس کی حیات اور جانداری کا درجہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ زیربحث ”خود شناسی“، ”شناختی کارڈ“ والی خود شناسی نہیں ہے‘ جس میں لکھا ہوتا ہے کہ میرا نام کیا ہے؟ میرے ماں باپ کا نام کیا ہے؟ میری جائے پیدائش کون سی ہے؟ اور میری سکونت کہاں ہے؟ اور اسی طرح سے زیربحث ”خود شناسی“ حیاتیات کی شناخت بھی نہیں ہے جو حیوانات کی شناخت میں انسان کو ریچھ یا بندر سے بالاتر درجے کا ایک حیوان قرار دے۔

اس مقصد کی مزید وضاحت کے لئے ہم یہاں ”حقیقی خود شناسی“ کی اقسام مختصراً بیان کرتے ہیں‘ مجازی خود آگاہی سے قطع نظر خود شناسی کی چند اقسام ہیں:

1 ۔ فطری خود شناسی

انسان ذاتاً خود شناس ہے‘ یعنی اس کی ذات کا جوہر ہی آگاہی ہے‘ لیکن ایسا نہیں ہے کہ پہلے انسان کا جوہر ذات وجود میں آئے اور اس کے بعد انسان اس سے آگاہ ہو‘ بلکہ اس کے جوہر ذات کی پیدائش ہی اس کی خود آگاہی کی پیدائش ہے اور اس مرحلے میں آگاہ ”آگاہی“ اور درجہ آگاہی میں آیا ہوا‘ تینوں ایک ہی چیز ہیں۔ جوہر ذات وہ حقیقت ہے جو عین خود آگاہی ہے۔

دوسری چیزوں سے کم و بیش آگاہی کے بعد والے مراحل میں اپنے بارے میں بھی اسے اسی طرح سے آگاہی حاصل ہوتی ہے یعنی اپنے بارے میں انسان ذہن میں ایک تصور قائم کر لیتا ہے اور اصطلاحی الفاظ میں علم حصولی کے ذریعے خود سے آگاہ ہوتا ہے‘ لیکن اس طرح کی آگاہی سے قبل بلکہ ہر طرح کی دوسری چیزوں کی شناخت سے قبل اپنے بارے میں وہ علم حضوری رکھتا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔

۸۱

ماہرین نفسیات عموماً خود شناسی کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں‘ ان کے پیش نظر دوسرا مرحلہ ہوتا ہے یعنی علم حصولی اور ذہنی کے ذریعے خود شناسی لیکن فلاسفہ کی نظر زیادہ تر علم حضوری کے مرحلے پر ہوتی ہے نہ علم ذہنی پر۔ شناخت کی یہ قسم وہی ہے جو فلسفہ میں تجردد نفس کی مضبوط ترین دلیل کے طور بیان کی جاتی ہے۔

اس قسم کی خود شناسی میں اس طرح کے شک و تردد کی گنجائش نہیں ہوتی کہ میں موجود ہوں یا نہیں؟ اور اگر موجود ہوں تو کون ہوں؟ شک و تردید کی گنجائش وہاں ہوتی ہے‘ جہاں شناخت علم حصولی کا نتیجہ ہو یعنی شناخت شدہ شے کا عینی وجود اور شناخت کا عینی وجود دو مختلف چیزیں ہوں۔

لیکن جہاں شناخت‘ شناخت کنندہ اور شناخت شدہ تینوں ایک ہی چیز ہوں تو یہ شناخت حضوری ہو گی جس میں شک و تردد کو فرض نہیں کیا جا سکتا یعنی شک کا واقع ہونا وہاں وہاں محال ہے۔

ڈیکارٹ کی بنیادی غلطی ہی یہی ہے کہ اس نے اس بات پر توجہ ہی نہیں کی کہ ”میں ہوں“ شک و تردد سے مبرا ہے جو ہم ”شک“ کو ”میں سوچتا ہوں“ سے دور کریں۔

فطری خود شناسی اگرچہ ایک واقعیت ہے لیکن اکتسابی اور حصولی نہیں ہے بلکہ وجود انسان کی ذات کا ایک پرتو اور عکس ہے۔ اسی لئے وہ خود شناسی جس کی دعوت دی گئی ہے‘ خود شناسی کا ایسا درجہ نہیں جو فطرت کی حرکت جوہری کے نتیجے میں تکوینی اور قہری طور پر وجود میں آتی ہے۔ جہاں پر قرآن حکیم نے رحم مادر میں بچے کی خلقت کے تین مراحل بیان کرتے ہوئے آخری مرحلے کے بارے میں فرمایا:

۸۲

ثم انشاء ناه خلقاً آخر (سورئہ مومنون‘ آیت 14)

”پھر ہم نے اسے ایک اور چیز سے اور ایک اور خلقت سے کر دیا۔“

اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ مادہ انجانے طور پر خود شناس روحی جوہر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

2 ۔ فلسفی خود شناسی

فلسفی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ”ذات خود شناس“ کی حقیقت کو پہچانے کہ وہ کیا ہے؟ آیا وہ ”جوہر“ ہے یا ”عرض“؟ وہ مجرد ہے یا مادی؟ اس کا جسم سے کیا تعلق ہے؟ کیا وہ جسم سے پہلے موجود تھا‘ یا جسم کے ساتھ وجود میں آیا؟ یا خود جسم سے نکلا ہے؟ کیا وہ فنائے جسم کے بعد بھی باقی رہتا ہے یا نہیں؟ اور اس طرح کے اور سوالات۔

