امامیہ اردو ریڈر درجہ دوم جلد ۲

امامیہ اردو ریڈر درجہ دوم66%

امامیہ اردو ریڈر درجہ دوم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 52

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 52 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 39903 / ڈاؤنلوڈ: 3780
سائز سائز سائز
امامیہ اردو ریڈر درجہ دوم

امامیہ اردو ریڈر درجہ دوم جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

جادو

سبق [ ۱۲]

تم نے اکثر مداریوں کو جادو کرتے دیکھا ہوگا یہ لوگ اپنے ہاتھ کی صفائی سے آدمی کو ایسا دھوکہ دیتے ہیں کہ اسے پتہ تک نہیں چلتا۔ چیز ہوتی کچھ ہے اور دکھائی کچھ اور دیتی ہے کبھی کبھی یہ کرتب ایسی دواؤں سے دکھلایا جاتا ہے جن کو بہت سے آدمی نہیں جانتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس نے بہت بڑا کام کر دیا حالا نکہ وہ کوئی خاص بات نہیں ہوتی۔ جادوگر دوا ڈال کر پانی کو جما دیتا ہے اور دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ وہ چاندی کو پگھلا دیتا ہے اور دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ کوئی بڑا کام ہو گیا۔ ایسا ہی ایک آدمی امام جعفر صادق کے زمانے میں پیدا ہو گیا تھا وہ مٹی کو خاص طریقہ پر سڑا کر رکھ دیتا تھا اور اس میں سے بچھّو نکل آتے تھے۔ لوگ پریشان تھے وہ اپنے کو خدا منوانا چاہتا تھا۔ کسی سے کچھ بن نہ پڑی۔ بادشاہ وقت بھی پریشان تھا۔ آخر میں امام جعفر صادق کو دعوت دی گئی آپ تشریف لے آئے، اس نے آپ کے سامنے بھی اسی طرح بناکر دکھایا۔ آپ نے فرمایا کہ انہیں تو نے پیدا کیا ہے۔ اس نے اکڑ کر کہا جی ہاں۔ فرمایا اچھا اب یہ بتا دے کہ تو نے ان میں سے کتنوں کو نر بنایا اور کتنوں کو مادہ۔ وہ یہ سن کر گھبرا گیا اور حیرت سے منھ دیکھنے لگا۔ آپ نے ایک مرتبہ بچھوؤں کی طرف اشارہ کیا ان میں سے نر الگ ہو گئے اور مادہ الگ۔ آپ نے فرمایا اب اگر تو چاہے تو ہر ایک کا وزن بھی بتا دوں دیکھو خدا نے ہم کو اتنی طاقت دی ہے لیکن ہم اس کی عبادت کرتے ہیں تیری طرح خدائی کا دعویٰ نہیں کرتے۔

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

مداری ۔ کرتب ۔ دنگ ۔ رہ جانا ۔ نر ۔ مادہ ۔ حیرت ۔ وزن ۔ طاقت ۔ خدائی ۔ اکثر ۔ بن نہ پڑی ۔ دعوٰ ی۔ عبادت۔

سوالات

١۔ جادوگر کیا کرتے ہیں ؟

٢۔ امام جعفر صادق نے جادوگر کو کیوں جواب دیا ؟

٣۔ عبادت کس کی کرنی چائیے ؟

۲۱

حضرت سلمان

سبق [ ۱۳]

حضرت سلمان ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے تھے جس کو دین اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا، آپ سن میں رسول اللّٰہ سے بہت بڑے تھے جب رسول اللّٰہ پیدا ہوئے اور آپ نے چالیس سال کی عمر میں اپنے رسول سونے کا اعلان کیا لوگوں کو خدا کی طرف بلایا تو حضرت سلمان کو یہ خبر سن کر آپ سے ملنے کا شوق پیدا ہوا، گھر بار چھوڑ کر نکل پڑے، جنگل اور بیابانوں کی خاک چھانتے ہوئے مکہ پہنچے اور حضرت رسولِ اکرم کے اصحاب میں داخل ہو گئے۔ اصحاب ان مسلمانوں کو کہا جاتا ہے جو رسول خدا کے پاس اٹھتے بھیٹھتے تھے ان میں دو طرح کے لوگ تھے کچھ تو دل سے مسلمان ہوئے تھے اور کچھ صرف دکھانے کے لیے رسول اللّٰہ کے پاس آتے تھے اور اندر اندر کافروں سے ملے رہتے تھے حضرت سلمان ان خالص مسلمانوں میں سے تھے جنہوں نے دل سے اسلام قبول کیا تھا، آپ ہمیشہ رسول اکرم کے ساتھ رہتے تھے ان کے احکام پر عمل کرتے تھے، حضرت علی کو اپنا آقا و مولا سمجھتے تھے، ان کے دشمنوں سے نفرت کرتے تھے۔ مزاج میں اتنی سادگی تھی کہ ایک مرتبہ آپ نے حضرت ابوذر کی دعوت کی تو خالی روٹی لا کر رکھ دی۔ ابوذر نے کہا بھائی سلمان کیا اس کے ساتھ نمک ہے۔ جناب سلمان نے کہا کہ جو کچھ مل جائے اسے شکر خدا کر کے کھا لینا چاہیے لیکن اگر تم نمک چاہتے ہی ہو تو میں ابھی لے کر آتا ہوں یہ کہ کر بازار میں گئے اپنا مٹی کا لوٹا گروی رکھا اور نمک لے کر چلے آئے۔

مدائن عراق کا ایک آہر ہے ایک مرتبہ حضرت سلمان کو وہاں گورنر بنا کر بھیجا گیا تو آپ کے پاس ایک چٹائی تھی اور ایک مٹی کا لوٹا اس کے علاوہ دنیا کی کوئی چیز نہیں تھی۔ لوگوں نے جب ایسے گورنر کو دیکھا تو ہنسنا شروع کیا۔ جناب سلمان نے ان پر ظاہر کر دیا کہ جب میرے مولا آقا حضرت علی دونوں جہاں کی بادشاہی میں اتنے ہی پر گزر کرتے ہیں تو مجھے اس سے زیادہ کا کیا حق پہنچتا ہے۔

۲۲

آپ کا درجہ اصحاب میں اتنا بلند تھا کہ رسول اللّٰہ نے انہیں اپنے گھر والوں میں شمار کر لیا تھا اور فرمایا تھا کہ ایمان کے دس درجہ ہیں اور سلمان دسویں درجہ پر فائز ہیں۔

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

اصحاب ۔ گورنر ۔ ایمان ۔ سادگی ۔ فائز ۔ خاک چھاننا ۔ گرو رکھنا ۔ بیابان ۔ شمار ۔ سِن ۔

سوالات

۱ ۔ حضرت سلمان کون تھے ؟ کہاں پیدا ہوئے تھے ؟

۲ ۔ حضرت سلمان کی سادگی کا کیا عالم تھا ؟

۳ ۔ حضرت سلمان سادہ زندگی کیوں کزارتے تھے ؟

۴ ٤۔ حضرت سلمان کا درجہ کیا تھا ؟

۵ ٥۔ حضرت سلمان کا کوئی واقعہ بیان کرو ؟

۲۳

غدیر خم

سبق [١٤]

