امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم جلد ۵

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم60%

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 99

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 99 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 71666 / ڈاؤنلوڈ: 2749
سائز سائز سائز
امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم

امامیہ اردو دینیات درجہ پنجم جلد ۵

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

چند مسائل :

مسئلہ ۸۲ _ اگر ان مواقيت اور انكى بالمقابل جگہ كا علم نہ ہو تو يہ بينہ شرعيہ كے ساتھ ثابت ہو جاتے ہيں يعنى دو عادل گواہ اسكى گواہى دے ديں يا اس شياع كے ساتھ بھى ثابت ہو جاتے ہيں جو موجب اطمينان ہو اور جستجو كركے علم حاصل كرنا واجب نہيں ہے اور اگر نہ علم ہو نہ گواہ اور نہ شياع تو ان مقامات كوجاننے والے شخص كى بات سے حاصل ہونے والا ظن و گمان كافى ہے _

مسئلہ ۸۳ _ ميقات سے پہلے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے مگر يہ كہ ميقات سے پہلے كسى معين جگہ سے احرام باندھنے كى نذر كرلے جيسے كہ مدينہ يا اپنے شہر سے احرام باندھنے كى نذر كرے تو اس كا احرام صحيح ہے _

مسئلہ ۸۴ _ اگر جان بوجھ كر يا غفلت يا لا علمى كى وجہ سے بغير احرام كے ميقات سے گزر جائے تو اس پر واجب ہے كہ احرام كيلئے ميقات كى طرف پلٹے _

۶۱

مسئلہ ۸۵_ اگر غفلت ، نسيان يا مسئلہ كا علم نہ ہونے كى وجہ سے ميقات سے آگے گزر جائے اور وقت كى تنگى يا كسى اور عذر كى وجہ سے ميقات تك پلٹ بھى نہ سكتا ہو ليكن ابھى تك حرم ميں داخل نہ ہوا ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ جس قدر ممكن ہو ميقات كى سمت كى طرف پلٹے اور وہاں سے احرام باندھے اور اگر حرم ميں داخل ہو چكا ہو تواگر اس سے باہر نكلنا ممكن ہو تو اس پر يہ واجب ہے اور حرم كے باہر سے احرام باندھے گا اور اگر حرم سے باہرنكلنا ممكن نہ ہو تو حرم ميں جس جگہ ہے وہيں سے احرام باندھے _

مسئلہ ۸۶_ اپنے اختيار كے ساتھ احرام كو ميقات سے مؤخر كرنا جائز نہيں ہے چاہے اس سے آگے دوسرا ميقات ہو يا نہ _

مسئلہ ۸۷ _ جس شخص كو مذكورہ مواقيت ميں سے كسى ايك سے احرام باندھنے سے منع كرديا جائے تو اس كيلئے دوسرے ميقات سے احرام باندھنا جائز ہے _

مسئلہ ۸۸_ جدہ مواقيت ميں سے نہيں ہے اور نہ يہ مواقيت كے

۶۲

بالمقابل ہے لذا اختيار ى صورت ميں جدہ سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے بلكہ احرام باندھنے كيلئے كسى ميقات كى طرف جانا ضرورى ہے مگر ي ۴ہ كہ اس پر قدرت نہ ركھتا ہو تو پھر جدہ سے نذر كركے احرام باندھے_

مسئلہ ۸۹_ اگر ميقات سے آگے گزر جانے كے بعد مُحرم متوجہ ہو كہ اس نے صحيح احرام نہيں باندھا پس اگر ميقات تك پلٹ سكتا ہو تو يہ واجب ہے اور اگر نہ پلٹ سكتا ہو مگر مكہ مكرمہ كے راستے سے تو '' ادنى الحل'' سے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ كر مكہ ميں داخل ہو اور اعمال بجا لانے كے بعد عمرہ تمتع كے احرام كيلئے ، كسى ميقات پر جائے _

مسئلہ ۹۰_ ظاہر يہ ہے كہ اگر حج كے فوت نہ ہونے كا اطمينان ہو تو عمرہ تمتع كے احرام سے خارج ہونے كے بعد اور حج بجا لانے سے پہلے مكہ مكرمہ سے نكلنا جائز ہے اگر چہ احوط استحبابى يہ ہے كہ ضرورت و حاجت كے بغير نہ نكلے جيسے كہ اس صورت ميں احوط يہ ہے كہ نكلنے سے پہلے مكہ ميں حج كا احرام باندھ لے مگر يہ كہ اس كام ميں اس كيلئے حرج ہو تو پھر اپنى

۶۳

احتياج كيلئے بغير احرام كے باہر جا سكتا ہے اور جو شخص اس احتياط پر عمل كرنا چاہے اور ايك يا چند مرتبہ مكہ سے نكلنے پر مجبور ہو جيسے كاروانوں كے خدام وغيرہ تو وہ مكہ مكرمہ ميں داخل ہونے كيلئے پہلے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ ليں اور عمرہ تمتع كو اس وقت تك مؤخر كرديں كہ جس ميں اعمال حج سے پہلے عمرہ تمتع كو انجام دينا ممكن ہو پھر ميقات سے عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھيں پس جب عمرہ سے فارغ ہو جائيں تو مكہ سے حج كيلئے احرام باندھيں _

مسلئہ ۹۱_ عمرہ تمتع اور حج كے درميان مكہ سے خارج ہونے كا معيار موجودہ شہر مكہ سے خارج ہونا ہے پس ايسى جگہ جاناكہ جو اس وقت مكہ مكرمہ كا حصہ شمار ہوتى ہے اگر چہ ماضى ميں وہ مكہ سے باہر تھى مكہ سے خارج ہونا شمار نہيں ہو گا _

مسئلہ ۹۲_ اگر عمرہ تمتع كو انجام دينے كے بعد مكہ سے بغير احرام كے باہر چلا جائے تو اگر اسى مہينے ميں واپس پلٹ آئے كہ جس ميں اس نے عمرہ كو انجام ديا ہے تو بغير احرام كے واپس پلٹے ليكن اگر عمرہ كرنے والے مہينے كے

۶۴

غير ميں پلٹے جيسے كہ ذيقعد ميں عمرہ بجالاكر باہر چلا جائے پھر ذى الحج ميں واپس پلٹے تو اس پر واجب ہے كہ مكہ ميں داخل ہونے كيلئے عمرہ كا احرام باندھے اور حج كے ساتھ متصل عمرہ تمتع ، دوسرا عمرہ ہو گا _

