امامیہ اردو ریڈر درجہ دوم جلد ۲

امامیہ اردو ریڈر درجہ دوم0%

امامیہ اردو ریڈر درجہ دوم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 52

امامیہ اردو ریڈر درجہ دوم

مؤلف: تنظیم المکاتب
زمرہ جات:

صفحے: 52
مشاہدے: 37609
ڈاؤنلوڈ: 3288


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 52 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 37609 / ڈاؤنلوڈ: 3288
سائز سائز سائز
امامیہ اردو ریڈر درجہ دوم

امامیہ اردو ریڈر درجہ دوم جلد 2

مؤلف:
اردو

جادو

سبق [ ۱۲]

تم نے اکثر مداریوں کو جادو کرتے دیکھا ہوگا یہ لوگ اپنے ہاتھ کی صفائی سے آدمی کو ایسا دھوکہ دیتے ہیں کہ اسے پتہ تک نہیں چلتا۔ چیز ہوتی کچھ ہے اور دکھائی کچھ اور دیتی ہے کبھی کبھی یہ کرتب ایسی دواؤں سے دکھلایا جاتا ہے جن کو بہت سے آدمی نہیں جانتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس نے بہت بڑا کام کر دیا حالا نکہ وہ کوئی خاص بات نہیں ہوتی۔ جادوگر دوا ڈال کر پانی کو جما دیتا ہے اور دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ وہ چاندی کو پگھلا دیتا ہے اور دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ کوئی بڑا کام ہو گیا۔ ایسا ہی ایک آدمی امام جعفر صادق کے زمانے میں پیدا ہو گیا تھا وہ مٹی کو خاص طریقہ پر سڑا کر رکھ دیتا تھا اور اس میں سے بچھّو نکل آتے تھے۔ لوگ پریشان تھے وہ اپنے کو خدا منوانا چاہتا تھا۔ کسی سے کچھ بن نہ پڑی۔ بادشاہ وقت بھی پریشان تھا۔ آخر میں امام جعفر صادق کو دعوت دی گئی آپ تشریف لے آئے، اس نے آپ کے سامنے بھی اسی طرح بناکر دکھایا۔ آپ نے فرمایا کہ انہیں تو نے پیدا کیا ہے۔ اس نے اکڑ کر کہا جی ہاں۔ فرمایا اچھا اب یہ بتا دے کہ تو نے ان میں سے کتنوں کو نر بنایا اور کتنوں کو مادہ۔ وہ یہ سن کر گھبرا گیا اور حیرت سے منھ دیکھنے لگا۔ آپ نے ایک مرتبہ بچھوؤں کی طرف اشارہ کیا ان میں سے نر الگ ہو گئے اور مادہ الگ۔ آپ نے فرمایا اب اگر تو چاہے تو ہر ایک کا وزن بھی بتا دوں دیکھو خدا نے ہم کو اتنی طاقت دی ہے لیکن ہم اس کی عبادت کرتے ہیں تیری طرح خدائی کا دعویٰ نہیں کرتے۔

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

مداری ۔ کرتب ۔ دنگ ۔ رہ جانا ۔ نر ۔ مادہ ۔ حیرت ۔ وزن ۔ طاقت ۔ خدائی ۔ اکثر ۔ بن نہ پڑی ۔ دعوٰ ی۔ عبادت۔

سوالات

١۔ جادوگر کیا کرتے ہیں ؟

٢۔ امام جعفر صادق نے جادوگر کو کیوں جواب دیا ؟

٣۔ عبادت کس کی کرنی چائیے ؟

۲۱

حضرت سلمان

سبق [ ۱۳]

حضرت سلمان ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے تھے جس کو دین اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا، آپ سن میں رسول اللّٰہ سے بہت بڑے تھے جب رسول اللّٰہ پیدا ہوئے اور آپ نے چالیس سال کی عمر میں اپنے رسول سونے کا اعلان کیا لوگوں کو خدا کی طرف بلایا تو حضرت سلمان کو یہ خبر سن کر آپ سے ملنے کا شوق پیدا ہوا، گھر بار چھوڑ کر نکل پڑے، جنگل اور بیابانوں کی خاک چھانتے ہوئے مکہ پہنچے اور حضرت رسولِ اکرم کے اصحاب میں داخل ہو گئے۔ اصحاب ان مسلمانوں کو کہا جاتا ہے جو رسول خدا کے پاس اٹھتے بھیٹھتے تھے ان میں دو طرح کے لوگ تھے کچھ تو دل سے مسلمان ہوئے تھے اور کچھ صرف دکھانے کے لیے رسول اللّٰہ کے پاس آتے تھے اور اندر اندر کافروں سے ملے رہتے تھے حضرت سلمان ان خالص مسلمانوں میں سے تھے جنہوں نے دل سے اسلام قبول کیا تھا، آپ ہمیشہ رسول اکرم کے ساتھ رہتے تھے ان کے احکام پر عمل کرتے تھے، حضرت علی کو اپنا آقا و مولا سمجھتے تھے، ان کے دشمنوں سے نفرت کرتے تھے۔ مزاج میں اتنی سادگی تھی کہ ایک مرتبہ آپ نے حضرت ابوذر کی دعوت کی تو خالی روٹی لا کر رکھ دی۔ ابوذر نے کہا بھائی سلمان کیا اس کے ساتھ نمک ہے۔ جناب سلمان نے کہا کہ جو کچھ مل جائے اسے شکر خدا کر کے کھا لینا چاہیے لیکن اگر تم نمک چاہتے ہی ہو تو میں ابھی لے کر آتا ہوں یہ کہ کر بازار میں گئے اپنا مٹی کا لوٹا گروی رکھا اور نمک لے کر چلے آئے۔