فتح مکہ کے بعد پہلا حج حضرت رسول اکرم کا آخری حج ہے جو ذی الحجہ١٠ ھ میں ہوا تھا وہ اک خاص درجہ رکھتا ہے۔ یہ وہ حج ہے جس میں آپ کے ساتھ حج کرنے والے مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ مکہ میں حج کے اعمال ادا کرنے کے بعد آپ مدینہ کی طرف واپس چلے اصحاب آپ کے ساتھ تھے، جب یہ قافلہ مقام '' غدیر خم '' پر پہنچا تو حضرت جبرئیل پروردگار عالم کی طرف سے یہ پیغام لائے کہ اے رسول جو بات ہم آپ کو بتا چکے ہیں اب اس کا اعلان کر دیجئے۔ آپ نے جبرئیل سے کہا کہ میری قوم اس بات کو نہ مانےگی اور اس میں مجھے خطرہ معلوم ہوتا ہے۔ جبرئیل واپس گئے اور دوبارہ پیغام لائے کہ آپ اعلان کر دیجئے پروردگار آپ کو لوگوں کے شر سے بچائےگا۔ یہ سننے کے بعد آپ نے اونٹوں کے کجادوں کا منبر بنوایا۔ سارے مجمع کو دوپہر کے وقت کھلے میدان میں روکا، جو آگے بڑھ گئے تھے انھیں پیچھے بلایا جو پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظار کیا اور جب سوا لاکھ مسلمانوں کا مجمع اکٹھا ہو گیا تو آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں یہ بتایا کہ میں عنقریب دنیا سے جانا والا ہوں اس کے بعد آپ نے پوچھا تم لوگ مجھے اپنا حاکم سمجھتے ہو یا نہیں ؟ سب نے ایک ساتھ کہا ۔ جی ہاں آپ نے فرمایا اچھا جس کا میں حاکم ہوں اس کے علی بھی حاکم ہیں۔ یہ کہتے ہوئے علی کو دونوں ہاتھوں سے اٹھا لیا اور اتنا اٹھایا کہ خود پیچھے چھپ گئے۔ مطلب یہ تھا کہ جب میں تمھارے سامنے نہ ہوں تو یہ علی رہیں گے۔ یہ کہ کر منبر سے اتر آئے اور مجمع کو حکم دیا کہ سب اگر علی کے ہاتھ پر بیعت کریں اور انہیں اس عہدہ کی مبارکباد دیں۔ یہ سننا تھا کہ سارا مجمع مبارکباد کے لئے ٹوٹ پڑا سب سے پہلے بعض نمایاں لوگوں نے مبارکباد دی اور کہا یا علی مبارک ہو مبارک ہو آپ میرے اور ہر مومن مرد و عورت کے حاکم ہو گئے۔

۲۴

یہ واقعہ ذی الحجہ کی اٹھارویں تاریخ کا ہے اسی لئے ہم لوگ اس تاریخ کو جشن مناتے ہیں۔ محفلیں کرتے ہیں، نئے کپڑے پہنتے ہیں، عطر لگاتے ہیں، مولا کی ولایت پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں، غدیر کی نماز پڑھتے ہیں اور اس کے اعمال بجا لاتے ہیں۔ جن لوگوں نے رسول اکرم کے اس اعلان کو بھلا دیا ہے اور آپ کے انتقال کے بعد حضرت علی کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں کو اپنا حاکم اور بادشاہ بنایا ہے وہ اس دن خوشی نہیں منا سکتے ہیں۔

غدیر ہی کا موقع وہ تھا جب حضرت علی کی خلافت کا اعلان پر آیت اتری تھی آج دین کامل ہو گیا، نعمتیں تمام ہو گئیں اور اللّٰہ دین اسلام سے راضی ہو گیا۔

ہم کو اس خوشی کے موقع پر اللّٰہ کا شکر ادا کرنا چاہئیے۔ اس کی عبادت کرنا چاہئے اور حضرت علی کےحکم کے مطابق زندگی بسر کرنے کا عہد کرنا چاہئیے۔

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

غدیر ۔ خلافت ۔ ولایت ۔ حاکم ۔ اعلان ۔ محفل ۔ عطر ۔ انتقال ۔ قافلہ ۔ کجاوہ ۔ بیعت ۔ عام ۔ شر ۔ خطبہ۔

سوالات

١۔ غدیر کا واقعہ کیا ہے ؟

٢۔ نو روز کی خوشی کیوں مناتے ہیں ؟

٣۔ غدیر میں رسول نے کیا اعلان کیا ؟

٤۔ غدیر میں کتنا مجمع تھا ؟

٥۔ غدیر کہاں ہے ؟

۲۵

برسات

سبق [١٥]

کیا بھیگی بھیگی رات ہے اس رات کی کیا بات ہے

برسات ہے برسات ہے

قدرت کی یہ خیرات ہے فطرت کی یہ سوغات ہے

برسات ہے برسات ہے

سبزہ ا گا غنچے کھلے کیا پھول لگتے ہیں بھلے

برسات ہے برسات ہے

نِکھرا ہوا ہے آسمان ہے دیر کے قابل سماں

برسات ہے برسات ہے

ٹھنڈی ہوا چلنے لگی دل کی کلی کھلنے لگی

برسات ہے برسات ہے

بیجان زمین میں آئی جان ہر سمت ہے پانی رواں

برسات ہے برسات ہے

پتّوں پر ہیرے جڑ لگے باغوں میں جھولے پڑ گئے

برسات ہے برسات ہے

۲۶

دیکھو تو سمزی کی لہک سونگھو تو پھولوں کی مہک

برسات ہے برسات ہے

بدلی فلک پر چھا گئی بجلی چمک کر آ گئی

برسات ہے برسات ہے

بچّو یہ کس کا ہے کرم کس کی بدولت دم بدم

برسات ہے برسات ہے

بولو تکلف بر طرف کس کی وجہ سے ہر طرف

برسات ہے برسات ہے

پانی سے آتی ہے صدا انسان پر لطف خدا

برسات ہے برسات ہے

ان الفاظ کے معنی بئان کرو :-

بھیگی رات ۔ قدرت ۔ فطرت ۔ سوغات ۔ سماں ۔ وید ۔ سمت ۔ رواں ۔ مہک ۔ فلک ۔ کرم ۔ بدولت ۔ دم بدم ۔ تکلف ۔ برطرف ۔ صدا ۔ لطف ۔

جملے پورے کرو :-

دل کی۔۔۔۔۔۔کھلنے لگی۔ باغوں میں۔۔۔۔۔۔۔پڑ گئے۔ اس رات کی کیا۔۔۔۔۔۔۔ برسات کا بڑا اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوالات

١۔ پانی کون برساتا ہے ؟

٢۔ ہم کو کس کا شکر ادا کرنا چائیے ؟

۲۷

پردہ

سبق [١٦]

جس طرح موتی کے لیے صدف، پھول کے لئے باغ، جواہرات کے لئے صندوق ضروری ہے اسی طرح عورت کے لئے پردہ ضروری ہے۔ پروردگار عالم نے مرد و عورت دونوں کے لئے الگ الگ کام رکھے ہیں۔ مرد کا کام ہے روزی روزگار کرنا۔ عورت کا کام ہے گھر کا کام دیکھنا اور جب دونوں کا کام الگ ہیں تو دونوں کی جگہ بھی الگ ہوگی۔ مرد گھر کے باہر رہ کر روزی حاصل کرےگا اور عورت گھر کے اندر رہ کر وہاں کا کام سنبھال لیگی اور اس طرح گھر کے اندر اور باہر دونوں جگہ کا حساب ٹھیک رہےگا۔ لیکن اگر عورت بھی مرد کی طرح باہر نکل کر سڑکوں پر گھومنے لگی تو گھر میں اس کا دل نہ لگےگا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ گھر کی حالت تباہ ہو جائگی۔ بچّوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ رہےگا۔ سب کام نوکروں سے لیا جائےگا اور نوکر بچّے سے وہ محبت نہ کریں گے جو ماں باپ کو ہوتی ہے تم نے دیکھا ہوگا کہ بہت سی عورتیں بچّوں کو گھر میں چھوڑ کر گھومنے نکل جاتی ہیں۔یہ بچّوں پر بہت بڑا ظلم ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا رسول اللّٰہ کی بیٹی تھیں۔ تمام دنیا کا اختیار ان کے پاس تھا لیکن انہوں نے زندگی بھر خدا اور رسول کی مرضی کے بغیر گھر سے باہر قدم نہیں نکالا، ہمارے اوپر ان کی پیروی لازم ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب عورت بغیر اپنے شوہر کی اجازت کے گھر سے باہر نکلتی ہے تو فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں اور اسی طرح اگر مرد اسے بے پردہ گھمانے لے جاتا ہے تو اس پر بھی فرشتوں کی لعنت پڑتی ہے عورت کو چائیے کہ اگر مجبوری میں گھر سے باہر کمانا بھی پڑے تو چہرے کو بند رکھے۔ تمام بدن کو چھپائے رکھے کسی غیر مرد کی نظر اس پر نہ پڑنے پائے کہ بے پردگی بہت بڑا گناہ ہے اپنی ماں، بہن، بیٹی، پھوپھی، خالہ، بیوی، نانی، دادی کے علاوہ دسری عورتوں کو دیکھانا گناہ ہے۔ یہ نہ دیکھو کہ لوگ کیا کرتے ہیں۔ یہ دیکھو کہ تمھارے اماموں نے کیا بتایا ہے۔ لوگ تو شراب بھی پیتے ہیں تو کیا خدا اور رسول کا ماننے والا بھی شراب پینے لگے۔

