امامیہ اردو ریڈر درجہ دوم جلد ۲

امامیہ اردو ریڈر درجہ دوم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 52

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 52 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42375 / ڈاؤنلوڈ: 4074
سائز سائز سائز
امامیہ اردو ریڈر درجہ دوم

امامیہ اردو ریڈر درجہ دوم جلد ۲

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

امامیہ اُردو ریڈر

درجہ دوم

تنظیم المکاتب

۳

ہدایت

طلبہ کو پڑھنے میں روانی پیدا کرایۓ ، تلفظ کی درستی پڑ خاص دھیان رکہۓ۔

الفاظ کے معنی کاپی پر لکھوا کر یاد کرایۓ سبق کے بعد کے مشقی سوالات ضرور حل کرایۓ۔

پڑھانے کے بعد نقل اور املا ضرور لکھوایۓ

اور

خو شخطی پر خاص نظر رکھۓ

ناشر

۴

خاتم الانبیا

سبق [ ۱]

اے محمد حبیبِ خدا آپ ہیں مجتبیٰ آپ ہیں مضطفیٰ آپ ہیں

باعث خلقتِ انبیا آپ ہیں وجہ تخلیقِ ارض و سما آپ ہیں

یہ تو سمجھا نہیں کوئی کیا آپ ہیں مختصر یہ ہے شان خدا آپ ہیں

اپ جس کوملے حق اُسی مل گیا کیوں نہ ہو عبدِ خالق نما آپ ہیں

آپ کے بعد کوئی پیمبر نہیں اس لیے خاتم الانبیا آپ ہیں

مطمئن عاصیوں کا ہے قلب جریں شافعِ اہلِ روزِ جزا آپ ہیں

انبیا ہوں کہ ہوں جنُّ و انس و ملک سب کےلا ریب حاجت روا آپ ہیں

آپ سے پہلے کوئی نہ تھا جز خدا

اوّل نقش کلک قضا آپ ہیں

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :-

باعث ۔ ارض ۔ سما ۔ عبد ۔ عاصیوں ۔ جریں ۔ شافع ۔ قلب ۔ روز جزا ۔ جن ۔ انس ۔ لاریب ۔ کلک ۔ خالق نما ۔ قضا ۔ تخلیق ۔ حاجت روا ۔ وجہ ۔ جز ۔ خلقت ۔ مصطفیٰ ۔ مجتبیٰ ۔خاتم الانبیا ۔ حبیب۔

سوالات

۱ ۔ ءاتم الانبیا کون تھے ان کا پورا نام بتاؤ اور ان کے ماں باپ کون تھے ان کے نام بتاؤ

۲ ۔ ہمارے نبی کے القاب کیا ہیں۔

۵

شادی

سبق [ ۲]

بچّو تم نے اپنی چھوٹی سی عمر میں بہت سی شادیاں دیکھی ہوں گی اور ہر شادی میں نیا انداز نۓ طور طریقے اور نئی نئی رسمیں بھی دیکھی ہوں گی اکثر شادیوں میں شور و غل ہکڑ ہنگامہ بد تمیزیاں ہوتی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے بھونڈا بھونڈا مذاق کرتے ہیں گالیاں تک بکی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کو ستایا جاتا ہے۔ بات بات پر نخرے ہوتے ہیں۔ پردہ دار عورتیں بھی بے پردہ ہو جاتی ہیں وعورتیں اور مرد مل جل کر بیٹھتے ہیں۔ غرض کہ اچھے خاصے مہذب لوگ بھی غیر مہذب ہو جاتے ہیں نہ مذہب کا خیال رکھا جاتا ہے نہ تہذیب کا۔ رسم و رواج کے نام پر غیر اسلامی کام ہوتے ہیں۔ فضول خرچی اور اسراف ہوتا ہے آتش بازی، آرائش ، ہار پھول ، اور مختلف اقسام کے کھانوں اور گاڑیوں کی ریل پیل سے دولت کی نمائش کی جاتی ہے۔ یہ سب حکم خدا اور سیرت معصومین کے خلاف ہے۔

حضرت رسول اکرم کا حکم ہے کہ لڑکا، لڑکی اور اس کے سر پرست راضی ہوں تو مومنین کے مجمع میں نکاح پڑھ کر لڑکی کو عزّت آبرو کے ساتھ رخصت کر دیا جاۓ۔

آپ نے جہیز دینے کا بھی یہ طریقہ بتایا ہے کہ لڑکے سے مہر کی رقم لے کر لڑکی کے لۓ جہیز کا سامان خریدا جاۓ۔ شروع شروع میں ایسا ہی ہوا۔ بڑی سادگی کا نکاح بھی نہایت سادگی کے ساتھ ہوا لیکن اب ڈانس ، ویڈیو گرافی ، کھڑے کھڑے کھانا کھانا ، نکاح کے ٹیوی ، موٹر سائکل ، کار وغیرہ جیسی چیزوں کی بے جا مانگیں اور ناجائز فرمائشیں عام باتیں ہیں مہر کوئی نہیں دیتا اور جہیز کی مانگ سب کرتے ہیں۔

۶

ہلڑ ہنگامہ کے بیچ مذہبی رسم کے طور پر بس عقد پڑھتا ہے جبکہ اسلام کی نگاہ میں عقد ہی اصل میں شادی ہے۔

ذرا سوچو کیا ہمارے رسول نے یہی سکھایا تھا۔ کیا ہمارے اماموں کا یہی طریقہ تھا اور جب یہ سب غلط ہے تو تم یہ طے کر لو کہ بڑے ہو کر اس کا مقابلہ کروگے۔ ہر غلط رواج اور برمی رسم کو توڑ دوگے۔ ایسی شادیوں میں نہ جاؤ گے جس میں ڈانس اور میوزک ہو ایسے لوگوں کو بڑا سمجھو گے جو مہر دینے کے بجائے جہیز پر جھگڑا کرتے ہوں۔ ایسے گھروں سے الگ رہو گے جو شادی کے نام پر دوسروں کا مال ہڑپنا چاہتے ہیں اگر تم نے ایسا کر لیا تو خدا اور چہاردہ معصومین تم سے خوش ہوںگے اور قیامت میں تم جنّت کے حقدار ہوگے۔

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

انداز ۔ طور طریقے ۔ پردہ دار ۔ خواتین ۔ مہذب ۔ تہذیب ۔ غیر اسلامی ۔ اسراف ۔ مختلف ۔ آتش بازی ۔ آرائش ۔ نمائش ۔ سیرت ۔ سر پرست ۔ راضی ۔ مجمع ۔ رخصت ۔ جہیز ۔ مہر ۔ ڈانس ۔ ویڈیو گرافی ۔ شیرینی ۔ عسم ۔ عقد ۔ مقابلہ ۔ میوزک ۔ حقدار ۔

سوالات

۱ ۔ اکثر شادیوں میں کیا ہوتا ہے ؟

۲ ۔ شادی کے سلسلہ میں رسول اللّٰہ کا کیا حکم ہے ؟

۳ ۔ آپ نے جہیز دینے کا کیا طریقہ بتایا ہے ؟

۴ ٤۔ تم بڑے ہو کرکیا کروگے ؟

۵ ٥۔ جناب فاطمہ کی شادی کے بارے میں کیا جانتے ہو ؟

۷

تبلیغ

سبق [ ۳]

