امامیہ اردو ریڈر درجہ سوم جلد ۳

امامیہ اردو ریڈر درجہ سوم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 49

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 49 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 35099 / ڈاؤنلوڈ: 3021
سائز سائز سائز
امامیہ اردو ریڈر درجہ سوم

امامیہ اردو ریڈر درجہ سوم جلد ۳

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

امامیہ اُردو ریڈر

درجہ سوم

تنظیم المکاتب

۳

ہدایت

مدرسین کا فرض ہے کہ پڑھنے میں روانی پیدا کرئیں،

تلفظ درست رہے۔

الفاظ کے معنی کھلوا کر یاد کرائیں۔

سبق کے بعد کے مشقی سوالات ضرور حل کرائیں

جا بجا قواعد سمجھا کر ان کی مشق کرائیں جائے

اُردو پڑھانے کے ساتھ املا ضرور کھلوایا جائے

اور

خوشخطی کی کاپی کھلوائی جائے۔

ناشر

۴

اے خدا

سبق ایسا پڑھا دیا تو نے

دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے

کچھ تعلق رہا نہ دنیا سے

شغل ایسا بتا دیا تو نے

بے طلب جو ملا، ملا مجھ کو

بے غرض جو دیا، دیا تو نے

کہیں مشتاق سے حجاب ہوا

کہیں پردہ اٹھا دیا تو نے

جس قدر میں نے تجھ سے خواہش کی

اس سے مجھ کو سوا دیا تو نے

داغ کو کون دینے والا تھا

جو دیا اے خدا دیا تو نے

سوالات

۱ ۔ دوسرے شعر کا مطلب بتاؤ ۔

۲ ۔ خدا نے کیسے پردہ اٹھا دیا ؟

۳ ۔ ان الفاظ کے جملے بناؤ۔ اور معنی بتاؤ۔

۔تعلق ۔ غرض ۔ طلب ۔ خواہش ۔ شغل ۔ داغ ۔ سوا ۔ حجاب۔

۵

دوسرا سبق

ماں باپ کا مرتبہ

ماں باپ کا مرتبہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ پروردگار عالم نے ان کے ساتھ اچھے برتاؤ کو واجب قرار دیا ہے۔ جو آدمی ماں باپ کے ساتھ اچھے برتاؤ نہیں کر سکتا وہ دوسروں کے ساتھ کیا برتاؤ کر سکتا ہے۔ ہم کو چاہیے کہ ماں باپ کا ادب کریں۔ ان کی آواز پر اپنی آواز نہ بلند کریں۔ حضرت رسول خدا نے حضرت علی سے ایک وصیت میں ماں باپ اور اولاد دونوں کے حق کو بیان فرمایا۔ آپ نے فرمایا، اے علی باپ پر اولاد کا حق یہ ہے کہ ان کا اچھا بھلا نام رکھے، انہیں ادب سکھائے اچھی جگہ پر رکھے۔ جو ماں باپ اپنی اولاد کو برے راستے پر لگا دیتے ہیں۔ ان پر خدا لعنت کرتا ہے۔ اور جو اپنی اولاد کو نیک راستے پر چلا دیتے ہیں ان پر رحمت نازل کرتا ہے۔ یہی حال اولا کا بھی ہے ان کو چائیے کہ ماں باپ کا نام لے کر نہ پکاریں۔ ان کے آگے نہ چلیں، ان کے برابر نہ بیٹھے، ان کو اپنے سے الگ نہ کریں۔ وہ اگر ڈانٹ بھی دیں تو خاموش رہیں۔ لیکن اگر خدا اور رسول کی مرضی کے خلاف کوئی بات کہیں تو ہرگز ہرگز ان کا کہنا نہ مانیں، اس لئے کہ خدا کا مرتبہ ماں باپ سے بھی زیادہ بلند ہے۔ایسا کام نہیں کیا جس کو وہ خدا اور رسول کےحکم کے خلاف سمجھتے تھے۔

محمد بن ابی بکر

حضرت علی کی حکومت قائم ہوئی اور اس کے خلاف ان کی بہن عائشہ نے بغاوت کی تھی۔ تو حضرت محمد ابن ابی بکر نے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ عائشہ میری بہن ہیں۔ بلکہ حضرت علی کو حق پر سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ بہن کے مقابلے پر آ گئے۔ معاویہ کو آپ کا یہ طریقہ سخت باگوار گزرا اس لئے جب حضرت علی نے آپ کو مصر کا گورنر بان کر بھیجا تو امیر شام نے آپ کو شہید کرا دیا ۔ حصرت عائشہ کو بھائی کے مرنے کی خبر ملی تو آپ بہتروئی کیو نکہ اسلام میں شہید پر رونا بدعت نہیں ہے بلکہ عبادت ہے۔