۲۸

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

صدف ۔ جواہرات۔ روزگار ۔ ظلم ۔ مرضی ۔ قدم ۔ پیروی ۔ فرشتے ۔ لعنت۔

ان جملوں کو پورا کرو :-

جواہرات رکھنے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔ضروری ہے۔ غیر مرد سے۔۔۔۔۔۔ ضروری ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا۔۔۔۔۔۔۔ کی بیٹی تھیں۔ ہم پر ان کی۔۔۔۔۔۔۔۔لازم ہے۔

سوالات

١۔ مرد کا کام کیا ہے ؟

٢۔ عورت کا کام کیا ہے ؟

٣۔ عورتوں کے گھومنے سے کیا نقصان ہوگا ؟

٤۔ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا کیسا ہے ؟

۲۹

حضرت سلیمان

سبق [١٧]

حضرت سلیمان اللّٰہ کے پیغمبر تھے۔ انہوں نےایک دن اللّٰہ سے دعا کی کہ خدایا مجھے ایسی بادشاہی دے دے کہ جیسی کسی اور کو نہ دی ہو۔ اللّٰہ نے ان کی دعا سُن لی اس لئے کہ نبی کی بات خدا ضرور سن لیتا ہے۔ ان کو بہت بڑی بادشاہت مل گئی۔ اتنی بڑی بادشاہت کہ جس میں آدمی، جانور، درخت، پتھر، ہوا، آگ، پانی، جنات، سب پر حکومت کرتے تھے جس کو حکم دیدیتے تھے وہ فوراً بجا لاتا، آپ کا ایک تخت تھا جس کا نام بساط سلیمانی تھا۔سیکڑوں آدمی بیٹھ جاتے تھےا ور ہوا اس کو اڑا کر لے جاتی تھی۔ ایک ایک گھنٹہ میں ایک ایک مہیںہ کا راستہ طے کرتا تھا۔ایک دن آپ نے پروردگار سے دعا کی کہ تو نے مجھے اتنا بڑا ملک دیا ہے میرا دل چاہتا ہے کہ میں تیرے احسان کا شکریہ ادا کروں ۔ احسان کا شکریہ ادا کرنا شریف آدمی کی پہچان ہے۔حکم خدا ہوا سلیمان تم میری نعمتوں کا شکریہ نہیں ادا کر سکتے ۔ حضرت سلیمان نے اصرار کیا اللّٰہ نے ان کی درخواست منظور کر لی اور کہا کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو ؟ حضرت سلیمان نے کہا کہ میں ایک روز تیری مخلوق کی دعوت کرنا چاہتا ہوں، پروردگار نے اجازت دے دی۔ جناب سلیمان نے تمام جنات کو حکم دے دیا کہ ایک میدان میں سمندر کے کنارے کھانے کا انتظام کریں۔ کئی دن تک سامان جمع ہوتا رہا۔ جب دعوت کی تاریخ آ گئی تو وقت سے پہلے ہی صبح سویرے ایک مچھلی نے سمندر سے سر نکالا اور کہا کہ اب اے نبی خدا میں بہت بھوکی ہوں آپ مجھے کھانا کھلا دیجئے جناب سلیمان نے کہا کہ ابھی دعوت کا وقت نہیں ہوا ہے وہ خاموش ہو گئی تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر بھوک کا اظہار کیا۔ جناب سلیمان نے جنات کو حکم دیا کہ اس مچھلی کو کھانا دے دیا جائے۔ انہوں نے تھوڑا سا کھانا دے دیا اس نے ایک دفعہ میں سب کھا لیا اور پھر مانگا پھر دیا گیا اس نے کھا کر پھر مانگا۔ جنات کھانا دیتے رہے اور وہ کھاتی رہی، یہاں تک کہ کل سامان کا ایک تہائی حصہ ختم ہو گیا تو جنّات نے حضرت سلیمان کو خبر کی کہ ایک مچھلی کا یہ حال ہے تو باقی اور مخلوقات کا کیا حال ہوگا۔ جناب سلیمان یہ سن کر سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے خدایا یہ تیرا ہی کام ہے تیرے سوا کوئی دنیا کو روزی نہیں دے سکتا۔

۳۰

ان الفاظ کو یاد کرو :-

جنّات ۔ بجا لانا ۔ شریف ۔ نعمت ۔ اصراف ۔ مخلوقات ۔ دعوت ۔ اجازت ۔ انتظام ۔ اظہار ۔ بساط ۔ روزی۔

جملے پورے کرو :-

حضرت سلیمان۔۔۔۔۔۔پیغمبر تھے۔ اللّٰہ نے ان کی۔۔۔۔۔ سن لی۔۔۔۔۔۔۔۔خدا ضرور سن لیتا۔ جناب سلیمان۔۔۔۔۔۔۔۔میں گر پڑے۔

سوالات

١۔ جناب سلیمان کو اللّٰہ نے کیسی بادشاہت دی تھی ؟

٢۔ بساط سلیمانی کسی کہتے ہیں ؟

٣۔ جناب سلیمان نے کیسے جانا کہ خدا کے علاوہ کوئی روزی نہیں دے سکتا ؟

٤۔ جنّات کون ہیں ؟

۳۱

ہُد ہُد

سبق [١٨]

بچّو تم نے ہُد ہُد دیکھا ہوگا۔ یہ ایک بڑا تیز اور روشن ضمیر پرندہ ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان کے زمانے میں بھی ایک ہُد ہُد تھا جو بڑی عجیب عجیب باتیں کیا کرتا تھا۔ ملک سبا عرب میں ایک ملک تھا وہاں ایک شہزادی تھی جس کا نام بلقیس تھا۔ جناب سلیمان کے پاس بلقیس کے ملک کی خبر ہُد ہُد ہی لاتا تھا۔ مشہور ہے کہ ایک دن اس نے ہنس کر حضرت سلیمان سے کہا کہ میں آپ کی دعوت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ یہ سن کر مسکرا دئے اور فرمایا کہ میں اکیلے آؤں یا کسی کو ساتھ لے آؤں۔ اس نے بڑے اطمینان سے کہا کہ میرا خیال تو یہ تھا کہ آپ کے پورے لشکر کی دعوت کروں اب آپ کا جیسا خیال ہو۔ جناب سلیمان اس پر ہنس پڑے۔ آپ نے فرمایا کہ تو میرے پورے لشکر کی دعوت کرےگا۔ اس نے کہا جی ہاں فرمایا اچھا کب دعوت ہے۔ اور کہاں انتظام کرےگا۔اس نے کہا فلاں روز سمندر کے کنارے میدان میں پورے لشکر کو لے کر آ جائیے گا وہیں سارا کھانا موجود رہےگا۔ آپ نے اس کی درخواست منظور کر لی اور وقت پر پورے لشکر کو لے کر میدان میں پہنچ گئے۔ دیکھا میدان صاف فوراً ہُد ہُد کو بلایا اور کہا کہ تو نے یہ کیا مذاق کیا ہے؟ تیرے کھانے کا انتظام کہاں ہے ؟ اس نے کہا نبی خدا یہ مذاق نہیں ہے میں نے پورا انتظام کر لیا ہے صرف وقت کی دیر ہے۔ تھوری دیر کے بعد جب وقت ہو گیا تو نے ایک ٹڈی کو پکڑ کر سمندر میں ڈال دیا اور کہا کہ خدا کے نبی بسم اللّٰہ آپ بھی کھائیں اور لشکر کو بھی کھلائیں اگر بوٹی کم بھی ہو گئی تو شوربہ بہر حال کم نہ ہوگا، جناب سلیمان یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور ہُد ہُد کی اس بات کو پسند فرمایا۔ اس لیے کہ اس نے اللّٰہ کے رزق پر بھروسہ کیا تھا۔

