امامیہ اردو ریڈر درجہ چہارم جلد ۴

امامیہ اردو ریڈر درجہ چہارم66%

امامیہ اردو ریڈر درجہ چہارم مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 42 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7663 / ڈاؤنلوڈ: 3716
سائز سائز سائز
امامیہ اردو ریڈر درجہ چہارم

امامیہ اردو ریڈر درجہ چہارم جلد ۴

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

امامیہ اُردو ریڈر

درجہ چہارم

تنظیم المکاتب

ہدایت

۱ ۔مدرسین کا فرض ہے کہ پڑھنے میں روانی پیدا کرانے کے ساتھ تلفظ کی درستگی کا خاص خیال رکھیں۔

٢۔ الفاظ کے معنی کہوا کر یاد کرائیں۔

٣۔ سبق کے بعد کے مشقی سوالات ضرور حل کرائیں۔

٤ ۴ ۔ جابجا قواند سمجھا کر ان کی مشق کرائی جائے۔

٥ ۵ ۔ اردو پڑھانے کے ساتھ اِملا ضرور لکھوایا جائے۔

اور

جو شخطی پر خاص نظر رکھی جائے۔

ناشر

پہلا سبق

مُناجات

دنیا کا انقلاب بڑا تیز گام ہے

اب صاحبان و رع کا جینا حرام ہے

لوگوں میں اب ذرا بھی مروت کی خو نہیں

انسانیت کا جیسے لوگوں میں لہو نہیں

جس کو بھی دیکھئے وہ تلا ہے فساد پر

چلتا نہیں ہے کوئی رہ اتحاد پر

پھر حکمراں زمانے میں ہیں ظلم و کد کے بت

بیٹھے ہیں دل کے کعبہ میں بغض و حسد کےبت

دل تو بنا ہے صرف تیری یاد کے لئے

بس تیری بارگاہ ہے فریاد کے لئے

پر کس کو شوق اب ہے ترے ذکر خیبر کا

صد حیف تیرے گھر پہ تسلط ہے غیر کا

فرزند ارجمند رسول زمین کو بھیج

پھر وقت آ گیا ہے کسی بت شکن کو بھیج

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :-

مناجات ۔ القاب ۔ لہو ۔ فساد ۔ تیزگام ۔ صاحبان ورع ۔ استحاد ۔ راہ ۔ حسد ۔ تسلط ۔ کد ۔ ارجمند ۔ فرزند ۔ رسول زمین ۔ بت شکن ۔ چدحیف۔

دوسرا سبق

ہمارے نبی کی تعلیم

حضرت محمد مصطفےٰ ضلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ :

ہم اللّٰہ کو ایک مانیں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں۔

ہم اللّٰہ کے ہر حکم کے سامنے سر جھکائیں اور اس کی پوری پابندی کریں۔

ہم سچّے دل سے اللّٰ کو یاد کریں اور اس کی عبادت سے غافل نہ ہوں۔

ہم اپنے ماں باپ اور اپنے بڑوں کا پورا ادب کریں اور ہمیشہ ان کی خدمت کرتے رہیں۔

ہم سچ بولیں اور سچ بولنے میں کسی سے نہ ڈریں۔

ہم ہمیشہ دوسروں کی مدد اور خدمت کو اپنا فرض تصور کریں۔

ہم ہر وقت پاک و صاف اور ستھرے نظر آئیں۔

ہم جب کسی سے ملیں تو اسے سلام کریں اور مسکرا کے باتیں کریں۔

ہم صبح اٹھ کر کلمہ پڑھیں، سجدہ شکر کریں۔ درود بھیجیں، مسواک کریں منھ ہاتھ دھو کر خشک کریں

وضو کریں، نماز پڑھیں، بالوں میں کنگھی کریں اور بڑوں کو سلام کریں۔

ہم چوری اور غیبت سے ہمیشہ پرہیز کریں۔

ہم آپس میں میل جول قائم رکھیں اور کبھی جھگڑا نہ کریں۔

ہم ہمیشہ اللّٰہ کی راہ میں غریبوں کو خیرات دیتے رہیں۔

ہم جی لگا کر پڑھیں اور خوب علم حاصل کریں۔

ہم اپنی صحت کا پورا خیال رکھیں۔

ہم ادب اور قاعدے سے بیٹھیں اور اپنے استاد اور دوسرے بزرگوں کی پوری عزت کریں۔

ہم اپنے ہر کام میں ایمانداری برتیں اور کسی کو دھوکا نہ دیں۔

ہم بغیر اجازت کسی کی چیز استعمال نہ کریں۔

ہم گالی نہ بکیں، کسی کو بری بات نہ کہیں، کسی کا دل نہ دُکھائے۔

ہم بیکار کھیل کود میں وقت ضائع نہ کریں۔

ہم دین کی باتیں جی لگا کے سیکھیں تاکہ ہماری زندگی اچھی بن جائے۔

کتنی اچھی اور کام کی باتیں ہیں۔

ہمارے نبی نے بہت ہی اچھی اچھی باتیں بتائی ہیں۔

ان الفاظ کے معنی بتاؤ-

غافل ۔ غیبت ۔ ضائع ۔ فرض ۔ مسواک ۔ تصور

تیسرا سبق

فرشتے

ہمارے چاروں طرف ہوا موجود ہے لیکن اسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ ہوا ہمارے بہت کام آتی ہے۔ اسی سے ہم سانس لیتے ہیں۔ ہوا نہ ہو تو دم گھٹ جائے اور ہم مر جائے ٹھنڈی ہوائیں بہت آرام دیتی ہے ہوا الگنی پر پھیلے ہوئے کپڑوں کو سکھا دیتی ہے۔

ہوا بادل لاتی اور پانی برساتی ہے۔ ہوا کلیوں کو ہلکورے دے کر پھول بناتی ہے۔ ہوا کی مدد سے ہی چڑیاں اور دوسرے پرند اڑتے ہیں۔

ہوا اور بھی بہت سے کام کرتی ہے لیکن پھر بھی ہم اسے دیکھ نہیں سکتے جس طرح اللّٰہ نے ہوا بنائی جو دیکھائی تو نہیں دیتی لیکن بہت سے کام کرتی ہے اسی طرح اللّٰہ نے فرشتے پیدا کئے ہیں جو دکھائی تو نہیں دےتے لیکن اللّٰہ کے بے شمار کام کرتے رہتے ہیں۔

فرشتے نہ کچھ کھاتے ہیں نہ سوتے ہیں نہ تھکتے ہیں بس وہ اپنے کام میں لگے ہیں۔ اللّٰہ کی عبادت کرتے رہتے ہیں۔ اللّٰہ کے آہکام پورے کرتے رہتے ہیں۔ ان سے کبھی کوئی بھول چوک یا خطا نہیں ہوتی، وہ پاک ہں نیک ہیں معصوم ہیں اور اللّٰہ کے کاموں میں لگے رہتے ہیں۔

اللّٰہ نے بے شمار فرشتے پیدا کئے ہیں۔ آسمان میں بکھرے لاتعدا تاروں سے بھی زیادہ۔

ان میں چار فرشتے بہت مشہور ہیں۔

١۔ جبرئیل ۔ یہ اللّٰہ کا احکام اس کے نبیوں تک پہونچاتے ہیں۔

٢۔ میکائیل ۔ یہ آدمیوں کو رزق تقسیم کرتے ہیں۔

٣۔ عزرائیل ۔ یہ روح قبض کرتے ہیں۔ انہیں ملک الموت بھی کہا جاتا ہے۔

٤۔ اسرافیل ۔ یہ قیامت کے دن صور پھونکیں گے جس سے دنیا کا ہر جاندار مر جائے گا۔پھر صور پھونکیں گے تو سب مرے جی اٹھیںگے اور پھر اللّٰہ نیکیوں کو جزا یعنی العام اور بڑوں کو سزا دےگا۔ فرشتوں پر ایمان رکھنا ہمارے لیے ضروری ہے۔

سوالات

١۔ کیا تم نے فرشتوں کو دیکھا ہے ؟

٢۔ فرشتوں کو بغیر دیکھے کس طرح مانو گے ؟

٣۔ مشہور فرشتے کون کون سے ہیں ؟

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :-

ے شمار ۔ خطا ۔ معصوم ۔ رزق ۔ صور ۔قبض ۔ جزا ۔ لاتعداد ۔ ملک الموت ۔

چوتھا سبق

توبہ

جرم کرنا بہت آسان ہے اور جرم اقرار کرنا بہت مشکل، غلطی کرنا بہت آسان ہے اور غلطی کا عتراف کرنا بہت مشکل، ہمارے سماج میں سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ ہم خطائیں تو کرتے ہیں، ہم سے غلطیاں تو سرزد ہو جاتی ہیں، لیکن غلطی اور خطا کے اقرار کا وقت آتا ہے تو پشیمان ہونے کے بجائے تا میلیں کرنے لگتے ہیں، باتیں بنانے لگتے ہیں، ہماری ساری تمّنا یہ ہوتی ہے کہ لوگ، ہمیں غیر معصوم تو نہیں لیکن ایسا غیر معصوم کہ جس نے کبھی کوئی غلطی نہ کی ہو چاہے دل کتنی ہی غلطیوں کی گواہی کیوں نہ دے رہا ہو۔ یہ سب اس لئے ہے کہ ہم غلطی کے اقرار کو اپنی ذلت سمجھتے ہیں۔ خطا کے عتراف میں اپنی سبکی کا احساس کرتے ہیں۔

ہمارا عالم یہ ہے کہ اگر چلتے ہوئے ہم سے کسی کو ٹھوکر لگ جاتی ہے یا ٹھوکر سے کسی کا کوئی مال برباد ہو جاتا ہے تو اس سے معافی مانگنے کے بجائے اکڑ جاتے ہیں اور الٹے اسی پر خفا ہونے لگتے ہیں کہ آپ یہاں کیوں بیڑھے تھے یہ سامان کیوں رکھا تھا۔ یہ طریقہ پروردگار عالم کو قچعًا نا پسند ہے وہ قرآن شریف میں اعلان کرتا ہے کہ ہم توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتے ہیں، مغرور، متکبّر اور اکڑنے والوں کو دوست نہیں رکھتے۔

ہمارے سامنے حضرت حُر کا کردار موجود ہے۔ جنھوں نے امام حسین کی خدمت میں اپنی غلطی کا اقرار کر کے وہ بلند درجہ حاصل کر لیا جو پشتہا پشت کے مسلمانوں کو نہ مل سکا۔ حضرت حُر بھی ایک عام انسان ہوتے تو شکر یزید میں رہ جاتے اور ان کا تذکرہ انہیں الفاظ میں ہوتا جن الفاظ میں دشمنوں کا تذکرہ ہوتا ہے لیکن یہ توبہ کی برکت تھی جس نے انہیں قابل سلام و لائق زیارت بنا دیا۔