ان الفاظ کے ماعنی بتاؤ :-

واجب ۔ وصیّت ۔ لعنت ۔ رحمت ۔ بغاوت ۔ ناگوار ۔ شہید ۔ بدعت ۔ عبادت۔

سوالات

١۔ ماں باپ کا کیا حق ہے ؟ ٢۔ اولاد کا کیا فرض ہے ؟

٣۔ حضرت محمد ابن ابی بکر کون تھے اور کیوں شہید کر دئے گئے ؟

۶

تیسرا سبق

معجزہ

اہل تاریخ نے لکھا ہے یہ سچّا قصّہ

ایسا قصّہ کہ نہیں جسمیں ذرا بھی شہید

اک یہودی تھا کہ تھا جس کا مدینہ میں مکان

دشمن بانی ، اسلام عدوِ ایمان

اس کی لڑکی کی مقدر سے تھی ایک دن شادی

جمع سب دوست ہوئے بحر مبارکبادی

جو بھی محفل میں تھا وہ ایک سے ایک تھا امیر

ایسی محفل میں کہاں کوئی غریب اور فقیر

دفعتا بات یہ اس قوم کے دل میں آئی

بنت احمد کو بھی بلوائیں پئے رسوائی

یاں ہر ایک شخص کا مبوس میرا نہ تھا

اور وہاں گھر کا ہر انداز فقیرا نہ تھا

آئیں گی بنت محمد جو پھٹے کپڑوں میں

خدمت خانہ سے مٹی سے اٹے کپڑوں میں

دیکھو کہ لوگوں کو زہرا کو ندامت ہو گی

بنت پیغمبر اسلام کی ذلّت ہوگی

۷

سوچ کر دل میں کچھ لوگ چلے سوئے نبی

اور حضرت سے بصر عجز و ادب عرض یہ کی

آج تقریب سے شادی کی ہمارے گھر میں

فاطمہ آئیں تو جان آئے نئے پیکر میں

ہنس کے فرماا پیغمبر نے کہ حدیر سے کہو

تم کو لے جانا ہے زوجہ کو تو شوہر سے کہو

سن کے یہ بات وہ سب آئے قریب حیدر

اور مقصد کو رکھا پیش ولّیِ داور

گپر میں آ کر کہاں حیدر نے کہ اے بنت نبی

آج ہے ایک یہودی کے مکان میں شادی

چاہتے ہیں یہ ہودی کہ وہاں آپ بھی جائیں

انکی تقریب کی رونق کو دو بالا فرمائیں

سر جھکا کر کہاں زہرا نے کہ اے نفس رسول

آپ کے حکم میں کچھ مجھکو نہیں جائے عدد

پو جو حالت ہے میری آپ سے پوشیدہ نہیں

جسم پر میرے بخبر جامہ پوسیدہ نہیں

وعرتیں آئیں گی تقریب میں اہل زر کی

اور ہو جائیں گی تو بہن میری چادر کی

۸

ہنس کے فرمایا کہ تم حق کی ہم آواز بھی ہو

دخترِ ختم رسل صاحب ِ اعجاز بھی ہو

میری خوہش ہے کہ منظور کرو یہ دعوت

اور چاہو تو طلب کر لو لباس جنّت

تھیں یہ باتیں کہ ملک کے لیے لباس آ پہنچا

پاس زہرا کے یہ اللّٰہ کا تحفہ پہنچا

زیب تن کر کے وہ ملبوس چیں بنت نبی

آمد فاطمہ کی دھوم ہ ایک سمت مہکی

دل میں تھا سب کے کہ قسمت سے یہ موقع پایا

وقت تقدیر سے تو ہین نبی کا آیا

پر ہٹی سر سے روا جب تو یہ منظر دیکھا

نور سے فاطمہ کے گھر کو منور دیکھا

غش میں سب گر پڑے اور ہوش کسی کو نہ رہا

چھا گیا بیت عروسی میں عجب سناٹا

سب کو ہوش آیا تو کچھ فکر دلھن کی بھی ہوئی

دی جو جنبش تو کھلا یہ کہ وہ دنیا سے گئی

دیکھ کر یہ ہوا ایک نال و سیون برپا

گھر عورسی کا بنا لمحوں میں ماتم خانہ

گر پڑی بنت نبی سجدے میں اور عرض یہ کی

اے خدا فاطمہ کی ہوگی بڑی بدنامی

۹

لوگ مشہور کریں گے کہ یہ ہیں سبز قدم

ان کے آنے سے ہوا آج خؤشی میں ماتم

ہے دعا میری کہ دے اس کو حیات تازہ

تاکہ ہو منزلِ زہرا کا نہیں اندازہ

اس طرف باب اجابت سے دعا ٹکرائی

اس طرف جسم میں مرسے کے نبی جاب آئی

ہر زبان پر ہو اسلام کا کلمہ جاری

عورتیں بولیں کہ ہم بنت نبی کے واری

پڑ اثر کتنی تھی یہ بنت پیغمبر کی دعا

مردہ زندہ ہوا ہے صل علی صل علی

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :-

معجزہ ۔ عجز ۔ پۓ رسوائی ۔ دفعتّہ ۔ ندامت ۔ سوئے نبی ۔ پیکر ۔ دوبالا ۔ عرول ۔ بخبر ۔ بوسیدہ ۔ تقریب ۔ اہل زر ۔ دختر ۔ اعجاز ۔ زیب تن ۔ ملبوس ۔ بھتِ عروسی ۔ جنبش ۔ نالہ وشیون ۔ سبز قدم ۔ باب ۔ اجابت ۔ پراثر ۔ شل علیٰ ۔ حیات ۔ نفس رسول ۔ ولیِ داور ۔ دختر ۔ ختم رسل ۔ واری ۔

سوالات

۱۔ اس معجزہ کو اپنی زبان میں بیان کرو ۔

۲۔ جناب فاطمہ کو شادی میں بلانے سے لوگوں کا کیا مقصد تھا ؟

۳۔ جناب فاطمہ کی دعا سے دلہن کے زندہ ہونے کا کیا اثر ہوا ؟

۱۰

چوتھا سبق

سائنس

اس دنیا میں ایک ایسا زمانہ گزرا ہے، جب مرض تھے دوا نہ تھی تکلیف تھی اور آرام کا سہارانہ تھا، مشکلیں تھی اور ان کا کوئی حل نہ تھا، گھوڑے گدھے کی سواری تھی ہاتھ کا پنکھا تھا، سردی کے لئے آگ تھی، روشنی کے لئے شمع اور لالٹین تھی۔ ایک دوسرے تک دور کی آواز پہنچانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا، لوگ بات کرتے تھے اور بات ہوا میں اڑ جاتی تھی، آئینہ میں تصویر دکھائی دیتی تھی اور آئینہ کے ہٹتے ہی مٹ جاتی تھی لوگ بات کرنے میں قریب ہونے کے محتاج تھے۔ اور آج کا زمانہ ایسا ہے جب چلنے کے لئے موٹر اور ریل ہے اڑنے کے لئے ہوائی جہاز اور راکٹ ہے، گرمی کے لئے بجلی کا پنکھا اور کولر ہے، سردی کے لئے ایرکنڈیشنر اور ہیٹر ہے، روشنی کے لئے بلب اور ٹیوب ہیں، آواز پہنچانے کے لئے ریڈیو اور لاؤڈ اسپیکر ہے۔ بات محفوظ کرنے کے لئے ٹیپ ریکارڈ ہے، تصویروں کو باقی رکھنے کے لئے کیمرہ ہے، بات کرنے کے لئے ٹیلیفون ہے، زمین سے آسمان تک جانے کے ذرائع موجود ہیں۔ لیکن کیا تم نے کبھی یہ بھی سوچا کہ ایسا کیوں ہو گیا ؟ یاد رکھو یہ سب سائنس کے کے کرشمے ہیں، انسان کے دماغ نے پوری دنیا کو چھان ڈالا ہے، پانی کا دل اور پتھر کا سینہ چاک کر کے بجلی کی طاقت نکال لی ہے، سائنس نے آدمی کو بہت آرام پہنچایا ہے، اس سے دنیا کو بہت فائدہ پہنچا ہے۔ لیکن یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ سائنس والوں نے چیزوں سے قوت نکالی ہے۔ قوت پیدا نہیں کی۔ قوتقں کا پیدا کرنے والا کوئی اور ہے۔ اور وہ ہے خدا۔ خدا نے یہ دنیا نہ بنائی ہوتی، اس میں یہ طاقتیں نہ رکھی ہوتیں، انسان کو دماغ نہ دیا ہوتا۔ دماغ میں صلاحت نہ پیدا کی ہوتی صلاحتوں کے لئے حالات سازگار نہ کئے ہوتے تو آج یہ سب کچھ کہاں سے ہوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کی ترقی پروردگار کی دین، ہے جس کے لئے اس کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے، ہ بھی اللّٰہ کی بیشمار نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اس کی ان نعمتوں کا شکریہ ادا کریں۔ اسکے احکام پر عمل کریں اور اسکی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کریں۔

۱۱

پانچواں سبق

ہمدردی

عزیزوں اور محتاجوں کی ہمدردی ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان کی انسانیت کو پہچانا جاتا ہے، آج کے زمانے میں آپس کی ہمدردی اس قدر رکم ہو گئی ہے کہ ضعیفی میں بیٹا باپ کے کام نہیں آتا، مفلسی میں بھائی سے دور بھاگتا ہے اور جب اتنے قریب کے رشتوں میں ہمدردی نہیں پائی جاتی تو دوسروں کے ساتھ ہمدردی کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔

دین اسلام نے انسان کو ہر قسم کی ہمدردی کا سبق دیا ہے اور ہمارے لئے امام جعفر صادق نے بھی فرمایا ہے کہ ہمارے شیعوں کو دو باتوں کے ذریعہ پہچانو۔ نماز کے اوقات کی پابندی اور آپس کی مالی ہمدردی۔ لیکن ہمارا یہ عالم ہے کہ سڑک پر کسی فقیر، غریب، ناچار دیکھتے ہیں تو اس کی طرف نظر کرنا بھی عیب سمجھتے ہیں۔ ہمارا سر جھکتا ہی نہیں کہ اپنے سے مکتر لوگوں پر نظر پڑ سکے۔ حالانکہ ہمارے مولا و آقا حضرت علیٰ اور ان کے دونوں فرزند حضرت امام حسین و امام حسن کا طریقہ کچھ اور ہی تھا، مشہور واقعہ ہے کہ جب حضرت علیٰ کی شہادت ہو گئی اور امام حسن و حسین باپ کے جنازے کو کوفہ سے باہر نجف میں دفن کر کے واپس ہوئے تو راستے میں ایک کھنڈر سے کسی کے کراہنے کی آواز سنی۔ آج کے شہزادے ہوتے تو مڑ کر نظر بھی نہ کرتے، لیکن دونوں حضرات امام تھے اور امام کے شہزادے۔ وہ اپنا غم بھول گئے اور کھنڈر کی طرف چل پڑے، قریب جا کر دیکھا تو کیا دیکھا کہ ایک اندھا بیکس و ناچار پڑا ہوا ہے، پو چھا بھائی تیرا کیا حال ہے اس نے کہا کیا پوچھتے ہو ایک بندہ خدا برابر مجھے روزی پہونچایا کرتا تھا۔ آج یین دن ہو گئے کہ نہیں آیا ہے۔ بھوک سے بے دم ہو رہا ہوں۔ آپ نے پوچھا کہ اس بندہ خدا کا نام کیا تھا اس نے کہا کہ اس نے نام نہیں بتایا اور جب میں پچھتا تھا تو یہی کہتا تھا کہ ایک فقیر فقیر کے پاس بیٹھا ہوا ہے۔ایک غریب غریب کے پہلو میں بیٹھا ہے۔ یہ سننا تھا کہ دنوں شہزادے رونے لگے اور فرمایا کہ اے بندہ خدا وہ ہمارے باپ حضرت علیٰ بن ابی طالب تھے آج تین دن ہو ئے کہ مسجد کوفہ میں سجدہ کی حالت میں ان کے سر پر تلوار لگائی گئی اور آج ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ ہم انہیں کے جنازے کو دفن کر کے آرہے ہیں۔ نابینا آدمی سر پیٹنے لگا اور کہنے لگا کہ ذرا مجھے بھی اپنے باپ کی قبر پر لے چلو، یہ سن کر دونوں شہزادے اس نابینا کو امام کی قبر تک لے آئے اور وہ وہیں روتے روتے مر گیا۔

۱۲

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :-

ضعیفی ، مفلسی، ہمدردی، پابندی، ناچار، شہزارے، جنازہ، نابینا۔

سوالات

۱۔ ہمدردی کے بارے میں امام حضرت صادق کا کیا ارشاد ہے ؟

۲۔ تم میں شیعوں کی نشانی پائی جاتی ہے یا نہیں ؟

۳۔ جناب امیر نابینا کے ساتھ برتاؤ کیا کرتے تھے ؟

٤ ۴ ۔ امام حسن و امام حسین نے کیا برتاؤ کیا ؟

٥ ۵ ۔ تم نے اپنے امام کے طریقہ پر عمل کیا یا نہیں ؟

۱۳

چھٹا سبق

ہم حیدری ہیں حیدری

ہم دین کے ہیں لشکری ہم سے ہے شان صفدری

ہے کیا شکوہ قیصری ڈرتے ہیں ہم سے خیبری

ہم حیدری ہیں حیدری

ہم حیدری ہیں حیدری

شیوہ ہے اپنا دلبری طرہ ہے اپنا افسری

ہے دین اپنا داوری مذہب ہے اپنا جعفری

ہم حیدری ہیں حیدری

ہم حیدری ہیں حیدری

ہم صاحبِ ایمان ہیں ہم حامل قرآن ہیں

ہم تابع سلمان ہیں ہم اصل میں انسان ہیں

ہم حیدری ہیں حیدری

ہم حیدری ہیں حیدری

طاعت میں سر دھرتے ہیں ہم میداں کو سر کرتے ہیں ہم

باطل سے کب ڈرتے ہیں ہم حق بات پہ مرتے ہیں ہم

ہم حیدری ہیں حیدری

ہم حیدری ہیں حیدری

۱۴

شان نمازی ہم میں ہے رعبِ حجازی ہم میں ہے

کردار سازی ہم میں ہے انداز غازی ہم میں ہے

ہم حیدری ہیں حیدری

ہم حیدری ہیں حیدری

سلمان میر کا رواں مقداد ہے اپنا نشاں

عمار ہے اپنی زباں بوذر ہے اپنا تر جماں

ہم حیدری ہیں حیدری

ہم حیدری ہیں حیدری

محراب کے ساجد ہیں ہم شام و سحر عابد ہیں ہم

ہر حال میں زاہد ہیں ہم ہر رنگ میں واحد ہیں ہم

ہم حیدری ہیں حیدری

ہم حیدری ہیں حیدری

ہم مرد ہیں جرار ہیں ہم قوم کے سردار ہیں

ہم صاحب کردار ہیں ہم تابع کرار ہیں

ہم حیدری ہیں حیدری

ہم حیدری ہیں حیدری

ان الفاظ کے معنی یاد کرو :

لشکری ۔ شان ۔ صفدری ۔ شکوہ ۔ قیصر ۔ خیبر ۔ حیدری ۔ شیوہ ۔ دلبری ۔ طرہ ۔ افسری ۔ داوری ۔ جعفری ۔ صاحب ایمان ۔ حامل ۔ تابع ۔ سلمان ۔ طاعت ۔ سکر کرنا ۔ باطل ۔ رعب ۔ حجاز ۔ کردارسازی ۔ غازی ۔ میرکارواں ۔ مقداد ۔ عمار ۔ ابوزر ۔ ترجمان ۔ محراب ۔ ساجد ۔ سحر ۔ عابد ۔ زاہد ۔ واحد ۔ جرار ۔ کرار ۔ کردار۔

۱۵

ساتواں سبق

تقّیہ

حامد اور محمود دونوں رات کو آٹھ بجے سیدھے راستے سے گھر جا رہے تھے۔ چلتے چلتے اندیھرے میں ایک چمک دار چیز دکھائی دی۔ حامد ہمّت کر کے آگے بڑھ گیا، کیا دیکھتا ہے کہ ایک سانپ ہے جو پھن کاڑھے ہوئے کھڑا، حامد ایک چیخ کے ساتھ واپس ہوا اور اس نے محمود سے کہا کہ میں تو اسی راستے سے جاؤں گا۔ میری امّی نے بتایا ہے کہ ہمیشہ سیدھے راستے سے چلا کرو۔ ٹیڑھے راستے سے چلنا برے لڑکوں کا کام ہے۔