خود شناسی کی اس سطح پر جو سوال پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ خود اور ذات کی ماہیت اور حقیقت کیا ہے؟ وہ کیا ہے اور کس جنگ سے ہے؟ اگر فلسفی ”خود شناسی“ کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات کی ماہیت‘ جوہر اور جنس کو پہچانتا ہے۔

۸۳

3 ۔ دنیوی خود شناسی

یعنی انسان کے دنیا سے تعلق کی شناخت کہ میں کہاں سے آیا ہوں؟ کہاں ہوں؟ اور کہاں جا رہا ہوں؟ اس ”خود شناسی“ سے اس پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ وہ اس ”کل“ کا ایک ”جزو“ ہے جس کا نام ”دنیا“ ہے وہ جانتا ہے کہ وہ خود کسی مستقل حیثیت کا ملک نہیں بلکہ وہ کسی دوسری چیز سے ملحق ہے۔ وہ اپنی مرضی سے نہ خود وجود میں آیا ہے اور نہ ہی زندگی بسر کر رہا ہے البتہ وہ یہ چاہتا ہے کہ اپنے اس ”جزو“ کو اس ”کل“ میں معین کر دے۔

حضرت علی 1  کے اس پرمغز کلام سے اس قسم کی خود شناسی کی عکاسی ہوتی ہے:

رحم الله امرء علم من این؟ وفی این؟ والی این؟

”خدا اس پر رحمت کرے جو یہ جان لے کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟ وہ کہاں ہے؟ اور کہاں جا رہا ہے؟“

اس طرح کی ”خود شناسی“ انسان میں ایک لطیف ترین اور باعظمت ترین درد پیدا کرتی ہے‘ جو اس کائنات کی دوسری ذی روح چیزوں میں نہیں پایا جاتا اور وہ درد ہے ”حقیقت رکھنے“ کا درد اور یہی وہ خود شناسی ہے جو ان کو حقیقت کا پیاسا اور یقین کا متلاشی بناتی ہے‘ شک و تردد کی آگ اس کی روح میں روشن کرتی ہے‘ اس کو ادھر سے ادھر کھینچتی ہے اور یہ وہی آگ ہے جو امام غزالی(سچی کہانیاں) جیسے انسان کی روح میں روشن ہوتی ہے‘ جس سے ان کی بھوک اور نیند اڑ جاتی ہے‘ ان کو نظامیہ کی مسند سے نیچے کھینچ لاتی اور بیابانوں میں آوارہ کرتی ہے اور سالہا سال تک عالم غربت اور بے وطنی میں تدبر اور تفکر میں مصروف رکھتی ہے۔

یہ وہی آگ ہے جو ”عنوان بصری“(سچی کہانیاں) جیسے انسانوں کو حقیقت کی تلاش میں شہر شہر اور کوچہ کوچہ گھومنے پر مجبور کر دیتی ہے اس طرح کی خود شناسی انسان میں تقدیر کا خیال پیدا کرتی ہے۔

۸۴

4 ۔ طبقاتی خود شناسی

یہ خود شناسی ”اجتماعی خود شناسی“ کی مختلف صورتوں میں سے ایک ہے۔ طبقاتی خود شناسی یعنی معاشرے کے مختلف طبقات سے اپنے تعلق کی شناخت جن کے ساتھ وہ زندگی بسر کرتا ہے‘ طبقاتی معاشروں میں ہر فرد کی ایک خاص ٹولی ہے اور ایک خاص طبقہ میں کامیاب یا ناکام زندگی بسر کرتا ہے‘ طبقاتی مقام اور طبقاتی ذمہ داریوں کی پہچان طبقاتی ”خود شناسی“ ہے۔

بعض نظریات کی رو سے انسان کا اس طبقے سے باہر کوئی ”خود“ موجود نہیں جس میں وہ ہے‘ ہر شخص کی ذات‘ اس کا ضمیر ہے اور اس کے احساسات‘ افکار‘ آلام اور میلانات کا مجموعہ ہیں اور یہ سب طبقاتی زندگی میں پیدا ہوتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اس گروہ کے نزدیک نوع انسان کی کوئی ذات نہیں ہوتی وہ ایک انتزاع شدہ انسان ہے نہ عینی انسان‘ کیوں کہ عینی انسان تو طبقے میں معین ہو جاتا ہے‘ انسان موجود نہیں ہوتا بلکہ یا اشراف ہوتے ہیں یا عوام‘ لہٰذا ایک غیر طبقاتی معاشرے میں اجتماعی خود شناسی‘ طبقاتی خود شناسی پر منحصر ہے۔

اس نظریے کے مطابق ”طبقاتی خود شناسی“، ”نفع شناسی“ کے مساوی ہے‘ کیوں کہ اس کی بنیاد یہ فلسفہ ہے کہ ”فرد“ پر اصل حاکم اور فرد کی شخصیت کی بنیاد ”مادی منافع“ ہے جس طرح سے معاشرے کی عمارت میں اس کی بنیاد اقتصاد ہے اور جو چیز ایک طبقے کے افراد کو مشترک ضمیر‘ مشترک ذوق اور مشترک فیصلہ دیتی ہے وہ مشترک مادی زندگی اور مشترک منافع ہیں‘ طبقاتی زندگی انسان کو طبقاتی نقطہ نظر عطا کرتی ہے اور طبقاتی نقطہ نظر اس چیز کا باعث ہوتاہے کہ انسان دنیا اور معاشرے کو خاص زاویے اور خاص عینک سے دیکھے اور اسے طبقاتی نظر سے پیش کرے۔ اس کے اندر درد بھی طبقاتی ہوتا ہے اور اس کی کوششیں اور طرز تفکر بھی طبقاتی ہوتا ہے۔