مسئلہ ۹۳_ احوط وجوبى يہ ہے كہ عمرہ تمتع اور حج كے درميان عمرہ مفردہ كو انجام نہ دے ليكن اگر بجا لائے تو اس سے اسكے سابقہ عمرہ كو كوئي نقصان نہيں ہوگا اور اس كے حج ميں بھى كوئي اشكال نہيں ہے _

۶۵

دوسرى فصل :احرام

مسئلہ ۹۴_ احرام كے مسائل كى چار اقسام ہيں:

۱_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں يا احرام كيلئے واجب ہيں_

۲_ وہ اعمال جواحرام كى حالت ميں مستحب ہيں_

۳_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں حرام ہيں _

۴_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں مكروہ ہيں_

۱_ احرام كے واجبات

اول : نيت

اور اس ميں چند امور معتبر ہيں :

۶۶

الف : قصد،يعنى حج يا عمرہ كے اعمال كے بجالانے كا قصد كرنا پس جو شخص مثلاً عمرہ تمتع كا احرام باندھنا چاہے وہ احرام كے وقت عمرہ تمتع كو انجام دينے كا قصد كرے_

مسئلہ ۹۵_ قصد ميں اعمال كى تفصيلى صورت كو دل سے گزارنا معتبر نہيں ہے بلكہ اجمالى صورت كافى ہے پس اس كيلئے جائز ہے كہ اجمالى طور پر واجب اعمال كو انجام دينے كا قصد كرے پھر ان ميں سے ايك ايك كو ترتيب كے ساتھ بجالائے _

مسئلہ ۹۶_ احرام كى صحت ميں محرمات احرام كو ترك كرنے كا قصد كرنا معتبر نہيں ہے بلكہ بعض محرمات كے ارتكاب كا عزم بھى اسكى صحت كو نقصان نہيں پہنچاتا ہاں ان محرمات كے انجام دينے كا قصد كرنا كہ جن سے حج يا عمرہ باطل ہو جاتا ہے جيسے جماع _ بعض موارد ميں _تو وہ اعمال كے انجام دينے كے قصد كے ساتھ جمع نہيں ہو سكتا بلكہ يہ احرام كے قصد كے منافى ہے_

۶۷

ب : قربت اور اللہ تعالى كيلئے اخلاص ،كيونكہ عمرہ ، حج اور ان كا ہر ہر عمل عبادت ہے پس ہر ايك كو صحيح طور پر انجام دينے كيلئے ''قربةً الى اللہ ''كا قصد كرنا ضرورى ہے _

ج _ اس بات كى تعيين كہ احرام عمرہ كيلئے ہے يا حج كيلئے اور پھر يہ كہ حج ، حج تمتع ہے يا قران يا افراد اور يہ كہ اس كا اپنا ہے يا كسى اور كى طرف سے اور يہ كہ يہ حجة الاسلام ہے يا نذر كا حج يا مستحبى حج _

مسئلہ ۹۷_ اگر مسئلہ سے لاعلمى يا غفلت كى وجہ سے عمرہ كے بدلے ميں حج كى نيت كرلے تو اس كا احرام صحيح ہے مثلاً اگر عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھتے وقت كہے '' حج تمتع كيلئے احرام باندھ رہا ہو ں ''قربةً الى اللہ '' ليكن اسى عمل كا قصد ركھتا ہو جسے لوگ انجام دے رہے ہيں يہ سمجھتے ہوئے كہ اس عمل كا نام حج ہے تو اس كا احرام صحيح ہے _

مسئلہ ۹۸_ نيت ميں زبان سے بولنا يا دل ميں گزارنا شرط نہيں ہے بلكہ صرف فعل كے عزم سے نيت ہو جاتى ہے_

۶۸

مسئلہ ۹۹_ نيت كا احرام كے ہمراہ ہونا شرط ہے پس سابقہ نيت كافى نہيں ہے مگر يہ كہ احرام كے وقت تك مستمر رہے _

دوم : تلبيہ

مسئلہ ۱۰۰_ احرام كى حالت ميں تلبيہ ايسے ہى ہے جيسے نماز ميں تكبيرة الاحرام پس جب حاجى تلبيہ كہہ دے تو مُحرم ہو جائيگا اور عمرہ تمتع كے اعمال شروع ہو جائيں گے اور يہ تلبيہ در حقيقت خدائے رحيم كى طرف سے مكلفين كو حج كى دعوت ، كا قبول كرنا ہے اسى لئے اسے پورے خشوع و خضوع كے ساتھ بجالانا چاہيے اور تلبيہ كى صورت على الاصح يوں ہے _ ''لَبَّيكَ اَللّهُمَّ لَبَّيكَ لَبَّيكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ ''

اگر اس مقدار پر اكتفا كرے تو اس كا احرام صحيح ہے اور احوط استحبابى يہ ہے كہ مذكورہ چا رتلبيوں كے بعديوں كہے : ''انَّ الْحَمْدَ وَ النّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ''

۶۹

اور اگر مزيد احتياط كرنا چاہے تو يہ بھى كہے :

''لَبَّيْكَ اللّهُمَّ لَبَّيْكَ انَّ الْحَمْدَ وَ النّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ

اور مستحب ہے كہ اسكے ساتھ ان جملات كا بھى اضافہ كرے جو معتبر روايت ميں وارد ہوئے ہيں :

لَبَّيْكَ ذَا الْمَعارج لَبَّيْك لَبَّيْكَ داعياً الى دار السَّلام لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ غَفَّارَ الذُنُوب لَبَّيْكَ لَبَّيكَ ا َهْلَ التَّلْبيَة لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ ذَا الْجَلال وَالإكْرام لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ تُبْديُ ، وَالْمَعادُ إلَيْكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ تَسْتَغْنى وَ يُفْتَقَرُ إلَيْكَ لَبَّيْك، لَبَّيْكَ مَرْهُوباً وَ مَرْغُوباً إلَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ إلهَ الْحَقّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ ذَا النَّعْمَائ وَالْفَضْل: الْحَسَن الْجَميل لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ كَشّافَ الْكُرَب الْعظام لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ عَبْدُكَ وَ ابْنُ عَبْدَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ يا كَريمُ لَبَّيْكَ

مسئلہ ۱۰۱_ ايك مرتبہ تلبيہ كہنا واجب ہے ليكن جتنا ممكن ہو اس كا تكر ار كرنا مستحب ہے _