مدائن عراق کا ایک آہر ہے ایک مرتبہ حضرت سلمان کو وہاں گورنر بنا کر بھیجا گیا تو آپ کے پاس ایک چٹائی تھی اور ایک مٹی کا لوٹا اس کے علاوہ دنیا کی کوئی چیز نہیں تھی۔ لوگوں نے جب ایسے گورنر کو دیکھا تو ہنسنا شروع کیا۔ جناب سلمان نے ان پر ظاہر کر دیا کہ جب میرے مولا آقا حضرت علی دونوں جہاں کی بادشاہی میں اتنے ہی پر گزر کرتے ہیں تو مجھے اس سے زیادہ کا کیا حق پہنچتا ہے۔

۲۲

آپ کا درجہ اصحاب میں اتنا بلند تھا کہ رسول اللّٰہ نے انہیں اپنے گھر والوں میں شمار کر لیا تھا اور فرمایا تھا کہ ایمان کے دس درجہ ہیں اور سلمان دسویں درجہ پر فائز ہیں۔

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

اصحاب ۔ گورنر ۔ ایمان ۔ سادگی ۔ فائز ۔ خاک چھاننا ۔ گرو رکھنا ۔ بیابان ۔ شمار ۔ سِن ۔

سوالات

۱ ۔ حضرت سلمان کون تھے ؟ کہاں پیدا ہوئے تھے ؟

۲ ۔ حضرت سلمان کی سادگی کا کیا عالم تھا ؟

۳ ۔ حضرت سلمان سادہ زندگی کیوں کزارتے تھے ؟

۴ ٤۔ حضرت سلمان کا درجہ کیا تھا ؟

۵ ٥۔ حضرت سلمان کا کوئی واقعہ بیان کرو ؟

۲۳

غدیر خم

سبق [١٤]

فتح مکہ کے بعد پہلا حج حضرت رسول اکرم کا آخری حج ہے جو ذی الحجہ١٠ ھ میں ہوا تھا وہ اک خاص درجہ رکھتا ہے۔ یہ وہ حج ہے جس میں آپ کے ساتھ حج کرنے والے مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ مکہ میں حج کے اعمال ادا کرنے کے بعد آپ مدینہ کی طرف واپس چلے اصحاب آپ کے ساتھ تھے، جب یہ قافلہ مقام '' غدیر خم '' پر پہنچا تو حضرت جبرئیل پروردگار عالم کی طرف سے یہ پیغام لائے کہ اے رسول جو بات ہم آپ کو بتا چکے ہیں اب اس کا اعلان کر دیجئے۔ آپ نے جبرئیل سے کہا کہ میری قوم اس بات کو نہ مانےگی اور اس میں مجھے خطرہ معلوم ہوتا ہے۔ جبرئیل واپس گئے اور دوبارہ پیغام لائے کہ آپ اعلان کر دیجئے پروردگار آپ کو لوگوں کے شر سے بچائےگا۔ یہ سننے کے بعد آپ نے اونٹوں کے کجادوں کا منبر بنوایا۔ سارے مجمع کو دوپہر کے وقت کھلے میدان میں روکا، جو آگے بڑھ گئے تھے انھیں پیچھے بلایا جو پیچھے رہ گئے تھے ان کا انتظار کیا اور جب سوا لاکھ مسلمانوں کا مجمع اکٹھا ہو گیا تو آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں یہ بتایا کہ میں عنقریب دنیا سے جانا والا ہوں اس کے بعد آپ نے پوچھا تم لوگ مجھے اپنا حاکم سمجھتے ہو یا نہیں ؟ سب نے ایک ساتھ کہا ۔ جی ہاں آپ نے فرمایا اچھا جس کا میں حاکم ہوں اس کے علی بھی حاکم ہیں۔ یہ کہتے ہوئے علی کو دونوں ہاتھوں سے اٹھا لیا اور اتنا اٹھایا کہ خود پیچھے چھپ گئے۔ مطلب یہ تھا کہ جب میں تمھارے سامنے نہ ہوں تو یہ علی رہیں گے۔ یہ کہ کر منبر سے اتر آئے اور مجمع کو حکم دیا کہ سب اگر علی کے ہاتھ پر بیعت کریں اور انہیں اس عہدہ کی مبارکباد دیں۔ یہ سننا تھا کہ سارا مجمع مبارکباد کے لئے ٹوٹ پڑا سب سے پہلے بعض نمایاں لوگوں نے مبارکباد دی اور کہا یا علی مبارک ہو مبارک ہو آپ میرے اور ہر مومن مرد و عورت کے حاکم ہو گئے۔