مارکسزم اس طرح کی خود شناسی کا قائل ہے اس طرح کی خود شناسی کو مارکسزم کی خود شناسی کہا جا سکتا ہے۔

۸۵

5 ۔ قومی خود شناسی

قومی خود شناسی سے مراد اپنے بارے میں ایسی خود شناسی ہے جو انسان اور اس کی اپنی قوم کے دیگر افراد سے تعلق اور ربط کے سلسلے میں ہو‘ ایک طبقے کے افراد کے آداب‘ قوانین‘ تاریخ‘ تاریخی فتوحات اور شکستیں‘ زبان‘ ادبیات اور تہذیب مشترک ہو تو ان کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے نتیجے میں انسان میں ان لوگوں کے ساتھ ایک طرح کی یگانگت اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے‘ بلکہ جس طرح ایک فرد ایک شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ ایک قوم بھی ایک تہذیب کی حامل ہونے کی بناء پر ایک ملی شخصیت پیدا کر لیتی ہے۔ مشترک تہذیب سے افراد کے درمیان مشترک قومیت کی نسبت زیادہ شباہت اور وحدت پیدا ہوتی ہے‘ ایسی قومیت جس کی بنیاد تہذیب اور ثقافت پر ہو‘ افراد کو اجتماع اور وحدت میں بدل دیتی ہے اور اسی اجتماع اور وحدت کی خاطر قربانی دیتی ہے‘ اجتماع کی کامیابی سے اس میں فخر اور شکست سے شرمندگی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

”ملی خود شناسی“ یعنی قومی ثقافت سے آگاہی‘ ملی شخصیت کی شناخت قومیت کے اجتماعی احساس کی شناخت ہے‘ بنیادی طور پر دنیا میں ”ایک ثقافت“ نہیں بلکہ ”ثقافتیں“ موجود ہیں اور ہر ثقافت کی ایک خاص ماہیت‘ خصوصیت اور پہچان ہوتی ہے لہٰذا صرف ایک ثقافت کا نعرہ کھوکھلا اور بے معنی ہے۔ نیشنلزم (قومیت) جس نے بالخصوص انیسویں صدی عیسوی میں بہت رواج پایا ہے اور اب بھی کم و بیش اس کی ترویج کا سلسلہ جاری ہے‘ اسی فلسفے پر مبنی ہے اس طرح کی ”خود شناسی“ میں ”طبقاتی خود شناسی“ کے برعکس‘ جس میں ہر قسم کے اندازے‘ جذبات‘ فیصلے اور طرف داریوں کا رجحان طبقاتی ہوتا ہے‘ قومی جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔

”ملی خود شناسی“ اگرچہ ”منافع خود شناسی“ نہیں ہے تاہم یہ ”خود خواہی“ کے جذبے سے خالی نہیں ہوتی‘ اس میں ”خود خواہی“ کے تمام عیب جیسے تعصب‘ جانبداری کا احساس‘ اپنے عیوب نہ دیکھنا‘ اپنے آپ پر اترانا اور خود پسندی وغیرہ پائے جاتے ہیں‘ اس لئے یہ بھی ”طبقاتی خود شناسی“ کی مانند اخلاقی صفات سے عاری ہوتی ہے۔

۸۶

6 ۔ انسانی خود شناسی

یعنی دوسرے انسانوں کے لحاظ سے انسان کی اپنے بارے میں شناخت‘ اس خود شناسی کا انحصار اس فلسفے پر ہے کہ تمام انسان مجموعی طور پر ایک اکائی ہیں اور ایک مشترک انسانی ضمیر رکھتے ہیں‘ اس لئے انسان دوستی اور اس کی طرف میلان کا احساس ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔

سعدی شیرازی کے بقول:

بنی آدم اعضای یک پیکر اند

کہ در آفرینش زیک گوہر اند

چو عضوی بدرد آورد روزگار

عضوھا را نماند قرار

تو کز محنت دیگران بی غمی

نشاید کہ نامت نھند آدمی

بنی آدم 1  ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں‘ اس لئے کہ وہ خلقت میں ایک ہی جوہر سے ہیں۔

جب زمانہ ایک حصے کو درد میں مبتلا کرتا ہے‘ تو دوسرے اعضاء بھی بے چین اور بے قرار ہو جاتے ہیں تو جو کہ دوسروں کی مصیبت سے بے غم ہے‘ تجھے انسان کہنا نامناسب ہے‘ وہ لوگ جو کانٹ کی مانند ”دین انسانیت“ کی تلاش میں تھے اور اب بھی ہیں‘ اسی طرز فکر کے حامل ہیں۔ ہیومانزم ( Humanism ) کا فلسفہ جو ہمارے زمانے میں بھی کم و بیش رائج ہے اور بہت سے روشن فکر اشخاص جس کے مدعی ہیں‘ یہی ہے۔ یہ فلسفہ انسان کو گروہوں‘ قومیتوں‘ تہذیبوں‘ مذہبوں‘ رنگوں اور نسلوں سے بالاتر ہو کر انسانوں کو ایک ”اکائی“ کی صورت میں دیکھتا ہے اور ان کے درمیان ہر قسم کی تفریق اور امتیازات کی نفی کرتا ہے‘ وہ منشور جو ”حقوق انسانی“ کے نام سے شائع ہوئے ہیں‘ اسی فلسفہ پر مبنی ہیں اور دنیا میں اسی طرح کی خود شناسی کی ترویج کرتے ہیں۔