۷۰

مسئلہ ۱۰۲_ تلبيہ كى واجب مقدار كو عربى قواعد كے مطابق صحيح طور پر ادا كرنا واجب ہے پس صحيح طورپر قادر ہو تے ہوئے اگر چہ سيكھ كر يا كسى دوسرے كے دہروانے سے _غلط كافى نہيں ہے پس اگر وقت كى تنگى كى وجہ سے سيكھنے پر قادر نہ ہو اور كسى دوسرے كے دہروانے كے ساتھ بھى صحيح طريقے سے پڑھنے پر قدرت نہ ركھتا ہو تو جس طريقے سے ممكن ہو ادا كرے اور احوط يہ ہے كہ اسكے ساتھ ساتھ نائب بھى بنائے_

مسئلہ ۱۰۳_ جو شخص جان بوجھ كر تلبيہ كو ترك كردے تو اس كا حكم اس شخص والا حكم ہے جو جان بوجھ كر ميقات سے احرام كو ترك كردے جو كہ گزرچكا ہے _

مسئلہ ۱۰۴_ جو شخص تلبيہ كو صحيح طور پر انجام نہ دے اور عذر بھى نہ ركھتا ہو تو اس كا حكم وہى ہے جو جان بوجھ كر تلبيہ كو ترك كرنے كا حكم ہے _

مسئلہ ۱۰۵_ مكہ مكرمہ كے گھروں كو ديكھتے ہى _ اگر چہ ان نئے گھروں كو جو اس وقت مكہ كا حصہ شمار ہوتے ہيں _ تلبيہ كو ترك كردينا واجب ہے على الاحوط

۷۱

اور اسى طرح روز عرفہ كے زوال كے وقت تلبيہ كو روك دينا واجب ہے _

مسئلہ ۱۰۶_ حج تمتع ، عمرہ تمتع ، حج افراد اور عمرہ مفردہ كيلئے احرام منعقد نہيں ہو سكتا مگر تلبيہ كے ساتھ ليكن حج قران كيلئے احرام تلبيہ كے ساتھ بھى ہو سكتا ہے اور اشعار يا تقليد كے ساتھ بھى اور اشعار صرف قربانى كے اونٹ كے ساتھ مختص ہے ليكن تقليد اونٹ كو بھى شامل ہے اور قربانى كے ديگر جانوروں كو بھى _

مسلئہ ۱۰۷_ اشعار ہے اونٹ كى كہان كے اگلے حصے ميں نيزہ مار كر اسے خون كے ساتھ لتھيڑنا تا كہ پتا چلے كہ يہ قربانى ہے اور تقليد يہ ہے كہ قربانى كى گردن ميں دھاگہ يا جوتا لٹكا دياجائے تا كہ پتا چلے كہ يہ قربانى ہے_

سوم : دو كپڑوں كا پہننا

اور يہ تہبند اور چادر ہيں پس محرم پر جس لباس كا پہننا حرام ہے اسے اتار كر انہيں پہن لے گا پہلے تہبند باندھ كر دوسرے كپڑے كو شانے پر ڈال

۷۲

لے گا _

مسئلہ ۱۰۸_ احوط وجوبى يہ ہے كہ دونوں كپڑوں كو احرام اور تلبيہ كى نيت سے پہلے پہن لے _

مسئلہ ۱۰۹_ تہبند ميں شرط نہيں ہے كہ وہ ناف اور گھٹنوں كو چھپانے والا ہو بلكہ اس كا متعارف صورت ميں ہونا كافى ہے _

مسئلہ ۱۱۰_ تہبند كا گردن پر باندھنا جائز نہيں ہے ليكن اسكے بكسوا (پن) اورسنگ و غيرہ كے ساتھ باندھنے سے كوئي مانع نہيں ہے اسى طرح اسے دھاگے كے ساتھ باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _ (اگر چادر كے اگلے حصے كو باندھنا متعارف ہو) اسى طرح اسے سوئي اور پن كے ساتھ باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۱_ احوط وجوبى يہ ہے كہ دونوں كپڑوں كو قربةًالى اللہ كے قصد سے پہنے _

مسئلہ ۱۱۲_ ان دو كپڑوں ميں وہ سب شرائط معتبر ہيں جو نمازى كے

۷۳

لباس ميں معتبر ہيں پس خالص ريشم، حرام گوشت جانور سے بنا يا گيا ، غصبى اور اس نجاست كے ساتھ نجس شدہ لباس كافى نہيں ہے كہ جو نماز ميں معاف نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۳_ تہبند ميں شرط ہے كہ اس سے جلد نظر نہ آئے ليكن چادر ميں يہ شرط نہيں ہے جبتك چادر كے نام سے خارج نہ ہو _

مسئلہ ۱۱۴_ دو كپڑوں كے پہننے كا وجوب مرد كے ساتھ مختص ہے اور عورت كيلئے اپنے كپڑوں ميں احرام باندھنا جائز ہے چاہے وہ سلے ہوئے ہوں يا نہ ،البتہ نمازى كے لباس كے گذشتہ شرائط كى رعايت كرنے كے ساتھ _

مسئلہ ۱۱۵_ شرط ہے كہ عورت كے احرام كا لباس خالص ريشم كا نہ ہو _

مسئلہ ۱۱۶_ دونوں كپڑوں ميں يہ شرط نہيں ہے كہ وہ بُنے ہوئے ہوں_ اور نہ بُنے ہوئے ميں يہ شرط ہے كہ وہ كاٹن يا اُون و غيرہ كا ہو بلكہ چمڑے ، نائلون يا پلاسٹك كے لباس ميں بھى احرام باندھنا كافى ہے البتہ اگر ان پر

۷۴

كپڑا ہونا صادق آئے اور ان كا پہننا متعارف ہو اسى طرح نمدے و غيرہ ميں احرام باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۷_ اگرا حرام باندھنے كے ارادے كے وقت جان بوجھ كرسلا ہوا لباس نہ اتارے تو اسكے احرام كا صحيح ہونا اشكال سے خالى نہيں ہے پس احوط وجوبى يہ ہے كہ اسے اتارنے كے بعد دوبارہ نيت كرے اور تلبيہ كہے_

مسئلہ ۱۱۸_ اگر سردى و غيرہ كى وجہ سے سلا ہوا لباس پہننے پر مجبور ہو تو قميص و غيرہ جيسے رائج لباس سے استفادہ كرنا جائز ہے ليكن اس كا پہننا جائز نہيں ہے بلكہ اسكے اگلے اور پچھلے حصے يا اوپرى اور نچلے حصے كو الٹا كركے اپنے اوپر اوڑھ لے _