۳۲

بعض گنڑہ تعویز کرنے والے ہُد ہُد کو پالتے بھی ہیں اس لیے کہ اس کے سر پر تاج ہوتا ہے۔

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

روشن ضمیر ۔ ملک سبا ۔ سمندر ۔ مذاق ۔ ہڈی ۔ رزق ۔ گنڑہ ۔ تعویز ۔ تاج ۔ عجیب۔

جملے پورے کرو :-

گنڑے تعویز کرنے والے۔۔۔۔۔۔۔کو پالتے ہیں۔ ہُد ہُد کے سر پر۔۔۔۔۔۔ہوتا ہے۔ ملک سبا۔۔۔۔۔۔۔ملک میں ہے۔ ہُد ہُد نے نبی خدا سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تھا۔

سوالات

١۔ جناب سلیمان ہُد ہُد کی کس بات پر ہنسے ؟

٢۔ جناب بلقیس کون تھیں ؟

٣۔ ہُد ہُد نے شوربہ کس چیز کو بنایا تھا ؟

٤۔ روزی کا ذمہ دار کون ہے ؟

۳۳

علّامہ حلّی

سبق [١٩]

علّامہ حلّی آج سے قریب قریب سات سو برس پہلے گزرے ہیں۔ آپ اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم تھے کس بات کا جواب دینے میں ایک منٹ کی بھی دیر نہیں لگاتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک دہریہ اس زمانے کے بادشاہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں تمہارے خدا کو نہیں مانتا۔ میرا خیال یہ ہے کہ یہ دنیا خود بخود بن گئی ہے۔ اُسے کسی نے پیدا نہیں کیا اور پھر ایک دن اپنے ہی آپ بگڑ جائے گی۔ بادشاہ یہ سن کر چپ رہ گیا۔ اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اس نے بڑے بڑے عالموں کو بلایا، سب اس سے بات کرنے سے عاجز رہے آخر میں علّامہ حلّی کو بلایا گیا۔ آپ نے کہا کہ میں بات کرنے کے لیے تیار ہوں۔ دن اور وقت طے ہو گیا۔ دہریہ اپنے وقت سے پہلے پہونچ گیا لیکن علّامہ حلّی نے جان بوجھ کر دیر لگائی۔ اس نے بادشاہ کو طعنہ دیا کہ آپ کا عالم مقابلہ کرنے سے بھاگ گیا۔ بادشاہ نے کہا کہ شاید کوئی بات ہو گئی ہے وہ آئیں گے ضرور۔ تھوڑی دیر کے بعد علّامہ حلّی تشریف لائے۔ بادشاہ نے دیر کا سبب پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ میرا مکان دریا کے اس پار ہے میں جب دریا کے کنارے پہنچا تو وہاں کوئی کشتی نہ تھی۔ پریشان کھڑا ہوا تھا۔ اچانک ایک تختہ آسمان سے گرا۔ پھر اسی کے پہلو میں دوسرا تختہ گرا۔ پھر دونوں مل گئے۔ پھر چند کیلیں گریں اور آپ ہی آپ لگ گئیں۔ کشتی تیار ہو گئی میں سوار ہو گیا۔کشتی خود سے چلی اور مجھے اس نے کنارے پہنچا دیا۔ یہ تقریر سن کر سارا مجمع دنگ رہ گیا اور دہریہ نے کہا میں ان سے بحث نہ کروں گا۔ ان کا دماغ خراب ہو گیا ہے بھلا کوئی کشتی خود بخو بن سکتی ہے۔ خود سے چل سکتی ہے۔ یہ سب دیوانے پن کی باتیں ہیں۔ علّامہ نے فرمایا کیا واقعاً کشتی خود بخود سے نہیں بن سکتی ؟ دہریے نے کہا بیشک آپ نے فرمایا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ایک کشتی بغیر بنانے والے کے نہ بن سکے اور یہ پوری دنیا بغیر کسی خدا کے بن جائے۔ دہریہ یہ سن کر پریشان ہو گیا اور اپنی بات سے باز آ گیا۔

۳۴

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

عالم ۔ دہریہ ۔ خود بخود ۔ عاجز طعنہ ۔ علامہ ۔ اچانک ۔ پہلو ۔ تقریر ۔ مجمع ۔ بحث ۔ دیوانہ پن ۔ واقعاً ۔ سبب۔

جملے پورے کرو :-

اپنے وقت کے سب سے بڑے۔۔۔۔۔۔۔تھے۔ یہ دنیا۔۔۔۔۔۔۔نہیں بن گئی ہے۔ سب اس سے بات کرنے سے۔۔۔۔۔۔رہے۔ دنیا بغیر۔۔۔۔۔۔۔کے نہیں بن سکتی۔ اپنی بات سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آ گیا۔

سوالات

١۔ علّامہ حلّی کون تھے ؟

٢۔ دہریہ کسے کہتے ہیں ؟

٣۔ علّامہ حلّی نے دہریے کو کیسے جواب دیا ؟

٤۔ دنیا کو کس نے پیدا کیا ؟

۳۵

ایک دلچسپ گفتگو

سبق [٢٠]

امام جعفر صادق کے زمانے میں مسلمانوں کے ایک بہت بڑے عالم تھے جن کا نام تھا ابو حنیفہ۔ ان کا کہنا تھا کہ انسان اپنے ہر کام یں بےبس ہے جو کچھ کرتا ہے وہ خدا کرتا ہے بندے سے کوئی مطلب نہیں ہے خدا نماز پڑھواتا ہے تو بندہ نماز پڑھ لیتا ہے۔ خدا چوری کراتا ہے تو بندہ چوری کر لیتا ہے۔ امام جعفر صادق کو اس بات کی خبر ملی تو آپ نے اس کی سخت مخالفت کی اور فرمایا کہ اس طرح اللّٰہ ظالم ہو جائےگا۔ابو حنیفہ نے طے کیا کہ امام سے بحث کریں گے اور یہ سوچ کر حضرت کے مکان کی طرف چلے۔ دروازے پر پہنچ کر زنجیر کھٹکھٹائی۔ گھر سے ایک چھوٹا سا بچّہ برآمد ہوا۔ یہ تھے ہمارے ساتویں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام آپ نے فرمایا کیا کام ہے اور آپ نے کیوں زحمت فرمائی ہے۔ ابو حنیفہ نے کہا کہ اپنے والد کو بلاؤ میں اُن سے بات کروں گا۔آپ نے فرمایا کیسی بات ؟ کہا تم بچّے ہو تم سے کیا مطلب ؟ آپ نے اصرار کیا کہ بچّے اور بوڑھے سے کیا مطلب آپ بات تو بتائیں؟ ابو حنیفہ نے کہا وہ ہر آدمی کو اس کے عمل کا ذمہ دار بتاتے ہیں اور میں سب کا ذمہ دار خدا کو بتاتا ہوں اسی بات پر گفتگو کر کے اسے طے کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ان سے تو آپ کی بات چیت بعد میں ہوگی پہلے میری ایک بات کا جواب دیدیں۔ ابو حنیفہ نے کہا وہ کیا؟ آپ نے فرمایا کہ اس مسئلہ کی تین صورتیں ہیں یا تو ہر اچھائی بڑائی صرف خدا کرتا ہے۔ بندے سے کوئی تعلق نہیں ہے یا سب بندہ کرتا ہے خدا سے کوئی ذمّہ داری نہیں ہے یا دونوں مل کر برائی کرتے ہیں۔ اگر سب خدا کرتا ہے تو یہ کتنا بڑا ظالم ہے کہ برائی خود کرے اور جہنم میں ہمیں جھونک دے اور اگر دونوں مل کر برائی کرتے ہیں تو پہلے سزا خود کو دینی چائیے پھر انسان کو۔ اور جب یہ دونوں باتیں غلط ہیں تو اس کا صاف سا مطلب یہ ہے کہ بندہ اچھائی برائی کا خود ذمہ دار ہے۔ اچھائی کرےگا تو ثواب پائےگا بڑائی کرےگا تو عذاب پائےگا۔ یہ پیاری پھیاری گفتگو سن کر ابو حنیفہ کا خیال بدل گیا اور یہ کہ کر واپس ہو گئے کہ آپ صحیح کہتے ہیں اب مجھے کسی اور سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