ہمارے یہاں ایک عیب یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ہم پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرتے ہیں اور جب کوئی ٹوک دیتا ہے تو اپنی غلطی کا اقرار کرنے کے بجائے یہ کہ دئتے ہیں کہ ہم انہیں مومن کب سمجھتے ہیں ؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی کا مومن ہونا ہمارے سمجھنے کا بھی محتاج ہے کہ اگر ہم مان لیں تو وہ مومن ہو جائے ورنہ کافر ہی رہ جائے۔ ہمیں یہ سوچنا چائیے کہ یہ ہمارے کردار کا دوسرا عیب ہے، مومن کی برائی کرنا تو چھوٹا عیب تھا لیکن مومن کو غیر مومن کہ دیتا یا محب اہلبیت کے ایمان کا انکار کر دینا بہت بڑا جرم ہے۔

ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے دل میں ایسی طاقت پیدا کریں کہ جب ہم سے کوئی معمولی سی بھی غلطی ہو جائے تو فورًا اپنی غلطی تسلیم کر لیں۔ اگر اس کا تعلق خدا سے ہے تو اس کی بارگاہ میں توبہ کریں اور اگر بندوں کا دل دکھا ہے تو کھلے الفاظ میں ان سے معافی مانگیں۔

اسی میں حقیقی عزت ہے اور اسی سے قیامت کی رسوائی سے نجات ملے گی۔

سوالات

١۔ ہمارے سماج کی خرابی کیا ہے ؟

٢۔ پروردگار عالم کسے دوست رکھتا ہے ؟

٣۔ حضرت حُر نے کیا کیا ؟

٤۔ حضرت حُر کو توبہ سے کیا مرتبہ ملا ؟

۵ ٥۔ غلطیوں میں ہمارا فریضہ کیا ہے ؟

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :-

توبہ۔حُر۔مغرور ۔سبکی ۔ تاویل۔متکبر ۔ رسوائی۔ پشتہا پشت ۔ تمّنا۔ اعتراف۔ کردار۔ سرزد

پانچواں سبق

حضرت آدم علیہ السلام

آج سے ہزاراروں سال پہلے دنیا میں آدمیوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ دنیا تو تھی مگر رہنے والا کوئی نہ تھا اللّٰہ نے دنیا کو آباد کرنے کا فیصلہ کیا۔ مٹی کا ایک پتلا بنایا گیا اور اللّٰہ نے مٹی کے اس پتلے میں جان ڈال کر انسان بنایا۔

دنیا کے اس سب سے پہلا انسان کا نام تھا " آدم "

حضرت آدم علیہ السلام جنّت میں پیدا ہوئے آپ کی بیوی حضرت حّوا بھی جنّت میں پیدا ہوئیں دونوں بڑے مزے سے جنّت میں رہتے تھے۔

اللّٰہ نے جب حضرت آدم کو پیدا کیا تو سارے فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم کو سجدہ کرو۔ سب فرشتوں نے حضرت آدم کو سجدہ کیا لیکن شیطان نے آپ کو سجدہ نہیں کیا۔

اللّٰہ شیطان کی اس حرکت پر ناراض ہوا۔ چنانچہ شیطان کو جّنت سے نکال دیا گیا۔ اب شیطان دنیا میں ہے اور انسانوں کو بہکاتا رہتا ہے۔ وہ ہمیں بری بری باتیں سکھاتا ہے برے راستے دکھاتا ہے۔ تاکہ اللّٰہ بھی ناراز رہے۔

حضرت آدم حضرت حّر بہت دنوں تک جنّت میں رہے۔ اللّٰہ نے ان سے کہ دیا تھا کہ مزے سے جنّت میں رہو لیکن اس کے ساتھ ہی ان کو ایک خاص درخت کے پاس جانے سے منع کر دیا تھا۔ ایک دن حضرت آدم نے اس درخت کا پھل کھا لیا جس کے پاس جانے سے اللّٰہ نے منع کیا تھا۔ اللّٰہ نے اس کے بعد حضرت آدم کو دنیا میں بھیج دیا۔

حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں آئے اب یہی خدا کے سب سے پہلے نبی تھے جب اپ دنیا میں آئے تو آپ نے دیکھا کہ دنیا بالکل اجاڑ اور سنسان پڑی ہے کوئی آبادی نہیں بس جنگل پہاڑ اور سمندر ہیں اور اس کے بعد سنّاٹا۔

آپ دنیا میں رہنے لگے۔ اللّٰہ نے آپ کو بہت سے بچے عطا کئے اور پھر آپ کے انہیں بچّو کی اولاد سے دنیا آباد ہو گئی۔

آج ہماری دنیا میں اربوں آدمی بستے ہیں۔ یہ سب حضرت آدم کی اولاد ہیں۔ اس لئے سب آپس ميں بھائی بھائی ہیں یہ لوگ الگ الگ ملکوں میں رہنے کی وجہ سے الگ الگ زبانیں بولنے لگے۔ ان کے رنگ روپ الگ الگ ہو گئے۔

طور طریقے بدل گئے۔ لیکن سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد۔۔۔۔ آدم اور حُوا کے بیٹے۔

حضرت آدم علیہ السلام اللّٰہ کے پہلے نبی تھے۔ آپ اللّٰہ کے بڑے پیارے نبی تھے۔ آپ کو صفی اللّٰہ کہا جاتا ہے۔

صفی اللّٰہ کے معنی ہیں اللّٰہ کا چُنا ہوا۔ اللّٰہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی مجمت کے لئے چن لیا تھا۔ آپ کو بڑی عزت دی تھی۔ اسی لئے آپ صفی اللّٰہ کہلاتے ہیں۔

سوالات

١۔ حضرت آدم کس طرح پیدا ہوئے ؟

٢۔ حضرت آدم جنّت سے کیوں چلے آئے ؟

٣۔ اللّٰہ نے دنیا کو کس طرح آباد کیا ؟

٤ ۴ ۔ حضرت آدم کا لقب کیا ہے ؟

الفاظ کے معنی بتاؤ :۔

فیصلہ۔سجدہ ، رنگ روپ ۔صفی اللّٰہ۔ عطا ۔ اربوں ۔

چھٹا سبق

آنکھوں کا نور

بیٹے کو لوگ کہتے ہیں آنکھوں کا نور ہے

ہے زندگی کا لطف تو دل کا سرور ہے

گھر میں اسی کے دم سے ہے ہر وقت روشنی

نازاں ہے اس پہ باپ تو ماں کو غرور ہے

خوش قسمتی کی اس کو نشانی سمجھتے ہیں

کہتے ہیں یہ خدا کے کرم کا ظہور ہے

اکبر بھی اس خیال سے کرتا ہے اتفاق

اس کا بھی ہے خیال کہ ایسا ضرور ہے

البّہ شرط یہ ہے کہ بیٹا ہو ہو نہار

مائل ہے نیکیوں پہ بڑائی سے دور ہے

سنتا ہے دل لگا کے بزرگوں کے پسند کو

وقت کلام لب پہ جناب و حضور ہے

رکھتا ہے خاندان کی عزت کا وہ خیال

نیکوں کا دوست صجت بد سے اس کو دُھن

علم و نہر کے شوق کا دل میں وفور ہے

لیکن جو ان صفات کا مطلق نہیں پسند

اور پھر بھی ہے خوشی، تو خوشی کا قصور ہے

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :۔

نور ۔ لطف ۔ نازاں۔ غرور ۔ نفور ۔ ظہور ۔ اتفاق ۔ ہونہار ۔ چند ۔ صحبت ۔ کسب ۔ وفور ۔ صفات ۔ قصور ۔ نہر ۔ شب و روز ۔

ساتواں سبق

اہل بیت

اللّٰہ تعالیٰ نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کے اہلبیت کی محبت ہر مسلمان پر واجب کی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے۔

" اے رسول کہ دےجئے کہ میں تم سے رسالت کی تبلیغ کا بدلہ اس کے سوا کچھ نہیں چاہتا کہ میرے سے قرابت داروں سے محبت کرو۔"

رسول اللّٰہ نے ہمیں ایمان دیا، قرآن دیا، اللّٰہ سے ملایا اور اس کا بدلہ کیا تجویز کیا ؟

اہل بیت سے محبت

سوال یہ ہے کہ اہل بیت سے کن لوگ مراد ہیں ؟

اس کا فیصلہ قرآن نے کر دیا ہے۔

عرب کے جنوب مشرق میں ایک علاقہ ہے نجران، وہاں عیسائی رہتے تھے۔ ان عیسائیوں کے چند بڑے بڑے پادری مدینہ آئے تاکہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے مذہب کے معاملہ میں بحث کریں۔ ان لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے اس لئے وہ خدا کے بیٹے ہیں۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو سمجھایا کہ جس طرح اللّٰہ نے حضرت آدم کو ماں باپ کے بغیر پیدا کر دیا اسی طرح اللّٰہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا کر دیا۔ ایسی حالت میں حضرت عیسیٰ بھی اللّٰہ کے بندہ ہیں جس طرح حضرت آدم۔ عیسائی یہ صاف اور سیدھے بات مانتے پر تیار نہیں ہوئے۔ وہ اس پر اڑے ہوئے تھے کہ حضرت عیسیٰ اللّٰہ کے بیٹے ہیں۔ فیصلہ یہ ہوا کہ عیسائی رسول اللّٰہ سے مُباہلہ کریں۔

مباہلہ کے معنی یہ ہیں کہ دونوں اللّٰہ سے دعا کریں کہ جو حق پر ہو وہ باقی رہے اور جو جھوٹ کہتا ہو وہ مٹ جائے۔

اس موقع پر قرآن پاک میں یہ آیت نازل ہوئی۔

" اے نبی تمہیں علم پہنچ جانے کے بعد بھی یہ لوگ تم سے حجت کرتے ہیں تو ان سے کہ دو کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں۔ تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ۔ ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو بلاؤ۔ ہم اپنے نفسوں کو بلائیں تم اپنے نفسوں کو بلاؤ اور پھر، ہم ایک دوسرے کے لئے بد دعا کریں اور جھوٹوں پر اللّٰہ کی لعنت کریں۔"

[ سورہ آل عمران آیت ٢١ ]

مُباہلہ کے دن پیغمبر اسلام امام حسن، امام حسین، حصرت فاطتمہ زہرا اور حضرت علی علیہم السلام کو اپنے ساتھ لے گئے۔ لیکن عیسائی ڈر گئے۔ انہوں نے مباہلہ نہیں کیا بلکہ ہار مان کر جذیہ دےنے کا وعدہ کر کے واپس ہو گئے۔

اس آیت میں پیغمبر کو حکم دیا گیا کہ آپ نے اپنے بیٹیوں، عورتوں اور نفس کو لے جائیں پیغمبر اسلام نے اس حکم کی تعمیل اس طرح کۓ کہ :۔