مسئلہ ۱۱۹_ محرم كيلئے حمام ميں جانے ، تبديل كرنے يا دھونے و غيرہ كيلئے احرام كے كپڑوں كا اتارنا جائز ہے _

مسئلہ ۱۲۰_ محرم كيلئے سردى و غيرہ سے بچنے كيلئے دوسے زيادہ كپڑوں كا

۷۵

اوڑھنا جائز ہے پس دو يا زيادہ كپڑوں كو اپنے شانوں كے اوپر يا كمركے ارد گرد اوڑھ لے _

مسئلہ ۱۲۱_ اگر احرام كا لباس نجس ہوجائے تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اسے پاك كرے يا تبديل كرے _

مسئلہ ۱۲۲_ احرام كى حالت ميں حدث اصغر يا اكبر سے پاك ہونا شرط نہيں ہے پس جنابت يا حيض كى حالت ميں احرام باندھنا جائز ہے ہاں احرام سے پہلے غسل كرنا مستحب مؤكد ہے اور اس مستحب غسل كو غسل احرام كہاجاتا ہے اور احوط يہ ہے كہ اسے تر ك نہ كرے_

۲_ احرام كے مستحبات

مسئلہ ۱۲۳_ مستحب ہے احرام سے پہلے بدن كا پاك ہونا ،اضافى بالوں كا صاف كرنا ،ناخن كاٹنا _ نيز مستحب ہے مسواك كرنا اور مستحب ہے احرام سے پہلے غسل كرنا ، ميقات ميں يا ميقات تك پہنچنے سے پہلے_ مثلاً مدينہ

۷۶

ميں _ اور ايك قول كے مطابق احوط يہ ہے كہ اس غسل كو ترك نہ كيا جائے اور مستحب ہے كہ نماز ظہر يا كسى اور فريضہ نماز يا دوركعت نافلہ نماز كے بعد احرام باندھے بعض احاديث ميں چھ ركعت مستحب نماز وارد ہوئي ہے اور اسكى زيادہ فضيلت ہے اور ذيقعد كى پہلى تاريخ سے اپنے سر اورداڑھى كے بالوں كو بڑھانا بھى مستحب ہے _

۳_ احرام كے مكروہات

مسئلہ ۱۲۴_ سياہ ،ميلے كچيلے اور دھارى دار كپڑے ميں احرام باندھنا مكروہ ہے اور بہتر يہ ہے كہ احرام كے لباس كا رنگ سفيد ہو اور زرد بستر يا تكيے پر سونا مكروہ ہے اسى طرح احرام سے پہلے مہندى لگانا مكروہ ہے البتہ اگر اس كا رنگ احرام كى حالت ميں بھى باقى رہے _اگر اسے كوئي پكارے تو ''لبيك'' كے ساتھ جواب دينا مكروہ ہے اور حمام ميں داخل ہونا اور بدن كو تھيلى و غيرہ كے ساتھ دھونا بھى مكروہ ہے _

۷۷

۴_ احرام كے محرمات

مسئلہ ۱۲۵_ احرام كے شروع سے لے كر جبتك احرام ميں ہے محرم كيلئے چند چيزوں سے اجتناب كرنا واجب ہے _ ان چيزوں كو '' محرمات احرام '' كہا جاتا ہے _

مسئلہ ۱۲۶_ محرمات احرام بائيس چيزيں ہيں _ان ميں سے بعض صرف مرد پر حرام ہيں _ پہلے ہم انہيں اجمالى طور پر ذكر كرتے ہيں پھر ان ميں سے ہر ايك كو تفصيل كے ساتھ بيان كريں گے اور ان ميں سے ہر ايك پر مترتب ہونے والے احكام كو بيان كريں گے_

احرام كے محرمات مندرجہ ذيل ہيں:

۱_ سلے ہوئے لباس كا پہننا

۲_ ايسى چيز كا پہننا جو پاؤں كے اوپر والے سارے حصے كو چھپالے

۳_ مرد كا اپنے سر كو اور عورت كا اپنے چہرے كو ڈھانپنا

۴_ سر پر سايہ كرنا

۷۸

۵_ خوشبو كا استعمال كرنا

۶_ آئينے ميں ديكھنا

۷_ مہندى كا استعمال كرنا

۸_ بدن كو تيل لگانا

۹_ بدن كے بالوں كو زائل كرنا

۱۰_ سرمہ ڈالنا

۱۱_ ناخن كاٹنا

۱۲_ انگوٹھى پہننا

۱۳_ بدن سے خون نكالنا

۱۴_ فسوق ( يعنى جھوٹ بولنا ، گالى دينا ، فخر كرنا)

۱۵_جدال جيسے ''لا واللہ _ بلى واللہ ''كہنا

۱۶_ حشرات بدن كومارنا

۱۷_ حرم كے درختوں اور پودوں كواكھيڑنا

۱۸_ اسلحہ اٹھانا

۷۹

۱۹_ خشكى كا شكار كرنا

۲۰_ جماع كرنا اور شہوت كو بھڑ كانے والا ہر كام جيسے شہوت كے ساتھ

ديكھنا بوسہ لينا اور چھونا

۲۱_نكاح كرنا

۲۲_استمنا كرنا

مسئلہ ۱۲۷_ ان ميں سے بعض محرمات ويسے بھى حرام ہيں اگر چہ محرم نہ ہو ليكن احرام كى حالت ميں ان كاگناہ زيادہ ہے_

محرمات احرام كے احكام :

۱_ سلے ہوئے لباس كا پہننا

مسئلہ ۱۲۸_ احرام كى حالت ميں مردپر سلے ہوئے كپڑوں كا پہننا حرام ہے اور اس سے مراد ہر وہ لباس ہے كہ جس ميں گردن ، ہاتھ يا پاؤں داخل

۸۰

امام حسن عسکریؐ :

