• ابتداء
  • پچھلا
  • 6 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11470 / ڈاؤنلوڈ: 3367
سائز سائز سائز
طب الصادق علیہ السلام

طب الصادق علیہ السلام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مُقدمہ تالیف کتاب

ہزاروں حمد و سپاس اُس خدا کی جو دونوں جہاں کا پروردگار ہے۔اور بیشمار درود و سلام اس کی برگزیدہ مخلوق حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کی آلِ پاک پر۔ صادق آل محمد، امام جعفر صادق علیہ السلام کی سوانح حیات پر قلم اٹھانے والے کے واسطے انتہائی آسانی اِس لئے ہے کہ آپ کی ذات جامع الصفات، حامل الانواع، علوم و معارف، علم و حکمت، فلسفہ و اَدب، تمام فضائل انسانیت اور مکارم اخلاق کی بدرجہ اَتم حامل ہے۔ مورخ یا شاعر آپ کی جس صفت کا ذکر کرے یا جس عنوان پر قلم اٹھائے بے تامل مضامین کے دریا بہا سکتا ہے۔ بنابریں میری آتشِ شوق نے چاہا کہ میں بھی اِس نورِ الہٰی کی روشن و تابناک زندگی پر جو شکستہ زندگیوں کو زندگی بخش اور مافوق البشر حیات ہے، کچھ لکھوں۔ مگر حیران تھا کہ ایسے جامع الفضائل کی کون سی فضیلت اور ایسے مجمع الصفات کی کونسی صفت کا بیان کروں، سوچا کہ اِس بحرِ بیکراں میں غواصی اور میدان میں لااِنتہا میں جولانی مشکل و دشوار ہے نہ لکھوں یا نہ لکھوں، تو کہاں سے ابتداء کروں، اور کون سے دروازہ سے داخل ہوں، بالآخر یہ طے کیا کہ فی الوقت نہایت مختصر بیان تاریخ طِب عرب کا کیا جائے اور یہ دِکھایا جائے کہ یہ بچہ گہوارئہ نشوونما سے چل کر کس طرح سر زمینِ عرب اور اس ماحول میں سرحدِ جوانی تک پہونچا، اور کس طرح آغوشِ اِسلام میں پرورش پا کر عقل سلیم اور فکرِ مستقیم کی مدد سے ایک رہبرِ کامل اور ہادیِ عاقل بنا۔ لہٰذا طِبِ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ذکر صرف اس لئے کیا گیا کہ قارئین اِسکو پڑھ کر بہ حد بصیرت امام عالی مقام کی روحانیت کے بلند مقام کا کچھ اندازہ لگا سکیں، اور علمِ لدنی کی کچھ جھلکیاں دیکھ سکیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ علم امام درسی و کسبی نہ تھا بلکہ وہبی اور صرف وہبی تھا، جو امام کو وراثتاً اپنے آبائے کرام اور اجداد عُظام سے اور اُنکو نبی خیرُ الانام سے اور نبی کو جبرئیل نیک نام سے، اور جبرئیل کو کلام لا کلام سے عطا ہوا تھا۔

تاریخ آغازِ طِب

علم طب کے آغاز و ابتداء کے بارے میں اقوالِ عُقلاء مختلف ہیں، بعض مورخین نے اِس علم کی ایجاد کا سہرا کلدانیاں کے سر باندھاہے، بعض مورخ جادوگروں کو اس کا موجد بتلاتے ہیں، بعض کاہنانِ مصر کو اور اکثر نے عقلاء و فلاسفہء یونان کو علم طب کا موجد او ر بانی بتلایا ہے۔ طب درمیان عرب اہلِ عرب نے فارس و روم کے ہمسایہ ممالک سے طب کو حاصل کیا، اور سب سے پہلے طبیب عرب میں ابنِ خدیم ہوا وغیرہ وغیرہ اطبائے اِسلامی اسلام میں سب سے پہلا طبیب خالد ہوا پھر یکے بعد دیگرے نوبت جرجیس تک پہونچی ۔جس نے بغداد میں رہ کر اکثر سریانی کتب کا عربی میں ترجمہ کیا، اور بغداد میں امراضِ جسمانی کے علاج میں نمایاں شہرت حاصل کی۔ اکثر اہلِ دانش کو طبیب بنایا،لیکن یہ کتاب جو ہم پیش کر رہے ہیں، یہ اقتباس اور اختصار ہے رہنمائے طبِ امام جعفر صادق علیہ السلام کا۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں احادیث صحیح نقل کی گئی ہیں۔ علم طب کے عمدہ اور بے بہا مطالب ہیں وہ مناظرات ہیں جو امام اور حریفانِ امام میں پیش آئے ہیں اور وہ دلائل ہیں جن سے اِمام کا علمی و طبی مقام روشن و مبرہن ہوتا ہے۔ امام جعفر صادق در عصرِ منصور امام علیہ السلام کی عدالت زمانہءِ منصور دوانیقی میں اہلِ فضل و فضیلت کا مرکز اور دانش و حکمت کی ایک بڑی درسگاہ تھی۔ تشنہ گانِ معرفت آپ کے دریائے علوم سے سیراب ہوتے اور مشتاقانِ اسرار و حکمت رازہائے سربستہ کو اپنے کانوں سے سنتے تھے۔ کتاب توحید مفضل اور بعض مناظرات امام جو اطباءِ ہمعصر سے ہوئے وہ آپ کے مقام علمی اور حکمت تک پہونچنے کیلئے کافی و وافی ہیں۔ اُن رموزو اسرار کا جن کا انکشاف آپ نے اس وقت فرمایا، آج بھی کافی زمانہ گزر جانے کے بعد عصر حاضر کو اسکے اعتراف پر مجبور کر رہا ہے۔ اصل کلام:۔ کتاب مقدس یعنی قرآن خدا کے مقدس و برگزیدہ شخص یعنی محمد عربی پر نازل ہوئی۔ ضروریات و لوازم حیاتِ انسانی کلیةً اس میں جمع کر دی گئیں ۔( مَالِ هَذَاالْکِتٰبِ لَا یُغَا دِ رُ صَغِیْرَةً وَّ لَا کَبِیْرَةً اِلَّآ اَحْصٰهَا ) (الکہف آیت نمبر ۴۹) ہر چھوٹی اور بڑی چیز ایسی نہیں جو اس میں جمع نہ کر دی گئی ہو۔۔۔۔یہ کتاب ہر زمانہ کی ضروریات اور ہر دور کے لوازمات ماضی ، حال اور مستقبل سب کو اندر لئے ہوئے ہے۔ یہ ہر وقت کے لئے ایک مکمل قانون اور ہر مرد کیلئے ایک مصلح آئین ہے۔ اِس خالقِ کُل نے جو دلِ ہر زرہ اور نفسِ ہر جان سے واقف ہے۔ اس کتاب کو اپنے راست گو ترین پر برائے سعادتِ انسانی نازل فرمایا، تا کہ گمراہانِ حقیقت کو اس کتابِ ہدایت کے ذریعہ راہِ راست پر لگا کر رحمت خداوندی کا مستحق بنائے۔ لہذا خالقِ حقیقی پر یہ لازم تھا کہ اس کتاب میں فلاحِ انسانی کے ہر گوشہ پر روشنی ڈالے تاکہ انسان اپنے ہر فریضہ کو ادا کر سکے۔ قرآن میں ہر چیز کا بیان ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت و رحمت و بشارت ہے۔ اس میں علم و دانش کے خزانے پوشیدہ ہیں، جو ارشاداتِ آسمانی پر مشتمل ہیں جنکو سوائے خدا اور راسخون فی العلم کے جو چراغِ ہدایت ہیں اور کوئی نہیں جانتا۔ (النحل آیت نمبر ۸۹) ’ راسخون فی العلم‘ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے رموز و اَسرارِ قرآنی سے واقف کیا ہے اور ان کو تمام مخلوق پر ترجیح دی ہے، اور یہی وہ لوگ ہیں جو راہِ سعادت و رحمت کے رہبر ہیں۔ کیونکہ کتالیفِ قرآنی اور فرائض آسمانی صرف صاحبانِ عقل کے لئے مخصوص ہیں اور عقل سالم کیلئے بدن سالم کی بھی نہایت ضرورت ہے تو لُطف پروردار کا مقتضا یہ تھا کہ وہ اس کتاب میں صحت و سلامتی جسم کا بھی بندوبست فرمائے تاکہ انسان اپنے فرائض کو بخیرو خوبی انجام دے سکے۔ چنانچہ قرآن صحتِ بدن اور سلامتی جسم کا بھی اسی طرح ذکر کرتا ہے جس طرح صحتِ روح کا۔ یعنی قرآن مجموعہ ہے طِب روحانی اور طِب جسمانی کا۔۔ قرآن نے طِب جسمانی کے اس اصول کو جسکو حُکمائے سابقہ نے از اِبتداء تخلیق تا اِیندم اصل اصولِ طِب جسمانی قرار دیاہے بلکہ یہ اصول تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ صرف تین لفظوں میں بیان کرکے دریا کوزے میں سما دیا ہے۔ مختصر ترین آیت میں مکمل طِب:۔ سورئہ اِعراف آیت نمبر ۲۹ ، میں ارشاد ہوتا ہے( وَکُلُوْاوَاشْرَبُوْ ا وَلَا تُسْرِفُوْ ) :۔ یعنی کھاو۔پیئو اور اسراف نہ کرو۔۔۔ تمام تر اطباء بعد تحقیقاتِ علمی اور آزمائشِ طولانی اِس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ صحت و سلامتئی بدن کا انحصار کھانے اور پینے میں میانہ روی پر ہے۔ اگر اعتدال کو ملحوظ نہ رکھا گیا تو افراط و تفریط یقینی جسم کی خرابی اور بیماری کا سبب ہو گی۔ لہذا یہ چھوٹی سی آیت وہ مرکز اور محور ہے جس پر طبِ جسمانی کے تمامتر اُصول گھوم رہے ہیں۔ طب کا پہلا اور سب سے مقدم مسئلہ ہی یہ ہے کہ تمام تر بیماریوں اور عوارضِ معدہ سے شروع ہوتے ہیں معدہ کی خرابی ہی یعنی پُر خوری معمول سے زیادہ کھا لینا ہی انسان کو بیمار کرتا ہے لہذا قرآن نے نسخہ تجویز کیا۔وَکُلُوْ ، کھاو۔وَاشْرَبُوْ ۔پئیو۔وَلاَ تُسْرِ فُوْ ۔ اسراف نہ کرو یعنی زیادہ نہ کھاو ۔ اِعتدال کو پیشِ نظر رکھو۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علمِ طب کے متعلق فرمان رسول بہ کثرت ہیں جو سلامتئی روح کے ساتھ سلامتئی بدن کے بھی ضامن ہیں، اِرشاد ختمی مرتبت ہے:۔رَوَّحِ الْقُلُوْبَ سَاعَةً بَعْدَ سَاعَةٍ یعنی ہر چیز لحظہ کے بعد دِل کو آرام و راحت پہنچاو۔ تمامتر خوب و بَد اثرات کا باعث انسان کا دل ہے۔ دل کی سلامتی پر تمام اعضاء کی سلامتی موقوف ہے۔ اور بیماری دِل تمام اعضاء کی بیماری کا واحد سبب ہے۔ لہذا سلامتی اور صحت کا بہترین اصول دل کو خوش رکھنا ہے۔ ایک فلسفی کہ مقولہ ہے کہ شادی بیماری کا بہترین علاج ہے۔ خوشی اِنسان کو اپنی طرف متوجہ کرکے انسان کو ہزاروں بیماریوں سے نجات دِلا دیتی ہے۔ ارشاد رسول:۔کل لھو باطل الا ثلث۔ تادیب الموللفرس و رمہ عن قوسہ وملاعبة امراتہ فانّھا حق۔ یعنی ہر بازی ناجائز ہے مگر تین( ۳): ۔ ( ۱) تربیتِ اسپ ( ۲) تیر اندازی ( ۳) تفریح بازنان ہر شخص کے نزدیک بازی و تفریح اِنسانی صحت و سلامتی کے لئے ضروری ہے۔ کوئی دل کو خلاف شرع اشیاء سے خوش کرتا ہے۔ اور شراب نوشی اور قمار بازی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اور بعض عقل و دین سے کام لے کرعقل و دین کی بتلائی ہوئی تفریحات کو اختیار کرتا ہے اور جانتا ہے کہ انسان صرف کھیل کود کیلئے ہی پیدا نہیں کیا گیا۔ فرمانِ پیغمبر اِسلام کے مطابق ان تین چیزوں میں سے کسی ایک یا سب کو اختیار کرناہے۔ بازی با اسپ یعنی گھڑ دوڑ جو دلکو بھی خوش کرتی ہے اور گھوڑے کو تربیت دیکر قابل جنگ و جدل بناتی ہے۔ تیر اندازی تفریح کا سبب بھی بنتی ہے۔ اور میدانِ جنگ میں بھی کام آتی ہے۔ تفریح بازنان باعثِ نشاط بھی ہے۔ اور موجب افزائشِ نسل ارشاد رسول:۔ المعدة بیت کل داؤالحمیہ راس کُلّ دوا۔ یعنی شکم ہر بیماری کا گھر ہے، اور پرہیز ہر علاج کا رازہے۔ اطباء اور عقلاء کے نزدیک بھی ہر بیماری کی جڑ پُر خوری اور ناسازگار اشیاء ہیں۔ ضرب المثل ہے، کہ بیماریوں کا باپ کوئی بھی ہو لیکن بیماریوں کی ماں یقینی غذائے ناسازگار ہے لہذا کھاتے وقت اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ کونسی غذا مفید اور سازگار ہے۔ غذا کے رنگ، لذت اور مزہ کے دھوکے میں نہ آنا چاہئے۔ کسی نے خوب خوب کہا ہے کہ انسان کا منہ، شاید پیٹ سے بھی بڑا ہے جو اِ س قدر کہا جاتا ہے کہ ظرف یعنی پیٹ سما نہیں سکتا۔ ارشاد رسول:۔اعظ کُل بدن ماعودہة۔ یعنی بدن کو اپنی عادی چیزوں سے کامیاب بناو۔ اِنسان ان مفید چیزوں میں سے بھی جس کا وہ عادی ہو گیا ہے اِستعمال کرے اس لئے کہ انسان اپنی زندگی کے کاموں میں سے جس چیز کا عادی ہو جاتا ہے وہ اسکے لئے آسان تر ہو جاتے ہیں اِسی لئے عادی غذا اس کے لئے آسان اور زودہضم ثابت ہوگی۔ البتہ اگر ناسازگار غذاوں کا عادی ہو گیا ہے تو ان کو بہ تدریج ترک کرنے کی اِنتہائی کوشش کرے۔ ارشاد رسول:۔لا تکرهو ا مرضا کُم علی الطعام فانّ الله یطعمهم و یستیهم ۔ یعنی اپنے بیماروں کو ان کی خواہش کے خلاف کھانے پر مجبور نہ کرو کیونکہ ان کو خدا کِھلاتا اور پلاتا ہے۔ بیمار کو غذا سے پرہیز طبیعت کے خدمات میں سے بڑی خدمت ہے۔ اِس لئے کہ وہ مواد فاسدہ جو جسم میں جم کر بیماری کا باعث بنا ہے وہ نہ کھانے کی وجہ سے جل کر فنا ہو جائے۔۔۔ معدہ ضعیف میں ثقیل غذا ہر گز نہ، پہونچانی چاہئے۔ کیونکہ غذا ہضم نہ ہونے کی وجہ سے شکم میں سڑ کر مختلف مُہلک امراض سرطان وغیرہ کا سبب بنتی ہے، اور اکثرو بیشتر امراض بے انتہا غذا کھانے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیاہے کہ جن لوگوں کی طویل عمر ہوئی ہے وہ اکثر پرہیزگار اور کم خوراک تھے۔

