• ابتداء
  • پچھلا
  • 6 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11418 / ڈاؤنلوڈ: 3256
سائز سائز سائز
طب الصادق علیہ السلام

طب الصادق علیہ السلام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

طب الصادق علیہ السلام

مصنف: اقائی نصیر الدین صادقی تہرانی

پیش لفظ

طبیب کون ہے؟ جو طباعت اِس کتابت میں موضوع گفتگو ہے اس سے وہ طبابت مقصود ہے، جس میں جسم و روح دونوں کے عوارض سے بحث ہوتی ہے۔ اِس لئے کہ آدمی دو چیزوں ’روح اور جسم‘ سے مرکب ہے اور ہر ایک کی سلامتی اور بیماری ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہے لہذا اِنسان صحیح و سالم وہ ہے جو دونوں حیثیت سے سلامتی رکھتا ہو۔۔۔۔! اگر کوئی حقیقی طبیب ہونا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ بذریعہ معالجہ اِنسانیت کی خدمت انجام دے تو اُس کو جسم وروح دونوں کا طبیب ہونا چاہئے۔ یعنی رنج و غَم و اَندوہ روحانی کا بھی معالج ہو جس طرح عوارضات جسمانی کا جو طبیب روحانی علاج سے ناواقف ہے اگر وہ روحانی امراض کا مُسہل سے علاج کرے گا تو ظاہر ہے کہ مریض کو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ یا مثلًا فِکر و خیال وناراحتی روح کی وجہ سے اگر کسی کو نیند نہیں آتی اور پریشان ہے تو اس کو خواب آور گولیاں کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتیں بجز قدرے سُلا دینے کے۔اِسی طرح اگر بیخوابی اَمراض جسمانی کی وجہ سے ہے۔ تو روحانی علاج اور پند و نصائح مفید، اسکو کچھ بھی فائدہ نہ دیں گے۔ لہٰذا طبیب کامل اور حاذِق وہی ہو سکتا ہے۔ جو جسمانی اور روحانی تمام امراض اور انکے علاج سے واقف ہو اور ایسا طبیب سوائے برگزیدگانِ خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اِسلام میں روح وبدن اگرچہ دوجداگانہ چیزیں ہیں لیکن ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ ایک کی سلامتی دوسرے کی سلامتی پر موقوف ہے۔ اسلام کے رہبروپیشواوں نے آپ کو طبیبِ روحانی کی صورت میں اگرچہ پیش کیا مگر وہ طبیبِ جسمانی بھی تھے۔ ان کے طبیبِ جسمانی ہونے کا ایک یہ نمونہ ہی ثبوت کے لئے کافی ہے کہ انھوں نے پاکیزگی و طہارتِ بدن کے لئے وضو۔غسل اور تیمّم مختلف نجاستوں س پاک ہونے کو لازمی قرار دیا۔ تاکہ اَعضاءِ ظاہری گرد و غبار سے آلودہ ہو کر مُضر صحت نہ بنیں۔ انبیاء جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے رہبر بن کر آئے۔ اُنکا اصلی مقصد صرف یہ تھا کہ انسان کو آموزگار اَخلاق و دِین بَن کر روحانیت کی اِرتقائی منازل طے کرائیں۔ کیونکہ انسان اگرچہ جسم و روح کا مرکب ہے لیکن درحقیقت اِنسانیت روح کا نام ہے اور جسم ایک آلہ رُوح ہے۔ انبیاء نے سلامتیِ بدن کی طرف توجہ صرف اس حد تک دی ہے کہ صحتِ جسم، صحتِ روح کا باعث بن کر روحانی منازل طے کر سکے۔ درحقیقت اَنبیاء اَطباء اَرواح و عقول ہیں کیونکہ عقل و دِل بھی جسم کی طرح ہوتے ہیں۔ پیغمبرِ اِسلام کا قول(ارشاد) ہے ۔ انّ ھٰذا القلوب تمل کم تمل الا بدان۔ یعنی یہ دِل بھی بدن کی طرح بیمار ہوتے ہیں۔ علی ابن ابی طالب علیہ اسلام کا اِرشاد ہے۔ بدن کی چھ( ۶) حالتیں ہیں۔ صحت، مرض،خواب،بیداری،مَوت اور حیات۔ اور اسی طرح رُوح کے واسطے صحت اسکا یقین ہے۔ مرض شک یا تردید ہے۔ خواب اِسکی غفلت ہے،بیداری توجہ ہے۔ موت نادانی ہے۔ حیات دانش ہے۔