۲۴

یہ واقعہ ذی الحجہ کی اٹھارویں تاریخ کا ہے اسی لئے ہم لوگ اس تاریخ کو جشن مناتے ہیں۔ محفلیں کرتے ہیں، نئے کپڑے پہنتے ہیں، عطر لگاتے ہیں، مولا کی ولایت پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں، غدیر کی نماز پڑھتے ہیں اور اس کے اعمال بجا لاتے ہیں۔ جن لوگوں نے رسول اکرم کے اس اعلان کو بھلا دیا ہے اور آپ کے انتقال کے بعد حضرت علی کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں کو اپنا حاکم اور بادشاہ بنایا ہے وہ اس دن خوشی نہیں منا سکتے ہیں۔

غدیر ہی کا موقع وہ تھا جب حضرت علی کی خلافت کا اعلان پر آیت اتری تھی آج دین کامل ہو گیا، نعمتیں تمام ہو گئیں اور اللّٰہ دین اسلام سے راضی ہو گیا۔

ہم کو اس خوشی کے موقع پر اللّٰہ کا شکر ادا کرنا چاہئیے۔ اس کی عبادت کرنا چاہئے اور حضرت علی کےحکم کے مطابق زندگی بسر کرنے کا عہد کرنا چاہئیے۔

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

غدیر ۔ خلافت ۔ ولایت ۔ حاکم ۔ اعلان ۔ محفل ۔ عطر ۔ انتقال ۔ قافلہ ۔ کجاوہ ۔ بیعت ۔ عام ۔ شر ۔ خطبہ۔

سوالات

١۔ غدیر کا واقعہ کیا ہے ؟

٢۔ نو روز کی خوشی کیوں مناتے ہیں ؟

٣۔ غدیر میں رسول نے کیا اعلان کیا ؟

٤۔ غدیر میں کتنا مجمع تھا ؟

٥۔ غدیر کہاں ہے ؟

۲۵

برسات

سبق [١٥]

کیا بھیگی بھیگی رات ہے اس رات کی کیا بات ہے

برسات ہے برسات ہے

قدرت کی یہ خیرات ہے فطرت کی یہ سوغات ہے

برسات ہے برسات ہے

سبزہ ا گا غنچے کھلے کیا پھول لگتے ہیں بھلے

برسات ہے برسات ہے

نِکھرا ہوا ہے آسمان ہے دیر کے قابل سماں

برسات ہے برسات ہے

ٹھنڈی ہوا چلنے لگی دل کی کلی کھلنے لگی

برسات ہے برسات ہے

بیجان زمین میں آئی جان ہر سمت ہے پانی رواں

برسات ہے برسات ہے

پتّوں پر ہیرے جڑ لگے باغوں میں جھولے پڑ گئے

برسات ہے برسات ہے

۲۶

دیکھو تو سمزی کی لہک سونگھو تو پھولوں کی مہک

برسات ہے برسات ہے

بدلی فلک پر چھا گئی بجلی چمک کر آ گئی

برسات ہے برسات ہے

بچّو یہ کس کا ہے کرم کس کی بدولت دم بدم

برسات ہے برسات ہے

بولو تکلف بر طرف کس کی وجہ سے ہر طرف

برسات ہے برسات ہے

پانی سے آتی ہے صدا انسان پر لطف خدا

برسات ہے برسات ہے

ان الفاظ کے معنی بئان کرو :-

بھیگی رات ۔ قدرت ۔ فطرت ۔ سوغات ۔ سماں ۔ وید ۔ سمت ۔ رواں ۔ مہک ۔ فلک ۔ کرم ۔ بدولت ۔ دم بدم ۔ تکلف ۔ برطرف ۔ صدا ۔ لطف ۔

جملے پورے کرو :-

دل کی۔۔۔۔۔۔کھلنے لگی۔ باغوں میں۔۔۔۔۔۔۔پڑ گئے۔ اس رات کی کیا۔۔۔۔۔۔۔ برسات کا بڑا اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوالات

١۔ پانی کون برساتا ہے ؟

٢۔ ہم کو کس کا شکر ادا کرنا چائیے ؟

۲۷

پردہ

سبق [١٦]