بیٹوں کی جگہ امام حسن اور امام حسین کو۔

عورتوں کی جگہ حضرت فاطمہ زہرا کو

نفسوں کی جگہ حضرت علی کو ساتھ لیا۔

اور اس طرح دنیا کو بتا دیا کہ یہی آپ کے اہل بیت ہیں۔

اللّٰہ نے انہیں اہل بیت کی محبت ہم پر فرض قرار دی ہے۔

رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے بار بار ہمیں یہ بتایا ہے کہ مومن وہی ہے جو ان اہل بیت سے محبت کرتا ہے۔ جو شخص اہل بیت سے محبت نہیں کرتا ہے وہ منافق ہے ےعنی ظاہر میں مسلمان اور حقیقت میں کافر۔

سوالات

۱ ۔ اہل بیت سے مراد کون حضرات ہیں ؟

٢۔ اہل بیت کی محبت کیوں واجب ہے ؟

٣۔ مباہلہ میں کون حضرات شریک تھے ؟

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :۔

تجویز ۔ جنوب ۔ مشرق ۔ جزیہ ۔ منافق ۔ کافر ۔ قرابت دار ۔ مباہلہ ۔ اہل بیت ۔ نجران ۔ نفس۔

آٹھواں سبق

محبّت کا طریقہ

سرکار دو عالم اور آپ کے اہل بیت سے محبت ایمان کی جان ہے جس دل میں ان حضرات کی محبت نہ ہو وہ مومن کا دل نہیں کہا جا سکتا۔

ان حضرات کی سچّی محبّت یہ کہ ہم ان کی پوری پیروی کریں۔ اور ان کا اخلاق اپنے اندر پیدا کریں۔ سچّی خدا پرستی، حق پر مر مٹنے کا جزبہ، سچّائی، بہادوری، صبر، استقال، دیانت، ایثار، غریبوں کی امداد، ہمدردی، شرافت، علم، سخاوت اور دوسرے اچھے صفات اپنے اندر پیدا کریں، گناہوں سے بچیں، شریعت کی پوری پابندی کریں نماز قائم رکھیں اور اپنی زندگی ان کے سانچے میں ڈھال لیں۔

محبت کا دوسرا طریقہ ھہ ہے کہ ہم رسول و آلِ رسول کے کام کو آگے بڑھائیں۔ ان حضرات کی زندگی کا مقصد تھا دنیا میں اسلام پھیلانا اللّٰہ کا نام بلند کرنا۔ دین کو عام کرنا، انسانوں کو سچّا راستہ دکھانا اور سچّی خدا پرستی کی دوعت دینا۔ اگر ہ ان حصرات سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں بھی یہ کام صرور کرنا چاہئیے۔

محبت کا تیسرا چریقہ ہے کہ ہم ان کی خوشی میں خوش ہوں اور ان کے رنج میں رنجیدہ۔ ان کی ولادت کی تاریخوں میں محفل مسرت منعقد کریں۔ اور ان کی شہادت کی تاریخوں میں مجلس غم۔

خوشی کی تاریخیں یہ ہیں :۔

۱۷/ ربیع الاول--------------سرکار دو عالم اور امام جعفر صادق کی ولادت کی تاریخ۔

۲۳/ رجب--------------------سرکار دو عالم کی بعثت اور معراج

۱۳/ رجب--------------------حضرت علی علیہ السلام کی ولادت

۲۸/ ذیالحجہ----------------عید غدیر۔حصرت علی علیہ السلام کی خلافت کے اعلان کی خوشی۔

۲۴/ ذیالحجہ----------------عید مباہلہ۔ مباہلہ میں آل رسول کی کامیابی کی خوشی۔

۹/ ربیع الاول-----------------عید زہرا۔ دشمنان اہل بیت کے رنے کی خوشی۔

۱۵/ رمضان------------------امام حسن علیہ السلام کی ولادت

۳/ شعبان-------------------امام حسین علیہ السلام کی ولادت

۱۵/ شعبان------------------حضرت امام آخر الزمان کی ولادت

ان کے علاوہ ہر معصوم کی ولادت کی تاریخ خوشی کی تاریخ ہے۔ ان تاریخوں میں محفل کرنا قصیدہ پڑھنا، عطر لگانا، اچھے کپڑے پہننا، خوشبو سلگانا، مومنین سے مصافحہ کرنا، ایک دوسرے کو مبارکباد دینا، مکانوں پر روشنی کرنا بڑا ثواب رکھتا ہے۔

غم کی خاص تاریخیں یہ ہیں۔

عشرہ محرم، سوم اور چہارم امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی یادگار۔

۲۸ ۔صفر رسول اللّٰہ کی وفات اور امام حسن کی شہادت۔

۸/ ربیع الاول امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت۔

۱۹/۲۰ ١/ ۲۱ رمضان حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کی یادگار۔

ان کے علاوہ ہر معصوم کی تاریخ شہادت غم کی تاریخ ہے۔

غم کی تاریخوں میں مجلس منعقد کرنا ثواب رکھتا ہے۔

امام حسین علیہ السلام کے غم میں مجلس کرنا، آنسو بہانا، ماتم کرنا، مرثیہ اور نوحہ پڑھنا، کالے کپڑے پہننا، عاشورہ کے دن فاقہ کرنا آل رسول سے سچّی محبت کی نشانی ہے۔

سوالات

١۔ خوشی اور غم کی خاص تاریخیں کیا ہیں ؟

٢۔ خوشی اور غم کی تاریخوں میں ہمارا فرض کیا ہے ؟

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :۔

صبر ۔ اخلاق ۔ دیانت ۔ ایثار ۔ استقلال ۔ سخاوت ۔ رنجیدہ ۔ شریعت ۔ محفل ۔ مجلس ۔ یادگار ۔ مصافحہ ۔

نواں سبق

عزاداری

فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے میدان میں اپنی اور اپنے عزیزوں کی قربانی پیش فرما کر اسلام کو ایک نئی زندگی عنایت کی ہے ہم اسی واقعہ کی یاد عزاداری کی شکل میں مناتے ہیں۔

دنیا کی ہر قوم اپنے بزرگوں کو یاد رکھتی ہے ۔ اس سے لوگوں میں خوشی جزبہ اور زندگی پیدا ہوتی ہے۔ قوم اور مذہب کے لئے کام کرنے کا جزبہ اُبھرتا ہے اور تاریخ کے پرانے واقعات زندگی کے ہر موڑ پر ہماری رہمنائی کرتے ہیں۔ کربلا کا واقعہ اسلامی تاریخ کا سب سے اہم واقعہ ہے۔ اس لئے ہم بھی ایک زندہ وقم کی حیثیت سے اس کی یاد مناتے ہیں۔

کربلا کے شہیدوں کی یاد میں ہم حق پرستی خدا پرستی، ایثار، فدا کاری شجاعت عزم، استقلال، ضبر، غرض اعلیٰ انسانی صفات پیدا کرتی ہے۔

مجالس سید الشہدا میں ہمیں تفسیر، حدیث، تاریخ اور دوسرے علوم اسلام سننے کا موقع ملتا ہے اور ہماری دینی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ غیر قوموں کے لوگ مجلسوں میں آتے ہیں تو ہمارے مذہب کی تبلیغ ہوتی ہے۔

محرّم میں ہم علم اٹھاتے ہیں جس سے ہمارے دلوں میں یہ جزبہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اسلام کا جھنڈا ہمیشہ بلند رکھیں گے اور اسلام کا جھنڈا اونچا رکھنے کے لئے حضرت عباس کی پیروی میں اپنی جان تک قربان کر دیں گے۔

محرم میں ہم تابوت اٹہاتے ہیں جس سے ہمارے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوتا ہ کہ اسلام کا نام باقی رکھنے کے لئے اگر موت کا بھی سامان کرنا پڑے تو اس لئے تیار رہنا چائیے۔

ہم ضریح یا تعزیہ رکھتے ہیں امام حسین علیہ السلام کے روضہ کی نقل ہے جس کو دیکھ کر ہمارے سامنے کربلا کے شہیدوں کی تصویر آ جاتی ہے جو ہمیں اسلام اور ایمان کے لئے ہر قربانی پیش کرنے کا سبق دیتی ہے۔

ہم امام حسین علیہ السلام کۓ غم میں روتے ہیں۔ اس لئے کہ

١، تمام انبیا اس غم میں روئے ہیں۔

۲۔ حضرت محمد مصطفےٰ اس غم میں روئے ہیں۔ چنانچہ روز عاشوہ جناب ام سلمہ نے جو رسول اللّٰہ کی بیوی تھیں جواب میں نبی کریم کو روتے دیکھا تھا۔

٣۔ رونا اس جزبہ کا اظہار ہے کہ اگر ہم کربلا میں ہوتے تو اس روز امام کے ساتھ مل کر اسلام پر اپنی جان فدا کر دیتے۔

٤۔ رونا مظلوم سے محبت کی نشانی ہے اور مظلوم سے محبت سچّی انسانیت ہے۔

٥۔ رونا ہمارے دلوں میں اس سچّی خدا پرستی اور حق پرستی کو زندہ رکھتا ہے جس پر ایمان کی بنیاد قائم ہے۔

٦۔ رونا رسول اور آل رسول سے سچّی محبت کی نشانی ہے ہم اپنے پیارے رسول کو ان کےفرزند کی موت پر پُرسا دیتے ہیں اور رو رو کر پُرسا دیتے ہیں جو ہماری سچّی محبت کا ثبوت ہے۔

عزاداری سے اسلام کی سچّی تبلیغ ہوتی ہے۔

عزاداری سے ایمان تازہ رہتا ہے۔

عزاداری سے خداپرستی کا جزبہ زندہ رہتا ہے۔

عزاداری سے ہمارا اخلاق سنوارتا ہے۔

عزاداری سے اسلامی تاریخ کے سب سے اہم واقعہ کی یاد تازہ رہتی ہے۔

اس لئے۔۔۔۔۔

عزاداری کو باقی رکھنا ہر سچّے مسلمان کا فرض ہے۔

سوالات

١۔ ہم عزاداری کیوں کرتے ہیں ؟

٢۔ عزاداری کیا چیز ہے ؟

٣۔ امام حسین پر کون کون رویا ؟

۴ ۔ رونے کے کیا فائدہ ہیں ؟

ان الفاظ کے معنی بتایئے :۔

عزم ۔ شبیہ ۔ بنیاد ۔ عزاداری ۔ تفسیر ۔ حدیث ۔ تاریخ ۔ رہنمائی اہم ۔ حق پرستی ۔ جزبہ ۔ غرض ۔ اعلیٰ ۔ عزیز ۔ عنایت ۔ فداکاری