۸۷

اگر اس طرح کی ”انسانی خود شناسی“ ایک فرد میں پیدا ہو جائے تو اس کا درد انسانیت کا درد اور اس کی آرزوئیں انسانیت کی آرزوئیں بن جاتی ہیں۔ اس کا میلان انسانی میلانات کی صورت اختیار کرتا ہے۔ اس کی دوستی اور دشمنی بھی انسانی رنگ اختیار کرتی ہے۔ وہ انسان کے دوستوں یعنی علم‘ تہذیب‘ رفاہ‘ آزادی‘ انصاف اور محبت کا دوست اور اس کے دشمنوں یعنی جہالت‘ افلاس‘ ظلم‘ بیماری‘ گھٹن اور تفریق کا دشمن بن جاتا ہے اور اس طرح کی خود شناسی ”ملی خود شناسی“ اور ”طبقاتی خود شناسی“ کے برعکس اخلاقی صفات کی حامل ہوتی ہے۔

لیکن ایسی خود شناسی باوجودیکہ سب سے زیادہ منطقی اور شہرت یافتہ ہے۔ دوسری خود شناسیوں کی نسبت کم پائی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟

اس کا راز انسان کے وجود اور اس کی اصلیت میں پوشیدہ ہے۔ انسان اپنے وجود اور اپنی اصلیت کے اعتبار سے تمام دوسری موجودات سے‘ جمادات ہوں‘ نبادات ہوں یا حیوانات‘ مختلف ہے۔ اس لئے انسان کے علاوہ ہر دوسرا وجود جو اس دنیا میں آتا ہے‘ وہی ہوتا ہے جس حالت میں وہ پیدا کیا گیا ہے یعنی اس کی اصلیت اور کیفیت وہی ہوتی ہے جو پیدائش کے وقت اس کو دی گئی ہے‘ لیکن اس حالت کے برعکس انسان کو پیدائش کے بعد ایک نیا مرحلہ پیش آتا ہے کہ وہ کیا ہے؟ اور اسے کیسے ہونا چاہئے؟ انسان ویسا نہیں رہتا جیسا پیدائش کے وقت ہوتا ہے بلکہ وہ جیسا چاہتا ہے بنتا ہے‘ یعنی وہ تمام وسائل‘ جن میں اس کا ارادہ اور انتخاب بھی شامل ہوتا ہے‘ اس کی پرورش اور تربیت کرتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر انسان کے علاوہ ہر چیز اپنی ماہیت کے لحاظ سے کہ وہ کیا ہے؟ اور کیفیت کے اعتبار سے کہ اسے کیسے ہونا چاہئے؟

۸۸

حقیقی طور پر مکمل پیدا کی گئی ہے‘ لیکن اس لحاظ سے انسان ایک ممکنہ قوت اور استعداد کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے‘ یعنی انسانیت کا بیج اس کے اندر استعدادی قوت کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور اگر اس بیج پر کوئی آفت نہ پڑے تو وہ آہستہ آہستہ وجود انسان کی زمین سے باہر نکل آتا ہے اور یہی وہ انسانی فطریات ہیں جو بعد میں اس کے فطری اور انسانی ضمیر کی تعمیر کرتی ہیں۔ انسان جمادات‘ نباتات اور حیوانات کے برعکس ایک ظاہری بدن اور شخصیت کا حامل ہوتا ہے‘ اس کا بدن یعنی جسمانی اعضاء کا مجموعہ جو مکمل طور پر دنیا میں آتا ہے اس لحاظ سے پیدائش کے وقت حیوانات کی مانند ہوتا ہے‘ لیکن روحانی پہلوؤں سے وہ ایک استعدادی قوت رکھتا ہے جو اس کی انسانی شخصیت کو بناتی ہے‘ انسانی اقدار اس کے وجود میں استعدادی قوت کے ساتھ موجود ہوتی ہیں جو پیدا ہونے اور بڑھنے پر آمادہ ہوتی ہیں۔

انسان روحانی اور باطنی اعتبار سے جسم سے ایک مرحلہ پیچھے ہوتا ہے اس کے جسمانی اعضاء پہلے مرحلے میں رحم مادر میں دست قدرت کے وسائل سے تکمیل پاتے ہیں لیکن اس کی روحانی اور باطنی حیثیت اور اس کی شخصیت کے حصے اس کی پیدائش کے بعد والے مرحلے میں مکمل ہوتے ہیں‘ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ ہر شخص خود اپنی شخصیت کا معمار ہے۔ انسان کی تصویر بنانے والا قلم خود اس کے ہاتھ میں دیا گیا ہے اور (اپنی جسمانی ساخت کے برعکس) اپنی شخصیت کو بنانے والا نقاش وہ خود ہے۔

انسان کے علاوہ دوسرے تمام موجودات میں ان کی ذات اور ماہیت کے درمیان جدائی کا تصور ناممکن ہے مثلاً پتھر اور اس کی خصوصیات جیسے مختلف درخت اور اس کی خصوصیات‘ کتا اور اس کی خصوصیات‘ بلی اور اس کی خصوصیات کے مابین جدائی ناممکن ہے‘ اگر بلی‘ بلی ہے تو اپنی خصوصیات کی بنیاد پر ہے اگر اس کی خصوصیات اس سے چھین لی جائیں تو بلی‘ بلی نہیں رہتی۔