جس طرح موتی کے لیے صدف، پھول کے لئے باغ، جواہرات کے لئے صندوق ضروری ہے اسی طرح عورت کے لئے پردہ ضروری ہے۔ پروردگار عالم نے مرد و عورت دونوں کے لئے الگ الگ کام رکھے ہیں۔ مرد کا کام ہے روزی روزگار کرنا۔ عورت کا کام ہے گھر کا کام دیکھنا اور جب دونوں کا کام الگ ہیں تو دونوں کی جگہ بھی الگ ہوگی۔ مرد گھر کے باہر رہ کر روزی حاصل کرےگا اور عورت گھر کے اندر رہ کر وہاں کا کام سنبھال لیگی اور اس طرح گھر کے اندر اور باہر دونوں جگہ کا حساب ٹھیک رہےگا۔ لیکن اگر عورت بھی مرد کی طرح باہر نکل کر سڑکوں پر گھومنے لگی تو گھر میں اس کا دل نہ لگےگا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ گھر کی حالت تباہ ہو جائگی۔ بچّوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ رہےگا۔ سب کام نوکروں سے لیا جائےگا اور نوکر بچّے سے وہ محبت نہ کریں گے جو ماں باپ کو ہوتی ہے تم نے دیکھا ہوگا کہ بہت سی عورتیں بچّوں کو گھر میں چھوڑ کر گھومنے نکل جاتی ہیں۔یہ بچّوں پر بہت بڑا ظلم ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا رسول اللّٰہ کی بیٹی تھیں۔ تمام دنیا کا اختیار ان کے پاس تھا لیکن انہوں نے زندگی بھر خدا اور رسول کی مرضی کے بغیر گھر سے باہر قدم نہیں نکالا، ہمارے اوپر ان کی پیروی لازم ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب عورت بغیر اپنے شوہر کی اجازت کے گھر سے باہر نکلتی ہے تو فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں اور اسی طرح اگر مرد اسے بے پردہ گھمانے لے جاتا ہے تو اس پر بھی فرشتوں کی لعنت پڑتی ہے عورت کو چائیے کہ اگر مجبوری میں گھر سے باہر کمانا بھی پڑے تو چہرے کو بند رکھے۔ تمام بدن کو چھپائے رکھے کسی غیر مرد کی نظر اس پر نہ پڑنے پائے کہ بے پردگی بہت بڑا گناہ ہے اپنی ماں، بہن، بیٹی، پھوپھی، خالہ، بیوی، نانی، دادی کے علاوہ دسری عورتوں کو دیکھانا گناہ ہے۔ یہ نہ دیکھو کہ لوگ کیا کرتے ہیں۔ یہ دیکھو کہ تمھارے اماموں نے کیا بتایا ہے۔ لوگ تو شراب بھی پیتے ہیں تو کیا خدا اور رسول کا ماننے والا بھی شراب پینے لگے۔

۲۸

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

صدف ۔ جواہرات۔ روزگار ۔ ظلم ۔ مرضی ۔ قدم ۔ پیروی ۔ فرشتے ۔ لعنت۔

ان جملوں کو پورا کرو :-

جواہرات رکھنے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔ضروری ہے۔ غیر مرد سے۔۔۔۔۔۔ ضروری ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا۔۔۔۔۔۔۔ کی بیٹی تھیں۔ ہم پر ان کی۔۔۔۔۔۔۔۔لازم ہے۔

سوالات

١۔ مرد کا کام کیا ہے ؟

٢۔ عورت کا کام کیا ہے ؟

٣۔ عورتوں کے گھومنے سے کیا نقصان ہوگا ؟

٤۔ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا کیسا ہے ؟

۲۹

حضرت سلیمان

سبق [١٧]