آپ بھی اپنے معصوم بزرگوں کی طرح دین کی حفاظت فرماتے رہے۔ پ کے زمانہ میں ایک مرتبہ قحط پڑا۔ مسلمان نماز استقاٗ پڑھ کر دعا مانگ چکے تھے مگر پانی کو نہ برسنا تھا نہ برسا۔ لوگ حیران و پریشان تھے اُسی وقت ایک عیسائی راہب نکلا۔ وہ جس وقت دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا تھا اُسی وقت پانی برسنے لگتا تھا۔ مسلمانوں میں بڑی بچینی پھیل گئی جس کے دوع کرنے کا کوئی ذریعہ حکومت کے پاس نہ تھا۔ عزت بچانے کے لئے حکومت امامؐ سے مدد لینے پر مجبور ہوئی۔ آپ تشریف لائے اور راہب نے جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو آپ نے اپنے صحابی سے فرمایا جو چیز اس کی انگلیوں کے درمیان ہے اسے نکال لو۔ جو چیز نکالی گئی وہ ایک ہڈی تھی۔ آپ نے فرمایا یہ کسی نبی کے جسم کی ہڈی ہے۔ جب بھی اس کو زیر آسمان برہنہ کیا جائےگا پانی برسنے لگےگا۔ آپ نے اس ہڈی کو دفن کر دیا پھر خود نماز استقاٗ پڑھ کر دعا فرمائی۔ پانی برسا اور خوب برسا کہ زمین جل تھل ہو گئی اور لوگ نہال ہو گئے۔

بارہویں امامؐ

جناب ابراہیمؐ اور جناب موسیؐ کی طرح زمانے کے ظالم آپ کی پیدائش سے پہلے ہی آپ کے دشمن تھے اور چاہتے تھے کہ آپ پیدا نہ ہونے پائیں کیونکہ وہ سب جانتے تھے کہ آپ ظاہر ہو کر دنیا سے ہر ظالم کے ظلم کو مٹا دیں گے۔ اسی وجہ سے ہر ظالم آپ کے پیدا ہونے سے ڈرتا تھا۔ خدا وند عالم نے آپ کی حفاظت کا یہ انتظام فرمایا کہ جناب نرجس خاتون کے یہاں آثار حمل ظاہر ہی نہیں ہوئے اور کسی کو ولادت سے پہلے پتہ نہ چل سکا کہ کہ جناب نرجس خاتون کی گود امام زمانہؐ سے آباد ہونے والی ہے۔ آپ کی پرورش بھی پوشیدہ طور پر ہوتی رہی۔ ابھی آپ کا سن مبارک چار سال کا تھا کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔

۸۱

گیارہویں امامؐ کی شہادت کے بعد آپ لوگوں کی نظر سے پوشیدہ رہتے تھے۔ صرف آپ کے نائب آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور ان کے ذریعہ مسائل کے جواب ملتے تھے۔ ستر سال کے بعد جب غیبت صغریٰ کی مدت پوری ہو گئی اور حضرت کے چوتھے نائب کا بھی انتقال ہو گیا تو آپ نے اعلان فرمایا کہ اب کوئی میرا نائب نہیں ہے اور اس وقت سے غیبت کبریٰ کا دور شروع ہو گیا۔ غیبت کبریٰ کے زمانہ میں بھی بہت سے خوش نصیب افراد کو حضرت کی زیارت نسیب ہوتی رہتی ہے۔

نوٹ : بچوں کو یہ سبق اس طرح پڑھایا جائے کہ واقعات ذہن نشین ہو جائے۔

سوالات :

۱ ۔ حجر اسود کیا ہے اور اس کو آنحضرت نے کس طرح نصب فرمایا ؟

۲ ۔ عبد اللہ بن مکتوم کا واقعہ کیا ہے اور اس سے کیا سبق ملتا ہے ؟

۳ ۔ حضرت علیؐ عمرو ابن عبددو کو شکست دینے کے بعد اس کے سینہ سے کیوں اتر آئیں ؟

۴ ۔ خیرات کے سلسلہ میں امام حسنؐ اور معاویہ سے کیا خطہ و کتابت ہوئی ؟

۵ ۔ ہارون مکی کا واقعہ کیا ہے ؟

۶ ۔ امام محمد تقیؐ نے مامون کو کیا جواب دیا ؟

۷ ۔ غیبت صغریٰ کا زمانہ کتنا تھا ؟

۸۲

ستائیسواں سبق

چند واقعات

شب ہجرت :

جب کفار مکہ نے قتل کرنے کی نیت سے رات کو رسولؐ کے گھر کو گھیر لیا تو آپ نے حکم خدا سے ہجرت کی گھر چھوڑا غارثور میں پناہ لی اور وہاں سے مدینہ تشریف لائے۔ جب آنحضرتؐ گھر سے چلے تو حضرت علیؐ کو اپنے بستر پر لٹا دیا تاکہ دشمن رات بھر یہ سمجھتے رہیں کہ رسولؐ گھر میں موجود ہیں۔ حضرت علیؐ کھنچی تلواروں میں بڑے چین کی نیند سوئے۔ خدا نے جبرئیلؐ اور میکائیل ۶ کو آپ کی حفاظت اور پہرے کے لئے بھیجا اور آیت اتار کر اعلان کیا کہ علیؐ نے میری خوشنودی کے لئے اپنا نفس میرے ہاتھ بیچ ڈالا۔ اسی لئے حضرت علیؐ کو نفس اللہ کہتے ہیں۔

آئیہ ولایت :

ایک شخص نے رسولؐ کی مسجد میں آکر سب نمازیوں سے سوال کیا مگر کسی نے کچھ جواب نہ دیا جب وہ واپس جا رہا تھا تو حضرت علیؐ نے انگلی ہلاکر انگوٹھی اتارنے کا اشارہ کیا۔ آپ اس وقت رکوع میں تھے۔ خدا نے آیت اتاری۔ " تمہارا ولی صرف اللہ ہے اور اللہ کا رسولؐ ہے اور وہ ایمان والے ہیں٘ جو نماز پڑھتے ہوئے حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔ " اس آیت کا نام آیہ ولایت ہے۔

۸۳

آئیہ تطہیر :

ایک دن رسولؐ جناب فاطمہؐ کے گھر تشریف لائے اور ایک یمنی چادر اوڑھ کر لیٹے رہے۔امام حسنؐ امام حسینؐ ، حضرت علیؐ اور جناب فاطمہؐ یکے بعد دیگرے اجازت لے کر چادر میں داخل ہوئے۔ خدا نے ملائکہ سے کہا کہ میں نے دنیا اور اس کی ہر چیز ان پنجتنؐ کی محبت میں پیدا کی ہے اور اسکے بعد جبرئیلؐ کو ایک آیت لے جانے کا حکم دیا۔ جبرئیلؐ نے چادر میں داخل ہو کر آیہ تطہیر سنائی جس میں خدا نے کہا کہ " اے اہلبیتؐ اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ ہر برائی کو تم سے دور رکھے اور کمال سے تم کو اتنا آراستہ و پیراستہ رکھے جو آراستہ کرنے کی آخری حد ہے ۔" اس ّآیت کا نام آیہ تطہیر ہے۔ کساٗ کے معنی چادر کے ہیں اس لئے اس روایت کا نام حدیث کساٗ ہے۔ اور اسی وجہ سے پنجتن پاک کو اصحاب کساٗ کہا جاتا ہے۔