۸۹

لیکن انسان ایک ایسا وجود ہے جس کی ذات اور اس کی ماہیت کے درمیان جدائی اور دوری ممکن ہے یعنی انسان اور انسانیت کے درمیان جدائی ممکن ہے۔ بہت سے انسان ایسے ہوتے ہیں جو ابھی انسانیت کے مرحلے پر نہیں ہوتے اور ابھی تک حیوانیت ہی کے مرحلے پر باقی ہوتے ہیں‘ جیسے ابتدائی انسان تھے یا جنگلی انسان ہوتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ بہت سے انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو مسخ ہو جاتے ہیں اور انسان کے دشمن بن جاتے ہیں جیسے وجود اور اس کی ماہیت میں جدائی پیدا ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ ماہیت وجود کا لازمہ ہے اگر ایک وجود موجود ہو تو اس کی ماہیت بھی وجود کے ساتھ ساتھ موجود ہو گی۔ ہاں‘ استعدادی وجود کی ماہیت نہیں ہوتی۔

اگزیسٹینشالیزم ( Existentialism ) کے اصالت وجود کا نظریہ مدعی ہے کہ ”انسان بغیر ماہیت کے ایک وجود ہے اور اپنے ہی انتخاب سے راستہ طے کرتا ہے اور ماہیت پیدا کر لیتا ہے۔“

اس کی صحیح فلسفیانہ توجیہ یہی ہے۔ اسلامی فلاسفہ خصوصاً ملاصدرا کا انحصار اسی نظریے پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ

”انسان ایک نوع نہیں بلکہ انواع ہے‘ بلکہ ہر فرد ایک دن اس طرح ہوتا ہے جس طرح دوسرے دن نہیں ہوتا۔“

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علم حیاتیات ( Biology ) کا انسان انسانیت کا معیار نہیں ہے بلکہ وہ صرف انسان کا ڈھانچہ ہے اور فلاسفہ کی تفسیر کے مطابق ”استعداد انسانیت“ کا حامل ہے نہ کہ خود ”انسانیت“ کا اور یہ بھی واضح ہے کہ واقعیت روح کے بغیر ”انسانیت“ کا دعویٰ بے معنی ہے۔

مذکورہ مقدمہ کے جاننے کے بعد ہم ”انسانی خود شناسی“ کا مفہوم زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ”انسانی خود شناسی“ کی بنیاد یہ ہے کہ تمام انسان مجموعی طور پر ایک حقیقی اکائی کے طور پر شمار کئے جاتے ہیں اور ایک مشترک انسانی ضمیر سے بہرہ مند ہیں‘ جو طبقاتی‘ مذہبی اور قومی ضمیر سے بالاتر ہے۔

۹۰

البتہ یہ بیان توضیح طلب ہے کہ کون سے انسان مجموعی طور پر ایک ”شخصیت“ کے حامل ہیں اور واحد روح ان پر حاکم ہے؟ ”انسانی خود شناسی“ کون سے انسانوں کے درمیان بڑھتی ہے اور ان میں ہمدردی اور جسد واحد ہونے کا تصور پیدا کرتی ہے؟ آیا ”انسانی خود شناسی“ صرف انہی انسانوں کے درمیان بڑھتی ہے‘ جو انسانیت کے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں اور جن میں انسانی اقدار اور انسان کی حقیقی ماہیت‘ حقیقت بن چکی ہوتی ہے؟ یا ان انسانوں کے درمیان جو انسانیت نہیں پا سکے لیکن استعداد رکھتے ہیں؟ یا ان انسانوں کے درمیان جو مسخ ہو کر بدترین جانور بن گئے ہیں؟ یا ان سب کے درمیان یہ خود شناسی پائی جاتی ہے؟ جہاں تک باہمی احساس درد کا تعلق ہے سب کو اس درد کا احساس ہونا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ بظاہر تو تمام انسان ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں اور ایک دوسرے کے درد سے بے چین ہو جاتے ہیں‘ لیکن یہ سب گروہ تو ایسے نہیں ہو سکتے‘ جنگلی اور ابتدائی انسان جو اپنے بچپن پر باقی رہے اور ان کی انسانی فطرت ابھی بیدار اور متحرک نہیں ہوئی‘ کب باہمی احساس درد کے حامل ہوتے ہیں؟ اور ایک مشترک روح ان پر کیسے حکومت کر سکتی ہے؟ البتہ جن انسانوں کی ہیئت ہی مسخ ہو چکی ہو‘ ان کا معاملہ تو بالکل واضح ہے پس صرف وہی انسان جو انسانیت کے درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ جو انسانی ماہیت کے حامل ہیں اور جو انسانی فطرت کے لحاظ سے تکمیل پائے ہوئے ہیں‘ حقیقت میں ایک جسم کے اعضاء ہیں اور ایک واحد روح پر حکم فرما ہے اور بقول سعدی شیرازی 111#

چو عضوی بدرد آورد روزگار

دیگر عضوھارا نماند قرار

”جب زمانہ ایک حصے کو درد میں مبتلا کرتا ہے تو دوسرے اعضاء بھی بے چین ہو جاتے ہیں۔“

۹۱

ایسے انسان جن میں تمام فطری اقدار پیدا ہو چکی ہیں ”مومن انسان“ ہیں کیوں کہ ایمان انسان کی فطریات اور حقیقی انسانی اقدار میں سرفہرست ہے‘ چنانچہ جو چیز انسانوں کو حقیقی طور پر سماجی وحدت کی صورت دیتی ہے‘ ان میں واحد روح پھونکتی ہے اور اس طرح کے اخلاقی اور انسانی معجزے کو ظہور میں لاتی ہے‘ وہ صرف ”مشترک ایمان“ ہے‘ نہ کہ مشترک جوہر‘ نسب اور وطنیت جیسا کہ سعدی شیرازی کے کلام میں آیا ہے۔