حضرت سلیمان اللّٰہ کے پیغمبر تھے۔ انہوں نےایک دن اللّٰہ سے دعا کی کہ خدایا مجھے ایسی بادشاہی دے دے کہ جیسی کسی اور کو نہ دی ہو۔ اللّٰہ نے ان کی دعا سُن لی اس لئے کہ نبی کی بات خدا ضرور سن لیتا ہے۔ ان کو بہت بڑی بادشاہت مل گئی۔ اتنی بڑی بادشاہت کہ جس میں آدمی، جانور، درخت، پتھر، ہوا، آگ، پانی، جنات، سب پر حکومت کرتے تھے جس کو حکم دیدیتے تھے وہ فوراً بجا لاتا، آپ کا ایک تخت تھا جس کا نام بساط سلیمانی تھا۔سیکڑوں آدمی بیٹھ جاتے تھےا ور ہوا اس کو اڑا کر لے جاتی تھی۔ ایک ایک گھنٹہ میں ایک ایک مہیںہ کا راستہ طے کرتا تھا۔ایک دن آپ نے پروردگار سے دعا کی کہ تو نے مجھے اتنا بڑا ملک دیا ہے میرا دل چاہتا ہے کہ میں تیرے احسان کا شکریہ ادا کروں ۔ احسان کا شکریہ ادا کرنا شریف آدمی کی پہچان ہے۔حکم خدا ہوا سلیمان تم میری نعمتوں کا شکریہ نہیں ادا کر سکتے ۔ حضرت سلیمان نے اصرار کیا اللّٰہ نے ان کی درخواست منظور کر لی اور کہا کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو ؟ حضرت سلیمان نے کہا کہ میں ایک روز تیری مخلوق کی دعوت کرنا چاہتا ہوں، پروردگار نے اجازت دے دی۔ جناب سلیمان نے تمام جنات کو حکم دے دیا کہ ایک میدان میں سمندر کے کنارے کھانے کا انتظام کریں۔ کئی دن تک سامان جمع ہوتا رہا۔ جب دعوت کی تاریخ آ گئی تو وقت سے پہلے ہی صبح سویرے ایک مچھلی نے سمندر سے سر نکالا اور کہا کہ اب اے نبی خدا میں بہت بھوکی ہوں آپ مجھے کھانا کھلا دیجئے جناب سلیمان نے کہا کہ ابھی دعوت کا وقت نہیں ہوا ہے وہ خاموش ہو گئی تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر بھوک کا اظہار کیا۔ جناب سلیمان نے جنات کو حکم دیا کہ اس مچھلی کو کھانا دے دیا جائے۔ انہوں نے تھوڑا سا کھانا دے دیا اس نے ایک دفعہ میں سب کھا لیا اور پھر مانگا پھر دیا گیا اس نے کھا کر پھر مانگا۔ جنات کھانا دیتے رہے اور وہ کھاتی رہی، یہاں تک کہ کل سامان کا ایک تہائی حصہ ختم ہو گیا تو جنّات نے حضرت سلیمان کو خبر کی کہ ایک مچھلی کا یہ حال ہے تو باقی اور مخلوقات کا کیا حال ہوگا۔ جناب سلیمان یہ سن کر سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے خدایا یہ تیرا ہی کام ہے تیرے سوا کوئی دنیا کو روزی نہیں دے سکتا۔

۳۰

ان الفاظ کو یاد کرو :-

جنّات ۔ بجا لانا ۔ شریف ۔ نعمت ۔ اصراف ۔ مخلوقات ۔ دعوت ۔ اجازت ۔ انتظام ۔ اظہار ۔ بساط ۔ روزی۔

جملے پورے کرو :-

حضرت سلیمان۔۔۔۔۔۔پیغمبر تھے۔ اللّٰہ نے ان کی۔۔۔۔۔ سن لی۔۔۔۔۔۔۔۔خدا ضرور سن لیتا۔ جناب سلیمان۔۔۔۔۔۔۔۔میں گر پڑے۔

سوالات

١۔ جناب سلیمان کو اللّٰہ نے کیسی بادشاہت دی تھی ؟

٢۔ بساط سلیمانی کسی کہتے ہیں ؟

٣۔ جناب سلیمان نے کیسے جانا کہ خدا کے علاوہ کوئی روزی نہیں دے سکتا ؟

٤۔ جنّات کون ہیں ؟

۳۱

ہُد ہُد

سبق [١٨]

بچّو تم نے ہُد ہُد دیکھا ہوگا۔ یہ ایک بڑا تیز اور روشن ضمیر پرندہ ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان کے زمانے میں بھی ایک ہُد ہُد تھا جو بڑی عجیب عجیب باتیں کیا کرتا تھا۔ ملک سبا عرب میں ایک ملک تھا وہاں ایک شہزادی تھی جس کا نام بلقیس تھا۔ جناب سلیمان کے پاس بلقیس کے ملک کی خبر ہُد ہُد ہی لاتا تھا۔ مشہور ہے کہ ایک دن اس نے ہنس کر حضرت سلیمان سے کہا کہ میں آپ کی دعوت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ یہ سن کر مسکرا دئے اور فرمایا کہ میں اکیلے آؤں یا کسی کو ساتھ لے آؤں۔ اس نے بڑے اطمینان سے کہا کہ میرا خیال تو یہ تھا کہ آپ کے پورے لشکر کی دعوت کروں اب آپ کا جیسا خیال ہو۔ جناب سلیمان اس پر ہنس پڑے۔ آپ نے فرمایا کہ تو میرے پورے لشکر کی دعوت کرےگا۔ اس نے کہا جی ہاں فرمایا اچھا کب دعوت ہے۔ اور کہاں انتظام کرےگا۔اس نے کہا فلاں روز سمندر کے کنارے میدان میں پورے لشکر کو لے کر آ جائیے گا وہیں سارا کھانا موجود رہےگا۔ آپ نے اس کی درخواست منظور کر لی اور وقت پر پورے لشکر کو لے کر میدان میں پہنچ گئے۔ دیکھا میدان صاف فوراً ہُد ہُد کو بلایا اور کہا کہ تو نے یہ کیا مذاق کیا ہے؟ تیرے کھانے کا انتظام کہاں ہے ؟ اس نے کہا نبی خدا یہ مذاق نہیں ہے میں نے پورا انتظام کر لیا ہے صرف وقت کی دیر ہے۔ تھوری دیر کے بعد جب وقت ہو گیا تو نے ایک ٹڈی کو پکڑ کر سمندر میں ڈال دیا اور کہا کہ خدا کے نبی بسم اللّٰہ آپ بھی کھائیں اور لشکر کو بھی کھلائیں اگر بوٹی کم بھی ہو گئی تو شوربہ بہر حال کم نہ ہوگا، جناب سلیمان یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور ہُد ہُد کی اس بات کو پسند فرمایا۔ اس لیے کہ اس نے اللّٰہ کے رزق پر بھروسہ کیا تھا۔