آیہ مودت :

ایک بار امام حسنؐ اور امام حسینؐ بیمار ہوئے رسولؐ کے ارشاد کے مطابق ماں باپ نے بچوں کی صحت کے لئے تین روزوں کی نذر مانی۔ صحت ہو جانے پر حضرت علیؐ ، جناب فاطمہ نے روزے رکھے۔ دونوں شہزادے بھی روزے سے رہے اور گھر کی کنیز نے بھی روزہ رکھا۔ تینوں دن جب یہ لوگ روزہ کھولنے بیٹھتے تھے تو کوئی نہ کوئی سائل آجاتا تھا۔ سب لوگ اپنی اپنی روٹیاں مانگنے والے کو دیدیتے تھے اور پانی سے روزہ افطار کر کے سو رہتے تھے۔ چوتھے دن جب رسالمابؐ ملنے آئے تو کمزوری اور بھوک کی شدت سے دونوں شہزادے کانپ رہے تھے حضورؐ نے دعا فرمائی اُسی وقت جنت سے سب کے لئے کھانا آیا اور خدا نے سورہ دہر بھی نازل فرمایا جس میں اہلبیتؐ کے اس ایثار قربانی اور خیر خیرات کی بہت تعریف کی گئی۔

۸۴

مباہلہ :

نجران کے عیسائی رسولؐ کے پاس مذہبی بحث کرنے آئے کیونکہ حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں اس لئے وہ خدا کے بیٹے ہیں۔ جواب میں رسولؐ نے قرآن کی آیت کا حوالہ دیا کہ حضرت آدمؐ اگر بغیر ماں باپ کے پیدا ہو سکتے ہیں تو حضرت عیسیٰؐ بغیر باپ کے کیوں پیدا نہیں ہو سکتا۔ مگر جب وہ دلیلوں سے قائل نہ ہوئے تو خدا نے آیت اتاری کہ " اے پیغمبرؐ کھلی دلیلوں کے بعد بھی جو حق نہیں مانتا اس سے کہئے کہ تم اپنے بچوں ، عورتوں اور نفسوں کو لے آؤ ، میں بھی اپنے بچوں ، عورتوں اور نفسوں کو لے کر آتا ہوں۔ پھر ہم سب جمع ہو کر مباہلہ کریں تاکہ جھوٹے پر خدا کا عذاب نازل ہو۔ رسولؐ مباہلہ میں اس طرح آئے کہ گود میں امام حسینؐ تھے۔ انگلی پکڑ کر امام حسنؐ چل رہے تھے نبیؐ کے پیچھے جناب فاطمہؐ تھیں اور آپ کے پیچھے حضرت علیؐ تھے۔ آپ نے سب کو بٹھلا کر کہا کہ جب میں میں بد دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا۔ عیسائی مباہلہ کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ان کے عالموں نے کہا رسولؐ اپنے ساتھ ایسے لوگوں کو لے کر آئے ہیں کہ وہ جو بھی کہہ دیں گے وہ بات ہو کر رہےگی لہذا سالانہ کچھ دینے کا وعدہ کر کے عیسائیوں نے صلح کر لی۔ اس واقعہ کا نام مباہلہ ہے۔ نبیؐ بچوں میں صرف حسنینؐ کو عورتوں میں صرف جناب فاطمہؐ کو اور نفسوں میں صرف حضرت علیؐ کو لے کر آئے تھے اسی وجہ سے حضرت علیؐ کو نفس رسولؐ کہا جاتا ہے۔

۸۵

سوالات :

۱ ۔ آیہ ولایت کیوں نازل ہوئی واقعہ بیان کرو ؟

۲ ۔ مباہلہ میں نبیؐ کے ساتھ کون کون گیا تھا ؟

۳ ۔ عیسائیوں نے مباہلہ کیوں نہیں کیا ؟

۴ ۔ شب ہجرت کا واقعہ بیان کرو ؟

۵ ۔ اہلبیتؐ کی محبت کب واجب ہوئی اور کیوں ؟

۶ ۔ حدیث کساٗ کسے کہتے ہیں اور اصحاب کساٗ سے کون لوگ مراد ہیں ؟

۷ ۔ سورہ دہر کن کی شان میں نازل ہوا اور کیوں ؟

۸۶

اٹھائیسواں سبق

مکہّ ۔ مدینہ

مکہّ ۔ مدینہ ۔ سعودی عرب کے دو مشہور شہر ہیں۔ مسلمانوں میں ان دونوں شہروں کی بےحد اہمیت ہے۔ مکہّ میں اللہ کا گھر کعبہ ہے جسے اللہ کے دو نبی جناب ابراہیمؐ اور جناب اسمعیلؐ نے مل کر تعمیر کیا تھا۔ اس کی تعمیر میں کسی غیر معصوم کا حصہ نہ تھا۔ جناب ابراہیمؐ اور جناب اسمعیلؐ اس کی دیواروں کو بلند کر رہے تھے اور جبرئیل امین ان دونوں کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ اسی کعبہ کی ایک دیوار میں حجر اسود نصب ہے جو ایک جنتی پتھر ہے۔ کعبہ کی تاریخ کا سب سے مشہور واقعہ یہ ہے کہ جناب فاطمہ بنت اسدؐ اسی کعبہ کی دیوار کے قریب دعا کر رہی تھیں دیوار شق ہوئی اور آپ اندر تشریف لے گئیں اور وہیں مولائے کائنات حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی۔

ہمارے رسول جناب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسی مکہّ میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے خاندان کے بزرگوں میں جناب عبد المطلب ، جناب ابو طالب کی قبریں اسی مکہ میں ہیں جسے جنت المعلیٰ کہا جاتا ہے۔ رسول کریمؐ کو مکہ سے بےحد محبت تھی۔ جب آپ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو برابر مکہّ کے حالات دریافت کیا کرتے تھے اور اپنے وطن میں پلٹ کر آنے کے خواہشمند تھے یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو موقع دیا اور آپ ۸ ھ؁ میں اپنے اصلی وطن میں ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے۔