حامد نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو اور تمہاری امّی نے بھی ٹھیک کہا ہے ، میری امّی نے بھی مجھے یہی سکھایا تھا لیکن بھائی اس وقت راستے میں سانپ ہے اس وقت کیسے جایا جا سکتا ہے۔ محمود نے کہا سانپ سے کیا ہوتا ہے حامد نے جواب دیا وہ ہم دونوں کو ڈس لے گا۔ اور ہم لوگ مر جائیں گے۔

محمود بولا، چاہے جان چلی جائے لیکن میں سیدھے راستے کو نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ میرے بزرگوں کی تعلیم ہے میں اسے ترک نہیں کر سکتا۔ حامد نے کہا میاں یہ بیوقوفی ہے اسے فرماں برداری نہیں کہتے۔ دیکھو انسان کی زندگی میں کبھی کبھی ایسے حالات آ جاتے ہیں جب اسے سیدھے راستہ چھوڑ کر تھوڑی دیر کے لئے ٹیڑے راستے پر آنا پڑتا ہے اور جان بچانے کے لئے اسے عیب نہیں کہا جاتا بلکہ اسی کو عقلمندی کہا جاتا ہے۔ جان ہے تو جہان ہے۔ زندہ رہیں گے تو ہمیشہ سیدھے راستے پر چلیں گے اور آج ہی مر گئے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سیدھے راستے سے محروم ہو جائیں گے۔

محمود کو یہ بات بہت پسند آئی۔ اس نے کہا کہ بات تو تم ٹھیک کہتے ہو لیکن کہیں یہ بات خدا کو بڑی نہ لگ جائے۔ حامد نے کہا ہرگز بری نہیں لگے گی کیا تم نے یہ نہیں سنا کہ ہمارے رسول کے ایک صحابی حضرت عمار یاسر کو مکہ کے کافروں نے گھیر کر ان سے رسول کے ءلاف کچھ الفاظ کہلوائے تو وہ روتے ہوئے حضور کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں تو مر گیا۔ میری زبان سے حضور کے خلاف الفاظ نکل گئے۔ تو قرآن شریف کی آیت نازل ہوئی کہ مجبوری میں سیدھے راستے کو چھوڑ دینے والے پر کوئی عذاب نہیں ہو سکتا۔ بشرطیکہ اس کے دل میں یہ رہے کہ مجبوری کے ہٹتے ہی پھر سیدھے راستے کو اختیار کر لے گا۔

۱۶

محمود کے دل میں یہ بات لگ گئی اور اس نے خوش ہو کت پوچھا۔بھائی حامد ہمرے دین اسلام میں اسے کیا کہتے ہیں حامد نے جواب دیا۔تقیّہ

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :

چمکدار ۔ ہمیشاہ ۔ بزرگ ۔ تعلیم ۔ ترک ۔ فرماں برداری ۔ عیب ۔ عقلمندی ۔ عذاب ۔ اختیار ۔ تقیّہ۔

سوالات

۱۔ حامد محمود نے راستہ کیوں بدل دیا ؟

۲۔ سیدھے راستے کو کب چھوڑا جا سکتا ہے ؟

۳۔ محمود نے حامد کی بات کیوں مان لی ؟

٤ ۴ ۔ حضرت عمار کا واقع کیا ہے ؟

٥ ۵ ۔ مجبوری میں راستہ بدل دینے کا شریعت میں کیا ہے ؟

۱۷

آٹھواں سبق

جہاد

رسول اللّٰہ سے پہلے عرب میں لڑائیاں بہت ہوتی تھیں ان کی فطرت می لڑنے کا جذبہ پوشیدہ تھا وہ بات بات پر تلوار اٹھا لیا کرتے تھے اور پھر مدتوں لڑا کرتے تھے۔ ایک ایک اونٹ اور ایک ایک گھوڑے پر چالیس چالیس سال جنگ ہوا کرتی تھیں۔ عرب اپنی اس حالت پر بے حد خوش تھے اور اسے بہت بڑی بہادوری سمجھتے تھے۔ رسول اللّٰہ نے جب دین اسلام کو پھیلایا تو اس میں یہ بھی بتا دیا کہ بات بات پر لڑنا بہادری نہیں ہے بلکہ درنگی ہے۔ یہ بہت بڑی بزولی ہے کہ آدمی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے۔ اور ایک جانور کے لئے اتنے دنوں تک آدمیوں کا خون بہاتا رہے جب کہ آدمی کی قدر و قیمت جانور سے کہیں زیادہ ہے اسی لئے آپ نے جنگ کی جگہ پر جہاد کو رکھا۔ اور جہاد میں کسی معصوم کی اجازت کو ضروری قرار دے دیا تاکہ لڑائی میں خوش کے ساتھ ہوش بھی باقی رہے۔ رسول اکرم نے یہ بھی فرمایا کہ سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہ دی جائے۔ اور اس کی بادشاہت کی کوئی پرواہ نہ کی جائے۔ آپ کا یہ فرمان آپ کے مخصوص اصحاب نے اپنا لیا۔ انہیں اصحاب میں سے ایک جناب ابوذر بھی تھے۔ یہ حضرت علیٰ کی خاص چاہنے والں میں تھے۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ حکومت مسلمانوں کا مال لوٹ لوٹ کر جمع کر رہے ہیں تو بڑی بہادری کے ساتھ دربار میں پہونچ گئے صاف لفظوں سے یہ خدائی اعلان سنایا کہ جو لوگ اس طرح سے سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اس راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے ان پر قیامت کے دن سخت عذاب ہو گا۔ اسی تقریر کا اثر تھا کہ حکومت نے آپ کو بڑی خراب جگہ یعنی زندہ بھجوا دیا اور آپ وہن مسافرت کے عالم میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :-

فطرت ۔ جذبہ ۔ پوشیدہ ۔ معصوم ۔ جوش ۔ ہوش ۔ مخصوص ۔ جہاد ۔ عزاب ۔ مسافرت ۔

سوالات

١۔ جہاد کسے کہتے ہیں اور اس میں کیا شرط ہے ؟

٢۔ حضرت ابوذر نے کون سا جہاد کیا تھا ؟

٣۔ ظالم کے دربار میں حضرت ابوذر نے کون سا خدائی اعلان سنایا تھا ؟

۱۸

نواں سبق

بیمار پُرسی

مکہ میں ایک بُڑھیا رہتی تھی، یہ بُڑھیا اللّٰہ کے رسول حضرت محمد مصطفےٰ کی بڑی دشمن تھی۔ جب آپ اس کے گھر کے پاس سے گزرتے تھے تو وہ گھر کا سارا کوڑا کرکٹ آپ پر پھینک دیتی تھی۔ آپ چپ چاپ چلے جاتے تھے، کبھی اس سے کچھ نہیں کہتے تھے، کبھی ناراض نہیں ہوتے تھے۔

ایک دن آپ اسی راستے سے گزرے تو بڑھیا نے آپ پر کوڑا نہیں پھیکا، آپ نے محلہ والوں سے پوچھا۔۔۔" بُڑھیا کہاں ہے :۔

لوگوں نے جواب دیا۔۔۔بیمار ہے۔

اللّٰہ کے نبی نے جب یہ سنا کہ بُڑھیا بیمار ہے تو آپ اس کے دروازے پر پہونچے اور اجازت لے کر اندر گئے اور اس کی مزاج پُرسی کی۔بُڑھیا آپ کا اخلاق دیکھ کر بڑی شرمندہ ہوئی اور مسلمان ہو گئی۔