ارشاد علی ابنِ ابی طالب

لا تمینو االقلوب بکثرة الطعام والشراب فانّ القلوب تموت کما یموت الزّرع اذا اکثر علیه الماء ۔۔ یعنی اپنے دِلوں کو زیادہ کھانے پینے کی طرف مائل نہ کرو تمہارے دل ایک مزروعہ زمین کے مانند ہیں جس میں اگر حد سے زیادہ پانی دیا جائے تو زراعت کو بجائے فائدہ کے نقصان دیتا ہے بلکہ زراعت ہی کو ختم کر دیتا ہے۔ ایک دوسرے مقام پر امیرالمومنین اپنے فرزند کو رازِ حکمت سے مطلع فرماتے ہیں امیرالمومنین:۔ اے میرے فرزند، کیا چار باتیں میں تمہیں ایسی تعلیم نہ کروں جو تمہیں علم طب سے بے نیاز کر دیں۔ فرزند:۔ والد گرامی ضرور فرمائیے۔ امیرالمونین:۔ سُنو اور یاد رکھو! ۱) ۔ دَستر خوان پر اُس وقت تک ہر گز مت بیٹھو جب تک اِشتہا کامل نہ ہو۔ ۲) ۔ اور دَستر خوان سے فورًا کھڑے ہو جاو جب ایک لقمہ کی ابھی اشتہا باقی ہو۔ ۳) ۔غذا کو خوب چبا کر کھاو ۴) ۔ جب بسترِ خواب پر جاو تو خیال رکھو کہ شِکمِ طعام سے پُر بار نہ ہو۔ اگر اِ س پر عمل کرو گے تو کسی طبیب کے محتاج نہ رہو گے۔ ارشادِ دیگر:۔من اراداالبقاء ولا بقاء فلیباکر الغذاء ویوخر العشاء ویقل عشیان النساء ولیخفف الرَداء الدّین ۔ یعنی اگر کوئی شخص چاہے کہ ہمیشہ زندہ رہے ۔(اگرچہ بقاء سوائے خدا کے اور کسی کو نہیں) یعنی اگر چاہے کہ عمر طولانی ہو۔ تو صبح کا کھانا جلدی کھائے اور شام کا کھانا دیر میں ، اور ہم بستر کم ہوقرض سے سُبکدوش ہو۔ ارشاد رسول:۔اپنی بیماریوں کا علاج کرو اِس لئے کہ خدا نے کوئی مرض ایسا نہیں دیا جس کی دوا نہ پیدا کی ہو۔ مگر موت جس کا کوئی علاج نہیں۔ نیز فرمایا جس نے بیماری خَلق کی اُس نے علاج بھی پیدا کیاہے۔ اور بہترین علاج، حجامت۔ فصد۔ اور کالا دانہ ہے۔پھر ارشاد فرمایا کہ بُخار کی حرارت کو پانی سے سرد کرو۔ جب آپ کو کبھی بخار آ جاتا تو آپ اپنے ہاتھ پانی میں ڈالتے۔ یہ بار ہا کا تجربہ ہے کہ بُخار کے مریض کو پانی ہاتھ پر ڈالنے سے آرام ہو گیا ہے۔ بشرطیکہ وہ کسی اور اندرونی بیماری میں مبتلا نہ ہوبلکہ بہتر یہ ہے ’گُلِ خطمی‘ کو پانی میں جوش دے کر سرد کر کے اُس میں ہاتھ اور پاوں ڈالے جائیں۔ اقوال امیرالمومنین:۔العلم علمان۔ علم الابدان و علم الادیان ۱ ۔ علم دو ہیں:۔ بدن کا علم اور دین کا علم ۲ ۔عِلم چار ہیں:۔ علم فقیہہ(برائے حفظِ دین) عِلم طِب (برائے عِلاج و معالجہ) عِلم نحو برائے آداب و گفتگو) علمِ نجوم( برائے شناختن بعض اوقات) ۳ ۔ بُخار کی حرارت کو ’گُل بَنفشہ‘ اور آب سرد کے ذریعہ دور کرو

دَاستانِ طبی امیرالمومنین

قضایائے امیرالمومنین میں سے صرف دو قضئے یہاں نقل کئے جا رہے ہیں۔ جن عُلماء فریقین نے نقل کیا ہے۔ اسعد ابنِ ابراہیم اودبیلی مالکی جو علمائے اہلسنت سے ہیں، وہ عمار ابن یاسِر اور زید ابن اَرقم سے روایت کرتے ہیں کہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ایک روز ایوانِ قضا میں تشریف فرما تھے ہم سب آپ کی خدمت میں موجود تھے کہ ناگہاں ایک شوروغُل کی آواز سُنائی دی۔ امیرالمومنین نے عمّا ر سے فرمایا کہ باہر جا کر اِس فریادی کو حاضر کرو۔ عمار کہتے ہیں میں باہر گیا اور ایک عورت کو دیکھا جو اونٹ پر بیٹھی فریاد کر رہی تھی۔ اور خدا سے کہ رہی تھی ۔ اے فریاد رسِ بیکساں ! میں تجھ سے انصاف طلب ہوں اور تیرے دوست کو تجھ تک پہونچنے کا وسیلہ قرار دے رہی ہوں۔ مجھے اس ذِلت سے نجات دے اور تو ہی عِزّت بخشنے والا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک کثیر جماعت اُونٹ کے گِرد شمشیر برہنہ جمع ہے۔ کچھ لوگ اس کی موافقت اور حمایت میں اور کچھ اس کی مخالفت میں گفتگو کر رہے ہیں۔ میں نے اُن سے کہا ، امیر المومنین علی ابن ابی طالب کا حکم ہے کہ تم لوگ ایوانِ قضا میں چلو۔ وہ سب لوگ اس عورت کو لے کر مسجد میں داخل ہوئے۔ ایک مجمع کثیر تماشائیوں کا جمع ہو گیا۔ امیرالمومنین کھڑے ہو گئے۔ اور حمد و ثناء خدا و ستائشِ محمد مصطفٰی کے بعد فرمایا! بیان کرو کہ کیا واقعہ ہے اور یہ عورت کیا کہتی ہے۔ مجمع میں سے ایک شخص نے کہا، یا امیرالمومنین ! اِس قضیہ کا تعلق مجھ سے ہے۔ میں اِس لڑکی کا باپ ہوں، عرب کے نامی گرامی معزز و متموّل مجھ سے اِسکی خواستگاری کرتے تھے مگر اِس نے مجھے ذلیل کر دیا۔امیرالمومنین نے لڑکی کی طرف ’رُخ ‘ کیا اور فرمایا کہ جو کچھ تیرا باپ کہتا ہے کیا یہ سچ ہے؟ لڑکی روئی اور چِلائی، یا حضرت! پروردگار کی قَسم میں اپنے باپ کی بے عزتی کا باعث نہیں ہوئی ہوں۔ بوڑھا باپ آگے بڑھا اور بولا یہ لڑکی غلط کہتی ہے۔ یہ بے شوہر قانونی کے حاملہ ہے۔ امیرالمومنین لڑکی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ کیا تو، حاملہ نہیں ہے اور کیا تیرا باپ جھوٹ بول رہا ہے۔ آقا یہ سچ ہے کہ میں شوہر نہیں رکھتی لیکن آپ کے حق کی قسم، میں کسی خیانت کی مرتکب نہیں ہوں۔ پھر امیرالمومنین نے کوفہ کی ایک مشہور ’دایہ‘ کو بُلوایا اور کہا کہ اس کو پَسِ پردہ لے جا کر جائزہ لو اور مجھے صحیح حالات سے مطلع کرو۔ ’دایہ ‘ لڑکی کو پسِ پردہ لے گئی بعدِ تحقیق خدمت امیرالمومنین میں نہایت حیرت سے عرض کرنے لگی۔ مولا! یہ لڑکی بے گناہ ہے کیونکہ ’باکرہ‘ ہے کسی مرد سے ہمبستر نہیں ہوئی مگرپھر بھی حاملہ ہے۔ امیرالمومنین لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، تم میں سے کوئی شخص ایک برف کا ٹکڑا کہیں سے لا سکتاہے۔ لڑکی کے باپ نے کہا کہ ہمارے شہر میں اس زمانہ میں بھی برف بکثرت ملتا ہے مگر اس قدر جلد وہاں سے نہیں آ سکتا۔۔! امیرالمومنین نے بہ طریقِ اعجاز ہاتھ بڑھایا اور قطعہ برف ہاتھ میں تھا۔’دایہ‘ سے فرمایا کہ لڑکی کو مسجد سے باہر لے جاو اور ظَرف میں بَرف رکھ کر لڑکی کو برہنہ اس پر بٹھا دو اور جو کچھ خارج ہو مطلع کرو۔ ’دایہ‘ لڑکی کو تنہائی میں لے گئی، برف پر بٹھایا، تھوڑی دیر میں ایک سانپ خارج ہوا۔ ’دایہ ‘ نے لے جا کر امیرالمومنین کو دِکھلایا۔ لوگوں نے جب دیکھا تو بہت حیران ہوئے۔ پھر امیرالمومنین نے لڑکی کے باپ سے فرمایا کہ تیری لڑکی بے گناہ ہے۔ کیونکہ ایک کیڑہ تالاب میں اس کے نہاتے وقت ’داخل رحم‘ ہو گیا۔ جس نے اندر ہی اندر پرورش پا کر یہ صورت اختیار کی ( یہ تھی بغیر ایکسرے کے طبیبِ روحانی و جسمانی کی مکمل تشخیص) داستان دیگر:۔ اِس واقعہ کو یا فعی نے اپنی مشہور کتاب روضة الریاحین میں صفحہ ۴۲ پر لکھا ہے۔ ایک مرتبہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب، بصرہ کی ایک شاہراہ سے گذر رہے تھے دیکھا ایک مقام پر کثیر مجمع ہے اور لوگ جوق در جوق چلے آ رہے ہیں ، آپ بھی بڑھے اور دیکھا کہ مجمع کے درمیان ایک خوش پوش، خوش رو جوان ہے۔ لوگ شیشیوں میں کوئی اپنا خون، کوئی اپنا ادرار(پیشاب) لئے اس کو دکھلا رہے ہیں۔ وہ ہر ایک کو اُس کی مرض کے مطابق دوا تجویز کررہا ہے۔ لوگوں سے معلوم ہوا کہ یہ بڑا مشہور و معروف حاذِق طبیب ہے۔ امیرالمومنین آگے بڑھے، سلام کیا، اور فرمایا! کیا دردِ گناہ کی بھی کوئی دوا آپ کے پاس ہے؟ طبیب:۔ (بغور دیکھ کر بولا) گناہ بھی کوئی درد یا بیماری ہے؟ امیرالمومنین:۔ نے فرمایا، ہاں۔ گناہ بڑی مُہلک تَرین بیماری ہے طبیب:۔ تا دیر سر جھکائے سوچتا رہا، بعد تامل کہا۔ اگر گناہ بیماری ہے تو کیا کوئی اسکا علاج آپ کے پاس ہے؟ امیرالمومنین:۔ بیشک میں گناہ کا علاج جانتا ہوں ا ور درد کی دوا رکھتا ہوں۔ طبیب:۔ ذرا میں بھی سنوں کہ اس کی کیا دوا ہے۔ اور کون سا نسخہ ہے جس کے ذریعہ آپ اسکا علاج کرتے ہیں۔ امیرالمومنین:۔ (طبیب سے فرمایا) اچھا اُٹھو اور آو، ذرا میرے ہمراہ ’باغِ ایمان میں چلو، وہاں پہنچ کر ’نیت کے درخت کے کچھ ریشے۔ دانہ پشیمانی قدرے۔برگِ تدبر قدرے۔ تخم پرہیزگاری قدرے۔ ثمر فہم قدرے۔ شاخہائے یقین قدرے۔ مغز اِخلاص قدرے۔ پوست سعئی قدرے۔ زہر مُہرہ تواضع مختصرً ۱ اور توبہ کا پچھلا حصہ لو ترکیب:۔اِن سب دواوں کو باہوش و حواس اِطمینان قلب سے توفیق کے ہاتھوں اور تصدیق کی اُنگلیوں سے تحقیق کے پیالہ میں ڈالو۔ اور آنکھوں کے پانی میں بھگو دو۔ کافی دیر کے بعد پھر سب کو امید کی پتیلی (دیگچی) میں ڈال کر شوق کی آگ میں جوش دو۔ اس قدر کہ مادئہ فاسدہ فنا ہو جائے اور خالص چیز رہ جائے۔ اِس کے بعد تسلیم و رضا کی طشتری میں رکھ کر توبہ و استغفار کی پھونکوں سے ٹھنڈا کرو۔ پھر اسے ایسی جگہ بیٹھ کر جہاں سوائے خدا کے اور کوئی نہ ہو ۔ پی لو‘ ۔ یہ ہے وہ دوا جو گناہ کے درد کو دفع اور مصیبت کے زخموں کو بھر دیتی ہے۔ پھر کوئی درد یا زخم کا اثر باقی نہیں رہتا۔ طبیب یہ سن کر حیران ہو گیا۔ کچھ دیر خاموش رہ کر وہ آگے بڑھ کر امیرالمومنین کے قدموں پر گر گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ پیغمر اسلام خاتم المرسلین جو اپنی زمانہ حیات بابرکات میں امراض روحانی و جسمانی کے حقیقی طبیب تھے۔ جب بہ اشارہ حبیب محبوب بزم لاھوتی کی طرف مائل ہوا تو لطفِ خداوندی کا تقاضہ ہوا کہ اپنے بندوں کو بے سرپرست نہ چھوڑے، چنانچہ غروب آفتاب سے قبل ہی چند ستارونکی روشنی کا انتظام فرمایا تا کہ بندوں کے روحانی اور جسمانی امراض کا مداوا ہوتا رہے، ہر دور کے اسلامی دانشوروں نے آئمہ طاہرین کے طبی فرمان کو بھی کتابی صورت میں اکثر پیش کیا ہے ازاں جملہ طب النبی۔ طِب الرضا۔ طب الائمہ ہے جس میں طب الرضا زیادہ معروف ہے۔ جو امام علی رضا علیہ السلام نے مامون رشید ( خلیفہ بنی عباسیہ) کی خواہش پر تحریر فرمائی جس کو مامون نے سونے کے پانی سے لکھوایا۔ جس کی وجہ سے کتاب نے رسالہ ذہبیہ نام پایا۔ مامون کے دور میں اگرچہ مشہور و معروف اطباء موجود تھے۔ مگر مامون رشید ہمیشہ امام علی رضا علیہ السلام کی طرف رجوع کرتا ۔