جو کچھ سعدی نے کہا ہے وہ ایک ”آئیڈیل“ ہے نہ کہ حقیقت بلکہ ”آئیڈیل“ بھی نہیں ہے۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ موسیٰ 1  فرعون کے جسم کا حصہ ہوں‘ ابوذر معاویہ کے ہمدرد ہوں‘علیٰ هذا القیاس…؟

جو چیز حقیقت بھی ہے اور ”آئیڈیل“ بھی وہ ایسے انسانوں کی وحدت ہے‘ جو انسانیت کے درجے اور اقدار تک پہنچے ہوئے ہیں‘ یہ وہ حقیقی بیان ہے جو رسول اکرم نے فرمایا تھا اور شیخ سعدی نے اسے عمومیت دے کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا‘ پیغمبر اسلام نے بجائے اس کے کہ کہا جائے بنی آدم ایک ہی جسم کے حصے ہیں‘ فرمایا:

مثل المومنین فی توا ددهم و تراحمهم کمثل الجسد اذا شتکی بعضی تداعی له سائر اعضائه بالحمی والسهر

”مومنین ایک ہی جسم کے حصے ہیں‘ جب ایک حصے میں درد اٹھتا ہے تو دوسرے حصے بخار اور بے خوابی میں اس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔“

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانیت کے درجے پر پہنچا ہوا انسان تمام انسانوں بلکہ تمام موجودات سے محبت کرتا ہے‘ حتیٰ کہ انسان انسانوں سے بھی‘ جن کی ہیئت مسخ ہو چکی ہے اور جنہوں نے اپنی اصل تبدیل کر لی ہے‘ اسی لئے خداوند تعالیٰ نے حضرت رسول اکرم 1 کو رحمتہ للعالمین قرار دیا ہے۔

۹۲

ایسے انسان اپنے دشمنوں سے بھی محبت کرتے ہیں۔ حضرت علی 1  نے ابن ملجم کے بارے میں فرمایا تھا کہ

”میں اس کی زندگی چاہتا ہوں اور وہ میرا قتل۔“

لیکن معاملہ برابر کی محبت اور برابر کی دردمندی کا ہے اور برابری کی محبت صرف اور صرف معاشرے کے اہل ایمان افراد کے درمیان ہی وجود پا سکتی ہے۔

ظاہر ہے تمام انسانوں سے محبت یعنی ”صلح کلی“ کا تقاضا یہ نہیں کہ کوئی ذمہ داری قبول نہ کی جائے اور کسی گمراہی اور ظالم سے لاتعلق رہا جائے‘ بلکہ اس کے برعکس انسانوں سے حقیقی محبت کا تقاضا اس ضمن میں سخت ترین ذمہ داریاں قبول کرنا ہے۔

ہمارے زمانے میں مشہور انگریز فلسفی اور ریاضی دان برٹرینڈرسل اور فرانس کے ایگزیسٹینشل فلسفی ”جان پال سارتر“ انسانی مسلک کے دو مشہور انسان دوست چہرے ہیں‘ البتہ رسل کے فلسفہ اخلاق کی بنیاد اس کے نظریہ ”انسان دوستی“ کی دو طرح سے مخالف ہے‘ رسل کا فلسفہ اخلاق شخصی منافع کی سوچ پر مبنی ہے‘ یعنی اس کے اخلاق کی بنیاد اصول اخلاق کی روشنی میں زیادہ اور بہتر منافع کے تحفظ پر ہے اور وہ اخلاق کے کسی دوسرے فلسفہ کا قائل نہیں ہے‘ اس بناء پر رسل کی ”انسان دوستی“ ایک اہل قلم کے قول کے مطابق مغربی دنیا کے اس اضطراب کی مظہر ہے‘ جس کی بنیاد ختم ہو چکی ہے‘ یہ اہل قلم ”آج کے مغربی نیھیلزم کے دو چہرے“ کے عنوان سے لکھتا ہے:

”وہ جوشیلا برژوازی جس نے قومیت کا پرچم لہرایا تھا‘ آج اس کے پاس سوچنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ یورپی جوان نسل ایک کھوکھلے نقطے پر کھڑی ہے۔ آج مغرب اور برآمدات کو جو اجتماعی شورش‘ ناامیدی‘ پریشانی‘ احساس حقارت اور افکار مذہب و اخلاق کے جذبات پر مشتمل ہیں اور جو اس نے دوسری قوموں اور تہذیبوں پر مسلط کیا تھا‘ واپس لے رہا ہے۔ منکر مذہب و اخلاق تو یہ سوچتا ہے کہ جب میرے لئے کچھ نہیں تو دوسرے کے لئے بھی کچھ نہ ہو اور اس طرح وہ خود اپنی ہی خرابی کی طرف رواں دواں ہے۔

۹۳

لیکن ایک اور ردعمل ایک طرح کے روحانی انسان دوستی کے فلسفے کے ظہور میں آنے سے ہوا ہے‘ جو مختلف سطحوں پر مغربی روشن فکر افراد کو اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے ایک طرف رسل کا سادہ عملی نظریہ ہے اور دوسری جانب سارتر کا پیچیدہ اور شدید نظریہ اور درمیان میں ٹیبو رمنڈر جیسے سیاست دان کا اور اقتصادیات کے حامی روشن فکر افراد اپنی اور دوسروں کی مشکلات کے حل کے لئے عملی طریقے سوچ رہے ہیں۔