۳۶

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

بےبس ۔ بندہ ۔ مطلب ۔ مخالف ۔ زحمت ۔ ذمہ دار ۔ تعلق ۔ ہوش۔

ان الفاظ جو جملوں میں استعمال کرو :-

عالم ۔ بےبس ۔ بات ۔ تعلق ۔ سزا ۔ ثواب ۔ عذاب۔

سوالات

١۔ ابو حنیفہ کون ؟

٢۔ ابو حنیفہ کیا کہتے تھے ؟

٣۔ آدمی اپنے کام خود کرتا ہے یا اس کے کام خدا کرتا ہے ؟

٤۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ابو حنیفہ کو کیا جواب دیا ؟

۳۷

ہمیشہ یاد رکھو

سبق [٢١]

بزرگوں کو سلام کیا کرو۔

صفائی کا خیال رکھا کرو ۔

کسی کا مذاق نہ اُڑاؤ۔

جانوروں کی طرح کھڑے ہو کر پیشاب نہ کرو۔

پیشاب کے بعد پانی سے ضرور پاک کرو۔

کھانا ہمیشہ بیٹھ کر کھاؤ۔ چلتے پھرتے کھانا کھانا جانوروں کا کام ہے۔

کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھویا کرو۔

کھانے سے پہلے بسم اللّٰہ اور کھانے کے بعد الحمد للّٰہ کہا کرو۔

کسی کی نقل نہ کیا کرو۔

کسی کا قلم دوات، پنسل، تختی یا کوئی اور چیز نہ چراؤ چوری بری بات ہے، چوری کی سزا یہ ہے کہ اس کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں۔

۳۸

جب بولو تو سوچ سمجھ کر بولو اور آہستہ بولو۔ شور نہ مچاؤ۔

سینما دیکھنا منع ہے، گانا سننا، باجا سننا، ناچ دیکھنا گناہ ہے، ایسے آدمی کی آنکھ میں قیامت کے دن لوہے کی جلتی ہوئی سلاخ ڈال دی جائےگی۔

تمھارے ماں باپ سینما جائیں تو انہیں منع کرو اور تم بھی نہ جاؤ۔

چوری چھپے کوئی برائی نہ کرو کہ اسے بھی خدا دیکھ رہا ہے۔

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

خیال ۔ نقل ۔ سزا ۔ منع ۔ سلاخ۔

سوالات

١۔ چوری کی سزا کیا ہے ؟

٢۔ چھپ کر اگر برائی کریں تو اس کو کون دیکھے گا ؟

٣۔ کیا خدا بھی ہماری طرح آنکھوں سے دیکھتا ہے ؟

۳۹

سچّی کہانی

سبق [٢٢]

ایک اسکول میں بہت سے لڑکے پڑھتے تھے۔ استاد ایک لڑکے کو زیادہ چاہتا تھا اسے نمبر بھی زیادہ دیتا تھا۔ ایک دن تمام لڑکوں نے مل کر استاد سے شکایت کی کہ ہم سب آپ سے پڑھتے ہیں لیکن آپ محمود کو زیادہ چاہتے ہیں۔ استاد نے کہا کہ وہ تم سے زیادہ تیز اور محنتی ہے تم سب ویسے نہیں ہو۔ لڑکوں نے یہ بات دل سے نہ مانی اور چپ ہو گئے۔استاد نے کہا کہ اگر تم لوگ چاہو تو میں سب کا امتحان کرلوں۔ لڑکوں نے کہا کہ اس سے اچھی بات کیا ہے۔ استاد نے اعلان کر دیا کہ کل امتحان ہوگا۔ سب لڑکے تیار ہو کر آ گئے۔استاد کے ہاتھ میں بہت ساری چڑیاں تھی اور بہت سی چھُریاں۔ اس نے سب کو ایک ایک چڑیا اور ایک ایک چھُری دے دی۔ کہاجاؤ ان چڑیوں کو ذبح کر کے لاؤ، لیکن دیکھو جب ذبح کرنا کوئی دیکھنے نہ پائے۔ سب لڑکے چڑیوں کو لے کر گئے اور تھوڑی دیر میں ذبح کر کے لے آئے، محمود چڑیا کو زندہ لے آیا۔ لڑکے دیکھ کر ہنسنے لگے کہ استاد اسے اتنا چاہتے ہیں اور اس نے ان کی بات پر عمل نہیں کیا۔ استاد نے ایک ایک کو بلا کر پوچھا تم نے اسے کہاں ذبح کیا۔ کسی نے کوٹھری، کسی نے تہخانہ، کسی نے بنگلہ، کسی نے کمرہ، کسی نے غسل خانہ، کسی نے کسی اور جگہ کا نام بتایا۔ اس کے بعد محمود سے سوال کیا۔ اس نے کہا کہ میں ان تمام جگہوں پر گیا لیکن ہر جگہ پر ایک دیکھنے والا موجود تھا اس لیے ذبح نہ کر سکا۔ استاد نے پوچھا وہ دیکھنے والا کون ہے۔ محمود نے کہا میرا خدا۔ بچّو دیکھا تم نے محمود کو خدا پر کتنا بھروسہ تھا کبھی چوری چھپے بھی برائی نہیں کر سکتا تھا تم بھی محمود جیسے بن جاؤ اور جب کوئی برائی کرنا چاہو تو یہ سوچ لو کہ خدا سے بھی دیکھ رہا ہے۔

۴۰

[۱]جنگ و غارت گری کے وقت انکی بیٹیاں نہ جنگ کی طاقت رکھتی تھیں ،نہ حملہ کی قوت اور نہ جنگجو و غارت گر دشمن کے مقابل دفاع کی صلاحیت رکھتی تھیں جسکی وجہ سے دشمن کے ہتھے چڑھ جاتی تھیں جو کہ عرب کیلئے ننگ و عار کا سبب تھا اسی وجہ سے وہ  بیٹیوں کو ختم اور نابود کرنے میں اپنی قوت و طاقت لگاتے تھے۔

[۲] معاشی عوامل :فقر و تنگدستی بھی سبب ہوئی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو شروع ہی سے قتل کر دیں یا زندہ در گور کر دیں ۔یہ بد ترین اور ظالمانہ روایت کی پیروی کی وجہ سے جب کسی عورت کو درد زہ کا احساس ہوتا ،تو اپنے خیمہ سےد ور صحرا یا کسی دوسری جگہ چلی جاتی تھی اور اس گڈھے میں کہ جو انکے لئے آمادہ کیا گیاتھا نو مولو د دنیا میں آتا تھا ۔

   اور اگر مولود بیٹا ہوتا تھا تو قبیلہ اور اطر اف کی عورتیں نوزاد  اوراسکی ماں کو شوق و امنگاور خوشی کے ساتھ مردوں کےپاس لاتیں تھیں اور اگر لڑکی ہوتی تھی تو مایوسی کے مرجھائے ہوئے  چھرہ کے ساتھ سبھی  بیٹھ جاتی تھی اور بے گناہ نوزاد کو اسی گڑھے میں دفن کرکے واپس آجاتی تھیں ۔

قرآن مجید کم سے کم  تین مقامات پر اولاد کے قتل ہونے کے موضوع کو بیان کرتا ہے ۔ اور اس سے جم کرقابلہ کے لئے ابھارتا ہے ایک مقام پر اس طرح ارشادفرماتا ہے ۔

(وَ إِذَا الْمَوْؤُدَةُ سُئِلَتْ (8)بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ) (9)(1)