دورِ ترقی علمی

امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے کو علمی اِرتقاء اور ترقی کا زمانہ کہا جاسکتا ہے کیونکہ عوام و خواص ہر ایک اس زمانے میں تحصیلِ علم کی طرف متوجہ تھا۔ اور اس زمانے کا ماحول کاملاً اسرارِ قرآنی کی تبلیغاور انکشاف کے لئے سازگار تھا۔ اِس علمی ماحول ہی کی وجہ سے امام کو اسرارِ علومِ دینی کے حتی الوسع اِنکشاف کا موقع ملا۔ آپ کے حکیمانہ کلمات علمی وطبی نظریات اور دینی بیانات کی پُرجوش نہر تھی جو تشنگانِ معرفت کو سیراب کرتی چلی جا رہی تھی۔ تشنگانِ دانش اور بیمارانِ جہل دور دروازے سے آتے اور جہالت کی بیماری سے شفایاب ہوتے۔ مورخین آپ سے روایت کرتے اور دانشور کتابی صورت میں آپ کے فرمودات جمع کرتے تھے حتیٰ کہ حفاظ اور محدثین جب کچھ بیان کرتے تو حوالہ دیتے کہ امام جعفر صادق نے یہ ارشاد فرمایاہے، اب ہم آپ کے دریائے حکمت کے چند قطرے اور گلستانِ طب کے پھول نہایت اِختصار سے پیش کر رہے ہیں۔ مُعارفِ اِمام از کتب غیر نیست جو لوگ عرب کے ماحول اور عرب کی تاریخ سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ معارف و علوم امام آپ کے ہمعصر عقلاء کی تعلیمات سے بالکل مختلف ہیں لہذا ظاہر ہوا کہ آپ نے کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہیں کی اور نہ کسی اُستاد کے سامنے زانوئے اَدب تہہ کیا۔ آپ کا علم۔ عِلمِ نبوت کا ایک پر تو ہے جس کا اَصل سرچشمئہِ وحی اور پیغامِ خداوندی ہے۔ اسی سر چشمہ اور علم نبوتی کا دھارا حضرت علی علیہ السلام ہیں جن سے فرزندے بہ فرزندے امام جعفر صادق علیہ السلام تک بہ فیضانِ وحی پہونچتا ہے۔ مختصر یہ کہ معارفِ جعفری، اَسرار قرآنی کا ایک راز۔ انوارِ نبوت کا ایک نور۔ فیضانِ امامت کا ایک روشن فیض ہے۔ اَب ہم اپنے دعوے کے ثبوت میں حضرت امام جعفر صادق کے کچھ طبی مناظرات نقل کر رہے ہیں اور فیصلہ قارئین و ناظرین کی عقل سلیم پر چھوڑتے ہیں۔ طبِ ہندی:۔ طِبِ ہندی ’تمام بیماریوں کی جڑ اور اصل کثافت خون کو ٹھہراتی ہے اور مُصفی خون اَدویہ سے اسکا علاج کرتی ہے۔ بیماریاں اگرچہ مختلف ہوتی ہیں مگر وہ صرف تصفیئہ خون سے سب کا علاج کرتی ہے۔ اَطباء ہندی مادہِ فاسد سے قطع نظر کرکے تصفیئہ خون کی کوشش کرتے ہیں۔ کثیف خون کی کثافت کے دُور کرنے کی طرف تو متوجہ نہیں ہوتے بلکہ تازہ اور نیا پاک خون پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔۔ طبِ ہندی میں پرہیز زیادہ تر فاقہ کی صورت میں ہے۔ مگر اسلام میں پرہیز صرف ان چیزوں سے ہے جو مُضر ہوں۔

گفتگو امام صادق با طبیبِ ہندی

امام جعفر صادق جب منصور کے دربار میں پہونچے تو وہاں ایک طبیب ہندی ایک کتاب طب ہندی منصور کو پڑھ کر سنا رہا تھا، آپ بھی بیٹھ کر خاموشی سے سُننے لگے۔ جب وہ فارغ ہوا تو آپ کی طرف متوجہ ہوا۔ اور منصور سے پوچھا، یہ کون ہیں۔منصور نے جواب میں کہا ، یہ عالمِ آلِ محمد ہیں۔ طبیب ہندی آپ سے مخاطب ہوا اور بولا، آپ بھی اس کتاب سے کچھ فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا، نہیں۔ اُس نے کہا، کیوں؟ آپنے فرمایا جو کچھ میرے پاس ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو تمہارے پاس ہے۔ اس نے کہا، آپ کے پاس کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہم گرمی کا سردی اور سردی کا گرمی سے۔ رطوبت کا خشکی سے اور خشکی کا رطوبت سے علاج کرتے ہیں۔ اور جو کچھ رسول خدا نے فرمایا ہے اس پر عمل کرتے ہیں۔ اور انجام کار خدا پر چھوڑتے ہیں۔ طبیب ہندی نے کہا وہ کیا ہے؟ امام:۔ فرمودئہ رسول یہ ہے کہ شِکم پر بیماری کا گہرا اثر ہوتا ہے اور پرہیز ہر بیماری کا علاج ہے جسم جس چیز کا عادی ہو گیا ہو اُس سے اُس کو محروم نہ کرو۔ طبیب ہندی:۔ مگر یہ چیز طِب کے خلاف ہے امام:۔شاید تمہارا یہ خیال ہے کہ میں نے یہ علم کتاب سے حاصل کیا ہے طبیب ہندی:۔اسکے علاوہ بھی کیا کوئی صورت ہے امام:۔میں نے یہ علم سوائے خدا کے کسی سے حاصل نہیں کیا۔ لہذا بتلاو ہم دونوں میں کس کا علم بلند و برتر ہے۔ طبیب: کیا کہاجائے میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید میں آپ سے زیادہ عالم ہوں۔ امام:۔اچھا میں تم سے کچھ سوال کرسکتا ہوں؟ طبیب:۔ ضرور پوچھئے۔ امام:۔یہ بتاو کہ آدمی کی کھوپڑی میں کثیر جوڑ کیوں ہیں،سپاٹ کیوں نہیں طبیب:۔کچھ غور و خوض کے بعد ، میں نہیں جانتا امام:۔اچھا پیشانی پر سر کی طرح بال کیوں نہیں ہیں طبیب:۔میں نہیں جانتا امام:۔پیشانی پر خطوط کیوں ہیں طبیب :۔ معلوم نہیں امام:۔آنکھوں پر اَبرو کیوں قرار دیئے گئے ہیں۔ طبیب:۔میں نہیں جانتا امام:۔ آنکھیں بادام کی شکل کی کیوں بنائی ہیں طبیب:۔معلوم نہیں امام:۔ناک دونوں آنکھوں کے درمیان کیوں ہے طبیب:۔مجھے معلوم نہیں امام:۔ ناک کے سوراخ نیچے کی طرف کیوں ہیں طبیب:۔ معلوم نہیں امام:۔ہونٹ، منھ کے سامنے کیوں بنائے ہیں طبیب :۔ معلوم نہیں امام:۔ آگے کے دانت باریک و تیز اور داڑھیں چپٹی کیوں ہیں طبیب :۔ معلوم نہیں امام:۔مرد کے داڑھی کیوں ہے طبیب :۔ معلوم نہیں امام:۔ہتھیلی اور تلوے میں بال کیوں نہیں ہیں طبیب:۔ معلوم نہیں امام:۔ناخُن اور بال بے جان کیوں ہیں۔ طبیب :۔ معلوم نہیں امام:۔دِل صنوبری شکل کا کیوں ہے طبیب:۔ معلوم نہیں امام:۔پھیپھڑے کے دو حصے کیوں ہیں اور متحرک کیوں ہیں۔ طبیب:۔معلوم نہیں امام:۔جگر گول کیوں ہے طبیب:۔معلوم نہیں امام:۔گُھٹنے کا پیالہ آگے کی طرف کیوں ہے۔ طبیب:۔ معلوم نہیں امام:۔ میں خدائے داناوبرتر کے فضل سے ان تمام باتوں سے واقف ہوں۔ طبیب:۔فرمایئے میں بھی مستفید ہوں امام:بہ غور سُن