لیکن سارتر اپنے عارفانہ اور آزادانہ مشرب اور ذمہ داری کے اس پیچیدہ اور شدت آمیز نظریے کے باوجود مغربی روح کا ایک اور مظہر ہے‘ جو احساس گناہ کی بناء پر تلافی مکافات کرنا چاہتا ہے۔ وہ رواقی فلاسفہ کی مانند انسانوں میں برادری‘ برابری‘ آزادی‘ خود مختاری‘ پرہیزگاری اور پارسائی سے دنیا میں حکومت کرنے کا معتقد ہے۔ موجودہ دور میں وہ ایسی روشن خیالی کا مظہر ہے جو یہ چاہتا ہے کہ ”انسانیت کامل“ کا حامی بن کر اپنے آپ کو مغرب کے اس اضطراب سے نکال لے‘ جس کی بنیاد کھوکھلی ہو چکی ہے۔ وہ نظریہ ”انسان دوستی“ کو مذہب کا بدل بنا کر پرانے خدا کے بدلے پوری انسانیت کے لئے نئے خدا سے اپنے اور پورے مغرب کے لئے معافی کا خواستگار ہے۔“

سارتر کی واضح انسان دوستی کا نتیجہ یہی ہے کہ کبھی تو وہ اسرائیل کی مظلومیت پر مگرمچھ کے آنسو بہاتا ہے اور کبھی عربوں اور بالخصوص فلسطینی مہاجرین کے مظالم پر فریاد کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

دنیا نے مغرب کے تمام انسان دوستوں کو جنہوں نے ”حقوق انسانی“ کے منشور پر دستخط کئے ہیں۔ مسلسل دیکھا ہے اور دیکھ رہی ہے اور یہ امر کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔

”اجتماعی خود شناسی“ ملی ہو یا طبقاتی یا انسانی ہمارے دور میں ”روشن خیال خود شناسی“ کہلاتی ہے۔ روشن خیال شخص وہ ہے جسے ان اقسام خود شناسی میں سے کوئی ایک حاصل ہو جس کے دل میں قوم یا طبقے یا انسان کے درد کا احساس ہو‘ جو انہیں اس درد سے رہائی دلانے میں کوشاں ہو‘ وہ چاہتا ہو کہ اپنی ”خود شناسی“ کو ان میں منتقل کر دے اور اجتماع کی قیود سے رہائی کے لئے ان کو کوشش اور حرکت کی ترغیب دلائے۔

۹۴

7 ۔ عارفانہ خود شناسی

عارفانہ خود شناسی ذات حق سے اپنے رابطے کے سلسلے میں خود شناسی ہے‘ عرفا کے نقطہ نظر سے یہ رابطہ ایسا نہیں ہے جو دو انسانوں کا آپس میں یا معاشرے کے کسی دوسرے افراد سے ہوتا ہے‘ بلکہ یہ رابطہ ”شاخ کا جڑ“ سے ”مجاز کا حقیقت“ سے اور عرفا کی اصطلاح میں مقید کا مطلق سے رابطہ ہے۔

ایک روشن فکر کے درد کے برعکس عارف کا درد انسان کی ”خود شناسی“ میں کسی بیرونی درد کا انعکاس نہیں ہے‘ بلکہ یہ ایک ایسا باطنی درد ہے‘ جو فطری اور اجتماعی درد ہوتا ہے‘ لہٰذا وہ پہلے اس سے آگاہ ہوتا ہے پھر یہ آگاہی اس کو درد مندبناتی ہے۔

لیکن ایک عارف کا درد چونکہ ایک باطنی درد ہوتا ہے‘ خود درد ہی اس کے لئے آگاہی ہے بالکل بیماریوں کے درد ہی کی طرح‘ جو طبیعت کی طرف سے کسی حاجت اور ضرورت کا اعلان ہے۔

حسرت و زاری کہ درد بیماری است

وقت بیماری ھمہ بیداری است

ہر کہ او بیدار تر پر درد تر

ہر کہ او آگاہ تر رخ زرد تر

پس بدان این اصل را ای اصلجو

ہر کہ را درد است او بردہ است بو

۹۵

”بیماری میں جو حسرت اور گریہ زاری ہے‘ بیماری کے وقت سب کی بیداری کی علامت ہے۔

جو جتنا زیادہ بیدار ہے وہ اتنا ہی زیادہ دردمند ہے اور جو جتنا زیادہ خود شناس ہے اس کا چہرہ اتنا ہی زیادہ زرد ہے‘ پس اے حقیقت کے متلاشی! اس حقیقت کو جان لے کہ جو شخص درد میں مبتلا ہے اسی نے حقیقت کا پتہ لگا لیا ہے۔“

عارف کا درد فلسفی کے درد جیسا بھی نہیں‘ دونوں ہی حقیقت کے درد مند ہیں لیکن فلسفی کا درد حقیقت کے جاننے اور شناخت کرنے کا درد ہے اور عارف کا درد پہنچنے‘ ایک ہو جانے اور محو ہو جانے کا درد۔ فلسفی کا درد اسے فطرت کے دیگر فرزندوں یعنی تمام جمادات‘ نباتات اور حیوانات سے ممتاز کر دیتا ہے۔ عالم طبیعت کے کسی وجود میں ماننے اور شناخت کرنے کا درد موجود نہیں‘ لیکن عارف کا درد عشق اور جذبے کا درد ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو نہ صرف حیوان میں نہیں بلکہ فرشتوں میں بھی موجود نہیں‘ جن کی ذات کا جوہر ہی خود شناسی اور جاننا ہے۔