۸۷

مدینہ منورہ ۔

نبی کریمؐ کا حرم کہا جاتا ہے۔ یہاں حضورؐ کی قبر مطہر ہے۔ ہجرت کے بعد حضورؐ نے اسی مدینہ میں آ کر قیام فرمایا تھا۔ اہل مدینہ نے آپ کا بڑا زبردست استقبال کیا تھا۔ اس موقع کا مشہور واقعہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے اونٹ کو آزاد کر کے یہ اعلان کر دیا تھا کہ جس کے دروازے پر اونٹ بیٹھ جائے گا میں اسی کے مکان میں قیام کروں گا۔ اونٹ حضرت ابو ایوب انصاری کے دروازے پر ٹھہرا اور آپ نے انھیں کے یہاں قیام فرمایا۔

مدینہ آنے پر جہاں اہل مدینہ نے آپ کی حمایت کی وہاں کفار مکہّ برابر آپ پر حملہ کرتے رہے اور آپ کو چند سال کے اندر بہت سی لڑائیاں لڑنا پڑیں۔ ۲۸/ صفر ۱۱ ھ؁ کو آپ نے اسی مدینہ میں انتقال فرمایا اور یہیں دفن ہوئے۔ اب یہ مدینہ "مدینہ منورہ " اور " مدینتہ الرسول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اسی مدینہ میں ایک مشہور قبرستان جنت البقیع ہے جہاں چار امام۔ حضرت امام حسنؐ ، حضرت امام زین العابدینؐ ، حضرت امام محمد باقرؐ ، حضرت امام جعفر صادقؐ اور ایک معصومہ عالم جناب فاطمہ زہراؐ کی قبریں ہیں۔ مدینہ بے حد با برکت جگہ ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کعبہ کہاں ہے اور اس کو کس نے بنایا ہے ؟

۲ ۔ کعبہ کے اندر کون پیدا ہوا ؟

۳ ۔ جنت المعلیٰ کہاں ہے اور جنت البقیع کہاں ہے ؟

۴ ۔ جنت البقیع میں کون سے ائمہ دفن ہیں ؟

۵ ۔ کس شہر حرم رسولؐ کہا جاتا ہے ؟

۸۸

انتیسواں سبق

نجف اشرف

ملک عراق کا ایک بڑا مشہور شہر ہے۔ آج سے ہزار سال پہلے سے " ظہر کوفہ" کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔اس زمانہ میں کوفہ کی آبادی بہت بڑی تھی۔ یہاں ہزاروں آدمی بستے تھے، بےشمار باغات تھے۔ دریا تھا پانی کا انتظام تھا۔ حکومت نے اسے فوجی چھاؤنی بنا رکھا تھا۔ نجف کوفہ سے باہر کا علاقہ تھا جسے کوفہ کی پشت کہا جاتا تھا۔ ظہر کے معنی ' پشت ' ہیں۔

یہاں تک کہ ۴۰ ھ؁میں اسی کوفہ کی جامع مسجد میں مولائے کائنات حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی شہادت ہوئی۔ آپ کی وصیت تھی کہ مجھے پشت کوفہ نجف میں دفن کیا جائے۔ وہاں آپ کی قبر پروردگار کے مخصوص انتظام کی بنا پر پہلے سے بنی تیار تھی۔ امام حسنؐ اور امام حسینؐ نے آپ کے جنازے کو اسی قبر میں دفن کیا۔

نجف اشرف کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہاں چار نبیوں کی قبریں ہیں۔ جناب آدمؐ ، جناب نوحؐ ، جناب ہودؐ اور جناب صالحؐ یہ سب یہیں دفن ہیں۔

امیر المومنینؐ کا مزار بننے کے بعد سے اس جگہ نے شہرت پائی اور دھیرے دھیرے اس شہر کی آبادی بھی بڑھتی گئی اور آج لاکھوں تک پہونچ چکی ہے۔ جب کہ کوفہ کی آبادی اس کی چوتھائی بھی نہیں ہے۔ یہ مولائے کائنات کا ایک شرف ہے کہ جس زمین کو آپ نے اپنی آرامگاہ بنا لیا وہ ویرانہ بھی آباد ہو گیا۔

۸۹

ہزار سال پہلے یہ جگہ آباد ضرور تھی لیکن علمی اہمیت نہیں تھی۔ جب حکومت کے ظالم و جور نے شیخ ابو جعفر طوسی پر بغداد میں ظلم ڈھائے اور آپ کا کتب خانہ جلا دیا تو آپ نے بغداد کو چھوڑ کر نجف اشرف کو آباد کر دیا۔ شیخ طوسی علیہ الرحمہ شیعہ علماٗ میں اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم اور مذہب شیعہ کی حدیث کی اہم کتابوں کے مؤلف تھے۔

امیر المومنین علیہ السلام کے ہمسایہ ہونے کی برکت اور شیخ طوسی علیہ الرحمہ کی نیت کے خلوص کا اثر تھا کہ اس علمی درسگاہ کی اہمیت بڑھتی ہی گئی اور دنیا کا سب سے بڑا دینی مرکز یہی نجف اشرف ہو گیا۔ ہزاروں طلاب ، علم دین حاصل کرنےلگے۔ سینکڑوں علماٗ درس دینے میں مصروف تھے۔ زائرین زیارت کے لئے آ رہے تھے اور یہ کہنا غلط نہیں تھا کہ نجف کی ہواؤں سے علم کی خوشبو آ رہی تھی۔ لیکن اسلام دشمن بعثی حکومت کے ظلم و ستم نے لاتعداد ، طلاب و مومنین کو شہید کر کے اس علمی مرکز کو ویران کر دیا اور اب دینی مرکز علم قم ہے۔

سولات :