جوابات

۱) ۔آدمی کی کھوپڑی میں مختلف جوڑ اس لئے رکھے گئے ہیں تا کہ دردِ سر اُسکو نہ ستائے ۲) ۔سر پر بال اِس لئے اُگائے تاکہ دماغ تک روغن کی مالِش کا اثر جاسکے،اور دماغ کے بُخارات خارج ہو سکیں، نیز سردی و گرمی کا بہ لحاظِ وقت لباس بن جائے ۳) ۔پیشانی کو بالوں سے خالی رکھا تا کہ آنکھوں تک نور بے رکاوٹ آسکے۔ ۴) ۔ پیشانی پر خطوط اِس لئے بنائے ہیں تا کہ پسینہ آنکھوں میں نہ جائے۔ ۵) ۔آنکھوں کے اوپر اَبرواِسلئے بنائے تا کہ آنکھوں تک بقدر ضرورت نور پہنچے۔ دیکھوجب روشنی زیادہ ہو جاتی ہے تو آدمی اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر چیزوں کو دیکھتا ہے۔ ۶) ۔ناک دونوں آنکھوں کے درمیان اس لئے بنائی ہے تاکہ روشنی کو برابر دو حصوں میں تقسیم کردے تاکہ معتدل روشنی آنکھوں تک پہونچے ۷) ۔آنکھوں کو بادام کی شکل اس وجہ سے دی تاکہ آنکھوں میں جو دوا سلائی سے لگائی جائے اُس میں آسانی ہو اور میل آنسووں کے ذریعہ بہ آسانی خارج ہو سکے۔ ۸) ۔ناک کے سوراخ نیچے کی طرف اِسلئے بنائے تاکہ مغز کا میل وغیرہ اس سے خارج ہو اور خوشبو بذریعہ ہوا دماغ تک جائے اور لقمہ منھ میں رکھتے وقت فورًامعلوم ہو جائے کہ غذا کثیف ہے یا لطیف۔ ۹) ۔ہونٹ، مُنھ کے سامنے اِسلئے بنائے کہ دماغ کی کثافتیں جو ناک کے ذریعہ آئیں منھ مین نہ جاسکیں۔ اور خوراک کو آلودہ نہ کردیں۔ ۱۰) داڑھی اسلئے بنائی تاکہ مرد اور عورت میں تمیز کی جاسکے ورنہ بڑا شرمناک طریقہ اختیار کرنا پڑتا۔ ۱۱) ۔آگے کے دانت باریک اور تیز اِس لئے بنائے گئے تاکہ غذا کو کاٹ کرٹکڑے ٹکڑے کر سکیں اور داڑھوں کو چوڑے(چَپٹے) اِس لئے بنائے تاکہ وہ غذا کو پیس سکیں۔ ۱۲) ۔ہاتھوں کی ہتھیلیاں بالوں سے اِس لئے خالی رکھیں تاکہ قوتِ لامسہ(چھونے کی قوت) صحیح کام انجام دے سکے۔ ۱۳) ۔ناخُن اور بالوں میں جان اِس لئے نہیں ، کہ انکے کاٹنے میں تکلیف کا سامنا باربار نہ ہو۔ ۱۴) ۔دِل صنوبری شکل اِسلئے دی گئی تاکہ اسکی باریک نوک پھیپھڑوں میں داخل ہو کر انکی ہوا سے ٹھنڈی رہے۔ ۱۵) ۔پھیپھڑوں کو دو حصوں میں اس وجہ سے تقسیم کیا گیا ہے کہ دِل دونوں طرف سے ہوا حاصل کر سکے۔ ۱۶) ۔جِگر کو گول اِسلئے بنایا ہے تاکہ معدہ کی سنگینی اپنا بوجھ اس پر ڈال کر زہریلے بُخارات کو خارج کر دے۔ ۱۷) ۔گُھٹنے کا پیالہ آگے کی طرف اسلئے ہے تاکہ آدمی بہ آسانی را ہ چل سکے، ورنہ راستہ چلنا مشکل ہو جاتا۔ اِنسان کے جسم میں ہڈیاں کتنی ہیں؟ طبیبِ نصرانی نے بڑے اِحترام سے امام سے درخواست کی کہ اِنسان کے جسم کی بناوٹ کی کچھ وضاحت فرمائیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا نے اِنسان کو بہ لحاظ ہیکل اِستخوانی دو سو آٹھ حصوں سے ترکیب دیا ہے۔ اِنسان کے جسم میں بارہ اعضاء ہیں ۔ سر، گردن، دو( ۲) بازو، دو کلائی، دو ( ۲) ران،دو( ۲) ساق (پنڈلیاں) اور دو پہلو اور تین سو ساٹھ( ۳۶۰) رگیں ، ہڈیاں،پٹھے، اور گوشت۔۔ رَگیں جسم کی آبیاری کرتی ہیں۔ھڈیاں بدن کی حفاظت کرتی ہیں۔اور گوشت ہڈیوں کا تحفظ کرتا ہے۔ اور اس کے بعد پَٹھے گوشت کی حفاظت کرتے ہیں۔۔ ہر ہاتھ میں اِکتالیس ہڈیاں ہیں۔پینتیس ہڈیوں کا ہتھیلی اور انگلیوں سے تعلق ہے۔اور دو کا تعلق کلائی سے اور ایک کا تعلق بازو سے اور تین کا کندھے سے تعلق ہے۔ ہر پیر میں تینتالیس ہڈیاں پیدا کی ہیں۔ جن میں پینتیس قدم میں اور دُو پنڈلی میں اور تین زانو میں اور ایک ران میں اور دو نشیمن گاہ میں یعنی بیٹھنے کی جگہ میں۔۔ ریڑھ کی ہڈی میں اَٹھارہ ٹکڑے ہیں۔ گردن میں آٹھ، سر میں چھتیس ٹکڑے ہیں۔ اور منھ میں اٹھائیس یا بتیس دانت ہیں۔ اِس زمانہ میں جو ترکیب اِنسان کی ہڈیوں کو شمار کیا گیا ہے اُس میں اور فرمانِ امام میں اگر تھوڑا فرق ہو تو وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ بعض ان دو ہڈیوں کو جو بہت ہی متصل ہیں ایک ہی شمار کیا گیا ہے۔ امام علیہ السلام نے صدیوں قبل بغیر کسی آلہ اور فن معلومات کے تحقیق طِبی فرمائی ہے وہ آپ کے علم امامت کا بَیّن ثبوت ہے۔ دورانِ خون یہ مسئلہ جو اطباء مشرق نے بعد میں معلوم کیا ہے رازی کا بیان ہے کہ اسکو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے صدیوں پہلے کتاب توحیدِ مفضل میں بیان فرما دیا ہے۔ امام علیہ السلام نے اپنے شاگرد( مفضل)کو مخاطب کر کے فرمایا، اے مفضل! ذرا غذا کے بدن میں پہونچنے پر غور کرو، اور دیکھو کہ اس حکیم مطلق نے اس عجیب کارخانہ کو کس حکمت اور تدبیر سے چَلایا ہے۔ غذا منھ کے ذریعہ پہلے معدہ میں جاتی ہے۔ پھر حرارتِ غریری اس کو پکاتی ہے اور پھر باریک رگوں کے ذریعہ جگر میں پہونچتی ہے۔ یہ رگیں غذا کو صاف کرتی ہیں تا کہ کوئی سخت چیز جگر کو تکلیف نہ پہونچا دے۔ کیونکہ جگر ہر عضو سے زیادہ نازک ہے۔ ذرا اللہ کی اس حکمت پر غور کرو کہ اُسنے ہر عضو کو کس قدر صحیح مقام پر رکھاہے۔اور فُضلہ کے لئے کیسے ظروف(پِتہ، تِلّی اور مثانہ) خلق فرمائے تاکہ فُضلات جسم میں نہ پھیلیں، اور تمام جسم کو فاسد نہ بنا دیں۔ اگر پِتہ نہ ہوتا تو زَرد پانی خون میں داخل ہو کر مختلف بیماریاں مثلًا یرقان وغیرہ پیدا کر دیتا۔ اگر مثانہ نہ ہوتا تو پیشاب خارج نہ ہوتا اور پیشاب خون میں داخل ہو کر سارے جسم میں زہر پھیلا دیتا۔