اللّٰہ کے رسول بیماروں کی مزاج پرسی اور ان کی خدمت پر بڑا زور دیتے تھے۔ جب کسی کی بیماری کی خبر سنتے تو اسے دیکھنے ضرور جاتے تھے۔ اس کا دل بہلاتے تھے اور اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔

آپ کی تعلیم ہے کہ بیماروں کی مزاج پرسی کرنے والوں سے اللّٰہ خوش ہوتا ہے۔ ان کو بڑا ثواب ملتا ہے۔

آپ غریبوں اور کمزوروں کی مدد پر بھی زور دیتے تھے اور خود اپنے پرائے سب ہی کی مدد کرتے تھے۔ دشمنوں کی بھی مدد اور ءبر گیری فرماتے تھے۔ سب سے اخلاق سے پیش آتے مسکرا کے ملتے اور ہر شخص کا کام کرنے پر تیار رہتے تھے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ یہ تعلیم دیتے تھے کہ رشتہداروں کی مدد کرو، یتیموں کی مدد کرو، مسافروں کی مدد کرو، بیوہ اور نے سہارا عورتوں کی مدد کرو، ہمسایوں کی مدد کرو اور کسی کی خدمت سے انکار نہ کرو۔ سب سے نیکی سے پیش آؤ۔ سب سے محبت کرو۔

۱۹

ہمارے نبی کو پڑوسیوں کا اتنا خیال تھا کہ آپ یہ فرماتے تھے کہ وہ شخص مسلمان نہیں ہے جو خود تو کھانا کھا لے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔

ایک مرتبہ لوگوں نے حضرت نبی سے عرض کیا۔ " یا رسول اللّٰہ ایک عورت ہے جو بہت نمازیں پڑھتی ہے اور روزے رکھتی ہے، خیرات کرتی ہے، لیکن اپنے پڑوسیوں سے لڑتی رہتی ہے "۔

آپ نے جواب میں فرمایا کہ وہ جہنم میں جائے گی اس لئے کہ وہ پڑوسیوں سے محبت نہیں کرتی۔

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :-

مزاج پرسی ۔ چپ چاپ ۔ ناراض ۔ اخلاق ۔ خبر گیری ۔ بیوہ ۔ پڑوسی ۔ یتیموں ۔ بے سہارا ۔ ہمسایہ۔

سوالات

۱۔ بڑھیا نے رسول کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۲۔ رسول نے بڑھیا کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ؟

۳۔ پڑوسیوں سے محبت نہ کرنے والے کے لئے رسول نے کیا فرمایا ؟

۲۰

مسئلہ ۱۹_ اہل و عيال _ كہ مالى استطاعت ميں جنكے اخراجات كا موجود ہونا شرط ہے _سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جنہيں عرف عام ميں اہل و عيال شمار كيا جاتا ہے اگر چہ شرعاً اس پر ان كا خرچہ واجب نہ بھى ہو _

۳_ ضروريات زندگي:

مسئلہ ۲۰_ شرط ہے كہ اسكے پاس ضروريات زندگى اور وہ چيزيں ہوں كہ جنكى اسے عرفاً اپنى حيثيت كے مطابق زندگى بسر كرنے كيلئے احتياج ہے البتہ يہ شرط نہيں ہے كہ بعينہ وہ چيزيںاس كے پاس موجود ہوں بلكہ كافى ہے كہ اس كے پاس رقم و غيرہ ہو كہ جسے اپنى ضروريات زندگى ميں خرچ كرنا ممكن ہو _

مسئلہ ۲۱_ عرف عام ميں لوگوں كى حيثيت مختلف ہوتى ہے چنانچہ رہائشے كيلئے گھر كا مالك ہونا جسكى ضروريات زندگى ميں سے ہے يا يہ عرف ميں اسكى حيثيت كے مطابق ہے يا كرائے كے ، يا عاريہ پر ليئے ہوئے يا

-

۲۱

موقوفہ گھر ميں رہنا اس كيلئے حرج يا سبكى كا باعث ہو تو اسكے لئے استطاعت كے ثابت ہونے كيلئے گھر كا مالك ہونا شرط ہے _

مسئلہ ۲۲_ اگر حج كيلئے كافى مال ركھتا ہوليكن اسے اسكى ايسى لازمى احتياج ہے كہ جس ميں اسے خرچ كرنا چاہتا ہے جيسے گھر مہيا كرنا يا بيمارى كا علاج كرانا يا ضروريات زندگى كو فراہم كرناتو يہ مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے_

مسلئہ ۲۳_ يہ شرط نہيں ہے كہ مكلف كے پاس خود زاد و راحلہ ہوں بلكہ كافى ہے كہ اس كے پاس اتنى رقم و غيرہ ہو كہ جسے زاد و راحلہ ميں خرچ كرنا ممكن ہو _

مسئلہ ۲۴_ اگر كسى شخص كے پاس ضروريات زندگى _گھر ، گھريلو سامان ، سوارى ، آلات صنعت و غيرہ _ كى ايسى چيزيں ہيں جو قيمت كے لحاظ سے اسكى حيثيت سے بالاتر ہيں چنانچہ اگر يہ كر سكتا ہو كہ انہيں بيچ كر انكى قيمت كے كچھ حصے سے اپنى ضروريات زندگى خريد لے اور باقى قيمت كو حج كيلئے

۲۲

خرچ كرے اور اس ميں اسكے لئے حرج ، كمى يا سبكى بھى نہ ہو اور قيمت كا فرق حج كے اخراجات يا انكى تكميل كى مقدار ہو تو اس پر ايسا كرنا واجب ہے اور يہ مستطيع شمار ہوگا _

مسئلہ ۲۵_ اگر مكلف اپنى زمين يا كوئي اور چيز فروخت كرے تا كہ اسكى قيمت كے ساتھ گھر خريدے تو اگر اسے گھر كے مالك ہونے كى ضرورت ہو يا يہ عرف كے لحاظ سے اسكى حيثيت كے مطابق ہو تو زمين كى قيمت وصول كرنے سے يہ مستطيع نہيں ہو گا اگر چہ وہ حج كے اخراجات يا انكى تكميل كى مقدار ہو_

مسئلہ ۲۶_ جس شخص كو اپنى بعض مملوكہ چيزوں كى ضرورت نہ رہے مثلا اسے اپنى كتابوں كى ضرورت نہ رہے اور ان كى قيمت سے مالى استطاعت مكمل ہوتى ہو يا يہ مالى استطاعت كيلئے كافى ہو تو ديگر شرائط كے موجود ہونے كى صورت ميں اس پر حج واجب ہے_

۲۳

۴_ رجوع الى الكفاية:

مسئلہ ۲۷_ مالى استطاعت ميں '' رجوع الى الكفاية'' شرط ہے ( مخفى نہ رہے كہ يہ شرط حج بذلى ميں ضرورى نہيں ہے جيسا كہ اسكى تفصيل عنقريب آجائيگى )اور اس سے مراد يہ ہے كہ حج سے پلٹنے كے بعد اسكے پاس ايسى تجارت ، زراعت ، صنعت ، ملازمت ، يا باغ ، دكان و غيرہ جيسے ذرائع آمدنى كى منفعت ہو كہ جنكى آمدنى عرف ميں اسكى حيثيت كے مطابق اسكے اور اسكے اہل و عيال كے معاش كيلئے كافى ہو اور اس سلسلے ميں دينى علوم كے طلاب( خدا تعالى ان كا حامى ہو ) كيلئے كافى ہے كہ پلٹنے كے بعد انہيں وہ وظيفہ ديا جائے جو حوزات علميہ ( خدا تعالى انكى حفاظت كرے) ميں انكے درميان تقسيم كيا جاتا ہے_