اور جب زندہ در گور لڑکیوں کے بارے میں سوال کیا جائیگا کہ  انہیں کس گناہ میں مارا گیا ہے ۔ 

اوردوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے ۔

(وَ لا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ إِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبيراً) (2)

--------------

(1):- سورہ تکویر ،آیۃ ۸،۷

(2):- سورہ اسراء ،آیۃ ۳۱

۴۱

اور خبر دار اپنی اولاد کو فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرناکہ ہم انہیں بھی  رزق  دیتے ہیں ۔اور تمہیں بھی رزق دیتے ہیں۔بیشک انکاقتل کردینا بہت بڑا گناہ ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ بظاہر یہ بد ترین عمل ایک خاص گروہ یا کچھ مخصوص گروہ کی عادت تھی وگرنہ لڑکیوں کا فقدان قظع نسل کا سبب بنتا ۔کیونکہ توالد ،تناسل اور انسانی نسلکی افزائش لڑکیوں کے وجود  کی مرہون منت ہے جسطرح سے مردوں اور لڑکیوں کے وجود سے بھی اسکا تعلق ہے۔

        ممکن ہے کہ یہ کہا جائے بعض لڑکیوں کےساتھ ایساکرتے تھے اور بعض کو بقائے نسل کیلئے باقی رکھتے تھے۔یا یہ کہ بعض لوگ کلی طور پر ایسا کرتے تھے اور انکے درمیان قطعی اور اجتماعی حکم  نہیں تھا قرآن مجید کی بعض  آیات سے اس نتیجہ کو اخذ کیا جا سکتا ہے اور وہ آیت یہ ہے۔

(وَ إِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى‏ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَ هُوَ كَظيمٌ) (58)(يَتَوارى‏ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ ما بُشِّرَ بِهِ أَ يُمْسِكُهُ عَلى‏ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرابِ أَلا ساءَ ما يَحْكُمُونَ) (59)(1)

اور جب خود ان میں کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے قوم سے منھ چھپاتا ہے کہ بہت بری خبر سنائی گئی ہے ۔ اب اسکو ذلت سمیت زندہ رکھے یا خاک میں ملا دے یقینا یہ لوگ بہت برا فیصلہ کر رہے ہیں۔

--------------

(1):- سورہ نحل ،آیۃ ۵۹،۵۸

۴۲

دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اقتصادی و معاشی مشکلات اور فقر و تنگدستی کے عامل سے ہٹ کر کہ اس میں بیٹے  اور بیٹی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔

کیونکہ دونوں خرچےزندگی کے ضرورت مند ہیں تو پھر کس دلیل کی بنیاد پر اپنی بیٹیوں کو قتل کر دیتے تھے؟جو چیز ہم تک پہونچی ہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگ کلی طور پر لڑکی کے وجود سے نفرترکھتے تھے۔اس وجہ سے اسکو قتل کرنے اور زندہ درگور کرنے میں لڑکیوں کو لڑکوں پر مقدم کرتے اور ترجیح دیتے تھے ۔

مفسر بزرگ علامہ طبا طبائی رضوان اللہ علیہ سورہ اسراء کی آیت کے ضمن میں کہتے ہیں :

(ولا تقتلوا اولادکم خشية املاق جریان وادنبات)

وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کے واقعہ کو اولاد کے قتل کرنے سے الگ جانتے ہیں اور فرماتےہیں:

لڑکیوں کو زندہ درگور کر نے کی آیات خاص ہیں کہ جو ا س موضوع سے مخصوص اوراسکی حرمت کی تصریح کرتی ہیں :

مثلا یہ آیت :

(وَ إِذَا الْمَوْؤُدَةُ سُئِلَتْ (8)بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ)(9)(1)

اور یہ آیت(وَ إِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى‏ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَ هُوَ كَظيمٌ (58)يَتَوارى‏ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ ما بُشِّرَ بِهِ أَ يُمْسِكُهُ عَلى‏ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرابِ أَلا ساءَ ما يَحْكُمُونَ) (59) (2)

لیکن مورد بحث آیت اور اس کے مشابہ دوسری آیات اپنی اولاد کو فقر و تنگدستی کی  وجہ سے قتل کرنے کو منع کرتی ہیں ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی دلیل بھی نہیں ہے کہ ان آیات میں اولاد کو لڑکوں کے معنی میں لیا جائے ۔

--------------

(1):- سورہ تکویر ،آیۃ ۹،۸

(2):- سورہ نحل ،آیۃ ۵۹،۵۸

۴۳

درحالانکہ اولاد لڑکا ،لڑکی دونوں کے لیے عام ہے اور یہ دوسری سنت لڑکیو ں کو زندہ درگور کرنے کے علاوہ کہ جو ننگ وعارکی بنیاد پرہے او ر اولاد کو قتل کرنے کی عادت اعم ہے کہ جو لڑکا اور لڑکی دونو ں کو فقر و فاقہ کی بنیاد پر قتل کرنے سے منع کیا گیا  ہے ۔(1)

راغب نے مفردات میں کہا ہے کہ اولا د  سے مراد لڑکا ،لڑکی دونوں ہوتے ہیں اس بیان کے مطابق یہ شبہ ختم ہوجاتا ہے کیونکہ فقرو تنگدستی کا خوف انکو اس بات کی جانب ابھارتا ہے کہ اپنی اولاد کو چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی قتل کریں اور اس مقام پر ان دونوں کے درمیان کسی فرق کے قائل نہیں تھے ۔بیشک ان کی ایک بد ترین سنت یہ تھی کہ وہ اپنی لڑکیوں کو ننگ و عار کی خاطر زندہ دفن کردیتے تھے کہ اگر ایسا نہ کرتے تو جنگوں میں دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہوجائیں گی ۔

 دوسراقابل بیان نکتہ یہ ہے فقرو تنگدستی کاخوف دو جگہ ظاہر ہوتا ہے ۔اور برے نتائج کاسبب بنتا ہے ،خدا وند عالم نے ان دونوں مقامات  پر انسانیت کی حمایت کی ہے یعنی اسکے حالات کی اصلاح کی ضمانت لی ہے اور اسکی روزی کا وعدہ کیا ہے ۔

۱ : بسا اوقات جوان شادی اور انتخاب ہمسر کیلئے مضطرو پریشان ہوتے ہیں کہ کس طرح اپنے علاوہ اپنی بیوی کی ضرورت کو پورا کرے گا ۔اور یہی اضطراب و مایوسی اور شادی میں تاخیرکا سبب بنتا ہے۔خداوند عالم اسکے متعلق ارشاد فرماتاہے۔

(وَ أَنْكِحُوا الْأَيامى‏ مِنْكُمْ وَ الصَّالِحينَ مِنْ عِبادِكُمْ وَ إِمائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَليمٌ) (32)(2)

اور اپنے  غیر شادی شدہ آزاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے با صلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر فقیر بھی ہونگے تو خدا اپنےفضل و کرم سے انہیں مالدار بنا دیگا ۔

--------------

(1):- المیزان ،ج ۱۳ ،ص ۸۹

(2):- سورہ نور ،آیۃ ۳۲

۴۴

۲: صاحب اولاد ہو جانے کی صورت میں یہ پریشانی اس دور کےماں باپ کیلئے تھی چنانچہ آج بھی یہ پریشانی بطور کلی ختم نہیں ہوئی ہے خصوصا  جزیرۃ العرب میں کہ جہاں قحط سالی ،بارش کی کمی اور رزق کا کم ہونا انکو غمگین کئے ہوئے تھا ۔   اور کسی فرزند کا پیدا ہوجانا انکے لئے ذہنی پریشانی کا سبب تھا ۔خدا وند عالم اس پریشانی کو دور کرنے کیلئے ارشاد فرماتا ہے۔

(وَ لا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ مِنْ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ إِيَّاهُمْ)(1)