ہم کسطرح دیکھتے اور سُنتے ہیں

یہ مسئلہ دانش اور طب کا مسلمہ ہے کہ سننے کے واسطے دو چیزوں کی ضرورت ہے ایک مسافت دوسرے وہ ذریعہ جو آواز کو کانوں تک پہونچا ئے اور اس ذریعہ کو ہوا کہتے ہیں۔ اگر ہوا نہ ہو تو آواز کو نہیں سُن سکتے۔ آنکھ جن چیزوں کو دیکھتی ہے اُس میں بھی واسطہ کی ضرورت ہے۔ اور وہ نور اور روشنی ہے خواہ سورج کی ہو یا چاند ستاروں کی یا آگ کی۔ خلاصہ یہ کہ بغیر ہوا کے ذریعہ سُننا، اور بغیر روشنی کے دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ یہ مسائل جن پر سے بعد میں پردہ اُٹھایا گیا ہے، ایک ہزار دو سو سال ( ۱۲۰۰) پیشتر امام اپنے شاگرد مفضل کو تعلیم فرما گئے ہیں۔ آپ مفضل شاگرد سے فرماتے ہیں، اے مفضل! ذرا حواسِ خمسہ پر نظر ڈالو، خدا نے آنکھوں کو پیدا کیا تاکہ رنگوں کو دیکھے۔ اگر رنگ ہوتے اور چشم نہ ہوتی تو رنگ بیکار تھے۔ اگر چشم ہوتی اور رنگ نہ ہوتے تو چشم بیکار ہو تی۔ کانوں کو پیدا کیا تاکہ آواز یں سُنے۔ اگر صدا(آواز) ہوتی اور کان نہ ہوتے، آواز بیکار تھی۔ اور اگر صدا نہ ہوتی اور کان ہوتے تو کان بیکار ہوتے۔ حدیثِ ھلیلہ:۔ حدیثِ مذکور ایک وہ خط ہے جو حضرت امام جعفر صادق نے اَثبات توحیدِ خداوندی میں اپنے شاگرد مُفضل ابنِ عمر کو لکھا۔ یہاں اس خط کا صرف وہ حصہ لکھا جا رہا ہے جو اِس موضوع سے متعلق ہے۔ یہ تحریر اِس اَمر کی گواہ ہے کہ ہمارے مذہبی پیشوا’گِیاہ شناسی‘ میں بھی کِس قدر ماہر تھے۔ محل حدیث:۔ مُفضل ابنِ عمر جعفی نے اِمام جعفر صادق کو ایک خط لکھا کہ یہاں کچھ لوگ منکرِ خدا،توحیدِ خداوندی اور اسکی رُبوبیت سے اِنکار کرتے ہیں۔ آپ اُنکا جواب حسب مصلحت تحریر فرما دیں۔ جواب:۔بِسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ خدائے بخشندہ و مہربان ہمیں اپنی اِطاعت کی توفیق عطا فرمائے۔اور اپنی رحمتوں سے نوازے۔تمہارا خط پہونچا، جن منکرینِ خدا کی تم نے شکایت کی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے گناہ کے دروازے اپنے لئے کھول رکھے ہیں۔ اور ہر دروازے سے ہواوہوَس کے لشکرِ بے خوف اُن تک پہونچ رہے ہیں۔ خواہشِ نفس اُن پر غالب آ چکی ہے۔ شیطان نے ان کے دِلو ں پر پورا پورا قبضہ جما لیا ہے اور خدا ایسے گناہ گاروں کے قلوب پر مُہر لگا دیتا ہے۔ میں اپنے مناظرات میں سے ایک واقعہ ’ہندی طبیب کا جو اکثر گمراہی کی باتیں کیا کرتا تھا، لِکھ رہا ہوں۔۔۔ ۔۔میں ایک روز اس کی طرف سے گذرا دیکھا کہ وہ ہلیلہ(ہَڑ) کوٹنے میں مشغول ہے، وہ مجھے دیکھ کر پھر وہی جاہلانہ گفتگو کرنے لگاَ ہندی طبیب کا دعوٰی تھا کہ دُنیا ہمیشہ باقی رہے گی۔ ایک دَرخت خشک ہوتا ہے تو دوسرا درخت اُگتا ہے۔ ایک مرتا ہے تو دوسرا پیدا ہوتا ہے۔ اُسکا خیال تھا کہ خدا کا عقیدہ محض ایک دعوٰی ہے جسکی کوئی دلیل موجود نہیں،خدا کا عقیدہ لوگوں نے اپنے بزرگوں سے تقلیدًا حاصل کیاہے۔ وہ یہ بھی کہتا تھا کہ جملہ موجودات مختلف ہوں یا متحد، ظاہر ہوں یا پوشیدہ، وہ حواسِ پنجگانہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ اُس نے مجھے دیکھ کر پھر وہی تذکرہ چھیڑا اور کہنے لگا کہ ذرا مجھے بھی تو بتلاو کہ آپ نے اپنے خدا کو کیسے پہچان لیا؟ حالانکہ ہر چیز جسکو قلب پہچانتا ہے۔ حواسِ خمسہ ہی کے ذریعے پہچانی جاتی ہے۔ امام نے فرمایا، اے طبیب ہندی ! مجھ سے وعدہ کر، اگر میں وجودِ خدا کو اِسی دَوا کے ذریعے جسے تو کوٹ رہاہے ثابت کردوں تو تُو وجودِ باری کا اِقرار سچے دل سے کر لے گا۔ طبیب:۔ ہاں میں اِقرار کرتا ہوں امام:۔ کیا تو اس بات کو مانتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی گذر ا کہ اُس وقت لوگ طب سے بے خبر اور ان دواوں کے فائدے اور ضرر سے ناواقف تھے۔ طبیب:۔ہاں ایسا طویل زمانہ گذرا ہے۔ امام:۔ پھریہ تمام باتیں آدمیوں کو کیسے معلوم ہوئیں؟ طبیب:۔تجربہ اور قیاس سے۔ امام:۔یہ کیسے لوگوں کے دل میں آیا کہ ان کو آزمانا چاہئے۔ اور یہ کیسے سمجھے کہ اشیاء کا تجربہ اور دواوں کا عِلم ان کے بدن کے لئے ضروری اور مُصلح ہے حالانکہ حَواسِ خمسہ سوائے تلخی شیرینی وغیرہ کے سوا اور کچھ معلوم نہیں کر سکتے، حواس مفید اور مضر کو نہیں سمجھتے۔ خلاصہ یہ ہے کہ لوگ اسکی حقیقت کیسے پہچان گئے جسکو حَواس کے ذریعے نہیں پہچانا جا سکتا جبکہ سوائے حواس کے اور کوئی معلوم کرنے کا ذریعہ نہیں۔ طبیب:۔ ان تمام چیزوں کو تجربہ اور آزمائش کے ذریعے حاصل کیاگیا ہے۔ امام:۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ دوا سازی اور طب کا موجد جو تمام اشیاء کے خواص کو جو مشرق و مغرب میں ہیں بیان کرتا ہے۔ اسکو دانشمند اور مردِ حکیم ہونا چاہئے ان بلاد میں ۔ طبیب:۔ کیوں نہیں، بلکہ اس کو اپنی معلومات دیگر عقلاء اور اہلِ دانش کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔ تاکہ انکی رائے سے فائدہ اُٹھا کر اپنے نظریات پر مطمئن ہو سکے۔ امام:۔ معلوم ہوتا ہے۔ تم مرد انصاف پسند ہو، اَپنے وعدے پر قائم ہو۔ اچھا اب یہ بتلاو کہ اس حکیم نے کِس طرح تمام جڑی بوٹیوں کا تجربہ کر لیا۔ اچھا مانا کہ اسنے ان چیزوں کا جو اس کے شہر میں ہیں تجربہ کرلیا تمام دُنیاکی اشیاء کا تجربہ کیسے کیا جبکہ اسکا تجربہ صرف حواس سے نہیں ہو سکتا۔ کوئی عقل اِس بات کو تسلیم نہیں کرسکتی کہ کوئی عاقل دُنیا کا اِتنی قدرت رکھتاہو کہ تمام دُنیا کے گوشہ گوشہ میں گیا ہو اور ہر قسم کے درخت ، گھاس ، پھل پھول اور معدنیات کو آزمایا ہو۔ اُن کی خاصیت اور ترکیب سے واقف ہوا ہو۔ جو خاصیت اِس دوا میں ہے جو کہ اِس وقت تیرے ہاتھ میں کسی حواس کے ذریعہ ظاہر نہیں ہوئی ہے۔ اور یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ دوا اپنا اثر نہ دکھائے گی۔ جب تک اسکو صحیح اجزاء سے ترکیب نہ دیا جائے۔ مثلًا ہلیلہ(ہڑ) ہندوستان سے ، مصطگی روم سے، مُشک تبت سے، دار چینی چین سے، افیون مصر سے، ایلوہ یمن سے وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام اجزا دُنیا کے مختلف حصوں سے ملتے ہیں۔ یہ کیسے معلوم ہوا کہ ایک کو دوسرے سے نہ ملائیں تو مطلوبہ خاصیت پیدا نہیں ہو سکتی۔ یہ کیسے معلوم ہوا کہ فلاں چیز فلاں مقام پر پیدا ہوتی ہے حالانکہ رنگ ایک جیسا، خاصیت برعکس، اور مقامات متفرق ہیں بعض درخت کے تَنے سے نکلتی ہیں، بعض ریشوں سے، بعض پَتوں سے، بعض پھل پھول سے، بعض ان چیزوں کے رس سے، بعض انکے تیل سے، بعض جوش دینے سے، بعض پختہ، بعض خام، پس یہ کیسے معلوم ہوا کہ کسکو کسطرح استعمال کرنا چاہئے۔ ہر دوا کا اسکے مقام کے لحاظ سے جُداگانہ نام ہے۔اور ہر دوا صرف جڑی بوٹی (بونڈی) ہی پر منحصر نہیں ہے۔ بعض دوائیں درندوں، جنگلی اور دریائی جانوروں کے پِتہ وغیرہ سے حاصل ہوتی ہیں، بعض پہاڑی دَرّوں، پہاڑی چوٹیوں، دریاوں کی تہہ سے حاصل ہوتی ہیں۔ بعض ان شہروں سے جہاں کے باشندے، وحشی خونخوار اور ہماری زبان سے بھی بالکل واقف نہیں ہیں، اُن سے حاصل ہوتی ہیں۔ کیا یہ خیال کیا جاسکتاہے کہ ایک حکیم ان تمام شہروں میں گھوما ہو انکی ہر ایک زبان سے واقف ہو۔ ہر ملک و ہر شہر کے باشندوں سے تعلقات رکھتا ہو اور تمام دُنیا کی جڑی بوٹی اور طبی اشیاء کی آزمائش کی ہو۔ اور اپنے سفر میں کامیاب لوٹا ہو۔ نہ بیمار ہواہو، نہ تھکا ہو،نہ بھٹکا ہو، نہ مرا ہو، نہ کچھ فراموش کیا ہو۔ اور اپنے قیاسات میں اس نے کوئی غلطی بھی نہ کی ہو۔اور ہر درخت اور گھاس کی خاصیت معلوم کی ہو۔ اور جسطرح انکو پایا ہو۔ صحیح بیان بھی کیا ہو۔ اور اپنے تجربات کو درست دوسروں تک پہونچا بھی دیا ہو۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ سب کچھ ممکنات سے ہے اور تمہارا یہ خیال بھی مان لیا جائے کہ علمِ طب تجربہ سے حاصل ہوا ہے تو یہ بتلاو کہ کیا ایک گھاس کے صرف ایک مرتبہ کے تجربے سے یقین کر لیا جائے کہ اسکی یہ خاصیت ہے نہ کہ اسکا بارہا تجربہ کرنا ہوگا۔ اگرچہ وہ گھاس سَمِ قاتل یعنی فورًا ہلاک کردینے والی ہو۔ اب بتلاو کہ اسکے تجربہ کرنے میں کِتنی جانیں تلف ہوں گی۔ اور کتنے تجربہ کرنے والے اور کتنے وہ جن پر تجربہ کیا گیا ہے دُنیا سے کوچ کر جائیں گے۔ لہذا صرف ایک چیز کے تجربہ کرنے میں ہزاروں جانیں اَوّل ضائع ہوں گی اور پھر بھی وہ چیز یقینی قیاس رہیگی علاوہ اسکے جیسا کہ کہا گیا ہے، دوائیں صرف نباتات پر منحصر نہیں، بہت سی حیوانات کے گوشت و پوست ، خون و اِستخوان سے پرندوں درندوں اور دریائی مچھلیوں سے حاصل ہوتی ہیں۔ پھر کیا یہ صحیح سمجھا جائے کہ ایک حکیم نے نباتات کے علاوہ تمام حیوانات کو ذِبح کرکے اپنا تجربہ مکمل کیا ہے اس صورت میں تو شاید ایک حیوان بھی رُوئے زمین پر باقی نہ رہا ہو گا اور ہاں وہ حیوانات آبی جو دریا کہ تہہ میں ہیں اُن تک رسائی کسطرح ہوئی ہوگی۔ طبیب:۔ خاموش ہے امام:۔ کیا تم یہ بات مانتے ہو کہ مفرد دَوا کا کچھ اور مرکب دَوا کا کچھ اَثر اور ہو جاتا ہے۔ طبیب:۔بے شک ایسا ہی ہے اِمام:۔ پھر اس مفروضہ حکیم کو کِسطرح معلوم کہ کسی مفرد دَوا میں کونسی دوائیں اور کس مقدار کو ملانے سے اسکا اَثر دوسرا ہو جاتا ہے۔ تم خود طبیب ہو دیکھو اگر دَوا کی مقدار اور ترکیب میں ذرا سا فرق ہو جائے تو اسکی خاصیت بدل جاتی ہے اور یہی دَوا جو ایک مریض کو تندرست کرتی ہے دوسرے مریض کو ہلاک کر دیتی ہے۔ پس یہ تمام باتیں حَواسِ خمسہ کے ذریعہ کیسے معلوم ہو سکتی ہیں۔ اور یہ بھی بتلاو کہ جو دَوا اَمراضِ سر کے لئے کھائی جاتی ہے وو پیروں پر اَثر کیوں نہیں کرتی۔ اور جو اَمراضِ پا کیلئے دی جاتی ہے وہ سر میں اثرانداز کیوں نہیں ہوتی یہ تمام دَوائیں مِعدہ میں جاتی ہیں۔معدہ کو کس نے بتلایا کہ اس دَوا کو سَر کیطرف روانہ کرے اور اُس دَوا کو پیر کی طرف طبیب:۔خاموش ہے امام:۔ نے جب اسکو عاجز پایا تو اپنا رُخ اصل موضوع تَوحید کی طرف موڑا، اور وَجود باری کو اس طبیب کو ماننا پڑا۔ مذکورہ بالا گفتگو سے یہ بھی بتلانا مقصود تھا کہ امام جسطرح رُوح کا امام ہے اسی طرح بدن کا بھی ہے۔ وہ برگزیدہ خدا ہونے کی وجہ سے دُنیا کی ہر چیز کی خاصیت اور حقیقت سے بخوبی واقف ہوتاہے کیونکہ خدا نے اِس (امام ) کو عِلم و حکمت سے آراستہ کیا ہے

ذکر بعض معالجاتِ امام

دردِ سر:۔ ایک خراسانی، امام کی خدمت میں بیٹھا دینی مسائل دریافت کررہا تھا کہ سر میں شدت کا درد ہوا۔امام نے فرمایا اُٹھو اور حمام میں جا کر سات( ۷) چُلو گرم پانی سر پر ڈالو، اور ہر مرتبہ قبل پانی ڈالنے کے ایک باربسم الله الرحمٰن الرحیم کہو۔ شخصِ مذکور نے اس پر عمل کیا اور فوراً دردِ سر جاتا رہا کہ پھر نہ ہوا۔ انسان کیونکہ تمام ترقیاتِ عِلمی سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے اشیاء کے اصلی سبب نہیں معلوم کر سکاہے تو اکثر کسی کا جو سبب ہوتا ہے اُسے انکار اور جو سبب نہیں ہوتا اُس کا اِقرار کر لیتا ہے۔ اُس مردِ خُراسانی کے دردِ سر کا علاج آبِ گرم اوربسم الله الرحمٰن الرحیم سے کرنا عوام چونکہ عادی نہیں ہیں قبول نہیں کرتے۔۔ پہلے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جُملہ امراض کے اسباب دو قسم سے باہر نہیں ہیں۔ ( ۱) جسمانی ( ۲) رُوحانی۔ جو جسم سے تعلق رکھتے ہیں انکا جسمانی علاج ہوگا۔ بعض رُوحانی انکا علاج روحانی ہوگا۔ بعض جسمانی اور انکا علاج روحانی ہوگا۔ بعض رُوحانی اور انکا علاج جسمانی ہوگا۔ کبھی مریض صرف ایک مرض کی شکایت کرتا ہے۔ اور طبیب اس میں چند اَمراض کی تشخیص کرتا ہے۔ کبھی مریض چند امراض کی شکایت کرتا ہے اور طبیب صرف ایک مرض کی تشخیص کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ مریض رُوحانی بیماری میں مبتلا ہو اور صرف دردِ سر کی شکایت کر رہا ہو۔ امام نے اِس طرح اُس کی کَسالت دینی فرمائی ہو۔ علاوہ ازیں اِمام کا اِرشاد اور اس پر مریض کے مُحکم یقین نے شفا بخشی ہو ۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایک بیماری کے متعدد اَسباب ہو سکتے ہیں۔ مثلاً دردِ سر، معدہ کی خرابی یا بدہضمی۔ معدہ کے بخارات۔ گرمی، سردی، زُکام۔ ضُعفِ اعصاب۔ دماغی تکان۔ ناگوار آواز۔ تیز خوشبو یا بَدبو وغیرہ ۔ لہذا جب ایک شکایت کے وجوہ ہو سکتے ہیں تو اگر کسی آبِ گرم اور بسم اللہ سے فائدہ بِالفرض نہ ہو تو اسکی وجہ عدم تشخیص مَرض ہو گی۔ زہریلے بُخارات (گیس):۔ جابر صوفی کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق اے کہا، یابن رسول اللہ! میں سر سے پیر تک باد یعنی بُخارات میں مبتلا ہوں آپنے فرمایا۔ عنیر اور زنبق پیس کر کھاو خداوند عالم شفا دے گا۔ باری کا بُخار(ملیریا):۔ اِبراہیم جعفی کہتے ہیں کہ میں امام کی خدمت میں گیا، دیکھ کر آپنے فرمایا، رنگ متغیر کیوں ہے؟ جعفی نے کہا تپ دنوبہ سے۔ امام نے فرمایا، مفید شربت کیوں نہیں اِستعمال کرتے۔ شکر کو کوٹ کر پانی میں ملا کر پانی میں حل کر لو اور نہار منہ اور وقتِ تشنگی اِستعمال کرو۔ میں نے ایسا ہی کیا اور بہتر ہو گیا۔ اسہال و شکم درد: ایک شخص نے امام سے اپنی لڑکی کے متعلق ”دستوں“ کی شکایت کی، آپ نے چاول اور گوشت پکانے کا طریقہ بتایا۔ لڑکی صحت یاب ہو گئی۔ خالد بن بہیج کہتا ہے کہ میں نے امام کی خدمت میں دردِ شکم کی شکایت کی، آپ نے فرمایا، قدرے چاول کوٹ کر برغذا کے ساتھ تھوڑے سے کھا لو۔ اس نے ایسا ہی کیا اور پیٹ کے درد سے نجات پائی۔ کسی نے آپ سے کہا کہ بَسا اوقات میرے پیٹ میں ایک آواز پیدا ہو کر درد ہونے لگتا ہے۔ امام نے فرمایا اِس درد کے دَفیعہ کے لئے سیاہ دانہ اور عسل یعنی شہد بتلایا۔ جس سے اُسے آرام ہو گیا۔ ضُعفِ بدن:۔ کسی نے امام سے ضُعفِ بدن کی شکایت کی کہ میں روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہوں آپ نے فرمایا ،دودھ پیا کرو کہ گوشت کو پید ا کرتا ہے اور ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے۔ کمزوری دور کرتا ہے۔ ایک شخص نے کہا کہ میں نے دودھ پیا تھا مگر کمزوری بڑھ گئی۔ آپ نے فرمایا، دودھ کی وجہ سے نہیں، بلکہ اُس چیز کی وجہ سے جو تو دودھ کے ساتھ کھاتا ہے۔ برص:۔ آپ سے کسی نے ”برص“ کی شکایت کی، آپ نے فرمایا، حِناّ(مہندی) نورہ(چونا اور ہرتال مرکب) ملا کر داغ پر لگاو۔ داغ جاتا رہے گا۔ ضُعفِ چشم:۔کسی نے امام سے ضُعفِ چشم کی شکایت کی، آپ نے فرمایا۔ انگوم۔ صِبر یعنی ایک نہایت تلخ دَوا۔ کافور سب کو ہموزن کر کے سُرمہ بناکر آنکھوں میں لگاو۔ فوراً فائدہ ہوگا۔ ایک شخص کی آنکھ میں سفیدی پیدا ہوگئی تھی۔ آپ نے اُسکو یہ نسخہ تجویز فرمایا۔ فلفلِ سفید۔ دارفلفل ہر ایک ۲ ۔ ۲ دِرم۔ نَوشادر صاف کردہ یَک دِرم کو خوب باریک سُرمہ بناو۔ اور اس کی سوزش کیا تحمل کر سکو تو ہر روز تین مرتبہ سلائی سے لگاو۔ اِنشاء اللہ سفیدی جاتی رہے گی۔ ہر مرتبہ آنکھ کو آبِ صافی سے پاک کیا جائے اور بعد میں معمولی سُرمہ لگایا جائے۔ زُکام:۔ کسی نے آپ سے زکام کی شکایت کی، آپ نے فرمایا یہ لطفِ خدا ہے اگر تو دوا چاہتا ہے تو چھ درم، سیاہ دانہ۔ نیم دانگ۔ کندس کو خوب کوٹ کر ۔ سانس کے ذریعہ ناک میں پہونچاو اِس سے زکام جاتا رہتا ہے مگر علاج نہ کیا جائے تو بہتر ہے اسلئے کہ زکام کے بیشمار فوائد ہیں۔ شِدت بول(پیشاب بکثرت آنا):۔ ایک شخص نے آپ سے شدت بول کی شکایت کی، آپ نے آخر شب میں سیاہ دانہ کھانے کو فرمایا۔ چند ہی روز کھانے سے آرام ہو گیا۔ قِلتِ نسل:۔ عمر ابنِ حسنہ جمال نے اولاد نہ ہونے کی شکایت کی، آپ نے فرمایا، اِستغفار کر اور تخم مُرغ اور پیاز اِستعمال کر، جب تک اولاد نہ ہو۔ ضُعفِ باہ:۔ کسی نے ضُعفِ باہ کی شکایت کی، آپ نے سفید پیاز کو رُوغن زیتون میں تل کر بیضہء مُرغ ڈال کر خوب پکائیں اور کھانے میں اِستعمال کریں، قوتِ باہ کے لئے نہایت مفید ہو گا۔