دسواں سبق

بارش کا پہلا قطرہ

گھنگھور گھٹا تُلی کھڑی تھی پر بوند ابھی پڑی تھی

ہر قطرہ کے دل میں تھا یہ خطرہ ناچیز ہوں میں غریب قطرہ

کیا کھیت کی میں بجھاؤںگا پیاس اپنا ہی کروں گا ستیاناس

آتی ہے برسنے سے مجھے شرم مٹی پتھر تمام ہیں گرم

خالی ہاتھوں سے کیا سخاوت پھیکی باتوں میں کیا حلاوت

لس بر تے پہ میں کروں دلیری میں کیا ہوں بساط کیا ہے میری

ہت قطرے کے دل میں تھا یہی غم سر گوشیاں ہو رہی تھیں باہم

کھچڑی سی گھٹا میں پک رہی تھی کچھ کچھ بجلی چمک رہی تھی

اک قطرہ کہ تھا بڑا دلاور ہمت کے محیط کا ثناور

فیاض و جوا دو نیک نیت پھڑکی اس کی رگ حمیت

بولا للکار کر کہ آؤ میرے پیچھے قدم بڑھاؤ

کر گزر و جو ہو سکے کچھ اماں ڈالو مُردہ زمین میں جان

یارو یہ ہچر مچر کہاں تک اپنی سی کرو بنے جہاں تک

مل کر جو کرو گے جان فشانی میدان میں پھر دو گے پانی

کہتا ہوں یہ سب سے بر بلا میں آتے ہو تو آؤ لو چلا میں

یہ کہ کے وہ ہو گیا روانہ دشوار ہے خی پہ کھیل جانا

ہر چند کہ وہ تھا بے بضاعت کی اس نے مگر بڑی شجاعت

دیکھیی جرات جو اس سخی کی دو چار ن ے اور پیروی کی

پھر ایک کے بعد ایک لپکا قطرہ قطرہ زمین پہ ٹپکا

آخر قطروں کا بندھ گیا تارا بارش لگ ہو نے موسلادھار

پانی پانی ہو گیا بیاباں سیراب ہوئے چمن خیاباں

تھی قحط سے پایمال خلقت اس مینھ سے ہوئی نہال خلقت

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :۔

دیری ۔ سر گوشیاں ۔ ستیاناس ۔ حلاوت / بساط ۔ محیط ۔ دلاور ۔ شناور ۔ فیاض ۔ جواد ۔ حمیت ۔ بضاعت ۔ بیاباں ۔ خیاباں ۔ مچر مچر ۔ قحط ۔ پائمال ۔ سجاعت ۔ موسلادھار ۔ خلقت ۔ جرائت ۔ جا نفشانی ۔ برتے ۔ خی پہ کھیل جاتا ۔ ناچیز ۔ نہال۔

گیارہواں سبق

تعلیم

ہمارے ملک میں تعلیم کا بےحد چرچا ہے، جدھر دیکھو تعلیم کا زور و شور ہے۔ شہروں میں تعلیم، دیہاتوں میں تعلیم، امیروں میں تعلیم، غریبوں میں تعلیم، اونچے لوگوں میں تعلیم، پیچھڑی قوموں میں تعلیم۔ اور تعلیم بھی سیکڑوں طرح کی۔ حساب کی تعلیم، جغرافیہ کی تعلیم، سائنس کی تعلیم،تاریخ کی تعلیم، ادب کی تعلیم، فلسفہ کی تعلیم، نفسیات کی تعلیم، مذہب کی تعلیم، طِب کی تعلیم، ڈاکٹری کی تعلیم۔ مدرسے بھی مختلف قسم کے مدرسے سرکاری مدرسے، پبلک مدرسے، نیم سرکاری مدرسے، عوامی مدرسے، اونچے معیار کے مدرسے، معمولی درجے کے مدرسے۔ یہ سب کچھ ہے مگر نہیں ہے تو زندگی کی تعلیم۔ کسی مدرسے میں نہیں بتایا جاتا ہے کہ اٹھنے بیٹھنے کا طریقہ کیا ہے۔ نہ یہ بتایا جاتا ہے کہ کھانے پینے کا سلیقہ کیا ہے۔ نہ یہ سکھایا جاتا ہے کہ بزرگوں کے ساتھ کیا برتاؤ ہونا چائیے، نہ یہ سکھایا جاتا ہے کہ بچّوں سے کیسے ملنا چائیے۔ نہ یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ استاد کا کیا حق ہے۔ نہ یہ سبق سکھايا جاتا ہے کہ شاگردوں کے ساتھ کیا سلوک ہونا چائیے۔ غرض زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہی ہے جس کا طور طریقہ سکھا دیا جاتا ہو۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پڑھے لکھے بیشمار نظر آتے ہیں۔ ڈگری رکھنے والے لاتعداد دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن تہذیب و آداب سے بےخبر لوگ بہت کم ہیں۔ کالج سے سندلے کر نکل آتے ہیں اور بیٹھ کر پیشاب کرنے تک کی تمیز نہیں ہوتی۔ یونیورسٹی سے ڈگری لے کر چلے آتے ہیں اور ٹھکا نے سے بیٹھ کر کھانا کھانے تک کا طریقہ نہیں معلوم ہوتا۔ استاد کے خلاف ہنگامہ کرتے ہیں، ماں باپ سے لڑتے جھگڑتے ہیں، بڑوں کا مذاق اڑاتے ہیں، بچّوں کو اذیت پہونچاتے ہیں۔ خدا اور رسول کا نام تک نہیں لیتے، نہ نماز سے کام نہ روزے سے نہ حج سے واسطہ نہ خمس و زکوٰة سے۔

سوچو اگر تعلیم اسی کا نام ہے تو کیا اس تعلیم سے وہ جہالت بہتر نہیں ہے جس میں تہذیب ہو جاہل لوگ سب کی قدر کرتے ہیں۔ بڑوں کی عزت کرتے ہیں۔ چھوٹوں سے محبت کرتے ہیں۔ جاہل مائیں بچّوں کا خیال رکھتی ہیں ان کی ہر مانگ پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور آج کل کی پڑھی لکھی مائیں چھوٹے بچّوں کو گھر میں پھینک کر سینما چلی جاتی ہیں۔ انہیں بچّے کے رونے پیٹنے پر بھی رحم نہیں آتا۔ بڑے لڑکوں کو اپنے ساتھ سینما لے جاتی ہیں۔ اور یہ خیال بھی نہیں آتا ہے کہ ہم تو گناہ کر ہی رہے ہیں اپنے بچّے کو بھی خدا اور رسول کی دشمنی پر آمادہ کر رہے ہیں۔

بچّوں اب یہ طے کر لو کہ ایسی تعلیم کا ساتھ نہ دو گے جس میں ادب و تہذیب نہ ہو۔ ایسی لوگوں کی اصلاح کرو گے جو ادب و تہذیب سے دور ہیں۔ اپنے بزرگوں کا ادب کرو گے اپنے خدا اور رسول کا حک مانو گے کھڑے ہو کر کھانا نہ کھاؤ گے، کھڑے ہو کر پیشاب نہ کرو گے سینما نہ جاؤ گے گانا نہ سنو گے، ناچ نہ دیکھو گے۔ کسی کی برائی نہ کرو گے استاد کا ادب کرو گے۔ اگر تم نے ایسا کر لیا تو تم سے خدا بھی خوش ہو گا اور رسول و امام بھی رونہ سب ناخوش ہو جائیں گے۔

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :۔

معیار ۔ سلیقہ ۔ جہالت ۔ تہذیب ۔ اذیت ۔ سند ۔ جغرافیہ ۔ فلسفہ ۔ طب ۔ نفسیات ۔ پبلک ۔ نیم سرکاری۔

بارہواں سبق

برسات کی بہاریں

ہیں اس ہوا میں کیا کیا برسات بہار میں

سبزوں کی لہلہاہٹ باغات کی بہار میں

پودوں کی جھمجھماہٹ قطرات کی بہاریں

ہر بات کے تماشے ہر گھات کی بہاریں

کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہار میں

ہر جا بچا رہا ہے سبز ہرے بچھونے

قدرت کے بچھ رہے ہیں ہر جا ہرے بچھونے

جنگل میں ہو رہے ہیں پیداہرے بچھونے

بچھوا دئے ہیں حق نے کیا کیا ہرے بچھونے

کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہار میں

سبزوں کی لہلہاہٹ کچھ ابر کی سیاہی

اور چھائی ہیں گھٹائیں سرخ اور سفید کاہی

سب بھیگتے ہیں گھر گھر لے ماہ تابما ہی

یہ رنگ کون رنگے تیرے سوا الا ہی

کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہار میں

کیا کیا رکھ ہے یا رب سامان تیری قدرت

بدلے ہے رنگ کیا کیا ہر آج تیری قدرت

سب مست ہو رہے ہیں پہچان تیری قدرت

تیتر پکارتے ہیں سُبحانُ تیری قدرت

کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہار میں

بولیں بٹے بٹیریں قسری پکار کؤ کؤ

پی پی کرے پپیہا بگلا پکارے تو تو

کیا کیا ہُد ہَدوں کی حق حق کیا فاختوں کی بو بو

سب بڑ رہے ہیں تجھ کو کیا پنکھ کیا پکھیرو

کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہار میں

چھت گرنے کا کسی جاغل شور ہو ر ہا ہے

دیوار کا بھی دھڑ کا کچھ ہوش کھو رہا ہے

ڈر ڈر حویلی والا ہر آن رو رہا ہے

مفلس تو چھو نپڑے میں دل شاد سو رہا ہے

کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہار میں

جو اس ہوا میں یارو دولت میں کچھ بڑھے ہیں

ہے ان کے صرپہچھتری ہاتھ پہ وہ چڑے ہیں

ہم سے غریب غرباء کیچڑ میں گر پڑے ہیں

ہاتھوں میں جوتیاں میں اور پائنچے چڑھے ہیں

کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہار میں

کیچڑ سے ہو رہی ہے جس جا زمین پہ کھسلنی

مشکل ہوئی ہے واں سے ہر ایک کو راہ چلنی

پھسلا جو پائوں پگڑی مشکل ہے پھر سنبھلنی

جوتی گری تو واں سے کیا تاب پھر نکلی

کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہار میں

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :۔

مگحات ۔ سرخ ۔ کاہی ۔ ماہ ۔ پنکھ پکھیرو ۔ سبجان ۔ غل ۔ شاد ۔ تاب ۔ رب ۔ مفلسی ۔ غرباء ۔ قمری ۔

تیرہواں سبق

حضرت محمد مصطفےٰ

ولادت : ١ ۷ ٧/ربیع الاول ١ھ عام انفیل

وفات : ۲۸ / صفر ۱۱ ١ھ

مقام ولادت : مکّہ معظّمہ

روضہ اقدس : مدینہ منورّہ

والد کا نام : حضرت عبدّاللّٰہ

والدہ کانام : جناب آمنہ

انبیاء و مرسلین کے سردار، دین و دنیا کے مالک، قیامت کے دن ہم گنہگاروں کے بخشوانے والے، اللّٰہ کے پیارے، انسانوں کے محسن حضرت محمد مصطفۓٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم آج سے تقریبًا چودہ سو پچھتر سال پہلے مکّہ میں پیدا ہوئے۔