اِمام رَہبر دیں، و رَہنما ءِ اَرواح ہے

اگرچہ اس کتاب میں طبِ جسمانی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بحث کی گئی ہے لیکن مقصودِ امام بھی یہی ہے کہ تن آلہ کا رُوح ہے، رُوح کی کارفرمائی کے لئے جسم کا صحیح ہونا ضروری ہے تاکہ روح اور عمل میں اِرتباط قائم رہے ورنہ دین کی طبابت کا مقصد عقل کی سلامتی ہے۔ کیونکہ اِنسان کا مکلف ہونا عقل پر موقوف ہے۔ اور عقل ہی کی وجہ سے اِنسان اشرف المخلوقات ہے۔ اِس لئے وہ معالجات جو عقل کو ضعیف یا فنا کر دیتے ہیں، اِسلام میں وہ مَوت کے مساوی ہیں۔ دین اجازت نہیں دیتا کہ انسان مر جائے اگرچہ ایک لمحہ ہی کی موت ہو یعنی عقل جو حیات ہے اِس کو زائل کر دے۔ اسی لئے اسلام شراب و قمار اور ہوس رانیوں کے خلاف ہے کیونکہ یہ دُشمنِ عقل یعنی دُشمنِ حیات ہیں۔ قرآن ایک سفر نامہ روح اِنسانی ہے اور ایک وہ رسی ہے کہ جس نے اُس کومضبوط پکڑ لیا وہ آسمانِ عقل و خِرد پر جا پہنچا اور مُعارف و علوم کا عالم ہو گیا مگر ہر شئے کے عِلم کے لئے ’حواس خمسہ‘ کی ضرورت ہے۔ پیغمبرِ اسلام کا ارشاد ہے۔ من فقد حساً فقد علماً۔یعنی جس نے ایک حِس ضائع کر دی ایک حصہ علم کا ضائع کر دیا۔ لہذا جس قدر جسم صحیح اور سالم تر ہو گا ’حواس خمسہ‘ بھی کامل تر ہوں گے اور اُن کے معلومات بھی زیادہ ہوں گے۔ جو پیغمبر علمِ طِب سے ناواقف ہے وہ تربیتِ روح کے فرائض بھی انجام نہیں دے سکتا اور جو کتاب صحتِ جسمانی کی ضامن نہیں وہ روح کی تربیت میں بھی قاصر رہے گی۔ خدا نے ہرگز ایسا پیغمبر اور ایسی کتاب نازل نہیں فرمائی ہے۔ اِرشاد حضرت امام رضا علیہ السلام ہر درد کی شفا قرآن میں ہے ۔ قرآن سے شفا چاہو۔ جسکو قرآن سے شفا حاصل نہ ہو اُس کو کوئی چیز شفا نہیں دے سکتی۔ یہ بے شک خدا کی کتاب ’ہُدیٰ‘ ہے۔ یہ نسخہ نیا ہر مرض کی دوا ہے اِنسان اگر سوچے اور غور کرے تو اس میں روحانی نسخوں کے ساتھ ساتھ صحتِ جسمانی کی ضروریات وابسطہ نظر آتی ہیں جہاں نماز پڑھو، زکوة ادا کرو، کے شربتِ رُوحِ افراز کا ذِکر ہے وہاں نماز کی فضیلت میں یہ بھی حکم ہے کہ مساجد میں ادا کرو تاکہ ہر قدم پر روحانی اِرتقاء کے ساتھ جسمانی چہل قدمی بھی ہو کر معاون صحتِ جسمانی ہوتی رہے۔ مسجد میں حضورِ معبود نماز کی ادائیگی کے ساتھ جہاں روحانی قُربت حاصل ہو، وہاں قیام و رُکوع و سجود کے حکم سے ورزشِ جسمانی کی رعایت بھی نسخہ میں رکھ دی گئی۔ قرآن جہاں نیک اعمال اور مفید اَشیاء کا حکم دیتا ہے وہاں مضر افعال اور مضر اشیاء کو ممنوع قرار دے کر روح اور جسم دونوں کی صحت کا خیال رکھتا ہے۔ اگر صحت روح کے لئے نماز کا حکم دیا گیا ہے تو مضرِ صحت شراب سے بار بار منع فرمایا ہے۔ چناچہ سورہ مائدہ آیت نمبر ۹۰،۹۱ ،اور سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۱۹ ، میں ارشاد ہوتا ہے’اے ایمان والوشراب، قمار اور مجسمہ وغیرہ شیطانی کاموں میں سے ہیں۔پس ان سے دور رہو۔ شاید نجات پالو۔ بیشک شیطان چاہتا ہے کہ شراب و قمار کے ذریعہ تم میں باہمی دشمنی کردے اور تم کو یادِ خدا اور نماز سے باز رکھے۔ کیا تم ایسے مرد ہو کہ ہَواوہَوس سے منہ موڑ کر پرہیز گار بن جاو‘ سورہ بقر، آیت نمبر ۲۱۶ میں ارشاد ہوتا ہے ’یہ لوگ ’شراب و قمار ‘ کے بارے سوال کرتے ہیں تو کہ دو کہ دونوں میں بڑا نقصان اور فائدہ ہے مگر فائدہ سے کہیں زیادہ نقصان ہی‘( اَقِییْمُواالصَّلوٰةَ ) کے ساتھ( لَا تَقْرَبُو االصَّلوٰةَ وَاَنْتُم سُکاَرَا ) بھی ہے آج مدہوشان و مئے نوشانِ مغرب بھی چلا رہے ہیں کہ شراب کے وقتی اور تھوڑے سے فائدہ میں سینکڑوں رُوحانی اور جسمانی قابلِ نفرت مُہلک اَمراض پوشیدہ ہیں۔ یہ جہاں تھوڑی دیر کو خواب آور گولی کی طرح یاعمل جراحی میں جسم کو بے حِس کرکے سکون بخش نظر آتی ہے اور عقل و خِرد ، ہوش و حَواس کو زائل کر کے اِنسان کو حیوان بنا دیتی ہے، وہاں بے شمار اَمراض کا غمناک پیغام مَیخور کیواسطے اپنے ساتھ لاتی ہے۔ ضُعفِ باہ، ضُعفِ اعضاء، سِل، اَمراضِ سوداوی اور دِق وغیرہ کاواحد سبب یہی بادہء بدبخت ہے۔ یہی عقل وخِرد پر پردہ ڈالکر بیگانوں کو یگانہ اور اپنا ہمراز دِکھلا کر راز سر بستہ کو ظاہر کر دیتی ہے اور یگانوں کو بیگانہ دِکھلا کر باپ سے بیٹے کو کبھی قتل کرا دیتی ہے۔ بلکہ شرابی کے مضر اثرات نسلاً بعد نسلً اولاد کو وارثتاً پہونچتے ہیں۔ کتاب وسائل الشیع (جلد دوم) میں صادق اٰلِ محمد (امام جعفر صادق علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنی لڑکی شرابخور کو دی اُسنے قطعِ رحم کیا‘۔۔۔شاید مراد یہ ہے کہ اُس نے دُختر کی نسل ہی کو منقطع کر دیا۔ حلیةُ المتقین میں ہے کہ اپنی اولاد کے لئے شراب پینے والی اور سور کا گوشت کھانے والی دایہ مت مقرر کرو کہ اُسکا دودھ اُس بچہ میں یہی اَثر انداز ہو گا۔