خواص بعض اَز سبزیہا

آجکل اَطباء تجربہ کار اَپنے مریضوں کو اُن کے مزاج کے موافق سبزیاں تجویز کرتے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ وہ اطباء خواص سے سبزیوں کے واقف ہیں اسلئے چند سبزیوں کے خواص ارشاد کردہ امام جعفر صادق درج ذیل ہیں تاکہ واضح ہو سکے کہ دانشمندانِ اسلام و قرآن ان خواص سے ناواقف نہ تھے۔ پیاز:۔ امام کا ارشاد ہے کہ پیاز کھاو ، یہ منہ کو پاک کرتی ہے، مسوڑھوں کو مضبوط۔ آبِ کمر (منی) کو زیادہ ، طاقت مجامعت کو بڑھاتی ہے۔ پیاز مُنہ کو خوشبودار۔ کمر کو محکم۔ چہرہ کو حُسن بخشتی ہے۔ یہ درد اور مرض کو دفع کرتی ہے۔ پٹھوں کو مضبوط، طاقتِ رفتار کو زیادہ اور بخار کو دور کرتی ہے۔ پیاز زنبور یعنی بِھڑ بہ الفاظ دیگر۔”مچھر اور مکھی کے کاٹ لینے پر، لگانے پر بہت مفید ہے۔ پیاز اگر سِرکے میں تر کرکے ناک میں ڈالیں تو نکسیر رُک جاتی ہے۔ پیاز کی زمانہء حاضرہ کے اطباء نے بھی بے انتہاء تعریف کی ہے۔ اور اب تو پیاز تقریباً جُزوغذا بَن گئی ہے۔ امام نے اِس کے فوائد بارہ سو سال قبل بیان فرمائے ہیں۔ سِیر(لہسن):۔ اِرشادِ امام ہے کہ لہسن کھاو مگر فوراً مسجد میں نہ جاو(حدیث رسول) لہسن کھا کر مسجد کی طرف شاید جانے سے شاید اس غرض سے منع فرمایا گیا ہے کہ اِس کی بو، مسلمانوں کیلئے آزار کا باعث نہ ہو۔ لہسن ستر بیماریوں کو دوا ہے۔ دورِ حاضرہ کے اطباء اِسکی بڑی تعریف کی ہے۔ بلڈ پریشر کا دافع ہے ۔ قلب کیلئے بیحد مفید ہے۔ بادنجان(بینگن):۔بینگن کھاو، درد میں مفید ہے۔خود درد کا سبب نہیں بنتا۔ تِلی کے مرض میں سود مند ہے۔ معدہ کو قوت دیتا ہے۔ رگوں کو نرم کرتا ہے۔ سِرکہ میں ملا کرکھانے سے پیشاب زیادہ آتا ہے۔ ترب(مولی):۔اِرشاد امام۔ مولی کھاو بہت مفید ہے۔ اِسکے پتے، بادی کو دور کرتے ہیں۔ غذا کو ہضم کرتی ہے ۔ اسکے ریشے بلغم کو دور کرتے ہیں۔ مولی پیشاب آور ہے۔ کدو:۔ کدو ، عقل و دماغ کو بڑھاتا ہے اور دردِ قولنج کے واسطے مفید ہے۔ یرقان کو بھی فائدہ دیتا ہے۔ کاسنی:۔ کاسنی بڑی مفید سبزی ہے۔ آبِ کمر(منی) کو زیادہ اور نسل میں افزائش کرتی ہے۔ مولود کو خوبصورت بناتی ہے۔ مختلف امراض میں سود مند ہے۔ دردِ قولنج کو دور کرتی ہے۔ یرقان کو بھی ختم کرتی ہے۔

خواص بعض میوہ جات

از نظر امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد امام عالی مقام ہے کہ ہر میوہ پر زہریلا مادہ ہوتاہے۔ لہذا اُسکو کھانے سے پہلے خوب پانی سے دھو لینا چاہئے سیب:۔ ۱ ۔ سیب کھاو یہ حرارت کو دور، شکم کو سرد اور بخار کوبرطرف کرتا ہے۔ ۲ ۔ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ سیب میں کیا خصوصیات اور خوبیاں ہیں تو بیمار سوائے سیب کے کسی دوا کو نہ کھائیں ۳ ۔ صرف سیب ہی وہ چیز ہے جو سب سے زیادہ اپنا اثر دل پر کرتا ہے اور اسکو تقویت پہونچاتا اور خوش رکھتا ہے۔ ۴ ۔جو بخار میں مبتلا ہو اُسکو سیب کھلاو کہ سیب سے بہتر اور کوئی چیز نہیں ہے۔ گُلابی امرود:۔ امرود گلابی بہت مفید ہے۔ چہرہ کو حسین اور دلکو سکون بخشتا ہے۔ ۱ ۔ جو شخص امرود سے ناشتہ کرے،آبِ کمر (منی) کو صاف اور اولاد خوبصورت پیدا ہو۔ ۲ ۔ امرود مقوی قلب اور صافئیِ دل ہے۔ ۳ ۔ امرود، جسم کو خوبصورت ، مفرح دل و دماغ اور تمام اندرونی اعضاء کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ انار:۔ ارشاد امام ہے کہ اپنے اطفال کو انار کھلاو تاکہ جلد جوان ہو جائیں۔ ۱ ۔ انار کو معہ اسکے چربی (ہلکی جھلی جو دانوں کے اوپر ہوتی ہے) کے کھاو کہ معدہ کو صاف اور زہن کو بڑھاتاہے۔ ۲ ۔ انار خون کو بھی صاف کرتاہے۔ بدن کی رگوں کو تقویت دیتا ہے، تناسل و توالد میں مدد گار ہے۔ مُلَین اور ہاضم ہے۔ پیشاب آور بھی ہے، جگر کیلئے بہت مفید ہے۔ ۳ ۔ انار ، مرضِ یرقان، طحال، خفقانِ قلب اور کھانسی کے لئے بھی فائدہ مند ہے۔ آواز کو صاف، چہرے کو شگفتہ۔ جسم کو صاف کرتا، اور پیٹ کے کیڑوں کو مارتاہے۔ انجیر:۔ انجیر بوئے دہن کو برطرف کرتا ہے۔ معدہ اور جگر کے بُخارات کو زائل کرتا ہے۔ ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے۔ بالوں کو اُگاتا ہے۔ درد کو دور کرتا ہے۔ انجیر ہاضمہ کو درست کرتا ہے۔نشوونما میں مدد کرتا ہے۔ جسم کو طاقتور، اور چہرہ کو شگفتہ بناتا ہے اگر شام کے وقت کھایا جائے تو تحریک معدہ کو منظم کرتا اور جسم کو تازگی بخشتا ہے ۔ انجیر ذائقہ کے لحاظ سے لذیذ اور اچھی غذاہے۔بدن کے لئے صحت اور جسم کے واسطے باعثِ اِستنباط ہے۔ جگر اور تصفیئہ خون کو مفید ہے ۔ سِل اور سرطان میں نفع بخش ہے۔ انجیر دردِ سینہ اور کھانسی مین سودمند ہے۔ لیکن چشم اور معدہ کیلئے زیادہ اِستعمال نقصان دہ ہے۔ خُرما:۔ کسی نے حضرت امام جعفر صادق کے سامنے خرمونکا ایک طبق رکھا اور کہا، یہ بڑے عمدہ خُرمے ہیں، آپ نے فرمایا، بے شک بہت سے امراض کی دوا ہیں۔ خرما، سمیات کو ختم کرتا ہے۔ اور بہت سی بیماریوں کو دور کرتا ہے۔ اگر کوئی سوتے وقت سات دانے خُرمے کے کھا لیا کرے تو معدہ کے کیڑوں سے نجات پا جائے۔ خُرما بدن کو گرم اور فعال بناتا ہے۔ خون غلیظ پیدا کرتا ہے۔ اگر اس کو دودھ میں پکا لیں تو قوتِ باہ کیلئے بہت مفید ہے۔ آنتوں، خشک کھانسی اور اَدرَا بول کوبھی فائدہ بخش ہے۔ خُرما ءِ تُرش و خام۔ برائے جریان، خون، اسہال اور مسوڑھوں کو بھی نفع پہنچاتا ہے۔ سرطان کو آرام دیتا ہے۔ انگور:۔ انگور پٹھوں کو مضبوط کرتا ہے، درد کو دور کرتار اور روح کو فرحت بخشتا ہے۔ نوح علیہ السلام نے خدا سے غم و اندوہ کی شکایت کی۔ حُکم ہوا انگور کھاو۔ انگور مُلیّن، مصفی خون۔ مقوی غذا ہے۔ آبِ انگور قُوٰی کو تازگی۔ دورانِ خون کو تحریک اور معدہ کی تکالیف دور کرتا ہے۔ جگر مختلف بُخار۔ بدہضمی۔ امراضِ قلب۔ صفراء۔ بواسیرسیل، اور سرطان کیلئے مفید ہے۔ انگور بہترین چیز ہے جس سے مختلف بیماریوں کا مختلف طریقہ سے علاج کیا جاسکتا ہے۔ ہم انھیں چند چیزوں پر اکتفا کرتے ہوئے ختم کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہ چند چیزیں ہی امام کے طبِ جسمانی کی معلومات پر ایک کامل نمونہ اور ثبوت ہیں۔ اگر تفصیل سے بیان کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے۔ مقصد یہ ہے کہ مُنصف مزاج طبیب جب اِرشادات امام عالیمقام کا مطالعہ کرے تو وہ اس نتیجہ پر پہونچ جائے۔ کہ علم ادیان کا عالم۔ عالمِ علمِ ابدان بھی ہوتا ہے۔