مسئلہ ۲۸_ عورت كيلئے بھى رجوع الى الكفاية شرط ہے بنابراين اگر اس كا شوہر ہو اور يہ اسكى زندگى ميں حج كى استطاعت ركھتى ہو تو اس كيلئے ''رجوع الى الكفاية'' وہ نفقہ ہے جسكى وہ اپنے شوہر كے ذمے ميں مالك

۲۴

ہے ليكن اگر اس كا شوہر نہيں ہے تو حج كيلئے اسكے مستطيع ہونے كيلئے مخارج حج كےساتھ ساتھ شرط ہے كہ اسكے پاس ايسا ذريعہ آمدنى ہو جواسكى حيثيت كے مطابق اسكى زندگى كيلئے كافى ہو ورنہ يہ حج كيلئے مستطيع نہيں ہوگى _

مسئلہ ۲۹_ جس شخص كے پاس زاد و راحلہ نہ ہو ليكن كوئي اور شخص اسے دے اور اسے يوں كہے تو ''حج بجالا اور تيرا اور تيرے اہل و عيال كا خرچہ مير ے ذمے ہے ''تو اس پر حج واجب ہے اور اس پر اسے قبول كرنا واجب ہے اور اس حج كو حج بذلى كہتے ہيں اور اس ميں '' رجوع الى الكفايہ '' شرط نہيں ہے نيز خود زاد و راحلہ كا دينا ضرورى نہيں ہے بلكہ قيمت كا دينا بھى كافى ہے _

ليكن اگراسے حج كيلئے مال نہ دے بلكہ صرف اسے مال ہبہ كرے تو اگر وہ ہبہ كو قبول كرلے تو اس پر حج واجب ہے ليكن اس پر اس مال كو قبول كرنا واجب نہيں ہے پس اس كيلئے جائز ہے كہ اسے قبول نہ كرے اور اپنے آپ كو مستطيع نہ بنائے_

۲۵

مسئلہ ۳۰_ حج بذلى ، حجة الاسلام سے كافى ہے اور اگر اسكے بعد مستطيع ہوجائے تو دوبارہ حج واجب نہيں ہے_

مسئلہ ۳۱_ جس شخص كو كسى ادارے يا شخص كى طرف سے حج پر جانے كى دعوت دى جاتى ہے تو اگر اس دعوت كے مقابلے ميں اس پركسى كام كو انجام دينے كى شرط لگائي جائے تو اسكے حج پر حج بذلى كا عنوان صدق نہيں كرتا_

مالى استطاعت كے عمومى مسائل

مسئلہ ۳۲_جس وقت حج پر جانے كيلئے مال خرچ كرنا واجب ہوتا ہے اسكے آنے كے بعد مستطيع كيلئے اپنے آپ كو استطاعت سے خارج كرنا جائز نہيں ہے بلكہ احوط وجوبى يہ ہے كہ اس وقت سے پہلے بھى اپنے آپ كو استطاعت سے خارج نہ كرے _

مسئلہ ۳۳_ مالى استطاعت ميں شرط نہيں ہے كہ وہ مكلف كے شہر ميں

۲۶

حاصل ہو بلكہ اس كا ميقات ميں حاصل ہو جانا كافى ہے پس جو شخص ميقات تك پہنچ كر مستطيع ہو جائے اس پرحج واجب ہے اور يہ حجة الاسلام سے كافى ہے _

مسئلہ ۳۴_ مالى استطاعت اس شخص كيلئے بھى شرط ہے جو ميقات تك پہنچ كر حج پر قادر ہو جائے پس جو شخص ميقات تك پہنچ كر حج پر قادر ہو جائے جيسے قافلوں ميں كام كرنے والے و غيرہ تو اگر ان ميں استطاعت كى ديگر شرائط بھى ہوں جيسے اہل و عيال كا نفقہ ، ضروريات زندگى اور اسكى حيثيت كے مطابق جن چيزوں كى اسے اپنى زندگى ميں احتياج ہوتى ہے اور ''رجوع الى الكفاية'' تو اس پر حج واجب ہے اور يہ حجة الاسلام سے كافى ہے ورنہ اس كا حج مستحبى ہو گا اور اگر بعد ميں استطاعت حاصل ہوجائے تو اس پر حجة الاسلام واجب ہو گا _

مسئلہ ۳۵_اگركسى شخص كو حج كے راستے ميں خدمت كيلئے اتنى اجرت كے ساتھ اجير بنايا جائے كہ جس سے وہ مستطيع ہو جائے تو اجارے كو قبول

۲۷

كرنے كے بعد اس پر حج واجب ہے البتہ يہ اس صورت ميں ہے جب اعمال حج كو بجالانا اس خدمت كے ساتھ متصاوم نہ ہو جو اسكى ڈيوٹى ہے ورنہ يہ اسكے ساتھ مستطيع نہيں ہوگا جيسا كہ عدم تصادم كى صورت ميں اس پر اجارے كو قبول كرنا واجب نہيں ہے _

مسئلہ ۳۶_ جو شخص مالى استطاعت نہ ركھتا ہو اور نيابتى حج كيلئے اجير بنے پھر اجارے كے بعد مال اجارہ كے علاوہ كسى اور مال كے ساتھ مستطيع ہو جائے تو اس پر واجب ہے كہ اس سال اپنے لئے حجة الاسلام بجالائے اور اجارہ اگر اسى سال كيلئے ہو تو باطل ہے ورنہ اجارے والا حج آئندہ سال بجالائے _

مسئلہ ۳۷_ اگر مستطيع شخص غفلت كى وجہ سے يا جان بوجھ كر مستحب حج كى نيت كرلے اگر چہ اعمال حج كى تمرين كے قصد سے تا كہ آئندہ سال اسے بہتر طريقے سے انجام دے سكے يا اس لئے كہ وہ اپنے آپ كو غير مستطيع سمجھتا ہے پھر اس كيلئے ظاہر ہو جائے كہ وہ مستطيع تھا تو اسكے اس حج

۲۸

كے حجة الاسلام سے كافى ہونے ميں اشكال ہے پس احوط كى بنا پر اس پر آئندہ سال حج كو بجالانا واجب ہے_مگر يہ كہ اس نے شارع مقدس كے اس حكم كى اطاعت كا قصدكيا ہو جو اس وقت ہے اس وہم كے ساتھ كہ وہ حكم، حكم استحبابى ہے تو پھر اس كا حج حجة الاسلام سے كافى ہے _

ب_ جسمانى استطاعت:

اس سے مراد يہ ہے كہ جسمانى لحاظ سے حج كو انجام دينے كى قدرت ركھتا ہو پس اس مريض اور بوڑھے پر حج واجب نہيں ہے جو حج پر جانہيں سكتے يا جن كيلئے جانے ميں حرج اورمشقت ہے _