پیارے بچّو دین اسلام نے ہمیں جن باتوں کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کو اچھائی کا راستہ بتاؤ اور اگر وہ بڑائی میں پڑے ہیں تو انہیں بڑائی سے نکال کر اچھائی کے راستے پر لگا دو۔ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ سب کام مولوی لوگوں کا ہے ہم سے اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا دھوکا ہے۔ اصل میں یہ ہر مسلمان کا فرض ہے اگر ہم اور تم مسلمان ہیں تو ہمارا بھی فرض ہے کہ لوگوں کو برائیوں سے روکیں اور انہیں اچھے راستے کی طرف لے آئیں۔ گھر میں کسی کو نماز نہ پڑھنے دیکھیں تو صبح سویرے جگا کر نماز پڑھوائیں ، رمضان میں سب سے روزہ رکھوائیں ، کوئی مسجد میں نہ جاتا ہو تو اسے مسجد میں لے جائیں ، کوئی غریبوں کا حق نہ دیتا ہو تو اس سے حق دلوائیں ، کوئی کسی کی برائی کرتا ہو تو اسے روکیں ، جھوٹ بولتا ہو تو منع کریں ، دوسرے کو پریشان کرتا ہو تو اس بیچارے کا ساتھ دیں ، لیکن اس کام کے لیے لڑائی جھگڑا نہ کریں بہت آسانی سے سمجھا دیں اگر وہ مان لے گا تو اُسے اور ہم کو دونوں کو ثواب ملےگا اور نہ مانےگا تو ہمیں سمجھانے کا ثواب بہرحال ملےگا۔ تم نے سنا ہوگا کہ امام حسن اور امام حسین ایک راستے سے جا رہے تھے ایک بڑھا آدمی بیٹھا ہوا وضو کر رہا تھا اس کا وضو غلط تھا۔ دونوں حضرات بیٹھ گئے اور فرمایا کہ ای مرد بزرگ ہم دونوں بھائی وضو کرتے ہیں آپ بتا دیں کہ کس کا وضو صحیح ؟ یہ کہ کر دونوں بھائیوں نے وضو شروع کیا۔ بوڑھا آدمی یہ دیکھ کر سمجھ گیا کہ یہ بچّے مجھے صحیح وضو بتانا چاہتے ہیں۔ دل میں خوش ہوا اور کہنے لگا بچّوں تم صحیح وضو کرتے ہو۔ میں ہی غلط پر تھا۔ میں تمھارے اس ادب پر دل و جان سے قربان ہوں۔

۸

دیکھو اگر دونوں حضرات نے اسے ڈانٹ دیا ہوتا تو وہ کبھی نہ مانتا لیکن جب اس کی بزرگی کا لحاظ رکھ کر سمجھایا تو خوشی سے مان گیا تم بھی دوسروں کو ادب کے ساتھ سمجھاؤ۔ لیکن پہلے یہ سمجھ لو کہ جو کچھ سمجھا رہے ہو وہ ٹھیک بھی ہے یا نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی غلط بات سمجھا دو جیسا کہ اکثر لوگوں کا طریقہ ہے کہ خود بات کو نہیں جانتے اور دوسروں کو بتانے کے لیے بےچین رہتے ہیں۔ دوسروں کو بات سمجھانے سے پہلے خود اس پر عمل کرو تاکہ تمھاری بات کا زیادہ اثر ہو۔

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

فرض ۔ تبلیغ ۔ ادب ۔ صحیح ۔ قربان ۔ لحاظ ۔ عمل ۔ اثر

ان الفاظ کو جملے میں استعمال کرو :-

ادب ۔ تبلیغ ۔ فرض ۔ قربان ۔ لحاظ

جملے پورے کرو :-

تبلیغ کرنا سب کا۔۔۔۔ہے۔ہم سب کا۔۔۔۔۔کرتے ہیں۔ہم آپ پر جان و دل سے۔۔۔۔۔ہیں۔بزرگوں کا۔۔۔۔۔رکھنا ضروری ہے۔

سوالات

١۔ تم نے کتنے لوگوں کو نماز کے لئے جگایا۔ کتنے لوگوں کو برائی سے روکا۔ کتنے غریبوں کی مدد کی ؟

٢۔ امام حسن اور امام حسین نے بوڑھے کو کسی طرح سمجھایا ؟

٣۔ ڈانٹ کر سمجھانے میں کیا خرابی ہے ؟

۹

یا علی

سبق [ ۴]

ہر مصیبت کا سہارا یا علی- بحرِ غم کا ہے کنارا یا علی

جب ستایا اہل دنیا نے ہمیں - ہم نے گبھرا کر پکارا یا علی

لوگ چڑھتے ہیں تو چڑھتے ہی رہیں - ہم کو تو ہے دل سے پیارا یا علی

اپنے دل کا مدعا مولا کا نام - اپنی آنکھوں کا ہے تارا یا علی

کانپتے ہیں اب بھی تیرے نام سے - قبر میں جمشید و دارا یا علی

تیری ہی برکت سے مولا آج بھی - جیتا ہے ہر غم کا مارا یا علی

آ گیا ہے تیرے قدموں کے طفیل - اوج پر اپنا ستارا یا علی

جب فرشتوں نے جگایا قبر میں - دل نے چلا کر پکارا یا علی

بیکسوں اور درد مندوں کے لیے -ہے تمھارا ہی سہارا یا علی

غیر کو ہو گا سہارا غیر کا

اور ہمارا ہے سہارا یا علی

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

بحر ۔ مدعا ۔ جمشید ۔ دارا -طفیل ۔ اوج ۔ بیکس ۔ درد مند

۱۰

تولّا تبرّا

سبق [ ۵]

ہمارے دین اسلام نے ہمیں جہاں اور بہت سی اچھّی باتیں سکھائی ہیں ان میں سے یہ دو باتیں بھی ہیں تولّا تبرّا۔ تولّا کے معنی ہیں اچھے اور نیک لوگوں سے دوستی اور تبرّا کے معنی ہیں بڑے اور بد کردار لوگوں سے نفرت و بیزاری۔ جو جتنا اچھا ہوگا اس سے اتنی ہی محبّت ہوگی اور جو جتنا برا ہوگا اس سے اتنی ہی نفرت ہوگی۔ حضرت محمد مصطفیٰ اور ان کے بارہ نائب جو ہمارے بارہ امام ہیں اور حضرت فاطمہ زہرا دنیا میں سب سے اچھے لوگ تھے ان سے اچھا کوئی دوسرا نہ تھا اس لیے ان کی محبّت اور ان کی پیروی ضروری ہے۔ تم نے سُنا ہوگا کہ ایک دفعہ کچھ لوگ رسولِ اکرم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ نے ہم کو اچھا راستہ دکھا نے میں بڑی تکلیف اٹھائی ہے۔ اب اپنی تکلیف کی اجرت اور اپنی محنت کی مزدوری لے لیجئے تو آپ نے حکم خدا سے ارشاد فرمایا کہ میں اپنی محبت کا کوئی بدلہ نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ تم میرے قرابتداروں سے دل سے محبّت کرو ، اس لیے کہ جب تم ان سے محبّت کروگے تو ان کے طور طریقے کو اپناؤگے اور اس طرح دین اسلام پر عمل کر کے اچھّے آدمی بن جاؤگے اور میرا دین خود بخود پھیلتا رہےگا۔