بُنیادِ طب

حضرت امام جعفر صادق کے بعض اِرشادات جو عِلم طِب کی بنیاد کہے جا سکتے ہیں طبیب صرف بیمار کے دلکو خوش کرتا ہے موسٰی بن عمران نے بارگاہِ اَحدیت میں عرض کیا، پروردگار!،درد کون دیتا ہے، وحی آئی کہ ہم دیتے ہیں۔ پھر عرض کیا، پروردگار! دَوا یا شفا کون دیتا ہے۔ وحی ہوئی کہ شفا بھی ہم دیتے ہیں۔ حضرت موسٰی نے پھر بیمار طبیب کے پاس کیوں جاتے ہیں۔ جواب ملا، طبیب سے اپنا دِل خوش کرتے ہیں۔ اور معالج کو اِسی وجہ سے طبیب کہتے ہیں۔ اِسلام میں اور نظرِ انبیاء میں موثر حقیقی خدائے تعالٰی ہے۔ جناب اِبراہیم نے اپنی قوم سے فرمایا، میرا خدا وہ ہے کہ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ مجھ کو شفا بخشتاہے۔( وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْقِ ) (الشعر، آیت نمبر ۸۰) مسلمان اگر بیمار ہوتا ہے اور اَطباء اس کو جواب دے دیتے ہیں تیماردار کوشش ختم کر دیتے ہیں۔ دوا کوئی اَثر نہیں کرتی۔ پھر مسلمان مریض مایوس نہیں ہوتا۔ کیونکہ اسکا ایمان ہے کہ شفا کا دینے والا خدا ہے۔ برعکس اس کے جو خدا کا اِعتقاد نہیں رکھتا، جب طبیب اس کو جواب دے دیتے ہیں اگرچہ مَرض مہلک نہ ہو اور موت کا وقت بھی نہ آیا ہو پھر بھی کم از کم اِس فکرو غم میں مَدقوق(دِق زَدہ) تو ہو ہی جاتا ہے۔

چند آئین طب

اِرشاد امام صادق ہے کہ جبتک جسم بیماری کو برداشت کر سکے دوا کے اِستعمال سے پرہیز کرو۔ اِرشاد امیرالمومنین علی ابن ابیطالب ہے کہ دوا تمہارے معدہ کے ساتھ وہ کرتی ہے جو تُرشی زنگ زدہ پیتل کے ساتھ زنگ کو بھی گِھس دیتی ہے۔ یعنی دوا معدہ کو بھی گِھس دیتی ہے۔ اِرشاد امام موسٰی بن جعفر علیہ السلام ہے کہ کوئی ایسی دوا نہیں جو کسی دوسری بیماری کو جسم میں نہ پیدا کرتی ہو۔ لہذا بہتر یہ ہے کہ جب تک شدید ضرورت نہ ہو دوا اِستعمال نہ کی جائے اِرشادِ امام علی رضا علیہ السلام ہے کہ جب تک ممکن ہو طبیب سے رجوع نہ کرو کیونکہ معالجہ تن کی مثال، تعمیر مکان کی سی ہے، جہاں اسکو چھیڑا اور طول پکڑ گیا۔ امام جعفر صادق نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو معمولی شکایت پر طبیب سے رجوع کرتے ہیں اگر اس دوا سے وہ مر جائیں تو صحیح پَیروانِ مذہب میں اُنکا شمار نہیں ہوتا۔ حِفظِ سلامتی بَدن اِرشاد امام صادق ہے کہ جس کی صحت بیماری سے نمایاں تر ہو پھر بھی اَپنا وہ کسی دوا سے علاج کرے اور مر جائے۔ میں اس سے بیزار ہوں۔ گویا ایسے شخص نے اپنی ہلاکت میں آپ مدد کی ہے۔ زیادہ پانی پینے کے نقصان ۱ ۔ اِرشاد امام۔۔۔ کہ پانی کم پیئو، زیادہ پانی ہر مرض کو قوت پہونچاتا ہے۔ ۲ ۔ سِن رسیدہ، ضعیف، بوڑھوں کو ضروری ہے کہ سونے سے پہلے کچھ ضرور کھا لیا کریں، اِس سے خواب گوارہ اور تنفس خوشگوار ہو جاتا ہے۔ آدابِ غذا خوردن ۱ ۔ بے اشتہائے اور بے خواہش کوئی چیز کھانا حماقت اور نادانی ہے اور جب تک اِشتہائے کامل نہ ہو غذانہ کھاو۔ ۲ ۔ ہر مرض مِعدہ اور بدہضمی سے پیدا ہوتا ہے۔ مگر بُخار کبھی کبھی خود بخود عارض ہو جاتا ہے۔ ۳ ۔ جب غذا کھاو تو حلال کو منتخب کرو، اور خُدا کے نام سے شروع کرو۔ خدا کے برگزیدہ رسول نے فرمایا، کسی ظرف کا بھرنا اِس قدر بُرا نہیں ، جسقدر ظَرف شکم کا۔ لہذا کھاتے وقت ایک ثلث(تِہائی) غذا کے واسطے۔ ایک ثلث(تہائی) پانی کیلئے۔ اور ایک ثلث(تہائی) خالی سانس کے واسطے رکھو۔ راہِ رَفتن بیمار بیمار کو راہ چلنا اکثر کمزور کر دیتا ہے اکثر زہریلی ہوائیں ۔ غلبہء صَفرا، یا سَودا یا بلغم سے ہوتی ہے۔ لہذا اِنسان کو ان طبائع کے غلبہ سے پہلے محتاط رہنا چاہئے۔ اور راحت میں نہایت سکون ہے۔۔۔۔!! دَرباہ خواب و اٰسائش ۱ ۔ ارشاد امام۔۔۔خواب باعثِ آسائشِ بدن ہے۔ گفتگو سببِ آسائشِ روح ہے، اور خاموشی وجہ آسائشِ خِرد ہے۔ ۲ ۔ جس میں اِصلاح بدن ہو وہ داخل اَسراف نہیں ۔ اَسراف کھانے پینے کی چیزوں میں حد سے تجاوز کرنے میں ہے۔ چار مفید باتیں:۔ معالجہ کی چار قسمیں ہیں۔فصد، روغنِ مالی۔قے کرنا۔ حُقنہ یعنی انیما۔ اٰدابِ حمام خالی معدہ حمام میں مت جاو۔ اور شکم سیر ہوکر بھی حمام میں نہ جاو۔ میانہ روی خوراک اگر لوگ خوراک میں میانہ روی اِختیار کریں تو کبھی بیمار نہ ہوں۔ پاکیزگی دست ہا:۔ اپنے ہاتھوں کو کھانے سے پہلے اور بعد میں دھونا چاہئے۔ اِس سے تنگدستی برطرف اور عمر دراز ہوتی ہے۔ اور ہاتھوں کا نہ دھونا بیماری کا سبب ہے۔ بیماری ضعف بدن کا باعث ہے۔ ضعفِ بدن کوتاہیِ عمر اور عدم حصول دولت کا باعث ہے۔ نزدیکیِ بازنان:۔ موسمِ سرما ہو یا موسمِ گرما، اول شب جبکہ شِکم سیر ہو عورت(زوجہ) کے پاس نہ جاو اس سے مختلف درد اور دیگر امراض پیدا ہوتے ہیں۔

طبابتِ روحی

جسطرح جسمِ انسانی بیمار ہوتا ہے اور محتاجِ علاج ہے اسیطرح روح بھی مائل بہ زوال ہو کر بیمار ہوتی ہے وہ بھی محتاجِ علاج ہے۔ تا کہ اس کو اَفعال رذیلہ اور خواہشاتِ حیوانی سے جو انسان کے لئے مہلک اَمراض ہیں، نکال کر اَوصافِ حمیدہ اور اخلاق فاضلہ کی جانب مائل کرکے اصلاح کی جائے۔ یہ مانا کہ دانشورانِ عالم نے بھی کچھ آئین اور ضوابط اصلاحِ نفوس اور آدابِ اخلاق کے مرتب ضرور کئے ہیں۔ لیکن باوجود کوشش کامیابی کی منزل سے دو چار نہیں ہو سکے کیونکہ یہ کام صرف دینی رہبر و رہنما ہی کا ہے۔ کہ وہ آدمی کو بداخلاق و جہالت کی پستیوں سے نکال کر فضیلت کی منزل تک پہنچائیں۔ ظاہر ہے کہ حقیقتِ روح اور جسم کو اس سے بہتر اور کون جان سکتا ہے جس نے روح اور جسم کو پیدا کیاہے۔ لہذا اس نے جسکو روح اور جسم کا طبیب بناکر اصلاحِ عالم کیلئے اپنی طرف سے بھیجا، وہی سب سے کامل اور حاذق طبیب ہے۔انہی ہستیوں نے صحتِ نفوس بشری کو فضائلِ حمیدہ کی دعوت دی، چنانچہ آخری رسول اپنی تمام ذمہ داریوں کے ساتھ صرف اسی کام کے لئے مبعوث ہوا، قرآن نے پکار کر کہا، یایھالذین امنوااستجیبواللہ وللرسول اذادعاکم لما یحییکم(سورہ الانفال آیت نمبر ۲۴) ترجمہ:۔ خدا اور اُس کے رسول کو جواب دو جب وہ حیات کی طرف بلائیں۔( ۲)( یاایهاالناس قد جآءَ تْکُم مَّوْعِظة مِّنْ ربکم و شفآء لما فی الصدور ) (سورہ یونس آیت نمبر ۷۵) ترجمہ:۔ یقینا تمہارے خدا کی طرف سے نصیحت اور شفاء آئی اِسکے لئے جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے۔ ( ۳)( ونُنزل من الْقرآنِ ما هو شفاءٌ و رحمةٌ للمومنین ولا یزید الظلمین الا خسارا ) (سورہ الاسراء آیت نمبر ۸۲) ترجمہ:۔ہم نے قرآن میں وہ چیزیں جو رحمت اور شفا ئیں نازل کیں مومنین کے واسطے اور نہ پائیں گے ظالمین مگر خسارہ۔ پیغمبر اسلام:۔ رسول خدا نے فرمایا، نہیں مبعوث ہوا میں مگر صرف اسلئے کہ مکارم اخلاق کو پایہء تکمیل تک پہونچاوں اور فضائلِ علم و حکمت سے انسانیت کے تاریک سینوں کو منور کروں۔ چنانچہ آپ اپنی پوری زندگی تبلیغِ دین اور سلامتی روح و جسم میں مشغول رہے یہاں تک کہ عالمِ فانی سے عالمِ باقی کی طرف رحلت فرمائی اور صرف اِسلئے کہ دُنیائے اِنسانیت بے سرپرست اور بغیر مُصلح نہ رہ جائے۔ دو گراں قدر چیزیں (قرآن اور عِترت) اَپنے بعد گم گشتہ راہ کیلئے چھوڑیں۔ ایک قرآن صامت اور دوسری قرآنِ ناطق(عِترت) تاکہ تعلیمِ قرآن سے اگر کوئی (انحراف کرے تو اُسکو راہِ مستقیم دکھائیں۔ امام جعفرصادق:۔ آپ کا زمانہ اِنتہائی بدامنی و بدنظمی اور اِختلافات کا دور تھا، دُنیا طرح طرح کے عقائد میں مبتلا تھی۔ ایسے ہولناک ہنگامے میں جہاں آواز بے سُود ہو کسی مصلح اور مبلغ کی طرف توجہ نہ دی جائے۔ امام عالی مقام نے اپنے فرض امامت کو اس طرح انجام دیا۔ جیسے ایک طبیب حاذق بہ حکم خداوندی بیمار اِنسانیت کے جسم و جان کی سلامتی کے لئے انتھک کوشش فرماتا ہے۔