مسئلہ ۳۸_ جسمانى استطاعت كا باقى رہنا شرط ہے پس اگر راستے كے درميان ميں احرام سے پہلے بيمار ہو جائے تو اگر اس كا حج پر جانا استطاعت والے سال ميں ہو اور بيمارى اس سے سفر كو جارى ركھنے كى قدرت كو سلب كرلے تو اس سے منكشف ہو گا كہ اس ميں جسمانى استطاعت نہيں تھى اور

۲۹

ايسے شخص پر حج كيلئے كسى كو نائب بنانا واجب نہيں ہے ليكن اگر يہ حج كے اس پر مستقر ہونے كے بعد حج پر جا رہا ہو اور بيمارى كى وجہ سے سفر كو جارى ركھنے سے عاجز ہو جائے اور آئندہ سالوں ميں بھى اسے بغير مشقت كے حج پر قادر ہونے كى اميد نہ ہو تو اس پر واجب ہے كہ كسى اور كو نائب بنائے اور اگر اسے اميد ہو تو اس سے خود حج كو بجالانے كا وجوب ساقط نہيں ہوگا_اور اگر احرام كے بعد بيمار ہو تو اسكے اپنے خاص احكام ہيں _

ج_ سربى استطاعت:

اس سے مراد يہ ہے كہ حج پر جانے كا راستہ كھلا اور باامن ہو پس اس شخص پر حج واجب نہيں ہے كہ جس كيلئے راستہ بند ہو اس طرح كہ اس كيلئے ميقات يا اعمال حج كى تكميل تك پہنچنا ممكن نہ ہو اسى طرح اس شخص پر بھى حج واجب نہيں ہے كہ جس كيلئے راستہ كھلا ليكن نا امن ہو چنانچہ اس راستے ميں اسے اپنى جان ، بدن ، عزت يا مال كا خطرہ ہو _

۳۰

مسئلہ ۳۹_ جس شخص كے پاس حج كے اخراجات ہوں اور وہ حج پرجانے كيلئے تيارہوجائے جيسا كہ حج كيلئے اپنا نام لكھو ادے ليكن چونكہ اسكے نام قرعہ نہيں نكلا اسلئے اس سال حج پر نہ جا سكا تو يہ شخص مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے ليكن اگر آئندہ سالوں ميں حج كرنا اس سال اپنا نام لكھوانے اور مال دينے پر موقوف ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اس كام كو انجام دے _

د_زمانى استطاعت:

اس سے مراد يہ ہے كہ ايسے وقت ميں استطاعت حاصل ہو جس ميں حج كو درك كرنا ممكن ہو پس اس بندے پر حج واجب نہيں ہے كہ جس پر اس طرح وقت تنگ ہو جائے كہ وہ حج كو درك نہ كر سكتا ہو يا سخت مشقت اور سخت حرج كے ساتھ درك كر سكتا ہو _

۳۱

دوسرى فصل :نيابتى حج

نائب و منوب عنہ كى شرائط كو بيان كرنے سے پہلے حج كى وصيت اور اس كيلئے نائب بنانے كے بعض موارد اور ان كے احكام كو ذكر كرتے ہيں _

مسئلہ ۴۰_ جس پر حج مستقر ہو جائے پھر وہ بڑھا پے يا بيمارى كى وجہ سے حج پر جانے سے عاجر ہو يا اس كيلئے حج پر جانے ميں عسر و حرج ہو اور بغير حرج كے قادر ہونے سے مايوس ہو حتى كہ آئندہ سالوں ميں بھى تو اس پر نائب بنانا واجب ہے ليكن جس پر حج مستقر نہ ہوا تواس پر نائب بنانا واجب نہيں ہے _

مسئلہ ۴۱_ نائب جب حج كو انجام دے دے تو منوب عنہ كہ جو حج كو

۳۲

انجام دينے سے معذور تھا اس سے حج كا وجوب ساقط ہو جائيگا اور اس پر دوبارہ حج بجا لانا واجب نہيں ہے اگر چہ نائب كے انجام دينے كے بعد اس كا عذر ختم بھى ہو جائے _ہاں اگر نائب كے عمل كے دوران ميںاس كا عذر ختم ہو جائے تو پھر منوب عنہ پر حج كا اعادہ كرنا واجب ہے اور ايسى حالت ميں اس كيلئے نائب كا حج كافى نہيں ہے _

مسئلہ ۴۲_ جس شخص پر حج مستقر ہے اگر وہ راستے ميں فوت ہو جائے تو اگر وہ احرام اور حرم ميں داخل ہونے كے بعدفوت ہو تو يہ حجة الاسلام سے كافى ہے اور اگر احرام سے پہلے فوت ہو جائے تو اس كيلئے يہ كافى نہيں ہے اور اگر احرام كے بعد ليكن حرم ميں داخل ہونے سے پہلے فوت ہو تو احوط وجوبى كى بناپريہ كافى نہيں ہے _

مسئلہ ۴۳_ جو شخص فوت ہو جائے اور اسكے ذمے ميں حج مستقر ہو چكا ہو تو اگر اس كا اتنا تركہ ہو جو حج كيلئے كافى ہو اگر چہ ميقات سے ، تو اس كى طرف سے اصل تركہ سے حج كيلئے نائب بنانا واجب ہے مگر يہ كہ اس نے

۳۳

تركہ كے تيسرے حصے سے مخارج حج نكالنے كى وصيت كى ہو تو يہ اسى تيسرے حصے سے نكالے جائيں گے اور يہ مستحب وصيت پر مقدم ہوں گے اور اگر يہ تيسرا حصہ كافى نہ ہو تو باقى كو اصل تركہ سے ليا جائيگا_

مسئلہ ۴۴_ جن موارد ميں نائب بنانا مشروع ہے ان ميں يہ كام فوراً واجب ہے چاہے يہ نيابت زندہ كى طرف سے ہو يا مردہ كى طرف سے _

مسئلہ ۴۵_ زندہ شخص پر شہر سے نائب بنانا واجب نہيں ہے بلكہ ميقات سے نائب بنا دينا كافى ہے اگر ميقات سے نائب بنانا ممكن ہو ورنہ اپنے وطن يا كسى دوسرے شہر سے اپنے حج كيلئے نائب بنائے اسى طرح وہ ميت كہ جسكے ذمے ميں حج مستقر ہو چكا ہے تو اسكى طرف سے ميقات سے حج كافى ہے اور اگر نائب بنانا ممكن نہ ہو مگر ميت كے وطن سے يا كسى دوسرے شہر سے تو يہ واجب ہے اور حج كے مخارج اصل تركہ سے نكالے جائيں گے ہاں اگر اس نے اپنے شہر سے حج كرانے كى وصيت كى ہو تو وصيت كو نافذ كرنا واجب ہے اور ميقات كى اجرت سے زائد كو تركہ كے تيسرے حصے

۳۴

سے نكالا جائيگا _

مسئلہ ۴۶_ اگر وصيت كرے كہ اسكى طرف سے استحباباً حج انجام ديا جائے تو اسكے اخراجات تركہ كے تيسرے حصے سے نكالے جائيں گے _

مسئلہ ۴۷_ جب ورثاء يا وصى كو ميت پر حج كے مستقر ہونے كا علم ہو جائے اور اسكے ادا كرنے ميں شك ہو تو ميت كى طرف سے نائب بنانا واجب ہے ليكن اگر استقرار كا علم نہ ہو اور اس نے اسكى وصيت بھى نہ كى ہو تو ان پر كوئي شے واجب نہيں ہے _