۳۲

بعض گنڑہ تعویز کرنے والے ہُد ہُد کو پالتے بھی ہیں اس لیے کہ اس کے سر پر تاج ہوتا ہے۔

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

روشن ضمیر ۔ ملک سبا ۔ سمندر ۔ مذاق ۔ ہڈی ۔ رزق ۔ گنڑہ ۔ تعویز ۔ تاج ۔ عجیب۔

جملے پورے کرو :-

گنڑے تعویز کرنے والے۔۔۔۔۔۔۔کو پالتے ہیں۔ ہُد ہُد کے سر پر۔۔۔۔۔۔ہوتا ہے۔ ملک سبا۔۔۔۔۔۔۔ملک میں ہے۔ ہُد ہُد نے نبی خدا سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تھا۔

سوالات

١۔ جناب سلیمان ہُد ہُد کی کس بات پر ہنسے ؟

٢۔ جناب بلقیس کون تھیں ؟

٣۔ ہُد ہُد نے شوربہ کس چیز کو بنایا تھا ؟

٤۔ روزی کا ذمہ دار کون ہے ؟

۳۳

علّامہ حلّی

سبق [١٩]

علّامہ حلّی آج سے قریب قریب سات سو برس پہلے گزرے ہیں۔ آپ اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم تھے کس بات کا جواب دینے میں ایک منٹ کی بھی دیر نہیں لگاتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک دہریہ اس زمانے کے بادشاہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں تمہارے خدا کو نہیں مانتا۔ میرا خیال یہ ہے کہ یہ دنیا خود بخود بن گئی ہے۔ اُسے کسی نے پیدا نہیں کیا اور پھر ایک دن اپنے ہی آپ بگڑ جائے گی۔ بادشاہ یہ سن کر چپ رہ گیا۔ اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اس نے بڑے بڑے عالموں کو بلایا، سب اس سے بات کرنے سے عاجز رہے آخر میں علّامہ حلّی کو بلایا گیا۔ آپ نے کہا کہ میں بات کرنے کے لیے تیار ہوں۔ دن اور وقت طے ہو گیا۔ دہریہ اپنے وقت سے پہلے پہونچ گیا لیکن علّامہ حلّی نے جان بوجھ کر دیر لگائی۔ اس نے بادشاہ کو طعنہ دیا کہ آپ کا عالم مقابلہ کرنے سے بھاگ گیا۔ بادشاہ نے کہا کہ شاید کوئی بات ہو گئی ہے وہ آئیں گے ضرور۔ تھوڑی دیر کے بعد علّامہ حلّی تشریف لائے۔ بادشاہ نے دیر کا سبب پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ میرا مکان دریا کے اس پار ہے میں جب دریا کے کنارے پہنچا تو وہاں کوئی کشتی نہ تھی۔ پریشان کھڑا ہوا تھا۔ اچانک ایک تختہ آسمان سے گرا۔ پھر اسی کے پہلو میں دوسرا تختہ گرا۔ پھر دونوں مل گئے۔ پھر چند کیلیں گریں اور آپ ہی آپ لگ گئیں۔ کشتی تیار ہو گئی میں سوار ہو گیا۔کشتی خود سے چلی اور مجھے اس نے کنارے پہنچا دیا۔ یہ تقریر سن کر سارا مجمع دنگ رہ گیا اور دہریہ نے کہا میں ان سے بحث نہ کروں گا۔ ان کا دماغ خراب ہو گیا ہے بھلا کوئی کشتی خود بخو بن سکتی ہے۔ خود سے چل سکتی ہے۔ یہ سب دیوانے پن کی باتیں ہیں۔ علّامہ نے فرمایا کیا واقعاً کشتی خود بخود سے نہیں بن سکتی ؟ دہریے نے کہا بیشک آپ نے فرمایا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ایک کشتی بغیر بنانے والے کے نہ بن سکے اور یہ پوری دنیا بغیر کسی خدا کے بن جائے۔ دہریہ یہ سن کر پریشان ہو گیا اور اپنی بات سے باز آ گیا۔