سعدی شیرازی کہتے ہیں ۔

یکی طفل دندان بر آودہ بود 

پدر سر بہ فکرت فرو بردہ بود      

کہ من نان برگ از کجا آرمش     

                                مروت نباشد کہ بگزارمش  

چو بیچارہ گفت این سخن نزدجفت                           

        نگر تا زن او را چہ مردانہ گفت

مخور ھول ابلیس تا جان دھد                

                        ھر آن کس کہ دندان دھد نان دھد

ایک بچے کے دانت نکل آئے تو باپ پریشان ہو گیا کہ اب اس کے کھانے وغیرہ کا انتظام کیسے کرے گا  ۔اور یونہی چھوڑ دینا بھی مروت کے خلاف ہے ۔جب اس نے یہ بات اپنی بیوی سے کہی ۔تو اس عورت نے ایک مردانہ اور حکیمانہ جواب دیا :کہ جب تک یہ بچہ زندہ ہے تم شیطان کے ان وسوسوں کا خوف نہ کھائو کیونکہ جس نے اس بچہ کو دانت دئے ہیں  وہی روزی بھی دیگا ۔

--------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ ۱۵۱

۴۵

۴: عفت کے منافی اعمال سے دوری

دوسرانکتہ کہ جو صراط مستقیم سے مربوط ہے وہ ہے فواحش سے اجتناب کرنا اور عفت کے منافی اعمال کو انجام نہ دینا ۔آیت کی تعبیر یہ ہے کہ :

(وَ لا تَقْرَبُوا الْفَواحِشَ ما ظَهَرَ مِنْها وَ ما بَطَن‏ ) (۱۵۱)(1)

اور بدکاریوں کے قریب مت جانا وہ ظاہری ہوں یا چھپی ہوئی ۔

اسلام نے جن کاموں کی انجام دہی سے روکا ہے ان کا صرف انجام نہ دینا کافی نہیں ہے ۔بلکہ ان کے قریب جانے کی مذمت  اور ممانعت  بھی کی گئی ہے لہذا اسکے قریب جانے سے بھی اجتناب ہونا چاہئے ۔

        بیشک اس طرح کے کاموں کے قریب ہو نا خطرناک بھی ہے ۔کیونکہ جس وقت  انسان ان سے نزدیک ہوتا ہے تو دھیرے دھیرے عمل کی جانب قدم بڑھاتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی انکو انجام دیتا ہے ۔

کسی بھی کام سے قریب ہونا اس کام میں ملوث ہونے کا مقدمہ ہوتا ہے ۔اگرچہ اس میں ملوث ہونے کا ارادہ نہ رکھتا ہو ۔بہر حال اس با ت کا خطرہ اور خوف پایا جایا ہے۔کہ انسان اس میں ملوث ہو جائے ۔اس لئے اسلام تمام فواحش اور برے کاموں سے چاہے وہ ظاہری ہوں یا مخفی ۔منع  کرتا ہے اور اس کی دو طرح سے توجیہ کی جاتی ہے ۔

        ۱: ان اعمال کو نہ صرف دوسروں کی آنکھوں کے سامنے انجام دیا جائے بلکہ تنہا ئی میں بھی ان سے اجتناب کیا جائے۔اور کوئی یہ تصور بھی نہ کرے کہ فواحش اور برائیوں کو کھلے عام انجام نہیں دینا چاہئے ۔کیونکہ عمومی عفت داغدار ہو جائے گی ۔لیکن مخفیانہ طور پر کوئی مشکل نہیں ہے۔

--------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ۱۵۱

۴۶

جیسا کہ تفسیر مجمع البیان میں کہا گیا ہے کہ عصر جاہلیت کے لوگ مخفیانہ زنا کو برا تصور نہیں کیا کرتے تھے ۔اور تنہا کھلے عام زنا سے منع کرتےتھے لہذا خدا وند عالم نے ان کو ہر حال میں زنا سے منع فرمایا ۔

اس بنا پر گویا آیت یہ کہنا چاہتی ہے ظاہرا برے اعمال سے پرہیز آسان ہے اور انکی خود اپنی ایک جگہ ہے ۔حتی ان اعمال کو مخفیانہ انجام دینے سے بھی پرہیز کرو۔

۲:برے اور غلط کاموں سے اجتناب کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان کے بدن کے اعضاء و جوارح سے انجام پاتا ہے کہ یہ ہر حال میں  ظاہری قسم ہے ۔ چاہے اسکو مخفی طور پر ہی کیوں نہ انجام دیا جائے ۔اور وہ برا عمل کہ جو انسان کے دل و دماغ میں ابھرتا ہے ۔گویا فرمایا ہے کہ اپنے اعضاء و جوارح کے ذریعہ برے اور عفت کے منافی اعمال سے اجتناب کرو ۔اس طرح سے کہ تمہارے ذہن و فکر میں بھی اسکا تصور نہ آنے پائے ۔اور تمہارے باطن میں بھی منافی عفت  عمل نہ آئے ۔

بیشک قلبی تصورات اور گناہ کی فکر اور سوچ بھی گنا ہ کیلئے راہ ہموار کرتا ہے ۔ اور بالخصوص  اسکی تکرار اور ہمیشہ سوچنے میں ایک  عظیم خطرہ پایا جاتا ہے ۔ جو دھیرے دھیرے انسان کیلئے نا فرمانی کی راہ کو کھول دیتا ہے ،اسکو گناہ کے انجام دینے پر ابھارتا ہے ۔اور خانئہ دل کو سیاہ وتاریک بنا دیتا ہے۔

اسی بنیاد پر آدمی کے تصورات و خیالات اسکے دل پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ اسکے دل اور قساوت قلب میں یا اسکی نرمی اور آسانی میں واضح اور نا قابل انکار اثر رکھتا ہے۔

۴۷

قرآن کریم کے اسی جملہ کی جانب  اشارہ کرتے ہوئے حضرت علی ابن الحسین  ؑدعائے ابو ہمزہ ثمالی کے آخر میں :اپنی عارفانہ اور پر درد مناجات میں فرماتے ہیں۔

اللهم انی اعوذبک من الکسل والفشل----والفواحش ما ظهر منها وما بطن -----

پروردگار میں تیری باگاہ میں سستی و کاہلی سے پناہ چاہتا ہوں اور فواحش و برے اعمال سے وہ ظاہر ہوں یا چھپے ہوئے۔

یاد رہے اگرچہ قرآن کریم میں فاحشہ اور فواحش کو عام طور سے بد ترین گنا ہوں من جملہ زنا ،لواط یا پاکدامن عورتوں کی جانب بری نسبت دینے وغیرہ میں استعمال کیا گیا ہے ۔

لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بعض ایسے اعمال ہیں جن میں ان گناہوں کی تھوڑی سی برائیاں پائی جاتی ہے ۔اور کبھی کبھی ان اعمال یا بعض اعمال کیلئے مقدمہ بن جاتے ہیں جیسے :

۱:نامحرم کے ساتھ خلوت :

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک مرد اورعورت

یا ایک لڑکے یا لڑکی کا خلوت مثلا کسی بند کمرہ میں ہونا ،بدکاری اور خلاف عفت اعمال کے لیے ایک راستہ ہوتا ہے اس اعتبار سے اسلام میں اس کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔

    ۲:لڑکے اور لڑکیوں کی  دوستی:

اگرلڑکے کی کوئی لڑکی دوست ہو یا لڑکی کا کوئی لڑکا دوست ہو ،تو یہ آلودگی انکی بدکاری وفساد میںپڑنے کا مقدمہ اور سبب ہے کبھی کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے درمیان اچھے اور دوستانہ روابط ہیں یہ تمام باتیں  دھوکاہیں بلکہ شیطان نے ان کے سامنے گناہوں کو مزین کرکے پیش کیا ہے ۔

۴۸

اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک سکہ کے دورخ ہیں اس کا ایک رخ دوستی ،تفریح اور ایک ساتھ باتیں کرناہے اور اس کا دوسرا رخ زنا،فواحش ،اخلاقی فساد اور اسی کے ساتھ ساتھ قتل ،خود کشی اور حدو تعزیر ہے۔خدا کرے کہتمام مسلمان خصوصا  ایرانی مسلمان جوان اس بحث کا مطالعہ کرتے وقت خود کو ہوا و ہوس سے دور رکھ کر منصفانہ مطالعہ کریں اور محکم ارادہ کریں ۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے بے غیرت باپ یا ناپاک مائیں بھی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے اخلاقی فساد اور نا مشروع تعلقات کے بارے میں جانتے ہیں اور کسی بھی طرح کا خطرہ محسوس نہیں کرتے ہیں۔