یاد رکھو دوستی وہی دوستی ہوتی ہے جو دل سے کی جاتی ہے خالی زبان سے دوستی کوئی دوستی نہیں ہے۔ رسول اللّٰہ سے سچّی محبّت اسی کو ہے جو آپ کی اولاد کو دل سے دوست رکھتا ہے خالی زبان سے نہیں اب جس طرح تولّا دل سے دوستی کا نام ہے جس کے بعد آدمی کا عمل خراب نہیں ہو سکتا اسی طرح تبرّا دل سے دشمنی کرنے کا نام ہے ، تبرّا کے معنی گالی دینے ہنگامہ کرنے کے نہیں۔

۱۱

بلکہ تبرّا کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ برے ہیں اُن سے نفرت کی جائے اور دل میں ان لوگوں سے بیزاری ضروری ہے لیکن اس طرح نہیں کہ انہیں برا کہتے رہیں اور خود وہی کرتے رہیں بلکہ اس طرح کہ ان کے طو رطریقے کو چھوڑ دیں ، انہوں نے دوسروں کا حق چھین لیا تھا تو ہم کسی کا حق غصب نہ کریں انہوں نے مظلوموں کا گھر جلا نے کے لیے آگ اور لکڑی جمع کی تھی ہم کسی مومن کا دل نہ جلائیں۔ وہ میدان جنگ سے بھاگ گئے تھے ہم دین کو بچاتے رہیں اور کبھی نہ بھاگیں۔ انہوں نے شراب پی تھی تو ہم نہ پئیں ، وہ جوا کھیلتے تھے تو ہم نہ کھیلیں۔ وہ بے ایمانی کرتے تھے تو ہم نہ کریں۔ وہ امام حسینؐ کے قاتل تھے تو ہم کسی کو نہ ستائیں۔ ورنہ اگر ہم انہیں کی طرح ساری برائیاں کرتے رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری نفرت زبانی ہے اور ہم دل سے ان کے ساتھ ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ ہم میں کتنے آدمی ہیں جو رسول اور اولاد رسول سے محبّت کرتے ہیں اور کتنے آدمی ہیں جو ان کے دشمنوں کے ساتھ ہیں۔ اس کا فیصلہ ہر ایک کے عمل سے ہوگا۔ بچّو تم اچھّے کام کرو، نماز پڑھو، روزہ رکھو، جھوٹ نہ بولو۔ کسی کو نہ ستاؤ کسی کا مال نہ کھاؤ۔ کسی غریب کا حق نہ مارو۔ کسی کے ساتھ بے ایمانی نہ کرو تاکہ اہلبیت کے دوستوں میں شمار کیے جاؤ۔

الفاظ کے معنی یاد کرو :-

تولّا ۔ تبرّا ۔ محبّت ۔ نفرت ۔ طور طریقہ ۔ بیزاری ۔ اُجرت ۔ حق مار لینا ۔ قرابتداری ۔ غصب ۔ قاتل ۔ اہلبیت ۔

جملوں میں استعمال کرو :-

تبرّا ۔ طور طریقہ ۔ اجرت ۔ غصب ۔ قاتل ۔

سوالات

۱ ۔ دل سے دوستی اور دل سے دشمنی کا کیا مطلب ہے ؟

۲ ۔ اہلبیت کے دشمنوں کا طور طریقہ کیا تھا ؟

۳ ۔ تم اہلبیت کی پیروی کس طرح کرتے ہو ؟

۱۲

روزانہ کا حساب

سبق [ ۶]

تم نے دیکھا ہوگا کہ سمجھدار دوکاندار جب رات میں دوکان دوکان بند کرنے لگتا ہے تو یہ دیکھ لیتا ہے کہ آج دن بھر میں کتنی کی بکری ہوئی ہے کتنا فوئدہ ہوا کتنا نقصان ہوا، کسی چیز میں فائدہ ہوا کس چیز میں فائدہ نہیں ہوا، لیکن کیا کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ یہ سب کیوں ہوتا ہے۔؟ یاد رکھو دوکاندار یہ سارے کام اس لیے کرتا ہے کہ اس کی دن بھر کی محنت بیکار نہ ہونے پائے جس چیز میں فائدہ ہوا اس کا کاروبار کرے اور جس چیز میں کوئی فائدہ نہیں ہوا اُسی چھوڑ دے۔ تو جب ایک دوکاندار اپنے معمولی سامان میں اتنا سخت حساب کتاب رکھتا ہے تو کیا تمھارا فرض نہیں ہے کہ تم بھی رات کے وقت بستر پر لیٹ کر اپنے دن بھر کا حساب کرو کہ ہم نے اپنے وقت سے کتنا فائدہ اُٹھایا۔ اور کتنا وقت برباد کر دیا ؟ ہم نے نماز پڑھی یا نہیں؟ کپڑے صاف رکھے یا نہیں؟ دانت صاف کیے یا نہیں؟ گھر والوں کو سلام کیا یا نہیں؟ غریب و محتاج کو کوئی پیسہ دیا یا نہیں؟ اسکول گئے یا نہیں؟ اسکول سے آکر سبق یاد کیا یا نہیں؟ گھر کا سودا بازار سے لائے یا نہیں؟ گھر والوں اور محلہ والوں کو خوش رکھا یا نہیں؟ اور اگر یہ کام نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کا سارا دن بیکار گزر گیا اور وقت برباد ہو گیا۔ لہذا فوراً بستر سے اُٹھ جاؤ اور جتنا کام رہ گیا ہے پہلے اسے تمام کرو اس کے بعد آرام کرو۔ نماز رہ گئی ہے تو اسے پڑھو۔ دانت نہیں صاف کیے ہیں تو صاف کرو اور موقع ہو تو وضو کر کے سوؤ اس لیے کہ جو آدمی وضو کر کے سوتا ہے اس کا تمام رات کا سونا عبادت میں شمار ہوتا ہے۔

الفاظ کے معنی یاد کرو :-

بکری ۔ فائدہ ۔ حساب ۔ سودا ۔ بیکار ۔ عبادت ۔ روزانہ

جملے بناؤ :-

آج دوکان میں کتنی۔۔۔۔۔ہوئی۔ کتنا۔۔۔۔۔۔۔۔ہوا۔

کتنا مال۔۔۔۔۔۔۔بکا۔ کتنا مال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہوا۔

سوالات

١۔ تمھارا روزانہ کا کام کیا ہے؟

٢۔ تم بستر سے کیوں اُٹھ گئے؟ ٣۔ دوکاندار حساب کیوں کرتا ہے؟

۱۳

ملاقات

سبق [ ۷]

حامد : بھائی محمود صاحب جب سلام علیکم

محمود : آداب بجا لاتا ہوں

حامد : یہ آداب کیا چیز ہے؟

محمود : یہ آپ کے سلام کا جواب ہے

حامد : یہ آپ سے کس نے بتایا ہے؟

محمود : ہمارے یہاں کی یہی رسم ہے

حامد : بھائی کیا سلام بھی کائی رسمی بات ہے؟

محمود : نہیں یہ تو اسلامی قانون ہے کہ جب کوئی دوسرے مومن سے ملاقات کرے تو پہلے سلام کرے اس کے بعد کوئی کلام کرے۔