۳۴

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

عالم ۔ دہریہ ۔ خود بخود ۔ عاجز طعنہ ۔ علامہ ۔ اچانک ۔ پہلو ۔ تقریر ۔ مجمع ۔ بحث ۔ دیوانہ پن ۔ واقعاً ۔ سبب۔

جملے پورے کرو :-

اپنے وقت کے سب سے بڑے۔۔۔۔۔۔۔تھے۔ یہ دنیا۔۔۔۔۔۔۔نہیں بن گئی ہے۔ سب اس سے بات کرنے سے۔۔۔۔۔۔رہے۔ دنیا بغیر۔۔۔۔۔۔۔کے نہیں بن سکتی۔ اپنی بات سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آ گیا۔

سوالات

١۔ علّامہ حلّی کون تھے ؟

٢۔ دہریہ کسے کہتے ہیں ؟

٣۔ علّامہ حلّی نے دہریے کو کیسے جواب دیا ؟

٤۔ دنیا کو کس نے پیدا کیا ؟

۳۵

ایک دلچسپ گفتگو

سبق [٢٠]

امام جعفر صادق کے زمانے میں مسلمانوں کے ایک بہت بڑے عالم تھے جن کا نام تھا ابو حنیفہ۔ ان کا کہنا تھا کہ انسان اپنے ہر کام یں بےبس ہے جو کچھ کرتا ہے وہ خدا کرتا ہے بندے سے کوئی مطلب نہیں ہے خدا نماز پڑھواتا ہے تو بندہ نماز پڑھ لیتا ہے۔ خدا چوری کراتا ہے تو بندہ چوری کر لیتا ہے۔ امام جعفر صادق کو اس بات کی خبر ملی تو آپ نے اس کی سخت مخالفت کی اور فرمایا کہ اس طرح اللّٰہ ظالم ہو جائےگا۔ابو حنیفہ نے طے کیا کہ امام سے بحث کریں گے اور یہ سوچ کر حضرت کے مکان کی طرف چلے۔ دروازے پر پہنچ کر زنجیر کھٹکھٹائی۔ گھر سے ایک چھوٹا سا بچّہ برآمد ہوا۔ یہ تھے ہمارے ساتویں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام آپ نے فرمایا کیا کام ہے اور آپ نے کیوں زحمت فرمائی ہے۔ ابو حنیفہ نے کہا کہ اپنے والد کو بلاؤ میں اُن سے بات کروں گا۔آپ نے فرمایا کیسی بات ؟ کہا تم بچّے ہو تم سے کیا مطلب ؟ آپ نے اصرار کیا کہ بچّے اور بوڑھے سے کیا مطلب آپ بات تو بتائیں؟ ابو حنیفہ نے کہا وہ ہر آدمی کو اس کے عمل کا ذمہ دار بتاتے ہیں اور میں سب کا ذمہ دار خدا کو بتاتا ہوں اسی بات پر گفتگو کر کے اسے طے کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ان سے تو آپ کی بات چیت بعد میں ہوگی پہلے میری ایک بات کا جواب دیدیں۔ ابو حنیفہ نے کہا وہ کیا؟ آپ نے فرمایا کہ اس مسئلہ کی تین صورتیں ہیں یا تو ہر اچھائی بڑائی صرف خدا کرتا ہے۔ بندے سے کوئی تعلق نہیں ہے یا سب بندہ کرتا ہے خدا سے کوئی ذمّہ داری نہیں ہے یا دونوں مل کر برائی کرتے ہیں۔ اگر سب خدا کرتا ہے تو یہ کتنا بڑا ظالم ہے کہ برائی خود کرے اور جہنم میں ہمیں جھونک دے اور اگر دونوں مل کر برائی کرتے ہیں تو پہلے سزا خود کو دینی چائیے پھر انسان کو۔ اور جب یہ دونوں باتیں غلط ہیں تو اس کا صاف سا مطلب یہ ہے کہ بندہ اچھائی برائی کا خود ذمہ دار ہے۔ اچھائی کرےگا تو ثواب پائےگا بڑائی کرےگا تو عذاب پائےگا۔ یہ پیاری پھیاری گفتگو سن کر ابو حنیفہ کا خیال بدل گیا اور یہ کہ کر واپس ہو گئے کہ آپ صحیح کہتے ہیں اب مجھے کسی اور سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

۳۶

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

بےبس ۔ بندہ ۔ مطلب ۔ مخالف ۔ زحمت ۔ ذمہ دار ۔ تعلق ۔ ہوش۔

ان الفاظ جو جملوں میں استعمال کرو :-

عالم ۔ بےبس ۔ بات ۔ تعلق ۔ سزا ۔ ثواب ۔ عذاب۔

سوالات

١۔ ابو حنیفہ کون ؟

٢۔ ابو حنیفہ کیا کہتے تھے ؟

٣۔ آدمی اپنے کام خود کرتا ہے یا اس کے کام خدا کرتا ہے ؟

٤۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ابو حنیفہ کو کیا جواب دیا ؟