فرشتہ عشق نداانست چیست قصہ مخوان

بخواہ جام و گلابی بہ خاک آدم ریز

”فرشتے نے عشق کو نہ جانا کہ وہ کیا چیز ہے قصہ نہ سنا‘ جام طلب کر اور گلاب کا پانی آدم کی خاک پر ڈال دے۔“

جلوہ ای کرد رخش دید ملک‘ عشق نداشت

خیمہ در مزرعہ آب و گل آدم زد

”جب اس کے رخ کا ایک جلوہ نظر آیا تو فرشتے نے دیکھا کہ اس میں عشق نہیں تو اس نے آدم کی خاک پر اپنے خیمے گاڑ دیئے۔“

۹۶

فلسفی کا درد فطرت کی حاجتوں کے جاننے کا اعلان ہے جسے فطری طور پر انسان جاننا چاہتا ہے اور عارف کا درد فطرت عشق کی حاجتوں کا اعلان ہے جو پرواز کرنا چاہتا ہے اور جب تک پوری طرح سے حقیقت کا ادراک نہیں کرتا‘ سکون نہیں پاتا۔ عارف کامل خود شناسی کو ”خداشناسی“ میں منحصر سمجھتا ہے۔ عارف کی نظر میں جسے فلسفی انسان کا حقیقی ”من“ سمجھتا ہے‘ حقیقی ”من“ نہیں ہے بلکہ روح ہے۔ ”جان“ ہے‘ ایک تعین ہے‘ حقیقی ”من“ خدا ہے اور اس تعین کے ٹوٹنے کے بعد انسان اپنے حقیقی ”من“ کو پا لیتا ہے۔

محی الدین ابن عربی فصول الحکم‘ فص شعیبی میں فرماتے ہیں‘ حکماء اور متکلمین نے خود شناسی کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔ لیکن ان راہوں سے ”معرفت النفس“ حاصل نہیں ہو سکتی‘ جس کا خیال یہ ہو کہ ”خود شناسی“ کے بارے میں حکماء نے جو کچھ سمجھا ہے‘ وہ حقیقت ہے‘ تو اس نے پھولی ہوئی چیز کو موٹا سمجھ رکھا ہے۔

شیخ محمود شبستری سے عرفانی مسائل کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات ”جن کے جواب میں کم نظیر عرفانی کلام‘ ”گلشن راز“ وجود میں آیا ہے۔“ میں سے ایک ”خود“ ذات اور ”من“ کے بارے میں سوال تھا کہ یہ کیا ہے؟

۹۷

دگر کردی سوال ازمن کہ ”من“ چیست

مرا از من خبر کن تاکہ ”من“ کیست

چو ہست مطلق آمد در اسارت

بہ لفظ ”من“ کنند از وی عبارت

حقیقت کز تعین شد معین

تو او را در عبارت گفتہ ای من

من و تو عارض ذات وجودیم

مشبکہای مشکوة وجودیم

ھمہ یک نور دان اشباح و ارواح

گہ از آئینہ پیدا گہ ز مصباح

”تو نے پھر مجھ سے پوچھا کہ یہ ”من“ کیا ہے‘ ”من“ کے بارے میں پوچھنے سے پہلے مجھے میرے بارے میں خبر تو دو!

مطلق ہستی کو جب اسیر اور مقید کر دیا جاتا ہے تو اسے ”من“ سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ جب تعین اور حدود و قیود کی وجہ سے حقیقت کو متعین کیا جاتا ہے اسے سادہ عبارت میں ”من“ کہا جاتا ہے‘ میں اور تم دونوں ذات وجود کے عارض ہیں اور ہم وجود (روح) کے فانوس کے گرد لگی ہوئی جالیاں ہیں (جن سے روشنی چھن چھن کر باہر آتی ہے) ہیولا اور روح کو ایک نور ہی سمجھ لو‘ کیوں کہ نور کبھی تو آئینہ سے منعکس ہو کر تم تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی فانوس سے سیدھا تم تک پہنچ جاتا ہے۔“

پھر ”روح“ اور ”من“ کے بارے میں فلاسفہ کی خود شناسی پر اس طرح سے اعتراض کرتے ہیں۔

۹۸

تو گوی لفظ ”من“ در ہر عبارت

بسوی روح می باشد اشارت

چو کردی پیشوائے خود خرد را

نمی دانی ز جزء خویش خودرا

برو ای خواجہ خود را نیک بشناس

کہ نبود فربہی مانند آماس( 1)

من و تو بر تر از جان و تن آمد

کہ این ہر دو ز اجزای من آمد

بہ لفظ من نہ انسان است مخصوص

کہ تا گوی بدان جان است مخصوص

یکی راہ برتر از کون و مکان شو

جہاں بگذار و خود در خود جہان شو

”تم چاہے کسی بھی عبارت میں لفظ ”من استعمال کرو اشارہ تمہاری روح ہی کی طرف ہے‘ جب تم عقل کو اپنا رہبر اور رہنما بناؤ گے‘ تو اپنے آپ کو اپنے اعضاء سے نہیں سمجھو گے۔ اے خواجہ جا اور اپنے آپ کو اچھی طرح پہچان لے کیوں کہ پھول جانا موٹاپا نہیں ہوتا‘ ”من“ اور ”تو“ جگہ اور بدن سے برتر ہیں کیوں کہ یہ دونوں مرے اجزاء اور حصے ہیں لفظ ”من“ کسی خاص انسان سے مخصوص نہیں جو تم اس سے کسی خصوصی روح کو مراد لو‘ ایک راستے پر چلو اور کون و مکان سے برتر ہو جاؤ‘ دنیا کو چھوڑ دو اور اپنے اندر ایک دنیا بن جاؤ۔“

۹۹