حامد : بھائی جب اسلام نے سلام سکھایا ہے تو اس کا جواب بھی بتایا ہوگا۔

محمود : ہاں ضرور بتایا ہوگا لیکن مجھے نہیں معلوم آپ ہی بتا جیئے۔

حامد : میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ پر قربان ہو جاؤں اس لیے کہ آپ ایک بات نہیں جانتے تھے تو اس کے عیب بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ تو اپنی جہالت پر اڑے رہنا ہی فضیلت سمجھتے ہیں۔ دیکھو سلام علیکم کا جواب ہے علیکم السّلام

محمود : کیا یہ سمیشہ کا قانون ہے؟

حامد : نہیں نہیں اگر کوئی آدمی نماز پڑھ رہا ہے اور اسے سلام کیا جائے تو بجائے علیکم اسلام کے وہ بھی سلام علیکم ہی کہےگا۔

۱۴

محمود : بھائی صاحب یہ سب تو جھگڑے ہیں کیا ضرارت ہے کہ جواب دیا ہی جائے۔

حامد : ارے غضب خدا کا۔ یہ کیا کہ دیا، یاد رکھو سلام کربا تو صرف ثواب ہے لیکن سلام کا جواب دینا واجب ہے چاہے آدمی نماز ہی کیوں نہ پڑھ رہا ہو۔

محمود : چاہے عورت یا بچّہ سلام کرے؟

حامد : ہاں ہاں۔ مگر شرط یہ ہے کہ سلام کرنے والا مومن ہو غیر مومن کے سلام کا جواب واجب نہیں ہے۔

محمود : بہت بہت شکریہ آپ کی ملاقات سے ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے۔

حامد : شکریہ کس بات کا ۔ نہ جاننے والے کو بتانا اسلام میں فرض ہے میں اپنے فرض سے سبکدوش ہوگا۔

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

رسم ۔ مومن ۔ فضیلت ۔ غضب ۔ فرض ۔ سبکدوش ۔ سلام علیکم

سوالات

۱۔ سلام کرنا واجب ہے یا سنت؟

۲۔ کس کے سلام کا جواب واجب نہیں ہے ؟

۱۵

حضرت موسیٰ علیہ السَّلام

سبق [ ۸]

حضرت موسیٰ علیہ السلام اللّٰہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے۔ ان کے زمانہ کے لوگ بڑے ضدی اور جھگڑا لو تھے۔ یہ لوگ اللّٰہ کے رسول کو بہت پریشان کیا کرتے تھے۔ ان سے طرح طرح کے اُلٹے سیدھے سوال کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کہنے لگے کہ ہم اللّٰہ کو دیکھیںگے۔ حضرت موسیٰ نے لکھ سمجھایا کہ اللّٰہ نہیں دیکھا جا سکتا۔ لیکن وہ لوگ نہ مانے۔ آخر میں حضرت موسیٰ انہیں لے کر طور کے پہاڑ پر گئے۔ جہاں آپ خدا سے باتیں کرنے جایا کرتے تھے اور خدا سے کہا کہ میری قوم یہ ضد کر رہی ہے۔ کہ تجھے دیکھے میں ان کو سمجھا کر عاجز ہو گیا ہوں اب تو انہیں سمجھا دے۔ خدا نے کہا کہ ان سے کہ دو میں پہاڑ پر ایک بجلی چمکاؤںگا اگر یہ لوگ بجلی جو دیکھ کر نہ برداشت کر سکے تو مجھے کیا دیکھیںگے؟ تھوڑی دیر کے بعد ایک بجلی چمکی حضرت موسیٰ علیہ السلام بیہوش ہو گئے اور باقی لوگ جل کر راکھ ہو گئے۔ خدا نے بتا دیا کہ جو لوگ ایک بجلی کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ خدا کو کیا دیکھیںگے۔

اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اپنی حد سے بڑھ کر بات کرنے والا آدمی تباہ و برباد ہو جاتا ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل تباہ ہوئی۔

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

دوعہ ۔ ضد ۔ عاجز ۔ برداشت ۔ بیہوش ۔ تباہ ۔ چور ۔ بنی اسرائیل

ان جملےوں کو پورا کرو :-

١۔ اس واقعہ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چلتا ہے۔

٢۔ یہ لوگ بڑے۔۔۔۔۔۔۔اور جةگڑالو تھے۔

٣۔ اپنی۔۔۔۔۔۔۔بڑھ کر بات کرنے والا تباہ ہوتا ہے۔

۱۶

سوالات

۱۔ حضرت موسیٰ کون تھے؟

۲۔ حضرت موسیٰ خدا سے باتیں کرنے کہاں جاتے تھے؟

۳۔ حضرت موسیٰ کی قوم نے کیا ضد کی تھی اور اس کا نتیجہ کیا ہوا؟

٤۔ حضرت موسیٰ کی قوم کے واقعہ سے تم کو کیا سبق ملتا ہے؟

۱۷

جہاز

سبق [ ۹]

جہاز بہت اچھی سواری ہے۔ یہ دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک ہوا میں اڑتا ہے۔ اس کو ہوائی جہاز کہتے ہیں۔ یہ ایک گھنٹہ میں ہزاروں کلو میٹر چلتا ہے۔ دوسرا پانی کا جہاز۔ اس کی رفتار کم ہوتی ہے۔ مگر ہزاروں ٹن وزن اٹھا لیتا ہے۔ ہوائی جہاز بہت پرانی چیز نہیں ہے پہلے زمانہ میں ہوائی جہاز نہ تھا۔ جب نیا نیا بنایا گیا تو لوگ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ ہوائی جہاز کو لوگ چیل سمجھتے تھے۔ اب یہ سب چیزیں عام ہو گئی ہیں۔ سب لوگ سوار ہوتے ہیں اور دور دور تک کا سفر کرتے ہیں۔

جہاز میں بیٹھنے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر اللّٰہ نے ہوائی جہاز کو روکنے کی طاقت نہ دی ہوتی اور اگر پانی میں راستہ نہ بنایا ہوتا تو یہ سب جہاز بیکار ہو جاتے۔ یہ اللّٰہ کا بہت بڑا احسان ہے۔

ان الفاظ کے معنی یا د کرو :-

رفتار ۔ سُست ۔ عام ۔ احسان ۔ دنگ رہنا۔

ان جملوں کو پورا کرو :-

ہوائی جہاز۔۔۔۔چلتا ہے اور پانی کا جہاز۔۔۔۔۔۔چلتا ہے۔ ہوائی جہاز کو دیکھ کر لوگ۔۔۔۔۔۔۔رہ گئے۔ اللّٰہ کا۔۔۔۔۔۔۔احسان ہے۔ جہاز سےا چھی کوئی۔۔۔۔۔۔نہیں ہے۔

۱۸

کربلا

سبق [ ۱۰]