آپ کی لادت کی تاریخ ۱۷/ ربیع الاول ۱ ١ عام انفیل ہے۔

آپ اتنے سچّۓ اور ایماندار تھے کہ آپ کے دشمن بھی آپ کو صادق اور امین کہہ کر پکارتے تھے۔ چالیس سال کی عمر میں اللّٰہ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ انسانوں کوا للّٰہ کا پیغام سنائے اور بھٹے ہوؤں کو اسلام کی سچّی اور سیدھی راہ دکھائے۔

آپ نے اللّٰہ کے حکم سے اسلام پھیلانا شروع کیا تو مکّہ کے لوگ آپ کے دشمن ہو گئے۔ آپ کو طرح طرح سے ستانا لگے لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ آپ شکستہ خاطر نہیں ہوتے تو انھوں نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک رات کو بہت سے آدمیوں نے مل کر آپ کا مکان گھیر کیا اور یہ چاہا کہ آپ کو قتل کر دیں اللّٰہ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ اپنے بستر پر علی السلام کو سلا کر اسی رات میں مکّہ سے مدینہ چلے جائیں چنانچہ آپ گھر سے اس طرح نکلے کہ دشمن آپ کو نہیں دیکھ سکے اور آپ مدینہ کو روانہ ہو گئے۔

اسی واقعہ کو ہجرت کا واقعہ کہتے ہیں ہمارا اسلامی سال اسی واقعہ سے شروع ہوتا ہے۔ اس لئے ہم اسے ہجرت سال کہتے ہیں۔

مدینہ میں بھی آپ کو آرام سے رہنا نہیں ملا۔ چنانچہ عربوں اور یہودیوں سے آپ کی کئی لڑائیاں ہوئیں۔ ان میں بدر، احد، حزاب خیبر اور حنین کی لڑائیاں بہت مشہور رہیں۔ آپ ان لڑائیوں میں کامیاب ہوئے اور پورے عربستان پر آپ کا قبصہ ہو گیا۔

آخر میں مکّہ بھی فتح ہو گیا۔ مکّہ والوں نے آپ کو بہت ستایا تھا آپ سے بہت لڑائیاں لڑی۔ لیکن جب آپ نے مکّہ فتح کیا تو آپ نے ان سے کائی بدلہ نہیں لیا۔ آپ نے اپنے سب دشمنوں کو معاف کر دیا۔

آپ کو اللّٰہ نے قرآن شریف دیا جو اللّٰہ کی آخری کتاب ہے۔ آپ کے بعد اللّٰہ نے ہماری ہدایت کے لئے بارہ امام مقرّر فرمائے جن میں سے بارہویں امام اب بھی زندہ و سلامت ہیں ہمارے سچّے نبی نے اپنی زندگی میں سب ماموں کے نام مسلمانوں کو بتا دئے تھے۔

آپ نے اللّٰہ کے اچھے اور سچّے دین کا جھنڈا اس شان سے بلند کیا کہ آج تک دنیا کے کروڑوں آدمی اللّٰہ کی وحدانیت پر ایمان رکھتے ہیں۔

آپ نے ترسٹھ سال کی عمر پائی۔ ۲۸ / صفر ۱۱ ھ کو انتقال کیا۔ آپ کی قبر مدینہ منورہ میں ہے۔

آپ کو اللّٰہ نے بہت سے معجزے دئے تھے آپ جس سوکھے درخت کے نیچے بیٹھ جاتے وہ ہرا بھرا ہو جاتا، جس اندھے کنویں میں لعاب دہین ڈال دیتے اس میں پانی پیدا ہو جاتا۔ جس سنگریزے کو ہاتھ میں اٹھا لیتے وہ تسبیح پڑھنے لگتا۔

ایک مرتبہ دسمنوں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ اللّٰہ کے سچّے نبی ہیں تو چاند کے دو ٹکرے کر دیجئے۔ آپ نے چاند کی طرف انگلی اٹھائی تو اس کے دو ٹکرے ہو گئے تھوڑی دیر الگ رہ کر یہ دونوں ٹکڑے پھر آپس میں مل گئے۔ آپ کا سب سے بڑا معجزہ۔قرآن ہے جو آج بھی ہمارے سامنے ہے جس کا جواب آج تک کوئی نہ لا سکا۔

اپ کا ہم پر یہ بڑا احسان ہے کہ آپ نے ہمیں اسلام کی نعمت دی۔

ہزاروں درود و سلام ہوں آپ پر اور آپ کے اہل بیت پر۔

سوالات

۱ ۔ ہمارے نبی کب پیدا ہوئے تھے ؟

٢۔ ہجرت کا واقعہ کیا ہے ؟

٣۔ ہمارے سال کو ہجری کیوں کہا جاتا ہے ؟

٤۔ آپ کے معجزات کیا تھے ؟

۵ ٥۔ مکّہ کے فتح ہو جانے پر آپ نے دشمنوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ؟

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :

محسن ۔ وحدانیت ۔ لعاب ۔ سنگریزہ ۔ درود ۔ محمد ۔ مصطفےٰ ۔ امین ۔ شکستہ خاطر ۔ بدر ۔ عام الفیل ۔ معجزہ

چودہواں سبق

معراج

وہ چلا براق پہ جس گھڑی تو زمین کے بعد ہوا میں تھا

رہی پیچھے تھک کے ہوا اِدھر، وہ ہوا سے آگے فضا میں تھا

ہوئی دم زدن میں فضا بھی طر، وہ فضا سے بڑھ کے سما میں تھا

کشش اور بڑھ گئی عشق کی وہ سما سے قرب خدا میں تھا

تو ملک پکارے کہ مصطفےٰ " بَلَغَ ا لعُلےٰ بِکَمَالِہ "

ہوئی عرش و فرش کی جب بنا تو زمانہ تیز و تار تھا

نہ قمر کی چاندنی کا نشاں نہ پتہ تھا پر تو مہر کا

تو حجاب راز سے دوتًا یہی نور پاک چمک اٹھا

تو فظا میں شور درود تھا، کہ جہاں کا رنگ بدل گیا

گئی تیرگی ہوئی روشنی " کَشَفَ الدُّجےٰ بِجمَالِہ "

یہ وہ ذات ہے جسے حق نے رکھا جلاتوں کے حجاب میں

اسی برقِ ہُسن کا گھر کبھی تھا تجلیوں کے سحاب میں

یہ وہ نور ہے کبھی جس کا سایہ نظر نہ آ سکا خواب میں

اسے لاکھوں غور طر دئے گئے ہیں فضیلتوں کے گلاب میں

اسے ایسا پاک بنا دےا " حُسَنَت جَمِیعُ خِصَالِہ "

وہ نبی کا حسن و جمال تھا کہ درود بھیجتا تھا خدا

یہی شور صل علےٰ النبی کا ملائکہ میں سدا رہا

شب و روز شام و سحر ہمیشہ وہ رحمتوں میں گھر ارہا

مگر اس کی اُمت خاص کا جو اد اس چہرہ نظر پڑا

تو خدا نے اذن یہ دے دیا " صلُّو اعَلَية وٰآلِہ "

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :۔

معراج ۔ فضا ۔ دم زدن ۔ کشش ۔ عرش ۔ فرش ۔ پرتو ۔ مہر ۔ قرب ۔ تیرا وتار ۔ قمر ۔ حجاب ۔ مصفےٰ ۔ برق ۔ تجلی ۔ سحاب ۔ سدا ۔ شب ۔ سحر ۔ اذن ۔

رباعی اور اس کا ترجمہ یاد کرو:

بَلَغَ العُلےٰ بِکَمَالِة آپ نے کمالات کی بلندیوں کو پایا

کَشَفُ الدُّجیٰ بِجَمَالِة اپنے حسن وجمال سے تاریکیوں کا خاتمہ کر دیا

حَسُنَت جَمِیعُ خِصُالِة آپ کی ہر صفت پاکیزہ اور حسین ہے

صَلُّو اعَلِية وَالِة پیغمبر اور ان کی آل پاک پر درود بھیجو

پندرہواں سبق

حضرت علی علیہ السلام

ولادت : ۱۳ / رجب ۳۰ ھ عام الفیل شہادت : ۲۱ / رمضان ۵۴۰ ہجری

مقام ولادت : خانہ کعبہ[مکہ معظمہ] روضہ اقدس : نجف اشرف

والد کا نام : حضرت ابو طالب عمران والدہ کا نام : فاطمہ بنت اسد

ہمارے پہلے امام حضرت علی علیہ السلام ۱۳ ١/ رجب کو کعبہ کے اندر پیدا ہوئے نبی کریم حضرت مصطفےٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو اولاد کی طرح پالا پوسا۔ یہ وہ وقت تھا کہ سارے عربستان میں بت پرستی پھیلی ہوئی تھی۔ لیکن آپ پیدائش کے وقت سے عالم اور معصوم تھے۔

جب آپ دس برس کے ہوئے تو ہمارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان کیا ۔ اس اعلان کے ساتھ ہی حضرت علی علیہ السلام نے اپنی جاں نثاری کااعلان فرمایا۔

مکّہ میں اللّٰہ کے پاک نبی پر جتنے ظالم ہوتے تھے وہ آپ پر بھی، ہوتے تھے۔ لیکن آپ کمسنی کے باوجود محض اللّٰہ اور اسلام کے لئے یہ ظلم بڑی خاموشی سے برداشت کرتے رہے۔ آخر وہ دن آ گیا جب ہمارے نبی مکّہ سے مدینہ ہجرت کر گئے۔ ہجرت کی رات رسول اکرم کا مکان دشمنوں نے گھر رکھا تھا مگر حضرت رسول اکرم کی جان بچانے کے لئے حضرت علی علیہ السلام آپ کے بستر پر سو گئے۔ کافریہ سوچ کر مطمئن رہے کہ رسول اکرم سو رہے ہیں اور اللّٰہ کے پاک نبی آرام سے مدینہ چلے گئے اس طرح حضرت علی علیہ السلام نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کے رسول اللّٰہ کی جان بچائی۔

ہجرت کے بعد حضرت علی علیہ السلام بھی مدینہ چلے گئے۔

دشمنوں نے اسلام اور اللّٰہ کا نام مٹانے کے لئے مسلمانوں پر کئی مرتبہ چڑھائی کی۔ بدر، احد، خیبر، اور حزاب وغیرہ میں مسلمانوں اور کافروں کے مانین سخت جنگ ہوئی۔ حضرت علی علیہ السلام نے ان لڑائیوں میں خاص حصّہ لیا۔ اور آپ ہی کی بدولت مسلمانوں کو ہر مرتبہ کافروں کے مقابلے میں کامیابی ہوئی۔

اللّٰہ کے پاک رسول نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا کی شادی آپ سے کر دی تھی۔ اللّٰہ نے آپ کو دو بیٹے امام حسن اور امام حسین عنایت فرمائے۔ ان کے علاوہ دو بیٹیاں حضرت زینب اور حضرت ام کلثوم بھی آپ کے یہاں پیدا ہوئی۔ جناب محسن ماں کے پیٹ میں شہید ہوئے۔