    ۳ :  نا محرم کو دیکھنا :

  یہ خودبدکاری کے زمینہ کو فراہم کرتا ہے  اور دھیرے دھیرے اتنا آگے تک لے جا تا ہے کہ وہ اپنا دا من گنا ہ کبیرہ سے آلو دہ کر لیتا ہے  ۔  

ایک عرب شا عر کہتا ہے کہ

نظرة فابتسانة وسلام                        

فکلام فموعد فلقاء

ابتدا میں ایک نگا ہ اس کے بعد مسکرا ہٹ اور مسکرا ہٹ کے بعد سلام، اس کے بعد گفتگو، پھر وعدہ اور آخر میں ملا قا ت اور پھر خلا ف عفت اور مخالف تقوی عمل کو انجام دینا ۔اور اس کی حقیقت وہی ہے کہ جو فارسی زبان شاعر نے کہا ہے ۔

                برِ پنبہ آتش نباید فروخت                 

                کہ تا چشم بر ہم زنی خانہ سوخت

روئی پر آگ نہ ڈالو کہ ایک لمحہ میں گھر کو جلا کر خاک کر دے گی ۔

۴۹

۴: لڑکے اور لڑکیوں کے لئے بعض کپڑوں کا پہننا :

خود انسان یا طرف مقابل کے لئے ایسے مساعد حالات فرا ہم کرتا ہے جو فسادا ور گناہ کا سبب بنتے ہیں ۔وہ لباس جس سے ان کے بدن کے خد وخال ظاہر ہو تے ہیں  بغیرکسی شک و شبہ کے جو انو ں اور جنس مخا لف میں برا اثر چھو ڑتا ہے ۔تنگ اور چھو ٹے لبا س افکا ر شیطا نی کے ایجا د کر نے کے لئے موثر ہو تے ہیں۔ بلکہ ظا ہر و آشکا ر اور سریع و قطعی اثر رکھتے ہیں ۔کبھی کبھی ان میں سے کسی ایک منظر کو دیکھنے سے لڑکی کو بد ترین عمل کی طرف کھینچتا ہے یا لڑکے کو شرارت اور نا پا کی و بے عفتی کے کام کے لئے آمادہ کر تا ہے ۔

با ر الہا:آخر کیا ہو جائے گا کہ اگر لوگ اس طرح ہو جا ئیں کہ ضروری ،بدیہی اور مسلم امو ر کا انکار نہ کریں اور فساد وبدی اور بے عفتی و ناپا کی کی تو جیہ کرنے وا لے نہ بنیں؟

    ۵:جسمانی اتصال مثلا ہا تھ ملانا :

 اسی بنیا د پر اسلامی شریعت میں یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ جب بچے چھ سال کے ہو جائیں تو ان کے بستر الگ کر دئے جائیں ۔یہ ایک درس ہے جوہم کو ایک راز سکھا تا ہے ۔یہ احکام بتا تے ہیں کہ ان کے جسموں کا ملنا موثر ہے ۔

ممکن ہے کہ یہ باطل خیالات اورشیطانی اوہام کو ان کے  اندر بیدار کرے اور ان کی فساد وناپاکی کا سبب بنے ۔جبکہ یہ اس صو رت میں ہے کہ جب بچوں کے درمیان جسموں کا ملاپ بہن اور بھائی کے درمیان انجام پا تا ہے۔

اس اجمال کی تفصیل تک آپ خو د پہو نچ سکتے ہیں ۔

۵۰

آدم کشی سے اجتناب

        دعوت الھی کے امو ر میں سے پا نچواں امر آدم کشی اور محترم نفوس کو قتل کرنے سےاجتناب کرنا ہے ۔خدا وند عالم نے انسانوں کی جان کو محترم شما ر کیا ہے اور ان کے لئے غیر معمولی عظمت کا قائل ہے اسلام کی نظر میں کسی بھی چیز کا احترا م لو گو ں کے خون کے برا بر نہیں ہے ۔اور کو ئی بھی گناہ کسی انسا ن کے قتل سے بڑھ کر نہیں ہو تا ہے ۔اس اعتبا ر سے ہر انسان کو دوسروں کی جان کا محا فظ ہو نا چا ہئے اور یہ بات خود اپنے آپ کو سمجھا ئے کہ جس طرح ہم اپنی جان کو عزیز رکھتے ہیں اور اس کی حفا ظت کی کو شش کر تے ہیں۔تو دوسروں کی جان کو بھی اپنی جان کی طرح عزیز  رکھیں ۔لہذا ہم کو ان کی حفا ظت و  نگہداشت کا بھی اہتمام کرنا چا ہئے کہ خدا وند عا لم نے ان کو بہت زیادہ محترم شما ر کیا ہے ۔

قرآن مجید کی آیت میں اسے :حرم اللہ :کے عنوان سے پیش  کیا گیا ہے ۔در حا لیکہ اس کو :حرم الاسلام :یا :حرم اللہ فی الاسلام :کے نا م سے یا د کرنا چا ہئے تھا۔شاید اس تعبیر کا را ز یہ ہو کہ :خو ن انسا ن کی حر مت فقط شریعت اسلام میں  منحصر نہیں ہے بلکہ تما م ادیا ن میں اس اعتبا ر سے کہ لو گو ں کے خو ن کی حفا ظت کرنا چا ہئے اور کو ئی خدشہ مسلما نو ں کی جا ن میں ایحا د نہ کرے :متفق ہیں اور تمام انبیا ء ،پیمبرا ن الہی اور تمام آسمانی  مذا ہب اور شریعتیں اس اعتبا ر سے متفق ہیں ۔

        قر آن کریم   میں موضوع قتل بہت ہی شدت کےساتھ بیان کیا گیا ہے اور اسکی تعبیرات کی سختی اور عظمت میں دوسرے گناہوں کی بنسبت واضح اور آشکار ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے ،

(وَ مَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خالِداً فيها وَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ لَعَنَهُ وَ أَعَدَّ لَهُ عَذاباً عَظيماً) (93)(1)

--------------

(1):- سورہ نساء ،آیۃ ۹۳

۵۱

 اورجو بھی کسی مومن کو قتل کرے گا اسکی جزا جہنم ہے ۔اور اسی میں ہمیشہ رہنا ہے اور اس پر خدا کا غضب ہے  اور خدا لعنت بھی کرتا ہے اور اس نے اسکے لئے عذاب عظیم بھی مہیہ کر رکھا ہے ۔اس آیئہ کریمہ میں قاتل کیلئے پانچ انجام بتائے گئے ہیں ۔

۱:اسکی سزا دوزخ ہے ۔

۲: ہمیشہ دوزخ میں رہے گا ۔

۳: خدا اس پر غصب کریگا ۔

۴: اس پر خدا کی لعنت ہے ۔

۵: خدا وند عالم نے اسکے لئے عذاب عظیم مہیاکر رکھا ہے ۔

اور یہ بھی فرماتا ہے ۔

(مِنْ أَجْلِ ذلِكَ كَتَبْنا عَلى‏ بَني‏ إِسْرائيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّما قَتَلَ النَّاسَ جَميعاً وَ مَنْ أَحْياها فَكَأَنَّما أَحْيَا النَّاسَ جَميعا ) (۳۲)(1)

اسی بنیاد پر ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جو شخص کسی نفس کو کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کے علاوہ قتل کر ڈالے گا ۔اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے ایک نفس کو زندگی دیدی اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دیدی۔

اس آیئہ کریمہ میں ایک انسان کو قتل کرنا تمام انسانیت کو قتل کرنے کے برابر قرار دیا گیا ہے اور  ایک انسان کو نجات دینا تمام انسانوں کو نجات دینے کے برابر ہے۔

--------------

(1):- سورہ مائدہ،آیۃ ۳۲

۵۲