بچّو تم نے اپنے یہاں کربلا دیکھی ہوگی۔ یہ کربلا اس جگہ کی یادگار ہے جہاں امام حسین علیہ السلام کا روضہ ہے حضرت امام حسین علیہ السلام ہمارے تیسرے امام تھے۔ رسول خدا کے انتقال کے پچاس برس کے بعد ایک شخص یزید نے آپ کے دین اسلام کو مٹانے کی ٹھان لی۔ امام حسین علیہ السلام اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اُٹھے۔ آپ کے ساتھ بہتر آدمی تھے۔ یزید نے ہزاروں آدمی جمع کئے تھے۔ کربلا میں محرم کی دس تاریخ کو لڑائی ہوئی امام حسین علیہ السلام اپنے بہتر ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے۔ وہیں ان کا روضہ ہے جہاں تمام لوگ زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نہ ہوتے تو اسلام مٹ جاتا۔ آپ کے ساتھ ایک چھہ مہیںہ کا بچّہ بھی تھا جس کا نام علی اصغر تھا دشمنوں نے اس کے گلے پر تیر مار کر شہید کر دیا۔ بچّہ تیر کھا کر مُسکرایا اور ہم کو یہ سکھا گیا کہ حق بات پر مرنے سے ڈرنا نہیں چاہئیے بلکہ ہنس کر جان دے دینا چائیے۔

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

کربلا ۔ عمارت ۔ نقل ۔ روضہ ۔ شہید ۔ سمیت ۔ زیا رت ۔ اصغر ۔ ٹھان لی۔

ان الفاظ کو جملوں میں استعمال کرو :-

زیارت ۔ شہید ۔ روضہ ۔ مقابلہ ۔ لڑائی

سوالات

۱ ۔ امام حسین کون تھے؟

۲ ۔ یزید سے امام حسین کی لڑائی کیوں ہوئی؟

۳ ۔ علی اصغر کون تھے انہوں نے ہم کو کیا سکھایا ؟

۱۹

لالچ

سبق [ ۱۱]

لالچ بڑی بری بلا ہے ، اللّٰہ ہر آدمی کو لالچ سے بچائے رکھے، لالچی آدمی زندگی میں کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔ اسے جب بھی کوئی چیز مل جاتی ہے تو یہی سوچھتا ہے کہ ابھی اور مل جائے تو اچھا ہے اس کی زندگی میں چین و سکون نہیں لکھا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک شخص اول نمبر کا لالچی تھا وہ ہمیشہ اللّٰہ سے یہ دعا کرتا تھا کہ میرا سارا گھر سونے سے بھر جائے اور میں جس چیز کو بھی ہاتھ لگا دوں وہ سونے کی ہو جائے۔ اتفاق سے ایک دن اس کی دعا قبول ہو گئی وہ گھر میں آیا اس نے ہر دیوار کو چھوا، ہر سامان کو ہاتھ لگایا، ہر چارپائی کو چھوا، ہر برتن کو ہاتھ لگایا اور جب سب سونے کے ہو گئے تو چین سے بیٹھا دل ہی دل میں خؤش تھا کہ اب میرے برابر کون ہے اور میرے برابر سونا کس کے پاس ہوگا، مست و مگن سنہرے بستر پر لیٹا ہوا تھا کہ اچانک بھوک لگی، لڑکی کو آواز دی وہ کھانا لیکر آئی سونے کے برتن میں کھانا دیکھ کر خوش ہوا لیکن جیسے ہی روٹی کو ہاتھ لگایا وہ بھی سونے کی ہو گئی۔ یہ بیچارہ دیکھتا ہی رہ گیا اب کھائے تو کیا۔ سوچا پانی ہی پر گزارا کر لیا جائے۔ گلاس کو ہاتھ میں لیا جیسے ہی پانی کو منھ لگایا پانی جم کر سونے کا ڈلا ہو گیا۔ پیاس تیز تھی بے چین ہو گیا۔ گھبراہٹ میں بیٹی کو گلے لگا کر رونے لگا۔ دیکھتا کیا ہے کہ وہ اب بیٹی نہیں ہے بلکہ سونے کی ایک مورتی ہے۔ یہ دیکھتے ہی بیہوش ہو کر گر پرا اب جو ہوش آیا تو خیال پیدا ہوا کہ لالچی آدمی کو سونا تو مل سکتا ہے لیکن نہ کھانا مل سکتا ہے اور نہ اولاد کی محبت۔ یہ سوچتے ہی توبہ کی اور اس کے ہاتھ کا اثر غائب ہو گیا۔

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

سکون ۔ بےچینی ۔ مست و مگن ۔ راحت ۔ بیہوش ۔ تابھ ۔ اولاد ۔ ڈلا۔

سوالات

۱ ۔ لالچی کو چین کیوں نہیں تھا؟

۲ ۔ لالچی آدمی کا قصّہ کیا ہے؟

۳ ۔ لالچی آدمی نے سونا پا کر کیا کیا کھویا ؟

۲۰

۲۱

۲۲

۲۳

۲۴

۲۵

۲۶

۲۷

۲۸

۲۹

۳۰

۳۱

۳۲

۳۳

۳۴

۳۵

۳۶

۳۷

۳۸

۳۹

۴۰

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۳۵۶،۳۵۹،نمبر۱۱۲۵،۱۱۳۰،اشاعت اوّل۔

۲۔ حافظ ابن عساکر، کتاب تاریخ دمشق، جلد۲،صفحہ۳۴۴،۴۴۲،باب امیر المومنین کے حالات، حدیث۸۵۲،۹۵۸، اشاعت دوم(شرح محمودی)۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور، جلد۶،صفحہ۳۷۹،اشاعت دوم، صفحہ۴۲۴۔

۴۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، جلد۱،صفحہ۱۵۵، باب۳۱۔

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، صفحہ۲۴۵،باب۶۲۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة ، صفحہ۳۶۱۔

۷۔ بلاذری، کتاب النساب الاشراف، ج۲ص۱۱۳حدیث۵۰،اشاعت اوّل بیروت

۸۔ شبلنجی ،کتاب نورابصار، صفحہ۷۰،۱۰۱۔

۹۔ خوارزمی، کتاب مناقب امیر المومنین ،حدیث۱۱،صفحہ۶۲۔

پندرہویں آیت

پیغمبر کی صداقت پر قرآن ایک روشن دلیل ہے اور علی ایک سچے گواہ ہیں

( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِه کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَامًا وَّرَحْمَةً )

”کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل پر ہو اور اُس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ آتا ہو جو اُسی کا جزو ہو(سورئہ ہود:آیت۱۷)

۴۱

تشریح

اس آیت شریفہ کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ کون(مَنْ) سے مرادجناب رسول خدا

فضائل علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں ۔۳

کی ذات مبارک ہے اور روشن دلیل(بَینَہ)سے مرادقرآن مجید ہے اور (نبوت کے) گواہ صادق(شاہد) سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔بعض مفسرین نے شاہد سے مراد جبرئیل علیہ السلام کو لیا ہے اور بعض نے َیَتْلُوْهُ کو مادّہ تلاوت سے قرأ ت کے معنی میں لیا ہے نہ کہ اس معنی میں کہ ایک کے بعد دوسرے کا آنا۔ انہوں نے شاہد سے مراد زبان رسول اللہ لی ہے۔ لیکن بہت سے اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے شاہد سے مراد سچے مومنین لئے ہیں اور سچے مومن کی تصویر علی علیہ السلام کو لیا ہے اور اس ضمن یں بڑی اہم روایات کو بیان کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک یہاں بیان کی جاتی ہیں:

(ا)۔ سیوطی نے کتاب جمع الجوامع اور تفسیر الدرالمنثور میں یہ روایت بیان کی ہے:

حَدَّثْنَا عبادُ بنُ عَبْدِاللّٰهِ الاَ سَدِی قال:سَمِعْتُ عَلِیَّ بنَ ابی طالبٍ وَهُوَ یَقُولُ:مٰا أَحَدٌ مِنْ قُرَیْشٍ اِلَّا وَقَدْ نَزَلَتْ فیهِ آیةٌ وآیتانِ فَقٰالَ لَهُ رَجُلٌ:وَمٰانَزَلَ فِیْکَ یٰااَمِیْرَالمومنینَ؟قٰالَ:فَغَضِبَ ثُمَّ قٰالَ: اَمٰاوَاللّٰهِ لَولَمْ یَسْأَلْنِیْ عَلٰی رُووسِ الْقَوْمِ مٰاحَدَّ ثْتُکَ،ثُمَّ قال:هَلْ تَقْرَأُ سورةَ هودٍ؟ ثُمَّ قَرَاءَ: ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) رسولُ اللّٰه عَلٰی بَینةٍ مِنْ رَبَّهِ وَاَنَاالشّٰاهِدُ مِنْهُ ۔

”عباد بن عبداللہ اسدی کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں کہ قریش کے سرداروں میں کوئی نہیں مگر اُس کے بارے میں ایک یا دو آیتیں نازل ہوئی ہوں۔ پس ایک شخص نے سوال کیا:یا امیر المومنین ! آپ کے بارے میں کونسی آیت نازل ہوئی ہے۔ آپ(اُس شخص کے جہل یا عداوت کی وجہ سے) غضبناک ہوئے اور کہا کہ اگر دوسرے لوگ موجود نہ ہوتے تو میں تمہارے سوال کا جواب نہ دیتا۔ اُس وقت آپ نے فرمایا : کیا تم نے سورئہ ہود پڑھی ہے؟ اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:

( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) ”اور فرمایا کہ پیغمبر روشن دلیل یعنی قرآن مجید (بَینَةٍ) رکھتے تھے اور میں گواہ تھا“۔

۴۲

(ب)۔ کچھ مفسرین اس روایت کو نقل کرتے ہیں:

عَنْ انس(فی قَولِه تعالٰی) ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُط“قَالَ هُوَرسولُ اللّٰهِ ”وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) قَالَ هُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب، کَانَ وَاللّٰهِ لِسَانَ رَسُولِ اللّٰهِ ۔

”انس بن مالک سے اس آیت کی تفسیر سے متعلق روایت کی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ آیت کے اس حصہ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه ) سے مراد پیغمبر اسلام کی ذات مبارک ہے اور( یَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) سے مرادعلی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ خدا کی قسم! یہ(علی کا نام)رسول اللہ کی زبان پر تھا“۔

(ج)۔ تفسیر برہان، جلد۲،صفحہ۲۱۳پر یہ روایت بیان کی گئی ہے:

امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس آیت میں ”شاہد“ سے مراد امیرالمومنین علی علیہ السلام ہیں اور اُن کے یکے بعد دیگرے جانشین ہیں۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی، کتاب جمع الجوامع، جلد۲،صفحہ۶۸،حدیث۴۰۷،۴۰۸ اور ج۳،ص۳۲۴۔

۲۔ حافظ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۴۲۰،حدیث۹۲۸۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب ۶۲،صفحہ۲۳۵۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، حدیث۳۸۶،جلد۱،صفحہ۲۷۷۔

۵۔ ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب امیرالمومنین ، حدیث۳۱۸،صفحہ۲۷۰۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۲۶،صفحہ۱۱۵۔

۷۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال، جلد۱،صفحہ۲۵۱،اشاعت اوّل۔

۸۔ طبری اپنی تفسیر میں جلد۱۵،صفحہ۲۷۲،شمارہ۱۸۰۴۸۔

۹۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں، جلد۲،صفحہ۲۳۹۔

۴۳

سولہویں آیت

علی صدیق اکبر اورشہید فی سبیل اللہ ہیں

( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ وَالشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَنُوْرُهُمْْ )

”اور جو لوگ اللہ پر اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی تو اپنے پروردگارکے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ اُن کا اجر اور اُن کا نور اُن ہی کیلئے ہوگا“(سورئہ حدید،آیت۱۹)

تشریح

اس میں کوئی شک نہیں کہ سچائی اور راست گوئی ایسی صفت ہے جو انسان کو اعلیٰ مقام تک پہنچادیتی ہے۔ ہمیں یہ صفت حضرت علی کے وجود پاک میں روز روشن کی طرح نظر آتی ہے۔

اگرچہ اہل سنت میں خلیفہ اوّل ہی صدیق کے طور پر مشہور ہیں لیکن بہت سی روایات جو اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں نقل کی ہیں، اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ صفت سچائی اور راست گوئی ہر لحاظ سے مکمل طور پر حضرت علی علیہ السلام کے وجود پاک میں نظر آتی ہے۔ چند روایات ذیل پرتوجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اِبْنِ عباس فِی قَوْلِه تعٰالٰی ( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ ) قال صدیقُ هَذِه الْاُمَّةِ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب هُوَ الصِّدِّ یقُ الْاَکْبَرُ وَالْفَارُوْقُ الْاَعْظَمُ

”ابن عباس سے روایت ہے کہ اس آیت شریفہ( وَالَّذیْ نَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّ یْ قُوْن ) کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ اس اُمت کے صدیق علی ابن ابی طالب ہیں۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام صدیق اکبر بھی ہیں اور فاروق(حق اور باطل کو جدا کرنے والا) اعظم بھی“۔

۴۴

(ب)۔عَنْ عبدالرحمٰنِ بن ابی لیلٰی عَنْ اَبِیْهِ قٰالَ رسولُاللّٰهِ اَلصِّدِّیْقُوْنَ ثَلاٰ ثَةٌ: حَبِیبُ النَّجَّارِ، مومِنُ آلِ یٰسِینَ وَحِزْبِیْلُ مُومِنُ آلِ فِرْعَوْنَ وَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطالِبٍ وَهُوَ اَفْضَلُهُمْ

”عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تین افراد صدیق ہیں اور وہ ہیں:حبیب نجار، مومن آل یاسین اور حزبیل مومن آل فرعون اور علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور علی علیہ السلام اُن سب سے افضل ہیں“۔

(ج)۔عَنْ عُبادِ بنِ عَبْداللّٰهِ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیّاً علیه السلام یقولُ: أَ نَا الصِّدِّیقُ الْاَکْبَرُ لَایقُولُهَا بَعْدِیْ اِلَّا کَذَّابٌ وَلَقَدْ صَلَّیْتُ قَبْلَ النَّاسِ سَبْعَ سِنِیْنَ ۔

”عباد بن عبداللہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں ہی صدیق اکبر ہوں اور میرے بعد کوئی بھی اپنے آپ کو صدیق اکبر نہیں کہلا سکتا لیکن سوائے جھوٹے اور کذاب کے اور میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی(یعنی سب سے پہلے خدا اور اُس کے رسول پر میں ایمان لایا)“۔

(د)۔ اسی طرح سب علمائے اہل سنت مثلاً حافظ ابی نعیم، ثعلبی، حافظ بن عساکر، سیوطی اور دوسرے بہت سے مفسرین سورئہ توبہ آیت۱۱۹( اِتَّقُوااللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْن ) میں ابن عباس اور دوسروں سے بھی روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ”الصادقین“ سے مراد علی ہیں ۔ روایت اس طرح سے ہے:

عَنْ ابنِ عباس فِی قوله تعٰالٰی ( اِتَّقُواللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ ) قَالَ نَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَامُ خٰاصَّةً“

”ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آیت صرف علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۲۸۲،حدیث۸۱۲،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین ، صفحہ۲۴۶،۲۴۷، حدیث۲۹۶۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۶اور باب۲۴،صفحہ۱۲۳۔

۴۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل۔

۴۵

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۴۲،صفحہ۱۴۶۔

۶۔ نسائی، کتاب خصائص امیرالمومنین ، حدیث۶،صفحہ۳۸۔

۷۔ سیوطی ،کتاب اللئالی المصنوعہ، باب فضائل علی ، جلد۱،صفحہ۱۶۰۔

۸۔ احمد بن حنبل، کتاب الفضائل، باب فضائل امیر المومنین ،حدیث۱۱۷،صفحہ۷۸۔

۹۔ حافظ المزی،کتاب تہذیب الکمال، ترجمہ العلاء بن صالح، جلد۴،صفحہ۱۹۳۔

سترہویں آیت

اللہ تعالیٰ نے علی کے وسیلہ سے پیغمبر کی مدد کی

( هُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْنَیٰٓاَ یُّهَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُومِنِیْنَ )

”وہ وہی ہے جس نے اپنی امداد سے اور مومنین کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی تھی۔

اے نبی! تمہارے لئے اللہ اور مومنین میں سے جو تمہارا اتباع کرتے ہیں، وہی کافی ہیں ہیں“۔(سورئہ انفال: آیات۶۲،۶۴)۔

تشریح

کچھ مفسرین نے ان آیات کے ضمن میں خصوصاً آیت :۶۴کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب یہودیوں کے قبائل بنی قریظہ اور بنی نضیر کے کچھ افراد پیغمبر اسلام کی خدمت میں مکروفریب سے حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ” اے پیغمبر خدا! ہم حاضر ہیں کہ آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی پیروی کریں اور مدد کریں“۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے کہہ رہا ہے کہ ہرگز کسی غیر پر اعتماد نہ کریں بلکہ اللہ اور وہ مومنین جو آپ کی اتباع کرتے ہیں، آپ کے لئے کافی ہیں، انہی پر اعتماد کریں(تفسیر تبیان، جلد۵،صفحہ۱۵۲)۔

۴۶

اہل سنت اور شیعہ علماء کی کثیر تعداد روایات لکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ ان دو آیتوں میں مومنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ اگرچہ دوسرے مومنین بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن ان آیتوں کے مصداق(پوری طرح آیت کے مطابق) علی ابن ابی طالبعلیہما السلام ہیں۔ پیغمبر اسلام نے ہمیشہ تمام مشکلات اور سخت حالات میں علی علیہ السلام کے وجود مقدس پر فخر کیا۔ ذیل میں لکھی گئی دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبِیْ هُریرةِ قَالَ: قال رسولُ اللّٰه رَأَیْتُ لَیْلَةً اُسْرِیَ بِی اِلَی السَّمٰاءِ عَلَی الْعَرْشِمَکْتُوْباً: لَااِلٰهَ اِلّٰا أَنَا وَحْدِیْ لَا شَرِیْکَ لِیْ وَمحمدًعَبْدِی وَرَسُوْلِی اَیَّدْتُهُ بِعَلیٍّ(قال)فَذٰلِکَ قَوْلُهُ ( هُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْن ) ۔

”ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ شب معراج میں نے دیکھا کہ عرش پر لکھا ہوا تھا :’میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں تنہا اور لاشریک ہوں اور محمد میرا بندہ اور میرا رسول ہے اور میں نے علی کے ذریعے سے اپنے رسول کی مدد کی ہے اور اس آیت شریفہ( هُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْنَ ) میں بھی اسی طرف اشارہ ہے“۔

(ب)۔ حافظ حسکانی جو اہل سنت کے نامور عالم ہیں، کتاب شواہد التنزیل میں روایت نقل کرتے ہیں جو معتبر اسناد کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے والد بزرگوارحضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔ انہوں نے اس آیت( یٰٓاَ یُّهَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُومِنِیْنَ ) کی تفسیرمیں فرمایا کہ یہ آیت علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے جو ہمیشہ رسول اللہ کے مددگار و حامی و ناصر رہے ہیں۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں حدیث۹۲۶، باب احوال امیرالمومنین ، ج۲،ص۴۱۹

۲۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۴۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۳،صفحہ۲۱۶،اشاعت دوم، صفحہ۱۹۹۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ۲۹۹،جلد۱،صفحہ۲۲۳اور اشاعت اوّل میں جلد۱،صفحہ۲۳۰،شمارہ۳۰۵۔

۴۷

۵۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، باب مناقب علی علیہ السلام، جلد۹،صفحہ۱۲۱۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۲۳،صفحہ۱۰۹ اور باب۲ص۲۱

۷۔ ذہبی، میزان الاعتدال، ج۱،ص۲۶۹،حدیث۱۰۰۶اور ص۵۳۰،ج۱،شمارہ۱۹۷۷۔

۸۔ المحب الطبری، کتاب ریاض النضرہ، جلد۲،صفحہ۱۷۲۔

۹۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال،جلد۶،صفحہ۱۵۸، اشاعت اوّل۔

اٹھارہویں آیت

حضرت علی کا بغض اور دشمنی شقاوت قلب، نفاق اور انسان کی بدبختی کا باعث ہے

( وَلَوْنَشَآءُ لَاَرَیْنَکَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِیْمٰهُمْوَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ )

”اور اگر ہم چاہیں تو ہم اُن لوگوں کو تمہیں دکھلا دیں پھر تم اُن لوگوں کو اُن کی علامتوں سے پہچان لو اور تم اُن کو اُن کی بات کے لہجے سے ضرور پہچان لوگے“۔(سورئہ محمد، آیت:۳۰)۔

تشریح

اس آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر اسلام کومنافقین کی اور شقاوت قلبی رکھنے والے انسانوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے :”اگر ہم چاہیں تو ہم تمہیں اُن کی شناخت کروادیں گے“ تاکہ صرف اُن کی چال ڈھال اور قیافہ دیکھنے سے ہی اُن کو پہچا ن لو۔ اس کے علاوہ اُن کے لہجہ و کلام سے بھی پہچان سکتے ہو کہ اُن کے ناپاک دلوں میں کیا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن کے بولنے کا انداز کیا تھا کہ پروردگار نے اُس کو منافقین کے پہچاننے کا ایک اہم طریقہ بتایا۔اس ضمن میں اہل سنت اور شیعہ علماء نے جو روایات بیان کی ہیں، اُن پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ منافقین کے دلوں میں حضرت علی علیہ السلام کیلئے شدید دشمنی اور کینہ پایا جاتا تھا۔

۴۸

البتہ وہ اپنی اس دشمنی اور کینہ کو رسول اللہ کی زندگی میں واضح طور پر ظاہر نہیں کرتے تھے۔ شاید وہ اس میں اپنی بھلائی اور فائدہ نہیں دیکھتے تھے ۔ اس لئے وہ موقع بہ موقع رسول اللہ اور مسلمانوں کے پاس آکر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بدگوئی کرتے تھے اور تنقید کرتے تھے۔ اُن کی اس چال کا مقصد صرف حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کے درمیان کمزور کرنا اور اُن کی محبوبیت کو کم کرنا تھا۔