۳۷

ہمیشہ یاد رکھو

سبق [٢١]

بزرگوں کو سلام کیا کرو۔

صفائی کا خیال رکھا کرو ۔

کسی کا مذاق نہ اُڑاؤ۔

جانوروں کی طرح کھڑے ہو کر پیشاب نہ کرو۔

پیشاب کے بعد پانی سے ضرور پاک کرو۔

کھانا ہمیشہ بیٹھ کر کھاؤ۔ چلتے پھرتے کھانا کھانا جانوروں کا کام ہے۔

کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھویا کرو۔

کھانے سے پہلے بسم اللّٰہ اور کھانے کے بعد الحمد للّٰہ کہا کرو۔

کسی کی نقل نہ کیا کرو۔

کسی کا قلم دوات، پنسل، تختی یا کوئی اور چیز نہ چراؤ چوری بری بات ہے، چوری کی سزا یہ ہے کہ اس کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں۔

۳۸

جب بولو تو سوچ سمجھ کر بولو اور آہستہ بولو۔ شور نہ مچاؤ۔

سینما دیکھنا منع ہے، گانا سننا، باجا سننا، ناچ دیکھنا گناہ ہے، ایسے آدمی کی آنکھ میں قیامت کے دن لوہے کی جلتی ہوئی سلاخ ڈال دی جائےگی۔

تمھارے ماں باپ سینما جائیں تو انہیں منع کرو اور تم بھی نہ جاؤ۔

چوری چھپے کوئی برائی نہ کرو کہ اسے بھی خدا دیکھ رہا ہے۔

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :-

خیال ۔ نقل ۔ سزا ۔ منع ۔ سلاخ۔

سوالات

١۔ چوری کی سزا کیا ہے ؟

٢۔ چھپ کر اگر برائی کریں تو اس کو کون دیکھے گا ؟

٣۔ کیا خدا بھی ہماری طرح آنکھوں سے دیکھتا ہے ؟

۳۹

سچّی کہانی

سبق [٢٢]

ایک اسکول میں بہت سے لڑکے پڑھتے تھے۔ استاد ایک لڑکے کو زیادہ چاہتا تھا اسے نمبر بھی زیادہ دیتا تھا۔ ایک دن تمام لڑکوں نے مل کر استاد سے شکایت کی کہ ہم سب آپ سے پڑھتے ہیں لیکن آپ محمود کو زیادہ چاہتے ہیں۔ استاد نے کہا کہ وہ تم سے زیادہ تیز اور محنتی ہے تم سب ویسے نہیں ہو۔ لڑکوں نے یہ بات دل سے نہ مانی اور چپ ہو گئے۔استاد نے کہا کہ اگر تم لوگ چاہو تو میں سب کا امتحان کرلوں۔ لڑکوں نے کہا کہ اس سے اچھی بات کیا ہے۔ استاد نے اعلان کر دیا کہ کل امتحان ہوگا۔ سب لڑکے تیار ہو کر آ گئے۔استاد کے ہاتھ میں بہت ساری چڑیاں تھی اور بہت سی چھُریاں۔ اس نے سب کو ایک ایک چڑیا اور ایک ایک چھُری دے دی۔ کہاجاؤ ان چڑیوں کو ذبح کر کے لاؤ، لیکن دیکھو جب ذبح کرنا کوئی دیکھنے نہ پائے۔ سب لڑکے چڑیوں کو لے کر گئے اور تھوڑی دیر میں ذبح کر کے لے آئے، محمود چڑیا کو زندہ لے آیا۔ لڑکے دیکھ کر ہنسنے لگے کہ استاد اسے اتنا چاہتے ہیں اور اس نے ان کی بات پر عمل نہیں کیا۔ استاد نے ایک ایک کو بلا کر پوچھا تم نے اسے کہاں ذبح کیا۔ کسی نے کوٹھری، کسی نے تہخانہ، کسی نے بنگلہ، کسی نے کمرہ، کسی نے غسل خانہ، کسی نے کسی اور جگہ کا نام بتایا۔ اس کے بعد محمود سے سوال کیا۔ اس نے کہا کہ میں ان تمام جگہوں پر گیا لیکن ہر جگہ پر ایک دیکھنے والا موجود تھا اس لیے ذبح نہ کر سکا۔ استاد نے پوچھا وہ دیکھنے والا کون ہے۔ محمود نے کہا میرا خدا۔ بچّو دیکھا تم نے محمود کو خدا پر کتنا بھروسہ تھا کبھی چوری چھپے بھی برائی نہیں کر سکتا تھا تم بھی محمود جیسے بن جاؤ اور جب کوئی برائی کرنا چاہو تو یہ سوچ لو کہ خدا سے بھی دیکھ رہا ہے۔

۴۰