۱ ۔ نجف اشرف میں کتنے نبیوں کی قبریں ہیں ؟

۲ ۔ حضرت علیؐ کی قبر کہاں ہے ؟

۳ ۔ نجف اشرف کو علمی مرکز ؂یت کیسے ملی ؟

۴ ۔ نجف کی مرکزیت کیسے ختم ہوئی ؟

۵ ۔ اب مرکز علم کہاں ہے ؟

۹۰

فہرست

معلمّ کے لئے ہدایت ۴

اصول دین ۵

پہلا سبق ۵

ہم کیوں پیدا ہوئے ؟ ۵

سوالات : ۶

دوسرا سبق ۷

خدا کی ذات و صفت ایک ہے ۷

سوالات : ۷

تیسرا سبق ۸

صفات ثبوتیہ ۸

قدیم ۔ ۸

قادر ۔ ۸

عالم ۔ ۸

حی ۔ ۹

مرید ۔ ۹

متکلم ۔ ۹

صادق ۔ ۹

سوالات : ۹

چوتھا سبق ۱۰

۹۱

صفات سلبیہ ۱۰

۱ ۔ خدا مرکب نہیں ۔ ۱۰

۲ ۔ خدا جسم نہیں رکھتا ۔ ۱۰

۳ ۔ خدا کی صفتیں عین ذات ہیں ۔ ۱۰

۴ ۔ خدا مرئی نہیں ۔ ۱۰

۵ ۔ خدا کسی چیز میں حلول نہیں کرتا۔ ۱۱

۶ ۔ خدا مکان نہیں رکھتا۔ ۱۱

۷ ۔ خدا محل حوادث نہیں۔ ۱۱

۸ ۔ خدا کا کوئی شریک نہیں۔ ۱۱

سوالات : ۱۱

پانچواں سبق ۱۲

خدا قادر و مختار ہے ۱۲

سوالات : ۱۲

چھٹا سبق ۱۳

خدا برائی نہیں کرتا ۱۳

سوالات : ۱۳

ساتواں سبق ۱۴

انسان مجبور ہے یا مختار ؟ ۱۴

سوالات : ۱۵

آٹھواں سبق ۱۶

۹۲

تین سوال ایک جواب ۱۶

سوالات : ۱۷

نواں سبق ۱۸

بارہ امام ۱۸

پہلی دلیلی ۔ ۱۸

دوسری دلیل ۔ ۱۹

سوالات : ۱۹

دسواں سبق ۲۰

حضرت علی علیہ السلام کی خلافت ۲۰

پہلی دلیل ۔ ۲۰

دوسری دلیل ۔ ۲۲

سوالات : ۲۴

گیارہواں سبق ۲۵

بارہویں امامؐ ۲۵

دلیل ۱ ۲۶

دلیل ۲ ۲۶

دلیل ۳ ۔ ۲۶

سوالات : ۲۶

بارہواں سبق ۲۷

نوابِ اربعہ ۲۷

۹۳

سوالات : ۲۸

تیرھواں سبق ۲۹

قیامت ۲۹

سوالات : ۳۰

چودھواں سبق ۳۱

برزخ ۳۱

سوالات : ۳۳

پندرہواں سبق ۳۴

عمل اور حساب ۳۴

سوالات : ۳۴

فروع دین ۳۵

سولہواں سبق ۳۵

میت کے احکام ۳۵

موت کا وقت ۳۵

غسل مسّ میت ۳۵

غسل میت ۳۵

غسل کی ترکیب ۳۶

طریقہ حنوط ۳۶

کفن ۳۶

تصریح ۳۶

۹۴

کفن ۳۷

نماز میت ۳۸

ترکیب نماز میت ۳۹

کاندھا دینے کا طریقہ ۳۹

طریقہ دفن ۴۰

قبر کی اونچائی ۴۱

سوالات : ۴۱

سترہواں سبق ۴۲

روزہ ۴۲

کفارہ کی تفصیل ۴۳

قضا روزے ۴۴

مسافر کے روزے ۴۵

کن لوگوں پر روزہ واجب نہیں ۴۵

چاند کے ثبوت کے طریقے ۴۶

سوالات : ۴۶

آٹھارہواں سبق ۴۷

حج ۴۷

سوالات : ۴۸

انیسواں سبق ۴۹

زکوٰۃ ۴۹

۹۵

فطرہ ۵۰

سوالات : ۵۰

بیسواں سبق ۵۱

خمس ۵۱

خمس کا مصرف ۵۲

سوالات : ۵۲

اکیسواں سبق ۵۳

متفرق مسائل ۵۳

سوالات : ۵۳

اخلاق ۵۴

اصلاح نفس ۵۴

اصلاح معاشرہ ۵۴

بائیسواں سبق ۵۵

سود ، غیبت ، اطاعت والدین اور جھوٹ ۵۵

سود ۵۵

سود کے معنی ۵۵

سود سے بچنے کا طریقہ ۵۵

غیبت ۵۶

کن مقامات پر غیبت جائز ہے ۵۷

جائز غیبت ۵۷

۹۶

اطاعت والدین : ۵۸

سچا واقعہ : ۵۹

جھوٹ : ۶۰

سوالات : ۶۱

تیئیسواں سبق ۶۲

دین و شریعت ۶۲

سوالات : ۶۲

چوبیسواں سبق ۶۳

محبت ۔ نفرت ۶۳

سوالات : ۶۴

پچیسواں سبق ۶۵

تقیہ ۶۵

تقیہ کیسے کیا جاتا ہے ۶۷

سوالات : ۶۷

تاریخ ۶۸

شخصیات ۶۸

واقعات ۶۸

چھبیسواں سبق ۶۹

ہمارے ہادی ۶۹

ہمارے رسولؐ : ۶۹

۹۷

جناب فاطمہ زہراؐ : ۷۱

حضرت علیؐ : ۷۲

امام حسنؐ : ۷۳

امام حسینؐ : ۷۴

امام زین العابدینؐ : ۷۵

امام محمد باقرؐ : ۷۶

امام جعفر صادقؐ : ۷۷

امام مویٰ کاظمؐ : ۷۸

امام علی رضاؐ : ۷۸

امام محمد تقیؐ : ۷۹

امام علی نقیؐ : ۸۰

امام حسن عسکریؐ : ۸۱

بارہویں امامؐ ۸۱

سوالات : ۸۲

ستائیسواں سبق ۸۳

چند واقعات ۸۳

شب ہجرت : ۸۳

آئیہ ولایت : ۸۳

آئیہ تطہیر : ۸۴

آیہ مودت : ۸۴

۹۸

مباہلہ : ۸۵

سوالات : ۸۶

اٹھائیسواں سبق ۸۷

مکہّ ۔ مدینہ ۸۷

مدینہ منورہ ۔ ۸۸

سوالات : ۸۸

انتیسواں سبق ۸۹

نجف اشرف ۸۹

سولات : ۹۰

فہرست ۹۱

۹۹