اِسلام و تندرستی

ہر شخص اِس کو تسلیم کرتا ہے کہ سب سے ضروری اور لابدی چیز تندرستی کے لئے اِطمینانِ قلب وسکونِ دل ہے۔ لہذا تندرستی کے لئے سکونِ قلب جب ضروری ہوا تو اَب دیکھنا یہ ہے کہ سکونِ قلب یا اَمنیت کِس طرح حاصل ہو۔ سکونِ قلب اُسی کو حاصل ہو سکتا ہے جو اپنے مرض کو اور صحت کو خدا کی طرف سے جانے اور اس پر اعتقاد کامل رکھتا ہو۔ چنانچہ خدا خود فرماتا ہے کہ( اَلَا بِذِکْرِاللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ) ایسے مریض کو اگر دُنیا کے تمام اطبائے اور ڈاکٹر جوابدے دیں تو پھر بھی وہ زندگی سے مایوس نہیں ہوتا اور اسکو یہ یقین ہوتا ہے کہ خدا اسکا مدد گار ہے، اسی کے ہاتھ میں شفا ہے ( سورہ الرعد آیت نمبر ۲۸) کیا اِنسان آزاد پیدا ہوا ہے؟ ہاں یہ درست ہے کہ انسان آزاد پیدا کیا گیا ہے مگر کس حد تک؟ کیاآزادی کے یہ معنی ہیں کہ اگر انسان چاہے تو وہ ایک درخت بار آور پھل پھول، لانے والا بن جائے؟یا اگر چاہے تو کبوتر کی طرح فضا میں پرواز کرتا پھرے؟ یا مچھلیوں کی طرح ہمیشہ پانی میں زندگی بسر کرے؟ ہر گز ایسا نہیں، بلکہ اس حدود میں جس میں اس کو خدا نے قدرت دی ہے، آزاد ہے اور انسان کوصرف اسی آزادی سے فائدہ اُٹھانا چاہئے، جو اللہ نے اُسے عطا کی ہے، قدرت اِنسان کو اپنے ایک بنائے ہوئے قانون کے دائرہ میں آزاد رکھنا چاہتی ہے، قانونِ قدرت اِجازت نہیں دیتا کہ انسان جو چاہے وہ کرتا پھرے۔ وہ اپنے مال و متاع کو بے جا، بے مَصرف صَرف نہیں کر سکتا۔ ہر قسم کی اچھی بُری بات زبان سے نہیں نکال سکتا۔ ہر قسم کی غذا اور ہر طرح کا لباس بھی اپنی رائے سے نہیں کھا اور پہن سکتا۔ اسکو حق نہیں کہ وہ دوسروں پر دست درازی یا دوسروں کی حق تلفی کر سکے۔ دوسروں کا کیا ذِکر وہ خود اَپنے کو بھی تلف نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ خدا نے اس کو عقل عطا کی ہے۔ اور عقل ایک شترِ بے مہار کیلئے مہار اور نکیل کا کام کرتی ہے۔ لہٰذا انسان آزاد ہوتے ہوئے مُقید اور مُقید ہوتے ہوئے آزاد ہے۔