نمونہ طِبِّ روحی امام جعفر صادق

ہم نہایت اختصار سے یہاں چند نمونہ امام عالیمقام کے طبِ روحانی پیش کررہے ہیں۔ تاکہ قارئین و ناظرین امام کے سخنہائے روح پرور اور شفا بخش سے بھی مستفید ہو سکیں۔ تفصیل کی اس کتاب میں گنجائش نہیں ہے۔ غضب:۔ غضب ایک وہ حالت ہے جو متوقع اور غیرمتوقع حالات کے پیش آنے پر بر انگیختہ ہوتی ہے۔ اور جب و ہ طبیعت پر مسلط ہوجاتی ہے تو انسان کی عقل زائل کر دیتی ہے۔ انسان راہِ صواب سے منحرف ہو کر ہر بے ضابطگی کا مُرتکب ہو جاتا ہے۔ غصہ کے وقت خون جوش مارتا ہے اور تیزی سے قلب کی طرف مائل ہوتا ہے اور وہاں سے رگوں میں منتقل ہو کر جسم پر ظاہر ہونے کی کوشش کرتا ہے۔چہرہ سُرخ اور گردن کی رگیں اُبھر جاتی ہیں ۔ سینے میں پانی کیطرح جوش زَن ہوتا ہے۔ چہرہ کو بگاڑ دیتاہے۔ اِنسان اپنے ہونٹ دانتوں کے نِیچے دبا لیتا ہے۔ اور جسم کے تمام اعضاء متاثر ہوتے ہیں۔ غضب، ۔ عقل کا سب سے بڑا اور سخت دشمن ہے۔ غضب،۔کے اہم ترین اسباب دو ہیں ( ۱) وراثت ( ۲) بیماریاں خاندانی تربیت کے طریقے اور اساتذہ کی تعلیم کو بھی غضب کی آگ کو بھڑکانے میں بڑا دخل ہے۔ تکبر۔خودبینی۔مسرتِ بیجا۔کثرتِ مزاح۔مکروحرصِ زَر و مال و جاہ بھی وہ اَخلاقِ کثیفہ ہیں، جو غضب کو اَپنے ساتھ لاتے ہیں۔ اور خود غضب ، متعدد بیماریوں کی تولید کا سبب ہے۔ غضبناک آدمی میں پاگل کُتے کے خواص پیدا ہو جاتے ہیں اگر وہ حالتِ غضب میں کسی کو کاٹ لے تو اَثرات سَگِ گذیدہ کے جیسے ہوتے ہیں۔ غضب وہ روحانی خطرناک بیماری ہے جو اوّل صاحبِ غضب کو اور پھر دوسروں کو سخت نقصان پہونچاتی ہے۔ صاحبِ غضب نادانستہ جُرمہائے بزرگ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ دُنیا کے اَطباء اِس غضب کے مہلک مرض کے علاج سے عاجز رہے ہیں۔ لیکن خدا کا مقرر کردہ طبیب پیغمبرِ اسلام نے اسکا علاج یوں ارشاد فرمایا ہے۔ ” اگر کوئی شخص اپنے اندر آثارِ غضب دیکھے تو اگر وہ کھڑا ہے تو بیٹھ جائے۔ بیٹھا ہے تو لیٹ جائے۔ اگر پھر بھی اَثر رہے تو ٹھنڈے پانی سے وضو اور غُسل کر لے، کیونکہ پانی آگ کو بُجھا دیتا ہے“۔ ارشادِ امام ہے کہ ہر شَر اور بَلا کی کُنجی (چابی) غضب ہے اور اگر کوئی بُردبار نہیں، پھر بھی بُردباری اور تحمل کی کوشش کی جائے ۔غضب مردِ دانا کے دل کو ہلاک کر دیتا ہے۔ بُردباری اِسکا بہترین علاج ہے۔ دروغ(جھوٹ):۔ سب سے بڑی رکاوٹ فرائضِ انسانی کی ادائیگی میں دروغ ہے۔ یہ اِنفرادی اور اِجتماعی ہر دو لحاظ سے خطرناک ہے۔ دروغ، دروغگو کے اندر ہر اخلاق رذیلہ پیدا کردیتا ہے۔ ( ۱) معاملات میں آمیزش ( ۲) مکاری اور دھوکہ بازی ( ۳) خیانت اور ریاکاری ( ۴) وعدہ خلافی ( ۵) عہد شکنی، یہ سب دروغ کے آوُردہ ہیں۔ دروغ بذاتِ خود ایک قبیح صفت ہے۔ دروغ گو معاشرہ میں ایک عضوِ فاسد ہے جو خود کو بھی ہلاک کرتا ہے اور دوسروں کو بھی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ کوئی بیماری دروغ سے زیادہ تکلیف دہ نہیں ہے۔ جو زیادہ جھوٹ بولتا ہے اُس کی لوگوں کی نظر میں کوئی قیمت نہیں رہتی، عزت و آبرو برباد ہو جاتی ہے۔ اِس کے بِالمقابل جس کی زبان راست گو ہوتی ہے اُسکا عمل بھی پاکیزہ ہوتا ہے۔ خداوندعالم نے بارہ بلاوں پر تالا (قفل) لگا دیا ہے۔ جسکی کُنجی(چابی ) شراب ہے لیکن دروغگوئی، شراب خوری سے بھی بدتر ہے۔ دروغگو کی صحبت سے بچو یہ تمہیں جب فائدہ پہونچانا چاہے گا تو صرف نقصان ہی پہونچائے گا، فائدہ کا محض نام ہو گا۔ دروغگو غیروں کو تمہارے نزدیک اور نزدیکیوں کو غیر بنا دیتا ہے۔ رشک و حَسد:۔ رَشک ، دوسروں کی دولت دیکھ کر رنجیدہ اور اُنکی دولت کے زوال کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے۔ حاسد ، ہمیشہ دوسروں کی دولت بہ حسرت دیکھتا اور دیکھ کر خود بہ خود جلتا ہے۔ حَسد ، ایک وہ روحانی بیماری ہے جو بخل سے زیادہ شدید ہے۔ اِسلئے کہ بخیل اپنی دَولت دوسروں کو دینے میں بخل کرتا ہے۔ لیکن حاسد، دوسرے جب کسی اور دوسرے کو دیتے ہیں تو بھی ملول ہوتا ہے۔ اِرشادِ رسول:۔ خدا کی نعمتوں کے بھی بہت سے دشمن ہیں ۔ لوگوں نے عرض کیا وہ کون ہیں۔ فرمایا، جو حسد کرتے ہیں ان لوگوں پر جنکو خدا نے نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ یہ بیماری خباثت روح کی وجہ سے عارض ہوتی ہے، جب آدمی اِس بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اسکے اِخلاقِ فاسد ہر جُرم و گناہ کیلئے آمادہ ہو جاتا ہے۔ ارشاد اِمام ہے کہ حاسد ایک طرفة العین کے لئے بھی راحت نہیں دیکھتا۔ حاسد، عذابِ دائمی۔ ہمیشہ کی پریشانی ۔ حسرت و نااُمیدی لَغزش و گنہگاری میں مبتلا اور ہمیشہ ناخوش رہتا ہے۔ اگرچہ بہ ظاہر صحت مند نظر آتا ہے۔ حسد ایمان کو اسطرح کھا جاتا ہے جسطرح آگ اِیندھن کو۔ تَکبُّر یا بُزرگ نمآئی:۔ غرور ایک وہ بیماری ہے جسکی وجہ سے آدمی اپنے کو بزرگ اور دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔ تکبر ایک وہ جاں فرسا بیماری ہے جس سے روح کمزور تر ہو جاتی ہے۔ اِس بیماری کا مریض اَپنی ناسمجھی کیوجہ سے خود کو قابل و فاضل، اور دوسروں کو جاہل سمجھنے لگتاہے۔ اَپنے عیوب اور دوسروں کے کمالات پر نظر نہیں کرتا۔ اِس خطرناک بیماری کے اَثرات یہ ہیں کہ آدمی کو رذائلِ اخلاقی کے گہرے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔ کینہ و دشمنی، بَد خواہی و سرکشی۔ پندونصیحت سے اِنحراف، غرضکہ ہر اخلاقِ حمیدہ سے دور ہو جاتا ہے۔ اِمام فرماتے ہیں، تکبر وہ کرتا ہے جو اَپنے اندر ذِلت دیکھتا ہے۔ مُتکبر ہر وقت مدح و ثناء کا محتاج رہتا ہے۔ کوئی بے وقوفی اور جہالت تکبر سے زیادہ نقصان دہ نہیں ہے۔ عاجزی اور اِنکساری اِس کا علاج ہے۔ تین چیزیں دُشمنی پیدا کرتی ہیں۔ خود پسندی ۔ دُورُوئی اور سِتم۔ حِرص:۔ کسی چیز کے حاصل کرنے اور طلب میں اِنتہائی کوشش کرنا حرص ہے۔ جب عقلِ انسانی پر قوتِ حیوانی غالب آجاتی ہے تو یہ بیماری پیدا ہوتی ہے۔ حریص! گرفتارِ حرص کبھی فقیری سے رہائی اور نجات نہیں پاتا۔ جتنی حِرص زیادہ ہوتی جاتی ہے اتنا ہی زیادہ فقیر ہوتا جاتا ہے۔ اِسلئے کہ فقیری احتیاج کا نام ہے۔ اور حریص سے زیادہ کوئی صاحبِ اِحتیاج نہیں۔ حریص! خدا کی عطا کردہ روزی پر قناعت نہیں کرتا اور اُسکی تمام تر کوشش زیادہ مال و دولت میں صَرف ہوتی ہے لہذا یہ صحیح ہے کہ حریص ہمیشہ فقیر ہے۔ اِرشاد امام ہے کہ سب سے بڑا دولتمند اور غنی وہ ہے جس میں حرص نہ ہو۔۔۔۔ ۔ وہ شخص بے نیاز ہے جو خدا نے دیا ہے ۔ اُس پرقناعت کرتا ہے۔ حِرص، رنج و غم۔ مصائب و آلام کی کُنجی (چابی) ہے۔ حرص، ۔ اِنسان کو گناہ کی مشکلات میں پھنسا دیتی ہے۔ حریص! چار چیزوں سے ہمیشہ محروم رہتا ہے قناعت۔ رضابَر تقدیر۔ یقین۔ سکون۔ وعدہ خلافی:۔ وعدہ خلافی روح کو ضعیف، انسان کو ذلیل کر دیتی ہے۔ جِس مین یہ بیماری پیدا ہو جاتی ہے ، وہ سب کی نظر میں ساقِطُ الاعتبار ہو جاتا ہے۔ جو مُمالک اِس بُری خصلت سے مشہور و معروف ہو جاتے ہیں اُنکی تمام تر ترقی کی راہیں مسدود اور دیگر ممالک سے تعلقات و روابط منقطع ہو جاتے ہیں۔ باہمی تجارت درآمد بَرآمد کو سخت نقصان پہونچاتا ہے اور اِعتبار باہمی جو ایک قیمتی صفت ہر رائل ہو جاتا ہے۔ یہ بیماری اکثر ذلیل النفس اور کمینوں کو ہو جاتی ہے جسکی دَوا سوائے اَطباء روحانی کی پندونصائح کے کسی طبیب کے پاس نہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جو خدا و آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ وعدہ وفا ہوتا ہے۔ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں سے ایک بھی اگر کسی آدمی میں پائی جائے، سمجھ لو کہ وہ منافق ہے اگرچہ روزہ، نماز کا کیوں نہ پابند ہو۔ ۱ ۔ دروغگوئی ۲ ۔ وعدہ خلافی ۳ ۔ بددیانتی جنگ و جدال:۔بحث و مباحثہ۔ حجت و تکرار، مہلک ترین صفات میں سے ہیں۔ جب خواہش نفسانی غالب آجاتی ہے تو وہ دوسروں کے اَفعال و اقوال پر اعتراضات کیا کرتا ہے اور ہر ایک بات کو حقیر اور کمتر خیال کرتا ہے۔ یہ ایک وہ بڑی خطرناک بیماری ہے جسکا ادنٰی ترین ضرر یہ کہ دوستوں کو دشمن بنا دیتی ہے۔ ارشاد امام کہ مومن وہ ہے جو دشمنوں سے بھی تواضع و مدارات سے پیش آئے ۔ کسی سے مخالفت پیدا نہ کرے۔ تین چیزیں داخلِ جہالت ہیں۔ ۱ ۔ جدال ۲ ۔ تکبر ۳ ۔جہل سات آدمی وہ ہیں جو اپنے اعمال کو تباہ کرلیتے ہیں۔ اور ساتواں شخص وہ ہے جو اپنے برادرِ دینی سے جنگ کرکے اسکو اپنا دُشمن بنا لیتا ہے۔ جنگ و مُباحثہ اگر صرف خود نمائی کیلئے ہو تو بدترین صفت ہے مگر اَثباتِ حق کے واسطے صفتِ محمود ہے۔ اگر اَثباتِ حق کیلئے مخالفت سے بہ طریق اَحسن بحث و مباحثہ کیا جائے کہ باہم دُشمنی پیدا نہ ہو تو خود خدائے عظیم اَپنے رسول کریم سے قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔( وَ جَا دِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ) ۔(سورہ النحل آیت نمبر ۱۲۵) ترجمہ دشمن سے بہ طریق اَحسن مُجادلہ کرو۔ اَصل کتاب (طِب الصادق) میں مولف کتاب نے اپنی جانب سے بعض گیاہ، برگ و بار کے خواص اور طریق علاج کا اِضافہ کیا ہے۔ ہم بہ نظرِ اِختصار اِس تفصیل سے صرف نظر کر کے صرف طِبِ جسمانی اور طبِ روحانی ۔ فرمودہ امام عالیمقام علیہ السلام پر اِکتفا کر کے اس مقدس کتاب کو ختم کر رہے ہیں۔

اَلْحَمْدُلِلّٰهِ عَلٰی اِحْسَانِهِ الْعَظِیْمِ دُعا گو

:غلام عباس

Spacial Thanks To

غلام عباس

( IT ENGINEER) ALHASSAN GROUP OF COMPANIES P.O.BOX: ۱۹۴۸, POSTAL CODE: ۱۱۲ RUWI, MUSCAT, OMAN GSM: (۹۶۸) ۹۵۲۹۷۱۶۴ EMAIL: wsc۱۲۱۴@yahoo.com, aafak۵۱۲@gmail.com