رسول کریم ان چاروں بچّوں کو جان سے زیادہ چاہتے تھے۔

رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کے انتقال کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے قرآن پاک جمع کیا اور مسلمانوں میں تبلیغ و ہدایت فرماتے رہے۔ قرآن مجید اور حدیث و تاریخ کی رو سے آپ ہی رسول کے بعد ان کے پہلے خلیفہ ہیں۔

٣٥ ہجری میں آپ کو تمام مسلمانوں نے اپنا حاکم چن لیا اس زمانہ میں آپ کو تین بڑی لڑائیاں لڑنا پڑی۔ جو جمل، صفین، اور نہروان کے ناموں سے مشہور ہیں۔

۱۹ ٩/ رمضان ۵۴۰ ہجری میں آپ کو عین اس وقت جبکہ آپ مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے سجدہ کی حالت میں عبد الرحمان بن ملجم نے تلوار سے زخمی کیا اور ۲۱ رمضان ۴۰ ھ کو آپ کی شہادت ہوئی۔

حضرت علی علیہ السلام بہت بڑے عالم تھے، بڑے بہادر تھے بڑے سخی تھے بڑے عبادت گزار تھے غریبوں کے بڑے ہمدرد تھے۔ اور خود فاقہ کر کے بھی دوسروں کا پیٹ بھرنا ضروری سمجھتے تھے جس زمانے میں آپ ساری اسلامی دنیا کے بادشاہ تھے اس وقت بھی آپ پیوند لگے کپڑے پہنتے اور روکھی سوکھی غذا پر قناعت کرتے۔ آپ کی زندگی سادگی کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی۔ اپنی روزی کے لئے آپ باغوں میں مزدوری کرنے سے بھی نہیں ہچکتے تھے۔ اور اس طرح جو تھوڑی بہت آمدنی آپ کو ہو جاتی اسے بھی اللّٰہ کی راہ اور مسلمانوں کی خدمت میں خرچ کر دیتے تھے۔

آپ رسول اللّٰہ صلی علیہ و آلہ وسلم کے پہلے خلیفہ اور جانشین ہیں۔ اللّٰہ کی نگاہ میں آپ کا بڑا مرتبہ ہے۔ قیامت کے دن آپ جنّت اور جہنّم تقسیم کرنے والے ہوں گے۔ آپ ہی حوض کوثر کے ساقی ہوں گے۔ آپ کے دوست جنّت میں جائیں گے اور آپ کے دشمن جنّت کی بو بھی نہیں سونگھ سکیں گے۔

اللّٰہ کی نگاہوں میں آپ کا مرتبہ اس لئے ہے کہ آپ جئے تو اللّٰہ کے لئے اور مرے تو اللّٰہ کے لئے۔ آپ نے محبت کی تو اللّٰہ کے لئے اور جند کی تو اللّٰہ کے لئے۔ اللّٰہ نے اس کا یہ بدلہ دیا کہ دنیا میں آپ ایمان والوں کے سردار قرار پائے اور آخرت کے انعام میں کیا کہنا جنّت آپ کی بلکہ آپ کے غلاموں کی ملکیت ہوگی۔

یہ ہے اللّٰہ کے دربار میں مجسّم اسلام و ایمان کی شان اور اسلام کے لئے اس کی خدمت کا بدلہ۔

خدا ہمیں بھی آپ کی پیروی میں ایک سچّا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے

سوالات

١۔ حضرت علی کی اولاد کے نام کیا کیا تھے ؟

٢۔ آپ کے کارناموں کو گناؤ ؟

٣۔ آپ کو اتنے مرتبے کیوں ملی ؟

ان الفاظ کے معنی بتاؤ ؛

عام الفیل ۔ اسد ۔ پیوند ۔ غذا ۔ شہید ۔ مجسّم ۔ توفیق ۔ ہجرت ۔ احزاب ۔ جمل ۔ صفین ۔ نہروان ۔ عربستان ۔ جوکھم ۔ قناعت ۔ ساقی۔

سولہواں سبق

حُبّ حیدر ہی مِعَیار ایمان ہے

ہر بلندی خرد اور کمالات کی ہے نبی کے لئے یا علیٰ کے لئے

چن لیا اس لئے میں نےباب علی اپنے افکار کی برتری کے لئے

-----------------------------

حکم تو مل گیا بندگی کا مگر ہند گی جس کی تھی تھا بعید نظر

خانہ حق کی دیوار نے ٹوٹ کر ایک وسیلہ دیا بندگی کے لئے

-----------------------------

حُبّ حیدری معیار ایمان بہر تصدیق بوزر ہے سلمان ہے

سب سے بڑھ کر محمد کا فرمان ہے اور کیا چائیے آہ گی کے لئے

-----------------------------

میرے مولا کے قبضہ میں لوح و قلم میرا مولا مدار و جود و عدم

میرے مولا کے دوش نبی پر قدم حوصلہ چائیے ہمسری کے لئے

------------------------------

میری بالیں یہ بھی ہوگا نور علی میرے مرقد میں بھی ہوگا نور علی

تم نے حیدر سے کیوں دشمنی مول لی اب ترستے رہو روشنی کے لئے

-----------------------------

آپ سجدوں پہ سجدے کئے جائیے آپ قرآن دھو کر پئے جائے

جو بھی آئے سمجھ میں کئے جائیے شرط کچھ اور ہے بندگی کے لئے

-----------------------------

وہ علی جو دو عالم کا مختار ہے وہ علی جو مشیت کی تلوار ہے

اس کو منظور امت کا ہر وار ہے صرف اسلام کی زندگی کے لئے

-------------------------------

سوالات

تیسرا اور چوتھے بند میں شاعر نے کیا کہا ہے ؟ اس کا مطلب بتاؤ ؟

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :

خرد ۔ باب ۔ افکار ۔ برتری ۔ بعید ۔ خانہ ۔ وسیلہ ۔ حب معیار ۔ تصدیق ۔ لوح ۔ وجود ۔ مدار ۔ عدم ۔ دوش ۔ بالیں ۔ مرقد ۔ مشیت ۔ ہمسری ۔

سترہواں سبق

حضرت فاطمہ زہرا

ولادت : ۲۰/ جمادی اشانیہ ۴ بعثت وفات : ٣ ۳/ جمادی الشانیہ ۱۱ ھ

مقام ولادت : مکہ مکرّمہ مزار اقدس : جنت البقیع[مدینہ منورہ]

والد کا نام : حضرت محمد مصطفےٰ والدہ کا نام : خدیجہ بنت خویلد

اسلام کی شہزادی حضرت فاطمہ زہرا ولیہا السلام بعثت کے پانچویں سال یعنی ہجری سن شروع ہونے سے ۸ سال پہلے ۲۰ جمادی الشانیہ کو پیدا ہوئی اسی سال خائنہ کعبہ کی دوبارہ تعمیر ہوئی۔

٧ بعثت میں اللّٰہ کی آخری رسول حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کو جب ان کے چاہنے والے اور خاص ہمدردوں کے ساتھ شعب ابی طالب میں کفار مکہ نے قید کیا تو اپنی ماں آجدیجہ کی گود میں چند سال کی ننھی سی جان فاطمہ زہرا بھی ماں باپ کے ساتھ قید کی سختیاں چھیلنے کے لئے گئیں۔ اور ٩ بعثت میں جب قید سخت سے رہائی ہوئی تو چند ہفتوں کے بعد آپ کی والدہ حضرت خدیجہ کا انتقال ہو گیا۔ اور اب باپ کی شفقت کے علاوہ ماں کی محبت بھی حضرت فاطمہ کو حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللّٰہ و آلہ وسلم سے ملتی تھی۔ اللّٰہ کے محبوب رسول کفار مکہ کے ہاتھوں زخمی ہو کر جب گھر میں آتے تو چاہنے والی بیٹی زخمی باپ کو دیکھ کر رو پڑتی اور زخموں سے خون کو صاف کر لے مرہم پٹی کرتی۔ کئی مرتبہ حضرت فاطمہ زہرا نے اپنے شفیق باپ کی گردن سے کفار کے پھنکے ہوئے اوجھڑیوں کے پھندے کھولے اور آپ کے اوپر سے اونٹوں کی غلاظت کو دور کیا۔

اللّٰہ کے پیارے رسول نے جب ہجرت فرمائی تو اپنی پیاری بیٹی فاطمہ کو ساتھ نہ لے جا سکے بلکہ آپ فاطمہ بنت اسد اور دوسری بیبیوں کے ساتھ حضرت علی کے ہمراہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئیں تو قبا میں بیٹی نے شفیق باپ سے ملاقات کی۔

مدینہ پہنچ کر اللّٰہ کے محبوب رسول نے اپنی پیاری اور اکلوتی بیٹی کی شادی خدا کے حکم سے اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی سے کر دی۔ شادی اس سادگی سے ہوئی جو اسلام کے شایان شان تھی۔ جہیز میں مٹی کے برتن، آٹا پیسنے کی چکّی اور لیف خرما کے گدّے اور تکیے دئے گئے۔ مالک کائنات کی اکلوتی بیٹی کا کل یہی جہیز تھا۔ جو حضرت علی کی دی ہوئی مہر کی رقم سے فراہم کیا گیا تھا۔

نجران کے عیسائیوں کے مقابلے میں خدا کے رسول جب مباہلہ کے لئے تشریف لے گئے تو خدا کے حکم سے اپنی چہیتی اور اکلوتی بیٹی حصرت فاطمہ زہرا کو بھی لے گئے تھے۔

آیہ تطہیر آپ ہی گھر میں اس وقت اتری جب پنجتن آپ ہی کی چادر میں جمع تھے۔ آپ کی پانچ اولادیں ہوئیں۔ حضرت حسن اور حسین آپ کے دونوں فرزند امام ہوئے۔ جناب زینب جناب ام کلشوم آپ کی بیٹیاں تھیں جنہوں نے واقعہ کربلا میں بڑے بڑے کام کئے۔

آپ کے آخری بیٹے جن کا نام پیدا ہونے سے پہلو ہمارے رسول نے محسن رکھا تھا وہ پیدا ہونے سے پہلو ہی ماں کے پیٹ میں شہید ہو گئے اور جناب فاطمہ نے بھی اس کے بعد اسی بیماری اور زخم کی وجہ سے انتقال کیا۔ جو دشمنوں کے ہاتھوں آپ کو پہونچا تھا۔

سوالات

۱ ۔ جناب فاطمہ زہرا کب پیدا ہوئیں ؟

۲ ۔ رسول خدا کو زخمی دیکھ کر جناب معصومہ کیا کرتی تھی ؟

۳ ۔ آیہ تطہیر کہاں اور کب نازل ہوئی ؟

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :

شعب ۔ شفقت ۔ مباہلہ ۔ فاطمہ ۔ قبا ۔ لیف ۔ نجران ۔ جہیز ۔ بعثت ۔ ہمراہ ۔ مہر ۔

اٹھارہواں سبق

مادرِ ائمہ

نبی کی بیٹی، علی کی زوجہ، کنیز حق، مادر ائمہ

جہاں میں کوئی نہ ایسی بیٹی، نہ ایسی مادر نہ ایسی زوجہ

کئے ہین دنیا میں کام جسے، خدانے بخشے ہیں نام ویسے

بتول ، صدیقہ ، زہرا ، عزرا ، محدَّثہ ، طاہرہ ، زکیّہ

لباس سادہ، مکان سادہ، مزاج دینی، کلام شیریں

زماں پہ تسبیح، لب پہ قرآن، زمین پہ بسترہ، خدا پہ تکیہ

نماز کی شان اللّٰہ اللّٰہ، ہے دین کی سبان اللّٰہ اللّٰہ

زمین پہ محوِ نماز زہرا، فلک پہ نورِ جبین کا جلوہ

یہ سبتیاں سب ہیں فاطمہ کی، نجف، خراساں، مکہ، خضرا

دمشق، سامرہ، کربلا، قمر، مدینہ و کاظمین و کوفہ

انہیں کے ایثاراور کرم کے بشر بھی شاہد ملک بھی شاہد

نبی بھی شاہد، خدا بھی شاہد، گواہ ہے ھل اتیٰ کا سورہ

جہادِ شبیر صلح شبیر، وقار کلثوم، عزم زینب

ہر ایک کردار بے بدل ہے، ہر ایک میں ہے فاطمہ کا جلوہ

سبق زمانے کی عورتوں نے حیا و غیرت کا ان سے سیکھا

انہیں کا احسان ہےکہ اب تک جہان میں ہے رواج پردہ

مصیبتوں کے پہاڑ توٹے مگر تھا شکم خدا زباں پر

ہسی خوشی زندگی بسر کی، لبوں پہ آے کبھی نہ شلوہ

کبھی کوئی خالی ہاتھ پلٹا نہ دختر مصطفےٰ کے در سے

ہر ایک سائل کی جھولی بھردی،گزر گیا اپنےگھرمیں فاقہ

یہ مالکہ ہیں وہ خادمہ ہے مگر شرف ہے یہ تربیت کا

کہ شاہزادی کے نام کے ساتھ لے رہا ہوں میں نامِ فضہ

کنیز ہے یہ مگر اسی سے حدیث و قرآن کی بات پوچھو

یہ فیض تعلیم فاطمہ ہے، کہ خاک سے بن گئی ہے فضہ

سوالات

چھٹے شعر کا مطلب بتاؤ ؟

الفاظ کے معنی بتاؤ :

مادر ۔ ائمہ ۔ زوجہ ۔ بتول ۔ صدیقہ ۔ زہرا ۔ عزرا ۔ محدثہ ۔ طاہرہ ۔زکیہ ۔ شیریں ۔ تکیہ ۔ محو ۔ جبیں ۔ خضرا ۔ ھل اتیٰ ۔ فِضّہ ۔ فیض ۔ بسر کرنا ۔ جلوہ ۔ وقار ۔ عزم ۔

انیسواں سبق

امام حسن علیہ السلام

ولادت : ۱۵ رمضان ٣ ہجری شہادت : ۲۸/ صفر ۵۰ ہجری

مقام ولادت : مدینہ منورّہ مزار اقدس : جنت البقیع[مدینہ منورہ]

والد کا نام : حضرت علی علیہ السلام والدہ کا نام : حضرت فاطمہ زہراسلام اللّٰہ علیہا

امام حسن علیہ السلام ہمارے دوسرے امام ہیں۔ آپ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے تھے اور نبی کریم آپ سے بڑی محبت فرماتے تھے اللّٰہ کی نگاہ میں آپ کا بڑا رتبہ ہے آپ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور آپ کی محبت خود اللّٰہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں پر واجب کی ہے۔

آپ سر سے سینہ تک بالکل رسول اللّٰہ کی تصویر تھے۔

آپ بڑے صابر امام تھے۔ اگر کوئی دشمن آپ کے منھ پر کوئی برا کہتا تب بھی آپ خاموش رہتے ۔ یہی نہیں بلکہ اس کی خدمت کرتے اس پر احساں فرماتے اور اس طرح محض اپنے اخلاق سے اس کا دل جیت لیتے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ کو پوری اسلامی دنیا کی بادشاہت ملی، عراق، عرب، ایران، یمن اور مصر کی بادشاہت لیکن زامنہ میں اسلام کے دشمنوں نے سر اٹھایا اور یہ چاہا کہ اسام کو مٹا دیں، اللّہ کی زمین سے اللّٰہ کا نام مٹ جائے آپ نے ایک محافظ کی حیشیت سے محض اسلام کو بچانے کے لئے اپنی بڑی بادشاہت کو ٹھوکر مار دی اور اسلام کی تبلیغ کا کام سنبھال لیا۔ آپ نے دولت، حکومت، اور خزانہ سب کو چھوڑ دیا۔ تاکہ اسلام کو بچا لیں اور آپ کی اس عظیم قربانی کا یہ نتیجہ نکلا کہ اسلام باقی رہا اور آج اللّٰہ کا سچا اور اچھا دین دنیا میں موجود ہے۔ آپ بڑے بہادر تھے ایک مرتبہ صیفن کی لڑائی میں آپ نے دشمنوں پر حملہ کیا، دشمن کے پاس ایک لاکھ سے زیادہ سپاہی موجود تھے۔ لیکن آپ ذرا بھی نہیں ڈرے۔ اور ایسا سخت حملہ کیا کہ لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔ اور آپ دشمن کے خیمہ تک پہونچ گئے۔ بڑے بڑے بہادروں نے اس موقع پر آپ کی بہادری کا لوہا مان لیا۔

آپ بڑے سخی تھے۔ کئی مرتبہ آپ نے اپنا سارا سامان اللّٰہ کی راہ میں تقسیم کر دیا۔ آپ کا دروازہ ہمیشہ غریبوں کے لئے کھلا رہتا تھا جو آتا مالا مال ہو کر جاتا۔ دن بھر غریبوں اور مسافروں کی دعوت کا سلسلہ جاری رہتا اور آپ کے در سے کوئی محروم نہیں پلٹتا۔

آپ نے پچیس حج پاپیادہ کئے۔

آپ نے اللّٰہ اور اسلام کے لئے یہی نہیں کہ اپنی بادشاہت چھوڑ دی بلکہ اللّٰہ کی راہ میں اپنی جان بھی قربان کر دی۔ چنانچہ آپ کو زہر دیا گیا۔ جس سے آپ شہید ہو گئے۔

امام حسن علیہ السلام نے ہمیں بتایا کہ ایک سچّے مسلمان کو نہ جان پیاری ہوتی ہے اور نہ مال۔ اسے تو بس اللّٰہ اور اسلام سے پیار ہوتا ہے اور وہ اللّٰہ کا نام اونچا رکھنے اور اسلام کو زندہ رکھنے کے لئے سب کچھ قربان کر سکتا ہے۔ اللّٰہ نے بھی آپ کی اس قربانی کی پوری قدر کی۔ آپ نے اللّٰہ کے لئے دنیا کی بادشاہت چھوڑ دی۔ اللّٰہ نے آپ کو جنت کی بادشاہت عنایت کر دی۔ آپ نے اللّٰہ کی محبت میں اپنی جان قربان کر دی۔ اللّٰہ نے آپ کی محبت کو ایمان کا جز و قرار دے دیا ہے۔ اللّٰہ کے دربار سے ایک واقعی محفظ اسلام کا صلہ۔

مدینہ میں ایک قبرستان ہے جسے جنت الببقیع کہتے ہیں۔ آپ کی قبر اسی قبرستان میں ہے۔ یہیں آپ کی والدہ حضرت فاطمہ زہرا کی قبر بھی ہے سچّے مسلمان مدینہ جاتے ہیں تو رسول اللّٰہ کے مزار کی زیارت کے بعد آپ کی زیارت کے لئے بھی حاضر ہوتے ہیں۔

سوالات

١۔امام حسن نے کیوں صلح کر لی ؟

٢۔شپ کی شجاعت کا واقع سناؤ ؟

٣ آپ کی قبر کہاں ہے ؟

ان الفاظ کے معنی بتاؤ :

صابر ۔ احسان ۔ عظیم ۔ پاپیادہ ۔ مزار ۔ محافظ ۔ ضفیہ ۔

بیسواں سبق

صُلِح حسن علی السلام

صلح خؤشبوئےمحبت ہےگلستاں کےلئے روح تہذیب ہےاس عالم امکاں کے لئے

صلح اللّٰہ حجت ہے ہر انسان کے لئے صلح معیار شجاعت ہے مسلماں کے لئے

کار فراّر ہی نہیں یہ بھی ہے کراّر کا کام

اہل حق صلح سے لے لیتے ہیں تلوار کا کام

صلح شبنم ہی نہیں برق شرربار بھی ہے صبر خاموش بھی ہےجرات انکار بھی ہے

خنکی بزم بھی ہے گرمی پیکار بھی ہے صلح ایماں کے لئےفتح کا معیاربھی ہے

جب کمیین گاہوں سے ناوک فگنی ہوتی ہے

پردہ صلح میں خیبر شکنی ہوتی ہے

صلح آئینہ اخلاق و وفا ہے یارہ صلح اسلام کے چہرے کی ضیا ہے یارہ

صلح بھی جرات و ہمت کی ادا ہے یارہ صلح بھی کفر سے اک طرز و غا ہےیارہ

صلح کب زور الہیٰ کی طلبگار نہیں

فرق اتنا ہے کہ اس تیغ میں جھنکار نہیں

سبط اکبر ترا انداز وغا کیا کہنا زندہ با داے حسنؐ سبز قبا کیا کہنا

زور با زوئے شہ عقدہ کشا کیا کہنا اس خموشی پہ ہر انداز فدا کیا کہنا

زلزلے آنے لگے بزم جفا کوشی میں

کربلا بول رہی تھی تری خاموشی میں

تو نے بتلای دولت نہیں حق کا مقصود منحصر صرف حکومت پہ نہیں دیں کا وجود

کثرت فوج سے ہوتی نہیں ایماں کی نمور مال اور زر کو سمجھتے ہیں جو اپنا معبود

تخت اور تاج ہیی ان اہل سیاست کے لئے

بوریا کافی ہے نانا کی خلافت کے لئے

صلح ٹھوکر ہے منافق کی سیاست کےلئے صلح اک ضرب ہے باطل کی حکومت کے لئے

صلح آئینہ ہے ہر چشم بصیرت کے لئے صلح ہوتی ہےمشیت کی ضرورت کے لئے

کفر و اسلام کی پہچان نہیں ہے تجھ کو

معترض !صلح کا عرفان نہیں ہے تجھ کو

ان الفاظ کے معنی بتائے ۔

ضرب ۔ فرار ۔ ثربار ۔ پیار ۔ کمیگاہ ۔ ناوک فگنی ۔ ضی ۔ دغا۔ سبز قبا ۔ نمود ۔ عقدہ کشا ۔ چشم ۔ بصیت ۔ معترض ۔ عرفان۔ خسکی ۔ سبط ۔ روح ۔ تی ۔ سبط اکبر۔ آخری بند کا مطلب بتائی