نائب كى شرائط :

۱_ بلوغ ، احوط كى بناپر ،پس نابالغ كا حج اپنے غير كى طرف سے حجة الاسلام كے طور پر كافى نہيں ہے بلكہ كسى بھى واجب حج كے طور پر _

۲_ عقل ، پس مجنون كا حج كافى نہيں ہے چاہے وہ دائمى ہو يا اسے جنون كے دورے پڑتے ہوں البتہ اگر جنون كے دورے كى حالت ميں حج انجام

۳۵

دے _

۳_ ايمان ، احوط كى بناپر ،پس مؤمن كى طرف سے غير مؤمن كا حج كافى نہيں ہے _

۴_ اس كا حج كے اعمال اور احكام سے اس طرح واقف ہونا كہ اعمال حج كو صحيح طور پر انجام دينے پر قادر ہو اگر چہ اس طرح كہ ہر عمل كے وقت معلم كى راہنمائي كے ساتھ اسے انجام دے_

۵_ اس سال ميں خود اس كا ذمہ واجب حج كے ساتھ مشغول نہ ہو ہاں اگر اسے اپنے اوپر حج كے وجوب كا علم نہ ہو تو اسكے نيابتى حج كے صحيح ہونے كا قائل ہونا بعيد نہيں ہے _

۶_ حج كے بعض اعمال كے ترك كرنے ميں معذور نہ ہو _ اس شرط اور اس پر مترتب ہونے والے احكام كى وضاحت اعمال حج ميں آجائيگي_

مسئلہ ۴۸_نائب بنانے كے كافى ہونے ميں شرط ہے كہ نائب كے منوب عنہ كى طرف سے حج كے بجا لانے كا وثوق ہو ليكن يہ جان لينے كے

۳۶

بعد كہ اس نے حج انجام دے ديا ہے اس بات كا وثوق شرط نہيں ہے كہ اس نے حج كو صحيح طور پر انجام ديا ہے بلكہ اس ميں اصالة الصحة كافى ہے (يعنى اس كا عمل صحيح ہے)_

منوب عنہ كى شرائط :

منوب عنہ ميں چند چيزيں شرط ہيں_

اول : اسلام ، پس كافر كى طرف سے حج كافى نہيں ہے _

دوم : يہ كہ منوب عنہ فوت ہو چكا ہو يا بيمارى يا بڑھاپے كى وجہ سے خود حج بجالانے پر قادر نہ ہو يا خود حج بجالانے ميں اسكے لئے حرج ہو اور آئندہ سالوں ميں بھى بغير حرج كے حج پر قادر ہونے كى اميد نہ ركھتا ہو البتہ اگر نيابت واجب حج ميں ہو _ ليكن مستحب حج ميں غير كى طرف سے نائب بننا مطلقا صحيح ہے _

۳۷

چند مسائل :

مسئلہ ۴۹_ نائب اور منوب عنہ كے درميان ہم جنس ہونا شرط نہيں ہے پس عورت مرد كى طرف سے نائب بن سكتى ہے اور مرد عورت كى طرف سے نائب بن سكتا ہے _

مسئلہ ۵۰_ صرورہ ( جس نے حج نہ كيا ہو) صرورہ اور غير صرورہ كى طرف سے نائب بن سكتا ہے چاہے نائب يا منوب عنہ مرد ہو ياعورت _

مسلئہ ۵۱_ منوب عنہ ميں نہ بلوغ شرط ہے نہ عقل_

مسلئہ ۵۲_ نيابتى حج كى صحت ميں نيابت كا قصد اور منوب عنہ كو معين كرنا شرط ہے اگر چہ اجمالى طور پر ليكن نا م كا ذكر كرنا شرط نہيں ہے_

مسئلہ ۵۳_ اس بندے كو اجير بنانا صحيح نہيں ہے كہ جسكے پاس، حج تمتع كے اعمال كو مكمل كرنے كا وقت نہ ہو اور اس وجہ سے اس كافريضہ حج افراد كى طرف عدول كرنا ہو ہاں اگر اجير بنائے اور اتفاق سے وقت تنگ ہو جائے تو اس پر عدول كر نا واجب ہے اور يہ حج تمتع سے كافى ہے اور اجرت كا بھى

۳۸

مستحق ہو گا _

مسئلہ ۵۴_ اگر اجير احرام اور حرم ميں داخل ہونے كے بعد فوت ہو جائے تو پورى اجرت كا مستحق ہو گا البتہ اگر اجارہ منوب عنہ كے ذمہ كو برى كرنے كيلئے ہو جيسا كہ اگر اجارہ مطلق ہو اور اعمال كو انجام دينے كے ساتھ مقيد نہ ہو تو ظاہر حال يہى ہوتا ہے _

مسئلہ ۵۵_ اگر معين اجرت كے ساتھ حج كيلئے اجير بنايا جائے اور وہ اجرت حج كے اخراجات سے كم پڑ جائے تو اجير پر حج كے اعمال كو مكمل كرنا واجب نہيں ہے جيسے كہ اگر وہ حج كے اخراجات سے زيادہ ہو تو اس كا واپس لينا جائز نہيں ہے_

مسئلہ ۵۶_ نائب پر واجب ہے كہ جن موارد ميں اسكے حج كے منوب عنہ سے كافى نہ ہونے كا حكم لگايا جائے _ نائب بنانے والے كو اجرت واپس كردے البتہ اگر اجارہ اسى سال كے ساتھ مشروط ہو ورنہ اس پر واجب ہے كہ بعد ميں منوب عنہ كى طرف سے حج بجالائے _

۳۹

مسئلہ ۵۷_ جو شخص حج كے بعض اعمال انجام دينے سے معذور ہے اسے نائب بنانا جائز نہيں ہے اور معذور وہ شخص ہے جو مختار شخص كے فريضے كو انجام نہ دے سكتا ہو مثلاً تلبيہ يا نماز طواف كو صحيح طور پر انجام نہ دے سكتا ہو يا طواف اور سعى ميں خود چلنے كى قدرت نہ ركھتا ہو يا رمى جمرات پر قادر نہ ہو ، اس طرح كہ اس سے حج كے بعض اعمال ميں نقص پيدا ہوتا ہو ، پس اگر عذر اس نقص تك نہ پہنچائے جيسے صرف بعض تروك احرام كے ارتكاب ميں معذور ہو تو اسكى نيابت صحيح ہے _

مسئلہ ۵۸_ اگر نيابتى حج كے دوران ميں عذر كا طارى ہونا نائب كے اعمال ميں نقص كا سبب بنے تو اجارے كا باطل ہو جانا بعيد نہيں ہے اور اس صورت ميں احوط وجوبى يہ ہے كہ اجرت اور منوب عنہ كى طرف سے دوبارہ حج بجالانے پر مصالحت كريں_

مسئلہ ۵۹_ جو لوگ مشعر الحرام ميں اختيارى وقوف سے معذور ہيں انہيں نائب بنانا صحيح نہيں ہے پس اگر انہيں اس طرح نائب بنايا جائے تو وہ

۴۰

۴۱

۴۲

۴۳

۴۴

۴۵

۴۶

۴۷

۴۸

۴۹