لیکن خدائے بزرگ نے یہ آیت نازل کرکے اُن کے مکروفریب کو باطل کردیا اور اُن کے ناپاک چہروں کو سب کے سامنے آشکار کردیا۔ اس ضمن میں دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبی سعیدُالخَدْری فِی قوله عزوجل”وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ“ قال بِبُغْضِهِمْ عَلَیّاً عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ اس آیت’( وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ ) کی تفسیر میں فرمایاکہ یہ علی کی دشمنی اور بغض کی وجہ سے ہے(یعنی دشمنی علی اُن کی زبان سے ظاہر ہوجاتی ہے)“۔

(ب)۔ درج ذیل روایت کو اکثر مفسرین نے اس آیت کی بحث کے دوران ذکر کیا ہے اور رسول اکرم کے خاص صحابہ کی زبان سے بیان کی گئی ہے جیسے ابی سعید اور دوسروں نے نقل کیا ہے:

کُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِیْنَ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ بِبُغْضِهِمْ عَلِیّاً ۔

”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو اُن کی علی علیہ السلام سے دشمنی کے سبب پہچانتے تھے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۱۷۸،حدیث۸۸۳،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،ج۲، ص۴۲۱،حدیث۹۲۹،باب احوال علی ،اشاعت۲

۳۔ گنجی شافعی،کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۵۔

۴۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیرالمومنین ، حدیث۳۵۹،۳۶۲،صفحہ۳۱۵۔

۵۔ سیوطی، تفسیر المدرالمنثور، جلد۶،صفحہ۷۴اورتاریخ الخلفاء،صفحہ۱۷۰۔

۴۹

۶۔ ابن عمر یوسف بن عبداللہ، کتاب استیعاب، جلد۳،صفحہ۱۱۰۔

۷۔ بلاذری، انساب الاشراف، جلد۲،صفحہ۹۶،حدیث۱۹،اشاعت اوّل از بیروت۔

۸۔ متقی ہندی کنزالعمال، جلد۱،صفحہ۲۵۱،اشاعت اوّل اور اسی طرح احمد بن حنبل ۔

کتاب فضائل میں اور ابن اثیر کتاب جامع الاصول میں، طبری کتاب ریاض النضرہ میں اور بہت سے دوسرے۔

اُنیسویں آیت

علی صالح المو منین ہیں

( وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ )

”اور اگر تم دونوں ہمارے رسول کے برخلاف ایک دوسرے کے پشت و پناہ بنو تو اللہ ، جبرئیل اور صالح مومنین اُس کے مددگار ہیں“۔(سورئہ تحریم:آیت۴)

تشریح

یہ نکتہ توجہ طلب ہے کہ اگرچہ کلمہ”صالح المومنین“ اپنے اندر وسیع تر معنی رکھتا ہے اور تمام صالح مومنین اور پرہیز گار اس میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن مومن کامل اور اکمل ترین انسان کون ہے؟اس کے لئے ہمیں روایات سے مدد لینا ہوگی اور روایات کو دیکھنا ہوگا۔ تحقیق کرنے پر بڑی آسانی سے ہم منزل تک پہنچ جائیں گے ۔ شیعہ علماء سے منقول روایات کے علاوہ اہل سنت نے بھی بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ ان سب سے یہی پتہ چلتا ہے کہ متذکرہ بالا آیت میں صالح مومنین سے مراد ذات مقدس امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ یہاں ہم چند ایک روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

(ا)۔عَنْ اَسماءِ بنتِ عُمَیس قٰالَتْ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ یَقْرَأُ هٰذِهِ الآیَة:وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ، قَالَ صَالِحُ المُومِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْطَالِب ۔

۵۰

”اسماء بنت عمیس روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے پیغمبر اسلام سے یہ آیت سنی( وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلٰهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ ) آیت پڑھنے کے بعد پیغمبر خدا نے فرمایا کہ صالح المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں“۔

(ب)۔عَنْ السُّدی عَن ابنِ عَبَّاس، فِی قَولِه عَزَّوَجَلَّ’وَصَالِحُ المُومِنِیْنَ قَالَ:هُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِب ۔

”سدی، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کہ جس میں صالح المومنین کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

(ج)۔عَنْ مُجٰاهِد فی قَولِهِ تَعٰالٰی:”وَصَالِحُ المُومِنِیْنَ“ قَالَ: صَالِحُ المُومِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِب ۔

”مجاہد سے روایت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس کلام میں جہاں صالح المومنین کا تذکرہ ہے، وہاں صالح المومنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۹۸۴ اور ۹۸۵،جلد۲،صفحہ۲۵۷۔

۲۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، باب۶۷،جلد۱،صفحہ۳۶۳۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۲۴۴اور اشاعت دیگر صفحہ۲۶۹،۲۷۰۔

۴۔ ابن مغازلی، مناقب امیر المومنین میں، حدیث۳۱۶،صفحہ۲۶۹،اشاعت اوّل۔

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایت الطالب میں، باب۳۰،صفحہ۱۳۷۔

۶۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال میں،حدیث لا شی، جلد۱،صفحہ۲۳۷، اشاعت اوّل۔

۷۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۴۲۵، اشاعت دوم، حدیث۹۳۲،۹۳۳۔

۸۔ ابن حجر فتح الباری میں، جلد۱۳،صفحہ۲۷۔

۵۱

بیسویں آیت

قیامت کے دن لوگوں سے ولایت علی کے بارے میں سوال کیا جائے گا

( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ )

”اور ان کو ٹھہرا ؤ کہ ابھی ان سے سوالات کئے جائیں گے“۔(سورئہ صافات:آیت۲۴)

تشریح

سورئہ مبارکہ صافات کے ایک حصہ میں جہاں پروردگار قیامت اور اس کے متعلقہ مسائل اور عذاب عظیم جو مشرکین اور گمراہوں کے انتظار میں ہے، کے بارے میں بیان فرماتا ہے، اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) سے اپنے تمام فرشتوں اور ملائکہ کو اُس دن دوسرے احکام کے ساتھ یہ اہم حکم دے گا اور وہ حکم یہ ہوگا کہ اے میرے فرشتو ! ان کو روک لو ، ابھی ان سے سوال کیا جائیگا۔

لوگوں کے اس سوال پر کہ قیامت والے دن اس آیت کے مطابق کونسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے مختلف جواب دئیے ہیں۔ کچھ نے کہا ہے کہ توحید کے بارے میں سوال کیا جائے گا، کچھ نے کہا ہے کہ اُس دن لوگوں سے بدعتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو وہ دنیا میں چھوڑ گئے، کچھ اوروں نے مختلف دیگر چیزوں کا ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ جوابات آیت کے مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اہل سنت اور شیعہ کتب میں بہت سی روایات موجود ہیں جن کے مطابق باقی اہم سوالوں کے علاوہ جو مجرموں سے پوچھے جائیں گے، ولایت علی ابن ابی طالب کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔ اس مطلب کی وضاحت کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبِیْ سعید خدری، عَنْ النبی فی قوله تعالٰی ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) قال: عَنْ وِلَایَةَ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِب ۔

”ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) ک ی تفسیر میں فرمایا کہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

۵۲