اکیسواں سبق

امام حسینؐ علیہ السلام

ولادت : ۳ /شعبان ۴ ہجری شہادت : ۱۰/ محرم ۶ ۱ ہجری

مقام ولادت : مدینہ منورّہ مزار اقدس : کربلائے معّلیٰ

امام حسین علیہ السلام ہمارے پاک نبی کے نواسے اور حضرت علی علیہ السلام کے فرزند تھے۔ آپ امام حسن علیہ السلام کے چھوٹے بھائی تھے آپ بھی امام حسن علیہ السلام کی طرح جنت کے سردار اور مسلمانوں کے امیر ہیں۔ آپ کے جسم کا حصّہ سینہ لے نیچے سے پیروں تک رسول کے حصّہ جسم سے بہت مشابہ تھا۔

نانا رسول اللّٰہ اپنے دونوں نواسوں سے بے حد محبت کرتے تھے اللّٰہ بھی ان دونوں سے بےحد محبت کرتا ہے۔ چنانچہ ان کی محبت ہی ایمان کہلاتی ہے۔

امام حسین علیہ السلام کی زندگی میں ایک مو ایسا آ گیا کہ دشمنوں نے ساسلام مٹا دینے کی ٹھان لی۔ امام اس وقت مدینہ میں تھے۔ آپ نے جیسے ہی یہ حالت دیکھی ایک سچّۓ امام کی حیشیت سے یہ فیصلہ کر لیا کہ میں مر جاؤں گا لیکن اسلام کو نہیں مرنے دوںگا۔ میں خود مٹ جاؤںگا لیکن اللّٰہ کا نام نہیں مٹنے دوںگا۔ چنانچہ آپ نے بچّوں، عزیزوں، اور دوستوں کو ساتھ لے کر اور مدینہ چھوڑ کر عراق روانہ ہو گئے۔ کربلا میں دسمنوں نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ آپ کے لشکر میں بڑھے، جوان، اور بچّے ملاکر بہتر آدمی تھے۔ اور دشمن تیں ہزار تھے لیکن آپ نے ہمت نہیں ہاری اور اسلام کے لئے جان قربان کرنے پر تیار ہو گئے۔

محرم کی چوتھی تاریخ سے آپ پر پانی بند کر دیا گیا ساتویں تاریخ سے قحط آب ہو گیا۔ بچّے پیاس سے بلکنے لگے۔ لیکن اللّٰ اور اسلام کی خاطر آپ نے یہ مصیبت بخوشی برداشت کر لی اور دسویں محرم کو کربلا کی سر زمین پر اللّٰہ اور اسلام کے لئے آپ نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی قربانی پیش کر دی۔

آپ کے جاں نشار ساتھی تین دن کے بھوکے پیاسے مسلمان بڑی بہادوری کے ساتھ لڑتے ہوئے اسلام پر نثار ہع گئے۔ آپ کے بھائی حضرت عباس کے شانے کٹ گئے۔ آپ کے بھتیجے قاسم کی لاش پامال کر ںالی گئی۔ آپ کے جوان فرزند حضرت علی اکبر کا سینہ برچھی سے چھد گیا۔ لیکن آپ نے اللّٰہ کی محبت اور اسلام کی بقا کے لئے ھہ سارے مصائب برداشت کئے۔ آخر کار عصر کے وقت خود آپ کو بھی سجدہ کی حالت میں بھوکا پیاسا ذبح کر ڈالا گیا۔ آپ کا مال و اسباب لوٹ لیا گیا۔ آپ کے خیمے جلا دئے گئے۔ آپ کے گھر کی عورتوں کے سروں سے چادریں چھین لی گئی۔ آپ کے بیمار بیٹے امام زین العابدین عليہ السلام اور عورتقں کو قید کر کے کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام لے جایا گیا۔ غرض آپ پر ہر طرح کی مصیبت ٹوٹی لیکن آپ نے اللّٰہ اور اسلام کے لئے سب کچھ برداشت کیا اور آج اگر دنیا میں اسلام زندہ ہے تو یہ آپ کی اسی قربانی کا صدقہ ہے۔

امام حسین علیہ السلام ایسے بہادر تھے کہ تین دن کی بھوک پیاس کے باوجود ہزاروں کے لسکر سے اکیلے لڑے۔ آپ ایسے نمازی تھے کہ آپ کا سر بھی سجدہ خالق میں تن سے جدا کیا گیا۔ اور اللّٰہ کے ایسے چاہنے والے تھے کہ آپ نے اپنی اور اپنی اولاد کی جانیں بھی اسلام پر قربان کر دیں۔

امام حسین علیہ السلام کربلا جا رہے تھے۔ راستہ میں ایک ہزار دشمنوں نے آپ کا راستہ روکا۔ یہ دشمن اس وقت پیاسے تھے اور ان کے پاس پانی نہیں تھا۔ آپ نے نہ صرف یہ کہ ان ایک ہزار آدمیوں کو پانی پلایا بلکہ ان کے گھڑوں کو بھی سیراب کیا۔ آپ جانتے تھے کہ آگے چل کر پانی نہیں ملےگا اور آپ کو اور آپ کے بچّوں تک کو پیاسا رہنا پڑےگا۔ لیکن آپ نے اپنی پیاس قبول کی مگر اپنے دشمنوں کی پیاس بجھا دی۔ یہ تھی وہ سچّی انسانیت جس کی تعلیم ہمارے اماموں نے ہمیں دی ہے۔ خود دھوکہ جھیل کر دوسروں کی مدد کرنا ہی انسانیت ہے۔ ور ہمارے امام اسی کی تعلیم دیتے رہے ہیں۔

اللّٰہ ہمیں بھی اس سچّی انسانی ہمدردی کی توفیق عطا فرمائے۔

سوالات

١۔ امام حسین کے صفات کیا تھے ؟

٢۔ کربلا میں آپ کے ساتھ کیسے حضرات تھے ؟

٣۔ کربلا کے مصائب کیا کیا تھے ؟

٤ ۴ ۔ امام حسین نے مصائب کیوں برداشت کئے ؟

٥ ۵ ۔ کربلا سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے ؟

معنی بتاؤ ۔

توفیق ۔ مشبہ ۔ جاں نثار ۔ سیراب ۔ صدقہ ۔ آجر کار ۔ مصیبت۔

بایسواں سبق

کربلائے معلّیٰ

انسان اس حسینؐ کی تعریف کیا کرے

جس کے پدر نے کعبہ کو کعبہ بنا دیا

بھائی نے جس کے لے کے علم خوش جنگ میں

اتنا کیا بلند کہ طو بے بنا دیا

بچّوں نے جس کے معرکہ کار زار میں

مرنے کو ایک کھیل تماشا بنا دیا

جس کے سپاہیوں نے کئی دن کی بھوک میں

تیغ و تیز کو منھ نوالہ بنا دیا

خود جس نے دو پہر میں ہمیشہ کے واسطے

جنگل کو کربلائے معلےٰ بنا دیا

ان الفاظ کے معنی بتاؤ ۔

معلیٰ ۔ طوبی ۔ تیغ ۔ تبر ۔ معرکہ ۔ کارزار۔

تییسواں سبق

امام علی زین العابدین علیہ السلام

ولادت : ١٥/جمادی الاعلیٰ ٣٨ھ شہادت : ٢٥/ محرم ٩٥ھ

مقام ولادت : مدینہ منورہ مزار اقدس : جنت البقیع[مدینہ منورہ]

اللّٰہ نے انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس لئے اللّٰہ کا ہر اچھ ار سچّا بندہ اللّٰہ کی عبادت فرض سمجھتا ہے عبادت سے انسان کا درجہ بلند ہوتا ہے، اس کی روحانیت ترقی کرتی ہے۔ اور اللّٰہ اس سے خوش ہوتا ہے۔

انبیا اور ائمہ کی عبادت کا تو کیا کہنا۔ وہ تو عبادت میں کمال رکھتے تھے، لیکن عبادت کی خصوصیت سے یہ ہمارے چوتھے امام حضرت زین العابدین علیہ السلام کہلاتے ہیں۔

امام زین العابدین علیہ السلام کا اصلی نام علی تھا۔ آپ امام حسین علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ کی والدہ کا حضرت شہر بانو ایران کی شہزادی تھی۔ آپ دنیا میں زین العابدین اور سید سجاد کے لقب سے مشہور ہیں۔ زین العابدین کے معنی ہیں عبادت گزاروں کی زینت، سجاد کے معنی ہیں بہت زیادہ سجدہ کرنے والا۔ آپ اتنی عبادت کرتے تھے کہ آج تک دنیا آپ کو زین العابدین اور سید سجاد کے لقب سے یاد کرتی ہے۔

ایک مرتبہ آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ مکان میں آگ لگ گئی آپ اسی جلتے ہوئے مکان میں اطمینان سے نماز پڑھتے رہے۔ پڑوسیوں نے چلّانا شروع کیا۔ لیکن آپ نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ اور اطمینان سے نماز ختم کی۔ اتنی دیر میں آگ بجھائی جا چکی تھی۔ لیکن آپ مصّلے پر ہی تھے۔ لوگوں نے آ کر پوچھا۔ " یا امام وہ کون سی چیز تھی جس نے آپ کو جلتے ہوئے مکان ميں بھی نماز جاری رکھنے دی "۔

آپ نے جواب میں فرمایا ۔ " جہنم کی آگ "

امام علیہ السلام کے دروازہ پر ایک سائل آیا۔ اور اس نے سوال کیا امام فورًا باہر آئے اور اس کے ہاتھوں پر ایک تھیلی رکھ دی اور فرمایا " کہ جب کوئی غریب تم سے سوال کرتا ہے تو اس کے ہاتھ پر اللّٰہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ لہزا اسے ذلیل نہ سمجھو "

غریبوں کی امداد کی کتنی اچھی اور پیاری تعلیم ہے یہ ۔

اللّٰہ ہمیں بھی غریبوں کی امداد کا جزبہ عنایت فرمائے۔

امام زین العابدین علیہ السلام ولید کے حکم اور ہشّام ابن عبد الملک کے ذریعہ زہر سے شہید کئے گئے۔ آپ جنت البقیع میں اپنے چچا امام حسن علیہ السلام کے پاس دفن ہیں۔

سوالات

١۔ طوتھے امام کو زین العابدین کیوں کہتے ہیں ؟ ان کا نام بتاؤ۔

٢۔ آپ کی والدہ کون تھیں ؟

٣۔ آپ نے نماز کیوں نہیں توڑی ؟

٤ ۴ ۔ سجاد کے معنی کیا ہیں ؟

٥ ۵ ۔ امام نے سائل کے سوال کو فوراً کیوں پورا کر دیا ؟

ان الفاظ کے معنی بتاؤ ۔

عابد ۔ سجّاد ۔ زینت ۔ ذلیل ۔ ابن ۔ فرض ۔ ائّمہ ۔ لقب۔


3